میری جوانی کی سہیلی (The Friend of My Youth) Alice Ann Munro (Noble Laureate - Literature) (1931 -) (Canada)

 




  Final   Print  47/2

 

میری جوانی کی سہیلی

The Friend of My Youth

Alice Ann Munro (Noble Laureate – Literature 2013))

(1931 -2013) (Canada)ہ  میری  عظیم  والدہ کو  اس دنیا سے رخصت ہوئے اگرچہ ایک عرصہ بیت چکاہے لیکن اس کی حسین یادیں آج بھی میرے دل  مین روز¸اول کی طرح تازہ ہیں۔و ہ  عظیم عورت  تھی ، ہر ایک کا دکھ درد بٹاتی تھی۔ ویک بہادر، باوقار اور مخلص تھی۔دوستی نبھانا جانتی تھی۔ اس میں عمدہ حسِ ظرافت پائی جاتی تھی۔اس کی لکھائی ایسی تھی کہ لگتاتھا  کہ  کسی نے موتی پروئے ہوئے ہوں۔ کبھی کسی کا برا نہیں سوچا تھا اور رجائیت پسند تھی۔ وہ خود دار تھی اورکسی پر بھی بوجھ بننا پسند نہیں کرتی تھی۔اُس کو فالج ہوگیا اس لئے اُسکے جسم پر رعشہ طاری ہو گیا تھا ۔ اس کی دوستوں اور  چاہنے والوں کے خطوط آتے رہتے تھے۔ جب تک اس کے  تمام اعضا صحیح کام کرتے رہے، وہ باقاعدگی سے ان کے جواب دیتی رہی۔اب اس کے جسم پر رعشہ طاری ہوگیاتھا۔وہ لکھ تو نہ سکتی مگر بھرائی ہوئی  آنکھوں  سے انہیں پڑھتی رہتی تھی۔اس نے اپنی جوانی ایسے خاندان کے ساتھ گزاری  جن کا تعلق کیمرون فرقے کے ساتھ تھا۔وہ سادہ لوح تھے اور  جدید تہذیب و تمدن اور سائنسی  ایجادات کو اپنی زندگی میں استعمال کرنا  حرام سمجھتے تھے۔ان کا وسیع وعریض فارم ہاؤس تھا جہاں   اعلیٰ نسل کے گھوڑے اوربھیڑبکریاں پالی جاتی تھیں۔ فارم ہاؤس کے ساتھ کھیت بھی تھے جسے وہ خود بیل جوت کر کاشتکاری کرتے۔فصلوں کی کٹوائی  ٹھیکے پر دے دی جاتی تھی  جس میں  درانتی  استعمال کی جاتی تھی۔

 

