اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے ( پہلی قسط ) Sons And Lovers (1st Episode) By D. H. Lawrence (1885-1930) United Kingdom

  




اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے   ( پہلی  قسط )
Sons And Lovers (1st Episode)

By

D. H. Lawrence (1885-1930)

United Kingdom

تلخیص و تجزیہ: غلام محی الدین          

ا

 اس ناول میں ڈی۔ایچ۔ لارنس نے ایک ایسے خاندان کی سوانعمر ی بیان کی ہے جو بیسٹ وڈ  محلے میں رہتاتھا۔ یہ جگہ نوٹنگھم شائر قصبے میں تھی  جو ایسٹ وڈ کاؤنٹی میں واقع تھا جہاں کوئلے کی کانیں  تھیں   اور کوئلہ نکالنے کے لئے کھدائی کا کام جاری تھا۔ ڈائنامئیٹ سے  کوئلے کی چٹا نیں اڑائی جا تی تھیں۔ تہہ در تہہ سرنگیں، ٹیلے، گڑھے، کھائیاں اس طرح کھودی جارہی تھیں ۔ کان کن  زمین سے میلوں نیچے چند فٹ مربع محدود جگہ پر ٹھہر کر  چٹانوں کو کاٹتے  اور کوئلے کو چھوٹے  چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کر تے تھے۔اس کے بعد وہاں سے  خام کوئلے کو  رہڑیوں میں لاد کر  ریل کی پٹڑی تک پہنچاتے تھے۔کوئلے کو کیمیائی طریقے سے صاف کرکے وہاں سے ٹرین کی بوگھیوں میں لاد کر وسیع و عریض علاقوں تک روانہ کرتے تھے۔ہر مزدور کوروزانہ ٹارگٹ دیا جاتا تھا۔اگر وہ اس ٹارگٹ پر پورا نہ اترتے تو ان کی مزدوری کاٹ لی جاتی تھی۔حالاتِ کار انتہائی خطرناک   اور جان لیوا تھے۔گھٹاٹوپ اندھیرے میں انہیں کام کرنا  پڑتا تھا۔آس پاس  یا اپنے کام کی جگہ دیکھنے کے لئے انکے ہیٹ پر کا ن کنی والی مخصوص لالٹین لگائی گئی ہوتی تھی۔کوئلے کی کھدائی کرتے وقت بعض دفعہ زمین کے اندر کی گیس خارج ہوجایاکرتی تھی جس سے کار کن دم گھٹ کر مر بھی جاتے تھے۔ حادثات کی تعداد بہت زیادہ تھی ان کی روک تھام کا خاطر خواہ بندوبست نہیں تھا۔ شدید حادثات کی صورت میں قریبی ہسپتال لے جایا جاتا تھا ج جو کام والی جگہ سے کم از کم دس میل دور ہوتاتھا۔متاثرین کو چند ہفتوں کی مزدوری کے بعد بغیر فوائد کے انہیں فارغ کردینے کا رواج تھا۔ اگر کوئی صحت یاب ہو جاتا تو واپس ملازمت پر رکھ لیا جاتاتھاورنہ انہیں مرنے کے لئے چھوڑ دیاجاتاتھا۔ قسمت ظریفی یہ کہ ان کانوں میں اس دور میں ایمبولینس کی سہولت بھی  میسر نہیں تھی۔ زخمی   مزدور  کو چھکڑے پر لاد کر چیونٹی کی رفتار سے ہسپتال لے جایاجاتا تھا۔ کھدائی زمین کے نیچے میلوں تک ہورہی تھی جو کوئلہ نکالنے کے ساتھ ساتھ اور بھی گہری ہوتی جا رہی تھی  ۔   اس دور میں  کان کنوں کو نچلے مقامات تک لانے لے جانے کے لئے زنجیروں کی مدد سے ہاتھ سے اوپر نیچے کھینچنے کے لئے لفٹیں بنائی گئی تھیں۔ کانوں میں  بچوں سے مشقت لینا قانونی طورپر جائزتھا۔ دس سال کے بچوں کو ملازم رکھ لیاجاتاتھا  اور زیادہ سے زیادہ دس   شلنگ  فی   ہفتہ اجرت  دی جاتی تھی ۔ترقی کے کوئی مواقع نہیں تھے۔مزدور بھرتی ہوتے اور اسی عہدے پرمرجاتے۔ زندگی بھرحقیر مزدوری پر کام کرتے رہتے تھے۔ بالغوں کو اجرت گھنٹوں  کے حساب سے ملتی تھی ۔مزدوروں کے لئے کمپنی نے کھولیاں چھوٹے اور تنگ گھرکالونیوں کی شکل میں جن کی شکل باہر سے قبول صورت ہواکرتی تھی  تعمیرکررکھے تھے۔ہر گھر کے باہر ایک چھوٹا سا باغیچہ ہوتاتھا اور گیٹ لگایا جاتاتھالیکن اندرونی جگہ محدود ہواکرتی تھی جس میں کچن، اچولہا، تھوڑی سی بیٹھنے کی جگہ اور اوپر والی منزل پر دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے تھے۔ یہ گھربلاک کی صورت میں بنے ہوئے ہوتے تھے۔ ایک بلاک میں بارہ گھر ہوتےتھے اور ہر کالونی میں ر چھ چھ گھروں کا سیٹ بناہوتاتھا۔کمپنی  کرایہ ہر ہفتے کی مزدوری سے براہ راست کاٹ لیا کرتی تھی جوہفتہ بھر کیمزدوری کے آدھے سے بھی زیادہ ہوتا۔اس کے علاوہ بھی مزدور نے کوئی ایڈوانس لیاہوتاوہ بھی کاٹ لی جاتی تھی۔  مزدور اس میں سے بھی اپنی شراب و سگریٹ کے پیسے نکال کر گھر کے خرچہ کے لئے رقم بیوی کو دے دیتا ہے۔ گھر والوں کو علم نہیں ہوتا تھاکہ  اس کی  ہفتے کی کتنی کمائی تھی۔ خواتین تنگ دستی سے خرچ کرکے اپنااوربچوں کاپیٹ پالتی تھیں۔

  وادی  کو دوحصوں میں تقسیم کیاگیاتھا ۔ زیریں حصہ اور بالائی حصہ ۔زیریں حصے کا نام' دی باٹمز' تھا۔ اس میں کوئلے کی چٹانیں  تھیں ۔ کوئلہ نکالنے کے لئے تمام وادی جگہ جگہ کھدا ہوئی تھی۔اسکے چند میل دور بالائی حصہ تھا جس کا نام  بروک سائڈ  تھاجو ہموار اور کھلا علاقہ تھاجس میں ہرے بھرے کھیت کھلیان اورگھنی  جھاڑیاں تھیں۔ اس  میں   سیروتفریح کے لئے کئی فطری مقام  تھے ان میں ایک جگہ   گرین ویل لین تھی۔وہ آبشاروں، ندی نالوں، بید کے درختوں سے اٹی ہوئی تھی۔ اس سے ملحقہ’ہیل ر و‘ کا محلہ تھا۔   ان میں مقامی حکومت نےمیونسپل کمیٹی کی مارکیٹ جہاں روزمرہ استعمال کی تمام اشیا مل جاتی تھیں۔اس کے علاوہ ایک شاپنگ پلازہ بھی بنایا گیاتھا  جہاں  ڈانس کلب، شراب خانے بنائے جاتے تھے۔ کبھی کبھار وہاں  میلے بھی منعقد کئے جاتے تھے جن میں ایک مشہور میلہ  واکس تھاجہاں  تفریحی پروگرام ہوتےتھے جس کا مکین سال بھر انتظارکرتےاوربہت شوق سے دیکھتے تھے۔ چونکہ یہ علاقے کوئلے کی کانوں سے زیادہ دور نہیں      تھااسلئے اس میں  ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ اس میں شرکت کرے۔ سردیوں، گرمیوں، سورج ، بادل، بارش، برفباری میں تمام مزدوراپنے بھاری سیفٹی بوٹوں، کان کنوں والی بھاری وردی اور مضبوط ہیلمٹ کے ساتھ مٹی،دھوڑ، دلدل میں پیدل لفٹوں تک پہنچتے اور اپنی اپنی جگہوں سے  ڈیوٹیاں نبھا کر اسی طرح واپس آتے  اور میلہ دیکھتے۔ کچھ مزدور دیگر مقامات سے بھی آیاکرتے تھے ۔ کئی لوگ ریل گاڑی سے بھی آکر شرکت کرتے جس کا سٹیشن  وہاں سےدومیل دورتھا۔ریلوے سٹیشن سے اتر کرآگے وہ پیدل آتے تھے۔

         اولاد نرینہ  اور ان کے معاشقے ناول  میں ڈی۔ایچ۔ لارنس  ایک کنبے کی رودادبیان کرتاہے جس کا سربراہ  والٹر موریل ہے۔والٹر ایک محنت کش تھا جودس برس کی عمر سےہی کارکنی کررہاتھا۔ وہ ان پڑھ تھا۔عقل و دانش  واجبی سی تھی۔اس کا     مشغلہ            ناچنا تھا۔وہ بہت اچھا     ڈانسر تھا اور موقع ملنے پرکمیونٹی میں  ڈانس سکھاتابھی تھا۔کھانے پینے، شراب نوشی سے رغبت تھی۔  وہ ایک خوبصورت گبھرو جوان تھا۔ چھوٹی بڑی تقریبات کی جان شمار کیا جاتا تھا۔ تہواروں میں ہر کس و عام کو شرکت پر آمادہ کر کے تہوار میں سماں باندھ دیاکرتاتھا۔ کرسمس کے موقعے پر وہ کمیونٹی ہال  میں اپنے فن کا مظاہرہ  کرتاتو اس کا ڈانس دیکھنے کے لئے  دور دور سے لوگ شرکت کے لئے آتے تھے۔ایک تقریب میں  ایک حسینہ  بھی     نزدیکی  قصبےسے کرسمس پارٹی میں آئی  تھی۔اس لڑکی کاوالد ایک انجینئر تھاجس کانام جارج کوپرڈ تھا۔اس کی والدہ بھی تعلیم یافتہ تھی۔اس کانام لنڈاتھاجو متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اسکی  ذاتی جائیداد بھی تھی جو اس نے کرائے پر دے رکھی تھی۔ اس  حسینہ کا باپ  جارج سخت گیر تھا جو اسکی والدہ لنڈاسے بد سلوکی کرتا رہتا تھا۔گھر میں ہر دم افسردگی اور سنجیدگی کا سماں رہتا تھاجس وجہ سے وہ بھی کم گو ہو گئی تھی۔وہ  خود بھی  پڑھی لکھی سلجھی ہوئی سنجیدہ لڑکی تھی لیکن اپنے گھریلو  تناؤ زدہ ماحول سے بیزار تھی۔آئے روز کے جھگڑوں سے وہ حساس اور خاموش طبع ہوگئی تھی۔ وہ لڑکی( بطور صنف) بننا بالکل پسند نہیں کرتی کیونکہ وہ کمتر سمجھی جاتی ہیں اوراپنی مرضی کا کام نہیں کر سکتیں۔ اس کی خواہش تھی  کہ وہ مذہبی خدمات سر انجام دے لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکی۔شادی سے پہلے اس کی جان پہنچان ایک پادری جان فیلڈ سے ہو ئی جس کووہ پسند کرنے لگی لیکن اس نے بات آگے نہ بڑھائی  اور اپنے دینی مشن پر لگارہا۔اس نے اسے بائیبل کا تحفہ دیااور وہ مقدس کتاب آج بھی اس کے پاس تھی۔

 

  پارٹی کے ہلہ گلہ میں  جوشیلے،حس مزاح رکھنے وا لے ستائیس سالہ والٹر موریل کی وجاہت، خوبصورتی ، چنچل پن اور ڈانس  نے  گرٹوڈو  بے حدمتائثر کیا۔ اگرچہ والٹر وہ ایک ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت رکھنے والا مخصوص انگریز تھالیکن اس  کے اچھے  قدکاٹھ ، مردانہ وجاہت اور عمدہ ڈانس نے  گرٹروڈ حسینہ اس کادل موہ لیا۔ تماشائیوں میں وہ منفرد تھی۔  وہ باوقار اور دلربا خاتون والٹر کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ وہ  خاتون نہایت انہماک سے اسکی چابکدستی اور مہارت کو سراہ  رہی تھی۔ اس کے حلیے سے وہ کان کنوں کے قبیلے سے نہیں لگتی۔ والٹر موریل کا اس پر دل آگیا۔ وہ اس کی طرف کھنچا چلا آیااوراس سے ڈانس فلور پر آنے کی درخواست کی۔اس نے اسے منع کر دیالیکن والٹر موریل نے اصرار کیا تواس نے بتایاکہ اسے ڈانس نہیں آتا لیکن والٹر نےاسے  مجبور کیاتووہ مان گئی۔دونوں کے مزاج سراپا مختلف  تھے۔دو مخالف پول تھے۔دو متضاد شخصیات ایک دوسرے کی طرف کھنچی چلی آئیں ،بات تیزی سے آگے بڑھتی گئی اور ان کی شادی  آناً فاناً  ہوگئ۔

مسز گرٹووڈ موریل بننے کے بعداسکے اپنے پہلے نام مسز والٹرگرٹوڈو کی بجائے مسز موریل کے نام سے پکاراجانے لگا۔والٹر اس سے محبت کرتا تھا۔ یہ بھی  اس پر جان چھڑکتی تھی۔ کم وسائل کے باوجود اسکی زندگی بہترین گزرنے لگی۔ وہ سمجھی کہ اس نے اس دنیا میں ہی جنت پا لی تھی۔یہ اس کی زندگی کا بہترین دور تھا۔ والدین کی خانگی ناچاقی سے بچ گئی تھی۔شادی  کے ساتویں ماہ بعدتک وہ بہت خوش رہی۔ وہ بڑے شوق سے اپنے میاں کے شادی والے کوٹ کو برش کر رہی تھی تو  جیب سے ایک کاغذ نکلا۔ اس نے کاغذ کے ٹکڑے کوپڑھاتو دیکھاکہ وہ ایک فرنیچر کی دکان کا واؤچر تھاجس میں  دکاندار سے مطالبہ کیاتھاکہ بل کی رقم فوری اداکرے۔ اس نے غور کیا تو وہ اس فرنیچر کا بل تھا جو  شادی پرخر یدا گیاتھا اور اس کی اطلاع کے مطابق اس کی والدہ نے  اس فرنیچر کی ادائیگی کردی تھی۔اس ووچر کے مطابق  فرنیچر کی رقم واجب الادا تھی۔اس پر وہ حیران ہوئی۔

 اس بات کی تصدیق کے لئے کہ ماں نے شادی پر فرنیچر کی رقم دی تھی یا نہیں معلوم کرنے کے لئے  ماں کے گھر گئی اور پوچھاکہ کیا  اس نےاسکی شادی پر والٹر کو فرنیچر کے پیسے  نہیں دیے گئےتھے تو ماں  نےجواب دیاکہ ہاں بالکل دئیے تھے۔ فرنیچر کی پوری رقم والٹر کو دے دی تھی۔ مسز والٹر موریل نے جب ماں کو بتایا کہ اس نے وہ رقم دکاندار کو ادا نہیں کی تو اسکی ماں کو تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔اس نے مزید انکشاف کیا کہ والٹر نے اس سے نقد رقم بطور ادھار بھی لی تھی جو اس نے ابھی تک واپس نہیں کی۔ علاوہ شادی  کے اخراجات کے لاس نے اسے جو رقم دی تھی، مکمل ادائیگی کے بعدآدھی رقم بچ     بھی گئی تھی،وہ بھی اس نے واپس نہیں کی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ جس مکان میں کرائے پر رہتاتھا اس کے کرائے کی ذمہ داری ہم نے لی ہوئی تھی  کا کئی ماہ کاکرایہ بھی ابھی تک ادا نہیں کیا۔ا جسے ادا کرنے کی ذمہ داری ہم نے لی ہوئی تھی۔ ماریل  شام کوگھر آتاہے تو وہ اسے کہتی ہے کہ دکاندار نے غلطی سے فرنیچر کابل دوبارہ بھیج دیا ہے۔ اس کی والدہ نے تو اس کی ادائیگی اسے کردی تھی تھی۔اس پر والٹر کہتاہے کہ اسے وقت نہیں ملاکہ وہ ادائیگی کرسکے۔مسز موریل اسے کہتی ہے کہ اپنے بنک کی پاس بک اسے دے تاکہ وہ فرنیچر کی ادائیگی کرسکے۔جب وہ موریل کی پاس بک کھنگالتی ہے تو اس کا بنک بیلنس صفر ہوتاہے۔ مسز موریل کا اپنے میاں پراعتمادچکنا چور ہو گیا۔وہ ان باتوں سے بے خبر تھی۔اسکے فراڈ سن کر وہ اس سے بدظن ہوگئی۔ اپنے خاوند کو تو کچھ نہیں کہالیکن اس پر یقین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ وہ اس سے نفرت کرنے لگ  گئی۔ان  کے باہمی تعلقات واجبی رہ  گئے۔نہایت ضروری معاملات پر گفتگو یا رات اکٹھے سونے تک محدود ہوگئے۔

شادی کے تیسرے کرسمس ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ولیم رکھا گیا۔اس دوران مسز موریل بیمار پڑ گئی۔ والٹر نے سرد مہری  دکھائی ۔اسکی  بیماری کی پرواہ نہیں کی۔ اسکویکسر نظرانداز کرتا رہا۔اس علاقے کا پادری مسٹر ہیٹن اس کے پاس روز آ کر اسکا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ ولیم  کے بال سنہرے اور گھنگریالے تھے۔ بہت خوبصورت تھا۔  بچے کی پیدائش  کے بعد مسز موریل کی مصروفیا ت بدل گئیں۔اسکی پرورش میںاس نےدن رات ایک کر دیا۔اسکے وجود میں گم ہو گئی۔اپنا ہوش کھو دیا۔ اس کومبالغہ آمیز حد تک چاہنے لگی۔ والٹر اس بات سے نالاں ہوگیا اور غصے سے ولیم کے خوبصورت بال کاٹ کر خراب کر دیئے جس سے اسکی اپنے میاں سے نفرت اور  بڑھ گئی۔یہاں لارنس نے اس بات کو علامتی انداز میں فرائیڈ کے تصور ایڈیپس کمپلیکس کے رنگ میں پیش کیا ہے۔وہ اسے لاشعوری طور پر اپنے عاشق کے روپ میں لینے لگتی ہے اور حد سے زیادہ اس میں کھو جاتی ہے۔

اس کے غیر مناسب رویے کا شاید والٹر کا بھی ا تنا  قصور نہیں  تھاکیونکہ والٹر کی تربیت ہی ایسی ہوئی تھہی۔ اس نے اسی طرح کے ماحول میں زندگی گزاری تھی۔وہ ان پڑھ اجڈشخص ، لکیر کا فقیر تھا، بور یت پیداکرنےوالابے ایمان ،جواری اور شرابی تھا۔ اپنی فیملی کی بجائے اپنا خیال زیادہ رکھتا تھا۔دس سال کی عمر میں کان کن بن کر ایک مزدور کی حیثیت سے کام کر رہا تھا اور کان کن ہی رہنا چاہتا تھا۔ ترقی پانے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ نوکری کوصرف پیٹ کے دوزخ کی آگ بھرنے کا ذریعہ ہی سمجھتا تھا۔اپنے سپروائزر اور دیگر مزدوروں سے بدتمیزی کرتاتھا اسلئے کام میں اسے کم گھنٹے دئے جاتے تھےجس کی بدولت کم محنتانہ ملتاتھا۔پو پھٹے جاگتا، اپنے کام کے کپڑے خود تیار کرتا، ناشتہ بنا تا، دوپہر کے لئے بیوی کا تیار کردہ کھانا ٹفن میں ڈالتا، دن بھر کوئلے کے زیر زمین گڑھوں پر کھدائی کرتا، کام کے دوران سپروائزر اور ساتھیوں سے لڑتاجھگڑتارہتا، چھٹی سے واپسی پر گھٹیا مے خانے سے پیگ چڑھاتااور رات گئے گھر آکر اکیلے کھانا کھاتا، بیوی کو برا بھلا کہتااور اسکے ساتھ سوجاتا،اس کی  یہ روٹین تھی۔ا گر کسی کام میں دلچسپی تھی تو گھر کے کاٹھ کباڑ کی مرمت کرناتھی اور اس دوران اپنی کان کنی کے دوران پیش آنے والے قصے سناناتھے۔ اسے اپنے پھٹے پرانے کپڑے مرمت کرنا بھی  اسےاچھے لگتے تھے۔پورے خاندان سے بدزبانی اور جسمانی بدسلوکی کرنااسے پسند تھا۔اس کو چوری کی بھی عادت تھی۔جب اسے شراب نوشی یا جوئے کے لئے پیسے کی تنگی ہوتی تو وہ اپنی بیوی کےپرس سے پیسے چرا لیتا تھا جس پر وہ  بہت کڑھتی تھی۔

       تھی  ناکام شادی نے مسز موریل کو علیحدگی پسند بنا دیا۔وہ بنیادی طور پر رومانوی طبیعت کی مالکن تھی۔ کتب بینی کی دلدادہ ، باغبانی کا شوق  اوراپنے  باغیچے کونت نئے رنگوں کے پھولوں سے سجانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔وہ انہیں  سونگھ کرنہال ہوتی   تھی  ۔قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوتی ۔   گھرکے باہر موٹے تنے والےسایہ دار برگد کادرخت  جب  ہوا سے جھومتا تھاتو اس کی سرسراہٹ سن کر وہ جھوم اٹھتی تھی۔گھر کو صاف ستھرا رکھتی ، کم گو ، اڑوس پڑوس کی خواتین سے کم میل ملاقات رکھنے والی  تھی کیونکہ ان کے مزاج اور دلچسپیاں اس سے  بیر کھاتی تھیں۔ہمسائیاں گنوار تھیں، بات کرنے کا سلیقہ نہیں تھا، فضول بحث و مباحثہ میں پڑی رہتی تھیں۔دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اسے یہ پتہ نہیں  تھاکہ ان میں کون قابل اعتبار تھا۔وہ دال روٹی کے چکر میں گھر بیٹھ کر گھٹنوں تک لمبی اونی جرابیں سیتی یا کاڑھتی رہتی تھیں۔ ہر ہفتے پھیری والا آتا تھاتو  ایک یا دو شلنگ کے عوض بیچ دیتی تھیں اور اس طرز زندگی سے خوش  تھیں۔ مسز موریل کو اسلئے یہ کام پسند نہیں کیونکہ مزدوری نہ ہونے کے برابر تھی۔کام کاج سے فراغت کے بعدخاوند کے آنے تک مطالعہ کرتی تھی۔ 

           

           ۔ ولیم کی پیدائش کے دوسال بعد ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی جس کا نام عینی رکھا گیا۔ وہ بھی خوبصورت تھی۔پر سکون  رہتی تھی۔ ماں کو تنگ نہیں کرتی  تھی اور اپنے بھائی ولیم کو پسند کرتی تھی۔مسز موریل اپنا تمام وقت ان کے ساتھ گزارتی تھی اور بچوں کو اپنے خاوند کے قہر سے بچانے کے لئے بچوں کی ڈھال بنی رہتی ۔والٹر کا سب سے گہرادوست جیری پرڈی تھا۔ ولیم  جب سات سال کا ہواتو  مسز موریل  اکتیس برس کی ہو چکی تھی۔ عینی اس وقت پانچ سال کی تھی جب وہ تیسرے بچے کی توقع  واکس  میلہ لگا تواس نے اپنے ایک دوست جیری پرڈی  جو اس پر پیسے خرچ کرتا تھا،کے ساتھ میلہ دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ جیری کی طوطے جیسی ناک اور لومڑی جیسا چہرہ تھا، اپنی بیوی بچوں کو گھر کا خرچہ نہیں دیتاتھا۔ اس کے بچے زیادہ تر بھوکے رہتے تھے۔اسکی بیوی بیمار ہو کر مر گئی تھی۔ وہ اپنی بیوی کی بیماری پر لا پرواہ رہا۔ مسز موریل جیری سے اسکے اپنے خاندان سے مکار رویے کی وجہ سے اتنی نفرت کرتی تھی کہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا  چاہتی تھی۔وہ تحکم پسند،خود غرض اور لالچی تھا۔ اسکی پندرہ سالہ بیٹی اپنی دو چھوٹی بہنوں کی پرورش کر رہی تھیاور وہ اسکا ہاتھ نہیں بٹاتاتھا۔ ولیم اور عینی بھی اس میلے  پر جانے کے لئے پرجوش تھے۔ والٹر علی الصبح میلے پر روانہ ہو گیا۔ولیم نے ناشتے کے بعد ضد کی کہ اس کی ماں بھی اس کے ساتھ چلے لیکن مسز موریل عینی کو کسی کے پاس چھوڑ کر نہیں جا نا چاہتی تھی۔ اس نےولیم سے وعدہ کیا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ  میلے پر آجائے گی۔ ولیم دوپہر کے کھانے پر آ یا اور کھانا کھا کر ماں سے آنے کا  وعدہ لے کر چلا گیا۔ سہ پہروہ پانچ سالہ عینی کو ساتھ لے کر باڑ کے ساتھ اوپرچڑھتی میلے کی طرف چل دی۔ میلے میں طرح طرح کے کرتب دکھائے جا رہے تھے۔ اس نے ولیم کو اس شیر کے پنجرے کے باہر دیکھا جس نے دو حبشیوں کو زخمی کیا تھا۔ ولیم  نےاپنی ماں کو دیکھا تو بھاگتے ہوئے اس کے پاس آیا۔ وہ ایک کھیل میں اپنی ماں کے لئے کئی انعام جیت چکا تھا۔ اس نےبڑے فخرسے ماں کی طرف دیکھااور انعام اس کی جھولی میں ڈال دیا۔مسز موریل اسے ایسے قبول کیا جیسے ایک محبوبہ اپنے عاشق کا تحفہ قبول کرتی ہے۔ اس نے ولیم سے کہاکہ وہ واپس جا ئے گی توولیم کا چہرہ مرجھا گیا۔وہ شام گئے واپس آیا تو ماں  نےاس سے اسکے باپ کا پوچھاکہ وہ کہاں رہ گیا ؟ تو ولیم نے جواب دیا کہ وہ آستانیں چڑھائے مے خانے میں نوکری کر رہا تھا تاکہ وہ اپنی شراب کیلئے پیسے جمع کر سکے۔

             ولیم موریل اس گھر کا ابھرتا ہوا ستارہ تھا جو اپنی ماں کا جان و جگر تو تھا ہی لیکن وہ کمیونٹی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا تھا۔اس کے اند ر ترقی کرنے کی خواہش تھی جو وہ محنت اور ذہانت سے طے کر رہا تھا۔ اس کی ماں کے ساتھ انتہائی گہری جذباتی وابستگی تھی۔ 

            ایک روزجیری پرڈی اور والٹر آوارہ گردی کے لئےاپنے گھر سے دس میل دورنوٹنگھم پیدل گئے۔آدھی رات کے بعد والٹر نشے میں بد مست آیا تو میں بیوی میں میں جھگڑا ہو گیا۔ والٹر  نے بیوی کو گھر سے باہر نکال کر دروازہ بند کر دیا۔ علاقہ سنسان پڑا تھا۔مکین گہری نیند کے مزے لے رہے تھے۔اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ رات کے پچھلے پہرکیا کرے۔ اس وقت وہ کہیں جابھی  نہیں سکتی تھی۔وہ کافی دیر انتظار کرتی رہی کہ اس کامیاں دروازہ کھول کر اسے اندر آنے دے گالیکن۔۔۔ عجیب صورت حال تھی۔سوچ سوچ کر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ گھر کے اندر جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نےکھڑکی سے جھانکا تو اس نے دیکھاکہ والٹر اپنا سر میز پر رکھ کر بے سدھ سویا پڑاتھا۔ا سے دنیا و مافہیا  کا  کچھ ہوش نہیں تھا۔اس نے بے بسی میں  کھڑکی پر دستک دی۔ اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔اس کے بعد اس نے زورزورسےبار بار کھڑکی کھٹکھٹاناشروع کردی۔تب بھی اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ بچے بھی گہری نیند سے نہ جاگے۔اس پر ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی اوروقفے وقفے سے کھڑکی بجانے لگی۔ کافی دیر بعد والٹرکی آنکھ کھلی  تو اس نے دروازہ کھول دیا۔ وہ اندر داخل ہوئی تو والٹرموریل  بنا کچھ کہے سونے چلا گیا۔ مسز موریل  نےتلخی مزیدنہ بڑھائی اور معاملہ رفع دفع ہو گیاکیونکہ وہ جانتی تھی کہ مردو ں  کی دنیا میں اس کی شنوائی نہیں ہوگی ۔

جب ولیم تیرہ سال کا ہواتو اسے امداد باہمی کے دفتر میں کلرک رکھوا  دیا۔وہ ایک  محنتی،سمارٹ، دانشمند، بہادر اور بیباک لڑکا تھا۔اس نے شام کو ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھنا شروع کر دی۔اسکی محنت اور عمدہ کارکردگی کی وجہ سے اس کی ترقی ہو گئی اور وہ چھ شلنگ فی ہفتہ سے بارہ شلنگ فی ہفتہ  لینے لگاجبکہ اس عمر کے لڑکے دس سال کی عمر میں دس سینٹ سے شروع ہوتے اور سالہا سال تک دس سینٹ پر ہی کام کرتے رہتے ۔ اس کی ماں اسکی تنخواہ میں ہر ہفتے دو سینٹ واپس کر دیتی تھی۔وہ شراب نہیں پیتاتھا۔ اس نے ڈانس اورمصوری کی کلاسوں میں داخلہ لے لیا اور کلب میں بلیرڈاور کمیونٹی کی تمام کھیلوں میں حصہ لینے لگا۔خوبصورت تو تھا ہی، بہت جلد لڑکیوں میں بے حد مقبول ہو گیا۔وہ با سلیقہ تھا۔ اچھے کپڑے پہنتا ،لڑکیاں اس کے گھر آنے لگیں۔ جسے اسکی ماں پسند نہیں کرتی تھی۔لڑکیاں خوشبو لگا کر اسے خطوط لکھتی تھیں اور وہ انہیں دیوار پر سجا دیاکرتا۔ ایک دن اس نےبتایا کہ کمیونٹی میں ایک بہت  بڑا ڈانس مقابلہ تھا اور اس نے کرائے کے لئے ایک سوٹ بک کرایا۔ سوٹ آیا تو اسکی ماں  نےبغیر دیکھے رکھ لیا۔ ولیم نےگھر آکر پہن کر دیکھا تووہ اس پر خوب جچا۔ اس نے ماں کو مقابلہ دیکھنے کی دعوت دی لیکن  اس نے منع کردیا۔ وہ اسے باپ کے نقش قدم پر چلنے نہیں دینا چاہتی تھی۔ اب  اس نےمزید ترقی کی اور اسکی تنخواہ سولہ شلنگ فی ہفتہ ہو گئی۔ جب اسکی عمرانیس سال ہوئی تواسکو نوٹنگھم میں نوکری کی پیشکش ہوئی اورجب اس نےنوکری چھوڑ نے کی اطلاع ماں کو دی تو وہ حیران ہوگئی کہ اتنی اچھی نوکری پر کیوں لات مار رہاتھا۔ اس پر اس نے اسے اصل بات بتائی کہ اسے نوٹنگھم میں تیس سینٹ فی ہفتہ کی نوکری مل گئی  تھی اور وہ وہاں سے روز گھر آ جا سکتا تھا تو ماں خوشی سے مان  گئی۔ نوٹنگھم جا کر اس نےنوکری کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اور جرمن زبانیں سیکھ لیں۔ اسکی ماں ولیم کی ترقی اورآمدن سے خوش ہو گئی  کیونکہ ایک تو وہ روز گھر آجاتا تھ اور دوسرا یہ کہ اسکی معقول آمدنی سے وہ اپنے دیگر تین بچوں کو بھی تعلیم دلوا سکتی تھی۔ اس نے وہاں ایک سال کام کیا تو ماں کو اطلاع دی کہ وہ یہ نوکری  بھی چھوڑ رہا تھا۔اسے لندن میں نوکری کی پیشکش ہوئی تھی جس میں اس کی تنخواہ ایک سو بیس پاؤنڈ سالانہ تھی اور مستقبل روشن تھا کیونکہ وہاں ترقی کے مواقع بہت وسیع تھے۔ اس نے ماں  سے وعدہ کیاکہ ہر سال اسے بیس پونڈ بھجوایا کرے گا۔اور وہ دولت میں کھیلنے لگے گی۔ اسکی ماں دل تھام کر بیٹھ جاتی ہے۔وہ اس سے جدائی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس پر افسردگی کا دورہ پڑا۔ وہ اسے خود سے جدا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اسکے لئے وہی گھر کا سرپرست تھا لیکن بادل نخواستہ اسکی بہتری کی خاطر اسے اجازت دینا پڑی۔وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوئی کہ اس کے بغیر وہ کیسے ر ہ پائے گی۔وہ اسکی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بلا کہے  بڑی چاہت سے مکمل خیال رکھا کرتی  رہی تھی۔ اسکے جانے کے بعد وہ یہ سب نہیں کر پائے گی۔

ولیم، عینی کے بعد ان کے ہاں تیسری ولادت ہوتی ہےجس کانام   پال رکھاجاتاہے۔وہ عینی کی پیدائش کے دوسال بعد پیداہوتاہے۔وہ اپنے تیسرے بچے  پال کی پیدائش پر خوش نہ ہوئی کیونکہ محد ود وسائل میں پرورش کی ذمہ داری سوا ہو جانی تھی ۔وہ ایک نازک اندام خوبصورت لڑکا تھاجو اکثر بیمار رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی ماں کی توجہ کا طلبگاررہتاہے۔ولیم کی موجودگی میں ماں کے لئے اس کی اہمیت  بہت کم تھی۔ پال ماں کی دلجوئی کے لئے اسکی چھوٹی سے چھوٹی باتوں کو اہمیت دیتا تھا لیکن ولیم جیسا پیار اس کو مل نہ پایا۔ایک دفعہ والٹرنے اس کے پرس سے اپنی شراب کے لئے رقم چرا لی۔ میاں بیوی میں شدید جھڑپ ہو گئی کیونکہ گھرمیں کھانےکوکچھ نہ بچاتھا۔ والٹر غصے سےبیگ میں ضروری سامان رکھ کر  گھر چھوڑ کر چلا گیا۔مسز موریل اور بچے بہت پریشان ہو گئے کہ اب ان کا کیا بنے گا۔ گھر کی آمدنی کا واحد ذریعہ تو وہی تھا۔وہ دن بھر پریشان رہی۔ بے چینی دور کرنے کے لئے وہ باغیچے میں گئی تو بیرونی دروازے کے ایک کونے میں اسے وہ بیگ پڑا ہوا نظر آیا تو اس کی جان میں جان آئی۔

اس نے مقدوربھر کوشش کی کہ اسکے بچے مزدوروں کی صف سے باہر نکل آئیں۔اس میں کامیاب رہی۔

         ولیم موریل  اپنی ماں کا تارا تھا۔ اسکی اہمیت اپنی ماں کی نظر میں سب سے زیادہ تھی۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اسکی بہبود کا خیال رکھتی تھی۔ ولیم بھی اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔مسز موریل اپنی تمام تر مصروفیات  کے باوجود ولیم اس کی ذات کا محور رہا۔ وہ بھی اپنی ماں سے بے حد مانوس تھااور اسے اپنی آنکھوں سے ایک پل کے لئے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتاتھا۔ وہ  اپنےباپ کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ ولیم ایک ہونہار بچہ تھا۔ وہ اسکی بہترین تربیت کرنا چاہتی تھی اسے زیادہ سے زیادہ تعلیم دلواناچاہتی تھی ولیم نے اپنی خداداد صلاحیتوں  اور محنت سے کامیابیاں حاصل کرتاگیا۔ بچوں میں اسکی پہلی چاہت ولیم ہی  رہا جوپہلوٹی کی اولاد تھی جوروزبروز بڑا ہو رہا تھا۔ اسکے اساتذ ہ اس سے بہت خوش تھے۔ وہ لائق فائق تھا۔اس کے بارے میں  اچھی امیدیں باندھی جا رہی  تھیں۔ ولیم روز بروز جسمانی طور پر بھی مضبوط ہو رہا تھا۔مسز موریل کے پاس ایک پڑوسن مسز ایتھنی ولیم کی شکایت لے کر آئی کہ ولیم نے اس کے بیٹے کی قمیص کا کالر پھاڑ دیا تھا۔ مسز موریل نے کہا کہ وہ دونوں ہم عمر تھے، کھیل میں اتقاقیہ یہ حادثہ ہو گیا ہو گا۔ اینتھنی نے کہا کہ اگر وہ ہمجولی تھے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کو مارےپیٹے۔ اس پر مسز موریل نے ولیم سے پوچھا کہ ماجرا کیا تھا تو ولیم نے جواب دیاکہ اس نے ویلی کو نہیں  پیٹا۔ وہ کھیل رہے تھے، ویلی بھاگ رہا تھا  اور وہ اس کو پکڑ رہاتھا۔ وہ جھکائی دینے لگا تو اس کی قمیص کا کالر اس کے ہاتھ میں آگیا۔ کالر پرانا تھاا، وہ پہلے ہی پھٹا ہوا تھا۔مسز موریل نے مسز اینتھینی سے کہا  کہ اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا بلکہ یہ حادثہ تھا۔مسز اینتھنی نے کہا کہ اگر یہ حادثہ ہوتا تو در گزر کیا جا سکتا تھا لیکن اس نے یہ جان بوجھ کر کیا تھا۔اس پر مسز موریل نے کہا کہ میرا بیٹا جھوٹ نہیں بولتا۔ ولیم کو سرزنش کی کہ کچھ بھی ہو، آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔وہ محلے داروں سے بگاڑنا نہیں چاہتی تھی، اس نے سوچا کہ وہ اس کے گھر جا کر اس سے معافی مانگ لے گی اور معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔مسز اینتھنی ناک پھلاتی غصے سے چلی گئی۔والٹر کام سے واپس گھر آیا تو  اس نے آتے ہی ولیم کا پوچھا۔

 مسز موریل نے کہا کہ ولیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

            والٹر نے کہا کہ اسی کو بتاؤں گا۔

            کیا تمہیں مسز اینتھنی نے بھڑکایا ہے؟

            میں اسے آج سبق سکھاؤں گا کہ کیسے ہاتھا پائی کی جاتی ہے؟

            تم ایسا کچھ نہیں کرو گے مسز موریل بولی۔

وہ غلطی کرے اور میں اسے چھوڑوں، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔والٹر نے کہا۔

اتنے میں ولیم باہر سے آیا اور ماں سے کہا کہ کیا اسے چائے مل سکتی ہے۔

والٹر غصے سے بولا کہ تجھے آج بہت کچھ کھانے کو ملے گا۔ولیم یہ سن کر گھبرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ ماجرا کیا تھا۔ موریل مارنے کے لئے ولیم کی طرف بڑھنے لگا تو مسز موریل نے اسے کہا کہ بھاگ جائے۔ مسز موریل سینہ تان کر درمیان میں کھڑی ہو گئی اور دھمکی دی کہ اگر تم آگے بڑھے تو پچھتاؤ گے۔ والٹر اسکے لہجے کی سختی دیکھ کر رک گیا اور سونے چلاگیا۔

ولیم ایک منصوبے کے تحت ترقی کی منازل طے کررہاتھا۔ وہ اس سے خوش تھی۔ آخر تک اسکی محبوباؤں پرکڑی نظر رکھتی ا ور کوشش کی کہ وہ اسےان سے  بچا لے۔ اس کے بعد اس نے پال موریل کی بیماری پر دھیان دیا اور پوری دیکھ بھال کی۔پال  نےبھی اسکی خدمات کواس حدتک سراہاکہ وہ اس کی آئیڈیل بن گئی اور ہر لڑکی میں ماں والی خوبیاں تلاش کرتارہا۔ کوئی لڑکی اسکے معیار پر پورا نہیں اتری۔ اس نےلاشعوری طورپرہر لڑکی میں اپنی ماں کی خصوصیات تلاش کیں جو کسی میں نظر نہ آتیں تو خلاؤں میں گم ہو کر رہ جاتاتھا۔مسز موریل کو قطعاً اس بات کا احساس نہیں تھاکہ اسکی جذباتی زندگی کس حد تک پال کی زندگی پر اثر انداز ہورہی تھی۔

          سے ایک دفعہ والٹر کے دماغ میں سوزش ہو گئی تو وہ کام پر نہ جا سکا۔اس دوران اسکی بیوی اس کی خدمت گزاری کرتی رہی اور محلے والے اس دوران انکی مالی اور اناج وغیرہ بھیج کرمدد کرتے رہے۔یہ وہ مختصر عرصہ تھا  جس میں اس نے والٹرمتعلق  کچھ لطیف جذبات محسوس کئے۔ پال کے سترہ ماہ بعدچوتھی اولاد ہوئی۔وہ بھی  لڑکا تھا۔اس کا نام آرتھر رکھاگیا۔ آرتھراپنے والد کی طرف زیادہ  راغب تھا۔ والٹر بھی اسکو پیار کرتا اور چومتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ والٹر کے فیملی سے بدسلوکی کی بنا پر وہ  بھی اس سے متنفر   ہونے لگا۔

جب ولیم کو  لندن  کی نئی نوکری کا سندیسہ ملاتو اس کی والدہ مذبذب تھی ۔وہ سوچوں میں گم تھی تو ولیم نےاس رات ولیم نے لڑکیوں کے خط کھولے۔  وہ ایک خط کھولتا، اونچی آواز میں پڑھتا اور پھاڑ دیتا ۔ایک خط فرانسیسی میں بھی  آیا ہے جوایک امیر زادی کا تھا اس میں اس نے لکھا تھا۔

  میں نے تجھے معاف کر دیا ہے اور میں نے اپنی ماں کو تمہارے بارے میں بتایاہے۔تم اپنے والدین کو اتوار کو لے کر ہمارے گھر آجاؤ۔ ابھی ماں نے تمہارے بارے میں ابو کو نہیں بتایا لیکن میں سنجیدگی سے سمجھتی ہوں کہ وہ اجاز ت دے دے گا۔ اس ملاقات کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے، بعد میں آگاہ کر دوں گی۔ جب ولیم نے وہ خط پڑھاتو خوشی سے جھوم اٹھا۔ وہ اسے پسند کرتا  تھا لیکن آج سے پہلے اس لڑکی نے ہمیشہ اس کے ساتھ سرد مہری دکھائی  تھی جس پر اس کی ماں نے اسے ٹوکا کہ یہ تمام لڑکیاں بہت عقلمند تھیں۔ انہیں تمہاری کامیابی کا یقین سو فیصدہے اسلئے وہ تمہارے پیچھے پڑگئی ہیں۔ اسکی ماں نے اس پروپوزل کو ردکر دیا اور قوی امید دلائی کہ یقیناً ایک دن اسے سچی محبت کرنے والی لڑکی ضرور ملے گی۔

          نےلگا۔وقت کے تقاضوں کے تحت اپنا گھر بار چھوڑ کر بیس سالہ ولیم کو لندن منتقل ہونا پڑےگا جہاں وہ تعلیمی اور پیشہ ورانہ ترقی کی سیڑھیاں کامیابی سے طے کرنے لگا۔ لندن میں اسکا تجربہ اور روابط  روز بروزبڑھنے لگے۔ وہ لاء فرم میں کام کر رہا  تھا۔ اسکے  وکلاء، بنکوں کے منیجروں سے مراسم بن  گئے۔ اس نے بڑے لوگوں کے اطواراپناناشروع کردئیے۔کلبوں اورتھیٹروں میں جانےلگا۔ اشرافیہ کے ساتھ اسکے تعلقات قائم ہو نے لگے۔ لندن جانے کے بعد وہ پہلی بار کرسمس پر آیا تو گھر کے تمام افراد کے لئے  ڈھیروں تحائف لایا۔ واپس لندن جانے کے بعد وہ پیشہ  ورانہ طور پر مزید ترقی کرنے لگا۔ کلب کی ایک  ڈانس پارٹی میں اسکی دوستی اشرافیہ کی ایک نہایت خوبصورت مگر اتھلی، سطحی اورمادیت پرست خاتون  للی سے ہو گئی۔ ولیم اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگا۔ اسکی نئی گرل فرینڈنہائت   خرچیلی تھی ۔اس کی ساری تنخواہ اس کے چونچلوں پر لگ جاتی اسلئے وہ اپنی ماں کی  مالی مدد نہ کر پاتا۔ اس نے ماں کو مجبور کیاکہ اسکی گرل فرینڈ لوئیس للی ڈینیز ویسٹرن کو قبول کرلےکیونکہ وہ اس سے  محبت  کرتاہے اور اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ولیم نےاس سے منگنی کر لی۔حالانکہ اندر سے وہ  پوری طرح آگاہ کہ اس سوسائٹی کے لوگ بالکل مخلص نہیں ہوتے اور مطلبی ہوتے ہیں۔للی اسکے وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہی تھی لیکن وہ اس کے ساتھ اس لئے رہا کہ وہ  اچھے خاندان سے تھی، اسکے پیچھے امرا لڑکوں کی لائن لگی رہتی تھی اور  ان  کو چھوڑ کر اس نے اسے منتخب کیا تھا۔ وہ اس کو لے کر جب کلبوں میں جاتا  تو لوگ اسے رشک سے دیکھتے ۔ ماں کے منع کرنے پر بھی وہ اس لئے اسے نہیں چھوڑسکا کہ اسکی محبت میں وہ بہت آگے جا چکا تھا۔ وہ اسے دو بارہ اپنے خاندان سے ملوانے کے لئے لایا۔للی کے رویے سے ایسا لگاکہ وہ اس کے خاندان کو کمتر سمجھتی تھی۔ گھر میں اسے کوئی پسند نہیں کرتاتھا۔جب ولیم تئیس سال کا ہواتواسے شدید نمونیا ہو گیااور دنیائے فانی سے کوچ کرگیا۔ویسےا گر ان کی شادی ہو جاتی تو وہ بھی ایک ناکام شادی ہوتی۔ اسکی موت کے دو مہینوں بعدللی نےولیم کو بھول کر نیا شکار تلاش کر لیاجبکہ اسکی موت نے اس کی والدہ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ وہ دنیا و مافیہا سے بیزار ہو گئی۔ اس وقت عینی اکیس، پال سولہ اور آرتھرتقریباً ساڑھے چودہ سال کا تھا۔

            ترتیب ولادت میں عینی دوسرے نمبر پر تھی۔وہ ولیم سے دوسال چھوٹی تھی۔ وہ ماہی منڈا ٹائپ تھی۔ تمام وقت لڑکوں میں کھیلتی رہتی تھی۔ پڑھائی میں اچھی تھی۔ بھائیوں سے اچھے مراسم  تھے اور ان سے پیار کرتی تھی۔ اس نے بھی بڑے بھائی ولیم کی طرح تعلیمی کارکردگی اچھی دکھائی  اور وظیفے پر پڑھ رہی  تھی۔ اسکا مقصدٹیچر بننا تھ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ پال کے ساتھ دوستی تھی، پال کھیل میں ہمیشہ اسکا پیچھا کرتا تھا۔ اسکا ایک بوائے فرینڈ تھا جس کانام لیونارڈ تھا۔ وہ  دونوں شادی کرکےدوسرے شہر منتقل ہو جاتے ہیں۔

پال موریل والٹر اورگرٹرووڈ کا دوسرا بیٹا تھا۔ وہ  ولیم سے سات سال اور عینی  سے پانچ سال چھوٹا تھا۔ اسکا پہلے نام جوزف رکھا گیا لیکن ماں نے اسے پال کا نام دیا۔چاربچوں کی ترتیب ولادت میں اسکا تیسرا نمبر تھا۔منحنی، بھورے بال اور ذہین آنکھوں کا مالک تھا۔ قوت مشاہدہ  عمیق تھی۔ ہر شئے کو غور سے دیکھ کر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو ذہن نشین کر لیاکرتاتھا۔اپنی عمر سے زیادہ ہوشمند تھا۔باتوں  کی گہرائی تک جلد پہنچ جاتا تھا۔اسکے ہونٹ دلکش ہیں اور بھیڑ میں منفرد لگتا تھا۔اسکا گلا ہر وقت خراب رہتاتھا۔نزلہ، زکام اور بخا ر کی شکایت عام رہتی  تھی۔اسکی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی  کہ اسکی ماں اسکے باپ کی بجائے اسکے ساتھ سویاکرے۔چونکہ اس کی صحت اکثر  خراب رہتی تھی اسلئے بعض اوقات  جب وہ دیر تک سویا رہتا  تو اسکی ماں کو یہ ڈرلگا رہتا کہ کہیں وہ مر تو نہیں گیا۔ ماں کی باتیں غور سے سن کر عمل کرتاتھا۔ولیم  کے سامنے زیادہ کھل کر باتیں نہیں کرتا۔ ماں کا دم چھلا بنا رہتا تھا۔ اسکی دلی خواہش ہوتی کہ اس کی  ماں اس پرویسی ہی توجہ دے جیسے وہ ولیم پر دیتی تھی۔اپنے سے پانچ سال بڑی بہن عینی کے بہت قریب تھا۔وہ بھی پال کو اپنا دوست سمجھتی  تھی۔ وہ جب محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلتی تو یہ اس سے چپکا رہتا ۔ بذات خود تو کوئی نیا کھیل نہیں کھیلتا تھالیکن عینی جو کھیل کھیلتی، وہی اسکا کھیل بن جاتا تھا۔اسے اپنے باپ سے شدید نفرت تھی۔اسکی بد مستی اور ڈانٹ ڈپٹ اسے نا پسند ہ تھی۔وہ غل غپاڑ ے سے گھر کا ماحول خراب کرتا رہتا۔ جب وہ رات گئے گھر نہ پہنچتا تو یہ دعا کرتا کہ خدا کرے والٹرمر گیا ہو۔جب وہ ولیم کے مرنے کے بعدنئے مکان میں شفٹ ہوئے  تو عینی، آرتھراور اسے برگد کے درخت سے خوف آنے لگتا تھا۔ اسکے جھومنے سے جو آواز نکلتی تھی ۔وہ  انہیں شیطانی آواز محسوس ہوتی تھی۔رات کو تو وہ آواز  اسے خوابوں میں بھی ڈرنے لگی۔ عینی، آرتھر اور وہ مل کر کھیتوں میں کھمبیاں اور بلیو بیری چنتے اور اکٹھے کر کے ماں کو دے دیتےتوانہیں بہت خوشی ہوئی۔ کان کنی بڑاخطرناک  پیشہ تھا۔اس میں مرنے یا زخمی ہونے کا ہر وقت اندیشہ رہتا تھا۔پال  نےبڑی  شدت سے خواہش کیا کہ اسکا باپ مر جائے تاکہ اسکی ماں سکھ کا سانس لے سکے لیکن اسکی ماں کی سوچ پال سے مختلف تھی کیونکہ اسکے مرنے کے بعد اسکی مالی مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔

جاری ہے۔ 


 

Popular posts from this blog