ا س د ن جب سٹالن مر ا Noble Laurette ...2007.Iran) Doris Lessing ۔۔۔۔۔۔۔ ( 1st Episode) The Day Stalin Died





  اس دن جب سٹالن مرا( پہلی قسط )

The Day Stalin Died (1st Episode)

 

By

 

Doris Lessing  ( Nobel Laurette 2007)

 

UK

 


مترجم: غلام  محی الدین

اس دن کا آغاز ہی میرےلئےمنحوس تھا۔میری خالہ   کابورن ہاؤس سے خط ملاجس میں اس نے مجھے یاددہانی کرائی تھی کہ میں نے اپنی  کزن 'جیسیکا'کو کسی  نامور پیشہ ور فوٹوگرافرسے اس کی ایسی تصویرکھنچوانی تھی جسے دیکھ کر ٹی۔وی پرڈیوسر اسےًڈرامے میں  اہم ترین کردار دےدیں ۔اس کی نظرکرم مجھ پر اس لئے پڑی کیونکہ بطور  ادیب اور کمیونسٹ پارٹی کااہم رکن ہونے کی وجہ سےعمدہ  فوٹوگرافروں سے واسطہ پڑتارہتاتھا۔بدقسمتی میری کہ وہ اپوائنٹ منٹ ذہن سے نکل گئی۔بے خیالی میں میں نے ایک فلمی ادیب بل  جوامریکہ  سے  لکھتا تھا اور آج کل لندن تھا کوچاربجے اپنے دفتر آنے کاکہہ دیاتھا۔اسے غیر امریکی  ایکویٹی تنظیم نے کسی تنازعےپراسے بلیک لسٹ کردیا تھاجس سے وہ بیکار ہو گیا تھا ۔اس کےپاس کوئی ذریعہ معاش نہیں رہاتھااور چاہ رہاتھاکہ برطانیہ سے فوٹوگرافی کی مصدقہ سند حاصل کرنےکےلئے  برطانیہ میں چارماہ رہ سکے ۔ اسے ایک سیکرٹری کی تلاش تھی ۔اس سے پہلے اس کی بیوی ہمیشہ سے اس کی سیکرٹری کے فرائض نبھاتی تھی لیکن بیس سال شادی میں رہنے کے بعد وہ اسےاس لئے طلاق دے دی تھی کہ ان میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی۔ بیٹرس   میری جنوبی افریقہ کی کامریڈ دوست  تھی۔اس کابرطانیہ کاویزاختم ہوگیاتھااور نوکری چاہ رہی تھی تاکہ اس کے ویزے کی توسیع ہوسکے۔میں نےسوچاکہ بل اور بیٹرس دونوں ہی ضرورت مند تھے۔ اگران دونوں  کی ملاقات کرادی جائے تودونوں کابھلاہوجائے گا۔لیکن بعدازاں یہ پتہ چلاکہ  ان دونوں  نے ایک دوسرے کے لئے غیرموزوں قرار دیا۔بیٹرس نےالزام لگایاکہ بل بددیانت تھا۔وہ ٹی وی    ڈرامے کسی دوسرے کےنام سے لکھتاتھااور گندی فلموں میں کام کرتاتھا ۔اس پر ِبل نے تاویل یہ پیش کی کہ پیٹ کی آگ  بجھانے کےلئے کچھ نہ کچھ توکرناہی پڑناتھا۔ جبکہ بیٹرس اسے اسلئے پسند نہ آئی کہ وہ اس کے سیاسی نظریے کے برعکس نظریہ رکھتی تھی۔مجھے ان باتوں کاعلم نہ تھا۔اگرایساہوتاتومیں ان کی میٹنگ نہ کرواتی۔اس کےبعد میں نےبل کو ایک ٹی وی ڈرامے  جوملٹن  کےمتعلق تھا، جس کی ریہرسل چل رہی تھی میں  اثرورسوخ  سے سے اسے ایک کردار  دلوایاجس  سے اس کامسئلہ حل ہوگیا۔اپنی کزن  کی فوٹواس افراتفری میں بھول گئی۔خالہ کی  یاددہانی تازیانہ بن کرابھری تو میں نے ہنگامی بنیادوں پر سہ پہرجیسیکاکے لئےنکال لی اور پیشہ ور فوٹوگرافر سے ملاقات طے کروا دی۔

میں اپنے دفتر میں تھی کہ  پارٹی کی ایک پرانی  کامریڈکافون آیاکہ وہ مجھے دوپہرکےوقفے میں ملنا چاہتی تھی اور یہ ملاقات بہت ضروری تھی۔وہ  سیاسی امورکےبارے میں میری خودساختہ استادبنی ہوئی تھی اور مجھے پارٹی کی کیالائن اپنانی ہے بتاتی رہتی تھی۔وہ میرے سیاسی نظریات میں نکھارپیدا کرتی رہتی تھی۔مجھے اس کی بات مانناپڑتی تھی کہ وہ  کمیونسٹ پارٹی کی اہم عہدیدار بھی تھی۔اس کانام جین تھا۔وہ اپنے دفتر سے آدھی چھٹی لےکر مجھے ملنے آئی۔اس نے ایک افسانہ لکھاتھاجوطبقاتی نظام اور مزدوروں کے استحصال پر تھااور مجھے وہ تبصرے کے لئے دینے آئی تھی۔مجھے اس کے افسانے کانام یاد نہیں۔میں نے گھر جاکراسے پڑھاتو اس کامتن اس کے دعوے کی نفی کررہاتھا۔اس کاتجزیہ غلط تھا۔

بہرحال جین دوپہر کے وقفے میں  ملنےآئی توایک کاغذمیں  اپنےلئے سینڈوچ لےکرآئی تھی وہ اسے کھانے لگی لیکن اس نے کافی کی پیشکش قبول کرلی۔اس نے معذرت کی  کہ کہیں وہ میرے کاموں میں مداخلت تونہیں کررہی۔میں نے اس کی اس طرح آمدکوجس نے میرے روزمرہ ایجنڈاکو متاثرکردیاتھاکودرگزرکردیا۔ پچھلے ہفتے پارٹی میٹنگ میں  کمیونسٹ پارٹی کے خلاف جو گندی سیاست کھیلی جارہی تھی کے بارے میں جوتبصرہ کیاتھاپر ناخوش تھی۔مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ میں نے اس وقت جو باتیں کی تھیں وہ بغیرلگی لپٹی کی تھیں۔مجھےاتنی بے باک گفتگونہیں کرناچاہیئےتھی کیونکہ قیادت اسے پسند نہیں کرتی تھی۔جین ایک پستہ قامت تیزطرار تھی لیکن اس کی نظرکمزورتھی۔اس کاباپ بشپ تھاجوپچھلے تیس سال سے پارٹی کاوفادارتھااوراس نے استحصال شدہ طبقے کی بہت مددکی تھی۔اس کی خدمات کوتسلیم کیاگیاتھا۔جین کامیرےساتھ رویہ مشفقانہ اورمربانہ ہواکرتاتھا۔

کامریڈ!اس نےکہا۔تمہارے جیسے دانشورہمیشہ سرمایہ داروں کےدباؤمیں رہتے ہیں۔وہ گھٹیااور کرپٹ لوگ ہیں اورہر سیاسی جماعت سے برےہیں۔وہ حیلوں بہانوں سے عوام الناس کاناطقہ بند کرتے رہتے ہیں۔تاہم تمہیں ان سے خوفزدہ نہیں ہوناچاہیئے اور اپنے نظریے پرچٹان کی طرح کھڑارہناچاہیئے۔

میں نے اسے بتایاکہ میں اپنی پارٹی کوصحیح سمجھتی ہوں اور عقیدےپرسختی سے قائم ہوں لیکن بسااوقات میں سمجھتی ہوں کہ بعض معاملات پرسرمایہ دارٹھیک  ہیں اور ہمیں اپنی پالیسی میں تھوڑی بہت لچک پیداکرنی چاہیئے۔

جین نے اپنا سینڈوچ ختم کیا۔عینک اپنےچہرےپرٹھیک طریقے سے ٹکائی اومحنت کشوں کےتلخ اوقات کارپر لیکچردینے لگی۔ان کی بہتری کے لئے ان تھک کام  کی ضرورت پرزوردیا۔اس  کےبعداس نے اجازت چاہی کیونکہ لنچ بریک کےبعد اسے اپنے دفتر پہنچناتھا۔جاتی دفعہ نصیحت کی  کہ میری جیسی  کامریڈ جس کاپس منظر پسےہوئےطبقےکےحق میں آوازاٹھاناتھاکے لئے ضروری  ہےکہ اپنی آوازکومزید بلندکرے اور پارٹی کے پروگرام کوآگے بڑھائےاوراستحصالی نظام کے بارے میں شدومد سے لکھتی رہوں۔سرمایہ داری نظام کی خرابیوں کو اجاگرکرتی رہوں تویہ اسے جڑسے اکھاڑنے میں مدد دے گا۔اور طبقاتی نظام کے خلاف ایک حقیقی ہتھیار ہوگا ۔ اس نےیہ بھی کہاکہ 1930 میں کامریڈوں پرجومقدمات قائم کئے گئے اور انہیں جوسزائیں ہوئیں  کا ریکارڈ مجھے بھیجے گی۔اسے دیکھ کر  رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔

سوویٹ یونین کے نظریے  میں اس وقت جوتبدیلی ہوئی تھی نے سابقہ خامیوں کوکافی حد تک دور کردیاتھا۔ ایجنڈے میں اصلاح ہوتی رہتی تھی ۔یہ اچھی بات تھی ۔بدلتے حالات میں یہ ضروری ہے۔یہ کہہ کروہ چلی گئی۔اس کی باتوں نے مجھ پر اثر کیا۔

میں ابھی اپنے کام پربیٹھی ہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔یہ میری کزن جیسیکا کی تھی۔ہمارا پروگرام یہ بناتھاکہ وہ میرے اپارٹمنٹ  آئے گی اور وہاں میں اسے لے کر فوٹوگرافر کےپاس جاؤں گی۔اس نے اطلاع دی کہ وہ میرے گھر نہیں آسکتی کیونکہ اپنے فوٹو کے لئے اسے کوئی معقول نیالباس خریدناتھا۔اس نے مجھےکہاکہ میں بیس منٹ تک مال  اس دکان پر آجاؤں جہاں سے میں نے سامان خریدناہے۔وہ میرادکان کے باہر انتظار کرے گی۔میں نے جلدی جلدی اپنا کام نپٹایا اور ٹیکسی پکڑلی۔

ٹیکسی ڈرائیور نے مہنگائی  کارونا شروع کردیا۔حکومتی پالیسیاں، تاجروں کی من مانی،جاگیرداروں اور صنعتکاروں کا مافیا،مزدورو ں  کااستحصال واستبدال وغیرہ  تمام موضوعات زیر بحث آئے اور اس نتیجے پرپہنچے کہ کہ ہمارےمسائل مشترک تھے۔اس کے بعد اس نے اپنی بیٹی کے بارے میں بتایاکہ وہ اٹھارہ سال  کی تھی اس بات پر بضد تھی کہ میرے جگری دوست جومیراہم عمر پینتالیس سال کابڈھاتھا،سے شادی کرے گی۔ میں اس پرنہ ماناتووہ اس کےساتھ بھاگ  گئی ۔ اس طرح میں  ایک ہی جھٹکے میں بیک وقت اپنی بیٹی اور دوست دونوں سے ہاتھ دھوبیٹھا۔وہ اس بات پرمزید پریشان ہواجب ایک روزاس نے ایک رسالےمیں جواس کی بیوی کی گود میں تھایہ پڑھاکہ لڑکیاں لاشعوری طورپراپنے باپ سے جنسی چاہت رکھتی  ہیں لیکن معاشرہ اور مذہب اسے پسند نہیں کرتااسلئے وہ اپنی اس خواہش کو دبادیتی ہیں۔اور وہ لڑکیاں جو اپنے والدکو رول ماڈل سمجھتی ہیں وہ ایسے شخص کو اس جیسے وصائف رکھتاہے کواپنالیتی ہیں۔اسےاس شخص کا یہ نظریہ کسی حد تک سچالگاکیونکہ اس کی  بیٹی نے بھی توایسا ہی کیاتھا۔وہ اپنے باپ کی عمرکےمرد کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔یہ نتیجہ بہت خوفناک  تھا۔ میں نے کہاکہ ایسا ہوناغیرمعمولی نہیں۔اس قسم کے واقعات  معاشرے میں دیکھے جارہےتھے ۔اسے اس مضمون کودل پر نہیں لیناچاہیئے۔اس نے بڑی مہارت سے گاڑی سڑک کے کنارے لگادی۔میں نےاسے کرایہ اداکیا۔

ٹیکسی ڈرائیور نے کرایہ لیا۔وہ ایک پستہ قد محنت کش تھا۔اس کے چہرے پر سخت کوشی کے آثار تھےجس کاسر لیموں کی طرح تھا۔اس کی آنکھیں نیلی اور چھوٹی تھیں جوحلقہ چشم میں ابل رہی تھیں۔اس کی  بیوی  نےاس  پر الزام لگایا کہ یہ سب اس کاکیادھراتھا کیونکہ اس نے اپنی بیٹی کو مادرپدر آزادی دے رکھی تھی۔اس سے بےجالاڈپیار کرکے اپنی بیٹی کوسرپر چڑھایاہواتھا ۔اب وہ سمجھتاتھا کہ اس کی بیوی صحیح کہہ رہی تھی۔

