عجز شر و عات وسیلہ ظفر( We All Begin In A Little Magazine by Albert Norma Levine )

 






                                                                                عجزشروعات وسیلہ ظفر 

               (We All Begin In The Little Magazine)

Albert Norma Levine (1923 - 2005)

Poland


مترجم:   غلام محی الدین

 

عام لوگوں کی طرح ہم بھی گرمیوں کی تعطیلات کا انتظار کیا کرتے تھے۔ پڑھائی لکھائی اور زندگی کے دیگر جھمیلوں سے راحت کے لئے ہم ہرسال کسی نہ کسی تفریحی مقام پر جاتے تھے اور دو ہفتوں سے چار ہفتوں تک کی تعطیلات گزار کر دوبارہ سے توانائی حاصل کرکے اپنے کام میں مست ہو جاتے تھے۔ کوشش یہی ہوتی کہ ہر سال مختلف مقام چنا جائے تاکہ خاندان کے تمام افراد میں عمدہ یادیں زیادہ سے زیادہ قائم ہو سکیں اور ہم اپنے ان پر لطف تجربات کی وجہ سے ایک دوسرے سے زیادہ گہرے روابط قائم کر سکیں۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ ہم 1960سے پہلے کس کس مقام پر گئے لیکن پچھلے چند سالوں سے میں نے اس کا  باقاعدہ ریکارڈ رکھنا شروع کر دیا تھا۔ میری بیوی کے ذمہ تھا کہ وہ ہر سال نئے تفریحی مقام کا تعین کرے اور شیڈول بنائے۔وہ چھٹیوں سے پہلے ہی اس کام میں مصروف ہو جاتی اور باہمی مشورے سے موزوں مقام ڈھونڈ نکالتی۔ تفریحی مقامات کی اہمیت، تفصیل اور بجٹ کے مطابق وہ مقام منتخب کرتی۔ اِس سلسلے میں اس کو سوشل میڈیا سے ایک ایسا شخص مل گیا تھا جو ٹورازم سے متعلق تھا۔ وہ اس سے مشورہ کرتی رہتی تھی۔ مختلف اوقات میں مختلف مقامات کی سیر کے دوران میں نے یہ دیکھا کہ مہذب معاشرے کے صاحبِ ثروت لوگ ایسے علاقوں میں جانا پسند کرتے تھے جہاں ان کے آباؤ اجداد بسا کرتے تھے۔  جنہوں نے قدیم زمانے میں انتہائی عسرت کی زندگی گزاری تھی۔ اُن میں سے کسی ایک نے رسک لے کر سفر وسیلہ ظفر اختیار کیا اور ان کی آنے والی نسلیں ان سے مستفید ہوئیں۔ اپنی موجودہ متمول حیثیت کا کریڈٹ وہ اپنے بزرگوں کی محنت ِشاقہ کو دیتے تھے۔ اُن کے لئے دعا گو ہوتے یا  اُن کی یادمیں کوئی رفاہی پروگرام شروع کر دیتے تھے۔

         

اس سال میری بیوی نے کہا کہ پس ماندہ علاقوں میں جانے کی بجائے اس دفعہ شہری زندگی سے حظ اٹھایا جائے۔ اُس نے لندن جانے کا سوچا۔ ہمارے پاس تین ہفتے تھے جو ہم لندن کی سیرو سیاحت میں صرف کر سکتے تھے۔ میری بیوی نے اس دفعہ ایک ایسا مکان ڈھونڈ نکالا جو کسی ڈاکٹر کا تھا اور تین ہفتوں کے لئے دستیاب تھا۔ اس کی تاریخیں ہماری تاریخوں سے مطابقت رکھتی تھی اس لئے اس نے ڈاکٹر سے تمام معاملات طے کر لئے۔ کرایہ بھی معقول تھا اور ہم نے وہ مکان تین ہفتے کے لیے لے لیا۔

         

مطلوبہ گھر لندن کے علاقے ساؤتھ کنگسٹن میں ٹیوب سٹیشن کے پاس تھا۔ اِس علاقے کی خوبصورتی یہ تھی کہ آس پاس ہریالی ہی ہریالی اور باغ تھے۔ اس گھرکے قریبی ٹیوب سٹیشن کا نام پیڈنگٹن سٹیشن تھا۔ہم نے وہاں سے ٹیکسی پکڑی جس نے ایک بہت بڑے گھر کے سامنے اتار دیا۔ اس کے سامنے شیشم کے درخت تھے۔ اس وقت اس گھر کے باہر دودھ کی ایک بوتل پڑی تھی۔ ہم دروازہ کھول کر اندر چلے گئے تو فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔

ہیلو!……میں بولا۔

کیا یہABCہے؟  ایک نوجوان بولا۔

میرا خیال ہے تم نے رانگ نمبر ڈائل کیا ہے۔

تمہارا نمبر کیا ہے؟  اس نے پوچھا۔

  4231نائٹ برج۔ میں نے جواب دیا۔

میں نے یہی نمبر ڈائل کیا ہے۔ اس نے کہا۔کیا ڈاکٹر گھر پر ہے؟  اس نے پوچھا۔

نہیں۔ آج کل وہ چھٹی پر ہے،   میں نے کہا۔

کیا میں اس کے لیے کوئی پیغام چھوڑ سکتا ہوں؟  اس نے کہا۔

کیا آپ بیمار ہیں؟

نہیں۔ ڈاکٹر کو بول دیجئے گا کہ ڈیوڈ وائٹ نے فون کیا تھا۔ وہ جو ہمسر سٹ میں رہتا ہے۔ دراصل اس کے پاس میری کہانی پچھلے چھ ماہسے پڑی ہے۔ ایک مہینہ پہلے اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کو پڑھ کر بتائے گا کہ وہ چھپ سکتی ہے یا نہیں۔ اِس دوران میں اسے چار فون کر چکا ہوں۔

ہاں۔ میں بتا دوں گا۔

اگر اسے مزید کچھ وقت درکار ہو لڑکے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ تو بھی کوئی بات نہیں۔

اوکے۔میں نے کہا۔

         

اِس گھر میں کیا ہو رہا ہے؟ میں سمجھ نہیں پایا۔میں نے اپنی بیوی سے کہا۔ میری بیوی نے سُنی ان سنی کر دی۔ وہ اس گھر کا جائزہ لینے میں لگی ہوئی تھی۔ یہ گھر بہت بڑا تھا۔ اس میں سامان بھی نفیس تھا۔ دومنزلہ مکان تھا اورایسا لگتا تھا کہ اس گھر کے باسی بہت عیش و عشرت سے رہ رہے تھے۔ نیچے بھی اور اوپر بھی کئی کئی کمرے تھے۔ ملحقہ غسل خانے اور واک ان وارڈ روب تھے۔ پہلا کمرہ بچوں کا تھا، وہ وڈیو گیمز اور قیمتی کھلونوں سے اٹا پڑا تھا۔ ہر جگہ کتابیں بے ترتیبی سے پڑی تھیں۔ فیملی روم ایک بڑے ہال کی طرح تھا۔ آدھے ہال میں خوبصورت لکڑی کی شیلف تھیں جس میں کتب ہی کتب تھیں۔ اس کے علاوہ تین بیڈ روم نیچے تھے۔ ایک کھانے کا کمرہ تھا۔ ایک بے حد وسیع کچن تھا۔ ہر کمرے میں آتش داں تھے۔ اُس کے عقب میں ایک بڑا سا صحن تھا۔  ایک طرف پھولوں کی کیاریاں تھیں اورنہانے کا تالاب تھا۔  اس کے علاوہ ایک چھوٹا تالاب  بھی تھا جس میں سنہری مچھلیاں تیر رہی تھیں اور آخر میں شیشم کا ایک درخت تھا۔


فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی اور ایک کپکپاتی ہوئی آواز آئی۔

کیا میں ڈاکٹر جونز سے بات کر سکتی ہوں؟

معاف کیجئے وہ آج کل چھٹیوں پر ہے۔

وہ کب آئے گا؟

تین ہفتوں بعد۔

میں اتنے دن انتظار نہیں کر سکتی۔ میں کل نیویار ک جا رہی ہوں۔

کیا میں تمہارا نام جان سکتا ہوں؟


میں تمہاری آواز نہیں سن پا رہی۔ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم ذرا اونچی آواز میں بولو گے؟  میں بہری ہوں اور مجھے آلہ سماعت لگا ہوا ہے۔  صرف اِس آلے کی مدد سے میں سن سکتی ہوں۔ موجودہ دور میں تو اس کا علاج دستیاب ہے لیکن میرے بچپن میں اس کا علاج نہ تھا۔


کیا تم ڈاکٹر کے لئے کوئی پیغام دینا چاہو گی؟ میں نے اونچی آواز میں پوچھا۔


میرا خیال نہیں کہ اس سے کوئی فائدہ ہوگا؟ کیا تم  میرے لیئے اس کے کمرے میں یا دفتر میں یہ دیکھ سکتے ہو کہ وہاں کہیں میری نظم پڑی ہوگی؟  اس کا عنوان  ُ  الوداع  ُ ہے۔ کیا ڈاکٹر نے وہ پروف میں ڈال دی ہے؟ میں تمہارے آنے تک فون پر رہوں گی۔  اس کو براہِ کرم جا کر دیکھو۔  میں آج نیویارک جا رہی ہوں۔ مجھے جزوقتی نوکری مل گئی ہے جہاں میں نے تخلیقی تحریر کیسے کی جاتی ہے،  کا کورس  پڑھانا ہے۔ مجھے پیسوں کی بہت ضرورت ہے۔ جاؤ دیکھو۔

انتظار کرو۔۔ میں دیکھتا ہوں،  میں نے جواب دیا۔

         

میں مکان کی اوپری منزل پر اس کے دفتر گیا۔ پورا فرش مسودات سے بھرا پڑا تھا۔ اُس کے میز پر خط و کتابت والا ایک بہت بڑا فولڈر بھی پڑا تھا۔ میز پر چند چھوٹی چھوٹی رقوم اور چھوٹی رقوم کے چیک پڑے تھے۔ وہاں سگریٹ کی دو ڈبیاں بھی پڑی تھیں۔ میں یہ دیکھ کر ڈاکٹر کا مشکور ہوا کہ اس نے ہم پر اعتماد کیا تھا اور نقدی کھلی رکھ چھوڑی تھی جسے کوئی بھی اٹھا سکتا تھا۔

         

وہاں موٹے موٹے لفافے، کمپیوٹر،  پرنٹر، کاغذ،  فون، ڈائرکٹری اور دیوار پر سینریاں لٹکائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا میزپڑا تھا جس پر آنے والی اور جانے والی ڈاک پڑی تھی؎ جس میں رسالوں کی جلدیں اور مختلف خطوط پڑے تھے۔ اُس کے ساتھ ہی اے۔ بی۔سی جریدے کی نہ بیچی جانے والی کاپیاں پڑی تھیں۔ مجھے اس کی نظم کہیں نظر نہ آئی۔

میں نے واپس آکر اسے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں اسے نہیں ڈھونڈ سکا۔


اوہ!  وہ مایوسی سے بولی۔  تو اسے کہنا آرنلڈ میسٹ نے فون کیا تھا۔ خدا حافظ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ لگتا ہے کہ ڈاکٹر کوئی رسالہ نکالتا ہے۔ اگلی صبح دروازے کی گھنٹی بجی۔ یہ ڈاکیا تھا۔اُس نے میرے ہاتھ میں بہت سے بنڈل تھما دیئے۔ یہ یورپ اور دیگر ملکوں سے آئے تھے۔ ہوائی ڈاک امریکہ اور جنوبی امریکہ سے آئی تھی۔ دو کتب بھی تھیں جو ایک پبلشر کی طرف سے تبصرے کے لئے بھیجی گئی تھیں۔ کئی چھوٹے چھوٹے ایسے رسالے بھی تھے جو صحت اور ادویات کے شعبے سے متعلق تھے۔

         

وہاں مجھے کئی معیاری جرائد وغیرہ کی کاپیاں بھی نظر آئیں جن میں حالاتِ حاضرہ اور جنگی حالات کے بارے میں تفصیلات دی گئی تھیں۔  اُن کو دیکھتے ہی مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جب میں نیا نیا ادیب بنا تھا اور اپنی تخلیقات شائع کروانے کے جتن کر رہا تھا۔ میری تحریروں کو پذیرائی نہیں مل رہی تھی۔ میرے علاوہ اور بھی بہت سے جوان لڑکے اور لڑکیاں اس دوڑ میں شامل تھے۔ ہم جرائد کے دفاتر کے بعد کسی عوامی مقام اور ریستوران میں کافی یا مشروبات پر اکٹھے ہوتے اور منصوبے بناتے کہ کامیاب کیسے ہوا جائے۔ اس دوران میرا ایک دوست بن گیاجو ناول لکھ رہا تھا۔ وہ سٹیڈیم کے قریب ہی ایک سٹوڈیو میں رہتا تھا۔ لندن کا موسم ہر دم دھندلایا سا رہتا تھا۔ ہم دونوں اپنے اپنے موضوعات پر بحث کرتے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرتے رہتیجس کے لئے تگڑی سفارش کی ضرورت تھی۔ وہ ایک لاٹری ٹکٹ کی طرح تھا۔لگ گیا تو پوبارہ ورنہ تین کانے۔ غیر مقبول جرائد کبھی کبھی ہماری کوئی چیز چھاپ بھی دیتے تھے جو امید بندھاتے تھے لیکن کوئی بڑی کامیابی نہ ملتی تھی۔

         

ان دنوں ایک پبلشر مس والٹرز ہوا کرتی تھیں جو پچاس کے پیٹے میں تھی۔ اُس کے بال سنہری تھے۔ اُس کی موٹی سی بلی تھی۔ وہ ایک ایسے رسالے کو جو اس کا پردادا چھاپا کرتا تھا، کی ایڈیٹر تھی۔ اُس نے اپنے دفتر میں مشہور شاعر کیٹس، ٹینی سناور تھامس ڈائیلن کی تصاویر لگا رکھی تھیں۔ اس نے ایک بڑے سے میز پر لکڑی کے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے خانے بنائے ہوئے تھے جیسے پوسٹ آفس میں ڈاک چھانٹنے کے لئے ہوتے ہیں۔ ان خانوں میں تازہ ترین رسالے رکھے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ میں اس کے دفتر گیا تو اس نے مجھے خوش آمدید کہا۔ میں اس کے پاس بغیر وقت لئے چلا جاتا تھا۔ جب بھی جاتا وہ ہمیشہ خوش آمدید کہتی۔