  اِس فارم ہاؤس سے ملحق ایک سکول اور ایک گھر تھا۔ گھر دو منزلہ تھا۔ نیچے اوپر دو دو کمرے تھے۔ گھر کے تین باسی تھے، مالک اور اس کی دو بیٹیا ں۔بڑی بیٹی  کا نام 'فلورا' تھا  جس کی عمر بیس سال تھی۔چھوٹی بیٹی کا نام 'ایلی'تھاجس کی عمر بارہ سال تھی۔وہ ایک کمرے میں رہتے تھے ۔کمرے کے اس حصے کو ہی  رنگ کیاگیاتھا جس میں وہ بیٹھتے تھے۔ کھڑکیوں کے پردے نہیں تھے۔ اس کمرے میں انگیٹھی جلائی جاتی تھی اور سب اس کے ارد گرد بیٹھ کر ہاتھ سینکتے تھے۔ مالک کی عمر پینسٹھ سال تھی۔فارم ہاؤس بڑا تھا۔اُس میں روز بروز مویشیوں میں اضافہ بھی ہو رہا تھا۔اُن کی دیکھ بھال کے لیے مالک اور اس کی دونوں بیٹیاں نا کافی پڑگئی تھیں ۔ مالک   نے سوچا کہ اپنی مدد کے لیے کوئی ملازم  رکھ لیا  جائے۔ایک   شخص  رابرٹ  فاقوں کے ہاتھوں مجبور نوکری کی تلاش میں  سکاٹ لینڈ سے  کینیڈا میں بھٹک رہاتھا۔ اس کا نام رابرٹ تھا اور اٹھائیس سال کا تھا۔اس کی   کوئی خاص منزل  نہیں تھی۔ اتفاق سے وہ اپنے  دور پار کے رشتہ  دار کے پاس اس گاؤں میں چند دنوں کے لئے رکا۔اُس وقت رابرٹ بالکل دیوالیہ تھا۔ اُسے پتہ چلا کہ فارم ہاؤس میں مزدور کی ضرورت ہے تو وہ مالک کے پاس پہنچا جس نے اُس کا گٹھاہوا جسم اور اچھی صحت دیکھی  تووہ اُسے کھیتی باڑی کے لئے معقول لگا اور اُسے ملازم رکھا لیا۔ طے پایا کہ اسے  روٹی کپڑا  ،قلیل  تنخواہ  کے علاوہ رہنے کو جگہ دی جائے گی۔رابرٹ نے سوچا کہ شرائط معقول تھیں، اسے رقم کی اشد ضرورت تھی اس لیے اس نے وہ شرائط قبول کر لیں۔  اُسے گھر کی دوسری منزل کا ایک کمرہ دے دیا گیا۔رابرٹ دراز قد، سپید رنگ و روپ، خوبصورت، کشادہ مضبوط چھاتی اور کسرتی جسم والا شخص تھا اور بہت محنتی بھی تھا جو مالک کی نگاہوں میں جچ گیا ۔ متاثر ہو کر مالک نے اپنی بڑی بیٹی فلور اکی ا ُس سے منگنی کر دی۔ُان کے  عقیدے کے مطابق یہ بات رائج تھی کہ منگیتر مل تو سکتے تھے لیکن صرف کسی بزرگ کی  نگرانی میں۔خدا کا کرنا ایسا ہو اکہ مالک کو قضائے الٰہی نے آلیا اس لئے اب فارم ہاؤس کا ذمہ رابرٹ کے ہاتھ آگیا۔ اب رابرٹ اور اس کی منگیتر فلورا دونوں مل کر فارم چلانے لگے۔ جب کبھی اُن کو فرصت ہوتی تو وہ پہاڑوں کی سیر کو نکل جاتے۔ رواج کے مطابق وہ دونوں اکیلے نہیں جا سکتے تھے اس لئے اِن کی نگرانی فلورا کی چھوٹی بہن ایلی کو کرناپڑتی تھی جو ایک منحنی سی متلون مزاج دبلی پتلی لڑکی تھی۔ بارہ تیرہ سالی بچی اِس دوران بچگانہ حرکتیں کرتی رہتی تھی۔ سیر کے دوران سائیکل پراردگرد چکرلگاتی رہتی۔فارم ہاؤس کے باسی چونکہ قدیم روایات کو برقرار رکھنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے گھر میں بجلی بھی نہیں لگوائی تھی۔ نہ ہی کار، ٹریکٹر اور دیگر مشینری فارم میں استعمال کرتے تھے۔ وہ غریب نہیں تھے۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ تھا۔ فلورا بھیڑوں کی اون اور زرعی پیداوار بوریوں میں بھر کر نزدیکی شہر میں جو کہ دس بارہ کلو میٹر دور تھارہڑے میں لاد کر لے جاتی تھی۔رہڑہ تو ہمیشہ رابرٹ چلاتا تھا لیکن فلورا پیچھے ہوتی تھی جو اُن بوریوں کو پکڑ کر رکھتی تھی۔ شہر میں وہ سامان بیچ کر گھریلو ضروریات کی اشیا خرید کر لاتے تھے۔میری والدہ فلورا کی ہم عمر تھی۔ اُس کے والد نے میری ماں کو سکول ٹیچر رکھ لیا تھا۔  شوق تھا اور دوسرا وہ اس  وقت اس کی ضرورت  بھی تھی۔ والدہ کو پڑھانے کا

ماں بہت خوبصورت، ذہین اورمحنتی تھی جسے اپنے پیشے سے لگاؤ تھا۔ اُسوقت میری والدہ غیر شادی شدہ تھی۔ اس کے گھریلو حالات صحیح نہیں تھے اس لیے وہ اپنے والدین کی مالی مددکرنےکے ساتھ ساتھ اپنی شادی کے لئے بھی کچھ پیسے بچانا چاہتی تھی۔ فارم ہاؤس کے سکول کے ٹیچر کے لیے بنیادی شرط یہ تھی کہ اسے سارا سال پورا وقت ان کے پاس ہی گزارناتھا۔ ہفتے اور اتوار کی بھی چھٹی نہیں تھی اور اپنے گھربھی نہیں جا سکتی تھی۔رہائش و طعام کا ذمہ فارم ہاؤس کے مالکان کے ذمہ تھا اور کافی معقول تنخواہ تھی۔فلورا اور میری ماں  چونکہ ہم عمر تھیں اس لئے  وہ ایک دوسرے کے قریب آگئیں اور اُن میں دوستی ہوگئی۔ فلورا                     رحمدل تھی۔ وہ دوسروں کی مدد کرکے خوش ہوتی تھی۔ دوسروں کے دکھ  درد  میں برابر شریک ہوتی تھی۔ 

والد کی فوتگی کے بعد بھی فلورا اور رابرٹ اسی طرح اکیلے میں ایلی کی موجودگی میں ملتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد ایسا ہوا کہ  فلورا کی  چھوٹی بہن ایلی اچانک بیمار پڑ گئی۔ اُسے دورے پڑنے لگے۔شدید سر درد رہنے لگا۔وہ اپنے سر کو دیوار سے ٹکراتی، ادھر اُدھر جھٹکے دیتی لیکن اس کا درد کم نہ ہوتا۔ کوئی  دوا دارو اُس پر اثر نہیں کر رہا تھا۔ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کی ماہواری آنا بند ہوگئی ہے اور اُس کی بیماری صرف شادی سے ہی ٹھیک ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر فلورا سوچ میں پڑ گئی۔ اُس  نے بڑے غوروفکر کے بعد  فیصلہ کیا کہ اپنی بہن  کی صحت

یابی کے لئے قربانی دی جائے،اپنی بجائے اس کی شادی رابرٹ سے کر دے۔

کارڈ جب گاؤں والوں کو ارسال کئےگئے تو اُس پر دولہے کا نام رابرٹ اور دلہن کا نام ایلی لکھا تھا۔گاؤں والے پہلے تو حیران ہوئے پھر سوچا کہ شاید نام لکھنے میں غلطی ہوگئی تھی کیونکہ رابرٹ کی منگیتر تو فلورا تھی جبکہ شادی کارڈ پر ایلی کا نام لکھا تھا۔شادی ہوئی تو رابرٹ اور ایلی کو اوپر والی منزل دے دی گئی اور نچلے حصے میں میری ماں اور فلورا رہنے لگیں البتہ کھانا ایک جگہ ہی پکتا رہا۔

شادی کے بعد ایلی کی طبیعت سنبھلنے لگی۔ اُس کے دورے ختم ہوگئے۔ سر درد جاتا رہااور بے چینی ختم ہوگئی۔ چند ماہ بعد اسے اُلٹیاں آنی شروع ہوگئیں اور کمر درد ہونے لگی۔  علامات ظاہر کر رہی تھیں کہ وہ امید سے تھی۔ ایک سال کے اندر اندر اس کا پہلا بچہ ہوا لیکن بد قسمتی سے وہ مردہ تھا۔ رابرٹ نے اپنی مردانگی میں کمی نہ آنے د                   ی ۔اس نسلسلہ جاری رکھا۔                   رابرٹ نے وقفہ نہ آنے دیا۔                        وقفہ نہیں آنے دیا۔ ایلی مسلسل اُمید سے ہی رہی، جس سے اس میں    اُس دوران ایک اور بچہ ہوا،  وہ بھی مردہ تھا ۔ بار بار حمل ٹرنے  

 نقابت طاری ہو گئی،مسلسل بیمار رہنے لگی اور بستر سے لگ گئی۔ فلورا نے اُس کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس رکھ لی۔جس کا نام 'آڈری 'تھا۔اس نے اپنے چہرے پر میک اپ تھوپا

ہوا تھا۔اس کے پاس کار بھی تھی ۔ان دنوں بہت کم لوگوں کے پاس کاریں ہوتی تھیں۔اس گاؤں میں کارپہلی بار آئی تھی ۔گاؤں والے حیران تھے کہ اس کےپاس اتنا پیسہ کہاں

سے آیا؟ وہ ایلی کو نام کی بجائے 'میرا مریض کہہ کر  پکارتی تھی۔اس کے علاج کے نام پر   قیمتی سے قیمتی اشیاء منگواکر خود استعمال کرتی تھی۔ ایلی کوکوئی افاقہ نہ ہوا اور وہ چل بسی۔ فلورا نے اسے کہا کہ اب اس کی اس گھر میں ضرورت نہیں کیونکہ اس کی مریضہ اب نہیں رہی لیکن نرس نےجب یہ  جواب  دیا کہ وہ اس وقت تک اس گھر میں رہے گی جب تک کہ اُسے کو ئی اور مریض نہیں مل جاتا تو فلورا یہ سن کر پریشان ہو گئی۔ایلی کے مرنے کے بعد فلورا توقع کر رہی تھی کہ اب اس کی اور رابرٹ کی شادی ہو جائے گی لیکن  جب نرس نے کہا کہ وہ اور رابرٹ آپس میں شادی کر رہے ہیں تو وہ حیرت زدہ  رہ گئی۔ گاؤں والوں کو بھی یہ  رشتہ  برالگا لیکن وہ کیا کر سکتے تھے اوراِس بار بھی فلورا قربان گاہ پر چڑھ گئی۔ رابرٹ اور نرس نے اپنے معاشقے  کی  خبر پر پورا گاؤں پریشان تھا۔ دی۔اس کے ایسے   حیرت انگیز واقعات جاری رہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔  اس کے  حیرت کے واقعات جاری رہے۔ رابرٹ اور نرس نے اپنے معاشقے اور دوسری باتیں  راز میں رکھیں تھی۔  اس   بارے میں گاؤں کے لوگوں کا تجسس تھا کہ وہ  سب  کہاں اور کیسے ہوااور مزید کیا  کرے گی ۔شادی کہاں کرےگی،  گرجاگھر یا ہوٹل، کیا  پہنے گی، اس کا ڈیزائن کیاہوگا۔کیا وہ روائتی ہوگا یا وہ  کوئی  شہری دلہنوں والا مخصو ص لباس سلوائے گی، وغیرہ وغیرہ۔۔گاؤں  کے لوگوں کی توقعات کے برعکس اس نے گاؤں والوں کی ڈانس پارٹی ایک سکول میں رکھی جو ایک انہونی بات تھی۔ وہ  اس کا شادی کا لباس دیکھ کر حیران رہ ۔اس نے جوڑا ایسا بنوایا تھا جو دونوں تقریبات  ( شادی اور اس کے بعد کی ڈانس پارٹی ) میں  استعمال ہو سکے لیکن لوگوں کو یہ اعتراض تھا کہ وہ لباس بیہودہ تھا ،اس لئے فلورا شادی میں نہ گئی لیکن ڈانس پارٹی میں بادل نخواستہ شرکت کی۔  حیران رہ گئے  کیونک

