20 Book 5 The Hunger Artist Franz Kafka ) ٖ Final 23rd August 2025
20
Book 5 The Hunger Artist Franz Kafka
.......
فا
قہ مست فن کار
Hunger Artist
فرانز
کافکا (نوبل انعام یافتہ)
Franz Kafka
افسانہ فرانز کافکا کی
موت سے کچھ دیر پہلے لکھاگیا۔ یہ موت،بھوک پیاس،روحانی غربت ،بے بسی ،ذاتی ناکامی
،بےایمانی اور انسانی روابط کااحاطہ کرتاہے۔ یہ افسانہ 1922 میں 'اے سٹارویشن
آرٹسٹ' اور 'آرٹسٹ 'کےعنوان سے لکھاگیااور اس کے موت کے بعد اس کے
دوست نے '' فاقہ پسند فنکار' ( اے ہنگر آرٹسٹ ) کے نام سے
شائع کیا۔اس میں فنکار اپنی فاقہ مستی کامظاہرہ کرتا تھا۔ جب اس نے بار بار یہ شو کیا
تولوگ اسے فاقہ پسند شعبدہ باز بھی کہنے
لگ گئے ۔ وہ لوگوں کے سامنے کئی ہفتے
بھوکا رہنے کا شو پیش کیا کرتاتھا۔اس نے یہ کرتب چھ سال پہلے شروع کیاتھا ۔ ابتدائی
ایام میں جب وہ پانچ چھ ہفتے بھوکا رہنے کا اعلان کرتا تو اس کو دیکھنے پر مہنگا
ٹکٹ لگایا جاتا تھا۔ اسے لوہے کے بنے ایک پنجرے میں تنکو ں کا ڈھیر میں بند کر دیا جاتا تھا۔جس میں وہ خود کو
چھپالیتا۔
موجودہ
شو میں اس پنجرے میں صرف دو چیزیں تھیں ۔ایک
گھڑیال ،جو اس کے بھوکا رہنے کے دن اور وقت کا دورانیہ بتاتا رہتاتھا اور دوسری شے
کرسی تھی ۔تماشائی اسے دیکھنے کے لئے جوق در جوق آتے تو اس کا پروموٹر اسے معاہدے
کے تحت طے شدہ رقم دیتا جو برائے نام ہوتی
اور خود سونے چاندی میں کھیلتا۔ شو میں ندرت نہ لانے اور متواتر ایک ہی طرح
کاشوپیش کرنے سے تماشائیوں میں ،عدم دلچسپی پیدا ہوگئی اور اس کے شو ُٹھس ہونے لگ
گئے ۔۔ماضی میں بھوکا رہنے کا مظاہرہ کرنے والا شخص خود کو 'فاقہ پسند فنکار' کہلانا
پسند کرتا تھا۔وہ دعویٰ کرتا کہ بغیر کھائے وہ چالیس دن زندہ رہ سکتا تھا۔ اس کے
اس دعوے کو لوگ حیرت سے سنتے لیکن یقین نہیں کرتے تھے اور پورا شہر اس کی حالت
دیکھنے کے لئے ُامڈ پڑتا تھا۔جوں جوں اس کی بھوکے رہنے کے دن زیادہ ہوتے جاتے
،تماشائیوں کی تعداد بڑھتی جاتی۔ہر تماشائی دور دراز مقامات سے اس کو روزانہ کم از
کم ایک بار ضرور دیکھنے آتا۔بھوکا رہنے کے آخری دنوں میں تو تماشائی ٹکٹ صبح سے ہی
خرید کر پورا دن چھوٹے سے پنجرے میں جس میں وہ تنکوں میں لپٹا پڑا ہوتاتھا، کے
باہر بیٹھ کر اسے حیرت سے دیکھتے رہتے اور اس کی ہمت کی داد دیتے۔کچھ لوگوں کو شک تھا
کہ وہ موقہ ملنے پر ضرور کچھ نہ کچھ کھالیتاہو گا ۔بعض لوگ تو اسے رات کو اچانک
دیکھنے کے لئے آتے کہ وہ کہیں چوری چھپے کچھ کھا تو نہیں رہا تھا۔وہ ٹارچ کی روشنی
میں اسے دیکھتے۔ عمدہ موسم میں اس کے پنجرے کو گھسیٹ کر کھلی ہوا میں رکھ دیا جاتا
تاکہ لوگ عموماً اور بچے خصوصاً اسے دیکھ سکیں۔ جوانوں کے نزدیک وہ ایک تفریح تھا
،جس سے وہ لطف اندوز ہوتے کیونکہ وہ اس شو کو فیشن شو کی طرح کا لیتے تھے۔بچے اس
کو تنکوں پر بیٹھا بڑے شوق سے دیکھتے ۔ان کے منہ ُ کھلے کے ُکھلے رہ جاتے اور اپنے
تحفظ کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتے۔ وہ سیاہ رنگ کے پاجامے میں، اپنے زرد
رنگ اور واضح پسلیوں کے ساتھ کرسی کو ٹھوکر مار رہاہوتا ۔۔۔کبھی کبھار وہ ہاں میں
سر بھی ہلاتا،اور چہرے پر مجبوراً مسکراہٹ سےلوگوں کے سوالات کے جوابات بھی
دیاکرتا تھا۔ پنجرے کی سلاخوں سے اپنابازو بھی باہر نکالا کرتا کہ لوگ محسوس براہِ
راست اس کا لاغر جسم دیکھ سکیں۔ اس کے بعد 'سب ٹھیک ہے' سب ٹھیک ہے 'کا نعرہ لگاتے
۔وہ اس کی اس حالت پر ترس کھاتے ۔فنکار اپنے نحیف اور جسم کے ڈھانچے کا جلوہ دکھا
کر پھر اپنی جگہ پر آکر ُ گم ُسم بیٹھ جاتااور ایسا لگتا کہ اسے دنیا اور ارد گرد
کا کچھ احساس نہیں ۔ پنجرے میں وہ خاموشی سے گھڑیال دیکھتا رہتا اور کبھی کبھا اپنے خشک ہونٹوں کو
تر کرنے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ لےلیتا تھا۔ ہرروز نئے نئے تماشائی اسے دیکھنے
آتے۔ان میں سول سوسائٹی کے ذہن میں یہ آیا کہ اس کے دعوے کی تصدیق کے لیے اس کے شب
و روز کو مانیٹر کیاجائے۔انہوں نے اس پر مستقل نظر رکھنے کے لئے اپنے نما ئندے مقرر
کردیئے جن کاکام چوبیس گھنٹے یہ مشاہدہ کرناتھا کہ کہیں وہ چوری چھپے کچھ کھاتا
تونہیں؟۔۔۔ یہ اتفاق تھاکہ فنکار کی نگرانی کرنے والے سب کے سب قصاب تھے جن کے ذمے
یہ فرض سونپاگیاتھا کہ مختلف اوقات میں تین نمائندے مختلف جگہوں پر چھپ کر یہ نوٹ
کریں کہ وہ رات کو کوئی خوراک تو نہیں کھاتا۔خفیہ طور پر اس کی حرکات دیکھیں۔ کئی
دنوں کی نگرانی کے بعد ہر نگران کی طرف سے یہ رپورٹ آئی کہ وہ فنکار کسی بھی حالت
اورصورت میں کچھ نہیں کھاتا تھا ۔اسے کھانے پر مجبور کیاجاتا ۔ اسے اپنے ضبطِ نفس
پر مکمل عبور تھا ۔و وہ کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگاتاتھا۔اس کی خودداری اسے اس بات
کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ اپناعہد توڑے۔بعض مبصرین اس سے ُ دور کسی کونے میں
چھپ کر رات بھر بیٹھے گپ شپ کرتے ہوئے اس کی حرکات نوٹ کرتے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ
کبھی ہلکی پھلکی خوراک جو اسے ان دیکھی قوتیں خفیہ طور پر فراہم کرتی ہوں، کھا
