سدابہار فرشتے ( By Suzanne Wynn ....1st Episode Katie's Forever Angels ) پہلی قسط

 




سدا بہار فرشتے(ناول)پہلی قسط
Forever Angels
Suzzanne Weyn
(1955 -) USA
مترجم:غلام محی الدین
حالات زندگی سوزین ون
سوزین ون 1955میں لانگ آئی لینڈ نیو یارک پیدا ہوئی۔ اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ اس نے نیساؤ کمیونٹی یونیورسٹی اور سنی یونیورسٹی بن گھم ٹن سے انگریزی ادب میں ڈگری اور بالغوں کی تعلیم و تدریس میں ماسٹرز ڈگری پیس (Pace University) یونیورسٹی سے حاصل کی۔ وہ نیویارک یونیورسٹی اور سٹی کالج نیو یارک میں پڑھاتی رہی۔
سوزین کی وجہ شہرت بچوں اوربالغوں کے اخلاقی اور نموئی مسائل کو دلچسپ انداز میں بیان کرنا ہے۔ اس کے ناولوں اور افسانوں میں ایسا تخیل پایا جاتا ہے جو بچوں اور بالغوں کی روز مرہ الجھنوں کو اجاگر کرکے ان کا حل بیان کرتی ہے۔اس کی تصانیف کی اہمیت کی وجہ سے اس کی تصانیف طلباء اور طالبات کی رہنمائی کے لئے سکولوں اور کالجوں میں رکھی جانے والی کتب میں سرکاری سطح پر منظور کی گئی ہیں۔ اس نے پچاس سے زیادہ ناول لکھے ہیں اور آج کل نیو یارک میں مزید ایسے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔ اس کو کئی ادبی انعامات سے نوازا گیا۔ اس کے اہم ناولوں میں اہم درج ذیل ہیں۔
The Bar Code Tattoo
The Bar Code Rebellion
The Bar Code Prophesy
Distant Waves
The Crimson Thread
The Invisible World
A novel of Salem Witch with Trial
Empty
کیٹی کے فرشتے اس کا ایک ایسا ناول ہے جس میں نوبالغوں کےکردار کی نشان دہی کی گئی ہے۔
والدین کی وفات
کیٹی ایک بڑے شہر میں بڑے مزے سے رہ رہی تھی۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولادتھی۔ اس کی والدہ اوروالد تعلیم کے شعبہ سے منسلک تھے اور کالج میں ٹیچر تھے۔ اس کے گھر کا ماحول عمدہ تھا۔تعلقات انتہائی دوستانہ تھے۔ وہ ُاسے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور ہر موضوع پر دلائل سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ ان کے پڑوسیوں سے بھی عمدہ تعلقات تھے۔ پڑوس کی ایک ہم عمر بچی مونیکا اس کی گہری سہیلی تھی، وہ زیادہ تر اکٹھی رہتی تھیں۔وہ دونوں ساتویں جماعت میں تھیں اور ایک ہی سکول جاتی تھیں۔ چھ ہفتے قبل اس کے والدین کو کہیں جانا پڑ گیا۔ وہ اسے اس کی دوست مونیکا کے پاس چھوڑ گئے۔ وہ ایک ہفتے کے لئے کسی سرکاری کام پر جا رہے تھے۔ اسے ساتھ نہ لے گئے تاکہ اس کی تعلیم کاحرج نا ہو۔ جاتے ہوئے انہوں نے کیٹی کو جی بھر کر پیار کیا۔ ایک ہفتے بعد وہ اپنے گھر واپس آ رہے تھے کہ ایک ٹرک نے ان کی جانیں لے لیں۔
کیٹی صدمے سے بے حال تھی۔اس کے ننہالی رشتے دار اسے اپنے پاس اپنے قصبے ُ پائن ِرج ُ لے آئے۔اس کی سرپرست اب اسکی سوتیلی خالہ جس کا نا م ُ رینی ُ تھی۔ اس کی خالہ اور اس کی ماں کا باپ ایک ہی تھالیکن اس کے نانا نے دوسری شادی کر لی تھی جس سے رینی پیدا ہوئی۔
نئی جگہ اس کے لئے مشکل لگ رہی تھی۔ ایک تو اس کو والدین کے چھوٹ جانے کا غم اور دوسری طرف سکول کا نیا ماحول! سب کچھ بدلابدلاتھا۔اسے اچھی طرح علم تھا کہ سکول میں جب کوئی نیا سٹوڈنٹ داخل ہوتا تھاتوکلاس فیلو اور دوسرے لوگ اسکی ُگڈی لگاتے تھےاورجینا حرام کر دیتے تھے۔ ان سے نپٹنے کےلئے اس نےمن ہی من میں ایک ترکیب اپنائی۔ اس نے سوچا کہ اپنی درگت لگوانے کی بجائے اپنا دفاع کرنے کی بجائے جارحانہ رویہ اپنایا جائے۔ اُس نےتلنگی اور کن پٹٹی کا روپ اپنالیا۔ جو بد قماش لوگوں کا ہوتاہے۔ اس نے لباس اسی انداز میں پہننا شروع کر دیا اور اکھڑ مزاجی سے دوسروں کوڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ اُس نے باقی ہم جماعتوں پر رعب جمانے کے لئے اور خود کو اکھڑمزاج ظاہر کرنے کے لئے اس طرح کا لباس پہنا اور سگریٹ کی ڈبیا اور ماچس اپنے پاس رکھ لی اور ظاہر کیا کہ وہ بدمعاش ہے۔ در حقیقت وہ بہت اچھی لڑکی تھی اور گمراہ طلباوطالبات کو برا سمجھتی تھی۔ اس کے ماہی منڈا بننے کا اثر یہ ہواکہ سکول کے بچے اس کے حلیے اور رویے سے مرعوب ہو کر اس سے پنگا نہیں لیتے تھے ماسوائے ایک کلاس فیلو کے جس کا نام ڈیرن ٹائی سن تھا اور اس کے والدین چین سے ہجرت کرکے امرکہ آباد ہوگئے تھے۔آئے جو کہ کلاس کا غنڈا تھا وہ اونچا لمبا تھا اورتمام کلاس کو ڈراتا دھمکاتا رہتا تھا۔جس کے والدین چین سے آکر امریکہ آباد ہو گئے تھے۔
کیٹی اپنے گھر کے ماحول سے بھی نالاں تھی جہاں وہ اپنی سوتیلی خالہ 'رینی' خالو اور ان کے بیس سالہ ہونق بیٹے ُ میل ون ُسے مطابقت نہیں کر پا رہی تھی۔ خالہ تو اسے کسی حد تک پسند کرتی تھی لیکن خالو اسے گھر پر بوجھ تصور کرتا تھا لیکن بیوی کی بدولت اسے برداشت کر رہا تھا۔ وہ کیٹی کو مالی بوجھ تصور کرتا تھا جبکہ اس کا کزن ناپختہ ذہن کا مالک تھا۔وہ ٹی وی پر وڈیو گیمز اور ریسلنگ دیکھنے میں ہی مصروف رہتا۔ کیٹی نے ا سلئے کہ چونکہ اس نے وہاں رہنا تھا، سے خوشگوار مراسم قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے لفٹ نہ کرائی۔ خالہ پارلر میں بھی کام کرتی تھی اور دن بھر اس کے کانوں پر ریسیور رہتا اور وہ باتیں کرتی رہتی۔ وہ تازہ کھانا نہیں بناتی تھی بلکہ برتنوں میں بند ڈبی والا کھانا استعمال کیا کرتی تھی جس سے کیٹی کو نفرت تھی۔
