جب نمبرلگتے ہیں When Numbers Are Up By Peter James



 



جب  نمبر لگتے ہیں 

When Your Numbers Up

By

Peter James

مترجم :  غلام  محی  الدین

  ریکی والٹر تھا  لاٹری باز تھا۔وہ ہر ہفتے  اس امید پر بیس  پاؤنڈ سٹرلنگ  ملک کی سب سے بڑی لاٹری پرلگاتا  کہ ایک نہ  ایک دن ا اس کاپہلانمبر نکلے گا۔ جس  کاانعام کم ازکم  پانچ   کروڑ پاؤنڈ سترلنگ ہوگا۔اس کی بیوی گیل  اس کی اس عادت  پر زچ  تھی۔ریکی نےایک  روز  بڑے  سنسنی خیز انداز میں   بتایا  کہ اسے خواب میں بشارت ہوئی ہےکہ اگر و ہ ہوش مندی  سے  لاٹری کھیلے توقرعہ اس کے نام نکلے گااور سالوں  پہلےایک   اللد لوک  جسے مداح  مادام '          زوزو'  کے نام سے پکارتے تھے ،نے  بھی پیشین گوئی کی تھی کہ  اس کی قسمت میں وہ نمبر لکھا ہے جواسے قومی لاٹری جتوائے  گا۔اس  خواب نے اس  کی ہمت بڑھادی تھی۔اس نے  اپنی بیوی کو رازدارانہ طریقے سے پتایا کہ اب وہ   اس  پراجیکٹ پرسنجیدگی سے کام کرے گا اورحساب دانی  کے امکانی  عدد نکلنے کے فارمولوں کی مدد سے  لاٹری کا اول انعام  جیتنے والے عدد  تک رسائی حاصل کر لے گا۔        

وہ  ایک کمپیوٹر انجینئر تھا۔ اچھا ریاضی دان بھی تھا،اسے  مشکل ترین  امکانی کلیات  کے طریقوں پر عبور حاصل تھا۔اس نے شب و روز کی محنت سے ایک ایسا نظام تخلیق کیا جس کی مدد سے وہ لاکھوں کروڑوں کے   اعداد سے  مطلوبہ  نمبر نکال سکتاتھا۔  اس کی کاوشیں پوری طرح  کامیاب تو  نہیں ہوئی تھیں لیکن وہ ایک وہ بڑی لاٹری جیتنے کے حتمی عدد نکالنے پر  قریباًقریباً پہنچ چکاتھا۔اس کامانناتھاکہ تم اپنی قسمت خود بناتے ہو۔اس کی بیوی گیل یہ بات سن کر اس کامذاق اڑاتی تھی اور کہتی تھی کہ خواہ مخواہ اپنی توانائی اور            رقم بیکار میں اڑارہا تھا۔ریکی اس کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا تھا ۔ اس کے برعکس ریکی   کو مکمل اعتماد تھاکہ وہ    جیتنے والے نمبرتک پہنچ جائےگا۔ وہ اپنے پراجیکٹ پر  گرم جوشی سے کام کرنےلگا۔آج  لاٹری کا نمبر نکلنا تھا ۔۔۔ہاں۔۔۔ یقیناً۔۔۔    وہ  اب کی قومی لاٹری جیتنےجارہاتھا۔اےقوی امید تھی اس لئے اس نے تازہ ترین مصنوعات اور رجحان جاننے کےکئے مقبول جرائد حاصل کرلئے تھے اور ان کا ایک ایک لفظ پڑھ کر  جرائد کے صفھات پھاڑ کر اپنے مطلب کی باتیں  ذہن نشین کرلی تھیں   ۔اس نے یہ تفصیل   اپنے تک   محدود رکھی تھی۔ اس نے اپنے  جذبات مکمل طورپر اپنے کنٹرول میں رکھے تھے۔اپنے خیالات کا کسی کو پتہ نہیں لگنے دیا۔

