آواز کہاں سے آ رہی ہے ؟ Where Is The Voice Coming From? Rudy Henry Wiebe 1934- Saskatchewan ( Canada)

 




آواز  کہاں سے آ رہی ہے  ؟

Where Is The Voice Coming From?

Rudy Henry Wiebe

1934-

Saskatchewan ( Canada)

                 

پیشکارو تجزیہ: غلام محی ا  لدین

 یہ کہانی  اس فقرے سے ہوتی ہے۔  ' کہ یہ کوئی عام کہانی  کی طرح قصہ نہیں جس میں مرکزی کردار ،متن ، عروج  اور اختتام ہوتا ہے بلکہ اس  کے لکھنے کااصل موضوع قاری اور ادیبوں کے حقائق بیان کرنے کے انداز  میں تضادات  بیان کرنا ہے۔ ہر فرد اپنے تعصب سامنے رکھ کراپنی مرضی کے نتائج ثابت کرتا ہے۔مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے وقت تمام تر احتیاطات کے  باوجود   اپنے نکتہ نظر کو ہی ثابت کرتاہے۔حروڈی ہنری ویب نے آبائی ریڈ انڈین کی ایک کہانی ثبوت کے طور پر بیان کی ہے جس میں حکومت ،قبیلےاور عوام الناس کی آرا کو اس کہانی بیان کرنے کے اختلافات ظاہر کئا ہے۔ریڈانڈین  جس کے بارے میں یہ قصہ قومی سطح پر مشہور ہے اس کا نام             '             ژان بیپ ٹسٹی ' ہے۔ ایک گروہ اسے انقلابی قائد کہتاہے تو دوسرااسے غدار اور باغی ۔       

حکومتی  ذرائع  کے مطابق   اس کہانی میں باغی '  ژان بیپ ٹسٹی (جسے عوام ا  لناس روح کی گہرائی تک پہنچنے والی آوازسمجھتی تھی  ) 'شمالی امریکہ کے خانہ بدوش ریڈ انڈین کے قبائل میں سے ایک قبیلہ' کری ' میں  پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ   1875 کو کینیڈا کے صوبے سیسکیچوان کے ایک گاؤں( ڈک لیک ) میں پیدا ہوا۔ اس کی پرورش قریبی گاؤں ( بالٹوچی) میں ہوئی ۔ اس کے گاؤں کوکینیڈین حکومت جو برطانیہ کے زیرتسلط تھی  نے کالونی بنا لیا جس پرآبائی آبادی   کی آزادی سلب کردی گئی ۔ اس پرریڈانڈین سخت ناراض ہوگئے  اور حکومت کے خلاف غم و غصہ پایا جانے لگا۔ حکومت کو ان کی  یہ روش  پسندنہ آئی اور ان کیسرکوبی کرنا چاہتی تھی اور ن کے خلاف کاروائی کرنا چاہتی تھی۔ 

بیپ ٹسٹی ایک پرامن شہری تھا ۔عام زندگی گزار رہا تھا۔ریڈ انڈین قبائل  شدید ماحول میں  دریا کے کنارے آباد تھے۔ مچھلی اور جانوروں کے شکار، کھالوں، سمور اور لکڑیوں  کی خرید و فروخت سے ان کی  بسراوقات ہو رہی تھی۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ امریکہ کی ایک گائے  1895 میں بھٹکتی ہوئی امریکی سرحد پار کر کے کینیڈا کے صوبہ سیسکیچوان میں آ گئی جسے  ژان بیپ ٹسٹی نے قابو کر لیا۔ یہ روزمرہ ہ کی عام بات تھی لیکن حکومت کے ہاتھ موقع آگیا اورایسے لوگوں کو سبق سکھانے کافیصلہ کرلیا ۔ ژان بیپ  نسٹی کوسرکاری گائے چوری کرنے اور اسے مارنے کا  ملزم قرار دے دیا گیا۔اسے گرفتار کر کے(ڈک لیک ) حوالات میں ڈال دیا گیا۔ ایک سرکاری اہلکارنے اپنے طور پر اس سے مذاقاً  کہا  کہ اس جرم میں تین ہفتوں بعد اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔بیپ ٹسٹی نے سوچا کہ اس نے مرنا تو ہے ہی ، کیوں نہ بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کی جائے۔ وہ کسی نہ کسی طرح اس رات فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ وہاں سے 32 میل دورایک جگہ (ریزرو)  جا چھپا اور گرفتاری سے بچنے کے لئے جگہیں تبدیل کرتا رہا۔ اس کا ساتھ اس کا بہنوئی اور کزن دتا رہا۔

29اکتوبر1895کوشمال مغرب ماؤنٹڈ پولیس فورس کے ایک سارجنٹ (کول بروک) نے اسے (کی نیس ٹین میں ) ڈھونڈ نکالا۔ ژان بیپ ٹسٹی  کے ساتھ مقا بلے میں وہ سارجنٹ مارا گیا۔اب مقدمے کی نوعیت مزیدسنگین ہو گئی۔ ملزمان اپنی جان بچانے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ وہ پولیس کے ہاتھ نہ لگا تو 20 اپریل  1896  کوحکومت  نے اسے باغی قرار دے دیا اور اس کو اشتہاری قرار دے کر اس کی گرفتاری پر پانچ سو ڈالر انعام رکھ دیا گیا۔ان دنوں پولیس مین کی تنخواہ تقریباً ایک ڈالر روزانہ ہوتی تھی۔ یک توگائے کی چوری اور مارنے ، سارجنٹ کو قتل کرنے اور انعام کے لالچ جو اس زمانے میں یہ  بہت بڑی رقم شمار کی جاتی تھی۔ پولیس ، فوج ، عام شہری اور رضاکار بڑے جوش خروش سے اس کا سراغ لگانے میں لگ گئے۔

ریڈ انڈین اور فرانسیسی حکومت میں استبداد و جبر کے خلاف مزید اختلافات پیدا ہوئے تو  کئی ریڈ انڈین قبائل بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے ۔ حکومت اس شورش کا اسے اس کا ذمہ دار سمجھنے لگی۔جس سے حکومت مزید مستعد ہوگئی اور  اشتہاری کی تلاش میں مزید سر گرم ہو گئی اور تقویت کے لئے  فوج، شہری اور رضاکار شامل کر لئے اور مختلف جگہوں پر چھاپے مارنے لگے۔

  ژان بیپ ٹیس ٹی   اس کا بہنوئی اور ایک کزن اس وقت ' ڈک لیک                 'کے ایک محفوظ  مقام  پر چھپے ہوئے تھے۔ایک انسپکٹر جس کا نام ایلن تھا، نے انہیں پیپل کے درختوں کے پاس ایک کھڑی چٹان( ریزرو کی مینی چیناس)کے پاس ڈھونڈ نکالا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جن میں فوج ، شہری اور رضا کار شامل تھے سے حملہ کر دیا۔اس مقابلے میں ا   نسپکٹر  ایلناوراس کا ایک ساتھی شدید زخمی ہو گئے جبکہ ایک فوجی افسر کارپورل (سی۔ ایس۔ ہاکن) ، ایک سپاہی ( ارنسٹ  گنڈی) اور پوسٹ ماسٹر  مارے گئے۔ اس پر حکومتی قوتوں کو مزید غصہ آگیا اورمزید بھاری اسلحہ اور نفری سے ان  پر دھاوا  بول دیا اور اور اسے اور اس کے دونوں ساتھیوں کو قتل کر دیا۔  

 ویب کہتا ہے کہ غیر جانبداری سے اس نے سرکاری دستاویزات  کا جو مشاہدہ کیا  ، میں جھول تھے۔ ان کی تفصیلات  میں تضاد تھا۔ اس کو مورخین پر بھی  اعتراض ہے کہ وہ واقعات کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ ایسی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جو ان کی رائے کے مطابق ہوں اور جو خلاف ہو ں انہیں گول کر جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں معاملات کو غیر جانبدارانہ انداز میں    رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ اس کہانی میں جو ریڈ انڈین  سے ہمدردی رکھتے تھے، ان کا جھکاؤ اور ترحم ان کی طرف زیادہ تھا۔ ان کی غلطیوں، جرم اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کو شش کی  اور ان کے مخالفین نے  دنیا میں تمام برائیوں کی جڑ ریڈ انڈین کو قرار دی۔

