نفرت،دوستی،معاشقہ،محبت،شادی کے مراحل (دوسری قسط ) Hateship, Friendship, Courtship, Loveship, Marriage 2nd Episode By Alice Munro

  

نفرت،دوستی،معاشقہ،محبت،شادی کے مراحل (دوسری قسط )

Hateship, Friendship, Courtship, Loveship, Marriage

2nd Episode

By

Alice Munro

مترجم: غلام محی الدین

 

میں تمہاراتمام  فرنیچرٹرین  پرلدوارہاہوں۔جب اس کاوزن ہوجائے گاتوتمہیں کرایہ بتادوں گاجوتم نے فوری اداکرناہوگااور بکنک کی رسید منزل مقصود پر دکھاکر فرنیچروصول کر لینا۔وہ بکنگ کی رسید لےکرفرنیچرچھڑانے گئی تھی۔اس نے اس کی اطلاع بذریعہ خط مسٹربو باؤڈری کو خط کے ذریعے کردی تھی ۔یہ ہی وہ  خط تھاجوجووینا نے مسٹربو باؤڈری کو براہ راست لکھاتھا۔وگرنہ خط وکتابت  سبیتاکے ذریعے ہوتی رہی تھی۔اسے پتہ لگائے بغیر سبیتاور ایڈیتھ مل کر جوویناکی طرف سےاسے محبت بھراخط لکھ  کر اپنےلفافے میں ڈال کر پوسٹ کردیاکرتی تھیں۔وہ رقعہ ہوتاتھاجوتہہ شدہ ہوتاتھااوراس پر   'جووینا' لکھ دیاجاتاتھا جوصفحے کے آخر میں ٹائپ کیاہوتاتھاتاکہ کسی قسم کے شکوک وشبہات نہ رہیں ۔

مسٹر میکالی کی مرحومہ بیٹی کافرنیچر  غلہ گودام میں  رکھاجاناتھاجس میں مویشی نہیں تھے اورنہ ہی اناج تھا۔جب جووینانےاس پرایک سال یااس سے زیادہ اس گودام پر نگاہ دوڑائی تھی تووہ پوری طرح سےمٹی سے اٹاپڑاتھا اوراس پر جگہ جگہ کبوتروں کی بیٹیں پڑی تھیں۔ وہاں جوسامان موجودتھا۔اس  کی حفاظت پرتوجہ نہیں دی گئی تھی۔اس نے وہاں سے فالتو سامان اٹھا کرصحن میں رکھ دیاتاکہ گودام میں فرنیچرکی جگہ بن سکے۔اس  نے صوفہ ،دسترخوان اور چینی مٹی والی الماری اورکھانے کی میزوہاں رکھ دی۔اس کے بستر کی ٹیک  نرم اور صاف کپڑے پرلیمن کامحلول ڈال کر لش پش کردیا۔یہ پیپل کی لکڑی سے بناتھاجوبہت  عمدہ اورسحرانگیز لگ رہاتھا۔اب وہ ساٹن کے  بسترکی چادراور سنہری بالوں کی طرح چمکدار ہوگیاتھا۔وہ وہاں کی  کھدی ہوئی سیاہ  لکڑی  کےفرنیچرمیں محفوظ رہتی تھی۔اس نے اس فرنیچرپرنظرڈالنےکےبعداس نے اپنےبارےمیں سوچا۔اس کے بعد جب وہ بدھ کویہاں پہنچی تھی تواس نے رضائیوں کونچلی تہہ میں رکھا تاکہ  اس کےاوپرڈھیربنا کراس پر بستر رکھ دئیےتاکہ پرندوں سے محفوظ کئے جاسکیں۔اس جھاڑجھٹکاڑ سےکافی مٹی جھڑ گئی تھی ۔چیزوں کو دوبارہ  واپس رکھنے سےپہلےاس نےاسےپھرلیموں کےعرق سے صاف کیااورفرنیچررکھ دیا۔ وہ عرصے سے وہاں پڑاتھا۔اب چونکہ وہ اسے وہاں سے گڈینا لے جارہی تھی اسلئے اس لی اطلاع مسٹر میکالی کودینالازم سمجھا۔

ڈئر مسٹر میکالی

میں ٹرین سے آج  جمعے کو سوارہورہی ہوں ۔میں تمہیں  نوکری چھوڑنے کانوٹس دینے کی بجائے یہ باورکراناچاہتی ہوں کہ آخری مہینے کی تنخواہ چھوڑرہی ہوں جو اس سوموارکےتین ہفتوں  میں مجھے ملنی تھی۔ڈبل برائیلر چولہےپربڑے گوشت کے پسندے پڑے ہیں  جوتین چار وقت کے کھانوں کےلئےکافی ہیں۔اس کوگرم کرلینااور اپنی بھوک کےمطابق کھاتے رہنا۔بچے ہوئے کھانے کو ٹھنڈا کرکےڈھک کر فریج میں رکھ دیناتاکہ خراب نہ ہوجائیں۔ تمہیں اور سبیکاکوآداب ۔جب میں کسی جگہ مستقل طورپررہنے لگوں گی تولکھوں گی۔

    میں نے مسٹر بوباؤڈری کواس کافرنیچربک کرادیاہےاوریہ بات ذہن میں رکھناکہ جب  تم نےپسندوں کودوبارہ سے گرم کرناہوتوپتیلی والی کافی زیادہ اور پانی کم ہوناچاہیئے ۔

 

جوویناپیری

مسٹرمیکالی   نے اس کی ہدایات پرعمل کیاتواسے چیزیں ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔اس نے سٹیشن ماسٹر کو فون کیاتو پتہ چلاکہ جووینانے فرنیچر کی بکنک گڈینا سیسکیچوان کی کروائی تھی۔سٹیشن ماسٹر کوجووینا کاحلیہ  بتانے میں مشکل  پیش آئی تھی۔ وہ اس سےتفصیل پوچھتاکیاوہ بوڑھی تھی یاجوان،دبلی پتلی تھی یابھاری بھرکم۔اس کے جسم کی مخصوص نشانی کیاتھی اس کے کوٹ کارنگ کیساتھا۔۔۔لیکن  اس سےمتعلق اتنا تفصیل جانناغیرضروری تھا۔اس نے اسے اطلاع دی کہ وہ سامان اس کی مرضی کے بغیربھیجاگیاتھا۔

جب اس کوکال ملی تواس وقت سٹیشن پر چندلوگ موجودتھےجوٹرین کاانتظارکررہےتھے۔سٹیشن ماسٹر نے اپنی آوازکم سےکم رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت وہ غصے میں آگیاجب اسے پتہ چلاکہ وہ فرنیچرچوری شدہ تھا۔مسٹرمیکالی نےاس کو فون پر یہی بتایاتھاکہ  کسی نے اسےاطلاع دی کی کہ نوکری چھوڑتے وقت وہ کچھ فرنیچراپنےساتھ لے گئی ہے ۔ اس نے سٹیشن ماسٹر کوحلفاًکہاکہ اگر اسے تھوڑا سابھی شبہ ہوتاکہ جوویناکے من میں فتورہےتواسے ریل گاڑی کے نزدیک بھی نہ پھٹکنےدیتا۔

 سٹیشن ماسٹرنےجووینا کی بات   سچ مان  کراس کاسامان بک کیاتھا۔جووینانے جس طرح سے فرنیچر بک کرایاتھاکوئی اس کی بات پر شبہ نہ کرسکتاتھا۔کوئی بھی اسے سامان بک کرانے سے نہیں روک سکتاتھا۔اسی طرح سٹیشن ماسٹر کے بھی اختیارات تھے  جو وہ استعمال کرسکتاتھا۔ہرایک کو اس کی بات مانناپڑتی خواہ وہ تھری پیس سوٹ والا میکالی ہی کیوں نہ ہو۔

بڑے گوشت کاپسندہ  بہت لذیذ تھا۔جووینا کھانابہت اچھاپکاتی تھی لیکن اس نے اس کے ساتھ فرنیچر چرانے کی جوواردات کی تھی اس وجہ سے وہ کھانااس سے نگلانہیں جارہاتھا۔  اس نے ان ہدایات کوجوڈبے کے ڈھکنے پردرج تھیں کونظراندازکردی تھیں ا ور سالن چولہے پر جل کر خاک ہوگیااور اس سےبوآنےلگی۔اس نے کہاکہ یہ بدبو جوویناکی دھوکہ دہی کی تھی۔

یہ سوچ کر بوباؤڈری   جوویناکاشکرگزار بھی تھاکہ کم ازکم اس نے  اس کی بیٹی  سبیتاکی دیکھ بھال بہت اچھے طریقے سے کی تھی اور اس کے بارے میں فکر مند نہیں تھا۔اس کی بیوی مارسیٹا نے ان کی بیٹی سبیتا کواس کے حوالے کردیاتھا۔ وہ ایک بگڑی ہوئی لڑکی تھی ۔اس نےاسےلکھاتھاکہ جووینا اس پرنظررکھےکیونکہ لڑکے اس کےگردمنڈلاتے رہتے تھے۔ جووینا   نے حامی بھر لی وہ اسے اس کی دیکھ بھال کرے گی ۔

