مقابلہ The Cope By انتھنی سٹکلف (عالمی انعام یافتہ ) Anthony Sutcliffe


 


 عالمی ادب

مقابلہ

The Cope

By

انتھنی   سٹکلف (عالمی انعام یافتہ )

Anthony Sutcliffe

 

مترجم و تجزیہ :  غلام محی الدین

میرے پاس صرف چھ ہفتے ہیں۔ میں نے اپنے دوستوں کو نہیں بتایا اور نہ ہی اپنے رفقائے کار کو، اور نہ ہی اپنی بیوی کو کہ میں22مارچ  جو آج سے چھ ہفتوں کی دوری پر ہے۔۔۔، میں کوئی شکائت نہیں کررہا، اور نہ ہی میں ایسا ہوں کہ ایسا کروں ۔ میرا زندگی کے بارے میں  جو معیار ہے، وہ  اتنا برا اور ہولناک ہے کہ میں اپنے گھر  کو یہ لکھ کر پریشان نہیں  کرنا چاہتا کہ  سب کچھ  بہت جلد ختم ہو جائے گا اور اس میں  سوچنا اتنامزاحیہ  بھی نہیں  کہ میرے اس دنیا سے چلے جانے کا عر صہ چھ ہفتے ہے۔ دراصل میں سوچتا ہوں  کہ اس سے میری آتما کو ایک لحاظ سے  سکون حاصل ہو جائے گا کہ مجھے مارکیٹ سے کم بخت بارش میں اور   بھوتوں کی طرح ڈولتے ہوئے چلنا نہیں پڑے گا ۔اور ہوسکتا ہے کہ یہ میری آخری    پیدل  سیر بھی   ہوسکتی ہے اس لئے میں اس صورت کو قبول کرتا ہوں اور اس کا تجربہ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ وہ فارمیسی سے دوائی لا کر اپنے کمرے میں رکھ دیتا ہے اور من ہی من میں کہتا ہے کہ میں اپنی زندگی ایسے ہی گزاروں گا جیسے کہ پہلے گزار رہاتھا۔اپنا رویہ   تبدیل نہیں کروں گا اورروزمرہ فرائض پہلے کی طرح ادا کرتا رہوں گا۔ ایسا ظاہر کروں گا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ایک اچھے خاوند، دوست ، بھائی۔ والد ،بچوں ا ورکوئی  نہیں جان سکے گا کہ کہ  میری زندگی کے اب چھ ہفتوں میں سے تین گزر گئے ہیں اور باقی  صرف تین  ہفتے ہی رہ گئے ہیں ۔ خواہ  وہ تاریخ کتنی بھی بری ہو ، بدھ   22 مارچ  کو میری زندگی  کا آخری دن ہوگا 'مجھے  اس سے پہلے بالکل کچھ بھی نہیں کرنا چاہیئے۔

 تم دیکھتے ہو کہ میری زندگی اوکے ہے ، ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔ ہاں! بالکل صحیح  سمت میں جا رہی ہے کیونکہ میں  جانتا ہوں کہ میں تین ہفتوں کے بعد مر جاؤں گا،  کی وجہ سے بعض اوقات میں بوریت کا شکا ر ہو جاتا ہوں اور یہ  بوریت میرا پیچھا نہیں چھوڑتی ، ناامیدی ، ناکامی ، مایوسی ، اور غصہ ۔۔۔ ہو سکتا ہے ، جوں جوں میری موت کا دن قریب آئے کہ میں ایسے جذبات و احساسات پر کنٹرول   کھو دوں لیکن پھر بھی  اس  کے لئے تیار ہوں۔اور مجھے اس  سے ایسے  ذہنی سکون میسر ہوتا ہے جیسے کہ  توہین ، ذلت ،خواری  جو زندگی  کے خاتمے کے ایام  گنتی  کرنے پر راحت ملتی ہے  ۔۔۔دو ہفتے اور چھ دن ۔۔۔،دو ہفتے اور پانچ دن ۔۔۔دو ہفتے چار دن۔۔۔اور کبھی کبھار   ، کچھ ہو جاتا ہے ۔۔ یا ایسا ہو سکتا ہے تو حیرت انگیز حد تک ، کچھ خوبصورت  چیز  مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ  کہ میں   اگلے دو ہفتوں میں نہیں مرنا چاہتا اور جب ایسا ہوتا ہے کہ  بیس مارچ آپہنچتا ہے اور میری موت کو صرف دودن رہ جاتے ہیں۔۔۔اور پھر میرے مرنے کا دن آجاتا ہے اور میں نہیں مرتا ، تو میں دوبارہ سے   گننا  شروع ہو جاتا ہوں۔۔۔ زندگی کے  چھ ہفتے ۔۔۔۔۔!

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجزیہ

انتھنی سٹکلف کے افسانے  'مقابلہ'( دا کوپ ) میں وہ 'لیام' کی کہانی بیان کرتا ہے، جس  نے چھ ہفتوں بعد اس دنیا سے رخصت  ہو جانا ہے۔  اس نے یہ بات کسی کو بھی نہیں بتائی   اور یہ راز اپنے تک ہی محدود رکھا ہے۔عام طور پر اس کے آس پاس کوئی نہیں ہوتا۔اس کے رفقائے کار ، دوست احباب ، یہاں تک کہ اس کی بیوی  بھی   اپنے روٹین کےمصروف ہوتے ہیں۔وہ ان کوبتا کر انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا اور اپنے معمولات میں کوئی فرق نہیں آنے دیتا ۔ کسی کے ذہن میں شک بھی نہیں پڑتا کہ وہ کس  جذباتی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ وہ نوکری پر جاتا،بیوی بچوں سے نارمل رویہ رکھتا ہے۔دوست و احباب کو ویسے ہی ملتا ہےجیسے اپنی موت کی تاریخ سے پہلے ملتا تھا۔

 

جب کبھی     بےکار، بے وقعت  اشخاص   جمع ہوتے ہیں، تو  دنوں کی گنتی کرنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی کے باقی کتنے دن بچے ہیں۔اگرچہ اس کی موت سر پر کھڑی ہے، اپنی اذیت کو دل میں چھپائے  اپنے روز مرہ امور کو روٹین میں ادا کررہاہے۔ وہ اپنے کام پر جاتا ہے، دوستوں سے ملتا ملاتا ہے اور اپنی بیوی کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ ہر نیا دن اس کے لئے تھوڑی  بہت مصیبتیں لے کر آتا ہے، کبھی کبھی خوشی کے لمحات بھی میسر ہو جاتے ہیں۔۔۔۔وہ  کام جنہیں کرنا وہ بھول گیا تھا،مداخلتیں،فضول  قسم کی ملاقاتیں سب  ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں  لیکن اس کی زندگی کے دن روز بروزکم ہوتے چلے جاتے ہیں ،۔۔۔ وہ اشیاء  جو  مرنے کی تاریخ سے پہلے بری لگتی تھیں  ، اب بہت اہم محسوس   ہو رہی ہیں۔ وہ خاموشی سے اپنی زندگی کے دن کاٹ رہا ہے اور اس بات کی تشریح کررہا ہے کہ فنا پذیری  کا احساس روزانہ  لمحات کی اہمیت بڑھا رہا ہے۔اس افسانے میں جذباتی شیرینی ہے۔اس میں  جرات ، مزاحمت اور مقابلہ کی نوعیت بیان کی گئی ہے۔اس میں گہری  لطافت  اور  افسوس   ہے، اس کی پوری کوشش ہے کہ اپنے آخری ایام میں نارمل زندگی گزارے۔