 روڈی ویب نے مورخین اور راویوں کی ایک اور خامی کی نشان دہی کی۔ وہ یہ ان کے مؤقف  میں تضادات پائے گئے۔ ایک واقعے کو بیان کرتے وقت  تفصیلات ایک دوسرے کی نفی کرتی تھیں۔جن کی اس افسانے میں ویب نے  نشان دہی کی۔ اس نے  اس واقعے کو جو حکومت نے عجائب گھر میں  شو کیس میں تصاویر، کہانی ،وقوعےاور اس میں شامل افراد کے بارے میں پیش کئے گئے ، وہ تفصیلات ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے۔

   مورخ ٹائی ہارڈ  دا شارڈن  نے کہا ہے کہ راوی کسی واقعے کوبیان کرنے میں اشیا اور واقعات کو الگ تھلگ  کرکےنہیں بیان کرتا۔ان معاملات کو جو اس کےارد گرد پیش آ رہے ہوتے تھے ، کو ایسے بیان کیاجیسے کہ وہ ایک تماشائی تھا اوران کی گہرائی اور وجوہات تک نہیں گیا۔

آرنلڈ ٹاؤن بی  نےایسے بیان کو مہم جوئی کا نام دیا۔اس نے کہا کہ جو کچھ ہمیں اس شئے کے بارے میں معلوم ہوتا ہے، اس کی صحت کو پرکھا نہیں جاتااور سنی سنائی بات کو لکھ دیا جاتا ہے جس سے سچائی چھپ جاتی ہے اور قاری کو  گمراہ کن معلومات ملتی ہیں۔

  کہانی جو کئی سال پہلے رونما ہو چکی ہوتی ہے ایک محدود واقعے، احکامات ، رد اعمال ، ظاہری نمایاں قانونی مزاحمتوں اور ضروریات سے متعلق تھی۔  اس کہانی کے تمام حصوں کو صحیح فرض کر بھی لیا جائے تو یہ جزویات میں میسر  کی  گئی تھیں۔ اگرچہ یہ واقعات بذات خود اپنے تئیں واضح تھے۔ ان میں کئی جگہوں پر ایسی باتیں بھی تحریر تھیں جو ایک دوسرے کی نفی کرتی تھیں۔  یہ واقعات اس عرصے میں مشہور تھے ۔ تمام لوگ اس سے واقف تھے :لیکن مورخ  کے نزدیک مخصوص حقیقت کا اصلی نمونہ کسی اور مقام سے آیا ہوتا ہتھااور اس کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں  تھا جو  بیان کیا جاتا ہے وہ  اپنے پاس سے اخذ کئے یا گھڑے گئے تھے یا یہاں تک کوئی  ایسی کوشش جو کہ گفتگو میں اب بھی سادہ طریقے سے بیان کی گئی۔ یہ بات طے ہے کہ وہ اس انداز میں  قاری تک پہنچائی گئیں جس کی  وہ  کم توقع کر رہے تھے۔ ایک ایسا واقعہ جو مدتوں پہلے روپذیرہوا ہو اسےبیان کرتے وقت  واضح شفافیت ہونی چاہیے ۔  اگر وہ مدتوں پہلے گزراہو تو  وہ واقعہ مبہم ہو جاتا ہے ۔ اس میں شامل کردار بھول جاتے ہیں۔

روڈی نےلکھا کہ اس کہانی  کااظہارایک  مورخ نے روح کو سکون پہنچانے والی آواز ژان بیپ ٹسٹی کے دادا (ون ایرو) کو ایک خاتون ، ہیور کے باپ کی  اور اپنے بیٹے ( ساؤنڈی سکائی)کی بیویوں میں سے اس کی ایک بیوی جس کا کوئی تو نام ہو گا 'کےپیلے چہرے ،مجرم اور ان کے ساتھی کا ذکر کیا ۔ان کےاوران کی تلاش کرنے والوں کے نام بھی ملتے جلتے تھے جس سے قاری کو سمجھنے میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔تمام پولیس فورس ،فوجی افسران ، کارپورل کے ساتھ ساتھ انسپکٹر ،  سپرنٹنڈنٹ اور اسسٹنٹ  کمشنر بمعہ اس کے ماتحت  سب ژان بیپ ٹسٹی اور اس کے ساتھی  کوتلاش کر رہے تھے۔خدا کی مہربانی سے ملکہ و کٹوریا بذات خود،سر جان کیمپ بیل ،ارل ارڈیین ، کونسلر ،نواب فور ٹیمر   وغیرہ کی بھی شدید خواہش تھی کہ غداروں کونجام عبرت تک پہنچایا جائے۔ ۔۔لیکن اہم ترین ذریعہ جس سے وہ ان تک پہنچ سکتے تھےکاواحد ذریعہ فضا میں گونجنے والی آواز تھی جو مقامی آبادی کو سکون دیتی تھی لیکن حاکموں کیلئےاذیت کا باعث تھی کیونکہآ واز سنائی دینا  کافی نہیں تھا ۔اس سے صحیح مقام کاتعین نہیں کیاجاسکتاتھا۔

جبکہ  البرٹ ڈسٹرکٹ کے عجائب گھر میں اس واقعے میں استعمال ہونے والے ہتھیار اور حصہ لینے والے اہل کاروں کی تصاویر وغیرہ اور دیگر دستاویز جو حکومت نے پیش کیں سب سے اہم تکونی ہڈی کا ٹکڑا تھا جو شوکیس میں اس انداز میں رکھا گیا تھا  کہ اس کے کونے ذرا ابھرے ہوئے تھے۔اسکے ساتھ دھات  کی لمبی سی نالی کو دوٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس کا آٹھواں حصہ کافی موٹا اورمضبوط تھا جبکہ دوسر ے حصے  کی لمبائی ایک چوتھائی اور موٹائی یک انچ تھی اورر کمزو رتھی ۔سرکاری طور پر اس شئے کو رائفل کہا گیا تھا۔اس کی نالی کی لمبائی زیادہ نہیں تھی اور ایک لمبے قد کے بازوؤں سے کم تھی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق  اسے 29  مئی   1885کوہفتہ کی شام میں پہلی بار استعمال کیا گیا تھا اور یہ بندوق1897  کی میں ژان بیپ ٹیسٹی کے خلاف  جسے حکومت نے  بغاوت کا نام دیا، میں استعمال ہوئی تھی جبکہ اس آپریشن میں شامل ہونے والی فورس جوریجیناسےخصوصی ریل سے آئی تھی ، کی تصاویر بھی چسپاں کی گئی تھیں لیکن وہ  نا قابل شناخت تھیں  لیکن  ناظرین میں ہیبت پیدا کرنےمیں کافی تھیں۔  گولیاں اور چھرے دیواروں پر تھے ۔ ان کی بگھیاں جوخوبصورت رنگوں میں سجی ہوئی اور جس کے پہیوں پر تازہ  تازہ  وارنش کی گئی تھی ، چمک رہی تھیں۔شائد شاہ بلوط  کی لکڑی سے کنڈے جڑے ہوئےتھے۔ اس کے پیتل والے حصے  پالش سے چمکائے گئے تھے ۔ پیپل کے ساتھ اونچی چٹان پر اونچی چیخ و پکار کرتی تصاویر لگا ئی گئی تھیں اور جزویات  کا خیال رکھا گیا تھا   جو کہ غیر حقیقی تھیں۔

