پارکنگ ٹیکس Parking Tax By Nadine Gordimer

 







پارکنگ ٹیکس

Parking Tax
By
Nadine Gordimer
مترجم :غلا م محی ا لدین
بنک کی نکڑوالے فٹ پاتھ پر گھرکی چھت پرگتے پر تصویربنائی گئی تھی جس پر ہاتھ سے جلی حروف میں سرخ سیاہی سے'جوتے کے تلوے'ہاتھ سے لکھا گیاتھا۔اس حدبندی میں ایک ایساشخص جس کی صحیح عمرکاتخمینہ نہیں لگایاجاسکتاتھانے جوتے مرمت کرنے والی دکان کھول رکھی تھی۔اس کے میلےکچیلےکپڑے ،سیاہ راب کےداغ،نیلے رنگ کے عرق کا برتن ،دہلیزپرپلاسٹک کےڈھیرفٹ پاتھ کےکناروں پر پڑے تھے۔
سپرمارکیٹ اور چوراہےپرجہاں ٹیکسیوں کااڈاتھا۔ایک خاتون لوگوں کی انگلیوں کےاشارےپرسلام کرتی تھی۔اس خاتون نےاپنےبالوں کاجوڑاکیاہواتھا۔ اس کا ایک ساتھی پھولوں کے خالی کریٹ الٹا کر بیٹھاتھاجسےاس نےسپرمارکیٹ کے کوڑےکرکٹ سے اٹھایاتھا۔مارکیٹ کے باہر کونے میں ایک بازو بھرزمین کاٹکڑہ تھاجوغیراہم تھااورعام لوگوں نےکسی حد تک نظراندازکررکھاتھا ۔اس کے پاس ہی چوراہےکی تیزگزرگاہ تھی جواس علاقے کی سب سے بڑی شاہراہ تھی۔جہاں ناداراوربےکس محنت کشوں نے تھڑوں پرایسےعارضی اڈے بنائے ہوئےتھے جوفوری طورپر لگائے اور سمیٹےجاسکتے تھے۔ان میں مکینک تھے۔ بیش قیمت گاڑیوں کی سجاوٹ کےلئےبیوٹی سیلون تھے۔وہاں ایک رنگ وروغن سے مزین چھجا بنادیاگیاتھا جن میں مالٹے، مونگ پھلیاں ،سگریٹ ، ویسلین کی شیشیاں،کنڈوم کے پیکٹ اور موبائیل فون کی بیٹریاں ،فارمیسی اورشراب وغیرہ بکتی تھیں۔ موچی کے پاس جمور ، آری،ہتھوڑا ،چمڑا ،دھاگے، چپکنے والی گونداور پلاسٹک کاسامان ہوتا تھا۔اس چھجے میں حجام بال تراشتا ،بیوٹیشن خواتین ٹپوریوں کے حسن میں اضافہ کرتی تھیں اورجواپنےبالوںکوکھیتی کی طرح بڑھاکر ترشوانے کے لئے آتے۔ان کے بال چھجے میں زمین پربکھرے ہوتےتھے۔ایسے لوگوں نے اپنے مشاہدے سے سیکھا تھاکہ روزگار حاصل کرنے کے لئے چھابڑیاں، رہڑھیاں ،ہاتھوں میں ٹرے میں چیزیں ڈال کر یا دیگرطریقے اپناکرکیسے روزی روٹی حاصل کی جاسکتی ہے۔انہوں نے سیکھ لیاتھاکہ کون سی اشیابک سکتی ہیں۔انہیں کس طرح اورکہاں سےکیسےاکٹھا کیاجا سکتاتھا۔وہاں ایک خاتون ایک چھجےمیں بیٹھ کر اپنے گھٹنوں اور گود میں کپڑوں پردستکاری کرتی تھی۔وہ لیس بناتی تھی اوران کوموٹے دھاگوں سے ٹانکتی رہتی تھی ۔ان کی پشت پربکسوئے لگاتی جو ایک اشتہار میں جڑے ہوتے جو سوزاک اور ایڈز کے مریضوں سے متعلق تھا۔اس طرح سے فٹ پاتھ ایک غیررسمی تجارتی مرکز بن گئےتھے ۔ حکومت اسے بھی اپنی کارکردگی میں ظاہرکررہی تھی۔ دنیاکویہ پیغام دیاجارہاتھاکہ محنت کش اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئےنامساعد حالات میں بھی ذاتی طور پر محنت کرکےریاست کی اقتصادیات بڑھا رہے تھے۔ملک کی اقتصادیات اس طرح گھسٹ رہی تھی۔ہرشہری اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق روزگار حاصل کررہاتھاترقی میں حصہ ڈال رہاتھا۔ ان کی اس ناگفتہ بہ حالات میں احتجاجاًوہ لوگ اپنی زندگی خرچ کررہےتھے۔حکومت اپنے سروے میں موچی کی نجی دکان کی باؤنڈری اور عارضی دکانوں،ریڑھیوںکو چھوٹی صنعت میں شمار کرتی تھی۔ایسے پیشے کوملکی صنعتی ترقی میں شامل کرتی تھی۔معاشی طورپر پسے ہوئے طبقوں کو حکومت ایک غیرملکی کنسورشیم شمارکرتی تھی جواس طرح کے روزگار کوجائز قرار دیتا تھااور غربت کی سطح سے اوپر شمارکرتھاتھا اور اقوام عالم کی شماریات میں بہتر معاشی درجہ بندی میں پیش کرتاتھااورایساپیش کرتاتھاجیسے ملک کی صنعت سازی اور تجارتی شعبے میں ترقی ہورہی تھی ۔
ایسے لوگ فٹ پاتھوں اور پارکوں میں سوتے تھے۔ خواتین وحضرات پارکوں کےبیت الخلا استعمال کرتی تھیں جومتمول لوگوں کےلئےبنائے گئے تھےجن میں وہ اپنے پالتو جانور وں ،پالتوکتوں اور عوام الناس کی سیر کےلئےبنائے گئےتھے۔اس جگہ کوبے کس لوگوں نے بےدردی سے استعمال کرکےنفرت انگیز حد تک خراب کردیاتھا۔بہت سے لوگوں نے تو وہاں مستقل ڈیرےڈال رکھے تھے۔ان کو استعمال کرنے والے بےگھرمہاجر، غیرقانونی مسافر،تارکین وطن تھےجوپڑوسی ممالک کے سیاسی عدم استحکام ،خانہ جنگی اور ملکوں میں جنگوں کی وجہ سے آئے تھے۔ انہوں نے ملکی معیشت پر اثر ڈالاتھا۔وہ کسی شمارمیں ہی نہیں آتےتھے،وہ کوئی کام اورنوکری حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو مقامی آبادی انہیں اپنارقیب اور دشمن سمجھتی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے حقوق پر حقوق پر ڈاکہ ماررہےتھے اور ریاست نے انہیں جوسہولیات فراہم کی تھیں کوناجائز استعمال کررہے تھے۔
ملکی قیادت سے وہ توقع کرتے تھے کہ انہیں شناخت دی جائےاور انہیں روزگار کمانے والے لوگوں میں شمارکیاجائے۔اگر کوئی اس کے خلاف جائے یا معیار کو چیلنج کرےتواسے مسروقہ قراردےکر ان سے چھین لیاجاتاتھا۔وہاں زورآور لوگوں کا قبضہ ہوجاتاتھا اوریہ وہ معاملہ تھاجہاں ایسی شئے دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی تھی جوان میں پایاجاتاتھا ۔ سیاست دانوں کے پاس تمام وسائل تھے۔ وہ جانتےتھےکہ عوام الناس کے مسائل کیاتھے لیکن وہ ان سے چشم پوشی کرتے تھے اور ان کا سطحی سطح کافائدہ پہنچاتے تھے۔اگرایسانہ کرتے تووہ الیکشن کبھی بھی نہیں جیت سکتےتھے۔ان کادعویٰ ہوتاتھاکہ سہولیات وہ عوامی خدمت کے جذبے کے تحت دے رہے تھے۔ایسانظام دنیابھر میں رائج ہے۔ رسمی ہے۔ریاست کے آئین اور قانون کے تحت آتاہے۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہوتاہے۔اس نظام کےاصول وضوابط ہوتے ہیں ۔
کئی لوگ اپنی ذاتی کاوش سے ایسا پیشہ ایجاد کرتاہے جورسمی نہیں ہوتا۔ایسا ہی پیشہ ایک سیاہ فام لڑکے نےتلاش کیا۔اس پیشے کوتکنیکی انداز میں پارکنگ ٹیکس کانام دیا۔اس نے ایک بارونق مارکیٹ کے باہرایک بازوجتنی جگہ پرجو راہگذر تھی کوزبردستی پارکنگ سپاٹ بنالیا۔وہاں ایک پررونق بازار تھا۔رش کی وجہ سے پارکنگ نہیں ملتی تھی تواس نےگاڑیوں کووہاں پارک کروانے یاپارکنگ سے باہر نکالتے وقت بھی مددکرناشروع کردی۔ کامیابی سے پارک کروانے یانکلوانے پرڈرائیور اسےکچھ نہ کچھ دے دیتےتھے۔رفتہ رفتہ اس نے وہاں اجارہ داری قائم کرلی ۔وہ پارکنگ ٹیکس کے علاوہ ایسےلوگوں کو جو مزدور پیشہ تھےکوپیسے لےکراجازت دیتاکہ وہ بھی رہڑھی لگالیں۔ وہاں کھڑے ہوکر بھیک مانگ لیں یااشتہارلگاسکیں۔
وہ دوسرے پارکنگ ٹیکس وصول کرنے والوں سےجوعمر میں اس سے بڑے تھے اس کے ساتھ مل کر پارکنگ ٹیکس وصول کررہے تھے۔حبشی شائد ملک کے اس حصے سے آیا تھاجہاں آبائی نسل آباد تھی۔ان کی وراثت تواس سے ملتی تھی لیکن ان کواپنےمقام سےعلاقہ بدرکردیاگیاتھااور انہیں براعظم افریقہ کے مغربی حصے سےنکال باہرکیاتھا۔ان میں کئی علاقوں پر سیافام لوگوں نے قبضہ کرلیاتھا۔ان کی تجارتی سرگرمیاں مضافاتی علاقوں میں تھی جوخوشحال اوردولت مندنہیں تھی۔،ایک مال نہیں بلکہ ایسے اڈے پرکام کرتی تھی جہاں سستےاورغریبوں کے بازارہوتے ہیں وہاںایسے مقامات پر چرسی بھنگی شرابی اور جرائم پیشہ سفید فام بھی رہتے تھے۔ سیاہ فام لوگوں کو حقیر سمجھا جاتا تھالیکن ایسےگورے جو نشہ کرتے ،منشیات بیچتے یاعادی مے خور ہوتے کی سماجی حیثیت بھی کالوں جیسی ہوجاتی تھی اور ان کے وصائف ایک جیسے ہوجاتے تھے۔
کہاجاسکتاہےکہ وہ چھوٹادبلاپتلاحبشی تلنگاتھا۔اس کےجسم میں ہڈیوں کےعلاوہ اورکچھ نہیں تھابلکہ ایک تارپرربڑچڑھی ہوئی تھی۔اسکی منحنی آواز میں کاٹ اور چال ڈھال میں دوسروں پرطبعی طورپربرتری تھی جبکہ اس کے پاس ٹیکس والے دوسرے سیاہ فام ساتھیوں سےبہتر گفتگوکی بدولت فائق نظرآتاتھا۔اس کی بات چیت جوکئی زبانوں کامجموعی ہوتی تھی جس میں اس کی مادری زبان بھی شامل تھی اس کی گفتگو میں آسانی اور روانی پیداکردیتی تھی اوروہاں کام کرنے والوں سے اسے ممتاز کردیاتھا۔اس کانتیجہ یہ نکلاکہ وہ پارکنگ ٹیکس حاصل کرنے والوں کاقائدبن گیا اوربغیر دھونس وہ ان کابےتاج بادشاہ بن گیا۔ اس کےساتھی اس کاحکم ماننےلگے۔وہ ان کوہدایات دیتا تھاکہ فلاں گاڑی کوفلاں جگہ پارک کراؤ ۔ وہ کبھی بھی لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑاتھا۔جب وہ دیکھتا کہ ڈرائیور پارکنگ ٹیکس ادا کرنے میں ہچکچارہاتھا، بحث یا لڑنے کے موڈ میں تھا تو وہ وہاں سے کنارہ کشی کرلیتاکیونکہ وہ جانتا تھاکہ جھگڑنااس کے کاروبار کے لئے نقصان دہ تھا۔ تنازعے میں ایک قدم پیچھے ہٹناعقلمندی تھی۔لڑائی جھگڑنااور بحث کووہ بیوقوفی سمجھتاتھاجوکسی کے فائدے میں نہیں تھی۔ دوسروں نے اس کی صلاحیت کو بلاحیل وحجت قبول کرلیاتھا۔یہ ہی وہ لڑکاتھا جواپنے ساتھیوںکو منظم کررہاتھااور ہر ایک کے لئےاڈے کاانتخاب کرتاتھا۔ وہ ان کوتنبیہ کرتا تھاکہ تم پارکنگ ٹیکس کلکٹر ہو ،گلی کے غنڈےنہیں ۔
ان کے درمیان غلط فہمیاں بھی پیداہوتی رہتی تھیں جسے افہام وتفہیم سے سلجھالیاجاتاتھا۔ان کااصول تھاکہ ہرصورت تشدد سے پرہیزکیاجائے۔اگر کوئی بات نہ مانتااوراپنےدعوے پراڑجاتاتودہ حبشی لڑکااسے چیلنج نہیں کرتاتھااسے اس کے حال پرچھوڑ دیتااورباقی سب اس کی بات مان لیتے تھے۔اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ دھان پان سا لڑکاان کاحاکم تھابلکہ اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ ان سب سے زیادہ مقبول تھا۔
اس نے مستقل آمدنی کے لئے پارک کےبازو بھر کونےکو پارک کے طورپراستعمال کرنےکوکئی وجوہات کی بناپرموزوں ترین سمجھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ سپر مارکیٹ کی دکانوں کےباہرتارکول کی سڑک تھی۔ وہاں گاڑیوں کی آمدورفت زیادہ تھی۔اگر سڑک کچی یااس پر روڑی پڑی ہوتی تووہ گاڑیوں کے لئے نقصان دہ تھی۔دوسرایہ کہ بازار آنے والی گاڑیوں کواس کونے سے ہی گزرناپڑتاتھااورتیسرا یہ کہ وہاں گاڑی پارک کرناآسان تھا۔اس جگہ کے انتخاب کی چوتھی وجہ یہ تھی کہ وہ سپرمارکیٹ کے قریب تھی لیکن وہ مارکیٹ کے بالکل سامنے نہیں تھی۔اسلئے رہڑیوں، لوڈروں کاسامان اتارنا چڑھانا نہیں ہوتا تھا۔اس کے علاوہ ی پانچویں وجہ یہ بھی تھی کہ وہ کونہ گرجاگھر کے عین سامنے تھا۔لوگ اتوار کووہاں عبادت کے لئے آتے تھےتو ان موالیوں کی غربت پرترس کھاکر بخشیش دے دیتے تھے۔اس گرجاگھرمیں شادیاں بھی ہوتی تھیں ۔ایسے مواقع پر لوگ فراخدل ہوجاتے تھےجوانہیں خوشی سےصدقے کے لئے خیرات دے دیتے تھے۔علاوہ ازیں اس گرجاگھر کامہتمم نرم دل تھا جو مستحق افراد کے ساتھ رعائت کرتاتھااور وہاں اسے کھڑاہونے دیتا
بازو بھرے کونے میں اس وقت ایک خاتون ایک مرد کے ساتھ بیٹھی تھی۔وہاں پھلوں کے خالی کریٹ پڑے تھے۔وہ ان پر نہیں بیٹھےتھےبلکہ شراب کے خالی ڈبوں پر بیٹھے تھے کیونکہ وہ سخت تھےاور ان کابوجھ برداشت کرسکتے تھے۔وہ کوئی دستکار نہیں تھے۔خاتون سلائی بنائی نہیں کررہی تھی نہ ہی سگریٹ یا کوئی اورچیزبیچ رہی تھی یا عورتوں کے جوڑے بنارہی تھی، نہ بیمار نظرآتی تھی اور نہ ہی معذور تھی لیکن ایسامحسوس ہورہاتھاکہ وہ نشے میں تھی۔کسی نے بھی ان کے وہاں بیٹھنے پر اعتراض نہیں کیاتھا۔کسی نے انہیں وہاں بیٹھنے کی وجہ بھی نہیں پوچھی تھی۔ان کوہی وہاں بیٹھنے کی اجازت دی گئی تھی۔کسی اور کے ساتھ ایسا فراخدلانہ سلوک نہیں کیاجاتا تھا۔وہ خاتون وہاں بیٹھ کر کبھی کبھار ایسے بےبس لوگوں کی طرح جوکوئی ٹھکانہ نہ ہونے پر فٹ پاتھوں پر سوتے تھے ،کی طرح قہقہے لگاتی تھی۔پارکنگ ٹیکس وصول کرنے والے صرف نجی سطح پراس قسم کی حرکات کرکے کچھ تسکین کرلیتے تھے۔ سفید پوش خریدار اس بات کوایسےنظراندازکردیتے تھے جیسے رات کےکھانے کی دعوت پر ایک شخص کواس بات کاپتہ چلے کہ اس کی مے خورگرل فرینڈ گرجاگھر کا بیت الخلااستعمال کررہی تھی جو بڑا جرم تھا۔ایسا کرنے کی سہولت اس نے اس خاتون تک ہی محدود رکھی تھی۔اس کو آزادی تھی کہ وہ اپنی قمیص اتار کرباغ کے پانی کے پائپ سے نہائے اور گرمی سے بچے۔جب وہ خاتون اپنی جگہ سے ذراسی اوپرہوکرجھکتی تواس وقت عام طور پرصحن کے گھاس والے قطعےپر چلی جاتی تھی اور ایسےلیٹ جاتی تھی جیسےہ وہ اس کا بستر تھا۔اس عمل میں وہ بذات خودعملی طور پر کوئی حصہ نہ لیتااورنہ ہی اس سے نفرت کرتا،نہ اس پرالزام تراشی کرتا،نہ ڈانٹتااور نہ ہی اسے مارتااورکہتا کہ وہ وہاں سے چلی جائےبلکہ اپناپورادھیان اپنے دھندے پر دھیان دیتاتھا۔وہ اس کی محبوبہ بھی تھی ۔جوں ہی کسی ریاستی ادارےکاکوئی کارندہ اس خاتون کو وہاں سے چلے جانے کوبولتاتواحتجاجاً زمین پر لیٹ جاتی تھی اور ہررہگزر اس سے بچ کر نکلتاتھا۔دوسری طرف وہ قائد حبشی لڑکااس سے نفرت نہیں کرتا، نہ ہی اسےڈانٹتا،نہ ہی دھتکارتا،اور نہ ہی اسے مارتابلکہ اپنے فرائض سرانجام دیتارہتا جبکہ اس کے دیگر ساتھی دل سے یہ چاہتے تھے کہ خاتون وہ جگہ چھوڑ دےاور وہاں سے چلی جائےلیکن ان کی شکایات ان سنی کردیتااوراس خاتون سے اپنا الوسیدھاکرتارہتا۔وہ خاتون وہاں بےسدھ ہوکرلیٹی رہتی ۔ وہ اتنی نحیف تھی کہ اٹھ بھی نہیں سکتی تھی ۔جوں ہی اس میں کچھ توانائی اور ہمت آ جاتی تو خودکوزمین سے اٹھ کر پھر کریٹ پر بیٹھ جاتی تھی۔
پارک میں ٹیکس وصولی کرنے والے دیگر کولیکٹر بڑی خاموشی سے بھتہ اپنی جیبوں میں ڈال کرچلے جاتے تھے۔ان میں کچھ تو ایسے تھے جواسکا اس بھتے میں حصہ نہیں دیتےتھے۔اس نے ہر کارندے کو لقب دیاہواتھاجیسےلوکاس ایک آسان ایسا نام تھاجوآسان تھا ۔وہ اس طرح کے سادہ القاب دیتا رہتاتھا کیونکہ ان کے افریقی نام بہت مشکل تھے۔ان پر اس طرح ذاتی طورپرتوجہ دیتا جس کےوہ لائق ہوتے۔ کسی بھی بوڑھےگورے کووہ عزت سے 'اوپا'کہہ کرپکارتاجس کے معانی'بزرگ یاوالد'کے تھے۔اس کے بعداگر گوری خاتون یاگورا اس کو'ہائے اوما' کہ دیتے جس کے معانی 'تم کیسے ہو۔تمہاراکیاحال ہے؟'تووہ جواب میں 'اعلیٰ یابہت اعلیٰ 'کہتے اور خوش ہوکروہ انہیں کچھ بخشیش دےدیتےتھے۔ان گورےگوریوں نے جولباس پہنا ہوتا تھاایسالگتاتھاکہ وہ کسی اہم جگہ جارہے ہوتے تھے۔وہ ہرجوان مردوزن خواہ وہ گوراہویاکالاکو بلا امتیاز'سویٹی'کہہ کرپکاراجاتاتھا۔۔۔ایک ڈرائیورجس نے فٹ پاتھ کےکنارےکو ریورس گیئرمیں ٹکر ماری تواس وقت ڈرائیور نے اسے 'سویٹی'نہیں کہابلکہ تنبیہ کی کہ وہ ڈھنگ سے دیکھے اوراس کی گاڑی کوصحیح طورپر پارک کرائے۔اس نے اس کےان الفاظ کواپنی ہتک اور جارحیت شمارکیا۔اسے کہا کہ اس کی فاصلےکوصحیح طور پرپرکھنے کی حس مفقود ہوگئی تھی۔فاصلوں کے درست جائزےکے تعین کی ایک حد ہوتی تھی۔
وہ عملی طورپرسب سےاچھےتعلقات رکھے ہوئے تھاجسے وہ باہمی لینے دینے کاعمل کہتاتھا۔
اس کاایک گاہک ایک نوجوان جوڑاتھا جواتفاقاً گورا تھا۔اور لوگوں کی طرح اسے اس بات کاعلم نہیں تھاکہ خاتون ایک کمپنی کی مالک تھی اوراس کاخاونداسکی کمپنی میں حصہ دار تھا۔وہ کمپنی ایڈورٹائزنگ اور اشاعت کرتی تھی ۔اس کے علاوہ وہ ایسے لوگوں کوپیسے کمانے کے گربتاتی تھی جن کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔ پارکنگ کا مقام بعض اوقات خطرناک بھی ہوجاتاتھاجس کی وجہ سےکار کےساتھ اونچ نیچ ہوسکتی تھی۔اسکے ساتھ کوئی غیر متوقع واقعہ پیش آسکتاتھا۔اس نے دیکھا کہ ڈرائیور اس دن اس کار کو پارکنگ کے لئے ہرجگہ گھمایا لیکن پارکنگ ڈھونڈنے میں ناکام رہی اور کار ادھرادھرگھومتی رہی۔وہ اس کارکو بغور جائزہ لیتا رہا۔اسے اس کی پارکنگ کی مشکل کااندازہ ہوگیا تھا۔تھوڑی دیربعد وہ ڈرائیواس کو اپناہاتھ اٹھاکر متوجہ کیااورکہ اس کی مدد کرے۔کارپارک کروائے۔ خریداری کاسامان گاڑی میں رکھ دے۔اس نے گلہ کیاکہ دکاندار بہت مہنگے ہوگئے تھےاورلوٹنےپرلگے ہوئے تھے۔اس نے ان کی مدد کی اور مونہہ مانگے دام وصول کئے۔
ہفتے کی ایک شام وہ کسی سے باتیں کررہاتھاتواسے ایک خاتون جو بازار سے خریداری کرکے آرہی تھی کے جوتے نظر آئےتو غور کرنے پراس نےاندازہ لگایاکہ اس کےپاؤں اور جوتے کے سائزمیں فر ق تھا۔اس نے اپنے سر کوجھٹکادیااور مڑکراپنی محبوبہ کودیکھا۔ وہ ہرجوڑے کوہاتھ ہلاکرکہتاکہ کیاان کےپاس کوئی ایساگرم کوٹ ہےجو وہ استعمال نہ کرتے ہوں ۔اگر ایساتھا تووہ اسےدان کردیں۔بہت سردی تھی ۔ تم اگرمجھےدے دوتو میں ٹھٹھر کرمرنے سے بچ جاؤں گا۔اگروہ اس کی درخواست نظرانداز کردیتے تووہ برانہیں مناتاتھا۔اسے اپنی سبکی نہ سمجھتا۔
اس مارکیٹ میں جوخریدار آتے وہ اسی علاقے کے تھے۔اسے اچھی طرح یادتھاکہ مرد وحضرات کے لباس،جوتے وغیرہ کیسے ہوتے تھے۔ایک خاتون ایسی تھی جووکالت کرتی تھی۔وہ اس بات پر حساس تھی کہ کوئی اس کی نجی زندگی کےبارے میں سوال نہ پوچھے۔اس کی زندگی ایک معمہ تھی۔کوئی اس کے ماضی کےبارے میں نہیں جانتاتھا۔
اس کی محبوبہ ایک ہفتے کی صبح ننگی گھاس پرنشہ کئے لیٹی تھی ۔اس نے اپنے بازواپنی چھاتی پررکھے تھے۔وہ اس کےپاس بیٹھاتھا۔اس وقت ایک جوڑامارکیٹ سے خریداری کرکےادھر آیا۔مرد کوشش کررہاتھاکہ اپنابازو اس کے کندھے پر رکھےاسے ہچکی آرہی تھی۔وہ اس کے ساتھ ایک قہقہہ لگاتا۔اسے مردکااپنی عورت کے ساتھ سلوک پسند نہ آیا۔اس نے سوچاکہ ان کوایک دوسرے پرتبصرے اور طنز نہیں کرناچاہیئے۔ ان کی سماجی اور اقتصادی حیثیت اس سے اعلیٰ اور بہتر تھی ۔اب اس کی آزادانہ سوچ نےجوازدکھاناشروع کردیا تھاجوکہ کسی طورممکن نہ ہونےوالی صورت میں آگیاتھا۔دوسری طرف جومنقسم ہوچکی تھی۔یہاں ایک مرد جس کو'لوکاس' کالقب دیاگیاتھا،ان لوگوں کومنظم کررہاتھا۔
عملی طوران دکانوں پر پارکنگ ٹیکس کی تقسیم پرنہ تواعتراض ہوااورنہ ہی جھگڑاکیاگیا۔پارکنگ ٹیکس کی وصولی کواس وقت مضحکہ خیزدلیل نہ سمجھاگیا یااس تجویز کواسکی نصیحت سمجھا گیا۔لوگ باگ یہ جانتے تھے کہ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس معاملے کو سمجھیں، شناخت کریں اوراس پر عمل کریں۔وہ اس مارکیٹ اور مے خانے کی جووہاں موجود تھاجس کاکاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہاتھاپر اس بات کی پیروی کرسکتاتھاکہ وہاں وہ اپناوقت زیادہ گزارے۔اس نے اس مےخانے میں کام کرناشروع کردیا۔مے خانےپرہراتوار کودنگافسادہونے لگا۔ گرجاگھر شرابیوں میں پریشانی پیداکرتاتھا۔مقامی افواہیں ۔(کیااس نے سنا،اس بوڑھے آدمی کے بارےمیں جوسپورٹس کار میں آیاتھا)ہاں ۔۔۔وہ سرخ شخص۔۔۔جس نے پولیس کار میں اپنی کار دے ماری تھی اوراس خاتون کی کارمیں اس کاسامان ڈال رہاتھانےاس پریہ الزام لگا دیا کہ اس نے سامان چوری کیاہے۔اس نے جھوٹ کاپلندہ باندھااور برے معقول دلائل دئیےاورمنظم قسم کی منطق تھی جس نےاس خاتون کوسوچنے پرمجبورکردیاتھا کہ وہ سمارٹ تھا۔۔۔نہیں۔۔۔اسے شرمساری نہیں تھی کہ اس بندے کاکوئی حقیقی پیشہ نہیں تھا۔اس بات اس کی صلاحیتیں تھیں جواس کومحنتانہ دلواتی تھیں ۔کوئی بخشیش حاصل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں پھیلاتاتھا۔ لوگ خود بخود چند سکے اسے دے جاتے تھے۔
کرسمس میں دیکھاگیاکہ وہ مے خانے میں مدد کرتاتھا۔اس فرش پراوروہ لوگ جو پارٹیوں کے لئے شراب کی پیٹیاں لے جاتے تھے وہ انہیں کاروں کی ڈکی میں رکھاکرتاتھا۔جب وہ ایک دوسرے کے لئے نیک خواہشات کااظہارکرتےاور اسے ہائے ہیلو کہتے اوربولتے کیا تم اب یہاں کام کررہے ہو۔وہ اس بات پردانت پیستا۔نئے سال کی آمدپروہ ایک بارپھر سے گرجاگھرکےباہرکھڑاہوتاتھاجہاں پارک کاایک رہائشی گرجاگھرکے بیت الخلاکےسامنے گھر کے پیچھے کھڑا تھا۔اس نے اسے دیکھ کراپناچہرہ دوسری طرف پھیر لیااوراس خاتون کوکہاکہ تم اس مےخانےپرکیوں نہیں ہو؟(جواس محلے کی مقامی بول چال تھی)۔وہ عورت آگے بڑھی اس نے دکانوں کے باہر بکھری ہوئی خوراک جسے دوسروں نے پھینک دیاتھا پر جھپٹی جولوگوں نے دکانوں سے باہرکوڑے کے ڈرموں میں اس لئے پھینک دی گئی تھیں کہ وہ انہیں کھانا نہیں چاہتے تھے یا ان کے لئے فالتو تھی۔ اس نے اسے اکٹھاکرنا شروع کردیا ۔ اس نے ان لوگوں کی تلافی کرناچاہی جن کی معصوم خواہشات نے اس کی ضروریات کے حصول کوپیچیدہ بنادیاتھا تو اس وقت وہ زیادہ چوکنی اور محتاط ہوگئی۔
نشئی کاتون اپنی ٹیم سے ملی حکام کے حیلے بہانےاورخوفزدہ کرنےوالی دھمکیوں نےخوشامدانہ حد تک ظلمت پیداکردی تھی۔ان ملاقاتوں میں مردوزن جن کاتعلق موالیوں سے تھاکو امداد کی بجائےجھڑکیاں ملنے لگیں۔ان کا پروگرام چوپٹ ہونے لگا۔وہ اصول و ضوابط جن کے تحت وہ زندگی گزار سکتےتھےایک کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی تھی۔ان مفروضوں میں گنوارپن تھا۔اسکی محبوبہ نشے میں گرتی پڑتی زمین پرلیٹ گئی ۔اس نےاسے فرش پرنشے میں ہی پڑارہنےدیااورکوئی اس کو روند سکتاتھا۔اس خاتون کاایک ہی کام اور پیشہ تھااوروہ مےخوری تھی۔وہ اسے 'صبر'کے علاوہ اور کچھ تلقین نہیں کرسکتاتھا۔ اس کی آزادی یہی تھی کہ وہ یہ کرےجوکہ اس کی محبوبہ کے حواس بحال کرسکے۔اسے اہنی محبوبہ کے رویے کی وجہ سے لوگوں کے طنزیہ قہقہے برداشت کرناپڑتے تھے۔ لوگ اس خاتون کوشرابی کی حیثیت سے پہنچانتے تھےتمہارے پارکنگ ٹیکس کاوہ نوجوان اس کے ساتھ ہوتاتھا پریشانی سے اسے تنگ کیا کرتاتھا۔وہ نشے میں عالمی ریکارڈتوڑسکتاتھاکو بحالی مرکز بھیج دیاگیاتھا۔اس لت سےنہ صرف اس کی نوکری بلکہ محبوبہ بھی جاتی رہی۔
ایک ہفتے کوجب اسے اپنے ایک پرانے مؤکل کو خریداری کے ساتھ دیکھا تووہ اس وقت کسی اور کام مصروف تھا۔وہاں کوئی اس کاسامان اٹھانے والانہ تھا اورسامان گاڑی میں رکھوانے والا کوئی نہ آیا ۔ اس وقت اس نے اس کالے لڑکے کو سٹیشن ویگن کے ٹائرفٹ پاتھ پرپنکچر لگاتے ہوئے دیکھا۔
پارک کےبیت الخلا کے آس پاس کےدیگررہائشی نشئی عورت کوڈھال کے طورپراستعمال کرتے تھے۔اور بغیر داڑھی والا ایک اورحبشی میلے کچیلے لباس میں گرجا گھرکےسامنےاتوار کو باقاعدگی سے بھیک مانگتانظر آتاتھا۔وہ روپئے پیسے کاتقاضانہیں کرتا تھابلکہ روٹی مانگتاتھا۔اس خاتون کے ٹین کے کشکول میں مچھلی کاایک ٹکڑاہوتاتھا۔وہ اس میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولتی اور مسکینی سے اسے دیکھتی ۔ایک خریدار اس بھکاری عورت اور مرد بھکاری کے درمیان کھڑاہوگیا۔خاتون کونظرانداز کرکےاس نے مردبھکاری کوڈانٹاجواس کے سامنے سر جھکائے کھڑارہا۔اس نےآگے بڑھ کرخاتون کےقریب ہوکر حقارت سےاسےدھکادیاجس سے اس کاڈبہ جس میں مچھلی کاٹکڑا تھازمین پر گرگیا۔وہ اس وقت مرد بھکاری عام لوگوں سے بھی زیادہ طاقتوراور مضبوط شخص بن کرکھڑاہوگیااور ایک بادشاہ کاکردار ادا کرتے ہوئےفوراًجھکاور اس ڈبے کواٹھایااور دوبارہ اس خاتون کی ٹرالی میں رکھ دیا۔
وہ بہت بھوکاہے۔اسے کچھ کھانے کو دو۔خاتون نے کہا
بھوکا؟وہ عادی مے خور ہے۔ اس کوکچھ بھی نہ دو۔کچھ بھی نہیں۔وہ اسے نہیں کھائے گا۔وہ پارک میں جاکر اسے بیچ دے گااوراس سے شراب خریدلے گا۔اس شخص نے اسے دھکادیااور دھمکی دی جیسے وہ کسی کتے کورسی سےباندھ رہاہو۔اس نے گہری سانس لی،اپنے دماغ کوصاف کرنے کے لئےگلہ صاف کیا۔اپنی خفت مٹانے کے لئےمسکرایا۔یہاں وہ غیررسمی طور پرلوگوں پراستحصال کم کرنے کا کام کیا۔
وہ جب اپنی ٹرالی لے کرجارہی تھی تووہ دیکھاکہ اس نےغلط سمجھاتھاکہ اس کے علاوہ کوئی اور رستہ نہیں تھا۔کچھ بھی تبدیل نہیں ہواتھا۔وہ لڑکا خود کو رسمی دنیا میں رہنے کےلئےضرور ایک دن تیارکرلے گااور پارکنگ ٹیکس کادھندہ نہیں کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Popular posts from this blog