بے بیٹ کی ضیافتت ( تیسری قسط ) Babette's Feast (3rd Episode) Isak Dinesen (1885 - 1962) Denmark


 

(بے بیٹ کی ضیافت )تیسری  قسط

Babette's Feast (3rd Episode)

Isak Dinesen

 (1885 - 1962) 

 Denmark

مترجم : غلام محی الدین



 

دوستو!         

سچائی اور رحم آج دونوں اکٹھے ملے ہیں۔بخشش اور حق نے ایک دوسرے کو سراہا اور چوما ہے۔وہ اس انداز میں بول رہا تھا جو وہ شاہی درباروں، بڑی بڑی محفلوں میں بولتا تھا۔جس انداز اور اعتماد سے وہ آج بول رہا تھا، ایسی قوت اس نے پہلے کبھی نہ پائی تھی۔وہ الفاظ کا انتخاب نہایت سوچ سمجھ کر، موقع محل کی مناسبت سے اور خاص مقصد کے لئے کر رہا تھا۔آج وہ سمجھ رہا تھا کہ اس کے تمام تمغے اور جرأت مندی اس محفل میں ہیچ تھے۔اس نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔آدمی کمزور اور احمق ہے۔ہم سب کو یہ بتایا گیا ہے کہ رحمت کائنات میں تلاش کی جائے لیکن ہم کو تاہ اندیش اور تنگ نظر لوگ ایسا سمجھ کر رحمت محدود کر دیتے ہیں اور اس لئے ہم خوف سے کانپتے رہتے ہیں۔آج سے پہلے جنرل نے کانپنے کا ذکر نہیں کیا تھا۔یہ پہلی بار تھی جو اس نے ایسا کہا تھا۔وہ حیران بھی تھا کہ اس کے منہ سے یہ لفظ کیوں نکلا ۔ہم اپنی زندگی کا مقصد اپنانے کے لئے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں اور جب ہم کوئی مقصد حاصل کر بھی لیں تو کانپتے ہیں کہ کیا ہم نے اپنا انتخاب غلط تو نہیں کر لیا؟ لیکن جب وہ لمحہ آتا ہے جس میں ہمیں اپنے ارد گردکا ادراک ہوتا ہے اور آنکھیں کھلتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی رحمتیں لا تعداد ہیں۔رحمت ہم سے کچھ نہیں مانگتی۔اس کو حاصل کرنے کے لیے اعتماد، اظہارِ تشکر اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ابر کرم کسی ایک خاص شخص کے لئے مخصوص نہیں بلکہ یہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے اور ہر ایک کو معافی دیتا ہے۔دیکھو!  جو کچھ ہم نے چنا تھا وہ ہمیں مل گیا ہے اور جو ہم نے نہیں چنا تھا وہ بھی ہمیں اسی طرح مل گیا ہے۔ خداکی رحمت سے ہم نے جو مستر د کر دیا تھا آج وہ بھی ہمارے پاس کثرت سے ہے کیونکہ رحم اور سچ مخلوط ہوگئے ہیں۔آج کی دعوت میں حق اور بخشش نے ایک دوسرے کو سراہا اور چوما ہے۔ 

لوگوں کو اس کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا لیکن وہ خموشی سے اسے سن رہے تھے۔           

نوےسالہ مس لیو  (Leo ) نے واپس جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔اس کے ساتھ جنرل لورنیز بھی جانے لگا۔جب فلی پا مسز لیو کو بگھی میں سوار کرانے کے لئے لے گئی تو جنرل نے مارٹینی کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ تم زندگی کے ہر لمحے میرے پاس رہی ہو۔یہ بات تم جانتی ہو۔تمہارے سرد رویے اور ٹھکرائے جانے کے باوجودتم ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہو۔ کیا تم نہیں جانتی کہ ایسا ہی رہا ہے؟ 

ہاں!میں جانتی ہوں کہ ایسا ہی رہا ہے،  مارٹینی بولی۔           

اور میں تمہارے ساتھ آخری سانس تک رہوں گا۔  میں ہمیشہ تمہارے ساتھ بیٹھوں گا،فانی جسم کے ساتھ بھی اور لافانی روح کے ساتھ بھی۔تمہارے ساتھ ڈنر کروں گا بالکل اسی طرح جیسا کہ آج کیا ہے۔آج میں نے سیکھا ہے کہ ہر چیز ممکن ہے۔

