آزاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔Free۔ By John Updike

  





آزاد

Free

By

John Updike

مترجم : غلام محی الدین

ماں ہمارے پاس کئی بار آئی تھی ۔ایک  ملاقات میں   وہ بولی تھی کہ                 ِلیلیٰ کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں  ۔ان دنوں لیلیٰ    اور میرامعاشقہ چل رہاتھا۔ ہم خوب عیاشی کر رہے تھے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ میری اورلیلیٰ  کےرومانس  سے بالکل بےخبرتھی  ۔ ۔۔ اس میں     برداشت نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ وہ  کسی  بھی خبر پر پھٹ پڑتی تھی۔ایساجیسےکہ  میدان میں گولی چلےتووہاں ہرطرف سراسیمگی چھاجایاکرتی ہے، اسی طرح  والدہ بھی   کھلے وسیع  میدان میں لگی  آگ کی طرح  بلاروک ٹوک ہرطرف بات   پھیلا دیتی تھی ۔ اس کی عادت تھی کہ  اپنےخیالات   ہرکس وناکس  پر ٹھونس دیتی  تھی ۔لیلیٰ  کی آنکھوں کی تعریف میں  جوفقرہ  میری  ماں نے  کہاتھا  وہ اسے اپنے  لئے  بڑے اعزاز کی بات   سمجھتی تھی  ۔اس    تعریف نےاس کی  آنکھوں میں چمک اور زندگی میں  اضافی توانائی بھر دی  تھی ۔اس کے نتیجے میں   اس کی گفتگومیں  ملائمت پیداہوگئی تھی۔

 ماں  کےسامنے  ایک بار تعظیماًجھکی۔ میری والدہ  ایک چھوٹے سے گاؤں آئی تھی جہاں  بہت  زیادہ گرمی ہواکرتی تھی۔ میں نے اس کے اعزاز میں جوشانداراستقبالیہ منعقد دیا تھا ، سےوہ بہت خوش  تھی ۔ میری جوانی عام ڈگرپربے ڈھنگی اور ابالی چل رہی تھی جبکہ لیلیٰ کامزاج مختلف تھا۔ مجھ جیسے  ہنگامہ خیز ،شوخ ،چنچل  اور فتنہ پرورآدمی کے ساتھ    اس  ٰ کالطف اندوزہونا ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ اس کے مزاج کے برعکس تھا۔ والدہ لیلیٰ کے بارے میں گاہے بگاہے رائے دیتی رہتی تھی   جو شیریں، ترش اور تلخ  ملے جلے ہوتے تھے۔اس کے ماں اور لیلیٰ  دونوں  فطرت سے محبت کرتی تھیں۔۔۔انہیں   پھولوں اورپرندوں کے نام تک آتے تھے۔ تبصروں نےلیلیٰ میں جنون پیداکردیاتھااوران دونوں             خواتین  یعنیاور  میرامعاشقہ لیلا سے جھیل کے کنارے والے کیبن میں ہوتاتھا۔ جہاں ایک آزادمنش  دوست اورایک بزرگ خاتون   ہمیں وہ کاٹیج  کرائےاس قدرِ  پردےدیاکرتے تھے۔جنگل کےدوسرے کنارے  پر جودوسرےگاؤں  سےملحق تھامیں  سردیوں کےیخ بستہ ہواؤں  سے پٹ سن کی  اور گرمیوں میں بانسوں کی بدبومستقل طور پرآتی رہتی تھی ۔کیبن میں جوفرنیچر ہمیں مہیاکیاجاتاتھا۔اس میں ایک ننگا میٹریس    اور ایک خالی فریج جس کے سوئچ کو بجلی سے جوڑا نہیں گیاہوتاتھا۔اس ماحول میں  ہمارےننگے جسموں کی خوشبو ان بدبوؤں میں مل کرسحرانگیزبن جاتی تھی۔ ندی   جوکاٹیج  کی کھڑکی  سے نظرآتی تھی،کاشور اور اس کی چھت پرگلہریوں کی آواجاوی ہماری محبت   لطف دوبالاکردیتی تھیں۔

میری  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرشوخ سے دیکھاکرتاجوبلاشک خوبصورت تھیں۔۔۔پھل دار درخت  جس میں  سبزرنگ   اور میں

 اس کی سرخی   مائل   گندمی رنگت  ، آنکھ کی لمبے ابروسائے میں  اور بھی بڑے لگتے تھے۔کاٹیج میں آسمان کی روشنی پڑاکرتی تھی اوراس کامستطیل ،پھٹیچر  کنارہ  گری ہوئی  ڈالیوں اور درختوں  کےکانٹوں  کےساتھ ،گول دائرے میں  منعکس ہوتی تھی۔شائد سب سے زیادہ اہم مسئلہ جولوگوں کو بید کےدرختوں  سے تھا۔وہ اس  درخت  کی سخت ٹہنیاں تھیں   جو جھڑ  کر سوکھ جانے پرسوئیاں بن جاتی تھیں۔یہ ایک جمالیات کا مسئلہ نہیں تھاکیونکہ یہ سوئیاں زخمی کردیتی تھیں اور نقصان  پہنچاتی تھیں۔

میری والدہ    لیلاکوپسند نہیں  کرتی تھی : وہ بہت زیادہ شہری اقدار کی   پابندتھی۔وہ  مہذب اور رنج والم سے بالاتر تھی ۔وہ ایسی لڑکی چاہتی تھی جواس سے بھی ایک درجہ  اوپرہوتاکہ خاندان  مزید ترقی کرسکے اوراس کےخاندان میں  وکلا،بنکراور پروفیسر شامل ہو سکیں، لیکن ان کے گھرکےچھوٹےسےمعاشرے میں  کسی حد تک  رومانیت ،الفت ،اپنائیت کی تقدیر  دیکھی جاسکتی تھی ۔میں نے ان خواہشات کوجن کی اس کی والدہ تمنارکھتی تھی  کو معقول حدتک رکھنے کی کوشش کی اورچاہا کہ اس  کی تمناؤں کو اپنے حالات   میں ڈھال  سکے اوراپنےروکھے پن کو جس میں اضافہ ہورہاتھا مزید بڑھوتی نہ دےاور ایک فرضی سوانگ رچاکر شائستہ  انداز میں  اس کےساتھ  رہے۔جب کہ  والدہ  نےکچھ  رنگ برنگی امیدیں  جب اس کی توقع کےمطابق   پوری  نہ ہوسکیں  تووہ  مایوس ہوگئی۔ اپنے خول میں کڑھی اوراس کے رنج وغم  اور غصے میں اضافہ ہوگیا۔میں  نےلیلا سےبےوفائی نہ کی، جنگلی اورنم آلود ہوا میں سانسیں لیتارہاد: میں  اس بات  کوکبھی بھی فراموش نہ کرسکاکہ کس تیزی سےِ لیلااپنے کپڑے اتارتی تھی۔،ایک روز جب بادل نہیں تھے ،سورج                   نکلاہواتھالیکن اکتوبر کی سخت سردی تھی،میں نےایک  بڑا گراری دارچاقو لیلا  کی سفید  پیٹھ  کےدرمیان   تاکہ اسے فوری کام کےلئے رام کرسکوں۔لیلانے یہ دیکھ کرجھیل میں چھلانگ لگادی، اس موسم میں سوائے ایک کےرمام گودیاں بندکردہ گئی تھیں۔صرف اس میں ہی تیراکی کی جاسکتی تھی۔اس  گودی  کی سطح  اس کےسرسےذراسی نیچے اور پانی میں نچڑے ہوئ اود بلاؤ کی طرح تھی۔اس کی آنکھوں کے پپوٹے پھڑپھڑائےاور میں اس کے چھلانگ لگانےسے  چیخ اٹھا۔میں کنارےپرکھڑاہوکر اپنے تمام کپڑوں  میں ملبوس  لیلاکو گہری نظروں سے جاسوسی  کےانداز میں جوکہ اجنبیوں پرکی جاتی تھی سے دیکھا ۔

لیلانے سردی سے بجتے دانتوں  سےجب یہ کہاکہ تم اس وقت آگے بڑھ کر مجھےملنے  آجاؤ۔آجاؤ۔۔۔آجاؤ ہنری۔ یہ ہماری  زبردست  خوشی والی لطف اندوزتیراکی  تھی۔جوخرمستی کاباعث بنی۔

اس یخ بستہ پانی میں  اس نے ہاتھوں کواپنی چمکدار چھاتیاں دکھاتے ہوئے  اپنے ہاتھ تتلی کےپروں کی طرح پھیلائے تو  اس کی ننگی چھاتیاں پانی سے باہرنکل آئیں۔

اوہ نہیں۔میں  نےکہا۔مہربانی کرکےمجھے بخش دو۔پانی  بہت ٹھنڈا ہےلیکن لیلانے  رائے نہ بدلی اور پانی میں کودنے کےعلاوہ میرے پاس کوئی اورچارہ نہیں تھاکیونکہ  یہ شہوت انگیز نظارہ مجھےپانی میں کودنے سےباز نہ رکھ سکا۔مجھے اپنےکپڑے اتارنےپڑے اور پانی کے چھینٹوں  سے خود کومحفوظ رکھنے کے لئے انہیں تہہ کرکے ایک طرف رکھ دیاا۔ ہمت باندھ لی اور  درخت کےپاس  سے اس جھیل کے کالے پانی میں کودنے کامن بنالیا۔

میں نے چھلانگ لگائی،غوطہ لگایااور سرپانی سےباہرنکالاتو پیپل   کےدرخت کےگلابی پتے خالی کشتیوں کی شکل میں سوکھ رہےتھے، جوآنکھوں کےسامنے آگئے ؛ میرےزیرآب پانی جسم کوایسالگاجیسے برقی روکاکرنٹ یاآسمانی بجلی گری ہولیکن ِ لیلااس وقت بڑی مشاقی سے پانی میں آہستہ آہستہ تیررہی تھی۔۔۔اس کی بافتوں والے نس ،سفید پانی   سے اوپر کی طرف پاؤں مارکرچھینٹے اڑا رہے تھے۔۔۔جواس سےدور،جھیل کے درمیانی حصے میں تھے۔ہنری گہری سانس لینے کے لئے رکااور سادہ انداز میں اپنے پاؤں اور ہاتھ اوپرنیچے کرکے واپس تیرنے لگااوراس کےجسم کےنچلے حصے پرسنہری روپہلی پتے پوری طرح   چپکےہوئے تھے ۔ اس پانی نے مجھے  آسمان کے نیچے   ایک دائرے میں محدود کردیاتھا۔یہ ان لمحات میں سےایک تھا،جو لیلاکےسامنے آیا۔جب کسی کو اس کی  زندگی میں پھل ملنے لکھے ہوں تو قدرت انہیں  اس کےلئے ذخیرہ کردیتی ہے: چھوٹے بھیگے سر، چمکتی آنکھوں ، گچھےداربالوں اورچھوٹی چھاتیوں سے وہ پانی سے باہرآئی ۔ تولئے سے اپناجسم خشک کیا۔تولیہ  اس موقع کےلئے پہلےسےسوچ کرلائی تھی۔

عین  اس وقت  میں نےکم صحت مندانہ   مداخلت کی۔مجھے اس وقت اس بات کاخدشہ تھا کہ کہیں میری والدہ لیلاکےجسم پرجھیل کےپانی کی بوسونگھ نہ لے۔ان مردہ پتوں سےجووہاں کھاد بن گئے تھے۔وہ اس بات پرغور نہ کرلےکہ اس کےبال گیلےکیوں تھے۔ہم  بدکاری سے تھکتے نہیں تھے۔میں اس کام میں اتنااچھانہیں تھاجتناکہ لیلا۔میں   موقع محل کے مطابق موزوں ردعمل کےلائق  نہیں تھا۔

ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی ۔میں اسے بیماری کی تشخیص اور علاج معالجہ کےلئے ڈاکٹروں کے پاس لےگیا جنہوں نے نتیجہ نکالا کہ اس کی  بیماری لاعلاج تھی۔کوئی ایسی شئے نہیں تھی جواسے بچاسکے ۔اس جملے کی صداقت نےمجھے حیران کردیا۔

 لیلا کےبارے میں میرے  حیوانی جذبات بہت زیادہ غالب  تھے،وہ غیرمتوقع طورپر  بلندی سے حملہ آورہوتےرہتےتھے،اورتاریکی میں وہ کترکترکرکے چٹ کرجاتےتھے۔ہماری شادی نہیں ہوئی تھی ۔میں  کہتاتھاکہ  اسے بہتر نوکری ملے گی توہی شادی کرےگا۔ ' بہترنوکری'نے بہانہ بنایاتھاخالانکہ میں اس وقت گرجاگھر میں  خزانچی کی نوکری کررہاتھا۔

اس دوران، میں  بیمار پڑ گیا ۔ معدے میں خرابی تھی۔ڈاکٹر نے کہاکہ اسے  بچنے کے لئےاب عام  رفتارسےچلناہو  گا ۔آپا دھاپی اورتندوتیزی  کارویہ ترک کرناہوگا۔ معدے کی بیماری پرقابو پانےکےلئےبہت سی عادات ترک کرناہوگی۔اسی سطح پرہی رہنا ہوگا۔اس کے آخری جملے نےمیری بیماری کوپراسراربنادیاتھا۔میرے ماحول کووہمی بنادیاگیاتھا۔میں  قسمت پریقین رکھتاتھا اور اسے بہتربنانے کی دعاکرتارہتاتھا۔میرے سامنے کوئی واضح پروگرام نہیں تھا ،  دھندمیں  تھااورتکلیف  میں تھا۔

میں  نے گرجاگھر کی خزانچی کی نوکری چھوڑدی۔آمدنی  نہ ہونے کے باعث کافی اورسگریٹوں  کوبھی خیرباد کہناپڑا۔ان اقدامات سے بیماری میں کسی حدتک افاقہ ہوا،لیکن چاپلوسی کی عادت اس وقت تک   ختم نہ ہوسکی جب تک کہ لیلانےاچانک ،بغیرکسی وجہ کےجو اس نےکبھی بھی بیان نہیں کی  ایک نوجوان  سے شادی کرلی جس کا نام پیٹر تھا اور مجھے چھوڑدیا۔ تو میں نےاپنی والدہ کی مرضی سے آئرین سے شادی کرلی ۔

لیلا اورپیٹر شادی کے  ایک سال کےاندر  فلوریڈا منتقل  ہوگئے۔اورچند برس مزید کزرنےکےبعد وہ واپس پرانی جگہ لوٹ آئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کوطلاق دےدی ۔میرے لئے لیلاکامجھے یکدم چھوڑنااورپیٹر کےساتھ شادی ہمیشہ معمہ رہی۔ اسےمیری ضرورت نہیں  رہی تھی، اس نےایک بار روتے ہوئے  کہاتھا۔اس کی آنکھوں میں اس وقت آنسورواں  تھےجو شاذونادرہی بہتے تھے ۔ یہ بات اس نے اپنی نگاہیں  میرےکندھے پرسے دیکھتے ہوئے کہاتھاکہ پیٹرلڑکوں کوپسندکرتاتھا۔اسے لڑکوں کی طرح لیلا کی پیٹھ چاہیئے تھی، مجھےیہ سن کر بالکل بھی یقین نہ آیااورکبھی  جرات بھی  نہ ہوئی کہ وہ اس  کی تفصیل میں جائے ۔اس وقت میں اپنی آمدن بڑھانے میں زیادہ دلچسپی دکھارہاتھا۔آئرین  کی مدد اور مشورے سےمیں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگاتھا۔آئرین اور میں  مینی ریاست اور فلوریڈا میں چھٹیاں منانے لگے۔اس دوران لیلا نے ایک بوڑھے شخص جم سے شادی کرلی۔ بدقسمتی سے وہ ایک حادثے میں مرگیااور اس کےلئے کچھ جائیداد چھوڑگیا۔