کیٹی سکول آنے جانے کے لئے بس استعمال کرتی تھی۔ بس سٹاپ اس کے گھر سے کوئی دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا جہاں سے وہ بس پکڑتی اور اترتی۔ اسی بس میں اس کے کئی کلاس فیلو بھی سفر کرتے تھے جن میں ڈیرن،ا یشلی اور کرسٹینا تھا، بھی تھیں۔ کرسٹینا ایسی لڑکی تھی جس کو یقین تھا کہ خدا نے اسے الہامی بصیرت سے نوازا ہوا تھا اور وہ مستقبل کے بارے میں صحیح پیشین گوئی کرسکتی تھی۔عالم ارواح تک اپنا پیغام پہنچا سکتی تھی جب کہ لوگ اس کی اس خصوصیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔وہ علم الاعدادمیں بھی بہت دلچسپی لیتی تھی اوراس کے قیافے اکثر درست ہوتے تھے۔
سکول سے واپسی پر بس میں کیٹی اور ڈیرن میں لفظی جنگ ہو رہی تھی۔ باہر تیز ژالہ بازی ہو رہی تھی۔
یقینا!تم جیسے گندے ذہن والے شخص کے ایسے ہی واہیات خیالات ہو سکتے ہیں مینڈک کی شکل والے انسان۔ کیٹی نے ڈیرن کو پیچھے مڑ کر بیٹھی ہوئی لڑکی کے کندھے کے اوپرسے کہا۔
تم کس کو گالیاں دے رہی ہو چڑیل؟ ڈیرن نے پاؤں پٹخاتے ہوئے غصے سے کہا۔
کند ذہن لڑکے! کان کھول کر سن لو میں اپنی سیٹ کسی سے نہیں بدلنے جا رہی۔ کیٹی نے بغیر مڑے کہا۔
اے نئی لڑکی! میری بات دھیان سے سن لو!کوئی شخص بھی اس جگہ پر جہاں تم بیٹھی ہو میری اجازت کے بغیر نہیں بیٹھ سکتا۔ڈیرن نے اپنی آواز میں وزن پیدا کرتے ہوئے کہا۔
اوہ ہو! اپنی ٹیں ٹیں بند کرو۔کیٹی نے اس کی طرف نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ میں وہاں بیٹھوں گی جہاں میرا دل چاہے گا۔بس تمہارے باپ کی نہیں ہے۔ تم خدائی فوجدار نہیں ہو۔
بس ایک سٹاپ پر رکھی۔ کیٹی نتھنے سکوڑتے ہوئے بس کا ڈنڈا پکڑ کر آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگی تو بس ڈرائیور نے کہا، جلدی کرو۔ میں ساری عمر اس سٹاپ پر نہیں رک سکتا۔کیٹی دروازے پر رک کر قہر آلود نظروں سے ڈیرن کی طرف دیکھا اور اتر گئی۔ شدید ژالہ باری ہو رہی تھی۔ ایک اولے کا سائز بجری کے ایک پتھر جتنا موٹا تھا۔ اس نے اس وقت ایک پتلی سی جیکٹ پہن رکھی تھی جو باہر کی سردی کے لئے ناکافی تھی۔ جس جگہ اتری وہاں کافی تعداد میں درخت تھے۔ وہ ایک گھنے درخت کے نیچے کھڑی ہوگئی۔ اس نے سگریٹ کی ڈبیا جیب سے نکالی اور سمجھا کہ یہ جگہ سگریٹ پینے کے لئے بہترین ہے اس نے سگریٹ سلگا ئی۔ اس سے پہلے اس نے کبھی سگریٹ نہیں پیا تھا۔
وہ ڈیرن کے متعلق سوچنے لگی کہ وہ اسے نیچا دکھانے میں ابھی تک ناکام تھی۔ وہ جسامت میں تمام کلاس سے قد آور تھا اس لئے وہ اس کے مقابلہ پر اترآتا تھا۔ وہ بھی سمجھتا تھا کہ تمام سکول اس کا زیر اثرہے۔ وہ درخت کے نیچے کھڑی تھی۔ ژالہ باری جاری تھی کہ اس نے جنگل کے دائیں طرف تقریباً تین میٹر کے فاصلے پر ایک دائرہ دیکھا جس میں ارد گرد ماحول سے زیادہ روشنی جھلک رہی تھی۔ وہ دائرہ ساکن تھا اور اس میں اولے نہیں گررہے تھے، اگر اس میں کوئی حرکت محسوس ہو رہی تھی تو وہ سورج کی کرنیں تھیں جو گھنے درختوں میں سے چھن چھن کر آرہی تھیں۔ آس پاس کوئی ذی روح نہیں تھی۔ اسے ایسا لگا کہ کہیں سے کوئی آواز آئی تھی۔ اُس نے چوکنا ہو کر ادھر اُدھر دیکھا کہ وہ آواز کیسی تھی اور کدھر سے آرہی تھی؟ اس نے ایک دائرہ نظر آیا۔نجانے کیوں اس کے قدم اُس پراسرار دائرے کی طرف بڑھنے لگے۔ وہ اس دائرے کے اندر داخل ہوئی تو اس پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہوگئی۔ اس کے ذہن پر جو کھچاؤ تھا وہ یک دم ختم ہو گیا۔ اس نے محسوس ہواکہ وہ اس دائرے میں اکیلی نہیں تھی۔ وہ کسی روحانی قوت پر بالکل یقین نہیں رکھتی تھی لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس دائرے کے اندر تمام جذبات حقیقی تھے اورحیران کن تھے۔ اس کے منہ سے بے اختیار آواز نکلی۔
ماں! ماں! کیا یہ تم ہو؟ کیا تم وہاں ہو؟
اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس نے ماں کا نام کیوں لیا؟ وہ حیران تھی۔ اس نے کبھی یہ نہ سوچا تھا اور نہ ہی ماں کا نام لینے کا ارادہ کیا تھا۔ یہ سب بے اختیار وجد کی حالت میں اس کے منہ سے ادا ہوا تھا۔ وہ اس دائرے میں آہستہ آہستہ گھومنے لگی۔ ماں! ابو! کیا یہ تم ہو؟ ان دونوں میں کوئی ایک ہو سکتا تھا۔ یہ سوچ کر اس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کا ذہن تاریک گوشے میں تھا کہ کسی نہ کسی انداز میں وہ کبھی اپنے والدین کو ضرور پالے گی اور یہ کہ وہ اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے غائب نہیں ہوئے۔ وہ سانس لینا بھول گئی۔ اس کو یقین تھا کہ اس کی بات کا جواب ضرور ملے گا۔ اگر وہ وہاں ہیں تو اس کا اظہار کیوں نہیں کرتے؟ جواب کیوں نہیں دیتے؟ کوئی نشانی کیوں نہیں دکھاتے؟
براہِ مہربانی۔۔۔اس نے ہچکی لیتے ہوئے کہا لیکن کوئی نشانی ظاہر نہ ہوئی۔ کیٹی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ جی بھر کر رونے لگی۔ وہ والدین کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی تھی اس لئے گڑ گڑا کر انہیں بلا رہی تھی لیکن وہ واپس نہ آئے۔ اس نے سوچا کہ وہ کتنی بیوقوف تھی کہ اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس کے والدین وہاں موجود تھے۔ وہ اس دائرے سے نکل کر اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ اولے اسی طرح پڑ رہے تھے۔ اس نے اپنا بیگ سر پر رکھ کر بھاگنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ اپنے گھر پہنچ گئی۔ اس کی خالہ کا گھر خستہ حالت میں تھا۔ اس گھر کا رنگ سفید تھا۔ اُس وقت اس کی خالہ، خالو اور کزن گھر پر نہ تھے۔ وہ سیدھا گیراج میں گئی جو کباڑ خانے سے بھرا تھا،کا جائزہ لینے لگی۔ اس میں ٹوٹی ہوئی ایسی اشیاء نظر آئیں جو ماضی میں خوبصورت رہی ہوں گی جس میں ایک ایسی خوبصورت کھدی ہوئی لکڑی بھی ملی جس پر ( Angels Crossing Bridge ) لکھا تھا۔ اتنے میں اس کو میاؤں کی آواز آئی۔ اسے جانوروں سے بے حد محبت تھی۔ اس نے گیراج میں بلی کو ڈھونڈ لیا۔ وہ گیراج کے ایک کونے میں لکڑیوں کے نیچے بیٹھی تھی۔ اس کے پاس پانچ نومولود بچے تھے۔ اس نے ایک بچے کو اٹھا لیا اور پیار کرنے لگی پھر اسے واپس رکھ دیا۔ اسے یاد آیا کہ جب وہ سات سال کی تھی تو وہ اپنے گھر کے باہر کھڑی ہوئی تھی کہ اس نے عین سڑک میں (بلی کا بچہ )بلونگڑا آہستہ آہستہ جا تے دیکھا تھا۔ اس نے اُس کی طرف ایک کار تیزی سے آتے ہوئے دیکھاور بلی کے بلونگڑے (بچے) کو بچانے کے لئے وہ سڑک کی طرف دوڑی۔ وہ کار اُن کو کچلنے سے بمشکل آدھے فٹ کے فاصلے پر تھی کہ ایک عورت تیزی سے آئی اور انہیں اٹھا کر سڑک پار کروا دی۔ اگر وہ عورت ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر ہوتی تو و ہ دونوں مر چکے ہوتے۔ اس نے اس خاتون کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ جانے وہکہاں سے آئی تھی اور فوراً ہی کہاں غائب ہو گئی تھی؟ اس کے ماں باپ اور محلہ داروں نے سوچا کہ وہ کوئی فرشتہ رہی ہوگی لیکن وہ ان باتوں پر یقین نہیں کرتی تھی۔ ابھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ ایک آواز سے چونک پڑی۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ یہ اس کا خالو'جیف' تھا۔
کیٹی نے گھبرا کر جواب دیا،سکول سے آکر ذرا گیراج کا جائزہ لے رہی تھی۔
یہ کباڑ خانہ ہے اور گندا ہے۔ جاؤ اور اپنی خالہ کا ہاتھ بٹاؤ۔
گیراج میں ایک بلی نے پانچ بے حد خوبصورت بلونگڑے (بچے )دیئے ہیں،.کیٹی نے بتایا۔
اوہ! یہ بلی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ میں ان کو کچھ روز بعد ندی میں ڈبو کران سے خلاصی حاصل کرلوں گا،خالو بولا
میں ان کے لئے گھر تلاش کروں گی۔ مجھے امید ہے کہ سکول کے کئی لوگ ان کو پالتو بنانے کی خواہش رکھیں گے، کیٹی نے کہا۔
اچھا، کوشش کرکے دیکھ لو، خالو نے کہا۔۔ جاؤ اور اپنی خالہ کی مدد کرو۔
کیٹی کی خالہ بہت پھوہڑ عورت تھی۔ اس کے والدین کی فوتگی کے بعد وہ اسے اپنے ہاں لے آئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ خون تو خون ہی ہوتا ہے۔ وہ اسے کسی دوسرے کے پاس نہیں جانے دے گی اور نہ ہی اسے یتیم خانے میں بھیجے گی بلکہ اپنے پاس رکھے گی۔
جی اچھا! کہہ کر وہ اٹھی وہ سوچنے لگی کہ آج بھی اس کی خالہ ڈبوں والا کھانا بنا رہی ہوگی۔ وہ فروزن کھانے کھا کھا کر تنگ آگئی تھی۔ اس علاقے میں بہت زیادہ فارم تھے لیکن پھر بھی لوگ ڈبے والے کھانے کھاتے تھے۔ وہ حیران تھی کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی ماں ہمیشہ تازہ کھانا بنایا کرتی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ فروزن کھانے میں صر ف کیمیکل، مرچ اور مصالحے ہوتے ہیں جبکہ ان میں کوئی غذائیت نہیں ہوتی۔ اس کی ماں ہمیشہ تازہ کھانا بنایا کرتی تھی۔ وہ گھر داخل ہوئی تو حسبِ توقع کچن میں جما ہوا گوشت ہی چولہے پر رکھا تھا۔
خالہ اپنی موٹی ٹانگیں ایک دوسرے پر رکھ کر اپنے کانوں سے فون لگا کر باتیں کر رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس نے فون والی کو یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ جمعے کو وہ اس سے پارلر میں ملے گی۔
تمہارا دن کیسا رہا؟ سکول کیسا رہا؟ خالہ نے پوچھا۔
ٹھیک رہا۔کیٹی نے جواب دیا۔
تم ژالہ باری میں پھنس تو نہیں گئی تھی؟
ہاں!
اوہ!اس علاقے میں ان دنوں خوب ژالہ باری ہوتی ہے۔ احتیاط کرنا۔ چلو اب دستر خوان چن دو۔
اچھا۔
کیٹی نے اپنی ماں سے خالہ کا موازنہ کیا۔ اس کی ماں بہت سگھڑ اور خوبصورت تھی۔ وہ کالج میں پڑھاتی تھی۔ ہر وقت پڑھتی رہتی تھی اور بہت پیار کرنے والی تھی جبکہ خالہ کا کام فون پر ہر وقت باتیں کرنا اور گانے سننا تھا۔
تم نے کیٹی کے بارے میں کیا کہا تھا کہ اسے کوئی کام کرنا چاہیے؟ خالہ نے خالو سے پوچھا۔
اکیلی بیٹھی رہتی ہے۔ ابھی گیراج میں اکیلی تھی اور وقت ضائع کر رہی تھی۔ گھر میں کھانے والا ایک اور آگیا ہے۔ اس طرح کم از کم اپنا خرچہ تو اٹھا لے گی، خالو نے جواب دیا۔
میں ابھی اس بارے میں ایسا نہیں سوچ رہی، خالہ نے کہا
خالہ نے کھانا پکایا اور کیٹی نے دستر خوان چن دیا۔ اتنے میں اس کا کزن بھی آپہنچا جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ پچھلے ہفتے اس سے کیٹی نے گھلنے ملنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے سرد مہری دکھائی توکیٹی نے بھی اسے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ فروزن ڈبے کا کھانا دیکھ کر اس کی بھوک مٹ گئی اور اپنے کمرے میں آگئی جو بالائی منزل پر تھا۔ یہ کمرہ اسے بہت برا لگتا تھا۔ اس کی دیواروں پر پھٹے پرانے اور گندے وال پیپر لگے تھے۔ اس نے اپنا بستہ کھولا اور کاغذ پنسل نکال کر اپنی پرانی پڑوسن اور سہیلی مونیکا کو خط لکھنے بیٹھ گئی َ ُ میں اب بھی اپنا دوست سمجھتی ہوں۔ تم تیرہ سال کی ہو گئی ہو۔ بچگانہ باتیں چھوڑ دو۔تم میرے خط کے جواب میں ڈرنی لینڈ کا یا کسی عمارت کا کارڈ بھیج دیتی ہو۔ تم مجھے اپنے ہاتھ سے خط لکھا کرو، اگر تم نے اس خط کا جواب نہ دیا تو پھر میں کبھی تمہیں خط نہیں لکھوں گی۔ تمہاری دوست ’کیٹی ُ۔وہ ابھی کچھ اور بھی لکھنا چاہتی تھی اس لئے اس نے روزنامچہ والی ڈالی نکالی اور لکھنا شروع کیا۔
ہاں۔ کیٹی بولی۔
کیٹی نے ان پانچ بچوں کی فوٹو لی اور اگلے روز سکول لے ٓئی۔اس نے وہ فوٹو کلاس فیلوز کو دکھائی اور پیشکش کی کہ وہ انہیں گھر دلانے کے لئے لائی ہے۔
وہ سب پیارے اور خوبصورت ہیں لیکن میں اسے نہیں لے سکتی کیونکہ میرے باپ کو ان سے الرجی ہے۔ایک نے کہا۔
ڈیرن نے ان کا فوٹو لیا کہا کہ وہ پانچوں لے لے گا اور ان کو سینڈوچ میں ڈال کر کھائے گا۔
کیٹی یہ سن کر لرز گئی۔ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ انہیں کھایا بھی جا سکتا ہےاور کہا بکواس بند کرہ۔
اگر تم مرغ کھا سکتی ہو تو بلی بھی کھا سکتی ہو۔ وہ بھی ایک جانور ہے۔ ہم چینی تو ان کو مزے سے کھاتے ہیں۔ میں مذاق نہیں کر رہا، سچ بات ہے۔ یہ بہت پیارے ضرور ہیں لیکن سب ان کو شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ تم جو کھانا ہوٹل میں کھاتے ہو، ان مین بلیاں بھی بطور ڈش ہوتی ہیں۔
کیٹی یہ سن کر کانپ اٹھی اواس نے ر تہیہ کیا کہ وہ کوئی بلونگڑا ڈیرن کو کبھی نہیں دے گی۔
وہ فوٹو مجھے واپس دے دو۔کیٹی نے سختی سے کہا۔
نہیں اجنبی لڑکی۔۔۔ میں نے یہ سب لینے ہیں، ڈیرن بولا۔
اسے واپس کرو۔ ذلیل کمینے۔کیٹی نے غصے سے کہا۔
تم نے مجھے گالی کیوں دی؟ ڈیرن بولا۔
تم نے مجھے سن لیا ہے۔ تم اتنے گھٹیا کیوں ہو؟ فوٹو واپس کیوں نہیں کرتے؟ کیٹی نے پوچھا۔
تو اب میں گھٹیا بھی ہو گیا ہوں۔ شکریہ، ڈیرن نے کہا۔
ڈیرن تمہارے بوٹوں پر کیا پڑا ہے؟ ایک کلاس فیلو ایشلی نے پوچھا۔ ڈیرن نے اپنے بوٹوں کی طرف دیکھا تو ایشلی نے جھپٹا مارا اور فوٹو چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ فرش پر گر پڑا۔ کیٹی ایشلی کی مدد کے لئے ممنون تھی۔
میں سب بچے نہیں چاہتا بلکہ ایک چاہتا ہوں۔ میں اس کو سینڈوچ میں رکھ کر کھاؤں گا۔ میں یہ فوٹو تمہیں ہر گز نہیں دوں گا۔ اس نے کمرے کی کھڑکی کھولی اور فوٹو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
کیٹی کو بے حد غصہ آیا۔ یہ تم نے کیوں کیا؟
میں نے تمہیں کہا تھا کہ اگر تم نے مجھے بلونگڑا( بلی کا بچہ) نہ دیا تو میں فوٹو کھڑکی سے باہر پھینک دوں گا۔ تم اب کچھ نہیں کر سکتی۔ڈیرن نے جواب دیا۔
فوٹو پھینکنا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن وہ اپنی اس طرح سے بے عزتی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ فوٹو تو وہ ایک اور لے لے گی لیکن وہ ڈیر ن سے بدلہ ضرور لے گی، کیٹی نے سوچا۔فوٹو باہر جھاڑی میں جا کر اڑ گیا تھا جسے وہ کھڑکی پھلانگ کر حاصل کر سکتی تھی لیکن کلاس روم سے باہر کے لان میں کود کر جانا منع تھا۔ اس نے سوچاکہ ابھی ٹیچر نہیں آئی، وہ فوٹو ساتھ ہی تو پڑا ہے، اسے لے کر ٹیچر کے آنے سے پہلے اندر آجائے گی اور کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔
تم یہ باہر سے لینے کے لئے نہیں جا رہی۔ تم مشکل میں پھنس جاؤ گی، ڈیرن بولا۔ایک اور ہم جماعت بولا۔باہر بہت سردی ہے۔ اب ہر کوئی اس فوٹو میں دلچسپی لے رہا تھا۔ ایشلی نے کہا تم فوراً کھڑکی سے کود کر فوٹو واپس لے آؤ جبکہ وہ کمرے پر نظر رکھتی ہے ٹیچر آنے سے پہلے میں اسے بتا دے گی اور تم اس سے پہلے پہلے کمرے میں واپس آجانا۔
کیٹی کھڑکی کود کر باہر گئی، فوٹو اٹھایا اور کھڑکی سے اندر آنے لگی تو اس کی جین کا ایک پائینچہ گھٹنے سے نیچے تک کسی چیز میں پھنس گیا.ایشلی نے ٹیچر کو آتے دیکھا تو کیٹی کو کہا کہ فوراً اندر آجائے۔
میں اندر نہیں آسکتی میرا پاؤں کسی چیز میں پھنس گیا ہے، کیٹی بولی۔
تو اسے چھڑا کر واپس آجاؤ، ایشلی بولی۔کیٹی نے دیکھا اور بتایا کہ اس کی جین اتنی بری طرح سے پھنسی ہوئی تھی کہ اسے پھاڑے بغیر چھڑایا نہیں جا سکتا تھا۔
ایسا نہ کرو۔ تمہاری جین بہت خوبصورت ہےایشلی بولی۔
پھٹی ہوئی جین ایک فیشن ہے۔ اس نے پورا زور لگایا تو اس کی جین گھٹنے تک پھٹ گئی۔ کلاس کی دوسری لڑکیوں نے کھڑکی کا دروازہ زور سے کھولا اور کھلا رہنے دیا تاکہ وہ اندر آ سکے اور کہا کہ فورا ًاندر آجائے۔ وہ اندر داخل ہوئیتو اتنے میں ٹیچر اندر آچکی تھیجسنے اسے اور ایشلی کو پرنسپل کے پاس بھیج دیاکیٹی نے ایشلی سے پوچھا، پرنسپل میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
کچھ نہیں۔ایشلی نے جواب دیا۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ میرا تو آفس آنا جانا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ جب وہ بول رہی تھی تو اپنے ناخن جو اچھی طرح پالش کئے گئے تھے،دیکھ رہی تھی۔
ا تم سمجھتی ہو کہ حرامی ڈیرن کو کوئی سزا ملے گی؟ کیٹی نے پوچھا
نہیں۔ وہ توکھڑکی سے باہر نہیں کودا تھا۔ ایشلی نے جواب دیا۔
ایشلی اگرچہ اس کی کلاس فیلو تھی لیکن وہ اس کی سہیلی نہیں تھی۔ صرف شکل سے ہی جانتی تھی۔ اس کے حلئے، قیمتی اور خوبصورت لباس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ امیر زادی تھی۔ اس کا ذوقِ لباس بہت عمدہ تھا۔
ڈیرن نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا ہے۔ اس نے تمہیں آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ میرے خیال میں وہ تم کو اس لئے تنگ کرتا ہے کہ وہ تمہیں پسند کرتا ہے، ایشلی نے کہا۔
پلیز۔ یہ کیا کہہ رہی ہو؟ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔کیٹی بولی۔
میں جانتی ہوں کہ تم کیا سوچ رہی ہو؟ کیا تم ڈیرن سے رومان کرنےکا سوچ رہی ہو؟ ایشلی نے مزاحیہ انداز میں پوچھا۔
کیا بات کر رہی ہو؟میں اس پر لعنت بھیجتی ہوں۔کیٹی بولی۔
وہ سیکرٹری کے پاس پہنچیں تو اس نے کہا کہ پرنسپل سے جا کر مل لو۔
یقینا۔ ایشلی نے سیکرٹری کو کہا۔کمرے کے اندر جاتے ہوئے ایشلی نے کیٹی کو کہا کہ مجھے بات کرنے دینا۔
اوکے۔ مجھے اس سکول میں آئے چھ ہفتے ہی ہوئے ہیں اور مجھے پیشی بھگتنا پڑ رہی ہے، کیٹی بولی۔
وہ اندر گئے تو پرنسپل نے ایشلی کو دیکھ کر کہا، ہیلو مس کنگسلی! آج کس سلسلے میں آئی ہو؟
کوئی خاص وجہ نہیں۔ ایشلی درمیانی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔مسٹر مارشل یہ کیٹی ہے۔ اس کے گھر میں بلی کے پانچ بچے ہیں۔ وہ ان کے لئے سرپرست تلاش کر رہی تھی۔ اس کو ڈر تھا کہ اگر کسی نے انہیں نہ اپنایا تو مرجائیں گے۔ ایک لڑکے نے فوٹو باہر پھینک دیا۔ اگر معاملہ فوری نوعیت کا نہ ہوتا تو وہ کھڑکی سے باہر کود کر فوٹو واپس نہ لاتی۔ کمرے میں واپسی کے لئے میں اس کی مدد کر رہی تھی کہ اس کے ساتھ یہ حادثہ پیش آگیا۔
