لی جئیا ( ایڈ گر ا یلن پو )















    لی جئییا 

   Ligeia

 By

Edgar Allan Poe  (1809-1849)

 (U.S.A)



 مترجم: پروفیسر غلام محی الدین (کینیڈا)


لوگ مجھے مخبوط لحواس کہتے ہیں کیونکہ میرے مشاغل دوسروں سے میل نہیں کھاتے۔افیونچی ہونے کے ناطے  مجھ سے کتراتے ہیں حالانکہ میں بعض معاملات میں  ان سب سے جید ہوں۔مجھے کتب بینی کا شوق ہے اور ایسے علوم کا مطالعہ کرتاہوں جن میں میں کائنات کے اسرار  و  رموز  جان سکوں۔ ماورا ئی مخلوق، سفلی علوم۔ حاضرات کی طلبی،جادو، ٹونے ٹوٹکے، کالا جادو ،جنتر منتراور دیگر ٹونانہائی علوم  میرے پسندیدہ موضوعات ہیں۔اس کے علاوہ مجھے فنون لطیفہ سے بھی بے حدپیا ر ہے۔شعر و شاعری، نقش گری، تصویر کشی، موسیقی اور گلوکاری مجھے روحانی تسکین دیتی ہیں۔ موج مستی میں جب  قدیم  و جدید آلات موسیقی کی سریلی دھنوں پر گاتا ہوں تو میرا  ظاہری دنیا سے رابطہ کٹ جاتا ہے  اور میں ساتویں آسمان پر پرواز کر رہا ہوتا ہوں۔
           
 میں نہیں جانتا۔۔۔ مجھے یاد نہیں۔۔۔ میں کب اپنی روح سے ملا؟۔۔۔البتہ یہ بتا سکتا ہوں کہ وہ خاتون جسے  لیڈی لی جئیا کہا جا رہا تھا، سے  ملا  توپہلی ہی نظر میں اس  ماہ جبین نے مجھے سحر زدہ کر دیا۔ اس ماہ تمام نے میرے ہوش اڑا دئیے۔
           
اس ملاقات کے جانے کتنے سال بعد۔۔۔ کمزور حافظے ، ذاتی مسائل۔ نشے یا محدود استعدادکی بدولت تفصیل تو نہیں جانتا  (کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان واقعات کی سچائی اور مفروضے کی پرکھ کی صلاحیت نہیں رکھتا) ۔ وثوق سے بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اس کی شخصیت اپنی مثال آپ تھی۔ میں خود کو اچھا فنکار سمجھتا  تھا لیکن اس کی گائیکی، علم موسیقی میں یکتائی اور سازوں میں مہارت جیسے وصائف کے مقابلے میں میں طفل مکتب تھا۔ اس نے  غیر محسوس انداز  میری روح و  قلب میں نقب لگایا۔وہ جاں سے جانِ جاں اور پھر جانِ جاناں کیسے بنی، معلوم نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ میری زندگی کا جزو لا ینفک بن گئی تھی۔
           
میرے ذہن کے کسی گوشے سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید ہم سب سے پہلے قدیم شہر سے باہر دریائے رائن کے کناے ملے۔۔۔اور  بار بار وہاں ملتے رہے۔ ملاقاتوں میں اشاروں کنایوں میں اس نے اپنے خاندان کی جاہ و حشمت کا ذکر کرناچاہا لیکن میں بات کاٹ دیتا۔ کسے اس کے خاندان کی پرواہ تھی!  مجھے تو اس کی روح سے دلچسپی تھی۔ میں اس کے عشق میں کسی  سے بھی ٹکر لینے کے لئے میں تیار تھا۔
           
لی جئیا! لی جئیا! میں نے اسے پکارا ۔۔۔۔۔دنیا و مافیہا سے بے نیاز،  وہ مطالعے میں مصروف تھی۔جب وہ کسی مشغلے میں مگن ہوتی اسے کسی شئے کا ہوش نہیں رہتا تھا۔لی جئیا!  ایسا نام تھا جسے سنتے ہی کانوں میں شیرینی گھل جاتی تھی۔لی جئیا۔۔۔لی جی یا۔۔۔لی جئیا!    وہ اب اس دنیا میں نہیں لیکن جب اس کا چہرہ میرے سامنے آتا ہے تو دنیا بھر کی نعمتوں والی ہستی میرے سامنے آجاتی ہے۔ اسکی وفا۔ خلوص، چاہت،دل کے ساتھ جاں کا بھی وارنا،سب روز روشن کی طرح میرے سامنے آنے لگتی ہیں۔
           
اس وقت مجھے اس کی یاد ستارہی ہے  تو میرا اُس کی عظمت کے بارے میں بیان کرنے کو من چاہ رہا ہے۔۔۔ کیسی عجیب بات ہے کہ مجھے اس کے خاندان  کے بارے میں کوئی علم نہیں۔۔۔ میں نے اس بارے میں جاننے کی نہ توکبھی کوشش کی اور نہ کبھی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ وہ میری کائنات کل تھی۔مجھے اس کی طلسماتی شخصیت سے فرصت ملتی تواور چیزوں کو جاننے کی کوشش کرتا۔میں اُس میں اِس قدر کھویا رہتا تھاکہ مجھے کسی شئے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی تھی۔وہ میری تنہائی کی ساتھی تھی اور۔۔۔ پھرمنگیتر بن گئی تھی۔پہلے وہ مطالعے میں رفیق بنی اور پھر میری رفیقہ حیات بن گئی۔

 کیا یہ سب میری لی جئیا کے ایک کھیل کا حصہ تھا؟  یا یہ میری محبت اور جنون کا کوئی امتحان تھا؟  ان سوالات کے بارے میں سوچ کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ ایک نازک معاملہ ہے اور میں یہاں نہ تو خود کواور نہ ہی  لی جئیا کو کسی امتحان میں ڈالنا چاہتا ہوں۔۔۔ یا پھر یہ میرا ہی وہم ہے۔
           
میں ان تمام واقعات اور حقائق کو بلا امتیاز آج بھی  ہوبہو دہرا سکتا ہوں جواس کی رفاقت میں بتائے۔۔۔یہ اور بات ہے کہ یادداشت سے یہ بات محو ہو گئی ہے کہ سلسلہ شروع کیسے ہوا تھا ؟۔۔۔ اس دور میں ہمارے روابط کی نوعیت والہانہ تھی۔  ابلتے جذبات تھے۔  ملن میں مصر ی دیوی جوشادی شدہ جوڑوں کے لئے منحوس خیال کی جاتی تھی، کی نحوست تھی لیکن بحثیت مجموعی  یقین سے یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ میرے  دل و دماغ  پر صدارت کرتی تھی۔ذہن پر پوری طرح چھائی ہوئی تھی۔ 
           
یاد داشت کا وہ موضوع جس نے کبھی مجھے دھوکہ نہیں دیا، بیان کرنے میں کبھی ناکام نہیں ہو ا ، و ہ 'لی جئیا ' ہے۔ اس کی شخصیت بھلا سکا ہوں اور نہ کبھی ایسا کر پاؤں گا۔ فطری طور پر وہ  دراز  قد، کسی حد تک دبلی پتلی، کوے کے رنگ کے بالوں والی تھی۔ اس میں آن بان اور شان تھی۔شادی کے کچھ عرصہ بعد جب وہ بیمار ہو گئی  اور کا چہرہ بے رونق ہو گیا تب بھی اس کی تمکنت میں کوئی فرق نہ آیا۔جاہ و جلال  پوری طرح برقرار تھا۔وہ چھا جاتی، سایہ کر دیتی تھی۔ 
           
جب میں مطالعہ میں مصروف ہوتا  وہ  دبے پاؤں مدھر سروں میں گنگناتی آتی، اور اپنی سنگ مر مر جیسی سفید بانہیں میرے گلے میں حائل کر دیتی تومجھے  یہ بیجا  مداخلت  بری نہیں لگتی  تھی۔ اس کے حسن کا  مقابلہ فانی دنیا کی خاتون تو کیا، جنت کی حور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ افیونچی کی رجائیت پسندی تھی۔۔۔لیکن یہ مبالغہ آرائی نہیں کہ  وہ  میری  روح تھی۔ جسم کو تازگی دیتی تھی۔وہ سب سے مختلف تھی۔لارڈ  ویرولم کی خوبصورتی کے بے ڈھنگے فن پاروں اور طرز نقاشی کی عکاس تھی جو  افسوں اور چاہتیں بیان کرتی تھیں۔ اس کی خوبصورتی میں  نرالا پن پایا جاتا تھا۔ اس کا حسن اگرچہ شوقیہ فنکار کے اناڑی پن اور فنی لاعلمی کی بدولت تناسب کے بغیر پایا جاتا تھا۔ لیکن اس فن میں فنکار کے خلوص اور لطیف جذبات کے اظہار کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں رومانیت تمام تر فنی خرابیوں کے باوجود موجود تھی او ر پوری طرح محسوس کی جا سکتی  تھی۔ا س حسن میں بھی چاشنی تھی۔ ندرت تھی۔
           
ہو سکتا ہے لوگو ں کے نزدیک  لی جئیا کے نقش و نگار مونا لیزا  جیسے نہ ہوں لیکن میرے نزدیک اسکی دلکشی، خوبصورتی اور دلآویزی اس سے بڑھ کر تھی۔ حاسدنقاد عقل کے اندھے تھے۔انہیں خوبصورتی کی پہچان ہی نہیں تھی۔ جس نقش کووہ سراہتے نہیں تھے۔ میرے نزدیک وہ شاندار تھے۔ مجھے اس کی شاندارکشادہ پیشانی ہر عیب سے پاک لگتی تھی۔اس کے حسن کی تعریف میں یہ لفظ کتنا معمولی لگتا تھا۔ وہ لاکھوں کروڑوں میں ایک تھی۔اسکی خداداد خوبصورتی کی تعریف کی جائے تو  مجھے تمام الفاظ ہیچ لگتے تھے۔اس کی جلد ہاتھی کے خالص دانتوں کی رعنائی کی رقابت کر تی تھی۔اس کی کنپٹیوں پرغیر محسوس ابھاروں میں نرمی، سکون اور رعب پایا جاتا تھا۔جبکہ اس کے بال قدرتی طور پرچمکدار،گھنے، گھنگریالے اور کوے کے رنگ جیسے سیاہ تھے۔اس کی ناک عبرانی نسل کی طرح نازک اور ستواں تھی۔اس کے نتھنے چھوٹے اور متوازن تھے۔ اس کے لب  گلاب کی پنکھڑی کی طرح نازک اور گلابی تھے۔اس کے دہن سے آب حیات کی تازگی اور مٹھاس ٹپکتی تھی۔اس کے عوارض میں گڑھے  پڑتے  تھے اور ان میں ڈوب جانے کو جی چاہتا تھا۔اس کی جبیں میں ایتھنز کے خد وخال نظر آتے تھے۔اس کی آنکھیں مے خانہ تھیں۔ بن پئے نشہ چھا جاتا تھا۔اسکی غزالی آنکھوں، لمبی گھنی پلکوں اور ابروؤں کا موازنہ نسل انسانی سے کرنا لی جئیا کی آنکھوں کی توہین تھی۔یہ وصائف تو اس کی ذات کے بیان کی ابتدا ہے۔اس کی موجودگی میرے انگ انگ میں جوش، ولولہ اور جنون بھر دیتی تھی۔وہ ارضی مخلوق نہیں تھی۔ وہ آسمان سے اتری ہوئی پری تھی۔حوروں میں سب سے پیاری حور تھی۔    
           
لی جئیاکی آنکھیں! گرمیوں کی راتوں میں کتنے گھنٹوں میں اس کی آنکھوں میں دیکھا کرتا تھا، مختلف مشاغل میں مصروف جب وہ ادھر ادھر جست لگاتیں، اپنے حلقوں میں گھومتیں یا خمار میں بند ہوتیں۔ بقراط اور فیثا غورث کے ہم عصر یونانی  شہر ابذرکے دمقراط جس نے بیس سال کی عمر میں اپنے والدکی وراثت سے ملنے والا چوبیس کلو سونا بیچ کر اور جاگیریں اپنے بھائیوں کے سپرد کر کے علم کے حصول کے لئے ڈگر ڈگر، نگری نگری پھرا اور ایٹم کے نظریے کی داغ بیل ڈالی اور جدید سائنس کی مبادیات پیش کیں، کی طرح سوچ رکھنے والی تھیں۔ میں اس کی آنکھوں کے سمندر کی گہرائی میں غوطے لگاتا رہتا، ڈوبتا اور ابھرتا رہتا تھا۔۔۔۔وہ میری محبوبہ تھی۔ اس کی پلکوں کے اندر میرا جہاں آباد تھا۔وہ آنکھیں!  وہ لمبی، چمکدار، ربانی حلقہ چشم میرے لئے سپارٹن کی حسین و جمیل دیو مالائی ملکہ لیڈا کی طرح تھی جو عالم فاضل تھی جس کے لئے جنگیں لڑی گئیں اور  ڈی واٹیسٹ کی طرح عابداور پاکباز تھی۔
اس بات کا تذکرہ کرنے کی احتیاج نہیں کہ میں نے اس کی آنکھوں کا کھوج لگاتے ہوئے اس کے تائثرات کی مدد سے،اس کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں کسی حد تک قدرت حاصل کی ہوئی تھی۔اس کی آنکھیں پر اسرار تھیں۔وہ میری روح میں سموئی ہوئی تھیں۔اس کی فکر و بصیرت کی اہلیت کا میں مرید ہو گیا تھا۔وہ ستارہویں صدی کے فلسفی جوزف کلین ول کی طرح تھی جس نے جادو، ٹونے ٹوٹکے، بھوتوں اور آسیب کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہماری روح میں شامل ہو تے تھے۔اس سے بحث و مباحثے میں نے ہمیشہ نیا پن پایا۔وہ میرے ساتھ جذباتی اور رومانی طور پر بڑی پرجوش اور جذباتی ہوتی تھی۔ میری بدمستی میں اس کی خواہش اور نیت بھی شامل ہوا کرتی تھی جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہوتی تھی۔اس کے جذبات کی انتہا۔۔۔۔آہ!  میں کیا بیان کروں!۔۔۔ان پر اسرار اشیاء کی نیتوں کی شدت کو میں ہی جانتا تھا۔     
           
