Bare Winner short film ( 2016 'A Social Life' by Rebecca hall and Keith Lemon


 

Award Winner  ‘Bare’ Social Media Depression  Short Film

عالمی ادب

 

 

سوشل میڈیا  کی  زندگی میں افسردگی

A Social Life

 

 ربیکا ہال اور کیریتھ لیمن ( عالمی انعام یا فتہ)

Rebecca Hall & Kerith Lemon

مترجم و تجزیہ  :  غلام  محی الدین

 

صبح آنکھ کھلتے ہی   اس نے اپنا  آئی فون  اٹھایا اور فیس بک  پر اپنی لگائی گئی  وڈیوز اور تصاویر  کہ انہیں  کتنی لائکس  ملی ہیں ، بستر سے اٹھ کر  جوتے پہن کر تسمے باندھتی ہے اور اپنے جوتوں کی فوٹو کھینچتی ہے اور فیس بک ( ایف بی ) پر لگا دیتی ہے ۔اس کے جوتے برانڈڈ ہیں اور نئے ہیں ، وہ توقع کرتی ہے کہ اسے دیکھ کر  لوگ اس پر تبصرہ کریں گے اور لائکس بھیجیں گے۔ اس کے بعد آئینے میں دیکھ کر اپنے بال سنوارتی ہے اور  باورچی خانے  جاتی  ہے، فریج کھولتی ہے  تو  اس کی والدہ جو اس کی والدہ کا ہے۔' میں تم سے ملنا چاہتی ہوں  میریڈتھ   !'  ۔۔۔؛ رہنے دو۔ ماں۔'          ۔۔۔'کیوں؟' ۔۔۔' میں مصروف ہوں ، آئی لو یو  ماں ' ۔۔۔۔  میں بھی  تم سے پیار کرتی ہوں  ' میریڈتھ،' کہہ کر فون بند کر دیتی ہے۔کاؤنٹر  پر مختلف رنگوں کی چار   کشمیری مرچیں ایک پلیٹ میں سجا کر اس کی فوٹو کھینچتی ہے اور ایف بی پر پوسٹ کر دیتی ہے  اور لوگوں کے تبصرے کا ان پر تبصرے کا انتظار کرنے لگتی ہے ۔۔۔ پھر وہ ٹماٹر لیتی ہے اور اسے کاٹنا شروع کردیتی ہے ۔اس کے بعد وہ  دلیہ کھانے لگتی ہے کہ اس کا فون بجتا ہے ۔وہ مختصر بات کرتی ہے کیونکہ وہ  مزید فوٹو کھینچ کر انٹرنیٹ پر لگانا چاہتی ہے۔ اس کے بعد  رسمی  لباس پہن کر  اپنے ڈریس کی اور مختلف جوتوں کو ٹرائی کرتے ہوئے درجنوں  تصاویر کھینچتی ہے اور   فیس بک ، ٹویٹر ، انٹاگرام پر لگاتی ہے اورناظرین کے  تاثرات  جاننے کا انتظار کرتی ہے۔

