بے بیٹ کی ضیافت ( پہلی قسط) (Babette's Feast) Isak Dinesen (1885 - 1962)

  





بے بیٹ کی ضیافت 

(Babette's Feast)

 Isak Dinesen (1885 - 1962)


 Denmark

مترجم:   غلام محی  الدین

 ڈنمارک ایک سکینڈے  نیویین ملک ہے۔  ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور فن لینڈ ایسے ممالک ہیں جہاںقطبنین کی سمت کی وجہ سے سورج سارا سال کسی بھی وقت غروب نہیں ہوتا۔جب سورج تمام دن کا سفر طے کر لیتا ہے اوررات ہوتی ہے تو روشنی مدھم ہو جاتی ہے لیکن اندھیرا نہیں ہوتا۔ناروے کی ایک وادی میں ایک تنگ پٹی میں سمندربہتا ہے۔اس مقام پر اسکا نام برل واگ فیورڈ (Berlevaag Fjord)ہے۔اسکے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں برل  واگ (Berlevaag)ہے۔ سو سال پہلے اس گاؤں میں ایک مذہبی گھرانہ ایسا تھا جس کی پاکد امنی، خوبصورتی، مذہب سے محبت اور دینی پرچار کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔اس گھر کاسربرا ہ والد تھا جسکی دو  خوبصورت بیٹیاں تھیں جوجوان تھیں۔والد گرجا گھر کاڈین تھاجبکہ اسکی لڑکیاں اس میں حمد گاتی تھیں۔وہ جو بھی لباس پہنتیں، ان پر خوب جچتا تھا۔وہ کالے رنگ کایا پھر سرمئی رنگ کا لباس زیب تن کرتی تھیں۔تمام دنیاوی آسائش کا کم سے کم استعمال کرتی تھیں۔وہ ایک پر مسرت اور مطمئن زندگی گزا ررہی تھیں۔ان کے باپ کی دینی عالم کے طور پر اس علاقے میں بے حد عزت کی جاتی تھی۔انہوں نے گھر کے کام کاج کے لئے ایک ملازمہ رکھی ہوئی تھی۔وہ لڑکیاں  مختصر گفتگوکرتیں اوربحث میں نہیں پڑتی تھیں، صرف ہاں یا نہ میں جواب دیتیں۔ان کے عقیدے کے مطابق شادی ایک غیر ضروری فعل تھا جو روحانی پاکیزگی کو زائل کر دیتا تھا اس لئے انہوں نے اپنی تمام عمر صرف روحانیت کی بہتری کے لئے وقف کر دی تھی۔وہ اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ خیرات کر دیتی تھیں۔جب وہ پختہ عمر کی ہوئیں تو بوجوہ ان کو ایک فرانسیسی نوکرانی رکھنی پڑی تھی جس کا نا م بے بیٹ  ( Babette )  تھا۔ 

ان لڑکیوں کے نام مارٹینی  (Martine )  اور فلی پا   (Phillipa )  تھے۔ان کے حلیے کو دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ جوانی میں وہ بہت خوبصورت رہی ہوں گی۔ان کے جسموں سے گلاب کے پھولوں کی مہک آتی تھی۔جب کوئی شخص ان کے گھر کے پاس سے گزرتا تو وہ بار بار مڑ مڑ کر اس گھر کی طرف دیکھتا کہ شاید دیدار ہو جائے۔بعض تو یہاں تک گرویدہ تھے کہ انہیں دیکھنے کے لئے گرجا گھر میں بھی چلے جاتے جہاں ان کا والد مذہبی تعلیمات دیتا تھا اور مہتمم اعلیٰ تھا۔           

فلی پا چھوٹی بہن تھی جس کی آواز سب سے زیادہ میٹھی اور سریلی تھی۔وہ تما م مذہبی محافل میں اپنی آواز کا جادو جگاتی تھی۔اس کے والد کے نزدیک عبادت ہی سب سے اہم کام تھا۔وہ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے رہنمائی کرتا رہتا۔اس کے نزدیک شادی عبادات میں خلل انداز ہوتی تھی اس لئے وہ شادی کو غیر اہم سمجھتا تھا۔اس کے نزدیک اس کی دونوں بیٹیاں اس کی دستِ راست تھیں جو اس کے مقصد کے حصول میں اس کی بھرپور مدد کر رہی تھیں۔عبادات میں مصروف رہتیں اور شادی کے بارے میں نہ سوچتیں۔ان کے نزدیک انسانی محبت روح کو پراگندہ کر دیتی ہے۔مردوں کے لمس کا تو یہ تصور ہی نہیں کر سکتی تھیں۔وہ ہر مرد کو بھائی اور ہر عورت کو بہن بولتی تھیں۔لطیف جذبات کو بڑی سختی سے دبا ئے رکھتیں۔           

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس گاؤں میں ایک خوبرو، خوبصورت جوان، دراز قد فوجی افسر جس کا نام لورینز  تھا ،اپنی خالہ کےایک گاؤں' لونیزلو وین ہائیل'آیا جہاں اس کے والدین نے اپنی خالہ کے پاس چند مہینوں کے لئے بھیجا تھا تاکہ وہ بُرے کاموں سے  چھٹکارا حاصل کر سکے۔اُس وقت فوج نے اسے جوا کھیلنے اور بدکاری پر سدھرنے کی تنبیہ کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اگر اسکی مزید شکایت آئی تو اس کی پیشہ ورانہ زندگی برباد ہو سکتی تھی۔اس کی خالہ دین سےرغبت رکھنےوالی خاتون تھی۔یہ گاؤں نہ صرف قدرتی نظاروں کے لیے مشہور تھا بلکہ یہاں کے افراد بھی سادہ لوح تھے جو اس کی بری عادات ختم یا کم کرنے میں مدد ے سکتے تھے۔اس کی خالہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ اس پر کڑی نظر رکھے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب مارٹینی اٹھارہ سال اور اس کی بہن فلی پا کی عمر سترہ سال تھی۔        

ایک دفعہ وہ فوجی افسر' لورنیز' ایک گھوڑے پر سوار مٹر گشت کے لئے نکلا، وادی کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہوا وہ گاؤں کے بازار میں آیا۔وہاں مارٹینی اور فلی پاسودا سلف لینے کے لئے آئی ہوئی تھیں۔مارٹینی نے ایک خوبرو فوجی اور لورنیز نے دنیا کی حسین ترین عورت کو دیکھا اور وہیں دل ہار بیٹھا۔اسے یقین ہی نہ آیا کہ اس نے ایک  ماورائی اپسرا کو دیکھا ہے۔ اُس کو اِس سے پہلے کسی بھی ذی روح سے ایسی کشش محسوس نہ ہوئی تھی۔اُس حور کے چہرے پرطمانیت اور روحانی نور تھا۔  وہ انتہائی اعلیٰ و ارفع تھی۔اُس کی سحر انگیز شخصیت سے ایسا لگتا تھا کہ اسے کسی قسم کا غم نہیں، کسی کی قرضہ دار نہیں، کوئی راز نہیں تھا، کوئی ایسی خامیاں نہیں تھیں جو اس کے ضمیر پر بوجھ بن سکتیں۔اس کے سنہری بال اس کے حسن میں اضافہ کر رہے تھے۔لورنیز نے مارٹینی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔پھر اپنی خالہ سے اس لڑکی کے بارے میں بات کی اور اسے مجبور کیا کہ اس کے گھر تک رسائی دلوائی جائے۔اس کی خالہ اس گاؤں میں ایک عرصے سے رہ رہی تھی۔وہ ایک نیک عورت تھی  اور ڈین اس کی عزت کرتا تھا۔         

لورنیز جب پہلی بار مارٹینی کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس نے ہیٹ اور جالی دار پردہ نہیں لگایا ہوا تھا۔وہ اس کے حسن میں کھوگیا۔اس کے جسم کے خدوخال کو بے حد تعریفی انداز سے دیکھنے لگا۔جب اس نے اپنے اور مارٹینی کے اعمال و افعال کا موازنہ کیا تو خود کو دوزخی پایا۔مارٹینی ایک پارسا جبکہ اس میں دنیا کی ہر برائی تھی۔اس نے فوراً برے اعمال سے توبہ کر لی۔وہ خود بھی دوسروں کی نظرمیں ایک باوقار اور پر کشش شخص تھا لیکن وہ اس لڑکی کے حسن سے اتنا مرعوب ہوا کہ اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا لیکن تصور میں وہ اس سے محبت جتا تا رہا۔ڈین لورنیز کو دیکھ کر بولا،خدا تم پر رحم کرے۔ آؤ بیٹھ جاؤ۔یہ بات سن کر لورنیز خیالوں سے چونک پڑا اور بیٹھ گیا۔مارٹینی کی سیرت و صورت نے اس پر اتنا اثر ڈالا کہ وہ تمام تر خواہشات کے باوجود اپنے جذبات کے بارے میں ایک بار بھی اس کو آگاہ نہ کر سکا۔وہ ہر روز اس کے گھر جاتا رہا لیکن اس کوکبھی ہمت نہ ہوئی کہ اس کو کبھی اپنی شدید محبت کے بارے میں بتا سکے۔اس کے حسن کے رعب سے وہ کچھ نہ کہہ پایا۔وہ مارٹینی کے گھر سے واپس جاتا تو اپنے کمرے میں بوٹ سمیت اپنے پاؤں میز پر رکھ دیتا اور زارو قطار روتا رہتا۔سابقہ بری عادات پر وہ نادم ہوتا۔ہر روز اس کے گھر جانے سے پہلے وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کیلئے مصمم ارادہ باندھتا لیکن یہ کہہ کر توڑ دیتا کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے،کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ٹالتے ٹالتے اس کی روانگی کا آخری دن آن پہنچا۔ اس نے ارادہ کیا تو اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔جب وہ واپس جانے لگا تو مارٹینی موم بتی روشن کرکے اسے الوداع کہنے کے لئے دروازے تک آئی۔موم بتی کی روشنی  اس کے ہونٹوں پر سے ہوتے ہوئے اس کی گھنی اور لمبی پلکوں پر پڑ کر جادو جگا رہی تھی۔نہ جانے لورنیز کو کیا ہوا کہ اس نے مارٹینی کا ہاتھ پکڑا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کو چوم لیا۔مارٹینی نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے جذبات کو سختی سے دبا دیا۔لورنیز بولا کہ میں یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جا رہا ہوں۔میں پھر کبھی بھی تم کو نہ دیکھ پاؤں گا۔میری قسمت بہت بری ہے۔میں ہر چیز حاصل کرسکتا ہوں لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو میرے لئے حاصل کرنا ناممکن ہیں۔اس کے جواب میں وہ کچھ نہ بولی حالانکہ وہ بھی اُس سے محبت کرنے لگی تھی۔           

لورنیز واپس اپنے گیریژن چلا گیا۔اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اب سب لغویات ترک کر کے اپنے کیرئیر پر ہی دھیان دے گا۔وہ اب اپنے پیشے میں یکتائی حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس کی تبدیل شدہ عادات دیکھ کر اُس کی ماں نے اُس کی خالہ کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی منفی عادات ختم ہو گئی ہیں اور لورنیز میں زندگی کی نئی رمق پیدا ہوگئی تھی جو صرف مثبت ہی سوچتی تھی۔وہ جب بھی تنہا ہوتا  اکثر گم سم ہو جاتا۔جب اس کے دوست احباب اپنی محبتوں کا ذکر اس کے سامنے کرتے تو وہ حسرت سے ان کی طرف دیکھتا اور خود پر ترس کھاتا۔مارٹینی کی سیرت و صورت اس کے ذہن سے نکل نہ سکی۔ان خیالات سے چھٹکارے کی خاطر اس نے عسکری معاملات اور پیشہ ورانہ کورسوں میں پوری دلچسپی لینا شروع کر دی۔اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر کامیابیاں اس کے قدم چومنے لگیں۔تمام تر اعزازات اور ترقیوں کے باوجود ایک کسک سی اس کے ذہن کے کسی گوشے میں رہی۔اسے فرانس اور روس اعلیٰ تربیت کے لئے بھیجا گیا۔واپسی پر وہ مقتدر ترین حلقوں میں شامل ہوگیا۔یہاں تک کہ وہ بادشاہ کامصاحب بن گیا۔ شہزادیاں اور اشرافیہ کی خوبصورت ترین  خواتین اس پر مرنے لگیں۔ان لڑکیوں میں سے ایک چن لی اور اُس نے شادی کرلی۔ ادھر ڈین کے گھر میں کبھی کبھار اس خوبرو نوجوان کا ذکر ہوتا تھا جواس کی کے فرائض منصبی کی مصروفیات کے تحت  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیاتھا۔جب لوگ اس کے بارے میں بات کرتے تو مارٹینی اسے سنتی اور بات کا رخ موڑ دیتی تھی۔ اگرچہ وہ اسے بے حد چاہتی تھی لیکن عقیدے سے مجبور تھی۔ ان دنوں ایک شخص ان کے دائرہ احباب میں داخل ہوا جو شوبز سے تعلق رکھتاتھا۔ اس کانام آرچل پاپن تھا۔       

آر چل پاپن   ( Archille Papin ) فرانس کا مقبول ترین اول نمبر پر 'اوپرا  گلوکارُ( Opera Singer ) تھا۔وہ شہنشاہوں اور اشرافیہ کے سامنے ہی اپنی پرفارمینس دیاکرتا تھا۔شہزادیاں اور اشرافیہ کی خواتین اس کی قربت حاصل کرنے کو تٹرپتی رہتی تھیں۔کچھ عرصہ پہلے اس نے سویڈن کے دارالخلافہ سٹاک ہوم کے 'رائل اوپرا' میں ایک ہفتہ تک گلوکاری کی تھی۔اس دوران ایک شہزادی اس پر مر مٹی اور اسے حاصل کرنے کی بے حد کوشش کی، اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اور اپنی گونا گوں مصروفیات سے تھک کر کچھ وقت سکون حاصل کرنے کی خاطر وہ ناروے کے گاؤں برل واگ ( Berlevaag )آگیا۔ایک دفعہ وہ حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اسے  اس گاؤں کے گرجا گھر سے ایک بے حد سریلی آواز سنائی دی۔وہ اُس آواز کے سحرمیں ڈوب گیا۔ گرجا گھر چلا آیا اور اسے غور سے سننے لگا۔ایسی مدھرمدہوش کرنے والی دلکش آواز اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ ناروے کی سفید راتوں میں برف سے ڈھکے پہاڑوں کی دلکشی اس کی موسیقی میں رنگ بھر رہی تھی اوروہ مدہوش ہورہاتھا۔           

آرچل پاپن  (Archille Papin)نے اس خاتون کی آواز کا اپنی آواز سے موازنہ کیا تو سوچا کہ اس کی آواز اس خاتون کی آواز کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی۔تمام فرانس اس خاتون کے قدموں میں بھی ڈالا جائے تو اس کی آواز کے سامنے ہیچ تھی۔ آرچل کی عمر اس وقت چالیس سال تھی اور خاتون کی انیس سال۔وہ گلوکارہ فلی پا(Phillipa )تھی۔آرچل ایک خوبصورت آدمی تھا۔اس کے بال گھنگریالے اور رنگ سرخ  وسپید تھا۔وہ ماحول کا تجزیہ غیر جانبدارانہ انداز میں کیا کرتا تھا۔فلی پا کی آواز میں جادو تھا کہ اس نے سوچا کہ اگر اس پرپیشہ ورانہ محنت کی جائے تو وہ دنیاکی نمبر ون  گائیکہ ہوگی۔           

آرچل ڈین کے پاس گیا۔اپناتعارف کروایا اور بے باکی سے کہا کہ اس لڑکی کی آواز اسے بہت بھائی ہے۔وہ اسے اپنی شاگردی میں لینا چاہتا ہے۔اوپرا (Opera)سکھا کر اسے دنیا کی عظیم ترین آرٹسٹ بنانا چاہتا ہے جس پر ڈین مان گیا۔  فلی  پا  (   Philllipa)کی آواز کی کوالٹی تو بہت اعلیٰ تھی لیکن  موسیقی کی  تکنیکی تعلیم نہیں تھی۔وہ خدا کے معجزوں پر یقین کرنے لگا۔وہ اس سے پہلے خود کو ایک بوڑھا شخص سمجھنے لگا تھا لیکن فلی پا  کے بطور شاگرد آنے سے وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین شخص سمجھنے لگا۔اسے یقین تھا کہ اس سےتربیت حاصل کرنےکے بعد وہ مقبول ترین گلو کارہ بن جائے گی۔وہ ایسی بلندی پر پہنچ سکےگی جس پر آج تک کوئی بھی نہیں پہنچاتھا۔بادشاہ، ملکہ، شہزادیاں اور اشرافیہ اسے سن کر آنسو بہائیں گی۔عوام الناس اس کی آواز کی پوجاکریں گے۔وہ گناہگاروں اور پس ماندہ لوگوں کے سکون کا باعث بنے گی۔ جب وہ اوپرا ختم کرکے اس کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھے گی تو لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور اس کے اعزاز میں شاہی کیفے میں ضیافت دیں گے۔اس کی ایسی باتیں سن کر وہ چپ رہتی۔فلی پا نے آرچل کی یہ باتیں اپنے باپ اور بہن کو بھی بتائیں۔           

آرچل نےفلی پا کو شروع میں ایک دو گانا یاد کرنے کے لئے دیا پہلےوہ اکیلا ہی وہ گانا گایا کرتا تھا۔یہ ایک روحانی گانا تھا جو لوگوں کے لطیف جذبات کو ابھارتا تھا۔ وہ اس گانے کو دل سےسے گایاکرتاتھا۔اس بار وہ اس گانے کواپنی روح کی گہرائیوں سے گارہاتھا۔وہ ُسروں  میں اتنا محو تھا کہ اُسے گانا ختم ہونے کا احساس بھی نہ ہوا اور اس نے بے خودی میں  فلی پا (Phillipa)کا ہاتھ پکڑ لیااور اس کے ساتھ ایسا چمٹا  جیسے کہ خاوند شادی کے وقت اپنی بیوی سے بغل گیر ہوتا ہے۔وہ بے خودی کے عالم میں تھا۔وہ اس بات سے شعور ی سطح پر بے خبر تھا کہ اس نے فلی پا کے ساتھ کیا کیاتھا۔         

 فلی پا  کو اس کایہ رویہ اچھانہ لگا۔وہ ریہرسل سےلوٹی تواس نےاپنےوالد کو کہا کہ وہ آرچل کوبتا دے کہ وہ موسیقی مزید نہیں سیکھنا چاہتی۔جب آرچل کو یہ پیغام ملا تو وہ پہلے تو حیران ہوا پھر غصے سے پاگل ہوا اور پھر اُس میں ندامت کے احساسات پیدا ہوگئے۔آرچل نے بے خودی کے عالم میں جوفلی پاکے ساتھ کیا تھا وہ غیر مناسب تھا۔اُس کا پروگرام تھا کہ وہ اگلے ہفتے اشرافیہ کے سامنے اس کی گائیکی متعارف کروائےگا۔اُس کے انکار پر وہ بے حد بد دل ہوگیا۔اُس نے سوچا کہ اب اُس کی دنیا ختم ہوگئی تھی ۔اُس نے گانا ترک کر دیااو ر اُس گاؤں سے واپس فرانس چلا گیا۔ 

وقت گزرتا گیا۔  اس واقعے کو پندرہ سال بیت گئے۔فرانس میں انقلاب آگیا۔خانہ جنگی نے ہزاروں آدمی نگل لیے۔اُس میں اشرافیہ کے لوگ اور عوام دونوں شامل تھے۔ڈین کے گھر پر ایک شام دستک ہوئی۔دستک کی آواز میں تیزی آتی گئی۔فلی پا نے گھبرا کر دروازہ کھولا۔دہلیز پر ایک خاتون دھڑام سے گری اور بے ہوش ہوگئی۔ فلی پا کافی گھبرا گئی اور اسے اٹھا کر کمرے میں لائی، منہ پر چھینٹے مارے اور اُسے ہوش میں لائی۔ ہوش آنے پر وہ اٹھ بیٹھی۔اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ اس کے کپڑے گیلے تھے۔اس نے بغیر کوئی لفظ ادا کئے اپنے بھیگے لباس سے ایک خط نکالا اور اُسے دے دیا۔وہ خط فرانسیسی میں تھا۔ لڑکیوں کو  فرانسیسی نہیں آتی تھی لیکن اُن کے والد کو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ تھی اس  نے وہ خط کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔

معزز خاتون فلی پا! 

مجھے یقین ہے کہ میں اب بھی تمہیں یاد ہوں گا۔آہ!جب بھی میں تمہارے بارے میں سوچتا ہوں میرے اندر لطیف جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اورمیں جنگلی گلاب کی مہک سونگھنے لگتا ہوں۔قصہ برآمدن،میرے پیار اور نیک خواہشات کے باعث کیا تم میرے ملک کی مصیبت زدہ ایک فرانسیسی عورت بے بیٹ  (Babette)  کی جان بچا سکتی ہو؟

حامل رقعہ ہٰذا کو میری ملکہ کی طرح فرانس سے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑ رہا ہے۔ہماری گلیوں میں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔فرانسیسیوں کے ہاتھ انسانی خون سے لت پت ہیں۔وہ مزدور اور کمزور طبقہ جو اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہےکو سفاکی سے قتل کیا جا رہا ہے   جو کسی طور بچ گئے ہیں، اُن کو ذلت آمیز زندگی دی جا رہی ہے۔مادام بے بیٹ(Babette)  کا خاوند اور بیٹا جو پیشے کے لحاظ سے خواتین کے ہیئر ڈریسر تھے، بے دردی سے انقلاب فرانس میں  قتل کر دیئے گئے ہیں۔بے بیٹ کو بھی دہشت گرد کے طور پر گرفتار کر لیا گیا تھا ۔  اُس پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ یہ مٹی کے تیل سے گھروں کو آگ لگانے میں مدد گار تھی اور اس کے ہاتھ جنرل گیلی فیٹ  (General Gallifett)کے خون  سے رنگے ہیں۔یہ بڑی مشکل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس کی تمام جمع شدہ پونجی لوٹ لی گئی ہے۔اس کا فرانس میں ٹھہرنا ممکن نہیں رہا۔  مادام بے بیٹ کا ایک بھتیجا فرانس سے ناروے کے دارالخلافہ آتا جاتا رہتاہے۔ وہ ایک بحری بیڑے میں باورچی ہے۔وہ اس کو ناروے پہنچا دے گا اور وہ تمہارے پاس آجائے گی۔تمہاری منزل اس کی آخری منزل ہوگی۔اس کے پاس اور کوئی جگہ نہیں جہاں وہ جا سکے۔وہ مصیبت کی اس گھڑی میں میرے پاس آئی اور التجاکی کہ اگر میرا کوئی جاننے والا مہربان ناروے میں ہو تو اس کے نام سفارشی خط لکھ دے تاکہ وہ اسے پناہ دے سکیں۔جب بے بیٹ نے مہربان لوگوں کا نام لیا تو میرے ذہن میں فوری طورپر تم لوگ آگئے۔تم سے زیادہ عمدہ لوگ چونکہ میں نے آج تک نہیں دیکھےاس لئے میں اسے تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔یہ ناروے کے دارالخلافہ سے تمہارے گاؤں کیسے پہنچے گی،  معلوم نہیں کیونکہ میں اب ناروے کا راستہ بھول چکا ہوں۔یہ فرانسیسی خاتون چھپتے چھپاتے، پوچھتے پچھاتے باوقار طریقے سے تمہارے پاس کیسے پہنچے گی،کوئی نہیں جانتا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تکالیف دوسروں پر ظاہ

ر نہ کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح تمہارے پاس پہنچ جائے گی۔اس مصیبت کے وقت میں اس کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وہ تم لوگوں سے ملے گی، رہے گی اور دیکھ پائے گی۔اگر تم اس پر رحم کروگی تو تمہارا احسان مجھ تک فرانس پہنچ جائے گا۔           

مس فلی پا  (Phillipa)!   میری زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تمہاری سریلی اور مدبھری آواز بادشاہوں، ملکہ، شہزادوں، شہزادیوں اور اشرافیہ تک نہ پہنچا سکا اور پیرس کا عظیم اوپرا ہاؤس اس سے اب تک محروم ہے۔تمہارے خاندان کی ہیت اور روز مرہ زندگی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اب بھی یقین ہے کہ تم آج بھی ماضی کی طرح پر مسرت زندگی گزار رہی ہوگی۔میں آج بھی تمہارا مداح ہوں اگرچہ تب سے اکیلے پن کی زندگی گزار رہا ہوں۔میرے چاہنے والے آج بھی میری عزت کرتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ میں پھر سے اوپرا ہاؤس آباد کروں لیکن میں اپنے داغوں سے چراغاں نہیں کرسکتا۔وہ داغ میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔میرا خیال ہے تم صحیح تھی جو میرے ناروارویہ سے مجھ سےدورہوگئیں۔عزت، شہرت، روپیہ پیسہ سب بیکار ہیں اور قبر میری منتظر ہے۔

میری کھوئی ہوئی سدابہار فنکارہ  اور مدبھری سروں والی خاتون زورلینا (Zorlina)!  مجھے یقین ہے کہ میری خلش اور تمام تر پابندیوں کے باوجود میں جنت میں تمہارا گانا سنوں گاجو میرے ساتھ دوسروں کی روحوں کو بھی سکون فراہم کرتا رہے گا۔

بے بیٹ  (Babette)  ایک اچھی باورچن ہے۔

ایک بھولے بسرے دوست کی طرف سے عاجزانہ آداب،

آرچل پاپن  (Archill Papin)      

 

    

 

Isak Dinesen (1885 - 1962)

Denmark

 

آئزک ڈنی سین (Irak Dinesen) کوپن ہیگن ڈنمارک میں پیدا ہوئی۔  اس کا اصلی نام کیرن  Karen, Baroness Von Blixen Finecke تھا۔اس کا قلمی نام آئرک ڈنی سین تھا۔  اس کے باپ کی ایک جاگیر تھی۔  وہ ایک فطین لیکن لا ابالی طبیعت کا مالک تھا۔  وہ دس سال کی تھی تو اس کے باپ نے خودکشی کر لی۔  وہ ایک کٹر کیتھولک معاشرے میں پلی بڑھی۔  وہ انقلابِ فرانس سے متاثر تھی۔ 

 

 

 

Isak Dinesen or Karen Blixen

Denmark

Many Award Winner

حالات ِ  زندگی

آئزک ڈینی سن 17اپریل 1885 کو ڈنمارک کے دارالخلافہ کوپن ہیگن  کے نواحی علاقے میں پیدا ہوئی۔وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق  رکھتی  تھی۔اس کے والد کانام  ویلہیلم  ڈینی سن اور اس کی والدہ کانام  انگا بورگ               ڈینی سن تھا۔ پیدائش           کے وقت اس کا نام '         کیرن    کرسٹینز  ڈینی سن'   تھا۔ اس  نے ابتدائی تعلیم  پرائیویٹ سکول   اکیڈمی آف آرٹس کوپن ہیگن  سے  حاصل کی ۔اعلیٰ تعلیم  پیرس سے حاصل  کی۔اس کا والد بہت امیر تھا۔وہ اپنے والد کے بہت قریب تھی جو  سیروسیاحت، مے نوشی  اور عورتوں کارسیاتھا جس سے اسے سوزاک ہوگیا اوراس نے خود کشی کرلی۔اس  سےاسے بے حد افسوس ہوا۔اس کی طبیعت کی بے چینی  اسے  والد سے ملی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد وہ  بذات خود نواب ہو گئی۔   اس نے تجارت کا سوچا اور وہ  کینیا  چلی گئی۔وہاں اس نے کافی کی کاشتکاری  کے فارم بنالئے۔اس  نے اپنے کزن     یرن  برور فان          فینیک  جو  سویڈن میں رہتاتھا ، سے 1914 میں شادی کرلی۔ان کی شادی 1921 تک رہی ۔ان کی  کافی کی کاشتکاری  کا کاروبار خوب چمکا۔1921  کے بعد اسے  ایک  عیاش انگریز  شکاری ،  ہواباز مشیر ' ،  ڈینیز  فنچ  ہالٹن  'سے عشق ہوگیا۔ وہ نیروبی میں کام کرتاتھا لیکن سال کے کئی مہینے اس کے پاس گزاراتا تھا۔یہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن وہ ٹال مٹول کرتا رہتاتھا۔ ۔اس کے  دوحمل ( 1922ب اور 2026) میں ضائع ہوگئے۔

آئزک ڈینی سن سے طلاق کے بعد دنیا  کساد مندی ، کافی  کی قیمتوں میں کمی  کا شکار ہوگئی۔ اس کی  بد انتظامی نے اس کی کاشتکاری بری طرح  کیااس کے محبوب ہالٹن نے اسے قرضہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن  اسے ایفا نہ کیا۔ اس سے اس کی علیحدگی ہوگئی ۔ خدا کا کرنا ایسا ہواکہ 1931 میں  ایک ہوائی حادثے میں  وہ ہلاک ہوگیا۔اس کی دوستی  برطانیہ کے شہزادے ایڈورڈ  جو بعد میں شہنشاہ ایڈورڈ پنجم بناسے ہوگئی۔ اس نے اسے ہوائی جہاز تحفے میں دیا۔۔۔ تاہم اٹھارہ سال کینیا میں رہنے کے بعد وہ دوبارہ ڈنمارک واپس آگئی۔اس نے   اب باقاعدہ افسانہ نگاری  اور ناول  نویسی شروع کر دی۔اس سے پہلے وہ  سرسری ادب  نگاری   کرتی تھی۔وہ انگریزی اور ڈینش زبان میں لکھتی تھی۔ پہلے پہل تو اس نے انگریزی میں لکھا اور بھر اس کا ترجمہ ڈنمارک کی زبان میں کیا۔وہ دونوں ہی بہت مقبول ہوئے۔بعد میں وہ بیک وقت دونوں زبانوں میں لکھنے لگی۔اس کے افسانوں اور ناولوں میں لوک رس اور داستان گوئی  پائی جاتی ہے۔اس کی زبان نہائت شستہ، رومانی اور لطیف  ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ادب میں امیر و غریب  ، خلوص اور فریب اور اضداد اور ارمتضاد  اوصاف بیک وقت سامنے رکھتی ہے۔ اس کی اہم تسانیف

 میں لکھاجسے بعد میں 'انیک ڈاٹ  آف ڈیسٹنی' کے مجموعے میں شامل کردیاگیا۔Ladies Home Journal ایک جریدے   Babette’s Feast . ہیں۔اس نے مقبول ترین افسانہ Seven Gothic tales (1934);Out of Africa (1937);  Winter tales; Last Tales  ;  Anecdotes of Destiny   

اس نے اپنی زندگی میں بہت سے ادبی اعزازات حاصل کئے جن میں کچھ درج ذیل ہیں۔

 

Holberg Medal (1949); Ingenio and Arts  Medal ( 1950)  Nathansen  Memorial Fund Award  (1951);  Golden Laurels (1952)  and many time nominated for  Nobl Prize.

وہ 7 ستمبر 1962 کو بیماری سے فوت ہوئی۔






 


   

 

ژ

Popular posts from this blog