شہہ بانوئے باراں Rain Queen By Nadine Gordimer (Nobel Laureate)

`               

 

 

 

 


 

شہہ بانوئے باراں

 Rain Queen

By

Nadine Gordimer (Nobel Laureate)

 

 

مترجم:غلام محی الدین

ہم ان دنوں افریقی ملک کانگو میں تھے۔میں اس وقت انیس سال کی تھی۔میری بیسویں سالگرہ ابلاس میں  اپنے والد  اور اس کے  پروجیکٹ منیجر' مارلوایم۔نیووینزہوئی ' کے ساتھ  منائی جانی تھی۔میرا والد  ان دنوں حاکم وقت کےاصرارپر' آریلیس 'میں  ْالزبتھ وِل 'اور ڈکٹیٹر شومبی کے محل تک ایک ایسی سڑک بنوارہاتھا جومحض جلوسوں اور موٹر سائیکلوں کے لئے  وقف ہو۔میں اس جگہ سے دور 'لبوموباشی ' میں رہ رہی تھی۔اس سڑک کی تعمیر کے دوران اس کی حکومت کاتختہ الٹ دیاگیااور وہ جلاوطنی میں ہی مرگیالیکن اس پروجیکٹ پرکام جاری رہا۔شومبی نے میرے والد کو جو شہرہ آفاق  تعمیراتی کمپنی کا مالک  تھابطور خاص جنوبی افریقہ    سے درخواست کرکے بلایاتھااور اسے پورے اختیارات دئیے تھے کہ وہ اپنی مرضی سےاس سڑک کو  ڈیزائن کرے،جہاں سے چاہے اپنی مرضی کے انجینئر بلوائے اور جتناچاہے رقم خرچ کرکے مکمل کرے۔ اس کے علاوہ بھی اسے کئی پروجیکٹس دئیے گئے۔ تعمیراتی مقام پر انجینئروں کے لئے  تمام تر تعمیراتی جدید ترین سہولیات کے ساتھ   انتظامیہ کے لئےآرام دہ اوطاق ، عملے اور مزدوروں کے لئے خیموں کی بستی آباد کر دی تھی۔مارکو طالوی  انجینئرتھا لیکن جاہنسبرگ میں مقیم تھا۔وہ تعمیراتی کام میں طاق تھا۔والد نے اسے پرکشش مراعات کے ساتھ کانگو اپنے پاس بلالیا۔اس کے علاوہ اس نے   سویڈن ، بلجیم اور یورپ کے انجینئروں   کی خدمات بھی حاصل کیں جبکہ مزدوراور نچلاعملہ اور مزدورمقامی  لوگوں   سے  بھرتی کر لئے۔

ٹھیکہ لینے کے بعدوالد کانگو چلاگیااوروالدہ کو اپنے پاس   بلالیا۔ اس نے وہاں  پراجیکٹس کی تکمیل تک رہناتھا۔ہم ان دنوں  ہم اپنے

وطن جنوبی افریقہ میں اپنے گھر  جوہنسبرگ    میں مقیم تھے۔ میں وہاں سے نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ اس وقت میرا ایک لڑکے سے معاشقہ چل رہاتھا۔ میرے محبوب کا نام       'ایلن ' وہاں تھا۔ ہمارارومانس  زوروں پرتھا۔  میں وہ جگہ قطعاًنہیں چھوڑناچاہتی تھی   لیکن میری والدہ جس نے والد کے ساتھ ہی جانا تھا میری نئی نئی سرکش جوانی کو ایلن یا اوردیگر لڑکوں  کی چیرہ دستیوں سے بچانے کے لئے وہاں بالکل نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔مجھے ایسا محسوس ہورہاتھاکہ     وہ  جگہ چھوڑنے سے میری خود مختاری اور پیار مجھ سے چھن جائے گا۔چونکہ میری عمر بالی تھی  ۔کم عمری اور ناپختگی کی بدولت عدم نگرانی میں موقع کی مناسبت سے صحیح فیصلہ نہ کرسکوں گی اس لئے  انہوں نے طے کیاکہ میں ان کے ساتھ جاؤں ۔اس لئے مجھے ان کے ساتھ جاناپڑا۔