تم اس معاملے کوایک اور سمت سے دیکھ رہے ہو۔بچے پر زیادہ توجہ دینااور اسے غیرمشروط لاڈ لڈانا اچھاہے بہ نسبت  اسے نظرانداز کیاجائے یا اس سے بدسلوکی کرنے سے۔

لاڈ پیار!کیایہی کہا؟ ہرایک  اسے سنبھال نہیں سکتا۔وہ اس کے لئے قیمتی نہیں ہوتا۔آج کل ایسی کوئی شئے نہیں۔اس کی کوئی قدر نہیں۔ہیزل میری بیٹی نے والدین کے ایثار ،خلوص اور پیار کو کوئی اہمیت نہ دی۔وہ تین مہینے پہلے گھر چھوڑ گئی۔ جاتے وقت اس نے کوئی رقعہ وغیرہ بھی نہ چھوڑا۔وہ کہاں تھی اور کس حال میں تھی ۔کچھ پتہ نہیں۔ والدین پرکیاگزرتی ہے کوئی کیا جانے  ؟

دنیابہت ظالم ہے۔زندگی بہت مشکل ہے۔ہرروزجینامرناپڑتاہے۔کبھی ایک مسئلہ کبھی دوسرا ۔  میں نےکہا۔

ہاں۔تم کہہ سکتی ہو۔ڈرائیور نے کہا۔

ہماری گفتگو مزید چلتی کہ میں نے اپنی کزن جیسیکا کو دیکھ لیااور ڈرائیور کوبائی بائی کردیا۔میں کزن کی طرف بڑھی۔

میں نے تمہیں دیکھ لیاتھاجیسیکانےچھوٹتے ہی کہا۔تم ٹیکسی ڈرائیور کےساتھ کسی بات پربحث کررہی تھی۔یہ حقیرلوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔وہ آج کل کچھ زیادہ آپے سے باہر ہوگئے ہیں۔ میراماننا ہےکہ ان کو پانچ سینٹ کی ہی ٹپ دینی چاہیے خواہ کتنا لمباسفر بھی کیوں نہ کیاہو۔انہیں اپنی اوقات میں ہی رکھنا چاہیئے۔اگروہ اس پراعتراض کرتے ہیں توپروانہیں کرنی چاہیئے۔کل میرے ساتھ بھی ایساہی ہواتھالیکن میں اپنی بات پراڑی رہی اور اسےمزید ٹپ نہ دی۔

جیسیکا دراز قد تھی۔اس کے کندھے چوڑے تھے۔تقریباًپچیس سال کی تھی۔اپناجسم سنبھال کررکھاتھا،باقاعدہ ایکسرسائیز کرتی تھی اوردکھنے میں اٹھارہ کی لگتی تھی۔اس کےبال ہلکے بھورے تھے جسے وہ کھلاچھوڑدیتی تھی جواس کےچہرے پرآجاتے تھے۔اس کاچہرہ گول اور تازہ تھا۔اس کی غزالی آنکھیں ہلکی بلوری  اور تیزہیں۔وہ ایک نوعمردوشیزہ لگتی تھی۔ مل ملاکر آٹھویں صدی کی ظالم حسینہ لگتی تھی خصوصاًاس وقت جب  وہ قلیوں ،ٹیکسی ڈرائیوروں  اور بس کنڈکٹروں  سے معاملات طے کررہی ہوتی تھی۔وہ اپنی ماں کی خصلت پرگئی تھی۔خالہ بھی نچلے طبقے کے لئے جلاد تھی۔وہ بھی  ہروقت محاذآرائی پر تلی رہتی تھی۔یہ ان کی تفریح تھی۔ان سےتکرارمیں انہیں سکون ملتاتھااور اس پرخوش ہوتی تھیں۔ایک بارایسی بحث میں وہ ٹیکسی ڈرائیور سے جھگڑکر کچھ سنے بغیر جانے لگی توڈرائیور نےاس پرآوازے کسےاور کہاکہ وہ پتھروں کی دنیا سے آئی تھی اور جدید دنیاکی نہیں لگتی۔غریبوں کاحق مارنے میں اسے سکون ملتاتھا۔ایسی مخلوق موجودہ دورمیں معدوم تھی۔

کیاتم نےاپنالباس خریدلیاہے؟میں نے پوچھا۔

پسندتوکرلیاہےلیکن ابھی خریدانہیں۔جیسیکانےکہا۔

وہ ہمیشہ ڈیزائنرلباس پہناکرتی تھی۔ایک بہترین تراشاہواسوٹ،گلےمیں بند گلےوالی جرسی،کانوں میں بندے۔ایسی آؤٹ فٹ میں وہ بہت حسین لگتی تھی۔

توچلیں اور لےلیں۔میں نے کہا۔

رکو۔ماں بھی آرہی ہے۔اس نے سختی سے کہا۔

اوہ!

میں آئی ہوں تومیں بھی کچھ لیناچاہوں گی اسلئے میں ہروقت تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔کچھ دیر بعد میں اپنی خریداری کرکے واپس یہیں آجاؤں گی ۔یہیں آجانا،میں بھی آجاؤں گی۔

ٹھیک ہے۔

میری خالہ ' ایما 'اس وقت ایک ریستوران میں تھی جوکہیں قریب ہی تھا۔وہ بھاری بھرکم  خاتون تھی۔وہ عام طورپر نیوی بلیو لباس پہننے کوترجیح دیتی تھی۔گلے میں موتی کاہاراوربندے پہناکرتی تھی۔ٹریفک پولیس کی طرح سفید دستانے اسے مرغوب تھے۔اس کاجبڑابھاری تھااور چہرے پر غمگینی  کے سائے نظر آتے تھے۔اس کی آنکھیں بل ڈاگ جیسی تھیں جسے وہ اپنی بیٹی پر ٹکائے رکھتی تھی۔اس کی توقع کے مطابق اس کی بیٹی اپنے اداکاری کےکام  میں کامیاب نہیں جارہی تھی۔اس  لئے وہ اس کے لئے فکرمند رہتی تھی۔

وہاں! جیسیکانے دکان میں ایک لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

چلو۔وہاں چلتی ہیں۔ویسے میں نے رینے سے کہاتھاکہ آج ہم اس کےپاس آئیں گی اوراس سے تمہاراسوٹ خریدیں گی۔میں تمہارا ذوق دیکھناچاہتی ہوں۔

جیسیکا نے اپنی لڑاکی ٹھوڈی  اپنی ماں کی طرف  اٹھائی اور فخریہ انداز میں انداز میں اپناانتخاب  اشارے سے دکھایا۔میں بھی اس وقت تک اپنی خریداری کرکے واپس آگئی تھی۔

چلو۔ادھر چلیں۔ایما چھتری  کے ڈنڈے کوفرش پرٹکاتی دکان کی طرف چلنے لگی۔میں بھی ان کےساتھ ہولی۔

ہمیں بس پکڑکر فوٹوگرافر کے سٹوڈیوجاناچاہیئے۔وہ آسان رہے گا۔میں نے کہا۔

خالہ ایمانے کہا۔ہاں ۔یہ ٹھیک رہے گا۔میں کسی ڈرائیور کی بدتمیزی برداشت نہیں کرسکتی۔