مجھے دیکھ کر کہتی تمہیں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اندر آجاؤ۔

 

اس کے بعد وہ آگے آگے چلتی اور ایک اندھیرے کمرے میں جو  ڈائننگ روم تھا،لے جاتی اور کہتی کہ اپنا کوٹ کھونٹی پر لٹکا دو۔ اس کے بعد وہ ایک گلاس میں لال رنگ کا مشروب پیش کرتی۔  اس کے بعد ایک رسالہ پڑھنے کو دیتی تھی۔  اس کے ساتھ ساتھ وہ سگریٹ پیش کرتی۔

         

میں ان دنوں ایک گمنام ادیب تھا لیکن وہ مجھے ہمیشہ عزت دیتی اور ایسا احساس دلاتی کہ میں بہت بڑا ادیب ہوں۔ اُس وقت میری کہانیاں معمولی اور غیر مقبول رسالوں میں ہی چھپتی تھیں جو کم از کم ہمیں یہ اطمینان دلاتے تھے کہ ہماری لکھائی اس طرح کی ہے کہ چھاپی جا سکے۔  پیسے تو بہت کم ملتے تھے لیکن اس سے ہمارا حوصلہ ضرور بلند ہو جاتا تھا۔

         

اُس کے بعد وہ پوچھتی کہ آج کل کس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہو؟  اس کی تفصیل بڑی دلچسپی سے سنا کرتی تھی۔ اس دوران وہ اس بات کا ضرور ذکر کرتی کہ تم ادب سے کافی پیسہ کما سکتے ہو۔ امیر ہو سکتے ہو۔ میرے دادا نے    ُ  ٹینی سن  ُ کی ایک نظم ایک ہزار پونڈ میں خریدی تھی اور جارج ایلیٹ کی مختصر کہانی کے لیے اس نے دو ہزار پونڈ دیئے تھے پھر مجھے ایک ملحقہ کمرے میں لے جاتی جہاں بہت سی کتب رکھی ہوتیں اور کہتی کہ اس میں سے کوئی بھی دو کتب پر تبصرہ لکھو اور  اگر تم یہ کتب مفت لینا چاہتے ہو تو ملاقاتیوں کی کتاب پر دستخط کرو اور اپنا پورا پتہ لکھو  پھر ان کتب کو جن پر تم نے تبصرہ کیا ہوگا، کو فلاں لائبریری کے منتظم کے پاس لے جانا  اور وہ تم سے آدھی قیمت سے خرید لے گا۔

         

میں ایک یا دو ناول یا ایک کتاب اور مختصر کہانیوں کی کتاب لینا چاہوں گا تو اس نے کہاکہ سامنے والی الماری سے کوئی چار کتب چن لو۔ یہ وہ کتب تھیں جن پر وہ تبصرہ کروانا چاہتی تھی۔ چار کتب چن کر ملاقاتی کتاب پر نام اور دستخط کردو۔ میں نے جب رجسٹرپر دستخط کئے تو میں نے دیکھا کہ اُن پر بہت سے معقول نام بھی تھے یعنی وہ بھی اپنی تبصرے والی کتب آدھی قیمت پر بیچتے تھے۔

           

         

دروازے کے عقب میں ایک جگہ ڈھیروں بھورے لفافے پھٹے اور مڑے ہوئے پڑے تھے۔ اس کے آگے تبصرہ کردہ کتب پڑی تھیں جن کی قیمت چند پاؤنڈ تھی۔ اس کے نصف سے تو ایک برگر خریدا جا سکتا تھا۔ میری ہر تحریر پر برائے نام ہی اجرت ملتی تھی۔ اوپر سے چھاپنے پراحسانوں کے انبار لگا دیئے جاتے تھے کہ یہ صرف میری حوصلہ افزائی کے لئے چھاپی گئی ہے۔

         

مسز والٹرز سے پہلے کی کتب جو دوسروں نے لکھی تھیں، بھی پڑی ہوئی تھیں۔ اس میں میں نے دیکھا کہ ناروے کے سرکاری چھاپے خانے کا ایک رسالہ بھی تھا جو سفارت خانہ چھاپتا تھا۔ وہ اس رسالے کو انگریزی زبان میں چھاپتا تھا۔ اس میں ایک ہندوستانی ادیب بھی تھا جو اپنی مختصر کہانیوں کو انگریزی زبان میں ترجمہ کروا کر ان رسالوں میں چھپوا تا تھا۔ یہ رسالے عام نوعیت کے تھے۔ میری کہانیاں ان رسالوں میں بہت پہلے چھپ چکی تھیں۔ ایک رسالے میں میں نے اپنی کہانی چھپی دیکھی،  اسے پڑھا تو اِس میں میری کہانی ہندی ناموں اور مقامات تبدیل کر کے چھاپی گئی تھی۔ 

 

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک اور پبلشرسے میری ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں  نے گپ شپ لگائی،  ادبی گفتگو کی پھر اُس نے سگریٹ سلگانے کے لیے مجھ سے ماچس مانگی۔سگریٹ سلگائی اور پھر واپس کردی۔ بعد میں جب میں نے سگریٹ جلانے کے لئے ماچس کھولی تو اُس میں  سے ایک پاؤنڈ کا مڑا ہو نوٹ نکلا۔

 

اگر کوئی ادیب کسی کتاب پر تبصرہ کرتا تو اسے اس کتاب کے مواد تک ہی محدود رہنا پڑتا۔ دوسروں کے خیالات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا ہوتا۔  اپنی مرضی سے عنوان منتخب کرنے، مواد اکٹھا کرنے کی خود مختاری ختم ہو جاتی تھی۔ پرانی یادیں ذہن میں آتی جا رہی تھیں جن کو میں نے جھٹک کر ذہن سے باہر نکالا۔

         

چھٹیوں کے دوران جب بھی موقع ملتا تو میں لکھنے لکھانے میں مصروف ہو جاتا۔ جب ذرا سا تھک جاتا تو خوبصورت مقامات کو دیکھنے نکل پڑتا۔ اس سے ایک تو تھکاوٹ دور ہو جاتی اور دوسرا یہ کہ ذہن بھی تازہ ہو جاتا۔ میں بس کی بجائے ریل پر سفر کرنا پسند کرتا کیونکہ اس میںنطارے زیادہ فطری اور بہتر ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ میری تحریروں میں پختگی آتی گئی۔ وہ کہانیاں جو عام رسالوں میں ہی چھپی تھیں۔  انہوں نے کسی حد تک میرے نام کو معروف کر دیا تھا اور اچھے رسالوں والے پبلشر میری کہانیوں کو چھاپنے لگے۔ اب مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میں روٹی روزی کمانے کے قابل ہوگیا ہوں۔ یہ عمل اگرچہ بہت سست تھا اور مجھے اس درجہ تک پہنچنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑی لیکن مجھے یہ یقین ہوگیا تھا کہ اب میں جس رسالے میں بھی چاہوں میری کہانی ضرور چھپے گی۔

 

یادوں کی بارات تھی کہ ایک کے بعد  ایک ا واقعہ یاد آتا جارہا تھا۔ اپنی حیثیت منوانا تقریباً نا ممکن تھا۔ بہت پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ ہر سال تفریح کے لئے جانا ایک پنتھ دو کاج کے مترادف تھا۔ اس دفعہ کا تفریحی مقام اور گھر منفرد تھا جسنے تفریح کے ساتھ ساتھ ادیبوں کی مشکلات بھی آشکار کر دی تھیں۔

         

بحیثیت مجموعی یہ چھٹیاں زیادہ لطف دے رہی تھیں لیکن لندن ایک ایسا شہر تھا جہاں دنیا بھر کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے یہ بین الاقوامی تجارت کا مرکز تھا۔ اِس وقت میں محسوس کر رہا تھا کہ میں ایک کامیاب شخص ہوں۔ میری کاوشیں صحیح سمت جا رہی ہیں۔ جوش و ولولہ پیدا ہو رہا تھا۔  میں مشہور ہوگیا تھا۔ لوگ میرے آٹو گراف اور انٹرویو لینے کے لئے بے قرار رہتے تھے۔

         

جمعے کا دن میرے لئے اہم ہوتا تھا۔ کسی پبلشر، ادبی محفل، ریڈیو اور ٹی وی کے اینکر وغیرہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی ملاقات طے ہو تی تھی۔  لندن میں یہ انٹرویو یا  پبلشر وغیرہ سے ملاقات کشتی میں سیر کے دوران ہوتی تھی جو بہت پسند کی جاتی تھی جس سے نہ صرف میری مشہوری ہوتی تھی بلکہ نئے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے رہتے تھے۔ آڈیو، وڈیو  اور ساؤنڈ ریکارڈنگ بھی بہتر انداز سے ہوتی تھی۔ کبھی کبھار ان سے میٹنگ کسی ہوٹل میں بھی ہو جاتی اور میرے نئے پراجیکٹ کے بارے میں پوچھا جاتا۔ بعض دفعہ اسے خریدنے کی پیشکش بھی ہوجاتی۔ بعض دفعہ وہ اپنا موضوع بتاتے اور خواہش کرتے کہ میں اس پر لکھوں۔ بعض اوقات فلم کی کہانی لکھنے کا اصرار کرتے۔ یہ بھی طے کیا جاتا کہ رقم کتنی ملے گی؟  اس کی مشہوری کیسے ہوگی؟  اخبارات، رسالوں، ریڈیو اور ٹی وی پر کس طرح کے اشتہار چلائے جائیں گے؟ اور یہ کہ میری لکھی ہوئی کتب پر کن کن مشہور ادیبوں سے تبصرے کروائے جائیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔  تمام متعلقہ امور پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔  ایڈوانس اودیگر معاملات کے بارے میں بھی طے کیا جاتا۔

         

اسی طرح کا ایک جمعہ تھا۔  مجھے ٹی وی کے لئے انٹر ویو دینا تھا اور ایک  پبلشر سے ملنا تھا۔ سب کچھ خیر اسلوبی سے طے پا گیا بلکہ پارک کی سیر کا بھی موقع مل گیا اور میں اطمینان سے واپس گھر آگیا۔ دن خوب گزرا۔ جب میں گھر پہنچا تو میری بیوی نے پوچھا کہ دن کیسا رہا؟

اوکے۔میں نے کہا۔

چڑیا گھر کی سیر کیسی رہی؟  اس نے پوچھا۔

وہ مجھے اس کے بارے میں بتانے لگی کہ اس دوران ہمیں ایک آوز سنائی دی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ آواز باہر والے دروازے سے آرہی تھی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک شخص چابی سے دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ پچاس کے لگ بھگ تھا، پستہ قامت اور موٹا تھا  جو ایک گھٹیا سابرساتی کوٹ پہنے ہوئے تھا۔

کیا ڈاکٹر اندر ہے؟  اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

نہیں۔ وہ آج کل چھٹی پر ہے،   میں نے کہا۔

اوہ! میں  ُ  سسکس  ُسے آیا ہوں۔ میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو میرے لئے سونے کی جگہ ہوتی ہے۔  وہ پڑے لکھے شخص کی آواز میں بولا۔

مجھے افسوس ہے یہ جگہ ہم نے تین ہفتوں کے لئے کرایہ پر لی ہے۔میں نے کہا۔

میں جب بھی آتا ہوں مجھے سونے کے لیے یہاں ایک بستر دیا جاتا ہے۔اس نے کہا۔

میں نے کہا۔ یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔

میرا نام جارج سمتھ ہے۔۔ABCمجھے چھاپتا ہے  اورمیں ایک شاعر ہوں۔ اس نے کہا۔


تم کیسے ہو؟ میں نے پوچھا۔ ہم دس دن بعد چلے جائیں گے۔ اندر آجاؤ اور کچھ پی لو۔

پینے کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ اس کی آخری چھپنے والی کتاب کا نام کیا تھا؟

اس نے جواب دیا کہ اس کے پاس کتاب کے لئے کافی مواد ہے اور میں نے مسودہ بھیجا ہوا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ وہ اسے کسی نامور پبلشر سے چھپوائے گا اور میں نے ابھی تک یہ نہیں سنا کہ وہ کب ایسا کرے گا؟

یہ تو اچھی بات ہے۔  میں نے کہا۔

کہیں اس نے میرا مسوہ گنوا نہ دیا ہو۔اس نے کہا۔ اوہ!  تو وہ آج کل چھٹیاں گزار رہا ہے۔

اس نے تمباکو نکالا اور اپنے اور میرے لئے سگریٹ رول کئے۔

تمہارا مسوہ کتنے عرصے سے اس کے پاس پڑا ہے؟  میں نے پوچھا۔

تقریباً پانچ مہینوں سے۔اُس نے جواب دیا۔

میں اس کو فون کرکے پوچھ لوں گا کہ اس نے تمہارے مسودے کا کیا کیا؟ یا پھر اس سے متعلق کوئی پیغام ریکارڈ کروا دو۔

کیا تم سمجھتے ہو کہ میرے لئے ایسا کرنا مناسب رہے گا؟  اس نے پوچھا۔

ہاں۔میں نے جواب دیا۔


اس کے بعد میں اس کو گھر سے باہر چھوڑنے کے لئے گیا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اس کو بس اڈے تک ہی چھوڑ آؤں جو کہ نزدیک ہی تھا۔  اس دوران ہم آپس میں باتیں کرتے گئے۔

         

تمام سڑک دھول سے اٹی پڑی تھی اور سرخ بیر فٹ پاتھ اور سڑک پر بکھرے پڑے تھے۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنی اہمیت جتانے کے لئے بتایا کہ ایک دفعہ مشہور شاعر و ادیب ٹی ایس۔ ایلیٹ نے اسے ایک خط لکھا تھا۔ اس نے اسے سالہا سال تک سنبھال کر رکھا لیکن پچھلے مہینے اس نے ٹیکساس کے مشہور جریدے کے ایڈیٹر کو پچاس ڈالر میں مجبوراً بیچ دیا۔ اس کے خط کی قیمت دیکھو مجھے  پورے پچاس ڈالر ملی،  اس نے فخریہ لہجے میں بتایا۔ مجبوری یہ تھی کہ میری بیٹی شادی کر رہی تھی اور مجھے بطور باپ اسے کوئی تحفہ تو دینا تھا ناں۔


میں نے پوچھا کہ وہ رات کہاں گزارے گا؟


ایک دو جگہیں ہیں۔ میں ہر چھ ہفتوں بعد یہاں آتا ہوں اس امید پر کہ میری کوئی تخلیق چھپ جائے گی۔ میں گیا اور سگریٹ کی ایک ڈبی اس کے لئے لے آیا اور اسے دے دی۔ بس سٹاپ آگیا تھا اور وہ بس پر بیٹھ کر چلا گیا۔


واپس گھر آیا تو بیوی نے پوچھاکہ کیا تمہیں اُسے بس اڈے تک چھوڑنا اچھا لگا؟


نہیں!میں نے جواب دیا۔ ان تعطیلات میں ایسا ہی چلتا رہا۔ ہر روز دروازے کے باہر طرح طرح کے لوگ آتے رہے۔ ان میں بھورے بالوں والی ایک خوبصورت لڑکی بھی تھی جو ادبی جرائد پر لگی ہوئی ٹکٹوں کی شوقین تھی۔ کبھی امریکی، کبھی برطانوی تو کبھی روسی ٹیچرز اور پروفیسر وغیرہ دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ گھریلو خواتین بھی آتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک خاتون کا فون آیا اور ترغیب دی کہ اگر وہ اس کی کہانی چھاپ دے تو وہ اس کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایک دفعہ آدھی رات کو کسی دور دراز علاقے سے آنے والے فون نے ہمیں جگا دیا۔  اس میں سے آواز نے کہا کہ یہ اہم فون نہیں ہے بلکہ ہم طبع خاطر کے لئے کبھی کبھی ایسا کرتے رہتے ہیں اور میری کہانیاں ABCمیں چھپتی رہتی ہیں۔

         

میں نے محسوس کیا کہ وہاں ایک دنیا آباد تھی جو اس چھوٹے سے رسالے سے منسلک تھی۔ اس پر اپنی عزت، شہرت  اور دولت کا انحصار کر رہی تھی۔ یہ دیکھ کر میں دلبرداشتہ ہوا اور اس گھر کو جتنی جلد ممکن ہو، چھوڑنا چاہتا تھا۔ میں اپنی کہانی کی رقم کے لئے کسی سے ملنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس میرے لئے چار سو پاؤنڈ تھے لیکن اس میں سے اس نے اپنا کمیشن کاٹنا تھا۔ اس نے میری ایک کہانی بیچی تھی۔ یہ اس کا معاوضہ تھا۔  وہ مجھے کھانا کھلانے کے لئے لے گیا۔ وہ اور میں اس موضوع پر بات کرتے رہے کہ آج کل پبلشروں کا کیا ریٹ چل رہا ہے؟ نظم میں کیا دیتے ہیں؟ مختصر کہانی پر کیا دیتے ہیں؟ کہانیوں پر کیا دیتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس نے بتایا کہ پبلشر نان فکشن پر آج کل زیادہ رقم ادا کر رہے ہیں۔ اس کے بعد میں ایسے ادیبوں کو مہنگے ریستورانوں اور مہنگی کلبوں میں ملا۔ میں ان سے گپ شپ میں یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ ایک ادھیڑ عمر ادیب اپنی بیوی اور اولاد کے لئے آخر میں کیا چھوڑتا ہے اور کوئی پبلشر اس کو مکان بنانے میں کتنی مدد دیتا ہے، اگر وہ دیتا ہے تو کتنی؟  اس کے بعد اس پر بھی گفتگو ہوتی رہی کہ آج کل سب سے اچھا پبلشر کون ہے جو ادیب کو سب سے زیادہ معاوضہ دیتا ہے اور کون سے جریدے شروع ہو رہے ہیں؟وغیرہ۔ ان نامور ادیبوں نے مجھے یہ تمام معلومات فراہم کیں۔

 

 ڈاک کی بھرماراور لوگ دروازہ توڑتے ہوئے پوچھتے کہ ادب کی لطیف حس کیا ہے؟  جب اس قسم کے سوالات کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی پوچھتی تو مجھے خاص نہ لگتا لیکن جب ادھیڑ عمر یا اس سے زیادہ عمر کے لوگ ایسی باتیں پوچھتے اور پاگلوں کی حد تک اپنی کہانیاں،شاعری اورناول وغیرہ چھپوانے کے لئے پوچھتے،  تو مجھے بے حد افسوس ہوتا۔ جب ان سے باتیں کر رہا ہوتا تو میں نے اپنے میں احساسِ برتری کبھی محسوس نہیں کیابلکہ مجھے احساسِ جرم ہوتا تھا کہ میں ایک کامیاب مصنف ہوں اور دوسرے لوگ  پاپڑ بیل رہے ہیں کہ کوئی جریدہ ان کو چھاپے۔

         

اس دوران میری بیوی اور بچے اس شہر سے لطف اندوز ہونے لگے۔  وہ البرٹ میوزم گئے اور وکٹوریہ قومی گیلری گھومتے پھرتے رہے۔   واپسی پر وہاں کے پوسٹ کارڈ لے آتے جو بعد میں وہ اپنے دوستوں کو ارسال کر دیتے۔  وہ کئی پارٹیوں میں بھی گئے۔  کھیلنے کے لئے بھی مختلف میدانوں میں گئے۔  رچمنڈ پارک میں بھی ایک دن گزارا۔ شاہی محل کی عدالت بھی گئے اور دریائے تھیمز میں کشتی رانی بھی کی۔

         

جب واپسی کا وقت آیا تو وہ واپس نہیں جانا چاہتے تھے۔جبکہ میں فوری طور ر واپس جانا چاہتا تھا۔

         

میں شروعات کی جستجو سے گزر چکا تھا اور میں اس سے دور بھاگنا چاہتا تھا اس لئے کہ میں بھی ان جوانوں کی طرح رہا تھا اور اتنی ہی محنت کرکے اپنی کہانی چھپوائی تھی۔ وہ واقعات میرا ماضی یاد کروا رہے تھے۔ میرے ساتھ بہت زیادہ وعدے کئے گئے تھے لیکن بہت کم ایفا ہوئے تھے۔ اس وقت مجھ پر ظاہر ہوا کہ اقتصادی طور پر ہم جیسے لوگوں کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ یہ ادیبوں کے لئے عالم برزخ ہے جو جنت اور دوزخ کی درمیانی جگہ میں رہتے ہیں۔  یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میں اس پیشے سے منسلک تھا۔ 


ہم واپس جانےکیتیاری پکڑ رہے تھے کہ ایک لڑکی کا فون آیا۔   میں نے اسے کہا کہ ڈاکٹر گھر پر نہیں وہ چھٹی منانے گیا ہے وہ آج واپس آجائے گا اس لئے شام کو اس سے پوچھ لے۔

کس وقت؟

نو بجے کے بعد۔ میں نے کہا۔

کیا تم نے میری کہانی پڑھی ہے؟  تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے؟  اس نے پوچھا۔

ہم نے یہ گھر کرایہ پر لیا تھا۔ ہم یہاں چھٹیاں گزارنے آئے تھے۔ میں نے جواب دیا۔

اوہ! تو تم ہم میں سے نہیں ہو۔اس نے کہا۔

نہیں۔میں نے جواب دیا۔

اس وقت ٹیکسی آگئی اور ہم نے اپنا سامان اس میں ڈالا اور نکل پڑے۔

 

 



 Albert Norman Levine (1923 - 2005)

 Poland



حالات زندگی


 

البرٹ نارمن لوین  1923کو پولینڈ کے شہر   ُ  منسک  ُ  میں پیدا ہوا۔ وہ نثرو نظم کو جامع اندازمیں بیان کرنے والا ادیب شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا یہودی خاندان جان و مال کے خوف سے کینیڈا کا رنوال (اونٹاریو) منتقل ہوگیا۔ وہ بالغ ہوا تو رائل فورس کا پائلٹ بن گیا۔  جنگ عظیم دؤم کے بعد اس نے ایک انگریز خاتون مارگریٹ سے شادی کر لی اور انگلینڈ منتقل ہوگیا،  اس میں اسے تین بچے ہوئے۔ ان دنوں شدید مندی کی بدولت اسے بھی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا جس کی عکاسی اس کی تحریروں میں بھی ہوتی ہے۔ پہلی بیوی کو طلاق دینے کے  بعد وہ دوبارہ کینیڈا منتقل ہوگیا اور اس نے دوسری شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ فرانس چلا گیا۔ وہاں سے پھر انگلینڈ چلا گیا اور وہاں فوت ہوا۔ اس نے ناول، نثر نگاری، شاعری اور غیر افسانوی کتب لکھیں۔ اس کی اہم تصانیف میں مختصر کہانیوں کی کتب

 One Way Ticket(1961)

(1979) Thin Ice

    Champagne Born (1984)

       The Beat and the Still (1990) 

                     

Something Happened Here(1991)

                            The Agility to Forget  (2005)


           اور  اس کے ناولوں میں

 

٭      The Angeled Road (1952)             ٭      The Sea Side Town (1970)


           شاعری میں

 


٭      Myssium (1948)                             ٭      The Tight Rope Walker (1950)

          Walk by the Harbour (1976) ٭



 

 

Popular posts from this blog