Oedipus Rex and Life historyا یڈیپس ریکس پہلی قسط ) سوفوکلز

                           


                         



 یونانی بادشاہ ایڈیپس کی  داستان 

(مثلثیات  المناک ڈرامے)


Trilogy            

   (Sophocles (Greece                  

(496-406 B.C)             



 

مرتب :   غلام محی الدین  

 

 ایڈیپس بادشاہ  (Oedipus The King)      

      

یونان کے شہر تھیبز (  Thebes) میں بادشاہ لائس (Laius  )  اور ملکہ جوکاسٹا (Jokasta  )    پراسرار طریقے سے ایک نومولود بچہ اپنے معتمد خاص چرواہے کو دے کر حکم دیتے ہیں کہ اسے پہاڑ کی اونچی چوٹی سے گرا کر مار ڈالےو۔ یہ کام نہائت احتیاط اور راز داری سے ہونا چاہیئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ 

گڈریا  اس بچے کو احتیاط سے  اٹھا لیتا ہے۔ وہ اس پر نظر ڈالتا ہے تو وہ ایک نہائت پیارا لڑکا ہے۔ اس کے دونوں ٹخنے باندھے ہوتے ہیں۔وہ اسے لے کے دبے پاؤں چلا جاتا ہے۔  اس کے سینے پر بوجھ  ہے۔ حکم حاکم  مرگ مفاجات ۔  

تھیبزکے بادشاہ لا ئیس کا دورشانتی کا دور ہے لیکن وبائی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔تمام تر تدابیر کے باوجود صورت حال بد سے بد تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ بادشاہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے دیوتاؤں کے بڑے معبد جاتا ہے تا کہ ان کے آگے گڑگڑا کر امداد طلب کرے اور عفریت سے چھٹکارا پائے۔کولونس کی اس شاہراہ  پر جہاں  مختلف مقامات کے لئے سڑکیں پھوٹتی ہیں، ایک راہگیرسے جھگڑے میں لائیس بادشاہ مارا جاتا ہے۔ اجنبی کو تھیبز کی وبائی امراض سے بگڑتی صورت حال کا علم ہوتا ہے تو انسانی ہمدردی کی خاطر ان کی مدد کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ 

  اجنبی کو بتایا جاتاہے کہ اس فساد کی جڑ ایک بد روح سفنکس (Sphinx) تھی ۔ وہ شیطانی فطرت کی بنا پر عوام الناس کو  اذیت دینے کے نت نئے ڈھونگ رچاتی تھی۔ اب اس نے بلاؤں کو ختم کر نے کے لئے یہ شرط رکھی تھی کہ جب اس کی پہیلیوں کا صحیح جواب آ  جائے گا تو وہ ان بلاؤں سے ہاتھ اٹھا لے گی لیکن وہ پہیلیاں اتنی مشکل ہوتی تھیں کہ بڑے سے بڑا گرو بھی ناکام ہو جاتا تھا۔ اجنبی اس کے پاس گیا اور اس کی پہیلیاں حل کر دیں جس سے تھیبز کی مشکلات ختم ہو گئیں۔حالات معمول پر آگئے۔ لوگوں کو اس کی اس خدمت کا پتہ چلا تو خاص و عام خوش ہوئے اور اس اجنبی کو اس کی خدمات کے سلسلے میں عقیدت کے طور پر تھیبز کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ روائت کے مطابق نئے بادشاہ نے بیوہ ملکہ جوکاسٹا سے شادی کر لی۔ اور چین سے حکمرانی کرنے لگا۔اجنبی جو بادشاہ بنا ہے۔اس نام ایڈیپس ہے۔ اسکے چار جوان بچے ہیں۔ا یک بیٹی (Antigoneکی منگنی اپنے سالے کری اون(Creonکے بیٹے ہیمون (Haemon) سے کر دی ہوتی ہے۔ 

 ایڈیپس کی تنظیمی صلاحیتوں کی بدولت ایک مثالی ملک کے روپ میں ابھرتا ہے۔ ہر طرف امن اور شانتی کا دور دورہ ہے۔ چرند و پرند اور عوام خوش ہیں۔ زندگانی مزے سے گزر رہی ہے کہ کسی حاسد کی بد دعا لگ جاتی ہے اور تھیبزکی خوشحالی کو نظر اجاتی ہے۔ بادشاہ کو ہر طرف سے بری خبریں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ طاعون پھیل جاتا ہے۔ سماوی آفات تسلسل سے آنے لگتی ہیں۔ ڈھور ڈنگر ہزراروں کی  تعداد  میں مرنے لگتے ہیں۔ حمل گرنے لگتے ہیں۔ مردہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ قحط  یا پھر طوفانوں سے فصلیں اجڑنے لگتی ہیں۔ بادشاہ اور رعایا پریشان ہو جاتی ہے۔ کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ سال ہا سال اس نے ہر چیلنج کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہےلیکن تھیبز کو ایک بار پھر آفات نے گھیر لیا ہے۔ ہر تدبیر الٹی پڑ رہی ہے۔ وہ پریشان ہے۔  دیوتاؤں کا عبادت گزار ہے لیکن کوئی رستہ سجھائی نہیں دیتا۔ 

 ایک دن وہ زیتون کی شاخوں کی عبادت کر رہاتھا۔ رحم کے لئے دعائیں مانگ رہا تھا۔ معبد میں اس وقت آفات کے خاتمے کے لئے اپنے طور پر نجومی، غیب دان، عالم، الہامی قدرت رکھنے والے درویش  اور برگزیدہ  لوگ پوجا کررہے تھے کہ اوڈیپس نے ان سے مدد حاصل کرنے کا سوچا۔ 

 
محترم پجاریو! میں اوڈیپس جس کی عظمت کے سب گن گاتے ہیں،تمہاری بھلائی کی خاطر یہاں موجود ہوں۔ تمہاری مشکلات سے بخوبی آگا ہ ہوں۔ میں تمہیں مشکلات سے نکالوں گا۔ میں اس لئے یہاں آیا ہوں کہ برگزیدہ لوگوں اور دیوتاؤں سے معلوم کر سکوں کہ کس قسم کی آفات سے ہمارا واسطہ ہے اور مجھے کیا تدابیر کرنی چاہئیں کہ تھیبز کی  مشکلات کا خاتمہ ہو سکے۔ پجاریو، نیک بندو آپ مجھ سے علم، تجربے اور عقلو دانش میں یقیناً زیادہ ہیں، دیوتاؤں کے زیادہ قریب ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں اور بتائیں کہ ان مشکلات کا سبب کیا ہے اور ان کا تدارک کیسے ہو سکتا ہے۔  

ایڈیپس نے رائے  چاہی۔ 

عا لیجاہ! اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ تھیبز کے عظیم ترین حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ رعایا آپ سے خوش ہے۔  بچے، نوجوان، بزرگ، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ بھی آپ کو دعائیں دیتے ہیں۔ سب دعا گو ہیں، آفات نے ہماری ریاست کا راستہ دیکھ لیا ہے۔فصلیں برباد ہوگئی ہیں۔ ڈھور ڈنگر  مر رہے ہیں۔ بیماریاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ موت کا کھیل جاری ہے۔ مردہ بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہم اپنی طرف سے تمام کاوشیں کر رہے ہیں۔ چلے کاٹ رہے ہیں۔ نذرانے بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ جانور قربان کر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ تمام لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ ہم میں بہتوں سے ارفع و اعلیٰ ہیں۔ دیوتاؤں سے آپ کا تعلق ہم سے زیادہ گہراہے۔ آپ اندر کی باتیں جانتے ہیں۔ آپ کے پاس ان دیکھی قوتوں کے پیغام کثرت سے آتے جاتے ہیں۔ آپ کے پاس ہم سب سے زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ یہ بات بحرانوں میں صحیح ثابت ہو چکی ہے۔ طاعون کی وبا سے سفنکس سے نجات اس کی واضح مثال ہے۔ ہر جنگ میں فتح یاب ہوئے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کو لازم بنایاہے۔ ہم سے زیادہ آپ زیادہ اہل ہیں اور عفریت سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔   

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ  میں ان باتوں سے بے خبر ہوں۔ رعایا سوتی ہے تو مجھے فکر سے نیند نہیں آتی۔ میں تدابیر سوچتا رہتا ہوں کہ مصائب کو کیسے حل کیا جائے۔ میں نے درد مند درویشوں، علما و مشائخ اور پیغامبروں کو آفاقی قوتوں کے پاس بھیجا ہے کہ ہدایات لے آئیں تاکہ ہم سکھ کا سانس لے سکیں۔ علاوہ ازیں شاہی مشیر کری اون کو مانوسی یس کے پاس ہدایات کے لئے بھیجا ہوا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ وہ خیر کی خبر لائے گا اور آفتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اوڈیپس نے کہا۔ 

جناب والا! ابھی ابھی دیوتا سائیپس نے بشارت دی ہے کہ ان آفات کے خاتمے کا دارومدار آپ کے پاس ہے۔ آپ چاہیں تو یہ ختم ہو سکتی ہیں۔  ایک پیامبر  نے کہا۔ 

میرے ہاتھ میں! کیسے؟ میں دن رات ان مشکلات کو دور کرنے کی ہر ممکن کو شش کر رہا ہوں۔ اس دیوتا کے مطابق میں کیا کروں کہ عوام  سکون میں آ جائیں۔ اگر میں اس قابل ہوں کہ میں کام آ سکوں تو اس سے بہتر اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ میں فوراًاس پر عمل کروں گا۔ بتائیے مجھے کیا کرنا ہے؟ 

مجھے اپالو دیوتا نے پیغام دے کر بھیجاہے کہ ایک غلیظ اور خطرناک مجرم تھیبز میں موجود ہے اور بڑے دھڑلے سے رہ رہا ہے۔ اس گند سے اگر شہر کو پاک کر دیا جائے تو آفات ختم ہو جائیں گی۔ 

اس بارے میں تفصیل سے بتائیں۔ ایڈیپس نے پوچھا۔ 

ڈیلفائی میں اپالو دیوتا نے بتایا ہے کہ اس شخص نے اپنے باپ کو قتل کرکے اپنی سگی ماں سے شادی کر نے کا گھناؤنا جرم کیا ہے۔ وہ بد ذات کون ہے اسے تھیبز سے نکالنا ہوگا اور قرار واقعی سزا دینا ہو گی۔  اس صوفی نے کہا۔ 

  مجھے پیغام ملا ہے کہ اس شخص  نے اپنے سگے  باپ کو قتل کر کے اپنی ماں سے شادی رچالی ہے۔ بڑی نشانی یہ ہے کہ اس نے اپنے  والد کے ساتھ تین اور لوگوں کو بھی اسی وقت قتل کیا۔ اسے ٹھکانے لگانا ہو گا۔ اس کے مرنے کے بعدہی تمام آفات ختم ہو ں گی۔ درویش نے کہا۔ 

ہمیں اپالو کے حکم پر عمل کرنا ہو گا۔ ہمیں اس غلیظ شخص کو تلاش کر کے قتل کرنا ہوگا۔ میں اپنی پوری قوت اسے ڈھونڈنے میں لگا دوں گا۔ اگر کسی کو بھی اس بارے میں کسی کو کسی قسم کی اطلاع ہےتو مجھے مطلع کرے۔ میں اس قتل سے نا آشنا تھا۔ میں اس بات سے لاعلم تھا کہ وہ شخص ہمارے درمیان موجود ہے۔ مجرم کو پناہ دینے والے کا بھی میں سر قلم کروا دوں گا۔ اطلاع دہندہ کو انعام و اکرام سے نوازوں گا۔ 

ایڈیپس نے اعلان کیا۔ میں حق اور سچ پر ہوں۔ دیوتا میری مدد کریں گے آج ہماری نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔  مجھے یقین ہے میں اسے جلد ہی اسے پاتال سے بھی نکال لاؤں گا۔ کل مجرم اپنا سر پیٹ رہے ہوں گے۔ میری دیوتاؤں سے التجا ہے کہ مجرم کی تلاش میں رہنمائی کریں۔ ہمارا ان پر کوئی زور نہیں ۔ ہم ان سے صرف التجا ہی کر سکتے ہیں۔ 

چند دنوں بعد ایک نابینا غیب دان درویش ٹائر سین  اوڈیپس کے پاس آیا۔ وہ صاحب بصیرت، معتبر، دیوتاؤں کا نیک بندہ تھا۔ اس کے الہام ہمیشہ صحیح ہوتےتھے۔ وہ ایک لڑکے کے ساتھ آیا تھا۔ وہ گویا ہوا۔ 

    مجھے سگےوالد کے قاتل اور ماں سے شادی کرنے والے شخص کا پتہ چل گیا ہے۔ مجھےدیوتاؤں نے پوری صورت حال سے آگاہ کر دیا ہے۔  ایڈیپس یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اے غیب کا علم جاننے والے معزز درویشتم سچے شخص ہو۔ تم ہمیشہ صحیح بات کرتے ہو۔  ہم خوش قسمت ہیں کہ آپ جیسے مدبر لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اب بتائیے ماجرا کیاہے؟ 

میں جانتا ہوں کہ قاتل کون ہے۔ کس نے اپنے بادشاہ والد کو قتل کیا ہے اور اپنی ماں سے شادی کرکے اس سے اولاد حاصل کی ہے۔ سچائی بہت تلخ ہے۔ میری بہتری اسی میں ہے کہ میں خاموش رہوں۔ مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ مجھے یہاں آکر اب اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے۔ مجھے واپس چلے جانا چاہیے۔ ٹائییریسن درویش یہ کہہ کراس نے اپنے ساتھ آئے ہوئےلڑکے کو چلنے کا کہا۔ 

رکئے! بتائے بغیر نہیں جا سکتے۔ لوگوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ سچائی کا پتہ چلے۔ کیا آپ کو تھیبز کے عوام پر رحم نہیں آتا۔سب بلک بلک کر مر رہے ہیں ۔ بتائیے تاکہ مجرم کو قتل کرکے ان کو اذیت سے نجات دلائی دی جا سکے۔ اوڈیپس نے درخواست کی۔ اتنے بے رحم  نہ بنیے۔ رعایا دعائیں دے گی۔  

اس وقت مجھے جس بات کا پتہ



ہے اگر 
تمہیں بتا دیا تو وہ  خبرتمہاری بد قسمتی  کا سبب بن جائے گی ۔ بہتر یہی ہےکہ میں اپنی زبان بند رکھوں۔ ٹائیری سیس نے کہا۔سچ بہت کڑوا ہے۔ تمہیں دکھ دے گا اور تم پر
صیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔  

آپ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ کیوں ٹال مٹول کر رہے ہیں۔ کیا آپ رعایا کے دشمن ہیں۔ کیا آپ انہیںربادیوں سے بچانا نہیں چاہتے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ ہی مجرم ہیں اور اپنی سزا سے بچنے کے لئے   ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔حیلے بہانے  بنا رہے ہیں۔  اوڈیپس نے کہا۔آپ بے حس  اور پاگل ہو گئے ہو۔ برائے کرم بتا دیں۔اوڈیپس نے خلوص سے التجا کی۔ 

رہنے دو۔ اسی میں  ہی بھلائی ہے۔ درویش بولا۔ 

اس بار انکار پر بادشاہ کو غصہ آگیا۔ اس نے سختی سے پوچھنے کا ارادہ کیا اور کہا۔کیوں لیت و لعل سے کام لے رہے ہو۔ اگر ایسا نہ کیا تو میں تمہارا سر کٹوا دوں گا۔  

اس پر ٹائیریسن بولا۔ اگر سچ جاننا ہی ہے تو سن لو۔ وہ غلیظ شخص جو سلطنت کی تباہی و بربادی کا باعث  بنا، تم ہو۔ تم ہی وہ گند ہو جس نے سب کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ بات مجھے دیوتاؤں ہے۔  تم ہی بد کردار ہو۔ تم نے ہی بادشاہ کو قتل کر کے اس کی بیوہ سے شادی کی ہے اور اس  سے چاربچے پیدا کئے ۔  پاک رشتوں کو ناپاک کیا۔  تم نجس  اور نحس ہو جس نے رعایا کو جکڑا ہوا ہے۔ 

ایڈیپس یہ سن کر بھونچکا رہ  جاتا ہے۔ طیش میں آ کر کہتا ہے کہ تم  نہ صرف اندھے اور مکار  ہو بلکہ تمہارا دماغ بھی خراب ہو گیا ہے۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ تم کیا بک رہے ہو۔ میں بینا اور ہوشیار ہوں ۔ ہر قسم  کی معلومات مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں ۔ میرے پاس  ذرائع اور وسائل ہیں جن سے میں حقائق تک پہنچ سکوں۔ تم اندھے، بوڑھے اور لاچار ہو کر کیسے اتنے وثوق سے مجھے مجرم قرار  دے سکتے ہو۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو کیا مجھے علم  نہ ہوتا! تمہارے پاس کیاثبوت ہے۔ بتاؤ ، ورنہ مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ 

اندھا، لاچار اور  بے بس میں نہیں بلکہ تم ہو۔ مجھ پر چودہ طبق روشن ہیں۔ میں وہ چیز دیکھ سکتا ہوں جو کوئ آنکھوں والا نہیں دیکھ سکتا۔ٹائیری سین   درویش بولا۔ تم مجھے کیا سزا دو گے۔  موت اب تمہارا مقدر ہے۔ یہ دیوتاؤں کا حکم ہے۔ اسے کوئی نہیں ٹال سکتا ۔بزرگ نے کہا۔ میری حفاظت دیوتا کریں گے۔ بھول جاؤ کہ تم مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتے ہو۔  

مجھے یقین ہے کہ کسی بد خواہ نے اکسایا ہو گا۔ محلاتی سازشیں ہوتی رہتی ہیں ۔ میں پہلے بھی بہت بار ان  سے نپٹا ہوں۔ بتاؤ تمہیں کس نے خریدا ہے۔ کتنے میں بکا ہے۔کیا اس سازش کے پیچھے کری اون ہے۔ جلد بتاؤ۔ اوڈیپس نے  پوچھا۔ 

اس اطلاع کے پیچھے کوئی نہیں۔ یہ  خبر سچ ہے۔ کسی غلط فہمی میں نہ پڑو۔ غیب دان  درویش نے کہا۔ میں تو فقیرہوں۔ اپالو کا ایک ادنیٰ ماننے والا ہوں۔ مجھے اس نے پیغام بھیجا ہے کہ تمہیں بتا دوں تاکہ تم   سزا کا انتظام کر و۔ کیا تم جانتے ہو کہ تم   نے کیا کیا جرم کئے ہیں ؟ 

میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔  انصاف کا بول بالا کیا ہے۔کسی کا حق نہیں مارا۔ عوام اور سلطنت کو خوشحالی دی ہے۔ میرے تمام منصوبے کامیاب گئے ہیں سوائے موجودہ آفات کے۔ امید ہے کہ اس پر جلد ہی قابو پالیا جائے گا۔  اوڈیپس نے اعتماد سے جواب دیا۔ 

   جب تمہیں حقیقت کا علم ہو گا  تو سر پیٹ کر رہ جاؤ گے۔ کیا تم جانتے ہو کہ تم نے اپنےوالدین کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جلد ہی تمہاری کرتوتوںکا عذاب  تم پر نازل ہو گا۔تم اندھے ہو جاؤ  گے۔  سسک سسک کر مرو گے۔ تمہارا پچھتاوا بھی کام نہیں آئے گا ۔ تمہیں سزا ضرور ملے گی ۔ ذلت  تمہارا مقدر ہے۔  درویش نے پیش گوئی کی۔   تم اس وقت اس لئے بھڑک رہے ہو کہ حقیقت سے نا آشنا ہو۔ جب حقائق کھل کر سامنے آئیں گے تو ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔  

تم مجھے کیوں بد دعائیں دینے لگے۔ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔تمہاری تمام باتیں ناقابل برداشت ہیں ۔ اس سے پہلے کہ میں تمہاری گردن اڑانے کا حکم دوں بہتر ہے کہ میری نظروں سے دفع ہو جاؤ اور تھیبز چھوڑ دو۔ اوڈیپس تلملا کر   گرجا۔  

جاتے جاتے میں تمہیں مطلع کرتا جاؤں وہ  مجرم  یہاں موجود ہے۔ اس جگہ اس محل میں ہے۔  اس کو جلد از جلد  ڈھونڈو ۔ اس وقت تو وہ  شخص سب کچھ دیکھ  رہا ہے لیکن جلد ہی اس کی آنکھیں پھوٹ جائیں گی۔ اس کی آنکھوں سے خون کے پھوہارے  پھوٹیں گے۔وہ ٹکریں مار مار کر روئے گا جب اسے پتہ چلے گا کہ وہ اپنے بچوں کے باپ کے ساتھ ساتھ ان کا بھائی بھی ہے۔  یہی نہیں اس کے بچوں کی ماں اس کی بیوی بھی ہو گیاور حقیقی والدہ بھی۔  میں اپالو کا پجاری ہوں ۔ میں اندھا ہونے کے باوجود سب دیکھ سکتا ہوں۔ مجھے سچ جھوٹ کی پہنچان ہے۔    لالچ اور بے ایمانی دور دور سے بھی نہیں پھٹکی۔ دولت ، شان و شوکت  

میری باندی ہیں۔  خود فریبی میں مبتلا نہ ہو اور عقل کے ناخن لو۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گیا۔ 

 درویش کے جانے کے بعد  شاہی مشیر کری اون  پھنپھناتا ہوا آتا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ نابینا  نے   کچھ  الزامات عائد کئے ہیں۔   اس کے علاوہ آپ نے بھی  مجھ ہر سنگین الزامات لگائے ہیں۔مجھے بے ایمان اور سازشی کہا ہے۔ میں بے قصور ہیں۔ میں نے کوئی  جرم ہی نہیں کیا تو میں الزامات کیوں سہوں۔ آپ نے ایسا کیوں کہا؟ 

ٹائریسن  غیب دان  درویش مجھ پر کھلم کھلا قتل کا الزام لگا کر گیا ہے۔ اس کی اتنی ہمت کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کےپیچھے ضرور کوئی با اثر شخص ہے۔مجھے لگتا ہے کہ تم ہی وہ سازشی ہو جو مجھے بدنام کرنا چاہتا ہے۔مجھ سے تخت چھیننا چاہتا ہے۔ تم میرے سالے ہو۔ شاہی خاندان کے فرد ہو۔ ایسا لگتا ہے تم میرے تخت  ہتھیانے  کےچکر میں ہو۔ 

جناب والا  سنیں۔آپ خود بتائیں کہ کیا یہاں میری حیثیت اشرافیہ میں نہیں۔ میرا رتبہ کیا  کم و بیش تمام لوگوں سے بڑا ہے۔ میں ایسی شرمناک سازش کیوں کروں گا۔میں جو کچھ بھی ہوں اپنے رتبے پر خوشہوں۔ مجھے مزید اقتدار کی نہ تو  کبھی خواہش رہی  ہے اور نہ  ہی ضرورت۔ میں اپنے حال میں   مست ہوں۔ 

