پہلی محبت اخری رسومات Ian McEwan (1948 -) (U.K) First Love, Last Rites


 

پہلی محبت اور آخری رسومات

Ian McEwan

(1948 -)  (U.K)  

 First Love, Last  Rites

مترجم:   غلام محی الدین

 

سردیوں کی آمد آمد تھی۔ میری بیوی سی سل اور میں ساحل سمندر  پر ایک کثیر المنزلہ عمارت  میں بہترین زندگی گزار رہے

 تھے۔ میں نے چوتھی منزل پر ایک کمرہ کرائے پر لے  رکھاتھا۔ جس کی کھڑکی سمندر کی طرف کھلتی تھی۔ وہاں سے بحری جہاز، تفریحی بیڑے، کشتیاں، طرفین فیکٹریوں پر کام کرنیو الے مزدور، فیکٹریوں کا دھواں وغیرہ چوبیس گھنٹے دیکھے جا سکتے تھے۔ جب بھی ہم کھڑکی کھولتے تو باہر تازہ ہوا میں دھوئیں، کیچڑ اور مچھلیوں کی مہک کی بھی آمیزش پائی جاتی تھی۔ ہم چونکہ اس وقت رومانی موڈ میں ہوتے تھے اس لئے ایسی مہک بھی ہمارا دل لبھاتی تھی۔

         

ہمارے کمرے میں زیادہ فرنیچر نہیں تھا۔ کتابوں کی ایک الماری،  صندل کا بڑا میز اور ایک بڑی میٹریس تھی۔ ہم عموماً میٹریس

 کو میز پر رکھ کر سوتے تھے اس لئے ہم اونچی جگہ پر زیادہ راحت محسوس کرتے تھے۔ ہم صحت مند، جوان اور خود مختار تھے اس لئے ہمیں کوئی روک ٹوک نہ تھی اور ہم آزادانہ اپنی مرضی سے زندگی گزار رہے تھے۔ جو چاہا، جب بھی موڈ بنا                                               ،    کر گزرتے تھے۔ رات دن ہمارے تھے۔ میری بیوی کے والدین میں طلاق ہو چکی تھی اگرچہ اس کی ماں اور باپ دونوں اس شہر میں ہی رہتے تھے لیکن الگ الگ جگہ پر۔ اس کے باپ نے بچوں کے نزدیک رہنے کے لئے ان کے گھر کے قریب ہی ایک اپارٹمنٹ کرایہ پر لے رکھا تھا۔ میری بیوی کے چھ بہن بھائی تھے۔ اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ میری بیوی کی دوستی اس سے بہت تھی۔ وہ بھی اپنی بہن کو بہت پسند کمرتا تھا اور  اس سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔        

میرا سسر تجارت کے بارے میں کافی تجربہ رکھتا تھا۔ اسے پیسے بنانے کا گر آتا تھا۔ میری بیوی کم گو تھی۔ اس نے اٹھارہ سال کی عمر ہونے پر میرے ساتھ کورٹ میرج کر لی تھی۔ وہ خود نر گسیت کا شکار تھی۔ وہ اپنے آپ میں مگن رہتی۔ کھڑکی کھول کر سمندر کا نظارہ کرتی رہتی۔

 ہزاروں مزدوروں کو فیکٹری میں آتا جاتا دیکھتی۔ خام مال اترتے ہوئے اور تیار شدہ مال جہازوں پر لادتے ہوئے یا سیاحوں کو دیکھتی رہتی۔ اسے کافی بنانا بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ میں نے محنت مزدوری کرکے کچھ رقم جمع کی ہوئی تھی جس بنا پر ہم یہ پر تعیش زندگی گزار رہے تھے۔

         

ایک دفعہ ہم دونوں ایک میز پر پیٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے کہ مجھے محسوس ہوا کہ کمرے کی دیوار سے کوئی آواز آ رہی ہے۔ غور کرنے پر ایسا لگا کہ جیسے کوئی دیوار کو کھرچ رہا ہے۔ میں نے ٹھوکا دے کر   ُ  سی سیل  ُ کو کہا کہ وہ آواز سنے۔ اس نے غور کیا تو اسے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ میں نے اسے پھر کہا کہ غور سے سنے تو بھی وہ ناکام رہی……پھر ایک رات سوتے ہوئے اس نے اچانک گھبرا کر مجھے جگا یا اور کہا اس نے بھی دیوا کھرچنے کی آواز سنی ہے۔

         

اگرچہ گرمی کے دن تھے پھر بھی یہ موسم ہماری سر گرمیوں پر کم ہی اثر انداز ہو رہا تھا۔  تازہ تازہ شادی ہوئی تھی اس لئے بعض

 اوقات ہمیں کھلے میں رومان کرنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔ میری بیوی کابھائی ، اس کی والدہ اور بہنیں              ہماری بلڈنگ سے زیادہ فاصلے پر نہیں رہتے تھے۔ اس کا چھوٹا بھائی ُ ایڈریان  ُ (Adrian)دس سال کا تھا۔ وہ ہم دونوں سے کافی مانوس تھا۔ اپنے گھر کے کشیدہ

 ماحول سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے وہ پیدل ہی اکثر ہمارے پاس آجاتا تھا۔ اس میں  معصومیت تھی۔ وہ بے حد پسندیدہ

 بچہ تھا۔ہر وقت ہنستا رہتا  اور بہت جلد خوش ہو جاتا لیکن کبھی کبھار موڈی بھی ہو جاتا تھا۔ ان کی ماں متلون مزاج تھی۔ آن

 میں تولہ آن میں ماشہ۔ اس کی بہنیں پیانو کی شوقین تھیں جو دونوں آپس میں پیانو بجانے میں مقابلہ کرتی رہتی تھیں۔ ان کا

 باپ گریگری پیک کی طرح کی جسامت کا تھا۔ میری ا س سے اکثر ملاقات ہوتی تھی، وہ بھی بار روم میں۔  اسے اس کی لڑکی

 سیسل کا میرے ساتھ کورٹ میرج کرنا برا نہیں لگتا تھا۔  وہ مجھے پسند کرتا تھا اور مجھے بھی وہ بُرا نہیں لگتا تھا۔                                 ماسوائے نجی زندگی اور ٹوٹے ہوئے خاندان کے                 وہ مجھ سے دنیا بھر کی خبروں پر کھل کر گفتگو کرتا تھا ۔ وہ کوریا جنگ میں اپنی خدمات ،     امن، اورسیاسست پر تفصیل سے باتیں کیاکرتا تھا۔ جنگی محاذ  کے واقعات سناتا رہتا تھا۔  جنگ کے دوران اس کے ساتھی اب اس کے مطابق ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز تھے یا پھر ناجائز طریقوں سے پیسہ کما کے بہت بڑے تاجر بن  بیٹھے  تھے۔ اسے بین الاقوامی ماہی گیری کا بھی بہت تجربہ تھا۔ اسے اس بارے میں پوری آگاہی تھی کہ مچھلیوں کا شکار کیسے کیا جاتا ہے۔ مختلف نسلوں کی مچھلیاں سمندر کے کس حصے میں زیادہ پائی جاتی ہین اور ان کا شکار کیسے کیا جاتا ہے، کے ہنر سے وہ خوب واقف تھا۔ ں۔ اس نے مجھے ترغیب دی کہ میں سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر معقول رقم کما سکتا ہوں۔ مجھے بھی اس وقت روپے پیسے کی ضرورت تھی۔ وہ پیسہ جو میں نے مخت مزدوری کرکے کمایا تھا،ختم ہونے کو تھا۔ اپارٹمنٹ کا کرایہ اور متفرق اخراجات بھی سامنے تھے اس لئے میں فوراً تیار ہو گیا۔ اس نے مجھے ہ ایک فہرست بنا کر دی کی شکار کے لئے یہ اشیائدرکار ہیں اور کہاں سے د ستیاب ہیں۔ میں نے اس کی ہدایت پر پورا عمل کیا اور بنک میں جو رقم پڑی تھی اس میں سے زیادہ تر پیسے  نکلوا کر مختلف قسم کے کنڈے، جال، بانس، کانٹوں پر لگنے والا سامان جو مچھلیوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے ا ور برتن وغیرہ خریدے / اگلے روز ہم مچھلی کے شکار پر نکل پڑے۔ میرے سسر نے میری رہنمائی کی کہ کس جگہ مچھلی کی بہتات ہے۔ اس نے  ماہرانہ معلومات فراہم کیں  کہ کون کون سی جگہ موزوں ہو سکتی ہے۔  ایسی جگہ پر بیٹھو جہاں لوگ بہت کم آتے جاتے ہوں۔  مچھلیوں کے جال کی شکل سلنڈر کی طرح ہوتی ہے۔  یہ ایک کونے سے بندھا ہوتا ہے اور دوسرے کونے میں مخروطی شکل کی ایک ٹیوب ہوتی ہے جس سے مچھلی کنڈے سے لگے مواد جو کہ پنیر یا گوشت وغیرہ ہوتا ہے، کو کھانے کے لئے اندر داخل ہوتی ہے چونکہ باہر جانے کا رستہ نہیں ہوتا  اس لئے پھنس جاتی ہے۔  وہاں پر چند ماہی گیر بھی تھے۔ ان سے باتیں کیں تو وہ میرے دوست بن گئے اور عملی طور پر جو مشکلات پیش آسکتی ہیں، سے آگاہ کیا۔ وہ کافی مدد گار ثابت ہوئے۔  یہاں تک ایک ملاح نے جس کی اپنی کشتی تھی، پورے سیزن کے لئے بغیر گارنٹی کے مجھے اپنی کشتی کرایہ پر دینے کی پیشکش کر دی۔  بغیر واقفیت،  گارنٹی اور  ایڈوانس کے کشتی کرایہ پر حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔  انہوں نے بتایا کہ سمندر کی لہریں بہت تیز ہوتی ہیں جو جال کو ڈھیلا کر دیتی ہیں۔  تم جتنی تیزی سے جال باندھتے ہو،  لہریں اتنی تیزی سے جال کھول دیتی ہیں جس سے مچھلیاں پھسل کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہیں۔  میں نے ان کو بتایا کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ میں نے لوہے کا بہت بھاری سامان خریدا تھا ا ور میرا جال تیز لہروں کی وجہ سے آسانی سے ڈھیلا نہیں ہوگا۔ میرے سسر نے جال اور چھان تیار کرنے میں مدد دی۔ہم گہرے سمندر میں شکار کے لئے چلے گئے۔  آناً فاناً بہت سی مچھلیاں پھنس گئیں۔  ویسے مجھے یہ کام معقول لگ رہا تھا۔ میں واپس اپنے اپارٹمنٹ چلا آیا اور اپنی محبوبہ کو حالات سے آگاہ کیا۔میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ بھی میرے ساتھ سمندر میں چل کر مچھلیاں پکڑے لیکن اس نے منع کر دیا۔ 