مجھے بھی وہ زہرآلودلگتےہیں۔جیسیکانےکہا۔بس پرہی چلیں جیسیکانےکہا۔

ہم ڈبل ڈیکرکی بالائی منزل پر چڑھ گئے۔اوپرکوئی سواری نہ تھی۔ اگلی دونشستیں چھوڑکر ہم ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔

کنڈکٹر آئےگاتو جیسیکا اس سے اچھی طرح نپٹ لےگی خالہ نے کہا۔

میرابھی یہی خیال ہے میں  نےہاں میں ہاں ملائی۔

خالہ ایمایہ سمجھتی تھی کہ ہر فنکار ، شوبز کے لوگ اورادیب خواہ کتناہی نامورکیوں نہ ہوں کا مجھ سے واسطہ پڑتا تھا۔اس لئے  میں  اس کے لئےاہم تھی۔ اس کا ارادہ تھاکہ میں اس کی مدد کرکے اسے ڈرامے اور فلموں میں کوئی بڑارول دلواؤں۔میں نے صاف منع کردیا تو خالہ نے کہا کہ یہ توبعد کی بات ہے پہلے میں اس کی تصاویر بنوانے میں تومددکروں اورجیسیکا کی بہترین فوٹوگرافر سے اس کی کم داموں پر عمدہ  تصاویر بنوادوں۔میں لاکھ کہاکہ یہ اس کی غلط فہمی تھی لیکن خالہ نے اصرار کیاکہ مجھے یہ ذمہ داری نبھاناپڑے گی ۔مجھے ہاں کرنا پڑی۔

 جیسیکا چھوٹی سکرین کی ایک اداکارہ تھی اور ڈرامے میں کسی بڑے رول کی خواہشمند تھی۔ اس کے لئے اسے اچھاپروفائل بنانے کے لئے فوٹوسیشن کی ضرورت تھی جسے پروڈیوسر دیکھ کر مرعوب ہوجائےاور اسے اچھا رول دے دے۔خالہ گفتگو کاٹ کاٹ کربولتی تھی لیکن نان سٹاپ بولتی تھی  جو سامعین پرگراں گزرتی تھی لیکن اسے اس کا احساس تک نہ تھا۔

خالہ لندن میں نہیں رہتی تھی ۔یہاں ایک بورڈنگ ہاؤس میں  کرائے پراپارڑمنٹ لیاتھا۔اس عمارت میں ایک ایسا کرایہ دار بھی تھاجس کا بھائی ٹی وی میں پروڈیوسر تھاجواسے گاہے بگاہے ملنے کےلئے آتارہتاتھا۔ خالہ کاخیال تھاکہ جب وہ پروڈیسر آیاہوگاتو اپنی بیٹی کی فوٹوشوٹ اس کے سامنے رکھ دے گی اور اس سے درخواست کرے گی کہ اسے کوئی اچھاسا رول دے دے۔ اس طرح سے وہ ٹی وی سٹار بن جائے گی۔یہ بات اس وقت ہی کی جاسکتی تھی جب جیسیکا کی عمدہ تصاویر ہوں۔

اپنی ماں کےمنصوبےکومیری کزن کیاسوچتی تھی،نہیں جانتی تھی۔مجھے تویہ بھی معلوم نہیں تھاکہ اس نے لندن میں کرائے پر کمرہ لےلیاتھایاعارضی طوروہاں آئی تھی ۔ جیسیکاکے بہتر مستقبل کی ترجیحات کیاتھیں۔میں بالکل بے خبر تھی۔ تاہم اس وقت تو اس کی ترجیح فوٹو سیشن ہی تھی اور مجھے بہرحال یہ کام توکرناہی تھا۔میں موڈ دکھائے ان کےساتھ جارہی تھی۔

اگر تم اپنی اکڑدکھانا چاہتی ہوتومیں فوٹوسیشن نہیں کرواتی خالہ ایما نے مجھے روکھے انداز میں کہا۔

اوہ ممی! جیسیکا نے ماں سے روہانسی ہو کر کہا۔ جس کا مطلب تھاکہ وہ مجھے کیوں سناکراس کی تصویر نہ کھچواناچاہ رہی تھی۔

ہم یہ باتیں کررہی تھیں توایک شخص ڈبل ڈیکر کی بالائی منزل پر آگیا۔اس کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی۔

لوکنڈکٹر آگیا۔خالہ نے کہا۔میں اسے تین پنس سے زیادہ کرایہ نہیں دوں گی جومیں نے پچھلی بار دیاتھا۔ نائٹ برج اورڈچس سٹریٹ کاکرایہ تین سینٹ ہی ہے۔ بس کے مالکان بے حس ہیں ۔ انہیں مسافروں کی پرواہ نہیں ۔آئے دن کرایہ بڑھاکر معصوم لوگوں کولوٹتے رہتے ہیں۔

اب کرائیوں میں اضافہ ہوگیاہے۔ میں نے کہا۔

خالہ نے تلخی سے ہنستے ہوئے کہاکہ میں تو تین سینٹ سےایک پینی بھی  زیادہ نہیں دوں گی۔

لیکن وہ شخص کنڈکٹر نہیں تھا۔وہ ادھیڑعمرمسافرتھا۔وہ دونوں بس کا ڈنڈاپکڑکے اپناتوازن قائم کرتے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے بیٹھ گئےلیکن ساتھ ساتھ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے سامنے۔مجھے لگاکہ اس ترتیب میں بیٹھناجب کہ بس خالی ہو عجیب  ساتھا۔عورت مرد کے کندھے پرجھکی ہوئی تھی۔وہ کرخت آواز میں جوطوطے کی آواز کی طرح تھی بولی  کہ اگر تم نے میری سنہری مچھلی کو کمرے سے اب نکالا تومیں مالک مکان سے شکائت کرکے تمہیں بےدخل کرادوں گی۔ مرد مٹی کامادھو لگ رہاتھا۔اس نے سرمئی رنگ کا سکواش ہیٹ پہناہواتھااورسامنے دیکھ رہا تھا ۔اس نے بےچارگی سےسرہلادیااور اونچی آواز میں بولاکہ میری چھوٹی انگلی کو تیری مچھلی کی وجہ سے پھپھوندی لگ گئی ہے۔پتہ نہیں تم ایسی فضول مچھلی کہاں سے لے آئی؟

تمہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ میں وہ مچھلی کہاں سےلائی تھی۔

مرد اونچی اور دکھ بھری آواز میں بولا۔ سمندر کی تہہ میں مچھلیاں رہتی ہیں اور ظالم لوگ ان پر بمباری کرکے انہیں ماردیتے ہیں  یا قید کرلیتے ہیں۔اور اس پرافسوس بھی نہیں کرتے۔عوام ان کے جبرکوبرابھی نہیں کہتے،ہم اس پرمعاف نہیں کیے جائیں گے۔

یہ سن کر خاتون کا لہجہ نرم ہوا اور کہاکہ میں نے یہ بات توپہلے کبھی سوچی بھی نہیں تھی۔وہ سامنے سے اٹھی اور اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔

بس  میں ہونے والی گفتگو نے میری سہ پہر خراب کردی تھی۔خالہ کی نظر بس کی کھڑکی سے مسلسل باہر تھی وہ عمارات ، ٹریفک اور پیادہ لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے یاخدا کہتے ہوئے کہاکہ الاماں۔!ایسی  آواجاوی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ ہمارے گاؤں میں توسکون سے لوگ آتے جاتے ہیں ۔یہاں تو آپادھاپی پڑی ہوئی ہے۔اس نے مجھے باہر دیکھنے کوکہا۔ہمارے گاؤں میں تو لوگ ایسے تو نہیں پھراکرتے۔یہ بدنظمی سرمایہ دار   لیبرحکومت کا کیادھرتاہے۔خالہ نے کہا۔

او ہ ممی!میں اس وقت سیاست پر بات نہیں کرناچاہتی۔

ہم  بالآخر اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ گئے۔خالہ ایما نے ہم تینوں کاکرایہ ادا کیا جوکنڈکٹر نے بغیر بحث کے رکھ لیا۔خالہ نے گرہ لگائی کہ کنڈکٹر نااہل تھا۔اس نے پوراکرایہ وصول نہیں کیا۔

ہم بس سے اترے تو ہم نے وہاں لگے پوسٹر دیکھے کہ سٹالن مر گیاہے۔

میں وہاں رک گئی۔ہم  نے لندن کی  سردی او ررم جھم سے بچنے کے لئے خالہ کی چھتری اوڑھ رکھی  تھی جو تیز ہوا کے جھونکے سے اڑکر سڑک پرجاپڑی۔ہاکرچیخ چیخ کرکہہ رہاتھاکہ سٹالن مر گیا۔ وہ میرا جاننے والا تھامیں نے اسے ٹوکاکہ کیوں افواہ پھیلاکر لوگوں میں سراسیمگی پھیلا رہے ہواور پیسے بٹور رہے ہو۔اخبار فروخت کرنے کایہ نیا بھونڈا طریقہ صحیح نہیں۔اس نے کہاکہ وہ کیاکرے اس نے تو دہاڑی لگانی تھی۔یہ سب اس بوڑھے چرچل   کی ایماپرتھا۔وہ جس طرح کی پالیسی بنائےگا ہمیں ماننا پڑے گا۔ زندگی بھر اس نے ایسا ہی کیاہے۔ وہ آئین کےساتھ کھلوار کرتارہتاہے۔لگتاہے کہ وہ آئین کوبلڈوزکرنے والاہے۔مجھے اپنی نوکری اس لئے پسند کہ میں  صحافت سے منسلک تھی۔ خبروں کاپوسٹ مارٹم کرنااور ہر قسم کی محفلوں میں جاکر اصل معاملے تک پہنچنا میرے فرائض میں شامل تھااور مجھے یہ سب اچھالگتاتھا۔

خالہ ایمانےچھتری پھلائی  اور کنارے پرچھتری کے نیچے کھڑی ہوگئی اور کہاکہ میں  بھی ادھر آجاؤں۔

وہ سامنے اخبار خرید رہی ہےکیاتمہیں نظر نہیں آرہاجیسیکا نے  اونچی آواز میں جواب دیا۔

 سٹالن مرگیاہے سچ ہے تو دنیابھر میں بڑی تبدیلی آئے گی۔ہاکرنے کہا۔اسے اس بات کی پرواہ نہیں کہ جمہوریت کا فائدہ ہوگا بلکہ اس کو ان جنگوں پر تشویش تھی جوسٹالن  کی وجہ سے ہورہی تھیَ اور تمام دنیاکواذیت میں مبتلاکررکھاتھا۔

میں نے کہا کہ کسی شئے کی افادیت کا تب پتہ چلتاہے جب اسے آزمایا جائے۔ اگر تم کمیونزم یہاں آزماؤ توپتہ چلےکہ یہ کتنااچھانظام ہے جوکسی کوبھوکا مرنے نہیں دیتا۔میں بھاگ کرخالہ کے پاس گئی اور کہاکہ سٹالن مرگیاہے۔ تم کو کس نے کہا۔خالہ نے چونک کر پوچھا۔

یہ اخبار میں آیاہے۔ صبح یہ خبر چھپی تھی کہ وہ بہت بیمار ہے۔اب ضمیمہ آیاہے کہ وہ مرگیاہے۔ میں نے کہا۔یہ سرمایہ داروں کاپروپیگنڈابھی ہوسکتاتھا۔مجھے توپارٹی کی طرف سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی۔میں اس وقت تک اس خبر پریقین نہیں کروں گی جب تک میں خود نہ دیکھ لوں ۔

بیوقوف مت بنو۔ تم اس وقت لندن میں ہواور وہ ماسکو۔تم اسے کیسے دیکھ سکتی ہو۔جیسیکانے کہا۔

اس کے بعد ہم ایک گلی میں داخل ہوگئے ۔خالہ ایمانے اپنی بیٹی سے کہ  اگروہ اسے مزید سوٹ خریدکردےتوکیسالگے گا؟

اوہ ممی!کیاتمہیں سٹالین کے دنیاسے جانے کی سنسنی خیز خبر کی پروا ہ نہیں ؟کمیونسٹوں کے لئے یہ خبراتنی ہی اہم ہے جتنی  ہمارے لئے یہ کہ ونسٹن چرچل مرگیاہے۔

  اوہ میری پیاری بیٹی !خالہ نے افسردگی سے کہا۔ اس کی چھتری پاس سے گزرنے والے ایک شخص  سے ٹکرائی تواس نے خشگی سے اس کیطرف دیکھ کرکہاکہ کیاتمہیں نظر نہیں آتا ۔کیاتم دیکھ نہیں سکتی کہ بارش تھم گئی ہے۔خالہ نے سوری  کیا اور چھاتابندکردیا۔اس کی بیٹی نےوہ اٹھا  لیا ۔ خالہ نے میری طرف شکی نگاہوں نے دیکھتے ہوئے پوچھاکہ کیا میں چائے پیناپسندکروں گی۔

جیسیکاکودیرہوجائے گی۔میں نے کہا۔ساتھ ہی فوٹوگرافر کا سٹوڈیوتھا۔خالہ ایما نے توقع کی کہ وہ اس کی بیٹی کا بہترین فوٹوشوٹ کرے گا۔اس کی اب تک کی جوبھی فوٹو گرافی ہوئی تھی میں کوئی بھی ایسی تھی جس پر ہدائت کاریاپروڈیوسر ریجھ جائے۔

