ظاہر The Zahir Taken from ‘The Aleph’ Book By Jorge Luis Borges Al۔Zahir ( Dominus Version)

 


A poster with text and images

Description automatically generated

ظاہر

 The Zahir

Taken from  ‘The  Aleph’  Book

By

Jorge Luis   Borges

Al۔Zahir    ( Dominus Version)

 

مترجم : غلام  محی الدین

ظاہر'ایک ایسے شخص کا قصہ ہے جس  کا راوی  مؤرخ  ڈومس  ہے   ۔اس نے ایک کرشمہ ساز شخص  جس کا نام'ظاہر' تھا   کا ذکر کیا ہے جو  اپنی خدادا د صلاحیتوں کے باعث    کسی  سوتے شخص  کے ذہن  میں  کوئی بات ڈال دیتا تو وہ   بیدار ہونے کے بعد اس کی  دی گئی ہدایات  پر من و عن  عمل کرتا۔ اس کا سب سے کم  معجزہ  کسی کے ذہن میں  وہم        ڈالنا تھا۔اگر ایسا ہو جاتا تووہ شخص عمر بھر اس شئے کے بارے میں وسوسوں میں مبتلا رہتا۔وہ   خیال  اس کے ذہن پر مسلّط ہوجاتا اور اس    تجویز  اور ہدایات پر جو اسے سوتے میں  دی گئی ہوتیں   پر  من و عن عمل کرتا۔ڈومس  کو  ' ظاہر' کے بارے میں  ارجنٹینا کے نوبل  انعام یافتہ  ادیب   جارج  لوئس  بورجس نے  اس وقت بتایا جب وہ  اس  سے  بیونس ائرز  میں ملا تھا۔

بورجس  نے ایک  کرنسی  سکے  کا ذکر کیا  جس پر 1930  میں جاری کیے گئے اس سکے پر الٹی  تریب سے نمبر کندہ تھے۔ اس سکے پر معمول کے حروف  ' 2 ٹی این' کی بجائے ' این ٹی 2' تحریر تھے۔اس سکے کی مالیت دس سینٹ کے مساوی تھی۔بورجس نے بتایا کہ  وہ سکہ جس کسی کی مالیت میں ہوتا، اس پر آلائشیں  ُٹوٹ پڑتیں۔اس لیے مالک اس سکے سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا اور اسے آگے چلادیتا

یا پھینک  دیتا یا ضائع کردیتا۔اس سکے  سے متعلق 'ظاہر'نے یہ  وہم منسلک کیا ہوا تھا کہ جس کسی کے پاس بھی وہ دس سینٹ کا سکہ جائے گا وہ ہمیشہ اس سکے سے متعلق ہی سوچتارہےگا۔اس کی شخصیت مسخ ہو جائے گی اور اس کے علاوہ کوئی اور شئے سوچنے کےقابل نہیں رہے گا۔اس کی صلاحیتیں  اس وسوسے میں ڈوبی رہیں گی۔وہ اس کے بارے میں باتیں کرتا رہتا۔ اس کے علاوہ اسے کچھ اور نہ سجھائی دیتا۔اس کی زندگی عذاب  بن جاتی۔

میں  نے اس کے اس انکشاف پر یقین نہ کیا تو بورجس نے کہا کہ وہ اس بات کا ثبوت  مجھے ملنے پر دے گا۔