ہمیں  بلا وجہ اپنی ذمہ داریاں کیوں بڑھاؤ ں۔ ؟  آپ  مجھ پر شک کر رہے ہیں۔ آخر اس شک کی وجہ  کیا ہے جب بادشاہ قتل ہوا تو اس دور میں بھی  تم اور ٹرائیسن  یہیں تھا۔اس نے یہ ٍشوشہ اس وقت کیوں نہیں چھوڑا۔   ایڈیپس نے کہا۔اس نے آج سے پہلے میرے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی۔  مجھے اب بھی شک ہے کہ اس الزام کے پیچھے تمہارا ہاتھ ہے۔ 

آپ اپالو دیوتا سے پو چھ لیں یا کسی بھی دیوتا یا دیوی سے پوچھ لیں ۔ کوئی بھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ اگرس میں میرا ہاتھ ہوا تو بتا دے گا۔ اگر میرا نام آ جائے تو جو سزا وہ کہیں، مجھے دی جائے۔ کری اون نے کہا۔میں کسی طرح کی سازش میں ملوث نہیں ہوں۔ میرا یقین مانو۔ میں تو تمام معاملے سے بے خبر ہوں۔ 

تنازعہ طول پکڑتا ہے تو ایک پجاری مشورہ دیتا ہے کہ کسی فیصلے میں جلد بازی نہ کریں۔ کسی  کی باتوں پر دھیان  نہ دیا جائے۔ میں آپ کا چاہنے والا ہوں۔آپ کا وفادار ہوں۔ اگر میں نے صحیح بات نہ کی تو میں آپ کے خیر خواہ کی بجائے دشمن ہوں گا۔ دیوتاؤں کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔  

ٹھیک ہے۔کری اون یہاں سے چلا جائے لیکن  یہ سوچ لے کہ میرا ذہن اس سے صاف نہیں ہوا۔ مجھے اس سے نفرت ہو گئی ہے۔وہ پجاری کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ اس نے تھیبز کو لڑائی سے بچا لیا ہے۔اس وقت ملکہ جوکا سٹا داخل ہو تی ہے۔   

دیکھو    !    وہ اندھا  ٹائریسن مجھے قاتل قرار دے رہا ہے۔ تمہارا  بھائی کری اون   اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے ۔کیا اسے یہ زیب دیتا ہے جوکاسٹا ؟ اوڈیپس اس سے پوچھتا ہے۔ 

ہمارا ملک مصیبتوں میں ڈوبا ہے اور آپ  سب اسے مشکل سے نکالنے کی بجائے آپس میں جھگڑ رہے  ہو۔ رہا   ذکر   ٹائیریسن کا تو غیب کا علم صرف دیوتاؤں کو ہے۔ایک  بار ہمیں  بھی ایک  نجومی نے  ایک پیشین  

گوئی کی تھی کہ  سابقہ بادشاہ لا ئیس سے  ایک ا بیٹا  ا ہوگا  جو  اسے  قتل کرکے مجھ سے شادی کر لے گا۔۔۔ کیا  ایسا  ہوا؟  اسے تو لٹیروں نے کورونس  کی بڑی شاہراہ  پر قتل کر دیا   جبکہ اپنے اس بیٹے کو جو ہم سے پیدا  ہوا تھا اس وقت جب وہ تین دن کا تھا،  تو مر گیا تھا۔ہمیں من گھڑت  قصے کہانیوں پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ وہی ہوتا ہے جو دیوتا چاہتے ہیں۔ جوکاسٹا  نے کہا۔ 

 جوکا سٹا  تمہاری باتیں سن کرمجھے الجھن سی ہونےلگی ہے۔ پریشانی چھا  گئی ہے۔ مجھے  اس واقعے کوتفصیل سے بتاؤ کہ  لائیس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ واقعہ کب پیش آیا۔اس کی شکل و  شباہت کیسی تھی  وہ کیسا      دکھائی دیتا تھا؟  اس کی عمر کیا تھی۔ کیا وہ اکیلا تھا یا اس کے ساتھ  کوئی اور بھی تھا؟اوڈیپس نے پوچھا۔  

وہ شاہراہ  جہاں ڈیلفا اور ڈالیا  کی سڑکیں نکلتی ہیں۔ وہ اپنے چار محافظوں کے ساتھ تھا۔ان میں سے  ایک بچ نکلا  اور واپس تھیبز آگیا۔ باقی وہیں ڈھیر ہو گئے۔ بچ جانے والا محافظ ابھی بھی زندہ ہے اور پیر سال ہے۔اس نےآ کر  اس سانحے کے بارے میں اطلاع دی۔کچھ دنوں بعد آپ طاعون کی وبا  دور کر کے یہاں آگئے ۔ عوام نے آپ کو بادشاہ بنا دیا اور ہماری شادی ہو گئی۔ بادشاہ دراز قد تھا۔وجیہہ تھا۔ آپ شکل اس سے بہت ملتی ہے۔  اس کی نقل لگتے ہیں ۔ملکہ نے تفصیل بتائی۔ 

دیوتا میرا امتحان لے رہے ہیں۔ سب باتیں میرے خلاف جا رہی ہیں۔ جوکاسٹا   میں تم سے کچھ نہیں  چھپاؤں گا۔ میں   جہاں پہلے رہتا تھا  ،  وہاں میں اہم ترین شخص تھا۔ میرا باپ فیلی بس ڈیلیین سے تعلق  رکھتا تھا۔ وہ بادشاہ تھا اور میری والدہ   ملکہ میروقی  کورونس سے تھی۔ پھر ایک دعوت میں ایک معزز مہمان نشے میں دھت کہا  کہ میں بادشاہ اور ملکہ کی حقیقی اولاد نہیں ۔ مجھے کسی چرواہے نے  ان کے حوالے کیا تھا۔  

وہ بے اولاد تھے انہوں نے مجھے گود لے لیا۔ مجھ پریہ انکشاف بہت بھاری پڑا۔ میں اپنے والدین کو ٹوٹ کرچاہتا تھا۔ اس بات کی اطلاع ان کو بھی ملی تو وہ اس شخص پر بے حد خفا ہوئے۔ میرے اندر کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ میں حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے لئیے  کورونس کے مقدس عبادت خانے پہنچا ۔ وہاں پانچ کے ٹولے نے میرا رستہ روکا۔ میں نے ان کی منت سماجت کی کہ میں برے حال میں ہوں مجھے  جانے دیں لیکن انہوں نے ما ر پیٹ شروع کر دی۔ ان میں چار تو میرے ہاتھوں مارے گئے  لیکن ایک بھاگ  گیا۔ میں نے اپالو  سے پوچھا تو اس نے  یہ جواب دیا کہ میں اپنے باپ کو قتل  کرکے اپنی والدہ سے بیاہ رچاؤں گا۔ اس سے جو بچے ہوں گے  وہ بھی مجھ سے دور ہو جائیں گے۔  اگر سچ میں ایسا ہوا تو میں دنیا کا بد قسمت انسان ہوں گا۔ دنیا مجھ سے نفرت کرے گی۔وہ شخص جو ان کے ساتھ تھا اور زندہ ہے تو اسے سامنے لایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو  جائے۔ 

جوکاسٹا اپالو  سے دعا کرتی ہے۔ اے عظیم دیوتا!  میںتم سے مدد کی درخواست کرتی ہیں۔ ہمارے ذہنوں  سے ابہام دور کر دے۔ دلوں سے دلدر دور کر دے۔ اگر مانجھی بھی منجھدار میں چکر کھاتا رہے گا  تو وہ ناؤ 

کیسے پار  لگائے گا۔ ہمارے ذہن صاف کردے ۔ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ہمار ے حال پر رحم فرما تاکہ اس پر عمل پیرا ہو کر ہم  تھیبز سے بلاؤں کا صفایا کر سکیں۔ 

 ایک شخص آتا ہے اور اوڈیپس کو اطلاع دیتا  ہےکہ  تمہارے سابقہ علاقے کا بادشاہ مر گیا ہے  اور اس کی جگہ تمہیں تخت سونپنے کا ارادہ کیاہے    ۔  وہ طبعی     موت مرا ہے۔ 

اوڈیپس روہانسا ہو کر بولا میں کیوں اس کے پاس سے دور چلا آیا۔ وہ میری یاد میں آنسو بہاتا  ہوا  اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کاش میں   دوسروں کی باتوں میں آکر ان  سے جدا نہ ہوتا۔ ان کے پاس ہی رہتا تو تھیبز کے 

جھنجھٹ سے بچ جاتا۔ اب یہاں ہوں تو اس معاملے کو سلجھانا میرا اولین فریضہ بن گیا ہے۔  جاؤ ۔ ا س   وفادار  کو جسے  تین دن کے معصوم بچے کو قتل کرنے کے لئے  سونپا گیا تھا کو  حاضر کرو ۔ ہر ایک کو اپنے اصل شجرہ نسب کا علم ہو نا چا ہیے ۔ میں یہ معلوم کر کے ہی رہوں گا۔ 

وفادار چرواہا آگیا۔ وہ بوڑھا ہو چکا تھا۔ ۔۔ مجھے اس بچے کے بارے میں بتاؤ جس بچے کو  بادشاہ لائیس  اور ملکہ  جو کا سٹا  نے تمہیں مارنے کے لئے دیا تھا۔ بتاؤ تم نے اس  بچے کو کہاں اور کیسے مارا ؟ اوڈیپس نے پوچھا۔ 

کاش میں یہ وقت آنے سے پہلے مر جاتا۔ اس نے کہا۔ 

کوئی بات نہ چھپاؤ۔ سچ سچ سب اگل دو۔ ایڈیپس نے کہا۔ 

آپ مجھ سے نہ پوچھیں ۔ اپنی بیوی سے پوچھیں جس نے اسے میرے حوالے  اس لئے کیا تھا کہ نجومیوں نے اسے بتایا تھا کہ  اس نے اپنے باپ کو قتل کرنا تھا۔  میں نے اسے آگے منتقل کردیا۔ تقدیر کے آگے کس کی چلتی ہے۔ 

میں تمہارے منہ سے حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔ ایڈیپس نے کہا۔ 

عالیجاہ! وہ بچہ بہت معصوم اور پیارا تھا۔اس کے چہرے پر نور ہی نورتھا۔ میں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ ایتھنز کے ایک چرواہے کے حوالے کر دیا تھا۔ ہم ایک ساتھ رہتے تھے۔ ہم دوست  تھے۔  اس نے اسےاپنے  بادشاہ کے  حوالے کردیا ۔ چونکہ وہ بے اولاد تھے اوروہ بچہ  کمال کا خوبصورت تھا اس لئے انہوں نے اسے گود لے لیا اور شاہی انداز میں تربیت کی۔۔میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ مزید چھپا نہیں سکتا۔ اس وقت میں مر جاتا تو یہ دن نہ     دیکھنا پڑتا۔ 

میں اس دنیا کا بدقسمت ترین انسان ہوں۔ایڈیپس نے کہا۔ اب اس پر حقیقت آشکار ہو چکی تھی۔  نجومیوں نے جو کہا وہ سچ نکلا۔ اے روشنی تو مجھے آخری دفعہ نظر آ رہی ہے۔مجھے اپنی اصلیت کا پتہ چل چکا ہے۔    

میری   پیدائش ہی منحوس تھی۔  میری شادی ہی بے شرمی تھی۔  وہ روتا ہوا محل میں چلا جاتا ہے اور اپنی آنکھوں میں سوئیاں ما ر لیتا ہے۔ اس کی آنکھوں سے لوتھڑے نکل آتے ہیں اور وہ اندھا ہو  ہو جاتا ہے۔ دھاڑیں مار مار کر روتا ہے، چیختا ہے  چلاتا ہے۔ اپنے کئے پر نادم ہے۔ اس سے وہ غلطی ہو گئی جس کا مداوانہیں۔ اس نے اپنے ماں سے شادی کی جس سے چار بچے ہوئے۔   دیوتاؤں نے  اس سے بدلہ لے لیا۔ 

جوکاسٹا  یہ معلوم ہونے کے بعد محل میں  جاتی ہے۔ اپنے بال نوچتی ہے ۔   غم سے نڈھال ہو گئی ہے ۔رو   رو کر  ہلکان ہو  جاتی ہے۔اور خود کشی کر لیتی ہے۔  ایڈیپس روتا ہوا   کمرے میں آتا ہے اور جو کاسٹا کا پوچھتا  ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ چکی ہے۔اس کے تمام چہرے پر اس کی آنکھوں کا خون جما ہوا ہے۔ وہ درد کی شدت  میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔  

برائی کا بدلہ برائی ہے۔   کری اون   ۔ ایک نیکی کرو مجھے ایسی جگہ بھجوا دو جہاں کوئی اور انسان نہ ہو بلکہ مجھے اس پہاڑ پر  لے جاؤ جہاں مجھے بچپن میں پھینک کر مرجانا تھا۔ باقی زندگی میں وہیں گزاروں گا۔ 

مجھے جلد از جلد یہاں سے نکال دو۔ 

میں  اپالو  سے معلوم کرنا چاہتا ہوں  کہ تمہارے ساتھ آگے کیا کرنا ہے۔ کری اون نے کہا۔  

دیوتا تو اپنا فیصلہ پہلے ہی سنا چکے ہیں۔ تمہاری بہن میری بیوی تھی۔ اس کا کریا کرم اچھی طرح سے  کرنا۔  دونوں لڑکے تو خود کو سنبھال لیں گے  تم میری بیٹیوں اور اپنی بھانجیوں کا خیال رکھنا۔۔۔ 

اسے اپنی بیٹیوں کے رونے کی آواز آتی ہے ۔ تو  وہ دعا کرتا ہے کہ دیوتا انہیں ہر وہ چیز دیں جن کی وہ تمنا کریں۔  میری بچیو ۔ میں تم سے بہت شرمندہ ہوں۔ میری ذلالت کی وجہ سے تم دنیا میں بہت پریشان کی  

جاؤ گی۔  میں نے جو گناہ کئے  ہیں اس کی سزا تمہیں ساری عمر بھگتنا پڑے گی۔  کری اون میری بچیاں اب تیرے حوالے۔ اب مجھے فوراً اس شہر سے نکال دو۔ 

 

اس کا فیصلہ دیوتا کریں گے لیکن میں ان بچیوں کو تیرے ساتھ روانہ نہیں کروں گا۔کری اون نے کہا۔ 

ایڈیپس روتا ہے اور کہتا ہے کہ میری بچیاں میرے بغیر کیسے رہیں گی۔  

اب تمہارا حکم نہٰیں چلے گا۔ تمہاری تباہی تمہارے ہاتھوں ہو چکی ہے ۔ کری اون کہتا ہے۔ 

کورس  میں  بزرگ  گاتے ہیں۔۔۔ تھیبز کے لو گو اوڈیپس وہی ہے جس نے  تمہیں  بدروح کی آفات سے نکالا تھا ۔ اس کی مشکل ترین پہیلیاں حل کر کے  شہرتباہ و برباد ہونے سے بچایا تھا۔  ہر شخص اس کی عزت کرتاتھا۔ ان کی نظروں میں  اعلیٰ و بر تر تھا۔ اس کے ساتھ برا ہوا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب کہ عز ت  و  ذلت  کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک وہ آخری سانس نہیں لیتا۔ 

 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                       پردہ گرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 

 

سوفوکلیز کے حالات زندگی 

 

سوفوکلیز 496ق۔م   کولونس   میں ایک متمول خاندان میں پید اہوا  جو ایتھنز اور تھیبز  کی سرحدوں کے درمیان واقع تھا۔ اس کا والد سوفیلی یس (Sophilus)   کی اسلحے کی فیکٹری تھی۔  وہ دور  تخلیق  کاروں  کا تھا۔  سوفوکلیز  کرشماتی شخصیت کا مالک تھا۔  سکول کے زمانے  سے ہی اس نے مسلسل موسیقی  اور ریسلنگ میں اول پوزیشن حاصل کرنا شروع کر دی تھیں۔ وہ بہت اچھا موسیقار تھا۔    سولہ سال کی عمر   میں ہی   اسے قومی سطح  پر  گلوکاری میں  سمندر (گریک سی)کی فتح کا جشن منایا جا رہا تھا کو اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ  فلاح و بہبود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا۔ 

 468 B.C  میں  اس نے اپنے دور کے صف اول کے ناقابل  تسخیر تمثیل نگار  (B.C. 525-456) .B.C  میں اس دور کے ناقابل تسخیر لیجنڈ تمثیل نگار ایسکیلس(Ashylus)کو  شکست دے کر اول انعام حاصل کیا۔ اس کے مقابلے میں تیرہ بار اول انعامات حاصل کئے۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور کم و بیش ہمیشہ قومی سطح پر اول انعام حاصل کیا۔  ق۔م   میں وہ منتظم منتخب ہو گیا جو کہ اعلیٰ عہدہ  تھا۔ وہ دو بار سٹیٹ افسر منتخب ہوا ۔اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ق۔م میں تراسی برس کی عمر میں وہ سلطنت کا وزیر خزانہ بن گیا۔وہ کم از کم دو دفعہ جرنیل کے عہدے پر منتخب بھی ہوا  جو ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوتے تھے۔ وہ مذہبی شخص تھا ۔ وہ پادری  بھی رہا۔ اس نے اپنا گھر  دیوتا (   Asclepius)کی عبادت کے لئے مختص کر دیا تھا  جو ادویات اور علاج و معالجہ کا دیوتا تھا۔ اس کے بعد اسے باقاعدہ عبادت خانے میں مستقل طور پر تبدیل کر دیا گیا۔  

Plutarch کے مطابق  سوکلیز کی ادبی کاوشوں میں تین ادوار آئے۔ابتدائ دور میں وہ  ایسکیلس(  Aeschlus)کی تقلید میں دیوتاؤں  اور انسانوں کے مابین تعامل ، تعلقات، پیغام رسانی پریشانی اور ابتلا  کے بارے میں لکھا۔  جس میں ہیرو کو بہت سی آزمائشوں  سے گزر کر وہ حالات کو کامیابی  سے حل کر لیتا ہے۔  

دوسرے مرحلے میں اپنے کرداروں میں تعداد بڑھائی۔ دو بنیادی کرداروں کی بجائے مزید ایک اور کردار کا اضافہ کیا۔  

تیسرے مرحلے میں اس نے کورس میں بارہ گلوکاروں کی بجائے پندرہ گلو کار کر دئیے ۔ ڈراموں میں مناظر  تصاویر اور گیت سنگیت شامل کئے جس  سے ناظرین کی دلچسپی میں اضافہ ہو گیا۔  

اس نے اپنے ڈراموں میں ناصح کا کردار بھی ادا کیا۔ دنیا میں برائی کیوں ہےاور اچھے انسان کو آزمائشیں اور مشکلات کیوں پیدا ہوتی ہیں کے بارے میں اس کاخیال ہے کہ اس کی وجہ معاشرے میں تنظیم، توازن اور انصاف کی فراہمی ہے۔  کوئی شخص کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اگر وہ دیوتاؤں کے احکامات کی پاپندی نہیں کرے گا ۔ اسے قدرت کی طرف سے ضرور سزا ملے گی۔ 

سوفوکلیز نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی جس کا نام  Nicostrateتھا،   سے دو بیٹے        Sophocles  jr   اور   Iophon ہوئے جبکہ دوسری بیوی  جس کا نام Theoris  تھا، سے   ایک بیٹا Aristonہوا۔ 

اس نے 125   ڈرامے لکھے۔ایتھنز کی سالانہ قومی  جشن میں ایک مصنف زیادہ سے زیادہ چار ڈرامے پیش کر سکتا تھا ۔اس نے لگاتار تیس سال تک چار چار ڈرامے لکھ کر پیش کئے۔ اس نے ہر بار پہلی پوزیشن حاصل کی۔  اس نے  سے 13   اور دوسرے  عظیم  تمثیل  نگار(      Euripides)کے مقابلے میں  4  مقابلے جیتے۔ پنی زندگی میں اس نے کم سے کم جو پوزیشن مقابلے میں حاصل کی وہ دوسری تھی۔ 404 ق۔م  میں جب ایتھنز نے سپارٹا نے قبضہ کر لیا ، سے پہلے ہی فوت ہو گیا۔ اس کے ان ڈراموں میں صرف سات  ڈرامےہی ہم تک پہنچے جو درج ہیں۔ 

 

The  Theban Plays 

Oedipus The King 

Oedipus at Colonus 

Antigne 

The  Women of  Trachis 

Electra 

Ajax           

                                                                   

 

 سوفو کلیز  سدابہار ادیبوں میں سے ایک ہے۔ اس کا اثر ورسوخ  بعد میں یورپ کے عظیم تمثیل نگاروں میں قائم ہے۔ وہ آنا کے مشہور سائکاٹرسٹ سگمنڈ فرائیڈ نے اس کے المناک ڈرامہ اوڈیپس بادشاہ سے متاثر ہو کر اوڈیپس کمپلیکس اور الٹرا کمپلیس کے تعقلات اپنے نظریہ شخصیت اور طریقہ علاج میں متعارف کروائے۔  

سوفوکلیز   یونان کے عظیم تمثیل نگاروں میں سب سے بڑا نام ہے ۔ وہ لیجنڈ  روائتی  ادیب ہے جس نے ڈراموں کو نئی نہج دی۔اگرچہ سوفوکلیز   کے تمام  ڈراموں کو پذیرائی ملی  لیکن جو  مقام اسے اپنے ان   ثلاثہ   المیہ ڈراموں کی وجہ سے ملا ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔  اس کو اس نے مثلثیات  المناک  ڈراموں (Trilogy) کا نام دیا۔  یہ تین ڈراموں کا ایک سلسلہ ہے جن میں ہر ڈرامہ اپنے اعتبار سے یکتا اورمکمل ہے لیکن اس کے ساتھ  وہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ان کو اکٹھا   پڑھا جائے  تو ان کا موضوع زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ واقعات مربوط انداز میں   سامنے آتے   رہتے ہیں اور کہانی  میں تسلسل برقرار رہتا ہے ۔ اسکے ڈراموں میں واقعات  کا اظہار  ایک منظم طریقے سے ہوتا ہے جوآہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ وہ نہائت احتیاط سے چن کر  مختصر انداز میں اپنے الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔فضول کا بحث مباحثہ نہیں پایا جاتا۔  ڈرامائی تاثر ہوتاہے۔ تسلسل اور مرکز ہے۔ ارتباط ہے ۔ اس کے ڈرامے اڑھائی ہزار سال گزرنے کے باوجود بھی مقبول ہیں۔  

 

  1.         لاطینی زبان میں Rex     Oedipus  یونانی زبان میں   Oedipus Tyrannos   اور انگریزی  میں ایڈیپس  بادشاہ

  2.   Oedipus  The Kingکہتے ہیں                                         

 

2) ایڈیپس  کولونس میں  (Oedipus at Colonus)     

 

3) اینٹی گنی          ( Antigone  )                                  

    

اس کہانی کی روح تک اس وقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔  

Popular posts from this blog