سرسری طور پر دیکھا جائے تو یہ بھی دیکھا جا سکتا تھا  کہ واقعات کو گہرائی میں نہیں لیا گیا۔صرف ایک یا دو مقامات پر تفصیل دی گئی تھی۔ ایک جگہ پر44 بور کی نالی  والی 1866 کی بندوق آخر میں رکھی گئی تھی جس کا نمبر 1536735تھا جو واضح طور پر نظر آتا تھا۔ اس کی تفصیلات میں روح میں اتر جانے والی آوازجو باغی کی تھی ،میں یہ تصور پیش کیا گیا تھا کہ یہ بندوق اس کی تھی۔ اس کا پیتل یہ ظاہر کرتا  تھاکہ اس پر زنگ لگا ہوا تھا۔ ۔ جگہ جگہ دھبے پڑے ہوئے تھے۔ اس بندوق کی نالی بھی رکھی ہوئی تھا جو کہ حقیقت میں  کڑا بال جس پر دھول اور مٹی جمی ہوئی تھی۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ عجائب گھر اس کے با لکل نیچے اس کا کیس بنایا گیا تھالیکن وہ نامکمل تھا۔اس کے متعلق  اس کے بر عکس  ایسی تشویش تھی جو ان تمام اشیا کو بگاڑ کے؛اس عجائب گھر میں ڈیوک لیک کے مقام پر ایک چھوٹی سی عمارت دیکھی جا سکتی تھی جو پولیس سٹیشن تھا۔ اب اسے تبدیل کر کے فارم ہاؤس بنا دیا گیا تھا۔اب وہاںمرغیاں، سوروغیرہ پالے جا  رہی تھیں۔ آج کل یہ بالکل خالی تھا اور صاف ستھرا تھاتا کہ عوام الناس اس کے  دروازے سے بغیر جھکے گزر سکیں اور ایک بھاری مقابلہ جس میں جراثیموں  سے چھٹکارا پانا تھا۔دروازہ جام تھا۔ اب اسے تبدیل کر دیا گیا تھا      :اس کے اندر کی لکڑیاں اور بالےکی سفیدی پر دھبے پڑ چکےتھے۔ ایک تکرار تھی کہ شناخت کی للکار کی بدولت، چھوٹے مستقبل صندوق جس میں یہ لکڑیاں پڑی تھیں، کے باہر گلی میں خاموش تھیں اور وہ بالکل سنسان پڑی تھی۔ ایسا لگتا  تھاکہ پورا گاؤں مر گیا  تھا۔

اے ریڈ انڈین! تمہیں گائے چرانے کے الزام میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ اے امریکی لالٹین والے! تمہیں سرکاری گائے ذبح کرنے کے الزام میں تین ہفتے اس جگہ  رکھ کر مار دیا جائے گا ۔ وہ جگہ اب نقشے میں نہیں رہی لیکن  مینس چناس کی پہاڑیاں ابھی بھی موجود ہیں اور اس کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اس پر گھاس اگتی رہے گی ۔علاقہ سر سبز رہے گا اور دریا بہتے رہیں گے۔  

 کینیڈا بہت خوبصورت  ملک ہے اور سر سبز ہے۔ اس کا سرکاری درخت پیپل ہے۔ہرجگہ ہریالی ہی ہریالی ہے۔ کھیتی باڑی سے زرخیز مٹی ہے ۔ ان کے مغربی ڈھلوانوں سے جو  لوہے سے لگی باڑ تمام وادی میں نیچے تک لگائی گئی ہیں ۔آج بھی دل لبھاتی ہیں۔ اس جگہ ایک فارم ہاؤس ہوا کرتا تھا ۔اب پیپل کے درختوں کا جھنڈ جہاں روح پر اثر انداز ہونے والی آواز ڈوب گئی ہے ۔  لوگ اب کبھی بھی نہ سن سکیں گے۔    

وہ پولیس مین جس کو اس نے گولی مار کر قتل کیا تھا  (وہ نہیں جسے اس نے گولی سے زخمی کیا تھا)  کی جگہ جہاں اسے مارا گیا تھا ۔ قومی عجائب گھر میں اس کی تصویر آسانی سے پہنچانی  جا سکتی تھی۔ اسےپرنس البرٹ ڈسٹرکٹ کے قبرستان میں دفن کردیاگیاتھا۔ اس کا نام سارجنٹ کولن  کیمپبیل  کولبرک تھا اس کا نمبر 605 تھا۔ان  نان کمیشنڈ آفیسر  کی فہرست میں جو اس فورس کے قیام ہونے کے بعد  دوران ڈیوٹی  قتل  کر دئے گئے تھے ، میں اس کا نمبر 17 تھا ۔  وہ 29 اکتوبر 1895  کو  مارا گیاتھا اس کی موت کی وجہ بیان نہیں کی گئی تھی۔  اس کی تصویر پر لکھا گیا  تھا کہ ایک مفرور جو قدیم قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اور پرنس البرٹ ڈسٹرکٹ  کے جزیرے میں  چھپا ہوا تھا،  کو گولی مار کر ہلاک کر دیا  گیا۔اس قبر سے آگے دو  قبریں تھیں جو   کارپول جان کییرنمبر  3040 ( فوجی افسر)سی۔ ایچ۔ ایس ، ہوکن  نمبر 3106 کی تھیں۔ وہ 28  مئی 1897 کو ہلاک ہوئے۔ ان کی ہلاکت کی جگہ من ایچ ٹیناس پرنس البرٹ دسٹرکٹ  کے پہا ڑ تھے۔بنائی گئی تھیں لیکن کیوں فوت ہوئےبیان نہیں کی گئی تھیں۔

کسی قبر کا اگر کوئی کتبہ تھا تو وہ ایک چوتھے شخص کا تھا جو پوسٹ ماسٹر کا تھا۔ ڈک لیک پرنس البرٹ ڈسٹر کٹ کےپوسٹ ماسڑ '            ارنسٹ گرنڈی 'جس نے شائد آخری دفعہ ڈاک خانے کی کھڑکی 1897 میں جمعہ کی شام اپنی ڈیوٹی ختم ہونے پربند کی تھی اور اس کے بعد وہ اشتہاری کو گرفتار کرنے کی مہم میں پولیس کے ساتھ مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہو گیا اور 20 میل مشرق کا رخ کیا   اور 30۔6 کے مقابلے میں حصہ لیا جبکہ تیسر ے گروہ  میں ایک رضاکار کھائی کے پاس مارا گیا'تھی ۔ تصویر سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ نہ صرف قبائلی انڈین کو اس نے نہ صرف قبائلی ریڈ انڈین کو اسلحہ سپلائی کرنے میں مدد کی تھی بلکہ ان کو گرم  کپڑے بھی فراہم کئے ہوں گے۔

ڈبلن اورژان بیپ ٹیسٹی کے والد کے دفن کی جگہ بھی نامعلوم تھی  بالکل اس طرح جیسے کہ روح تازہ کرنے والی آواز کی جو حکمرانوں کے نزدیک اشتہاری تھا۔ یہ افواہ تھی کہ یورپی نژاد ریڈ انڈین میٹیس  قبیلے کے ایک فرزند ہنری سمتھ نے اس کی لاش ایک کھائی سے اٹھا کر حکمرانوں کے حوالے کی تھی۔عجیب بات یہ تھی کہ صرف ایک تصویر ایسی تھی جو اس واقعے سے براہ راست تعلق رکھتی تھی۔ وہ سارجنٹ کول بروک تین بار مجرم کو متنبہ کیا تھا کہ ہتھیار ڈال دے لیکن جب اس نے احکامات مارنے سے انکار کیا تو  اسے مار دیا گیا ۔سارجنٹ کے کان  تصویر میں لمبے تھے، وہ جوان تھا ۔ اس کے بال تراشے ہوئے تھے اور اس نے سکارف پہن رکھا تھا۔ اس کے ابرو گھنے تھے۔

آر ۔ سی۔ ڈکسن اشتہاری کو قانون کے تحت لانے والی مہم کا انچارج تھا۔ کول بروک کی موت میں اسے لاپرواہی برتنے کا مجرم قرار دیا اور اسے دو ماہ قید کی سزا سنائی اور نوکری سے بر خواست کر دیا گیا ۔ اس کی تصویر کسی جگہ بھی مو جود نہیں تھی۔  اس کے علاوہ اگر کوئی معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں تو وہ ان تصاویر  کی تھیں ۔شو کیسوں میں لگائی گئی تھیں جو مقابلے میں حصہ لینے والے فوجیوں۔ پولیس فورس۔ شہریوں اور رضاکاروں کی تھی۔

 اس عجائب گھر میں ڈبلن یا اس کا باپ ( ساؤنڈنگ سکائی)جو پہلےمقابلے میں کھائی میں مارے گئے تھے ، دونوں روح کو سکون دینے والے کے ساتھی تھےاور ایک اس کا جونئیر بتایا جاتا تھا۔ اس کا باپ 221 دنوں سے مفرور رہا۔ ایک تصویر میں وہ جھکا ہوا تھا ۔اس نے دھاری دار ڈینم پہنا ہوا تھا ۔ اس کے سامنے دوجڑواں بچے تھےجن کو ایسے کپڑے پہنائے گئے تھے  جو لڑکے اور لڑکیاں   دونوں پہنتی  تھیں اس لئے ان کی صنف کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان بچوں کے پاس ان کی ماں (  گوئنگ اپ ٹوسکائی)اس کے قریب ہی اس  کا میاں (ساؤنڈنگ سکائی)کھڑا تھا۔ اس نےسفید قمیص اور دھاری دار اونی  کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ ہو تھا۔ اس  کا بایاں  بازو  جس سے وہ لمبی  بندوق چلاتا تھا،  کمبل میں چھپا ہوا تھا۔ اس کا سر پیچھے جھکا ہوا تھا۔اس نے کالے رنگ کا ہیٹ پہنا ہوا تھا جس نے اس آدھے منہ کو ڈھانپا ہواتھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں ۔ اس کی گھنی مونچھیں تھیں جو ہلکی سی مڑی ہوئی تھیں۔اس طرح کی تصاویر لگائی گئی تھیں جو بے ترتیب تھیں ۔