 دلہن نے ڈانس پارٹی میں ایک کے ساتھ اچھل اچھل کر بھرپور ڈانس کیا ما سوائے اپنے خاوند کے' ۔شادی کے بعد  میاں بیوٰی بالائی منزل پر منتقل ہوگئے۔جبکہ فلورااور میری والدہ  نچلے حصے میں منتقل ہوگئے۔نرس نے اس کمرے کاپرانا سامان نظرِ آتش کردیا ۔ گھر کے بالائی حصے کو جدید ڈیزائن سے آراستہ کیا۔ کمرے اچھی طرح سے رنگ کروائے۔ دروازے کھڑکیوں کو پالش کروایا اور کھڑکیوں پر نئے پردے لگوا دییئے۔بہترین فرنیچر ڈال دیا جبکہ فلورا والا حصہ ویسے کا ویسے ہی رہااس دوران میری ماں کی شادی طے ہو چکی تھی۔ ماں کو فلورا نے بہترین سکارف اور خوبصورت سجاوٹی تحفہ ' بروچ' دیا۔اور نرس نے  ما ں کو پرفیوم  اور ایک کارڈ  دیاجس میں اس نے مبارک باد اور بہت سی دعائیں بھیجی تھیں اور تمنا کی  تھی کہ جلد ہی ملاقات ہوتی رہےگی۔  والدہ کے اس گاؤں میں بہت سے دوست بن گئے تھے۔ اس کے کافی شاگرد بھی اس سے خط و کتابت کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے میری ماں کو اطلاع دی کہ نرس نے  فلورا کے ساتھ براسلوک روا رکھا  ہوا تھا۔ وہ گھر اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ رابرٹ والا حصہ جدید ترین لوازمات سے بھر گیا تھا۔ بجلی، فریج،ٹریکٹر، کار وغیرہ آگئے تھے۔ گاؤں والے نرس کو بدعا دیتے تھے کہ اس نے فلورا کی زندگی برباد کر دی تھی پھر آہستہ آہستہ گاؤں والوں کی فلورا کے بارے میں رائے بدلنے لگی،پھر وہ کہنے لگے کہ وہ اسی قابل تھی کیونکہ وہ بے حد ضدی اور قدامت پسند تھی۔نئے تقاضوں کو قبول نہیں کرتی تھی اس لئے اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا۔فلورا کی حالت زار جان  فلورا کی حالت زار جان کر میری ماں نے فلورا کو خط لکھا اور اس پر ہونے والی زیادتیوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ کچھ دنوں بعد فلورا کا جوابی  نامہ ماں کو ملا۔ جس میں  اس نے ماں کو بے نقط سنائی تھیں۔اس نے لکھاکہ کسی بدخواہ نے اسے غلط اطلاعات دی تھیں۔اسے گمراہ کیاگیاتھا۔  اوراسے بدظن کیاگیا۔ ُ اس میں فلورا نے   مزید  یہ بھی لکھاتھاکہ اس کے خاندان سے تعلق رکھنے کی ضرورت نہیں ۔ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ  نہ اُڑانے کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔۔اس کے بعد ماں نے فلورا کو کبھی خط نہیں لکھا لیکن مجھ سے اس کے بارے میں تفصیلاً بیان کیاکرتی تھی۔  میں اگرچہ اُن سے کبھی نہیں ملی تھی لیکن اُن کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی اور یہ محسوس کرتی تھی کہ جب بھی اُن میں سے کسی کو ملوں گی تو فوراً پہچان جاؤں گی۔

جب کبھی میں اس خاندان کے بارے میں سوچتی تو ان تمام کرداروں میں مجھے   رہا۔جھے عیا        ر               رابرٹ لگتاتھا۔ وہ میری ماں کی بتائی ہوئی تفصیلات میں ہمیشہ خاموش اداکار ہی رہا۔ فلورا  کے ساتھ منگنی اورایلی کے ساتھ شادی، اس کے بعد کے حالات، اس کی بیماری، اس کے مرنے کے بعد نرس کے ساتھ شادی اور شادی کے بعد ڈانس پارٹی میں بنچ پر خاموشی سے بیٹھنا سب پراسرار تھیں۔ وہ ہر جگہ موجود تھا۔ ہر جگہ اہم تھا لیکن خاموش چالوں سے اپنا اُلّو سیدھا کر تارہتا تھا جبکہ ماں  چلنے  پھرنے سے معذور ہوگئی تھی۔اس کے دکھ کے ساتھ ہم بھی  اذیت  میں تھے ۔ اس کے ہاتھ  جڑگئے تھے، سب بھگت رہے تھے ۔     اس کی تکلیف خبر بھی نہیں ہو پا تی تھی۔پھر میری ماں کو فالج ہوگیا اور چلنے پھرنےسے معذور ہوگئی تھی۔وہ  بے بس ہوگئی تھی۔    ہاتھ میں قلم پوری طرح نہیں پکڑ سکتی تھی۔ رعشہ طاری ہونے کی وجہ سے وہ لکھنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ میں اس وقت سولہ سال کی تھی۔ میں نے بھی تخیل میں جب رابرٹ کی شخصیت، خوبصورتی، کشادہ کندھوں، چھاتی پر بال اور دراز قد کے بارے میں سوچا تو میں بھی فطری تقاضوں کے مطابق اُس کی طرف کھینچنے لگی تھی۔ ہر لڑکی ایسے شخص کو اپنانے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اِس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے رابرٹ نے ہر ایک سے فائدہ اٹھایا۔ لوگوں کے سامنے رابرٹ  بھیگی بلی بن کر

ایلی کی خراب صحت  کا فائدہ  اٹھا کر سے نتائج اپنے حق میں کئے اور نرس نے اس کو اور اس نے اسے پھنسایا۔رابرٹ ان  تمام باتوں کا ذمہ دار تھا۔ بیوی کی  صحت کا خیال نہ کیا اورہر وقت اُسے حاملہ رکھاجس سے وہ بہت لاغر ہو گئی اور بالآخر فوت ہو گئی۔ اُس کے بعد اُس نے نرس کو پھنسایا اور اُس سے شادی رچا  کراور جدید آلات خرید کر اپنے گھرمیں لایا۔اس  سہولیات مہیاکیں۔وہ  کھیت کھلیا ن میں  کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ کیااور فلورا کو جھنڈی کرادیا۔انہوں نے والدہ  کے آخری دنوں میں فلورا کا ایک خط موصول ہوا جس پر ماں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اُس نے بتایا کہ اس نے اپنا آبائی گاؤں چھوڑ دیا ہے اور اُس شہر منتقل ہوگئی ہے جہاں  وہ اس کے دور میں  اون اور پیداوار بیچنے جایاکرتی تھی۔ رابرٹ اور رابرٹ  کی بیوی آڈری اب بھی فارم ہاؤس میں رہتے ہیں۔ رابرٹ کی کمر میں کچھ تکلیف رہنے لگی ہے۔ اُس کے علاوہ وہ تندرست ہے۔آڈری کا سانس پھول جاتا ہے۔ ڈاکٹر نے اسے ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی خوراک میں احتیاط برتے لیکن احتیاط کے باوجود کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ ان کا فارم ہاؤس بہت اچھا چل رہا ہے۔ انہوں نے اپنے فارم میں بھیڑ بکریاں ختم کر دی ہیں۔ان کی جگہ دودھ دینے والے جانور پال لیے ہیں جو دودھ کے ساتھ ساتھ گوشت بھی مہیا کرتے ہیں۔ حکومت نے فارم ہاؤس کو سپلائی کے لیے کوٹہ مقر ر کیا ہوا ہے۔ اگر کسی کو کوٹہ مل جائے تو پھر اس کی چاندی ہے۔ دودھ دوہنے کے لیے جدید مشینیں نصب کر لی ہیں۔ پرانا اصطبل اب جدید طرز کا بنا دیا گیا ہے۔سب کچھ بدل گیا ہے اور بہترین ہوگیا ہے۔ اب جب کبھی میں وہاں جاتی ہوں تو حیران ہو جاتی ہوں کہ وہ کہاں آگئی ہے؟اُس نے خط جاری رکھتے ہوئے کہا تھا کہ کئی سال پہلے اس نے گا ؤں چھوڑ دیا تھا اور شہر آکر کلرکی کر لی تھی۔ اُس نے یہ نہیں بتایا کہ کس دکان، سٹور یا کس مقام پر نوکری کی تھی۔ اُس نے لکھا تھاکہ اس کے رابرٹ اور آڈری کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ اُسے تمہاری ایک دوست نے بتایا کہ تم آج کل بستر سے لگ گئی ہو۔ تمہارے پٹھوں میں تکلیف ہے۔ تمھیں فالج ہو گیا ہے اور تم ٹھیک سے بات نہیں کر سکتی۔ یہ بات طے ہے کہ ڈاکٹر تمہاری بیماری کے علاج کے لیے کوئی نہ کوئی موزوں دوا ڈھونڈ نکالیں گے۔ فلورا نے خط کے آخر میں ماں کی صحت یابی کی دعائیں لکھی ہوئی تھیں۔

اس خط میں میں نے دیکھا کہ اس میں نہ تو مذہب، عقیدہ، سزا وجزاء، گناہو ثواب اور خدا کی مرضی وغیرہ کا کوئی تذکرہ کیا اور نہ ہی یہ لکھا تھا کہ کیا اب بھی وہ گرجا گھر جاتی تھی یا نہیں۔اگر گرجا جاتی تھی تو اس نے کوئی کار وغیرہ بھی لے لی ہوگی۔ وہ صرف گرجا گھر ہی نہیں جاتی ہوگی بلکہ دوسرے مقامات پر خریداری اور سیرو تفریح بھی  کرتی ہوگی۔ تالاب میں نہاتی بھی ہوگی ۔ تیراکی بھی کرتی ہوگی۔ ڈانس پارٹی پر بھی جاتی ہوگی۔ یہ جاننے کی مجھے حسرت ہی رہی کہ کیا وہ اپنے سابقہ عقیدے سے منحرف ہوگئی تھی۔علاوہ ازیں اگر وہ کسی سٹور میں کام کرتی ہے تو اس نے اپنے بال تو کٹوا لیے ہوں گے۔میک اپ بھی کرتی ہوگی، بڑی شائستگی  سے گاہکوں سے بات کرنا پڑتی ہوگی۔ اگر وہ فارمیسی میں ہے تو اسے ڈاکٹروں والا ایپرن اور یونیفارم پہننا پڑتی ہوگی۔ اگر وہ ریستوران میں کام کرتی ہے تو وہاں شراب خوری بھی ہوتی ہوگی۔ اُس نے یہ نہیں لکھا تھا کہ وہ اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی یا گھر میں یا کہ وہ کرائے پر رہ رہی تھی یا کو ئی گھر خریدا تھا۔فارم ہاؤس میں اس نے اپنا حصہ بیچ دیا تھا یا ابھی بھی اس کے پاس تھا۔ہو سکتا ہے اس کی زندگی میں کوئی مرد بھی آیا ہو۔اس نے یہ نہیں لکھا تھا کہ وہ قدیم زمانے میں رہنے والے' کیمرون  فرقے' میں  ہی ہے یا طرزِ زندگی جدید کر لیا ہے۔ 

اس خط کا میری ماں نے کبھی جواب نہ دیا۔ اُس کی جوانی میں سکول والی عمدہ تحریریں اس کے فالج کی وجہ سے ختم ہوگئی تھیں۔ قلم رعشے کی وجہ سے ہل جاتا تھا۔ اگر کوشش کرکے قلم پکڑتی تھی تو اس پر مناسب گرفت نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ ٹوٹے پھوٹے حروف ہی لکھ سکتی تھی اور یہ کاغذ ارد گرد بکھرے ہوئے ملتے تھے۔ اس کے خطوط میں صرف پہلی  سطر کا کچھ حصہ ہی مڑے تڑے الفاظ میں 'میری پیاری دوست'پہلی  ُمناپیاراسابیٹا، میری ننھی سی گڑیا  لکھی تھی،جومیرے خیال میں اب ننھی نہیں رہی ہوگی۔یہ سب خطوط اس سطر میں نے اپنے چاہنے والوں کو لکھے تھے۔ان کو وہ اپنے خراب خط کی وجہ  اس سے آگے نہ لکھ سکی  اور نہ  ہی  ڈاک  رسید کرسکی۔ اس نے ایک جگہ 'میری جوانی کی سہیلی' لکھاتھا۔ یہ خط کس کے لیے لکھا تھاکبھی معلوم نہ ہوسکاکیونکہ یہ تمام دوست اُس کی جوانی کے دوست ہی تھے۔ میں نے کوئی بھی ایسا خط نہ پایا جس پر لکھا ہوا ہو میری قابل ستائش فلورا۔  اُس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ اور بھی لکھا تھا لیکن وہ پڑھا نہیں جا سکتا تھا۔  میں نے اپنی ماں کی بہترین تحریریں پڑھی تھیں اور سراہی تھیں۔ اُس کی بے بسی  نے  ۔ تحریروں میں دم خم نہیں رہا تھا اور اپنی تحریروں میں رنگ نہ بھر سکی تو اس نے بڑے وقار کے ساتھ بیتے  اس نے سب ختم کردیاتھا۔اس کی بجائے اس کے کہ وہ سراب اور خوبصور  لمحات کے پیچھے بھاگتی، اُس نے سب کچھ چھوڑ دیا اور اپنے بچپن کی یادوں کو اپنے سینے سے لگا کر خوش رہنے لگی۔ اُس کی جوانی کی سہیلی فلورا ہو بھی سکتی تھی کیونکہ اس نے اس کے ساتھ اپنا پورا وقت فارم ہاؤس میں گزارا تھا لیکن میں آخر تک یہ نہ جان پائی کہ 'میری جوانی کی سہیلی' کون تھی۔

 

Life history

Alice  Ann Laidlaw  Munro (1931-2013)

Nobel Laureate 2013

حالات ِ  زندگی

 ایلس  این منرو کا پورا نام  ایلس این  لیڈلا  منرو تھا وہ کینیڈا ے ایک قصبے  'ویگھم'جو لندن اونٹوریوکے نزدیک تھا میں 10 جولائی 1931 کو پیدا ہوئی۔اس کے والد کا نام  رابرٹ ایرک لییڈلا  تھا۔ اس کی والدہ  کا نام  کلارک  لیڈلا تھا۔ اس کا والدسمور اور کھالوں کا تاجر تھا۔ اس کے آباؤاجداد سکاٹ لینڈ سے اپر کینیڈا آکر بس گئے تھے۔نپولین  سے جنگوں میں  کچھ توامریکہ چلے گئے تھے اور کچھ وینگھم آباد ہو گئے تھے۔رابرٹ اور کلارک کی شادی 1927 میں ہوئی ۔ ا س نے ہالٹن میں  ابتدائی تعلیم حاصل کی جوایلس منرو کے گھر     وینگھم سے کافی دورتھا، حاصل کی۔  لوئر ٹاؤن سکول دوسری تیسری جماعت 1937 میں  اس نے ہائی سکول وہاں سے کیا۔        پندرہ سال  کی عمر تک کینیڈا کے  شدید ترین  موسموں میں تین میل جانا اور تین میل  آنا پیدل کرتی رہی۔اسےپڑھنے کا شوق تھا۔                                                                                                                                                                                                                            

