ابن رشد کا اخلا قیات اور فلسفہ میں تعلق ( تیسری قسط)

 (ابنِ رُشد اخلاقیات اور فلسفہ(تیسری  قسط


                                                               

  Averreos   ( 1126۔1198)

Corodoba

Averreos on Morality and Philosophy

  ابن رشد   اخلاقیات اورفلسفہ

تحقیق:    غلام محی الدین

 پچھلی قسط میں  ابن رشد کے فلسفے اور ارسطوریات  کے نظریات کا مطالعہ کیا۔اب ہم اخلاقیات اور فلسفہ کے تعلق کا مطالعہ کرتے ہیں۔انہوں نے اخلاقیات اور فلسفے کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت بیان کیا۔

1)اخلاق اور سیاسی فلسفہ                                          

2) فلسفہ کا کردار

 3      ) علم الکلام 

1)   اخلاق اور سیاسی فلسفہ   

 ( Moral and  Political Philosophy

نامور یونانی فلسفی    نیکی بدی کا تصور مکمل طور پر دیوتا کے احکامات کی روشنی میں پیش کرتے ہیں جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ دیوی دیوتاؤں کو ہر لحاظ سے ہر شئے پر فوقیت دی جائے۔ مسلم فلسفے میں ہر خدائی احکامات  کے تابع ہے۔ اسلام طرز حیات ہے۔ زندگی کے ہرمعاملے پر دین  ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ہر بات کی تشریح خدائی احکامات کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ اس لئے اخلاقی کردار کے بارے میں ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ اسلامی اصول و ضوابط کے پوری طرح مطابق ہونا چاہیئے ۔ملحدعلما  یونانی  دیوی دیوتاؤں  کے قصے کہانیوں کو بنیاد مان کر  اخلاقیات    کے معیار بناتے  تھے۔ 

ابن رشد کا فلسفہ اس کے برعکس ہے۔ان کے نزدیک اخلاقی قوانین،اخلاقیات اور خدائی احکامات   الگ الگ عناصر ہیں  ۔ ان میں فرق کیا جاناچاہئے۔یہاں وہ ارسطو کے فلسفے کو بنیاد مان کر وضاحت کرتے ہیں۔   کائنات تخلیق کرتے وقت ہر شئے میں کچھ خواص رکھے گئے ہیں  جومقاصد   کے تحت میکانکی انداز میں کام کرتی رہتی ہے۔ بنی نوع انسان   ،نباتات، حیوانات اور تمام اشیا  میں بھی  ی اپنی صلاحیتوں  اور استعداد کے مطابق  اپنے فرائض نبھاتے ہیں۔ نباتات  میں کسی پودے کا مقصد نشو و نما پانا ہے جبکہ کلہاڑا کاٹنے کا کام کرتا ہے ۔انسانی وجود کی فطرت اور مقاصد بھی  پائے جاتے ہیں ۔ 

انسان کی ودیعت میں  ہے کہ خود کو  سدا خوش رکھے۔ ایسے اعمال سے پرہیز کرے جس سے اسے  دکھ اور تکلیف پہنچتی ہو۔ ابن رشد کہتے ہیں کہ ارسطو کا یہ بیان اسلامی تعلیمات کے  تحت آتا ہے۔یہاں  ارسطو اور اسلامی فلسفہ مشابہ ہیں۔ اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے سے سکون اور اطمینان حاصل ہو تا ہے۔ اخلاقیات ہمیشہ دوسروں کے حقوق ا دا کرنےپر  زور دیتی ہے۔ حق تلفی کی کسی طور اجازت نہیں۔ یہ اہم اسلامی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اگر ہم اسلامی اخلاقیات  کے مطابق کام کریں تو دائمی خوشی نصیب ہو جاتی ہے۔ اخلاقیات  پر عمل پیرا ہو کر پوری کمیونٹی سے الگ وجود رکھ سکتی ہے۔ انسانوں کے وجود سے اس کیکمیونٹی تشکیل پاتی ہے۔ کمیونٹی کا بڑا مقصدچونکہ خوشی  کا حصول ہے جسے  حاصل کرنے کے لئے  سماجی اور مذہبی عقائد پر مشترکہ  لائحہ عمل اپنایا جائے  تو حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ خرد و عقل  سے  بھی مکمل طور پر حاصل کی جا سکتی ہے   لیکن  اس میں  مقصد پانے کے لئے جائز وناجائز کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ تاہم مؤخرالذکر طریقے میں  نہ تومذہبی اور نہ ہی فلسفی کردار قائم کرنا آسان ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ اخلاقی قوانین، اخلاقیات اور خدائی احکامات    میں اگر کوئی شخص  کسی ایک پر مکمل انحصار کرے ۔ کمیونٹی سے لاتعلق ہو کر عقل و دانش  سے اپنے مقاصد پورے  کرے تو اس طرح سے زندگی گزارنا حقیر ہو گا۔اس لئے اس میں توجہ مرکوز کرنا ہے اور معاشرتی افکار میں  ملاپ  نہیں پایا جاسکے گا۔ 

ابن رشد جیسے مفکر  خوشی  کے موضوع میں حیات بعد از موت کے کچھ پہلوؤں  کاجائزہ لیا۔انہوں نے بعد از حیات کے روائتی تصور کو قبول نہیں کیا کہ مرنے کے بعد  انسان  ایسی زندگی گزارے گا جس طرح کہ وہ اس دنیا میں طبعی  زندگی گزارتا ہے۔              انہوں نے  کہا کہ   تینوں (اخلاقی قوانین،اخلاقیات اور خدائی احکامات)   الگ ہیں۔

  َ ُحیات بعد از موت  ْ          کامقصد اس بات کی تفہیم کے ساتھ ہے کہ ذاتی اعمال  کی  حدزیادہ وسیع ہے جو کہ اس عمل کے فوری بعد ظاہر ہوتی ہے۔ مذہبی زبان اور تخیل متخیلہ کے بارے میں عام انسان  عموماًاس بات کو قبول نہیں کرتا کہ ایک  اکیلے انسان کے اخلاقی اعمال پوری کمیونٹی کا اثر اندازہو تے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ انسان کی ذاتی خوشی غمی سے پوری کمیونٹی بھی متاثر ہوتی ہے جس کا اطلاق ایک مخصوص وقت اور مقام  تک محدود نہیں بلکہ پوری نسل پر ہوتاہے۔ابن رشد کے نزدیک کوئی    اگر تینوں  اصولوں کے برعکس کام کرے گا تو اس کا اپنی  ذات  کے بارے میں تصور مجروح ہو جائے گا۔ 

کسی شخص کا ذاتی فعل فوری طور پرظاہر ہونے کے بعد اس کا دائرہ کار کیسے وسعت پانے میں تعلق بھی  متاثر ہوتاہے اور معاشرتی روابط پر زک بھی  پڑتی ہے۔ غلط کاموں کی وجہ سے  ذات اور منات متاثر ہوتے ہیں ۔ موت کے بعد ذاتی حیثیت کے ساتھ ساتھ کمیونٹی  بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ ابن رشد حیات اور موت کے مختلف پہلوؤں پرجن کا تعلق اخلاقی افعال سے ہوتا ہے، پر تفصیلاً بحث کرتے ہیں۔ 

ابن رشد نے ارسطو کے سیاست کے بارے میں نظریات افلاطون کی کتاب ریپبلک سے لئے۔ افلاطون نے اپنے استاد سقراط کی تعلیمات کو   دنیا کی پہلے یونیورسٹی  جس کا نام 'اکیڈمی ' تھا قائم کر کے رکھی۔ اس کے نظریات جسے ریاست غداری سمجھتی تھی کو زہر کا پیالہ پلا کر مار دیا گیا تھا،  کے اصولوں کو افلاطون نے عملی طور پر اپنایا۔ سقراط نے کوئی تحریر نہ چھوڑی تھی۔ اس کے فلسفے کو جان و دل سے افلاطون نے آگے بڑھایا۔ ارسطو بھی اس کا شاگرد بن گیا اور بیس سال تک 'اکیڈمی یونیورسٹی' کے ساتھ منسلک رہا اور بعد میں اس نے اپنے یونیورسٹی 'لائیسم' کے نام سے قائم کی۔افلاطون نے ارسطو کے فلسفہ  سیاسیا ت  کو دنیا تک پہنچایا۔ ابن رشد نے  افلاطون کی کتاب 'ریپبلک'  سے ارسطو کا فلسفہ لیا ۔

ابن رشد نے اپنے انداز میں  یونانی سیاسی نظام کو  اسلامی فلسفے کے قالب میں ڈھالا۔ انہوں  نے کہا کہ اس دور کی سیاست میں انحطاط کی چار وجوہات تھیں۔ابن رشدنے  اپنی کتاب ُمطاع  من ' کا جائزہ افلاطون کے طریقہ تدریس ،فلسفے، ڈائیلاگ اور مناظرے ( سوفسٹس ) اورچیلنج کا طریقہ  اپناتے ہوئے کیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ مذہب کا سیاست میں آنا نہ صرف ریاست کیلئے خطرہ ہے بلکہ یہ بذا ت خودمذہب کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ انہوں نے امیر کو مشورہ دیا کہ فرقہ بندی سے روکنے کیلئے مذہبی لٹریچرکی اشاعت پر پابندی لگا دی جائے۔ فلسفے اور مذہب کا مطالعہ انتہائی محتاط طریقے سے ایسے کیا جائے کہ ریاست کی بالا دستی کا اظہار مقدم ہو۔ فلسفہ ریاستی معاملات کی توضیح و تشریح بہتر طور پر کرسکتا ہے اور ریاستی مفاد میں بہتر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ علما ء و فقہا ء کے پاس جو علم ہوتا ہے وہ عام لوگو ں کی نسبت معتبرہوتا ہےا ور ان کا مقصد فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ ا ن کے پاس نظریے اور فلسفے کے ساتھ ساتھ عمل اور تجربات بھی شامل ہوتے ہیں۔ وہ عوامی فلاح و بہبود اور سچائی کے راستے پر لانے کے لئے رہنما اصول بیان کرتے ہیں۔

 ابن رشد نے کہا کہ فلسفے       اور مذہب  کی بنیاد بھی حقائق کی رسائی کا حصول ہے۔ اس کا کام بھی انسانی فلاح و بہبود ہے۔اگر ان میں بحث و مباحثہ ہو تو دونوں چونکہ عوام الناس کی بہتری کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں اس لئے وہ مسئلے کے حل کے لئے متفق ہو جائیں تو مذہب اور فلسفہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ پیغمبر اپنے تجریدی خیالات کو معاشرتی روایات اور سماجی منوال کے تحت لا کر پیغام کو عوام الناس تک زیادہ بہتر طورپر پہنچا سکتا ہے۔ سیاست چونکہ عوام الناس کی بھلائی کے لئے ہوتی ہے اس لئے مذہب او فلسفیانہ متفق فیصلہ ریاست پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے فلسفے اور مذہب میں دوری ہونے کی بجائے ایک ہو جاتے ہیں۔ کمیونٹی کے اندر نظم و ضبط پید اہو جاتا ہے۔ 

فلسفے کا ماخذ عقل و استدلال ہے۔ جکہ مذہب کی بنیاد اعتقاد ہے۔اس پر ایمان رکھنے والے بلا چون و چرا اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔مذہبی احکامات  الہامی ہوتے ہیں اور مقبول ہوتے ہیں۔ فلسفہ اپنے علم کو عملی اور معروضی شکل دینے کے مقصد کو مقدم رکھتا ہے جبکہ مذہب میں یہ لازم نہیں کہ معروضیت اپنائی جائے۔ مذہب اور فلسفے کی اس قضیے کو مسلم فلسفے میں پذیرائی ملی۔

(ا پسٹیمالوجی ان اسلامک فلاسفی)۔ ابن رشد نے اپنے فلسفے میں یہی طریقہ اپنایا۔ ارسطو  نے بھی فلسفے اور  اور مذہب کے اصولوں  کو متفقہ بنانے کی کوشش کی۔

 اس کے بعد ابن رشد نے فلسفے کے کردار کے بارے میں بیان کیا۔ 

2) فلسفہ کا کردار

(The Role of  Philosophy)                                                                        

    ابن رشد نے اپنی تعلیمات میں فلسفی کی اہمیت کو نمایاں قرار دیا۔ وہ   ارسطو کے بھی مداح تھے  چونکہ اس کے  فلسفہ  میں  عمدہ زندگی گزارنے کے لئے سب سے بڑے عنصر  ' کیسے خوش رہا جائے'کے بارے میں کم بات کی تھی         اس لئے انہوں نے اس  کو تفصیلاً بیان کیا۔یہ ایک علمی اور عقلی بحث تھی جس کی بنیاد عموماً متبادل افکا ر اور مذہبی فلسفے پر خصوصاً مضمر اشاروں میں پائی جاتی  تھی۔ ابن رشد اس بات کے قائل تھے کہ خوبیوں کی عمومی آمیزش سے سماجی فکر کہ کس طرح رہا جائے  اور اصولوں کے مطابق زندگی گزاری  جائے   تو اس سے  عوام کو زیادہ خوشی ملے گی کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ذرا کم عمدہ مگر فرض شناس معتقد اپنی زندگی میں ذاتی اور عوامی بہبود   میں زیادہ کاملیت حاصل کر پائے گا۔اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ ذہنی اور عقلی برتری سے  مہارت پیدا ہوتی ہے  جس  سے انسانی فلاح و بہبود ، آسودگی یا خوشی کی بہترین صورت  پیدا کی جا سکتی ہے۔کمیونٹی کی بہت زیادہ اکثریت اگر ان پر عمل سے گریز کرے تو یا تو وہ بے بس ہو جاتی  ہے یا پھر وہ بے مقصدبن جاتی ہے۔ جس کی بدولت مسائل پر توجہ نہیں دی جا سکتی اور اصل مقصد یعنی خوشی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے  مذہب ا نسانی زندگی پر ایسی پابندی کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ ابن رشد کہتے ہیں کہ خوشی حاصل کرنے کے فہم و فراست اور اعتقادات   کے طریوں میں الجھنا نہیں چاہیئے اور  بحث سے گریز برتنا چاہیئے۔ 

اسے سلجھانے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ  فلسفہ اور مذہب اپنے اپنے انداز میں مسائل کی تشریح کرتے ہیں۔اسلام اعتقادات کا معقول نظام ہے اور دلائل پر انحصار کرتا ہے۔وہ اس بات  کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ انسان کس طرح کا کردار اپنائے تو اسے دائمی خوشی حاصل ہو۔اس سلسلے میں قرآن حکیم اور احا دیث مبارکہ مشعل راہ ہیں جو خوشی کا رستہ دلائل سے بیان کرتی ہیں۔ وہ مومنوں کی رہنمائی فراہم کرتی ہیں کہ انسان کس طرح کا کردار اپنائے تو خوشی حاصل کر سکتا ہے جبکہ ایسے لوگ جو اسلام پر یقین نہیں رکھتے، کا انداز فکر مختلف ہو سکتا ہے۔ ان کے سچائی کی تلاش اور اصول مختلف ہو سکتے ہیں۔ 

ٓؓ ابن  رشد عقیدوں کے قابل قبول ہونے کے معیار کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی صحیح  تشریح تو وکلا ہی کرسکتے ہیں کہ قانون سازی کے پیچھے کیا حکمت ہونی چاہئیے لیکن زیادہ تر کمیونٹی عقل و دانش کے بغیر اس قانون سازی کو اپناتی ہے ۔ ذاتی  نہ کہ عوامی بہبود کے تحت  قانون بناتی ہے۔ وہ لوگ جو طب سے وابستہ ہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ جسمانی ساخت کیا ہے کہ وہ کس طرح کام کرتی ہے۔ صحت مندی کی کیا علامات  ہیں ۔کس طرح خلل کو دور کیا جا سکتا ہےوغیرہ اور کون سا علاج اس کے لئے بہتر ثابت ہو سکتا ہے لیکن عام لوگوں کو اپنے جسم کی اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہوتااور وہ اپنی باتوں پر یقین کرتا ہے جو اسے معالج بناتا ہے۔ یہ بات عام ہے اور اس میں قطعاً کوئی قباحت نہیں۔ ہر شخص کا کمیونٹی میں وکیل یا ڈاکٹر بننا ضروری نہیں۔ ہر ایک کے مختلف رویہ جات ہوتے   ہیں ۔ ہر کو ئی ڈاکٹر یا وکیل بن بھی نہیں سکتا۔ ان کے لئے محنت،  ذہانت  اور علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ خواص جیسے بھی ہوں،  ان میں معاشر ے میں رہنے کے لئے صلاحیت پائی جاتی ہے۔ و ہ صحت مندی کے ساتھ معاشرے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب یا عقیدہ اپنے ماننے والوں کے لئے کوئی ایسا مقصد پیش کرتاہے جو  کسی خاص شخص یا مخصوص ٹولے کے لئے بہتر ہو اور عوام الناس کے لئے نقصان دہ۔۔ اس کا عقیدہ رہنما اصول قائم کرتا ہے کہ ہر کس و عام اس کے  مطابق زندگی گزارے۔

ابن رشدکے نزدیک اسلام اس لحاظ سے اہم مذہب ہے جس کے موضوعات کا دائرہ اتنا وسیع ہے  کہ  ہر مسئلے  پر ہر طبقے کی رہنمائی کرے۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اسلام قبو ل کر کے ان کے دئیے گئے رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کو کہ وہ مسلمان کیوں ہیں، کے بارے میں دئیے گئے دلائل قبول کرتے ہیں۔ جب کہ وہ لوگ جومذہب اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا عقیدہ رکھتے ہیں اسلامی اقدار کی تفہیم سے قاصر ہوتے ہیں۔ نہ تو وہ اس کے دلائل کو سمجھ سکتے ہیں، نہ سمجھ  سکتے ہیں،  نہ اسے پسند کرتے ہیں َ اور نہ ہی اسے برتر سمجھتے ہیں بلکہ ان کے عقیدے کے مطابق جو آسان اور سادہ حل نظر آتی ہے، قبول کرکے اس پر عمل کرتے ہیں۔ بعض اوقات لسانی لحاظ سے ایسے معاملات میں معقولیت بھی ہوتی ہے، قبول کر لی جاتی ہے لیکن زیادہ تر ان میں نصیحت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ 

ابن رشد عقائد کی توضیح میں جو طریقہ استعمال کرتے ہیں اس سے  دیگر علماء یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ فلسفہ ہی علم کی وہ شاخ ہے جس کی بدولت سچائی معلوم کی جا سکتی ہے ۔ ابن رشد کا ماننا ہے کہ  بعض  علما  کی سوچ کے  مطابق  مذہب کو صرف وہ سمجھ سکتے ہیں جن میں عقلی دانشمندی کم ہو اور ان کی روایات،قصے کہانیوں کے ذریعے سے ہی مطمئن کیا جا سکے۔ اگر ان کو اصول وضوابط کے تحت دیکھا جا سکے تو وہ صحیح ثابت نہیں ہوتے اور باطل ہیں۔ اس کی نہ تو غلط اور بری تشریح کی جاتی ہے اور نہ ہی جائزے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابن رشد اس بات کو نمایاں کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کے لئے کئی ایسےطریقے ہیں جو قابل قبول ہیں اور ہم بڑے وثوق سے استعمال کر سکتے ہیں۔ جب کسی شئےمیں  کشف حاصل ہو جائے تو وہ سب پر ظاہر ہوجاتا ہےاور وہ مقصد حاصل کر لیا جاتا ہے۔ ہم مذہب کی ماہیت اور سچا ئی صحیح طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔

ابن رشد کے نزدیک اسلام کی سب سے زیادہ عظمت یہ ہے کہ یہ  وسیع او رگہری وابستگی پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے  اپنی کتاب  ُ فضل المقال ُ میں اس موضوع پر تفصیلاً لکھا۔ ان کے مطابق ایک فلسفی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ قرآن کریم کے علاماتی اور منطقی تربیت کے ذریعے اسے اور مذہبی قول و قرار کی تربیت کی جائے اور اس کی ہر ایک آیت کی مکمل تشریح کی جائے تا کہ سچائی ظاہر کی جا سکے۔ ان کے نزدیک فلسفہ مذہب سے تصادم کا رستہ اختیار نہیں کرتا۔ اس لئے گمراہ کرنے والوں سے ہمیں محتاط رہنا چاہئیے تاکہ خواہ مخواہ کے تنازعات سے بچا جائے ورنہ مذہبی حساسیت کی خلاف ورزی ہوجائے گی۔ مذہبی علماء کے مقابلے میں فلسفی جو دلائل دیتے ہیں، وہ تند و تیز ہوتے ہیں۔ اس لئے یہاں مذب اور فلسفے کے دلائل کے موازنے میں احتیاط بدلنی چاہئیے ورنہ تنازعات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس سے قدامت پسندی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ منطق اس طرح پیش کی جانی چاہئیے جو ان کے مابین ہم آہنگی پیدا کرے نہ کہ نفاق۔ اس طرح زباندانی اور گفتگو  مسئلے کے حل میں اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ موزوں دلائل دیئے جائیں تاکہ دوسروں تک صحیح پیغام پہنچے اور ابہام اورتشویش بھی پیدا نہ ہو۔ 

مذہب عام لوگوں تک سادہ ترین طریقے اور الفاظ سے رسائی حاصل کرتا ہے اور آسان ترین طریقے سے اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔ اس کے پیروکار مختلف رنگ و نسل، قوم اور زبان بولنے والے ہوتے ہیں۔ ماحولیت اورثقافتی اختلافات کو مد نظر رکھتے ہوئے فلسفی انہیں منطقی طور پر اس  طرح  بیان کرتے ہیں کہ بغیر کسی ابہام کے اصلی متن واضح ہو جائے۔ فلسفی کو چاہئیے کہ صحیفوں کی پیچیدگیوں کو اپنی ذات تک ہی رکھے اور لوگوں تک اسے ایسی زبان میں سمجھائے جو وہ آسانی سے سمجھ سکیں َ اور ان صحیفوں کی سچا ئی جان کر ان پر انحصار  کر سکیں۔ابن رشد نے اس کے بعد علم الکلام  کے بارے میں بیان کیا۔

3)علم  الکلام  (زباندانی کا فلسفہ)

   ( Philosophy of Language

 امام غزالی، بوعلی سینااور ابن رشدزباندانی کے مسئلے پر علمی تنازعات کا شکار تھے۔ ابن سینا اور ابن رشد کے مابین وجہ تنازعہ ' وجود اور روح ' کا موضوع تھا۔ وہ ان کا تجزیہ کرتے وقت مختلف انداز فکر اپناتے تھے۔ ان کے معانی اور بیان ایک دوسرے کے برعکس تھے ۔ ابن سینا کے نزدیک جب ایک شئے ایک کوئی دوسری چیزکا وجود بنانے میں اس طرح مدد کرتی ہے لیکن  ان میں دیویاںاور دیوتا کے قصے کہانیاں اور عقائد مثتثنیٰ ہوتے ہیں جبکہ ابن رشدان کو اس طرح معانی پہناتے ہیں جوکہ اصلی اور صحیح ہوتے ہیں ۔ ان میں دیوت دیویاں شامل نہیںن ہوتیں  اور صورت حال ایسی بن جاتی ہے کہ وہ اپنے وجود میں عدم وجود رکھتے ہیں۔ اس وقت  ان کا وجود جب وجودیت کا روپ ڈھالنے کا باعث نہیں بنتا تو اس قت یہ امکان ہوسکتا ہے کہ چونکہ اس کی روح  اسکی وجودیت کو شامل نہیں کرتی اس لئےاس کو لازماًکسی وجہ اور سبب پر انحصار کرنا  پڑتا ہے جو اس کی حقیقت کے لئے لازمی شمار کیا جاتا ہے۔ ایک ماڈل نظام میں حقیقی طور پر صرف دو قسموں کے وجود پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں۔جو خدا کی ذات اور حقیقی وجود ہے۔ یہ اقسام اس لئے بنائی گئی ہیں تا کہ سلطنت کی مماثلت کا تعین ممکن ہو  سکے۔ 

ابن رشد اور ابن سینا دونوں ہی اس بات پر قائم رہتے ہیں  کہ رو ح اور وجود میں منطقی فرق پایا جاتا ہے۔ابن رشد یقیناً روح اور وجودیت میں منطقی امتیاز پیش کرتے ہیں ۔ ا س کے بعد اپنا فلسفہ پیش کیا جو کہ ظہور کا نظریہ ہے کہ کس طرح وجود پر لازماً عمل کر کے روح کو تبدیل ہوجاتی ہے۔ (نیو  پلیٹو نزم  ان اسلامک فلاسفی)۔ 

غزالی ابن سینا  کا مشیت ایزدی کے قائل  (تھیوری آف  ایمے نیشن)  کے قائل تھے۔ ابن سینااشیاء کو  وجود اور روح  میں تقسیم کرتے ہیں ۔اس  بارے میں سوچ  سکتے ہیں  کہ واقعی حقیقتاً  ان اشیاء میں جو دوسروں کی بدولت ضروری ہو اور انپےاندر ایسی بات حقیقت یاایسی اشیاء جو کہ مادیت پر زور دیتی ہوں ابن رشد کے لئے اہم ہیں اور ارسطو کے فلسفے کو تسلیم کرتی ہیں۔ اس لئے دنیا ایک ماڈل ہے اور فطرت ایک شئے ہے جس میں انسانی تفہیم اور تحقیق و تفتیش میں ایسی مزاحمت نہیں جو ناقابل عمل ہو۔ اس لئے ابن رشد یہ تجویز کرتے ہیں کہ اگرچہ کسی شئے کا وجود اور روح میں منطقی امتیاز معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے تعلق میں تا ہم پھر بھی وجود اور روح میں ایک لازم تعلق پایا جاتا ہے۔ ایسا تعلق تمام اشیاء میں جہاں وجودورروح کے ساتھ واقع ہو رہی ہوں میں قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح وجود اور روح کی  اشراح کیسے  ہوئی ،کے بے رنگ تجزیے کے تحت واقع ہوتی ہیں جس کو ابن رشد نے سنجیدگی سے فلسفی کی نوعیت اور ماہئیت کو غیر مناسب تشریح کہا۔ ان کے نزدیک ایک شئے کے نام کے معانی کی، اور فلسفی کی زبان کی یہ ایک بنیادی غلطی ہے کہ روح اور وجود مانوسیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس طرح اس سے منسلک ہے جس میں یہ بے رنگ اور غیر سود مند تجزیہ ہوتا ہےایگزسٹینس میننگ ان اسلامک فلاسفی)۔ اس عمل کو امام غزالی بھی تسلیم کرتے تھے  موجود میں  وجود اور روح میں تعلق ختم ہو نے کابھی قیافہ لگایا جا سکتا ہے۔ عام بول چال اور مقامی گفتگو میں فلسفے کی وضاحت کی جائے تو بعض اوقات معانی ایسے نکلیں گے جن کے ایک ہی معانی نکلیں گے اور صحیح ابلاغ ہوگا۔ الغزالی اس بات کوجواز بنا کر ہتے ہیں کہ خدا اور اسلامی تعلیمات میں تفسیر کرتے وقت نہائت محتاط سے الفاظ کا انتخاب کیا جائے تاکہ وہ عام لوگوں کو صحیح سمجھ آئے۔ ایسے الفاظ کا چناؤ کیا جائے جن کے معانی مختلف تناظر میں بھی یکساں رہیں۔امام غزالی کے نزدیک تجریدی اصطلاحات کا تعلق خارجی دنیا کے حوالے سے بالکل خود مختار اور آزاد ہے۔ ان کا  ایسی تصاویریا تمثالوں کے سلاسل  سے اظہار کیا جائے تو خصوصی وضاحت میں مدد ملے گی۔ خدا کو ماننا اور ان معجزوں کو جوبغیر ظاہری وجود کے تخلیق ہوتے ہیں کو دلائل کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کو تخیل میں لانا اتنا مشکل نہیں۔ ابن رشد ان کے برعکس جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسا فریم ورک جس میں دنیا  مختلف انداز میں رہتی ہے، تخیلات کے سلاسل کو اپنے حواس میں لانا ہی کافی نہیں َ۔ 

وہ نکات جو ابن رشد زباندان کی تصویر کشی میں استعمال کئے جاتے ہیں سوچنا، سمجھنا اور جاننا ضروری ہے۔ اس دلیل سے بہت سے مکاتیب متفق ہیں اور ایک ہی رائے پر پہنچتے ہیں۔ وہ خداکے نقطہ نظر اور انسانی تدبر کے ساتھ ساتھ تمام بنی نوع انسان میں اختلافات جس کی بنیاد قیامت ،  موت ،کے بعد کی زندگی اور دیگر مسائل پر ہو، کی بنا پر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ یہ زباندانی اس وقت تک ان طریقوں  سے خواہ جیسے بھی استعمال ہوں ، مکمل طور متضاد نہیں ہے۔ جیسے ناموں کے اطلاق میں ربط اور تعلق پایا جائے  تووہ اتنا گہرا بن جائے گا کہ کوئی حس اس مقام تک نہیں پہنچ سکے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک نام کے کئی پہلو ہیں جس طرح مطلوبہ مقام پر پہنچنے کے لئے مختلف صورتوں   اور طریقوں سے پہنچانا جا سکتا ہے۔ پر بالکل یکساں معنی پر نہیں پہنچ سکتی بالکل اسی طرح ایک شئے کے متعلق بہت سے تخیلات،، اعتقادات اور انداز بیاں ہو سکتے ہیں۔ جو اخلاقی اور مذہبی    تعلیمات کو  بیان کر سکتے ہیں۔ابن رشد نے ارسطو کے تمام فلسفے کو جن میں سیاست، جمالیات، اخلاقیات، منطق، حیاتیات  پر بحث کی۔ الیگزنڈر کی کتاب   اُیفروڈیسیعس'، تھیٹحیمسٹیعس'ُاور ابن باجہ کی تصانیف  پرتبصرے لکھے۔پیچیدہ نکتوں کو واضح لچکدار طریقے سے واضح کیا جس سےبسا اوقات اصل نکتے کے عین مطابق نہ ہوتی تھی۔ اس لئے ان کے تبصروں   میں نہ تو اعتباریت تھی اور نہ ہی جواز صحت۔ لیکن ان کی تحریک سے یونانی فلسفے کو پھر فروغ حاصل ہونا شروع ہو گیا۔

-------------------------------------------------------------------------

 

Popular posts from this blog