ا ر یبی Araby James Joyce (1884-1949) Ireland


                        اریبی                  

  Araby          

James Joyce                           

(1884-1949)     

 Ireland                


 

مترجم و تجزیہ :  غلام  محی الدین

 

شمالی رچمنڈ سٹریٹ ایک  ایسی گلی ہے جو ڈبلن شہر آئرلینڈ کے نواح میں واقع ہے۔ 

یہ بستی ایسےغریبوں کی ہے جو کیتھولک مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے  

جھونپڑیوں نما کھر گلی کے دونوں طرف واقع ہیں۔  اس کے پاس ہی ایک  سکول

 ہے جس کا نام      ُ  کرسچین برادرز سکول   ُ  ہے جو لڑکوں کے لئے ہے۔ اس میں

 زیادہ تر مزدور طبقہ ریائش پذیر ہے۔ اس کے آخر میں ایک مربع شکل میں ایک 

دومنزلہ گھر ہے۔ اس کے دالان اور عقب میں کیچڑ ، دلدل اور جھاڑیاں ہیں۔ اس 

سے کوئی راستہ نہیں نکلتا اور آخر میں بند ہے۔  میں اس گھر میں رہتا ہوں۔

 

 لوگ صبح صبح  اپنے دھندوں پر اور بچے اپنے سکول چلے جاتے  اس لئے  گلی 

سنسان رہتی تھی۔ اس میں رونق اور شوروغل اس وقت ہوتا جب سکول سے چھٹی 

ہوتی  ،بچے گلی میں جمع ہوجاتے اور خوب دھماچوکڑی مچاتے۔ مختلف کھیل کھیلتے اور 

شام کے دھندلکے کے بعد بھی کھیلتے رہتے یہاں تک کہ اہل خانہ ان کو بلاوا بھیجتے۔

اس عرصے میں ہماری آوازیں ہی چار سو پھیلی ہوتیں جبکہ باقی تمام گھروں میں

 خاموشی کا سماں طاری رہتا۔ ہمارے سروں پر آسمان  کئی طرح کے بنفشی رنگ 

بکھیرتا ہوا غروب ہو جاتا۔ شام کے وقت گلی کے پول کے لیمپ اور لالٹینیں جلا دی 

جاتیں اور مدھم  سی روشنی پھیل جاتی۔  ہم تمام باتوںسے مگن اس وقت تک کھیلتے 

رہتے جب تک کہ ہم پسینے سے  پوری طرح  بھیک کرتھک نہ جاتے۔اس خاموش 

گلی میں ہماری جوشیلی آوازیں گونجتی رہتیں۔  ان جھونپڑی نما گھروں کے عقب میں

 ناہموار زمین  اورکیچڑ میں ہم اچھلتے کودتے، لڑتے جھگڑتے رہتے۔ اس جگہ ایک 

تانگے والا بھی تھا اور اصطبل بھی۔ کوچوان گھوڑے کے بال سنوارتا رہتا تھا۔

 

جب گھروں کے کچن کی کھڑکیوں سے مدھم روشنی چھن چھن کر آ رہی ہوتی تو وہ 

ہمارے بلاوے کا وقت ہوتا تھا جوعموماً  سنی ان سنی کر دیتے تھے لیکن جب میرا 

انکل گلی کی نکڑ پڑ نظرآتا تو ہم پر سانپ سونگھ جاتا اور سب کونوں کھدروں میں 

گھس جاتے اور جب وہ اپنے گھر کے اندر چلا  جاتا تو ہم اپنی اپنی بلوں سےباہر نکل 

آتے تھے۔

 

ہمارے گھر میں کسی زمانے میں ایک پادری کرایہ دار تھا جو بقضائے الٰہی اللد کو پیارا 

ہوگیا۔ وہ گھرکے عقبی ڈرائنگ روم میں رہا کرتا تھا۔طویل عرصہ بند رہنے کی وجہ

 سےاس کمرے اور پردوں میں   گھٹن اور بدبو محسوس ہو رہی تھی۔ اس کمرے سے 

ملحقہ کچن کےساتھ پادری کی پرانی بوسیدہ کتب اور کاغذات بکھرے پڑے تھے۔ 

ان میں سے مجھے تین ایسی کتب بھی ملیں جو مذہبی نہیں تھیں۔ ان کی جلدوں پر 

دبیز کاغذ چڑھائے گئے تھے۔ ان میں کئی صفحات  نشانی (بک مارک ) کے لئے 

مڑے ہوئے تھےاور ان  میں سیلن تھی۔ان کتب میں    والٹر سکاٹ کی  ُ دا  ایبٹ 

ُ   ،   ُ  دا       ڈوئیئٹ  کمیونٹی  اور ُ دا  میموآئرز آف  ویڈاک  ُ  بھی شامل تھیں۔

مجھے مئوخر الذکر کتاب بہت پسندتھی  ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ انقلاب سے متعلق 

تھی۔  اس کمرے کے عقب میں ایک باغ بھی تھا جس کے درمیان میں ایک سیب 

کا درخت بھی تھا۔ اس کے ارد گرد جھاڑپونچھ اگی ہوئی تھی۔ ان میں چھپی ہوئی 

مجھے ایک زنگ آلود پمپ ملا جو بائیسکل میں ہوا بھرنے کے کام آتا تھا جو اس 

پادری کا تھا۔ وہ   ہمدرد اور سخی تھا۔ اس نے اپنی تمام پونجی اور جائیداد    رفاحی 

اداروں کے نام کر دی تھی البتہ  گھر کا فرنیچر اپنی بہن کودے دیاتھا۔

 