 اس کی چالیسویں سالگرہ تھی  اور اسی شب  قومی  لاٹری کی قرعہ اندازی ہوناتھا۔ اس  کا پکاخیال  تھا کہ  جیتنے والی  ٹکٹ  کا نمبر اس کا متوقع نمبر ہی ہوگا۔لاٹری  ٹکٹ کا عدد اس کی مرتب کردہ  حسابی  نظام کے مطابق    ہی نکلے گا۔وہ اپنی بیگم کے ساتھ اپنے پسندیدہ  ریستوران میں بیٹھا تھا۔وہ اس ریستوران میں  اکثر جا کر  ہوائی قلعے تعمیر کیاکرتاتھاکہ لاٹری جیتنے کےبعد وہ رقم کہاں کہاں خرچ کرے گا۔ کون سی اشیاخریدےگااور کس جگہ سرمایہ کاری  کرے گا جہاں اسے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔اس نے اپنے ذہن میں سوچا کہ  جیتنے کےبعداس نے ایک بادبان  والی چھوٹی کشتی خصوصی آرڈر پر بنوانا۔تھی جس کی چھت  بٹن  دبانے پر کھل یا بند ہو جائے تاکہ  اپنی  خواہش کے مطابق  سورج کی کرنیں  لائے اور دھوپ سینکے یا آندھی، برفباری ،بارش گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے چھت بند کردے ۔ تجارت کے لئے ایک بحری بیڑہ اور گیل کے لئے سب سے مہنگی مرسیڈیز کار خریدے۔اپنے لئے  ہوائی  جہاز  بھی اس کی فہرست میں تھا۔دنیاکی  سب سے قیمتی گھڑی خریدنے کی  بھی آرزوبھی  رکھتاتھا۔اس کی  خواہشات کی فہرست  میں ایک نیاگھر خریدنے کاارادہ بھی تھا لیکن  وہ فہرست میں گھر آخری نمبرپرتھا۔۔۔لیکن یہ الگ داستان تھی۔

ریکی ایک کمپیوٹر سسٹم منیجرتھاجو تجارتی  اور وسیع سطح پرصنعتی  مشینری میں مزید بہتری لانااور اور اس کی دیکھ بھال کرنے کے مشورے دیناتھا۔اس کےپیشہ ورانہ کام میں الجبرااورریاضی کااستعمال  زیادہ تھا۔اپنے اس علم اور تجربے کو اس نے اپنے اس مقصد میں لاگوکیا جس سے اسے پہلے انعام کے عدد کا پتہ چلناتھا۔اور اپنے بنائے گئے نظام  کی رائے کے مطابق  لاٹری کا انعام یافتہ ٹکٹ چھ ہندسوں کے مخصوص اعداد پر نکلنا تھا،اس نےاپنے حساب سے معلوم کردہ  معلومات  کے مطابق  لاٹری کے اس نمبر کی ٹکٹ خرید لی جو اس کے نظام کا تجویز کرہ تھا۔اس نے اپنے من دھن سے اس پراجیکٹ پر کل وقتی کام شروع کردیاتھا  کیونکہ جس   کمپنی میں وہ نوکری کرتاتھا دیوالیہ ہوگئی تھی اور وہ بیروز گار ہوگیاتھا۔جمع شدہ پونچی  اس نے اپنے پراجیکٹ پر لگادی۔ ابھی تک اسےنئی نوکری نہیں ملی تھی۔اس لئے اس نےاب پوری توجہ اپنے پراجیکٹ پرلگادی تھی۔اس کی بیوی گیل  رئیل سٹیٹ   کمپنی میں  اکاؤنٹنٹ تھی جس کی تنخواہ سے  پورانہیں پڑتاتھا'۔اقتصادی بدحالی کا خطرہ سرپرمنڈلارہاتھا اور کساد بازاری سےشدید خدشہ تھاکہ  افراط زر روز بروز بڑھے گاجس سےگیل  کی نوکری بھی  جاتی رہے گی ۔لیکن ریکی والٹر کو اس کی پرواہ نہیں تھی  کیونکہ اس کا کا خیال تھا کہ  ان پر اقتصادی بدحالی کاکوئی اثر نہیں ہوگا۔۔۔اسے بھروسہ تھا  اس باراسی کی لاڑی نکلنےوالی تھی لیکن اپنی اس رائے کواس نے سب سے پوشیدہ رکھا۔

تم اپنی قسمت خود ہی بناؤگی۔   گبرایا نہ کرو۔ریکی  کہاکرتاتھا۔اس نے  گیل کویہ بات پہلےمعاشقے کی ملاقات پرہی بتادی تھی جس  پرپہلے پہل وہ یقین کرلیاکرتی تھی  کہ ان کےپاس چھٹی صدی کےلیڈیاکےبادشاہ سے بھی زیادہ میں دولت آئے گی۔پچھلے سال سے ریکی اسےمسلسل تشفی دیتارہتاتھا کہ وہ  تخلیق کار ہے اور اایک پراجیکٹ پر کام کررہاہے جو انہیں  امیر بنادے گا۔اپنی  تخلیق   میں جو میکانزم استعمال کررہاتھااس  میں وہ  فیثاغورث،لوئیتھر کے کلیات اور کالین ۔سیمانزک کے مساواتی  فارمولوں  کی مددسے اپناعددی نظام بنا رہاتھا۔جس سے قبل از وقت  لاٹری کاجیتنے والاعدمعلوم ہو جاناتھا ۔گیل چونکہ جائیداد کی خرید و فروخت سے منسلک تھی اس لئے اس کاذہن بھی اپنے میاں کی طرح اعدادوشمار میں الجھارہتاتھا۔اسے معلوم تھاکہ اس کامیاں اب  جو کام کررہاتھا اس سے ان کے مالی حالات  بہتر ہوجائیں گے اور اپنی پسندیدہ اشیا خریدنے کاسوچتی ۔وہ بھی اپنی فہرست بناتی رہتی تھی  تاہم اسےریکی کے دعووں پر اعتبار نہ  تھا۔ ریکی  اسے دلاسہ دیتارہتاتھا کہ وہ  بہت جلد امیرترین لوگوں میں شامل ہونے والے تھے۔اس کانظام روزبروز مستحکم  ہورہاتھااور اسے امیدواثق تھی کہ  کامیابی اس کےقریب آتی جارہی تھی۔،اسے مادام زوزو 'نے بتایاتھاکہ اگر اس کی لاٹری اس  کی چالیس سال کی  عمر تک نہ نکلی تووہ عمر بھر نہیں نکلے گی۔۔۔اورآج یہ وہ دن تھا۔وہ اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دیکھ رہاتھا۔

ریکی  کی شادی کوآٹھ سال ہوگئے تھے۔وہ ریکی کے نظام بنانے کےمدد کے ہرہفتے  بیس  پونڈ  کی لاٹری کی ٹکٹیں خریدتی تھی لیکن اس تمام عرصے میں اس کا صرف پچاس ڈالرکاہی انعام نکلا۔اس نے اپنے طوریہ حساب لگایاکہ اگروہ ان پیسوں سےلاٹری خریدنے کی بجائے بینک میں  ڈال دیتی تو وہ آٹھ ہزار پونڈ جمع کرلیتی۔اگروہ اسے سودپردیتی تواور بھی آمدنی ہو سکتی تھی۔جس سے وہ ڈش واشر خرید سکتی تھی جواب  تک  نہیں خرید سکی کیونکہ اس میں خریدنے کی استطاعت نہیں تھی۔ اس کےعلاوہ  وہ   یہ رقم سیروتفریح پر بھی خرچ کرسکتے تھےج وانہوں  نے  کئی سالوں سے نہیں کی تھی۔اس سے وہ  اپنی کارکاماڈل بھی بدل سکتی تھی جوخراب حالت میں تھی۔سب سے اہم شئے یہ تھی ،اس کےذہن میں کہ وہ رقم اس کے کینسر کےعلاج میں استعمال ہوسکتی تھی جس کی ابھی ابتداتھا۔۔اسے رقم ضائع ہو جانے کا افسوس ہورہاتھا۔

آہ۔لیکن ابھی انتظار کرو!وہ جواب دیاکرتاتھا۔۔۔جلد،بہت جلد۔میں جانتاہوں۔تمہیں بتادوں کہ میں لاٹری  نمبرکے اعداد وشمارپر کام کررہاہوں اور اس کے تمام اعدادوشمارنزدیک سےنزدیک آرہےہیں۔

میں ایک عرصے سے اس کاانتظارکررہی ہوں۔آخر کب تک انتظار کرناپڑے گا؟ گیل نے سوال کیا۔

ہم اب کنارے پرپہنچ چکے ہیں۔یہ معجزہ جلدہی  رونما ہونےوالاہے۔

اچھا۔گیل نے طنزیہ کےانداز میں کہا۔خواب دیکھتے رہو۔

ہاں۔میں ایساہی کروں گا۔ریکی نے  ضدمیں  کہا۔

گیل نے فیصلہ کیاکہ اپنی مخدوش اقتصادی حالت کی وجہ سے  ریکی کی چالیسویں سالگرہ  بڑی سادگی سے  منائی جائےاور  اس پراٹھنےوالاخرچہ بچایاجاسکے۔اس لئے گیل نے  ریکی  کی  سالگرہ پر ایک درجن ایسے  دوست  ہی بلائے  جنہوں نے   دعوت پر اٹھنے والا  خرچہ خودہی  برداشت کرنے کی حامی بھری۔ریکی طبعاً ایک            خرچیلا شخص تھا۔اسے اپنی بیوی کی یہ بات پسندنہ آئی۔وہ اس کی اس بات  سے خوش نہیں تھالیکن ً ہچکچاتے ہوئے گیل کا فیصلہ قبول کیا۔سب دوست فیزنٹ ریستوران مقرہ وقت پر پہنچ گئے۔ایک گھنٹہ  ہنسی مذاق ،گپ شپ اور کھانےپینے میں گزرگئے۔وہ ہلکی پھلکی گفتگوکرتے رہے۔سب اس محفل سے پوری طرح لطف اندوز ہورہے تھے ۔ ریکی جوں جوں جام چڑھاتا اس کے احساسات  شدیدہوتے جاتے تھے۔میزوں پرپڑے کھانےاور مشروبات کی ترتیب الٹ پلٹ ہوگئی تھی۔وہ ریستوران کےایک کونے میں براجمان تھے تاکہ  ریستوران میں بیٹھے لوگوں کا کم سے کم  سامناکرناپڑےاور دوسروں کی شام خراب نہ ہو۔

 ریکی کوکچھ یاد آیااوراس نے اپنی گھڑی پروقت دیکھا۔اس وقت نوبج چکے تھے اور لاٹری کے نتیجے کااعلان ہونےوالا تھا۔اس نےایک ویٹر کواشارے سے اپنے پاس بلایا تو  وہ اس کے پاس آگیا۔اور 'سر' کہا۔۔۔۔اس کی آواز اس کی خوبصورتی کی طرح  مست تھی ۔ریکی نےاس سے ہلکی آواز میں کچھ کہا تاکہ اہل محفل اپنی گفتگو درمیان میں چھوڑکر اس کی طرف  متوجہ نہ ہوجائیں۔گیل نے ریکی کےکان میں کہاکہ کاناپھوسی چھوڑو اور اپنی سالگرہ سے لطف اندوز ہو۔

محفل میں سےایک دوست  جوبھاری بھرکم تھااور ایک انجیئنرنگ کمپنی میں ملازم تھا ،بولا۔۔۔ہے ، ،  ہےہے ریکی!تم آج چالیس سال کےہوگئے ہواور تمہاری کیا سرگرمیاں ہیں ۔یا تمہارے سر پرمینڈک بیٹھاہےتمہارا اس وقت کیامسئلہ ہےجو پراسرار طریقے سے باتیں کررہے ہو؟کیاکوئی خاص بات ہے جوتم ہم سے چھپارہےہو؟

ایساکچھ نہیں ۔ریکی نےکہا۔میں کچھ نہیں جانتا۔اس نے سرکھجاتے ہوئےکہا۔

محفل میں شریک مہمانوں نے اس کی اس بےساختہ حرکت پر ایک  پرشگاف قہقہہ لگایا تو ریکی کھسیانی ہنسی ہنس دیا۔ اس دوران ریستوران کامنیجر جو خوش لباس  تھا ، بڑے مؤدب طریقے سے ریکی کےپاس آیا  اور   ہلکی آواز نیں  کچھ کہا۔اس کے جواب میں ریکی نے کچھ کہا تو منیجر  واپس چلاگیا۔

ایسی کیاکھچڑی پک رہی ہے  جو تم ہم سے چھپا رہے ہو ۔ ایک شخص  نے کہا۔کیاتم ہمارے خلاف کوئی منصوبہ تونہیں بنارہے؟

یہ سمن کر  میزپربیٹھے تمام لوگوں نےایک زبردست قہقہہ لگایا۔ریکی  اس پر کھسیانی  ہنسی  ہنسا۔اس کےبعد ریستوران کامالک جوڈیزائنر لباس میں  ملبوس تھا ،آگیا۔وہ پچاس سال سے زیادہ کاتھا۔اس نے ایک اطالوی خوش اخلاق شخص کی طرح مسکراتے ہوئےکہا۔'او کے'۔آج کے لاٹری  کا نتیجہ کون جانناچاہتاہے؟

ریکی نے اپناہاتھ اٹھایا۔

مالک نے جیتنے والا ٹکٹ نمبر پڑھا

1،23،34،40،41،48

ریکی کاتیور چڑھ گیا۔کیاتم اسے دہراسکتے ہو ؟ اس نے کہا۔

1،23،34،40،41،48منیجر نے نمبردہرایا۔

کیا تمہیں یقین ہے؟ غلط تونہیں پڑھ رہے؟ریکی نے پوچھا۔

میں صحیح ہوں۔اگر تم چاہو تو میں دوبارہ جاکر چیک کرتاہوں۔یہ کہہ کروہ چلاگیا۔

براہ مہربانی کرکےایسا کرو۔ریکی نےکہا۔

گیل نےاپنے ماں  کی طرف غورسےدیکھالیکن ریکی نے اس ے نظرانداز کردیا۔اندر سے وہ خوشی سے کانپ رہاتھا لیکن وہ  دوسروں سے چھپانا چاہتاتھا ۔ یہ  اس کی لاٹری  کی ٹکٹ  کانمبرتھا۔۔۔اس نے اپنےگلاس کوالٹادیاجس کا مطلب تھاکہ وہ ایک اور گلاس شراب پیناچاہتاتھا۔کانپتے ہاتھوں سےاس نے بوتل اٹھائی اور اس کوشراب سے بھردیا۔اس نے لب سی لئےتھے'۔اس کاچہرہ بے سپاٹ تھا۔مہمانوں میں سے کوئی  بھی اس کی کیفیت نوٹ نہیں کررہاتھا ماسوائے اس کی بیوی  گیل کے جو  اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہی تھی۔وہ اس  کا ناقدانہ جاعزہ لے رہی تھی  اور اس کی ایک ایک حرکت بڑے غور سے دیکھ رہی تھی الیکن اس  نےکچھ نہ کہا۔

اچانک ریستوران کامالک ریکی کےسرپر  کھڑا ہوگیا۔اس پر جھک کر پیڈ سے پھاڑی ہوئی ایک پرچی اسے تھمادی جس پر لاٹری کےسب سےبڑے انعام  کا ٹکٹ  نمبر لکھاتھا۔اور ریکی  والٹر  سے کہامسٹر والٹر!میں نےاچھی طرح چیک کیاہےاور یہ نمبرہی جیتاہے۔اس کے علاوہ میں نے لاٹری کے دفتر فون کرکے بھی پتہ کیا ہے ، میں وثوق  سے کہہ سکوں کہ یہ نمبر جیتاہے۔مالک نے آہستہ سے ریکی کوبتایا۔

' شکریہ'ہ ک ریکی  نے کہا اورنمبروں کو بڑی احتیاط سےپڑھا۔پرچی تہہ کرکے اپنی جیب میں ڈال  دی ۔وہ گیل کی ٹکٹکی بھری نظروں کودیکھ رہاتھااور اس کی طرف دیکھنے سے گریزکررہاتھا۔اس نے  شراب کا نیاجام ایک ہی گھونٹ میں ختم کردیا۔وہ کانپ رہاتھا۔وہ بمشکل خود پر قابو پارہاتھا اور  ریستوران میں مزید ایک پل بھی نہیں رکناچاہتاتھالیکن اس نےپروگرام کے مطابق    عمل کرناتھا  اس لئے  اس  نے تحمل  کامظاہرہ کیااور معمول کے مطابق خوراک کی مین ڈش لی۔ایک موٹی سی ہڈی ،جوعام طورپراس کی پسندیدہ ترین خوراک ہوتی تھی لیکن آج اس کی بھو ک مٹ گئی تھی ۔نہ چاہنے کے  باوجود  اپنے دوستوں کاساتھ دیناپڑ  رہا تھا۔گیل  آج نہ جانے کیوں اسے  عجیب نظروں سےدیکھ رہی تھ۔ بغیر کچھ کہے  اسے مسلسل  گھورے جارہی تھی  جوریکی کو اچھانہ لگ رہاتھا۔۔شائد اس نے حقیقت بھانپ لی ہو،اس نے سوچا۔۔۔اوروہ پارٹی کے موڈ میں نہیں تھا؟

کھانے کے بعد ایک بڑاسا برتھ ڈے کیک لایاگیا۔ہرایک نے' سالگرہ مبارک ہو'گاناشروع کردیا۔ریستوران میں موجود لوگ بھی اس میں شامل ہوگئے۔

پھرریکی کوکہاگیاکہ وہ اپنی سالگرہ کی خوشی میں اپنے جذبات کا اظہار کرے ۔اس نے اپنی جیب سے وہ   پرچی نکالی جو  اس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر اپنی جیب میں رکھی ہوئی تھی ۔ اسے اس  میں دلچسپی  نہیں رہی تھی ۔ بلکہ اس پرچی میں دلچسپی تھی جو ریستوران کے منیجر نے اسے تھمائی تھی جودوسری جیب میں تھی اس نے وہ نہ نکالی  بلکہ ڈوبتے لہجے میں  مختصر  تقریر میں تمام احباب کاشکریہ اداکیا۔

ہرایک نےقہقہہ لگایااور سراہا۔گیل کےعلاوہ سب نےتالیاں بجائیں جومکمل خاموشی میں اسے دیکھ رہی تھی۔وہ اس پرجھکی اور پوچھا۔'کیاتم صحیح توہو؟'

'اس سےزیادہ ٹھیک کبھی نہ تھا۔'ریکی نے نہائت سنجیدگی سے کہا۔مہمانوں کو حیرت تو اس وقت ہوئی جب اس نے غیر متوقع اعلان کیاکہ ریستوران کے تمام گاہکوں کی دعوت اس کی طرف سے ہے۔

گیل یہ سن کر  پریشان  ہوگئی۔اسے علم تھاکہ وہ  دیوالیہ پن کی حد میں تھے  اس لئے وہ اپنا ہاتھ ہلاہلاکر کہنے لگی کہ وہ اپنے آپ میں نہیں لگ رہا۔وہ  یہ پیشکش نشے میں  کر رہاتھا۔اسے بالکل بھی سنجیدہ نہ لیاجائے۔۔۔ اس  نے منع کردیا۔

آدھی رات کےبعد انہوں نے ٹیکسی پکڑی ۔ریکی تمام رستے اونگھتارہا۔وہ اپنے گھر اترے تو وہ سیدھاغسل خانےچلاگیااور اپنے پیچھےدروازہ بندکرلیاااوروہ پرچی جوریستوران کےمنیجر نےاسے دی تھی،پڑھنےلگا۔اس پرجیتنے والی قومی لاٹری ٹکٹ کانمبرتھا۔اس کےنمبر۔۔۔اس کے نمبر۔۔۔وہ بار بار پڑھتارہااور خوشی سے  اچھلا۔اوہ۔واؤ۔۔۔کیابات ہے۔کہا

اس نےان اعداد کوایک بار پھرغور سے پڑھااور اس نےمکمل طورپر یقین دہانی کرلی کہ وہ غلطی پرنہیں تھا۔وہ ان نمبروں کواچھی طرح رٹ چکاتھا۔یہ دونمبرتھاجو کمپیوٹر کے کلیات نےحساب  کرکے بتایاتھا۔مادام زوزو کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی تھی۔ اس کے خواب کی تعبیر نکل آئی  تھی۔اگر آج وہ انعام نہ نکلتاتووہ کبھی بھی کوئی انعام نہیں جیت سکتاتھا۔اورا س نے ناممکن کو ممکن کردکھایاتھا۔۔۔ وہ غسل خانے سےباہر آگیا۔

گیل نے اس کی طرف ہنستے ہوئےمعنی خیز نظروں سےدیکھااورکہا 'یہ سب کیاہورہاہے؟تم اپنی برتھ ڈے پارٹی میں تمام ترخاموش رہےکیا تمہیں وہ امحفل اچھی نہیں لگی؟مجھے بہت لطف آیاتھا'

' میرے اس اعلان پر کہ ریستوران میں آج  پارٹی  میری طرف سے ہے  کو منع کرکے تم نے میرا  تمام  مزاکرکراکردیا'۔ریکی نےکہا۔'ایک چھوٹی سی رقم پرتم نے مجھے بے عزت کرکے رکھ دیا۔'

'تم نشے میں دھت تھے ڈارلنگ۔سب شرکا  خوشی سےاپنے کھانے کےپیسے خود اداکررہے تھے توتمہیں ایساکرنے کی ضرورت نہیں تھی ؟'گیل نےکہا۔

'نہیں  !اب مجھے تمہیں کچھ بتاناہے۔میں نےلاٹری جیت لی ہے!میرانمبرآ گیاہے۔۔۔ تم نےمیری بات پرکبھی اعتبار نہیں کیاتھاجب میں نے کہاتھا کہ میں جیت سکتاہوں،میں ایک طویل عرصے سے اس دن کاانتظار کررہاتھا۔اب آخرکار میں اس قابل ہوگیاہوں کہ تمہیں طلاق دےسکوں۔تمہیں فکرمند ہونےکی ضرورت نہیں۔میں تمہیں ردی کی ٹوکری کی طرح استعمال نہیں کروں گا۔میں نےاس معاملے پرسنجیدگی سےسوچ رکھاہے۔طویل ۔۔۔طویل۔۔۔طویل عرصے تک سوچاہے۔میں تمہارے ساتھ مزید نہیں رہناچاہتا، میں اب ہرلحاظ سےاس قابل ہوگیاہوں کہ تمہیں طلاق دے سکوں۔میں نےبڑی احتیاط سے حساب کتاب کرلیاہے۔میں اس بات کاپورادھیان رکھوں گاکہ تمہیں روپےپیسے کی کمی نہ ہو۔'ریکی نے کہا۔

'تمہاری بڑی مہربانی۔ 'گیل نے تلخی سے  نشے والے لہجے میں کہا۔

'میں تمہاری شکل مزیدایک دن بھی برداشت نہیں کرسکتا۔تم اپناسامان پیک کرواور فوراًنکل جاؤ۔' ریکی نے کہا۔'میں مناسب مالی تلافی کردوں گا۔'

'تم جانتےہوکہ دوسرے کوکیسے خوش رکھاجاسکتاہے۔ یہ بات تویقینی ہے'  گیل نے کہا اورہ اس سے آگے سے نکل کر واش بیسن کی طرف گئی اوراپنامیک اپ اتارنے لگی۔

'تم نے ہمیشہ میرے کمپیوٹر پروگرام پر طنز ہی کیاتھا۔تم نے مجھے کہاتھاکہ میں کبھی بھی لاٹری نہیں جیت سکتا۔تواب  کیاکہتی ہو؟'

'میں بالکل صحیح تھی۔' گیل  نے مسکارا اتارتے ہوئے کہا۔'میں نےکہاتھاکہ تم کبھی بھی لاٹری نہیں جیت سکتے۔میں نےسوچاتھاکہ میں نےتمہاری چالیسویں سالگرہ پر تم سے ہنسی مذاق کروں گی ۔میں نے اپنے من میں ایک کھیل  کھیلنے کاپروگرام بنایاتھا۔میں نے ریستوران  والوں کواس کھیل میں شامل کرلیاتھا۔کہ وہ  تمہیں  چھ اعدادکے  وہ ہندسےجوتمہاری لاٹری کے ٹکٹ پرتھے۔انہیں  لکھ کردئیے تھے۔ قومی بڑی لاٹری جینے والی ٹکٹ کااصل نمبرکیاہےوہ میرے پاس ہیں۔میری تجویز ہے کہ تم اپنے نظام کونوچ ڈالو۔تمہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔' گیل نے یہ کہہ کراس کے سر پر پہاڑ پھوڑ دیا۔

ریکی اس کی بات سن کرسکتے میں آگیا۔،،،ہوش آنے پر اس نے تصدیق کی تووہ سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


Life history

Peter James

Uk

1948……….

پیٹر جیمز 22 اگست 1948 کو سسکس  شہر میں برائٹن  برطانیہ میں پیداہوا۔اس نے چارٹر ہاؤس  میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد راونس  بورن  میں فلم سکول میں گریجوایشن کی ۔اس کےوالد کانام  جیک  جیمز اور والدہ کانام کارنیلا کاٹز تھا۔ اس نے دوشادیاں کیں جارجیا             ویلکن   سے 19 سال شادی رہی،پھر اس نے 2015 میں  لارا جیمز سے شادی کی۔وہ 1970 میں شمالی امریکہ آیااور بہت عرصہ یہاں گزارا۔ امریکہ میں اس اپنی زندگی ہاؤس کلینر سے شروع کی۔پھر وہ گالف کاکھلاڑی بنا۔اس کے بعد  ادیب اور  پھر 'پولکا  ڈاٹ  ڈان ' ٹی وی پروگرام کرنے لگا۔اس کو گاڑیوں کا بہت شوق ہے۔اس کے پاس قیمتی اور ریسنگ کاریں ہیں۔اس نے جرمیات،مذہب، ماورائی مخلوق  پر 36 ناول لکھے۔اس  کی کہانیوں پر بہت سی فلمیں بنیں۔اس نے بہت سی فلمیں پروڈیوس بھی کیں۔اس کی اہم تصانیف میں:

 Dead Simple( 201 Good Reads)’, Looking Good Dead, Not Dead Enough. Dead Man’s Footsteps, The Truth. Host, On Citadel Hill. The Secret of Cold Hill.Biggles. Dreamer etc.

Movies

Under Milkwood. Dead of Night. Children should Not Play with Dead things .Spanish Fly etc

Awards

W.H.Smith Award 2015, CWA Diamond Dagger Award (2016) and lot more Awards.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Popular posts from this blog