         

میٹریس میز پر رکھا تھا جو کھڑکی کے سامنے تھا۔ وہاں سے تازہ ہوا تمام تر سڑاند کے ساتھ اور سورج کی ر وشنی بھی کافی مقدار

 میں کمرے میں آ رہی  تھی۔ میں بھی اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ اس نے میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال دیئے۔ ہماری ہتھیلیوں کا

 موازنہ کرنے لگی پھر تبصرہ کیا کہ ہم دونوں کی ہتھیلیوں کا سائز ایک جیسا ہے، میری انگلیاں اس سے ذرا بڑی اور موٹی  تھیں۔

 اس نے میری   لمبی پلکوں کو اپنے انگوٹھے سے ماپا اور خواہش ظاہر کی کہ کاش اس کی پلکیں بھی اتنی ہی لمبی ہوتیں۔ اس کو اس

 لمحے یاد آیا کہ اس کے کتے کی بھی اتنی ہی لمبی پلکیں تھیں پھر میری ناک کا معائنہ کیا اور سورج کی تمازت سے جلاہوا نشان

 دیکھا۔ اس پر بھی اس نے کہا کہ اس کے دونوں بھائی اور دونوں بہنوں کے ناک بھی سورج کی تمازت سے نشان زدہ ہیں جو پیلے

 سرخ تھے لیکن اب ان کا رنگ بھورا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ہم رومانوی موڈ میں آگئے اور جی بھر کے محبت کی۔ جب میں سرور

 میں ڈوبا ہوا تھا میں نے سوچا کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ مجھے  پیار کرنے والی بیوی ملی ہے اور کوئی بھی ہمی جدا                             نہیں کر      سکتا۔ ایک اور خیال آیا کہ مستی میں ہم احتیاط نہیں کر رہے۔ کہیں میں اتنی کم عمری میں باپ نہ بن جاؤں۔ ویسے مجھے یہ تو پتہ

 تھا کہ وہ ضبطِ حمل کی گولیاں کھا رہی تھی لیکن بسا اوقات وہ بھول بھی جاتی تھی۔ بہر حال آج بد احتیاطی ہو گئی تھی اور ہم سو

گئے۔ رات کو میں گہری نیند میں تھا تو   دیوار کے اس پار چھوٹے چھوٹے پنجوں سے   کھرچنے کی آواز سنائی دی۔ ۔ میں نے بڑے

 غور سے سنا۔ تلاش کرنے کی کوشش کی، کچھ ہاتھ نہ لگا۔         

میں دو ماہ تک مچھلی کا شکار کرتا رہا۔  وہ کاروبار بہت منافع بخش تھا۔ میں نے خوب کمایا اور کافی رقم جمع بھی کر لی۔ ایک رات

 میری بیوی اور میں سوئے ہوئے تھے تو اس نے انکشاف کیا کہ وہ امید سے ہے۔  یہ بات مجھ پر تیر کی طرح لگی۔ ہم ابھی اٹھارہ

 سال کے تھے۔ ہم اپنی زندگی میں ابھی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہیں تھے۔ میں نے اسے کہا کہ حمل گرا دے لیکن وہ نہ

 مانی۔ میں نے بھی اس کی رضا کے سامنے ہار مان لی۔

 وقت گزرتا گیا اس کا پیٹ ذرا ذرا موٹا ہونے لگا۔ اس کے اندر بچے نے حرکت کرنا شروع کر دی۔ میں مختلف اوقات 

میں سیسل ُ کے پیٹ پر کان رکھ کر بچے کے دل کی دھڑکن اور حرکت کرنے کی آوازیں سنا کرتا تھا۔ ایک دن اس کا چھوٹا بھائی

(Adrian)آیا ہوا تھا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ سیسل کے پیٹ میں جو بچہ ہے،  اس کے بارے میں وہ کیسا سوچتا ہے؟   آواز

 کان لگا کر سنے، یہ کیسی آواز ہے، بتائے؟   اس نے اپنا کان اپنی بہن کے پیٹ پر رکھا، تھوڑی دیر بعد بولا کہ اس نے کچھ نہیں سنا 

۔  میں نے اس کا سر پکڑ کر پھر سیسل کے پیٹ پر رکھا اور کہا اب سنو۔

 وہ  بے حد جوش میں آگیا۔ اچھلا کودا  اور پولیس کا ہارن منہ سے بجاتے ہوئے باہر کی طرف بھاگ گیا۔         

جو لائی کے مہینے میں ہمارے کمرے میں گرمی زیادہ ہو گئی تھی اس لئے ہمیں بے آرامی محسوس ہو رہی تھی۔  ان دنوں یہاں

 کے تعلیمی اداروں میں چھٹیاں  تھیں۔ میری بیوی کابھائی   ہر روز صبح کے وقت اپنے گھر کے کشیدہ ماحول سے بچنے کے لئے

 ہمارے ہاں آجاتاتھا۔ ہم اسے کافی دور سے بلڈنگ کی سیڑھیاں چلتے ہوئے سن سکتے تھے۔ وہ شور مچاتا، بازو زور  سےر لہراتا وارد

 ہوتا اور مجھے متاثر کرنے کے لئے جمپ لگا کر سیسل کے پیچھے چھپ جاتا۔ وہ اس سے  بہت فری  تھا۔ وہ آپس میں پنجہ بازی

 کرتے تھے اور چھوٹی موٹی لڑائی بھی کیا کرتے تھے۔ اس لئے روز مرہ معمول کے مطابق وہ آج بھی یہی چاہتا تھا لیکن اپنی

 طبیعت کے بوجھل پن کی وجہ سے میری بیوی اب ایسا کرنے سے عاری تھی۔ اب وہ پہلے کی طرح اس کے ساتھ اچھل کود اور

 پنجہ آزمائی نہیں کر سکتی تھی۔  وہ بچہ تھا۔  وہ حیران و پریشان رہنے لگا کہ نہ تو اس کی بہن اور نہ ہی میں پہلے کی طرح اس کو پر

 جوش انداز میں ملتے تھے۔ وہ ہماری سرد مہری سے بیزار ہو گیا۔ میں اپنے بچے کی حفاظت کی خاطر اور سیسل اپنی بگڑتی حالت

 کی وجہ سے محتاط تھی۔ یہ بات اس کے بھائی کو کم سنی اور بھولے پن کی وجہ سے سمجھ نہ آرہی تھی۔ کئی بار ایسا محسوس ہوتا تھا کہ

 وہ ہمارے غیر متوقع رویے سے مایوس ہو  جاتا۔  ایک دفعہ اس کا بھائی آیا ہوا تھا تو سیسل اچانک اپنے کمرے سے باہر آئی اور چیخ

 مارنے لگی۔ اس کے پیٹ میں بہت تکلیف تھی۔ اس کے بھائی نے منہ بسورا۔ اٹھا اور زور زور سے گانا گانے لگا پھر شوخی سے

 اِدھر اُدھر روز مرہ کی طرح نمائشی مکہ بازی کے لئے میری طرف بڑھا اور اپنے پاؤں پر مکہ باز کی طرح اچھلنے لگا۔ میں نے اس

 پر کوئی رد عمل پیش نہ کیا۔ اس کی بہن نے اپنا درد چھپانے کے لئے منہ بھینچ لیا  اور اپنے بھائی کو  نظر انداز کردیا۔یہ دیکھ کر وہ

 پریشان ہو کر چلا گیا۔      

ایڈرین کو گھر سے بھگانے کا صرف ایک طریقہ تھا وہ یہ کہ ہم ایک دوسرے کے جسم کو محبت سے چھیڑ خوانی کے انداز میں

 چھونا شروع کر دیتے۔  وہ اس عمل سے حقیقی طور پر نفرت کرتا تھا۔  وہ بھاگ کر ہمارے بیچ میں آجاتا تھا،  ایسا ظاہر کرتا کہ وہ

 ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے۔ دراصل وہ ہمیں اس کام سے روکنا چاہتا تھا۔  اگر ہم باز نہ آتے تو وہ فوراً اپنے ہاتھ سے مشین گن

 بناتے ہوئے اور ٹھاہ ٹھاہ کرتے  خیالی طور پر جرمن  سپاہیوں کو مارتا ہوا  سیڑھیاں اتر کر اپنے گھر چلا جاتا۔

    

اگست تک سیسل کا پیٹ کافی موٹا ہو چکا تھا لیکن ہماری محبت ابھی بھی اتنی ہی شدید تھی۔ ایک دوسرے سے ملاپ کی اتنی ہی

 خواہش ہوتی تھی لیکن ہم اپنے آپ پر جبر کر لیتے تھے۔ تمام وقت اپنے کمرے میں گزارتے۔ کھڑکی کھول کر اپنی طرف سے

 تازہ ہوا لیتے، ہوا تو آتی لیکن دلدل اور مچھلیوں کی سڑاند بھی ساتھ ساتھ آتی تھی۔ہماری کھڑکی پر جالی نہیں تھی اس لئے غول

 در غول مکھیاں مچھر بھی آتے اور ہمیں کاٹ کھاتے۔ خوراک پر بیٹھ جاتے۔  بڑے عرصے سے میں نے خود پر دھیان دینا بند کر

 دیا تھا۔ بال بڑھ کر کافی لمبے ہو گئے تھے اور آنکھوں پر پڑنے لگے تھے۔ گرمی سے کھانا خراب ہونے لگ جاتا۔ ہماری

 اپارٹمنٹ میں اے۔ سی نہیں تھا اور پنکھا گرمی کم نہیں کر سکتا تھا اس لئے ہم اب میز پر میٹریس بچھا کر نہیں سو سکتے تھے تو ہم

 فرش پر سونے لگے کیونکہ وہ ٹھنڈا ہوتا تھا۔ساحل سے اُڑتی ہوئی ریت اور چکنائی سے کمرہ گندہ رہتا تھا کیونکہ اب باقاعدہ صفائی کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ سیسل وقت گزاری کے لئے موسیقی سنتی تھی لیکن کہاں تک گانے سنے۔ وہ بالآخر اس سے تنگ

 آگئی۔ علاوہ ازیں اس کے بھائی کی شوخیاں، بچگانہ کھیل کود، اچھلنا کودنا، ہاتھوں سے گاڑیاں چلانا، مشین گن چلانا، چھلانگ لگاکر

 سیسل اور مجھ پر سوار ہونا اسے اس وقت اچھے نہ لگنے لگے  تھے۔ میں نے وقت گزاری کے لئے چاہا کہ اپنے ہونے والے بچے پر

 شاعری کروں لیکن لاحاصل اس لئے میں نے ساحل کے کنارے لمبی سیر شروع کر دی۔ ہم نے اپنے کمرے کو گرمی اور

 گندگی سے بچانے کے لئے چھوڑنے کا نہ تو فیصلہ کیا تھا اور نہ ہی اس پر سوچا تھا۔ ایک بار م مجھے خیال  آیا کہ مچھلی کا شکار پھر سے

 شروع کر دیا جائے پھر سوچا ان بیچاریوں کو سکون سے ان کے گھروں میں ہی رہنے دیا جائے۔ لیکن  جمع شدہ پونجی ختم ہونے کو

 تھی اس لئے مجھے مجبوراً یہ کام دوبارہ کرناپڑا۔  دوسری طرف سیسل بھی یہ محسوس کر رہی تھی کہ گھر کے مالی حالات تنگ تھے تو

 اس نے مجھے بتائے بغیر فیکٹری میں ملازمت کر لی۔

 

پہلے دن گئی تو اسے دس گھنٹے فیکٹری کے شور میں کام کرنا پڑا۔ ہم بھی اپنی بقا کے لئے دوسروں کی طرح محنت کر رہے تھے۔ وہ

 فیکٹری میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گاجروں کو منتقل کرتی تھی۔ اس کا کام یہ بھی تھا کہ سڑی ہوئی گاجروں کو چھانٹے اور

 صرف صحیح گاجروں کو ہی ڈبے میں ڈالے۔ جوں توں کرکے دس گھنٹے پورے ہوگئے۔ اس کا پہلا دن ختم ہونے پر وہ فیکٹری

 سے مہیا کردہ برساتی کوٹ اور گلابی ٹوپی پہنے دوسرے مزدوروں کے ساتھ شفٹ ختم ہونے پر وہ یونیفارم میں گھر آئی تو میں گھر

 میں موجود تھا۔  اس نے یونیفارم نہ اتار اور ویسے ہی فرش پر لیٹ گئی۔

 میں نے اس کہا کہ یونیفارم تو اتارلو۔ لیکن اس نے لاپرواہی سے اپنے کندھے جھٹک دیئے۔ اس کے لئے فیکٹری میں مشینوں

 کے سامنے بیٹھنا، بے دلی سے ریڈیو  سننا، اپنے اپنے کام میں مگن رہنا، چار سو عورتوں کا ایک شفٹ میں اکٹھے جانا اور اکٹھے نکلنا

 اور گھر آکرکپڑے بدلنا سب بے معنی تھے۔

         

سیسل کی نوکری کے دوسرے دن میں نے کشتی پکڑی، دریا پار کرکے فیکٹری کے پاس جا کر اتر گیا اور اس کا فیکٹری کے باہر

 انتظار کرنے لگا۔

 کچھ دیر بعد فیکٹری کا سائرن بجنے لگا جو شفٹ ختم ہونے کی علامت تھی۔ فیکٹری کے ایک طرف کے تمام دروازے کھل گئے

 اور خواتین تیزی سے ہجوم کی صورت میں چھٹی ہونے پر باہر نکلنے لگیں۔ بعض خواتین تیزی سے چل رہی تھیں جبکہ بعض

 بھاگ رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے اس بھیڑ کو غور ؎سے نہ دیکھا تو سیسل نگاہوں میں نا آ  پا ئے گی اس لئے میں ہجوم

 کو ٹکٹکی لگا کر دیکھتا رہا۔  بعد میں پتہ چلا کہ وہ خواتین جو بھاگ کر جا رہی تھیں انہوں نے اپنے میاں اور بچوں کے لئے کھانا بنانا

 تھا۔ خواتین کا ایک ریلا دوسری سمت کے دروازوں سے اندر جا رہا تھا۔ یہ وہ خواتین تھیں جن کی ڈیوٹی شروع ہونے کو تھی۔

 میں  سیسل کو اونچی آواز سے پکارتا رہا۔ اس نے شاید میری آواز نہ سنی اور میں نامراد  واپس پلٹ آیا۔ کمرے میں پہنچا تو وہ پہلے

 سے ہی وہاں موجود بستر پر بے سدھ پڑی تھی۔ اس نے ابھی تک برساتی پہن رکھی تھی۔ ٹوپی فرش پر تھی۔ میں نے اس سے

 پوچھا تم نے یونیفارم کیوں نہیں اتارا؟ اس سے مٹی اور تیل کی بو آرہی تھی تو اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا          

مجھے نہیں معلوم۔ میں اپنی شفٹ کے بعد کسی بھی شئے کے بارے میں کچھ نہیں سوچ سکتی۔ اس کی باتوں سے  بیزاری اور

 بے بسی ظاہر ہو رہی تھی۔ میں اس کی حالت دیکھ کر خوش ہو گیا۔    

سیسل کی یہ کیفیت دیکھ کر میرا دل پسیج گیا۔  اس کے لئے اس حالت میں کام کرنا اس پر ظلم کرنے کے مترادف تھا اس لئے

 میں نے سوچا کہ گھر کا خرچہ پورا کرنے اور آنے والے اخراجات کے لئے کوئی کام کرنا ہوگا۔  میرے ذہن میں پھر سے مچھلی کے

 شکار کا خیال آیا۔ میں نے سیسل کے باپ سے مچھلیوں کا شکار دوبارہ  کرنے کی  بات کی۔اس سے اتوار کی صبح چار بجے کا وقت طے

 ہوا۔  اس نے کہا کہ وہ شکار کا سامان اپنی وین میں سمندر کے اس مقام تک لے جائے گا جہاں پر مچھلی کا شکار کرنا ہے لیکن یہ

 معلوم کرنا ضروری تھا کہ مچھلی اس موسم میں بھی کافی مقدار میں اس مقام پر موجود تھی یا نہیں۔  اس مقصد کے لئے سمندر

 میں نمایا ں مقام پر ایک دن پہلے لنگر پھینککر مچھلیوں کی تعداد کا  اندازہ                     لگانا ضروری تھا۔   میں ہفتہ کو گائے کے پھیپھڑے، پنیر

 اوردیگر خوارک لایا جو مچھلیوں کو مرغوب تھی اور خصوصی جگہوں پر پانچ لنگر پھینک دیئے۔ تمام تر دیگر لوازمات کے ساتھ

 اگلی صبح جانا تھا۔  رات بھر دیوار کھرچنے کی آواز آتی رہی لیکن میں نے اس پر دھیان نہ دیا۔ میں تمام رات اگلے دن

 کے لئے سامان تیار کرتا رہا۔ جالوں کو سیتا رہا تاکہ مچھلیاں اس سے پھسل نہ جائیں۔ مکمل تیاری کے بعد سو گیا۔ صبح چار بجے

 سیسل کا باپ وین لے کر آگیا۔ تمام سامان لاد کر کشتی کے ذریعے لنگروں والی جگہ پر جانے لگے، سیسل کا باپ کشتی چلا رہا تھا اور

میں اس نشان کو تلاش کر رہا تھا۔

 جہاں پچھلی رات لنگر پھینکے تھے۔ یہ مرحلہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا میں سمجھا تھا۔ لنگروں کے نشان نظر نہیں آرہے تھے۔ جال

 پانی کے اندرآ رہا    تھا تاہم بیس منٹ کی تلاش کے بعد صرف ایک جال ملا۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا اس جال کی رسی جو کہ

 رات تک بالکل سفید تھی، سمندر کے پانی میں ایک ہی  رات رہنے سے ایسی لگ رہی تھی کہ جیسے وہ بہت پرانی ہو۔ یہ میرے ہی

 ہاتھ کا بنایا ہوا جال اور رسی تھی۔ اس میں دو کیکڑے اور ایک بڑی مچھلی تھی۔ کیکڑوں کو واپس سمندر میں پھینک دیا لیکن مچھلی

 کو پانی سے بھرے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال دیا۔ ہم نے پندرہ منٹ بعد دوسرا جال بھی تلاش کر لیا۔ وہ بالکل خالی تھا۔ مزید

 جال تلاش کرتے کرتے مزید ایک گھنٹہ گزر گیا۔ کچھ ہاتھ نہ آیا۔ سمندر کی لہریں اونچی ہونے لگی تھیں اور باقی جال نہیں مل

 رہے تھے اس لئے ہمارا یہ دورہ ناکام رہا اور ہم واپس ساحل کی طرف نکل پڑے۔ سیسل کا باپ  مجھے  اپنے ہوسٹل لے گیا اور

 ناشتہ کرایا۔  اس دوران ہم نے گمشدہ  جالوں پر کوئی بات نہ کی۔ ہمارا خیال تھا کہ جب سمندر ساکن ہو گا یا ا میں کم لہریں ہوں گی

 توا س وقت امید تھی کہ کھوئے ہوئے جال شاید مل جائیں اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سمندر کی تیز لہریں انہیں اپنے ساتھ بہا

 کر لے گئی ہوں اور کبھی بھی نہ مل پائیں۔ مجھ پر مچھلی کے شکار کی یہ نئی مشکل پہلی بار آشکار ہوئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں

 مچھلی کے شکار سے باز رہوں گا۔     

سیسل کے باپ نے مطلع کیا کہ اس کا بیٹا (Adrian)اور وہ ایسے علاقے میں سیر کے لئے جا رہے ہیں جو کسی وقت جنگی علاقہ

 تھا،  وہ وہاں جا کر جنگلی امور سے متعلق میوزیم دیکھنا چاہتے تھے۔ اس نے مجھے مشورہ دیاکہ میں بھی ساتھ چلوں اور وہاں جا کر

 جھینگے کا شکار کروں کیونکہ وہاں جھینگے بکثرت دستیاب تھے۔  ا گر انہیں برسلز بیچا جائے تو بہت زیادہ منافع ہو گا۔  وہ اس بات پر

 بضد تھا۔ میں نے اس  سےمزید سوچنے کے لئے وقت مانگ لیااور گھر واپس آگیا۔ انہوں نے تین دنوں بعد واپس آناا تھا۔        

سیسل ایک ہفتہ تک فیکٹری جاتی رہی۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی فیکٹری سے واپس آتی تو ادھ موئی ہوتی تھی اور گھر

 آتے ہی بے حال ہو کر لیٹ جاتی تھی۔  ہفتے کے آخری دن کام سے آنے کے بعد وہ سوئی نہیں بلکہ بیٹھی رہی۔ اس کا رنگ زرد پڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنے گھٹنے پکڑ لئے اور کمرے کے ایک کونے میں گھورنے لگی۔ میں باہر سے آیا اور پوچھا۔  خیر تو ہے۔ اس

 نے آنکھ کے اشارے سے کتابوں کی طرف دیکھا۔ میں نے پوچھا،   وہاں کیا ہے؟  وہ آہستہ سے بولی،  وہ ایک چوہا ہے۔ میں نے

 اسے کمرے میں بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب وہ کتابوں کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ میں کتابوں کے پاس گیا اور پاؤں سے ٹھوکر

 لگائی۔ وہ کتابوں سے نکل کر فرش کی طرف بھاگا۔ وہ بہت موٹا چوہا تھا۔ وہ اتنا موٹا تھا ک اس کی جسامت ایک چھوٹے کتے کے

 برابر تھی۔ وہ بہت طاقتور تھا۔ فرش پر پیٹ کے بل بہت تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ وہ پوری قوت سے دیوار کے ساتھ بھاگا اور

 الماری کی درز میں گھس گیا۔ وہ ہمارے ساتھ مہینوں سے رہ رہا تھا۔ وہ ہمیں اتنا ہی جانتا تھا جتنا ہم اس کو جانتے تھے۔

 اتنے میں ہم نے سیسل کے بھائی کے گانے اور سیڑھیاں چڑھنے کی آواز سنی۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو ہم نے اپنے منہ پر

 انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کو کہا۔ ہم نے اسے چوہے کا بتایا۔ اس نے پوچھا کہ تم اس کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہو؟  میں

 نے ہاتھ میں لوہےکی سلاخ پکڑی ہوئی تھی اور اسے دیکھتے ہی مارنے کا نشانہ باندھ رکھا تھا۔ بیوی بار بار کہتی رہی کہ یہ کیا کر

 رہے ہو؟  میں نے اس کے بھائی کو کہا کہ چوہے کو اِدھر لائے۔ اس وقت سیسل بستر پر زور سے کودی اور مجھ سے سلاخ چھیننے کی

 کوشش کرنے لگی۔ وہ چیخ کر بولی کہ وہ سلاخ اسے دے دے اور چوہے کو نہ مارے۔ وہ بھی کسی کا بچہ ہے۔ وہ میرے اٹھے

 ہوئے بازو پر جھول گئی۔ اس لمحے چوہا تیزی سے کتابوں کے درمیانی خلا کی طرف بھاگا۔ میں نے اس کے تیز دانت دیکھے جو

 کاٹنے کے لئے تیز تھے۔ وہ مجھ پر جھپٹنا چاہتا تھا۔ اس کا یہ جارحانہ انداز دیکھ کر ہم اِدھر اُدھر ہوگئے۔ سیسل اور میں بستر اور

 اس کا بھائی میز پر چڑھ گیا۔ ان مقامات سے چوہے کی تمام سر گرمی واضح طور پر نظر آنے لگی تھی۔ اب ہمیں صحیح پتہ چل چکا تھا

 کہ وہ کتنا موٹا، طاقتور اور پھرتیلا  تھا۔ اس کا جسم کپکپا رہا تھا۔ اس کی دم اس کے نیچے اس کے پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔  ایسے

 لگ رہا تھا جو کہ اس کی آنکھ سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہم سے پوری طرح مانوس ہے۔  وہ ہمیں جانتا اور چاہتا بھی  تھا۔ اس نے

 ہماری تمام حرکات جو خالص نجی بھی تھیں، دیکھی تھیں۔ اس وقت ان چیزوں کے سوچنے کا وقت نہ تھا بلکہ اس سے چھٹکارا

 حاصل کرنے کا وقت تھا۔ میں تمام تر چاہنے کے باوجود سیسل کی طرف نہ دیکھ سکا۔ مجھے سیسل کا رویہ  دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ یہ

 سب پسند نہیں کر رہی تھی لیکن میں نے چوہے کو ختم کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ میں نے بستر سے نشانہ باندھا اور سلاخ کو چوہے پر

 پھینک دیا جو اس کے سر کے آس پر جا کر لگی۔  اس نے اسے نقصان تو پہنچایا لیکن وہ ضرب کاری نہ تھی۔  چوہا بھاگ کر کتابوں

 کی جگہ سے ہوتا ہوا الماری کی درز میں چھپ گیا اور اپنے دانت کٹکٹانے لگا۔  درز سے کھرچنے کی آواز آنے لگی۔

          میں نے کوٹ کے لوہے کا ہینگر سیدھا کیا اور ایڈریان کو دیا کہ وہ اس سے چوہے کو باہر نکالے۔  وہ اس وقت بالکل

 خاموش کھڑا تھا لیکن کچھ خوفزدہ سا لگ رہا تھا۔    سیسل یہ منظر دیکھ کر بستر پربیٹھ گئی اور اپنا سر اپنی ٹانگوں میں دبا لیا۔  میں اب

 بھی میں پوری تیاری سے سلاخ لے کر کھڑا تھا اور اس جگہ دیکھ رہا تھا جہاں چوہا چھپا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں بستر پر ننگے

 پاؤں کھڑا ہوا تھا جبکہ چوہا مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔  وہ میرے ننگے پیروں پر حملہ کر سکتا تھا۔  چوہے کے کٹکٹاتے ہوئے دانتوں کو

 میں اپنے پاؤں ادھیڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا  اس لئے میں نے سوچا کہ بدن کا کوکوئی حصہ ننگا نہ رہنے دوں اور جوتی پہن لوں لیکن

 دیر ہو چکی تھی۔ اس کا بھائی درز کھٹکھٹا رہا تھا۔ یہ آواز سن کر چوہا اندر نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ اس صورت حال میں میں وہاں سے ہل

 نہیں سکتا تھا اس لئے میں ایک  بیس بال کے بیٹسمین کی طرح ذرا جھک کر ہٹ مارنے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ ایڈریان کے ہینگر

 کھٹکھٹانے سے چوہا ایک بار پھر اس خلا کی جانب لپکا جو کہ کتابوں کے درمیان بنائی گئی تھی۔ میں ایکشن کے لئے تیار کھڑا تھا۔

 دھات کی سلاخ اس پر تاک کر دے ماری۔ اس بار وہ اس کے پیٹ پر لگی۔ یہ ضرب کاری ثابت ہوئی۔  وہ اچھل کر کمرے کے

 وسط میں فرش پر گر گیا پھر اٹھ کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔ سیسل نے ہاتھ اپنے منہ میں ڈال کر زور سے چیخ ماری۔ میں نے چوہے

 پر ایک  اور وار کیا  جو اس کے جسم کے پچھلے حصہ پر لگا اور ضرب کے زور سے وہ دیوار سے  جاٹکرایا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ

 گئی۔ وہ زمین پر گرا اور اس کی ٹانگیں ہوا میں معلق ہوگئیں۔  وہ ایک پکے ہوئے پھل کی طرح درخت سے ٹوٹ کر گرا ہوا لگ

 رہا تھا۔ 

 اس وقت ایڈریان درز کو ٹھوکر مارنے کے لئے الماری کے پیچھے،  میں بستر پر کھڑ  ا              تھا  اور سیسل اپنا ہاتھ سے منہ میں چھپائے

 خوفزدہ بستر پر بیٹھی تھی۔ سب کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ اس وقت  کمرے میں ایسی بدبو پھیل گئی جو حیض کے دوران آتی

 ہے۔ عین اسی وقت ایڈریان کی خوف سے زور دار آواز میں ہوا خارج ہوگئی۔ میں ہنس پڑا۔ چوہے کے خون کی بو اور ہوا خارج

 کرنے کی بو آپس میں مل گئی تھیں اور ایک نئی قسم کی بو آنے لگی۔ میں بستر سے نیچے اترا اور سلاخ سے اس مرے ہوئے چوہے

 کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ اس کا پیٹ پھٹ چکا تھا۔ اس میں پانچ چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن کے گھٹنے ان کی ٹھوڑیوں سے لگے

 ہوئے تھے۔ ایک بچے نے تھوڑی سی حرکت کی،  پھر وہ ساکن ہو گیا۔  اس کی ماں مر چکی تھی اور اس کے لئے اب کچھ نہیں بچا تھا۔  

سیسل بستر سے اٹھی۔ چوہیا کے پاس گئی۔اس کے چہرے پر پوری ہمدردی چھائی ہوئی تھی۔ وہ اس کو ایسے دیکھنے لگی جیسے اس

 کے ساتھ کوئی خاص تعلق ہو……ہاں تعلق تو تھا……وہ بھی ماں بننے والی تھی۔ اس نے چوہیا کے پھٹے ہوئے پیٹ میں ان بچوں کو

 دوبارہ ڈال کر پیٹ بند کر دیا اور اس کے پاس کچھ دیر بیٹھی رہی۔ مجھے دیکھ کر بولی،  تم ظالم ہو۔ کیا تمہیں اس پر ترس نہیں آیا؟

 تم لوگوں نے اس کو ختم کر دیا ہے لیکن اب اس کا اختتام تو صحیح طریقے سے کرلو۔ اس نے چوہیا کو اخبار میں لپیٹا، ایک موم بتی

 جلائی اور ہم اسے سیڑھیوں سے نیچے لانے لگے  و مجھے یاد آیا کہ ہم نے ایک بڑی مچھلی بھی تو پکڑی تھی۔ میں نے اس کو بھی اٹھا

 لیا جو پلاسٹک کے تھیلے میں ابھی زندہ تھی۔  اس وقت ہوا ہلکی ہلکی چل رہی تھی۔ 

ہم ساحل پر گئے اور مچھلی کو سمندر میں اتار دیا اور چوہیا اور اس کے بچوں کو ایک جگہ دفن کرکے اس کی قبر پر موم بتی جلا دی۔ 

وہ کتنی بدقسمت ماں تھی۔سیسل بولی۔ آؤ ہم سب ایک منٹ کے لئے خاموش ہو کر افسوس کا اظہار کریں تاکہ ان کا سفرِ

 آخرت تو شایان شان طریقے سے منایا جا سکے۔




Ian McEwan

(1948 -) UK

         

آئن میک ون آکسفورڈ انگلینڈ میں 1948میں پیدا۔ اس نے بہت سی کتب لکھیں جس میں 

First Love and Last Rites (1975پرSummerset Manghamانعام جیتا۔  دیگر اہم تصانیف میں  

Cement Garden (1975) اور Child in Time (1987)ہیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔ 

The Imitation Game and Other Plays (1987)کتاب پر ٹی وی ڈرامے بنے۔ وہ اپنی تصانیف کے بارے

 میں کہتا ہے جب میں مختصر کہانیاں لکھتا تھا تو مجھے ٹی ڈرامے کی انداز میں تحریر کرتا زیادہ دلچسپ لکھتا تھا۔ اس لئے میں نے

 تیس، پچاس اور ستر منٹ کے کئی سیریل لکھے۔ یہ میری مختصر کہانیاں تھیں جن میں روز مرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر

 کیا گیا تھا  اور مسائل کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا تھا۔

         

آئن میک ون انگلستان کا  ایک ایسا دیب ہے جو1945سے اب تک اوپر والے پینتالیس اہم ترین ادیبوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ

 سکرین رائٹر بھی تھا۔  اس کی دیگر فلمیں درج ذیل ہیں۔

 

٭      Atonement          ٭      The Children Act                  ٭      On Chisel Beach

٭      Enduring Love            ٭      The Good Son                       ٭      The Innocence


Popular posts from this blog