کیا وہ اس کام میں زخمی تو نہیں ہوگئی؟پرنسپل نے فکرمندی سے پوچھا۔
نہیں۔بلکہ جلدی میں اس کی پینٹ پھٹ گئی ہے۔ ٹیچر نے غلط فہمی کی وجہ سے صورت حال کو صحیح نہیں سمجھا۔ اس نے یہ سمجھا کہ شاید ہم لڑ رہے تھے۔اس لئے اس نے یہاں بھیج دیا۔
پرنسپل نے طنزیہ نگاہوں سے دیکھا۔ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں کلاس روم کی کھڑکی پھلانگے۔ہم جانتی ہیں لیکن اس وقت ایمرجنسی کی وجہ سے ہمارا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ ایشلی بولی۔
آگے سےدھیان رکھنا۔پھرکبھی ایسانہ ہوپرنسپل بولا۔
یقینا۔ ایشلی بولی۔ میں آئندہ کیٹی کو کبھی بھی کھڑی سے باہر نہیں کودنے دوں گی۔
میں سمجھ رہا ہوں کہ آئندہ تم ایسے نہیں کرو گی، پرنسپل نے کیٹی کو مخاطب ہو کے کہا۔
ایشلی نے فوٹو پرنسپل کو دکھایااور اس سے پوچھا کیا تم کوئی بچہ لینا پسند کرو گے؟
پرنسپل نے فوٹو دیکھا اور کہا بلی کے سب بچے بہت خوبصورت ہیں۔ میں درمیان والا بچہ لے لوں گا۔ سیکرٹری بھی ان بچوں سے بہت متاثر ہوئی اور ایک بچہ اس نے بھی لینے کا وعدہ کر لیا۔
شکریہ!ایشلی بولی۔
وہ واپس کلاس روم جا رہی تھی تو ایشلی نے کیٹی سے پوچھا کہ کیا تم چھٹی کے بعد میرے فارم ہاؤس چلو گی؟ اس میں بہترین گھوڑے اور دیگر جانور پالے گئے ہیں۔
اوکے۔کیٹی بولی۔گھوڑ سواری سے اسے محبت تھی۔ وہ تھوڑا بہت سواری کرنا جانتی تھی۔ سکول سے چھٹی کے بعد اس نے سکول کے فون سے اپنی خالہ کو فون کیا تو وہ مسلسل مصروف جا رہا تھا۔ اس کی خالہ گھنٹوں فون پر باتیں کرتی رہتی تھی۔ کئی بار کی کوشش کے بعد نہ ملا تو ایشلی نے کہا کے اس کے گھر سے کر لینا۔ کیٹی مان گئی۔
بس سے اتریں تو بس میں سے کرسٹینا جو ساتویں جماعت کے دوسرے سیکشن میں تھی، اتری اور ڈرائیور کے پاس گئی۔ اسے بولی کہ لاٹریخریدتے وقت ذہن میں یہ بات ضرور رکھنا کہ اس ٹکٹ کا نمبر آٹھ پر تقسیم ہو جائے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو اسے یقین تھا کہ اس کی لاٹری نکل آئے گی۔ کرسٹینا ایشلی کے گھر کے قریب ہی رہتی تھی۔ اس کی یہ خوبی خداداد تھی جو روحوں کو اور فرشتوں کو بلا سکتی ہے۔ سڑک کے سب سے آخر میں ایشلی کا فارم ہاؤس آتا تھا۔ اس کے فارم میں پانچ گھوڑے تھے اور ایک گھوڑے کا بچہ جونیئر تھا۔ ہر گھوڑے پر الگ الگ سائیس تھے۔
کیٹی ے تبصرہ کیا کہ ایشلی کا فارم ہاؤس بہت اعلیٰ ہے اور وہ کتنی خوش نصیب ہے جو یہاں رہتی ہے۔
ایشلی نے جواب دیا۔ہاں وہ تو ہے۔ میں چونکہ یہاں پیدا ہوئی تھی اس لئے مجھے یہ جگہ کوئی خاص نہیں لگتی۔
کرسٹینانے کہا۔ہاں یہ جگہ بے شک بہت خاص ہے! میری ماں کہتی ہے کہ اس جگہ پر خاص کرامات پائی جاتی ہیں۔ اس مقام پر مخصوص ارتعاش پایا جاتا ہے جو انسانوں کو توانائی فراہم کرتا رہتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اس کے فارم ہاؤس اور نزدیکی علاقوں میں کئی مقامات ایسے ہیں جو روحانی طاقت کو جلا بخشتے ہیں۔ ان سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے تمہارے اندر خصوصی وصف ہونے چاہئیں جو فطری ہوتے ہیں۔ صرف مخصوص لوگ ہی ان سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے مقامات کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں ارواح پائی جاتی ہیں۔ ان میں خیر پھیلانی والی روحیں بھی ہوتی ہیں اورشر پھیلانے والی بھی۔
جب وہ گفتگو کر رہی تھیں تو کیٹی کو جنگل والا دائرہ یاد آیا جس کے اندر جا کر اس نے طمانیت محسوس کی تھی۔ اس وقت اس نے یہ سمجھا تھا کہ اس کے والدین کی روحیں وہاں موجود تھیں۔
کرسٹینا بولی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ فارم ہاؤس آسیب زدہ ہے۔تو ایشلی نے ذرا اونچی میں انہیں روکا۔ کیٹی نے اپنے گیراج میں ایک پرانی لکڑی پر'پل پر گزرتے فرشتے‘ ( Angels Crossing Bridge ) لکھا دیکھا تھا۔کیاوہ پل یہیں کہیں پر ہے؟
ہاں!وہاں ارواح رہتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہاں فرشتے رہتے ہیں۔
وہ اس پل کو دیکھنا پسند کرے گی۔ کیٹی نے کہا۔
اگر وہ پل پر گئی تو گھوڑ سواری نہیں کرپائے گی، ایشلی بولی۔ اگر پل پر جانا ہے تو ابھی چلے چلتے ہیں کسی اور دن گھوڑ سواری کر لیں گے۔
اتنے میں کرسٹینا کا گھر آگیا اور اُس نے کہا کہ وہ بستہ رکھ کر آتی ہے لیکن ایشلی اور کیٹی چلتی رہیں۔ تھوڑی دور ایشلی کا مکان آگیا۔وہ باتوں میں اتنی مگن تھیں کہ کیٹی کو اپنی خالہ کو فون کرنا یاد نہ رہا۔
ایشلی کے گھر کے پاس جنگل میں ایک ایسا اونچا ڈھانچہ بنا ہوا تھا جس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہ کبھی قربان گاہ رہی تھی۔ ارواح کو خوش کرنے کے لئے یہاں انسانی یا حیوانی جانیں قربان کی جاتی تھیں۔یہ بات بھی مشہورتھی کہ جب کسی روح کو بلانا مقصود ہوتا تو اُس جگہ پر خصوصی ناچ نچایا جاتاتھا۔ اس کی اہمیت ہرکوئی محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ صرف اللہ والے یاایمان والے جن کو خدا نے صلاحیت عطا کی ہوتی تھی، وہی اس کو محسوس کرکے ارواح تک پیغام پہنچا سکتی تھیں۔ کرسٹینا بولی کہ اسے یقین ہے کہ اس مقام پر ارواح موجود ہیں۔
کیا یہاں پر روحیں واقعی موجود ہیں؟ کیٹی نے پوچھا۔
ہاں۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ اس وقت وہ وہاں موجود نہ ہوں۔کرسٹینا بولی۔
میری خواہش ہے کہ میں فرشتے دیکھوں لیکن مجھے فرشتوں کی موجودگی پر بالکل یقین نہیں۔کیٹی بولی۔ تاہم وہ اس طرح کی باتیں کر رہی تھیں۔ جنگل بہت گھنا تھا۔ ابھی سورج غروب ہونے میں کافی وقت تھا۔ سورج کی کرنیں درختوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں۔ ایشلی اور کیٹی چلتے چلتے کافی آگے آگئی تھیں لیکن کرسٹینا پیچھے رہ گئی تھی۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تو کرسٹینا ہاتھ پھیلائے آنکھیں بند کرکے کوئی دعا پڑھ رہی تھی۔ ایسا لگتاہے کہ وہ وہاں کسی قوت کی موجودگی محسوس کر رہی ہے ایشلی بولی۔
یقینا!وہاں بہت زیادہ زندگی ہے۔ میں نے گلہریاں، پرندے، ریکون اوربندر وغیرہ دیکھے ہیں۔کیٹی بولی۔
نہیں!جانوروں کی زندگی نہیں بلکہ روحانی اور ذہین زندگیاں ہیں۔ایشلی نے کہا۔
بندر اور چمپا نزی بھی تو ذہین ہوتے ہیں۔کیٹی نے جواب دیا۔
نہیں وہاں انسانوں کی روحیں ہیں۔ ایشلی بولی۔پھر وہ آگے بڑھ گئیں۔ کرسٹینا بھی ان کے ساتھ آملی۔ اتنے میں انہیں ایک آسیب زدہ مکان نظر آیا۔ ایشلی بولی۔کیا کسی کو پانی کی آواز آ رہی ہے؟
ہاں! باقی دونوں بولیں۔اس مکان کے پیچھے دریا ہے، یہ اس کا شور ہے۔ چلو اس رستے پر چلتے ہیں شاید ہم اس تک پہنچ جائیں،۔ ایشلی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر آگے انہیں پہاڑی کے اس ٹریک پر ایک پرانی اور بہت بڑی عمارت نظر آئی۔ وہ نہ تو کوئی مکان لگتا تھا اور نہ ہی سٹور۔ فلموں میں ایسی عمارت کو آسیب زدہ دکھایا جاتا تھا۔
ایشلی کو یاد آیا کہ کسی نے اسے بتایا تھا کہ اس جگہ پر کان کنی کیجاتی تھی۔ کان کن سینکڑوں کی تعداد میں یہاں کام کرتے تھے۔ آتے جاتے، کھاتے پیتے اور زمین کھودتے تھے۔
کرسٹینا نے کہا۔پھر تو اس عمارت کے اندر جانا چاہیے۔
یہ خطر ناک بھی ہو سکتا ہے۔ ایشلی بولی۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی خونخوار جانور ہو۔ اگر کوئی جانور نہ بھی ہو تو بھی یہ عمارت بہت بھیانک لگ رہی ہے۔ اس کی ساخت عجیب و غریب ہے۔ یہ بھوتوں کا مسکن بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال وہ تینوں اندر چلی گئیں۔ اندر سے تو وہ اور بھی خستہ حال تھی۔ انہیں یہ ڈرتھا کہ کہیں عمارت کی چھت گر نہ جائے لیکن کرسٹینا کی حالت سب سے مختلف تھی۔ وہ جھوم جھوم کر نامعلوم زبان میں ڈانس کرتے ہوئے گانا گاتی آگے چلتی گئی۔ وہ پوری طرح سے مست تھی۔ یکا یک ایک آواز آئی، انہوں نے دیکھا کہ کرسٹینا کا پاؤں کسی چیز میں پھنس گیا تھا۔ انہوں نے قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرش میں درز تھی اور اس کے آگے پلیٹ فارم تھا۔ اس کا پاؤں درز میں پھنسا تو وہ درز کھل گئی تھی اور بڑا سا سور اخبن گیاتھا جس میں وہ گرگئی۔ انہوں نے دیکھا کہ کرسٹینا نیچے لٹک رہی تھی۔ وہاں مکمل تاریکی تھی۔
ایشلی نے پوچھا۔کیسی ہو؟ تو کرسٹینا کی آواز آئی کہ وہ خیریت سے ہے لیکن وہ حرکت نہیں کر سکتی۔
باہر سورج کی روشنی کافی تھی لیکنعمارت کے اندر تھوڑا سا اندھیرا تھا۔ کیٹی نے فرش پر لیٹ کر اس کھوکھلی جگہ کا تفصیلی جائزہ لیا جس میں کرسٹینا گری تھی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ بارہ فٹ گہری غار تھا۔ کرسٹینا ایک لوہے کے ڈنڈے کے ساتھ لٹک رہی تھی۔ اس کے ارد گرد لکڑی کے ستون بنے ہوئے تھے اور ساتھ لکڑی کی سیڑھی بھی تھی۔
کیاتم کسی چیز کو ہلا سکتی ہو؟ کیٹی نے پوچھا۔
ہاں، لیکن میرا دایاں ہاتھ بری طرح زخمی ہے اور بایا ں ہاتھ بھی میں نہیں ہلا سکتی۔کرسٹینا بولی۔
شاید اس کے دونوں ہاتھ ٹوٹ چکے ہیں۔ ایشلی بولی۔ یہ تو تشویشناک صورت حال ہے ہمیں اس کو فوراً باہر نکالنا ہوگا۔ شاید اس جگہ کوئی رسی وغیرہ ہو جو اسے کھینچنے میں مدد دے سکے۔
تم یہیں ٹھہرو۔میں اِدھر اُدھر پھر کر کوئی رسی یا تار تلاش کرتی ہوں۔کیٹی بولی۔
جلدی کرو۔ایشلی نے کہا۔
اس نے ایک تختے کوہلایا تو وہ ہلنے لگا۔ اس میں سے ایک رسی نظر آئی لیکن وہ بہت مخدوش حالت میں تھی اور جگہ جگہ سے گھسی ہو ئی تھی۔ شاید گھسی ہونے کی وجہ سے کان کن اسے وہاں چھوڑ گئے تھے۔اس ٹوٹی ہوئی رسی کو اس نے جوڑا۔ اس کا گول دائرہ بنایا تووہ اتنا لمبا ہو گیا کہ سوراخ سے کرسٹینا کے گھٹنے تک پہنچ سکتا تھا۔ اب اسے کرسٹینا کے پاؤں کے ارد گرد ڈال کر کیسے کسا جائے؟ کیٹی سوچنے لگی۔ایشلی نے اس رسی کی ایسے گرہ لگائی جو پھسل کر اُس کی ٹانگوں میں باندھی جا سکتی تھی۔ اس قسم کی گانٹھ وہ گھوڑوں کے لئے بناتے تھے۔ یہ گانٹھ اس نے سوراخ میں لٹکا دی۔ اس نے کرسٹینا کو کہا کہ وہ اسے اپنی کمرکے ارد گرد کس لے۔ ہم تمہیں اوپر کھینچ لیں گے۔
میں ایسا نہیں کر سکتی، میرے ہاتھ پھنسے ہوئے ہیں! کرسٹینا نے کہا۔
کیا تم اپنی کمر بغیر ہاتھوں کے گھما سکتی ہو؟ ایشلی نے پوچھا۔
نہیں۔کرسٹینا بولی۔
فکر نہ کرو۔ ہم تمہیں باہر نکال لیں گے۔ایشلی نے کہا لیکن وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی۔ ایشلی نے فرش پر لیٹ کر غار کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ اس کا دائیاں ہاتھ ٹوٹا ہو ا تھااور بایاں ہاتھ کسی چیز میں پھنسا ہوا تھا۔ مجھے نیچے جانا ہوگا اور اس کے بازو آزاد کرنا ہوں گے۔ ایشلی نے خود سے کہا۔ میں نیچے جاتی ہوں اور تم اوپر کھڑی رہو۔
ٹھیک ہے۔ کیٹی نے سر ہلایا۔ اس نے سوچا کہ وہ ایشلی اور کرسٹینا سے لمبی اورطاقتور تھی اور یقیناً ان کا وزن اٹھا سکے گی۔ اس نے رسی کو اپنی کمر سے باندھ لیا اور سوراخ سے تین فٹ دور پاؤں پھیلا کر کھڑی ہوگئی تاکہ وہ ان کے وزن کو سہار سکے اور اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور ایشلی کو ’تیار ہوں‘ بول دیا۔
ایشلی آہستہ آہستہ سوراخ میں اتری۔ اس کے کندھے دھیرے دھیرے نیچے جاتے گئے۔ اس کے وزن سے کیٹی کے پاؤں ذرا سااکھڑے اور اس نے ایشلی کی چیخ سنی۔ کیٹی نے لڑکھڑاتے ہوئے خود کو سنبھال لیا۔ اپنا پورا جسم پیچھے کی طرف کر لیا تاکہ ایشلی کے بوجھ کو برداشت کر سکے۔ اس نے رسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ٹوٹنا نہیں جیسے کہ وہ کوئی جاندار چیز ہو۔ یکا یک کیٹی نے محسوس کیا کہ رسی کا بوجھ کچھ دیر آگے انہیں پہاڑی کے اس ٹریک پر ایک پرانی اور بہت بڑی عمارت نظر آئی۔ وہ نہ تو کوئی مکان لگتا تھا اور نہ ہی سٹور۔ فلموں میں ایسی عمارت کو آسیب زدہ دکھایا جاتا تھا۔
ایشلی کو یاد آیا کہ کسی نے اسے بتایا تھا کہ اس جگہ پر کان کنی کیجاتی تھی۔ کان کن سینکڑوں کی تعداد میں یہاں کام کرتے تھے۔ آتے جاتے، کھاتے پیتے اور زمین کھودتے تھے۔
کرسٹینا نے کہا۔پھر تو اس عمارت کے اندر جانا چاہیے۔
یہ خطر ناک بھی ہو سکتا ہے۔ ایشلی بولی۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی خونخوار جانور ہو۔ اگر کوئی جانور نہ بھی ہو تو بھی یہ عمارت بہت بھیانک لگ رہی ہے۔ اس کی ساخت عجیب و غریب ہے۔ یہ بھوتوں کا مسکن بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال وہ تینوں اندر چلی گئیں۔ اندر سے تو وہ اور بھی خستہ حال تھی۔ انہیں یہ ڈرتھا کہ کہیں عمارت کی چھت گر نہ جائے لیکن کرسٹینا کی حالت سب سے مختلف تھی۔ وہ جھوم جھوم کر نامعلوم زبان میں ڈانس کرتے ہوئے گانا گاتی آگے چلتی گئی۔ وہ پوری طرح سے مست تھی۔ یکا یک ایک آواز آئی، انہوں نے دیکھا کہ کرسٹینا کا پاؤں کسی چیز میں پھنس گیا تھا۔ انہوں نے قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرش میں درز تھی اور اس کے آگے پلیٹ فارم تھا۔ اس کا پاؤں درز میں پھنسا تو وہ درز کھل گئی تھی اور بڑا سا سور اخبن گیاتھا جس میں وہ گرگئی۔ انہوں نے دیکھا کہ کرسٹینا نیچے لٹک رہی تھی۔ وہاں مکمل تاریکی تھی۔
ایشلی نے پوچھا۔کیسی ہو؟ تو کرسٹینا کی آواز آئی کہ وہ خیریت سے ہے لیکن وہ حرکت نہیں کر سکتی۔
باہر سورج کی روشنی کافی تھی لیکنعمارت کے اندر تھوڑا سا اندھیرا تھا۔ کیٹی نے فرش پر لیٹ کر اس کھوکھلی جگہ کا تفصیلی جائزہ لیا جس میں کرسٹینا گری تھی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ بارہ فٹ گہری غار تھا۔ کرسٹینا ایک لوہے کے ڈنڈے کے ساتھ لٹک رہی تھی۔ اس کے ارد گرد لکڑی کے ستون بنے ہوئے تھے اور ساتھ لکڑی کی سیڑھی بھی تھی۔
کیاتم کسی چیز کو ہلا سکتی ہو؟ کیٹی نے پوچھا۔
ہاں، لیکن میرا دایاں ہاتھ بری طرح زخمی ہے اور بایا ں ہاتھ بھی میں نہیں ہلا سکتی۔کرسٹینا بولی۔
شاید اس کے دونوں ہاتھ ٹوٹ چکے ہیں۔ ایشلی بولی۔ یہ تو تشویشناک صورت حال ہے ہمیں اس کو فوراً باہر نکالنا ہوگا۔ شاید اس جگہ کوئی رسی وغیرہ ہو جو اسے کھینچنے میں مدد دے سکے۔
تم یہیں ٹھہرو۔میں اِدھر اُدھر پھر کر کوئی رسی یا تار تلاش کرتی ہوں۔کیٹی بولی۔
جلدی کرو۔ایشلی نے کہا۔
اس نے ایک تختے کوہلایا تو وہ ہلنے لگا۔ اس میں سے ایک رسی نظر آئی لیکن وہ بہت مخدوش حالت میں تھی اور جگہ جگہ سے گھسی ہو ئی تھی۔ شاید گھسی ہونے کی وجہ سے کان کن اسے وہاں چھوڑ گئے تھے۔اس ٹوٹی ہوئی رسی کو اس نے جوڑا۔ اس کا گول دائرہ بنایا تووہ اتنا لمبا ہو گیا کہ سوراخ سے کرسٹینا کے گھٹنے تک پہنچ سکتا تھا۔ اب اسے کرسٹینا کے پاؤں کے ارد گرد ڈال کر کیسے کسا جائے؟ کیٹی سوچنے لگی۔ایشلی نے اس رسی کی ایسے گرہ لگائی جو پھسل کر اُس کی ٹانگوں میں باندھی جا سکتی تھی۔ اس قسم کی گانٹھ وہ گھوڑوں کے لئے بناتے تھے۔ یہ گانٹھ اس نے سوراخ میں لٹکا دی۔ اس نے کرسٹینا کو کہا کہ وہ اسے اپنی کمرکے ارد گرد کس لے۔ ہم تمہیں اوپر کھینچ لیں گے۔*
میں ایسا نہیں کر سکتی، میرے ہاتھ پھنسے ہوئےیں! کرسٹینا نے کہا۔
کیا تم اپنی کمر بغیر ہاتھوں کے گھما سکتی ہو؟ ایشلی نے پوچھا۔
نہیں۔کرسٹینا بولی۔
فکر نہ کرو۔ ہم تمہیں باہر نکال لیں گے۔ایشلی نے کہا لیکن وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی۔ ایشلی نے فرش پر لیٹ کر غار کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ اس کا دائیاں ہاتھ ٹوٹا ہو ا تھااور بایاں ہاتھ کسی چیز میں پھنسا ہوا تھا۔ مجھے نیچے جانا ہوگا اور اس کے بازو آزاد کرنا ہوں گے۔ ایشلی نے خود سے کہا۔ میں نیچے جاتی ہوں اور تم اوپر کھڑی رہو۔
ٹھیک ہے۔ کیٹی نے سر ہلایا۔ اس نے سوچا کہ وہ ایشلی اور کرسٹینا سے لمبی اورطاقتور تھی اور یقیناً ان کا وزن اٹھا سکے گی۔ اس نے رسی کو اپنی کمر سے باندھ لیا اور سوراخ سے تین فٹ دور پاؤں پھیلا کر کھڑی ہوگئی تاکہ وہ ان کے وزن کو سہار سکے اور اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور ایشلی کو ’تیار ہوں‘ بول دیا۔
ایشلی آہستہ آہستہ سوراخ میں اتری۔ اس کے کندھے دھیرے دھیرے نیچے جاتے گئے۔ اس کے وزن سے کیٹی کے پاؤں ذرا سااکھڑے اور اس نے ایشلی کی چیخ سنی۔ کیٹی نے لڑکھڑاتے ہوئے خود کو سنبھال لیا۔ اپنا پورا جسم پیچھے کی طرف کر لیا تاکہ ایشلی کے بوجھ کو برداشت کر سکے۔ اس نے رسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ٹوٹنا نہیں جیسے کہ وہ کوئی جاندار چیز ہو۔ یکا یک کیٹی نے محسوس کیا کہ رسی کا بوجھ کم ہو گیا ہے پھر اس نے ایشلی کی آواز سنی اور کہا کہ وہ غار میں اتر گئی ہے۔ کرسٹینا کا بایاں ہاتھ اس کی جیکٹ کی وجہ سے کسی سلاخ میں پھنس گیا ہے۔ اس کی جیکٹ اگر اتاردی جائے تو وہ ہاتھ آزاد ہو سکتا ہے۔
کیٹی نے دیکھا کہ کرسٹینا کا دایاں بازو ٹوٹا ہوا تھاجبکہ بایاں بازو صحیح تھا لیکن جیکٹ میں بری طرح پھنسا ہوا تھا کرسٹینا نے کسی نا کسی طرح زور لگا کر اپنے صحیح بازو کو جیکٹ سے باہر نکالااور جیکٹ اتار دی، پھر ایشلی نے رسی کرسٹینا کی کمر کے ارد گرد باندھ دی اور کیٹی کو آواز دی کہ رسی کو اوپر کھینچ لے۔ کیٹی کے لئے رسی کو اوپر کھینچنا بہت مشکل تھا۔ اس کے ہاتھوں پر چھالے پڑنے لگے تھے۔ ایشلی نے کرسٹینا کی کمر کو پکڑا اوراسے اوپردھکیلنیلگیجبکہ کیٹی اوپر سے رسی اپنی طرف کھینچنے لگی۔ اتنے میں ایشلی نے کہا کہایک حد سے اوپر وہ کرسٹینا کو نہیں دھکیل سکتی، اس لئے باقی کا فاصلہ کیٹیکو اکیلے ہی کھینچنا ہو گا۔ کیٹی نے کہا ٹھیک ہے اوررسی کو اوپر کھینچنا شروع کیا تو رسی سے کرسٹینا کا بوجھ سہارا نہ گیا اور رسی ٹوٹ گئی۔ کرسٹینا دھڑام سے غار کے اندر گر گئی۔ کیٹی نے دیکھاکہ کرسٹینا اور ایشلی دونوں ساتھ ساتھ غار کے فرش پر لیٹی ہوئی تھیں اور ان کی آنکھوں سے برسات جاری تھی۔
کیا تم مجھے رسی واپس اوپر پھینک سکتی ہو؟ کیٹی نے پوچھا۔
ایشلی نے جواب دیا۔نہیں۔ رسی بہت چھوٹی ہے اور ٹوٹ گئی ہے۔
کیٹی نے سوچا اب لازمی مدد باہر سے ہی لینا پڑے گی۔ باہر کافی سردی تھی۔ کیٹی نے اپنی جیکٹ نیچے پھینکی اور کرسٹینا کو کہا کہ جیکٹ سے خود کو ڈھانپ لو، میں کسی مدد کا بندوبست کرتی ہوں۔گھبرانا نہیں۔
اوکے۔کرسٹینا بولی۔ اس دوران میں روحوں سے مدد لینے کی کوشش کرتی ہوں۔
ہاں کرو! کیٹی نے کہا۔ اگر وہ خود کو روحیں بلانے میں مصروف رکھ سکتی ہے تو یہ تو بہت اچھا ہے۔ وہ تیزی سے پہاڑ سے نیچے اترنے لگی۔ تاریکی ہونے کو تھی۔ وہ اسی جگہ سے اترنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں سے وہ آئی تھیں تاکہ لوگوں سے مدد حاصل کی جا سکے۔ وہ ندی کے ذریعے اوپر آئی تھیں،یہ وہاں تک پہنچ گئی۔ وہ پندرہ منٹ اس پگڈنڈی پر دوڑتی رہی۔ آگے جا کر وہ پگڈنڈی دو حصوں میں منقسم ہو جاتی تھی۔ یہاں آکر کیٹی تذبذب کا شکار ہوگئی۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ کون سا رستہ صحیح ہے۔ سردی کی شدت بڑھ رہی تھی۔ وہ ان دونوں کے بارے میں پریشان تھی تاہم اس نے مسلسل چلتے رہنا ہی بہتر سمجھا۔ اس نے اندازے سے ایک رستہ چنا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ جنگل کے اندر جا رہی ہے یا باہر۔ اندھیرے میں ہر چیز مختلف لگ رہی تھی۔ اس نے خیالوں میں اپنی ماں کی آواز سنی جو کہہ رہی تھی۔ میری آئس کریم! آئس کریم سے بھی میٹھی ننھا فرشتہ آئس کریم! پہلے اس نے اپنی ماں سے کہا تھا کہ وہ اسے یہ نہ کہا کرے کیونکہ یہ اسے اچھا نہیں لگتالیکن اب خود بھی روتے ہوئے اس نے اونچی آواز میں اپنی ماں کا گیت میری آئس کریم! آئس کریم سے بھی میٹھی ننھا فرشتہ آئس کریم! گانے لگی۔
اچانک اسے کوئی آواز سنائی دی۔ کیا یہ موٹر کی آواز تھی؟ یہ آواز پہاڑ کی دوسری سمت سے آرہی تھی۔ اس نے پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ ندی کے پانی کا شور ہے۔ زور سے بہتا ہوا پانی شور پیدا کر رہا تھا۔ اب سورج تقریباً تقریباً غروب ہو چکا تھا۔ اسے یاد آیا کہ جب وہ آئے تھے تو یہ ندی نہیں تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ رستہ بھول گئی تھی۔ اس نے سوچا کہ وہاں موجود پگڈنڈیوں پر چلنا چاہیے۔ وہ اس پرچلتی رہی یکا یک اس کا پاؤں پھسلا اور اس کا سر کسی سخت پتھر سے ٹکرایا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔
کیٹی کی آنکھیں کھلیں تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک لکڑی کے فرش پر پڑی ہے۔ اس کے اوپر ایک بھاری کمبل تھا۔ اس کے سر پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ جوں جوں اس کی آنکھیں کھلتی گئیں،اسے ہوش آتا گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک پل کے پاس ہے جس میں ایک پرانی لالٹین لٹک رہی ہے۔ وہاں تین لوگ تاش کھیل رہے تھے۔ دو لڑکیاں اور ایک لڑکا جن کی عمریں بیس بائیس سال کے درمیان ہوں گی۔ وہ ایک میز کے گرد بیٹھے تھے اور کھیل میں محو تھے۔وہ بے حد پراسرار لگ رہے تھے۔ ان میں ایک عورت خوبصورت تھی جس کا جسم چمک رہا تھا۔ وہ کوئی ماڈل یا ایکٹریس لگتی تھی۔ اس کے نرم بھورے بال کچھ تو اس کے ماتھے پر لٹک رہے تھے اور کچھ گردن کے پیچھے باندھے ہوئے تھے۔ اس نے شیفون کا تنگ لباس پہنا ہوا تھا جس کے بازوؤں پرلیس لگی ہوئی تھی۔ مرد خواتین سے بولا۔تم ہار گئی ہو۔ اس سے بڑا کوئی پتہ پھینک سکتی ہو تو پھینکو۔ اس نے سفید قمیض، چوڑے پائینچوں والی پتلون اور فل جوتے پہنے ہوئے تھے۔ اس کے سر پر ہیٹ تھا جس نے اس کے آدھے ماتھے کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کی بھنویں بھوری تھیں۔ دوسری خاتون بھی خوش شکل اور تیکھے نین نقش والی تھی۔ اس نے فیروزی رنگ کی سوٹ جیکٹ پہن رکھی تھی اور کھلے پائینچوں والی پینٹ پہنی ہوئی تھی۔ ان تینوں میں عجیب بات ان کی آنکھیں تھیں جو بنفشی نیلی تھیں۔ اس نے ایسی آنکھیں پہلے نہیں دیکھی تھیں۔ وہ چونکی جب ایک مرد نے کہا وہ جاگ پڑی ہے۔
اس نے سنجیدگی سے کیٹی سے پوچھاکیٹی تم اب کیا محسوس کر رہی ہو؟
ٹھیک ہوں۔ کیٹی نے کہا۔
تمہیں میرے نام کا کیسے علم ہوا؟ کیٹی نے پوچھا۔
اندازہ لگایا۔ اس نے جواب دیا۔
بہت صحیح اندازہ ہے۔ کیٹی بولی۔
کیا تمہیں سردی لگ رہی ہے؟ دوسری عورت نے پوچھا۔
زیادہ نہیں۔ کیٹی بولی اس کے جسم پرجو کمبل تھا وہ بہت گرم تھا لیکن اس نے د یکھا کہ ان تینوں میں سے کسی نے بھی کوئی گرم شئے نہیں پہنی ہوئی تھی۔ کیا تمہیں سردی نہیں لگ رہی؟
یہ جگہ بہت گرم ہے ویسے بھی ہمیں سردی نہیں لگتی۔ دوسری خاتون نے جواب دیا۔
ایڈوئن تم نے یہ کیا کہہ دیا؟ پہلی عورت بولی۔
اوہ اوہ! مجھے کسی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اس بات کو راز میں ہی رہنے دینا ہے نورما، ایڈوئین بولی۔
تم کیا باتیں کر رہی ہو؟ کیٹی نے پوچھا۔

جاری ہے





Popular posts from this blog