جاہنسبرگ سے میں  جس شہر لے جائی گئی  وہاں یورپی باشندوں اور دیگر ممالک کااعلیٰ طبقہ کے لئے ایک  کالونی بنائی گئی تھی ۔اس میں زبردست کلب بنایا گیاتھا ۔ٹینس، سکواش، فٹبال اور دیگر کھیلوں کے میدان  اور ہرقسم کی تقریبات کے لئے ہال وغیرہ بنوائے گئے تھے۔۔وہاںمیری دلچسپی کی کوئی شئے نہ تھی۔میری بوریت دور کرنے کے لئے میری والدہ نے وہاں مقیم  بلجیم کے ایک جوان شادی شدہ جوڑے سے ملاقات کروائی اور کہا کہ ان سے روابط  قائم کرے۔عورت کانام گیٹی تھا۔ وہ نوجوان تھی اور مجھ سے چند سال ہی بڑی  تھی۔اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔میں صبح اسکے ساتھ کافی پیاکرتی اور ننھے بچوں سے کھیلا کرتی۔میں انگریزی اور فرانسیسی بولتی   تھی۔فرانسیسی میں میں نئی نئی روانی حاصل کی تھی میری والدہ نے سب  کو ہدائت کی تھی کہ مجھ سے فرانسیسی میں ہی بات کیاکریں کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ میرا پوراقیام   اس زبان کو ضائع  کردے ۔ گیٹی مجھ سے فرانسیسی میں بات کرتی۔اس نے مجھے کئی ہنر سکھائے جن میں چاکلیٹ  کے بسکٹ اور نگرانی میں اپنا لباس سیناسیکھا۔               میں وہاں  بالکل اس طرح جیسے دوسال پہلے تک میں سکول میں بے تکلفی  سے باتیں کرتی،کھل کر قہقہے لگاتی  اور خوب ہنسی مذاق کیا کرتی تھی ۔  صبح سے  شام کے نزدیک جب گرمی کی حدت میں تھوڑی بہت کمی واقع ہوتی تو میں ٹینس  یا سکواش کھیلنے چلی جاتی اور کھیل کے بعد اس جگہ سے اپنے گھر 'آرلیس' چلی جاتی تھی جہاں اس وقت میرے والدین اور دوسرے لوگ آجاتے تھے۔وہاں  کھلاڑیوں کے جوڑے بنے ہوئے تھے اور سنگل بھی کھیلتے تھے۔میں  سب سے کم عمر کھلاڑی تھی۔وہاں سویڈن کی ایک خاتون جس کا نام 'گیٹی'  تھا ،کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔یہ وہی خاتون تھی جس کے پاس میں صبح کے وقت جایاکرتی تھی۔وہ بحیرہ روم سے آئی تھی۔اس کا حلیہ کچھ عجیب ساتھا جس میں زنانہ مردانہ کااختلاط تھا   لیکن زیادہ تر وہ عورت ہی لگتی تھی۔اس کے کھیلنے کاانداز ، بھاگنادوڑنا، اچھلناکودنا،شارٹ لگانا،دفاع کرنااور جھکناوغیرہ سب سے مختلف اور مضحکہ خیز تھا۔وہ جھکتی تواس کی گوری چٹی چھاتیاں  اس کے مربع لباس سے صاف نظر آتیں۔اس کے نرم ونازک ہاتھ جس کی انگلیوں میں قیمتی ہیروں کی انگوٹھیاں اور کلائی میں طلائی گھڑی اور اس کے کالے بالوں کے گچھے ایک جل پری کاتاثر دیتے تھے۔اس کا جسم ہلکا زرد تھا۔وہ غیرشادی شدہ تھی۔

پروجیکٹ منیجر مارکوبھی وہاں کھیلاکرتا تھا۔وہ شادی شدہ تھا ۔اس کی بیوی کانام الینورا تھا۔ ان کی شادی کو چھ سال ہوچکے تھے اور وہ بے اولاد تھے۔وہ عمدہ کھلاڑی تھا۔وہ کھیل کے بعد ایک پیشہ ور ٹینس پلیئر کی طرح تولیہ اپنی گردن کے گرد لپیٹ لیاکرتاتھا۔اس کاپورا جسم پسینے سے شرابور ہوتا تھا۔اس کے دانت بہت سفید تھے۔سامنے والا ایک دانت سونے کاتھا۔ کھیل کے اختتام پروہ مجھے میرے گھراتارکر میرے والد سے پراجیکٹ کی روز مرہ  پراگریس اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے اس سے مشورہ کرتا اور ہدایات لیاکرتاتھا۔وہ میٹنگ کے دوران مشرب پیتے۔مارلواس دوران اپنا ہاتھ اپنی قمیص کے اندرڈال کر ننگی چھاتی پر خارش کیا کرتاتھا۔  اس کی گردن اور چھاتی سیاہ بالوں سے بھری  ہوئی تھی۔اس  نے نیکلس پہناہوتاجو اس کے کسرتی جسم کی جنبش سے حرکت کرتاریتاتھا۔ اسے اپنے پیشے سے محبت تھی۔وہ اپنے کام میں ماہرتھا۔اس کے پاس ہمیشہ پروجیکٹ کے بارے میں نئے نئے اچھوتے  خیالات ہوتے تھے اور وہ بڑی سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتاتھا۔کبھی کبھار کسی موضوع پر ان میں بحث بھی ہوجاتی تھی لیکن حکم تومیرے والد کاہی چلتاتھا۔ کارلو خوبصورت تھااور فخریہ طورپرکہتاتھاکہ وہ چاہتاتو'اوپرا'کابہترین ایکٹربن سکتاتھا۔اسے مواقع بھی ملے لیکن اس نے انہیں نظراندازکردیا۔

میں نے اس وقت تک اوپرا کبھی نہیں دیکھاتھاکیونکہ وہ میری عمر کے لوگوں کے لئے نہیں تھا۔ہماری عمروں میں دس سال کافرق تھا۔ ٹینس کھیلنے اور روزانہ مجھے میرے گھر اتارنے سے  شناسائی بے تکلفی میں بدل گئی۔ایک بار اس  نے میرا بوسہ لیامیں شرم سے  چپ رہی تو وہ روزانہ واپسی پر مجھے چومنے لگا اورپھروالد کے ساتھ میٹنگ کرتا۔اس وقت وہ ایسی محویت میں ہوتاکہ اسے دنیاومافیہا کی خبر نہ ہوتی ۔ میں اپنے والد کے کمرے میں بہت کم جاتی تھی لیکن جب بھی جاتی تو میری طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھتا۔وہ ایک   اجنبی  دکھائی دیتا۔