میریڈتھ کا مشن ہے کہ اس   کی  پوسٹس  کو زیادہ اے زیادہ پسند کیا جائے  ۔اس کی نظریں ہمیشہ فون پر ٹکی رہتی ہیں ۔اسے ٹک ٹاک اور تازہ ترین لوڈ کرنے کا  جنون ہے ۔ وہ چوبیس گھنٹے اپنی تصاویر پر لائکس کرنے کے لئے بیقرار رہتی ہے ۔ وہ لیٹتی ہے تو انٹرنیٹ پر ہوتی ہے ۔ رات بھر اٹھ اٹھ کر اپنا پروفائل اپ ڈیٹ کرتی رہتی ہے۔ ہر قسم کے مشروبات   جو وہ لاتی ہے تازہ ترین تصاویر کھینچ کر انٹرنیٹ پرلگاتی ہے اور ہر پل ، ہر آن       مشاہدہ کرتی رہتی کہ اس کے فالوئرز کتنے ہو گئے ہیں ، ان پر اسے کتنی لائکس ملی ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کی  ریٹنگ  پر نظر رکھتی ہے، اگر اس کی توقع کے مطابق  ریٹنگ نہ ہو تو  انٹر نیٹ کو  دوبارہ سے چالو کرتی ہے یا بحال کرتی ہے  کہ کہیں وائی فائی   سے غلطی نہ ہو گئی ہو۔وہ میک اپ کرتی ہے تو اس کے ایک ایک مرحلے کی تصویر اتار کر کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر  انٹرنیٹ پر لگا دیتی ہے۔ اس پر ناظرین کے طرح طرح کے تبصرے دیکھتی ہے۔ ہاٹی ؛  وی آئی وی  ُ ڈو ٹیل ٌ؛  گو گرل ؛ لٹل ہاٹی اور 24 لائکس ، 23 لائکس  وغیرہ  طرح کے تبصرے کئے ہوتے ہیں جسے دیکھ کر وہ مزید فوٹو اپ لوڈ کرتی ہے کہ اس کو مزید پذیرائی ملے۔

وہ  صوفے پر سوتی ہے تو بلب آف کر دیتی ہے اور فون اپنے پاس رکھتی ہے اور رات کو اٹھ اٹھ کر انٹرنیٹ چیک کرتی رہتی ہے ۔وہ آنکھیں بند کئے فرش پر پڑے ٹیلیفون کو اپنا ہاتھ ادھر ادھر پھیرتےہو ئے فو ن تلاش کرتی ہے۔ اسے کوئی نئی نوٹیفیکشن  نظر نہیں آتی تو وہ پریشان ہو جاتی ہے ، فوری اٹھ کر آئینے کے سامنے جاکر مزید  درجنوں تصاویر کھینچ کر اپ لوڈ کرتی ہے تاکہ اسے لائکس مل سکیں۔آخر میں اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کیا کررہی ہے ۔اس کا رابطہ تو حقیقی انسانوں سے  مکمل طور پر کٹ چکا ہےاور اس کے حصے میں تصاویر ہی رہ گئی ہیں۔

  

تجزیہ

 

ربیکا ہال اور کیریتھ لیمن کا افسانہ ڈیجیٹل میڈیا  کے اثرات سے متعلق ہے۔اس میں سوشل میڈیا کی نوجوان  مداح  جس کا نام میریڈیتھ  ہے۔وہ اپنے تئیں کوشش کرتی ہے کہ    دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ  اس  شوق کو بھی پورا کرتی ر ہے ۔وہ روز مرہ  امور  ، ورزش   اور مشغلے میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود وہ  ٹک ٹاک اور ڈیجیٹل میڈیا میں اتنی کھو گئی ہے، کہ آئی فون    کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔مختلف پوز بنا کرتصاویر کھینچتی اور ٹک ٹاک کرتی رہتی ہے۔اسے اپنے فالوورز بنانے اور لائیکس وصول کرنے کا جنون ہے۔ وہ  ہر لمحے ٹریک رکھتی ہے کہ اس کی وڈیوز پر اسے کتنی لائکس ملی ہیں ۔ اگر اس کی توقع کے مطابق نہ ہوں تو وہ سمجھتی ہے کہ شائدانٹرنیٹ   سے کوئی غلطی ہو گئی ہے ، وہ ریفریش کرتی ہے ،اور نئی وڈیو یا میمیز بنا کر ڈال دیتی ہے۔وہ انٹرنیٹ پر اپنا امیج قائم کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ اس کے دن کاآغازہی ٹک ٹاک سے ہوتا ہے اور رات سونے  پر ختم ہوتا ہے ، آئی فون اپنےپاس رکھتی ہےاور رات کو اٹھ اٹھ کر اپنی پوسٹس کو دیکھتی ہے۔

اس کا روزمرہ معمول یہ ہے ،کہ صبح جاگنے پ موبائل          پر انٹرنیٹ کھولتی ہے،  ورزش کرتی ہے، ناشتہ بناتی ہے، اپنی دوستوں سے گفتگو کرتی ہے  اور ایک ایک لمحے کی کاروائی انٹرنیٹ پر ڈالتی رہتی ہے۔انٹر نیٹ یا وائی فائی چلا جائے تو وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتی ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے تجاوز سے اسے رفتہ رفتہ احساس ہونے لگتا ہے کہ  وہ اپنی زندگی تو جی ہی نہیں رہی ، اس کی زندگی کا ماحصل  فیس بک ، ٹویٹر ، انسٹاگرام ، پنٹرسٹ ، ٹک ٹاک ، میمیز ، اور  تصاویر   اور وڈیوز کے ڈھیر ہیں۔۔۔اس کے ذہن میں سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا اس کی زندگی  محتاط انداز میں  آن لائن   تک ہی محدود رہ گئی ہے اور وہ کسی خاص کمپنی کی مشہوری کر رہی ہے۔  ? Curated brand

اس کہانی  کو   غیر جذباتی ، غیر جانبدارانہ،سادہ اور سیدھے انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کےروزانہ کے معمولات کو تفصیل سے بیان کیا گیہے، بعض جگہ کچھ باتیں جان بوجھ کر ادھوری رہنے دی ہیں  تاکہ قاری  یکسانیت  اور تصنع سے اکتا نہ جائے ۔کہانی میں اس کے فون  کی گھنٹی ہر وقت بجتی رہتی ہے اور اس کے کندھوں کے اوپر آئینہ موجود ریتا ہے تاکہ کوئی لمحہ منظر کشی سے چوک نہ جائے ۔ اس طرح  سے میریڈیتھ   اپنا امیج  بناتی رہتی ہے۔ اس طرح  وہ  نئے نئے سٹائل پیش کرکے مقبولیت میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔یہ اس بات کااظہار ہے کہ سوشل میڈیا کے متوالے    اصلی تجربات ٖحاصل کرنے کی بجائے اپنی زندگی تصاویر دیکھنے پر گزار دیتے ہیں۔

اس افسانے میں بتایا گیا ہے کہ  موجودہ دور میں سوشل میڈیا کس  طرح  انسانوں کی شناخت   کی تشکیل  کے لئے اہم ہے ۔ انٹرنیٹ کس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔میریڈیتھ کے روزمرہ معمولات  کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ  کہانی  اس بات  کی نشان دہی کرتی ہے کہ انسان جان بوجھ کر اپنی مرضی سے  اپنی شاخت حقیقی کارکردگی کے بغیر مصنوعی  زندگی گزار رہا ہے  میریڈیتھ کی  روزمرہ سرگرمیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہےاور قاری  کو  پہلے سے علم ہو جاتا ہے کہ اس نے آگے کیا کرنا ہے۔ اس میں اس کی تمام زندگی 'لائیکس ' پر محیط ہے جس میں جذبات و احسات مفقود ہیں۔

اس کہانی میں فون کا بے جا استعمال اس چیز کی نشان دہی کرتا ہے  ڈیجیٹل مداخلت نجی  زندگی میں کس حد تک اہمیت اختیا کر گئی ہےاور  آئینہ  کثرت سے استعمال کرنا اور وڈیو بناتے رہنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ   سوشل میڈیا خود نمائی  کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔کہانی قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہ وقت انٹرنیٹ پر رہنے سے ناظرین کو حقیقی تجربات حاصل ہو رہے ہیں یا   کسی خاص برانڈ  کی سطحی معلومات حاصل کی جارہی ہے۔اس سے اپنی توقیر ذات ، ذہنی صح اورمعاشرتی دباؤ کہ خود کو بغیر خامیوں کے پیش کیا جائے ، پیدا کرتا ہے ۔یہ کہانی سوال کرتی ہے کہ انٹرنیٹ    کی جو زندگی ہم گزار رہے ہیں، کیا وہ ہماری حقیقی زندگی گزار رہے ہیں وہ کھوکھلی ہے۔ اپنی پرائیویسی ختم ہو جاتی ہے ۔

 ٹک   ٹاک   اصل تجربات  اور انسانوں کی بہتری کو مٹا دیتا ہے کیونکہ  ایسا مواد  جو انٹرنیٹ پر پیش کیا گیا ہوتا ہے ، وہی صحیح سمجھ لیا جاتا ہےاور ہم حقیقی تجربات حاصل نہیں کر سکتے۔اس طرح ہمیں اپنی صلاحیتوں کا پتہ نہیں چلتا۔اس کہانی میں یہ مشورہ دیا گیا ہے معتبر ، جوازی معلومات  حاصل کی جائیں اور اپنی درو قیمت کا تعین لائیکس  یا فالوورز سے نہ کیا جائے۔

 اس افسانے کا نفسیاتی جائزہ لیا جائے  تو سوشل میڈیا ڈپریشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اس  کے ناظرین و سامعین  میں مایوسی  پھیل جاتی ہے۔اس کا موڈ اور ذاتی انا کو ٹھیس لگتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی زندگی اور مصنوعی زندگی میں وسیع  تضاد پایا جاتا ہے۔آن لائن پراجیکٹ  ، مثالی بناکر پیش کئے جاتے ہیں۔میریڈتھ کی یہ سوچ  کہ اس کا امیج  وہ وڈیو یا تصاویر بناتی ہیں جو وہ آن لائن ڈالتی ہےاور وہی اس کی معتبر ذات ہے۔۔۔ جدید وقوفی تناظر میں تبدیل ہو جاتی ہے: سوشل میڈیا جو معیار مقرر کرتا ہے وہ بہت اعلیٰ ہوتے ہیں جنہیں حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جو  پریشانی ، اضطراب ،افسردگی اور بیگانگی پیدا کردیتے ہیں۔کہانی میں یکسانیت ، تیز تیز ایڈیٹنگ ، فون  پر مسلسل گھنٹیاں ۔ وقف کو اوور لوڈ کردیتی ہیں جس سے جذباتی  ڈیٹیچ منٹ  پیدا ہو جاتی ہے ۔ کندھوے پر ہر وقت آئینے کی مو جودگی  میں لئے گئے وڈیوز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ ناظرین کے ذہن  میں اپنا کیسا تصور قائم کرنا چاہتا ہےجو اس پر مستقل نفسیاتی بوجھ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے: جس سے خارجی جواز کو اپنی ذات کی طرف منتقل کردیا جاتا ہے۔اس میں مطالعہ باطن کی ضرورت پر زور دیا گیا ہےجو اس ڈیجیٹل دور میں اپنی ذہنی  صحت  کے بارے میں شعور پیدا کرتی ہےاور اپنی ذات کے بارے میں جاننے ، ڈیجیٹل  دنیا  تجک محدود کردیتی ہے ۔۔

ٹک ٹاک کا آغاز تو مغربی ممالک سے ہوا ہے لیکن اس کے موضوعات مکمل طور پر پاکستان پر لا گو ہیں۔یہاں اس کے استعمال میں روز بروزاضافہ ہو رہا ہے خاص طور پر نوجوانوں ،ایف  بی ،  انسٹاگرام ، ٹک ٹاک لائف سٹائل کو متاثر کرتے ہیں  جس سے دیہی علاقوں میں عموماًاور شہری علاقوں کی ذہنی صحت  میں خصوصاًخرابی پیدا ہو رہی ہےجس سے رسوم و روایات تیزی سے بدل رہے ہیں۔علاوہ ازیں ، انٹرنیٹ کا کثرت سے استعمال  اجتماعی  ثقافتی حرکیات پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے :آن لائن   مواد خانگی کمیونٹی  کی اقدار بدل رہا ہے ،جو یہ  بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے جی رہے ہیں یا  پھر دوسروں  کی باتوں پر انحصار کرکے ان کے تجربات   اپنی زندگی میں شامل کررہے ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 


Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)

**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی