وہ درخت .... (That Tree) Katherine Anne Porter

 




وہ درخت

(That Tree)

Katherine Anne Porter

(1890 - 1980) USA

 

مترجم :    غلام محی الدین

 

ایک درخت کے گھنے سائے تلے لیٹے ہوئے خیالوں میں مگن میں موزوں الفاظ تلاش کر رہا تھاجو میری نئی نظم کے لئے مناسب ہوں۔میرا ایمان تھا کہ درخت کے نیچے لیٹنے سے منتشر خیالات منظم ہو جاتے ہیں۔ بکھرا ہوا ذہن مسائل کے نشیب و فراز کا غیر جانبدار ی سے تجزیہ کرلیتا ہے۔ کسی موضوع میں پیچیدہ امور کو سلجھانے کے لئے کون سی مختلف تراکیب اپنائی جا سکتی ہیں کا  ناقدانہ جائزہ لے سکتا ہے اور انہیں شاعری یا نثر میں موزوں طریقے سے کس طرح اداکیا جائے معاونت کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں ایک بڑا شاعرہوں لیکن عصرِ حاضر کے دانشوروں کی بدقسمتی ہے کہ وہ میرے کلام کو اپنی کم فہمی کی بنا پر ابھی تک سمجھ نہیں پائے۔

 

 میں امریکی صوبے مینی سوٹا کے شہر منیا پولس میں پیدا ہوا ۔ شاعری سے جنون کی حد تک پیار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فنکار دنیا کی بہترین مخلوق ہیں۔وہ ایسے درویش ہیں جو اپنی مرضی سے عسرت کی زندگی گزار تے ہیں تاکہ زندگی کی تلخیوں کا براہِ راست تجربہ حاصل کرکے اپنی تخلیقات میں استعمال کر سکیں۔ میرا ماننا ہے کہ ان عظیم لوگوں کے شاہکاروں کی بدولت ہی دنیا قائم  و  دائم ہے۔ یہ قیمتی جواہر ہیں جو جان بوجھ کر کوئی مستقل پیشہ نہیں اپناتے کیونکہ آسائشوں سے ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اس لئے رضاکارانہ طور پر وہ  تنگ دست رہتے ہیں َ۔

 

 

 جب امریکہ میں  (میں سمجھتا ہوں کہ تعصب کی وجہ سے )میری پذیرائی نہ ہوسکی تو میکسیکو چلا آیا۔ امید تھی کہ وہاں مجھے ہاتھو ں ہاتھ لیا جائے گا۔ مجھے لاطینی اور امریکی تاریخ پر پوری دسترس حاصل ہے۔مجھے علوم فنون کے علاوہ جغرافیہ، سیاست اور تاریخ سے دلچسپی ہے۔ میں  رسوم و رواج، عقائد، متعلقہ امور اور ادب پر سیر حاصل گفتگو کر سکتاہوں۔ منیا پولس شہر (امریکہ)میں میری دوستی اتفاق سے ایک ا انتہائی خوبصورت اور اعلیٰ اقدار کہ مالکہ سے ہو گئی۔ اس کا نام  مریم  تھا۔ وہ اس وقت انیس سال کی تھی۔وہ بے حد معصوم  مذہبی اور سماجی روایات کی پابند تھی۔ میں سکول میں پڑھاتا تھا  اور وہ بھی ٹیچر تھی لیکن سکول الگ الگ تھے۔َ َ مجھے اس پیشے سے  برائے نام ہی لگاؤ ہے۔ وقت گزاری کے لئے نوکری کررہا تھا۔ عدم دلچسپی اور لاپرواہی کی وجہ سے مجھے سکول سے نکال دیا گیا۔ مجھے نوکری سے نکالے جانے کا کوئی دکھ نہیں تھا کیونکہ میں مستقل نوکری کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔میرا ارادہ امریکہ چھوڑ کر میکسیکو آبا ہونے کا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ وہاں کے لوگ ادب شناس تھے  وہ  میری شاعری کو سمجھ کر میری پذیرائی کریں گے۔ نوکری جانے کے باوجو مریم سے میل ملاقات رہی جو بڑھتے بڑھتے محبت  بن گئی اور ہماری منگنی ہوگئی۔

 

 شادی سے پہلے وہ کیٹس کی شاعری پسند کرتی تھی اور توقع کرتی تھی کہ میں بھی کیٹس کو بطور شاعر پسند کروں۔ اس کے ذہن میں ٖفنکاروں کی بڑی عزت تھی۔ وہ انہیں مافوق الفطرت ہستیاں سمجھتی۔ عظیم مصوروں سے ملاقاتوں کی خواہش مند رہتی۔اگر کبھی کسی سے ملنے کی مراد پوی ہو جاتی تو خود کو خوش قسمت سمجھتی تھی۔ وہ خوش لباس تھی۔ نفیس لباس پہنتی تھی۔ وہ یا تو ڈیزائینر یا پھر اپنی مرضی سے اس طرح سلواتی جو اُس پر پوری طرح سجیں۔۔ وہ کہتی تھی کہ آرٹسٹ ایسے لباس منتخب کرتا ہے جو دوسرے سے مختلف اور نایاب ہوں وہ اپنے ہیٹ کو ترچھے انداز میں ایسے پہنتی تھی کہ اس کی آدھی آنکھیں اس میں چھپ جاتیں۔

 

 بار بار فخر سے کہا کرتی تھی کہ لڑکیوں کا کنوارہ پن اُن کی شرافت کی علامت ہوتی تھی اور وہ یہ سمجھتی تھی کہ یہ ختم ہونا اس کی زندگی کی سب سے بڑی قربانی تھی۔میں اس کی اس بات کا عینی گواہ تھا۔اُس کا یہ عقیدہ تھا کہ جب شادی کی رات جب میاں کو اس کی پاکبازی کا ثبوت مل جائے تو پھر فکر مند نہیں ہوتیں اور اپنے خاوند پرکھل جاتی تھیں۔ اس نے ہر معاملے میں حدود متعین کر رکھی تھیں اور ان پر سختی سے پابندی کرتی اور کرواتی تھی۔ اس لائن کو کوئی کراس نہیں کر سکتا تھا اور اگر بھول چُوک ہو جاتی تو شادی ٹوٹنے کا مکمل خطرہ تھا۔ وہ چیز جس نے اسے مریم کی نظروں سے گرایا۔وہ اس کی فطرت کا غیر استقلال پن  اور شادی شدہ زندگی گزارنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔

 

 پروگرام کے مطابق میں منگنی کے بعد میکسیکو آگیااورمریم امریکہ میں ہی رہی۔ میں نے ایک چھوٹاسا اپارٹمنٹ کرایے پر لے لیا اور اسے سجایا۔ اس میں سردیوں کے لئے گرم اور گرمیوں کے لئے سرد ہوا کا انتظام نہیں تھا۔ مائیکرو یو اور بجلی کا چولہا (Oven)بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ گرم پانی بھی دستیاب نہیں تھا بلکہ ایک چھوٹا سا مٹی کے تیل کا چولہا تھا جو کھانا پکانے کے کام آتا تھا۔ آتے ہی مجھے ٹیچر کی نوکری مل گئی  لیکن یہاں بھی میں لاپرواہ رہا۔

 

ہماری منگنی تین سال تک رہی اور اس  دوران اس نے بار بار لکھا کہ اس کی زندگی کتنی ویران اور بنجر تھی۔ وہ اگرچہ سب کچھ کرنا توچاہتی تھی چونکہ وہ تمام رسومات اور روایات کے خلاف تھی اس لئے بے بس تھی۔ وہ لائن نہیں توڑ سکتی تھی۔ اس کے ارد گرد کتنے تنگ نظر لوگ بستے تھے۔ اس کی کتنی خواہش تھی کہ وہ دلچسپ لوگوں کے درمیان ایسی خوبصورت جگہ پر رہے جہاں مصور، شاعر اور ادیب رہتے تھے۔ ان کی تحریروں کو پڑھے، لطف اندوز ہوسکے۔

 

 وہاں میری دوستی قدیم زمانے سے میکسیکو میں مقیم ایک بنجارن سے ہو گئی جوجلد ہی  میرے ساتھ اپارٹمنٹ منتقل ہو گئی۔میں غربت میں رہ کر ایسی شاعری اور ادب دینا چاہتا تھا جو انمول ہو۔ میں جان بوجھ کر آرام دہ زندگی نہیں گزارنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ آرام دہ زندگی سے تخلیقی صلاحیتوں پنپ نہیں سکیں گی اس لئے ایک تو میرے تفاعل جاہلانہ اور دوسرا بنجارن کے لالچ کی بدولت سب کچھ اس پر نچھاور کرتا رہا۔ اس کے فنکار دوست اکثر آتے رہتے۔ ایک دفعہ تو انہوں نے پورے گھر کو بنجاروں والے نقوش سے رنگ دیا۔

 

  میں دھڑلے سے بنجارن لڑکی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اس نے ایک نیا آدمی پھانس لیا تھا اور وہدوبارہ میرے پاس آئی اور درخواست کی کہ گھر کا تمام فرنیچر اس کو تحفے میں دے دوں کیونکہ اب وہ سنجیدہ ہے اور شادی کر کے ایک پائیدار زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے تمام سامان ٹرک پر لاد دیا، جب وہ جا رہی تھی اس کا بچہ شال سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔میں نے اس کی شکل دیکھتے ہوئے سوچا کہ یہ تو  اس کا بچہ لگتا تھا۔ ساتھ ہی بڑ بڑایا، شاید!

 

میں نے ایک بنجارن کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ اس عرصے میں عجیب بات تھی کہ میں نوکری کر رہا تھا اور بنجارن میری کمائی اڑا رہی تھی۔ بنجارن خوبصورت تھی، جوان تھی اور مصور بننے کی جستجو کر رہی تھی۔ میں رات دن اس کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ لڑکی جن مصوروں کے ساتھ کام کرتی یا ماڈلنگ کرتی تھی وہ اسے پیسے نہیں دیتے تھے۔ رضاکا رانہ طور پر کام کر رہی تھی کہ انہوں نے اسے وعدہ کیا  ہواتھا کہ کچھ عرصے بعد وہ اسے نوکری دے دیں گے۔ اس کے علاوہ وہ ایک جیولری کی دکان پر زیورات کے ماڈل کا کام بھی کرتی تھی۔  َاس کا ایک چھوٹا لڑکا بھی تھا۔ اس لڑکی نے اپنے کام کے اوقات اور اپنے بچے کے ساتھ وقت گزارنے کے اوقات کو منظم طریقے سے طے کیا ہوا تھا۔ اگراس میں خلل ہوتا تو وہ بعد میں اسے پھر باقاعدہ بنا لیتی تھی۔ پھر  میر ی نوکری چھوٹ گئی۔

         

کچھ دن بعد اس بنجارن نے مطلع کیا کہ ایک عظیم مصورنے اسے چن لیا تھا۔اس نے یہ اس لئے کہا تھا کیونکہ ایک تو میں اب بیکار ہو گیا تھا۔ ا۔ دوسرے  طرف جیکب کی منگیتر یہ توقع کر رہی تھی کہ وہ بھی شادی کی تیاری کر رہا ہوگا۔میری  شادی کے دن قریب آرہے تھے۔ کیا  میں بھی مریم کی طرح پاکباز تھا۔ مریم کو یہ بات جاننے کا کوئی تجسس نہیں تھا کہ میرا کیریکٹر کیسا تھا۔ اس کی اخلاقی اقدار بہت سخت تھیں اس لئے میں نے اس کو اپنے ماضی کے بارے میں کچھ نہ بتایا، نہ ہی کچھ بتانے کا ارادہ کیا۔ اسے بتا نے میں تباہی ہی تھی۔ مریم کو یقین تھا کہ میری کسی بھی لڑکی سے رومانی بات چیت نہیں اور متقی اور پاک بازتھا۔ مجھے اس طبقے کی روایات کا علم تھا کہ ان کی کنواری لڑکیاں باہر سے جتنی بھی سخت ہوں، شادی شدہ زندگی کے بارے میں سوچ کر انکے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں اور شادی کے بعد سب کچھ سیکھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک اگر شادی سے پہلے لڑکے لڑکیا ں دل لگی کے لئے گھومتے پھرتے بھی تھے تو ان کو ملنے جلنے کی کھلی آزادی تو دی جاتی تھی  لیکن قوی توقع کی جاتی تھی کہ وہ حد پار نہیں کریں گے۔ شادی کے بعد ان کو پہلی بار جنسی آزادی حاصل ہوتی تھی لیکن وہ بھی صرف اپنے میاں سے۔ شادی سے پہلے اگر اس کو میں کوشش کرتا کہ محبت کی تمام منازل طے کرنی ہیں تو وہ اس بات کو سن کر بے حد پریشان ہو جاتی تھی۔ بعد میں اس جیسے دوسرے شہوانی طریقوں کو بھی شادی کے بعد رد کرتی رہی۔ وہ اسے ایک مرد کی طرح نئی دنیا کا رول سکھا نا چاہتا تھا لیکن وہ اس سے اجتناب کرتی تھی۔ میری تمام کوششیں ناکام رہیں۔ وہ  بستر میں محبت  کے نئے نئے طریقے سیکھنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ بطور بیوی وہ  ناقابلِ اصلاح تھی اور اپنے عقائد پر سختی سے قائم تھی۔ اس نے ایک لائن قائم رکھی تھی اور  وہ اس کو کبھی عبور نہیں کرتی تھی۔  وہ رومان پرور تھی۔ رات کو میرے بازوؤں میں پوری طرح پگھل جاتی تھی لیکن  میری مرضی کے مطابق کام نہیں کرتی تھی۔ جذبات گزرنے کے بعد پتھر کی طرح سرد ہو جاتی تھی۔

 

مریم ابھی تک امریکہ میں ہی تھی۔ شادی ہونے والی تھی اور اس نے میرے پاس میکسیکو آنا تھا۔ اس نے تمام چھوٹی چھوٹی اشیاء گھر کی سجاوٹ کے لئے خرید لی تھیں۔ قیمتی لباس سلوا لئے تھے جو اس نے شادی کے روز، ڈانس پارٹی کے روز، دعوتوں اور روز مرہ زندگی میں پہننے تھے۔میں نے اپنی شادی کا تو بالکل انتظام ہی نہیں کیا تھا۔

 

جب مریم شادی کے بعد آئی تو  اپارٹمنٹ سامان سے تقریباً تقریباً خالی تھا۔ صرف ایک بیڈ اور چولہا رہ گیا تھا۔ گھر کی دیواریں طرح طرح کے نقش و نگار سے سجی ہوئی تھیں جو بنجارن کے دوستوں نے بنائے تھے۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ شادی کے بعد اتنا کافی ہو گا۔ مزید کسی شئے کی ضرورت نہیں۔ جب مریم گھر آئی تو خالی گھر دیکھ کر اس پر اوس پڑگئی۔ اس نے منہ سے تو شکایت نہ کی لیکن وہ بات بات پر جھنجھلانے لگی۔ پہلے کئی ہفتے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ جب میں رونے کی وجہ پوچھتا تو ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی۔ ایک دفعہ صبح کے وقت ناشتہ بناتے ہوئے رو پڑی اور کہا کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے، کچھ بھی نہیں ہے۔  وہ جیکب سے حقیقی محبت کرتی تھی۔ اس نے نئی زندگی کے خواب دیکھے تھے۔ تین سال سے وہ اِس شا دی کی تیاری کرتی رہی تھی جبکہ اس کے میاں کی طرف سے سرد مہری تھی کیونکہ اسے نئی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔میں نے توشادی اور اس کے متعلقہ ضروریا ت کا سوچا تک نہیں تھا۔ شادی کو مذاق میں لے رہا تھا۔

 

مجھے اس اپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے سات سال بیت چکے تھے۔ میں خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ مریم نے مجھے جگا کر کپکپاتے لہجے میں کہا کہ وہ گھر چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے واپس امریکہ جا رہی ہے۔ میرا خمار اترا تو مریم کی بات اس کی سمجھ میں آئی۔میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرے ساتھ وہ کبھی ایسا کر سکتی تھی۔ میرا دماغ گھوم گیا اور صدمے سے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور بستر پر بیٹھ گیا۔ رات بھر اس پوزیشن میں بیٹھا رہا۔ گم سم خالی دماغ کمرے کی چھت کو گھورتا رہا۔ اس روز اُس اپارٹمنٹ میں صفائی بھی نہیں ہوئی تھی،در و دیوار پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اور فرش پر کاغذ وغیرہ بکھرے پڑے تھے کیونکہ مریم جا چکی تھی۔ کمرے میں بنجارے ڈیزائنوں کی رنگ دار کرسیاں پڑی ہوئی تھیں جو مریم کو اس وقت تو ٹھیک لگی تھیں  جب وہ آئی تھی لیکن بعد میں اس نے ان کرسیوں کو نفرت کی حد تک ناپسند کرنا شروع کردیا۔

 

 مریم کے غیر متوقع طور پر چھوڑ جانے کو میں ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ بہت برے موڈ میں بستر سے اٹھا۔ بیٹھے بیٹھے رات گزارنے سے میراجوڑ جوڑ دُکھ  رہا تھا۔ رات بھر خالی ذہن رہا تھا لیکن صبح ہوتے ہی میں نے ہمت جٹائی اور ایک نیا عزم کیا کہ شاعری چھوڑدوں گا۔میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں  میرا یہ فیصلہ مریم کو بھی پسند آئے گا۔

 

مریم جانے کے بعد اس پر کی گئی ناانصافیاں یاد آنے لگیں۔ یاد آیا کہ میں نے گھر کے کام کاج اور مالی اخراجات میں مریم کی کبھی بھی  مدد نہیں کی تھی۔ وہ اکیلی ہی تمام مصیبتیں جھیلتی رہی تھی۔ کرایہ اور گھر کا خرچہ وہی برداشت کر رہی تھی اور میں ایک معاشرتی جراثیم کی طرح مفت بری کر رہا تھا۔ میں نے اس بات پر توجہ نہ دی۔ میرا ارادہ تھا کہ کہ نامور شاعر یا  ادیب بننے کے بعد میرے پاس روپے پیسے کی ریل پیل ہو جائے گی تو میں ی اس کی مالی اور سماجی  مدد کروں گا۔

 

مریم نے وقتاًفوقتاً اور چھوڑتے وقت جن الفاظ اور القابات سے نوازا تھا  وہ میرے لئے باعث شرم اور انا کواذیت دینے والے تھے لیکن اس وقت سنگینی پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اس عرصے میں میں نے نشتر انگیزجملوں کی تہہ میں پائی جانے والے طنز پرغور نہیں کیا تھا۔ ایک کان سے سن اُس کے پاس منتقل ہو گئی۔ تین دن بعد ودوبارہ میرے پاس آئی اور درخواست کی کہ گھر کا تمام فرنیچر اس کو تحفے میں دے دوں کیونکہ اب وہ سنجیدہ ہے اور شادی کر کے ایک پائیدار زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے تمام سامان ٹرک پر لاد دیا، جب وہ جا رہی تھی اس کا بچہ شال سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔میں نے اس کی شکل دیکھتے ہوئے سوچا کہ یہ تو  اس کا بچہ لگتا تھا۔ ساتھ ہی بڑ بڑایا، شاید!

 

میں نے ایک بنجارن کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ اس عرصے میں عجیب بات تھی کہ میں نوکری کر رہا تھا اور بنجارن میری کمائی اڑا رہی تھی۔ بنجارن خوبصورت تھی، جوان تھی اور مصور بننے کی جستجو کر رہی تھی۔ میں رات دن اس کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ لڑکی جن مصوروں کے ساتھ کام کرتی یا ماڈلنگ کرتی تھی وہ اسے پیسے نہیں دیتے تھے۔ رضاکا رانہ طور پر کام کر رہی تھی کہ انہوں نے اسے وعدہ کیا  ہواتھا کہ کچھ عرصے بعد وہ اسے نوکری دے دیں گے۔ اس کے علاوہ وہ ایک جیولری کی دکان پر زیورات کے ماڈل کا کام بھی کرتی تھی۔  َاس کا ایک چھوٹا لڑکا بھی تھا۔ اس لڑکی نے اپنے کام کے اوقات اور اپنے بچے کے ساتھ وقت گزارنے کے اوقات کو منظم طریقے سے طے کیا ہوا تھا۔ اگراس میں خلل ہوتا تو وہ بعد میں اسے پھر باقاعدہ بنا لیتی تھی۔ پھر  میر ی نوکری چھوٹ گئی۔

         

کچھ دن بعد اس بنجارن نے مطلع کیا کہ ایک عظیم مصورنے اسے چن لیا تھا۔اس نے یہ اس لئے کہا تھا کیونکہ ایک تو میں اب بیکار ہو گیا تھا۔ ا۔ دوسرے  طرف جیکب کی منگیتر یہ توقع کر رہی تھی کہ وہ بھی شادی کی تیاری کر رہا ہوگا۔میری  شادی کے دن قریب آرہے تھے۔ کیا  میں بھی مریم کی طرح پاکباز تھا۔ مریم کو یہ بات جاننے کا کوئی تجسس نہیں تھا کہ میرا کیریکٹر کیسا تھا۔ اس کی اخلاقی اقدار بہت سخت تھیں اس لئے میں نے اس کو اپنے ماضی کے بارے میں کچھ نہ بتایا، نہ ہی کچھ بتانے کا ارادہ کیا۔ اسے بتا نے میں تباہی ہی تھی۔ مریم کو یقین تھا کہ میری کسی بھی لڑکی سے رومانی بات چیت نہیں اور متقی اور پاک بازتھا۔ مجھے اس طبقے کی روایات کا علم تھا کہ ان کی کنواری لڑکیاں باہر سے جتنی بھی سخت ہوں، شادی شدہ زندگی کے بارے میں سوچ کر انکے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں اور شادی کے بعد سب کچھ سیکھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک اگر شادی سے پہلے لڑکے لڑکیا ں دل لگی کے لئے گھومتے پھرتے بھی تھے تو ان کو ملنے جلنے کی کھلی آزادی تو دی جاتی تھی  لیکن قوی توقع کی جاتی تھی کہ وہ حد پار نہیں کریں گے۔ شادی کے بعد ان کو پہلی بار جنسی آزادی حاصل ہوتی تھی لیکن وہ بھی صرف اپنے میاں سے۔ شادی سے پہلے اگر اس کو میں کوشش کرتا کہ محبت کی تمام منازل طے کرنی ہیں تو وہ اس بات کو سن کر بے حد پریشان ہو جاتی تھی۔ بعد میں اس جیسے دوسرے شہوانی طریقوں کو بھی شادی کے بعد رد کرتی رہی۔ وہ اسے ایک مرد کی طرح نئی دنیا کا رول سکھا نا چاہتا تھا لیکن وہ اس سے اجتناب کرتی تھی۔ میری تمام کوششیں ناکام رہیں۔ وہ  بستر میں محبت  کے نئے نئے طریقے سیکھنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ بطور بیوی وہ  ناقابلِ اصلاح تھی اور اپنے عقائد پر سختی سے قائم تھی۔ اس نے ایک لائن قائم رکھی تھی اور  وہ اس کو کبھی عبور نہیں کرتی تھی۔  وہ رومان پرور تھی۔ رات کو میرے بازوؤں میں پوری طرح پگھل جاتی تھی لیکن  میری مرضی کے مطابق کام نہیں کرتی تھی۔ جذبات گزرنے کے بعد پتھر کی طرح سرد ہو جاتی تھی۔

 

مریم ابھی تک امریکہ میں ہی تھی۔ شادی ہونے والی تھی اور اس نے میرے پاس میکسیکو آنا تھا۔ اس نے تمام چھوٹی چھوٹی اشیاء گھر کی سجاوٹ کے لئے خرید لی تھیں۔ قیمتی لباس سلوا لئے تھے جو اس نے شادی کے روز، ڈانس پارٹی کے روز، دعوتوں اور روز مرہ زندگی میں پہننے تھے۔میں نے اپنی شادی کا تو بالکل انتظام ہی نہیں کیا تھا۔

 

جب مریم شادی کے بعد آئی تو  اپارٹمنٹ سامان سے تقریباً تقریباً خالی تھا۔ صرف ایک بیڈ اور چولہا رہ گیا تھا۔ گھر کی دیواریں طرح طرح کے نقش و نگار سے سجی ہوئی تھیں جو بنجارن کے دوستوں نے بنائے تھے۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ شادی کے بعد اتنا کافی ہو گا۔ مزید کسی شئے کی ضرورت نہیں۔ جب مریم گھر آئی تو خالی گھر دیکھ کر اس پر اوس پڑگئی۔ اس نے منہ سے تو شکایت نہ کی لیکن وہ بات بات پر جھنجھلانے لگی۔ پہلے کئی ہفتے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ جب میں رونے کی وجہ پوچھتا تو ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی۔ ایک دفعہ صبح کے وقت ناشتہ بناتے ہوئے رو پڑی اور کہا کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے، کچھ بھی نہیں ہے۔  وہ جیکب سے حقیقی محبت کرتی تھی۔ اس نے نئی زندگی کے خواب دیکھے تھے۔ تین سال سے وہ اِس شا دی کی تیاری کرتی رہی تھی جبکہ اس کے میاں کی طرف سے سرد مہری تھی کیونکہ اسے نئی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔میں نے توشادی اور اس کے متعلقہ ضروریا ت کا سوچا تک نہیں تھا۔ شادی کو مذاق میں لے رہا تھا۔

 

مجھے اس اپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے سات سال بیت چکے تھے۔ میں خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ مریم نے مجھے جگا کر کپکپاتے لہجے میں کہا کہ وہ گھر چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے واپس امریکہ جا رہی ہے۔ میرا خمار اترا تو مریم کی بات اس کی سمجھ میں آئی۔میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرے ساتھ وہ کبھی ایسا کر سکتی تھی۔ میرا دماغ گھوم گیا اور صدمے سے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور بستر پر بیٹھ گیا۔ رات بھر اس پوزیشن میں بیٹھا رہا۔ گم سم خالی دماغ کمرے کی چھت کو گھورتا رہا۔ اس روز اُس اپارٹمنٹ میں صفائی بھی نہیں ہوئی تھی،در و دیوار پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اور فرش پر کاغذ وغیرہ بکھرے پڑے تھے کیونکہ مریم جا چکی تھی۔ کمرے میں بنجارے ڈیزائنوں کی رنگ دار کرسیاں پڑی ہوئی تھیں جو مریم کو اس وقت تو ٹھیک لگی تھیں  جب وہ آئی تھی لیکن بعد میں اس نے ان کرسیوں کو نفرت کی حد تک ناپسند کرنا شروع کردیا۔

 

 مریم کے غیر متوقع طور پر چھوڑ جانے کو میں ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ بہت برے موڈ میں بستر سے اٹھا۔ بیٹھے بیٹھے رات گزارنے سے میراجوڑ جوڑ دُکھ  رہا تھا۔ رات بھر خالی ذہن رہا تھا لیکن صبح ہوتے ہی میں نے ہمت جٹائی اور ایک نیا عزم کیا کہ شاعری چھوڑدوں گا۔میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں  میرا یہ فیصلہ مریم کو بھی پسند آئے گا۔

 

مریم جانے کے بعد اس پر کی گئی ناانصافیاں یاد آنے لگیں۔ یاد آیا کہ میں نے گھر کے کام کاج اور مالی اخراجات میں مریم کی کبھی بھی  مدد نہیں کی تھی۔ وہ اکیلی ہی تمام مصیبتیں جھیلتی رہی تھی۔ کرایہ اور گھر کا خرچہ وہی برداشت کر رہی تھی اور میں ایک معاشرتی جراثیم کی طرح مفت بری کر رہا تھا۔ میں نے اس بات پر توجہ نہ دی۔ میرا ارادہ تھا کہ کہ نامور شاعر یا  ادیب بننے کے بعد میرے پاس روپے پیسے کی ریل پیل ہو جائے گی تو میں ی اس کی مالی اور سماجی  مدد کروں گا۔

 

مریم نے وقتاًفوقتاً اور چھوڑتے وقت جن الفاظ اور القابات سے نوازا تھا  وہ میرے لئے باعث شرم اور انا کواذیت دینے والے تھے لیکن اس وقت سنگینی پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اس عرصے میں میں نے نشتر انگیزجملوں کی تہہ میں پائی جانے والے طنز پرغور نہیں کیا تھا۔ ایک کان سے سنکر دوسرے کان سے نکال دیتا تھا۔لیکن آج ان الفاظ اور القابات کے بارے میں سوچتا تو اُن کا مطلب صرف’لو فر، ڈھیٹ اور گھٹیا پن‘  ہی نکلتا تھا۔ اُس نے جتنا بھی برا کہا  اور کتنی بھی خامیاں گنوائی تھیں، کو  اس لئے دل کو نہیں لگایا یا برا نہیں منایا تھا کہ یقین تھا کہ وہ میرے ساتھ مخلص تھی اور میری ہی بھلائی کے لئے بولتی تھی۔

 

مریم ہر کام میں نظم و نسق کا خیال رکھتی تھی۔ وہ سلیقہ شعار تھی۔ اس کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ وہ بہت  وضع د ار اور بہت درگزر کرنے والی خاتون تھی۔ مغرب میں پلنے بڑھنے کے باوجود اس کے والدین نے متوسط طبقے کی اعلیٰ  اقدار کے ساتھ تربیت کی تھی جس پر وہ سختی سے کاربند تھی۔  

 

 اس اپارٹمنٹ میں اگرچہ پچھلے سات سال سے مقیم تھا لیکن مریم شادی کے بعد میرے ساتھ چار سال سے تھی۔ اس سے پہلے میں میکسیکو بنجارن کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اپنی اس ازدواجی حیثیت کا جائزہ لیا تو خیال آیا کہ میں نے قدم قدم پر مریم کے جذبات مجروح کئے تھے۔ اُس پر دھیان نہیں دیا۔ شادی سے پہلے اور بعد اُس کی مدد نہیں کی۔ 

 

 مریم  مجھے چھوڑ گئی تھی۔ گھر سونا ہو گیا تھا۔ جذبات بجھ گئے تھے لیکن ایک بات طے تھی کہ سب کچھ ہونے کے باوجود میں اس کے خلاف کوئی بات نہ سن سکتا تھا۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو، اگر اس کے خلاف کچھ کہتا  تو میں  برداشت نہ کر پاتا اور منہ توڑ جواب دیتا کیونکہ میں صدق دل سے یہ تسلیم کرتا تھا کہ اس سارے معاملے میں مریم کا کوئی قصور نہ تھا۔ اس کے جانے کے بعداگرچہ میں نے دوسری شادی کر لی تھی لیکن جب  وہ اُس کے خلاف بولتی توبہت برا لگتا۔منع کرنے کے باوجود جب وہ باز نہ آئی تو میں نے اسے طلاق دے دی۔ مریم کے ساتھ میں جو کر چکا تھا اس پر پچھتانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھاَ۔

 

میں سیا ست میں تھالیکن مریم کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی مقامی مسائل کی خبر تھی۔ ان دنوں سیاست اس قدر گھناؤنی چل رہ تھی کہ میں اس سے بڑا متاثر ہوا۔ مخالف پارٹی کی وجہ سے کوئی نوکری نہ ملی۔ میں گھر کے اخراجات میں بالکل حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ اقتصادی معاملات کی تمام تر ذمہ داری مریم پوری کر رہی تھی۔ اسے تو یہ پتہ تھا کہ اس کا خاوند بے کار ہے۔ اس کے پاس کوئی جمع پونجی نہیں۔ مریم اپنے تئیں برے حالات میں پوری کوشش کر رہی تھی کہ معاملات کو ٹھیک طرح سے چلائے۔وہ مارکیٹ جاتی اور کم سے کم قیمت والی اچھی خریداری کرتی۔ گھر آکے مٹی کے تیل کے چولہے پر کھانا پکاتی اور ٹھنڈے پانی سے کپڑے دھوتی۔گھر کو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد رکھنے کی سہولت نہیں تھی۔ پانی کو گرم رکھنے کے لئے گیزر بھی نہیں تھا۔ وہ یہ تمام مشکلات ایک محبت کرنے والی ذمہ دار بیوی کی طرح پوری نبھا رہی تھی۔ وہ اشیاء جو قدیم میکسیکو انڈین میرے پیسوں سے اپنے لحاظ سے سستی ترین خریدتی تھی وہ مریم کے نزدیک نہایت مہنگی تھیں۔ آہستہ آہستہ اس کی جمع پونجی بالکل ختم ہوگئی اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ مشکلات میری شاعری میں سوزوگداز پیدا کریں گی۔

 

گھریلو کام کاج کی مدد کے لئے پارٹ ٹائم یا فل ٹائم نوکر کی ضرورت تھی لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ مریم نے میری عزت نفس کو مجروح نہ کرنے کے لئے یہ بہانہ بنایا کہ اسے گھر میں نوکر رکھنا پسند نہیں کیونکہ وہ گندے، لاپروا ہوتے ہیں اور انسانی صحت کا خیال نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں میں نے کہا کہ وہ اس کی مدد کر دے گا تو اس نے منع کر دیا۔ خود ہی تمام ذمہ داریاں پوری کرتی رہی۔ اسے گھر سے باہر ہر قسم کے موسم میں ٹھنڈے پانی سے کپڑے دھونے پڑتے تھے۔ دیواروں پر پودوں کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں اور درخت پوری رعنائیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ مریم نے خود کو اس طرح پیش کیا کہ وہ پکنگ منارہی ہے۔ میں نے جب بچپن میں پہلی بار کسی عورت کو گھر کا کام کرتے ہوئے دیکھا تھا تو وہ میری ماں تھی۔ مختلف عمروں اور جنسوں کے اس کے چھ بچے تھے۔ وہ ان سب کا خیال رکھتی تھی۔ صبح سے شام تک کام میں جتی رہتی تھی۔ علی الصبح اٹھتی اور رات کو کام کرتے کرتے تھک ٹوٹ کر سو جاتی۔ اس کا کام سخت اور کبھی نہ ختم ہونے والا تھا۔ وہ اپنی دھن میں دل خراب کئے بغیر کام کرتی رہتی تھی۔ میری ماں عیش و عشرت کے نام سے نا واقف تھی۔ مریم یہ سن کر کہتی۔۔اوہ،  تمہاری ماں۔ اس کے لہجے میں اگرچہ طنز نہ ہوتی تھی لیکن میں سمجھتا تھا کہ اس نے میری ماں کی بے عزتی کر دی ہے اور میرے جذبات مجروح کر دیئے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ اس نے میری ماں کو حقیر سمجھا ہے۔ وہ اس پر لعنت بھیج رہی ہے جس نے نکھٹوبیٹے کو جنم دیا ہے۔ اسے اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ میری ماں اور میرے بارے میں ایسا نہیں سوچتی تھی یہ لیکن میر ا یہ خیال تھا کہ وہ ایسا سوچتی تھی لیکن اگر وہ ایسا سوچتی بھی تھی تو وہ برحق تھی۔ اس نے گھر سے وفاداری کرکے کا لوگوں میں اپنا مقام بنا لیا تھا۔ لوگ اس کی عزت کرتے  تھے اور ترس کھاتے تھے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں درد رہنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ جب بھی وہ کام کرتی تو اس کے پٹھے سخت ہو جاتے تھے اور درد کر رہے ہوتے تھے۔ وہ مجھے خوش کرنے کے لئے جوش سے کام کرنے لگ جاتی تھی جبکہ درحقیقت اس وقت وہ جسمانی طور پر شدید درد میں مبتلا ہوتی تھی اس لئے وہ اس سے لطف نہ اٹھا پاتی۔ صورت حال کی تشریح کو اپنے تجربات کی بنا پر کیا کرتی تھی۔ ایسا غلط بھی نہیں تھا لیکن اس میں خوبصورتی کا تصور غائب تھا۔ وہ کہتی اگر میں حقیقی طور پر بیمار ہوتا یا اپاہچ ہوتا تو وہ کام خوشی سے کرتی لیکن اس کے میاں کی صحت زبردست تھی اور نوکری ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا۔ صرف شاعری کرتا رہتا جو اقتصادی طور پر ذرہ بھر بھی مدد نہیں کرتی۔

 

وہ مجھے نا کام شخص تصور کرتی تھی۔ وہ اسے فضول، نااہل اور ماحول کے مطابق نہ ڈھلنے والا شخص کہتی۔ سخت کام کر کے اس کے ہاتھ کھردرے ہوگئے تھے۔ بار بار وہ اسے دکھاتی اور کہتی کیا اس لئے تم نے مجھ سے شادی کی تھی اور مستقبل میں کیا یہی اس کی قسمت میں لکھا تھا؟ اس طرح کے بیہمانہ سلوک کا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور اس کے میاں کے ناکارہ اور واہیات دوست گھر آتے رہتے تھے جو اسے ناپسند تھے اور ان کے ساتھ سرسری ملاقاتیں بھی نہیں کر نا چاہتی تھی۔ وہ بھی اس پر اضافی بوجھ بن جاتے تھے۔ جیکب نے مریم کو ان کے بارے بتایا تھا کہ وہ فضول لوگ نہیں بلکہ میکسیکو کے بہترین مصور اور شاعر تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے بارے میں شادی سے پہلے مزید جاننے کے لئے ترستی رہتی تھی۔ وہ اس وقت اس حد تک ان میں دلچسپی لیتی تھی کہ مشہور مصور کارلس ہمیشہ ایک ہی قمیض جو میلی کچیلی ہوتی تھی کیوں پہنتا تھا؟  میں اسے جواب دیتا کہ شاید اس کے پاس ایک ہی قمیض تھی۔ وہ پوچھتی کہ جیمی (Jaime)کیوں لحمیات بڑے شوق سے کھاتا ہے اور وحشی کی طرح پور ی کی پوری تھالی چٹ کر جاتا تھا؟ جیکب کہتا کیونکہ وہ بہت زیادہ بھوکا ہوتا تھا۔ اگر وہ اتنے ہی غریب تھے تو کام پر کیوں نہیں جاتے اور پیسے کیوں نہیں بناتے؟مجھے اس کو فرانسیس بیکن کا فلسفہ سمجھانے میں دقت آتی تھی کہ غربت ہو تو تخلیقی کام بہترین ہوتا تھا۔ مصوروں،ادیبوں اور شاعروں کے لئے شاہکار تخلیق کرنے کے لئے فطری طور پر ان کا بھوکا رہنا بہت ضروری ہوتا تھا،  جیکب نے کہا۔  تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنی مرضی سے قحط کا شکار ہوتے تھے،  دوسرے ہوں نہ ہوں لیکن تم ضرور احمق ہو، مریم نے تبصرہ کیا۔ وہ فطری طور پر جھگڑا نہیں کرتی تھی ایک امن پلوگ تھے۔ وہ مخلوقِ خدا کے جذبات کو تسکین دینے کے لیے شاہکار شاعری، مصوری اور تصانیف کرتے تھے۔ لوگوں کو تو ان کا مشکور ہونا چاہیے کہ وہ اپنے عمیق مشاہدات اور تخیل سے لوگوں کو معاشرتی مسائل بیان کرکے حل پیش کر رہے تھے۔معقول نظاروں کی تصاویر سے روحانی تسکین فراہم کر رہے تھے۔ ایسے تمام آرٹسٹ دنیا بھر کی خدمت کر رہے تھے لیکن اس کو یہ فلسفہ پسند نہ تھا جبکہ اس کی سوچ حقیقی تھی۔مریم دنیا کو اس سے بہتر جانتی تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ تمام لوگ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ کبھی تو ان کی مصوری، شاعری، ادب پسند کئے جائیں گے اور انہیں روز گار ملے گا۔

         

منطقی طور پر دنیاوی نقطہ نظر سے اس کا فلسفہ صحیح تھا۔ وہ اصل بات تک پہنچ چکی تھی۔ اس کی حقیقت پسند انہ سوچ کی بدولت یہ طے تھا کہ اس  کا میاں اور اس کے  تمام دوست اور کام چورتھے۔ اس نے واشگاف انداز میں تو نہیں کہالیکن اس کی باتوں سے یہی اخذ کیا جا سکتا تھا کہ اس وجہ سے ہی مریم کی تمام دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ نفرت ہوگئی۔ اس نے اپنے میاں کویقین دلایا کہ وہ اتنے بیوقوف نہیں تھے جتنا کہ وہ انہیں سمجھا تھا اور وہ یقین سے کہہ سکتی تھی کہ جیمی کو جب کبھی پیشکش ہوئی یا موقع ملا تو وہ کسی امیر عورت کے ساتھ، ریکارڈ وکسی فلم ایکٹریس سے،لوسن کسی سرکاری نوکری میں حکومتی پروپیگنڈہ کے فروغ میں تصاویر بنا رہا ہوگا۔  میرے اندر کے شاعر نے اس کی یہ باتیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میری ان تمام آرٹسٹوں کے بارے میں سوچ رومانوی تھی اور میں اپنے عقائد پر قائم رہا۔ میں کوئی ایسی تدبیر سوچنے لگا جو مریم کے خیالات کو باطل کر دے۔

 

حقیقت میں مریم کا خیال درست ثابت ہوا۔ رفتہ رفتہ وہ سب غائب ہوتے گئے۔ جیکب پھر بھی اپنی بات پر ڈٹا رہا کہ رنگ لائے گی  اس کی فاقہ مستی ایک دن۔ُاسے اپنی شاعری پر بھروسہ تھا کہ وہ ایک دن ایک بڑا مقا م حاصل کرے گی۔ اسے یہ احساس دلاتا رہا کہ وہ ان آرٹسٹوں کی طرح نہیں جو بھاگ گئے بلکہ وہ غیر معمولی اور سب سے ہٹ کر تھا۔ درحقیقت مریم صحیح تھی۔ اس کی شاعری بہت بری تھی۔ اس میں کوئی گہرائی نہیں تھی۔ قافیہ ردیف کا کوئی سلیقہ نہ تھا۔ ناقدین اور پبلشرز نے اس کی شاعری کو رد کر دیا تھا اور کلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کوئی بھی اسے چھاپنا نہیں چاہتا تھاپھر بھی اس نے ہار نہ مانی۔ سوچا کہ  وہ سب غلط تھے۔ہزار ضرب صفر کا جواب صفر ہی آئے گا۔ یہ کہ عظیم لوگ عام لوگوں سے الگ ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے کی نفی کرتے ہیں اور پھر معاشرہ ان کے فلسفے کو اپناتا ہے۔ مخالفت کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ وہ اس منطق پر قائم رہا اور لگن سے اپنی شاعری کرتا رہاجو دوسرے لوگوں کے نزدیک بالکل سطحی تھی۔ وہ جب بھی روکتی ٹوکتی  تو  اسے کہتا کہ آرٹ ایک مذہب ہے اس لئے وہ اسے ترک نہیں کر سکتا اور کوئی نوکری ڈھونڈنے کی بھی کوشش نہ کرتا۔

 

مریم اور اس میں اس نقطے کی وجہ سے اختلاف شروع ہو اور وہ مجبور کرتی کہ نوکری کر وں۔وہ کہتا کہ وہ جو کام کر رہا  تھا وہ عبادت تھی۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ اپنے کردار اور شخصیت کو برباد کر رہا تھا۔ اسے اس رویہ پر پہلے تو کم کوفت ہوتی تھی پھر آہستہ آہستہ وہ غصے میں اور پھر طیش کی شکل میں ظاہر ہونے لگی۔ اس کے باوجود جیکب نے اپنی روش نہ بدلی۔ وہ کہتی کتابوں سے نکل آؤ اور کام کرو۔ گھر چلانے میں مدد کرو۔ وہ اس کی ان باتوں پر اس سے لڑتا تو نہیں تھا بلکہ اس کے نتیجے میں مریم سے نفرت روز بروز بڑھنے لگی۔ امریکی متوسط طبقے کی سوچ کہ محبت کرو اور اس کا ہاتھ بٹاؤ، کی تربیت ذہنی طور پر مریم کا ساتھ دیتی تھی لیکن میاں کی  مردانگی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ عورت کے نیچے لگ کر اس کی بات مان لے۔ اگر ایسا کرتا تو اپنے خون کے ساتھ ناانصافی کرتا اس لئے وہ اپنے پرانے خیالات کا پابند رہا۔ ایک کلرکی لے کر روز وقت پر صاف ستھرے کپڑے پہن کر جانا، دفتر میں جے حضوری کرنا اپنی انا کو ضائع کرنے جیسا تھا۔تمام دن افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ کھانے کے بعد تھکے ٹوٹے گھر واپس آنا ایک غیر تخلیقی کام تھا اور خود کشی کی مانند تھا۔ اس سے روح پراگندہ ہو جاتی اس لئے  نوکری کا خیال  رد کر دیا۔ اس سے بھی گزارا نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ مریم کو ہر وقت کام میں جتے رہتے دیکھتا تو کوفت ہوتی تھی لیکن  خود اس کا ساتھ نہیں دینا چاہتا تھا کہ اس سے اس کے فن کو زک پہنچتی۔ مریم چار سال ایک مہینہ اور گیارہ دن تک برداشت کرتی رہی۔ اس دوران اس کی سب رقم ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے اس نے اس دگرگوں حالت کا ذکر اپنے خاندان سے نہ کیا۔ جب اور کوئی بس نہ چلا تو اس نے اپنے والدین سے گھر چلانے کے لئے مالی مدد مانگ لی۔ان کے کہنے پر مریم نے اپنا تمام سامان پیک کیا، جو چیزیں وہ اپنے ساتھ نہ لے جا سکتی تھیں اپنے میاں استعمال کے لئے رہنے دیں، الوداعی کلمات کہے اور چلی گئی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ جاتے وقت اس کی رنگت اڑی ہوئی تھی، ہونٹ کپکپا رہے تھے۔،ہاتھ اور جسم پر رعشہ طاری تھا، آنکھیں ویران اور وحشی لگ رہی تھیں۔ اسکی ایسی حالت کسی نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ اس کو اس حالت میں پہچاننا بھی مشکل ہو گیا تھا۔

 

وہ چلی گئی اور مجھے سبق سکھا گئی۔ اس کے جانے کے بعد مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود اس نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ میں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میرا ہر ظلم و ستم وہ خوشی سے برداشت کرلے گی اور انتہائی بد سلوکی کے باوجود شادی قائم رکھے گی۔ ہمارے درمیان لڑائی جھگڑا، توتکار غیر اہم لگتے تھے کیونکہ ہر گھر میں ایسا ہوتا ہے اور یہ نارمل ہے۔ وہ شکوے شکایت کرتی، مجھے مشورے دیتی، گھر کے حالات سدھارنے پر تجاویز دیتی تو میں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا۔ معاملات تو یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ میں اس کی شکل دیکھنے کا روادار تک نہ تھا۔ وہ ایک بے کار شئے لگنے لگی تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں درختوں کے گھنے سائے میں مزید وقت گزارنے لگا۔ اب مجھے زخم بھی لگ چکے تھے، مفلوک الحال بھی تھا، بدنامی بھی ہوئی تھی اوراب یہ وقت آگیا تھا کہ اب میری شاعری میں سوزو گداز پیدا ہو لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میرا یہ فلسفہ باطل ثابت ہو چکا تھا کہ بھوک اور درخت ہی شاعری کو جلا نہیں بخشتے اور یہ کہ من اور تن کو یکجا رکھنے کے لئے روزگار ضروری ہے۔ شاعر، ادیب، مصور جو قلابے ملاتے رہتے تھے دراصل وقت کو دھوکہ دینے کے متراد ف تھا۔ وہ صرف موقع پرست تھے۔ اپنے موزوں وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ جوں ہی انہیں موقع ملا ا،نہیں اچکا اور فرار ہوگئے۔

 

میں سیا ست میں تھالیکن مریم کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی مقامی مسائل کی خبر تھی۔ ان دنوں سیاست اس قدر گھناؤنی چل رہ تھی کہ میں اس سے بڑا متاثر ہوا۔ مخالف پارٹی کی وجہ سے کوئی نوکری نہ ملی۔ میں گھر کے اخراجات میں بالکل حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ اقتصادی معاملات کی تمام تر ذمہ داری مریم پوری کر رہی تھی۔ اسے تو یہ پتہ تھا کہ اس کا خاوند بے کار ہے۔ اس کے پاس کوئی جمع پونجی نہیں۔ مریم اپنے تئیں برے حالات میں پوری کوشش کر رہی تھی کہ معاملات کو ٹھیک طرح سے چلائے۔وہ مارکیٹ جاتی اور کم سے کم قیمت والی اچھی خریداری کرتی۔ گھر آکے مٹی کے تیل کے چولہے پر کھانا پکاتی اور ٹھنڈے پانی سے کپڑے دھوتی۔گھر کو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد رکھنے کی سہولت نہیں تھی۔ پانی کو گرم رکھنے کے لئے گیزر بھی نہیں تھا۔ وہ یہ تمام مشکلات ایک محبت کرنے والی ذمہ دار بیوی کی طرح پوری نبھا رہی تھی۔ وہ اشیاء جو قدیم میکسیکو انڈین میرے پیسوں سے اپنے لحاظ سے سستی ترین خریدتی تھی وہ مریم کے نزدیک نہایت مہنگی تھیں۔ آہستہ آہستہ اس کی جمع پونجی بالکل ختم ہوگئی اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ مشکلات میری شاعری میں سوزوگداز پیدا کریں گی۔

 

 وہ رومانٹک تھی۔ وہ میری چاہت کی خواہش مند تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ میں بھی  مالی معاملات میں اس کا ہاتھ بٹاؤں۔  اسے اب سمجھ انے لگی تھی کہ فنکار بےکار لوگ ہیں ۔  میں نے اس بات کو منطق کے ذریعے اسے بار بار سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ عظیم وگ لوگ ہیں۔ ان کے دم سے دنیا آباد ہے۔میں اس کے خلاف دلائل دیا کرتا تھا۔ 


میری ما ں کہا کرتی تھی کہ اپنی بیوی کومحبت کرو اور اس کا ہاتھ بٹاؤ۔ اس کی تربیت کی بدولت  ذہنی طور پرمیں مریم کا ساتھ دیتا تھا لیکن  میری مردانگی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ عورت کے نیچے لگ کر اس کی بات مان لے۔ اگر  ایسا کرتا تو اپنی مردانگی کے ساتھ ناانصافی کرتا اس لئے میں اپنے پرانے خیالات کا پابند رہا۔ ایک کلرکی لے کر روز وقت پر صاف ستھرے کپڑے پہن کر جانا، دفتر میں جے حضوری کرنا اپنی انا کو ضائع کرنے جیسا تھا۔تمام دن افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ کھانے کے بعد تھکے ٹوٹے گھر واپس آنا ایک غیر تخلیقی کام تھا اور خود کشی کی مانند تھا۔ اس  روح پراگندہ ہو جاتی اس لئے  میں  نے نوکری کا خیال رد کر دیا۔ اس سے بھی گزارا نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ مریم کو ہر وقت کام میں جتے رہتے دیکھتا تو کوفت ہوتی تھی لیکن خود اس کا ساتھ نہیں دینا چاہتا تھا کہ اس سے اس کے فن کو زک پہنچتی۔مریم چار سال ایک مہینہ اور گیارہ دن تک برداشت کرتی رہی۔ اس دوران اس کی سب رقم ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے اس نے اس دگرگوں حالت کا ذکر اپنے خاندان سے نہ کیا۔ جب اور کوئی بس نہ چلا تو اس نے اپنے والدین سے گھر چلانے کے لئے مالی مدد مانگ لی۔ان کے کہنے پر مریم نے اپنا تمام سامان پیک کیا، جو چیزیں وہ اپنے ساتھ نہ لے جا سکتی تھیں میرے استعمال کے لئے رہنے دیں، الوداعی کلمات کہے اور چلی گئی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ جاتے وقت اس کی رنگت اڑی ہوئی تھی، ہونٹ کپکپا رہے تھے۔،ہاتھ اور جسم پر رعشہ طاری تھا، آنکھیں ویران اور وحشی لگ رہی تھیں۔ اسکی ایسی حالت کسی نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ اس کو اس حالت میں پہچاننا بھی مشکل ہو گیا تھا۔

 

میں نے شاعری چھوڑ دی اور اس پیشے کو اپنایا جس میں میرے پاس وسیع معلومات تھیں۔میں نے صحافت اپنا لی۔ یہ  پیشہ مجھے  راس آگیا۔ اس میں کامیابی حاصل ہوگئی۔ میری صبح شام تقریبات میں گزرنے لگی۔ ایک دفعہ ایسے دوست کے ساتھ جس پر سے میرا بھروسہ اٹھ چکاتھا ایک یستوران میں بیٹھا تھا کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی جو لگتا تھا کہ ساتھ والی میز سے آئی تھی۔

         

دوسرا انقلاب‘  ایک نوجوان کے منہ سے اونچی آواز میں نکلا جو دوستوں کے ساتھ نزدیکی میز پر بیٹھاتھا۔ اس نوجوان نے نارنجی رنگ کا ایک کسا ہوا سوٹ  اور گوشت کے رنگ کے جوتے زیب تن کئے ہوئے تھے۔  وہ سوٹ اتنا تنگ تھا کہ لگتا تھا کہ پھٹ جائے گا۔ اس قسم کا فیشن ان دنوں میکسیکو میں مقبول تھا۔

 

میں نے مڑکر اپنے کندھے کے اوپر سے  اس نوجوان کی دیکھا اورتبصرہ کیا کہ یہ بھی کوئی سمارٹ رپورٹر لگتا ہے جو خبروں کی تلاش میں مارا مارا   پھرتاہے۔ یہ بات میں نے اونچی آواز میں کی تھی جس کو سن کر اس کو غصہ آگیا۔ اس نے اپنی آستینں اوپر چڑھا لیں اور مجھ  سے مخا طب  ہو کر کہا   ُ  بغیر تھوڈی کے مینڈک کی آنکھوں والے عجیب و غریب شخص،  تم نے یہ بات کیو ں کی؟  تمہاری یہ جرأت کیسے ہوئی۔ کیا تم مجھے جانتے نہیں؟  وہ غصے میں پھونکتا ہوا  میرے میز پر جھک کر کھڑا ہو گیا۔

 

میں نے سوچا کہ یہ شخص یقینا  چھچھورا ہے  اس کے اس ردِّ عمل پر خاموش رہا۔ اسے تو کچھ نہ کہا بلکہ اپنی میز پر بیٹھے ہوئے دوست  کو کہا      ُ     مجھے یقین ہے کہ وہ گورنمنٹ کا کوئی ملازم ہے جو اتنا  اکڑ رہا ہے۔ مجھے پکا یقین ہے۔ اُس کا ایک ساتھی اپنی کرسی سے فوراً اٹھا۔ ایک موٹی سی گالی اس چھچھورے شخص کو دی اور کہا کہ اگر وہ باز نہ آیا اور ایسا ہی  رویہ رکھا تو دونوں پارٹیوں کی لڑائی ہو جائے گی۔

اگر یہ لڑائی کرنا چاہتا ہے تو میں تیار ہوں۔میں نے جواباً کہا۔  

اِس پر اس کے ساتھیوں نے اُس شوخے کو چاروں طرف سے پکڑ لیا اور اسے ایک طرف کر  کے کہا کہ خواہ مخواہ چھوٹے لوگوں کو منہ نہ لگایا کرو اور  اب قصے کو ختم کروجو (Joe)۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ تمہارا  مدِّ مقابل تم سے جسامت میں آدھا ہے اور کمزور بھی ہے۔ تمہیں اس شخص سے نہیں لڑناچاہیے۔تم اس پر حملہ کرو گے تو تمہارے لئے برا ہوگا۔       

میں نے اس شخص کو نہیں چھوڑنا اس نے میرے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔جو (Joe)بولا     

اتنے میں ویٹر مداخلت کے لئے آگیا۔ جناب والا! شانت، شانت، امن، امن سر!  ریستوران میں معزز خواتین و حضرات بیٹھے ہیں۔  گفتگو مہذب اور آہستہ کریں۔

جو (Joe)نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، یہ تو بتاؤ کہ تمہاری اوقات کیاہے؟

 وہ کوئی ایسی اہم شخصیت نہیں ہے جو تمہارے لئے دلچسپ ہو۔۔اب ٹھنڈے ہو جاؤ،  اس کا دوست بولا۔ بعد میں ایسے اشخاص دردِ سر بن جاتے ہیں۔ اُس واقعے کو یاد کرو جو پچھلی دفعہ ہوا تھا۔ لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ احتیاط کرو اور باز آجاؤ۔ اس کے دوست نے نصیحتجاری رکھتے ہوئے کہا۔

ویٹر بولا، اس قصے کو ختم کریں ورنہ انتظامیہ آپ کو باہر نکال دے گی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔

 

اس تنازعے پر مجھے اِسی ر یستوران کا پرانا ناگوارواقعہ یاد آگیا جس سے نہ صرف شام غرق ہوئی تھی بلکہ اس کے اثرات بھی دور رس ثابت ہوئے تھے۔ میکسیکو میں ان دنوں مارشل لا تھا۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانا تھا۔ شادی کے بعد مریم نئی نئی میکسیکو آئی تھی۔ سوئے تفاق ہم اس ریستوار ن میں تھے۔ چار جرنیل ایک ٹیبل پر اور ان کے ساتھ والی چار خوبصورت خواتین نزدیکی میز پر بیٹھی تھیں۔ جرنیلوں کی موٹی موٹی توندیں تھیں۔ اُن کی چمڑے کی موٹی پٹیوں میں سینکڑوں گولیاں تھیں۔ان کی کمر پر پستول تھے۔ وہ خواتین اسکارٹ تھیں جو فرانس سے میکسیکو کے صدر کی حلف برداری کے لئے لائی گئی تھیں۔ حلف برداری کے بعد ان جرنیلوں نے ان کے ساتھ لطف اندوز ہونا تھا۔ وہ جرنیل آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ یکا یک کسی بات پر ایک جرنیل اٹھا، دوسرے جرنیل پر پستول تان لی اور غصے سے اسے گالیاں بکنے لگا۔ اس کی آواز تنی بلند تھی کہ تمام ریستوران تک پھیل گئی۔ بینڈ بند کر دیا گیا۔ مریم اس منظر کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی اور میز کے نیچے چھپ گئی۔ دوسرے میز پر بیٹھی ایک ایسکارٹ اٹھی اور اس جرنیل کو پیچھے سے پکڑ لیا اور ٹھنڈا کیا۔

 

 اس جرنیل نے اِدھر اُدھر دیکھا اور مریم کو میز کے نیچے چھپی ہوئی پایا تو اسے کھینچ کر باہر نکالا۔ اسے کہا آؤ میرے ساتھ چلو اور عیش کریں۔ میں اسکے نزدیک ہی کھڑا تھا۔ فوجی کی دست درازی پر بالکل بھی غصہ نہ آیا اورتماشائیوں کی طرح اس واقعے کو دیکھتا رہا۔  میرے رویے سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے مریم سے میراا کو ئی تعلق نہیں۔ اسے جرنیل کے شر سے بچانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ جوں توں کرکے مریم نے ازخود مشکل سے اُس کی گرفت سے آزاد کرایا۔وہ کپکپا رہی تھی۔ رنگ پھیکا پڑا ہوا تھا۔ ریستوران میں لوگ پھر سے ایسے ڈانس کرنے لگے جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔ یقینا کسی بھی دوسرے کو کچھ بھی نہیں ہو اتھا۔

 

فوجی سے پیچھا چھڑانے کے بعد مریم میرے پاس آئی اور کہا نکلو یہاں سے۔ اُس وقت مریم کا ساتھ نہ دینا بعد میں میرے لئے بے حد ندامت کا باعث بنا۔ جب بھی وہ واقعہ یاد آتا یا اُس کا ذکر ہوتا تومیری قدرنہ صرف مریم بلکہ اپنی نظر میں بھی گھٹ جاتی۔میں ایک ڈرپوک شخص ثابت ہوا جو اپنی بیوی کی عزت نہ بچا سکا۔اپنی خفت دور کرنے اور اپنی محبت جتانے کے لئے سالہا سال تک یہ دلیل دیتا رہا کہ میں چپ اس لئے رہا تھاتاکہ مریم کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے لیکن اسے ذرا بھی  اعتبار نہ آیا۔ تاہم کئی بار اس نے تبصرہ کیا کہ وہ ایک بیہودہ عمل تھا جو جرنیل نے کیا۔ تمہیں اس جرنیل کو سبق سکھانا چاہیے تھا۔اپنی زندگی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے تھی۔

 

دیکھا جائے تو اس قسم کے واقعات میکسیکو میں لڑکیوں کے ساتھ عام ہوتے ہیں۔ وہاں ایک ہی خیال کہ لڑکی کو کیسے بستر تک لے جایا جائے، پایا جاتا ہے۔مریم کوآج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ وہ جرنیل یہ کیوں سمجھ رہا تھا کہ اگر وہ اسے میز کے نیچے سے نکال لے گا تو وہ بھری محفل میں اسے زبردستی لے جائے گا یا وہ اپنی خوشی سے اس کے ساتھ ہو لے گی۔ ایک اور خیال جو اُس کے ذہن میں بار بار پیدا ہوتا تھا، یہ تھا کہ کیا وہ میز کے نیچے زیادہ محفوظ تھی؟ کیا رائفل کی گولی میز کو چیر نہیں سکتی تھی؟ میز تو لکڑی کی تھی۔ گولی تو اس کے آر پار جا سکتی تھی۔ وہ پچھتاتی تھی کہ اس وقت یہ بات اس کے ذہن میں کیوں نہ آئی کہ لکڑی کا تختہ کس حد تک اس کی حفاظت کر سکتا تھا۔ تختہ تو اتنا ہی مضبوط تھا جتنا پرندوں کے پر یا تکیہ کی روئی۔ بعد ازاں مریم نے خود کو ایک عام لڑکی کی نظر سے دیکھا اور دل کو سمجھالیا کہ میکسیکو میں لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ خطرے کی صورت میں اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ میز کے نیچے چھپنا بھی محض ایک ایسی ہی حفاظتی تکنیک تھی۔ اِس طرح سے اُس نے اپنے اس فعل کا لاشعوری طور پر دفاع کر لیا تھا۔

 

وہ چلی گئی اور مجھے سبق سکھا گئی۔ اس کے جانے کے بعد مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود اس نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ میں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میرا ہر ظلم و ستم وہ خوشی سے برداشت کرلے گی اور انتہائی بد سلوکی کے باوجود شادی قائم رکھے گی۔ ہمارے درمیان لڑائی جھگڑا، توتکار غیر اہم لگتے تھے کیونکہ ہر گھر میں ایسا ہوتا ہے اور یہ نارمل ہے۔ وہ شکوے شکایت کرتی، مجھے مشورے دیتی، گھر کے حالات سدھارنے پر تجاویز دیتی تو میں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا۔ معاملات تو یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ میں اس کی شکل دیکھنے کا روادار تک نہ تھا۔ وہ ایک بے کار شئے لگنے لگی تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں درختوں کے گھنے سائے میں مزید وقتگزارنے لگا۔ اب مجھے زخم بھی لگ چکے تھے، مفلوک الحال بھی تھا، بدنامی بھی ہوئی تھی اوراب یہ وقت آگیا تھا کہ اب میری شاعری میں سوزو گداز پیدا ہو لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میرا یہ فلسفہ باطل ثابت ہو چکا تھا کہ بھوک اور درخت ہی شاعری کو جلا نہیں بخشتے اور یہ کہ من اور تن کو یکجا رکھنے کے لئے روزگار ضروری ہے۔ شاعر، ادیب، مصور جو قلابے ملاتے رہتے تھے دراصل وقت کو دھوکہ دینے کے متراد ف تھا۔ وہ صرف موقع پرست تھے۔ اپنے موزوں وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ جوں ہی انہیں موقع ملا ا،نہیں اچکا اور فرار ہوگئے۔

 

مریم مسائل کے انبار اور میری بے روزگاری اور عدم دلچسپی سے دلبرداشتہ سی ہو گئی تھی۔ وہ واپس لوٹنا چاہتی تھی۔۔۔پر سوچتی کس منہ سے وہ واپس جائے۔ یہ شادی پسند کی شادی تھی۔ اپنی بے بسی پر رو پڑتی۔ وہ اتنی دور امریکہ سے شادی کر کے یآئی تھی اور یہاں میرے پاس اُس کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ مالی تنگدستی کی وجہ سے ہمارا  ہنی مون کھٹائی میں پڑ گیا۔ اسے اپنے میری فطرت اور عیاشیوں کا بالکل بھی پتہ نہیں تھاجومیں نے پچھلے چارسالوں میں کی تھیں۔ اسے یقین تھا یا غلط طور پر یہ یقین ہو کیا تھا کہ اس کا میں بزدل ہوں۔ میں  جب اس سے کہتا کہ اس کے لئے جان تک قربان کر سکتا ہوں تو وہ کہتی کہ ہاں میں نے دیکھ لیا  ہے۔ تم نے آج تک کوئی ایسی چیز کی ہے جس سے مجھے لگے کہ تم میری پرواہ کرتے ہو۔ نہ گھر میں،نہ باہر، جو کچھ کروں میں ہی کروں اور تم صرف فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہر وقت موجود ہوتے ہو۔ تم خود کچھ نہیں کر تے اور دھرتی پر بوجھ ہو۔ اس کے ان جملوں سے میں حیران ہوگیا۔ ایسے الفاظ  مریم نے اس کے لئے پہلی بار استعمال کئے تھے۔ اس کے لہجے کی تلخی اور تبدیلی میرے لئے تکلیف دہ تھی۔

 

 میں بیکار تھا۔ شاعری بکواس تھی۔ مریم کا محتاج تھا پر اپنی خفت مٹانے کے لئے اُسے یہ دلیل دیا کرتا تھا کہ اس نے  مجھے یہ بات اس لئے کہی کہ استانی والے ذہن سے ابھی باہر نہیں نکل سکی۔ اپنی بات میں وزن دینے اور مرد کی اہمیت جتا نے کے لئے کہا کہ وہ تو عورتوں کے معلمی کے پیشے کے بھی خلاف ہے اور حکومت سے درخواست کرے گا کہ خواتین کے لئے  یہ پیشہ ہی ختم کر دیا جائے۔ اس بات پر مریم نے یا ددلایا کہ جس رقم پر تم عیش کر رہے ہو، وہ ایک استانی کی ہی کمائی ہے۔اس کی یہ بات مجھے اچھی نہ لگی۔

         

مریم کی یہ بات صحیح تھی کہ وہ گھر کا تمام خرچہ اکیلے ہی برداشت کر رہی تھی۔ ان کی منگنی تین سال رہی۔ وہ ہر لمحہ شادی کے اخراجات  اور گھر سجانے کے لئے کماتی رہی۔ اس نے زیادہ سے زیادہ محنت کی اور معقول رقم جمع کر لی جبکہ دوسری طرف میں ایک لاابالی طبیعت کا مالک تھا۔

 

جب شادی کے بعد ا ن مصوروں ِ شاعروں ِ ادیبوں اور دیگر فنکاروں کی اصلیت کا پتہ چلا تو وہ نالاں ہو گئی اور ان سے نفرت کرنے لگی۔ شادی کے بعد وہ جب حالات کی وجہ سے مجھ سے بے حد نالاں ہوگئی  تو اُس دوران میرا ایک موقعہ پرست دوست اسے ملنے کے لئے آیا۔ مریم کے رویے اور باتوں سے دوست کو اندازہ ہو گیا کہ ایک خوبصورت پیاری چڑیا پنجرے سے اُڑنے والی ہے۔ ایک بار وہ آزاد ہوگئی تو وہ اسے کیچ کر لے گا۔ اس نے  اس کو قابو کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ایک غزل لکھی جس کا عنوان تھا   ُ  ایک۔قیدی پرندہ   ُ  جس کا انتساب اس نے مریم کے نام کیا تھااور وہ غزل اسی پر تھی۔ پھر اس کے بعد اس کے لئے ایک بے حد قیمتی لباس جس میں لینن کا قیمتی سوٹ اور زیر جامہ تھا  اسے بطور تحفہ دیا۔ یہ اتنا عمدہ تھا کہ وہ اسے زندگی بھر پہن سکتی تھی۔ اس نے باتوں باتوں میں بتایا کہ اس کے پاس ایک شاندار گھر ہے جو خوبصورت فرنیچر سے آراستہ ہے۔ اس کے دوست احباب جو ان مصور اور شاعر ہیں اور ان کی محفلیں اکثر سجتی رہتی ہیں ۔ وہ امریکی کالونی سے اس کے ساتھ ہربدھ آکر ڈنر کرتیہیں۔ میں نے دیکھا کہ مریم کی آنکھوں میں یہ سن کر چمک آگئی اور وہ اپنے تصور میں نیا گھر اور نئی ترتیب دیکھنے لگی۔ دوست نے یہ بتایا کہ اس کے میکسیکو سے تعلق رکھنے والے دوست اس کے لئے تحفے اور پھول لاتے رہتے ہیں۔ اس کے دروازے کو سجاتے ہیں۔ تمام فرش پر گلاب کی چادر بچھا دیتے ہیں۔ کاٹن کے پردوں پر پھول ٹانک دیتے ہیں۔ بستر پر خوبصورت ڈیزائن والی چادر بچھا دیتے ہیں۔ اپنے پیار کے پیغامات بغیر بتائے چپکے سے ادھر اُدھر پھیلا دیتے ہیں اور سفید دیواروں پر بھی چپکا دیتے ہیں۔ وہ یہ سن کر مخمور نگاہوں سے ان تمام چیزوں کا تصور اپنے من میں لانے لگتی اور خیالوں میں فرش پر پھیلے ہوئے پھولوں کو روند رہی ہوتی۔ اس کے بسترپر گلاب کے پھول پڑے ہوتے۔ وہ بستر پر ایک طرف ٹیک لگا کر ان کو دیکھتی لیکن منہ سے کچھ نہ بولتی۔

 

سایہ دار درختوں کے نیچے بیٹھتے اور لیٹتے وقت میں تاریخ کا مطالعہ کرتا رہتا جس کی وجہ سے قدیم زمانے کی تہذیب و تمدن، رسوم و رواج، سیاسی، اقتصادی حالات، جنگوں،فیشن وغیرہ سے متعلق کماحقہ آگاہی حاصل ہوگئی۔ میں ان پر بے تکان بول سکتا تھا۔ تبصرے کر سکتا تھا اورتنقید کر سکتا تھا اس لئے مریم کے جانے کے بعد شاعری میں ناکامی کے بعد میں نے سوچا کہ اپنے اس علم کو آزمایا جائے اور میں صحافی بن گیا۔ میرے علم نے سب کو متاثر کیا اور میں ایک بہت بڑا ناقد تصور کیا جانے لگا۔  ان پر کالم لکھنے لگا۔ کتابیں لکھنا شروع کر دیں۔ سب اقدامات سراہے گئے۔ روپے کی ریل پیل ہوگئی۔ میں نے دوسری شادی کرلی لیکن وہ مریم کے بارے میں ہمیشہ منفی رہی۔ میں نے اسے اس بات سے کئی بار روکا بھی لیکن وہ بار بار نئی طاقت سے اس کے بارے میں بری باتیں کرتی رہتی تو میں نے اسے طلاق دے دی۔ میرا پیشہ ورانہ کام منفرد تھا۔ میرے تعلقات وسیع ہوتے چلے گئے، دولت میں نہا گیا۔ یہ سب مریم کے ساتھ زیادتی کی وجہ سے ہوا۔اس کے مجھے چھوڑ جانے سے مجھے نئی زندگی مل گئی۔ اب دنیا میرے ہاتھ میں تھی۔وہ میرے ارد گر گھوم رہی تھی۔ تمام دنیا میرے کاموں کی معترف تھی۔

 

 اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لئے اب  مریم کو قائل کرنے کی ضرورت نہ رہ گئی تھی۔ وہ اٹھائیس سالہ عظیم خاتون مریم اب بھی منی سوٹا کے شہر میں پڑھا رہی تھی۔ میں ایک بیکار نااہل شخص نہیں رہا تھا جو کسی کام کا نہ تھا اور کسی پیڑ کے نیچے لیٹ کر اپنا وقت ضائع کر رہا تھا۔ میں تخلیق کار بن چکا تھا اور انتہائی گراں قدر مضامین لکھ کر معاشرے کو آگاہی دے رہا تھا۔ میرا ایک درخت کے نیچے لیٹنا بیکار تھا۔اصل بات ایسے درخت کو تلاش کرنا تھا جو میری بصیرت، جذبات، رجحانات، علم اور تجربے کی بنا پر کام کرنے پر اکسائے۔ آخر کار مجھے وہ درخت میسر آگیا تھا جس میں میں اپنی تعلیم اور دلچسپی کو صحافت میں بہترین طریقے سے استعمال کر سکوں۔

 

گھر میں میرے لئے ایک خط پڑا تھا جس نے مجھے  رلا کے رکھ دیا۔ میں بے ہوش ہونے کو تھا۔ یہ خط اور کسی کا نہیں بلکہ مریم کا تھا۔ اس نے مجھ پر سحر کر دیا تھا  اس میں لکھا تھا۔تم سے بچھڑے ہوئے پانچ سال میں دوبارہ تدریسی شعبے سے منسلک ہوگئی تھی۔ میرے والد فوت ہو چکے ہیں۔ میں بالکل تنہا رہ گئی ہوں۔ میں نے تمہارے ساتھ تعلقات اور بتائے ہوئے لمحات کو بار بار سوچا ہے اس لیے میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سے معاملات میں میں غلط تھی۔میں تم سے سچی محبت کرتی تھی اور اب بھی کرتی ہوں۔ جو کچھ ہوا نہایت افسوسناک تھا۔ میں اس پر پچھتاتی ہوں اور اب بھی شرمندگی ہے۔ میں اب یہ محسوس کرتی ہوں کہ ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ ہم دوبارہ سے اکٹھے ہو کر خوش گوار زندگی گزار سکیں۔ میں  اس وقت موت کی حد تک تنہا ہوں۔مریم کا والد فوت ہو چکا تھا۔ وہ بالکل تن تنہا تھی۔ اب میرے وقت تھا کہ وہ تمام سابقہ باتوں پر نظر ثانی کرے۔ میں اس سچی محبت کرتا تھا۔ بہت سی اشیاء کے متعلق اسے خود کو  الزام دینا ہو گا۔ وہ  ی مجھ سے شدید محبت جرتی تھی اور کرتی ہے۔  وہ خود کو بہت ساری چیزوں  کا ذمہ دار سمجھتی تھی۔ وہ اب پچھتا رہی تھی، اوہ۔  اور ابھی بھی وقت ہاتھ نہیں گیا تھا۔ وہ تمام تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کر ایک بار پھر خوشگوار زندگی گزار سکتے تھے۔۔۔ اس نے اس کی وہ تمام تصانیف پڑھ رکھی تھیں جو میں نے لکھی تھیں اور پسند کر لیا تھا۔

 

اب میں نے کامیابی کی تمام منازل طے کر لی تھیں۔میں وہ خط  اپنے ہاتھ میں لے کر اسے دیکھتا رہا۔ اسے مروڑتا رہا ا س کو بعض دفعہ ایسے تھپک رہاتھا جیسے بلی کو گودمیں بٹھا کر تھپکا جاتا ہے۔ جیسا کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ میں نے میں یہ مقام حاصل ایسے  ہی نہیں کیا تھااس کے لئے دن رات محنت شاقہ کی تھی۔

 

مریم  نے یہ لکھا تھا کہ ان پانچ سالوں بعد، وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ اسے واپس لے لوں۔ میں اسے بے حد محبت کرتا تھا لیکن کچھ شرائط پر۔ اس کی بعض معاملات میں ہٹ دھرمی تھی،ان کو دور کرنا چاہتا تھا۔  اور مریم کے تمام اصول و ضوابط پر نظر ثانی اپنے مطابق کرنا چاہتا تھا۔ میں نے پہلی فرصت میں اسے ٹکٹ اور رقم تار  کے ذریعے بھیج دی۔ اس میں لکھا کہ میں اسے واپس لینے کے لئے بخوشی تیار ہوں لیکن میری کچھ شرائط ہیں جن پر صدق دل سے عمل کرنا ہو گا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اس بات کی توقع نہ کرے کہ میں اسے شاندار اور آرام دہ گھر دوں گا بلکہ اسے میکسیکو والے اپارٹمنٹ میں بے سرو سامانی کی حالت میں رہنا ہو گا۔  دوسرا یہ کہ اسے ہر  وہ شئے برداشت کرنا پڑے گی جو میں اس کے ساتھ کروں گا۔ تیسرا یہ کہ بستر پر جو اخلاقیات  کے دائرے میں پابندیاں لگاتی تھی اسے ہٹانا ہو گا اور آخری یہ کہ وہ اسے ہر طور قبول کرے گا لیکن شادی نہیں کرے گا۔تم یہ تمام چیزیں آکر آزما سکتی ہو اگر تمہیں یہ اچھا نہ لگے تو واپس اپنے میناپولس سکول میں دوبار جا کر پڑھانا شروع کر دے۔  اس کے بعد میں  نے چھری کانٹے سے میز پوش پر ایک سیدھی لائن کھینچی اور پھر اس چوخانے میز پوش پر کانٹے لگانے شروع کر دئے۔


ریستوران میں گھڑی کی سوئیاں دو سے اوپر کا وقت بتا رہی تھیں َ۔ میں نے پیگ کا آخری گھونٹ اپنے حلق میں ا نڈیلا اور میزپوش  پر مزید کانٹے لگانے لگا۔ آرکسٹرا  کے سازندوں نے دھنیں بند کرکے اپنے ساز کے آلا ت سمیٹنا شروع کر دئے تھے۔ ریا کار دوست نے کہاکہمیں اپنی اس سے دوبارہ شادی پر اسے عوت دینا نہ بھولوں۔ میں اپنی بوجھل پلکیں سامنے والے سائے پر جھکائے خاموش رہا اور دلکیا ہونے جا رہا ہے اور اس بار تم خود کو بھی ھوکا نہیں دوگے۔ وہ تمہاری مکاری میں نہ آئی تھی اور نہ ہی آئے گی۔


 بار تم خود کو بھی ھوکا نہیں دوگے۔ وہ تمہاری مکاری میں نہ آئی تھی اور نہ ہی آئے گی۔ تھی اور نہ ہی آئے گی۔ کہا  ؒٗ؁  میں نے پیغام سنتے ہی اس کو رقم بھیجی اور کہا فوری طور پر واپس آجائے۔ ہم دوبارہ شادی کر لیں گے اور میکسیکو کے اپنے شاندار گھرمیں رہیں گے۔ اب وہ کسی فلیٹ میں نہیں رہے گی۔ اب اس کو ہر قسم کی سہولیات میسر ہوں گی، اگر وہ واپس آئے گی تو اپنے عقائد کے مطابق دگی بسر کرے گی۔ٓاسے ان لائنوں  چلنا ہوگا۔یرے اسی  ﷺْؑدوست جس نے مریم کو ورغلایا تھا، اس وقت میرے ساتھ تھا، کو پتہ چلا تو اس نے کہا کہ میں اپنی شادی پر اسے بلانا   نہ بھولوں۔میں نے ادھ کھلی آنکھوں سے اسے اور اس کے سایہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نہیں جانتا کہ تم کیا ہو۔  اسے تمہارے سائے سے بھی دور رکھوں گا۔ میں نے اپنے آخری اہم بیان کو زور دار بنانے کے لئے سوچا اور دوہرایا، میں نہیں جانتا کہ اس وقت  کیا ہونے جا رہا ہے اور اس باراے مکار دوست تم خود کو بھی دھوکہ نہیں دو گے۔ وہ تمہاری مکاری میں نہ ٓائی تھی  نہ کبھی ٓائے گی۔ 

 


 

Catherine Ann Porter

(1890 - 1980) USA


حالات زندگی


 

کیتھرین این۔ پورٹر 1890کو انڈین کریک ٹیکساس امریکہ)میں پیدا ہوئی یہ اپنے والدین کے پانچ بچوں میں سے چوتھی تھی۔ دو سال کی عمر میں اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا تو اس کے بہن بھائی اپنی دادی کے پاس رہنے لگے۔ اس کا باپ ایک کسان تھا۔ جب اس کی دادی 1901میں فوت ہوئی تو اسے کونونٹ بھیج دیا گیا جو راہبائین کی تربیت دیتی تھیں۔1906میں یہ سکول سے بھاگ گئی اور شادی کرلی۔ 1914میں شکاگو چلی گئی اور اداکاری کے شعبہ میں قسمت آزمائی کرنے لگی۔ ناکامی کے بعد وہ ٹیکساس آگئی اور بطور گائیکہ کام شروع کر دیا۔


ابتدا سے ہی اسے ادب میں دلچسپی تھی اور اس نے کہانیاں لکھنا شروع کر دی تھیں پھر وہ ایک اخبار سے منسلک ہوگئی اور کتب پر تبصرے لکھنے لگی۔1920میں وہ اکثر میکسیکوجاتی رہی اوراس ملک کے متعلق بہت سے مضامین لکھے۔اس کی پہلی مختصر کہانیوں کی کتب  Flowering Judas (1930)تھی جس نے ناقدین کو متاثر کیا۔ اگرچہ وہ کتاب زیادہ تو نہیں بکی لیکن اس کے عوض اسے ایک سکالر شپ ضرور مل گیا۔ جس کے تحت اس نے میکسیکو اور جرمنی میں تحقیق کی۔ اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

 

Flowering Judas (1930)

Hacienda 1931)

          Noon Wine (1937)

                                      The Days Before (1952)

The Leaning Town and other Stories (1944)

Ship of Fools (1962)

 

 وہ اپنے ملک میں تو مقبول نہ ہوئی جبکہ دیگر ممالک میں بہت مشہور ہوئے۔ وہ پہلی امریکہ ادیبہ تھی جو آبائی انڈین تھی۔اس کی رحلت1980میں ہوئی اور اس کے آبائی گھر کو میوزم بنا دیا گیا۔ اس کی ماں کی قبر کے قریب اسے دفنایا گیا۔ اس کی موت کے بعد ایک کتاب چھپی جس کا نام Katherine Anne Porter تھا۔  یہ کہانی The Treeاس کی مختصر کہانیوں  flowering Judasکے مجموعے سے لی گئی ہے

 

 

 


Popular posts from this blog