ادبی طور یہ کہانی اپنی زندگی کے خاتمے  کے دن گننے پر  نہیں لکھی گئی بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ  بتایا جائے  کہ زندگی کا ہرروز قیمتی ہے۔ ہمیں ہر دن خدا کا شکر ادا کرنا چاہیئے، کہ ہمیں خوشی ، غم ۔ دکھ ، افسوس، غصہ ، لڑائی جھگڑے ،باہمی مسکراہٹیں،دوستوں کے ساتھ وقت گزاری اور وہ  مسائل جن سےہم گزر رہے ہیں  کو زندگی   کا لازمی عنصر سمجھنا چاہیئے اور  ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور  لطف  لینا چاہیئے۔اس نے اپنے مرنے ( یا خوکشی ) کی تاریخ متعین  کی ہے لیکن    جب وہ نہیں مرتا تو  اسے اس  بات  کا احساس ہوتا ہے  کہ کوئی  نہیں جانتاکہ  اس کی  موت کب ککھی ہے۔

اس لئے ہر وقت دوسروں سے شفقت سے پیش آنا چاہیئے۔ لوگ  بظاہر ٹھیک ٹھاک بھی  لگتے ہوں ، لیکن لوگ  نہیں جانتے کہ دوسرے لوگ کس کس پریشانی میں مبتلا ہیں۔

زندہ رہنے  کی دہشت موت کا خوف نہیں، بلکہ زندہ رہنے کا ڈر ہے۔ ہر شخص جب صبح اٹھتا ہے تو اسے اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ اسے  گزشتہ دن کی طرح  کوششیں کرنا پڑیں گی، اسی طرح کی پریشانیاں ہوں گی،وہی رنج و غم ہوں گے۔وہ خوف، کہ زندگی کی بہتری کی امید نہیں۔تم مسائل اور مصائب کی چکی میں پس رہے ہواور ان سےراہ فرار حاصل نہیں کر سکتے، قنوتی سوچ ہے۔

 جب  کسی کو  یقین ہوتا ہے کہ اس  نے دو ہفتوں میں مرجانا ہے اور نہیں مرتا تو پھر سوچنے لگتا ہے  کہ اگلے دو ہفتوں میں  مر جائے گا اور علیٰ ہٰذالقیاس !

روشن  پہلو دیکھنے والا شخص   جھگڑوں  ،دکھ ،درد غیر یقینی پن اور صدمات دیکھنے اور سہنے کے باوجود  جینے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ جب کوئی اپنی خود کشی یا موت  کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ  کسی حد تک اپنے فیصلے سے سکون حاصل کر لیتا ہے، یہ کہانی اس سوچ پر مبنی ہے، لیکن اس نے جس طرح اپنی موت کی تاریخ بدلی ، وہ بہت عمدہ ہے۔اس طرح وہ بڑھاتا جائے گا۔

 اس کہانی کو پڑھ کر پہلے تو یہ سوچ پیدا ہوتی ہے ، کہ زندہ رہنے کا یہ کتنا برا طریقہ ہے۔، لیکن بعد میں احساس ہوتا ہے کہ  موت کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں۔اس کے لئے کوئی مخصوص  منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی  روز غلطیاں ہوتی ہیں،ناانصافیاں ہوتی ہیں،دل دکھتا ہے، منفی  اقدامات ہوتے ہیں۔۔۔اور پھر کسی دن لوگ تم پر مہربان بھی ہو جاتے ہیں، سورج  اس پر چمکتا،  ہما  سر پر آبیٹھتی ہے، لذیذ کھانے ملتے ہیں، کوئی نئی چیز سیکھتا ہے،اور پھر کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ سب خراب ہو جاتا ہے۔زندگی ایک مستقل چیلنج ہے۔یہ کہانی خالص جینئس ہے،اس میں ایک ایک لفظ قیمتی ہے

 

اس افسانے  میں زندگی کے عام ایام میں   فنا پذیری ، تنہائی  اور رنج و الم  بیان کئے گئے ہیں۔لیام کی  اپنے موذی مرض  کو سہارنے میں  وہ جو جو کاوشیں کرتا ہے ،اس افسانے میں بتائی گئی ہیں۔اس میں بتایا گیا ہے کہ مرنے والے شخص  کے لئے وہ  وقت کتنا کٹھن ہوجاتا ہے۔اس کہانی میں ان  مشکلات کا بھی ذکر ہے جو ان کہی ہی رہتی ہیں۔اس میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی شخص کے پاس جتنی بھی مادی سہولیات ہیں، اپنا دکھ اسے ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔وہ اس سے اجتناب نہیں کرسکتا ۔کوئی دوسرا اس میں مدد نہیں کرسکتا۔

اس کہانی میں وقت  کی باطنی اہمیت  کواجاگر کیا گیا ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ جب   موت چند قدم دور ہو، لمحات  مختصر اور جاوداں لگتے ہیں۔اس میں  مختلف لوگوں کے رد اعمال بھی پیش کئے گئے ہیں جوایسے حالات میں ظاہر کرتے ہیں۔وہ   موت کا سامنا بہادری سے کرتے ہیں  یا بزدلی  دکھاتے ہیں ، سامنا کرتے ہیںیا اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور یہ قبولیت یا انکار باہمی روابط  اور تصور ذات پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس کہانی میں شدید  جذباتی  واقعات کا احساس دلایا گیاہے جس       کا ہر شخص کو اپنی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔کوئی بھی بنی نوع انسان  تکالیف سے بچا نہیں۔ یہاں نکتہ ہے کہ اس نے ان کا مقابلہ کیسے کیا ہے۔یہ موضوعات  حقائق پر مبنی ہیں۔ یہ فیصلہ  کہ مہلک اور جان لیوا مرض  کے ان  پہلوؤں پر جن پر کبھی بات نہیں کی گئی، کی اہمیت پر بات کی گئی ہے۔ اس میں افسانے میں عمومی(بیان وغیرہنہیں پیش کیا گیا۔جس سے بیانیہ زیادہ مانوس اور متعلقہ ہو جاتا ہے۔اس میں اختصار اور غمزدہ فرد کا اظہار قاری کو لیام کی دنیا میں لے جاتے ہیں  جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں کی جھلک نظر آتی ہے جن کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔سٹکلف  کا نظریہ  زندگی کی  بین الاقوامی کمزوری کا پتہ دیتی ہے اور یہ دنیا بھر کی ثقافتوں میں پائی جاتی ہے۔

اس کہانی کا بنیادی مقصد یہ  ہے  کہ قاری کو ایسےشخص کے جذبات واحساسات کو گہرائی میں آگاہ کرے کہ اس کی زندگی کے آخری ایام میں اس پر کیا گزرتی ہے۔اس کہانی کو پڑھتے وقت قاری پر وہی جذبات طاری ہو جاتے ہیں جو مرتے ہوئے شخص کے ہوتے  ہیں۔ وہ اس کا دکھ ،درد  ، خیالات اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح مریض کرتا ہے۔ ۔ اس میں  لیام کی جذباتی تباہی کے باوجود ہم روی ۔ احتباس ، تنہائی ،اور  روز مرہ زندگی  کی تشویش اور تناؤواضح کیا گیا ہے۔

یہ افسانہ پاکستانی ثقافت میں بھی متعلق ہے ۔ کوئی بھی شخص  اپنی  موت کا کی فرضی تاریخ مقرر کرکے روز مرہ کی عام زندگی گزار سکتا ہے اور اس تاریخ پر نہیں مرتا ،تو اگلی تاریخ مقرر کر سکتا ہے ۔۔۔ اور اگر اس دن بھی نہ مرے تو اس ے اگلی تاریخ دے سکتا ہے، علیٰ ہٰذالقیاس۔

 


Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)

**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی