ا بن سینا ( حالت زندگی اور نور نفسیا ت میں کردار

 





پہلی قسط

 


   ابن سینا (بو علی سینا)ایک   ماہر نفسیات

(Avicenna)

1037-980

Bokhara

                                                                                                                                                                            

 

تحقیق                          :                    غلام محی الدین

 

حالات  زندگی 

 

   ان کا عربی نام بوعلی سینا تھا۔ اصلی نام ابو علی الحسین ابن عبداللد ابن سینا تھا لیکن ابن سینا کے نام سے مشہور تھے َ۔وہ ازبکستان کےشہر بخارا کے نواحی گاؤں 'افشانا    ' میں پیدا ہوئے ۔  ان کے والد اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے  اور  بلخ سے تھے جو آج کل افغانستان میں شامل ہے۔ان کی والدہ کام  'ستارہ '              تھا ۔ وہ افشانا میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔         ابن سینا کو مطالعے    کا شوق تھا۔ان کا حافظہ تیز تھا جو بھی پڑھتے تھے یاد ہو جاتا تھا۔ وہ ہر موضوع پر پڑھتے تھے۔  ان کی عمر اس وقت سات سال کےقریب تھی تو وہ ایک بلی اپنی والدہ کے پاس لے کر آئے اور بتایا کہ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہےاور وہ اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ والدہ نے پوچھا کہ وہ کیسے اس کا علاج کر سکتا ہے۔یہ تو خالص تکنیکی کام ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پچھلے سال ایک ہمسائے کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی تو بابا اسے ایک جراح کے پاس لے گئے تھےجس نے ٹوٹی ہڈی سیدھی کرکے لکڑیاں اوپر رکھ کر پٹی باندھ دی تھی اور اس کی ٹانگ جڑ گئی تھی۔ انہوں نے اس بلی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اور وہ ٹھیک ہو گئی۔ اس کی ذہانت اور شوق کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے فیصلہ کیا کہ وہ بخارا منتقل ہو جائیں جوتہذیب و تمدن، تقافت، تعلیمی سرگرمیوں، سماجیات۔ معاشریات اور صنعت و حرفت میں اقوام عالم سے بہت آگے تھا ۔ انہوں نے فقہ، شریعہ، ریاضی فلسفہ اور منطق کی  ابتدائی تعلیم ایک حنفی عالم  '  النائلی 'سے حاصل کی اور چند سالوں میں ان کے پائے کے عالم بن گئے۔دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کیااور حنفی فقہ کے عالم بن گئے۔ فطری صلاحیت کی بدولت جزوی رہنمائی سے انہوں نے نوعمری میں ہی ارسطو، افلاطون، یورپی طبی ماہرین کی  اوریورپی مفکر' گیلن      ٌ کی تعلیمات جو اس دورمیں طبی علوم کامصنف اورمستند معالج تھا ، کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کر لیا۔اس کے بعد وہ حصول علم کی خاطر بغداد چلے آئے جہاں وہ الفارابی کے شاگرد بن گئے۔ ان سے انہوں نے مابعد از طبیعیات  ، فلسفہ ، منطق کی تعلیم حاصل کی۔اس وقت ان کی عمر تقریباً تیرہ سال تھی۔انہوں نے  طب میں دلچسپی ظاہر کی تو الفارابی نے انہیں اپنے ایک  دوست یوحنا      بن      حیان کے پاس بھیج دیا جو ایک نامور طبیب تھے۔ان سے انہوں نے باقاعدگی سے طب کی تعلیم حاصل کر لی۔ ذاتی دلچسپی اور خدا داد ذہانت کی وجہ سے وہ تین سال میں ہی طبیب بن گئے۔ سولہ سال کی عمر میں حکیم حاذق کی ' سندفضیلت 'حاصل کر لی۔ انہوں نے اپنے طور پر دنیائے عالم کے فیلسوف کو پڑھ کراور متعلقہ شعبوں کے اساتذہ سے بحث مباحثہ میں فزکس، ریاضی اور دیگر فطری علوم ، فلکیات ،کیمیا، انسان الحیات ، اجزا کی نفسیات ،فلسفہ، منطق اور غیر مادی، سماوی اور ما بعد از طبیعیات علوم ( میٹا فزکس) میں ٰیکتائی حاصل کر لی۔انہوں نے شاعری بھی کی۔ اپنی فطانت کی بدولت  انہوں نے اپنے طب کا لوہا منوا لیا۔ انہوں نے شہرہ آفاق معالج گیلن کے طریقہ علاج میں ترامیم کر کے علاج معالجہ میں اپنے طریقے متعارف کروائے جوبہت کامیاب رہے۔انہوں  نے طب کی پریکٹس شروع کر دی ۔ ان کے ہاتھ میں شفا تھی۔ وہ روز بروز مقبول سے مقبول تر ہوتے چلے گئے۔ان کی مشہوری کو بہ کوبہ پھیلنے لگی۔

 بخارا کا شاہی کتب خانہ اس دور میں دنیا کا عظیم کتب خانہ تھا جہاں دنیا بھر کی نادر کتب بادشاہ نے جمع کی ہوئی تھیں۔ہر علم کے پیاسے کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ان سے استفادہ حاصل کرے۔ اس زمانے میں  کتب خانوں سے کتب کوئی قاری کتب خانے میں بیٹھ کر ہی پڑھ سکتا تھا۔ صرف سرکاری پرستی والے علما اور فقہا کوہی کتب خانے کے مالک جوصاحب ثروت یا بادشاہ  ہوا کرتے تھے ، کی اجازت  سے لائبریری استعمال کرنے کی اجازت  ہوا کرتی تھی۔  کتاب کو  ہو بہو نقل کرنے کی  اجازت نہیں تھی۔ کتب قلمی ہوتی تھیں اور وزنی ہو تی تھیں۔ ہر کتاب کا ایک ایک نسخہ ہی کتب خانے میں پایا جاتا تھا اس لئے ان کی حفاظت کی جاتی تھی ۔ 1500عیسوی سے پہلے  پرنٹنگ پریس نہیں ہو اکرتی تھیں ۔ کتاب کسی ایک ہی  کی ملکیت ہوتی تھیں۔صاحب ثروت اورعلم کے شوقین امرا اور بادشاہ علما سے کتب لکھوا کر اپنی لائبریری کا حصہ بنا لیتے تھے  یا جب کوئی بادشاہ فتح حاصل کرتا تو زیورات، ہیرے جواہرات اور مال غنیمت کے ساتھ کتب خانے سے کتب بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ان کی خواہش تھی کہ وہ بخارا کی شاہی  کتب خانے سے استفادہ حاصل کرے لیکن کوئی بن نہیں پا رہی تھی۔ان کے پاس بادشاہ تک رسائی کا وسیلہ نہیں تھا۔

اتفاق کی بات ہے کہ بخارا کابادشاہ پیٹ کے درد میں مبتلا تھا۔ شاہی اطبا کے علاج معالجے سے وہ وقتی طور پر صحت یاب ہو جاتا لیکن چند دنوں بعد مرض لوٹ آیا تھا۔ ایک دفعہ اس کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو شاہ نے اعلان کیا کہ جو ا س کو صحت یاب کر دے گا اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ان دنوں ابن سینا نے طب خانہ کھول رکھا تھا۔ خدا ترس تھے۔ غریبوں کا مفت علاج کرتے تھے۔یہاں تک رہائش، طعام اورادویات بھی اپنی طرف سےایسے لوگوںکوفراہم کرتے تھے۔  ان کی طب میں جنون کی حد تک دلچسپی اور کامیاب  علاج کے قصے جب بخارا کے بادشاہ نوح ابن منصور پہنچے تو اس نے انہیں اپنے علاج کے لئے بلو ا بھیجا۔ ابن سینانے بادشاہ کا علاج کامیابی سے کیا تو اس نےان سے پوچھا کہ انعام میں کیا چاہتا ہےتو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ انہیں شاہی کتب خانہ استعمال کرنے کی اجا زت دی جائے۔انعام کے طور پر بادشاہ نے انہیں ایک سال کے لئےشاہی کتب خانے کا مہتمم بنا دیا۔ ابن سینا نے اس لائبریری کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔  کتب خانے کے اوقات کار کے بعد کچھ کتب گھر لے جاتے اور رات بھر میں پڑھ کر ان کے نوٹس بنا لیتے۔ صرف ضروری نیند،کھانے یا  ضروری حاجت کے لئے ہی  وقفہ کرتے تھے۔ ایک سال میں انہوں ماسوائے ریاضی کی کچھ کتب کے باقی سب کتابیں پڑھ کرتمام کتب حفظ کر لیں۔ وہ مکمل عالم بن گئے۔ اس دوران انہوں نےاپنی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے لکھنا بھی شروع کر دیا ۔ انہوں نے علما ومشائخ اور شاہی اکابرین سے بھی جان پہچان بنا ڈالی ۔شاہی دربار اور امور سے متعلق واقفیت حاصل کر لی۔ براہ راست مشاہدے اوربحث و مباحثے سے اپنی معلومات میں اضافہ کر لیا۔

   ایک سال بعد وہ بادشاہ نوح ابن منصور کے پاس گئے اور اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ حیران ہوا اور کہا کہ وہ اسے  اور بڑے عہدے پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ ابن سینا نے بتایا کہ اس نے کتب خانے کی تقریباً تمام کتب  حفظ  کر لی ہیں  اور اب وہ  مزید علم حاصل کرنے اور اپنے علم کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے        دیگر     مقامات جانا چاہتے ہیں ۔بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی۔آئے ۔وہ بغداد چلے آئےاورمختلف ممالک کے علما  کی تعلیمات سے اپنے علوم میں اضافہ کیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جب مسلمانوں کی سلطنت روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہی تھی ۔     اس عرصے میں ان کی طب  اور علاج معالجے کے طریقے د وسرے ممالک میں بھی مقبولیت حاصل کر گئے ۔

ابن سینا نے فلسفے میں بھی نام کمایا۔ ان کے فلسفے کے اہم موضوعات نفسیا ت ، خدا، انسانی وجود، کائنات کی تخلیق  تھے۔ وہ سنجیدگی سے ماورائی معاملات پر غور و خوض کر رہے تھے۔ روح اور جسم کے علمی تنازعے میں  یونانی فلسفہ چھایا ہوا تھا جو مذہب  اسلام کےبر عکس تھا۔  یورپی اور اسلامی ریاستوں میں مذہب کو      سیاست میں استعمال کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔  ان کی فلسفے اور منطقی گرفت نے یونانی فلسفے  کواسلامی  قالب میں ڈھالنے کی کو شش کی۔ دوسری طرف  ابن رشد بھی ارسطو کے فلسفے کی شقوں کو دین اسلام میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے تھے۔ابن سینا ارسطو کا استاد اول سمجھتے تھے۔ وہ اس کے ملحدانہ پہلوؤں  پر نکتہ چینی کرنے اور مسلم فقہ کی ترویج میں سرگرم رہے۔  یوں تو  وہ بہت سے علما سے فیضیاب ہوئے  لیکن منطق اور ما بعد از طبیعیات میں وہ   دوسرا استاد وہ الفارابی کو مانتے تھے۔

وہ جید عالم تھے۔ ان کی طب اور فلسفے  پر تخلیقات نے نئے موضوعا  ت متعارف کروائے۔ ان کی مادری زبان اگرچہ فارسی تھی لیکن انہوں نے زیادہ تر عربی زبان میں لکھا کیونکہ قرون وسطیٰ کی علمی،ادبی اور سائنسی زبان  عربی تھی۔ علما کے  مطابق ان کی تصانیف کی تعداد 270 سے 500 کے قریب  تھی۔  جن میں زیادہ تر حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں کھو گئیں۔ طب پر لکھی کتب میں صرف چالیس کا سراغ مل سکا۔  ان کی   طب پر کتاب  ' کینن آف  میڈیسن '       میڈیکل یونیورسٹیوں میں صدیوں تک درسی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔ اس کتاب  کے تھوڑےعرصے میں کم از کم 60  ایڈیشن چھپے۔       1715تک پڑھائی جاتی رہیں ، ا ن کی کتاب کینن آف میڈیسن کو طب کی انجیل بھی کہا  جاتا ہے۔

ا بن سینا نے آیو ویدک، عربی اور فارسی کی طب اور فلسفے کو ناقدانہ انداز میں پڑھا اور نئی تراکیب متعارف کروائیں۔ اس طرح وہ نظام جو صدیوں سے رائج تھا اور اس میں ترقی نہیں ہو پارہی تھی، کو اپنی علم و دانش، تجربے اور بصیرت سے تر امیم و اضافہ کر کے اپنا نظام متعارف کروایا  جو صحیح ثابت ہوا اور معالج اس سے استفادہ حاصل کرتے رہےجو  ان کی وفات کے بعد بھی صدیوں جاری رہا۔ ان کے طبعی اور طبی علوم میں  وقت کے ساتھ ساتھ مزید پختگی آتی گئی۔  ان کی طبی معلومات ں

ابن سینا  کوکائنات  کے مطالعےسے بھی دلچسپی تھی۔ دنیا کیسے وجود پذیر ہوئی۔ روح اور جسم کا تعلق کیا ہے، انسانی نفسیات کیا ہے،       یہ  سب وغیرہ  جیسے مو ضوعات پر لکھا۔   کی ہیئت وہ ماہر نجوم بھی تھے۔  انہوں نے ستاروں سیاروں        کی کی چال سے خوب واقف  تھے۔ ہر وہ شئے جسے ہم چھو، محسوس، پیمائش   ہر شئے جو کائنات کے دائرے میں آتی تھیں ،پر تحقیقات کرتے رہتے تھے ۔ انہوں نے سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں  ، صحراؤں ، پہاڑوں ،  طوفانوں، موسموں  ،روشنی   اور کائنات میں شامل  کر کے ان پر  تحقیق کی۔

ابن سینا نے اپنی سوانعمری 1012 کے قریب لکھی۔۔ اس زمانے میں عربی زبان علم و ادب کا محور تھی۔ 950 میں سلطنت فارس (پرشین) نےمسلسل فتوحات سے  ثقافتی تہذیب ان سے چھین لی جب کہ  عربی ادبی زبان    ہی رہی۔  فارسی سربراہی ترکوں کے پاد چلی گئی۔  بعد ادب کی زبان میں یکتا ہونے کے باوجود اس وقت کی مروج مقبول زبان عربی میں لکھا۔ ان کے تراجم ہر زبان میں کئے گئے۔ اپنی زندگی میں وہ فارس میں ہی کہیں نہ کہیں پناہ  ڈھونڈتے رہتے تھے ۔ اس کے  دوران ان کی  صحبتیں البیرونی، العراقی  اور ابوالخیر سے  رہیں۔ ان کے مابین بحث مباحثے ہوتے رہے۔ بغداد کی کئی درسگاہوں سے منسلک رہے اور کتابیں لکھنا شروع کر دیں۔ 1012 بعد   میں وہ ُجرجن'         خراساں  چلے آئے۔    

لاقات البیرونی، العراقی  اور ابوالخیر سے ہوئی۔ ان کے مابین بحث مباحثے ہوتے رہے۔  بغداد کی کئی درسگاہوں سے منسلک رہے اور کتابیں لکھنا شروع کر دیں۔     1012   بعد   ء  میں وہ   ُجرجن   ُ خراساں'  چلے آئے۔ وہاں ان کی صحبتیں ہو گئی۔  1013  میں ان کی ملاقات ایک پیروکار سے    شہر ُ رائے  ُ نے آپ کی سوانعمری لکھی۔  1015 میں وہ ہمدان منتقل ہو گئے اور وہاں مستقل رہائش اختیار کر لی۔

۔ بادشاہ سیف الدولہ تھا جو علم دوست تھا۔ اس نے انہیں بلا بھیجا۔وہ انہیں بہت پسند کرتے تھے  اس کی فرمائش پر انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ُ اعلیٰ دانش نامہ'                        تھا'               دولہ بادشاہ    تھا۔  وہ حلب میں تھے۔ ُُ کا کا بدولہ ُ   تھا۔  بادشاہ کرنے  کرنےکے لئے ان کے سامنےکرنے  کے لہے اکا برین کو کھٹکتا   تھا۔اس کی ترقی اشرافیہ کو پسند نہ آئی اور اس کے خلاف سازشیں کرکے اسے غدار ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ بادشاہ کو پتہ تھا کہ وہ بے قصور ہے لیکن  اپنے اکابرین  کومطمئن نے  بادشاہ نے انہیں ملک بدر کر دیا ۔ وہ محل سے نکل کر خفیہ طور پر اپنے ایک دوست  ابی سعد کے گھر چھپ کر تصانیف میں مشغول ہو گئے۔بادشاہ کو علم تھا کہ اس نے ہمدان نہیں چھوڑا  لیکن اس نے کوئی تادیبی کاروائ نہ کی۔  کچھ عرصہ بعد بادشاہ سخت بیمار پڑ گیا تو انہیں بلوا بھیجا اور اس سے معافی مانگی اور اپنے پاس دوبارہ رکھ لیا۔ ان دنوں وہ ایک جنگی محاذ پر جانا چاہتا تھا ، ابن سینا نے روکا  تو اس نے یہ مشورہ نظرانداز کر دیا اور محاذ پر چلا گیا۔ ابن سینا کو ساتھ لے جانا چاہا لیکن وہ نہ مانے ۔ محاذ پر بادشاہ بیمار پڑ گیا اور واپس ہمدان کا رخ کیا  لیکن راستے میں ہی فوت ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اعلیٰ الدولہ بادشاہ بنا۔ جو انہیں پسند نہیں کرتا تھا ۔  انہوں نے اصفحان کے بادشاہ       کو اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے خط لکھا تو وہ بادشاہ  کے      ہاتھ لگ گیا  تو 1025  میں انہیں قید میں ڈال دیا۔       

    اور انہیں غدار قرار دے کر قید کر دیا گیا۔  کئی مہینے قید و صعوبت کے بعد  طرح  فرار ہوئے  اور 1025       جوگیوں اور سنتوں کا بھیس          بدل            کر  انہیں شیخ الرئیس بنا دیے فوت ہوئے اس       وقت وہ                           شیخ الرئیس                تھے ہمدان میں دفن ہوئے۔

   کائنات کا آغاز کب ہوا کے بارے میں اس دور کےسائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب سالوں سے موجود تھی لیکن ان کی وسعت سوئی کے سوراخ کے ہزارویں حصے کے برابر تھی لیکن اس میں موجود ہائیڈروجن گیس گرم ہو تی گئی اور پھر ایک زبردست دھماکے سے پھٹ گئی۔یہ دھماکہ لا تعداد ایٹم بم کے دھماکوں سے بھی بڑا تھا اور پھر کائنات پھیلتی چلی گئی۔اس دھماکے کوعظیم نو ستارہ ( سپر نووا ) کہا گیا۔ اس کے تابکاری اثرات زمین ابھی تک  اس لئے نہ پہنچے کیونکہ یہاں تک پہنچنے میں اسے کھربوں سال درکار تھے۔اس کے بعد ستارے، بروج، سیارے  ، کہکشائیں، سورج، چاند ظاہر ہونے شروع ہو ئے اور یہ  بہت بڑا دھماکہ ( بگ بینگ )  اغلباً تیرہ اعشاریہ چار ارب سال  پہلے ہوا تھا ۔ جب  کائنات میں  کی کسی شئ        کے دھماکے      کی پیمائش کی جاتی  تو  وقت سے        نہیں کی جاتی  بلکہ     اس کا تعلق       فاصلے سے ہوتا ہے                 اور زمین تک یہ  کھربوں     سال بعد پہنچ سکتا ہے۔ گیس بہت گرم ہونے کے بعد  پھٹ جاتی ہے اور کائنات وسیع سے وسیع ترہوتی چلی جس    تی ہے۔   اس کی پیمائش وقت سے نہیں بلکہ اس کا تعلق فاصلے سے ہوتا ہےاور کلومیٹر / میلوں میں ماپا جاتا ہے۔ یہ پیمائش نوری سال کہلاتی ہے۔اس طرح سے قدیم ترین کہکشاں کا            نوری فاصلہ زمین سے 10  کھرب کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔  کائنات میں سفید سوراخ(   وائٹ ہولز)   اور کالے سوراخ( بلیک ہولز) ہوتے ہیں۔سفید سوراخ  میں دوسرے سے  اجسام کو اندر سے باہر پھینکا جاتا ہے جبکہ کالے سوراخ  وہ  سوراخ ہوتے ہیں جن میں مادہ داخل ہو سکتا  ہے لیکن باہر نہیں نکل سکتا۔

ابن سینا نے اس وقت اس کا تصور پیش کیا جب دنیا میں معدوے چند لوگوں کو بصیرت تھی۔ کائنات کے بارے میں ان کا ایک کارنامہ قابل ذکر ہے۔

کی چمک  دیوی کہلاتی ہے) 1006 کی ایک رات وہ          قاہرہ سے ایک سو میل دور  البیرونیا          میں آسمان  کا مطالعہ کر رہے تھے۔ آسمان صاف تھا۔ انہیں ایک ستارہ نظر آیا جو آسمان میں  سب سے بڑھ کر  چمک رہا تھا۔ وہ زہرہ یا وینس ستارے  کی چمک دمک  سب سے زیادہ ہوتی ہے ، سے بھی بڑھ کر تھی۔ انہوں نے اس کا مطالعہ شروع کردیا ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کوئی معمولی ستارہ نہیں تھا۔ اس کی روشنی کہکشاں سے چار گنا تھی۔ اس رات یہ مشاہدہ قاہرہ میں ایک نامور نجومی علی ابن رضوان نے بھی کیا۔ وہ  اس نئے ستارے کا مسلسل مشاہدہ کرتے رہے۔ دونوں عالم  اپنی الگ الگ  مشاہدے،عقل، علم اور بصیرت  کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے  کہ اس ستارے کی چمک آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوگئی تھی اور تین ماہ میں وہ نظر آنا بند ہو گیا۔ ان دونوں نے اخذ کیا  کہ یہ نیا ستارہ وہ تھا جو اپنی توانائی  دوسرے ستارے میں منتقل کر رہا تھا اور جوں جوں توانائی  کا بہاؤ دوسرے میں شامل ہو رہا تھا ، اس کی چمک کم ہو رہی تھی  تو انہوں نے یہ اخذ کیا  کہ ایک سیارے سے توانائی  دوسرے سیارے میں منتقل ہو رہی تھی۔ جب اس   میں اس میں پوری توانائی تھی تو چمک اپنے عروج پر تھی اور جوں جوں وہ دوسرے سیار ے میں منتقل ہوگئی  تو روشنی ختم ہو گئی اورتقویت حاصل کرنے والا ستارہ وسیع ہو گیا    نےعظیمنے نے  ستارہ (سپر نووا ) کہا۔  بعد میں معلوم ہوا کہ  سپر نووا کی کئی اقسام ہیں۔ اگر کوئی ستارہ سورج کے حجم سے دس گنا بڑا ہواور اختتام پذیر ہو رہا ہوتو وہ ایک زبردست دھماکے سے پھٹتا ہےاس پر مزید تحقیقات  کی گئیں اور اس پر ایک  امریکی       انڈین

          چندر       شیکھر    کو 1983              میں           نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔                        سائنسدان   سبرامنیم  

  ان کی اہم ترین تصانیف درج ہیں۔

1) The Canon of  Medicine.

2) The Book of Healing.

3)  Remarks and Admonitions   : Physics and  Metaphysics.

4)  A Compedium on the  Soul, 

5)   Najat

6)  Avicenna Psychology.

7)  On the Science of the Pulse.

8)  Avicenna Medicine.

9)  Philosophical Aims

10) Logic  and  Empircism.

11)  Mataphysics. (Sophists the Rational Soul Practical Pnilosophy)

 

 

ابن سینا نے نفسیات کے بارے میں بھی  نفسیاتی بیماریوں کی وجوہات اور علاج کے  بارے میں لکھا ۔    میں بھی لکھا جسے مختصر طور پر ذیل میں دیا گیا ہے۔

 

ابن سینا کا  فلسفہ  نفسیات

Ibn Sina on Psychology 

ابن سینا نے  روح اور جسم کے مطالعے میں بیان کیا  کہ   جسم مادی ہے ۔ فانی ہے۔ حواس خمسہ کی مدد سے پرکھا جا سکتا ہے۔ روح غیر فانی ہے۔ غیر مرئی ہے۔ چھوئی نہیں جاسکتی۔ اس کا تعلق ذہن کے ساتھ ہے۔ذہن جسم پر اور جسم ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔  روح اور جسم دو الگ  الگ  اشیا ہیں۔ تمام انسانی افعال کے پیچھے روح کا فرما ہے۔  روح اور جسم کے باہمی اختلاط کو نفس کہتے ہیں۔  ابن سینا نے نفس کی تین اقسام بیان کیں۔

نفس نباتی                                                         :                   اس کا تعلق نباتات کے ساتھ ہے۔  یہ ہمیں خوراک مہیا کرتی ہیں۔ کوئی سا پودا بیکار نہیں، وہ جسم اور روح کی صحت مندانہ نمو کے لئے ضروری  ہے۔ ان سے تمام امراض انسانی و حیوانی   کی ادویات ان سے تیار کی جاتی ہیں۔ روح اور جسم کو تندرست   رکھتی ہیں۔

نفس حیوانی                                    :                    ان کا تعلق حیوانیات  کے ساتھ ہے۔ یہ ہمیں وٹامن فراہم کرتے ہیں۔  اس سے بھی ادویات بنتی ہیں۔  یہ بھی انسانی روح اور جسم کو صحت  مند بناتی ہے۔

یہ انسان میں قوت  مدرکہ پیدا کرتی ہیں۔ اشیا کو معانی پہنانے میں مدد دیتی ہے۔  اس کے علاوہ قوت محرکہ  پر اثر انداز ہوتی ہیں۔  

نفس انسانی                            :                                   اس کا تعلق انسانی روح اور جسم کے ساتھ ہے۔  تینوں  آپس میں مربوط ہیں۔ جتنا جسم مضبوط ہو گا اتنا ہی اس میں اعتماد ہو گا۔ اتنا ہی وہ بیماریوں سے بچا رہے گا۔اتنا  ہی اس کی عزت نفس میں اضافہ ہو گا۔ اتنا ہی وہ  ذہنی سطح پر صحت مند ہو گا۔

 یہ تینوں معروف ہیں اور شخصیت کی تشکیل اور بناؤ سنگھار میں معروف اور مصروف کار رہتی ہیں۔   یہ تغیرات ، تولید اور نمو میں ہمیشہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

  نفس نباتی اور نفس حیوانی کی تمام قوتیں جمع ہو جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں دیگر قوتیں  بھی حاصل  ہوتی ہیں جو قوت مدرکہ، قوت مخیلہ ،قوت واہمہ اور حافظہ  کی صلاحیتیں   وغیرہ  پائی جاتی  جو انسانی دماغ اور اس کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتی ہیں  ۔  مناسب  مقدار میں لی جائیں تو شخصیت  بھی نکھرتی ہے۔

انہوں نے ادراکی عمل کی وضاحت کی اور اسے دو حصوں میں تقسیم  کیا۔

 ادراک کہلاتا ہے۔ خارجی ادراک  حواس خمسہ    سے حاحل کیا جاتا ہے۔داخلی ادراک باطنہ ادراک ہے جو انسان اپنے ذہن میں محسوس کرتا ہے اور مشاہدہ باطن سے ہی اس کو سمجھا جا سکتا  حسیات کو معانی پہنا دئے جائیں تو وہ ادراک کہلاتا ہے۔ اگر اشیا  بے معنی رہ جائے تو اسے غلط ادراک یا التباس کہتے ہیں ۔  

 انہوں نے  اپنی کتاب  القانون ۔۔الشفا ' '  میں بیان کیا کہ روحانی کمزوری جسمانی اور ذہنی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔اختناق الرحم (ہسٹریا)،مرگی، مالیخولیا، مراق  اور  ذہنی امراض کی وجوہات اور علاج تجویز کیا۔

 ان کو   جدید طب کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دنیا کو پہلی بار تپ دق  بیماری کے بارے میں روشاس کروایا۔ اس کی علامات اور علاج تجویز کیا۔ اس کے علاوہ اعصابی اور دل کی بیماریوں کے بارے میں معتبر معلومات فرہم کیں اوران کا علاج کیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے جراحی سے پہلے جسم کو سن کرنے والی ادویات ایجاد کیں اور جراحی کے بعد تکلیف کا احساس کم کرنے کی ادویات ایجاد کیں۔

                                                                                   نبض شناسی    میں انہیں کمال حاصل تھا۔ وہ نبض محسوس کرکے بیماری معلوم کر لیتے اور علاج تجویز کرتے تھے جس سے مریض صحت یاب ہو جاتا تھا۔    وہ ذہنی بیماریوں کا کھوج بھی نبض محسوس کر کے لگا لیتےتھے۔ انہوں نے اختناق الرحم اور افسردگی( ڈیپریشن )     کی علامات نبض دیکھ کر معلوم کیں کیونکہ ان کی علامات نبض کی تیزی            یا آہستہ   چلنے سے لگائی جا سکتی تھی۔ محبوب کا نام آنے پر دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، مایوسی میں نبض آہستہ چلنا علامات تھیں ۔ اس کے مطابق وہ علاج تجویز کرتے جس سے مریضوں کو افاقہ ہو جاتا تھا۔       نفسیاتی امراض        کا  علاج  اور نباتات و حیوانات 

 ذہنی صحت کی  اہمیت بیان  کی بیان کرتے ہوئے ان سے  ادویات تیار کیں۔


 ان کے نزدیک ان اصولوں  پر جتنا زیادہ عمل کیا جائے گا  وہ شخص اتنا ہی ذہنی طور پر صحت مند ہو گا  

      

خوشحالی اور بدحالی دونوں ہی برائی کی طرف جاتی ہیں۔

شیریں غذا بدن کوگرم  کرتی ہے اور نمکین غذا بدن کو خشک اور دبلا کرتی ہے۔

اتنا کھاؤ جتنا ہضم کر سکو ۔

اتنا پڑھو جتنا یاد رکھ سکو۔  

زندگی میں تین چیزیں انتہائی سخت ہیں شدت مرض ، ذلت قرض اور خوف مرگ۔

نظر اس وقت تک پاک ہے جب تک یہ اٹھائی نہ جائے۔

بیماریوں میں سب سے بڑی بیمی دل کی ہے اور بیماریوں میں سب سے بڑی دل آزاری ہے۔

حقیقی خوبصورتی کا چشمہ دل ہے۔ اگر یہ سیاہ ہو تو چمکتی آنکھیں کچھ کام نہیں کرتیں۔

محبت کے لحاظ سے ہر باپ یعقوب اور حسن کے لحاظ سے ہر بیٹا یوسف ہے۔

جو شخص انتقام کے طریقوں پر غور کرتا ہے اس کے زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔

جب آئے دن تمہاری رائے بدلتی رہتی ہے  تو پھر اپنی رائے پر بھروسہ کیوں کرتے ہو۔

قلت عقل کا اندازہ کثرت کلام سے ہوتا ہے۔

اپنی زندگی میں محبت کی اعلیٰ ترین مثال  وہ ہے جب سیب چار ہوں پانچ      کھانے والے۔ تب  ماں کہے  کہ اسے  سیب پسند ہی نہیں۔

بہترین فعل ہے۔    ' ذکر  '    

 تلوار، توپ اور بندوق سے لوگ اس قدر نہیں مرتے جتنے کہ زیادہ کھانے سے۔

 دو تمنائیں  رکھنی چاہئیں ۔ پہلی یہ کہ خدا کا کلام سننا چاہیئے   اور  اس کی  چاہیے نعمتوں           کا شکر ادا                 کرے جوا         س  شخص پر برستی رہتی ہیں ۔  اللد کا شکر ادا              ں           کی کثرت   اور اپنے گناہوں کی پردہ پوشی پر۔ دوسرا یہ کہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کئے جائیں۔

ابن سینا نے فلسفے  کی مختلف شاخوں کے بارے میں لکھا اور ملحدانہ نظریات کو  اسلامی نقطہ نظر سے بیان کیا ، جن کا مختصر جائزہ  آنے والی قسطوں میں لیا جائے گا۔

 1)            Metaphysics  ---Sources   and  Importance

مابعد از طبیعیات :                     ذرائع اور اہمیت

2(  Metaphysics Between Theology                           and  Ontology.

مابعد از طبیعیات ، الٰہیات اور علم وجودیات

3)        Theological                Vocation                             الٰہیاتی تقسیم                  

   (4        Modality  and  Existence.    وضع اوروجودیت                                                                                                                                                                   

5)         Causality and Cosmology ابن سینا اور کائنات کی وجوہات

6)        Conclusion  نتیجہ    

Popular posts from this blog