'ڈومس  نے یہ کہانی   فعل کے پہلے درجے میں بیان کی ہے۔'میں   کیوبا سے ارگوائے پہنچ  کر دخانی کشتی  سے گنی اور پھر  بیروٹس تک پہنچا تو میری جیب  خالی ہوچکی تھی لیکن میں  فرے کی لائبریری کے منتظم سے اہم امور میں پھنسا ہواتھا اور توقع کررہاتھا کہ بورجس وہاں آ کر نہ صرف میری مدد کرے گا بلکہ مجھے اپنے ساتھ ارجنٹائن لے جائے گا لیکن وہ اس وقت اپنے شہر ارجنٹینا سے   کسی اور شہر میں کسی ضروری کام کے سلسلے میں گیاہواتھا اور پندہ دن سے پہلے  واپس نہیں آسکتا تھا۔ ۔اس شخص کا نام  فیونز آئیرینی یو تھا ۔ مجھے ہرحال میں دو ہفتےاس کے چھوٹے گاؤں کی چھوٹی سی ُکٹیا میں گزارنے اس نے مجھے  کہا کہ عبوری عرصے میں اپنا کوئی انتظام کر لوں ۔ وہ چھوٹا سا گاؤں تھا ۔ اتفاق سے ایک معذور شخص  کی آیا پندرہ دن کی چھٹی پر جا رہی  تھی اور اسے ملازم چاہیئے تھا۔ اس نے مجھے مفت میں رکھ  لیا۔اس کی ایک چھوٹی سی کٹیا تھا ۔اس کے عوض  میں اس کی مدد کرتارہا۔اس کی کٹیا  صاف کرتا رہا ۔اس کا کھانا پکاتا ۔ اسے وقت پر  ادویات کھلاتا رہا ۔اور بچی کھچی  خوراک   کھا کر  ایک کونے میں سوتارہا۔

وہ معذور شخص بڑا زود رنج تھا۔بہت کم بولتاتھااور جو بات کرتاتھا،اس میں کوئی ٹھوس بات نہ ہوتی تھی۔وہ کسی ایک شئے کو گھنٹوں  گھورتا رہتا ۔اس کا ایک پیر حادثے کی وجہ سے کٹ گیاتھا۔ اپنے گھٹنے میں تکیہ لیے ہاتھ کٹیا کی دیوار کے اکھڑے ہوئےپلستر             اور  شگاف  پر ٹکائے رکھتا۔ وہ تپ دق کی آخری منزل پرتھا۔ بیماری  اور حادثے نے اسے بے بس کر دیا تھا۔اس کا حافظہ صحیح تھا لیکن اس کے ذہن میں امتیازی یادداشتیں تھیں ۔۔ ایک دفعہ میں نے اسے پتوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے سناتو مجھے محسوس ہوا کہ وہ ماضی کو یا دکررہاتھا۔وہ  ایک  ایک پتے کواپنے ذہن میں  لا کر ان کی   پوری تفصیل  بتا  رہا  تھا۔اشیاء کا موازنہ کررہاتھا۔ اس وقت پھوہار پڑرہی تھی تو اسےشاید  اپنے بچپن کا کوئی  واقعہ یاد آگیاتھا جس میں  ایک پتہ پھوہار سے گیلا ہو گیا تھا۔وہ اس منظر کا موجودہ منظر سے موازنہ کرنے لگا۔اس وقت  اس نے ایک مکھی  کی بات کی ۔ میں  نےکمرے کا پورا جائزہ لیا تو کوئی مکھی نظر نہ آئی تو میں نے سوچاکہ ہوسکتا ہے کہ اس نے کوئی مکھی دیکھ لی ہو جو میری نظر میں نہیں آئی تھی ۔اس کی بے تکی باتوں کا وزن میرے ذہن پر بھی پڑنے لگا۔ اس کی عادت  عجیب و غریب تھیں ۔وہ اپنی کٹی کی ایک دیوار  میں ایک تختہ لگا ہوا تھا جس کی اونچائی اور چوڑائ چھےچھےانچ تھی۔ اس کا ہینڈل بہت چھوٹا تھا جو کند فولاد سے بنا ہوتا تھا۔  ۔جہاں   میں نے  مصالحے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔انہیں میں  فیونز کی خوراک میں استعمال کرتاتھا۔ان میں  ایک ڈبی کالی مرچوں  کی تھی جومزیدار چٹنی بنانے میں استعمال ہوتی تھی۔اس ڈبی کے لیے وہ ہمیشہ پریشان رہتا تھااور اسپ سوالات کرتا رہتا۔اس نے مجھے ا س کے بارے میں پوچھا تو میرا ذہن فوراً اس برتن کی طرف چلا گیا جس کے نزدیک وہ پڑا ہوتاتھا لیکن اس بار اس کالی مرچ کی ڈبی وہاں نہ تھی  ۔ اگر وہ وہاں نہ ہوتی تو  وہ  سرسوں کی بوتل کے پاس پڑی  ہوتی تھی   اور میں  بے سوچے سمجھے میکانکی انداز میں ہاتھ بڑھا کر اٹھا لیا کرتا تھا۔لیکن اس بار وہ نظر نہ آئی ۔مجھے یاد نہ آیا کہ وہ کہاں رکھی تھی۔میں اسے ڈھونڈنے لگا۔ مجھے خیال آیا کہ شاید وہ ختم ہو گئی تھی۔وہ ضرورت بلا ضروت اسے مجھ سے منگواتا، ڈبی پر اس کا لیبل پڑھتا ۔ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتااور بغیر استعمال کیے واپس رکھوادیتا۔اس کی اس قسم کی فضول حرکات کی وجہ سے میں  ایک ہفتے میں ہی اکتا گیا۔ایک بار اس نے کالی مرچ کی ڈبی منگوائی تو مجھے نہ ملی اور ایسے واقعات تین بار پیش آئے تو میں گھبرا گیا۔ایسا ایک بار اور میرے ساتھ بھی ہوا۔ایک بار مجھے کالی مرچوں کی ضرورت پیش آئی ۔میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ وہ کہاں پڑی تھی۔ تو میں اس کی تلاش   میں ناکام رہا۔مجھے  یاد نہ رہاتھا کہ  وہ کہاں رکھی تھی ۔ ابھی موجود تھی یاختم ہوگئی تھی۔اب تو فیونز    میرے اعصاب پر سوار ہو گیا تھا۔ اس سے میری یادداشت متأثر ہوگئی تھی۔ایک بار اس نے کالی مرچ مانگی تو اس وقت میں اس کا کھانا تیارکررہاتھا۔میں ڈھونڈنے کگ گیاتوکچھ دیر ہوگئی اور کھاناجل گیا۔فیونز نے اسے بہانہ بنا لر میری بے عزتی کردی۔مجھے بھولنے کی عادت  سی ہوگئی۔ میں ڈبے کھول کھول کر دیکھنے اور انہیں ترتیب سے رکھتالیکن ضرورت پڑنے پر نہ ملتی۔میں پریشان رہنے لگا۔میں اگرچہ خود بھی  بھولنے لگاتھا لیکن دوسروں  کے حافظے کی کمزوری  معاف نہ کرسکتا تھا۔ایک بار اس نے کالی مرچ کی ڈبی مانگی تو حسب معمول میں خانے کھول کھول کر اسے تلاش کرنے لگا ۔جب وہ میرے ہاتھ لگی تو میں اسے دیتے ہوئے کہا کہ یہ لو ڈبی۔۔۔کون سی ڈبی؟ اس نے پوچھا ۔ میں نے کہا۔پسی  ہوئی  کالی مرچ ک بھورے رنگ کی ڈبی۔ تو اس نے کہا کہ میں  نے تو نہیں منگوائی تھی۔

ایک بار اس نے فیونز نے کالی مرچ کی ڈبی منگوائی ۔جب میں ڈھونڈ کر اس کے پاس گیا تو وہ سورہاتھا۔  گھنٹے بعد جاگا تو اس نے پھر ڈبی مانگی۔ میں نے اسے دی تو اس نے کہا کہ یہ میری نہیں ہے بلکہ یہ ماریا کی ہے۔میں نے کہا کہ میں جب سے یہاں آیا ہوں ، میں نے یہی اس نے دیکھا اور کہا کہ مجھے اس کے اجزا ء پڑھ کر سناؤ۔فیونز نے  ڈبی کواپنے ہاتھ میں پکڑا،اس پرلکھی ہوئی ایک ایک چیز پڑھی ۔

گھماکر دیکھا اور ہر شئے غور سے دیکھ کر کہاکہ اس گھر میں یہ  میں نے  تو یہ شیشی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔مجھے تو یاد نہیں کہ  میرے  ہ

 پہلے کبھی تھی ہی نہیں ۔اس کے بارے میں مجھے مزید بتاؤ اور وہ پھر بستر پرلیٹ گیااور چپ سادھ لی۔مجھے اس نے پوری  شام پوری رکھا۔وہ خود بھی مضطرب رہا اور رات کوسونے سے پہلے وہ کچھ بھی نہ بولا۔ آدھی رات میں نیند سے بیدار ہوا۔اس وقت فیونزبے سدھ پیٹ کے بل  ابتر حالت میں لیٹا ہواتھا۔وہ صورت ایمرجنسی کی حالت ہوتی تھی جسے دیکھ کر میں خوفزدہ ہوجایا کرتا تھا۔یہ رات بھی خطرناک رات تھی۔ وہ بستر سے بڑی مشکل سے اٹھا اور آہستہ آہستہ چل کر میرے  پاس  اپنی لنگڑی ٹانگ کا توازن قائم کرتے ہوئے  میرے پاس آیا  اور کہا 'ڈومی نس مجھے کالی مرچ کی ڈبی دو۔' مجھے  یہ فکر تھی کہ  کہیں وہ گر نہ جائے اور کوئی خطرناک حادثہ نہ ہوجائے۔میں چاہتا تھا کہ اسے واپس اس کے بستر پر بھیجوں ۔مجھے بھی یاد نہ تھی  کہ وہ کہاں پڑی تھی لیکن  میں نے جلدی سے ادھر ادھر دیکھ کر ڈبی اس کی آنکھوں کے آگے کردی اور کہا کہ اپنے بستر پر جاکر لیٹ جائے ۔فونز نےوحشیانہ طور پر وہ ڈبی اپنی آنکھوں کے سامنے کی ۔اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔اس نے اس کا معائنہ شروع کر دیااور پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ میں نے اسے بتایا تو اس نے کہا کہ میں نے ایسی ڈبی تو کبھی دیکھی ہی نہیں ۔

اگلی رات بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔میں ڈبی تلاش کرنے لگا۔ میں  نے  سہ پہر کو جہاں رکھی تھی ، وہاں نہ تھی۔وہ بستر سے اٹھااور شدید درد سے کراہتے ہوئے چلا کر پوچھا 'وہ جگہ بتاؤ جہاں وہ رکھی تھی۔'میں اس وقت اس تختے کے پاس تھا جہاں مصالحہ جات پڑے تھے اور کہا 'تم نے اسے آج سہ پہردیکھاتھا۔'میں نے اسے یادکرایا۔ ۔وہ مجھ پرجھکا اوراس الماری کا معائنہ کرنےلگا ،اور پھر ،وہ  اپنے ناخن کاٹتےہوئے مطمئن ہوکر اپنے بستر پر چلاگیااور سگریٹ نوشی کرنے لگا اور رات بھر سگریٹ پیتارہا ۔صبح اس کی چارپائی کے نزدیک   فرش پر راکھ کا ڈھیر پڑا تھا۔ فیونز سو کر اٹھا تو سگریٹوں کی راکھ دیکھ  کر جوش میں آگیا اور دن بھر بے چین رہا ۔ رات کو بالکل نہ  سو سکا ۔وہ بڑبڑاتے ہوئے کہہ رہاتھا ' نمک دانی' لہسن کی ُتری  ،  چٹنی ، چودہ مری  ہوئی مکھیاں  اور مصالحوں کی ڈبیوں کو دیکھ کر بڑبڑاتا رہا۔اس نے جب دیکھا کہ میں بھی جاگ رہاہوں تو اس نے کہا کہ کالی مرچوں کی ڈبی غائب ہے۔میں اٹھ کر الماری کے پاس گیااورہر مصالحے کی ہر ڈبی  اٹھا کر اس کا نام بتانے لگا ۔ جب میرے ہاتھ کالی مرچ کی ڈبی آئی تو میں نے اونچی آواز میں  پڑھ کر اسے بتایا تو وہ حیران رہ گیا اور خوش ہوگیا۔ میں نے وہ ڈبی اس کے تکیے کے نیچے رکھ دی کہ اسے جب اس کی ضرورت ہو تو تکیے کے نیچے سے نکال لے۔اور حفظ ماتقدم کے طور پر  بغیر شور کیے پنجوں کے بل اس کا کھانا بھی بستر کے پاس رکھ دیا۔وہ جاگ گیا اور غور سے کھانے کو دیکھا ۔میں سوگیا۔ جب میں سو کر اٹھا تو فیونز کو عجیب و غریب حالت میں دیکھا ۔وہ کسی شئے کو نہیں پہنچان رہاتھا۔وہ بے حد اضطرابی حالت میں کالی مرچ کی ڈبی پکار رہاتھا ۔ میں نے تکیے کے نیچے سے نکال کر اسے دی۔ میں فیونز کے اس رویے سے تنگ آگیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس کی آیا ماریا سے مشورہ کروں کہ  اس صورت حال  کا مقابلہ کیسے کروں۔ اس نے مشورہ دیا کہ  کوئی ایسی تدبیر اپناؤ جس سے ڈبی اس کے سامنے رہے۔رات کو سویا تو آدھی رات کو  کالی مرچ کی ڈبی کہہ کر چلانے لگا ۔ میں  نے اس ڈبی کو  چھت  کے ساتھ رسی سے  باندھ کر اسے ایسے لٹکادیا  کہ  جب وہ آنکھ  کھولے  تو  وہ ڈبی عین اس کی آنکھوں کے سامنے  رہے  اور اسے  کالی مرچوں کی ڈبی کی طلب  ختم ہو۔

 پسی ہوئی کالی مرچیں اسے دکھائی نہ دیتیں  لیکن  وہ اندھیرے میں اٹھ بیٹھتا تو اس کے چہرے کے سامنے چھت سے لٹکی ہوئی   پسی مرچیں اسے نظر نہ آتیں ۔وہ خود  کلامی کرتا رہتا ، بڑبڑاتا رہ لیکن  پرامن رہتا۔ بتی جلانے پر وہ اسے نظر آجاتی تو وہ خاموش ہو جاتا اور سکون سے سوجاتا۔ اس سے میری نیند گڑبڑ تو  ہوجاتی لیکن  میں مطمئن  تھا اور کچھ کروٹیں لینے کے بعد میں بھی سوجاتا۔اس طرح مجھے راحت ملنے لگی۔میں صبح کی تازہ ہوا لینے لگا۔ ارد گرد کے لوگوں سے بات چیت کرنے لگا لیکن میں فیونز کی کٹیا میں واپس جاتے ہوئے پریشانی کا شکار ہوجایا کرتا تھا۔اس کا کھانا بناتے ہوئے میں  اضطرابی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔اب فیونز  عجیب عجیب  زبانوں میں بولنے لگا تھا۔ میں بھی کافہ زبانیں جانتا ہوں لیکن اس کی گفتگو میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔لگتا تھا کہ وہ عجیب زبانوں میں کالی مرچوں کی ڈبی مانگ رہا ہوتا تھا۔آخر کار پندرہ دن بعد بورجس آگیا اور میری جان فیونز سے  چھوٹ گئی ۔میں اس کے ساتھ بیونس ایرز

میں چلاگیا۔اب میں بورجس کا وہ قصہ سننا چاہتا تھا جو اس نے الٹے نمبروں والے دس سینٹ کے بارے میں بتایا تھا۔

اگلی قسط میں وہ پیش کی جائے گی۔

 xxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxx


Popular posts from this blog