سپاٹڈ کاف  ( ہیرو کی ماں ) نے ایک لمبا لباس زین تن کیا ہوا تھااور آدمیوں کی طرز کا ایک لمباسویٹر پہنا ہوا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا  کہ اس پر کڑھائی کی ہوئی تھی اور ڈوکہوبور ریڈ انڈین  قبیلے  سے ہے، کی لگ رہی تھی ۔اس کے نمونے  زیادہ بے قاعدہ تھے۔ اس خاتون کا سر چھوٹا تھا اور وہ ذراسی اپنے خاوند کی طرف جھکی ہوئی تھی۔ اس کا دایاں کان نظر آ رہا تھا۔اس کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا  تھا کہ اس کے ٹیڑھے چہرے پر کچھ عجیب و غریب قسم کے تاثر ات تھے۔یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اسے اس بات کا علم ہی نہ ہو کہ کیا ہو رہا تھا یا اس کے خاوندنے اسے کوئی بات کہی ہو اور اس پر اس نے منہ بنا لیا ہو یا فوٹو گرافر کی کسی بات کا جواب دے رہی تھی۔  

بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی تھی ۔سیسکیچوان کےقومی عجائب گھر جو ڈیوڈنی ایوی نیو  ریجینا میں واقع  ہے ، کے کمرے کے آخری شو کیس میں  زان بیپٹس ٹی (وائس آف  گریٹ سپیرٹ) کی تصویر لٹکائی گئی تھی ۔اس کے ساتھ اس کی کھوپڑی ٹیڑھی کر کے لٹکائی گئی تھی۔اس پر جلی حروف میں غدار کا لیبل لگایا گیا تھا ۔اس تصویر کو لگانے کا مقصد یہ تھا کہ عوام الناس بھی اس کی شکل جس نے غداری کی  کودیکھ کر اس نے نفرت کریں۔یہ لیبل چونکہ دنیا کی عظیم ترین پولیس نے لگایاتھا ،اس لئے اسے معتبر شمار کیا جاتا تھا۔ وہ اظہارغلط نہیں ہو سکتا تھا۔  یہاں کہانی  آگے بڑھانے میں مشکل پیش آتی تھی جس سے مورخ تاریخ کو جانے انجانے میں مسخ کرتا ہے۔

عجائب گھر دیکھنے پر اس روحانی تراوت والی آواز کی جسمانی تفصیلات اسی عجائب گھر میں دو طرح کے بیانات سامنے آئے ۔ایک بیان کے مطابق اس کا قد 5 فٹ دس  انچ تھا۔ خوش شکل، بائیں گال پر ڈیڑھ انچ زخم کا نشان جو منہ سے کان تک جاتا تھا۔ اگرذرا سا میک اپ کیا ہو تو وہ نشان نظر نہیں آتا تھا۔ اس میں اس کی دوسری گال صحیح تھی۔ ناک نوکدار اور چپٹی تھی۔ رنگت ریڈ انڈین کے حساب سے گوری تھی۔

اس کے بارے میں دوسرا بیان   نوٹس بورڈ پر چسپاں کیا گیا تھا جس کی تفصیل شوکیس کی تفصیل سے کچھ مختلف تھا۔اس میں اس کی عمر 22سال بتائی گئی تھی جس کا  وزن 10 سٹون ( یعنی 140پونڈ) تھا۔  گٹھا جسم، چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں، سفید رنگ، چمکتے ہوئے سیاہ بال، بڑی بڑی کالی آنکھیں،کشادہ ماتھا،طوطے جیسی  ناک جس کا سرا چپٹا تھا، اس کی شکل نسوانی تھی، اس کی بائیں گال پر زخم جو کان تک جاتا تھا۔جتنی وضاحت سے اس کی جسمانی ساخت بیان کی گئی تھی۔ اسے دیکھ کر ہر خاص و عام آسانی سے شناخت کر کے 500 ڈالر کا انعام حاصل کر سکتا تھا۔  اس حلئےمیں مسئلہ تب پیدا ہوتا تھا جب اس کا سرکاری سطح پرپیش کئے گئے حلیے سے موازنہ کیا جاتا تھا۔  

سرکاری اشتہارات میں تفصیلات مختلف تھیں۔اس  تصویر میں وہ ایک چھوٹی سی دری پر کھڑا تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں مڑے ہوئے  وکٹورین  طرز کے چھوٹے صوفے  کو چھو رہی تھیں۔اس کے پیچھے فوٹو گرافر  کا عکس ایسے  پڑ رہا تھا جو اس کے عکس کو مبہم بنا رہا  تھا ۔ اس کی تصویر میں درخت بھی دکھائے گئے تھےجو اس کی شکل کی وضاحت  کر رہے تھے۔ اس نےجو جوتا پہنا ہواتھا اس سے پتہ نہیں چلتا تھاکہ اس کےپاؤں چھوٹے تھے ۔اس کے قداور وزن کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا۔یہ تصویر سامنے سے لی گئی تھی۔ اس فوٹو  میں اس کی لمبی  نوکدارچمکتی ہوئی ناک تو واضح طور پر چپٹی کہا جا سکتا  تھا۔ اسکی تصویرعام تصاویر سے زیادہ روشن رکھی گئی تھی۔ اسکی بائیں گال پر کسی زخم کا نشان نہیں پایا  گیا۔ اس کے بال نہ تو گھنگریالے  تھے اور نہ ہی کندھوں تک لمبے  تھے بلکہ وہ سیدھے تھے اور کمر تک لمبے تھے۔بالوں کی چوٹیاں بنائی گئی تھیں۔ ان بالوں کو گوندھ کر ان میں موتی پرو دئیے گئے تھے۔  جا بجا ربن اور ڈوری بھی اس کے بالوں میں باندھی گئی تھی۔ اس تصویر میں اس نے ایک لمبا کوٹ پہنا ہوا تھا جس کی بنائی عمدہ تھی۔ اس کی گردن چھپی ہوئی تھی۔ مرغولہ دار موتیوں  کا ہار اس نے پہنا ہوا تھا۔سرکاری اور عجائب گھر کی تصویر سے بالکل مختلف تھی۔ اسے  دیکھ کر کوئی بھی اسےنہیں پہنچان سکتا تھا۔  

ایک کپڑے کی چادر جس کا طول و عرض 2 انچ X اڑھائی انچ تھی، اس کے پاس پڑی تھی جس پر ایک شیر اور سفید گھوڑا بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ ایک شیلڈپڑی تھی جس پر اعزاز کے طور پر ملکہ، گورنر جنرل، سیکرٹری آف سٹیٹ، ڈپٹی منسٹر آف جسٹس وغیرہ کے نام لکھے تھے۔ اس تصویر کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ شخص سقراط، حضرت عیسیٰؑ ، رومی سلطنت کے عظیم  جرمن بادشاہ آٹیلا، چنگیز خان، جوزف سٹالن وغیرہ کے پائے کا  تھا۔ایک طرف باغی اور دوسری طرف اسے  ہیرو بنا کر پیش کرنا حکومتی تضاد تھا۔

ان تصاویر کے موازنے سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ وہ بیان جو'دا شارڈن 'نے مضمون کے شروع میں عجائب گھر میں داخل ہوتے وقت دیا تھا ،میں صرف اس وقت ہی مناسبت ہو سکتی تھی جب  اسے ارسطو کے اس قول کے تحت ماپا جائے۔اس نے کہا تھا ' کہ مورخ  اور شاعر کے مابین حقیقی فرق یہ  تھا کہ ایک  یہ بیان کرتا  تھاکہ کیا واقع ہوا تھا اور دوسرا یہ کہتا  تھاکہ کیا واقع ہو سکتا  تھا۔