سردیوں کا موسم تھا ۔حسب معمول دن چھوٹے اور راتیں بڑھتی گئیں ۔ شام جلد 

ہی ڈھلنے لگی تھی۔ انکل گلی سے گزر کر گھر میں داخل ہوگئے تھے ۔ ہم ان کے ڈر 

سے چھپے ہوئے تھے کہ مینگن کی بہن اپنے گھر کے دروازے کو آدھا کھول کر اپنے 

بھائی کو آواز دینے لگی۔ عام طور پر ایسا ہوتا تھا کہ اگر وہ دروازے سے باہر نہ نکلتی 

تو ہم چھپے رہتےاور اس وقت باہر نکلتے جب وہ دروازہ بند کرکے اندر چلی جاتی لیکن

 اگر وہ گھر سے باہر آ جاتی اور اسے ڈھوندنے لگتی تو ہم سب باہر آجاتے اور اپنے

 اپنے گھروں کو ہو لیتے۔

 

 وہ مجھے روز بروز لبھانے لگی تھی۔میں اس کے خیالوں میں کھونے لگا تھا اور اس 

میں روزانہ شدت آتی جارہی تھی۔ اس بار جب وہ دروازے میں آ کر کھڑی ہوئی

 تو عجیب نظارہ تھا۔ اس کا باریک کسا ہوا لباس قیامت ڈھا رہا تھا۔وہ ذرا سی بھی 

حرکت کرتی تو لباس مدوجذر کا سماں پیدا کرتا۔  مدھم روشنی اس کی صراحی دار 

گردن پر پڑ کر ماحول گرما رہی تھی۔ اس کے پیٹی کوٹ کی جھالر پر روشنی   سے نور

 کا شبہ ہورہا تھا۔ اس کے جسمانی نشیب وفراز دل کی حرکت بند کرنے میں کوئی کسر 

نہیں چھوڑرہے تھے۔ اس کے ہاتھوں کے کڑے مجھے اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں

 پہننے کا تار دے رہی تھیں۔   وہ اپنے بالوں کی چوٹی کو ہلاتی تو ایسا لگتا کہ ناگن بل

 کھا رہی ہے۔ میری یہ حالت پہلے ایسی نہیں تھی۔ یہ  کیفیت کچھ عرصہ پہلے اس 

وقت شروع ہوئی تھی جب لوگوں کو لگا کہ میری نسیں پھوٹ گئی ہیں۔میں بالغ ہو

 گیا ہوں۔ میرا کسی بات پر دل نہیں کرتا تھا۔ بچگانہ کھیلوں سے جی اٹھ گیا تھا۔

 

ہر صبح میں اپنا بستہ تیار کرکے باہر والے کمرے کے پردے کے پیچھے چھپ کر 

ایسے  بیٹھ جاتا کہ میں نظر نہ آسکوں۔ مینگن کے دروازے پر نگاہیں گاڑ دیتا  اور 

جوں ہی اس کی بہن سکول جانے کے لئے نکلتی ، اس کے پیچھے ہو لیتا ۔ وہ آگے 

چلتی رہتی اور میں ہزار جانوں سے اس پر قربان ہوتا رہتا۔آخر جب وہ مقام آتا 

جہاں اس کے سکول کا رستہ الگ ہوتا تھا تو میں تیزی سے چلتا ہوا اس کے آگے 

نکل جاتا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم نے آپس میں کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ 

شائد کبھی رسمی جملے ادا کئے ہوں، یاد نہیں۔

 

 جذبات کا غلبہ اس وقت بھی میرے ذہن پر چھایا رہتا جہاں رومانیت والا ماحول 

بھی نہ ہوتا۔ جیسے ہر ہفتے مجھے بازار گھریلو سامان خریدنے کے لئے بطور پانڈی لے 

جاتی جو میرے لئے انتہائی بورنگ کام تھا۔ جن مقامات سے ہم گزرتے  تو  بے ہنگم 

شور، مزدوروں کا  رش ، دھکم پیل  اور لوگوں کا نشے میں ڈولتے  اور جھومتے ہوئے 

چلنا، چوکیداروں کا سختی سے پیش آنا ،بھکاریوں کی دکھ  بھرے گانے( جو وہ ناک

 میں گا رہے ہوتے تھے)  ، رہڑی بانوں کی صدائیں    اورخریداری  والے تھیلوں کو

 کامیابی سے ان کے چنگل سے نکالنا  مجھے پریشان کرتے تھے۔ لیکن تمام تر ناگوار 

حالات کے باوجود میرے ذہن پر وہ چھائی رہتی۔

 

اس کا نام میرے ہونٹوں پر ہوتا۔ اس کے لئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایسی 

دعائیں نکلتیں جن کا مطلب مجھے بھی آتا نہیں تھا۔  اس کی جدائی سے میری 

آنکھیں ڈبڈبائی رہتیں۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ ایسا کیوں تھا۔سوچتے ہوئے 

بعض وفعہ تو میرا دل اتنا تیزی سے دھڑکتا کہ لگتا کہ اچھل کر باہر آجائے گا۔ مجھے 

کسی شئے کی کوئی شدبد نہ تھی۔ اپنے مستقبل کی پرواہ نہ تھی۔میں تو یہ بھی نہیں 

جانتا تھا کہ کبھی اس سے کوئی بات بھی ہو سکے گی یا نہیں اور اگر قسمت نے کبھی 

ساتھ بھی دیا تو اپنا سینہ کیسے چیر کر دکھائوں گا۔ کیسے اپنی چاہت کا اظہار کرے گا۔ 

میں گو مگو کی کیفیت میں مبتلا رہا .   میرا جسم  ہارمونیم کی طرح تھا اور اس  کے 

الفاظ اور اشارے کنائے، ادائیں میرے ہاتھوں کی انگلیاں تھیں جو ہارمونیم کے 

تاروں کے سر چھیڑ دیتی تھیں۔

 