جب میں ساٹھ کےپیٹے میں تھاتوآئرین مرگئی ۔ لیلا کا  دوسرا میاں  فوت ہوچکاتھا۔اب میں اپنے دوستوں کی طرح  آزاد تھا۔ ایسی اشیاجوناگزیرتھیں  سے کنارہ کش نہیں ہوسکتاتھا ۔آئرین  کی موت کے بعد مجھے لیلا سے جنونی تعلقات دوبارہ سے قائم کرنے کاخیال آیا۔وہ اب پھرغیرشادی  شدہ ہوگئی تھی۔اپنی دو شادیوں کےبعد:میں  نے کسی طرح لی لاکافلوریڈاکاپتہ حاصل کرلیااورخط لکھاتواس نے جواب میں کہاکہ   میں اسے جاکرملوں۔

آئرین کی زندگی میں ہماری   عادت تھی  کہ وہ ہرسال موسم سرمامیں تفریح  کے لئےدوہفتوں کےلئے فلوریڈا جائیں ۔ہم ہمیشہ اینی  پسندیدہ سرائے میں قیام کیاکرتے تھے۔وہ سرائے اس سے زیادہ میری  بیوی کو پسند تھی۔اس سرائے میں وارنش کی بوآتی رہتی تھی جودیوداراور چائے کےدرختوں سے آتی  تھی۔اوراس کی طویل راہداریوں میں مچھلیوں کی بساند  آتی رہتی تھی جوشکاری وہاں لاتے تھے۔ان راہداریوں میں کئی خوفناک طوفانوں کی تباہ کاریوں کی تصاویر بھی آویزاں تھیں جووہاں ماضی میں آئےتھے۔ اس کی سیڑھیوں  کے درمیانی حصے پر ایک وسیع جگہ بنی ہوئی تھی جہاں گھونگھے ،اور مختلف اشیاکےلیبل پڑے تھےجواتنے پرانے تھے جن کی سیاہی تقریباًمندمل ہوچکی تھی۔ اس مقام سے بہت دورسےہی  فلوریڈاکی خاص بوسونگھی جاسکتی تھی۔وہ ایک امیر آدمی کےلئے  یونانی جنگجوؤں سپارٹا کے باشندوں کےلئےجنت تھی اوروہاں جمہوریت نام کی کوئی شئے نہیں تھی۔آئرین   کی فوتگی کےدوسال تک میں اس کاسوگ مناتارہا۔اس کی یادمیں ہسپتالوں   کے چکرلگاتارہا، امید ویاس میں گھومتارہا۔اس کی خاطر کئی ماہ تک  راحت ورنج  میں  مبتلارہنے کے بعدبےحس ہوگیااوراجنبی مقامات پرجانے سے جھجکنے لگا۔آئرین  نے میرےلئے جوراہیں متعین کی تھیں کواس کے مرنےکے بعد بھی برقراررکھناچاہتاتھااوراسی طرزپر سفرقائم رکھناچاہتاتھا۔دوسال بعد مجھے لیلا کا خیال آیااور میں نے اس کا کھوج لگالیا۔وہ فلوریڈا کے مشرقی ساحل میں رہتی تھی جو اس علاقے سے جہاں ہم تفریح منایا کرے تھے سے گھنٹوں کی کار چلانے کے فاصلے پرتھی۔

وہ سرائے   جہاں ہم  فلوریڈ میں قیام کرتے تھےمغربی ساحل پرتھی۔جوپورٹ شارلٹ  کےنیچےتھی۔جب کہ  لیلاکا خوبصورت  اپارٹمنٹ      ( کنڈو)مشرقی ساحل پرواقع تھا۔ جو فورٹ لارڈرڈیل  سے بھی آگے تھا۔یہ سفر  طویل ،پیچیدہ اور سخت تھاجس میں پہلےجنوب کی طرف اورپھر سورج کےرخ مشرق کی طرف جاناپڑتاتھا،اس کےبعد مخالف  سمت میں  جانا ہوتاتھا جہاں ایک   بہت بڑے اناج کے ڈھیری تھی جوایورگائیڈ کے دیہی منظر کےپاس تھی لیکن  اس کے آس پاس گھنی جھاڑیاں تھیں  جن میں وہ عمارت چھپی ہوئی تھی۔ مشرقی ساحل  کے اس حصے میں  گھٹن اوربھیڑبھاڑپائی جاتی تھی جس کے ذمہ دار تیز رفتار ٹرک اورٹرالرڈرائیورتھے جوزیادہ تر کالے تھے۔

اس علاقے میں سفیدفام  لوگ ایک منزلہ مکانوں میں رہتے تھے  جوریت پر تعمیر کئے گئے تھے۔جن کے بلاک  سینکڑوں  ایکڑوں پر محیط تھے ۔علاقہ ریتلا ہونے اور درختوں کےجھنڈ نے لیلا کاگھرتلاش کرنے میں دشواریاں پیداکردی تھیں۔میں  کئی باررستہ  بھولا۔ میں جان چکاتھاکہ میں  اب بوڑھاہورہاتھا۔اب مجھ پر غیریقینی کیفیت طاری ہونےلگی تھی جس میں روزبروز اضافہ ہورہاتھا۔گلیوں کے نشانات گاڑی کےعقبی آئینے اور  خود کونئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت  مفقود ہورہی تھی ۔مجھے اپنی منزل تک پہنچنےکے لئے  کئی بار رہنمائی لیناپڑی۔ لڑکوں سے جوسڑکوں پرآوارہ گردی کررہے تھے ،ضعیف لوگوں اوراور شوخ  کھلاڑیوں سے   لیلا کے علاقے کارستہ دریافت کیا۔مجھےیقین تھاکہ  ان کےبتائے ہوئے رستے پرجاکر  بغیرکسی مشکل کے سیدھا اس بلاک کی پارکنگ کی جگہ پہنچ جائے گا۔ہر عمارت میں مکینوں اور مہمانوں کے لئےباقاعدہ   پارکنگ بنی تھیں ۔ میری نظروں سے وہ رستہ جولیلا کی عمارت   کوجاتاتھا  گھنے درختوں کے جھنڈ   میں چھپاہواتھا۔دھکے کھاکر میں  ایک تین منزلہ عمارت کےاندرداخل ہواجومستطیل شکل کی تھی اور بہت سے یونوں پرمشتمل تھی۔ہریونٹ کارخ اندرکی طرف تھااوراس میں ایک ایسامقام بھی تھاجہاں پردھوپ  سینکی جا سکتی تھی۔اس جگہ پرسکرین لگی ہوئی تھی۔اپنے ہاتھوں میں کچھ مڑےتڑے کاغذ لئےہوئے پہلی منزل کےفرش پرچل کرکمروں کےنمبر پڑھتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے میں لیلا  کے کمرے کےسامنےپہنچ  گیااور گھنٹی بجائی۔اس کمرے سےجوباہرآئی میں اسے

پہنچاننےسےعاری تھا۔ یادداشت  میں جولیلا تھی ،یہ وہ نہیں تھی۔یہ ایک  ننھی  منی چھوٹی سی خاتون  تھی۔اس کے چہرے کی رنگت

ایسےاخروٹ کی طرح  تھی جس پر جھریاں ہوں ۔اس نے میرے لئے دروازہ کھول دیا۔پچھلے تیس سالوں میں اس کےچہرےنےبہت سی گرمی حاصل کی ہوئی تھی اور اس کا رنگ گہراگندمی ہوگیاتھا۔

پیارےہنری !خوش آمدید۔تم نے بہت دیرکردی؟

کارکاسفرمیری توقع سےبہت زیادہ پیچ دارتھا۔میں نےکہا۔ اس علاقےسے باربارچکرلگاکرجاتارہا۔درختوں نے اسے اوجھل کررکھاتھا۔گھر نہیں مل رہاتھا۔مجھے افسوس ہے۔تمہاری  میرےبارےمیں ہمیشہ سےیہ رائے رہی کہ میں غیرمنظم تھا، جس طرح سے لیلا نے اپناچہرہ اٹھایااورمجھےبے حس وحرکت ہوکر دیکھاتومیں نےسوچاکہ ایسی حالت میں اسے بوسہ کرناچاہیئے۔مجھے اس وقت خیال آیاکہ میں  تواس کے لئے کوئی تحفہ تولایاہی نہیں تھا۔۔۔پھرسوچااگر تعلقات دیرینہ  ہوں تو  تحفوں  کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آنااورملناہی کافی تھا۔لیلاکے گال اور ہونٹ کنکروں کی طرح خشک تھےلیکن گرم جوش تھے ۔

 لنچ پڑاپڑا ٹھنڈاہوگیاتھا۔لیلا نےکہا۔اس نےمرغ فریج  میں رکھ دیاتھا۔کافی انتظار کےبعداس نےسوچاتھاکہ  شائد  میں نہیں  آؤں گا۔ماضی میں تیس سال پہلے  بھی میں   ملاقاتوں میں ایک سے زیادہ مواقع پر وقت  پرآنے میں ناکام رہاتھا کیونکہ عین وقت پرکوئی کام آپڑتاتھا۔لیلاناراض ہوتی تھی لیکن یہ غصہ دیرپانہیں ہوتاتھااور ایسی کوتاہیاں  قربت میں دراڑ نہیں ڈالاکرتی تھیں ۔وہ مجھ پر ماضی کی طرح کا دبدبہ قائم رکھنا چاہتی تھی لیکن تیس سالوں  کی  علیحدگی نے مجھے بدل کررکھ  دیا تھا ۔اب سب کچھ تبدیل ہوچکاتھااس کی گفتگو میں  جنوب  کی زبان کالب ولہجہ شامل ہوگیاتھا۔اس کی نیوانگلینڈ کی  زبان کافی حد تک تبدیل ہوچکی تھی۔وہ کچھ چڑچڑی ہوگئی تھی۔اب وہ سنکی  اورگستاخ ہوگئی تھی۔وہ  ان شادی شدہ خواتین کی طرح ہوگئی تھی جو بات کوروک نہیں پاتیں اور جو منہ میں آتا تھا،بک دیتی تھیں جن کاانداز  محسوس کراتاتھاکہ بیٹھویابھاڑ میں جاؤ۔اس کے کپڑے خوشبودار تھے۔وہ کھلےپاجامے پہنتی تھی۔اس کا پسندیدہ رنگ آڑو کی طرح کاتھا۔وہ اپنے بلاؤز کےاوپروالے دوبٹن کھول کررکھتی تھی   ۔وہ سفید سینڈل پہناکرتی تھی۔وہ اپنے ہاتھوں اورپاؤں کے ناخنوں پرمجیٹھیا رنگ کی پالش لگایاکرتی تھی۔۔۔اوروہ فلوریڈا کی خواتین کی طرح اکڑکرچلتی تھی ۔

براہ کرم میرادیرسےآنادرگزرکردو۔میں  نے نرم اور معذر ت خواہانہ لہجہ اپناتےہوئےکہا۔میں نےانتظارکیاکہ وہ کیاردعمل دیتی ہے۔ گھنٹوں کارچلاتے وقت  تمام راستے میرےدل کی دھڑکن بہت  تیزرہی۔اس سفر میں  ایک نقطہ ایسابھی  آیا کہ اس پراضطرار ی کیفیت طاری ہوگئی اور خدشہ ہواکہ مجھےدل کادورہ نہ پڑجائے۔ بہرحال جوں توں کرکے میں  وہاں پہنچ گیا۔اس عمارت کالان حد سے زیادہ خوبصورت تھا۔لیموں کے درخت  اس میں اضافہ کررہےتھے۔۔۔میں یہاں تھااور   تیس سال  پہلے والی  معشوقہ میرےسامنے تھی جوایک قسم کی  خاموش چمکتی ہوئی : جس میں   مادی     وسائل، بےچینی اور محنت شاقہ    ماضی  کونظراندزکرنے کی قابلیت  دکھائی دے

رہی تھی۔ایسی کیفیت لیلاپرماضی میں اس وقت طاری ہوتی تھی جب مرحومہ والد ہ سےاسے کوئی شکائت ہوتی  تھی۔اس  کے ردعمل

میں غیرارادی طورپر وہ پریشانی  میں مبتلاہوجاتی  جس سے اس کی نیندیں اڑجایاکرتی تھیں ۔ایسی راتیں کبھی ختم ہونے میں نہ آتی تھیں ۔جب  والدہ کےپاس کرنے کواور کچھ نہ ہوتااور اسے نیندنہ آتی ۔وہ اس وقت میراہاتھ پکڑکر اسےافیون  اور برف کے ٹکڑے   کھلایا کرتاتھا ۔میرااپنے دوستوں سےمسلسل  رابطہ  رہاکرتاتھا۔وہ  لمحات کتنے عظیم ہواکرتےتھےجن میں میں پراعتماد ہوتاتھا جوکب کا ختم ہوگیا تھا۔اپنے لحاظ سے میں  صحیح تھا،والدہ کاتابعدارتھا اورشادی کی وہ شکایات   ،عہدوپیمان  میں  اداکئے گئے فقرات میں ایک جملہ یہ بھی تھا'بیماری میں بھی اور صحت میں بھی کہ میں ماں کاتابعدارہوں۔'

میں اس بات سےباخبرہوگیا،اپنے ذہن کے کسی کونے میں تھا کہ لیلا اب کھانالگائے گی ، پانی پھینٹنے کی آوازیں  آناشروع ہوجائیں گی۔

۔۔۔ عمارت میں ایک تالاب  بھی تھاجو اس طرح  سے بنایاگیاتھا کہ  ہر اپارٹمنٹ ( کنڈو )  کے سامنے وہ تالاب آتاتھا۔،اور لیلاکے کمرے کے دروازے  سے جوسلائیڈنگ تھا کھلتے وقت شورپیداہوتاتھا۔اس  تالاب کےاردگرد   کھلونا گاڑیوں  اور تھالیوں کے  کھیل کھیلے جاتے تھے۔  آس پاس کھجورکےدرخت  دقیانوسی اندازمیں  لگائے گئے تھےجوہرایک کی توجہ اپنی طرف کھینچتے تھے۔شیشے کے گلاس میں برف کی ڈلیاں بج رہی تھیں ۔دوسرے سکرین والےگھر کےایک کمرے کے حصے  بھی دکھ رہےتھے۔لیلا کواس جھیل  کی یاد،اس کاسفیدجسم  جویخ  بستہ  پانی  میں گراری دار  چاقو  کی طرح  کاٹ رہی تھیں یاد آرہاتھا۔اس نے اپنے بھدے پاؤں پر سنہری رنگ کے جوتے پہن رکھے تھے۔اس کےکھانےکے کمرے کے حصے میں  ہوارک گئی تھی ۔وہاں اس نے اپنےوزن کو دوبارہ سے اپنے جسم  کےدرمیانی  حصے میں دوبارہ سے تقسیم ہواتھاجس نے اس کے گندمی بازوؤں کےگوشت کو ڈھیلاکردیاتھا۔اس نے اس موسم میں اپنے خشخشی بال   کٹوا کرچھوٹے کروالئے تھے   ۔اس کی    کھوپڑی   معقول تھی اور تیراکی  والی گردن ملائم ہوگئی تھی۔اس سے مجھ پر منفی اثر پڑاتھااور میں اسے پسند نہیں کررہاتھا ۔اوراندرکی  کاہلی  سے ہلتا ،گھومتا رہتاتھا۔مجھ میں  شورش برپاتھی ،جو میرے معدے کو گرم رکھتی تھی ۔اپنی ماندہ  تمام  زندگی  میں  میں اس خاتون کےساتھ  اس وقت میں     آرام  اور سکون محسوس کررہاتھا۔ اس کے فرنیچر کارنگ  زنگ کی طرح کاتھاجو اس موسم میں  عام طورپررکھاجاتاتھا۔میں ہمیشہ  ایسا ہی رکھتی ہوں۔لیلا نےکہا۔تمہارے دیرسے آنے کودر گزر   کردوں!کس لئے؟ تمہاری گاڑی میں لکڑی کی سڑک پر نیم۔افراتفری میں  جلدی جلدی  گردوغبار میں تمہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں "۔ایسا نہیں  ہوگا۔

مرغی،سلاداورسفیدشراب کےبعد ،اوربرف والی چائے میں اور لیموں آئس کی آئسکریم میں انہوں نے ان دہائیوں میں جووہ ایک

دوسرے سے دوررہےکےبارےمیں ڈھیروں باتیں کیں اورایک دوسرے  کےحال احوال جان لئے۔لیلا کےدونوں خاوندوں ، سے بچے ادھرادھر بکھرے ہوئے تھے،توقع کےمطابق آنےوالی تکالیف اوردرد،قابل تشریح ذاتی انحراف جس کوبرداشت کرنے کی وہ حتی الوسع کوشش کرتے رہے تاکہ وہ برقراررہنے والی  تندرست رہیں اور جوش اور جسمانی صحت کوجہاں تک برقرار

رکھ سکیں ،بیان کیں۔

تم نے پیٹرکوکیوں بتایا؟ کیاکوئی اورطریقہ نہیں تھا؟میں نےکہا۔

ایسامحسوس ہوتاتھاکہ وہ اس بات کوفراموش کرچکی تھی اور اتنی مدت  گزرجانےکےبعد اس معاملےپربات کرنے کے لئے وہ اپنے ذہن پربوجھ نہیں ڈالناچاہتی تھی۔'اوہ'۔۔۔ہم نے کئی بار فلوریڈاکےبارےمیں باتیں کیں،اور بتایا کہ مجھے اس کےبعدمیری صلاحیتوں کی وجہ سے اپنی مرضی  کی نوکری مل گئی۔

مجھے گھرکی صفائی کرناتھی۔تمہارے بسترکےنیچےمٹی تھی۔ڈئرہنری۔اتنے افسردہ نہ ہو۔وہ وقت اورتھا'۔جوں ہی اس نےاپنے سرکارخ تبدیل کیاتواسے مجھے اس کی والدہ کاچہرہ یادآیا۔لیلا اب اپنی بھدی ماں سےبالکل مل رہی تھی۔ان دونوں کی بدصورتی میں ذرابرابرفرق نہ تھا۔

لیلا بازاری گفتگو کرنے لگ  گئی۔میں  نے  اس کےچہرے کے تاثرات دیکھےتووہ بےہودہ اور فحش  تھے۔ا سکا موڈ محبت کرنے کا بن رہاتھا۔میں نے  سوچا کہ اس کی خواہش پوری کی جائے۔لیلا میں زندگی زیادہ جینے کی  وہ بیہودہ  خواہشات موجود تھیں جسے میں بھی پسندکرتاتھا۔اس کی خواہشات  براہ راست براہ راست سیدھی اورسادہ تھیں۔دوگھنٹوں  میں انہوں نےاس دوران نہ تو اپنی پیچیدہ غلطیوں کااعتراف کیانہ ہی ایک دوسرے پر اعتماد کااظہارکیا۔ان  دونوں کی صورت حال واضح تھیں،وہ ایک دوسرے کے لئے ،اورباہمی وقت گزارنے دونوں ہی شدید خوہش مند  تھے۔اپنی رسوائی سے ڈرتے تھے۔اس کےساتھ ساتھ ان میں حیوانی اورقبضہ اورملکیت کے احساسات  بھی  پائے جاتے تھے۔اب،لیلاکے  اپارٹمنٹ   پر گہرے سائے چھانےلگےتھے۔لیلا کےدھات کافرنیچر  فلوریڈا کےمال سےخریداگیاتھا۔پانی کے رنگوں پر،اور مغربی سورج   ہم دونوں پرپڑاجوکہ کمرے میں تھے۔ ہم بےحس وحرکت شیشے کی میزپر سفید شراب پرلپکے۔اب میرے اندر نادیدہ بےچینی پیداہونےلگ گئی تھی جس نےمجھےپوری طرح جکڑ لیا۔میں لیلا کےساتھ اتنی دیرکبھی  ایسا شریف بن کے نہیں بیٹھاتھا۔میرا من چاہ رہاتھاکہ   دیرتک  عیش کروں اور کام ہونےکے بعد فوری بھاگ اٹھوں۔

وہ اٹھی اورننگےپاؤں مضبوطی سےکھڑی ہوگئی اس نے اپنےبھدے سینڈلوں سےچھٹکاراحاصل کرلیا۔سینڈل  کی پٹی  سرخ رنگ کے

مغزی  جوڑےتھے جس سے وہ اسے کستی تھی۔سینڈلوں سے پاؤں کی اوپروالے حصوں کی وریدیں  نظرآتی تھیں۔

تیراکی  کےبارے میں کیاخیال ہے۔لیلانےپوچھا۔

دن کے اس وقت! بہت دیرہوچکی ہے۔میں نے جواب دیا

سہ پہر تیراکی کےلئے بہترین وقت ہوتاہے۔ہوابھی گرم ہے بچے گھروں میں چلےگئے ہیں۔معذوروں  کاعلاج بذریعہ  تیراکی  کا

سیشن ختم ہوچکاہے۔لیلانے اپنا کندھاچھوتےہوئے کہا۔ایسا لگاجیسے وہ اپنا سکرٹ  اتارنے جارہی ہو۔