وہ ارادے، نیت اور عزم میں ہمالیہ کی طرح اونچی اور مضبوط تھی۔وہ ہر ایک سے ٹکر لے سکتی تھی، یہاں تک کہ وہ فرشتوں کے آگے بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتی تھی کہ انسان اس وقت فرشتوں سے شکست کھاتا ہے جب وہ کم ہمت ہوتا ہے، اگر وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسان نہ جیتے۔مضبوط ارادہ ہوتو موت سے لڑا جا سکتا ہے۔فرشتے کو جان لینے سے روکا جا سکتا ہے یا مرنے کے بعد لڑ کر واپس زندہ ہو سکتا ہے۔وہ اس فلسفے پر پختہ  یقین رکھتی تھی۔وہ ہر فن مولا تھی۔قدیم زبانوں کی تحریر و تقریر پر اسے مہارت تھی۔ وہ مجھ سے ان معاملات میں راسخ العقیدہ تھی۔۔کسی بھی موضوع پر عالمانہ انداز میں بے تکان بول سکتی تھی،کس طرح سے وہ ایک اکیلی۔۔۔ جوش و جذبے کے ساتھ دلچسپ سادہ ترین منطقی انداز میں پیش کرتی کہ اس سے توجہ ہٹانا مشکل   تھا۔اس کی معلومات ہمیشہ معتبر ہو اکرتی تھی۔مجھے اقرار کرنے میں عار نہیں کہ وہ مجھ سے ہر معاملے میں بہتر تھی۔اس میں بچوں کی مانند اعتماد تھا۔میرا  ٹونا نہائی اور حاضرات کا علم اس سے کمتر تھا اور اس سے رہنمائی حاصل کیا کرتا تھا۔
           
 اس وقت اس کے بغیر میں کس قدر تکلیف دہ حا لت میں تھا، میں کس قدر غم،رنج و الم  کے پہاڑکے نیچے تھا، میں ہی جانتا تھا۔۔ لی جئیا کے بغیرمیں ٹوٹ چکا تھا، نامکمل تھا،کسی کام کا نہیں تھا۔ میں کسی مسئلے کو کو حل کرنے کی کوشش کرتا تو ٹامک ٹوئیاں مارتا  رہتا تھا۔اندھیرے سے شروع کرتا تھا  اور سعی و خطا سے آگے بڑھتاتھا اور حتمی حل تک پہنچنے میں کا فی وقت برباد کر دیتا تھا۔جبکہ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو فوری حل کرنکال لیا کرتی تھی۔
           
اسے ان دیکھی بیماری نے آن لیا۔ایسا ہوا کہ وہ نظریں جو ہردم تیار اور      بےباک نظر آتی تھیں اور کتب پر چستی سے پھڑکتی رہتی تھیں، کی تیزی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ اس کی کتب بینی رفتہ رفتہ کم ہو رہی تھی۔اس کی آنکھیں روز بروز ویران ہوتی  جا رہی تھیں۔ اسکی زرد انگلیاں جو دودھ کی طرح سفید اور موم کی طرح نرم تھیں ماند پڑتی گئیں۔ اس کی پیشانی پر نیلی رگیں پھول کرابھر آئی تھیں اورمیں نے نا امیدی  کے باوجود جنتر منتر اور تمام ترلطیف جذبات کے ساتھ کوشش کی کہ وہ اس آلام سے نجات حاصل کر لے۔میری شدید خواہش تھی کہ و ہ حیات رہے اور عزرائیل کے چنگل میں نہ پھنسے۔ میں اس سلسلے میں علاج معا لجہ کے ساتھ ٹونا ٹوٹکا بھی کر رہاتھا، منتر بھی پھونک رہا تھا۔  اس عمل میں میں یہ محسوس کر کے بے حدحیران تھا کہ وہ اس سلسلے میں مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ وہ مصمم ارادے سے اس سے لڑ رہی تھی اور ہار نہیں مان رہی تھی۔ عزرائیل طرح طرح کے جتن سے اس پر وار کرتا اور وہ اس کا جانفشانی سے مقابلہ کررہی تھی۔اپنی ضدی فطرت اور سفلی علوم میں یکتائی کے تحت وہ یہ سمجھتی تھی کہ وہ موت کو زیر کر سکتی ہے۔۔۔ موت کے سائے کے ساتھ وہ جس عزم اور مضبوطی سے مزاحمت کر رہی تھی، اسے الفاظ کے ذریعے سے بیان کرنا نا ممکن تھا۔ میں اس قابل رحم منظر کو دیکھ کر میں غصے سے کانپ رہا تھا۔ میں بے بس تھا۔ اس کی اپنے علو م اور صلا حیتوں کے مطابق میں نے اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی تھی۔اس سے زیادہ میری اوقات نہیں تھی۔ وہ چونکہ ان علوم میں مجھ سے بہتر تھی اسلئے وہ ہمت نہیں ہار رہی تھی۔ اپنی روح قبض نہیں ہونے دے رہی تھی۔ عزرائیل کا عزم اور لی جئیا کی پرزور مزاحمت دیکھتے ہوئے جو وہ اپنی زندگی کی بقاء کے لئے کر رہی تھی، مجھے بے کلی ہو رہی تھیں۔ آخری واقعے تک اس میں شدید دورے پڑنے لگے تھے۔ وہ عزائیل کے حملوں سے اذیت  سے بار بار  پہلو بدل رہی تھی۔ جسم اکڑنے لگا تھا۔ تشنج  طاری  ہوگیا تھا۔ ایسا  لگتا تھا کہ  وہ  مقابلے سے تھک کر سستانے لگی تھی۔اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عزرائیل نے اسے دبوچنے کے لئے  بھرپور وار کے لئے تیار تھا۔ اس مقابلے میں وہ بالآخر ہار چکی تھی۔ اس کی آواز مدھم ہو گئی۔ اس نے اس دوران جوالفاظ ادا کئے، میں سننے سے قاصر رہا۔میرا دماغ چرخی کی طرح گھوما۔ بہادری سے لڑتے  لڑتے اس کی ڈھال ٹوٹ گئی تھی۔ ظالم نے اس پر غلبہ پا لیا تھا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ وہ مر گئی تھی لیکن اس کے چہرے پر  جو عزم  میں نے دیکھا  اس سے پوری طرح واضح تھا کہ  اس نے  دل سے ہار تسلیم نہیں کی تھی۔

وہ مجھ سے محبت کرتی تھی اور مجھے اس پر شک کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔ مجھے اس بات سے با خبر ہونا چاہئے تھاکہ  لی جئیا جیسے جسم میں محبت کبھی بھی عام نوعیت کی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے جذبات و احساسات کی شدت ہمالیہ سے بلند اور بحرالکاہل سے گہری تھی۔ایسی کیفیت تو اس وقت تھی جب وہ زندہ تھی لیکن جب میں نے اسے موت سے بہادری سے لڑتے اور عزرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دھکیلتے ہوئے دیکھا اور جو ہمت اس نے موت کے سائے کو دکھائی، وہ ناقابل بیاں اور ناقابل فراموش تھی۔ اس دوران اس نے اپنی چاہت اور دل کو میرے سامنے چیر کر رکھ دیا تھا۔ اس عرصے میں اس نے جو محبت مجھے پیش کی، وہ میرا سر مایہ ء حیات تھی۔گھنٹوں تک اس نے میرا ہاتھ زور سے تھامے رکھا۔ اس کے اظہار محبت میں الفت،عقیدت،جنون سب کچھ شامل تھے۔وہ مجھ سے جدا نہیں ہونا چاہتی تھی۔میں اس کے خلوص اور جذبات کی شدت سے بہت مرعوب ہو گیا تھا۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں بھی وہ  مجھے  مان دے رہی تھی۔میں اس سے اپنا ہاتھ کیسے چھڑا سکتا تھا۔ اس موضوع پر مزید میں نہیں لکھ سکتا۔ میں یہاں صرف یہ ہی بیان کر سکتا ہوں کہ لی جئیا نے مجھے وہ جذبہ ٫محبت پیش کیا جو ایک بے پناہ چاہنے والی محبوبہ ہی پیش کر سکتی تھی۔ میں نے اس میں زندہ رہنے کی اتنی شدید خواہش کبھی نہیں دیکھی تھی جو تیزی سے ختم  ہوگئی تھی۔ یہ وہ حیوانی خواہش تھی۔۔۔یہ وہ زندگی کی بے تابانی تھی جو تیزی سے مندمل ہوگئی تھی۔۔۔ بے تابی سے وہ زندگی پر غلبہ حاصل کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔خواہش۔۔۔ لیکن تمام بے سود۔ مرنے سے چند دن پہلے ٹھیک آدھی رات اس نے مجھے چند اشعار سنائے  جو کچھ اس طرح کے تھے۔

اوہ۔ یہ ایک خوشی اور جشن کی رات ہے
تنہائی کے سائے میں جو ابھی وارد ہوئے ہیں
ایک فرشتہ، اعلیٰ و ارفع، فضیلت والا
پردے میں خفتہ آنسو لئے
 دیکھنے کے لئے تھیٹر میں آن بیٹھتا ہے
آس و نراش کا کھیل
کرہ ارض کی موسیقی کی طرز پر
آرکسٹرا اپنی سریں درست کرتا ہوا
خدائے عز و برترکی طرح بلندی سے
فرشتے نیچے آہستہ آہستہ
 اِدھراُدھر اڑتے پھرتے ہیں
وہ صرف کٹھ پتلیاں ہیں جو آتی جاتی ہیں
عمارتیں،  جن میں تخیلاتی قوتیں
 مناظر کو یہاں وہاں دکھاتی ہیں
اپنے پنکھ کی ہلکی سی سر سراہٹ سے
سب ناقابل مشاہدہ  ہیں۔۔۔ واؤ!
وہ ڈرامہ تمام تر رنگینیوں کے ساتھ!
اوہ۔۔۔یقین کرو
اسے کبھی بھلایا نہ جا سکے گا!
قدموں کی چاپ دھیرے دھیرے
زیادہ،
ایک ہجوم کے ذریعے،
ایسے دائرے کے چکر جو کبھی پلٹ کر نہیں آتے
اس جگہ سے جہاں سے وہ  بچھڑے تھے
دیوانگی اور گناہوں کی بدولت۔۔زیادہ
روحانی تشدد کا کچھ حصہ
رستے کی نقا لی ایک بار دیکھو  تو سہی
ایک رینگتی شئے مداخلت کرتی ہے
ایک خون کی سی سرخ  لہر
 کو  وہ خشک کرتی ہے
وہ تنہا منظر کشی!
یہ پھو لوں کا ہار!
فانی دنیا سے اسے پھولوں کے ہارمیں لے جایا جاتا ہے
پھر۔۔۔ خامشی اس کی خوراک بن جاتی ہے
 جنگلی جانوروں کے نوکیلے دانت
انسانی جسم میں جمے ہوئے خون کو ہڑپ لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر۔۔۔۔۔ باہر تمام روشنیاں۔۔۔ہاں تمام روشنیاں باہر ہیں!
اور  کانپتی ہو ئی  شکل میں،
بپھرتا ہو طوفان تیزی سے نیچے آتا ہے
ایک سفیدپردہ،  ایک کفن چادر بچھاتا ہے
اور فرشتے کم زرد روشنی میں
ایک بڑھتی ہوئی بغاوت اور شورش
بے نقاب کر کے، توثیق کرتی ہے
 کھیل  تماشا ہے۔۔۔۔۔ہر"انسان" 
اور اس کے فاتح حشرات الارض ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم ختم ہوئی تو لی جئیا نے چیخ ماری، اس نے اپنے پاؤں پر اچھلنا چاہا لیکن تشنج نے اپنے پنجے گاڑ دیئے اور وہ حرکت نہ کر سکی۔  اوہ  خدا۔۔۔یا خدا۔۔اے نیک آقا!  یہ سب کیا ہے؟  یہ  حاجب کون ہے اور مجھے کیوں تہس نہس کرناچاہتا ہے؟  یہ اتنابے رحم کیوں ہے؟ مجھ پر غلبہ پاکر اسے کیا ملے گا؟۔۔۔ کیا اس فاتح کو کوئی نیچا نہیں دکھا سکے گا؟ کیا کوئی اسے کبھی مفتوح نہیں کر سکے گا؟ اس تمام قصے میں ہم انسان اہم ترین کردارہیں اور اپنی صلاحیتوں کے باوجود کون ہمیں مٹانا چاہتا ہے اور وہ ایسا کیوں چاہتا ہے؟۔۔۔کون اس دیوار کے اسرار جانتا ہے؟  ہر ذی روح شئے اس کے سامنے بے بس کیوں ہے؟

 اور اس قوت کے سامنے ہماری کمزور قوت ارادی  دائمی موت کے آگے حوصلہ کیوں ہار دیتی ہے؟  میں اس ظلم  و جبر کا آخری سانس تک مقابلہ کروں گی اور شکست دے کر رہوں گی۔
           
جذبات ظاہر کرتے کرتے جب وہ تھک ٹوٹ گئی تو اس کے ہاتھ گر گئے اور بڑی خاموشی سے اپنے بستر پر لیٹ گئی اور موت کی آغوش میں پناہ لے لی۔دنیا سے رخصت ہوتے وقت اس کے لبوں پر ہلکی سی بڑبڑاہٹ پیدا ہوئی۔میں نے اپنے کان دھرے تووہ اس وقت گلیڈ ویل کے شعر پڑھ رہی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ بنی نوع انسان کی کمزور قوت ارادی اسے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔    اس کے وچار دھرے کے دھرے رہ گئے۔
           
وہ چلی گئی۔۔۔وہ مر گئی؛ اور میں، رنج و الم کا پہاڑ سر پر اٹھائے دریائے رائن  کے آس پاس مارا مارا پھرنے لگا۔تن تنہا زندگی کا بوجھ اٹھانا کٹھن ہوتا گیا۔وہ شئے جسے دنیا دولت کے نام سے پکارتی تھی، میرے پاس وافر مقدار میں تھی۔لی جئیا میرے لئے اتنا کچھ چھوڑ گئی کہ میں پوری زندگی عیش و عشرت سے گزار سکتا تھا۔چند ماہ آوارہ گردی اور بیکار زندگی گزارنے کے بعد میں برطانیہ کے دور دراز بے آباد علاقے میں جائیداد خرید کر منتقل ہو گیا۔وہ شاندار قلعہ نما عمارت کسی نواب کی تھی۔بیابان علاقے میں تھی۔ اجاڑ پڑی تھی۔ اس کے دور دراز حصے میں برج تھا جہاں چوبداروں او ر جملہ ملازمین کی رہائش گاہیں تھیں۔
           
مجھے وہ جگہ اس لئے پسند آئی کیونکہ وہ میری وحشت کی تسکین کر سکتی تھی۔ وہ میرے مشاغل کے لئے موزوں تھی۔ عمارت ویران تھی۔ اس کے در و دیوار پر افسردگی چھائی ہوئی تھی۔لی جئیا کے ساتھ ایسے مقامات ہمارے نت نئے تجربات کے لئے موزوں ہوا کرتے تھے۔ اس کی نحوست مجھے اچھی لگی۔مجھے اس میں افسوں اورحاضرات کی موجودگی کا احساس ہوا۔جنترمنتر کے لئے وہ موزوں جگہ تھی۔آسیب زدہ مقامات پر  لی جئیا اور میں نے بہترین لمحات گزارے تھے۔ویرانی اور دشت دیکھ کر  لی جئیا کے ساتھ ایسے  مقامات پر گزارے گئے دن  یاد آنے لگے۔مجھے اس ماحول سے ہم آہنگی سی محسوس ہونے لگی تھی۔  عمارت کی خانقاہ میں برباد ی کے واضح اثرات پائے جاتے تھے۔اس میں کئی  تہہ خانے تھے۔ ایک حصہ  باغیوں، مجرموں اور اہم اشخاص کے لئے تھا  جن کو حتمی تکفین سے پہلے تابوت میں امانت کے طور پر رکھا جاتا تھا۔
           
کچھ دن تو میں اس جگہ سے لطف اندوز ہوا لیکن پھر وہ جگہ مجھے کاٹ کھانے لگی۔میرا  وجود  بوجھ لگنے لگا۔زندگی اجیرن ہو گئی۔ عمارت دنیا بھر سے جمع شدہ نوادرات سے بھری ہوئی تھی۔مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نے تو صرف ایک ہی کمرہ استعمال کرنا ہوتاتھا۔میں روز بروز خود سے اجنبی ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اس بیزار زندگی سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے؟  میں بزدل تھا، حوصلہ ہار  بیٹھااور دوسری شادی کر لی۔میں لی جئیاکی جانشین کے طور پر روینہ لے آیا۔اسکا پورا نام روینہ ٹریوینیین تھا۔ اسکے لمبے لمبے بہت 
چمکدارکالے بال تھے  اور نیلی آنکھیں تھیں۔

عجلہ عروسی میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی جو قابل ذکر ہو۔اس کی بناوٹ اور سجاوٹ کے بارے میں کچھ یاد نہیں۔دلہن کے والدین کی تفصیل کیا تھی ؟ کہاں دفن تھے؟  معلوم نہ تھا۔ اُس کے آباؤ اجداد کی روحیں کہاں تھیں؟ سے مکمل طور پر لا علم تھا۔سونے چاندی اور دولت کے لالچ میں روینہ نے مجھ سے شادی کی تھی۔شادی کے وقت  میرے اور روینہ کے لواحقین کے درمیان کیا باتیں ہوئیں، کیا طے پایا،یاد نہیں۔ میں اذیت ناک تنہائی سے بچنا چاہتا تھا  اس لئے میں نے فوراًشادی کر لی۔میرا سونے والا کمرہ قلعہ نما عمارت کی خانقاہ کے پا س تھا جو  بلندی پر واقع تھی۔ خانقاہ کے پانچ کونے تھے۔کھڑکی صرف ایک ہی تھی جس کی لکڑی اور عظیم الشان شیشہ وینس سے منگوایا گیا تھا۔اس میں اندر سے باہر تو دیکھا جا سکتا تھا لیکن باہر سے اندر نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔سورج  اور ماہتابی کرنیں جب اس سے ٹکراتی تھیں توڈرا دینے والی روشنی  پیدا کرتی تھیں۔اس پر جالی بھی لگی ہوئی تھی جس پر پرانی شراب کے داغ  دھبے تھے۔چھت شاہ بلوط کی لکڑی سے بنی تھی جو محرومی اور مایوسی کا تائثر دیتی تھی۔ فرنیچر قرون وسطیٰ کی طرز کا تھا۔ پورا گھر عربی، مصری،  یونانی، عبرانی، ایرانی، سلطنت عثمانیہ اور دیگر ممالک کے نوادرات سے سجا  ہواتھا۔      
           
شادی کے ایک ما ہ بعد ہی روینہ اس بیابان جگہ سے اکتا گئی۔ اس آسیب زدہ ماحول کو نا پسند کرنے لگی۔ ویرانی ہی ویرانی نے اسے وحشت میں مبتلا کر دیا۔ اسے میری نہ تو فکر تھی اور نہ ہی چاہت۔  اسکا  لی جئیا سے مواز نہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔لی جئیا کی ذہانت، پاکیزگی،، شاندار فطرت، پیار سے امڈتے جذبات،علوم و فنون سے پیار۔۔۔  کہاں!۔۔۔اور سرد مزاج، جاہل، فنون لطیفہ سے عاری  خاتون  کہاں!  ان کی شخصیت کے تضادات  سوچ کر میری روح اپنی ہی آگ میں جل رہی تھی۔ اپنے من کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اپنے افیون کے نشے میں مست اس کے سامنے ہی لی جئیا کو اونچی آواز میں پکارتا رہتا۔ایسا کرنے سے میں سکون محسوس کرتا تھا۔میں اس کی روح سے باتیں کرتا رہتا کیونکہ مجھے امید تھی کہ وہ  میری محبت میں میرا پیچھا کرتے ہوئے آگئی ہوگی۔یہیں کہیں  میر ے آس پاس بھٹک رہی ہوگی۔
           
روینہ اس اجڑی ہوئی جگہ سے شدید خوفزدہ رہنے لگی تھی اورشادی کے دوسرے ماہ  ہی بیمار پڑ گئی۔ حاذق معالجوں نے اس کا علاج شروع کیا لیکن مر ض کی نوعیت معلوم نہ ہو سکی۔اس کی صحت یابی کی رفتار  نہ ہونے کے برابر تھی۔وہ تکلیف میں تھی۔ اسکی راتیں بڑی اذیت میں گزرتی تھیں۔ وہ زیادہ تر اونگھتی رہتی تھی۔ اس کے خیالات منتشر رہتے تھے۔ اس پر اوہام اور اختباط کی کیفیات پیدا ہو گئی تھیں۔ وہ کسی سائے کو اندر آتے جاتے دیکھتی تھی۔ وہ اس کی باتیں سنتی تھی۔ مجھے تو ایسی کوئی شئے نظر آتی تھی اور نہ ہی کوئی آواز سنائی دیتی تھی۔میرے خیال میں وہ اس کی ذہنی اختراع تھی۔ایسے واقعات سے وہ مزید سہم گئی تھی۔کبھی کبھار وہ نارمل بھی ہو جاتی لیکن پھر وہ بے ہوش ہو جاتی تھی۔ سب تدبیریں بیکار ثابت ہو رہی تھیں۔میں نے اپنے علم کے ذریعہ حساب لگایا  تو معلوم ہواکہ اس پر آسیب کا سایہ تھا۔ان کی دگر گوں حالت اور بیماری کی تشخیص کا نہ ہو پانا معالجوں کے بس سے باہر تھا۔  جب تکلیف میں شدت ہوتی توآدھی رات تک  ڈاکٹر اور نرس اس کے پاس رہتے۔ ورنہ ایک نرس ہوتی  تھی جو شام ہوتے  چلی جاتی تھی۔  جب ڈاکٹر اس کے علاج میں ناکام ہوگئے تو مجھے سفلی علوم کا سہارا لینا پڑا۔
           
چند دنوں بعد اس پر ایک اور بیماری حملہ آور ہو گئی جس وجہ سے وہ بستر سے جا لگی۔اب ا س کو دورے پڑنے شروع ہو گئے تھے۔ وہ غراتی، حملہ کرتی، جارح ہو جا  تی لیکن دورے کے اختتام پر بے سدھ ہو کر بستر پر ڈھیر ہو جاتی۔ وہ لاغر ہو گئی تھی۔اس کے رویہ سے ایسا لگتا تھاکہ کوئی اس سے مسلسل سرگوشی کرتا رہتا تھا۔ایک دن وہ بالکل نارمل دکھائی دے رہی تھی۔اس نے ایک صحت مند شخص کی طرح مجھ سے گفتگو کی لیکن نامعلوم اشیاء اور آوازوں کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ا س رات وہ سوئی تو آدھی رات کو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس کے خوف میں دہشت کے ساتھ ساتھ وحشت بھی شامل تھی۔اس نے شایدکوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا تھا۔میں اس کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی تشویش دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا۔وہ بستر سے تھوڑی سی اوپر ہوئی اور سرگوشی میں مجھے بتایا کہ خواب میں ایک سایہ  اسے ہراساں کر رہاتھا۔ اس کی روح کومجبور کر رہاتھا کہ ا سکاجسم چھوڑ دے۔اس وقت باہر تیز ہوا چل رہی تھی، پردے ہل رہے تھے۔ اس نے اس وقت کچھ سائے اندر باہر جاتے ہوئے بھی دیکھے لیکن پوری توجہ دینے اور آنکھیں پھاڑپھاڑ کر دیکھنے سے بھی میں نہ کچھ دیکھ پایا اور نہ سن ہی پایا۔میں نے اسے اس کا وہم سمجھا۔اسے یہ بات  اس لئے نہ بتائی کیونکہ وہ میرا اعتبار نہ کرتی۔اس وقت وہ نیم غنودگی میں تھی لیکن چونک کر جاگ جاتی تھی۔ شام کو نرس چلی گئی تھی۔ ڈاکٹر نے ایسے موقعے کے لئے ایک دوائی تجویز کی ہوئی تھی جسے پینے کے بعد اس میں توانائی آجانی تھی۔ وہ دوائی اس وقت  بالائی کمرے میں تھی۔ اس حالت میں میں اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔  وہ تکلیف میں تھی  اس لئے میں خاموشی سے  اٹھا اور موٹے ایرانی قالین پر آواز پیدا کئے بغیر تیزی سے کمرہ عبور کرکے سیڑھیاں چڑھنے لگا  تو مجھے واقعی کچھ سائے نظر آئے جو میرے بالکل قریب سے گزرے اور  فوراً غائب ہو گئے۔ میں نے قالین پر ایک سایہ بھی دیکھا جس میں غیر محسوس سی چمک تھی،  اس کی  تابانی ڈرانے  والی نہیں تھی اس لئے وہ کسی نیک روح کا سایہ لگا۔  افیون کے زیر اثر ہونے کے باوجود میں جوش سے بے قابو ہو گیا۔لیکن یہ بات عجیب تھی کہ وہ سائے جو میں نے دیکھے تھے، روینہ کو دکھائی نہ دئیے۔میں دوائی لے کر کمرے میں آیا جو سرخ رنگ کا محلول تھا۔۔ اسے جام بھر کر دیا۔ وہ اسے گھونٹ گھونٹ کر کے پینے لگی۔اس سے اسے توانائی ملی اور کسی حد تک سنبھل گئی۔مسند پر بیٹھ کر میں اسے غور سے دیکھتا رہا۔اس وقت مجھے قالین پر قدموں کی چاپ سنائی دی جو روینہ کے قریب سے آرہی تھی اور وہ اس کے جام کے پاس آئی  جو وہ اس وقت اپنے ہونٹوں تک لے کر جا رہی تھی۔اس سائے نے گزرتے ہوئے ہوا کا ایک جھونکا پھینکا۔ اس میں موسم بہار کی خوشبو تھی۔  ہوا کے جھونکے نے جام سے کچھ قطرے اڑائے۔ تین چار قالین پر پڑے۔ روینہ کو   نہ تو  ہوا، نہ  خوشبو اور  نہ  ہی ہوا کے زور سے جام چھلک کردوائی کے قطرے گرنے کا کوئی علم نہ ہوا اور بڑے مزے سے چسکی لے رہی تھی۔میں بھی اسے وہم ہی سمجھتا لیکن جب سرخ رنگ کے  تازہ  قطرے قالین پر پڑے دیکھے تو مجھے یقین ہوا کہ وہ حقیقت تھی۔   میں نے جو سائے، ہوا کا جھونکا، خوشبو اور جام سے قطرے گرتے دیکھے تھے، ان سے وہ مکمل طور پر بے خبر تھی۔ میں نے اس واقعے سے اسے آگاہ نہ کیا کیونکہ یہ سن کر اس پر غشی طاری ہو جانا تھی۔
           
قطروں کا زمیں پر گرتے وقت تو اسے کچھ نہ ہوا لیکن اگلے دن سے اس کی حالت بگڑنے لگی۔ اگلی تین راتوں میں اس کی حالت پتلی  سے پتلی ہوتی گئی۔اسکی صحت یابی کے لئے میں نے سفلی علوم کا سہارا لیا  تھا۔میرے وار کی آخری حد بھی اس پر کارگر نہیں ہو رہی تھی۔ میرے جادو کی بھی بھر پورمزاحمت ہورہی تھی۔میں یہ دیکھ کر حیران بھی تھا اور پریشا ن بھی کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔  وہ اس بیماری سے چل بسی۔ میں اس پر  کچھ تجربات کرنا چاہتا تھا اور یہ کوشش بھی کرنا چاہتا تھا کہ اس کی روح کو دوبارہ اس کے مردہ جسم میں ڈالوں اس لئے اسے فوری دفنانے کی بجائے اس کی میت کچھ عرصے کے لئے محفوظ کرنے کا سوچا۔اس کا تابوت تیار کیا اورکفن میں میت لپیٹ کر امانت کے طور عروسی کمرے میں ہی رکھ دیا۔اس کی موت کا افسوس تھا۔افیون  کے نشے میں دھت تن تنہا اس کا سوگ منا رہا تھا۔خیالات بکھرے ہوئے تھے۔ جی کو قرار نہ آرہاتھا۔ لاش تو روینہ کی تھی لیکن یاد لی جئیا کی آرہی تھی۔ سرجھٹکنے کے باوجود وہ ذہن پر پوری طر ح چھائی ہوئی تھی۔اس وقت میرے سامنے  سائے کی طرح کوئی شئے نظر آئی۔میں نے اس کی پرواہ نہ کی اور سرسری طور پر اسے دیکھا۔اس کا سایہ کمرے کے کونے اور پردوں پر پڑ رہا تھا۔سائے کا سائز تبدیل بھی ہورہاتھا، رنگ بھی بدل رہا تھا۔ جگہ بھی  بدل رہا تھا۔ ایک بار وہ بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بھی بدلا تو اس کی شعائیں اسے اپنے سر پر پڑیں تو وہ گھبرا گیا۔ رات خوناک تھی۔جوں توں کر کے گزر گئی۔

مجھے دن کو رات والی پراسرار روشنیوں اور سایوں کے بارے میں یاد آیا تومجھے پتہ چلا کہ وہ سرخ قطرے جو خوشبو ہوا کے جھونکے سے گرے تھے اور واضح  نظر آتے تھے،  غائب ہو چکے تھے۔میں نے ہر طرح غور سے دیکھا تو وہ کہیں نظر نہ آئے۔ میں منتر پڑھنے لگا۔میں نے میت کی طرف دیکھا تو وہ بے حس وحرکت زرد رنگ کے چہرے، اینٹھے ہوئے جسم کے ساتھ پڑی تھی۔اس کے بازو اور ٹانگیں اکڑی ہوئی تھیں۔ آنکھیں بند تھیں۔ کالے گھنے بال چمک رہے تھے۔مجھے لگا کہ ایک سایہ اس کے چہرے کے اوپر سے گزرا  تو اس کے کے مردہ زرد چہرے کی زردی کا رنگ ہلکا سا تبدیل ہوا اور پیلاہٹ کچھ کم  ہو گئی۔بگاڑ ذرا کم ہوا۔ مجھے لگا کہ میرے جنتر منتر کا اثر ہو رہا ہے۔ میں نے زور شور سے کالا جادو کرنا شروع کردیا۔ میرا خیال تھا کہ اگر منتروں نے اس کے چہرے کا رنگ تبدیل کیا تھا تو  اس کا مطلب تھا کہ اس میں زندگی کی کچھ رمق تھی۔ میں پرجوش ہو کر سفلی  منتر پھونکنے  لگا تاکہ اس کی روح اس کے جسم میں واپس آجائے۔اپنی سی کوشش کر رہا تھا  اور اس وقت میں یہی کچھ کر سکتا تھا۔
           
یہ رات کا پچھلا پہر تھا یا شاید اس سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔میں نے اس وقت گھڑی پر وقت نہیں دیکھا تھا۔میرے کانوں میں ہچکی سی آواز آئی۔وہ  بہت مدھم  اور آہستہ تھی لیکن مکمل طور پر واضح تھی۔جس نے مجھے اپنے خیالوں سے باہر نکال دیا۔میں نے روینہ کی طرف دیکھا  تو وہ ساکن تھی۔مجھے اس بات پر سو فیصد یقین تھا ۔میں نے ایسی ہچکی سنی تھی جو ڈر میں دی جاتی ہے۔ یہ معمہ تھا کہ وہ کدھر سے آئی تھی۔میں سراغ نہ پا سکا۔وہ دکھ بھری ہچکی ایک بار پھر آئی۔ اس دفعہ میں نے صحیح سمت کا تعین کر لیا تھا۔ وہ روینہ کی سمت سے آئی تھی۔اس وقت اس نے کوئی حرکت کرنے کی کوشش بھی کی۔میں مستعدی سے اس کے پاس بیٹھ گیا، نگاہیں اس پر گاڑدیں اور  پل پل کی خبر رکھنے لگا۔میں نے ایک بار پھرہلکی سی آواز سنی لیکن اس بار بھی آواز مدھم تھی۔حتمی طور پر ابھی بھی صحیح سمت کا تعین نہیں ہو سکا۔ایسا لگا کہ اس کے بے رونق چہرے کا  رنگ کچھ  اورتبدیل ہوا۔ اگرچہ وہ تبدیلی نامعلوم سی تھی لیکن مردہ چہرے کی زرد رنگت اور اب کی زرد رنگت میں فرق تھا۔ اب اس رنگت میں تھوڑا بہت  زندگی کا شائبہ تھا۔میرا دل ڈوبنے لگا  اور ڈر سے میری ٹانگیں ساکت ہو گئیں۔اس وقت  پھر مجھے اپنے فرض کا  احساس ہوا  اور میں اپنے عمل میں مصروف ہو گیا۔اسکی تبدیل ہوتی ہوئی رنگت کا مطلب تھا کہ وہ ابھی زندہ تھی۔اس میں تھوڑی بہت روح موجود تھی۔ کالے جادوسے اس کی روح  واپس لا نے کی تھوڑی بہت امید کی جا سکتی تھی۔ نوکر چا کربرج پر اپنے گھروں میں تھے۔ میں مدد کے لئے بلا سکتا تھا لیکن مجھے ان کے گھروں پر جا کر اٹھانا پڑنا تھا۔ میرے ذہن میں چونکہ ہلکا سا شک پڑگیا تھا کہ وہ زندہ ہے اس لئے اس وقت میرے لئے اس نازک مرحلے پر اسے تنہاچھوڑ کے جانے کا تصور بھی ناممکن تھا۔ہچکیاں لینا، چہرے کی رنگت تبدیل ہونا  ایک  موہوم  سی امید دلا رہے تھے۔اس لئے میں نے کلام پھر سے شروع کر دیا  لیکن اس  کا اثر الٹا ہوا اوراس کے چہرے پر ہلکی  سی رنگت  غائب ہو گئی،چہرہ بے ماند ہو گیا۔ اس کے ہونٹ پہلے کی طرح سکڑ گئے تھے اور حقیقی موت کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔اسے دیکھ کر کراہت اور گھن آنے لگی تھی۔اس کے کالے بال اس کے کفن میں اب بھی چمک رہے تھے۔میرے ذہن میں پھر لی جئیا کے بال آئے جو کوے کے رنگ کے تھے اور گھنگریالے تھے۔اس کے بال یاد آئے تو  وہ  یاد آئی اور میں اس کے تصورات میں کھو گیا۔ اس کو خیالوں ہی خیالوں میں پکار تا رہا۔
           
 میں نے ایک بار پھر آواز سنی۔وہ آواز  اس کی ٹھنڈی سانس کی تھی۔ میں لی جئیا کے خیالوں سے چونکا۔ بجلی کی سرعت سے اس کے پاس گیا۔ میں نے کان تیز کئے اورخوفزدہ ہو کر اس کے قریب پڑے سٹول پر بیٹھ گیا۔ میں نے دیکھا۔۔۔میں نے واضح طور پر دیکھاکہ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ایک منٹ کیلئے وہ ساکن ہوئے۔ میرے تجسس کی انتہا نہ رہی اور میں اس کے اور نزدیک  ہو گیا اور غور سے اس کے وجود کا جائزہ لینے لگا۔مجھے ایسا لگا کہ میری بصیرت کمزور ہو گئی تھی۔ میری سوچ متزلزل ہو گئی۔میں وہاں سے ہٹنا چاہ رہا تھا لیکن میرے فرض نے منع کر دیا اور اکسایا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے۔یہ سماں ڈرانے والا تھا لیکن میں ثابت قدمی سے وہاں موجود رہا۔میں نے دیکھا کہ اب اس کے ماتھے، چہرے اور آنکھوں پر تابانی آنا شروع ہو گئی تھی۔اس کے بے جان جسم پر کسی حد تک  رنگت آنے لگی تھی۔اب پھر سے جی کر رہا تھا کہ مان لیا جائے  وہ زندہ تھی یا زندگی کے آس پاس تھی۔ اسکی رنگت غیر محسوس طریقے سے چیونٹی کی رفتارسے تبدیل ہو رہی تھی۔اس کا مطلب تھا کہ روح نے اس کے جسم میں داخل ہونے کا رستہ تلاش کر لیا تھا لیکن اندر سے کوئی قوت مزاحمت کررہی تھی۔  یہ وہ وقت تھا جہاں میرا جادو کسی حد تک کارگر ہو سکتا تھا۔میں نے زور شور سے اپنا عمل شروع کر دیا۔ میں نے جنتر منتر کرتے ہوئے اس کا ماتھا، کنپٹیاں،آنکھیں۔ ہاتھ اور پاؤں کو گیلے کپڑے سے اچھی طرح صاف کیا جو میرے عمل کا حصہ تھا۔ اسکے ساتھ اس کی ادویات کی خوراک بھی اس کے منہ میں ڈالنے لگا لیکن وہ باہر گرتی رہی۔ اس بار پھر میرے عمل کا الٹ اثر ہوا  اور دل کی دھڑکن اور نبض جو جو ہلکے ہلکے چلنا شروع ہو گئی تھیں، بند ہو گئیں۔ میں نے جھنجلا کر اپناسر پیٹ لیا۔ اس سے میری امید کی کرن ٹوٹ گئی۔میں مایوس ہو گیا اور روتے ہوئے اس سے لپٹ کر دیوانہ وار اونچی اونچی آواز میں نام پکارنے لگا۔۔۔ میں حیران تھا کہ میں بے خودی میں لی جئیا  کا نام لے رہا تھا۔
معجزے ہوتے رہے تھے۔ ایک اور معجزے کی آس لگائے بیٹھا تھا۔دم درود کرتا رہا۔
           
میں نے اس کے ہونٹ دوبارہ کپکپاتے ہوئے دیکھے۔ مجھے اس کے چہرے پر اعتماد کی ہلکی سی جھلک پیدا  ہوتے ہوئے دکھائی دی۔ اس میں ہمت آتے دیکھی جو بعد میں جوش میں بدل گئی اورایسا لگا  کہ دو قوتوں کا جوڑ پڑا ہوا تھا۔ لاش والی  قوت کبھی غلبہ پا لیتی، کبھی  مغلوب ہوجاتی۔  دھنسے  ہوئے گال، سختی  سے بھنچے ہوئے ہونٹ، اکڑے ہوئے بازو اور ٹانگیں کبھی لاش والی بن جاتیں اور کبھی نرم ہو جاتیں۔ زندگی تیزی سے لوٹ بھی رہی تھی اور ختم بھی ہو رہی تھی۔یہ عمل جار ی و ساری تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کھیل تھا، کشتی تھی جس میں کبھی ایک پہلوان کا پلڑا بھاری ہو جاتا تھا اور کبھی دوسرے کا۔
           
میں تصورات میں کھویا ہوا اس کے نام کا جپ رہا تھا۔  لی جئیا کا نام اور تصور ہی ذہن پر چھا چکا تھا۔ اسی دوران میں نے ہلکی سی آواز سنی۔۔۔وہ  آوازدوبارہ آئی۔ ایک ایک لمحہ مجھ پر بھاری تھا۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر عمل کرتے ہوئے اسکا نام لے رہاتھا۔ میں اپنے عمل سے کسی نادیدہ قوت کے ساتھ لڑ تو رہا ہی تھا  لیکن میں اس بات پر ششدر تھا کہ روینہ  کا جسم اس سمے مجھ سے زیادہ ہمت  اور حوصلے سے لڑ رہا تھا  اور دشمن کا بھرپور مقابلہ کر رہا تھا۔یہ کوشش اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔جس میں خوف بھی تھا، عزم اور ہمت بھی۔میں یہ منظر دیکھ کر سہم گیا۔روینہ میں اتنا جذبہ کیسے پیدا ہو گیا۔ میں حیران تھا۔ سماں جو بھی تھا، مقابلے کا جو بھی نتیجہ نکلنا تھا، سے بے نیاز میں اپنے حصے کی ڈیوٹی پوری طرح نبھا رہا تھا۔ لی جئیا کا نام جپتے ہوئے سفلی عمل میں مگن تھا۔
           
دہشت ناک رات ختم ہو رہی تھی جس کا ایک ایک لمحہ صدیوں پر بھاری تھا۔اس کا زیادہ تر حصہ گزر چکا تھا۔ پوری رات زندگی اور موت کا کھیل جاری رہاتھا۔ اس وقت وہ  دشمن سے شکست کھا کر پھر سے موت کی وادی میں چلی گئی تھی۔میرا دل بھر آیا اور رونے لگا۔گلا پھاڑپھاڑ کر اسے پکارنے لگا۔ لاشعوری طور پر لی جئیا کا نام ہی منہ سے نکل رہا تھا۔ نا امید ی اوربے بسی میں اس کی لاش کے  سرہانے  پڑے سٹول  پربیٹھ گیا۔
           
پو پھٹ رہی تھی۔صبح کاذب ہو رہی تھی۔۔۔  لاش ہلی۔۔۔جی ہاں۔۔۔اس نے دوبارہ حرکت کی۔اس بار یہ حرکت تیز تھی۔اسکے جسم میں پھر سے توانائی آنے لگی تھی۔اس کی ٹانگوں کی اینٹھن کم ہو گئی لیکن اس کے پپوٹے ابھی بھی پوری طرح بند  اور سختی سے جڑے ہوئے تھے۔پھر روینہ کا جسم پوری طرح کانپا۔اس نے  نقاہت سے اٹھنے کی کوشش کی، پر کامیاب نہ ہوئی۔ تھوڑے وقفے سے اس نے پھر کو شش کی۔ اس کا چہرہ  اس وقت کفن میں ڈھنپا ہوا تھا۔روینہ اب پوری طرح زندہ ہو گئی تھی۔ وہ کھڑی ہو گئی۔ اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔میرے ذہن میں کھلبلی سی مچی ہوئی تھی۔میں اس کی زندگی اور موت کے سفر کے بارے میں متجسس تھا۔۔۔
           
 ٹھہرو! یہ کیا تھا؟  اس کے بال چمکدار سیاہ نہیں تھے بلکہ گھنگریالے اور کوے کی رنگت والے تھے۔ اس کا قد ناٹا تھا۔ وہ  اٹھی۔ ڈگمگاتے قدموں سے نیچے اتری ۔ منہ میری طرف کیااور کفن  اتار دیا۔۔۔میں بے ہو ش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد میری آنکھ کھلی تو لی جئیا میرے اوپر جھکی ہوئی تھی۔۔۔
           
جی ہاں وہ لی جئیا ہی تھی۔ میری روح، میری زندگی لی جئیا!  وہ بہادری سے  دشمنوں کو شکست دے کر میرے پاس واپس آگئی تھی۔وہ اپنے عزم میں کامیاب ہو گئی تھی اور اپنا فلسفہ صحیح ثابت کر دیا تھا۔

Popular posts from this blog