پندرہ برس کی عمر تک  وہ                       چھپا۔                                                                                چارلس                                                                رڈکماڈ                         اس کی شاعری کا مجموعہ 'آئیلیس    ' اس نے  تعلیم  میں  کچھ سال وقفہ کرلیا۔ اس دوران اس نے لکھناشروع کردیاتھا۔اس وقت شاعری  بھی شروع کردی تھی اور مختصر افسانے چھوٹی عمر سے ہی   لکھنے شروع تھے۔ 1964 میں اس نے پہلاناول 'بوائز اینڈ لکھا۔     1943 میں جب وہ بارہ سال کی تھی تواس کی والدہ  بھولنے کے عارضے میں۔ س کی  والدہ  کی بیماری کو پارکنسن کی بیماری کہا گیا۔

                 مہنگائی، بے روز گاری، غربت  اور بیماریوں کی وجہ سے         لوگوں  کی قوتِ خرید جاتی رہی اور وہ دیوالیہ ہوگیا۔اس  لئے اس کے والد کا کاروبار ٹھپ ہوگیا اور دیوالیہ ہوگیا۔وہ اپنی والدہ  کی دیکھ بھال کرنے لگی۔اس کے والد نے  فارم ہاؤس بیچ دیااورایک فاؤنڈری میں نوکری کرلی۔یہ دونوں چیزیں اس کے لئے تکلیف دہ تھیں

               ۔جب وہ بالغ ہوئی تو ی والدہ کی دیکھ بھال کرسکتی تھی لیکن اس کی والدہ کی بیماری میں اضافہ  ہوگیا  ہوتاچلاگیااور وہ  باقی کاموں کے سا  گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کرنے امور خانہ  داری کی وجہ سے اس کے پاس  لکھنے کے لئے  وقت نہ بچتا۔

اس کے ہائی سکول کا دورانیہ 1949۔۔۔۔۔۔   1944معمول کے مطابق تھا۔اساتذہ اسے  ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے مجبور نہ کرتے کیونکہ وہ اس  کے گھر کی  افتادسمجھتے تھے اس لئے اسے سکول  میں  اہم ہم نصابی سرگرمیوں  میں حصہ لینے کے لئے مجبور نہ کیاجاتا۔اس کے باوجود اس نے بہترین تعلیمی کارکردگی دکھائی۔ افتاد   ایک   یونیورسٹی ویسٹرن یونیورسٹی سے وہ انٹاریو لندن میں  دوسال کا وظیفہ مل گیا۔اس نے بہترین کارکردگی دکھائی۔  اسے صحافت میں     وہ پہلے نمبرپر آئی  ۔1950 میں اس نے پہلا افسانہ      لکھنے لگی اور'ڈائیمنشن آف  اے  شیڈو ' لکھا اور  اول انعام حاصل کیا۔اس کے بعد اس نے مسلسل تین کہانیاں لکھیں۔اب اس نے یہ عادت بنالی کہ آدھاوقت تعلیمی  اور آدھا وقت لکھنے میں صرف کرنے لگی۔    میں آدھاوقت  نصاب  لکھنے میں صرف کرتی۔اس عرصے میں   جیرالڈ اچھاادیب تھا مل کرے دوستی ہوگئی۔ اس وقت  بات اس سے آگے نہ جاسکی کیونکہ اس کا معاشقہ 'این لینڈ لا' سے چل پڑا۔  سے                                                                وہ  اس سے دوسال بڑاتھا اور اس میں ادب شناسی اور حس جمالیات  بہت  زیادہ تھی۔وہ رومانی تھااور ان دونوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی شادی بڑی سادگی سے  ایلس  این لینڈ لا'کے گھر وینگھم ' میں  1951 ہوئی جس میں اس کے والدین ، بھائی بہنوں اور دو قریبی مشترکہ دوستوں کے سامنے ہوئی اور وہ ایلس منرو بن گئی۔۔ اس وقت جم کو وینکوور میں ایک کمپنی میں نوکری مل گئی تھی اس لئے شادی کے بعداسی رات وہ بذیعہ ٹرین وینکوور روانہ ہوگئے۔اس وقت ایلس کی عمر 20سال اور اس کے خاوند جیمز منروکی عمر 22سال تھا۔شادی کے ایک سال بعد جم نے اسے ایک ٹائپ رائٹر تحفے میں دیاجس نے ایلس   منرو کے کام کاتعین کردیا۔اس کا خاوند اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتاتھا اس لئےاس کے سسرال کارہن سہن ایلس کےغریب خاندان سے مختلف تھا۔وہ ایلس کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن ایلس نے اپنی دلچسپیوں کو جاری رکھااور جم اس کاساتھ دیتارہا۔