' اس بیان کےتحت راوی جو کہانی یا افسانہ بیان کرتا تھا کہ مورخ کی سر گرمیاں جب لا شخصی تفتیش کاشدید اطلاق ہو تو اس کہانی کے عناصر نے اب مجھےزمین بوس کر دیا  تھا ۔روڈی ویب  کہتا ہے'میں اگر چاہوں بھی تو میں اپنے بیان میں معروضی نہیں ہو سکتا۔ میرے ذہن میں شکوک و شبہات ہمیشہ رہیں گے۔لوگ جوایک دوسرے کے بر عکس ہوتے ہیں وہ صحیح نتائج اخذ کرنے میں مدد نہیں دیتے  اور میں ان تمام باتوں  کا اثر قبول کرنے لگوں گا جو کہ ارد گرد واضح ہو  رہے ہوں کیونکہ یقیناً میں بذات خود جو اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا اس پرچے پر سائےجو کہ وہ آنکھیں ہیں۔ یہ میں کھڑا ہوں جس کے دو کونے والے چھت کی شنگلزٹوٹ چکی ہیں جس کی تاریں جو اس  کی حدود کو محفوظ بناتی ہیں گھاس پھوس سے جو اس کھیت میں ٹوٹ چکی ہیں۔ وہ کھڑی چٹان جس نے روح کا طاقتور بنانے والی آوازاور اس کے دو ساتھ ابھی غائب نہیں ہوئے۔ وہ ابھی تک اس اٹھی ہوئی چٹان پر مینی چی ناس میں کھڑےہیں۔ وہاں کانٹیبل ڈکسن کی آوازبھی نہیں آ رہی ۔ وہاں خاموشی ہے۔ اس کی آواز کے بارے میں سرکاری دستاویزات خامو ش ہے۔   '

ارے! گائے ُچرانے اور اسے مارنے کے جرم میں تم لٹکائے جاؤ گے امریکی انڈین ۔اس جرم میں تین ہفتوں بعد تمہیں پھانسی دے دی جائے گی۔اس بیان میں قانون ناقابل فہم تھا اور اس میں دھمکی تھی۔ان جیسے کئی غیر ذمہ دارانہ  بیانات نے ایک  معصوم نوجوان کو باغی کر دیا۔ان کا قبیلہ جس نے 350 سال قبل  کری قبیلے نے  پسپائی اختیا کر لی تھی اور ہارنے کے بعدحکومت سے لڑائی ختم ہو گئی تھی۔ان تین دنوں  کے محاصرے نےجومنی چی ناس کی پہاڑیوں  پر کیا گیا ،ساؤنڈنگ سکائی (ہیرو کا باپ ) وہاں موجود نہیں تھا۔اس وقت وہ قید تھااورسپاٹڈ کاف  (ہیرو کی ماں )  پہاڑی  کے دائیں کنارے پر کھڑی تھی۔ اس کے بازو مغرب کی طرف تھے  جہاں سورج غروب ہو رہا تھا۔ اس کا منہ کھلا تھا۔ اس وقت ایک گھوڑا ابھری ہوئی  چٹان کےپیچھے ایک کونے سے ہنہناتاہے ۔اتنے میں ایک گولی چلتی ہے اور کسی کے چیخنے کی آواز آتی ہے۔اس سے کوئی زخمی ہوا ہے۔

ایک جگہ اس کی نقاشی کچھ اس طرح کی گئی ہے جو معاملے کو سمجھنے کی بجائےالجھا دیتے ہیں۔حکومتی بیان میں جو تفصیل دی گئی ہے جو واقعے کو مزید مبہم بناتی ہے۔اس میں یہ کہا گیا کہ اس سال موسم بہار  بہت عمدہ رہا۔ اس موسم میں یہ واقعہ پیش آیا۔ محاصرے میں سات پولیس مین اور دو عام شہری قطار بنائےآہستہ آہستہ چوکنے ہو کر آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے چہروں پر شدید غصہ اور نفرت تھی۔ انہوں نے لمبی نالیوں والی بندوقیں تھامی ہوئی تھیں جو کپکپاتے ہاتھوں میں جھنجھنے  کی طرح ہل رہی تھیں۔ اس  شام مینڈکوں کے ٹرانے  کی آوازیں بھی نہیں آ رہی تھیں۔ 27 پولیس مین اور پانچ شہری  کچھ فاصلے پر الگ  کھڑے تھے۔وہ جتھے کی شکل میں درے کی آڑ میں تیس تیس گز کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ اس وقت بلند چٹان سے ایک آواز   گونجی۔

ہم بہت عمدہ لڑے

ہم بہادروں کی طرح مرے

میں نے شدید محنت کی۔ میں بھوکا ہوں

مجھے کھانا دو

۔۔۔لیکن کسی نے کوئی حرکت نہ کی اس کھڑی چٹان کی ڈھلوان پر، جسے لوگوں نے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ آگے کی طرف مزید 35  افراد شکاریوں کے لباس میں ملبوس جو پرنس البرٹ ڈسٹرکٹ کے رضاکاررائفلوں کے ساتھ  کھڑے تھے۔ان کے ساتھ 13 شہری اور 56 پولیس مین  تھے جو درے کے دوسری طرف تھیں۔ان میں سے ایک نے رائفل اگلے کنارے کی طرف اوپر کی طرف تھی اور اس نے فائر کیا اور ایک کوا آسمان سے سر اٹھائے چٹان کی طرف گر ا۔ اس کے بعد دوسری گولی کا نشانہ لیا گیاتھا۔ اس فورس کے رشتہ دار گھوڑوں پر سواراور کچھ اپنی رہڑیوں پر کھڑےاس مسلح مقابلےکو دیکھ رہے تھے۔دور کہیں دوسری طرف ریڈ انڈین چوکڑیاں مار کرپیڑوں کے نیچے  ٹیلے پر بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے اتوار کی صبح کی طرح بے نور تھے۔ ڈھلتے سورج کی روشنی درختوں سے چھن چھن کر آ رہی تھی۔  ماحول گمبھیر تھا۔ ہر طرف سناٹا تھا۔  

اٹھارہ ماہ تک وہ سرکار سے آنکھ مچولی کھیلتا رہا۔ پیپل کے درختوں کے قریبی  کھائی میں لاشیں ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں۔ ایک بازو جو ایک  گہری  کھائی میں جس کی لمبائی انسان کے قد سے کم تھی ، کے پیچھے سے ایک آواز ابھری۔ یہ آواز ناقابل یقین تھی۔ بہت  بلند ، سخت، مضبوط ، پر عزم  اور پر اثر تھی جس کا مدعیٰ عظیم روح کی پکار' تھا۔ جو روح  کو طاقت بخشنے والی آواز تھی۔یہ طاقتور آواز اس کی موت کا بلاوا تھی جس کی خوبصورتی یاد رکھی جائے گی۔ اس آواز کو سن کر ایک ناقابل فہم قسم کی خوشی محسوس کی جا سکتی تھی۔یہ ایک کہانی  کسی الفاظ کے بغیر ایک چیخ تھی۔جو راوی نےبیان کیا۔ کسی خوبصورت نوحے سے کم نہیں جو ناقابل فہم خوشی میسر کرتی تھی۔

ایک ہی کہانی بیان کرنے کے من پسند طریقے جس میں متنوع تفصیلات بیان کی گئیں سےکوئی کیا حتمی نتیجہ حاصل کر سکتا ہے؟ایک واقعے کی سرکاری سطح پر بھی   حلئے، جسمانی ساخت اور واقعے   کی ایسے انداز میں تفصیل پیش کرنا جو ایک دوسرے کے بر عکس ہوں مواد کی صحت اور جواز کو ناقابل اعتبار بناتا ہے۔ ایسا صرف اس معاملے میں ہی نہیں ہوا بلکہ تمام مورخ تاریخ بیان کرتے وقت ایسا کرتے ہیں اور ہم تک جو تاریخ پہنچتی ہے وہ مسخ شدہ ہوتی ہے۔ اس لئے اپنی رائے، اعتقادات  ، مذہب، رنگ، نسل، زبان اور صنف کو بالائے طاق رکھ کر حالات و واقعات کی قلم نبدی اہم ہے۔

وازکہاں سے آرہی ہےتجزیہ

 

 

اس  کہانی میں روڈی ویب نے مثالوں سےثابت کیا کہ میڈیا سے جو معلومات ہم تک  پہنچتی ہیں ، ان کی صحت اور جواز پر سوالات اٹھتے ہیں۔ عوام کے پاس جو معلومات مورخ، حکومت، ایجنسیاں یا  مصنف  پہنچاتے ہیں کم وبیش مسخ شدہ ہو تی ہیں۔ مختلف تناظر میں لکھی گئی ہوتی ہیں۔ اپنی ذاتی رائے کی روشنی میں حالات و واقعات کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے  جو اس کے خفتہ مقاصد کی تسکین کرے۔ ہر راوی اپنے  حق میں دلائل دیتا ہے۔ سیاسی نظام، عقیدے ، سیاست ، مذہب ، اقتصادی رتبے ، تعلیم  اور ذاتی مقاصد کے تحت  بیان کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس نے یہ بھی ثابت کیا  کہ سرکاری سطح پر جو بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ، اس مواد میں بھی  تضاد پایا جاتا ہے۔

 ویب نے اس کہانی میں اس بات کوبثابت کیا کہ تاریخ کے سرد خوفناک اوراق کو افسانوی کردار میں بیان کرنا ہر گز مناسب نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ رومانیت بھرنے کی  بجائے   معاملے کی  سچائی بیان کرے۔

اس کہانی کا آغازحقائق جمع کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کہانی کے مرکزی اور حاشیائی کردار وں کے خیالات  اعلانات، نوٹس، اشتہارات وغیرہ  کے ذریعےبتائے گئے۔ان میں ملزم  باغی مرحوم کی ہڈی کا ٹکڑا بھی شو کیس میں نمایاں کر کے لگایا گیا تھا جو عوام الناس کو روحانی طاقت بخشنے والے آدمی کا تھا۔دوسرے شو کیس میں اس کی  وہ بندوق تھی جو اس نے پولیس مقابلے میں استعمال کی تھی۔ اس کی تمام باقیات کوبے ڈھنگی ترتیب سے محفوظ کر کےقومی عجائب گھر کی شیشے کی الماریوں میں نمایاں کرکے پیش کیا گیا تھا۔  

 باقیات کو سیاق و سباق کے لحاظ سے پیش نہیں کیا گیا۔ان کے ساتھ جو ساز و سامان رکھا گیا تھا ، سیاق و سباق سے ہٹ کر تھے۔ استعمال ہونے والی بگھیاں اور چھکڑے اچھی طرح پالش کئے گئے تھے اور خوب چمک رہے تھے۔ان الماریوں میں ان کی قبروں کے پتھر بھی رکھے گئے تھے۔ یہ اور بات تھی  کہ اس میں ریڈ انڈین کی  قبر کا پتہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ عجائب گھر میں  جائے وقوعہ '         منی چی ناس ' کی تصاویر بھی  لگائی گئی تھیں۔ حقائق اکٹھا کرتے وقت سادہ طریقہ استعمال کیا گیا تھا لیکن وہ بے جوڑ اور بے ڈھنگا تھا۔ سو سا ل سے اوپر وقت ہو گیا تھا لیکن اس کو افسانوی انداز دے کر اہمیت میں اضافہ کیا گیا تھا۔  انتظامیہ نے یہ پوری کوشش کی کہ لکھاریوں کو گمراہ کیا جائے اور اپنے حق میں  راہ ہموار کرنے کی شش کی گئی تھی۔یہاں تک تو یہ قابل قبول ہے کہ انہوں نے ایک تاریخی واقعہ بیان کیا لیکن انداز صحیح نہیں۔ یہ بات اس وقت شدید ہو جاتی ہے جب ژان بیپ  ٹیسٹی (روح کو تراوت دینے والی آواز)  کی تصویر لٹکائی گئی ہے لیکن اس واقعے کی تنظیم بھونڈی ہے اس کے متن میں الجھاؤ ہے۔

و یب کہتا ہے کہ راوی  نےاس قصے میں ژان بیپ ٹیسٹی  ( روح کو تراوت دینے والے شخص) کی تذکیر پرجو بات کی اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ جی دار اور بہادر شخص  تھالیکن اس کی آواز نسوانی تھی۔علاوہ ازیں اس معاملے کی تاریخ کی اہمیت جتانے کے لئے کیسےپیش کیا جائے،  وضاحت کیسے کی جائے اور کیسے لکھا جائے، مربوط نہیں۔ انہوں نے جوطریقہ اپنا یا یا   اسے ایک پراجیکٹ کی شکل میں پیش کیا۔ اس کے حصے بخرے کر کے ایسے بیان کیا  جس میں قاریئن کو تھوڑی تھوڑی معلومات بتا کر ساتھ شامل کیا۔اشارے، علامات اور ادھر ادھر حقائق درمیان میں اس روح کو تقویت دینے والی آوازشامل کرکے کی لیکن وہ و تفصیلات ایک تو نامکمل تھیں اور دوسرے وہ ایک دوسرے کی نفی بھی کرتی تھیں۔ منظر کشی بھی ایک جیسی نہیں تھی۔تفصیل تضادات کا شکارتھی۔ ایک طرف تو ہیرو کو اتنا توانا اور طاقتور پیش کیا گیا تھا تو دوسری طرف اس کے ہاتھ اور پاؤں چھوٹے چھوٹے بتائے گئے  ۔ اس کی آواز نسوانی بیان کی ہوئی ہے۔ایک طرف تو اسے سقراط، حضرت عیسیٰؑ ، رومی فلسفی آٹیلا ، جوزف سٹالن اور چنگیز خان جیسے جری لوگوں سے ملایا جاتا تھا تو دوسری طرف وہ پتلا اور کمزور ظاہر کیا  گیاتھا۔ گورے حکمرانوں نے ایسے بیان کر کےاس کی اہمیت کم کی ہے۔  

اگر ذاتی مفاد وا  بستہ ہو تو راوی واقعات سے بے بہرہ نہیں رہ سکتا۔ وہ غیر جانبدارانہ طور پر بیان کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔اس میں تعلق بنانے میں کہ کس مقام پر کیا واقعہ پیش آیا اور کس وقت پیش آیا اور کیوں آیا یا کیا پیش آ سکتا تھا وغیرہ کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال دیا تھا۔امتیاز برتنے کی بجائے راوی کو لازماً اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے تھاکہ معلوم کرے کہ اصل حقائق کیا  تھے اور وہاں شاعری کی ضرورت( مثلاً موت پر نوحہ خوانی)  کیوں اور کیسے کی گئی  ، کی وضاحت کرتا۔نر کی قوت پرزور دینا ا یک طریقہ تھا جس سے اس کی نسوانیت کا تاثر کم کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اس کے ہاتھ ، پاؤں اور جسمانی ساخت کو بڑا پیش کرنا بھی اس سلسلے میں اہم تھا ۔ریڈ انڈین کی حقیقی زندگی اور حکمرانوں ، طرز حیات اور تنازعات کو توڑ موڑ کرلکھا گیا ۔  کئی باتوں کا تذکرہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔ان کے بیان سے ہیرو کی زندگی کا قیافہ ہی لگایا جا سکتا ہے اور حقائق تک رسائی حاصل نہیں کی  جا سکتی۔

اس مضمون میں  ویب نے کردار سازی اصل ناموں کی بجائے ان کے خواص کے حساب سے کی ۔جیسے آلمائٹی وائس سے مراد اس کہانی کا ہیرو'        ژان بیپ ٹیس ٹی ' ہے۔  اسے لوگوں نے وائس آف گریٹ سپرٹ  کے خطاب سے نوازا ہواتھا جو یہ سمجھتے  تھےکہ اس کی آواز سن کر ان کو حوصلہ ملتا تھا ۔ ان کی روح میں توانائی  پیدا ہو جاتی تھی ۔ ذہنی سکون ملتا تھا۔ اگرچہ اسے چور کے روپ میں پیش کیا گیا  لیکن اسے ایسی طاقتور آوز کہا گیا جوجذبات ابھارتی تھی۔ لوگوں کی روح  میں اتر جاتی ۔اسے ایک مفرور  قرار دیا گیا  لیکن  زیادہ تر لوگ اس کی آواز کو اہمیت دیتے ہیں لیکن سرکاری مشینری کے آگے بے بس تھے۔

وہ کری قبیلہ  سے تعلق رکھاتھاجو'جیمز بے' میں رہتا تھا۔ فرانسیسی حملہ آوروں نے اسے ' کیرسٹی نون' کا نام دیا جو بگڑتے بگڑتے 'کری ' بن گیا۔ یہ دریاؤں کے قریب آباد ہوگیا۔ زیادہ تر آبادی دریائے ہڈسن تک پھیلی ہوئی تھی۔ برطانیہ، امریکہ ، کینیڈا اور سکاٹ لینڈمیں  بھی اس قبیلے کو کری کہا جاتا ہے  ۔ موجودہ دور میں ان کی 42فیصد آبادی البرٹا میں ہے۔انہیں کری فرسٹ نیشن کہا جاتا ہے۔تھوڑے بہت کینیڈاکے مینی  ٹو با اور ایلگون کویئن اور ایسینبی اون  علاقوں میں بھی آباد ہیں۔ ان کی ناکیں نوکدار اور چپٹی ہوتی ہیں۔ بہت سخت جان ہیں۔  ان کا رنگ پیلا ہے۔میٹیس ریڈ انڈین  کا رنگ  سفید ہے کیونکہ ریڈ انڈین میں گورا خون بھی شامل ہوتا ہے۔

آوازکہاں سے آرہی ہےتجزیہ

 

 

اس  کہانی میں روڈی ویب نے مثالوں سےثابت کیا کہ میڈیا سے جو معلومات ہم تک  پہنچتی ہیں ، ان کی صحت اور جواز پر سوالات اٹھتے ہیں۔ عوام کے پاس جو معلومات مورخ، حکومت، ایجنسیاں یا  مصنف  پہنچاتے ہیں کم وبیش مسخ شدہ ہو تی ہیں۔ مختلف تناظر میں لکھی گئی ہوتی ہیں۔ اپنی ذاتی رائے کی روشنی میں حالات و واقعات کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے  جو اس کے خفتہ مقاصد کی تسکین کرے۔ ہر راوی اپنے  حق میں دلائل دیتا ہے۔ سیاسی نظام، عقیدے ، سیاست ، مذہب ، اقتصادی رتبے ، تعلیم  اور ذاتی مقاصد کے تحت  بیان کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس نے یہ بھی ثابت کیا  کہ سرکاری سطح پر جو بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ، اس مواد میں بھی  تضاد پایا جاتا ہے۔

 ویب نے اس کہانی میں اس بات کوبثابت کیا کہ تاریخ کے سرد خوفناک اوراق کو افسانوی کردار میں بیان کرنا ہر گز مناسب نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ رومانیت بھرنے کی  بجائے   معاملے کی  سچائی بیان کرے۔

اس کہانی کا آغازحقائق جمع کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کہانی کے مرکزی اور حاشیائی کردار وں کے خیالات  اعلانات، نوٹس، اشتہارات وغیرہ  کے ذریعےبتائے گئے۔ان میں ملزم  باغی مرحوم کی ہڈی کا ٹکڑا بھی شو کیس میں نمایاں کر کے لگایا گیا تھا جو عوام الناس کو روحانی طاقت بخشنے والے آدمی کا تھا۔دوسرے شو کیس میں اس کی  وہ بندوق تھی جو اس نے پولیس مقابلے میں استعمال کی تھی۔ اس کی تمام باقیات کوبے ڈھنگی ترتیب سے محفوظ کر کےقومی عجائب گھر کی شیشے کی الماریوں میں نمایاں کرکے پیش کیا گیا تھا۔  

 باقیات کو سیاق و سباق کے لحاظ سے پیش نہیں کیا گیا۔ان کے ساتھ جو ساز و سامان رکھا گیا تھا ، سیاق و سباق سے ہٹ کر تھے۔ استعمال ہونے والی بگھیاں اور چھکڑے اچھی طرح پالش کئے گئے تھے اور خوب چمک رہے تھے۔ان الماریوں میں ان کی قبروں کے پتھر بھی رکھے گئے تھے۔ یہ اور بات تھی  کہ اس میں ریڈ انڈین کی  قبر کا پتہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ عجائب گھر میں  جائے وقوعہ '         منی چی ناس ' کی تصاویر بھی  لگائی گئی تھیں۔ حقائق اکٹھا کرتے وقت سادہ طریقہ استعمال کیا گیا تھا لیکن وہ بے جوڑ اور بے ڈھنگا تھا۔ سو سا ل سے اوپر وقت ہو گیا تھا لیکن اس کو افسانوی انداز دے کر اہمیت میں اضافہ کیا گیا تھا۔  انتظامیہ نے یہ پوری کوشش کی کہ لکھاریوں کو گمراہ کیا جائے اور اپنے حق میں  راہ ہموار کرنے کی شش کی گئی تھی۔یہاں تک تو یہ قابل قبول ہے کہ انہوں نے ایک تاریخی واقعہ بیان کیا لیکن انداز صحیح نہیں۔ یہ بات اس وقت شدید ہو جاتی ہے جب ژان بیپ  ٹیسٹی (روح کو تراوت دینے والی آواز)  کی تصویر لٹکائی گئی ہے لیکن اس واقعے کی تنظیم بھونڈی ہے اس کے متن میں الجھاؤ ہے۔

و یب کہتا ہے کہ راوی  نےاس قصے میں ژان بیپ ٹیسٹی  ( روح کو تراوت دینے والے شخص) کی تذکیر پرجو بات کی اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ جی دار اور بہادر شخص  تھالیکن اس کی آواز نسوانی تھی۔علاوہ ازیں اس معاملے کی تاریخ کی اہمیت جتانے کے لئے کیسےپیش کیا جائے،  وضاحت کیسے کی جائے اور کیسے لکھا جائے، مربوط نہیں۔ انہوں نے جوطریقہ اپنا یا یا   اسے ایک پراجیکٹ کی شکل میں پیش کیا۔ اس کے حصے بخرے کر کے ایسے بیان کیا  جس میں قاریئن کو تھوڑی تھوڑی معلومات بتا کر ساتھ شامل کیا۔اشارے، علامات اور ادھر ادھر حقائق درمیان میں اس روح کو تقویت دینے والی آوازشامل کرکے کی لیکن وہ و تفصیلات ایک تو نامکمل تھیں اور دوسرے وہ ایک دوسرے کی نفی بھی کرتی تھیں۔ منظر کشی بھی ایک جیسی نہیں تھی۔تفصیل تضادات کا شکارتھی۔ ایک طرف تو ہیرو کو اتنا توانا اور طاقتور پیش کیا گیا تھا تو دوسری طرف اس کے ہاتھ اور پاؤں چھوٹے چھوٹے بتائے گئے  ۔ اس کی آواز نسوانی بیان کی ہوئی ہے۔ایک طرف تو اسے سقراط، حضرت عیسیٰؑ ، رومی فلسفی آٹیلا ، جوزف سٹالن اور چنگیز خان جیسے جری لوگوں سے ملایا جاتا تھا تو دوسری طرف وہ پتلا اور کمزور ظاہر کیا  گیاتھا۔ گورے حکمرانوں نے ایسے بیان کر کےاس کی اہمیت کم کی ہے۔  

اگر ذاتی مفاد وا  بستہ ہو تو راوی واقعات سے بے بہرہ نہیں رہ سکتا۔ وہ غیر جانبدارانہ طور پر بیان کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔اس میں تعلق بنانے میں کہ کس مقام پر کیا واقعہ پیش آیا اور کس وقت پیش آیا اور کیوں آیا یا کیا پیش آ سکتا تھا وغیرہ کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال دیا تھا۔امتیاز برتنے کی بجائے راوی کو لازماً اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے تھاکہ معلوم کرے کہ اصل حقائق کیا  تھے اور وہاں شاعری کی ضرورت( مثلاً موت پر نوحہ خوانی)  کیوں اور کیسے کی گئی  ، کی وضاحت کرتا۔نر کی قوت پرزور دینا ا یک طریقہ تھا جس سے اس کی نسوانیت کا تاثر کم کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اس کے ہاتھ ، پاؤں اور جسمانی ساخت کو بڑا پیش کرنا بھی اس سلسلے میں اہم تھا ۔ریڈ انڈین کی حقیقی زندگی اور حکمرانوں ، طرز حیات اور تنازعات کو توڑ موڑ کرلکھا گیا ۔  کئی باتوں کا تذکرہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔ان کے بیان سے ہیرو کی زندگی کا قیافہ ہی لگایا جا سکتا ہے اور حقائق تک رسائی حاصل نہیں کی  جا سکتی۔