سال کے اس حصے میں برسات شروع ہوجایاکرتی تھی۔ہر سہ پہر کو  اچانک آندھی آتی، مٹی  اڑتی اور ادھر ادھر پھیل  کر درختوں سے چمٹ جاتی۔ کبھی رم جھم اور کبھی موسلادھاربارش ہواکرتی تھی  جس سے کار کی سکرین سے نظرآنابندہوجاتا تھا۔ اتنا شور ہوتا کہ کارمیں ساتھ ساتھ بیٹھے لوگوں کوبھی پھیپھڑوں  کازور لگاکربولناپڑتا۔بادوباراں  جو روزانہ تقریباًایک گھنٹہ رہاکرتی تھی گرمی اپنے ساتھ لے جاتی تھی۔اس کے پندرہ منٹ بعد یہ احساس ہی نہیں ہوتاتھاکہ آندھی اور بارش ہوئی تھی۔

ایک بارہم سہ پہر کے بعد ٹینس کھیل کر واپس آرہے تھے تو  شدید بارش  شروع ہوگئی ۔ ہم شور میں ایک دوسرے کی آواز نہیں  سن سکتے تھے۔اس لئے وہ اونچی اونچی آوازوں میں گفتگو کرنے لگے۔ اس جگہ سےسائٹ  نزدیک تھی اسلئے وہ وہاں لے گیا۔ مارکو نے  بتایا کہ سائٹ پر اس کے لئے ایک آرام دہ اوطاق بنایاگیاتھالیکن وہ وہاں رہتا نہیں تھااور بالکل خالی تھا۔یہاں تک کہ اس نے اس کا قبضہ بھی نہیں لیاتھا۔وہ جگہ اجاڑتھی ۔ اگرچہ خیموں میں کچھ مزدور رہتے  تھے   جو کارلو کے اوطاق سے ہٹ کرتھے۔  زیادہ تر شہر چلے جاتے  کیونکہ انہیں وہاں  بہتر سہولیات میسر تھیں تاہم خیموں کی حفاظت کے لئے چوکیدار رکھاگیاتھا۔ مارکو اس موسم میں رومانوی ہورہاتھا وہ بولاکہ کانگو میں ایک کہاوت ہے ' اگر بارش موسلادھارہورہی ہوتو فوراً کسی لڑکی  کو ڈھونڈلو اوراور اسے  بارش ختم ہونے سے پہلے فوراً   اپنے بسترپرلےجاؤ۔'باتیں کرتے ہوئے ہم مارلو کےاوطاق  پہنچ گئے۔وہ ایک  چھوٹے سے فلیٹ کی طرح تھاجس میں ضرورت کی ہر شئے موجود تھی۔مارکو بھی اس خیمے کو پہلی باردیکھ رہاتھا۔اس میں غسل خانہ،باورچی خانہ،پردے، ریفریجیریٹر، مائیکرو، پھل، شراب،مشروبات  وغیرہ موجود تھے۔گورے دراز قد ہوتے ہیں۔چھ فٹ سے چھ فٹ چارایچ لمبے ہوتے ہیں لیکن مارلو اوسط قد کا تھالیکن اس کاجسم کسرتی تھا۔جسم اور ٹانگیں مضبوط تھیں جس پر گھنے بال تھے اور اس نے میری ٹانگوں کو جکڑلیااور بغلگیرہوگیا۔ ایساہم نے نہ تو پہلے کبھی نہیں کیاتھااور نہ ہی سوچاتھا۔

اگلے روز مارکو کھیلنے کے بعد مجھے سیدھاگھرلےجارہاتھا۔میرے منہ سے نہ جانے کیسے نکل گیاکہ کیاہم اوطاق نہیں جارہے؟یہ بات بے سوچے سمجھے نکل گئی تھی جو مجھے بالکل بھی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔

اوہ ڈارلنگ! کیاتمہیں اس سے مایوسی ہوئی کہ ہم  گھرجارہے ہیں؟اس نے قہقہہ لگایا۔میرے کانوں کو چوما چوسااور سرگوشی کی۔تو ٹھیک ہے اوطاق ہی چلتے ہیں۔۔۔پھرہم وہاں ہروقت ہفتے کی سہ پہر  جاتے رہے۔وہ ہفتے کو کلب نہیں آ سکتاتھا کیونکہ وہ دن خواتین کے لئے مختص تھاجوسکواش اور ٹینس کھیلاکرتی تھیں۔ہم اوطاق پہنچتے تو چوکیدار  اوطاق کے باہر کارکھڑی دیکھ کر اپنے مزدوخیمے سے ُدلکی لگاتے ہوئے آجاتا اور مسکراتے ہوئے معنی خیز نظروں سے دیکھتااور دیر تک اسے باتیں کرتا۔شروع شروع میں تو میں سہمی سکڑی باہر کھڑی رہتی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ آگے کیاکرناہے۔میں اس کے اشارے اور ہدائت کی منتظر رہتی لیکن وہ  خرانٹ  تھا جس کو خود پر پورا اعتماد تھا۔وہ مجھے کہتاکہ گھبراؤنہیں۔وہ بوڑھا چوکیدار کچھ نہیں کہے گا۔سب ٹھیک ہے۔وہ کسی کو نہیں خبرکرے گا۔وہ میرادوست ہے۔کالو اسے بھاری بخشیشیں دینے لگا۔