لیتا ہو ۔ ایسی تراکیب سے فنکار کی بجا ئے مشاہدہ کرنے والوں کو زیادہ تکلیف ہوتی
کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرتا تھا۔ایسے لوگ جو اس پر شک کرتے تھے کی حرکات و سکنات پر
وہ افسردہ ہوجاتا تھا۔ اس کی بھوک کے ارتکاز اور ذہنی تناؤ پیداہوتا تو وہ اسے
مختلف طریقوں سے دور کرتا۔کبھی تو وہ لیٹ جاتا، کبھی خودکلامی کرنے لگتا، کبھی کسی
کو دیکھ کر اس سے گفتگو کرنے لگتااور کبھی گانا گانے لگتا لیکن یہ طریقہ کارگر
ثابت نہ ہوا کیونکہ نگرانوں نے یہ گمان کرناشروع کردیاتھا کہ وہ بڑا چالباز تھا
اوراس نے یہ مہارت حاصل کر رکھی تھی کہ کھاتے وقت وہ مسلسل گا بھی سکتاتھا ۔ فنکار
ان کو زیادہ پسند کرتاجو پنجرے کے سامنے بیٹھ کراس کی حرکات نوٹ کرتے ۔اس کے
پنجرےمیں رات کو
نہا
یت کم روشنی رکھی جاتی تھی تاکہ وہ آرام سے سو سکے۔ لیکن وہ مدھم روشنیوں کی بجائے
تیز روشنی میں رہنا اور دیکھے جانا زیادہ پسند کرتاتھا۔عام طور پر وہ سوتا نہیں
تھا، اور اس میں اتنی صلاحیت تھی کہ تیز ز روشنی میں بہت زیادہ شور کرنے والے ہجوم
یا مکمل تنہائی میں جب موت کی سی خاموشی چھائی ہوتی ، میں بغیر رکاوٹ کے ُ اونگھ
سکتاتھا۔وہ لوگوں کی موجودگی میں پوری رات بغیر نیند لئے بھی پر سکون رہ
سکتاتھا۔وہ لوگوں سے باتیں اور مذاق کرکے خود کو مصروف رکھتا تھا۔ وہ خانہ بدوشوں
کے قصے سنا کر خوش ہوتاور ان سے بھی کہتاکہ وہ اپنے قصے سنائیں۔ ۔ہروہ چیز کرتا
جواسے جگائے رکھے۔وہ ناظرین کو رات بھر مصروف رکھتا تاکہ وہ دیکھ سکیں ،اور تصدیق کرسکیں کہ فنکار نے رات بھر کچھ نہیں
کھایا۔اس کی بھوک برداشت کرنے کامقابلہ کوئی بھی نہیں کرسکتا تھا۔ وہ نگران جو رات
بھر اس کے ساتھ رہتے اور بھوک سے سو نہ سکتے ،سب سے زیادہ خوش اس وقت ہوتے جب
انہوں نے فنکار کو اپنے خرچ پر پر تکلف ناشتہ پیش کیا لیکن فنکار نے کچھ نہ
کھایا۔اس پر بھی کئی لوگوں نے انگلیاں اٹھایئں ۔تاہم، عمومی طور پر ایسی باتیں بھی
شو کاحصہ تھیں ۔ ایسے خدشات لامحالہ اس کے ساتھ
وابستہ تھے۔۔ تاہم، حقیقت میں، کسی کے پاس اتنافالتو وقت نہیں تھا کہ دن رات ہر
وقت اس کی ٹوہ میں لگارہے کہ کھانا کھایا یا نہیں۔لوگ گروہوں میں بٹ کر کبھی کبھار
اپنے طورپر چھاپہ مار کر چیک کرتے رہتے اور کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ پاتے کہ وہ کس طرح وہ بغیر کسی کھانے کے زندہ تھا۔ فنکار اپنے مشن پر قائم اور مطمئن
تھا کہ وہ اپنا عہدنبھائے گا ۔اگر وہ کسی بات پر غیر مطمئن تھا ا۔ تو اس کی وجہ مختلف تھی۔شاید وہ وجہ بالکل
یہ نہیں تھی جیسے کہ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ بھوکا رہنے کی وجہ سے لاغر ہوگیاتھا،کی کارکردگی نہ دیکھنے کے لئے اس
سے دوپورے عزم سے نبھا ریاتھا لیکن تماشائی اس کی نقاہت نہ دیکھ سکتے تھے۔وہ اپنی
بھوک اور شو کی اصل وجہ وہ خود ہی جانتا تھا۔ کون سی شے اس کے موڈ پراثرانداز
ہوسکتی تھی ،کا علم صار ف اسےہی تھا۔۔۔۔
فنکار کے لیے کتنا آسان تھا کہ وہ بغیر کھائے رہے۔اس کے نزدیک بھوکارہنا دنیا کہی آسان
ترین چیز تھی۔اس موضوع پر وہ کبھی خاموش نہیں رہتا تھا ،لیکن لوگ اس کی اس بات پر
بھروسہ نہ کرتے تھے۔ زیادہ تر ان کا یہ
خیال تھاکہ وہ سیدھاسادا تھا۔ان میں زیادہ تر یہ کہتے تھے ، کہ وہ شہرت پسند تھا
اور شعبدے باز تھا۔ اس کے نزدیک باقی تمام کاموں کے بھوکارہنا سب سے آسان
تھا،کیونکہ وہ جانتاتھا کہ اسے کیسے آسان بنایاجاتاہے۔ فنکار میں اتنا حوصلہ اور
عزم تھا کہ اسے کیسے برداشت کیا جائے۔ اس کے پروموٹر نے اس کے بھوکا رہنے کا
دورانیہ چالیس دن رکھاتھا۔۔۔وہ اس سے زیادہ عرصے اسے کسی صورت بھوکا نہیں رہنے دیتا تھا، بین الاقوامی شہروں میں بھی اس کا شو
کروایا جاتاتھا۔در حقیقت اس کی ایک معقول وجہ تھی۔اس کے تجربے نے اسے سکھایاتھاکہ
کسی بھوکے شخص کی آہستہ آہستہ اشتہار بازی سےلوگوں کی دلچسپی زیادہ سے زیادہ چالیس
دن تک ہی برقرار رہ سکتی تھی۔،اس کے بعد لوگ اس سے منہ موڑلیتے تھے۔۔۔۔کوئی شخص
کسی معاملے کو کسی حد تک ہی اچھال سکتا ہے کا دارو مدار شو کی مدت اور تعداد سے ہے۔پہلے دو مظاہروں
میں تو مقبولیت بہت زیادہ ہوتی ہے ، اس کے بعد مشہوری میں نمایاں حد تک کم ہوجاتی ہے۔لیکن یہ سچ تھا
چالیس
دن موزوں ترین عدد تھا جس میں اس کی نمائش کامیاب ہو سکتی تھی۔
چالیسویں دن سرکس کی انتظامیہ جے فنکار کے پنجرے
کو اچھی طرح سجایا ۔یہ دن سب سے اہم تھا کیونکہ اس دن فنکار کو پنجرے سے رہائی
ملنا تھی اور اس کے بعد سے اس نے کھانا پینا شروع ہوجاناتھا۔اس کو بڑی عزت واحترام
سے نکالنا تھا۔آج اس کا دن تھا۔ سب کی نظریں فنکار پر گڑی ہوئی تھیں ۔تماشائی اس
عظیم منظر کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتے دینا چاہتے تھے۔ پروموٹر نے خاطر خواہ
طریقے سے اس کے مکمل پروٹوکال کاانتظاام کر رکھا تھااس ۔نے پنجرے کادروازہ جو
پھولوں سے سجا ہواتھا، کھولا۔۔۔،پرجوش تماشائیوں نے تالیاں بجائیں ۔اکھاڑے میں ،
فوجی بینڈ نے دھنیں بجانا شروع کر دیں،دو ڈاکٹر پنجرے میں داخل ہوئے اور فنکار کی
صحت کاجائزہ لیا۔سپیکر کے ذریعے فنکار کی صحت کے بارے بتایاگیا۔ اس کی صحت کےبارے
میں اعلان میگافون کے ذریعے کیاگیا۔،اور آخر میں دو خواتین آئیں جو اس لحاظ سے خوش
قسمت تھیں کہ انہیں وہاں کے ہجوم نے منتخب کرکے اس بھیجا تھا تاکہ وہ فنکار کا
پنجرے سے ہاتھ پکڑ کر چند قدم چل کر اسے اس میز تک لائیں جہاں پر ُر تکلف کھانا
پڑا تھا۔فنکار کے ماضی کے رویے سے ثابت تھا کہ شو ختم ہونے کے بعد جب اسے کھانا
کھانے کو کہاجاتا تو وہ پوری قوت سے کھانا کھانے میں مزاحمت دکھاتاتھا۔وہ اتنا
کمزور تھاکہ خود سے کھڑا نہیں ہو سکتاتھا اور اگر کھڑا ہوبھی جاتا تو چند قدموں
بعد گر پڑتا تھا۔۔۔ وہ ان لوگوں کو جو اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھارہے ہوتے اپنے
استخوانی ہاتھوں سے انہیں روکتا تھا اور کھڑا نہیں ہوناچاہتاتھا۔ چالیس دن گزرنے
کے بعد وہ
اب اسے کیوں کھانے کھانے پر زور دے رہے تھے ۔ فنکار کے مطابق وہ بہترین فارم میں
تھا؟؟ وہ اس بات پر حیران تھا کہ لوگ اسے مزید بھوکا رہنے کی اجازت نہ دے کر اس کے
فن
کے
ساتھ زیادتی کر رہے تھے۔وہ لامحدود دنوں تک بھوکارہنا چاہتا تھااور دنیا میں بھوکا
رہنے کا ریکارڈ قائم کرنا چاہتا تھا جو شاید اس وقت بھی قائم ہوچکاتھا۔۔وہ خود کو
بھوکارکھنے میں سب سے ناقابلِ تصور حد تک آگے نکلناچاہتاتھا کیونکہ اس کادعویٰ تھا
کہ وہ لامحدود دنوں تک بھوکا رہ
سکتاتھا۔اس کے خیر خواہوں کے نزدیک اس کا مزید بھوک کاٹنے کا دعویٰ درست نہیں
تھا۔وہ اس کا مزید بھوکا رہنا وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ اب چالیس دن پورے
کرچکاتھا۔پروموٹر نے فنکار کو پنجرے سے نکالنے کے لیے تماشائیوں میں سے دو خواتین
کو نامزد کیا جو ان کے لیے بڑا اعزاز تھا۔وہ پنجرے کے اندر گئیں ۔اب وقت آگیاتھا
کہ اس کو سیدھا کھڑا ہو کر چلنا اور کھانا کھلانا تھا۔ اب وہ ایسی خوراک کھا سکتا
تھا جس کی اسے تمنا تھی ۔ خواتین نے اس کی تشویشناک حالت دیکھ کر بڑی ہی مشکل سے
اپنے جذبات کودبایا۔ وہ اس کے پاس گئیں ۔اس نے ان خواتین کی آنکھوں میں دیکھا،جو
اس پر بڑی مہربان نظر آ رہی تھیں ۔ اس نے جب اسے کہا کہ تم اٹھو تو اس نے اپنا بہت
زیادہ بڑا سر مثبت میں ہلایا۔ اس کے بعد پروموٹر اس کے پاس آیا تو خاموش ماحول میں
بینڈ نے اونچی دھنوں سے ڈھول بجانا شروع کردیا جس سے کچھ سنائی نہیں دے
رہاتھا۔پروموٹر نے اپنا ہاتھ فنکار کی طرف بڑھایا ، جیسے و ہ ماورائی مخلوق کو دعوت دے رہا
ہو۔ وہ ایسا بدقسمت فنکار تھاجو دوسرے معنوں میں اپنے عظیم مقصد کی تکمیل کے دوران
یقیناً شہادت کے رتبے سے کسی طورکم نہ تھا ۔ خواتین نے اسے بازوؤں سے پکڑا ہوا تھا
اور پروموٹر نے اسےکمر سے پکڑلیا تاکہ وہ تماشائیوں کو اس بات کااحساس دلاسکے کہ
وہ اسے اس لئے بڑی احتیاط سے تھام رہاتھا کیونکہ وہ بہت زیادہ نحیف و نزار تھا۔ا ن
تینوں نے فنکار کو آگے کسی کو احتیاط سے منتقل کیا جس سے اس کی نازک ٹانگیں ، بازو
اور جسم کاباقی حصہ ہوامیں لہرایا۔ وہ خواتین جنہوں نے اس کے بازو پکڑ رکھے تھے، فنکار
کی حالتِ زار دیکھ کر ان کے صبر کا پیمانہ لبریزہوگیا۔ خوفناک منظر دیکھ کران کا
چہرہ موت کی طرح زرد ہوگیا۔ وہ بڑی احتیاط سے اسے لارہے تھے ،اس کے باوجود فنکار
تکلیف سے بلک رہاتھا۔اس کاسر ادھر ُدھر ڈولتے ہوئےاس کی چھاتی پر ٹک گیاتھا۔۔۔جس
کی تفصیل بیان کرنا مشکل تھی۔ ۔۔اس کی کمر
جھک کر محراب کی طرح کی ہو گئی تھی۔اس کی
ٹانگیں اپنی حفاظت کے لئے اضطراری کیفیت میں حرکت کررہی تھیں ۔اس کے گھٹنے آپس میں
جڑ گئے تھے،اس کی ٹانگوں کا ُرخ نیچے کی طرف تھا جو فرش سے چھو نہیں رہی تھیں اور
اس کے جسم کاپورا وزن ،جو بہت چھوٹا اور ہلکا تھا،ایک خاتون کے زیادہ قریب تھا جو
مضطرب سانسوں کے ساتھ اس کی مدد کررہی تھی۔ فنکار کو اس بات کااندازہ نہیں تھا کہ
اسے اس بار پنجرے سے نکال کر عوام الناس تک لانے کے عمل میں اس قدر تکلیف اٹھانا
پڑے گی۔ ایک خاتون نے کوشش کی کہ جہاں تک ہوسکے خود کو اس کے جسم سے دور رکھے تاکہ اسے مزید درد سے بچاسکے۔لیکن جب وہ اس میں
ناکام ہوگئی اور اس کی دوسری ساتھی اس کی مدد کو آگئی اور فنکار کے کانپتے ہوئے
ہاتھوں کو پکڑ لیاجو اس کے چہرے کے عین سامنے تھا۔ فنکار کا پورا پنجہ بند تھا جس
نے ُمٹھی کی شکل اختیار کر لی تھی۔ خواتین فرطِ جذبات سے رونے لگ گئیں لیکن
تماشائی ان کی منتقلی کا عمل دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ پروموٹر نے انہیں
حالت کی سنگینی کا احساس دلایا۔ میگافون کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ کمنٹری کی جا رہی
تھی۔دو خواتین اور پروموٹر بالآخر اسے پنجرے سے باہر نکانے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک
ملازم جو وہاں اسی مقصد کے لیے کھڑا تھا، آگے بڑھا اور فنکار کو اٹھا لیا۔اس کے
بعد کھانا لایاگیا۔پروموٹر نے ایک نوالہ فنکار کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ۔اس
دوران وہ تھکان سے نیم بے ہوش ہوچکاتھا اور بیہوش ہونے والاتھا۔اس درد ناک سانحے
کی طرف توجہ دلانے کے لیے پروموٹر نے موسیقی بینڈ کو اشارہ کیاکہ وہ ڈھول مزید زور
سے بجانا شروع کردیں۔ تماشائیوں کواس عمل میں شامل کرنے کے لیے پروموٹر نے بھوک سے
نیم مردہ فنکار کے سامنے جام لہرایا تو بینڈ نے تیز اور اونچی آواز میں طربیہُ دھن
چھیڑ دی۔ جس سے تقریب میں موجود تماشائی خوش ہو گئے۔ اگر اس وقت وہاں کوئی غیر آرام دہ اور تکیف میں تھا تووہ
صرف فنکار تھا کیوں وہ پنجرے میں بھوکا رہنا چاہتا تھا۔۔ وہ پچھلے چھ سالوں سے اس طرح کے شو کررہاتھا۔وہ جگہ جگہ ،مختلف
اوقات میں بار بار کررہاتھا۔ اس نے ایسے
شو دیگر ملکوں میں بھی کئے تھے۔۔ شو کے ختم ہونے پر بہت عزت کماتا۔کچھ دن خاموش
رہتا۔جب وہ شو نہ کررہاہوتا تو وہ عموماًافسردہ رہتا ۔دن گزرنے کے ساتھ
ساتھ
اس کی محرومی میں اضافہ ہوتا چلاجاتا۔
وہ کس طرح ذہنی آسودگی حاصل کرے ؛دنیا میں کون سی شے تھی جو اسے تسکین دے
سکتی تھی ،اسے ہی معلوم تھا۔؟اور اگر کوئی خیرخواہ و اس کی تکلیف کا وجہ جاننے کی
کوشش کرتا تو اسے پتہ چلتا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچتا کہ اس کی بےقراری کی وجہ
بھوکے رہنے کاشو نہ کرنا تھی۔ اگر کوئی شخص اس پر الزام لگاتا کہ وہ بڑاکائیاں ہے
اور بھوکے رہنے کے شو میں کسی کے علم میں لائے بغیر وہ کچھ نہ کچھ کھالیتاہے تو
اسے ُبرالگتا ۔وہ غصے میں آجاتا اور پنجرے کو مکے مارنا شروع کر دیتا تو جب انہیں
یہ کہا جاتا کہ یہ غصہ اور چڑچڑا پن بھوکا رہنے کی وجہ سے تھا۔ یہ دلیل عام لوگوں
کو جو نارمل لوگوں کی طرح کھاتے تھےکسی مزید وضاحت کے ،قبول کرلی جاتی۔ فنکار اب چالیس دنوں سے بہت زیادہ دن بھوکا رہنے پر اصرار کررہاتھا۔پروموٹروں کی سمجھ میں نہیں
آتا تھا کہ وہ ایسے کیسے کر سکتاتھا ۔ اس
کی ذینی اور جسمانی حالت بہت پتلی تھی جس میں مزید برداشت کی سکت نہیں تھی۔پروموٹر
ِبلا شک اس کی شاندار کاوشوں، مضبوط ارادے
،اورشدید ذاتی انحراف کو تسلیم تو کرتے تھے لیکن اس کا یہ دعویٰ اس وقت تقویت نہ
پاسکتا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اس کے
بعد وہ زندہ نہیں رہے گا۔جب فنکار کی ہر نئے دن کی تصاویر فروخت کے لیے رکھی جاتیں۔
وہ ان تصاویر میں سخت حالات اور تھکن سےتقریباً مراہوالگتاتھا۔ وہ فنکار کی سخت
شرائط میں بھوکا رہنے کے عواقب سے واقف تھے۔ان حالات میں اس کے بگاڑ پن کی حقیقت
کاپوری طرح علم تھا، نامساعد حالات برداشت کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ عوام کو
یقین تھا کہ ایسے شو کا قبل از وقت خاتمہ ہو جائے گا اور دعویٰ ثابت ہونے سے پہلے
اس کی موت واقع ہو جائے گی۔لوگ ایسے شو کے بنیادی مقصد پر بھی سوالات اٹھا رہے
تھے! وہ اس کے ایسے ارادے کی منطق سمجھ نہیں پارہے تھے ۔ایسی کم فہمی کودور کرنا
ناممکن تھا۔جب کبھی وہ بھوکا رہنے کا شوکررہاہوتا، پنجرے میں اپنے پروموٹر کی
تجاویز بڑے غور سے سنتا، لمبا ٹھنڈا سانس لیتا اور ،اور پھر سے اپنے تنکوں میں گھس
جاتا۔ وہ لوگ جنہوں نے بھوکے فنکار کا شو دیکھاہوتا اور وہ جب چند مہینوں یاہرسال
ایک شے بار بار دیکھتے تو ان کی دلچسپی کم ہونے لگی، چند سالوں بعد پھرسے سوچتے
تھے، تماشائی یکسانیت سے اکتاگئے تھے۔ کئی بار تو پروموٹر کو شو کینسل بھی کردینا
پڑا۔اب تو بات یہاں تک آگئی تھی کہ اس شو کا سرپرست ملنا بھی مشکل ہو رہاتھا،
پروموٹر نے اس کا یہ شو آدھے یورپ سے زیادہ ممالک میں ایک سے زیادہ بار منعقد
کروایا ۔ اس کا مقصد تھا کہ غیر ممالک میں چونکہ اس کے چند ہی شو پیش کیے گئے تھے
، اس لیے وہ زیادہ تماشائی اپنی طرف کھینچ سکیں گے اور پھر سے بھوکا رہنے والے فنکار
میں عوام کی دلچسپی پیدا ہو جائے گی۔ یہ تدبیر بھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔ایسا لگ
رہاتھا کہ اس شو کے خلاف عوام نے کوئی خفیہ معاہدہ کرلیاتھاکہ وہ شو مزید نہیں
دیکھنا۔ایسا ردعمل ظاہر ہے کہ لوگوں کی اس شو سے عدم دلچسپی یکدم نہیں رہی تھی۔بار
بار ایک ہی شے دیکھ کر اکتا گئےتھے۔ تماشائیوں میں پھر سے دلچسپی پیدا کرنا اب
ناممکن ہوگیاتھا۔یقیناً یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی تھی کی شو کی مقبولیت ایک
بار پھر لوٹ آئے گی۔عین ممکن تھا کہ سالانہ دیہی میلوں ٹھیلوں میں اس کا شو شائد زیادہ مقبولیت حاصل کرے کیونکہ وہاں کی آبادی کو
تفریحی مواقع کم ملتے تھے ۔ لیکن وہ فنکار
اب اتنابوڑھاہوچکاتھاکہ کوئی دوسرا پیشہ اختیار نہیں کر سکتاتھا۔اس کی ذریعہ معاش
چالیس روز بھوکا رہنے کا شو کرنا ہی تھا۔اس لئے اس نے اپنے پرانے سرپرست سے معاہدہ ختم کردیاجو ایک بے مثال ساتھی تھا ۔
سرمایہ
دار صرف ایسے لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں جہاں انہیں منافع کی تو قع ہو ۔ فاقہ پسند
فنکار بار بار ایک جیسا شو کرکے جس میں کوئی ندرت نہ ہو، عدم دلچسپی کا اظہار کر
رہے تھے۔
کوئی
اور پروموٹر اس کا ہاتھ پکڑنے کو تیار نہیں تھا۔ لے دے کے ایک بڑی سر کس کے مالک
نے اس کے ایک شو کی سرپرستی قبول کرلی ۔ اپنے مخدوش مالی حالات کے سبب فنکار نے معاہدے کی شرائظ بھی نہ دیکھیں اور