اس مضمون میں  ویب نے کردار سازی اصل ناموں کی بجائے ان کے خواص کے حساب سے کی ۔جیسے آلمائٹی وائس سے مراد اس کہانی کا ہیرو'        ژان بیپ ٹیس ٹی ' ہے۔  اسے لوگوں نے وائس آف گریٹ سپرٹ  کے خطاب سے نوازا ہواتھا جو یہ سمجھتے  تھےکہ اس کی آواز سن کر ان کو حوصلہ ملتا تھا ۔ ان کی روح میں توانائی  پیدا ہو جاتی تھی ۔ ذہنی سکون ملتا تھا۔ اگرچہ اسے چور کے روپ میں پیش کیا گیا  لیکن اسے ایسی طاقتور آوز کہا گیا جوجذبات ابھارتی تھی۔ لوگوں کی روح  میں اتر جاتی ۔اسے ایک مفرور  قرار دیا گیا  لیکن  زیادہ تر لوگ اس کی آواز کو اہمیت دیتے ہیں لیکن سرکاری مشینری کے آگے بے بس تھے۔

وہ کری قبیلہ  سے تعلق رکھاتھاجو'جیمز بے' میں رہتا تھا۔ فرانسیسی حملہ آوروں نے اسے ' کیرسٹی نون' کا نام دیا جو بگڑتے بگڑتے 'کری ' بن گیا۔ یہ دریاؤں کے قریب آباد ہوگیا۔ زیادہ تر آبادی دریائے ہڈسن تک پھیلی ہوئی تھی۔ برطانیہ، امریکہ ، کینیڈا اور سکاٹ لینڈمیں  بھی اس قبیلے کو کری کہا جاتا ہے  ۔ موجودہ دور میں ان کی 42فیصد آبادی البرٹا میں ہے۔انہیں کری فرسٹ نیشن کہا جاتا ہے۔تھوڑے بہت کینیڈاکے مینی  ٹو با اور ایلگون کویئن اور ایسینبی اون  علاقوں میں بھی آباد ہیں۔ ان کی ناکیں نوکدار اور چپٹی ہوتی ہیں۔ بہت سخت جان ہیں۔  ان کا رنگ پیلا ہے۔میٹیس ریڈ انڈین  کا رنگ  سفید ہے کیونکہ ریڈ انڈین میں گورا خون بھی شامل ہوتا ہے۔

.

 

Rudy Wiebe

( ۔1934)

Canada

 

حالات زندگی

روڈی ویب کینیڈا کے صوبہ سیسکیچوان  کے شہر فئیر ہوم کے قریب ایک فارم ہاؤس میں 4 اکتوبر 1934   کو پیدا ہوا۔ اس کے والدین  روس سے 1930 میں ہجرت کرکے سیسکیچوان آ بسے تھے۔ وہ زمانہ جس میں وہ پیدا ہوا  (1939-1929)  کساد بازاری کا دور تھا۔صنعتی ممالک میں اقتصادی بد حالی تھی۔ اتنے برے حالات ان ممالک کےاس سے پہلے کبھی بھی نہ ہوئے تھے۔ بھوک ننگ ، بے روز گاری اور بیماری عام تھی۔اگر ان علاقوں میں کوئی شئے ترقی کر رہی تھی تو وہ صرف ہالی وڈفلم انڈسٹری تھی۔ریڈیو اس  کے بچپن میں واحد تفریحی ذریعہ ابلاغ تھا ۔  روڈی اس خاموش نسل کا حصہ تھا۔اس نے 1956  میں انگریزی ادب میں یونیورسٹی آف البرٹا سے بی۔اے( انگریزی ادب)  ایم ۔ اےتخلیقی تحریر انگریزی  960میں یونیورسٹی آف ٹوبیجن سے کیا۔اس نے تخلیقی تحریر اور انگریزی ادب گوشن یونیورسٹی میں پڑھایا اور1967 سے وہ انگریزی کا البرٹا یونیورسٹی میں پروفیسر رہا  ۔ 1992سے وہ اس یونیورسٹی کا  ممتاز فاضل پروفیسر ( پروفیسر لاریئیٹ ) ہے۔ 1973اور 1994  میں اسے  گورنر جنرل ایوارڈ فار انگلش لینگوایج  اور  2000  میں انگریزی افسانہ نگاری میں  کینیڈا کا بسب سےبڑا اعزاز آرڈر آف کینیڈا دیا گیا۔ اس کا ہم عصر کینیڈین ادیب 'سٹیفن لی کاک'ہے۔   

روڈی آبائی قبائل( ریڈ انڈین ) کا جوشمالی امریکہ کے اصلی باشندے ہیں اورآج بھی کسمپرسی کے عالم میں شدیدسردی میں زندگی گزار رہے ہیں کی فلاح و بہبود کے بارے میں آواز اٹھانے والا ادیب ہے۔جن علاقوں میں یہ بسے ہیں وہاں حالات انتہائی دشوار گزار ہیں۔سردیوں میں درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سنٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اوربعض اوقت تو  میٹرآدھے میٹرکے حساب سے برف پڑتی ہے ،کے حق میں آواز بلند کرنے والا ادیب ہے۔مقامی آبادی (ریڈ انڈین) تعلیم اور اقتصادی ترقی میں  ییچھے رہ گئی ہےجس کی ایک وجہ تو حکومتی سرد مہری ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے حال میں خوش ہیں۔ویسے بھی ترقی یافتہ ممالک نے دنیا بھر کے ہنر منوں اور با صلاحیت لوگوں کو اپنے ہاں بلا لیا ہے  جو ان کی اقتصادی ترقی کا باعث بنے ہیں خصوصاً امریکہ اور کینیڈا میں تو ان ممالک کی ترقی میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

روڈی ترقی پسند ادیب ہے ۔ اس نے ظالموں  اور جبر و استبداد کے خلاف آواز اٹھائی     ہے۔ اس نے اپنی ابتدائی تصانیف میں مینونائیٹ  انڈین قبیلے کے ورثے  اور اقلیتی  طبقات کے بارے میں لکھا ۔اس نے اپنے ناول( 1962) Peace Shall Destroy Many‘ (1966)  First and Vital Candle اور Blue  Mountain of China The  ( 1970 )  میں  ان لوگوں کی حالت زار  تفصیل سے بیان کی ۔ ان کی حمائت کی اور ان کی پس ماندگی دور کرنے کے لئے آواز اٹھائی۔

ویب نے آبائی آبادی  کے مسائل اور ان کے ہیروؤں کے بارے میں لکھا۔اس نے ایک کتاب(1973 ) The Temptation of Bear اور  ( 1977 )  The Scorched Wood اور Mad Trapper (1980 ) لکھیں۔ ان تمام تصانیف کے موضوعات آبائی باشندوں  ریڈ  انڈین کے مسائل تھے۔  

ویب کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اس کی کچھ کتب پر ناقدانہ  تبصرہ ایک مشہور کینیڈین ادیب ڈبلیو جے کیتھرائن  نے(1977) Weibe’s Heroes  لکھی۔  اس کے علاوہ اس کی تصانیف میں Big Bear   اور  Louis Riel  بھی ہے جنہیں  نکتہ چینوں نےکم مثبت کہا ہے۔ اس کی ایک تصنیف The Lovely Enemy (1983)میں اس کا رجحان معمول سے ہٹ کر نظر آتا ہے۔ جس میں مخلوق اور ربانیت کے موضوع پر لکھا گیا ہے۔  

اس  کے افسانوں کی بھی  کئی  کتب ہیں۔جن کے نام From Where Is The Voice Coming (1973)   ;      (1979) ; ۔Angle of theTar    Alberta C    Sands and Other Stories( 1982 ہیں۔  اس کے علاوہ اس نے بہت سے افسانوں کی تدوین بھی کی ہے۔ وہ اعلیٰ اخلاقیات کو فروغ دینے والا مصنف ہے اور مختلف نا انصافیوں کے بارے میں ان کی زبان میں بیان کرتا ہے اور دستاویزات کی مدد سے ان کی تشریح بھی کرتا ہے۔ اس لئے اس کے افسانوں کو بہت سی آوازوں کو پیش کرنے والا ادیب بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اس وقت 86 سال کا ہے اور اگر  مزید زندہ رہا تو  14 اکتوبر 2021 کو اس کی 87  ویں سالگرہ منائی جائے گی۔ وہ کینیڈین ادب کا سرمایہ ہے۔

 

 

 

 

 

 

Popular posts from this blog