مارکو نے مجھے  سکھایاکہ  اوباشی کیاہوتی ہے۔میں لذت گناہ میں ڈوب گئی ۔اس  دوران  میں نے اپنے بوائے فرینڈایلن سے رابطہ ختم کردیا۔اس کے خطوط آتے رہےلیکن میں نے کوئی جواب نہ دیایا ہفتوں بعدمختصرسالکھ دیتی۔اوطاق میں میں نے جی بھرکےہرقسم کی حسرتیں پوری کیں۔میں باقی سب کچھ کررہی تھی سوائے ایلن  کی محبت بھرے خطوط کا   موزوں جواب دینے کے۔وہ میری جدائی میں پاگل ہواجارہاتھا۔تنگ آکراس کے خطوط کے جواب میں بادل نخواستہ ایک گول مول خط لکھاجو ذومعنی تھاجس میں محبت کا اقرار بھی تھااورانکاربھی۔ایلن اب میری سوچوں سے باہرہوگیاتھالیکن رسم نبھانے کی خاطر میں نے جوب بھیجاتھا۔وہ مارکوکےمقابلے میں بہت معصوم تھااور ناتجربہ کارتھا۔وہ صحیح متن تک پہنچ نہیں سکتاتھا۔کبھی کبھار اندر سے میں خودکوبرابھلاکہتی کہ میں اس سے دھوکہ کررہی  تھی  ۔احساس جرم بھی ہوتاتھااورپریشان بھی ہوجاتی تھی لیکن مارکو کی جسمانی لطف میں ڈوبی ہوئی تھی اسلئے وہ احساس جلد ہی مٹ جاتا۔

یہ عجیب بات ہے کہ مارکو جب میرے والد، دوستوں ،کلب  ،عوامی مقامات  اور دوسرے لوگوں کے سامنے ہوتاتواس کارویہ بیگانگی والاہوتا۔میں بھی  لاپرواہی اور بے نیازی ظاہر کرتی تھی۔یہی رویہ وہ اپنی بیوی کے سامنے بھی اپناتاتھا۔اس نے مجھ سے پہلی بار جنسی فعل کیاتومیں بہت خوفزدہ ہوگئی تھی۔مجھ پر دہشت سوار ہوگئی تھی ۔اس وقت مجھے ایسے لگا کہ اس کی بیوی جس کا نام 'الینورا'تھا  نے مجھے اپنے میاں کےساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیاہو۔اصل بات یہ تھی کہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سےوہ مجھے بہت پسند کرتی تھی۔ جہاں کہیں میں اسے ملتی وہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آتی میرا ہاتھ کھینچ کربغل گیر ہوتی اور مادرانہ شفقت دکھاتے ہوئے میرا ماتھا  اور گال چوم لیاکرتی تھی۔یوں تو وہ ہر چھوٹی عمر کے بچوں کو پسند کرتی تھی لین سب سے زیادہ مجھے پیارکرتی تھی۔ احساس گناہ کی وجہ سےمجھے اس کے نام سے  میں اس سے خوف  کھاتی تھی۔میں حتی الوسع کوشش کرتی کہ اس سے سامنا نہ ہو۔

اتفاقاًایک روز اتوار کو گھوڑسواری کرکے گھر آئی تووہ  ماں کے پاس بیٹھی  تھی۔میری تو سٹی گم ہوگئی۔وہ اپنے میاں اور میرے ناجائز تعلقات  کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔چونکہ میرے اندر چورتھااس لئے میں ڈر گئی تھی۔

الینوارامیری والدہ سے اپنے خاندان کے بارے میں باتیں کررہی تھی جوفرانس میں گینووا کے مقام پررہتاتھا۔اس وقت میرے والد اورکالونی کے دو جوڑے اور بھی موجود تھے۔اس نے  میری طرف دیکھ کر پرجوش آواز میں کہا۔لو!  بالآخرمیری شہزادی آہی گئی۔مجھے پیار سے اپنے پاس بٹھایا ۔عارض  اورماتھاچوما۔انہوں نے وہ پورادن ہمارے ساتھ گزارا۔رات کے بار ہ بجے تک ڈانس چلتا رہا۔مارکو اس وقت انتیس برس کاتھا۔وہ برج قوس(سیگی ٹیری یس) اور میں برج مشتری (جوپیٹر )تھی ۔محفل میں موجود لوگوں کے ستاروں  کی چال پر گفتگو ہوتی رہی۔مارکو۔اس وقت الینورا اپنی موٹی ٹانگیں ایک دوسرے کے اوپررکھ کر بیٹھی تھی۔اس نے میرے ہاتھ کو بڑے پیار سے کھینچاتاکہ وہ میرا مادرانہ بوسہ لے سکے۔اس کے بال میرے چہرے پر پڑے  تواس کی مہک  بڑی اچھی لگی۔اس کے بعد وہ  ڈیزائینر جوتوں کی باتیں کرنے لگی جو اس کی نند نے میلان  سے بھیجے تھے۔یہ ایساموضوع تھاجس  کی مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ ہم باتوں میں ایسی محو تھیں کہ باقی تمام لوگوں کونظراندازکردیاتھا۔مارکو اور میں تمام وقت ایسے بیٹھے تھے جیسے سرسری واقفیت ہو۔ محفل رات گئے اختتام پذیر ہوئی۔

گیٹی ہر اتوارسج دھج کرصبح گیارہ بجے  کیتھولک گرجے جایاکرتی تھی۔اس گاؤں میں سفید فام باشندوں کی کمی  تھی۔میری والدہ اس بات پر خوش تھی کہ میں  سویڈن کےنوجوان جوڑے کے ساتھ وقت گزار رہی تھی اور انقلابیوں اور کرائے کے قاتلوں اور اوباشوں     سے محفوظ تھی۔وہ خطرناک  اور پیشہ ور مجرم یا حکومت کے کٹر مخالف تھے جو کسی حد تک جاسکتے تھے۔ وہ لوگ درماندہ درگاہ تھے۔ان کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں تھا۔وہ دربدر اپنے شکار کی تلاش میں بھٹکتے رہتے اور موقع ملتے ہی اچک لیتے۔لوٹ لیتے، عصمت دری کرتے یا جان سے مار دیتے اور غائب ہوجاتے ۔شہر، صوبہ یاملک چھوڑدیتے۔  والدین میرے  اور مارکو کے ناجائز تعلقات سے بالکل بے خبر تھے۔ان کے نزدیک  چونکہ میں  شادی شدہ لوگوں کے ساتھ وقت گزاررہی تھی اس لئے  میری جان ومال اور عزت محفوظ تھی۔

مجھے یہاں آکراندازہ ہواکہ دنیامیں کس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔اگرکوئی لڑکی جانتے بوجھتے کسی کےساتھ سمبندھ بنالیتی ہے تووہ بیوقوف ہے۔میں بھی ان لڑکیوں میں تھی  جو یہ سمجھتے تھے کہ اس کے بھیانک نتائج  کے لئے تیارہوناچاہیئے۔میں اس وقت بھول گئی تھی کہ جوہنسبرک میں میرا محبوب ایلن میری راہ تک رہاتھا۔ میرانام الاپتارہتاتھا۔وہ بہت اچھا لڑکاتھا۔مخلص تھا۔وہ محبت کے ساتھ ساتھ میری بہت زیادہ عزت کرتاتھا۔اس کی چاہنے والی بہت سی یورپی اور خوبصورت لڑکیاں تھیں لیکن وہ ان کی طرف مائل نہ تھا۔میں جہاں رہ رہی تھی وہاں بہت  سے یورپی باشندے تھے لیکن ان کے مابین تعلقات واجبی تھے۔اپنے راز، دکھ سکھ نہیں بانٹے جاسکتے تھے۔میں وہاں  کارلو کا جنسی کھلونابن کررہ گئی تھی جہاں دکھاوے کی ہی محبت تھی۔بلجیم کی ایک خاتون  جب بولتی تو ایسے لگتا کہ وہ غصے میں بول رہی ہولیکن کم وبیش اکثر وہ  اس سے سرگوشیاں کرتی  اور قہقہے لگاتی  اور اس کے ہاتھ پر چٹکی کاٹتی رہتی تھی۔

کلب میں مارکواور میں ٹینس اور سکوائش کے  عمدہ کھیل کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ڈانس  میں میں اور نیو کیلوڈینیا  کی خاتون میریلی کاخاونداور میں بہترین جوڑا  ہواکرتے تھے۔ڈانس فلور ایسی جگہ تھی جہاں مارکو اور میں لوگوں  کی نظروں میں آسکتے تھے اس لئے ہم وہاں ایک دوسرے سے بہت زیادہ فاصلے پر رہے۔ ہمارے ناجائز مراسم کاعلم کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ہم روٹین کے مطابق  سائٹ کے اوطاق میں مزے کرتے رہے ۔جوں جوں ہفتے گزرتے گئے  میں جنس میں ماہر ہوتی گئی          اور مباشرت اعلیٰ سے اعلیٰ ہوتی گئی۔کارلو نے مجھے جو سبق سکھایااورہم آہنگی پیداکی  اس سے ایلن نابلد تھا۔کلب کے ٹینس کے کھلاڑی اور تماشائی کارلواور میرے  کھیل کے دلدادہ تھے۔وہ ہماری ہر شاٹ پر تالیاں بجایا کرتے تھے۔کارلو کی بالوں والی  کسرتی چھاتی کھیل کے دوران پسینے سے شرابور ہوتی تومجھے بڑی اچھی لگتی اور تخیل اوطاق آجاتا۔ ڈبل میں ہم  جوڑا تھے اوربہترین کھلاڑیوں کے جوڑے کو زبردست مقابلے کے بعد ہرادیا کرتے  تھے۔جب ہم جیتتے تو وہ مجھے کہنی مارکر گلے لیاکرتااور  عجیب سی مسکراہٹ  کے ساتھ اطالوی زبان میں  تعریف کیاکرتااو ر کہتا        کہ میں  نے تم سے زیادہ چالاک لڑکی آج تک نہیں دیکھی۔ہمارے علاوہ اورکوئی نہیں جانتا تھاکہ علیحدگی میں وہ مجھے کیاکہا کرتاتھا۔ مارکو   نے باتوں باتوں میں بتایاتھاکہ اس کی ایک کزن مجھ پر فریفتہ تھی۔میں چھٹیوں میں اسے لے کر ابروزی  پہاڑوں پرچلاجاتا او        ر اسے اسطرح برتتاجیسامیں چاہتا۔مارلو نے یہ بھی بتایا کہ مجھے تمہاراوالد پسند ہے۔تم سمجھ سکتی ہو! وہ معنی خیز لہجے میں کہتا  مجھے اس کی اٹلی کے ٹیلکم پاؤڈر کی خوشبو بہت پسند ہے جووہ اپنی کمرپرلگاتاہے۔مجھے تمہارے والد کے ساتھ کام کرنا اچھالگتاہےلیکن بعض اوقات وہ غلط باتوں پر اڑ جاتاہے اور اس کی باتیں مانناپڑتی ہیں۔مجھے کارلوکی باتیں دلچسپ لگتی تھیں۔وہ عام باتیں کرتے کرتے اپناکام دکھاجاتااوراپنامقصد پوراکرلیاکرتاتھا۔مجھے بہرحال اس کے آگے ہتھیارڈالنے پڑتے تھے۔مارکو کے ساتھ رہتے ہوئے مجھ میں روزبروزاعتماد بڑھتاگیا۔تکبر آنے لگا۔میں اس ایلن سے جویہاں سے بہت دورتھاکو کمتر سمجھنے لگی۔میں نے مارکو سے پوچھا کہ ایلن کواگرہمارے تعلقات کاپتہ چل گیاتوکیاہوگا؟تو مارکو نے کہا کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر تم نے اپنے بستر کی صلاحیتیں دھائیں تو عمر بھرتمہارادیوانہ رہے گا۔ بہرحال سائٹ کابوڑھا چوکیدار  مسلسل بھاری بخشیشوں سے ہم سے بہت خوش تھا۔

تمام شادی شدہ مرد جو کلب آتےتھے، اپنی اپنی بیویوں  کی بجائے دوسروں کی بیویوں   کوتاڑتے رہتے تھے۔ان پر  ڈورے ڈالنے کی کوشش کرتے تھے اور زیادہ تر کامیاب بھی ہوجاتے تھے۔

شام کے وقت کلب میں اکٹھے ہوتے تو میں ان کی دلچسپیوں  کا بغور جائزہ لینے لگی۔میں نے ان تمام بیویوں سے جو دنیابھر کے ممالک سے وہاں آئی ہوئی تھیں اکیلے میں پوچھاکہ اگراس کے کسی غیرمحرم سے ناجائز تعلقات ہوںاور خاوند کو علم ہو جائے تو وہ کیا کریں گے۔ ہر ایک کی متفقہ رائے تھی کہ خاوند بغیر کچھ کہے سنے فوراًگھر سے نکل جائے گااور وہ اس کاہفتوں سراغ بھی نہیں لگاسکے گی اور زیادہ تر امکانات تھے کہ شادی ٹوٹ جائے گی۔ میں مارکوکو سیکنڈ ہینڈکہانیاں سناتی  اور ایسے تعلقات میں پیچیدگیاں بیان کرتی تو وہ قہقہے لگاتارہتا۔ اس وقت وہ شراب کی بوتل کھول لیاکرتااور منفی  رداعمال کونیارخ دے دیاکرتاتھا۔

  تنہائی میں ہماری  بے تکلفی بہت زیادہ تھی۔ہم بستر پر لیٹے ہرطرح کی باتیں کرتے۔ مجھے احساس ہوا کہ  اس کے لئے تو جنس کظری غدودوں کے حد تک ہی محدود تھی۔اس میں نہ تو خلوص تھا اور نہ حقیقی چاہت۔ مجھے اس کی عیاریوں کا احساس ہونے لگا۔اس کی منفی باتیں  اجاگر ہونے لگیں۔ان میں  روزبروز اضافہ ہونے لگا۔  کمزور لمحات میں میں نے کارلو سے پوچھاکہ اگرتمہاری بیوی  الینورا  کے ناجائز تعلقات کسی کے ساتھ ہوں اور تمہیں پتہ چل جائے توتم کیا کروگے؟

اس ذکرکوچھوڑو میرے ہروقت عیب نکالنے والی ننھی یاب۔مارکونے کہا۔

میں اس وقت تک تمہیں نہیں چھوڑوں گی جب تک تم اس بات کاجواب نہیں دوگے۔ میں نے کہا۔

میرا خیال ہے کہ  یہ بات پوچھنے پر میں تمہاری پیٹھ پر ایک ہلکاساتھپڑمارکر تمہیں سزادوں پھر کہامیں غصے سے پاگل ہو جاؤں گا۔فوراً  یہ ملک چھوڑ جاؤں گااوراسے طلاق دےدوںگا۔ ۔ میں یہ سن کر سوچتی تمام مرد منافق ہوتے ہیں اوراسی طرح کے نظریات رکھتے ہیں۔میرے والد کے ایک  دوسرےپروجیکٹ میں جو دوسرے شہرمیں تھا ۔میں کوئی تکنیکی مشکل پیداہوگئی۔مارکو نے بھی اس کے ساتھ جاناتھااور وہ مجھے اپنے ساتھ لے جاناچاہتاتھالیکن اسکی بیوی الینورااسکےساتھ وہاں جانا چاہتی تھی۔مجھے کہا کہ کوئی ایسا پروگرام    بناؤں کہ الینورا نہ جاسکے اور میں ہی جاؤں۔ میں نے اپنے باباکومجبورکیاکہ میں ہوابدلی کے لئے اس کے ساتھ ضرور جاؤں گی۔وہ مان

گیا جبکہ الینورا کو مارکونے یہ کہاکہ وہ یہ دوردراز سفر کارسےطے کریں گے۔الینوراکار کے سفر سے بیمار پڑجاتی تھی۔اس نے اپنے میاں کو کہاکہ ہوائی جہاز سے چلے تواس نے کوئی بہانہ بنادیا۔ وہ نہ گئی ۔کارلو کو خدشہ تھا کہ میرا کمرہ الگ ہوگاتو میں نے کہا تو کیاہوا۔ہم روز مل سکتے ہیں۔ہم نے وہاں خوب مزے اٹھائے۔

مارکو لاطینی،فرانسیسی کے علاوہ انگریزی بھی بول لیتاتھا۔وہ جومحاورہ اکثر استعمال کرتاتھا۔ان میں ایک سے میں مانوس ہوچکی تھی۔وہ پاگل کوذہنی مریض کے معنوں میں استعمال نہیں کرتاتھا بلکہ جھلے کے معنی لیتاتھا۔اس کے لئےمیں اس کا جنسی  خزانہ تھا۔اس کی خوشی تھی۔وہ میرے ساتھ تعلقات سے بہت خوش تھا۔جب ہم اوطاق میں ہوتے تو میں اس کو مسلسل دیکھتی رہتی۔اس وقت بھی جب وہ اونگھ رہاہوتاتھاتواس کی آنکھیں سکڑکر اس کےباریک نتھنوں سے جس میں اس کے کالے بالوں کاگچھانظرآتا جب وہ سانس لیتاتھااوراس کے کان جوگرمی کی لو سے جل گئے تھے میں ایک خاص نشان بناتاتھا جس سے ایک نمونہ بن گیاتھا۔وہ سویاہوابھی بہت سوہنالگتا تھا۔  میں اس کے پاؤں پر اپناپاؤں رکھ دیتی تھی تو اس کے جسم کاایک حصہ ابھرناشروع ہوجاتاتھا۔اس وقت وہ کبھی آہستہ اور کبھی اونچی آواز میں میرانام پکاراکرتاتھا۔اس کے بعدوہ اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولتااور پوری کھولے رکھتالیکن میری طرف نہ دیکھتا۔  اس کے بعد وہ اٹھ بیٹھتا ، سگریٹ سلگاتا اور مجھے کہتا۔میں خواب دیکھ رہاتھا۔۔۔اوہ!یہ توکوئی اوردنیاہے۔

میں الینوراکوہرروزدیکھتی تھی۔وہ اپنے گھر میں کم عمر نوکررکھتی تھی تاکہ اسے  اولاد کی محرومی کا احساس نہ ہو۔میں جواس کے ساتھ کھلوارکررہی تھی مجھے اس پر اب  نہ تو احساس گناہ ہوتاتھااورنہ ہی احساس ندامت۔مارکوسےناجائزتعلقات سے قبل میں ایسے روابط کو گھناؤناسمجھتی تھی۔ایک بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور سے  منہ کالاکرنااوربیوی کاایسے تعلقات سے آنکھیں پھیرنایابیوی کا بے وفائی کرناناقابل معافی جرم سمجھتی تھی۔مجھے الینورا کے مارکو پر بھرپوراعتماد پر غصہ بھی آتاتھااور ہنسی بھی جب وہ  یقین کے ساتھ کہتی کہ کارلو دن رات محنت کرکے پراجیکٹ مکمل کرہاتھا۔کل رات کوبھی اسے سائٹ پر رہناپڑاتھا۔وہ باضمیر ہےاورنہائت دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتاہے جبکہ وہ اس وقت میرے ساتھ نہواکرتا  تھا۔پچھلی رات جب وہ میرے ساتھ تھا تو  مارکومجھے  کہہ رہا تھاکہ مجھے جانا ہوگاکیونکہ الینور ابیچاری کئی ہفتوں سے گھر تک محدود ہوکررہ گئی  تھی۔میں اس کی بوریت  فلم دکھاکر یا سیرو تفریح یا شاپنگ کرواکراپنے پیار کایقین دلادوں گا۔ وہ مطمئن ہوجائے گی ۔تم جانتی ہوکہ کرسمس  کی خریداری اس کے لئے کتنی اہم ہوتی ہے۔وہ بڑی محبت اور محنت سے ہرایک کے لئے تحائف خریدتی ہے۔ اس کی خالہ بھی اٹلی سے آئی ہوئی ہے۔اس کے آنے سے روزانہ  دعوتیں  ہورہی ہیں۔ان میں صرف  وہ لوگ ہی مہمان ہوتے ہیں جوُان کی مادری زبان  سمجھ اور بول سکتے ہوں کیونکہ اس کی خالہ کوئی اور زبان نہ سمجھ سکتی تھی۔

مجھے یادہے کہ ایک اتواران کے گھراپنی والدہ کے ہاتھ کی بنی سپیشل آئس کریم لے کرگئی۔ لوگ اس وقت  سخت گرمی میں برآمدے

میں  نشست جمائے تھے۔ان کے بچوں کو نوکرانیاں کھلا رہی تھیں۔مارکو اس وقت مردوں کے ساتھ بیٹھاگپ شپ کررہاتھا۔اس نےوہ قمیص پہنی ہوئی تھی   جوالینورا نے اس کے لئے خصوصی طور پر سی تھی۔ کارلونے  ٹائی ڈھیلی  کی ہوئی تھی۔ایک ہاتھ میں خلا ل تھادوسرے میں سگارتھااور اس کی راکھ  الینورا کے خریدے ہوئے سانپ کی شکل کے ایشٹرے میں جھاڑ رہاتھا۔مجھے یاد ہے کہ اس رات  مارکونے اوطاق میں مجھےدوبارہ کہا۔اوہ خدا! میں جاگنانہیں چاہتا۔۔۔میں حالت خواب میں تھا۔وہ افسردہ لگ رہاتھا۔اس نے تنگ جین پہن رکھی تھی۔ وہ اٹھااور ننگے پاؤں زمین پر چلنے لگااورکہا۔میں یورپ کبھی نہیں گیا۔میں تمہارے ساتھ کار میں پائی مونٹ  جانا چاہتاہوں اور تمہیں وہ گاؤں دکھاناچاہتاہوں جہاں میراوالدرہاکرتاتھا۔ہم وہاں گرجاگھر کی دیوارپرچڑھیں گے۔میں تمہیں چوٹی  تک لے جاؤں گا۔وہاں جاکرتمہیں الٹا گھماؤں گا تو تمہیں ماؤنٹ بیانکودورسے نظر آئے گا۔وہاں ناشپاتیوں کے درخت کے باغ میں بلبلوں  کے رس بھرے گیت سنیں گے۔ کیا تم نے  کبھی بلبلوں کو چہچہاتے ہوئے سنا؟

دو ماہ ایک ہفتہ اور چھ دنوں بعدالینواراٹلی واپس چلی جائے گی۔الینورا پہلے پیسا شہر جائے گی۔۔۔ ہاں۔ ماں نے مجھے بتایاتھا۔ میں نے کہا۔۔ ۔وہاں اس کا خاندانی ڈاکٹر ہے وہ اس سے علاج کروائے گی تاکہ اسے بچہ ہوجائے۔اگرچہ تمام ڈاکٹروں نے اس کے بانجھ پن کی تصدیق کی ہے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور وہ اپنے ڈاکٹر سے علاج کرواکر سب کو جھٹلائے گی۔یہ کہہ کراس نے میری طرف شرارتی نگاہوں سے دیکھااور ہم نے زوردار قہقہہ لگایا۔

میرے ذہن میں آیاکہ الینورا کے ساتھ ایک  کھیل کھیلوں۔اس کا کسی کے ساتھ عشق پیچہ شروع کروادوں۔سوچ بچار کے بعد ہمارا کمسن  نوکر جس کا نام ڈیوک تھا  کواستعمال کرنے کاسوچا۔وہ سیاہ فام نہیں تھا۔الینورا کم عمر نوکروں کو پسندکرتی تھی۔میں نے سوچاکہ وہ اسے زیادہ  پیارکرے گی  تاکہ ماں کی طرح کاپیار بھی دے سکے اور محبوبہ کابھی۔ڈیوک  کوکوئی لڑکی ماسوائے طوائفوں کے  گھاس نہیں ڈالتی تھی۔میرااندازہ تھاکہ اگر وہ الینورا کو پھنسانے میں کامیاب ہوگیاتوبڑا مزہ آئے گا۔ میں نے اس نوکر کی تعریفوں کے پل باندھ کر اس کے گھر ملازم کروادیا۔ اس کے بعد میں نےالینورا کی حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لینا شروع کر دیا۔اس کی لمبی جرابوں کے اوپر چولی  میں  گوشت سے بھری سفید چھاتیاں   ضرورت سے زیادہ بہار دکھلانے لگی۔اس کالباس روز بروز تنگ اور چھوٹا ہوتا گیا۔ الینورا کس قدر سیکسی تھی اسے اس کااندازہ ہی نہیں تھا۔ادھر ڈیوک پر بھی خمارچھایارہتاتھا۔ مجھےاندازہ ہوگیاکہ کیوپڈ کاتیر ٹھیک نشانے پر جالگاہے ۔

اس وقت کوئی طریقہ نہیں تھاکہ میرے منصوبے کے حتمی نتیجے کا علم ہو سکے۔کارلواور میں بدستور اوطاق میں محبت کرتے رہے۔ بارش کی موسیقی ان لمحات میں لطف دوبالاکرتی رہی۔اس دوران شومبی کے پروجیکٹ میں بہت سی رکاوٹیں  آئیں ۔ میرا والد،مارکو اورالینورا سخت پریشان تھےلیکن  مارکو نے اسے اپنے ہنر،بصیرت اور عزم سے دور کیا۔ مسائل حل کرنے کے بعد اوطاق میں پیر پسار کر ایسے لیٹ جاتاجیساکوئی اتھلیٹ فتح حاصل کرنے کے بعد لیٹتاہے۔مارکواور میراعشق   برابرجاری رہا۔ہمارے درمیان کوئی تیسرا نہیں ہوتاتھا، نہ سڑکیں، نہ دہشت گرد، نہ سیاسی تنظیمیں،نہ شادی،نہ غم،نہ دوسروں کی تکالیف،نہ مطالبات۔۔۔دن عیداور رات شب برات تھی۔

              میں بڑی شدت سے توقع کررہی تھی کہ الینورامجھے وہ بات بتائے گی جواس سے پہلے اس نے کسی کوبھی نہیں بتائی لیکن  ایسا نہ ہوا۔اس کا علم  مجھے  اپنی ماں سے ہوا۔۔۔کہ الینوراامید سے ہے اور اس نے واپس اٹلی جانے کاارادہ ترک کردیاہے۔شادی کے چھ سال بعد اس   کی  اولاد کی تمنا خاندانی ڈاکٹر کے علاج کے بغیر پوری ہونے والی تھی۔

اس بات کوسالوں بیت چکے ہیں۔

  بےچارہ مارکواب میلان  یا گینو  اتوار کو کھانے کے دوران اپنی انگلیوں میں خلال دبائےہوتا ہے۔الینورااپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہوتی ہے۔الینورا کاپوراخاندان بھائی،بہن،چچے،ماموں وغیرہ  ان کے ارد گرد موجود ہوتے ہیں اور میں اس خواب سے نہیں نکلی۔ان سات سالوں میں اگر میری شادی ہوجاتی تو میرے کتنے عاشق میرے ساتھ ناجائز تعلقات سے باہر ہوتے۔یہ میں ہی جانتی ہوں۔

یہ ایک الگ دنیا ہے،وہ خواب،جہاں کوئی ہوا نہیں چلتی،آندھی نہیں آتی،ہواکبھی یخ نہیں ہوتی ماسوائے دوگرم گرم سانسوں کے جوایک دوسرے کےساتھ  منہ جوڑے ہوتے تھے۔

 

 


Popular posts from this blog