غوطہ زن The Diver By Isak Dinesen(Denmark) (1885-1962)


غوطہ زن

The Diver

By

Isak Dinesen(Denmark)

(1885-1962)

پیشکار:غلام محی الدین

 اس کہانی کی راوی 'ِمیراجوما'ہے جوایک شاعرہ  ۔مذہبی  علوم کی طالبہ اور داستان گو ہے۔ وہ کہانیوں کو  ایسے انداز میں بیان کرتی ہے جیسے لوگ آپس میں گفتگو کرہے ہوں۔ اس داستان کا مرکزی کردار شیراز  کا ایک نوجوان'  'سوفتہ ساعفتی '  ہے  ۔وہ دینی تعلیمات کی طرف مائل ہے۔اسے فرشتوں کی زندگی اچھی لگتی ہے جو خدائی احکام بجانے کے لئےہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ وہ مقدس صحیفوں کی تلاوت کرتا رہتا ہےاس کے نزدیک فرشتے صرف نر نہیں ہوتے بلکہ مادہ بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے فرائض کو سر انجام دنیے کے لئے کوئی سا بھی روپ دھار لیتے ہیں۔اس میں اس کی ایک مادہ فرشتہ ایک ناچنے والی کی شکل میں اس کی دوست بن جاتی ہے۔فرشتوں کے خواص پروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔وہ اپنے پروں کی مدد سے اپنی مرضی سے فضا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ اسلئے اس جنون کے کی تکمیل کے لئے ایک ورکشاپ بناتا ہے جہاں وہ دو ایسے پر بناتا ہے جو اسکے کندھوں پر فٹ آسکتے ہیں اور وہ ہوا میں اڑ سکتا ہے۔راوی میرا بھی خبروں کی تلاش میں ٹوہ میں رہتی ہے۔

'سوفتہ ساعفتی' اہو وقت شہر میں قیام پذیرہے۔وہ فطین اور نیک دل ہے۔وہ ایک خوبصورت نوجوان ہے۔وہ قرآنی  تعلیمات سے  فرشتوں  سے متعلق زیادہ سے زیادہ  معلومات حاصل کرتاہے۔اس کی روح اپنی ماں،بھائیوں،رفیق کار،طلباوطالبات اور شیراز کے تمام لوگوں سے  زیادہ فرشتوں  سے متعلق ہر قسم کی معلومات کی تلاش میں رہتی ہے۔وہایک نیک شخص ہے۔  تلاوت کرتا ہے۔اسےفرشتے  فضا میں تیرتے ہوئے خدائی اخکامات و انسانوں کی روح  تک   محبت و شفقت یا بزورِعملدرآمد کرواتے ہیں کے فرائض اسے لبھاتے ہیں۔خدائے عزوبرترکا تخت  اتنااونچاہے کہ انسانی آنکھ کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی ۔۔ اگر انسانی ذہن  اسکےبارے میں سوچے تو وہ ڈگمگا جاتا ہے۔اسے اس بات پر یقین ہے کہ فرشتے  آسمان سے ہمارے تاریک گھروں اور تعلیمی اداروں کی کلاس کے درمیان موجود ہوتے ہیں۔ہمارے لئے یہ  ممکن  ہے کہ انہیں دیکھیں اوران کے نزدیک کے نزدیک پرندے،تمام مخلوق سے زیادہ فرشتوں کے قریب تر ہیں۔جنت اور زمین  میں جو خدا کی عبادت کرتے ہیں، فرشتے بھی ان میں شامل ہیں۔ وہ حمد بیان کرتے ہیں اور اپنی تفویض کردہ  فرائض سرانجام دیتے ہیں اور یقیناً پرندے  بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔سوفتہ  سفاعتی کے نزدیک اگرہم پرندوں کے خواص اپنا لیں توہم بھی فرشتوں جیسے بن  سکتے ہیں۔ اس سے وہ بلندیوں پرپروازکرساوراس مقام تک رسائی حاصل کرسکیں جہاں صاف  شفاف اور دائمی روشنی رہتی ہے۔ پرندہ، اپنے پروں کو پوری طرح پھیلائے،تووہ  اڑسکتا ہے، قلابازیاں لگا سکتا ہے۔ یہ  کسی فرشتے سے ایتھر کے جنگل،بیابان راستے میں  مل بھی سکتے ہیں ۔ فرشتوں کے پروں کو چھو بھی سکتے ہیں،عقاب کی نظروں سے دیکھ بھی سکتے ہیں۔ جب اس کی قوت کم و بیش ختم ہوچکی ہواس وقت وہ پیامبروں کی خاموش آنکھوں سے مل  سکتے ہیں۔جب راویِ ِمیرا  نے اس کے پروگرام کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا۔'میں   نے فیصلہ کیاہے کہ میں بھی اپنے اور اپنے ہمراہی  کے لئے پر ایجادکروں گاحالانکہ اس کے لئے مجھے شراز میں تعلیم چھوڑنی پڑے گی۔میں نے آج تک  اپنے خاندان  کی کفالت اور اپنے اخراجات  امیرلوگوں کے بچوں کو پڑھاکراور قدیم دستاویزات کے مطالعےسےحاصل ہونے والی رقم سے کی تھی۔ اپنا مقصد جاری رکھا۔اس  کے اساتذہ  اس سے ملنے آئے جنہوں نے تبصرہ کیاکہ فرشتوں سے ابلاغ                نہ تو اب اور نہ ہی مستقبل میں کیا جا سکتا ہےلیکن اگر ایسا ہوگیاتووہ  تخلیق اس مالی نقصان  کی کئی گناتلافی کردے گا   اور  مستقبل میں کسی اعلیٰ عہدے پرفائز ہوگااور بڑی ترقی کرے گا۔

نوجوان 'سوفتہ ساعفتی نے    اپنے مقصد کی تکمیل میں شیراز چھوڑ دیا بالکل اسی طرح جیسے پرندےتارک وطن   کرتے ہیں۔جو  موسم کے تغیروتبدل سے اپنےوطن  کو چھوڑتے ہیں اپنے سفرکوگرم خطوں کی طرف نہیں لے جاتےکیونکہ  ان کاوجود ہی نہیں ہوتایابھراپنا رخ  میدانی علاقوں سے تبدیل کرکے  سمندر میں گرجاتے ہیں جہاں ان کا وجود تلاش کرنا مشکل ہوجاتاہے کیونکہ خدا اس  بات کی تکمیل کے بغیرکی ان کے سامنےنہ توکوئی امید اور نہ ہی کوئی خواہش  پیداکرتاہے لیکن ہماری خواہشات ہمارے عہد ہیں، معاہدے ہیں اور ان میں خوش نصیب بیماروطن ہیں، کیونکہ وہ اپنے گھر واپس آناچاہتے ہیں۔اپنی سوچوں میں گم  ہوتے ہیں کہ   دنیا   نےکتنی ترقی کی ہے اور مزید کتنی  کرے گی ۔اگر میرارابطہ فرشتوں سے ہوگیاتو میں ان کی مددسے کائنات کی  ہیئت کو سمجھ لوں گااور ان سے راز اگلوالوں گا۔ فرشتے  اونچائی سے جودیکھتے ہیں اور جانتے ہیں جان پائے گا۔اساتذہ اس کے ارادے پر معترض تھے۔ان کے مطابق وہ اپناقیمتی وقت ضائع کررہاتھا۔

'سوفتہ ساعفتی' کا اس   شئے  کے بارے میں ارادہ مصمم تھا اوراسے اس پر اعتقادبھی پکاتھااس لئے اساتذہ اس کی ضد کے آگے ہارمان  گئےاوروہ اس بات پر قائل ہوگئے کہ مستقبل میں ان کے شاگردکی مقبولیت سے وہ بھی مشہورہوجائیں گے۔نوجوان سوفتہ پوراایک سال پرندوں کے ساتھ رہا۔اس نے  اپنا بسترکھلے میدان میں گھاس پر کھلی جگہ پرہی لگالیاجہاں کوئل گنگناتی تھی۔وہ قدیم درختوں  پر چڑھنے لگا  اور وہاں چھلوں کی شکل فاختہ  گھونسلہ بناکررہتی اور جنگلی چڑیا آتاجاتادیکھتا باتوں اور برگ میں اتنی خامشی سے گھروندہ بناتی کہ ساتھ والی ٹہنی پر بیٹھا ہوا عقاب  بغیر کسی  خلل کے سکون سے بیٹھارہتااوران پرندوں کوذرابھی پریشان نہ کرتا۔وہ اونچے اونچے پہاڑوں پربرف کی  تہوں کے نیچے تک جاتا، اوپر آتااورادھرادھر اڑا کرتا۔عقاب کے پڑوس میں ان کا آنا رہتا۔وہ کافی معلومات حاصل کرنے کے بعد شیراز لوٹا۔اس وقت پرندوں کے بارے  میں کافی بصیرت حاصل ہوچکی تھی اور اس نے 'پروں' پر کام شروع کردیا۔قرآن مجید میں اس نے پڑھاکہ تعریف حمدوثنا صرف اللد کے لئے ہےجس نے فرشتے پیداکئے۔کسی کے دواورکسی کے چارپروں کے جوڑے لگائے۔اس نے یہ فیصلہ کیاکہ پروں کے تین جوڑے ،بنائے۔ایک اسکے کندھوں، دوسرا اس کی کمر پراور تیسرجوڑاا اس کے پاؤں پرلگایا جائے گا۔اس خلانوردی میں اس نے عقاب،ہنسوں،امریکی گِدھوں کے سینکڑوںپر اکٹھے کر لئے۔اس نے خود کو ان پروں میں گم لیااوراتنے جوش خروش سے ان میں مصروف رہاکہ ظویل عرصے تک نہ تو وہ کسی سے ملااورنہ ہی گفتگوکی لیکن جب وہ کام کررہاتھاتووہ ساتھ ساتھ گانابھی گارہاتھااورجوراہگیروہاں سے گزرتاتواس کے گانوں کوسنتا،غورکرتا،تبصرہ کرتااور حمد گاتابھی  رہتاتھا۔خدا کی عبادت میں مگن رہتااور ان احکامات پرعمل کرتاجوخدا نے  جاری کئے تھے۔

کہانی نویس کے طورپر میں اس کی ہر سرگرمی کا خفیہ طور پرجائزہ لیتی رہی جہاں کہیں کسی جگہ پر کہانی میں خلانظرآتا توداستان کومعیاری بنانے کے لئے براراست بات چیت بھی کی۔

جب 'سوفتہ ساعفتی' نے پروں کا پہلا جوڑاتیارکرلیا۔اسے اپنے بازوؤں پرجوڑاتواسے محسوس ہواکہ ان پروں کے تین جوڑے بنانے کی وجہ سے اس میں اتنی  صلاحیت  پیداہوگئی کہ وہ اڑسکے اور اس کاوزن اٹھاسکے۔اس نے اپنی یہ ایجاد کا دوسرے لوگوں اور داستان گو سے کیا۔پہلے پہل شیراز کے معتبرین نےجوقادرمطلق کی ایجادات پر خوش ہوتے تھے۔سوفتہ کی استفادیت کو جی بھر سراہا لیکن جوں جوں نوجوان اڑ کر فرشتوں سے خبریں لیتا اور اپنے خوابوں  اور تشریح لوگوں کو مؤثر طریقے سے بیان کرتا رہا۔ س کی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیا اور کئی اس کے خلاف   ہوکر اس کے خلاف ہوگئے جس سے   اس پرخطرات منڈلانے لگے۔جب وہ جوان اپنے پروں کے ساتھ اُڑتا اور فرشتوں سے ملاقات کرکے گفتگوکرتا۔ان سے دنیاکے بارے میںمعلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔بعض دفعہ وہ اشاروں کنایوں میں  انکشاف کرتےاور کبھی ادھر ادھر کی باتیں کرکے ٹرخا دیتے توزمینی باشندے گومگو کی کیفیت میں رہتے۔ان پر غور کرتے ۔ان میں ایک وزیر جس کا نام 'مرزاآغائی' تھانے اس جوان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ نوجوان معاشرے کے لئے خطرہ ہےاس کے خواب اور باتیں جو وہ فرشتوں سے منسوب کرکے بیان کرتا ہے ،دھوکے کے سواکچھ  نہیں ۔ اس کی یاوہ گوئی نے زمینی حقائق کو نقصان پہنچایا ہے۔اس نے ہماری تحقیقات کو رد کردیا ہے۔لوگ اس وقت تک اس کی باتوں کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک کہ ان کی تصدیق نہ ہوسکے۔

اگلے دن انہوں نے بادشاہ کی ایک رقاصہ کو  جس کا نا نام 'تھوسمو'تھاکو 'سوفتہ ساعفتی 'کے پاس بھیجاکہ اس کے دعووں  کی اصلیت کا پتہ چلائے۔اور بہانے بہانے سے اس کی باتوں کے ذرائع، حصے اور معلومات کی اعتباریت معلوم کرنا چاہی تواس نے اس کو اتناہی بتایا جواس کے لئے ضروری تھا۔اس کے ساتھ دوستی کرلی  اور اسے اس بات پر رضامند کرلیا کہ  وہ  اس کی مرضی کے مطابق رپورٹ دیاکرے گی۔جبکہ حکام نے ایک شاہی طائفے کی ایک رقاصہ 'سموتھسو 'کو سوفتہ کی جاسوسی  کے لئے بھیجا تھاکو دھمکی دی کہ اگر اس نے معلومات سوفتہ کے خلاف نہ دی تو اسکی  تنزلی کردی جائے گی یا شاہی ڈانسر کے عہدے سے برطرف کردیاجائے گا جبکہ سوفتہ اسےمادہ فرشتہ سمجھتاتھا۔اس کا مانناتھاکہ وہ رقاصہ  کی شکل میں زمین پرلائی گئی تھی ۔اس میں انسانی خواص پیداکردئیے گئے تھےاور وہ اس کی گہری دوست بن گئی تھی۔وہ اکثر اسکے ساتھپائی جاتی۔

ایک رات جب 'سوفتہ ساعفتی اپنے گھر کی چھت پر ستاروں کا معائنہ کررہاتھااورسوچ رہاتھا کہ ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک وہ اڑکرکیسے جاسکتاہے اورکتنی تیزی سے جاسکتاہے اورکتنے عرصے میں جاسکتا،ہے تواسےپیاربھری آواز سنائی دی جو اس کے پیچھے سے آرہی تھی جس نے اس کا نام پکاراتھا۔وہ اسے دیکھنے کے لئے مڑاتواسے ایک سنہریاور نقرئی لباس میں ملبوس  ایک پتلانورانی شکل نظرآئی جوچھے کے ایک کونے پر بالکل  سیدھی کھڑی تھی،اس کے دونوں پاؤں جڑے ہوئے تھے،'سوفتہ ساعفتی کے ذہن میں اس وقت فرشتوں کا تصورہی چھایاہواتھا،اس لئے اسے اپنے اس ملاقاتی کی فوراًشناخت کرلی اور زیادہ حیران بھی نہ ہوابلکہ اسے دیکھ کرخوشی سے نہال ہوگیاکیونکہ وہ 'سموتھسو' تھی۔ اس کے بعدوہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔اس نے ہمدردی اور مہربانی سے اس کی  طرف جھکایااوراپنی سیاہ گھنی حاشیائی آنکھوں سے اسے  دیکھااور سرگوشی میں  کہا میں جانتی ہوںکہ تم نے مجھے ایک عرصہ پہلے اپنے دل میں بسالیاتھااورمیرے غلام بن گئے تھے۔میں اب اس لئے یہاں آئی ہوں کہ میں  رہائش  گاہ  کا معائنہ  کروں کیونکہ میں تمہارے  ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ تمہارے  گھر میں تمہاری  عاجزی  اورتمہاری تیاری پر بھروسہ  کر سکتی ہوں کہ تم نے میری   مرضی پرچلناہے ۔ اس کے  بعدوہ آلتی پالتی مارکرچھت پر بیٹھ گئی جبکی سوفتہ اپنے  گھٹنوں پربیٹھارہااوروہ آپس میں گفتگوکرتے رہے۔

ہم فرشتوں!  اس  خاتون  نے کہا،توآسمان اور زمین میں اڑان بھرنے کے لئے پروں کی ضرورت نہیں ہوتی،۔اگر ہم (سوفتہ اور  خاتون فرشتہ سموتھسو)سچے  دوست بنکررہنے لگ جائیں توتمہارے ساتھ بھی ایساہی ہوجائے  گا،اور تم بغیرپروں کے اڑسکو گے  اوروہ' پر'جو تم بنارہے ہو،کو ضائع کردوگے۔

اس پر سوفتہ نے جوشیلے  انداز میں کہاکہ یہ ممکن ہو پائے گاکیونکہ ایساہواتویہ سائنس کے تمام اصولوں  کے برعکس ہوگا۔اس کی بات سن کر 'سمو تھسو  'کھل کھلاکرہنس پڑی اورکہا۔ میں  تمہیں یہ سکھانا چاہتی ہوں کہ انسان اور فرشتے  توتکار کے بغیرکس طرح  ایک نکتے  پر متفق ہوجاتے ہیں ۔ایک ماہ تک  وہ اس کے ساتھ رہی ۔وہ جان ودل سے اس پر فریفتہ رہاااوراس نے اپنی توجہ آفاقی تفہیم پر لگادی۔اس نے تھوسموکوکہاکہ مجھے اب اس بات کا احساس ہواکہ جن  جس کانام  ا'بلیس 'تھاکتنی صحیح تھاجس نے خدا کے حکم کی خلاف ورزی  میں آدم کو سجدہ کرنے سے انکارکردیا کہ جن خود کو انسان سے اعلیٰ سمجھتا تھا۔آدم مٹی اور گارے سے بناجبکہ وہ آگ سے بنا تھا۔اور دوبارہ آہ بھرتے ہوئے کہا:'وہ جو فرشتوں کا دشمن ہے وہ خداکادشمن ہے'

اس نے سموتھسو کواپنے گھرمیں رکھنے کی پیشکش کی جس نے اسے تنبیہ کی کہ اس سے وہ ایوان اقتداراور عوام الناس کے غیض وغضب کاشکارہوسکتاتھااسلئے وہ دن  کی روشنی میں وہ مکان میں ہی رہے گی ۔صرف رات کو ہی باہر نکلے گی۔اس کے ساتھ  چھت پر آئے گی اور وہ  دونوں  مل کر نئے چاندکودیکھا کریں گے۔سوفتہ نے کہاکہ وہ زمانے کی پرواہ نہیں کرتا۔وہ اس کے ایثار سے اور متاثر ہوگئی اوروہ اسے مزید  خوبصورت  لگنے لگاوراس کا جوش وجذبہ اسے  مزید اچھالگنے لگا۔وہ اس بات پر یقین کرنے کگی کہاس میں اتنی ہمت تھی کہ وہ  جوعزم بھی کرے نبھاسکتاتھا۔

جب چانداپنے جوبن پرپہنچااورتمام شہراس کی روشنی میں  دھل گیاتووہ دونوں(مادہ فرشتہسموتھسو اور 'سوفتہ ساعفتی')گھر کی چھت پرچلے گئےاور وہ اس کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگااوربولا'جب  سے تم سے ملاقات ہوئی ہے تب سے مجھ میں نئی زندگی پیداہوگئی تھی۔میں  یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ خدا نے فرشتوں کو پر   کی نعمت عطاکی تھی۔ انسان کو ہاتھ دیئے تھے۔ اس کے دل میں رحمدلی بھی بھر دی  تھی۔'سوفتہ ساعفتی' نے اپنے ہاتھ بلند کئے  اور سمو تھسو(ر مادہ فرشتے )کی طرف دیکھا اور کہا کہ لوگ تمہیں فرشتہ نہ مان کر  گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔تم انسان نہیں  بلکہ ایک فرشتہ ہواور یقیناًتمہارے ہاتھوں میں عظیم الشان قوت ہے۔مجھے ایک بارانہیں پھر محسوس کرنے دواور اس کے بعد دکھاؤ،مظاہرہ کرو، آنے والے کل  تم نے ان سے کون سے عظیم کارنامےسرانجام دیئے ہیں اور کیا اشیابنائی ہیں۔

اسے    خوش   کرنےکے لئے 'سوفتہ ساعفتی'  مکمل نقاب  پہنے  اپنی اس ورکشاپ میں لایا جہاں اس نے فضا میں اڑنے کے لئے اپنے پر تیار کئے تھے۔اس نے دیکھا کہ چوہوں نے اس کی ورکشاپ  کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیاتھا۔اس کے عقاب کھالئے تھے۔پر وں کے فریم ٹوٹے ہوئے اور بکھرے ہوئے تھے۔انہیں دیکھ کر اسے یاد آیا کہ اس نے کب  ان کو بنانے میں محنت کی تھی۔اسکی کاوشیں ضائع ہونے پر وہ رو پڑی۔سوفتہ  پریشانی سے بولاکہ تم نے کہاتھاکہ فرشتے کی صحبت میں میں بغیر پروں کے بھی اڑسکتاہوں۔

اوہ۔میراپیار۔میں اڑ نہیں سکتی۔جب کہ لوگ میرے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جب میں ناچتی ہوں تو میرا وزن بہت ہلکاہوجاتاہے۔پھول کی طرح ہوجاتا ہے،مجھ پرناراض نہ ہولیکن اس بات کویادکروکہ 'مرزا لغائی 'اور اس کے دوست احباب ،بادشاہ اورامراطاقتور لوگ ہیں جس کے خلاف ایک اکلوتی بیچاری لڑکی کچھ نہیں کرسکتی۔تم یہ توقع نہیں کتنی چاہیئے تھی کہ  ایک رقاصہ  ( سموتھسو)فرشتہ  ہوسکتی ہے۔ اس کی بات سن کروہ اپنے منہ کے بل گرپڑااوربالکل ایک لفظ بھی نہیں بولالیکن دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔اس کے آنسو اس کے بالوں پر جاپڑے ۔

تم ایک عظیم لڑکے ہومسو تھسونے کہا۔تمہارے ساتھ  ہوتی ہوں تو ہرشئے پیاری اور دلاری  لگتی ہے۔میں تم سے محبت کرتی ہوں ۔

اس نے اپناسراٹھایا۔مسوتھسوکی طرف دیکھااورکہاخدا نے فرشتوں کودوزخ کی آگ پر مقررکیاہےجو خدائی ااحکامات بجالاتے ہیں۔وہ لوگ جونیک،پارسااور خدا کے اطاعت گزار ہیں اور مقدس کتاب کی تلاوت کرتا ہے وہ جنت میں جائے گا۔وہ اتنا ہی ا خوبصورت ہے جتناکہ تم ہو۔اس نے ایک بار پھراس کی طرف دیکھااورکہا'اوراگرفرشتے کافروں کے مارنے کا سبب بنتے ہیں تووہ ان کے چہروں  پرمارتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ آگ میں جلنے کادردسہو۔تم نے جو جو گناہ کئے ہیں اس کی سزاپااؤگی۔میں تمہاری ریاکاری سے ٹوٹ گیاہوں۔

ایک لمحے کے بعداس نے کہا'تم شائد ان پروں کواب بھی مرمت کرکے نیابناسکتے ہو سوفتہ! مسو تھسونے کہا۔

میں ان کی مرمت نہیں کرسکتااوراب چونکہ تم نے میرے ساتھ جو سلوک کرناتھا ۔کرلیا ہے۔اس لئے تمہارامیرے ساتھ  مزیدرہنا  میرے لئے خطرناک ہےتم جاؤ اور  مرزاالغائی اوراس کے دوستوں کے سامنے ناچواور مجھے میرے حال پرچھوڑدو۔

 مسو تھسونے پوچھا۔کیاتم اس ناچ پارٹی میں شرکت کروگے اور میرا ڈانس دیکھوگے۔

کہہ نہیں سکتا۔'سوفتہ ساعفتی 'نے جواب دیا۔وہ دلبرداشتہ ہوگیا۔اس نے اپنی ورکشاپ کادروازہ کھلا رہنے دیا اوروہ مٹرگشتی پر نکل پڑالیکن وہ شہر میں بھی نہیں رک سکتاتھااسلئے بیابانوں کارخ کرلیا۔جنگلات کارخ کیا۔پرندوں  کا چنچل پن ،چہک اور گیت سن کر روح کوتازگی بخشتارہا۔جب وہ واپس آیاتوادھر ادھر چکر لگاکرایک پرندے بیچنے والے کی دکان پر آکر کھڑاہوجاتا اور انہیں پنجروں میں بند دیکھتا۔

جب اس کے دوستوں نے اس سے کوئی بات کی تووہ انہیں پہنچان نہیں پایا۔گلی کے چھوکرے اس کاٹھٹھہ اڑانے لگے، فقرے کسے اور طنز کیاکہ اس نے ایک طوائف (مسوتھسو) کو فرشتہ سمجھ لیاتھا۔ ان کی باتیں سن کر 'سوفتہ ساعفتی' رک گیااور گویاہواکہ میں اب بھی اسے فرشتہ سمجھتاہوں۔مجھے یقین ہے کہ 'مسو تھسو'فرشتہ ہی ہے۔میرافرشتوں پریقین ابھی تک قائم ہے۔۔۔بعد میں سوفتہ نے خودکلامی کرتے ہوئے کہاکہ جب میں بچہ تھاتومیں اپنے ذہن میں فرشتوں کودیکھاکرتاتھااورمیرا خیال تھاکہ وہ دیکھنے میں خوفناک ہوتے ہوں گے۔ جو فرشتوں کا دشمن ہے وہ خداکابھی دشمن ہے ۔اب چونکہ وہ پر میں نے بنائے تھے وہ ٹوٹ چکے ہیں اسلئے میں اب اڑنہیں سکتا۔یہی بات مجھے پریشان کئے جارہی ہے۔اس غم میں سوفتہ ایک سال تک صحرانوردی کرتارہا۔بچپن میں بھی وہ ادنیٰ سیاہ لباس میں شیراز کے قریہ قریہ کوچہ کوچہ کالے لباس میں پھراکرتاجو تنہائی کاتاثر پیش کرتاتھا۔ سال کے آخر میں اس نے شیراز چھوڑدیا۔۔۔ مجھے اس کے ٹھکانے کا علم نہیں تھا اسلئے مجبوری میں  'سوفتہ ساعفتی 'کی کہانی ادھوری چھوڑنا پڑااور دیگر کاموں میں مصروف ہوگئی۔

کئی سال بعد  میرے پبلشر نے کہا'میراجوما'میں  نے ایک مچھیرے کے بارے میں غیرمعمولی باتیں سنی ہیں ۔لوگ اس کے بارے میں متجسس ہیں اگر چاہو تو تم اس پر کام کرسکتی ہو۔ اس لئے میں نے ان خبروں میں دلچسپی لینا شروع  کر دی۔یہ خبر ایسے شخص کے بارے میں تھی جو ایک مشاق غوطہ زن تھااور اسکے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اس کے کسی جن ،پری ،فرشتے یا کسی ماورائی مخلوق  سے دوستی تھی جو اسے ہمیشہ کامیابی سے ہمکنارکرتی تھی اور غوطہ زنی کے بعد وہ لعل لے کر آیا کرتاتھا۔ یہ دلچپ کہانی ہوسکتی تھی اسلئےمیں نےاس پر کام کرنا شروع کردیااور مختلف مقامات پر گئی۔ریت والے ساحلوں  کوپرکھا۔ان دیہی علاقوں   کو گہرائی سے جائزہ لیاجہاں  سمندر  سے موتی نکالے جاتے تھے۔ میں نے  ان شکاریوں سے ملاقاتیں  کیں جو  عملی طورپرغوطہ زنی کرکے موتی نکالتے تھے۔ اس سلسلے میں کئی کہانیاں تھیں جن میں سے ایک  اہم کہانی بیان کرتی ہوں۔

 ایک شخص بہت زیادہ مہم جوتھا۔ بہادر اور بےباک  تھا۔ خوبیوں اور ناقابل تشریح  کردار اور قسمت کا دھنی تھا۔وہ لوگوں کے نزدیک ایک کامیاب یا جوش اور مطمئن ،شخص کے  طورپرلیاجاتا تھا۔وہ بہت  گہرائی میں جاکردیر تک غوطہ زن  ہواکرتاتھا۔اتناسٹیمناکسی  میں نہیں تھا۔وہ جب بھی غوطہ زن ہوتا کبھی خالی ہاتھ نہ آتا اور قیمتی گواہر نکال لاتا۔اس کے دوسرے ساتھی جو اس تجارت میں تھے۔اس کے بارے میں یہ بات ہرزبان زدعام تھی کہ اس کی کسی  پری  یا جن کے ساتھ تعلق تھا جواس  کو چن کر ایسی سیپیاں دیتی تھی جس میں لعل  اور نادر موتی ہوتے تھے۔وہ شخص   بہت دولت مند ہوگیاتھاجبکہ دوسروں کے  ہاتھ کوئی قیمتی  موتی ہاتھ نہیں لگتاتھااوروہ زندگی بھر غریب ہی رہتے تھے۔اس شخص  نے  مکان اور باغ وغیرہ  خریدلئے تھے۔اپنی ماں کووہاں بسالیاتھا۔اپنے بھائی بہن  کی شادیوں پر پورا خرچہ  اٹھایالیکن خود ایک چھوٹے سے کیبن میں ہی رہائش رکھی تھی اور سادگی سے پرامن طریقے سے رہ رہاتھا۔ان معلومات کی بناپر میں نے اس کی تلاش شروع کردی۔

 میں نے اس لیجنڈ سے ملنے کا من بنایاتاکہ اس کے اپنے منہ سے اس کی بپتاسنوں۔میں اس کے اس گھر گئی جوخشک زمین پرتھاجس میں ایک بڑا باغ تھا۔وہاں سے پتہ چلا کہ وہ وہاں نہیں رہتابلکہ ساحل پر کیبن میں رہتا ہے۔میں ایک رات پیدل ہی اس جگہ چلی گئی۔چاند پوری آب و تاب سےچمک رہاتھالمبی لہریں روپہلی جھاگ بناتی ہوئی کناروں سے ٹکرارہی تھیں۔ایک کے بعددوسری آتی جارہی تھی اور ہر جگہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔پورا ماحول پراسرارتھا۔میں نے ان سب چیزوں  کو دیکھااور ان اشیاکومحسوس کیاجومیں  سنناچاہ  رہی تھااوراس پرایک خوبصورت کہاانی بیان کرنا چاہ رہی تھی ۔جس کی تلاش میں آئی تھی ۔وہ مجھے ساحل کی ریت پر چاندنی کانظارہ کرتے ہوئے ملا۔وہ کبھی کبھار کنکر  مار کر سمندرکی لہروں میں پھینک ہاتھا۔میں اس کی شخصیت سے متاثر ہوئی۔وہ وجیہہ شخص تھا۔ ہلکا سا فربہ تھا۔اس کے چہرے پر سکون اور خوش لگ رہا تھا۔اس میں اطمینان اور کاملیت پائی جاتی  تھی۔

میں نے  اسے آداب کہا۔اپناتعارف کروایااوربتایا کہ میں  کھلی ہوا کے  لئے نکلی تھی۔اس نے بتایا کہ وہ مجھے پہلے سے ہی  کہانی نویس کے طورپرجانتاتھا۔اس نے کہا کہ اس کے  پاس بیٹھ جاؤں۔گپ شپ کرتے وقت اس نے  کہا کہ اسے کوئی کہانی سنے  مدت بیت چکی ہے۔ہم خوشگوار موڈمیں بیٹھے ہیں ۔ کیا تم کوئی کہانی سناؤگی۔میں اپنی مہارت کو ثابت کرنے کے لئے بےتاب تھی اور مجھے یہ بھی یقین تھاکہ اگر میں اسے کوئی کہانی بتاؤں گی توگفتگوآگے بڑھانے میں آسانی ہوجائے گی اور میں بھی اپنامدعابیان کرکے اسکی کہانی بھی سن لوں گی۔تاہم مجھے یہ پتہ نہیں کہ کیوں میں 'سوفتہ ساعفتی ' کی کہانی کوکیوں سنانامنتخب کیاحالانکہ وہ کہانی ادھوری ہی رہ گئی تھا ۔اب میں نے آہستہ اور کم آواز میں  کہانی شروع کردی۔

شیراز میں ایک جوان تھاجوماہرالٰہیات تھا۔وہ ہمہ تن گوش ہوگیااور میرے ایک ایک لفظ کو بڑے غور سے سننے لگا۔جب میں کہانی کے اس حصے پر آئی جس میں چھت  پر محبت کاذکرآیااور رقاصہ سموتھسو( جسے 'سوفتہ ساعفتی ۔فرشتہ سمجھتاتھا)تو اس نے مجھے اپنا ہاتھ کھڑاکرکے مجھے روک  دیا۔اس  کے چہرے سے لگ رہاتھا جیسے وہ سب کچھ جانتا ہے۔میرے شاعرانہ ذہن  میں یہ کھٹکا کہ کیا وہی تو  شیراز کا'سوفتہ ساعفتی'تو نہیں۔ یہ بات میں اس سے پوچھ لی تواسنے کہاں کہ ہاں۔میں ہی شیراز کا 'سوفتہ ساعفتی۔ ہوں۔

میرے لئے یہ انکشاف شاندارتھاکہ میری کہانی سچی تھی۔میں اس وقت صرف ایک لڑکاہی تھااورمیں اپنے فن میں نوآموزتھااس نے کہا۔یہ سن کرمیرے سرکےبال کھڑے ہوگئے۔میں جوش سے اٹھ  کربھاگ کھڑی ہوئی۔'سوفتہ ساعفتی' نے آواز دے کر مجھے روکنے پرمجبورکردیا۔مجھے ہوش آیا کہ میں تو اسی کے بارے میں اس کی اپنی زبان سے کہانی  سننے آئی تھی اگراس وقت چلی گئی تومیری کہانی مکمل نہ ہوپائے گی اسلئے رگ گئی۔وہ میری کہانی  کا حصہ  بن گیاتھا۔اس نے مجھے کہا کہ میں اپنی کہانی جاری رکھوں اور اسے ختم ہونے تک جاری رکھوں۔

میں اس کے مطالبے پر کانپ اٹھی لیکن اسکے حوصلہ افزارویے نے مجھےگرویدہ کردیااور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑکر کہانی کومؤثر آگے بڑھانے لگی ۔میرا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا۔'سوفتہ ساعفتی 'نےمجھے تسلی دی۔

مجھ میں ہمت پیدا ہوئی اور اس سے کہا کہ وہ تفصیل بتائے کہ شیراز چھوڑنے کے بعد اس پر کیا گزری جس نے اسے خوش حال کردیا۔

میرے ساتھ کیاہوا! ۔۔۔جب میں نے شیراز چھوڑا، کی کوئی کہانی نہیں ہے۔کوئی ایسی اہم بات نہیں جو وہ جگہ چھوڑنے کے بعد پیش آئی ہو۔میں  گہرے سمندر میں دیر تک غوطہ کھا تا تھااور مچھلیاں مجھ پر مہربان ہوتی رہیں   ۔ مچھلیاں کسی کو دھوکا نہیں دیتیں ۔میں لوگوں میں مشہورہوگیالیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں۔اس  کی کوئی نہیں بنتی۔میں تمہیں یہ بتاؤں گاکہ میں شیرازسےکیوں نکلااوریہاں سکونت اختیار کی۔ اس کی وجہ یہ  تھی کہ میں نے وہ تجربات جو شیراز میں حاصل کئے تھے،تجارت  میں  وہی تکنیکیں استعمال کیں ۔ میں  یہاں آکر پہلی بار گہرے سمندر میں گیا، تاکہ نادر موتی تلاش کرسکوں۔اتفاق کی بات ہے کہ گہرائی میں ایک  چھوٹی مچھلی  بوڑھے ماہی گیروں کے جال میں پھنس گئی اور تمام رات  اس میں رہی۔جب انہوں نے صبح  جال اٹھایا تو وہ جال میں سے نکل آئی اور سمندر میں اترگئی۔اس کے بعد وہ دوسری مچھلیوں پر ہنستی  رہی اور انسانوں پراعتماد نہ کیا۔دراصل وہ انسانوں کے رسوم و رواج اور فطرت میں بھی دلچسپی لینے لگی ۔میں نے پرنوں اور مچھلیوں کی زبان سے واقفیت حاصل کرلی تھی ۔وہ مچھلی  لیکچر  دے رہی تھی اور میں اس کی باتیں سن کر سمندر کے راز جاننے لگا۔میرے پاس جو دولت ،و کامیابی  اور شہرت ہے وہ اسی کی مرہونِ ملت ہے۔میں اس

   مچھلی کا  بہت شکر گزارہوں کیونکہ اس کی اس سمندر میں پوزیشن  بہتر ہے اور اس کی منظور نظر زیرتربیت  تھا اور اس سے  روزانہ معلومات حاصل  کرتا ہوں اور میں تمام کامیابیوں اس کی مدد کے بغیر حاصل نہ کرسکتا۔میں انکی زبانیں سمجھتا ہوں اور طویل  گفتگو کرتا ہوں۔مجھے اندر کے راز بتاتی ہے  اور میں قیمتی موتیوں تک رسائی حاصل کرتا رہتا ہوں۔

'سوفتہ ساعفتی ' نے کہا کہ مجھےاس بات کامکمل یقین ہے کہ مچھلی خدا کی ایک ایسی مخلوق ہے جو اس نے  بڑی احتیاط سے پیداکی۔اس کو عمدہ بنانے میں تمام اشیامل کراس کی بہتری کے لئے  کام کرتی ہیں۔تمام اشیا مل کرکام کرتی ہیں اور اس  سے ہم یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ وہ اس کے مقصدکے مطابق ہوتاہے۔آدمی حرکت کرسکتا ہے لیکن ایک سطح میں اور زمین کے ساتھ جڑی  ہوئی ہے لیکن اس کی مددکرتی  ہےصرف تنگ سی جگہ پرجوکہ دوپاؤں  کی ایڑیوں میں پائی جاتی ہے۔ہر کواسے اپناوزن خوداٹھانا چاہیئے اور اس کے نیچے سانس لیناچاہیئے۔مجھے بوڑھے ماہی گیروں سے پتہ چلاکہ وہ جب پہاڑوں پر چڑھتے ہیں تو انہیں بڑی دقت ہوتی ہے۔یہ بات بھی عین ممکن ہے کہ وہ ذرا سی بداحتیاطی سے لڑھک نہ جائیں۔اس وقت زمین انہیں اپنی سختی کے ساتھ انہیں وصول کرتی ہے۔پرندوں کے ساتھ ایسا ہے کہ پرندے اپنے پروںکو پوری طرح نہیں پھیلاسکتے تو ہوا انہیں دھوکہ دے دیتی ہے۔وہ ان کی اڑنے میں مدد نہیں کرتی اور گرجاتے ہیں۔

وہ مچھلی کہہ رہی تھی  کہ مچھلیوں کے ساتھ پرندوں اور انسانوں جیسا نہیں ہوتا۔پانی ہمارا توازن چاروں طرف سے برقرار رکھتا ہے۔ہم بڑے اعتماد سےہر طرف ہم آہنگی سے گھوم  پھر سکتی ہیں ،جھک سکتی ہیں۔ہمارے ہاتھ نہیں ہوتے،اس لئے کوئی شئے  نہیں بناسکتیں،لیکن کبھی  بھی صرف کمزور اور اس قسم کی بےکارتمنا اور آرزو نہیں رکھتیں کہ کسی شئے کو تبدیل کردیں جو خدا کے دائرہ کار میں آتاہے اور وہی اسے تبدیل کرسکتاہے۔نہ تو ہم  زبان سے کچھ بولتی ہیں،نہ کسی کوکاٹتی ہیں اس لئے ہمارے تخمینے  کبھی غلط نہیں ہوتےاور نہ ہی کوئی توقع ناکام ہوتی ہے۔ان میں سب سے زیادہ وہ خطے ہیں جو کہ مکمل تاریکی میں پہنچ چکے ہیں اور کائنات کا نمونہ ہم آسانی سے پڑھ سکتے ہیں کیونکہ  ہم ان کو نیچے سے دیکھتی ہیں۔ہم سمندر میں بہتی رہتی ہیں۔ اپنے ساتھ ایسی تقریبات منعقد کرتی ہیں جو بڑے عمدہ طریقے سے ہماری مراعت یافتہ انداز، وضع اور صورت حال   میں ہم روی کے جذبات و احساسات  کو ثابت کر سکیں۔انسان کو یہ معلوم ہےکہ تاریخ میں اس کا اہم مقام ہے  لیکن طفلانہ گمان ہونے کی وجہ سے جوعام اشیا کے بارے میں ایک دھندلی سی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔میں اسے تمہارے لئے ریکارڈ کردوں گی۔۔میں تمہیں دستاویزدوں گی۔میں اندراج کردوں گی۔میں اس کا ایک ایک لفظ غور سے سن کر اپنے ذہن میں بٹھارہاتھا۔

جب خدااوراس کی تخلیق کردہ جنت اورزمین(ارض وسماں)بنائی تو اسے ارض سے مایوسی ہوئی۔انسان جو کھڑا     ہونے کے قابل نہیں تھا،تیزی سے فوراً ہی خشک زمین پرتھا،وہ  گرگیا۔اس پر خداپچھتایالیکن اس نے انسان کوکیوں تخلیق کیا،اوروحشی جانور کیوں پیداکئے اور ہوا کے پرندے کیوں پیدا کئے۔لیکن مچھلی نہ تو کبھی گری ہے اور نہ ہی کبھی گرے گی۔کیسے اور کہاں وہ گر سکتی ہے؟اس لئے خدا نے بڑے پیار سے مچھلی کودیکھا۔ تخلیقات میں سے صرف مچھلی ہی ایسی تخلیق ہے جس نے اسے مایوس نہیں کیا۔وصف کے لحاظ سے خدا نے اسےانعام سے نوازااسلئےان کیلئے جنت کی کھڑکیاں  کھول دی گئیں اور سیلاب کا پانی زمین پر آگیا۔تمام اونچی اور بلند پہاڑیاں جنت کے نیچے ہیں۔ان کو ڈھانپ دیاگیااور پانی غالب آگیااور وہ تمام گوشت پرندے، مویشی انسان کی درندگی کی وجہ سے جوزمین پر تھاوہ ختم  کردیاگیا۔

 وہ یہ خبر دینا نہیں چاہے گی کہ وہ شئے جو خیالوں ہی خیالوں  میں اس عمر اور  حالت میں مرغوب ہواور میرے آدمیوں  کے ساتھ رحم اور ہمدردی ہواور اس کے علاوہ تم موقع شناسی سے تم اپنا رستہ ہمیں دکھاؤ،تمہارا دل مویشیوں،اونٹوں،گھوڑوں ،کبوتروں،موروں پر لگاؤ۔تم جوان ہواور اس وقت کسی مخلوق  کے ساتھ منسلک ہوئے ہوگے جو کہ تمہاری ہی نسل کی ہے اور پھر کسی نہ کسی طرح ایک پرندے  سے جیسا کہ تم نے ایک خاتون کانام لیا(  اگرچہ)کہنے کو  یہ چیز بہتر ہے۔اگر ایسا نہ ہواہو،کیونکہ یہ بات یادرہےاس ماہی گیر کے الفاظ یاد ہیں کہ ایک جوان خاتون  اپنے محبوب  کے درد کو محسوس کیا جو جلنے سے پیدا ہوتے ہیں ا اور تم  بصورت دیگر اس میں دلچسپی لو۔اپنی بھتیجیوں میں دلچسپی لو۔کافی غیر معمولی نمکین جوان مخلوق  جو اپنے محبوب کودرد محسوس کراتا ہے جس کی وجہ جلن ہوتی ہے۔میں مختصر طور پر یہ بیان کرنا پسند کروں گاکہ ہمارے پاس 150 دن کی بہتات اور رحمت والی شئے وافر مقدار میں  پورے سینگوںمیں ظاہر ہوئی۔

میں مزید ،تاہم شکوشبہ کی گنجائش ہے کہ اس کی بظاہر فتح آدمی اس بات کو فلاح و بہبود سے ترقی اور تنزلی میں حاصل کرتا ہے؟ کیسے  مخلوق میں توازن قائم کیا جاسکتا ہےجو کسی امی بلکہ التباسد   و خطرے کے تخیل کو ترک کردیتا ہے۔ہم مچھلیاںبڑی خاموشی سے آرام کرتی ہیں۔ہمارے جسم کے ایک ایک حصے کو پانی کے چاروں طرف سے  مدد مل رہی ہوتی ہے  جو ہر وقت صحیح انداز میں بغیر گرے  واقعات خود بخود رونما ہوتے   رہتے ہیں۔ایک عنصر جسے کہا جا سکتا ہے کہہ دیاجاتا ہے کہ اس کا ذاتی وجود ہے ۔ہم ہموار ہوں یا گول ہمارا وزن اور جسم کو  ہمارے محل وقوع  کے حساب سے مقداری  انداز میں ماپاجاتاہے جو ہمیں  اپنی جگہ سے اکھاڑتی ہیں۔ہمارے تجربات نے ہماری کارکردگی اور اہمیت بڑھائی ہے۔تمہارا بھی کسی وقت کوئی مددگار ہوتا ہوگاجو بغیر کسی امید تیرتا ہوگا۔اور کوئی اس کے بغیر بھی بہت عمدہ تیرتا ہوگااسلئے،یہ بھی ،ہماری نسل یہ بیان کرتی ہے کہ ہمارے ساتھ تمام امیدیں دم توڑدیتی ہیں،ہم خطرات مول نہیں لیتیں۔ہماری جگہ کاباربار تبدیل ہوناوجود کی وجہ سے کبھی بھی کوئی شئے تخلیق نہیں کرتا،یا اس کے پیچھے چھوڑ جاتا ہے جسے انسان اپنی زبان میں راہ کہتے ہیںجس کے اوپر کوئی اور مظہر ۔۔۔حقیقت میں کوئی مظہر نہیں ہوتابلکہ التباس ہوتا ہے۔وہ ضائع کردے گاناقابل تشریح جذباتی سوچ بچار ،ارادہ اور نیت ۔آدمی کے آخر میں،وقت کے تصور سے خطرہ محسوس کرتا ہے اور خود کو غیر متوازن کرلیتا ہے مسلسل آوارہ گردی سےماضی اور مستقبل  کے بارے میں پریشان رہتا ہے

تم خود ہی سوچو کہ جب کسی کو اتنا شاندار ماحول ملے۔ ہر طرف سکون اور شانتی ہو،معصومانہ باتیں سننے کو ملیں ۔ لڑائی جھگڑا ،حسد اور کینہ نہ ہواور اسکے ساتھ ساتھ تم دولت کے ڈھیر پر بیٹھے ہو تو کون یہاں سے جانا پسند کرے گا ۔'ِمیراجوما۔' امید ہے تم مجھ سے اتفاق کرو گی۔تمہیں اپنی نئی داستان مل گئی ہے اور میں نے بھی خدائی مخلوق کے بارے میں جو میں نے پایا بیان کرکے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔

 


 

کہانی نمبر 2

Isak Dinesen

Ring

حالات زندگی

10 صفحات

انگوٹھی

The Ring

Isak Dinesen (Denmark)

1885-1962

   تقریباً            ڈڑھ سوسال قبل ایک ولندیز ی نوبیاہتا            میاں بیوی گرمیوں کی ایک صبح سیر کو نکلے۔ان کارخ فارم  کی طرف تھا۔خاوند کانام ْسیگیس منڈ 'اور بیوی کا'لیوویسا          تھالیکن پیار سے' لیسی ' کےلقب سے پکاری جاتی تھی۔ان کی شادی کو ابھی صرف ایک ہفتہ ہی ہواتھا۔اس شادی میں اسے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔وجہ انکار سماجی حیثیت میں تفاوت تھا۔دلہن  کے والدین  بہت بڑے جاگیرداراور بااثر تھے ۔ان کی سماجی حیثیت، اعزازات اورشاہی دربار میں بلند رتبہ تھاجبکہ خاوند ایک چھوٹا  زمیندارتھا۔ جس کا ایک فارم ہاؤس اور کچھ زرعی زمین تھی۔دوسری وجہ لڑکی کے والدین بورژواتھے اور مزدوروں اور نچلے طبقے سے نفرت کرتے تھے اور انہیں معاشرے کا ناسور سمجھتے تھے۔وہ انہیں تمام برائیوں کی جڑ اورمجرم سمجھتے تھےجو چوریاں اور ڈاکے مارتے ہیں جبکہ خاوند کے خیالات  اس طبقے کے لئے زیادہ نفرت انگیز نہیں تھے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ حضرت کی عمر چوبیس اور لڑکی کی انیس سال تھی۔یہ جوڑا پچھلے دس سالوں سے سیروشکرتھا۔چوری چھپے ملتے رہتے تھے۔ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی تھیں۔عہد و پیمان کئے تھے۔لڑکی ڈٹ گئی اور والدین کو اس کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑےاور سیگیس منڈ کو اجازت دے دی کہ وہ لیسی کو شادی کی انگوٹھی پہنادے۔ ۔

میاں بیوی اس شادی سے بہت خوش تھے۔خفیہ ملاقاتیں،آنسوؤں سےلبریز محبت نامے اپنا اثر دکھاچکے تھے۔وہ اکائی بن گئے تھے۔وہ دن کو روشنی اور رات  کومشعل کی لو میں بانہوں میں بانہیں اورآنکھوں میں مستی لئے دیکھے جاتے تھے۔لوگ ان کی محبت پر رشک کرتےتھے۔خوبصورت چھوٹی بگھی میں چپک کر بیٹھے ہوتے۔ایسالگتاتھاکہ وہ زمین پر ہی جنت کا  مزہ لے رہے ہوں۔روزمرہ  امور میں نئی نئی شادی کے خمار کارنگ بھراتھا۔وہ دونوں اپنے آپ میں مگن رہتے تھے۔ہر وقت خوش وخرم رہتے۔ناشتوں، دعوتوں،پالتو کتوں اور فارم میں بھیڑبکریوں اور دیگر جانوروں کے ساتھ وقت گزرتاتھا۔ سیگیس منڈ اور لوویسا نے اپنے تئیں یہ عہد کیاتھاکہ اپنی محبت میں کسی  کا خلل برداشت نہیں کریں گے۔لوویسا نازونعم میں پلی بڑھی تھی۔بچپن سے اب تک اس کی ہرمرادپوری ہوتی تھی لیکن ایک ہفتہ سے (جب اس کی شادی ہوئی تھی) کو پہلے سے بہتر محسوس ہو رہاتھا۔ وہ خود کو ہلکا پھلکا اور آزاد تصور کرتی تھی۔وہ اپنی مرضی سے گھومتی پھرتی ۔محافظوں کے پنجوں سے باہر ہ اپنے خاوند کے سامنے کھلی کتاب  تھی  اور مزے کی زندگی گزارنے جارہی تھی۔ اپنے خاوندسیگیس منڈکی دیہی زمینوں کی دہقانی کھیتی باڑی ، بھینسوں ،گایوں اور بھیڑ بکریوں کا دودھ دوہنا ، چارہ کاٹنا،کتوں کی پہرے داری ،جانوروں کی دیکھ بھال وغیرہ کو لیسی  حیرت ، دلچسپی اور تجسس سے دیکھاکرتی تھی۔پسینے میں بھیگے ہاریوں اور مزدوروں کو حقارت سے دیکھتی  کیونکہ اس کے والدین  انہیں معاشرے کی برائیوں کی جڑ سمجھتے تھے۔کچھ عرصہ پہلے تک تووہ گڑیوں سے کھیلاکرتی تھی۔ہر کام کے لئے خادمائیں تھیں لیکن اب  اسے اپنے بال بھی خود سنوارنے پڑتے تھے، کپڑے خود استری کرنے پڑتے اور کمرے کے پھولوں کو خود ہی پانی دینا اورسجانا پڑتا۔یہ سب چیزیں اس کے لئے نئی تھیں۔۔ سیگیس منڈ کوہر وقت یہ احساس ہوتارہتاتھاکہ وہ لیسی کو وہ سہولیات نہیں دے پارہاجس کی وہ عادی تھی لیکن لیسی یہ تاثر دے رہی تھی کہ وہ  بہت ناخوش تھی۔وہ شادی کے ان سات دنوں میں نئے نئے تجربات کررہی تھی۔ وہ بڑی متانت اور خلوص سے اس نئے ماحول سے پوری طرح ڈھلنےکی کوشش کررہی تھی۔

جولائی  کی صبح آسمان پر تیرتے ہوئے بادل،ہواکی بھینی بھینی خوشبومیں لیسی ململ کافراک پہنے،سرپرہیٹ لئےاپنے خاوند کے ساتھ خراماں خراماں  چلتے ہوئے سرسبز کھیتوں، چراگاہوں ، گھنی جھاڑیاں اور جنگل عبورکرتے ہوئے پارک  کارستہ اختیارکیاجو اسکے خاوند کے فارم ہاؤس جاتاتھا۔وہ یہ اسےد کھانا چاہتاتھا۔سیر کے دوران درختوں کے جھنڈاور جنگل سنسان ہوتے تھے اسلئے حفظ ماتقدم کے طورپر وہ کتے کوجس کانام لیجنڈ تھا ،وہ ساتھ رکھتے تھے۔جو سبزہ زاروں میں ادھر ادھر بھاگتا پھرتا۔ لیسی اس کا پیچھا کرتی ، جھاڑیوں میں جا نکلتا تو تو اس کا پیچھا کرتے ادھر چلی جاتی۔لیکن آج لیجنڈ اس کے ساتھ نہیں تھا۔آج وہ کتے کو اسلئے ساتھ نہیں لائے تھے کیونکہ وہ بھیڑ بکریوں اور چوپاؤں پر بھونک کر اردگرد کے کتوں کوبھی اشتعال دلایاکرتاتھاجس سے فارم  کے چوپایوں میں بھگدڑ مچ جاتی تھی۔سیگیس منڈنے فار م ہاؤس کی صنعت کی تربیت  انگلینڈ اورمیکن برگ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے حاصل کی تھی اور واپسی پرافزائش نسل کے لئے اعلیٰ نسل کے مینڈھے اور بھیڑیں لایا تھا۔وہ لیسی کو بتارہاتھا کہ اس سے انہیں کتنافائدہ ملے گا۔لیسی اس کی باتوں سے متاثر ہورہی تھی لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات پر افسوس بھی کررہی تھی کہ وہ  کتنا پکا پیٹھا ہے۔معقولیت کے حساب سے وہ خود کو اس سے بہتر سمجھتی تھی۔

جب وہ بھیڑوں کے گلے کے پاس پہنچے توبوڑھارکھوالا  میتھیو  تھا ، نے افسوسناک خبر دی کہ درآمد شدہ بھیڑوں میں سے ایک مر گئی اور دوبیمار ہوگئی تھیں۔لیسی نے دیکھا کہ سیگیس منڈیہ سن کر بہت پریشان ہوگیااور چوکیدارسے تفصیل پوچھنے لگا۔لیسی اس کی تفصیل سنتی رہیاورآہستہ سے سیگیس منڈکاہاتھ دبایا۔اس دوران کچھ لڑکے آئے اوربیماربھیڑوں کواٹھاکرلے گئے۔ سیگیس منڈاور چوکیدار لیسی کی موجودگی سے بے نیاز  اپنی باتوں میں مگن رہے اور اس  گفتگومیں کافی وقت صرف ہوگیا۔اس دوران وہ اِدھراُدھردیکھتی رہی۔اس کے لئے وہ تمام بحث بیکارتھی۔ایک دو دفعہ کچھ سوچ کراس کے چہرے پرلالی آئی،چہرہ سرخ گلاب کی طرح ہوگیااورمسکرائی بھی لیکن پھربوریت طاری ہوگئی۔سرخی آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی اور اسے ان کی باتوں سے کوفت ہونے لگی۔دونوں حضرات  اس کے جذبات سے بےنیازباتوں میں لگے رہے۔ان کے منہ سے باربار چور،وحشی ،ڈاکو جیسے الفاظ نکل رہے تھے اوران کے لہجے میں خوف،دہشت،نفرت اور طیش ظاہرہورہاتھا۔اسی طرح کے الفاظ اس کے والدین بھی مزدوروں اور نیچ لوگوں کے لئےاستعمال کیاکرتے تھے لیکن اس کا میاں لبرل تھا۔اس کے والدین اس کواسی وجہ سے رشتہ دینے سے منکرتھے۔لیکن اس وقت وہ بھی اس کے والدین کی زبان بول رہاتھا۔اس نے ان کی باتوں پرتوجہ دی۔وہ اس وقت کسی چورکی باتیں کررہے تھے۔

اُس چور نے علاقے کاامن بربادکیاہواتھا۔لوگوں کےُسکھ چین کوغارت کیاہواتھا۔کسی کے جان ومال کی حفاظت نہیں تھی۔دہشت کی علامت تھی۔لوگ اس کانام سن کر ہی کانپ  اٹھتے تھے۔وہ پچھلے کئی مہینوں سےوارداتوں میں مصروف تھا۔تازہ ترین واردات اس نے پچھلی رات کی تھی۔ اس نے  ہمسایوں کے باڑے  پرنقب لگائی تھی اور بھیڑبکریوں پر بھیڑیوں کی طرح جھپٹ کر چیر پھاڑڈالاتھااور اایک کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گیاتھااوراپنے پیچھے کوئی نشان نہ چھوڑا۔تھا۔تین روز پہلے ایک گڈریے اوراس کے بیٹے نے اسے واردات کرتے ہوئےپکڑنے کی کوشش کی تواس نے گڈریے کو قتل کردیااور اس کے بیٹے کودھات کاٹکڑاا مار کربے ہوش کردیااور فرارہوگیاتھا۔اس  چاروں طرف لوگ پھیلادیئے گئے تھے۔وہ بڑاکائیاں نکلا۔کسی کے ہاتھ نہ آیا۔اس کی وارداتیں سن سن کر لیسی خوف سے کانپنے لگی۔اس کے دل میں اس کے لئے اپنے والدین والی نفرت ابھر آئی۔اسے اپنی جان شدید خطرے میں لگنے لگی۔لیسی اس کے متعلق مزید جاننا چاہتی تھی۔اس  نے  بوڑھے رکھوالےمیتھیو  سے  کہاکہ وہ  اس    نے  درندےکے مظالم سنائے۔۔اس نے اس کے جرائم کو تفصیل سےبیان کیا اور خبردار کیا      مختلف علاقوں میں کی تھیں۔اس کی مختلف لوگوں سے دوبدو لڑائیاں بھی ہوئیں ۔بہت سے لوگوں کواس نے زخمی کیا اور خون کی ندیاں بہادیں ۔ایک جھگڑے میں تو اس لٹیرے کا بایاں بازو ٹوٹ گیا لیکن وہ ایک بھیڑپرسوار ہو کر بھاگ نکلااور ہاتھ نہ آیا، کہ وہ ا بھی وہ دتاک میں  کہیں موجود ہو گااور موقع ملتے ہی جھپٹ پڑے گا۔اس نے خواہش ظاہر کی کہ جب بھی  اور کہیں  بھی وہ نظر آیا تو وہ اس کے دونوں ہاتھ رسیوں سے باندھ کراسے مار ڈالے گا۔

لیسی  پچھتانے لگی کہ وہ گھر سے باہر ہی کیوں نکلی۔رکھوالے کی باتوں نے اس کے خاوند اور رکھوالے کی موجودگی میں بھی اسے خوفزدہ کردیاتھا۔ وہ خودکوبےحد غیر محفوظ سمجھنے لگی اورگھٹیالوگوں سے نفرت میں اضافہ ہوگیا۔اس کا بس چلتاتووہ ایسے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے سزادیتی۔اس نے غصے میں سوچا۔اسے اس وحشی کی شکل سرخ وحشی  بھیڑیئے جیسی لگی اور اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑگئی۔

میرا                   گلہ  محفوظ  رہے۔اس کو چھوڑو۔اس کے خاوند نے کہا لیکن سیگیس منڈ کے ذہن پر اس کا گلہ سوارتھا۔وہ ان کی حفاظت کے لئے بڑے سے بڑا قدم اٹھاسکتاتھا۔اس نے اس وحشی کے بارے میں غصے کا اظہارکرتے ہوئے گھٹیا شیطان، ٹپوری اورقابل رحم کہا۔۔لیسی نے جب قابل رحم سناتواس نے کہاکہ'تم اس خبیث پرترس کھارہے ہو ؟' اس وقت اپنی دادی کے انداز میں سوچ رہی تھی۔وہ ایسے حقیرلوگوں کوانقلابی کہاکرتی تھی۔ان کے بارے میں اس کا خیال تھاکہ وہ معاشرے پر بوجھ تھے۔دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتے تھے۔بنی نوع انسان کے لئے خطرہ تھے۔ان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔

دولڑکے بیمار بھیڑیں لے آئے۔ سیگیس منڈاور چوکیدار ان کا معائنہ کرنے لگے۔وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی تھیں۔وہ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑاکرنے کی کوشش کرتے رہے؛وہ ان کے جسم کے مختلف حصوں کو پکڑ کر ٹٹول کر بیماری کی نوعیت تلاش کرتے رہے۔ اس  میں کافی وقت لگ رہا تھااور ان کی تخشیص  ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ وہ دونوں ان کا بڑی احتیاط سے معائنہ کرنے لگے۔لیسی اس منظر کو دیکھ کر سکڑ رہی تھی۔سیگیس منڈ نے اس کی پریشانی بھانپ لی۔

تم گھر چلی جاؤڈارلنگ۔اس نے کہا۔اس کے معائنے میں مزید  کچھ دیرلگے گی۔آہستہ آہستہ چل کر جاؤاور میں تمہیں تیزقدموں سے جلدآملوں گا۔

لیسی کے ذہن میں آیا کہ اس کا میاں بھی کتنا ناشکرا تھا۔ ایک نوبیاہتا لڑکی جسے اس نے ترلوں سے حاصل کیاتھا ۔اس وقت ا س  کی بھیڑاس سے زیادہ اہم لگ رہی تھی۔وہ بددل ہوکرگھر کی واپسی کے لئے پلٹی۔اس نے غصے سے اپنا ہیٹ پھینک دیا اور کہا کہ اسے لیتاآئےکیونکہ وہ اپنے سر کو ہوالگواناچاہتی تھی۔اب جب وہ اکیلی چلی تو اسے زیادہ مزاآنے لگا۔تولہک لہک کرمچلتی ہوئی  بڑی آہستگی سےچلنے لگی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس کا خاوند جلد ہی اس سے مل جائے گا۔جب وہ اکیلی چل رہی تھی تو اسے اپنے اکیلے چلنے سے ایک عجیب سااحساس بھی ہورہاتھاااوریہ جذبہ سکھ ،چین اور خوشی کاتھا۔وہ سوچ رہی تھی کہ تنہائی کا اپنا مزہ ہے۔اس کا کتا اس کے ساتھ نہیں تھا۔اس ہلکی ہلکی ہوا میں اسے  بہت اچھالگ رہاتھا۔وہ آج سے پہلے وہ کبھی اکیلی نہیں نکلی تھی۔اس کے چاروں طرف سکوت تھا۔اس کے اردگرد کاپس منظرساکن تھااورمسرت آمیزنظاروں سے ُپرتھا۔ ابابیل فضا میں اڑرہے تھے۔وہ علاقہ اس کے خاوند کی ملکیت تھا اس لئے وہ اس کواپنے اپنے اپنا اپنا لگ رہا تھا۔