جیسیکا سب سے آگے تھی ۔وہ پانی سے لبالب قالین کی سیڑھیوں پرچڑھ گئی۔وہ سٹوڈیو پہنچی  تو وہاں  ارغوانی،سرمئی، سنہری  رنگوں کےقالین بچھے  تھے۔ان رنگوں میں موسم بہار کی جھلک تھی۔

ایک چھوٹا سافانوس لٹک رہاتھاجوسٹوڈیو کی آرائش میں اضافہ کررہاتھا۔میزبان کے بولنے سے پہلے گاہکوں کابولنامعیوب سمجھاجاتاتھا۔ایک خوبرو نوجوان کھڑاتھاجس نے سیاہ پلش کی جیکٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ان کے آنے پر اس نے کمرے کی مشین بند کردی ۔اس نے انہیں خوش آمدید کہا۔

خالہ ایما نے کہاکہ اسےلازماً یقین ہےکہ وہ صحیح جگہ پر  پہنچ گئے تھےاور تم یقیناًاچھا فوٹوشوٹ کروگے۔

یقیناًیہ موزوں ترین جگہ ہے۔تمٹھیک جگہ پر آئی ہیں۔تمہارایہاں آنا میرے لئے باعث مسرت  ہے۔فوٹو گرافر نے کہا۔اس نے خالہ کے سفید دستانوں والے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور اسےچلاتے ہوئے بڑے صوفے پربٹھادیا۔خالہ ایما نے اس کی یہ حرکت  شرم کے ساتھ گوارا کی۔اس کے بعد اس نے مجھے دیکھاتو اس ڈر سے کہ وہ میراہاتھ بھی نہ پکڑلے جلدی سے دیوان پر بیٹھ گئی جو ساتھ ہی پڑاتھااور خالہ کے صوفے سے کچھ فاصلے پرتھا۔اس کے بعد اس نے گہری اورپیشہ ورانہ نگاہ سے جیسیکا کی طرف مسکراکر دیکھا۔وہ ہاتھ پیچھے باندھے قالین پر کھڑی تھی اور اس کے چہرے پر کھچاؤ نظر آرہاتھا۔

تم  کچھ مضطرب  لگ رہی ہو۔اپنی ذہنی حالت درست کرو۔ لمبی لمبی سانسیں  لواور پرسکون ہوجاؤ ۔میں اس وقت تک بہترین نتائج  دکھاسکتاہوں جب    تمہارے ذہن پر کوئی بوجھ نہ ہو۔

میں ٹھیک ہوں اور آرام دہ حالت میں ہوں۔ جیسیکا نے کہا۔البتہ میری کزن کے چہرے سے پریشانی عیاں ہے۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتامیں سکون میں ہوں یا بے سکون۔ کیونکہ میرافوٹوشوٹ نہیں ہے۔ میں نے کہا۔اس وقت دیوان سے ایک کتاب قالین پر گرگئی۔ میں نے اس کا عنوان پڑھا تو وہ ایک مشہور حبشی نے لکھی تھی اور کھیل کود سے متعلق تھی۔

کیا تم نے اس ادیب کو پڑھاہے۔ فوٹوگرافر نے مجھ سے پوچھا۔

کبھی کبھار۔ میں نے جواب دیا۔

ذاتی طور پر میں اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں پڑھتا۔اس کی کتاب ختم کرنے کے دوبارہ پڑھتاہوں ۔میزبان نے کہا۔میں نہیں سمجھتاکہ اس کی کتاب پڑھنے کے بعد کچھ اور پڑھنے کی ضرورت ہے۔

مجھے اس کی اس بات سے اس کا احمقانہ پن نظر آیالیکن میں  چپ رہی  اور بات آگے نہ بڑھائی۔

میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک عمدہ کپ چائے سے شروع کرناچاہیئے۔ میزبان نے کہا ۔ جب تک میں اسے بناتاہوں کیاتم موسیقی سننا پسند کرو گی۔ میزبان نے کہا۔

مجھے جدید موسیقی پسند نہیں ۔جیسیکا نے کہا۔

سب کامزاج یکساں نہیں ہوسکتا۔وہ پچھلےدروازے کی طرف جاتے ہوئے بولا۔اتنے میں ایک خوبصورت جوان ٹرے میں چائے لے کرآگیا۔وہ بھی کافی مہذب تھا۔اس نے کالی جین  اور اودی سویٹر پہنی تھی۔اس کےسرپرسیاہ گھنے بال تھے۔

آہ!تم ہمارے لئے رحمت بن کرآئے ہو۔میں تم لوگوں سے اپنے اسسٹنٹ کوملاتاہوں فوٹو گرافر نے کہا۔میرانام توتم جانتے ہو۔یہ میرااسسٹنٹ  اور دوست جیکی سمتھ ہے۔اب ہم سب عمدہ چائے کاایک کپ پیتے ہیں۔میں چاہتاہوں کہ واقفیت سے ہمارے مابین زیادہ ہم آہنگی اور مطابقت پیداہوجائے ۔

جیسیکاتمام وقت قالین پر کھڑی رہی۔میزبان نے اسے چائے کی پیالی تھمانا چاہی تو اس نے اسے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے دے دوتواس نے مجھے دےدی۔میں نےجیسیکا سے پوچھا۔کیابات ہے ڈئر۔تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟

میں بالکل ٹھیک ہوں۔بس اس بات پر افسوس ہے کہ  وہ سب چاہتے ہیں  کہ میں یقین کرلوں  کہ

سٹالن مرگیاہے۔ جیسیکا نے کہا۔

سٹالن ؟

وہ شخص جو روس کابادشاہ ہے۔خالہ ایمانےکہا۔

اوہ!تمہاری مرادانکل جوسے ہے؟ وہ بوڑھاشخص۔اللد اس پر رحم کرے۔ میزبان نے کہا۔

خالہ ایمانے بولناشروع کیااور جیسیکا حیرت سے اس کامنہ تکنے لگی۔

اکھڑ۔اجڈ۔بدمعاش۔خالہ نےسٹالن کوبرابھلاکہناشروع کردیا۔

جیکی سمتھ آیا اورمیرے ساتھ آکے بیٹھ گیااورمیرےکندھے کے اوپر سےاخبار پڑھنے لگا۔ اچھا۔اچھا۔اس نے کہا۔اچھا،اچھا،اچھا،اچھا۔تو ڈاکٹر۔۔۔روس  میں کیاڈاکٹر بھی ہوتے ہیں؟ اگر وہاں  معقول ڈاکٹر پائے جاتے تو میں خود کو محفوظ سمجھتا۔۔۔لیکن ایسانہیں۔

نہیں۔حقیقت میں نہیں۔میں نےکہا۔

نالائق،وہی پرانی بیوقوفیانہ رٹ ۔جیکی سمتھ نے کہا۔اس کوتوپہلے ہی ماردیاہوتامگر جنگ عظیم چھڑگئی۔ ظاہر ہےکہ جنگ ختم ہوتے تک اس کی افادیت رہنی ہی تھی۔کیاتم اس بات سے اختلاف کرتی ہو؟

یہ کہنامشکل ہے۔میں نےکہا۔

میزبان نے اپنے ایک ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑی تھی۔اس نے دوسرے ہاتھ سےاشارہ کیا۔میں اس قسم کی لغوبحث میں پڑنانہیں چاہتا۔یہ خبریں بیہودہ ہیں۔ان کےبارےگفتگووقت اور ذہن کاضیاع ہے۔میں جس شئے کےبارے جانتاہی نہیں اس پر گفتگولاحاصل ہے۔اسکے بارے مثبت یامنفی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔یہ سیاست ہے،بےپرکی اڑائی جاتی ہیں۔تاہم جنگ عظیم دوم میں انکل جو،روزویلٹ   مکمل طورپرمیرے پسندیدہ لڑکے تھے۔

یہاں پرکزن جیسیکاجودکان میں داخل ہونےکےبعدابھی تک کھڑی تھی اورچائے بھی نہیں پی تھی،اچک کربولی۔ہم تین میں نہ  تیرہ میں۔کیایہ فضول بحث   ختم نہیں کرسکتے۔غصے سےاس کی کنواری گا لیں گلابی ہورہی تھیں اور آنکھوں میں خفگی آگئی تھی۔

یقیناً۔تم چاہتی ہوتواس بحث کو ختم کئے دیتے ہیں۔میزبان نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔اس نے اپنے اسسٹنٹ کی طرف دیکھاجس نے ہچکچاتے ہوئے اخبار رکھ دیااور ایک پردے کی ڈوری کھینچ دی جس سے ایک طاقچے میں فوٹو گرافی کے آلات رکھے ہوئے نظرآئے۔اس کے بعد انہوں نے جیسیکا کے جسم کو ہرزاویے سےدیکھاتاکہ جان سکیں کہ کس زاویے اس کی تصویر اچھی آئے گی۔

یہ بتاؤکہ تم  کس  لئے تصویر کھنچواناچاہتی ہو۔ اس فوٹوشوٹ کامقصد کیاہے۔میزبان نے پوچھا۔

میں نہیں جانتی اورنہ ہی مجھے پرواہ ہےجیسیکانےکہا۔

میں چاہتی ہوں کہ اس کے چہرے کےتاثرات بھرپور طریقے سےتصاویر میں آئیں۔اس کی سیکسی ادائیں آنی چاہیئں۔اس کی والدہ نے کہا۔

اس پر جیسیکانے منہ بناتے ہوئے گھونسالہرایا۔

کیایہ بہتر نہیں کہ ہم یہاں سے چلےجائیں اور تم لوگوں کواکیلاچھوڑدیں تاکہ تم اچھی طرح فوکس کرسکو۔خالہ ایمانے کہا۔

لیکن مائی ڈئر۔۔۔اس نےاپناہاتھ جیسیکا کی کمرکےگرد حائل کیااور کہاکہ ہم ایک معصوم اناڑی ر بطخ کافوٹوشوٹ کرنے جارہے ہیں۔اس کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوکر کہنےلگا۔تم چاہتی ہوکہ تمہاری تصاویر عمدہ ہوں۔میں جتنی بھی کوشش کروں تصاویر اتنی اچھی نہیں آسکتیں جب تک تم تعاون نہ کرو۔تمہیں اپنے چہرے پر بھرپور تاثرات لانے ہوں گے جس سےتم  لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوجاؤگے۔اس کے لئےتمہیں سیکسی ادائیں دکھاناہوں گی۔

خالہ ایمالنگڑی چال چلتی باہر نکل گئی اور میں نے میزبان کی جگہ لے لی اور جیسیکاکوسٹوڈیو  پرلے گئی اور دروازہ بند کردیا۔

کیا تصویر کشی کرتے وقت  گانے نہ لگادئیے جائیں۔موسیقی روح کوچھوتی ہے اور چہرے پرعمدہ تاثرات لاتی ہے۔جیکی سمتھ نے کہا۔ہم ایسے گانے چنتے ہیں جوتمہیں سکون دلائیں۔

ہم سٹوڈیو سے باہرنکل آئیں اور دکان کی کھڑکی سے سڑک سڑک دیکھنے لگیں۔

کیاتم نے اپنے بوائے فرینڈ سے تعلق ختم کرلیا ہے۔خالہ نے مجھ سے پوچھا۔میں نے کوئی جواب نہ دیا۔میری کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ اسے اپنےبارے میں صرف اتنی باتیں ہی بتاؤں جو ضروری ہوں۔ اس کے سوالات کچھ ایسے ہوتے تھے۔تم آج کل کیاکررہی ہو؟تم نے بل کی سفارش کیوں کی؟تم نے بیٹرس کا خیال کیوں رکھا؟کامریڈ کے مشورے پرعمل کیوں نہیں کیا؟پارٹی  کی پالیسیوں پر تنقید کیوں کی؟کیا کامریڈ جین نے کیا اپنالنچ پوراکھالیاتھا۔ اس لنچ میں کیاتھا۔وغیرہ وغیرہ۔

موسیقی چلادی گئی۔وہ بہترین کلاسیکی گانے تھے۔جیسیکاان گانوں کوکوڑاکرکٹ نہیں کہہ سکتی تھی۔وہ ان پرکیاسوچے گی، کہہ نہیں سکتے۔وہ ایک مشکل خاتون تھی۔میرے پاؤں اس گانے پر تھرکنے لگے۔

میں نےسگریٹ سلگایاہی تھاکہ گانابند ہوگیا۔گانابندکیوں کیا؟خالہ نے پوچھا۔یہ تو جذبات میں ارتعاش پیدا کررہاتھا۔اتنے میں موسیقی پھر سے آن ہوگئی  لیکن اس پرجوگاناچلاوہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔پھر سٹوڈیو کادروازہ کھلاتوجیسیکاایک عزم کےساتھ کونے میں کھڑی دکھائی دی ۔اس کے منہ سے نکلا۔یہ سیشن اچھانہیں تھا۔میراموڈ اچھانہیں۔اچھے تاثرات  نہیں دے سکی اس لئے فوٹوشوٹ نہیں کرواناچاہتی۔

میزبان اور اسسٹنٹ ہنستے ہوئے سٹوڈیو سے باہر نکلے۔ہمیں آج کے اس حصے کوبھول جانا چاہیئے ۔جیکی نے کہا۔

ہم بعد میں دوبارہ کوشش کریں گے  جب جیسیکاذہنی اور جسمانی طورپرتیار ہوگی۔ہرکوئی اپنے آپ میں ہوگااور اچھی کارکردگی دکھانے کے لائق ہو گا۔میزبان نے کہا۔

جیسیکا آگر بڑھی۔انکے کندھوں پر اپنےہاتھ رکھتے ہوئے کنوارپن کی مخلصی سے گویاہوئی۔مجھے بہت افسوس ہے۔

خالہ معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے فوراًآگے آئی ۔جیسیکاکوایک طرف کرکے فوٹوگرافروں سےہاتھ ملا یا۔چائے کاشکریہ۔

جیکی نے میرااخباراپنے ہاتھ میں  پکڑکرہم تینوں کے سر پرلہراتے ہوئے کہا۔تم اسے توبھول ہی گئے۔

چھوڑواس قصے کو۔جیسیکا کے سلسلے میں زندگی بھر میں آج سے زیادہ شرمسارمیں کبھی نہیں ہوئی۔خالہ نے کہا۔

مجھے توکوئی پرواہ نہیں جیسیکانے غصے سے کہا۔ہم نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیااور ایک دوسرے کےگالوں پربوسہ دیااور دکان سے نکل آئے۔ایک ٹیکسی کوہاتھ دیا۔وہ دونوں اس میں سوار ہوگئیں اور میں نے بس لےلی۔

گھرپہنچی توٹیلیفون بج رہاتھا۔بیٹرس مجھے فوری ملناچاہتی تھی۔وہ تازہ ترین صورت حال سے آگاہ ہوناچاہتی تھی۔سٹالین زندہ تھایامرگیاتھا۔پارٹی نے کیا خبر دی تھی معلوم کرنا چاہتی تھی۔اس کی آگے کی حکمت عملی کیاہوناچاہیئے مشورہ کرناچاہتی تھی۔

کیاتم جانتی تھی کہ سٹالین شدیدبیمارتھااور وہ مررہاتھا۔میں نے پوچھا۔

ہاں۔ تمہیں یہ خبرسرکاری سطح پر دینی چاہیئے تھی ۔ اس نے کہا۔

ایساکیوں؟

اگرتم لوگوں کوسچائی نہ بتاؤتو کون بتائے گا؟

تم صحیح کہہ رہی ہو۔ مجھے بھی ایساہی کرناچاہیئے۔ میں نے کہا۔

میں تنہارے پاس ایک گھنٹے تک پہنچ رہی ہوں۔بیٹرس نے کہہ کرفون رکھ دیا۔

میں نےاپناٹائپ رائٹرپکڑااوراپنی ذمہ داری پوراکرنےلگی۔اس لمحے فون کی گھنٹی پھر بجی ۔ دوسری طرف کامریڈ جین تھی بشپ کی بیٹی۔چھوٹتے ہی گھبراہٹ میں پوچھا۔کیا تم نے سٹالن کی خبر سنی؟وہ رورہی تھی۔

سٹالن اور ہٹلرکاجب معاہدہ ہواتھاتواس وقت کامریڈ جین کاخاوند کمیونسٹ پاٹی کا رکن بناتھا۔ اس وقت سےہی  اس کا راشن چالو ہوگیاتھا۔ مکھن، ڈبل روٹی،انڈے اوردوسراسامان اسے گھر بیٹھے ہر ہفتے مل جایاکرتاتھا۔اس کے کمرے میں اس کے سر پر سٹالین کی قد آدم تصویر ٹنگی ہوئی تھی۔

ہاں۔ میں اب فون رکھتی ہوں۔یہ بات تشویشناک تھی۔جین نے ہچکی لیتے ہوئے کہا۔ ظالموں نے اسے قتل کردیا۔

کون ظالم؟ میں نے پوچھا۔

سرمایہ داروں کےپٹھوؤں نے۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔اس نے جواب دیا۔

اس وقت سٹالین 73سال کاتھا۔ میں نےبتایا۔

عامی اس طرح نہیں مراکرتے۔

عام ہویاخاص۔73سال  کی عمر  پہنچنےپرسب ایسے ہی مرتے ہیں۔میں نے کہا۔

ہمیں عہد نوکرناچاہیئےکہ ہم سب اس کے مشن کونبھائیں گے۔

ہاں۔ ہم ایساہی کریں گے میں نے کہا۔

سب نے اپنی اپنی راہ لی۔

 

Life history

  Doris  May  Lessing

(1919……2013)

Nobel  Laureate  2007

حالات زندگی

ڈورس مے لیسنگ 22اکتوبر 1919 کو کرمن شیل    (ایران ) میں پیداہوئی۔اس کاادب   بیسویں صدی  کےسماجی  اور سیاست کے اتارچڑھاؤ پر مبنی ہے۔جب وہ پانچ سال کی تھئ تو اس کاخاندان جنوبی رہوڈیشیا (موجودہ  زمبابوے)منتقل ہوگیا۔ وہاں وہ بیس سال رہااور 1949 میں  وہ انگلستان منتقل ہوگیا۔اپنے بلوغت کے سالوں میں وہ  سرگرم سوشلسٹ رہی۔ ا س نے 1950 ' دا  گراس  از سن  گنگ' میں    'گوانگ  ہوم' اور 1960 میں ' ان دا پرسوٹ آف انگلش'   لکھی۔  اس کے بعد 'انڈر مائی  سکن'یہ اس  کی سوانعمرس تھی ۔جس میں اس نے رہوڈیشیا اور برطانیہ میں گزارےوقت کی روداد بیان کی۔   

اس کاپہلاناول  'واکنگ ان دا شیڈ'1997 میں آیا۔جوایک سفید فام  کسان  اور اس  کی بیوی پر تھا  جس میں افریقہ کی نوکری  کا قصہ بیان کیاگیاتھا۔۔اس نے 1952 سے 1969 میں 'چلڈرن  آف  وائلنس ' لکھی  پانچ ناولول  مارتھا کوئیسٹ پرلکھے   جوجنوبی افریقہ اور انگلستان  سے متعلق تھے۔ 1967 میں اس  لندن میں پیش کیا۔نے 'دا گولڈن  نوٹ بک لکھی  جو ایک خاتون ادیب  کے  اپنے علم و فن کو   لندن میں  منوانے سے متعلق ہے۔ 1975 میں اس نے 'دا میمائرز  آف اے سروائیور' لکھی  جس میں ایک شخص کی نفسیاتی  اور سماجی زندگی کی عدم مطابقت پرہے۔

Short Stories

The Story of Non. Marrying  Man (1972), …And Storis (1978), African Stories…The Old  Child’s Country(1951), The sun under their feet (1973).

 Novels

Canopus in Argos :Archives , Children of Violence, The Cleft, The Golden Note book, The Grass Singing, The Memoirs of a Survivor, The Sweetist Dream, Time Bites.

Novels  written Pseudonymously under  ‘Janes  Somes’ name:

The Fifth Child (1988),Horor  Story (2001),  Swuutist  Dream  in the World (2000), The Cleft (2007)

Essays

 Time Bites(2004) ; Akfred Family (2008)

وہ  17 نومبر 2013 کو 94 برس کی عمر میں  فوت ہوئی ۔

 

 

 

 

 


 

 

 

 


Popular posts from this blog