طوفان (The Storm) Kate Chopin (1851 - 1904) USA





طوفان

(The Storm)
Kate Chopin
(1851 - 1904) USA
مترجم: غلام محی الدین
ُگھٹن و حبس اس بات کی علامت تھی کہ موسم تبدیل ہونے جا رہا ہے اور طوفان آنے کو ہے۔ُ اودےُ اودے، سفید سفید، پیلے پیلے بادل تیزی سے نیلے آسمان کو گھیر رہے تھے۔ آناً فاناً ہوائیں تیز سے تیز تر ہوتی گئیں اور ایک آندھی کی شکل اختیار کر لی۔ آبادی کے درخت اور قریبی کھیتوں کی فصلیں مستی میں جھومنے لگیں۔ محلے کے مکانات، دکانیں اور کثیر منزلہ عمارات اپنی طبعی عمر اور مرمتوں کے معیار کے لحاظ سے اپنا رد عمل پیش کر رہی تھیں۔۔ بوسیدہ عمارات، ٹین کی چھتیں اور چھجے الگ الگ موسیقی الاپ رہے تھے۔
اس وقت سونیا کا خاوند بوبی اور چار سالہ بیٹا ہنی گھر سے باہر تھے۔ باپ بیٹا ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ہنی باپ کاہیچلاتھا۔ دونوں ایک دوسرے سے مستیاں کرتے ہوئے سڑک پر جا رہے تھے کہ انہوں نے محسوس کیا کہ ُرت بدلنے والی ہے اور بادل کی گھٹائیں اندھیرا کرنے جا رہی ہیں۔ آندھی اس بات کی علامت تھی کہ بارش ہونے کو ہے۔ بوبی اپنی بیگم سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ اس کی سحر انگیز شخصیت سے بہت متاثر تھا۔ وہ بے حد حسین، باوقار اور سنجیدہ عورت تھی جو اس کا اور اس کے بچے کا بہت خیال رکھتی تھی۔ وہ تمام معاملات کو سلیقے سے کرتی اور دوسروں سے بھی اسی انداز میں کام کرنے کی توقع رکھتی تھی۔ وہ بے اصولی، لاپرواہی اور گندگی اسے سخت نا پسند تھی۔
باپ بیٹا اس وقت سونیا کے کہنے پرگھر کے لئے کچھ سودا سلف لینے نکلے تھے۔ وہ اٹھکیلیاں کرتے ابھی سٹور کے قریب ہی پہنچے تھے کہ بارش کے موٹے موٹے قطرے پڑنے لگے جو بہت جلد طوفانی بارش میں تبدیل ہوگئے۔ وہ فوراً اسٹور میں داخل ہوئے۔ سودا خریدتے ہوئے بوبی کی نظر جب جھینگے کے ڈبے پر پڑی تو اُس نے وہ بھی خریدلیا کیونکہ وہ ڈش اُس کی بیوی کو بہت پسند تھی۔جب طوفان نہ تھما تو اس نے سوچا کہ سٹور کے برآمدے میں یا چھتے کے نیچے طوفان رکنے کا انتظار کیا جائے۔ وہ بھیگتے ہوئے واپس نہیں جانا چاہتے تھے کیونکہ گیلے جوتے اور کپڑے ایک تو انہیں بیمار کر سکتے تھے اور دوسرا مکان میں گندگی پھیل جاتی چنانچہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑا بارش رکنے کا انتظارکرنے لگا۔ اُس کو سونیا کی فکر تھی کہ وہ گھر میں تھی اور اکیلے کیسے اِس طوفان کو جھیل پائے گی۔ اُس نے تازہ تازہ لانڈری بھی کی تھی اور کپڑے چھت کے شیڈ پرسوکھ رہے تھے۔ طوفان نے سٹور کی چھت اور چھجے کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور یہ لگ رہا تھا کہ طوفان کھڑی فصلوں کو اکھاڑ لے جائے گا۔
اُدھر سونیا اپنے گھر میں جو ایک پرانا چھوٹا سا مکان تھا، اکیلی تھی۔ اس مکان میں گیراج، بالکنی، ڈرائنگ روم، کچن، چھوٹا سا ہال اورسٹور تھا جِس میں عام یوٹیلیٹی رکھنے والا سامان پڑا تھا۔ مکان کی
چھت ٹین کی تھی۔ گیراج کے عقب میں دروازہ تھا جو گھر کے چھوٹے سے ہال میں کھلتا تھا۔ اُس نے بالکنی کے دونوں سروں پر تار لٹکائی ہوئی تھی جس پر وہ دُھلے ہوئے کپڑے ٹانک کر خشک
کرتی تھی۔ گیراج میں کباڑخانہ اوراغبانی کے آلات رکھے تھے جن سے وہ اپنے چھوٹے سے صحن میں جو کہ عقب میں تھا، باغبانی کرتے تھے۔کچھ مٹی کی بوریاں بھی گیراج میں تھیں اور اس کے علاوہ مرغیوں کے ڈربے بھی پڑے تھے۔ کسی زمانے میں اُس کو مرغیاں پالنے کا شوق تھا لیکن بچے کی پیدائش کے بعد اسے ترک کرنا پڑا۔ اس کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے۔ وہ عائلی زندگی سے مطمئن تھی اور نہایت ذمہ داری سے اپنا فرض نبھاتی تھی۔
بوبی اور ہنی سٹور میں بیٹھے قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ سونیا ان کے بارے میں بہت فکر مند ہوگی۔ گھر کی تمام بے ترتیب اشیاء اور دُھلے ہوئے کپڑوں کو اِس موسم میں سنبھالنا اُس کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ ہو سکتا تھا کہ وہ کسی ہمسائی کو بلالے اور اس کی مدد سے چیزوں کو سنبھال لے۔ بوبی کو یہ خدشہ بھی تھا کہ طوفان کے شور کی وجہ سے بوبی ڈر نہ جائے لیکن اس کا خیال غلط نکلا۔ وہ اس کے ساتھ اس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر سکون سے بیٹھا رہا۔ اس کے چہرے پر خوف و خطرے کی کوئی علامت موجود نہ تھی جبکہ دُوسری طرف سونیا کو اپنے میاں اور بیٹے کی سلامتی کی فکر لاحق تھی۔ وہ ایک سمجھ دار بہادر عورت تھی اور اِس بڑ ھتے طوفان سےڈ ر نہیں رہی تھی۔ وہ کھڑکی کے سامنے کھڑی بستر کی چادر کی ہاتھ سے کڑہائی کر رہی تھی کہ یکدم اسے گھٹن محسوس ہوئی۔ اب آندھی کے ساتھ زور دار بارش پڑنے لگی تھی جس نے شدید طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ وہ اپنے کام میں اتنی محو تھی کہ اسے انداز ہ ہی نہ ہوا کہ طوفان نے کب شدت اختیار کر لی۔ جب اسے احساس ہوا تو اسنے دروازے کھڑکیاں بند کر دیں۔ اسے اپنے خاوند کی لانڈری یاد آئی جو چھجے کی بالکونی میں تار پر لٹکی سوکھ رہی تھی۔ وہاں سے اس کی نظر بارش میں بھیگتے ہوئے کافکاپرپڑی۔ اس نے کافکا کو اس کی بیوی اور بچے کے بغیر پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ حیران تھی کہ وہ اکیلا کیوں تھا؟ اسے بھیگتے ہوئے دیکھ کر نیچے چلی آئی۔ کافکا نے اُسے دیکھا تو درخواست کی کہ کیا وہ گیراج کے چھتے کے نیچے رک کر طوفان سے بچ سکتا تھا؟ سونیا نے ہاں کہا۔ وہ چھجے کے نیچے آگیالیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ طوفان اسی طرح اس پر اثر انداز ہو رہا تھا اور گیراج میں پانی جمع ہو رہا تھا۔ اس لئے سونیا نے اُسے گیراج کے اندر بلا کر پانی سے بچنے کے لئے دراوزہ بند کر دیا۔
کیا طوفانی بارش ہے؟ ایسی بارش دو سال پہلے ہوئی تھی، سونیا نے کہا۔ اس نے بوریاں جو باغبانی مٹی سے بھری ہوئی تھیں، دروازے کی درز کے نیچے رکھ دیں تاکہ پانی اندر داخل نہ ہو سکے۔ کافکا نے اس سلسلے میں سونیا کی پوری مدد کی۔ سونیا شادی سے پہلے دبلی پتلی لڑکی تھی۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس کا جسم بھر گیا تھا لیکن اس کی کشش برقرار تھی۔ اُس کا رنگ روپ آج بھی ایسا تھا کہ بڑے بڑوں کے دل موم کر دے۔ آندھی نے اس وقت اس کے بالوں کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ بارش نے انہیں الجھا دیا تھا۔ اس وقت اس کے بال کانوں اورہے تھے اور اشتہاء میں اضافہ کر رہے تھے۔
طوفانی بارش ٹین کی چھتوں پر ایسے پڑ رہی تھی کہ پورا خدشہ تھا کہ گیراج کی چھت اور چھجے کو اُڑا نہ لے جائے اس لئے انہیں گیراج کے عقبی دروازے سے گھر کے اندر جانا پڑا۔ دروازہ ہال میں کھلتا تھا۔ اس سے ملحق اس کا بیڈ روم تھا جس پر سفید رنگ کا کنگ سائز خوبصورت بیڈ پڑا تھا۔ کھڑکیاں بند تھیں جس نے کمرے میں نیم تاریک ماحول پیدا کر دیا تھا جو اسے بے حد رومانوی بنا رہا تھا۔ ہال میں اشیاء بے ترتیبی سے بکھری پڑی تھیں اس لئے وہ بیڈ روم میں آگئے۔ وہاں ایک آرام دہ کرسی تھی۔ سونیا نے کافکا کو کہا کہ اس پر بیٹھ جائے۔ وہ بیٹھ گیا۔ اگر یہ طوفان اسی طرح جاری رہا اور اس کی تیزی کم نہ ہوئی تو ہمارے تمام علاقے کو اپنے ساتھ بہالے جائے گا۔ تمہارا خاوند اور بیٹا نظر نہیں آرہے؟ کافکا نے سوال کیا۔ وہ کچھ سودا سلف لینے گئے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق طوفان کے وقت وہ سٹور کے آس پاس رہے ہوں گے اور سٹور کے اندر ہی چھپے بیٹھے ہوں گے۔ طوفان تھمے گا تو وہ نکل پڑیں گے، سونیا نے جواب دیا۔ چلو اس بات کیا مید کریں کہ تمہارا خاوند اتنا عقلمند تو ہوگا کہ وہ ننھے سے پیارے بیٹے کو اس طوفان سے محفوظ رکھے۔ کھلے میں نہ نکلے، کافکا بولا۔ طوفان کم نہ ہو رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی۔ طوفان کے طول پکڑنے کی وجہ سے اب اُس کے چہرے پر کچھ پریشانی جھلکنے لگی تھی۔ بارش امڈ امڈ کرآ رہی تھی۔ ایک جھونکے کے بعد دوسرا جھونکا آجاتا تھا اور ماحول کو مزید تاریکی میں چھپا دیتا تھا۔ پس منظر میں درختوں کے جھومنے سے جو موسیقی پیدا ہو رہی تھی وہ سونے پر سہاگا ثابت ہو رہی تھی۔ باہر کے طوفان سے اندر کا طوفان بڑھ رہا تھا۔ اتنے میں بجلی کڑکی اور ایک درخت پر آن گری۔ وہ آواز اتنی بلند تھی کہ اس نے سونیا کو ہلاکر رکھ دیا۔ اُس نے ڈر کر زور سے چیخ ماری۔ اُس کی چیخ سن کر کافکا فوراً اٹھا اور بھاگ کر کھڑکی طرف لپکا۔ سونیا چیخ مار کر ڈر کر کھڑکی سے ہٹی تو کافکا سے ٹکرائی۔ اس نے سونیا کو بانہوں میں بھر لیا لیکن وہ اُس کے بازؤں کے حصار سے فوراً باہر نکل آئی۔
ایسا لگتا ہے کہ اب بجلی ہمارے گھر کے باہر درخت پر گرنے والی ہے، سونیا بولی۔ پتہ نہیں میرا میاں اور بیٹا کس حال میں ہوں گے۔ وہ بھی اس طوفان سے بچ نہ پائے ہوں گے۔ اس کا سر چکرانے لگا لیکن وہ کھڑی رہی۔
کافکا اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس نے سونیا کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا، ڈرنے کی ضرورت نہیں،۔میں تمہارے ساتھ ہوں ناں! کچھ نہیں ہوگا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ گھر محفوظ تھا۔ یہاں بجلی نہیں گرے گی کیونکہ یہ گھر وادی میں سب سے نچلی سطح پر تھی۔پہلے اونچےمقامات متاثر ہوں گے ۔اس کے محل و قوع کی وجہ سے ایسا کوئی خطرہ نہیں۔ فکر چھوڑ دو اگر بجلی کو کوئی مہم جوئی کرنی تھی تو مکان سے دور بہت سے درخت ہیں گھنے اور لمبے ہیں،اُن کو نشانہ بنائے گی۔
سونیا یہ سن کر دکھی ہوگئی اور رونے لگ گئی۔ کیا تم یہ رونا دھونا بند نہیں کر سکتی؟ چپ نہیں ہوگی۔ اس نے سونیا کی پریشان زلفیں جو اس کے ماتھے اور کانوں پر تھیں کو پیار سے ہٹانا شروع کر دیا۔
کافکا نے جب اس کی زلفیں سلجھائیں تو اس نے دیکھا کہ سونیا کے ہونٹ ابھی تک شادی سے پہلے کی طرح رسیلے تھے۔ اس کی صراحی دار گردن اور بھرابھرا جسم اسے مدہوش کرنے لگا۔ اُس نے اپنے حواس کھو دیئے، سونیا نے اپنی مدبھری نگاہیں اٹھائیں او ر کافکا کو دیکھا۔ کافکا خود پر قابو نہ رکھ سکا اور اُس کے ہونٹوں کا رس پینے لگا۔ اس پر بھولی بسری یادیں تازہ ہونے لگیں۔ شادی سے پہلے وہ پریمی تھے۔ ان کی محبت پاکیزہ تھی اس لیے تمام تر جذبات کے باوجود ایک حد قائم کر رکھی تھی۔ خانگی حالات کی وجہ سے ان کی شادی نہ ہو سکی تھی۔ اب دونوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ نئی زندگی پر شاکر تھے۔ اس بار اندر کا طوفان تھم نہ پارہا تھا۔ تمام معاشرتی، اخلاقی، مذہبی، اور قانونی بندھن ان کے راستے میں حائل نہ ہو پا رہے تھے۔ سنگین صورت حال اور خطرات کو ملحوظِ خاطر نہ لاتے ہوئے وہ سیلاب کے ریلے میں بہہ نکلے۔ اس طوفان کی طغیانی میں وہ شدتِ جذبات میں بہہ گئے۔ کافکا نے جب اس کی چھاتیوں کو چھوا تو وہ مدہوش ہوگئی اور خود کو کافکا کے سپرد کر دیا۔ اس کے کانپتے ہونٹ دعوت گناہ میں اضافہ کر رہے تھے۔ اس کا منہ خوشی کا منبع تھا۔ وہ میٹھا رس چوستا رہا اور وہ فرط جذبات میں تمام حدیں پار گئے۔ بالآ خر باطنی تلاطم تھم گیا لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے رہے اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے۔
بیرونی طوفان کا زور تمام تر قوت سے برسنے کے بعد آہستہ آہستہ کمزور پڑتا جا رہا تھا۔ بالآخر بارش رکی اور آندھی تھم گئی۔ سورج بادلوں کی اوٹ سے نکل آیا تھا اور شعاعوں نے ماحول کو ہیرے کی طرح چمکا دیا تھا۔ اُدھر سونیا دوازے کی اوٹ میں کافکا کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کہہ رہی تھی۔ کافکا مڑ مڑ کر مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔ سونیا نے اپنی تھوڈی اوپر اٹھائی اور زور زور سے قہقہہ لگا یا۔
دوسری جانب باپ بیٹا طوفان تھمتے ہی سٹور سے نکلے۔ بھیگی ہوئی سڑک اور طوفان کی وجہ سے دلدل اور کھڑے ہوئے پانی سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے گھر کا رخ کیا۔ وہ خود کو ہر صورت گیلا ہونے سے بچانا چاہتے تھے لیکن بچ نہ پا رہے تھے۔ بوبی نے کہا اس طوفان نے ہماری تمام تدبیریں خاک میں ملا دی ہیں۔ ہمارے کپڑے اور چہرے گندے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے جوتوں اور کپڑوں کو گھر پہنچنے سے پہلے ایک نل پر دھویا تاکہ بہت زیادہ خراب حالت میں گھر نہ پہنچیں۔ بوبی نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنی ماں کی باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائے۔ وہ کہے گی، تم نے اچھے خاصے کپڑوں کا ستیا ناس کر دیا ہے، تمہیں اتنی عمدہ پتلون پہن کر باہر نہیں جانا چاہیے تھا۔ میری تمام محنت پر پانی پھیر دیا۔ تمہاری قمیض کے کالر پر بھی کیچڑ لگا ہوا ہے۔ یہ تم نے کیسے لگا لیا؟ اس قسم کا لاپرواہ لڑکا میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اپنے باپ کی باتیں سن کر وہ خود کو قصور وار سمجھنے لگا۔
اپنے من میں وسوسے لے کر وہ ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوئے اور وہ ہر قسم کی ڈانٹ کی توقع کر رہے تھے۔ سونیا کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔ ان کے آنے سے پہلے ہی اس نے ڈائننگ ٹیبل پر دستر خوان سجا دیا تھا۔ ان کو دیکھ کر وہ ان کے پاس آگئی۔
تم واپس آگئے؟ میں تم لوگوں کے بارے میں بہت فکر مند تھی۔ تم کہاں رہ گئے تھے؟ کیا ہنی ٹھیک ہے۔اسے کوئی زخم تو نہیں آیا؟ اaس نے اپنے بیٹے کو اٹھا یا اور زور زور سے اسے میں آگیا۔ وہ تمام وضاحتیں اور معافی کے الفاظ جو وہ رستے بھرسوچتا آیا تھا، اُس کے ہونٹوں پر آتے آتے رہ گئے۔ سونیا نے ان کے خیر و عافیت سے گھر واپس آنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ بوبی نے اسے جھینگر مچھلی کا ڈبہ پیش کیا۔سونیا اسے لیتے ہوئے بولی،تم کتنے اچھے شوہر ہو۔ میرا کتنا خیال رکھتے ہو ۔ اپنے خاوند کی گال پر زبردست بوسہ کیا اور کہا کہ ہم رات کو اِس سے دعوت اڑائیں گے۔ کھانے کے بعد تینوں اطمینان سے بیٹھے، ہلکی پھلکی باتیں کرتے، ہنستے مسکراتے رہے۔اُن کے قہقہوں کی آواز آسمان کو چھو رہی تھیں۔
اس رات کا فکا نے اپنی بیوی کو فون کیا اور کہا میں تمہاری اور اپنے بچوں کی کمی شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔ یہاں کا موسم بہت خراب ہے۔ آج بھی بے حد طوفان آیا تھا۔ تمہارے میکے کا موسم بہت اچھا ہے۔ ایسا پیارا موسم جو تمہارے میکے میں ہے، یہ صرف خوش نصیب لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ میری رائے ہے کہ تم یہ سہانا موسم پورا گزار کر ہی واپس آجاؤ۔ مجھے تمہاری کمی تو بے حد محسوس ہوگی لیکن میں اپنی خود غرضی کے لیے یہ نہیں کہوں گا کہ تم جلدی واپس آؤ۔ اُس کی بیوی اس بات پر بے حد خوش ہوگئی کہ اس کا میاں اسے اور سسرال کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ اپنے بچوں اور بیوی سے کتنی محبت کرتا ہے۔ اس کے بچے اس بات پر خوش تھے کہ انہیں نئے دوست مل گئے ہیں۔
اور اب ………………ہر طرف سے طوفان تھم چکا تھا۔ راوی چین کی بنسری بجا رہا تھا۔
حالات زندگی
Kate Chopin
(1851 - 1904) USA
کیٹ چوپن سینٹ لوئیس میسوری 1850میں پیدا ہوئی۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں اکیلی تھی جس کی عمر25سال سے زیادہ تھی۔ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں اسے سیکرڈ ہارٹ سکول داخل کروا دیاگیا۔ داخلےکے دو ماہ بعد اس کا والد حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔ وہ اس سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں پلی بڑھی وہاں کی راہبائیں اپنی ذہانت کی وجہ سے مشہور تھیں اور کیٹ ہمیشہ کلاس میں اوّل آتی تھی۔ اس نے بچپن سے ہی روز نامچہ لکھنا شروع کر دیا تھا پھر وہ بھی راہبہ بن گئی۔ 1870میں اس نے ایک امیر آدمی سے شادی کرلی جو کہ لوزی یانا کا تھا۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرتا رہتا تھا۔ اسے اس کے شوہر نے مکمل خودمختاری دی ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ نیواورلین چلے آئے۔ یہاں اسکے پانچ بیٹے اور دو بیٹیا ں ہوئیں۔ اس کی تمام اولاد 28سال کی عمرسے پہلے پہلے ہی ہوئی۔ 1882میں اس کے خاوند کی رحلت ہوگئی ۔اس کے خاوند کا بہت بڑا جنرل سٹور تھا۔ اس نے اسےایک سال تک سنبھالاپھر س نے سٹور بیچ ڈالا اور لکھنا شروع کر دیا۔ وہ اس میں کامیاب رہی۔ اس کی کتاب جو The Awakening 1899میں چھپی، کو بے حد پذیرائی ملی جو نیو آرلین کی ایک بدنام خاتون پر تھی۔
اس کا پہلا ناول At Frault 1890میں چھپا، Bayou 1894میں اور A Night in Acadia 1897میں۔ وہ اب ایک مستند ادیبہ کے طور پر مشہور ہوگئی۔ اس کے پاس ہمیشہ وقت کی کمی ہوتی تھی۔ اپنے بچوں کے شور شرابے میں ہی اسے لکھنا نصیب ہوتا تھا۔ وہ اگست1904میں فوت ہوگئی۔ اس کی دیگر اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔
The Story of An Hour
Desiree Baby
Grave Island
وغیرہ ہیں۔ اس کی کتب پر دو فلمیں بھی بنیں جو
The Joy That Killsاور
Grand Isle ہیں۔



Popular posts from this blog