وہ درختوں کے جھنڈکے کنارے کی قوس پر آئی تو دونوں حضرات بھیڑوں کے باڑے کے پاس کھڑے تھے۔اب اس کوان  نظاروں کازیادہ لطف آنے لگا۔وہ پھولوں سے لدی چراگاہ سے گزرنے لگی۔اب اسے چلنے کا مزہ آرہاتھا۔آگے درختوں کا جھنڈ آگیاتھا۔اس کا دل مچلا کہ اس کے اندر جائےاور زمانے کی نگاہوں اور سطح زمین سے اوجھل ہوکر اپنے میاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور ہوجائے۔جب سیگیس منڈکاجی بھیڑوں سے بھر جائے گا تو وہ اسے نہ پاکر پریشان ہوگااور وہ ان جھاڑیوں میں چھپ کراسے دیکھے گی  اوراس کی بے چینی سے لطف اندوز ہوگی۔وہ پھولوں سے لدی چراگاہ سے گزرنے لگی تو اس کے ذہن میں کوئی خیال آیا۔وہ رک گئی اورکچھ سوچنے لگی ۔ وہ جھاڑیوں میں رستہ بناتے ہوئےآگے بڑھنے لگی جہاں  ایک تنگ جگہ آگئی جو محراب کی طرح تھی جس پر گھنے سبزاور سنہری   پھولوں کی بہار تھی۔اسے اس وقت محسوس ہواکہ اس کا اصل گھر تو وہی ہے جہاں بہار ہی بہار ہے۔ اگراسے آج  وہ مقام اور جگہ مل جائے تووہ وہاں   ہی  بسیرا کرلے گی۔اس کامیاں  بےخیالی میں  یہ  بات  سمجھنے سے قاصرہوگاکہ  یہ سب اس کی  بے اعتنائی کی وجہ سے ہوا ہے۔اگر وہ اپنی بیوی پو بھیڑوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح نہ دیتا تو  اس کی بیوی  گم نہ ہوتی۔ ۔تب اسےاس بات کااندازہ ہوگیاکہ  وہ اپنے میاں کی کل کائنات  تھی۔اس کے ساتھ  اس نے یہ سوچا کہ یہ مذاق  بہت ظالمانہ ہوجائے گا۔وہ غمزدہ  ہو گئی ۔اس نے قدم آگے بڑھایااورناقدانہ انداز میں درختوں کےجھنڈ کا جائزہ لیااوراس نے وہ جگہ تلاش کی اوراس میں داخل ہوگئی۔

وہ بڑی احتیاط سے اندر داخل ہوئی تاکہ کوئی آواز نہ نکلےاوردبے پاؤں آگے بڑھنے لگی۔جب ایک کانٹوں  کی ڈالی نے اس کی ململ کی سکرٹ کی جھالر پکڑ لی تو اس نے آرام  سے اس سے چھڑالیاتاکہ وہ پھٹ نہ جائے۔ایک بار ایک لمبی شاخ نے اس کے گھنگریالے بالوں  کو جکڑلیا، وہ وہاں ساکن کھڑی ہوگئی،اس نے اپنے بازواوپر اٹھائے تاکہ اپنے بالوں کو شاخ سے چھڑاسکے۔جھنڈ کے درمیان زمین  نم تھی۔اس کے پاؤں جب اس پر پڑے تووہ آواز پیدانہیں کررہے تھے۔ایک ہاتھ سے اس نے اپنا چھوٹاسارومال اپنے ہونٹوں پر رکھ لیاتاکہ اپنی پگڈنڈی  پر فاصلے کو رازدارانہ رکھ سکے۔اسے مطلوبہ جگہ مل گئی اورشاخ و برگ و ہ  ان گھنے پتوں کو تقسیم کرکے دروازہ  بنا ئےاور اس کے پیچھے اس نجی کمرے میں چھپنے لگی۔اس کوشش میں اس کے لباس کاایک کنارہ اس کے پاؤں کے پاس ایک شاخ سے اڑگیا۔وہ اس کو چھڑانے کے لئے بیٹھ گئی ،لباس چھڑایا اور اٹھی تو اس نے دیکھاکہ اس پناہ گاہ میں ایک آدمی پہلے سے موجودتھا۔وہ اس سے دو قدم دور کھڑاتھا۔اس نے لیسی کواندرآتے ہوئے دیکھ لیاہوگااس وقت جب وہ خاموشی سے اس پناہ گاہ  کی طرف بڑھ رہی تھی۔

لیسی نے اسے فوراًہی دیکھ لیاتھا۔اس کاچہرہ زخمی تھااوراس پر خراشیں تھیں۔اس کی کلائیوںاور بازوؤں پرتشدد کے نیلے نشانات تھے۔اس کے تن پر چیتھڑے تھےجو گوبر سے بھراتھا۔ننگے پاؤں تھااس کے ننگے گھٹنوں پرزخم تھے۔ اس کے ہاتھ ٹانگوں کے ساتھ تھے۔ایسا لگتاتھاکہ اس کا ایک بازو ٹوٹا ہوا تھا۔اس کادایاں ہاتھ چاقو سے زخمی ہوکرلٹک گیاتھا۔اس کے چہرے پر شدید نقاہت تھی۔ہونٹوں پر پٹڑیاں جمی ہوئی تھیں۔بھوک سے نڈھال تھا۔اس کی حالت نہ گفتہ بہ تھی۔ اس کی عمر لیسی جتنی ہی لگتی تھی۔ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

ان کی ملاقات شروع سے لے کر آخر تک بغیرکسی گفتگوکے رہی ۔دونوں خاموشی کی حالت میں کھڑے رہے۔وونوں کردار اس  قدرتی پناہ گاہ میں ایک خاموش فلموں کے اداکارکی طرح چپ تھے۔ایسالگتا تھاکہ وہ مدتوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے جبکہ حقیقتاً گھڑی کے حساب سے زمانی مدت صرف چارمنٹ تھی۔لیسی زندگی بھر کسی خطرے سے دوچارنہیں ہوئی تھی۔ اپنی پوری زندگی میں وہ کبھی بھی کسی خطرے سے دوچار نہیں ہوئی تھی۔ یہ بڑی عجیب بات تھی کہ اس سنگین صورت حال کے باوجود اسے رتی بھر خوف نہ آیا۔اس کے ذہن میں یہ تک نہ آیا کہ اپنے میاںسیگیس منڈ یا رکھوالے میتھو کو بلالے جن کی آوازیں آتی ہوئی سن رہی تھی جواس وقت نزدیک باڑےمیں تھے۔جب وہ  پتوں کے طاقچے میں داخل ہوئی تھی اور اس لڑکے کو دیکھاتھاتو وہ یہ سمجھی تھی کہ وہ  جنگل کابھوت یا کوئی آسیب تھا لیکن اس کی بری حالت دیکھ کر اس پرترس آرہاتھاکہ کوئی انسان  اتنابےبس بھی ہوسکتاتھا۔اس کے ہاتھ میں چاقو تھا۔وہ اسے               مار سکتاتھا۔زمین پر کئی بوریاں بچھی ہوئی تھیں جنہیں اس نے بستر  بنایا بہواتھا۔اسکے قریب  کچھ ہڈیاں بھی پڑی تھیں جن سے گوشت کھرچ کھرچ کر کھایاگیاتھا۔اس کے پاس راکھ پڑی تھی۔رات کو وہاں آگ جلائی جاتی رہی ہوگی۔

کچھ دیر بعد لیسی نے دیکھا کہ وہ اسے گھور رہاتھا۔وہ بھی اسے گھور رہی تھی اور اس کا بغور مشاہدہ کررہی تھی۔وہ اسے دیکھ کر حیرت زدہ تھااور وجہ جاننے کی کوشش کررہاتھاکہ وہ              وہاں کیوں آئی۔وہ اسے خوفناک وحشی آنکھوں سے گھوررہاتھا۔وہ جنگلی اس سفید فام لڑکی کی موت کا باعث بھی بن سکتاتھا۔اس وقت لیسی کے ہاتھ سے اس کا چھوٹا رومال گر گیالیکن اس نے نہ اٹھایا۔

اس وحشی نے اپنادایاں ہاتھ جو اس وقت اس کی ٹانگوں کے بیچ لٹک رہاتھا،جھکے بغیر چاقو پکڑااور لیسی کی گردن پر رکھ دیا۔اس کا یہ عمل خطرناک ،ناقابل یقین ا ور وحشیانہ تھا۔وہ سنجیدہ نظر آرہاتھا۔اس کے نتھنے پھول رہے تھے۔اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے،پھر اس نے چاقو اس کی گردن سے ہٹایا اورواپس اپنی بیلٹ میں ٹھونس لیا۔

لیسی کے پاس اس وقت کوئی قیمتی چیز نہیں تھی۔اس نے شادی کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی جو ہفتہ پہلے سیگیس منڈ نے اس کی شادی پر گرجاگھر میں پادری کے سامنے پہنائی تھی۔اس نے اپنی انگوٹھی والا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ وہ اسے اتار لے۔لیسی  یہ چاہ رہی تھی کہ وہ لٹیرا قیمتی شئے پاکر اس کی جان نہیں لے گا۔وہ حالات کا ٹھنڈے دل سے سوچ  ر ہی تھی۔ اس تشویشناک ماحول  کاوہ بے جگری سے سامنا کررہی تھی۔وہ نہتی تھی اوراس کے ساتھ کوئی  گھناؤنا حادثہ پیش آسکتا تھا۔جب اس پر لیسی کی پہلی نظر پڑی تھی تواس کا دل کیاتھاکہ موقعہ پاتے ہی وہ اسے ماردے گی۔اس  لڑکے نے اشارہ کیا۔اسکے انگوٹھے کی حرکت میں پادری یا جادوگرانہ تحکم پن تھاجووہ گنہگاروں کو اس وقت دی   ں جوحاجت مندی کے لئے آئے ہوتے ہیں۔اس وحشی نے اس کی انگوٹھی نہ اتاری تو لیسی نے انگوٹھی اتار کر زمین پرپھینک دی جو رینگتی ہوئی اس کے پاؤں کے پاس جا رکی۔اس جانور نما انسان نے انگوٹھی کو ٹھوکر ماری اور لیسی کی طرف دیکھا ۔وہ اس حالت میں نامعلوم کتنی دیر خاموش کھڑے رہےلیکن  ان لمحات میں ایسا لگا کہ کوئی انہونی  بات ہوگئی۔ وہ جھکا اوررومال اٹھالیا۔اس دوران وہ تمام وقت لیسی کو گھورتارہا۔اس نے  اپناچاقونکالااوراس کابلیڈاس رومال میں لپیٹ لیا اور اپنی بیلٹ کے غلاف میں ڈالنے لگا۔شائد وہ چاقو بڑاتھا جو پوری طرح اس میں نہیں گھس رہا  تھا۔ اس کے لئے یہ سب کرنامشکل تھاکیونکہ اس کابایاں بازوٹوٹاہواتھا۔جب اس نے یہ کام کیاہو۔اس کا چہرہ مٹی سے بھرا ہوا اورسورج سے جلاہواآہستہ آہستہ سفیدہوناشروع ہوگیایہاں تک کہ اس کارنگ تابندہ  ہوگیا ۔ اس کی نظریں مزید چند لمحوں کے لئےلیسی پر رکی رہیں۔پھر اس نے اپنا چہرہ ذرا سااوپراٹھایا۔اس نے اپنی آنکھیں بندکرلیں۔

چند سیکنڈوں کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں جن میں حسرت اور التجاتھی اور وہاں سے چلاگیا۔وہ لمحہ لیسی کے لئے فیصلہ کن تھا۔وہ اب آزادتھی۔وہ کچھ بھی کرسکتی تھی۔اس نے ایک لمبی آہ بھری۔ایک قدم آگے بڑھایا۔زخموں سے چور چور قحط زدہ چہرہ اس کے ذہن میں آگیا۔اس نے بڑی احتیاط سے  اپنے  قدم بغیر کوئی آواز پیدا کئے اٹھائے اور جس راستے سے جھنڈمیں داخل ہوئی تھی،باہرآگئی۔کچھ دیر وہ خاموش کھڑی رہ کراپنے حواس بجا لاتی رہی۔اس نےچند منٹوں میں صدیوں کا فاصلہ طے کرلیاتھا۔اس نے چراگاہ کی طرف دیکھااور اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔

اس کا خاوند ابھی تک درختوں کے جھنڈ کے پاس نہیں پہنچاتھا۔اب اس نے اسے دیکھ لیاتھا۔اس نے لیسی کودیکھ کر مسرت سے ہاتھ ہلایااورتیزقدموں سے اس کی طرف آنے لگا۔وہ جھنڈکے پاس سے گزرنے لگے۔  وہاں جگہ بہت تنگ تھی۔دو افراد ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔اس لئے وہ لیسی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔وہ اسے تفصیل سے بیمار بھیڑوں کے بارے میں بتاتا رہا۔لیسی اس سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ سب کچھ ختم ہو گیاتھا۔

بولتے بولتے وہ رک گیا۔لیسی اس کی باتوں کا جواب نہیں دے رہی تھی۔وہ خاموش تھی۔اس نے اس کی خاموشی محسوس  کی۔ایک قوم آگے بڑھ کر اس کے سامنے آکر پوچھا۔'کیا معاملہ ہے۔تم چپ کیوں ہو؟َ'

لیسی کا ذہن خالی تھا۔ کچھ دیر کے بعد بولی ' انگوٹھی گم ہوگئی ہے،'

کون سی انگوٹھی؟ خاوند نے پوچھا

شادی والی۔لیسی نے جواب دیا۔۔اس نے اپنی آواز سنی تو اسے اس بات کی گہرائی اور معانی کا علم ہوا۔۔۔اسکی شادی کی انگوٹھی جو اسکے سہاگ کی نشانی تھی۔جوپیاروفا کی علامت تھی۔۔۔اسے اس نے اتار کر پھینک دیاتھا۔وہ موت کو چھو کرآئی تھی۔اس نے ، بھوک ،افلاس اور بے بسی دیکھی تھی۔لیسی نے شادی کی انگوٹھی اس حقیر شخص کے سامنے پھینک دی تھی جسے اس نےٹھوکر مار کر دور پھینک دیاتھا۔اسے دکھی انسانیت کا پہلی بار احساس ہوا۔اسے پسے ہوئے طبقے  کی تکالیف  پہلی بار معلوم ہوئی۔اس نے سوچا کہ ہم سب ایک ہی خدا کی مخلوق ہیں پھر اقتصادی لحاظ سے اتناتفاوت کیوں۔وہ یہ سوچ رہی تھی کہ  سیگیس منڈکی آواز آئی۔

میں تمہیں اور انگوٹھی خریددوں گا۔فکر نہ کرو۔ میں شادی کی انگوٹھی کے بغیر بھی اسی طرح پیار کرتاہوں۔ میری چاہت اور محبت اب بھی ویسی ہی ہے جیسے شادی سے پہلے تھی۔ہم شادی کی انگوٹھی کھوجانے کے باوجود ابھی بھی میاں بیوی ہی ہیں۔پریشان نہ ہو۔

لیسی اپنے خیالوں میں اتنی محو تھی کہ اس نے اس کی بات ہی نہ سنی۔

سیگیس منڈ نے شادی کی انگوٹھی  کھو جانے کو برے شگون کے طورپر لیاتھا۔ اس نے اپنے پیار کے اعتماد کو ظاہر کرنے کے لئے لیسی کا ہاتھ چوم لیااور اس کے پاس کھڑاہوگیا اورپوچھا۔

کیاتمہیں یاد ہے کہ وہ انگوٹھی تم نے آخری بار کب پہنی تھی؟

نہیں۔لیسی نے جواب دیا۔مجھے قطعاًاندازہ نہیں۔

  Life History

Isak Dinesen or Karen Blixen

Denmark

Many Awards Winner

حالات زندگی

کیرن بلیکسن 17اپریل 1885 کو ڈنمارک کے دارالخلافہ کوپن ہیگن کے نواحی علاقے میں پیدا ہوئی لیکن  آئزک  ڈین سن کے نام  سے مشہور ہوئی۔وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق  رکھتی  تھی۔اس کے والد کانام  ویلہیلم  ڈینی سن اور اس کی والدہ کانام  انگا بورگ  تھا۔اس نے ابتدائی تعلیم پرائیویٹ  سکول اکیڈمی آف آرٹس   ش   اور اعلیٰ تعلیم  پیرس سے حاصل  کی۔اس کا والد بہت امیر تھا۔اس کی سیام  میں  کافی زمین تھی  اور بےپناہ دولت  اس کے رشتہ داروں نے وصیت میں بھی دی تھی۔وہ  سیروسیاحت اور شراب و شباب  کارسیاتھا۔ اسے اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا اور  وہ بھی اپنے والدکو اپنے قریب سمجھتی تھی۔ اس کے والد کو خطرناک جنسی بیماری ہوگئی اور ندامت سے اس نے خودکشی کر لی۔والد کے مرنے کے بعد بہت سے وسائل کی مالک بن گئی۔ اوہ کینیا چلی گئی اور کافی کے فارم بنالئے۔ کاروبار کافی چمکا۔ اس دوران اس نے اہنے فرسٹ کزن                   یرن  برور     فان  فینیک جو سویڈن میں رہتاتھا،  سے 1914  میں شادی کر لی۔وہ اپنے میاں کے ساتھ ' این کانگ ہل' میں رہنے ۔

سے 1914  میں شادی کرلی۔فاب  برن برارئر  سے شادی کر کی جو سات سال چلی۔ان کی 1921 میں طلاق ہوگئی۔

اس کے بعد اس کی دوستی ایک ہواباز ، حکومتی مشہور ، شکاری اور دولت مند شخص سے ہو گئی۔ یہ چاہتی تھی کہ اس  سے شادی ہو جائے لیکن وہ ٹال مٹول کرتا رہا۔ ان دنوں پوری دنیا کساد بازاری کا شکار ہوگئی، کچھ اس کی اپنی کمزوریاں ، کچھ  انتظامیہ کی بے ایمانی سے اس کا کاروبار ٹھپ ہو گیانیز کافی کی پیداوار بھی بھی کمہوگئی اور کافی کی قیمتیں بدترین سطح پر پہنچ گئیں۔ اس  کے محبوب  لیچ  ہالٹن نے اسے قرض فراہم کرنے کا وعدہ کیاتھا لیکن اس نے ایفا نہ کیا اور اسے کسی  پراپرٹی ڈیلر کے ہاتھوں اپنا کاروبار بیچنا پڑا۔اتفاق سے اس کا عاشق ہوائی جہاز کے حادثے میں فوت ہوا۔۔

اس کی دوستی ایک شہزادے سے بھی رہی جس نے اسے ہوائی جہاز تحفے میں دیا جو بعد میں انگلستان کا بادشاہ ایڈورڈ بعد میں برطانیہ کا بادشاہ  ایڈورڈ پنجم  بنا ،سے بھی رہی۔وہ کینیا میں اٹھارہ برس گزارنے کے بعد واپس ڈنمارک آگئی۔۔

کہانیاں ڈنمارک کی آبائی زبان میں لکھا پھر اس نے انگریزی اور فرانسیسی زبان میں بھی لکھنے لگی۔ ان تینوں زبانوں میں اس کا ادب بہت مقبول ہوا۔ اسشتحفے میں  بھی دیا تھا۔اٹھارہ سال کینیا میں رہنے کے بعد وہ دوبارہ ڈنمارک واپس آگئی۔اس نے   اب باقاعدہ افسانہ نگاری  اور ناول  نویسی شروع کر دی۔اب وہ کیرن اس سے پہلے وہ  سرسری ادب  نگاری شروع کردی۔اس نے اپناقلمی نام آئزک  ڈینی سن رکھا جبکہ اس کااصلی نام 'کیرن  بلیکس' تھا اور وہ اپنے قلمی نام سے مقبول ہوئی۔  

وہ متعدد بار نوبل انعام کے لئے نامزد ہوئی۔1954  میں بھی یہ نوبل انعام کے لئے نامزد ہوئی لیکن انعام اارنسٹ  کو دے دیا گیا جس نے کہا کہ اس سے زیادہ آئزک ڈینی سن نوبل انعام کی زیادہ حقدار تھی۔         

س کے افسانوں اور ناولوں میں لوک رس اور داستان گوئی  پائی جاتی ہے۔اس کی زبان نہائت شستہ، رومانی اور لطیف  ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ادب میں امیر و غریب  ، خلوص اور فریب اور اضداد اور ارمتضاد  اوصاف بیک وقت سامنے رکھتی ہے۔اس  کی اہم تصانیف درج  ذیل ہیں۔ انیکڈوٹس   آف ڈیسٹنی ' کے مجموعے میں شامل کر

  Seven Goethic tales (1934);Out of Africa (1937);  Winter tales; Last Tales  ;  Anecdotes of Destiny , Studio  One. The Heroine۔۔۔

اس نے اپنی زندگی میں بہت سے ادبی اعزازات حاصل کئے جن میں کچھ درج ذیل ہیں۔

Holberg Medal (1949); Ingenio and Arts Medal ( 1950)  Nathansen  Memorial Fund Award  (1951);  Golden Laurels (1952)  and many time nominated for  Nobl Prize.

وہ 7 ستمبر 1962 کو بیماری سے فوت ہوئی۔

 

 

 


Popular posts from this blog