مسٹرمیکالی نے اپنی توجہ ہٹانے کےلئےٹی۔وی چلادیالیکن بےکار۔یہ فرنیچرتھاجواس کےلئےوبال جان بن گیاتھا۔حقیقت یہ تھی کہ تین روزقبل جب جووینانےاپنی ٹکٹ خریدی تھی جیسا کہ سٹیشن ماسٹر نے اسے بتایاکہ مسٹر میکالی جومسٹر بوباؤڈری کاسسرتھاکو اس کاایک خط وصول ہواجس میں اس نے کہاتھا  کہ اس کا وہ فرنیچر جواس کے سٹورمیں  رکھا گیاتھا کو فوری بیچ کر پوری رقم بھیج دے یا پھرپچاس ڈالر اسےسیسکیچوان بھیجے۔اس میں اس بات کاکوئی ذکرنہیں تھاکہ اس  نے اپنے سسر  مسٹرمیکالی کے ہاتھ اس  فرنیچرکوپہلے ہی گروی رکھ کر اتنی رقم  حاصل کرلی تھی جوفرنیچرکی اصل رقم سےبہت زیادہ تھی ۔بوباؤڈری کویاتوواقعتاً لی گئی  رقم یادنہیں تھی یاپھر جان بوجھ کر بھول  گیاتھا۔

بوباؤڈری نے اسےلکھاتھاکہ اب وہ ایک ہوٹل کامالک تھا اوراس  میں کچھ قانونی   بوقلمیاں پیداہوگئی تھیں۔ اس   نے کہیں  غلط معلومات فراہم کردی تھیں جس سے وہ قانونی شکنجے میں                            تھا۔اس سے تصفیےکےلئےاسے فوری پیسہ چاہیئےتھاجواس نے میکالی سے مانگاتھااورکہاتھاکہ اگروہ اس مصیبت سےنکل  گیاتوباقی تمام  معاملات سدھار لے          گا  ۔اس نے اپنے   دکھوں کارونارویاتھا۔وہ اپنی اناکوبالائے طاق رکھ کرمزیدشرمندگی سے بچنا چاہتا تھا۔ بوباؤڈری   کی شادی  مشکالات کاشکارتھی۔ میکالی    اسے وقتاًفوقتاًپیسے بھیجتارہتاتھانےاس کے سابقہ مطالبےپر بوباؤڈری کو لکھاتھاکہ اسےعلم نہیں  کہ اس کے فرنیچرکی زیادہ سے زیادہ کتنی قیمت مل سکتی تھی لیکن  اس نے اسےپچاس ڈالرمزیدبھیج  دئیے تھے اور توقع کررہاتھاکہ ان پیسوں کی رسیدبھیج دے کہ وہ رقم فرنیچر کی اصل قیمت سےزیادہ تھی تاکہ سندرہے لیکن اس نے نہ تورسید بھیجی اور نہ ہی اقرارنامہ کہ وہ رقم اس نے بطور قرض وصول کی تھی ۔ اس کی یہ خواہش بھی تھی  کہ بوباؤڈری   ان رقوم کی بھی تصدیق کرےجواس نے اسے وقتاًفوقتاً دی تھیں ۔اس نے یہ رقوم بلا سوددی تھیں۔ان رقوم کو بھیجے کافی وقت ہوگیاتھااور یہ توقع کررہاتھاکہ اب وہ اس قرض کو لوٹاناشروع کردے گاکہ اس کانیامطالبہ سامنےآگیالیکن میکالی کی آمدن اب بہت کم ہوچکی تھی اوروہ اس قابل نہیں تھاکہ مزیدرقم نکال سکےبلکہ وہ اسے دی گئی رقم واپس لیناچاہتاتھاتاکہ اس رقم کو کسی  کاروباریاادارے میں لگاکرمنافع حاصل کر سکے۔ میکالی نے اسے لکھاکہ کیاوہ اسے احمق سمجھتا تھا جواس سےناجائز مطالبات کررہاتھااوراگرایساتھاوہ غلط تھا۔اگر وہ غیرمعقول باتوں پرڈٹارہاتونقصان اٹھائے گا۔ جووینانےاس فرنیچر کوجو بالغ النظر میں بوباؤڈری   کی بیوی مارسیلی کاتھاکاکرایہ اپنی جیب سے تاراتھا۔وہ پیلے پیپل کی لکڑی سے بناتھااور خوب پالش شدہ تھا۔اسےپچھلی صدی میں بنایاگیاتھا ۔وہ سادہ مگر آرام دہ تھا۔

سوتے وقت اس نے اپنامن بنایاتھاکہ وہ بوباؤڈری   کےمطالبے کے خلاف نالش کامقدمہ کردے گا۔اسے جووینا اس وقت تک گھرتھی اوراسے اس کےارادوں کاقطعاًعلم نہیں تھا ۔ لیکن جب وہ صبح اٹھاتووہ اپنے گھر میں اکیلاتھا۔کافی کی خوشبونہیں تھی ۔باورچی خانے سے کوئی ناشتہ نہیں آیاتھا۔موسم خزاں کی ٹھنڈک چارسوپھیل جاتی تھی البتہ کمرے کسی حد تک گرم تھے۔آتش دان نہیں جلایاگیاتھا۔اس سے گھٹن  کےساتھ سڑن  شامل ہوگئی تھی،اس کی نوکرانی جووینا اسے چھوڑ گئی تھی۔وہ اٹھا۔واش روم گیااورآہستہ آہستہ اپنے کپڑے پہنے ،باورچی خانے گیا۔ڈبل روٹی کے سلائس پر مونگ پھلی کاجام اورمکھن لگایا،کھڑکی سےباہرنظارے دیکھنے لگا۔  ٹریک  دھند میں چھپی ہوئی تھی اور اس میں اضافہ ہورہاتھا۔ایگزی  بیشن روڈ اور سامنے کی گھریلو عمارات میں  بھی دھند تھی۔ایسی دھند جنگ عظیم کےدنوں میں بھی اسوقت بھی ہوئی تھی جب بم نہیں گرائے جاتے تھے۔سورج جاگنےکےساتھ ہی وہ غائب ہوگئی۔

میکالی کو اس وقت اپنی  نواسی سبیتا یاد آئی جسے مارسیلی اس کےپاس چھوڑگئی تھی۔وہ بلوغت کے قریب تھی۔وہ کوئی تہوار تھا۔    لاؤڈسپیکر کی اونچی آواز میں لوگ پوری طرح مچلے ہوئے تھے۔غیرقانونی سرگرمیاں،نشہ آورادویات ،مےخوری  اورلاؤ اور لاؤکی صدا اور  شوروغل مچارہے تھے۔ اسے یادآیاکہ اس کی بیٹی مارسیلی  جوان دنوں آئی ہوئی تھی ایک برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر اونچی اونچی بول  رہی تھی کہ کاروں کی دوڑ دیکھے۔اس نے شوروغل مچارکھاتھا۔کھیلوں کے اختتام پراس نے  خوشیاں منائیں۔لوگوں کوپکڑپکڑکرگلے مل رہی تھی ۔ اس دوران اس کی بےتکان بول  رہی تھی۔اپنے بچپن کی یادیں تازہ کررہی تھی اورکہہ رہی تھی کہ اس نے ان کو کتنازیادہ مس کیاتھا۔وہ بےخودی میں اپنے جذبات واحساسات  کا اظہارباربارکررہی تھی ۔اگراسوقت اسے کسی شئے کی کمی محسوس ہورہی تھی تو وہ اس کا خاوندبوباؤڈری   تھاجو اس وقت ملک کے مغربی حصے میں کسی کام کے سلسلے کی خاطرگیاہوا تھا۔

میکالی کو خیال آیاکہ وہ دن اس کے لئے بہت براتھا۔اس نے محسوس کیاکہ اس کی بیٹی مارسیلی   کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔وہ دھان پان سی تھی۔اس کے بازواور ٹانگیں دبلی تھیں لیکن اس کاچہرہ کسی حد تک بھراہواتھا۔رنگ  گندمی تھاجس کے بارے میں کہتی تھی کہ اپنارنگ اس نےسورج میں لیٹ کر گندمی نہیں کیاتھا بلکہ فطری تھا،نے  سیاہ پاجامہ پہناہواتھا ،کی حالت یک دم غیر ہوگئی ۔وہ اسے فوری طورپرقریبی شہرلندن لے گیاجہاں وہ جانبر نہ ہوسکی۔          اس  نے اس کے خاوند بوباؤڈری  سے پتہ کیاکہ اس کی      حالت  خراب کیوں ہوئی تواس نےجواب دیا کہ اسے پتہ نہیں۔

مارسیلی کم و بیش اکثر چڑچڑی ہوجاتی تھی اور بسااوقات روتی رہتی تھی۔اس وقت وہ ایک بار باورچی خانے میں رورہی تھی ۔وہ اپنی بیٹی  سبیتاکی عادات سے زچ تھی جوروزبروز برائیوں میں غرق  ہو رہی تھی۔ اپنے کمرے کی کنڈی چڑھا کرکھڑکی سے کودکربرآمدے کی چھت پرکودجایاکرتی  تھی اور گاڑی میں  لڑکوں کےساتھ رنگ رلیاں منانے چلی جاتی۔اس کاکردار مشکوک تھا۔وہ عیاراوردھوکہ بازتھی۔حالانکہ   اسکےوالدین  اس سےبہت پیار کرتے تھے۔

مارسیلی نے گھر سے بھاگ کرشادی کی تھی۔ میکالی کوصدمہ تھالیکن  امیدکررہاتھاکہ وہ  اس کے ساتھ خوش رہے گی۔میکالی خونی رشتے سے مجبورہوکراس  نوجوان جوڑے پرمہربان  ہوگیا۔بیٹی کی اکثر مدد کیاکرنےلگا۔ اس وقت اس کے مالی حالات بہتر تھے لیکن اب سب  برباد ہوگیاتھااوراس کی بمشکل گزبسرہورہی تھی۔                    

جووینا کے نوکری چھوڑنے اور فرنیچر چوری کرنے نے اسے گہراصدمہ پہنایاتھا۔وہ باؤلا باؤلاپھرنے لگا۔اس روز اپنے اضطراب میں  پوپھٹے ہی اس وقت ناشتہ کرنے چلاگیا جب ریستوران کھلابھی نہیں  تھا ۔کافی انتظار کے بعد جب ہوٹل کھلاتووہ دوسرے گاہکوں کے ساتھ اندرچلاگیا۔ کپ میں کافی  انڈیلتے ہوئے اس  نے پریشانی سےبتایاکہ اس کی نوکرانی جووینا کس طرح اسے دھوکہ دےگئی تھی۔اس نے نوکری چھوڑنے کانوٹس بھی نہیں دیااور اس کی بیٹی  کافرنیچربھی لےاڑی  تھی۔اس کی  بیٹی جس نے ایک فوجی سےشادی کرلی  تھی جو خوبصورت  توتھا   لیکن  ناقابل بھروسہ تھا۔وہ ویٹریس  کے سامنے اپنادکھڑارونے لگا۔

معاف کرو۔۔۔میں تمہارے  ساتھ مزید گفتگوکرناپسندکرتی  لیکن مجھے دوسرے گاہکوں کو بھی دیکھناہےجومیراانتظارکررہے ہیں۔یہ کہہ کروہ دوسرے میزپرچلی گئی۔ویٹریس               کاناشتے پر اس کی پوری گفتگونہ سننا اسے برالگاتھا۔اس نے اپنی بے عزتی محسوس کی تھی اس لئے وہ ناشتے سے لطف اندوز نہ ہوسکا۔ناشتہ کرکے اٹھا اور اپنے دفترہولیا۔ ہرراہی  سے  طویل گفتگوکی  اپنا دکھڑا رویا۔اپنی غمناک داستاں  ہرایک کوسنائی اور اپنے دفتر پہنچ گیا۔ ایک پراجیکٹ پرکام کرناچاہاجو متروکہ آبادی پرتھا جو کوڑیوں کے دام بک رہی تھی۔اس نے نقشہ میز پر بچھایا لیکن وہ   نقشےپرتوجہ نہ دے سکا۔ اس کایہ رویہ معمول سے ہٹ کرتھا۔وہ ہرایک کواپنے ذاتی معاملے  میں گھسیٹنے کی کوشش کرتالیکن وہ ویٹریس کی طرح جان چھڑاکرچلے جاتے ۔اس روز  دھند کی وجہ سے گرمی نہیں تھی۔اس نے ہلکی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔وہ صدمے کاشکارتھااوراپنے من کابوجھ ہلکاکرنےکےلئےکسی سےباتیں کرناچاہتاتھالیکن سب اپنی اپنی جگہ مصروف تھے۔زندگی بھر اس کی عادت تھی کہ  وہ اپناہرمعاملہ خود ہی سلجھاتاتھا۔کسی کی ہمدردی کاطلب گار نہیں  ہوتاتھا۔اس وقت بھی کسی کی توجہ کاخواہاں نہ ہواتھاجب اس کی بیوی فوت ہوئی تھی لیکن اب  بوباؤڈری کےایک خط نے اسےہلاکررکھ دیاتھا۔وہ اس خط کولئےلئےپھررہاتھااوردنیابھرکوشکائت لگارہاتھاکہ کس طرح اس کےداماد نے اسےلوٹا تھااور کس طرح اس کی نوکرانی  نے  اس کافرنیچر چرایااورنوکری چھوڑکرچلی گئی۔سوچتےسوچتےوہ اس نتیجےپرپہنچاکہ  تھانے جاکرچوری کی رپورٹ کرے۔

وہ دفتر سے نکلاتواسے اپنا دوست جوموچی تھایادپڑا۔اس موچی  کانام  ہرمن شیلر تھاکی دکان پرگیا۔اسےآداب کیااور پوچھاکہ کیاوہ ان جوتوں کوپہنچانتاہے جواس نے انگلستان سے خریدےتھے۔تم نے پانچ سال پہلےاس کے تلوےلگائے تھے۔موچی کی دکان ایک غار کی مانند تھی جس میں  روشنی  کےلئے بلب مختلف مقامات پر لٹکائےگئےتھے۔دکان میں  ہرجگہ کٹے ہوئے چمڑے، پھٹے بوٹوں اور تلووں کی بوپھیلی ہوئی تھی جومسٹرمیکالی کے پھیپھڑوں پربوجھ ڈال رہی تھی۔شیلر عمدہ کاریگرتھاجس کےکندھےجھکےہوئےتھے۔وہ ہروقت مصروف رہتاتھا۔ جوتوں کی مرمت  کے اوزارجمور،ہتھوڑے،چاقو ، سلائی یالوہے کے کیلوں وغیرہ سےکرتارہتا۔وہ مرمت کرتےہوئے اونچی آواز میں گایاکرتاتھا۔ مسٹرمیکالی اس کے تمام کاموں سے پوری طرح مانوس تھا۔وہ اپناغم ہلکاکرنے اس کے پاس گیاتھا۔شیلر  ایپرن پہنے ہاتھ میں جوتاپکڑے اہرن سامنے رکھے   کام میں مشغول تھا۔اس نے مسٹر میکالی کودیکھ کر خوش آمدیدکہا۔ اس نے موچی کی پوری زندگی اس غارنمادکان میں دیکھی تھی۔وہ اس سے اس کی محنت کشی پرداددیناچاہتاتھا۔اس سے ہمدردی کرناچاہتاتھابلکہ اس سے زیادہ کرناچاہتاتھالیکن وہ اسے سمجھ نہ سکا۔جب میکالی نے اپنے انگلستانی بوٹوں کا ذکر چھیڑاتوموچی نے کہا۔

ہاں وہ خالص چمڑے کے اچھے بوٹ تھے۔یہ میں نے  اپنی بیٹی کی شادی کے بعد لئے تھے جس کی بیٹی سبیتا اب سترہ سال ٹپ چکی تھی۔ تم نے اس پربڑی مہارت دکھائی تھی پر یہ یاد نہیں کہ کس شہر سے لئے تھےلیکن وہ لندن نہیں تھا۔

مجھے یاد ہےتم نے بتایاتھا۔

تم اپنے پیشے میں بہت محنت کرتے ہواور ایماندار ہو۔

ہاں۔ یہ توہے۔اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے جوتے کودیکھتے ہوئے کہااور تیزی سے اس کی مرمت کرنےلگا۔

مسٹر میکالی بھانپ گیاکہ شیلر کےپاس اس سے بات کرنے کاوقت نہیں ہےلیکن میکالی  وہاں سے جانانہیں چاہ رہاتھااسلئے وہ چپکارہااور کہاکہ اس کے ساتھ دلخراش اور آنکھیں کھول دینےوالاواقعہ رونماہوگیاہےجس نے اسے گہرا صدمہ پہنچایا۔

کیاایساہے۔شیلر نے اپناکام جاری رکھتے ہوئے پوچھا۔

میکالی نے ایک خط اپنی جیب سے نکالااوراونچی آواز میں پڑھنے لگا۔میراداماد بوباؤڈری کہتاہے کہ میں اسے فرنیچر کے عوض رقم بھیجوں کیونکہ وہ مالی مشکلات کاشکار ہے۔اسے معلوم نہیں کہ وہ کیاکرے۔کس سے مدد لےحالانکہ  اسے اچھی طرح علم ہے کہ علاج کے لئے کس کےپاس جاناچاہیئے۔اسےایسا کام کرناچاہیئے جس پر کسی دوسرے کی مدد درکار نہ ہو۔اس کا جب دل کرتاہے،منہ اٹھاکرمیرے آگے ہاتھ پھیلادیتاہے۔وہ بحث مباحثہ کرےگااور میری نوکرانی جوویناکےساتھ  مل کرمیرے خلاف سازبازکرے گا۔کیاتم جانتے ہوکہ اس نےنوکرانی کے ساتھ مل کر نئی حرکت کیاکی؟میری نوکرانی میرےگھرسے بہت سا فرنیچرچراکرمیرے داماد کے پاس مغرب کی طرف چلی گئی ہے۔داماد گاہےبگاہےبہانوں بہانوں سے رقمیں اینٹھتارہتاہے اورکبھی پھوٹی کوڑی تک نہیں لوٹائی۔اس نے پچاس پچاس کرکےڈھیروں ڈالرٹھگ لئیے ہیں۔وہ ائرفورس میں تھا۔تم جانتے ہوکہ چھوٹے قدوالے فضائی فوج میں ہی رکھے جاتے ہیں۔ادھرادھرجھک ماررہےہوتے ہیں ۔خود کوہیروسمجھ کرزمین آسمان کے قلابے مارتے رہتےہیں۔میرااندازہ ہے کہ جنگ نے کچھ لوگوں کی زندگانی بگاڑکررکھ دی ہےاور جنگ کے بعد وہ عام  زندگی گزارنے سے قاصرہیں لیکن ان کایہ استدلال قابل قبول نہیں۔کیاایسانہیں؟۔۔۔میں جنگ کی وجہ سے ان کی منطق کوصحیح نہیں مان سکتا۔میں اسے معاف نہیں کرسکتا۔

نہیں۔تم نہیں کرسکتے۔شیلرنےکہا۔

میں جانتاہوں کہ اس پریقین نہیں کرناچاہیئے۔جب میں بو باؤڈری سےپہلی بارملاجوایک غیرمعمولی ملاقات تھی۔میں جانتاتھااوراس نے ہمیشہ سے ہی چکمہ دینےوالااور فراڈپن تھا۔ایسے لوگ عام پائے جاتے ہیں جن پران کے شاطر ہونےکےباوجودمہربانیاں کی جاتی ہیں۔جنگ ختم ہونے کے بعدوہ بیکار تھا۔میرے کچھ لوگوں سے گہرے مراسم تھے۔میں نےاسے انشورنس کمپنی میں نوکری دلوادی جواس نےاپنی نااہلی کی بدولت گنوادی۔وہ گندہ انڈہ نکلا۔کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔

تم صحیح کہتےہو۔شیلرنےکہا۔

مسزشیلراس دن دکان پر نہیں تھی۔وہ کاؤنٹرپرہوتی تھی۔مرمت کے لئے آنے والے جوتوں  کودصول کرتی اور شیلر کودیتی تھی  اور اس کی مزدوری اور واپسی کاوقت بتادیتی جو اس کاخاوند بتاتاتھا۔تمہاری بیوی  کہیں نظرنہیں آرہی؟میکالی نے کہا۔کیاوہ تندرست ہے؟

اس کی جراحی ہوئی ہے۔مسٹر شیلر نےکہا۔اس نے سوچاکہ اسے  چھٹی کرلینی چاہیئے۔اس کی جگہ  بیٹی آگئی ہےجوکاؤنٹر کے دائیں جانب  بیٹھی ہےاس نے اشارہ کرتے ہوئےکہا جہاں مرمت شدہ جوتے رکھے تھے۔مسٹرمیکالی نے اپناسرگھمایااوراس کی بیٹی ایڈیتھ کودیکھاجسے اس نے اس وقت جب وہ دکان میں داخل ہواتھانہیں دیکھاتھا۔وہ معصوم  سی بالغ اس کی نواسی سبیتا  کی ہم عمرتھی اوراس کے ساتھ گھرآیاکرتی تھی جس کےچہرےپرکبھی بھی مسکراہٹ نظرنہیں آئی تھی۔( اسے بالکل بھی احساس نہیں کہ وہ ہی دراصل فساد کی جڑ تھی)

تم اپنے باپ کی مددکرنےآئی ہو؟کیا تم نے ہائی سکول کرلیاہے؟

آج اتوارہے۔ایڈیتھ نے مڑکرمسکراتےہوئےجواب دیا۔میری ہائی سکول گریجوایشن سبیتاکے ساتھ ہی ہوگی۔

ہاں۔یہ توہے۔کچھ بھی ہواپنےوالدکاہاتھ بٹانااچھی بات ہے۔والدین کی خدمت اعلیٰ عمل ہے۔وہ محنت کش  اوربہترین لوگ ہیں۔میکالی نے جذباتی ہوکر انکساری سےکہا۔والدین  کی عزت وتکریم  عبادت ہے۔

جوتےمرمت کرنےوالی دکان پر۔۔۔ایڈیتھ نےزیرلب طنزاً کہا۔

میں تمہاراوقت ضائع کررہاہوں۔خودکوتم پرمسلط کررہاہوں۔میکالی نے کہا۔تم نے ڈھیر ساکام کرناہے۔یہ کہہ کروہ اٹھا۔

تمہیں  ایسی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔شیلر نے کہا۔اس نے اپنی بیوی کو مسٹرمیکالی کی روداد سنائی اور تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی بیوی  کی جراحی کی وجہ سےپریشان تھا۔اس کوکوئی درگھٹناپڑی تھی۔میراخیال ہے کہ اسےکسی بیماری نے آن لیاتھا۔ہوسکتاتھا کہ اسے دل کی بیماری  لاحق ہوگئی ہویاگردے میں پتھری نکل آئی ہواس نے قیافہ لگاتے ہوئے کہا۔

اب جبکہ اس کی بیٹی اور سبیتاکی والدہ مرگئی تھی توجووینا اس کی دیکھ بھال کررہی تھی ۔اس کی رحلت کے وہ آسمان پراس کو دیکھ رہی ہوگی۔وہ اپنی عمر سے بڑھ کرکام کرتی تھی۔تمام تر بری حرکات کے باوجود جووینا  کی نگرانی میں ہائی سکول میں  داخلے کے تین ہفتوں بعد ہی ابسےمعلوم ہوگیاتھاکہ وہ ہونہار لڑکی تھی اور اعلیٰ گریڈ حاصل کرنے جارہی تھی۔لاطینی زبان، الجبرا، انگریزی ادب  میں وہ ہمیشہ اول آتی تھی اوراس کی قابلیت کو تسلیم کیاجاناتھا۔وہ یہ امید کررہی تھی کہ اس کامستقبل تابناک تھا۔گزشتہ سال  کظری غدود کی افزائش میں جوغلطیاں ہوئی تھیں امسال وہ  ان سے  دوررہے گی۔اس کاخراب ماضی   اب  اس سے  چھوٹنےوالاتھا۔سبیتا کوجب جوویناکاخیال   آتاکہ وہ دھوکہ دے کر مغرب چلی گئی ہےتواس کی ریڑھ کی ہڈی میں سردلہردوڑ جاتی اورایک خطرے کی گھنٹی  بجنے لگتی کیونکہ اس کی ذمہ دار وہ اورایڈیتھ ہی تھی۔انہوں نے ہی گل کھلایاتھا۔

سبینا خانگی امور میں مدد کیاکرتی تھی۔ایک دن جب اس نے برتن دھولئےتووہ اپنےکمرےمیں چلی گئی اورانگریزی ادب کی وہ کتاب پڑھنےلگی جواسے ہوم ورک کے لئے دی گئی تھی۔یہ وہ لڑکی تھی جسے  بوباؤڈری اور اس کی مرحوم والدہ اسے ہروقت لعنت ملامت کرتے رہتے تھے۔وہ اس پرتہمت لگاتے رہتے تھے کہ روز اول سے ہی خراب عادات کی مالک تھی اورانہیں پوراخدشہ تھا کہ جوانی میں اس نے گھرسے بھاگ جاناتھا۔جرائم کی دنیامیں قدم رکھ لیناتھا۔یہ معجزہ ہی خیال کیاجاسکتاتھا کہ وہ سدھرجائے گی۔

ایڈیتھ اورسبیتاساتھ ساتھ سکول جاتی تھیں۔رستے میں سبیتانے کہا کہ ڈاک خانے سے ہوکرجایاجائےاس نےایک خط پوسٹ کرناہے۔اس کی والدہ کی فوتگی کے بعد اس کاحااحوال پوچھنے کے لئے اس کا والد اسے خط لکھتارہتاتھااور وہ اس کا باقعدگی سے جواب دیتی رہتی تھی۔سکول اکٹھے جاتے ہوئےرستے میں طرح طرح کے تماشےکرتی جاتی تھیں۔کبھی آنکھیں بندکرکےچلتیں،کبھی لوگوں پرفقرے کستیں ،کبھی لڑکوں کےنام بگاڑتیں جس سےلوگ اشتعال میں آجایاکرتے تھے۔ایڈیتھ کارویہ اگرچہ غیرسماجی ہوتالیکن وہ سبیتاسے بہتر ہوتاتھا۔وہ لڑکوں اور اہنے نام کاپیوں اور ڈیسکوں پرلکھتی رہتی تھی ۔ ایڈیتھ اسکے تمام خطوط کو پڑھتی رہتی  یا  وقت پاس کرنے کے لئے اعدادوشماراپنی انگلیوں پر جیسے 'محبت ہے، محبت نہیں۔۔۔دوستی ہے،دوستی نہیں۔۔۔شادی ،شادی نہیں۔۔۔معاشقہ ہوگایانہیں ۔۔۔اور پھر ایسے کھیلوں کااختتام اس پرہوتاکہ اس ہفتے کس لڑکے کوپٹایا جائے  ۔جبکہ سبیتا اس سے زیادہ خطرناک تھی اور بعض اوقات  اپنی طرف سے غلط سلط لکھ کرلوگوں کوبھیج کراس کاشغل لگایاکرتی تھی۔

سبیتا خط پوسٹ کرنے لگی توایڈیتھ نے دیکھاکہ لفافہ معمول سے بڑاتھا۔یہ خط توبہت موٹا ہےایڈیتھ نےکہا۔اس کاحافظہ بہت تیزتھا۔وہ  کچھ بھی پڑھتی تواسےفوراً ًحوالہ جات،صفحہ نمبر اورسطرنمبرتک  یادرہ جاتےتھے۔اس نے سبیتا سےحیرانی سےپوچھاکہ کیاتم نے اپنے باپ کوبہت سی باتیں لکھی ہیں کیونکہ تمہارالفافہ پہلے تواتنابڑاکبھی نہیں ہوا؟ایڈیتھ کواس بات کاعلم تھاکہ  سبیتا میں اتنی اہلیت نہیں تھی کہ وہ اتنے زیادہ صفحات پر محیط خط لکھ سکے۔

میں نے توصرف ایک صفحہ ہی لکھاہے۔سبیتانے کہا۔

کیا۔۔۔ آہا۔۔۔ایڈیتھ نے حیرانی سے کہا۔یہ لفافہ اتناموٹاہے ۔اس میں صرف ایک یادوصفحات نہیں ہوسکتے۔

اس میں اور بھی صفحات ہیں جو جووینانے لکھے ہوں گے۔

جووینا نے بوباؤڈری کو لکھے ہیں ۔ایڈیتھ نے حیرانی سے پوچھا۔آؤ اسے کھول کرپڑھیں۔ انہوں نے خط پوسٹ نہ کیا۔چھٹی کے بعد گھر میں  لفافے کی گوند کوبھاپ سے کھولااور پڑھنے لگیں۔

ڈئرمسٹر باؤڈری

میرے لئےتم نے اپنی بیٹی سبیتا کی تعلیم وتربیت کےبارے میں جو خیرکے کلمات کہےہیں میں اس پر  مشکورہوں۔  جلد ہی وہ ہائی سکول گریجوایٹ بن جائے گی تومیری ذمہ داری پوری ہوجائے گی۔تم نے اپنے خط میں لکھاتھاکہ میں ایک ایسی خاتون ہوں جس پر آنکھ بندکرکے بھروسہ کیاجاسکتاہے۔میں تمہاراابھاری ہوں کیونکہ لوگ ایسی خدمات ذمہ داری سے نہیں نبھاتے۔ کیونکہ وہ اس محنت کواپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں رہے ہوتے۔آنکھ اوجھل پہاڑاوجھل کے مصداق وہ حقائق سے آگاہ نہیں ہوتےاس لئے میں  تمہیں  اپنے بارے میں بتانا چاہوں گی۔میں گلاسکومیں پیداہوئی۔میں ناجائزاولادتھی لیکن میری والدہ نے مجھے اپنی شادی کے پانچ سال بعداپنایا۔میں یتیم خانے میں پلی ۔اس سے پہلے میں انتظارکرتی رہی کہ وہ واپس لوٹ آئے گی لیکن کافی عرصہ گزرنے پربھی نہ پلٹی تومیں اس کے بغیررہنے کی عادی ہوگئی۔اکیلاپن مجھے برانہ لگنے لگا۔مجھے دوسرے لوگوں کی صحبت حاصل نہ تھی۔جب میں گیارہ سال کی تھی تومجھےہوائی جہازسےکینیڈالایاگیا۔مجھے مخصوص عرصے کےلئے ڈکسنزکےپاس لایاگیاجس نےمجھےاپنے باغات جن کانام 'مارکیٹ گارڈن'تھا میں کام پرلگادیا۔اس نے مجھے سکول میں بھی داخل کرادیا۔میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام پربھی کرتی رہی لیکن مجھے سکول میں دلچسپی نہیں تھی ۔ اس کے بعد میں مسٹر ویلٹ کے گھر کی نوکرانی بن گئی۔ کچھ عرصہ بعد اس کی بوڑھی ماں مسز ویلٹ  بھی وہاں آکرہنے لگی۔ وہ میری کارکردگی کاجائزہ ہرانداز سے لیناشروع کیا۔گھر کےاندراورباہر کے تمام کام مجھے ہی نمٹانے پڑتے تھے۔یہاں موٹر بوٹ بھی چلاناپڑتی تھی۔کار میں چیزیں چھوڑناپڑتیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کوسمجھنے لگ گئی تھیں۔ مسزر ویلٹ کی والدہ کی بینائی بہت کم ہوگئی تھی اسلئے میں اسے میں اسے اخبار پڑھ کر بھی سناتی تھی۔وہ 96 سال کی عمر میں فوت ہوگئی۔مجھے اس گھرسےجاناپڑگیا ۔  میراقدکاٹھ مضبوط تھااور سخت کوش تھی اس لئےاس نےسوچاکہ میں اس سےکچھ  بہترکر سکتی تھی ۔ میں نے ایک ہفتے کانوٹس دیااور نوکری چھوڑ دی۔ آخری ڈیڑھ سال   میں مسز ویلٹ   کی سخت بیماری کی وجہ سے  اس کے کمرے میں ہی سوتی رہی۔ جب اس نے دنیاسے کوچ کیاتومیرے لئے کچھ رقم اور سامان چھوڑ گئی۔وہ چاہتی تھی کہ میں تعلیم حاصل کروں لیکن اس کے خاندان کو یہ بات پسند نہ آئی۔ وہ مجھے ساری عمر ذاتی ملازم ہی رکھناچاہتے تھے۔میں ان سے الگ ہوگئی ۔میں نے سکول میں داخلہ لےلیا۔پڑھائی تومجھ سے نہ ہوسکی لیکن   نرسنگ ہوم میں نوکری مل گئی جہاں مجھے ناداراور بےآسرا بوڑھےبوڑھیوں   کی خدمت اور ان کی صفائی ستھرائی  کرناپڑتی تھی۔میں   ان کی غلاظت  صاف کرنے ،نہلانے، کپڑے دھونے ، کھانے بنانے اورانہیں  کھلانے پر بھی خوش تھی۔مجھے وہاں گھریلونوکری سے زیادہ تنخواہ ملنے لگی تھی۔وہاں میں نے چھ برس نوکری کی ۔ اس دوران گھروں اور عمارات میں صفائی کرنے کی کمپنیاں قائم ہوگئی تھیں جو اپنے ملازموں کو اچھی تنخواہ دیتے تھے۔میں نے زیادہ کمائی کے لئےایک ایسی کمپنی میں ملازمت کرلی۔وہاں   میں  نےبارہ سال نوکری کی۔اس کے بعد مجھے وہاں سے فارغ کردیاگیا۔ میں بیکار ہوگئی۔ مجھ نوکری کی سخت ضرورت تھی۔ان دنوں مجھے اخبار میں ایک اشتہار نظرآیاجس میں مجھے گھریلوکام اور تمہاری بگڑی ہوئی بچی کوسنبھالنا تھا۔اس سے آگے تم سب جانتے ہو۔ میں اپنی کتھاکہانی لے کربیٹھ گئی اور تمہیں بورکردیاہوگالیکن تم اس بات پرخوش ہوئے ہوگےکہ تمہیں میری پوری زندگانی کاعلم ہوگیاہے اور تم میرے بارے میں ان معلومات کی بناپر صحیح رائے قائم کرسکتے ہو۔مجھے یہ بات اچھی لگی کہ تم نے مجھے اپنی رائے میں شامل کیا۔

جوویناپیری

ایڈیتھ نے جوویناکاخط بلند آوازمیں چسکے لے لے کرپڑھا۔۔۔میں گلاسکومیں پیداہوئی۔۔۔لیکن مجھے چھوڑناپڑا۔۔۔جب اس نے مجھ پر نگاہ ڈالی۔۔۔

رک جاؤ۔یہ خط سن کر میری ہنسی نہیں رک رہی۔میرازورزورسےقہقہے لگانے کادل کررہاہے۔ایسانہ ہوکہ میں ہنستے ہنستے بیمار پڑجاؤں۔سبیتانے کہا۔

تم نے کہاکہ تم نے اپنے باپ کوجوخط لکھاتھاوہ ایک صفحے کاتھاتوجووینا نے تمہاری نظربچاکےاپناخط کیسے ڈالا۔ایڈیتھ نے پوچھا۔

میری  ہینڈرائیٹنگ خراب تھی ۔میں نے اسے لفافےپرایڈریس لکھنےکوکہاتو اس نے اس وقت ڈال دیاہوگا۔سبینانےکہا۔

ایڈیتھ نے لفافے کوگوندسےسےبندکیا۔وہ تمہارے باپ سے محبت کرنے لگی ہے۔ایڈیتھ نے کہا۔

اوہ!واہ  واہ۔بہت خوب ۔سبیتانے اپنا پیٹ دباکر ہنسی روکتے ہوئے کہا۔بوڑھی جوویناسٹھیاتونہیں گئی ؟

مسڑبوباؤڈری کی جوویناکے بارے میں کیارائے ہے؟

اس نے اس کےبارے میں یہ لکھاتھاکہ یہ اس کی خوش قسمتی ہےکہ جووینا مل گئی ہےجومیری  بیٹی اور گھر کااچھےسے خیال رکھ رہی ہے ۔اگروہ نوکری چھوڑ گئی تو تمام گھر مشکل میں آجائے گا۔اس لئے اس کی عزت کرنی چاہیئے ۔وہ ایک معززخاتون ہے ۔بوباؤڈری  یہی کہہ سکتاتھا۔

اسی لئے تووہ اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی ہے۔انہوں نے وہ خط اگلے روز ارسال کردیا۔

اب ہم دیکھیں گی کہ وہ  اس کے جواب میں کیالکھتاہے۔

کافی عرصے تک کوئی جواب نہ آیا۔اورجب جواب آیاتووہ بڑامایوس کن تھا۔وہ اسے فوراًایڈیتھ  کےپاس لےکرگئی لیکن جووینا کےلئے اس میں کوئی خط نہیں تھا۔اس میں اس کے باپ نےلکھاتھا۔

پیاری بیٹی سبیتا!

کرسمس کی وجہ سے میں وقت نہیں دےپایا۔بہت مصروف تھا۔میرےپاس تودوڈالرکانوٹ بھی نہیں تھاجوتمہیں کرسمس کاتحفہ  بھیج سکوں۔میراخیال ہےکہ تم خوش ہوگی اورصحت اچھی ہوگی ۔ کرسمس  مبارک ہو۔امیدہےتم سکول   میں  اچھے نمبرلےرہی  ہوگی ۔میری  اپنی طبیعت ناساز ہے۔پھیپھڑوں کا زخم ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا۔سردیوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتاہے۔ اس بارکرسمس وقت سےپہلے آگئی اور ٹھنڈک میں بےپناہ اضافہ ہوگیا۔میں اب نئی جگہ منتقل ہوگیاہوں۔پہلاگھرپرآشوب جگہ پرتھااورہرکوئی ہمیشہ پارٹی کے موڈمیں ہوتاتھا۔ اب میں ایک بورڈنگ ہاؤ س میں ہوں جومیرے مزاج اور صحت کے موافق ہے۔کھانےپینےاور برف صاف کرنے کےجھنجھٹ سے آزادہوگیاہوں۔

میری کرسمس۔

تمہاراوالد

خط پڑھنے کے بعد سبیتا نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا۔۔۔بیچاری جووینا!اس  کادل توبےچینی اور مایوسی میں ڈوب گیاہوگاکیونکہ باپ نےاس کےبارے میں ایک لفظ  تک نہیں لکھالیکن۔۔۔کسے پراہ ہے۔اس نے کندھے اچکتےہوئےکہا۔

جوویناہماری مرضی کے بغیرکامیاب نہیں ہوسکتی کیوں نہ ان میں محبت کاکھیل شروع کردیاجائے؟ ایڈیتھ نے شیطانی مسکراہٹ سے کہا۔

وہ کیسے؟ سبیتانےسوالیہ نظروں سے پوچھا۔

جوویناکوہم بوباؤڈری کی طرف سے خط لکھ دیں۔ایڈیتھ نےکہا۔

تمہارا ذہن شیطان کی آنت ہے۔کیسےکیسے منصوبےبناتاہے۔اس نے اسےسراہتے ہوئےکہا۔انہیں خط ٹائپ کرناپڑاکیونکہ اگروہ اپنے ہاتھ سےلکھتیں توجوویناپہنچان جاتی کہ وہ  بوباؤڈری نے نہیں لکھاتھا۔اسلئے ان کوخط ٹائپ کرناپڑا۔ٹائپ کرنامشکل نہیں تھا۔ایڈیتھ کے گھر ایک ٹائپ رائٹر تھاجواس کی والدہ  کاتھا۔وہ شادی سےپہلے ٹائیپسٹ     تھی  ۔اب بھی وہ دفتری دستاویزات ٹائپ کرکےاضافی رقم بنالیتی تھی۔اس نےایڈیتھ  کو  ٹائپ سکھادی تھی تاکہ اسے نوکری حاصل کرنے میں  آ سانی                        ہو ۔ایڈیتھ ٹائپ کرنے بیٹھی توپوچھاکہ خط کیسےشروع کیا جائے۔اس نے اونچی آواز میں بولتے ہوئے ٹائپ کرناشروع کیا :

میں تم سے محبت نہیں کرسکتاکیونکہ تم بوڑھی ہو۔تمہارے چہرےپردھبے ہیں۔سبیتاکے منہ سےبےساختگی نکلا۔

اپنی چونچ بندرکھو۔میں سنجیدہ ہوں۔ایڈیتھ نےکہا۔پھر اس نے ٹائپ کرناشروع کیاکہ ۔۔۔

میں تمہارا خط پاکربےحد خوش ہوا۔وہ الفاظ جووہ ٹائپ کررہی تھی،اونچےالفاظ میں بولتی رہی۔خاموش ہوکرنیافقرہ سوچتی۔اس کی آوازمزید سنجیدہ اوررومانی ہوتی گئی اوروہ ٹائپ کرتی گئی۔سبیتاسامنے والے صوفے پربیٹھی کھلکھلاکرہنستی رہی۔اس دوران  اس نے ایک بار ٹی وی آن کیاتوایڈیتھ نے اسے سنجیدگی سے'پلیز'کہا۔میں تمہارے اس  طرح  کے رویے سے خط پرکس طرح توجہ مرکوزکرسکتی ہوں۔جب وہ اکیلی ہوتی تھیں توایک دوسرے کوگندی گالیاں دیتی رہتی تھیں۔کتیا، گھٹیا،گندی  ۔ اوجیسز        وغیرہ  ۔ خط کی حتمی تحریر یہ تھی۔

ڈئرجووینا!

میں اس خط کو پڑھ کرخوش ہواجوتم نے سبیتاکےخط میں ڈالاتھا۔اس میں مجھےتمہارے ماضی کاپتہ چلا۔مسزویلٹ   خوش قسمت  تھی جس نے تمہیں رکھ لیاتھا۔اس سے پہلے وہ  بہت افسردہ اور تنہارہی ہوگی۔تم زندگی بھرمحنتی  اوربغیرکڑھے ایمانداری سے ان کی خدمت کرتی رہی اور مجھے یہ کہناچاہیئےکہ تمہیں اس بات کی شاباشی دیناچاہیئے ۔میری پوری زندگی اس قسم کےواقعات کی عبارت ہے۔مجھےکبھی بھی کہیں ٹکنےکاموقعہ نہیں  ملا۔مجھے یہ علم نہیں کہ میری طبیعت  میں ہروقت بےچینی اورتنہائی کیوں پائی جاتی  ہے۔ یہ شائد میرےبھاگ میں لکھاہے۔میں لوگوں سےملتارہااورملتارہتاہوں۔ان سےباتیں کرتارہتاہوں اورسوچتاہوں کہ ان میں میرااصلی دوست کون ہے ۔  تمہارے خط سے مجھے لگتاہےکہ  میں نےحقیقی دوست پالیاہےاور میرے لئے  کرمس کا یہ تحفہ کتنا قیمتی ہے۔کیا واقعی تم مجھے دوست سمجھتی ہوحالانکہ تم مجھے زیادہ نہیں جانتی۔

تمہارادوست  بوباؤڈری

وہ ٹائپ شدہ خط جوویناتک پہنچادیاگیا۔سبیتا کےنام کاخط بھی ایڈیتھ کوٹائپ کرناپڑا۔انہوں نے  لفافے میں  ڈال کربڑی احتیاط سے ڈال دیاتاکہ ٹیپ نہ لگاناپڑے۔

ہم نیالفافہ لے کرپتہ کیوں  نہ ٹائپ کرکے اسے بھیجیں۔

ایسا نہیں ہوسکتاکیونکہ اس پر ڈاک خانے کی مہرنہیں لگ پائےگی بیوقوف۔اگر جووینانےاس خط کاجواب  اپنی طرف سے دے دیاتوکیاہوگا۔

ہم اس کاجواب پڑھ لیں گے۔

اس وقت  کیاہوگا۔

ہم وہ جواب پڑھ لیں گے۔

اگراس نے براہ راست باؤڈری کولکھ دیاتوکیاہوگاَ؟سبیتانےکہا۔

ہاں! میں نے اپنے منصوبے میں اس امکان کوبھی مدنظر رکھاتھا۔ایڈیتھ نے کہا۔وہ ایسا نہیں کرے گی۔وہ شرمیلی ہے۔ڈرپوک ہے۔۔۔اس کی جگہ تم بوباؤڈری کوجواب دے دیناجیسے پہلے دیاتھا۔تم اسے یہ آئیڈیادےدیناکہ جووینااپنا خط سبیناکے لفافے میں ڈال دیا کرے۔

میں ایسےبیہودہ خط لکھنے کی مخالف ہوں۔سبیتانےکہا۔

میں تمہاراگاٹااتاردوں گی۔ایڈیتھ نے غصے سے کہا۔کیاتم یہ تماشا نہیں دیکھنا چاہوگی کہ اس  کاانجام کیاہو۔ایڈیتھ نے کہا۔

ڈئر دوست!

تم نےمجھ سے پوچھا تھاکہ کیامیں  تمہارےبارےزیادہ نہیں جانتی۔میری زندگی میں میری صرف ایک ہی دوست تھی اوروہ تھی مسزویلٹ۔میں اس سے محبت کرتی تھی اورمجھ سےبہت اچھی تھی  لیکن اب وہ اس دنیاسے رخصت ہوگئی ہے۔وہ عمر میں مجھ سے بڑی تھی اوربزرگوں سے متعلق یہ ہوتاہےکہ وہ جلدساتھ چھوڑکرہمیں اکیلاچھوڑدیتے ہیں۔وہ اتنی ضعیف ہوچکی تھی  اور حافظہ کھوچکی تھی کہ بعض اوقات مجھےکسی دوسرےنام سےپکارنےلگتی تھی اورمیں سمجھتی تھی کہ وہ جان بوجھ کرایسانہیں کرتی تھی اورمیں اس بات کابرا نہیں مناتی تھی۔

میں تمہیں  ایک عجیب بات بتانے جارہی ہوں۔  سبیتا، اس کی سہیلی ایڈیتھ اور میری وہ تصویرجوپاپا نےمیلے میں فوٹوگرافر سے کھچوائی تھی میں نے اسےبڑاکرکےفریم کروالیا ہے اور اسے ڈرائنگ روم میں لٹکادیاہے۔اگرچہ اس نے زیادہ رقم اینٹھی تھی اور   اچھی  بھی نہیں اتاری گئی تھی لیکن نہ ہونے سے توبہتر ہے۔میں کل صفائی کررہی تھی جب میں اس تصویر کےپاس گئی توایسالگاکہ تم نے نے مجھے ہیلوکہاہو۔میں نےتمہارےچہرے کودیکھا۔تم میری طرف  دیکھ رہے تھے۔میں نے خودکومصروف رکھنے کی کوشش کی لیکن میرادھیان اسی طرف لگارہااوراپناذہنی توازن کھونےلگا۔۔۔ارے نہیں۔۔۔یہ میں نےازراہ تفنن لکھ دیاتھا۔دراصل میں کسی ایسی شئے پریقین ہی نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسی لغوباتیں سوچنےکاوقت ہوتا                     ہے   لیکن کل جب تمہاراخط آیاتومعلوم ہواکہ میرابھی ایک پکادوست  اس دنیامیں ہے۔

جوویناپیری

اس طرح کےخط کویقیناًسبیتاکے خط میں نہیں ڈالاجاسکتاتھاکیونکہ بوباؤڈری  کوشک ہوسکتاتھاکہ اس نے کبھی کوئی خط جوویناکولکھاہی نہیں تھاتواس کاجواب کیسے آگیا۔وہ توسبیناکے خط میں ہی اس کے لئے ایک دوفقرے لکھ دیاکرتاتھااسلئے خالص نجی قسم کےخط کواس نے پھاڑکرفلش کردیا۔

بوباؤڈری کےپچھلے خط میں اس نے لکھاتھاکہ وہ  بورڈنگ ہاؤس میں منتقل ہوگیاتھاکوآئے کئی مہینے بیت چکےتھے۔سبیتا اس دوران سیروتفریح کے لئےاپنی خالہ کے پاس سیمکو کی جھیل پرچلی گئی تھی  اور تین چارہفتوں بعدآئی تھی جہاں اس کے کزن بھی آئے ہوئے تھے۔اب موسم گرماآچکاتھا۔اس دن اسکے باپ  کاخط آیا۔یہ محض اتفاق تھاکہ  سبیتاکو وہ خط  بھی نظرآگیاتھاجو اسےپہلے آیاتھا۔وہ  اسے لے کرایڈیتھ کےگھر پہنچ گئی۔وہاں پہنچی تواسےاس گھر میں  گھٹن محسوس   ہوئی۔اسے فضامیں بو محسوس ہوئی۔ایڈیتھ نےاس کی دیکھادیکھی گہری سانس لی اورکہاکہ اسے توکوئی ناگوار تاثر نہیں مل رہا۔

یہ گھرتمہارے والد کی دکان جیسا ہے۔ اس میں چمڑے کی بوآرہی ہےلیکن یہاںشدت نسبتاً اس سےکم ہے۔اس میں چمڑے کے ساتھ دیگر بداصل ہوابھی شامل ہےجس میں بھنی مکئی اورچاکلیٹ   کی مہک بھی شامل تھی جووہ ایڈیتھ کےلئےلائی تھی۔اس نےخط کو بڑی احتیاط سے بھاپ سے کھولا۔اس دوران سبیتاصوفےپربیٹھ کراپناچاکلیٹ کھاتی رہی۔ایڈیتھ نےکہاکہ اس میں ایک خط ہےاوروہ بھی  صرف تمہارے لئے۔۔۔بیچاری بوڑھی جووینا۔

اس میں کیالکھاہےپڑھ کرسناؤسبینانے بےتابی سے کہا۔میں نہیں پڑھ سکتی کیونکہ میرے دونوں ہاتھوں میں چاکلیٹ ہیں۔ایڈیتھ نے پڑھاتواس میں سرسری سی باتیں لکھی تھیں۔وہ اسے تیزی سے پڑھتی گئی۔یہاں تک کہ فل سٹاپ پربھی نہ رکتی۔

۔۔۔تومیری پیاری سبیتا۔میری قسمت جاگ اٹھی ہے۔ میں اب اس  برینڈن کے بورڈنگ ہاؤس میں نہیں رہابلکہ  گڈینا آگیاہوں۔اب مجھے لوگوں کی ذاتی نوکریاں نہیں کرنا پڑیں گی۔ تمہیں بتاؤں کہ یہ سردیاں میرے لئے بہت کٹھن رہیں۔میرے سینے میں شدیددردرہا۔نمونیایا ٹی۔بی کاشدیدخطرہ تھا۔مجھے ایسا لگتاتھاکہ میراآخری وقت قریب تھالیکن قسمت بھی عجیب و غریب  شئے ہے۔بری باتیں ہوتی رہتی ہیں۔مشکل حالات آتےرہتےہیں۔تمہارانانااورمیراسسر میراقرضدار ہے۔اسے کہوکہ اگر وہ میراپوراقرض چگتانہیں کرسکتاتو کم از کم میرابورڈنگ ہاؤس  کابل ہی چکادے۔میں ایک کمرےسےایک بڑی عمارت منتقل ہوگیاہوں جس کے بارہ کمرے ہیں۔اب میں نے کسی  سےبستربھی  کرائے پر نہیں لیاہوا۔اس عمارت میں بڑی چھوٹی چھوٹی اشیامرمت کرنے والی ہیں۔گرمیوں میں انہیں ٹھیک کرلوں گا۔اس کے بعد ایک شیف اور  نوکررکھ کراسے ہوٹل بنالوں گااورچاندی میں کھیلنے لگوں گا۔یہ یقیناًکامیاب ہوگاکیونکہ یہاں کوئی ریستوران نہیں ہے۔مجھےامیدہےکہ تمہاراسکول اچھاجارہاہوگااورتم اپنی پڑھائی میں دلچسپی لےرہی ہوگی اور اچھی اقدار سیکھ رہی ہوگی۔

پیار۔تمہاراوالد۔

کیا تمہارے پاس کافی فوری میسر ہے۔

کیوں۔اس کی کیاضرورت پیش آئی ہے۔

سیمکو جھیل کی  کاٹیج میں  میرے سب کزن  کولڈکافی پیتے تھے۔اس کی میں بھی عادی ہوگئی  ہوں۔وہ باورچی خانے چلی گئی۔ایسی  کافی بنانے کے لئے پانی ابالاجاتا تھااوردودھ ڈال کرچمچ سےہلایاجاتاتھا۔اس میں برف اورونیلاآئس کریم ڈالی جاتی تھی۔جیسز!وہ بہت لذیذبناکرتی تھی۔

کیاتم چاکلیٹ کھاؤگی۔

ہاں۔پوراکاپورا۔

سیمکو کی تفریح میں چھٹیوں کے دوران  سبیتاکی عادات بدل گئی تھیں۔اس کی غیر حاضری میں ایڈیتھ اپنے باپ کےساتھ دکان پرکام کرنے لگی تھی۔اس دوران اس کی والدہ کی جراحی بھی ہوئی تھی اور اسے مکمل آرام کاکہاگیاتھا۔سبیتاچھٹیوں میں پہلےسے بھی خوبصورت بن کرآئی تھی۔اس کی چال ڈھال ہی بدل گئی تھی۔اس نے اپنے بال چھوٹے کروالئے تھے جو اس کے چہرے کے نزدیک پھولے ہوئے تھے۔بالوں کی تراش خراش  اور آرائش اس کی کزنوں نے کی تھی ۔انہوں نے اسے ماڈرن لڑکی بنادیاتھا۔وہ ایک شہوت دلانے والے لباس میں تھی۔اس  نے سکرٹ کے نیچے نیکرپہنی تھی۔اس کے کندھوں پرنیلے رنگ کی جھالر لگی تھی۔اس کے سکرٹ پر تین بٹن لگے تھے۔جب وہ کولڈکافی میز سے اٹھانے کے لئے جھکی تواس کی چھاتیاں واضح طورپرنظرآنے لگی۔

سبیتا کی چھاتیاں بہت بڑھی ہوئی تھیں لیکن ایڈیتھ  نے اس وقت تک اسے نوٹ نہیں کیا۔سبیتا اپنے کزنوں کے بارے میں جن کے ساتھ وہ چھٹیاں گزار کے آئی تھی بےتکان بولے جارہی تھی۔وہ جوش سے ایڈیتھ کو کہہ رہی تھی کہ وہ اسے ایک بات بتاناچاہتی تھی کہ اس کی خالہ روگزینانے جوبات اس کے خالو کلارک کواس وقت کہی جب وہ جھگڑرہے تھےکہ اس کی بیٹی کو ڈرائیونگ لائیسنس مل گیاتھا۔وہ  اتنازیادہ جوش میں کیوں آگئی تھی کاپتہ نہیں تھا۔

لیکن  کچھ دیربعد دوسری باتیں  کی جانے لگیں جن میں مہم جوئی  اورموج مستی بھی شامل تھی۔سبیتا نے بتایا کہ اس نے اپنی کزنز جن میں کئی اس سے عمرمیں بڑی  تھیں کشتی کےاوپر والے حصے میں سویاکرتی تھیں۔رات بھر وہ ایک دوسرے کوگدگدی کرتی رہتیں۔وہ ایک لڑکی کے پیچھے پڑجاتیں  یہاں تک کہ وہ چیخ چیخ کرکہتی کہ وہ ہار گئی۔ایساکرنے والی کی سزایہ تھی کہ اسے کہاجاتاکہ پتلون اتار دےاور ہارنے والی کو ایساکرناپڑتااور اس کی رانوں کےبال دیکھتے۔ان کزنوں نے یہ بتایاکہ ہوسٹل میں وہ یہ کھیل اکثر کھیلاکرتی تھیں اور ان بالوں کوبرش سے صاف کرتی ہیں۔ایک دفعہ دوکزنوں نے مل کر ڈانس کرتے کرتے کپڑے اتار دئیےاور ایک لڑکی اوپر چڑھ گئی اور خود کولڑکاظاہر کیااور اسکی رانوں میں رانیں جکڑلیں  اور جنسی جذبات کی شدت سے کراہنے لگیں اور مستی کرتے کرتے نارمل ہوگئیں۔انکل کلارک کی بہن اور اس کاخاوند ہنی مون پر آئے ہوئے تھے۔ان کوہم نے پرائیویٹ حصوں میں ہاتھ ڈالتے دیکھا۔وہ ایک دوسرے سے بہت پیارکرتے تھے۔وہ رات دن مستی میں لگےرہتےسبیتانے بتایا۔اس نے ایک تکئے کوجپھی ڈال لی اور محبت کرنے لگے۔انہوں نے اس بات کی پرواہ نہ کی کہ اور لوگ بھی وہاں بیٹھے تھے۔ایک کزن نےاپنی ایک کزن کےساتھ دھڑلے سے سب کے سامنے محبت کی۔ایک اورکزن جسے سڑک کے کنارے باغات میں کام کے لئے رکھاگیاتھانے اپنی ایک اور کزن کودھمکی دی کہ اس سے محبت نہ کرنے کی تو اسے سمندر میں پھینک دےگا۔

کیاوہ تیر نہیں سکتی تھی۔

نہیں۔

سبیتانےاپنی رانوں  میں تکیہ دبالیااورکہاکہ یہ بہت اچھالگتاہے۔

ایڈیتھ اس کی تمام باتوں کواچھی طرح سمجھ کراورمحسوس کررہی تھی لیکن وہ اس بات  کی حامی تھی کہ وہ خود بھی ایسے کاموں سےسالہاسال پہلے   خوفزدہ تھی،اس سے پہلےکہ وہ جانتی کہ وہ کیاکہہ رہی تھی۔وہ اپنی ٹانگوں میں کمبل لے کرسوتی تھی۔اس لڑکی  کی ماں کوپتہ چل گیاتواس نے ایڈیتھ کوبلایااورکہاکہ  وہ ایک ایسی لڑکی کوجانتی تھی جوایساکرنے کی عادی تھی۔اس مسئلے کی وجہ سےاس کااپریشن ہوالیکن اس سےکوئی افاقہ نہ ہوااس لئے اس کےاعضاکاٹنے پڑےبصورت دیگراس کےاعضالہوسےبھرجاتےاوروہ مرجاتی۔

بندکرو یہ باتیں۔اس نے سبیتاسے کہالیکن وہ اپنی موج میں لگی رہی اورکہاکہ یہ  توکچھ بھی نہیں،ہم سب کچھ اس طرح کی چیزیں کرتے رہے۔کیاتمہارےپاس تکیہ ہے؟ایڈیتھ اٹھ کرباورچی خانےگئی۔جب وہ واپس آئی توسبیتا صوفے پربےجان پڑی تھی لیکن قہقہےلگارہی تھی،تکیہ زمین پرپڑاتھا۔

میں کیاکررہی تھی۔تم جانتی ہو؟سبیتانےپوچھا۔کیاتم یہ نہیں سمجھی کہ میں تم سے مذاق کررہی تھی۔ریڈیتھ  نےکہا۔

تم نے ابھی  توپوراگلاس بھراہواکولڈ کافی پی تھی۔سبیتانےکہا۔اس سے زیادہ تم سے مزہ نہیں کرسکتی۔

مجھےپانی کی پیاس تھی۔ایڈیتھ نےکہا۔

اس سے زیادہ تم سے مزہ نہیں کرسکتی ۔ سبیتا اٹھ کر بیٹھ گئی۔اگر یہ اتنی ہی پیاسی ہوتوپانی کیوں نہیں پیا۔

سبیتا موڈبناکرکچھ دیربیٹھی رہی اور پھرمایوسی سےمصالحتی انداز میں بولی۔ہمیں جوویناکی طرف سے بابوڈری کے لئے ایک خط لکھناچاہیئے۔

 ایڈیتھ کی خطوط میں دلچسپی اب ختم ہوگئی تھی لیکن وہ اس بات پرمطمئن تھی کہ سبتاکی دلچسپی اب بھی قائم تھی۔سبیتاکی ان باتوں پرجوسیمکو کیبن میں اس کی کزن کےساتھ چھاتیوں وغیرہ پرکی تھیں کوختم کرکے وہ خط  لکھنےپرآگئی۔ایڈیتھ تھوڑی دیرہچکچائی لیکن پھرٹائپ رائٹرلےکرآگئی۔

میری پیاری جووینا!سبیتانےکہا،

نہیں۔یہ براآغاز ہےایڈیتھ نے کہا۔

وہ ایسانہیں سمجھے گی۔

وہ براسمجھےگی تو۔۔،

وہ اس پرمذبذب تھی کہ وہ سبیتاکو خط کے متن  اور مواد کی ترتیب کےبارےمیں بتائےلیکن پھرملتوی کردیا۔اس کی ماں کی تنبیہ کے ذمرے میں آتی تھی۔وہ اس بات کوسوچ رہی تھی کہ کیاوہ اپنی ماں کی بات پریقین کرےیانہ کرے۔اس  میں صداقت کم تھی۔اس طرح کہ جیسے کہ اس کےگھرمیں یہ مشہور تھاکہ اگرگھر میں ربر کی جوتی  پہنی جائےتواس سے بصارت   کمزورہوجاتی ہےلیکن اس کی صحت کے بارے میں سچائی ثابت نہیں ہوئی تھی۔

دوسری بات جس پر سبیتاقہقہہ لگاتی تھی وہ ایڈیتھ کی والدہ کے توہمات تھےجس میں ایک یہ بھی تھاکہ چاکلیٹ کھانے سے شخص فربہ ہوجاتاہے۔

تمہارے پچھلے خط سے مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی۔اس  نے میرےزخموں پرپھاہارکھ دیاتھا۔سبیتانے فقرہ بنایا۔اس سے مجھے ایسالگاکہ دنیامیں مجھےایک سچادوست  مل گیاہے۔میں رات بھرنہیں سوسکا اور جی کیاکہ میں  تمہیں اپنی بانہوں میں جکڑلوں اور آگے پیچھے گھماؤں۔میں تنہاہوں۔اکیلاپن عذاب ہے۔ایک معتدل پائیدار زندگی ہونے کے باوجودسمجھ نہیں آتی تھی کہ کیاکروں۔سبیتانے بوباؤڈری بن کرلکھاتھا۔

اس  فقرےسے کیامراد ہے۔ایڈیتھ نےحیرانی سے پوچھا۔

اگلی تحریر پڑھو،جلد ہی  جان جاؤگی۔سبیتانےکہا۔یہ کہتے ہوئےبرےدل سے اٹھ گئی کہ  بقیہ خط پڑھ کرشرماؤاوربتاؤکہ کیایہاں ختم کردیناچاہیئے یاتم اس سےزیادہ چاہتی ہو؟

ایڈیتھ نے پڑھناشروع کیا،سبیتانے لکھاتھا۔۔۔اور سوچوکہ میں کس طرح پوری قوت سےبغل گیرہوں گااور تمہاری چھاتیاں چوسوں گا۔یہ پڑھ کراس کے کانوں کی لوئیں کھڑی ہوگئیں،اس نے شروع  سے سبیتا کابوباؤڈری بن کرلکھاگیاخط پڑھناشروع کیا۔

پیاری جووینا!۔

تمہارے پچھلے خط  سےمجھےبہت خوشی حاصل ہوئی کہ مجھےایک سچادوست  نصیب ہواجوتم ہو۔اپنی مصروف ترین زندگی کے باوجودمیں خودکوتنہامحسوس کرتا ہوں اور سمجھ نہیں آتی کہ کہاں کارخ کروں۔میں نے اپنی نئی  مہم کے بارے میں سبیتاکولکھا ہے۔میں نے اسےتفصیل لکھی ہےکہ گئی رت میں کتناسخت بیماررہا۔میں  اس لئے خاموش رہاکہ اسے  پریشان نہیں کرناچاہتاتھااور نہ ہی تمہیں پیاری جووینا۔تمام وقت تمہاراچہرہ میرے سامنے گھومتارہتاتھا۔بیماری کی حالت میں مجھے ٍایسامحسوس ہوتاجیسے تم مجھ پرجھکی ہوئی ہواورتمہاری گرم سانسیں میرےچہرے پرپڑرہی ہوں۔اس وقت مجھے ایسالگنے لگاکہ میں اکیلانہیں ہوں۔میرابھی کوئی ہے۔میں بورڈنگ ہاؤس میں بخار سے پھنک رہاتھا۔ذرا ساآرام آتا توپریشانیوں کاانبار سراٹھائے کھڑاہوتا۔یہ سب کیاتھاجوویناَ؟اورجب میری آنکھ کھلتی توتمہیں موجود نہ پاکرپریشان ہوجاتاکرتا۔میری دلی خواہش ہوتی  تھی کہ تم اڑکرمیرےپاس پہنچ جاؤحالانکہ میں جانتاتھاکہ ایسانہیں ہوسکتاتھالیکن اس دل کاکیاکروں۔یقین مانودنیاکی سب سے بڑی حسینہ  کاحسن بھی تمہارے سامنے مات ہے اور ان میں سےکوئی میرے پاس آئے تومجھے اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنی تمہارے آنے سے ہوگی۔

میں چاہتاہوں تم کووہ باتیں بھی بتاؤں  جواس دوران تم مجھ سے کرتی رہی تھی کیونکہ وہ  بہت پیاری اوررازدارانہ  تھیں جومیں بتانہیں سکتاکیونکہ تم خفاہوجاؤگی۔میں یہ خط اب ختم کررہاہوں۔مجھے ایسالگ رہاہےکہ میرے ہاتھ تمہاری کمرسے بغل گیرہیں اور تم میرےنیم تاریک کمرے میں سرگوشیاں کررہی ہو۔میں یہاں تمہیں الوداع کہتاہوں اوراس بات کو ذہن میں رکھوں گاکہ جب تمہیں یہ خط ملے گاتوتم کو پڑھتاہوامحسوس کروں گااورتمکوشرماتاہوادیکھوں گا۔میری خواہش ہے کہ تم اسے اپنے بسترمیں نائٹ گاؤن میں  اپنے انڈرویئر میں  ایسے پڑھوجیسے میں تمہیں اپنے بازوؤں کے حصار میں لئے ہوئے ہوں۔

پیار۔

بوباؤڈری۔

 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

 

۔۔


Popular posts from this blog