دستخط کردیئے۔ ایک بہت بڑی سرکس جس میں چڑیا گھر کے پورے جانور، کرتب دکھانے والے
ہاتھی، گھوڑے، شیر اور انواع و اقسام کی ورزش کرنے والے پیشہ ور ماہر ین اور جوکر
وغیرہ اپنے اپنے کرتب دکھاتے تھے ر مستقل طور پرلوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے
تھے۔ وہ تماشائیوں کی دلچسپی برقرار رکھے ہوئے تھے۔ایک جانور کے پنجرے کے پاس اس
فنکار کا پنجرہ بھی رکھ دیا گیا۔ فنکار نے بھی تماشائیوں کو اپنی طرف مائل کرنا
شروع کر دیاتھا۔ مسلسل چالیس دن تک بھوک برداشت کرنا کوئی کم خوبی نہیں تھی۔ وہ یہ
مہارت ابھی بھی پوری طرح پیش کررہاتھا۔
درحقیقت اس کے فن کا معیار بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کم ہو رہا تھا ،وہ اپنی قا بلیت اور ہنرکے عروج پر نہیں
رہاتھا،۔اس کی خواہش تھی کہ سرکس میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر ے۔وہ توانائی
کی کمی کو دل ودماغ سے قبول نہیں کر پا رہاتھا۔ اس نے اعلان کیاکہ وہ
ماضی کی بلند ترین توانائی کی طرح اپنی کارکردگی پھر سے دکھاسکتا تھا۔لوگ اس کے اس
اعلان کو اب نا قابل اعتبار سمجھتے تھے۔لیکن فنکار اپنے دعوے پر قائم رہا ۔اس نے عوام کو یقین دلایا کہ اگر وہ اسے
اجازت دیں تو وہ بھوکارہنے کا سابقہ ریکارڈ یقیناً توڑکر دنیا بھر کو حیران کردے
گا لیکن اس کی لاغر جسمانی حالت اور اس کے بڑھاپے کو مدِنظر رکھ کر ماہرین اس کی
اس تجویز پر ہنس دیئے ۔اس کے جنون اور جذبات کو نظرانداز کیا اور اسے چالیس روز تک
ہی بھوکا رہنے تک ہی محدود رکھا۔ یہ بھی سچ تھا کہ فنکار اپنے حواس کو ضبط میں
لانے کی مہارت جن کے تحت وہ ہفتوں بھوکا رہ سکتا تھا ،کی تراکیب اور ہنر کو
بھولانہیں تھا۔اس نے تماشائیوں کی نفسیات جان لی تھی ۔ اس کے سامنے بالکل واضح تھا
کہ تماشائی اس کو ایک لمحے کے لیے دیکھیں گے پھر ان کا رخ دوسری دلچسپیوں کی طرف
ہو جائے گا جن میں کرتب دکھانے والے جانور ترجیحی تھے ۔اس لئے اس نے انہیں کہاکہ اس کا پنجرہ سرکس کے درمیان
جانوروں کے پنجروں کے پاس رکھا جائے ۔اس سے وہ مزید چیزیں دیکھنے سے پہلے اس کے
پنجرے کے پاس کھڑے ہوکر اسے دیکھیں گے۔سرکس کے بڑے کرتب دکھانے والی آئٹم ختم ہونے
اور نیا آئٹم شروع ہونے کے درمیانی وقفے میں لوگ بھاگتے ہوئے جانوروں کے پنجرے کی
طرف آئیں گے ۔چونکہ اس کا پنجرہ ان کے ساتھ ہوگا ، اس لیے وہ اسے بھی دیکھیں گے ۔
اگر وہاں گزرنے کاراستہ تنگ رکھاجائے تو تماشائی رک رک کر آگے بڑھیں گےتو اسے بھی
زیادہ دیر کے لیے دیکھ لیں گے ۔ سرکس کے ابتدائی ایام میں تو بڑے کرتبوں کے درمیان
وقفہ بہت کم ہوتاتھا۔وہ توقع کرتا تھا کہ تماشائی ان وقفوں جن کی تعداد محدود تھی
،لوگ اس کے پاس آکر رکیں گے لیکن عملی طور پرایسا نہ ہوا ۔اس کے سابقہ تجربات اور
تمام منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی اور تماشائی بغیر کسی استثنیٰ کے صرف
چڑیاگھر کوہی دیکھتے رہتے۔اور دور سے یہ نظارہ اب بھی خوبصورت ترین رہا ، پھر
آہستہ آاہستہ ان تماشائیوں کا ایک گروپ اس
کے پنجرے میں کسی دلچسپی کے بغیر وقت گزاری کے لیے پنجرے کو دور سے دیکھنے لگے۔
دوسرے تماشائی اس کے پنجرے بے رخی اپنانے لگے اور سیدھا جانوروں کے پنجرے کی طرف چلے جاتے ۔
اس طرح کے منظر نے اسے مایوس کرناشروع کردیا۔
ایک
بار قسمت اس پر مہربان تھی جب ایک خاندان اس کے پنجرے کے سامنے آیا اور ایک بزرگ
نے اس کی طرف اشارہ کیا ،اورانہیں فنکار کے بارے میں تفصیل بیان کی ۔اس کی سابقہ
سالوں کی کارکردگی کے بارے میں بتایا اور اس نے اس کے وہ شو بذات خود دیکھے تھے۔
جو عظیم الشان تھے۔۔اور پھر وہ بچے چونکہ انہوں نے اس وقت سکول ا اور عملی زندگی
کے لیے تیار نہیں تھے ۔ ابھی بھی اس کے شعبدے کو سمجھ نہیں پارہے تھے کہ کون سی شے
فنکار کو بھوکا رہنے پر مجبور کرتی تھی؟لیکن تاہم ان کی تلاش کرتی ہوئی آنکھوں نے
نئی اور زیادہ باوقار طریقےسے پیش کیا جانے والا شو دیکھا اوراس کی تعریف کی تو وہ بہت خوش ہوا کہ اس کے قدردان اب بھی پائے جاتے
تھے ۔ فاقہ زدہ فنکار نے کئی بار خودکلامی کی تھی ،کہ اگر اس کا پنجرہ یہاں سے
اٹھا کر جانوروں کے پنجروں سے ُ دور رکھ دیاجائےتو شاید آنے والے دور میں کچھ
بہتری آجائے کیونکہ ان کے نزدیک اس کا پنجرہ رکھنے کااسے کوئی فائدہ نہیں
ہواتھااور تماشائیوں کو اپنی طرف مائل نہ کرسکا۔ اس کی نئی سوچ سے بہتر نتائج کی
توقع تھی کہ وہ انہیں اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوپائے گا۔موجودہ چال نے اس
کی آس توڑدی تھی ۔ جنگلی جانوروں کے بول وبراز، گوشت جو انہیں کھانے کو دیا جاتا
،کی بدبو اور ان کی رات کی ہنگامہ آرائی نے اس کی طبیعت خراب کردی تھی جس سے وہ
ہروقت پریشان رہنے لگا۔اس نے یہ بھی دریافت کیاتھا کہ جانوروں کے بول و براز کی ُ
بو سے تماشائی کم سے کم وقت ُ رکتے تھے اس لیے اس کو مکمل طورپر نظرانداز
کردیاجاتاتھا۔وہ اس بارے انتظامیہ سے شکایت کرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ تمام تر منفی
باتوں کے جانوروں کی موجود گی اس کے لیے
ِادھر ُادھر سے تماشائی بھی مہیاکرتی تھی اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اس کے پنجرے کی
تبدیلی اسے تماشائیوں سے محروم ہی نہ کر دے۔علاوہ ازیں ایسا بھی ممکن تھا کہ
انتظامیہ اس کی نئی جگہ ایسی الاٹ کردیتی جو دودراز اور تنہامقام پرہوتی۔ انتظامیہ
کی طرف سے تماشائیوں کے ذہن میں اشتہارات
اور سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی اس کی اہمیت بیان کی جارہی تھی جس سے تماشائی اس بھوکے
فنکار کی طرف پھر راغب ہوناشروع ہوگئے تھے۔ یہ تاثر بھی دیاگیا کہ وہ اتنے عرصے تک
بھوکا رہ سکتا تھاجتنا کہ وہ پہلے ہوتاتھا۔۔۔اور اس نے ایسا ہی کیا ۔۔۔لیکن اسے
مزید کوئی بچاسکتاتھا۔لوگ اسے چھوڑ کر اس کے سامنے سے ہٹ کر دلچسپ کرتب دیکھنے چلے
جاتے۔اس نے بھوکے رہنے کے فن کی تدابیر کی وضاحت کی کوشش کی!ایک چھوٹے میز پر جلی حروف میں بھوکا رہنے کا روزانہ جدول درج کیا جاتا تھا۔۔۔ کتنے دن سے وہ بھوک سے
تھااور مزید کتنے دن اس نے بھوکارہناتھا،تفصیل لکھی ہوتی تھی اور اس کی روزانہ
گرتی ہوئی صحت کی تصاویر لگی ہوتی تھیں،اور تازہ ترین ڈورت حال بتائی جاتی تھی۔وہ اب بھی اس خواہش کا
اظہار کرتارہا جو وہ اپنے پروموٹر کے دور میں کرتارہاتھا کہ وہ کھائے بغیر چالیس
دن کے بعد بھی زندہ رہ سکتاتھا اور جسے اس دوران ماہرین نے رد کردیا۔ کسی کو ،یہاں
تک کے، بھوکے فنکار کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ مزید بھوکارہنے وہ مزید کیا حاصل
کرلے گا۔اگر اس کی منشا ورلڈ ریکارڈ قائم کرناتھاتو چالیس دنوں کی بھوک کئی بار
کامیابی سے گزارنے پر وہ پہلے ہی قائم کر چکاتھا۔اور
جب کبھی کوئی شخص اس کے پاس کھڑاہوتا یا چہل قدمی کررہاہوتا اور اس کی ماضی کی
کامیابیوں پر ٹھٹھہ اڑا رہاہوتا یا اسے دھوکے باز ، یا جھوٹا کہہ رہاہوتا ،یا جبلی
کینہ پرور،یا دھوکے باز کہتا تو وہ آگ بگولاہوجاتا۔۔۔کیونکہ وہ یہ شعبدہ نہایت
دیانتداری سےمعاہدے کے مطابق اپنا شو
کررہاہوتاتھا۔ ایسے کئی روز اور بیت گئے ایک صبح سرکس
سپروائزر راؤنڈ پر آیا تو اسے ایسا لگا کہ پنجرہ خالی تھا۔اس نےاہلکار کوکہاکہ یہ پنجرہ بالکل خالی ہے۔اسے
کیوں استعمال نہیں کیاگیا ، اس میں غیراستعمال شدہ تنکے جوگل سڑرہے ہیں پڑے ہیں
،کو صاف کیا جائے تاکہ اسے استعمال
کیا
جا سکے۔
اس
واقعے سے پہلے اس پنجرے کے باسی سے اس کی ملاقات ہوچکی تھی، کے مکالمے اسے یاد آئے۔اس
وقت تک کوئی شخص ماسوائے ایک شخص جس کا کام( تازہ ترین جددل بناناتھا )کے نہیں جانتاتھا کہ اس میں کیاہے، جواسے
معلوم تھا کہ وہ بغیر کھائے چالیس روز تک زندہ رہ سکتا تھا۔اس نے پنجرے میں موجود تنکے ہٹائے اور فنکار کو
لیٹے ہوئےپایاتھا ۔ اس سے اس نے گفتگو شروع کردی ۔'کیا تم ابھی بھی فاقے پر ہو؟' اس
نے پوچھا۔'تمہاری بھوک کے دن کب ختم ہورہے ہیں؟'وہ ہی اس کی بات سمجھ سکتا تھا۔اس نے فنکار کا جواب
سننے کے لئے کان اس کے قریب کرلیے۔اس نے اس کے ماتھے پر تھپکی دی اور تماشائیوں کو
اس کی حالتِ زار دکھائی۔ 'میری ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ تم میری رضاکارانہ بھوک
ہڑتال کی تعریف کرو' ، فاقہ زدہ فنکار نے کہا۔'ہم تمہارے بھوکارہنے کے فن کو
سراہتے ہیں۔' اہل کار نے ممنون ہونے والے انداز میں کہا۔'لیکن تمام لوگ میرے اس فن کی ، کہ میں بغیر کھائے پئے خوش رہتا ہوں۔، کی تعریف
نہیں کرتے۔فنکار نے کہا۔' تم ایسا کیوں کہتے ہو کہ لوگ تمہاری تعریف نہیں کرتے، ہر کوئی تمہارے اس فن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتاہے
لیکن اونچی آواز میں کہے ، ضروری نہیں، کس وجہ سے تمہیں پسند نہ کیا جائے اور
تمہارا حترام نہ کیاجائے؟ ' اہلکارنے پوچھا۔۔۔' کیونکہ میری خوبی یہ ہے کہ میں
بغیر کھائے پئے زندہ رہ سکتاہوں۔اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں آتا۔' فنکار نےاپنا
سر اٹھاتے ہوئے اپنے ہونٹوں کوایسے کھولا جیسے بوسہ لیا جاتاہے ،اہل کار نے اس کے کان میں کہا' ذرااپنی حالت پر غور کرو، تم نے کیوں اپنی مرضی سے اتنے دنوں تک رنے کا مشغلہ
اپنایا؟' اہلکار نے سوال کیا۔۔۔ 'کیونکہ
میں وہ خوراک جو میری پسندیدہ ہوتی ہے،حاصل نہیں کرسکتا،اس لئے میں فاقے کرتاہوں۔
اگر مجھے وہ خوراک جسے کھاکر میں لطف اندوز ہوتا ہوں ،میسر آجائے تو یقین کرو میں
کبھی بھی خود کو تماشہ نہ بناؤں اور میں مزے لےلےکر ایسے کھاؤں جیسے تم یا دوسرے
کھاتے ہو۔'فنکار نے کہا۔ یہ اس فنکار کے آخری الفاظ تھے۔،لیکن اس کی بند ہوئی آنکھوں
میں پراعتماد،اور سزایابی کا احساس تھا ، جواگرچہ فخریہ نہیں تھی۔ 'اچھا،اب اس
پنجرے کو خالی کرکے صاف ستھرا کرو۔' سپروائزر نے کہا۔اور ملازمین نے اس فنکار کو
پاس ہی دفنادیا۔اب اس پنجرے میں جوان چیتے کو رکھ دیاگیا۔احمق سے احمق ترین شخص کے
لئے بھی جنگلی جانور کا پنجرے میں رکھا جانا مردہ فنکار سے زیادہ دلچسپ تھا۔کیونکہ
پنجرے میں طویل عرصے تک رہنے والا قحط زدہ شخص بے کیف تھا مایوسی اور ملال طاری
کرتا تھا۔بغیر انتظار کیے ملازموں نے اس پنجرے میں تندوے کی خوراک ڈال دی۔جس نے اسے مزے سے کھاناشروع کردیا اور ابھی آزادانہ
زندگی کو بھول گیا۔ اس کے دانتوں میں کچا گوشت تھا۔ تماشائیوں کو زندہ ، جوان خونخوارجنگلی جانور دیکھنا پسند آیا جو تیندوے میں موجود تھی ، وہ اس کے ارد گرد
بھی ہوتے تو جنگلی جانور کو اپنی آ زادی
سے محرومی کا احساس نہ ہوتا۔وہ پنجرے میں
تیندوے کو،بیل کے جسم کے کسی حصے کا گوشت کسی حصے میں یا اس کے دانتوں میں
لئے چبارہاہوتا، دیکھتے اور جب تیندوا مطمئن ہوتا یا جوش میں آتا تو دھاڑتا تو یہ
تماشائیوں کے لئے تماشاہوتا اور اسے شوق سے دیکھتے رہتے۔وہ اپنی حفاظت خود کرتے
اور پنجرے کےاردگرد منڈلاتے رہتے،اور وہاں سے ہٹنے کانام نہ لیتے ۔
تجزیہ
فرانز
کافکا کا افسانہ فاقہ پسند فنکار ایک انوکھا افسانہ ہے جو ایک پیشہ ور فنکار کے بارے میں ہے جو اپنی ذات مار کر لمبے
عرصے کے لئےعوام الناس کے سامنے بھوکا رہتا ہے۔ایک وقت تھا کہ اس کو دیکھنے کے لئے
عوام امڈ پڑتے تھےجو ا س دور میں نئی چیز
تھی ۔تاہم ، جوں جوں وقت گزرتا گیا ، اور وہ ایسے کرتب بار بار کرنے لگا تو عوام کی دلچسپی اس میں آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گئی اور
عوام کی توجہ زیادہ دلچسپ اشیاء کی طرف
مبذول ہونا شروع ہو گئی اور اس فنکار کو نظر انداز کیا جانا شروع کر دیا گیا
تو پروموٹر نے اس کے پنجرے کو مرکز سے
اٹھا کرسرکس کے کونے میں رکھ دیا جہاں
تماشائیوں کا دھیان ہی نہیں جاتا تھا۔اپنے نظرانداز ہونے کے باوجود ، اس نے اپنی بھوک ہڑتال کا سلسلہ جاری رکھا ، اور اس میں فخر اور خبط
محسوس کرنے لگا۔آخر کار ایک وقت ایسا بھی آیا کہ
اسے مکمل طور پر بھلادیاگیا۔اس کے نحیف جسم کو تنکوں میں چھپادیا گیا اور غور کرنے
پر پتہ چلتاتھا کہ وہاں کوئی شئے پڑی تھی، وہاں وہ کسی کی نظر میں آئے بغیر فوت ہو گیا۔مرنے سے
پہلے اس نے اپنی بھوک ہڑتال کا را ز افشاں کیا کہ بھوک
ہڑتال اس کا مشن نہیں تھا، وہ کسی فن کا مظاہرہ کرنے نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی وجہ
یہ تھی کہ اپنی مرغوب غذا کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔اسے بھوکا رہنا پڑتا تھا ،
چونکہ اسے بھوک پیاس کا سامنا کرنا ہوتا تھا اس لئے اس نے یہ
مشغلہ بنا لیا۔اس بھوک ہڑتال کے پیچھے کوئی حقیقی عقیدہ یا نظم و ضبط نہیں تھا۔
اس
کے مرنے کے بعد اس کے پنجرے میں ایک تیندوا رکھ دیا گیا جس میں بہت جوش تھا
،حیوانی
طاقت بہت زیادہ تھی اور بہت زیادہ کھاتا تھا ۔ وہ
پنجرہ جو فاقہ مست فنکار کے وقت اجڑ گیا
تھا ، پھر سے آباد ہو گیا تھا اور تماشائی جوق در جوق آنے لگے تھے۔اس افسانے میں
فن کی
ناقدری
،تنہائی اور معاشرے کی اس کی قربانی پرستائش ناپائیدارکا اشارہ دیا گیا ہے۔
اس افسانے کے اہم موضوعات میں فن اور جذبہ قربانی ہیں ۔اس کا
اپنی مرضی سے بھوکا رہنا ( خواہ کو کسی مجبوری سے بھی ہو)اس کی فن سے محبت ظاہر کرتا ہےجس میں یہ بتایا گیا کہ اسے
یہ فن سب چیزوں سے زیادہ پسند ہے اور اس
بنا پر اسے سختیاں اور غلط فہمیاں جھیلنا
پڑتی ہیں۔
اس میں اہم موضوع تنہائی بھی ہے۔۔۔اس کی قربانی کو
اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کے احساسات و جذبات کو نہیں سمجھا گیا۔ اس میں بے مائیگی اور
فرسودگی کا احساس دلایا گیا ہےجس سے مراد یہ ہے کہ تماشائیوں کی دلچسپیاں عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں
اور شہرت عارضی ہوتی ہے۔اس میں سچ بمقابلہ ادراک کا تصور بھی پیش کیا گیا ہے۔ وہ
تماشائیوں سےداد وصول کرنے کے لئے بھوک ہڑتال نہیں کرتا بلکہ اسے اپنی پسندیدہ
خوراک نہیں ملتی ،اس لئےبھوکا رہتا ہے۔اس سے اس کی فن کے ساتھ محبت مجروح ہوتی ہے
اور اس کا بیہودہ نظریہ ظاہر ہوتا ہے۔اس میں طاقت اور خالی پن کا خیال بھی پیش کیا گیا ہے جس میں تیندوے کی
زور آوری اور فنکار کی نقاہت کا موازنہ کیا گیا ہے جس میں معاشرے کی ترجیحات پیش
کی گئی ہیں۔تفریح کوروحانی قربانی پر برتری کا تصور پیش کیا گیا ہے۔
اس افسانے میں یہ ظاہر کیا گیا ہے
کہ معاشرے اورفنکار میں تکلیف دہ تعلق پایا جاتا ہے۔ فنکار کو ایسے روپ میں پیش
کیا گیا ہے جسے سمجھا نہیں گیا۔اس کی قربانیوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ تماشائیوں
نے حقیقت جاننے کی بجائے تفریح کو ترجیح دی ہے۔اس سے
کافکا یہ نکتہ پیش کرتا ہے کہ عوام کی دلچسپی کم ہونے کی وجہ سے معاشرہ کسی ایسی چیز کو جو ایک وقت مقبول ہوا کرتی تھی ،
نظرانداز کردیا ۔
اس افسانے میں کافکا فن کو مکمل
طور پر ذاتی فعل سمجھتا ہے جس میں فنکار معاشرے
سے الگ
تھلگ ہو جاتا ہے۔فن کی کی قدرو قیمت نہ کرنا ، معاشرے کی بے حسی جو
فنکار کی محنت ، مشقت اور خلو ص کو نہیں
سمجھتی ، فنکار کے ذہن کو بددل کر دیتی
ہیں۔
یہ
افسانہ اس بات کو نمایاں کرتاہے کہ شہرت عارضی ہے اور انسان اپنی محنت اور بھرپور
طریقے سے اپنی جان پر کھیل کرجو نام کماتاہے وہ سطحی ہے اس افسانے میں اس تلخ
حقیقت پر زور دیا گیاہے کہ انسانی فطرت بڑی پیچیدہ ہے۔اور کسی معاشرے میں سدابہار مقبول بنائے رکھنا
نا ممکن ہے اور معاشرہ ہمیشہ ہی نہیں
سراہتارہتا۔ اس افسانے میں فرانز کافکا انفرادیت اور سماجی توقعات کے مابین کشمکش
بیان کرتا ہے ۔فاقہ پسند فنکار اپنے فن کو پوری سنجیدگی اور انتھک محنت سے لوگوں
کے سامنے پیش کرتاہے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کے جذبے اور فن کو
معاشرہ کم اہمیت دیتا ہے۔ ۔ فرانز اس افسانے میں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا فانی ہے،
شہرت عارضی ہے ۔اسے دوام حاصل نہیں اور دوسروں اپنے اعلیٰ کام کی سند حاصل کرنا
ناممکن ہے۔اس کی کلیت اور سالمیت کو معاشرہ قبول نہیں کرتا۔اس کی روحانیت کی تسکین
اپنی جسمانی خواہشات سے منکر ہوکر اس بات کی خواہش کا اظہار کرتاہے کہ اس پر
اعتبار کیاجائے۔اس کی یکتائی تسلیم کی جائے۔ سطحی اور افراتفری کی شکاردنیا اس کی
برتری اور فوقیت تسلیم کرے ۔ ناقدین اس افسانے پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس
فن میں نہ تو عقیدہ ہے اور نہ کوئی جذبہ ، مجبوری میں فن پیسہ کمانے کے لئے کمرشل
کردیا گیا ہے،اور اذیتوں اور تکالیف سہنے کے باوجود اس فن کو فن سمجھا ہی نہیں گیا بلکہ اسے ایک کھیل سمجھ لیاگیاہے جس
کامقصد لوگوں کا دل لبھانا ہے۔ فاقہ پسند فنکار ذاتی شناخت، اپنی زندگی کے مقصد کی
جستجواور اس جدید ، لاتعلق، بے پروا معمولی دنیا شناخت، مقصد کا کھوج بیکارہے۔
قصہ
کوتاہ اس افسانے میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ اپنا آئیڈیل اندھی عقیدت کے ساتھ نہیں بنانا چاہیئے، کیونکہ
اس سے افراد کا رابطہ زندگی سے کٹ جاتا ہے۔اصلی خلوص کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن جب ان کا انسانی ضروریات سے رابطہ منقطع ہو جائے، تو
تمام محنت اکارت جاتی ہے۔ یہ افسانہ اس
چیز پر روشنی ڈالتا ہے کہ طاقت، زور زبردستی فن کے
خلوص میں غلط فہمی پیدا کرتی ہے۔ ذات کو نقصان پہنچانا ایک انتہائی برا قدم ہے،
زندگی کے معانی اس وقت اہم ہوتے ہیں جب اپنے اعمال میں توازن ،اور قبولیت پائی
جائے۔ تیندوے کے جوش خروش اور فنکار کی
نقاہت دو انتہائی پہلو ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ جنون کی اہمیت لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہے ۔اس
افسانے سے یہ سبق ملتا ہے کہ کہ
زندگی راحتوں سے اور اپنی ذات ختم کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنی ضروریات پوری کرنے اور انسانیت سے مطابقت کا نام ہے۔
پاکستانی ثقافت میں معاشرتی توقعات، انفرادیت
اور اپنی اہمیت منوانے کے لیےدیگر معاشروں کی طرح روایات اور جدیدیت میں کشمکش
چلتی رہتی ہے۔جس میں فرد کو کو معاشرتی تقاضوں کے مطابق عمل کرنا پڑتاہے اور اپنی
اقدار کو دبادیاجاتاہے۔فاقہ پسند فنکار ایک
ایسی علامت ہے جس میں اسے بڑے چیلنجوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے تاکہ معاشرے میں جہاں اس کی محنت اور
روحانیت
کوپوری طرح تسلیم نہیں کیاجاتا ، قبولیت پر زور دیتاہے۔
علاوہ
ازیں فن کو بیچنا اور شہرت کے حصول ، اعتباریت، اور اس کی وحدت خیالات اس کی ثقافت
میں ضائع سمجھے جاتے ہیں ۔ اس افسانے میں ہر جگہ ، فاقہ پسند فن کارکا بنیادی مقصد
خود کو دوسروں کے سامنے منوانے کاہے۔وہ خود بیگانگی اور سخت تنہائی کاشکارہوجاتاہے
اور اپنے پنجرے میں نمائش کے دوران ایسے
مرجاتاہے کہ کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔کوئی اس کی موت کانوٹس بھی نہیں
لیتا۔یہ افسانہ اس بات کو نمایاں کرتاہے کہ شہرت عارضی ہے اور انسان اپنی محنت اور
بھرپور طریقے سے اپنی جان پر کھیل کرجو نام کماتاہے وہ سطحی ہے اس افسانے میں اس
تلخ حقیقت پر زور دیاگیاہے کہ انسانی فطرت بڑی پیچیدہ ہے۔اور کسی معاشرے میں سدا بہار
معتبر رہنا نا ممکن ہے۔فرانز کافکا اس افسانے میں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا فانی ہے،
شہرت عارضی ہے ۔اسے دوام حاصل نہیں اور دوسروں اپنے اعلیٰ کام کی سند حاصل کرنا
ناممکن ہے۔ اس کی کلیت اور سالمیت کو معاشرہ قبول نہیں کرتا۔اس کی روحانیت کی
تسکین اپنی جسمانی خواہشا ت سے منکر ہوکر اس بات کی خواہش کا اظہار کرتاہے کہ اس
پر اعتبار کیاجائے۔اس کی یکتائی تسلیم کی جائے۔ سطحی اور افراتفری کی شکاردنیا اس
کی برتری اور فوقیت تسلیم کرے ۔ فاقہ پسند فنکار ذاتی شناخت، اپنی زندگی کے مقصد
کی جستجواور اس جدید ، لاتعلق، بے پروا معمولی دنیا شناخت، مقصد کا کھوج بیکارہے۔
پاکستانی ثقافت میں معاشرتی توقعات، انفرادیت اور اپنی اہمیت منوانے کے لیےدیگر
معاشروں کی طرح روایات اور جدیدیت میں کشمکش چلتی رہتی ہے۔جس میں فرد کو کو
معاشرتی تقاضوں کے مطابق عمل کرنا پڑتاہے اور اپنی اقدار کو دبادیاجاتاہے۔فاقہ
پسند ایک ایسی علامت ہے جس میں اسے بڑے چیلنجوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس معاشرے
میں جہاں اس کی محنت اور روحانیت ک پوری طرح و تسلیم نہیں کیاجاتا ۔علاوہ ازین فن
کو بیچنا اور شہرت کے حصول ، اعتباریت، اور اس کی وحدت خیالات اس کی ثقافت میں
ضائع سمجھے جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