اس دنیا میں ہر چیز ممکن ہے،  مارٹینی بولی۔

یہ کہہ کر وہ جدا ہوگئے۔           

برفباری اب بند ہو چکی تھی۔چاروں طرف برف کی چادر بچھی ہوئی تھی۔نیلے آسمان پر ستارے چمک رہے تھے۔گلیوں میں برف اتنی زیادہ تھی کہ اس پر چلنا مشکل ہوگیا تھا ڈین کے گھر کے تمام مہمانوں کے ہاتھ، پاؤں، چہرے اور سارا جسم برف سے ڈھک گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے تمام گناہ دھل گئے تھے اور وہ سفید بھیڑوں کی طرح چل رہے تھے۔ہر طرف سے اللہ تم پر رحم کرے۔ اللہ تم پر رحم کرے کی آوازیں آرہی تھی۔ مارٹینی اور فلی پا اپنے دروازے کی دہلیز پر کھڑی مہمانوں کو الوداع کر رہی تھیں۔           

مہمانوں کو الوداع کرنے کے بعد انہیں بے بیٹ یاد آئی جس نے اتنے اہتمام سے کھانا بنایا اور پیش کیا تھا۔ وہ اسکی مشکور تھیں اور اس کے پاس باورچی خانے چلی آئیں۔اُن کے چہروں پر تشکر کے احساسات تھے۔مہمانوں میں سے کسی نے بھی کھانے کی تعریف نہیں کی تھی لیکن کھانا نہایت عمدہ تھا اور اُن ڈشوں کے نام ان کو ابھی بھی نہیں آتے تھے۔مارٹینی اور فلی پا نے بے بیٹ کے کھانے کے سامان میں  کچھوا دیکھا تھا لیکن کھانے میں تو کہیں بھی نظر نہیں آیا تھا۔شاید ان کو غلط فہمی ہوگئی تھی البتہ  ایک ڈش میں گوشت کا احساس ہوا تھا لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا تھا۔           

بے بیٹ کے کپڑوں پر جابجا چکناہٹ کے داغ تھے۔وہ ڈھیر سارے برتنوں کے درمیان بیٹھ کر انہیں دھو رہی تھی۔ ایک ساتھ اتنے زیادہ برتن انہوں نے کبھی بھی نہیں دیکھے تھے۔ وہ بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ وہ جوں ہی باورچی خانے میں داخل ہوئیں تووہ بیہوش ہوگئی۔جب وہ ہوش میں آئی تو اس نے کہا کہ بہت عرصہ پہلے اس نے یہ کھانا شاہی کیفے  (Cafe Anglais)  میں بنایا تھا۔

تمام لوگوں نے کہاکہ کھانا بہت عمدہ تھا، مارٹینی نے کہا۔

بے بیٹ کچھ نہ بولی۔ان کاتبصرہ سن کر چپ رہی۔

ہم اس کھانے کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جب تم واپس پیرس لوٹ جاؤ گی۔

میں پیرس واپس نہیں جا رہی، بے بیٹ بولی۔

 کیا تم پیرس واپس نہیں جا رہی؟  مارٹینی نے حیران ہو کر پوچھا۔

نہیں، میں پیرس میں کیا کروں گی؟میرے قریبی عزیز تو سب اللہ کو پیارے ہو گئے بے بیٹ بولی۔

اوہ میرے خدا! مارٹینی بولی۔

میرے تمام ساتھی چلے گئے۔ یہ دنیاچھوڑگئے۔ بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، نواب، جرنیل، کرنیل سب چلے گئے۔ سب کے سب ختم ہوگئے۔

مارٹینی اور فلی پا کو بادشاہوں، جرنیلوں اور اشرافیہ کے نام  بے بیٹ کے منہ سےاگرچہ عجیب لگے ۔ چونکہ بے بیٹ نے انہیں اپنے عزیز کہا تھا اس لئے وہ بھی انہیں اپنا عزیز سمجھنے لگی تھیں اور افسوس کرنے اور آہ وزاری کرنے لگیں۔

بہت دیر خاموشی کے بعد بے بیٹ بولی کہ وہ اب پیرس کیسے جا سکتی ہے؟اس کے پاس کوئی پیسہ بھی نہیں بچا۔

کوئی رقم نہیں؟   دونوں نے یک زباں ہو کر کہا۔

نہیں۔

لیکن تمہارے پا س تو دس ہزار فرانک تھے؟

وہ دس ہزار کھانے پر خرچ ہوگئےبے بیٹ بولی۔

پھر وہ فخر سے بولی کہ شاہی کیفے             (Cafe Anglai             )میں بارہ لوگوں کےکھانے کا خرچہ دس ہزار فرانک ہے۔

دونوں خواتین کے پاس اب بھی کوئی لفظ نہ تھا کہ وہ ادا کر سکیں۔اس کی یہ خبر نا قابلِ فہم تھی لیکن آج اور بھی بہت سی باتیں ناقابلِ فہم  باتیں ہوئی تھیں۔

فلی پا کا دل ڈوب رہا تھا۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ایک یاد گار شام کا اختتام ایک لازوال محبت، چاہت، ذاتی قربانی اور وفاداری پر ہو ا تھا۔

ڈیئر بے بیٹ!  ہماری محبت کی خاطر تمہیں اپنی رقم ہم پر خرچ نہیں کرنی چاہیے تھی۔

بے بیٹ نے گہری نظروں سے مارٹینی اور فلی پاکو دیکھا یہ نظر عجیب تھی اس میں نہ تو نفرت تھی اور نہ رحم۔

تمہاری خاطر؟  نہیں!    میں نے اپنی خاطر یہ سب کیا۔یہ کہہ کروہ اٹھ کھڑی ہوئی اور کہا کہ میں ایک عظیم آرٹسٹ ہوں۔وہ کچھ لمحے رکی پھر بولی،  میڈم میں ایک عظیم آرٹسٹ ہوں۔

تو تم تمام عمر پھر غریب رہو گی۔ مارٹینی بولی۔

غریب؟  بے بیٹ بولی۔

میں کبھی بھی غریب نہیں رہ سکتی۔میں بہت بڑی آرٹسٹ ہوں ۔ بادشاہوں کے کھانے بناتی ہوں۔ایک عظیم آرٹسٹ کبھی بھی بھوکا نہیں رہ سکتا۔ہمارے جیسے فنکاروںمیں  وہ خوبیاں ہوتی ہیں جو اورں میں نہیں ہوسکتیں اورنہ ہی وہ ان کا احساس کر سکتے ہیں۔میں عظیم شیف بے بیٹ ہوں۔

فلی پا کو لگاکہ اس نے یہ نام پہلے بھی کہیں سن رکھا تھا۔اسے یاد آگیا کہ شاہی خاندان کے بہترین کھانے پکانے والی بھی ایک عورت تھی جس کا نام بے بیٹ تھالیکن پہلے کبھی ان کے خواب میں بھی نہیں آیا تھا کہ یہ وہ بے بیٹ ہو سکتی تھی۔

تم نے جن جن لوگوں کے نام لئے ہیں وہ تو سارے تمہارے دشمن تھے۔تم انقلاب فرانس میں  ان کے خلاف لڑی تھی اور اپنے تمام خاندان کو قربان کر دیا تھا۔ 

ہاں!  وہ ہمارے دشمن تھے۔انہوں نے اپنی عیاشیوں سے عوام الناس کوہرقسم کی سہولیات سےمحروم کر دیا تھا۔میں نے خود ان پر بندوق تانی تھی اور مجھے اس پر فخر ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑی تھی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔میں اب واپس پیرس نہیں جاؤں گی کیونکہ وہ لوگ جن کے لئے میں نے بندوق اٹھائی تھی سب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ وہ تمام نواب میرے گاہک تھے، صرف وہ ہی میرے کھانے کا بل ادا کر سکتے تھے۔۔ پھر وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔

گلوکار مسٹر آرچل پاپن کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔

مسٹر پاپن کے ساتھ؟  فلی پا نے حیرت سے پوچھا۔           

ہاں۔ تمہارا پاپن میری پیار ی لڑکی۔یہ بات اس نے خود مجھے بتائی تھی۔ایک آرٹسٹ کے لئے بے وفائی سب سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔جب وہ کوئی کام کرتا ہے اور لوگ اسے سراہتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں تو وہ اسے اپنی حوصلہ افزائی سمجھتا ہے لیکن کسی کی بے وفائی پر اس کا دل روتا ہے۔اسے اپنا فن ترک کر دینا پڑتا ہے۔اُس نے گائیکی تمہاری خاطر ترک کر دی۔

فلی پا اس کے پاس گئی۔

بے بیٹ نے اسے اپنے گلے لگا لیا۔اُسے ایسا لگا کہ اس کا جسم ایک سنگ مرمر کی طرح ہے اور وہ سر سے پاؤں تک کانپی۔

فلی پاکچھ لمحوں تک خاموش رہی پھر اس نے بے بیٹ کو سرگوشی میں کہا کہ یہ سب یہاں ختم نہیں ہوا۔میں یقین سے کہتی ہوں کہ یہ سب کچھ یہاں ختم نہیں ہوا۔تم مرنے کے بعد بھی عظیم آرٹسٹ رہو گی اور فرشتوں کو اپنے لذیذ اور عظیم الشان کھانوں سے نوازو گی۔اس کی آنکھوں میں ایک طوفان امڈ آیا تھا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

تم بھی فرشتوں کو اپنی آواز سے لبھاؤ گی۔۔یقینا ایسا ہی ہوگا۔بے بیٹ نے کہا۔

Popular posts from this blog