ایک  شام  ایساہوا  کہ میں اس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا جس میں پادری فوت ہوا 

تھا۔ وہ ایک تاریک برکھا رت تھی ۔ گھر میں کوئی آواز نہیں تھی ۔ مکمل خاموشی 

تھی۔ باش کا شور کھڑکی  کےٹوٹے ہوئے  شیشوں سے سنائی دے رہا تھااوراس کے 

 سوئی کی مانند نوکدار قطرے موتیوں کی طرح کیاریوں میں جذب ہو رہے تھے۔ 

دور کہیں لیمپ یا کسی کھڑکی سے  مدھم روشنی آ رہی تھی۔ مجھے باہر کا سماں دکھائی 

نہیں دے رہا تھا۔ مجھ پر ایسی کیفیت طاری تھی جیسے کہ ہر سو  نقاب چھایا ہوا  ہو 

اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس ماحول مین بہہ جائوں گا۔ میں  نے اپنےبازوئوں کے پنجے

 اتنے زور سے رگڑے کہ وہ کانپنے لگے اور میں بے خودی میں سرگوشی کرنے لگا   

ُ    میری محبت  ُ  میری محبت  ُ۔یہ الفاظ کئی بار میرے منہ سے نکلے۔

 

ایک وقت آیا کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہوئی اس کے مکھڑے سے پہلی بار جو فقرہ ادا 

ہوا ، اسے سن کر میرے من میں شہنائی بجنے لگی۔میں تذبذب میں پڑگیا کہ اس کا 

کیا جواب دوں۔اس نے مجھ سے پوچھا تھا  کہ کیا تم اریبی کے میلے پر جا رہے ہو؟ 

مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اسے ہاں کہا تھا یا  نہ۔۔۔ اس کے بعد میں نے  اس 

سےیہ سنا کہ یہ میلا شاندار ہو تا ہے۔وہ وہاں ضرور جاتی۔۔۔

 

تو پھر تمہیں کس نے روکا ہے۔؟

 

 اپنی کلائی کے کڑے کو گھماتےہوئے اس نے کہا کہ اس دن سکول میں ایسی تقریب ہے 

جس میں اس کا رول اہم ہے۔ اس لئے وہ خواہش کے باوجود نہیں جا سکتی۔میری امیدوں 

پر اوس پڑ گئی۔ اس وقت میں نے گلی میں دیکھا کہ اس کا بھائی کسی دوست کے ساتھ اپنی 

ٹوپیوں کی چھینا جھپٹی میں مصروف تھا۔اس دشمن جاں نے اپنا سر جھکایا ہوا تھا۔ اور 

ہمارے دروازے کے سامنے والی روشنی اس کی سفید خمدار صراحی دارگردن پر پڑ رہی 

تھی۔ اس کے بال چمک رہے تھے۔ اس کےیٹی کوٹ سے اس کا مخملی پیٹ جلوہ دکھا رہا 

تھا۔ یہ منظر میں اپنی روح میں پورے طور پر جذب کر رہا تھا۔  اسے میری اندرونی 

کیفیت کا اندازہ نہیں تھا  اور بڑے سکون سے میرے ساتھ کھڑی تھی۔  پھر وہ بولی کہ

 اس دفعہ اس کا وہاں نہ جانا ہی  ٹھیک رہے گا۔  میں نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے 

کہا  کہ کوئی بات نہیں  ۔میں  شرکت کر لوں گا اور تمہارےلئے کوئی تحفہ لے آئوں گا۔

 اس واقعے کے بعد میں دن رات  سوتے جاگتے مستی میں ڈوبا رہا۔میں نے آنٹی اور انکل 

کو قائل کرلیا  اور انہوں نے ہفتے کواریبی میلے پر جانے کی اجازت دے دی۔اس واقعے 

نے میرے جذبات برانگیختہ کر دئیے ۔ ہر دم اس کا خیال رہتا ۔کلاس میں کچھ سمجھ نہ 

آتا۔ ٹیچر نے کئی بار ڈانٹا۔      کھیل کود میں دل نہ لگتا ۔ وہ سب بچگانہ پن لگتا۔بستر پر

 کروٹیں لیتا رہتا۔ کبھی کبھی دل چاہتا کہ  اڑ کر اس کے پاس پہنچ جائوں۔اس سےمحبت 

میں مایوسی اتنی بڑھ گئی کہ دل چاہتا کہ خود کشی کر لوںتاہم بے چین اور بیقرار دن جیسے 

تیسے گزر گئے۔

 

ہفتے کی صبح انکل جانے لگے تو میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں نے آج میلے پر جانا ہے اور

 پیسے دے دیں۔ وہ اس وقت  دروازے اور ہال کے کونے میں میں پڑے ہوئےسٹینڈ  

سے جیکٹ  سے اپنا ہیٹ اتار رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ   ُ ہاں!  میں  جانتا ہوں لڑکے 

۔واپسی پر دوںگا۔ُمیں نے اس روز  ہوم ورک جلدی جلدی نپٹایا اورانکل کا انتظار کرنے 

لگا۔مجھے عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ میرے پاس نہ تو قوت برداشت تھی اور نہ ہی 

حوصلہ۔بے چینی بڑھتی گئی جوں جوں دواکی۔ کھیل کود اب بچگانہ باتیں لگتی تھیں۔زندگی

 جمود کا شکار لگنے لگی تھی۔

 

انکل شام تک نہ آئے۔ابھی بھی میلے کو دیر نہیں ہوئی تھی۔میں کلاک کے پاس کھڑا ہو

 کے وقت دیکھتا رہا۔ اس کی سوئیوں کی ٹک ٹک میرے غصے میں اضافہ کر رہی تھیں۔میں

 کمرے سے نکل کر بالائی منزل پر جا پہنچا۔ بلند اونچے ٹھنڈے خالی کمرے افسردگی طاری 

کر رہے تھے۔ میں نے ساتھ والے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکاتو میرے ہم جولی بے 

فکری سے گلی میں کھیل کود کر رہے تھے۔ دوری کی وجہ سے اس کی اونچی اونچی آوازیں 

مجھ تک ہلکی ہلکی پہنچ رہی تھیں۔میں نے  ٹھنڈے شیشوں کے ساتھ  اپنا ماتھا  ٹکایا    اوراس 

کےگھر کی طرف دیکھا جو اسوقت تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں وہاں ایک گھنٹہ اس گھر کی 

طرف تکتا رہا لیکن کچھ نطر نہ آئی۔  میرے خیالوں میں اس کا  وہی خاکی پرنور چہرہ ، اس

 کے جسم کے  دلکش دلفریب   نظارے آ رہے تھے   جو اس شام  میرے گھر کی دہلیز کی 

ریلنگ تھامے نیم وا دروازے میں تھی۔

 

انتظار کرتے کرتے جب میں نیچے آیا تو اسوقت میں نے مسز مرسر جو کہ  گروی رکھنے والی

 کی بیوہ تھی کو آتش دان کے پاس بیٹھے دیکھا۔ وہ انکل سے ملنے آئی تھی۔ مجھے چائے کے

 کپ پر اس سے ایک گھنٹہ باتیں کرنا پڑیں۔اس کے بعد وہ یہ کہہ کر چلی گئی کہ وہ رات 

سے آٹھ بجے کے بعد باہر نہیں رہ سکتی کیونکہ سرد ہوا  اس کی طبیعت برداشت نہیں کر 

سکتی۔ جب وہ رخصت ہوئی تو میں کمرے میں بے چینی سے ادھر ادھر گھومنے لگا۔ کچھ

 دیر بعد آنٹی بولی کہ اریبی کے میلے کو بھول جائوں کیونکہ رات زیادہ ہوگئی  ہے اور چلی 

گئی۔جب رات کے نو بجے تو بیرونی دروازے میں کنجی لگانے کی آواز سنائی دی۔ انکل 

لڑکھڑاتے ہوئے اندر آ رہے تھے ۔ میں لپک کر ان کے پاس پہنچا اور پیسے مانگے تو وہ 

بولے کہ انہیں بے حد افسوس ہے کہ وہ بھول گئے تھے۔ تاہم انہوں نے کہا کہاس وقت

 تک تو لوگ آدھی نیندپوری کر چکے ہوں گے۔   دس بجے میلہ بند ہو جانا ہے اس 

لئےجانے کا کوئی فائد ہ نہیں لیکن آنٹی نے میری حمائت کی اور انہوں نے مجھے چھ شلنگ 

دیئے  اور میں بھاگم بھاگ  بکنگھم سٹریٹ ریلوے سٹیشن پہنچا۔ تھرڈ کلاس کی ٹکٹ لے کر 

سوار ہو گیا۔ تمام ڈبہ خالی تھا۔ گاڑی کافی دیر کھڑی رہنے کے بعد چل پڑی اور کچھ دیر

 بعد اگلا سٹیشن ویسٹ لینڈ   رو سٹیشن  آیا تو لوگوں کا ہجوم دھکم پیل کرتے ہوئے ڈبے میں

 داخل ہونے لگا تو قلی ان کو یہ کہہ کر روکنے لگا کہ یہ گاڑی خصوصی ٹرین ہے اور اریبی 

 میلے پر جارہی ہے۔ جب وہ گاڑی  لکڑی والے پلیٹ فارم  پر رک گئی۔ اس وقت دس 

بجنے میں دس منٹ تھے۔ میرے سامنے ایک عظیم الشان میلا سجا ہو ا  تھا۔  میں اتر کر 

بھاگا اور سستی ٹکٹ والے گیٹ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ ملا تو  مہنگے والے 

داخلے والے گیٹ  سے ایک شلنگ کا ٹکٹ خریدکر داخل ہو گیا اور گیلری کے وسط تک 

پہنچ گیا۔

 

 اس وقت تقریباً تمام سٹال بند ہو چکے تھے۔  اسوقت ایسا سناٹا چھایا ہوا تھاجیسے اتوار کو 

کلیسا میں عبادت  کے بعد ہال خالی ہو جاتا ہے۔ میں بازار کے مرکز میں جھجھکتے 

ہوئےمرکز میں جا پہنچا۔ کچھ لوگ وہاں جمع تھے۔ سٹال کے ارد گرد جو ابھی بھی کھلے 

ہوئے تھے۔ ایک پردے کے آگے دو آدمی اور ایک عورت جس پر رنگدار روشنائیوں 

میں کیفے شانٹے لکھا تھا ۔ لوگ رقم گن رہے تھے۔ میں سکوں کی کھنک سنتا رہا۔ مجھے یہ 

دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ پورا بازار بدیشی سامان  جو کہ مشرقی ممالک سےدرآمد کیا گیا تھا، 

بھرا پڑا تھا۔

 

جس مشکل سے میں میلے پر پہنچا  تھا،  سوچتے ہوئے میں ایک سٹال پر پہنچا تھا اور اس میں 

پڑے ہوئے چینی کے برتن ، جام کے گلاس اور پھولدار چینی دان کے گلدان اور چائے

 دانی دیکھی۔ سٹال ے دروازے پرایک نوجوان خاتون جو اس سٹال کی مالکن تھی ، دو 

جوانوں کے ساتھ کھڑی قہقہے لگا رہی تھی۔ ان کا لہجہ مقامی تھا۔

اوہ  !  میں نے کبھی یہ بات نہیں کی تھی۔

یہ تم نے کی تھی۔

میں نے نہیں کی۔

نہیں۔میں تمہیں مکرنے نہیں دوں گا۔

وہ آپس میں فلرٹ کر رہے تھے۔ خاتون نے سرسری انداز میں پوچھا کہ کیا مجھے کوئی چیز 

چاہئیے۔  میں چپ کرکے کھڑا رہا ۔  وہ خاتون ان سے باتوں میں مشغول رہی لیکن کبھی 

کبھاراچٹتی نظر بھی ڈال دیتی۔میں ان خوبصورت جاروں کو دیکھتا رہا جو پہریدارو ں  کی

 طرح تن کر کھڑے تھے۔  میں اس سٹال سے آگے چلا گیا ۔ میری جیب کی پیسوں میں 

سے دو شلنگ زمین پر گر گئے۔ اس وقت میں نے سپیکر سے اعلان سنا کہ بازار بند ہو رہا 

ہے۔اوپر والا حصہ تاریک ہو گیا۔ میں اہنے پائوں گھسیٹتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ میری آنکھیں 

رنج وغم سے جلنے لگیں۔

 

تجزیہ

 

یہ کہانی آئرلینڈ کے  ڈبلن شہر کی ہے۔  انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز  

میں رچمنڈ سٹریٹ  سے متعلق  ہے  ۔یہ گلی آگے سے بند ہے جس کے طرفین جھونپڑوں کی 

طرح کے ٹوٹے پھوٹے مکان تھے۔  اس گلی میں حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والے تھے۔ وہاں

لڑکوں کا ایک کیتھولک ہائی سکول بھی تھا۔یہ گلی زیادہ تر سنسان رہتی تھی۔ سکول کی چھٹی 

کے بعد تمام لڑکے گلی میں نکل آتے  اور رات تک کھیلتے رہتے ۔ لڑکیوں کا سکول  دوسری 

سمت تھا۔ گلی کی نکڑ پر الگ تھلگ ایک دو منزلہ  گھر تھاجو مربع شکل میں بنا ہوا تھا۔   اس 

میں ایک نوجوان رہتا تھا۔وہ کہانی اس کی ذہنی واردات پر مبنی   اپنی آپ بیتی ہے۔

 

  راوی اپنی غدوئی تبدیلیوں سے مطابقت کے مرحلے میں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا  کہ طور بے طور کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔اس کی شخصیت میں بنیادی تبدیلی اس کے مزاج میں آئی  ہے۔وہ عمر کی اس دہلیز پر کھڑا ہے جہاں جوانی بھی ہے اور بچپن کی خصوصیات بھی۔ وہ خود مختار نہیں۔ اس کی کفالت اس کا انکل اور آنٹی کر رہے ہیں۔مذہبی دائرہ اثر پایا جاتا ہے۔ وہ  گو مگوں کیفیات میں مبتلا ہے۔ایک طرف تو وہ فطری تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہے اور دوسری طرف وہ مذہبی اور سماجی منوالوں کی پابندی بھی کرنا چاہتا ہے۔

 

فطری تقاضوں کے مطابق وہ جنسی کشش محسوس کرنے لگا ہے۔اس کی شدت روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چاہنا اور چاہے جانے کی خواہش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسے اپنی پڑوسن سے شدید محبت ہو جاتی ہے۔یہ حسینہ پڑوسن   اس کے دوست مینگن کی بہن ہے۔  وہ اس کا پہلاپہلا پیار ہے ۔ کم عمری کی بدولت اسے تجربہ نہیں کہ اس کا اظہار کیسے کیا جائے۔ وہ تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ اس کو جھروکوں سے چھپ چھپ کر تاکتا رہتا ہے۔ وہ اس کے دروازے پر نگاہیں ٹکائے رہتا ہے۔ جب وہ سکول جاتی ہے تو اس کے پیچھے پیچھے چلتا جاتا ہے۔ اس سے کوئی بات نہیں کرتا  پھر اسے یہ احساس دلانے کے لئے کہ وہ اس کا خیر خواہ ہے، یکدم تیزی سے اس سے آ گے نکل جاتا ہے۔  اس نے اس لڑکی سے کبھی بات نہیں کی ہے۔خود میں سلگتا رہتا ہے۔

 

 اس علاقے کے مکیں مذہبی ہیں ۔ جس گھر میں وہ رہ رہا ہے وہ ایک پادری نے کرائے پر لیا 

ہوا تھا۔ جو  رحلت کر گیا ہے۔وہ بہت نیک اور مخیر تھا کیونکہ اس نے جمع  شدہ پونجی فلاحی 

اداروں   اور گھر کا فرنیچر اپنی بہن کے نام کردیا تھا۔پادری کی لائبریری مذہبی کتب سے 

بھری ہوئی تھی لیکن اس میں  ایسی کتب بھی تھیں جو عام  لوگوں کی دلچسپی سے متعلق

 تھیں۔اس سے یہ اخذ کیا جا تا ہے کہ وہ کٹر مذہبی نہیں تھا بلکہ عام لوگوں کی طرح دنیاوی 

معاملات میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ راوی کو غیچےکے عقب میں سیب کے درخت کے پاسں 

جھاڑیوں سے ایک زنگ آلو ایسا پمپ بھی ملا جس سے سائیکل کے ٹائروں میں ہوا بھری

 جاتی تھی جو یہ ثابت کرتا ہے کہ پادری مذہب کے علاوہ دیگر سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ

 لیتا تھا۔کیوپڈ  کے زیر اثر وہ عشق کا شکار ہو گیا تھا۔ محبوبہ کے خیالوں میں گم رہتا ۔    ہوائی 

قلعے تعمیر   کرتا رہتا  اور مینگن کی بہن اس کے ذہن پر چھائی رہتی اور بغیر کسی وجہ کے 

آنسو بہاتا رہتا۔برکھا  کی ایک رات وہ اس بیٹھک میں جاتا ہے جہاں پادری کیموت واقع ہوئی تھی اور اندھیرے میں  ُ      میری محبت        ُ دہراتا رہتا ہے۔

 

 اریبی  میں  میلہ سجتا ہے تو اس علاقے کے مکین اسے جوش و خروش سے دیکھتے ہیں۔ اس 

کی خواہش ہے کہ وہ مینگن کی بہن کے ساتھ میلہ لوٹے لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں جٹ 

پاتی کہ کہہ سکے۔ وہ اسے کچھ نہیں کہہ پاتا۔  سوئے اتفاق وہ اس کے گھر آتی ہے  اور اس 

سے غیر متوقع طور پر اس سے گویا ہوتی ہے کہ  کیا وہ میلے پر جائے گا۔ راوی  جب یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اس سے براہ راست گفتگو کر رہی ہے تو اس کے کانوں میں شہنائیاں

 بجنے لگتی ہیں۔ اسے یاد نہیں کہ اس نے ہاں کہا یا نہ۔اس کی پڑوسن نے بات جاری رکھتے 

ہوئے کہا۔ کاش وہ جا سکتی۔ اس سے وجہ دریافت کی تو اس نے کسی ایسی تقریب کا بتا دیا 

جس میں اس کی شرکت لازم تھی۔جناب عاشق نے اسے پیشکش کر دی کہ وہ اس کے لئے 

وہاں سے کوئی تحفہ لے آئے گا۔

 

 قصہ مختصر  وہ اپنے انکل کو کہتا ہے کہ وہ میلے پر جانا چاہتا ہے تو وہ اجازت دے دیتا ہے۔وہ 

اپنے انکل کو کہتا ہے کہ میلے کا آخری روز ہے اور اس نے جانا ہے اور اسے خرچے کے لئے 

پیسے دے تو انکل نے اسے گھر واپسی پر دنیے کا وعدہ کیا۔ راوی نے اسے درخواست کی کہ

 جلد گھر لوٹ آئے   ۔ وہ دن بھر اس کا انتظار کرتا رہا  ۔ گروی رکھنے والے دکاندار  کی بیوہ 

اس کے انکل کا انتظار کرتے کرتے چلی جاتی ہے۔ اور انکل دیر سے ڈگمگاتا گھر پہنچا۔ اس 

وقت  میلہ ختم ہونے میں صرف ایک گھنٹہ باقی بچا تھا۔اس نے اس سے رقم لی اور تھرڈ 

کلاس میں بیٹھ کر میلے پہنچ گیا۔ میلہ ختم ہونے مین صرف  دس منٹ بچے تھے۔ اس کو وہ 

گیٹ نظر نہ آیا جہاں داخلے کی سستی ٹکٹ تھی اس لئے وہ مہنگے والے گیٹ سے اندر داخل

 ہوا۔

 

میلہ تقریباٍ ختم ہو چکاتھا۔ اکا دکا سٹال کھلے تھے۔ وہ  یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے تمام 

سٹالوں میں صرف غیر ملکی سامان ہی پڑا تھا۔ ایک سٹال جو کہ برتنوں کا تھا ، میں خوبصورت 

چینی کے برتن پڑے تھے۔اس کی مالک خاتون تھی جو دو مردوں سے فلرٹ کر رہی تھی۔ 

اس نے سرسری انداز میں راوی سے پوچھا  کہ کچھ چاہئیے ۔ اسے جام کے گلاس اور چائے 

دانی اچھی لگی۔ وہ مینگن کی بہن کے لئے کوئی تحفہ خریدنا چاہتا تھا۔وہ خاتون مردوں سے 

چہلیں کرتے وقت اس کی طرف کبھی کبھار دیکھ لیتی تھی۔اس نے سوچا کہ کوئی اور دکان

 دیکھے تو اسے کیفے کھلے ہوئے ملے ۔ اتنے میں انائونس ہو اکہ میلے کا وقت ختم ہو گیا ہے اور 

روشنیاں بند ہوجانی ہیں۔اس کا جوش ولولہ بھی اس کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔وہ خود کو 

بیوقوف سمجھتا ہے  ۔  اپنے پر غصہ بھی آتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے 

ہیں۔

 

اس افسانے کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا واضح شعور ہوتا ہے کہ جوائس نے اس میں 

استعاروںکے ذریعے زندگی کی حقیقت بیان کی ہے۔اس نے اسمیں جو اشارے کنائے استعمال کئے ہیں وہ بلوغی جنون، مذہب،  روشنی، تاریکی،  حقائق سے آگاہی اہم ہیں۔

 

لڑکا نیا نیا جوان ہوا ہے۔ اس کی ذہنی اور جسمانی ضروریات باقی تمام اشیا  سے مقدم ہیں۔ 

تصور جاناں کے غم میں شب و روز نہیں کٹتے۔ اس کی معمولی سے معمولی شئے اور حرکت 

اس کے دل میں کھب  جاتی ہے۔اپنے ہم جولیوں کی کھیلیں اسے اب اچھی نہیں لگتیں۔

خواب ہائے بیداری میں مبتلا رہتا ہے۔

 

میلے میں وہ سٹال پر خوبصورت جام دیکھتا ہے لیکن انہیں مینگن کی بہن کے لئے نہیں خریدتا 

کیونکہ یہاں وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ مذہب میں اس کی اجازت نہیں۔  اس کا مذہب سے

 لگائو اس بات سے بھی عیاں ہے کہ پادری کے کمرے میں ہاتھ اٹھا کر مینگن کی بہن  سے 

متعلق اپنے احساسات و جذبات کو ایک نام دے دیا ہے اور  اسے مھبت کہا ہے۔ یہ منظر 

جوائس نے اس وقر پیش کیا ہے جب اس کے ہمجولی باہر گلی میںاپنی ٹوپیوں پر لڑ جھگڑ رہ

ے ہوتے ہیں۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ راوی اپنے دوستوں سے بےگانگی محسوس

 کرتا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ راوی یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کا اصل مقصد مینگن کی 

بہن کا دل جیتنا ہے۔یہاں وہ روشنی کا ذکر اس لئے کرتا ہے کہ راوی کے اندرکےا حساسات

 و جذبات جو مینگن کی بہن سے متعلق ہوتے ہیں کو بیان کرتا ہے۔اس کے حسم، جسمانی 

کشش اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔  یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ جنسی بیداری کے دور سے 

گزر رہا ہے۔  اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا اسلئے وہ ان جذبات کی تشفی کے لئے خواب 

ہائے بیداری کا شکار ہو جاتا ہے۔ عملی زندگی کی سچائیوں سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہےخواہ 

ایک رات کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔  اس نے خود کو دوسروں سے اس لئے برتر سمجھتا ہے 

کیونکہ اس کے ہمجولی معمولی جھگڑوں میں پڑے ہوئے تھے۔ وہ ہم جولیوں سے تنہائی چاہ رہا 

ہے۔

 

مذہب اس کے نزدیک اہم ہے۔اپنی محبوبہ کو پادری کی عبادت گاہ میں بیٹھ کر اس کی یادوں 

میں کھویا رہتا ہے۔اسے مقدس ہستی سمجھتا ہے۔ اسے روح کی طرح سمجھتا ہے۔اس کی ہر ادا 

میں اسے پاکیزگی اور معصومیت نظر آتی ہے۔

 

راوی اریبی کے میلے کو کلیسا کی طرح  مقدس   سمجھتا ہے۔ وہاں موجود حالات دیکھ کر وہ بد دل ہوگیا۔  لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو اس کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ وہاں اس نے لوگوں کو کھلے عام فلرٹ کرتے دیکھا تو اس کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔  علاوہ ازیں  غیر ملکی مال کی بھرمار نے اسے مایوس کیا۔ راوی  اس وقت مزید مایوس ہوجاتا جب وہ دیکھتا ہے کہ دکاندار نے اس کو بطور خریدار اہمیت ہی نہیں دی جو تجارتی اصولوں کے خلاف تھا۔ مینگن کی بہن  کے بارے میں خیالات و جذبات زیادہ عام جذبات ہیں اور اس سوچ کے برعکس ہیںجو وہ رکھتا تھا  ان کے بارے میںوہ شدید جذباتی طور پر متاثر ہے۔ جب اسے اندھیرے میں دھکیل دیا جاتا ہے جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس کے جذبات حقیقی محبت نہیں تھی۔ مینگن کی بہن اور مارکیٹ دونوں ہی بالکل  خالص نہیں تھیں اور اجنبی اور بیگانہ تھیں۔

 

 وہ اس لڑکی کوایک یقین اور ایمان کے طور پر لیتا ہے۔لڑکے نے جو دیکھا  کو بیان کرنے

 کے لئےتاریک اور سفید تمثال قاری کو یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا اس لڑکی کے بارے میں کس حد تک سنجیدہ اور مخلص ہےا۔ اس کی  محبت میں اندھا ہے۔ جب وہ لڑکی ان کا ایک اور سیاہ ماحول میں کچھ سوچ رہی ہوتی تھی تو اس وقت اس کے وصائف مثبت اور روشن دکھائے گئے ہیں۔ وہ ایک مقدس روح لگتی ہے  ماحو۔ ل مذہبی ہے ۔ اس نے اینٹوں کے بھورے رنگ کو ڈبلن کی   زندگی کے پھیکے پن کو بیان کیا۔

 

جوائس نے اس کہانی میں روشنی اور تاریکی کے استعارے  کئی مواقع پر استعمال کئے ہیں ۔راویروشنی پسند کرتا ہے کیونکہ اس نے اس کی بنجر زندگی میں تازگی اور روشنی امید بھر دی ہے۔ مقصد پیدا کردیاہے۔ وہ لڑکی اسے  مقدس ہستی کے روپ میں نظر آتی ہے۔ کھڑکی سے روشنی پھوٹنا اس کی محبت کی علامت ظاہر کرتی ہے۔  سفید اور سیاہ  رنگ  کے الفاظ کا استعمال  جو راوی کےہمجولیوں  کی سرگرمیوں کے بر عکس ہیں۔وہ اس کی معصومیت ظاہر کرتے ہیں ۔ وہ پردوں کے جھرونکوں سے مینکن کی بہن کے گھر کی طرف دیکھتا ریتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ اسکے پیار میں اندھا ہو گیا ہے۔

 

اس نے اجالے، روشنی اور  تابانی سے مراد  امید اور آس سے لی ہے ۔ اس نوجوان نے 

اس لڑکی کو ہر ماحول ، ہر جگہ ، ہر وقت روشن  ہی دیکھا ہے۔ جب وہ اپنے بھائی کو تاریکی 

میں بلا رہی ہوتی ہے  تو یہ سب چھپ جاتے ہیں ۔لیکن دروازے سے نکل کر روشنی  پیچھے چھوڑے   نکلتی ہے تو ایک جادوئی اثر چھوڑتی ہے، سب باہر نکل آتے ہیں۔ راوی کے نزدیک اس لڑکی کی چاہت میں اضافہ  ہو جاتا ہے۔

 

کہانی میں جب بھی وہ  پڑوسن کی بات کرتا ہے تو اس وقت روشنی ہو جاتی ہے۔ اس ماحول   

میں کچھ سوچ رہی ہوتی تھی تو اس وقت اس کے وصائف مثبت اور روشن دکھائے گئے ہیں ۔ ایک مقدس روح لگ رہی تھی۔ لیکن جب وہ بازار پہنچا اور تاریکی چھا رہی تھی تو حقیقی دنیا میں واپس آیا اور اسے محسوس ہوا کہ دنیا حسین نہیں اور وہ غلطی پر تھا۔ بازار بند ہونا اس بات کی علامت سے کہ اس کی امیدوں پو اوس پڑ گئی تھی۔ اسے حقائق کا علم ہو گیا تھا ۔ اس کے جذبات جنوں اور اعمال باطل تھے۔ روشنی اور تاریکی اس کہانی میں بنیادی متحارب ہیں۔ اس کی اپنی اپنی روشنی کھو گئی تھی۔ اس کی خواہشات ختم ہوگئی تھیں اور حقیقت کے منفی رخ کو محسوس کر لیا تھا۔

 

اس نے تاریک اور غمناک کے بھی  حوالہ جات دئیے ہیں۔ موڈ یا ماحول کو بیان کرنے کے لئے اور بعد میں تیز روشنی کا ذکر اس لئے کیا ہے تا کہ مینگن کی بہن کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ جب بھی مینگن کی بہن کی بات کرتا ہے تو اس وقت روشنی ہو جاتی ہے۔ اس ماحول میں کچھ سوچ رہی ہوتی تھی تو اس وقت اس کے وصائف مثبت اور روشن دکھائے گئے ہیں ۔ ایک مقدس روح لگ رہی تھی۔ لیکن جب وہ بازار پہنچا اور تاریکی چھا رہی تھی تو حقیقی دنیا میں واپس آیا اور اسے محسوس ہوا کہ دنیا حسین نہیں اور وہ غلطی پر تھا۔ بازار بند ہونا اس بات کی علامت سے کہ اس کی امیدوں پو اوس پڑ گئی تھی۔ اسے حقائق کا علم ہو گیا تھا ۔ اس کے جذبات جنوں اور اعمال باطل تھے۔ روشنی اور تاریکی اس کہانی میں بنیادی متحارب ہیں۔ اس کی اپنی اپنی روشنی کھو گئی تھی۔ اس کی خواہشات ختم ہوگئی تھیں اور حقیقت کے منفی رخ کو محسوس کر لیا تھا۔ اندھیرا  اس کو ناامیدی پیدا کرتی  ہے لیکن وہ اس میں بھی امید کی کرن ڈھونڈ نکال لیتا ہے۔

 

 وہ   روشنی پسند کرتا ہے کیونکہ اس نے اس کی بنجر زندگی میں تازگی اور روشنی امید بھر دی ہے۔ مقصد پیدا کردیاہے۔ وہ لڑکی ایک مقدس ہستی کے روپ میں نظر آتی ہے۔ کھڑکی سے روشنی پھوٹنا اس کی محبت کی علامت تھی۔  

 

اس میں جوائس نے اسے دنیاداری کے بارے میں آگاہی فراہم کی ہے۔ اس میں اس نے پتایا ہے کہ وہ محتاج ہے۔ خود مختار نہیں ہے۔ اپنے انکل اور آنٹی کا دست نگر ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ بالغوں کے مسائل کیا ہو سکتے ہیں۔ اسے پہلی بار اس بات کا احساس ہوا ہے کہ شراب نوشی اور قرض بھی بالغوں کے مسائل ہیں۔ کہانی کے مطالعہ سے ایسے لگتا ہے کہ راوی ابھی خود مختار نہیں ہے۔اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے دوسروں کا محتاج  ہے۔

 

راوی کی بے صبری اس بات کو پیش کرتی ہے کہ اس میں اس وقت بھی بچگانہ عادات پائی 

جاتی ہیں۔ وہ زندگی کے اس بات کا علم نہیں کہ وہ بچوں والا کردار کرے یا بالغوں والا 

کردار ادا کرے ۔وہ اس کشمکش میں ریتا ہے ۔ بچوں  اور بالغوں کے مابین تفریق کرنے میں

 ناکام ہے لیکن وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ بالغوں کے مسائل کیا ہوتے ہیںجن سے اس کا 

انکل نپٹ رہا ہے۔ اسے اسوقت احساس ہوتا ہے کہ بلوغت کے بعد قرض اور شراب نوشی 

بھی مسئلے ہیں جو عملی زندگی میں اہم ہیں۔مسز مرسر  کی اس کے گھر آکر انکل کا کافی دیر 

انتطار کرنا  بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی اس سے قرضہ وصول کرنے آئی تھی۔

 

کہانی کے آخر میں تاریکی اور روشنی کا امتزاج تھا۔۔۔ بازار میں لڑکے کا حقیقت سے سامنا 

ہونے کی تشریح کرتا ہے۔ وہ بازار دیر سے پہنچتا ہے اور بازار کی روشنائیاں کم و بیش بند 

تھیں کیونکہ بازار بند ہو گیا تھا۔ کہانی کا اختتام اس طرح ہوتا ہے کہ وہ تاریکی میں نظریں 

گاڑے ہوئے تھا۔ اور خود کو حشرات الارض محسوس کر رہا  ہوتا ہے۔۔۔اس میں جو اس نے 

اس کے احساسات کو شیطان کی طرز کے غصے سے تشبیہہ دی۔

 

 

Popular posts from this blog