میرے پاس تیراکی کا لباس نہیں۔میں نےکہا۔

تم جم کا لباس استعمال کرسکتے ہو۔اس نے تین چارتیراکی کےسوٹ جھوڑے تھے۔اس نے قہقہہ لگاکرکہااور اپنی کمرکی ڈوریاں ڈھیلی  کرکے کھولنے لگی  اور کہا وہ بوڑھاجم جوحادثے میں اس دنیاسے چلاگیا وہ بچے کی طرح ہی توتھا۔وہ بندانگشت کو اپنے عضلات  سے چھوتاتھااور مجھ سے توقع کرتاتھا کہ میں اس کے اس عمل سے خوش ہوجاؤں۔

میں اٹھ کھراہوا۔مجھےاس  پرخوشی تھی کہ ایک بارپھر  جلدی کئے بغیرمیں ہرطرح سے تیارہوگیاتھا۔۔۔لیلا کاچھوٹے دہانےوالا منہ ، اس کااوپروالاہونٹ موسم کے سردگرم ہونے سے چھوٹی چھوٹی   جھری  دار کنگھا بن چکاتھا،اور اس کی خوبصورت آنکھیں ،جوہیروں کی طرح  چمک رہی تھیں۔ایک تڑے مڑے کاغذ کی طرح،اس کی پھل دار روشن تھیں جویاددہانی   کرارہی تھیں جس میں میری اوراس کی والدہ  جنہوں نے چاہاکہ وہ زندہ رہیں ، ایک آدمی کی طرح۔

ایک بار میں اپنی والدہ کےایک  طرف سویاتھااوراس کی بیماری کو محسوس کررہاتھاجو   ایسالگتاتھا کہ بچے کی طرح نموپارہی تھی۔میں اس کی خاموشی کےسائے میں تمام رات  جاگتارہا، ماں کابےداغ حیرت انگیز خوبصورت جسم ،اس کی انتہائی اچھوتا خوبصورت  ذہن  جو  شادی وغم سے بیگانہ تھا۔ تاریکی میں اس کا درد اس کی  تپش   کااحساس دلاتاتھا۔دنیاسے روانگی کے آخر ی وقفوں میں  جب  درد کم کرنے والی ادویات کم یاختم کردی گئی تھیں  ،تو اس وقت اس سےمجھسے ایسےبولی جیسے کہ زندگی میں وہ مجھ  سےپہلی بار گفتگوکررہی ہو۔اس کالہجہ نرم تھا،جووہ اس وقت استعمال کرتی تھی جب وہہ کسی دوسرے بچے کو جسے وہ اچھی طرح نہیں جانتی تھی  سےبات کرناہو۔

میں  نے ایک طویل سہ پہر پرگزارناتھی،میراخیال تھا کہ شائد وہ مجھ سے مذاق کررہی تھی۔اس نےایک بار اعتماد اور اعتراف کیا۔'فرض کیاکہ تم جنت میں نہیں  جاتے۔؟'یاایک بارپھر،میں  جانتی ہوں کہ میں تمہارے لئے بورنگ تھی،لیکن میں نہیں جانتی  کہ میں تیرے علاوہ اور کس کوبورکروں'۔اپنی حیرت زدگی میں جب میرےآنسو آتےتووہ اس کےبالوں کوچھوتی اوراس میں اتنی جرات  نہیں تھی کہ اس کےچہرےکوچھوئے۔

مجھےاب واپس جاناچاہیئے۔میں  نےاعلان کیا۔

کہاں اورکس کےلئے؟ لیلانے پوچھا۔

اس سرائے میں  جہاں مچھلیاں کھچاکھچ بھری ہوتی ہیں جن سے آئرین محبت کرتی تھی۔ان   بے نام گھونگھوں کےخول   جواس نے

بچارکھے تھے ۔ میں  آئرین  کواپنے تخیلات میں اب بھی یادکررہاتھااور ایساخیال کررہاتھا  کہ وہ اب بھی میرےساتھ تھی۔جب آئرین  کی موت  ہوئی تھی  تووہ میرے گرد اس طرح  لپٹی ہوئی  تھی۔جس طرح  کہ سونے پر کفن اورچاندی کا دھاگہ پڑاہوتاہے۔

تم ہمیشہ سے ہی واپس جاناپسند کرتے تھے،لیلانےکہا،اس کالب ولہجہ  اب کینہ پرورنہیں رہا  تھابلکہ سوچ وبچار رکھنے والا لگ رہاتھا۔میرا صاف ستھراسر  خوشی سے جھکا جیسے کہ میں  یہ کسی خاص مقصد کےلئے کررہاتھا۔۔۔ وہ کیاتھی : ایک ننھی  سی بوڑھی خاتون جوآج بھی موقعے کی تلاش میں تھی، کہ اپنے ہاتھ استعمال کرسکے،لیکن اب تم آزاد ہو۔میں نے کہا

اپنے سامنے والے کمرے میں واپس آکر میں نے دروازے کےباہردیکھا۔ایک  محدود آسمان پر جوکہ اس بارمستطیل تھا، ایک طویل سفرہوسکتاتھاغروب آفتاب کے بعد،عظیم جنوبی فلوریڈا کے دلدل میں۔

اچھا،آزاد کے کیامراد ہے؟اس نے پوچھا

میرے نزدیک یہ  ذہنی اختراع ہے۔جو ہمیشہ سے ذہنی  کیفیت رہی ہے۔اگرہم  ماضی کےجھروکوں میں دیکھیں تو۔۔۔شائد میں   اب اتناہی آزاد جتنا کہ اشیاہوسکتی  تھیں۔


Popular posts from this blog