 ڈاؤن ٹاؤن چلاجاتا ۔  میاں نوکری پرچلاجاتااور وہ گھر سنبھالتی۔ اس دور کے شمالی امریکی خاندان والی تھی۔ جم سوٹ بوٹ پہن کر   کچھ نہ کچھ پڑھتی رہتی  اور اگر وقت ملتا۔ان  پہلی بیٹی شیلا 1953 میں پیداہوئی ۔دوسری بیٹی کیتھرین 1955 میں ہوئی جو گردے فیل ہونے کی وجہ سےاسی روز فوت ہو گئی اور تیسری   بیٹی جینی  ایلی سن 1957 میں    پیداہوئی۔  اس کی زندگی  میں بیگانگی طاری ہونے لگی ۔بچیوں  کی پرورش اور گھریلو ذمہ داریوں میں بہت زیادہ اضافے کے باوجود  وہ  اجنبیت کاشکارہونے لگی لیکن اس کے ب ٹی وہ پروڈیوسر  یوڈوراویلٹی سے ہوگئی  جو   'داگولڈن ایپل' پڑھاتواس نے فیصلہ کیاکہ وہ ٹی وی پر باقاعدہ کام کرے گی۔                           اس دوران اس کی ملاقات کینیڈین میں  براڈ کاسٹنگ (سی۔ بی۔ سی  ریڈیواور  ٹی۔وی پر افسانے پیش کرتاتھا ۔اس سے معاہدہ ہوگیااور اس نے اس کی چودہ کہانیاں چلائیں۔1940 اور 1980 کے درمیان اس کا میاں ایک پبلشنگ کمپنی میں   ایک ادبی جریدے 'ٹمارک   ریو یو' کے لئے لکھا۔اس دوران جیمز منرو نے کوشش کی کہ اسے اپنی کمپنی کے شعبہ اشاعت میں  میں  کام کرتا رہا۔  اس نے اپنی  کمپنی کو درخواست  دی  کہ اسے  اشاعت کے شعبہ  میں ٹرانسفر کر دیاجائے لیکن کمپنی نہ مانی تو اس نے وہ نوکری چھوڑ دی اور وہ وکٹوریا شہر چلے گئے۔وہاں انہوں نے اپنا بک سنٹر کھول ۔ان دنوں  ایسے سنٹر بہت کم ہوتے تھے  ادب میں  ہونے لگی تھی۔ انہوں نے ایک ادبی سنٹر کھولا۔ کی مشہوری ہوناشروع ہو گئی تھی۔1963 سے 1966 تک میاں بیوی نے وہاں کام کیا۔وہ ایلس کی  ادبی  زندگی کے حسین ترین سال تھے۔1966 میں اس کو چوتھی بیٹی ہوئی جس کانام اینڈریا رکھا گیا۔اس کے بعد اس کی زندگی جمود کاشکار ہوگئی۔

1967 میں ایلس منرو کی پہلی کتاب شائع ہوئی۔اس کے بعد اس کی کتب باقاعدگی سے آنے لگیں ۔اب تمام  معیاری اشاعتی ادارے چھاپنے کے لئے تیار تھے۔1970 میں اس کی عائلی زندگی مشکلات کا شکارہوگئی  تو میاں بیوی نے اپنی شادی ختم کرلی۔1973 میں ایلس  بیس سال برٹش کولمبیا میں گزارنے کے بعد وہ صوبہ چھوڑ دیا اور پھر سے انٹاریو آکر لندن  کی ویسٹرن یونیورسٹی اور ٹورنٹو کی یارک یونیورسٹی  میں تخلیقی ادب پڑھانے لگی۔وہ اپنے آبائی گھر وینگھم کے نزدیک تھی اور اپنے والد سے ملنے جایاکرتی تھی۔اس کے والد نے ایلس کی والدہ کے مرنے کے بعد شادی کرلی  تھی۔اس نے اب سنجیدگی سے اپنے افسانوں اور ناولوں کوچھپوانے کاارادہ کیا اور مندرجہ ذیل تصانیف کیں۔

  وغیرہ ترتیب دیں۔The Progress of Love ( 1986) ; Who Do You Think  You Are ( 1980); The Ottawa  Valley ( 1974);  ; Writer Wind( 1974); Something I’ve Been Meaning to Tell You      (1974)            

اس کی شہرت میں روز بروز اٖضاافہ ہوتا چلاگیا۔وہ   سے    بی۔سی  میں  انٹرویو نشر کیاتو بہت سے مشہور اشاعتی اداروں نے ا س سے رابطہ کیا  تو  اس اس کا بی۔ ہنر ی بوائل نے ا   کا انٹرویو ُسن کر اس  سے  فوجی دوست جو 1950 میں ویسٹرن یونیورسٹی لندن میں اس کے ساتھ تھا ، ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گھر' ہیوران کاؤنٹی 'میں جییرالڈ فرینکلن  اس سے آکر ملا۔ ایک ماہ بعد ان کی پرانی دوستی جاگ اٹھی اور انہوں نے شادی کر لی۔

وہ  اکتوبر 2013 میں  اسے نوبل انعام سے نوازا گیا اور ایک ماہ بعد 10 نومبر 2013  کو وہ فوت ہوگئی۔

 

  

 

 











 

Popular posts from this blog