( 31.......36 ) ...... ۔۔۔۔۔ 31/15--- -- Mneudo ;32/60 Lottery ; 33/ 60 My Kinship Major Mollineux ; 34/ 54 The Storm ; 35/ 55 Just Two Clicks ; 36/ The First Confession ( 31....36)


(31---36)...... ---   31/ 15  Mneudo   ;32/60   Lottery  ; 33/ 60    My Kinship Major  Mollineux ;

  34/ 54     The   Storm ; 35/ 55   Just  Two  Clicks   ; 36/  The  First   Confession 

 

31/ 15 .  

مینوڈو )میکسیکو کا مقبول ُ سوپ)

Menudo

By

Raymond Carver (1938 - 1988)

U.S.A.

 

صبح کے چار بج رہے تھے۔ میں رات بھر نہ سو سکا            جبکہ میری بیوی ’وکی‘ مزے سے خراٹے لیتی رہی۔میں دھیرے سے اس کے پہلوسے اٹھا۔ کھڑکی سے باہر جھانک کر پڑوسی کے گھر کی طرف دیکھا جو اداسی سے سائیں سائیں کر رہا تھا۔ ’مسٹراولیورپورٹر‘کسی بدگمانی کی وجہ سے  اپنی  بیوی ’امانڈا‘ کو چھوڑکرجا چکاتھا ۔ امانڈا کے بیڈروم سے روشنی چھن چھن کر آرہی تھی۔ شاید وہ جاگ رہی تھی۔باہر ہر طرف   سکوت مرگ کی  کیفیت طاری تھی۔سڑک پر آمدورفت نا م کو بھی نہ تھی۔ہوا ساکن تھی۔یہاں تک کہ چاند کی روشنی بھی گہنا گئی تھی۔موسم خزاں کی وجہ سے یوں توہر جگہ پتے بکھرے پڑے تھے لیکن اولیور ،  ہمارے دوسرے طرف کے پڑوسی ’بیکسٹر‘ اور ہمارے گھروں کے سامنے پتوں                کے ڈھیر باقیوں سے کچھ زیادہ   ہی تھے۔ 

چند روز پہلے بھی مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو بیکار بیٹھنے کی بجائے میں نے اپنے گھر کے پتے اکٹھے کئے تھے۔میری بیوی 'وکی 'نے جب دیکھا تھا تو اسے اچھا لگا تھا۔اس نے مجھے بھرپور پیار کرکے معاوضہ ادا کیا تھا۔لیکن یہ تو              تب کی بات تھی ۔ میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ آج بھی پتے صاف کر دوں حالانکہ اُس دن اور آج کے دن کے حالات سراسرمختلف تھے۔۔۔ آج مجھے انعام کی کوئی توقع نہیں تھی۔میری بیوی بستر کے دس انچ موٹے میٹریس پر سسکیاں لیتے لیتے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔ مجھ پر اضطرابی کیفیت طاری تھی اور ا         مانڈا کا میاں اولیور گھر چھوڑ کر جا چکا تھا۔ وجہ ء تنازعہ کیا تھی، میں کسی حد تک لا علم تھا۔ 

میں نے وکی کی نیند کی گولیاں کھا ئیں لیکن وہ بے اثر ثابت ہوئیں۔ بیچاری امانڈا کا خیا ل بار بار آ رہا تھا کہ وہ  اپنے  میاں (اولیور) کے گھر چھوڑنے کے بعد اپنی معصوم بچی ’ُ رُتھ‘کے ساتھ جانے کس حال میں ہو گی؟  مجھ میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ اس سمے اسے پردے کے پیچھے یا کھڑکی کے پاس یا اِدھر اُدھرچلتے  ہوئے دیکھوں تا کہ معلوم ہو کہ وہ کس کیفیت سے گزر رہی تھی؟ اپنی  ناک کھڑکی سے لگا ئی ، کان کھڑے کئے اور اُس کے گھر کی طرف نگاہیں دوڑائیں لیکن بے سود۔ 

پھر سوچا کہ اگر میں نے اسے دیکھ بھی لیا تو کیا ہوجاتا؟ کیا اُس سے اُ سے کوئی فرق پڑجاتا؟دوسری طرف خیال آیا کہ اگر اسے معلوم ہو کہ میں چپکے سے اسے دیکھ رہاتھا، اس کی جاسوسی کرنا چاہ رہا تھا تو اس کا رد عمل کیا ہونا تھا؟  گئی رات  میری بیوی (وِکی )مجھ پر اولوں کی طرح برسی تھی۔ اس نے مجھے جانے کن کن  القابوں  سے نوازا تھا۔وہ اچھل اچھل کر مجھے کوس رہی تھی۔اس ہنگامے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے  فون پر  میری باتیں سن لی تھیں جو میں ایک خاتون سے کررہاتھا۔اسے یقین تھا کہ میرا کسی کے ساتھ کوئی چکر چل رہاتھا۔ ممکنہ خواتین میں اس نے امانڈا کا نام بھی جوڑرکھا تھا لیکن میں نے  اس کے اس الزام کو تسلیم  کرنے سےانکار کر دیا تھا۔ وہ بار بار اس خاتون کانام پوچھ رہی تھی ا ورمیں اس نام کو چھپا رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ وہ اس خاتون کو نہیں جانتی اور نہ ہی کبھی اسے دیکھا تھا اور اگر نام بتا بھی دیا جاتا تو اس سے کیا فرق پڑ جانا تھا؟غصے میں اس نے مجھے تکیے سے مارنا شروع کر دیا۔

 جب میں اپنے کسی فعل کا منطقی جواز پیش نہ کرپاتا یا مطمئن کرانے میں ناکام ہو جاتا اور میرے بچنے کی آس نہ رہ جاتی تو میرا ایک ہسپانوی دوست ’الفریڈ‘کہا کرتا تھا کہ' تم اب  ہر طرف سے گھیر لیے گئے ہو، بچت کی راہ نہیں اور اب بھگتنے کے لئے تیار  رہو۔'  وہ ایک نامور مصور تھا جس کا شہرہ دُور دُور تک پھیلا ہوا تھا۔ کڑے وقت میں وہ میری دلجوئی کیا کرتا تھا۔مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں میری مدد کرتا تھا۔جذباتی واقعات مجھے پاگل کر دیتے تھے۔خواہ مخواہ کا پنگا میں خود ہی لیتاتھا اور بعدمیں منہ چھپاتا پھرتا لیکن میں پھر بھی باز نہیں آتا تھا۔خواری سے بچنے کے آسرے ڈھونڈتا تھا۔سب         کچھ جاننے کے باوجود میں امانڈا کے بارے میں سوچنے سے خود کوباز نہیں رکھ پا رہا تھا۔ معاملہ بہت بگڑ چکا تھا۔مجھے جب بھی تشویش ، مصیبت اور آفت گھیر لیتی تو اپنی پہلی بیوی’کرسٹینا معالی'یاد آجاتی  تھی۔ وہ میری پہلی محبت تھی۔ہمارا پورا بچپن اور جوانی ساتھ ساتھ گزرے تھے۔میں اسے ٹوٹ کر چاہتا تھا اور وہ مجھے جان سے بھی عزیز تھی لیکن اب !

پھر میرے ذہن میں یکدم امانڈا کا وہ روپ آگیا جب وہ گلابی نائٹ گاؤن میں اسی رنگ کے سلیپروں کے ساتھ گھر بھر میں پھدکتی پھرتی تھی۔اس میں وہ   شوخ و چنچل            الہڑ      دوشیزہ  لگتی تھی۔ کیا اس وقت وہ جاگ رہی تھی؟ یا شاید وہ سو رہی  تھی۔۔۔ لیکن اس کے کمرے کی بتی جل رہی تھی۔میں تو جاگ رہا تھا اورمیرا دل چاہ رہاتھا کہ وہ بھی جاگ رہی ہو۔بڑے سٹینڈ والے لیمپ کی روشنی تلے چمڑے کی کرسی پر بیٹھی پاس پڑے میز پر تازہ جرائد  (جنہیں صاحب ذوق ہی پڑھاکرتے تھے)                  کی ورق گردانی کر رہی ہو۔سگریٹ پر سگریٹ پھونک کر دونوں     ا یش ٹرے پاس ہی بھر ے رکھے ہوں۔آہ! اتنی پیاری لڑکی کواس کا میاں 'اولیور' چھوڑ گیا تھا۔وہ شخص بد قسمت تھا اور مجھے اس پر بھی ترس آرہا تھا۔

 اس کے بعد مجھے دو روز پہلے کی یاد نے  گھیر لیا جب ہم شہر کے دور دراز صنعتی علاقے کے ایک غیر آباد ریستوران میں بیٹھے کافی پی رہے تھے توا مانڈا نے مجھے کہا تھاکہ اب اس کا د ل کسی شئے کو پڑھنے کو نہیں چاہتا۔ ویسے پڑھنے کے لئے وقت کس کے پاس تھا؟ بگڑے حالات میں منطق اور باریک بینیوں پر کوئی کیسے توجہ دے سکتا تھا؟ اس ریستوران کی دیواروں میں ہر طرف اخبارات، رسالے اور دیگر چیزیں رکھی تھیں۔اولیور اس سے بھی دو دن پہلے امانڈا کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔ 

کافی میں چمچ چلاتے ہوئے وہ بولی تھی،' آج کل کون پڑھتا ہے؟  کیا تم پڑھتے ہو؟ ' میں نے نفی میں سر ہلایا۔  تو اس نے کہا ۔'میں  کسی ایسے شخص کو نہیں جانتی جو کتب بینی کا شوقین ہو۔'

'یاد رہے ہم یہاں کتابوں پر تبصرے کے لئے نہیں آئے بلکہ زمینی حقائق کو سلجھانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں'، امانڈا نے یاد دلایا ۔

' تو۔۔۔آ ج اس کے خاوند  کو گھر چھوڑے  چار دن ہو چکے ہیں۔'جاتے وقت اس نے تمہیں کیا بولا تھا؟'  میں نے سوال کیاُس وقت میرے جذبات کچھ ایسے تھے جیسے تین بجے والی خبریں سنتے وقت ہو تے ہیں۔مجھ پر اس وقت تناؤ طاری ہوتاہے اور میں ٹی۔وی کا سوئچ آ ف کر دیا کرتاہوں لیکن موقع محل کی مناسبت سے یہاں بات ٹالی نہیں جا سکتی تھی۔میں نے امانڈا کی طرف دیکھا تو اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔وہ سنجیدہ تھی اور سوچتے وقت اس کے چہرے پر پریشانی نظر آرہی تھی۔

'تم نے اپنے میاں  کے سامنے اپنی شادی سے باہر کے تعلقات کی بات تو نہیں کی۔ ایسا ہی ہے ناں؟ ' میں نے کریدا۔

'ہاں،' امانڈا نے نگاہیں نیچی رکھتے ہوئے ہی جواب دیا۔

' کیا تمہیں اس بات کا یقین ہے؟ '         اس نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔  میں کافی دیر تک اس کو دیکھتا رہا ۔ میں نے تصدیق کے لئے ایک بار پھر پوچھا،                  'کیا تمہیں پکا یقین ہے؟ ' پھر میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ' دیکھو!  میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے کسی کا نام لیا ہے، صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس کو کیا پتہ چلا ہے؟'

'نہیں،کوئی نام نہیں لیا۔'

' کیااس نے بتایا کہ وہ کہاں اور کتنے عرصے کے لئے جا رہا  ہے؟'

'نہیں۔۔۔ کچھ نہیں بتایا کہ وہ کہاں  جائے گا،' امانڈا نے جواب دیا۔ ' شایدکسی ہوٹل۔۔۔ ہاں اس نے یہی کہا تھا کہ اب میں ایک ہوٹل میں  جاؤں گا۔ وہاں جا کر کوئی بندوبست کروں گا۔اس نے یہ بات سرسری طور پر ایسے کی تھی جیسے کہ وہ کوئی اخبار پڑھ رہا تھا۔'

' تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہفتے دو ہفتوں کے لئے ہی گیا ہے اور واپس آجائے گا۔اس لئے یہ وقت موزوں نہیں کہ ہم علیحدگی اور طلاق کی باتیں کریں۔' میں نے رائے ظاہر کی۔

'نہیں! میرے خیال میں وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنا اوربہت جلد فیصلہ کرنا ہو گا، 'امانڈا نے تیزی سے کہا۔ یہ کہنے کے بعد وہ میری طرف دیکھنے لگی اور جواب کا انتظار کرنے لگی۔

 میں اس وقت کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا تھا۔'تم فکر نہ کرو، ایک ہفتہ کے اندر فیصلہ کر لوں گا،' میں نے اپنے کپ کے اندر دیکھتے ہوئے کہا۔'           اب  پانی سر سے اوپر سے گزررہا ہے اور سنگین صورت حال سے نپٹناہی  پڑے گا۔بالآخر امانڈا کے خاوند کو میری وجہ سے گھر چھوڑنا پڑ ا۔ مجھے کوئی حل نہیں سوجھ رہاتھا۔حالات کس رخ پلٹاکھانے  والے ہیں، کا اندازہ نہیں۔'

ہم  نے اپنی محبت بھری ملاقاتوں میں کئی بار اپنے تعلقات پر علمی اور عقلی سطح پر سیر حاصل بحث کی تھی۔فلرٹ سے لے کر چاہت تک، گھریلو ذمہ داریوں سے سماجی تعلقات اور ان کے انجام تک پر، باتیں کی تھیں لیکن حقیقی طور پر ایسا ہو جائے گا، کبھی ذہن میں نہیں آیا تھا۔اب بات بہت اہم اور سنجیدہ ہوگئی تھی۔اندیشہ تو تھاکہ ہمارے ساتھ ایسا ہو سکتا تھا لیکن اتنی جلد ہو جائے گا، توقع نہیں تھی کہ ہم چھپ چھپا کر  دوردراز    کے بیابان  میں  واقع کیفے میں بیٹھے اس موضوع پر گفتگو کر رہے ہوں گے۔عجیب سا محسوس ہو رہا  تھا۔ میں نے آنکھیں اوپر اٹھائیں تو دیکھا کہ امانڈا کافی میں چمچ چلا رہی تھی۔ میں نے  اس کے ہاتھ کو چھوا تو چمچ نیچے گر پڑا۔ امانڈا نے چمچ واپس اٹھایا اور دوبارہ کپ میں ڈال کرہلانے لگی جس سے میرے دل پر گہرا اثر ہوا۔اس وقت چمکدار روشنی میں ہم دونوں ہی بیٹھے تھے۔ملاقات ختم ہو گئی اور معاملہ چند روز پر ٹال دیا گیا۔

 اگلے دن صبح اٹھا تو میری بیوی  وِکی سو رہی تھی۔میں نیچے کچن میں گیا اورتھوڑا سا دودھ گرم کر کے پیا۔عام نوعیت کی الجھن میں میں وسکی پی لیتا تھا تو میری حالت سنبھل جایا کرتی تھی لیکن اس وقت حالات قابو سے باہر تھے۔شادی بچانے کا مسئلہ تھا اور معاملہ روز بروز شدت اختیار کر رہا تھا۔میری خانگی، نجی، پیشہ ورانہ زندگی اور صحت بری طرح متا ثر ہو رہی تھی۔مجھے مدہوشی کی بجائے ہوش سے کام لینا تھا۔ مجھے مزیدپیاس محسوس ہوئی تو میں نے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پی لیا۔میری ذہنی حالت خراب تھی ۔میرا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ کوئی حل سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ 

میری پہلی بیوی  کرسٹینا  معالی میری پیاری دوست تھی۔جب کبھی بھی وہ مجھے غمگین دیکھتی تو بہلانے کے لئے جام پیش کر دیتی تھی۔میرے لئے فریج میں شراب کا ذخیرہ رکھا کرتی تھی۔چونکہ وسکی  نیند  لانے میں  میری معاونت کرتی تھی اس لئے میں کبھی کبھار بوتل منہ سے لگا کر غٹاغٹ پی جایا کرتا تھا اور مجھے میٹھی نیند آجایا کرتی تھی۔ کرسٹینا  سکول ٹیچر تھی، پورا ساتھ نبھاتی تھی اور اب۔۔۔۔؟

  اس دکھ کی گھڑی میں اولیور ہوٹل کے کمرے میں سوٹ بوٹ پہنے، ٹائی ڈھیلی کئے، جوتے  اتار ے، ٹانگیں میز پر پسارے چسکیوں سے   '               وودکا                         '      پی رہا ہوگا۔ اس سنگین صورت حال سے نمٹے کے لئے یہ اس وقت  ناممکن سی بات لگ رہی تھی کہ وہ اپنی کم سن بیٹی رُتھ، بیوی امانڈا   اور اپنے  مستقبل  کومد نظر رکھتے ہوئے مفاہمت کی طرف آئے گا۔اس نے اس بات کواپنی انا کا مسئلہ بنالیا تھا اور ٹھنڈے دماغ سے دھمکی دے کر گیا تھا کہ وہ واپس نہیں آئے گا۔ امانڈا نے مجھ سے جلد فیصلہ کرنے کو کہا تھا اور میں نے اس سے ایک ہفتے کا وقت مانگا تھا جس میں سے چار دن گزر گئے تھے۔ وقت جوں جوں بیتتا جا رہا تھا، میری ذہنی حالت بگڑ رہی تھی۔

 رات بے چینی سے گزر گئی تھی۔سوچ سوچ کر دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔تناؤ کی وجہ سے نیند کوسوں دور تھی۔میں دودھ پینے کے بعد دیوان خانے میں بیٹھ گیا اور صوفے پر بیٹھ کر کھڑکی سے سڑک کا نظارہ کرنے لگا۔سٹریٹ لائٹس ابھی تک جل رہی تھیں۔میرے تن بدن میں آگ سی لگی تھی اور ٹک کر بیٹھا نہیں جا رہاتھا۔ میں سوچ    اور پریشانی   کی کیفیت    اپنے  ناخنوں کو چبانے لگاتھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں کھڑکی تو ڑ دوں یا فرنیچر کو الٹ پلٹ کرکے رکھ دوں۔  

 اپنی پہلی بیوی کرسٹینا  کی یاد پلٹ آئی۔ وہ مجھے اپنا نصیب قرار دیا کرتی تھی لیکن میں اب اس کے بارے میں لا علم تھا۔ایک وقت تھا ہم یک جان دو قالب تھے۔ہم نے کئی زندگیاں ساتھ گزاری تھیں۔اس کا دعویٰ تھا کہ ہمارا ساتھ جنم جنم کاتھا۔میں اس کا مقدر تھا اور میرے بغیر وہ ادھوری تھی۔جب  میری دوستی  اپنی موجودہ بیوی وِکی سے ہوئی اور میں اس کے ساتھ سنجیدہ ہوا تو کرسٹیناکو اُس کا علم ہو گیا۔اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ کر وہ کچن میں  رو نے لگی تھی۔اس کے کندھے آگے کو جھکے ہوئے تھے۔میری اُس کے ساتھ نبھ نہ سکی۔ایک دفعہ اُس کے سکول کی انتظامیہ نے مجھے فون کیا کہ کرسٹینا  بچوں کو جمنیزیم میں ورزش کروا رہی تھی تو گر پڑی اور بے ہوش ہو گئی تھی۔میں بھاگا بھاگا گیا اوراسے گھر لے کر آیا۔ اس کے بعد اس نے روحانیت اور وقت کے بہاؤ کے ساتھ چلنے کی باتیں شروع کر دیں۔جب کرسٹینا  اور میری علیحدگی ہو گئی  تو ایک بار اُس نےمیری نئی محبوبہ   وکی کو فون کیا اور کہا  ' اگرچہ تم اس وقت مسٹر ہیوز کے ساتھ  محبت بھرے جذبات و احسات  سے رہ رہی ہو تو بھی  میرے  مسٹر ہیوز  کے ساتھ پیار میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چاہے و ہ او رمیں اکٹھے رہیں یا الگ الگ، بے معنی ہیں۔میں  ہمیشہ اس سے محبت کرتی رہوں گی۔'       

کرسٹینا کایہ دعویٰ تھا کہ اس کا اور میرا مقدر جڑاہواتھاجو کبھی الگ نہیں ہوسکتاتھا تھا اور چونکہ  اب کرسٹینا اور میرے تعلقات میں  بہتری کی امید نہ تھی اس لئے مجھے اندازہ تھا کہ خواہ وہ کچھ بھی کہے، اسے نئے حالات سے سمجھوتہ کرناپڑےگا۔ مگر ناچاقی کے بعد جب اس نے نہ پاٹنے والی دراڑ کا ذکر کیاتو اس کا مطلب یہ تھا کہ  کرسٹینا نے جداگانہ رستہ اپنالیا تھا۔ اور' ہمارا نصیب ایک تھا،' کا فلسفہ تبدیل  ہوگیاتھا۔۔۔ سو میں نے فوراً اُس سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس لڑکی سے جسے میں پوری عمر سے جانتا تھا۔۔۔جو قدم قدم پر میرے ساتھ رہی تھی۔۔۔ مدتوں سے میری بہترین دوست تھی اور مانوس تھی۔میرے اس سے بہترین  تعلقات تھے۔میں اس پر مکمل انحصار کرتا تھا۔  یقین تھا کہ وہ میرے اور میں اس کے نصیب میں تھا۔وہ میری زندگی کا حصہ تھی اور میں اس کا دلبر تھا۔ ہم ایک دوسرے کوپوجتے تھے۔ ہم اکٹھے بالغ  ہو ئے تھے۔وہ میری محسنہ تھی۔ ہماری پچیس سالہ رفاقت تھی۔ مگر اس کے نظریہ ء تقدیر میں تبدیلی سے مجھے ایسا لگنے لگا کہ وہ مجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں شاکی ہو گیا  اور ان حالات میں سمجھنے لگا کہ وہ صحیح عمل تھا۔مجھے اسے اس کی جنونی کیفیت کی وجہ سے چھوڑنا پڑا۔ مجھے اس کی باتوں سے خوف آنے لگا تھا۔ اس کے نئے عزم اور دیوانگی سے وحشت سی ہونے لگی تھی۔

 کرسٹینا کے بعد جس خاتون کے ساتھ میں نے نئی زندگی گزارنا شروع کی وہ وِکی تھی۔ وہ بھی سکول ٹیچر تھی اور بظاہر بڑے ابتلا میں زندگی گزار رہی تھی۔مجھے وہ اس وقت نرم دل اور مخلص لگی۔اپنے خاوند کو طلاق دینے کے بعدوہ اُن دنوں خود کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔بہت مظلوم لگ رہی تھی۔وہ نئے تعلق کی متلاشی تھی اور ساتھی ڈھونڈنے کے چکر میں ماری ماری پھررہی تھی۔سنت، فقیروں، جوگیوں، پیروں، نجومیوں، دست شناسوں، جنتر منتر، بابوں اور ہر طرح کے ٹونے ٹوٹکے کرنے والوں  کے پھیرے کاٹ رہی تھی۔ پھر اس نے اپنی نوکری بھی چھوڑدی اور ریٹائرمنٹ رقم حاصل کر کے سادھو ؤں کا سا روپ  دھار کرعجیب و غریب قسم کے کپڑے پہننے لگی تھی۔ان لباسوں کا رنگ  بسنتی  ہوتا تھا جس پر بہت سی سلوٹیں     پڑی  ہوتی تھیں۔وہ تھڑوں پر بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھنے لگی۔ان  کپڑوں میں  ملبوس اور بلوری آنکھوں  کے ساتھ وہ حسین لگتی تھی۔ مجھے اس کی حالت زار                    دیکھی نہ گئی۔میں اسے سکون دینا چاہ رہا تھا۔میرا خیال تھا کہ اس کو سہارا دینا نیک کام تھا۔ وہ ایک ساتھی کی تلاش میں  تھی۔کرسٹینا معالی سے دوری اور وِکی کی جنسی کشش کی وجہ سے میں اس کی طرف مائل ہو گیا اور اس سے شادی کرلی۔کرسٹینا اس کے بعد مجھ سے دور چلی گئی لیکن پھر بھی کبھی کبھار فون پر اپنی لازوال محبت کا یقین دلاتی رہتی تھی۔ وہ کہاں رہتی تھی،مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔نہ چاہنے کے باوجود جب بھی مجھ پر بحرانی صورت حال پیدا ہوتی تو نہ جانے ذہن کے کس کونے سے وہ آٹپکتی تھی۔

 سوچوں میں گم ہی تھا کہ مجھے امانڈا کے گھر میں کچن  کی بتی جلی نظر آئی۔باقی تمام گھر میں گھپ اندھیرا تھا۔میں نے اِس کا  مطلب یہ سمجھا کہ وہ بھی جاگ رہی تھی اور اس وقت میں اسے فون کر کے معاملے کی سنگینی اور تازہ ترین صورت حال کا پوچھ سکتا تھالیکن پھر سوچا کہ اگر اس کی کمسن بچی رُتھ نے فون اٹھا لیا تو! ۔۔۔  میں کسی بچے سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اور بات کرتا بھی تو کیا کرتا۔ علاوہ ازیں بہر حال آبیل مجھے مار والی صورت بن جاتی۔اگر ہم نارمل آوازمیں بات کرتے تو وِکی بستر پر لیٹے لیٹے ہماری باتیں سن سکتی تھی۔ اگر ہم سرگوشی کرتے تو وہ اپنے کمرے میں فون کا کریڈل اٹھا کر چپکے سے سن سکتی تھی یا متجسس ہو کر نیچے چلی آتی کہ میں کس کو فون کر رہا ہوں ،تو کیا  ہوتا  ؟  کاش!  میرے اڑوس پڑوس خوبصورت لڑکیاں نہ ہوتیں۔آج کا دن اس بگڑی صورت حال میں  اہم ترین ہونے جا رہا تھا۔  مجھے خود کو  برے سے برے وقت کیلئے تیار کرنا تھا۔ اس کے لئے مجھے اس وقت پوری طرح نیندلینا ضروری تھا۔ایسے کام تو ایسے لوگ ہی کر سکتے تھے جن کی عائلی زندگی نارمل ہولیکن میرے گھریلو حالات شادی سے پہلے اور بعد کے، دوسروں سے مختلف تھے ۔میرا خاندان بھی تو عام لوگوں کی طرح  کا نہ تھا ، دوسروں سے منفرد اور کمتر تھا۔

 میرا شرابی باپ جو ایک آرا مشین میں مزدور  تھا ، سخت بیمار ہو کر ہسپتال میں زندگی اور موت سے بر سر پیکار بے ہوشی میں چلا گیا تھا۔میں سنگین دور سے گزر رہاتھا۔ کئی ہفتے اسی حالت میں رہا۔ ہفتے کے روز وہ کومے سے نکلا، کمرے میں موجود ہسپتال سٹاف کو دیکھا اور انہیں ' ہیلو 'کہا۔ پھر اس کی آنکھوں نے مجھے ڈھونڈا اور مجھے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور ' ہیلو میرے پیارے بیٹے ہیوز   ' کہا۔اس کے ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ فوت ہو گیا۔اس تمام بحرانی دور میں میں ایک ہی لباس میں اس کے ساتھ رہا اوررنہ ہی سوپایا۔انتظار گاہ میں بیٹھا رہتا۔کبھی کبھار اونگھ آبھی جاتی تھی لیکن نیند دور ہی بھاگتی رہی۔میں نے اس برے وقت کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ وِکی نے اس وقت میرا ساتھ دینے کی بجائے کسی اور سے یاری گانٹھ لی۔مجھے پتہ چل گیا تھا لیکن اپنے باپ کی تیمارداری کی بدولت اس وقت اسے ثانوی معاملہ سمجھا اور سوچا کہ بعدمیں  اس سے نمٹ لوں گا۔ باپ کی تجہیز و تکفین کے بعد گھر آیا اور سو گیا۔پورا ہفتہ ہی سوتا رہا۔صرف کھانے پینے اور واش روم کے لئے ہی اٹھتا۔اگلا ہفتہ بھی نیند کے بوجھ تلے ہی گزرا۔میرے ذہن میں وکی کے معاشقے کے بارے میں کوئی بات نہ آئی۔وہ بہت چالاک نکلی اور اس نے بوائے فرینڈسے تعلقا ت فوراً ختم کر لئے۔یا تووِکی نے اسے چھوڑدیا تھا یا پھر اُس  کے بوائے فرینڈ نے وکی کو چھوڑ دیا تھا۔یہ راز ، راز ہی رہا۔ میرے باپ کی بیماری کے دوران وہ    مجھ سے دور چلی گئی تھی پھر دوبارہ میری طرف مائل ہو گئی تھی لیکن یہ معاملہ سادہ نہیں تھا۔میں اس سلسلے میں اس سے بات کرنے جا رہاتھا کہ والدہ کا خط آیاکہ وہ مصیبت میں تھی ۔اس کو روزانہ کے کام کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ 

ماں تو ماں ہی تھی۔ وہ سینئر سٹیزن تھی۔اپنے  اچھے برے ادوار میں ایک اچھے بیٹے کی طرح ذمہ داری سے اسے نان نفقہ کے لئے ہر ماہ یا ہر ششماہی مقررہ رقم بھیجا کرتا تھا۔اس کی سالگرہ کے لئے الگ اور کرسمس کے لئے الگ تحائف بھیجتا تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود اس نے مجھ سے اب ایک ایسے ریڈیو کی مانگ کی تھی جس میں گھڑی بھی ہو تاکہ کچن میں کام کرتے ہوئے اسے سنے اور روز مرہ کام ٹائم ٹیبل کے مطابق سر انجام دے سکے۔ وہ خط اور فون میں یہی فرمائش کیا کرتی تھی۔اس کا پہلا ریڈیو گر کر ٹوٹ گیا تھا۔اس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ نیا خرید سکے۔ وہ باتوں باتوں میں جتلاتی کہ کیا اسے اس کے لئے اپنی سالگرہ یا کرسمس تک انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے جھنجھلاہٹ میں منع کردیا اور کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں اور جو اس کے لئے کر رہا تھا اس سے زیادہ نہیں کر سکتا۔حقیقت میں میرے مالی حالات خراب نہیں تھے۔ریڈیو کی قیمت کیا تھی؟ تیس سے چالیس ڈالر! میں اسے آسانی سے برداشت کر سکتا تھا۔میں دکاندار کو کہہ کر پارسل کروا  سکتا تھا۔ماہانہ رقم کے ساتھ بھیج سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میں اس کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ 

پھر کیا ہوا!۔۔۔  وہ اس دنیا کو چھوڑ گئی۔وہ چلی گئی۔وہ بازار سے گھر آرہی تھی۔ گراسری کا بیگ اس کے کندھوں پر تھا۔وہ کسی جھاڑی سے ٹکرا کر گری اور مر گئی۔ میں نے فوراًجہاز پکڑا، کرائے کی کار لی اور اس کی تدفین کا بندوبست کرنے چلا گیا۔ اس کی موت کی وجہ ابھی معلوم نہیں تھی اور تشخیص کرنے والے  ادارے کے دفتر میں تھی۔اس کی گراسری کے ساتھ اس کا پرس اور دانتوں کی بتیسی بھی مجھے دے دی گئیں۔میں نے اس کی گراسری کا بیگ دیکھا۔اس میں قبض کشا دوا کی ایک شیشی، دو چکوترے، ایک لیٹر دودھ کا پیکٹ، چھ آلو،، کچھ پیاز، تھوڑا ساقیمہ تھا جو بد بو چھوڑنے لگا تھا اور روئی کا ایک پیکٹ یہ دیکھ کر میرا دل بھر آیا تو میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔   میں نے پرس نہ کھولا۔ بتیسی میں نے اپنے کو ٹ کی جیب میں رکھ لی۔ اس کے بعد میں میت قبرستان لے گیا۔ بتیسی کسی کو دے دی اوردفنا کر لوٹ آیا۔سابقہ معاملات ابھی سلجھے نہیں تھے کہ اب نیامسئلہ شروع ہوگیا تھا اور بجائے میں اس سے پوچھتا وہ  جارح ہورہی تھی ۔۔۔  اور اب اوپر سے اولیور اپنی بیوی امانڈا کو دھمکی دے کر گھر چھوڑ گیا تھا۔

ایسی باتیں تو زندگی بھر ڈستی رہیں گی۔اب   دیکھا تو امانڈا کے کمرے کی روشنی جل رہی تھی۔پتوں پر نکلتے سورج کی روشنی کی کرنیں ان کی زردی کو زیادہ واضح کر رہی تھیں۔ایسا لگتا تھا کہ کرنیں بھی میری طرح  خوفزدہ تھیں۔امانڈا نے بتی شاید اس لئے جلا رکھی ہو کہ اسے رات کے بلب کے طور استعمال کر رہی ہو یا وہ کچن میں ہو اور کھانے کی میز پر بیٹھی میرے نام چٹھی لکھ رہی ہو۔میں نے یہ کیوں ایسا سوچا کہ وہ خط لکھ رہی ہوگی، معلوم نہیں کیونکہ چھ آٹھ ماہ کی جان پہنچان سے دوستی اور نہایت قریبی مراسم تک اس نے مجھے کبھی بھی کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔  مجھے تو یہ تک بھی علم نہیں تھا کہ اس میں لکھنے کی  صلا حیت تھی  بھی کہ نہیں کیونکہ ہم بالمشافہ یا ٹیلیفون پر ہی گفتگو کیا کرتے تھے۔ویسے بھی یہ فضول بحث تھی ۔ حقیقت تو یہ تھی کہ میں اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ 

 خط و کتابت میں  کرسٹینا لاثانی تھی۔اس کی تحریر بڑی موئثر ہوتی تھی۔ میری بیوی وِکی باہر ڈبے سے اس کے خطوط لا کر کچن کی میز پر میرے سامنے رکھ دیا کرتی تھی۔اس کے خطوط میں سنسنی ہوتی تھی۔ وہ تمام تر جذبات سے بھر پور ہوتے تھے، پڑھ کر مزا آتا تھا۔ان دنوں وہ اپنی بہن کے ساتھ رہ رہی تھی         بہن نے جب یہ دیکھا کہ میں  کرسٹینا  کے ساتھ برا سلوک کر رہا تھا تو اس نے سوچا کہ اگر وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے تو اس کا تناؤ کم ہو جائے گااور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔  وہ اس سے بہت اچھا برتاؤ کر رہی تھی۔اس نے ایک خط میں لکھا تھا کہ وہ میرے ساتھ تعلق کا از سر نو جائزہ لینا چاہتی تھی۔وہ  اپنا مستقل ٹھکانہ ڈھونڈنا  چاہتی تھی کیونکہ میں اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا ۔اس نے یہ یقین دلایا تھا کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے گی، جہاں بھی ہو گی، جہاں بھی رہے گی، جس کے ساتھ بھی رہے گی، میرے ساتھ مکمل رابطے میں رہے گی۔ اس نے اپنے خطوط میں اب’مقدر‘کی جگہ اب  ’کرما‘ کی طرح کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی تھی۔اگرچہ وِکی میرے ساتھرہائش پذیر تھی لیکن   ماں باپ کے غم،               وِکی کی بے وفائی اور نئے پھڈے نے میرے حواس بے قابو کر دئے تھے۔غم غلط کرنے کے لئے پھر کثرت سے مے نوشی کرنے لگا تھا۔ 

 مجھے امانڈا کی سنگین صورت حال میں اسے سنبھالا دینا چاہئے تھا لیکن میں ایک بار بھی اس کی دلجوئی کے لئے نہ گیا،کیونکہ میں اس وقت سمجھتا تھا کہ میری ذہنی حالت ایسی تھی کہ میں اسے برداشت  نہ کر پاؤں گا۔ کہیں وہ مجھے مطلب پرست سمجھنا نہ شروع کر دے۔اس میں کوئی دو                      رائے نہیں کہ میں نے اس کے سا تھ اپنی زندگی کے بہترین لمحات گزارے تھے۔اپنی غیر معتدل ذہنی حالت کی وجہ سے اب اس سے بیگا نگی کا سلوک کررہا تھا۔معاملات بگڑتے جا رہے تھے ۔ میری زندگی میں ایک پل بھی سکون نہ تھا۔ کرسٹینا مجھ سے الگ ہو گئی اور میری قسمت میں وِکی آگئی۔ماں باپ رخصت ہوگئے۔ وِکی سے معاملات بگڑگئے اور اب امانڈا اور اولیور آگئے تھے۔ میں کس سمت جاؤں؟ کیا کروں؟ دماغ شل تھا۔ مجھے اس وقت نیند کی اشد ضرورت تھی لیکن ایک تو مجھے نیند نہیں آرہی تھی اور دوسرا  یہ کہ سورج نکل آیا تھا اور اس وقت کون کافر سو سکتا تھا۔وِکی ابھی بھی سوئی ہوئی تھی۔اس کا الارم بج بج کر خاموش ہو گیا تھا۔ 

میرے ذہن میں موجودہ مسئلے کا ایک حل یہ بھی نظر آیا کہ میں واپس بیڈ روم جاکر وکی کے ساتھ لیٹ جاؤں، اُس سے کہوں کہ میں غلطی پر تھا۔ قصے  کو اس طرح بھول جائے جس طرح  میں اس کی بے وفائی  کو  بھولاتھا۔ایسا کرتا تو زندگی عام ڈگر پر چل پڑتی۔میں آرام کی نیند کے بعد اٹھتا تو اس کے بازو میری گردن میں حما ئل   ہوتے۔اگر ایسا کیا تو پھر امانڈا                         کا کیا ہو گا؟میں نے اس سوچ کو یکسر مسترد کر دیا۔اس کے علاوہ باقی تدابیرمیرے حق میں نہیں تھیں۔ میں   گھر کے سربراہ  ہونے کا حق کھو چکا تھا۔میں کھیل سے باہر ہوچکا تھا۔میں اس میں اب شامل نہیں ہو سکتا تھا۔کرسٹینامعالی کے بعد میں اب وکی کو بھی کھو نے جارہا تھا۔وہ اس سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ اس میں علیحدگی یا طلاق کا صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ تھا۔ وہ بڑے  اعتماد سے نئی راہیں تلاش کر سکتی تھی۔اس نے  مجھے(' کرافٹ ہوز    'کو) چھوڑنے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا تھا۔اس کی آ نکھوں سے اس کی علیحدگی کے لئے ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکنا تھا۔ اس نے اپنے بوائے فرینڈ  کو بھی ایک منٹ میں فارغ کر دیا تھا۔ایسے حساس معاملات میں بھی اس ے اپنی ایک لمحہ کی نیند بھی ضائع نہیں کی تھی۔ اس نےان تعلقات کو ختم کردیا تھا تو میں کس درجے پر آتا تھا۔امانڈا پورٹر کے کمرے کی روشنی اب گُل ہو گئی تھی اور پورچ کی    جل رہی تھی۔امانڈا اور میرے معاملات کے حل ابھی نہیں تو کبھی نہیں والے مرحلے میں داخل ہو چکے تھے۔

روشنی میں ایک کار وہاں سے گزری۔آسمان نے اپنی روشنی بکھیرنی شروع کر دی۔پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا۔اب میں مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔مجھے کچھ کرنا ہو گا۔میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتاتھا۔عو ام الناس روزی روٹی کے چکر میں پڑ نے والے تھے۔باقاعدہ آمدو رفت شروع ہو نے والی تھی۔امانڈاکی بچی رُتھ بھی اٹھ کر سکول جانے وا لی ہو گی۔اسی وقت میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی کہ میں اپنے اور دوسرے گھروں کے خزاں کے پتے اکٹھے کرنا شروع کر دوں۔میرے نزدیک اس کے کئی فائدے تھے۔میرا وقت اچھا گزر جائے گا، پڑوسیوں کی نظر میں اچھا بن جاؤں گا، ہو سکتا تھا کہ امانڈا سے ملاقات ہو جائے اور میں اس سے تازہ ترین صورت حال معلوم  کر لوں۔وکی کے ساتھ جھڑپ سے کچھ دیر کے لئے بچ جاؤں، میری توانائی خرچ ہو جائے، مجھے نیند آجائے اور میں تازہ دم ہو کر حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاؤں                وغیرہ۔عقبی صحن میں میں نے چند جین کی پتلونیں اورپسینہ خشک کرنے والی قمیصیں دیکھیں ۔ پاجامہ تبدیل کیا، سفید کینویس کے جوتے پہنے اور پتے صاف کرنے لگا۔ اس دوران مجھے الفریڈ  کا فون آیا۔ اس نے رات کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی تھی ۔

میں گیراج سے باہر آگیا۔ دانتوں والا ریک اور پتوں اور گھا س ڈالنے والے  خاکی تھیلے اٹھائے تاکہ میں پتے اکٹھے کر کے اس میں ڈال سکوں۔میں  ساتھ والے  گھرکے سامنے آیا اور پتوں کی صفائی  شروع کر دی۔صحن کا ایک ایک  انچ اچھی طرح صاف کیا۔ بیگ پتوں سے بھرنے کے بعد سڑک کے کنارے رکھ دیئے تاکہ بلدیہ اسے اپنے پروگرام کے مطابق اٹھا لے جائے۔ اس وقت گلی میں اکا دکا  گاڑیاں آنا جانا شروع ہو گئی تھیں لیکن میں بڑے انہماک سے اپنے  کام میں مشغول رہا اور ان کی طرف  بالکل توجہ نہ دی۔اپنے گھر کی صفائی کے بعد میں اپنے دوسرے  پڑوسی  بیکسٹر  کے گھرکےسامنے سے پتے صاف کرنے لگا۔میں اس کے صحن کے پتے اٹھا اٹھا کربیگوں میں ڈالنے  لگا تو  مسز بیکسٹر رات کے لباس میں سلیپر پہنے  پورچ میں آئی اور مجھے حیرانی سے دیکھنے لگی۔' مسٹر ہیوز  تم کیسے ہو؟'            مسز بیکسٹر نے پوچھا۔

 'اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو میں تمہارے صحن کے پتے  صاف کر دوں،' میں نے  پسینہ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔

وہ کچھ دیر دیکھتی رہی پھر کہا '،تم ہمارا کام کر رہے ہو۔ شکریہ۔ جاری رکھو۔ ' اس نے صحن کی طرف تنقیدی نظروں سے  دیکھا اور بولی،' تم نے بہت اچھی صفائی کی ہے۔ تم نے اچھا کام کیا ہے۔' میں خاموش کھڑا رہا۔میں نے دیکھا کہ عین اس کے پیچھے اس کا خاوندرسمی لباس میں ملبوس دفتر جانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔مسز بیکسٹر نے خفیف مسکراہٹ سے اپنے میاں کو دیکھا اور اس نے کندھے اچک دئے۔ اس کے بعد ہم سب کئی منٹ خاموش کھڑے رہے۔ 

اس لمحے میں نے مسٹر بیکسٹر کو خود سے اس لئے  بہتر سمجھاکیونکہ وہ رات بھر بغیر کسی پریشانی کے سویا تھا۔ دفتر جاتے وقت  وہ  اپنی بیوی کو چوم کر الوداع کرنے والا تھااور پھر اس کی بیوی اس کی واپسی کا انتظار کرنے والی تھی۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اپنے پیچھے کار کا دروازہ کھلتے اور بند ہوتے سنا۔ مسٹربیکسٹرنے گاڑی سٹارٹ کی، آسانی سے اسے ریورس کیا، ہاتھ اٹھا کر مجھے الوداع کہا اور روانہ ہو گیا۔ اب سڑک پر ٹریفک  زیادہ ہو گئی تھی۔ میں احتیاط سے  اسے عبور کرنے لگا تو کسی واقف کار نے ہلکا سا ہارن بجایا لیکن میں نے اس پر تو جہ نہ دی۔میں نے اس کے بعد کئی گھر اور بھی صاف کئے جن میں امانڈا کا گھر بھی تھا لیکن بدقسمتی سے وہ نظر نہ آئی۔ 

میں شام کو  اپنے مصور دوست الفریڈ کے پاس چلا گیا۔ بگڑے حالات کی وجہ سے میں اپنے آپ میں نہیں تھا۔ میرا ذہن غیر متوازن تھا۔میں دیوانگی محسوس کر رہا تھا۔ اس کے گھر میں ایک محفل جمی ہوئی تھی۔سب نے مجھے خوش آمدید کہا۔اسکی بنائی گئی تصاویر گھر کی دیواروں، فرنیچر اور گھر کے چپے چپے پر  ٹنگی ہوئی تھیں۔یہاں تک کہ اس کی تصاویر کا ایک ڈھیر پورچ میں بھی پڑا تھا۔اس نے اپنے کچن کو اپنا سٹوڈیو بنایا ہوا تھا۔پینٹ کی پچکی ہوئی ٹیوبیں، برش، سٹینڈ پر لگا ہوا کینوس وغیرہ موجود تھے۔ وہ پارٹی سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مصوری بھی کر رہا تھا۔ اس نے کینوس والا سٹینڈ کچن کی کھڑکی کے سامنے اس طرح رکھا ہوا تھا کہ گلی کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ دوست موسیقی کی مدھر دھنوں میں ڈرائنگ روم میں جام پر جام چڑھا         رہے تھے۔مصوری کے کچھ برش اور شراب کی بوتلیں کچن کی میز پر رکھی تھیں۔میں اس کے پاس  جا کر بیٹھ گیا۔الفریڈ نے اپنے اور میرے لئے جام بنایا۔ اس چھوٹے سے کمرے میں اس نے عمدہ انتظام کیا ہوا تھا۔موسیقی  چند لمحوں کے لئے بند ہوئی تو کچن کی کھڑکی سے گلی کی آوازیں واضح ہونے لگیں ۔ 

تھکا ماندہ بے خوابی کا شکا ر، منوں غموں کا بوجھ اٹھائے، میں کچن میں بیٹھا تھا۔اپنی  تکالیف کچھ دیر برداشت کرتا رہا پھر میری حالت غیر ہونے لگی۔میرے جسم پر ہلکی سی کپکپی طاری ہونے لگی۔الفریڈ میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور اپنا مصوری کرنے والا بڑا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا  اور بولا:

'  تم جس دور سے گزر رہے ہو، اس پر مجھے افسوس ہے۔ میں تمہاری تکلیف اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔ میرے پاس ہسپانوی تہواروں       میں       استعمال ہونے والا خصوصی شوربے          کا آزمودہ نسخہ (مینوڈو)ہےجو میرے پرکھوں  کی نشانی ہے۔وہ  بیماریاں جڑسے اکھاڑتاہے۔الجھنیں دوراور دماغ تروتازہ کرتاہے۔ وہ تمہاری تمام   پریشانیاں  دور کر دے گا۔۔ دھیرج رکھو۔ تم اس خوراک سے صحت یاب ہو جاؤ گے۔ اپنے اعصاب پر قابو رکھو بہادر انسان۔ اس وقت خود کو ٹھنڈا کرو۔  تمہارے لئے  مینوڈو            سوپ       کاتریاق بنانے کے تمام اجزائے ترکیبی میرے پاس موجود ہیں اور میں اسے تمہارے لئے بنانے جا رہا ہوں۔  تم اس سے مکمل طور پر تندرست  ہو جاؤ گے ہیوز۔'    

اس وقت صبح کے دو بج رہے تھے۔میرا تمام جسم لرز رہا تھا اور  بے قراری کی کیفیت  زیادہ ہو رہی تھی۔ مے کش م دوست         د ہوش ت   ہوگئے تھے۔سٹیریو پوری آوازسے مقبول دھنیں بجا رہا تھا۔    

'میری بات سنو!'الفریڈ فریج کے پاس گیا۔  اُس کا فریزر والا حصہ کھولا اور وہا ں  سے ایک پیکٹ  نکالا۔ ہاتھ دھونے والی سلفچی (بیسن) کے پاس گیا اور کہا ، ' میری بات سنو پیارے شخص۔۔۔ جو میں کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو۔  ہم اب ایک خاندان ہیں۔ تم مینوڈو کھانے کے بعد  ایک دم فٹ ہوجاؤ گے۔ '  

اس کے بعد مصالحوں والے حصے کی طرف گیا اس میں سے کچھ جڑی بوٹیاں اور مصالحے نکالے۔ پھر اس نے ایک بڑی سی پتیلی اٹھائی۔ اب وہ مینوڈو سوپ  پکانے کے لئے تیار تھا۔ 

وہ اوجھری سے شروع  ہوا۔ اس کو ایک گیلن پانی سے بھرا۔ پیاز چھیلے، کاٹے اور انہیں اس میں ڈالا اور چولہے پر رکھ دیا۔ جب پانی ابلنا شروع ہو گیا تو اس نے ہسپانوی گرم مصالحے ڈالے۔ ۔۔  کھڑی کالی مرچ کے دانے ، کچھ سرخ مرچیں، ایک ڈبے سے ٹماٹرکی چٹنی، لونگ، لہسن کی تریاں، ڈبل روٹی کے ٹکڑے، نمک اور لیموں کا  رس۔۔۔ پھر پسا ہوا دلیہ بھی  ڈالا۔ اس کے بعد اس نے چولہے کی آگ آہستہ کردی اورکیتلی کو ڈھکن سے ڈھانپ دیا۔

 میں اسے ہسپانوی  تریاق (مینوڈو) تیار کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وہ خوراک بناتے ہوئے مجھ سے باتیں بھی کر رہا تھا مگرمجھے اس کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں۔۔۔ وہ  پکاتے ہوئے وقفے وقفے سے اپنا سر ہلا تا  یا  ا س قسم کی کوئی حرکت کرتا اور منہ سے سیٹی بجانا شروع کر دیتا۔ کچھ دیر بعد تمام دوست کچن میں آگئے اوروہ  انہماک سے تریاق تیار کرنے میں مصروف رہا۔ ایسا              لگ رہا تھا کہ وہ ذہنی طور میرے لئے اس پیار سے مینوڈو تیا ر کر رہا تھا جیسے  اپنےخاندان  کے اہم ترین      رکن کےلئے خصوصی خوراک تیار کر رہا ہوجا اس کے نزدیک 'میں'تھا۔

 رات کے تیسرے پہر خصوصی تریاق تیار کرتے ہوئے دیکھ کر دوست اس کا مذاق اڑاتے رہے لیکن الفریڈ پر اس کا کوئی اثر نہ ہو ا  اور بڑی احتیاط سے اپنا کام کرتا رہا۔  ہاتھ میں بڑا چمچ لے کر نگاہیں کیتلی پر ٹکائے مستعدی سے کھڑا رہا۔ میرے جسم پر بدستور لرزش طاری تھی جو اب شدید کپکپی میں تبدیل ہو گئی اور اب میرے کندھوں تک پہنچ گئی تھی۔ دانت بھی زور زور سے بجنے لگے اور میں گلاس اپنے ہاتھوں میں تھام نہ سکا۔

'تمہیں کیا ہو رہا ہے دوست؟ 'الفریڈ نے میری حالت دیکھتے ہوئے کہا۔ 'اوہ! کیا ہو گیا ہیوز   ۔تمہاری طبیعت ٹھیک تو ہے؟ کیا ہو رہا ہے تمہارے ساتھ؟  'وہ گھبرا کر بولا۔

' ایسا لگتا ہے کہ مجھ پربیماری نے حملہ کر دیا ہے۔'                 میں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

اس بات پر وہ میرے  ساتھ بغل گیر ہوا، میرے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا اور مجھے کانپتا ہوا دیکھنے لگا۔ وہ پھر جب  کیتلی کی طرف گیا تو میں اس کے کام میں مداخلت کئے بغیر آہستہ سے اٹھا اور چلتے ہوئے دوسرے بیڈ روم میں  گیا۔ اس کے آگے ایک اوربیڈ روم تھا جو خالی تھا۔ میں اس میں جیسے ہی بستر پر بیٹھا تو مجھے نیند نے آلیا اور میں گہری نیند سو گیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو پورا گھر خالی تھا۔ تریاق ( مینوڈو) کی کیتلی صفا چٹ تھی۔ مینوڈو سوپ کاآخری قطرہ تک بھی پی لیا گیا تھا۔           

 اس رات کے بعد ہماری زندگانی دو مختلف سمتوں کی طرف چل پڑی اور وہ تمام احباب جو اس رات اس کے ساتھ تھے، وہ کہاں  تھے، کہاں گئے، کیا کرتے تھے، کچھ علم نہیں۔ جو تریاق میرے لئے باالخصوص طور پر بنایا گیاتھا، میرے علاوہ سب نے پی لیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں ایک طویل عرصے تک اپنی حالت نہ سدھار سکا۔ اگر میں  تریاق  اس رات پی لیتا تو میں بہت جلد مسائل سے نکل آتا۔ایک کسک سی رہ گئی۔شاید میں اس  سوپ  کو چکھے بغیر ہی مر جاؤں گا، میں نے سوچا۔لیکن کسے کیا خبر؟ وہ    تریاق کرسٹینا معالی کی طرح میرے نصیب میں نہیں تھا۔ اب سوچتا ہوں میں نے کرسٹینا معالی کی قدر نہیں کی۔ اس کے ہوتے ہوئے  مجھے کسی مینوڈوکی ضرورت نہ تھی۔وہ ہی میرا  تریاق تھی۔میں اسی غم میں مر جاؤں گا۔میری روح تمام عمر مجھے کچو کے لگاتی رہے گی کہ میں نے اسے کیوں الگ کیا۔

اب پچھتائے ہوت۔۔۔

 Life history

Raymond Carver

1938……1988

USA

حالاتِ  زندگی

ریمنڈ کارور جونیئر25 مئی 1938 کو اوریگون کے کولمبیا دریاکے قریبی قصبے بائیما   میں پیدا ہوا۔اس کے والد کانام' ایلا بیٹر س  کارور  اور والدہ کا نام ' کلیوئی ریمنڈ کارور'۔اس کا والد  محنت کش تھا۔ اس کی والدہ گھریلو  خاتون تھی لیکن کھبی کبھار ویٹرس کی نوکری کر لیا کرتی تھی۔ریمنڈ کارور نے باکیما کے مقامی سکولوں   میں ابتدائی تعلیم حاصل  کی۔اپنے فالتو اوقات میں وہ  م'یکے  سپیلاو'؛ سپورٹس  آرفیلڈ ' کے سپورٹس  نامے اور افسانے پڑھا کرتا تھااس کا مشغلہ  جنگلی جانوروں اور مچھلی کے شکاراور کھلی ہواؤں والی کھیلیں کھیلنا  اور دوستوں کے ساتھ وقت گزاری   تھے۔ہائی سکول کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ  کیلیفورنیا آرا مشین پر مزدوری کرنے لگا۔اس نے انیس برس کی عمر میں سولہ سالہ لڑکی مار ییان برک سے 1957  میں شادی کی جس سے ایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوئے۔ریمنڈ چھوٹی موٹی محنت  مزدوری کرکے اور اس کی بیوٰی  سکول میں اسسٹنٹ  ، ہائی سکول کی استانی اور سیلز پرسن  کی نوکری کرکے گزارہ کرتے رہے۔

اس نے چک سٹیٹ کالج میں انگریزی تخلیقی فن کے مضامین مین داخلہ لیاتو اس کے ایک استاد  جان گارڈنر جس نے پی ایچ ڈی   تخلیقی ادب میں کی تھی اور ناول نگار تھا، نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور پیشہ ورانہ انداز میں کیسے لکھا جاتاہے ،کی  تکنیکی  تربیت کی ۔اس نے شاعری  شروع کردی  اور مقبول ہوگیا۔ اس کے بعد وہ ناول نگاری  اور افسانہ نویسی کرنے لگا۔اس نے اپنے مسودات کو  پیشہ  ورانہ رنگ دینے کے لئے  مشہور  ناقد لیش سے رائے لی تو اس نے اسے سختی سے تاکید کی کہ وہ  اپنی نثر میں ایجاذ  ( اختصار) اور مواد میں    زیادہ   ٹھوس پن  لائے۔ پہلے تو وہ اس کی اور دیگر ناقدین کی باتیں مانتا رہا لیکن جب لیش نے اس کے  زیر اصلاح مسودے کے بڑے حصے کاٹ دئیے تو اس نے اس سے کنارہ کشی کر لی ۔ اس کا ذاتی تجربہ محنت مزدوری تک محدود تھا، اس لئے اس کی تحریروں   میں  محنت کش اور نچلے متوسط طبقے کے بارے میں زیادہ   پایاجاتا ہے۔ناقدین نے اس کے ادب  کو ناپاک حقیقتی ادب  عنوان دیا۔اس کے ادب  کو قنوطی اور رنج و الم اور مایوسی والا کہا ۔

ریمنڈ کارور   نے اپنی بیوی    میرییان برک  کو 1982  اس لئے طلاق دی  کہ اس کا معاشقہ ایک ادیبہ' گیلاگر 'کے  ساتھ اس وقت ہوگیا جب   ریمنڈ اپنے دوستوں  کے ساتھ مچھلی کے شکارپرتھا۔اس نے 1988 میں اپنی فوتگی سے چھ ہفتے پہلے اس سے  شادی کرلی۔ وہ پھیپھڑوں کے کینسر سے فوت ہوا۔اسے سائراکیوز  کے پورٹ اینگلس واشنگٹن کے قبرستان میں دفن  کردیاگیا۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں ۔

Will You Please be Quiet  Please; Furious Seasons and Other Stories; What We Talk About When We Talk About Love;Cathederal; Elephant; Beginners; When I am Calling For etc.

Poetry

Near Clammath; Winter Insomnia; A Night the Salmon Moves; Fires؛ Where Water comes Together with other Water etc.

Awards

   Pultizer Prize for Fiction 1984; O’Henry Awards  (five times …1974; 1975; 1983 and 1985) 

 

32

لاٹری

The LotteryShirley Jackson؎؎

(۔1965۔۔۔1919)

(USA)

 

27 جون کا سورج پوری طرح روشن اور صاف تھا۔ موسم کی مناسبت سے حدت کم تھی۔ فضا میں ہلکی سی  خنکی تھی پھو ل اپنے جوبن پر تھے اور اپنے حسن کا جادو جگا رہے تھے۔ گھنی گھاس کی مخملی سبز چادر چا رسو پھیلی ہوئی تھی۔ آج کا دن لاٹری کےلئے مخصوص تھا۔ یہ سال میں ایک بار نکلتی تھی ۔ آج بستی کے ایک مکین کی قسمت بدلنا تھی ۔اور کسی خاندان  پران منٹ نشانات چھوڑ جانے تھے ۔ وہ کون ہوگا  کا فیصلہ تمام بستی کے سامنے غیر جانبداری سے کیا جانا تھاجو آئندہ چند گھنٹوں میں ہونے جا رہاتھا۔ بستی والوں کیلئے یہ نئی بات نہیں تھی ۔یہ اس وقت متعارف کروائی گئی تھی جب صدیوں پہلے یہ بستی آباد ہوئی تھی۔سال میں ایک بار مقررہ تاریخ پر منعقد ہوتی تھی ۔گاؤں والوں کی ریت ، روایت اور رسم بن گئی تھی جسے وہ قائم رکھے ہوئے تھے اور شائد مزید جاری بھی رکھنا چاہتے تھے۔

آس پاس کی کئی بستیوں میں یہ رسم دو دن تک  چلتی تھی۔ وہاں یہ اجتماع 26  جون کو شروع ہوتاتھا جبکہ اس گاؤں میں ایک ہی دن میں ختم ہو جاتی تھی۔ دو گھنٹےمیں ہی لاٹری کی تمام منازل طے ہوجاتی تھیں۔ اگر یہ صبح دس بجے شروع کردی جاتی  تو دوپہر کا کھانا گھر پر کھایا جا سکتا تھا۔اس روایت کے مطابق بستی کے مکین  آج بنک اور پوسٹ آفس کے مین چوک پر جمع ہوناشروع ہو گئے تھے۔ وقت تقریباًدس بجےکا تھا۔ توقع کےعین مطابق بچہ پارٹی سب سے پہلے پہنچی تھی۔موسم گرما کی تعطیلات شروع ہو گئی تھیں۔ گھروں میں بند رہنا، آزادی ،کھلی فضا میں سانس اور اپنی توانائیاں خارج کرنا ان کا مقصد تھا۔ بچے چوک پہنچ کر کچھ دیر تو سکون سے رہے ۔ سکول ، اساتذہ۔ ، ان کے رویے، ہوم ورک۔ نصاب وغیرہ پر بات کرتے رہےپھر دھما چوکڑی مچانے لگے۔جوش میں ایک بچے 'بوبی مارٹن ' کو نہ جانے کیاسوجھی کہ اس نے زمین پر بکھرے کنکر                 اپنی جیب میں ٹھونس  لئے۔اس کی تقلید میں دوسروں نے بھی              ایسا           ہی کیا۔ گول گول ہموار سنگریزے اکٹھے کر لئےگئے۔ کئی بچے جن میں بوبی، لیری    جونز اور   ڈکی ڈیلا کروئیکس(جس کا لقب  ڈیلا کراسی تھا) شامل تھے، اس کھیل میں حد سے بڑھ گئے اور پتھروں کی ڈھیریاں بنالیں۔ یہ خیال کہ اس سوغات کو کوئی چرا  نہ لے یا ان پر کوئی حملہ نہ کردے۔ وہ اس   کو روکنے کے لئے اس پر پہرہ دینے لگے۔کچھ دیر بعد لڑکیاں آ گئیں اور ایک الگ ٹولی بنا کر کھڑی ہو گئیں۔ان کے ساتھ کمسن بچے بھی تھے جنہوں نے مٹی کی مٹھیاں بھر بھر کر ایک دوسرے پر پھینکنے کاکھیل شروع کردیا۔اس کے بعد  گھروں کے سربراہ آگئے اورفصلوں، ٹیکسوں ,بیلوں،بیجوں  اور حالات حاضرہ  پرگفتگو کرنے لگے۔باتوں کے دوران اچٹتی نگاہ اپنےبچوں پر بھی  ڈال لیتے۔آخر میں ان کی بیویاں  ان سے آ ملیں،وہ گھریلو لباس میں تھیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو اپنے پاس بلا لیا تاکہ پورا خاندان  ایک جگہ پر ہی کھڑا ہو جائے۔بوبی نے اپنی ماں کا ہاتھ غوطہ لگا کر چھڑا لیااور کنکروں کی ڈھیری کی طرف بھاگاتو اس کے باپ نے اسے ڈانٹا اور وہ اپنےوالد اور اپنے بھائی کے بیچ میں  دبک کر کھڑا ہو گیا۔لاٹری کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سےفضا میں غیر محسوس تناؤ کی سی کیفیت محسوس کی  جارہی تھی۔ 

لا ٹری کی یہ رسم پچھلے کئی برسوں سے جوزف ۔سمرز منعقد کر رہا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت بڑا سماجی کارکن تھا اوربستی بھر کی تقاریب کا  روح رواں  تھا۔جوانوں کے کلب، ڈانس پارٹیاں، ہیلوئین، کرسمس، ایسٹر وغیرہ کی تقاریب عمدہ طریقےسے منعقدکرواتا تھا ۔وہ ایک معقول شخص تھا۔تاجر تھا۔ لوگ اس کی عزت کرتے تھے لیکن اس کےساتھ اس پر ترس بھی کھاتے تھے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ایک تو وہ بے اولاد تھا اورد وسرا یہ کہ اس کی بیوی  تیز مرچی تھی۔مجموعی طور پر وہ دلکش شخصیت کامالک تھا، گول مٹول چہرہ اور عمدہ حس مزاح رکھتا تھا اور انتہائی ذمہ دار تھا اسلئے بستی والوں نے لاٹری نکالنے کا انتظام بھی اس کے سپرد کر دیا تھا ۔لاٹری کی رسم نبھانے کے لئے مسٹر سمرز  وہاں پہنچا  تو اس نے لکڑی کا ایک بڑا            سا سیاہ ڈبہ اٹھایا ہوا تھا۔ یہ ان کا بیلٹ باکس تھا اس کے عقب میں  مسٹرہیری  گریووز تھا جس کےہاتھوں میں تین ٹانگوں والا سٹول تھا۔ ان کو دیکھتے ہی مجمع میں کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ مسٹر گریووز نے چوک میں سٹول رکھا اور  مسٹر  جوزف   نے اس پر  وہ  ڈبہ رکھ دیا۔ ہاتھ اٹھا کر ہیلو کیا اور دیر میں آنے کی معذرت کی۔ مجمع نے سٹول سے خود کومناسب فاصلے پر رکھا۔ مسٹر  جو۔سمرز نے انہیں مخاطب کر کے کہا کہ اسے دو مدد گار چاہئیں۔بھیڑ میں مسٹر مارٹن اور اس کا سب سے بڑا بیٹا  بیکسٹرہچکچاتے ہوئے باہر نکلے۔سمرز  نے انہیں ہدایت دی کہ لاٹری کے سیاہ   ڈبے کواچھی طرح کس کر پکڑیں  تاکہ پرچیوں کو اچھی طرح  ملایایا جا سکے۔ انہوں نے اس پر عمل کیا اور جو ۔سمرزنے اس باکس کو اچھی طرح ہلایا تاکہ اس کے اندر رکھی پرچیاں اچھی طرح  آمیزش  ہوجائیں۔ 

صدیوں پرانا     اصلی لاٹری  کا مخصوص سیاہ  ڈبہ کب کا ٹوٹ چکا تھا۔ اس کے اندر سامان کا کچھ حصہ موجودہ ڈبے میں فٹ کر دیا گیا تھا۔بستی کابزرگ ترین شخص مسٹر وارنر اس روایت  کی تاریخ اور افادیت پر گفتگو کرتارہتا تھا۔ وہ پچھلے ستتر سالوں سے یہ رسم دیکھ رہا تھااور لاٹری نکالنے کی رسم کا زبردست حامی تھا۔ وہ               بتا تا                رہتا تھا کہ  رسم کبھی ختم نہ کی جائے کیونکہ یہ کاؤں  اور اس کے باسیوں  کو  بیماری، خشک سالی، قحط  اور دیگر مصیبتوں سے بچاتی ہے۔اگرچہ   پرانا باکس اب خستہ حال ہو چکا ہے اور اس کی لکڑیوں کا رنگ تک نظر آنےلگا ہے۔ اسلئے  اسے تبدیل کرکے نیا  بنالیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں  لیکن لاٹری جاری رکھی جائے۔ اکثر مکین اس کی رائے کو  پسند نہیں کرتےتھے لیکن   غیر مرئی  طاقتوں سے خوف کھاتے تھے کہ کہیں  ان  پر عذاب  طاری نہ ہوجائے اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس رسم  کوبرقرار رکھے ہوئے تھے۔بیلٹ باکس کے بارے میں   ان کا خیال تھا کیونکہ  زمانہ قدیم کے ڈبے کے کئی ٹکڑے اس میں تھے۔ اس لئے وہ بکس   استعمال کیاجاسکتاتھا۔، یہ بحث           ہرسال چلتی         اور گفتندنشستند و بر خواستند والامعاملہ ہو جاتا تھا۔ موجودہ شکل میں یہ ڈبہ مکمل سیاہ نہیں تھا۔ اس کی لکڑیوں کا اصلی رنگ نظر آنے لگا تھا۔ آئے دن اس کی حالت بگڑرہی تھی۔ صدیوں پہلے جب بستی آباد ہوئی تو بہت کم نفوس تھے اور اب جب گاؤں کی کل آ بادی بڑھتے بڑھتے تین سو سے بھی اوپر ہو چکی تھی اوراس میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ اس لئے  وزنی اشیا کی بجائے کاغذ پرچیاں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ وہ  لاٹری کے ڈبے میں  تمام نام ڈبے میں جگہ پالیں۔لاٹری کی رسم ایک سادہ عمل نہیں تھا۔لاٹری کے دن تک سیاہ ڈبہ سال بھرمحفوظ  رکھنے کے لئے بہت سے مراحل طے کرنا پڑتے تھے۔ اس میں گاؤں کاپوسٹ ماسٹر ہیری گریووز بھی  معاو ن تھا۔ یہ تیاری لاٹری سے ایک رات پہلے شروع ہوتی تھی ۔

 بستی کے تمام مکینوں کی تازہ ترین فہرست بنانا پڑتی تھی۔کئی سالوں سے یہ فہرست جو اور ہیری گریورز بنارہے تھے۔سب سے پہلے  گاؤں میں رہنے والے تمام خاندانوں کےسربرا ہان کی فہرست، ان کی بیویوں اور تمام اہل خانہ کی ناموں کی فہرست بنائی جاتی تھی۔ طریقہ کار یہ تھاکہ  سربراہ خانہ اور اس کے نامزدہ افراد   لاٹری میں حصہ لینے کے اہل تھے۔اس کے علاوہ خانگی ذمہ داریاں  اٹھانے والے بھی    شامل کئے جاتے تھے۔چونکہ اس بستی کا ہر شخص ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف تھا اس لئے وہ لاٹری کی ضرورت کے مطابق پرچیاں بناکر تہہ کرکے ڈبے میں رکھ دیتے تھے۔تمام پرچیاں خالی ہوتیں سوائے ایک کے جس پر مخصوص نشان لگایا جاتاتھا ۔جس کے پاس وہ آتا،لاٹری    جیت جاتاتھا۔۔

پرچیاں بناکرمحفوظ  کرلی جاتی تھیں  تا کہ اگلے روز انہیں وقت ضائع کئے بغیر استعمال کیا جا سکے۔ لاٹری کی رسم کی ادائیگی کے بعد اس  ڈبے کو تمام سال محفوظ رکھنا بھی اہم مرحلہ تھا تاکہ اگلے سال اسے استعمال کیا جا سکے۔ اسے کمپنی کے دفتر یا مسٹر جوسمرز کے دفتر میں سنبھال دیاجاتاتھا اور اگلے سال پھر نکال لیاجاتا تھا۔ سربراہ خانہ کا تعین کرنے کے لئے چند باتوں کو مدنظر رکھاجاتاتھا۔وہ شخص جس کی اراکین خانہ پر حاکمیت حاصل ہوتی تھی اور وہ زیرکفالت افراد کو روٹی، کپڑا۔ رہائش دیتا تھا۔( ہیڈ آف فیملی) وہ  اس گھر کا سربراہ سمجھا جاتاتھا۔۔ یہ فرد واحد ہی  مکمل طور پر تمام گھریلو اخراجات فراہم کرتا تھا۔ایک فہرست ان لوگوں کی بنائی جاتی تھی جو گھر کی  پچاس فیصد سے زیادہ  ضروریات پوری کرتے تھے۔ان کو گھر کا ثانوی سربراہ  (  ہیڈ آف ہائوس ہولڈ)کہا جاتا تھا۔ یہ لازم نہیں تھا کہ وہ سربراہ خانہ ہی ہو۔اس کا تعلق گھر کی پچاس فیصد سے زیادہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ تھا۔ایک فہرست گھر کے تمام افراد کی بنائی جاتی تھی۔ جن میں بالغ  غیر شادی شدہ اور بچے ہوتے ۔سربراہ چنتاکہ ان میں کس کو لاٹری میں شامل کرناہے یا نہیں۔  اور ان کا کھانا ایک ہی چولئے پرپکتااور کھایاجاتاتھا۔ہر رکن کم از کم دن میں ایک بار اس گھر میں کھاتاہو۔ہر خاندان کے سربراہ  جو کہ عموماً خاوند ہوتا تھا کا نام اور اس کے خاندان کے بالغ اراکین جو لاٹری کھیلنےکے اہل تھے، کے ناموں کی  فہرست بنانا پڑتی۔ اس کے بعد ہر بالغ کے  نام کی چٹ لاٹری میں استعمال کے لئےتہہ کرکے ایک رات پہلے ڈبے میں رکھ دی جاتی۔پھرڈبے کوکو سیل کر کے بنک میں رکھ دیا جاتا  اور اگلے روز لاٹری کے لئے وہاں سےلایا جاتا تھا۔ لاٹری کی رسم کی ادئیگی کے بعداس  ڈبے کو تمام سال کسی بھی محفوظ جگہ پر جیسے کمپنی کے دفتر یا مسٹر سمرز کی دکان یا مسٹر مارٹن کےگراسری سٹور یا بنک کے لاکر  یا  مسٹر ہیری گریووز کےپوسٹ آفس میں رکھا جاتا تھا۔ 

لاٹری سے پہلے ایک روائت ایمانداری اور غیر جانبداری کی قسم اٹھانے کی بھی تھی۔اس کے لئے باقاعدہ  لاٹری نکالنے سے پہلے منتظمین  کی تقریب رسم حلف برداری بھی ہوتی تھی۔ پوسٹ ماسٹر مسٹرہیری گریووز ایک خاص پوز میں کھڑا ہو کر مسٹرجو۔ سمرز سے مجمع کے سامنے حلف لیاکرتا تھا اور حلف برداری کے بعد تمام لوگ اس کو سلیوٹ کیا کرتے تھے۔ وہ  چل کر مجمع میں بھی جایا کرتا تھااور عوام میں گھل مل جاتاتھا۔۔ چند سالوں سے یہ رسم اب بند کر دی گئی تھی۔

اس کی جگہ یہ بات متعارف کروائی گئی تھی کہ ہر شریک کو واضح ہدایت دی جائے کہ تسلی  سے ڈبے میں سےصرف ایک پرچی نکالے اور اسے اس وقت تک نہ کھولےجب تک تمام شرکا               فارغ نہ ہوجائیں اور مسٹر سمرز انہیں  نہ کہے۔گاؤں والے تمام لوگ مسٹرسمرز کو اس معاملے میں سب سے معقول شخص سمجھتے تھے۔مسٹر سمرز صاف ستھری اور عمدہ سفید قمیص اور نیلی جین کی پتلون پہنےلاپرواہی سے ایک ہاتھ سیاہ              ڈبے  پر رکھ کر لاٹری نکالنے کے لئے تیار کھڑا تھا  جو موقع کی مناسبت سےموزوں لگ رہا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے اپنے پاس کھڑے مسٹر گریووز ، مسٹر مارٹن  اور ان کے بیٹے  بیکسٹرکے ساتھ انتظارکرنے کے دوران  ادھر ادھر باتیں کر رہے تھے۔ جوں ہی ابتدائی مراحل طے ہو گئے  تو مسٹر سمرز بستی والوں سے مخاطب ہونے لگاتو عین اس وقت مسز ٹیسی ہچنسن اپنے گیلے ہاتھ اپنے ایپرن سے خشک کرتی آگئی۔ اس  نے سویٹر اپنے کندھے پررکھا تھا۔وہ  سیدھی مسزڈیلاکرائوئکس  ُ کے پاس جاکر کھڑی ہو گئی اور اسے آہستہ سے بتایاکہ وہ لاٹری کا تو مکمل طور پر بھول گئی تھی ۔اگرچہ اس کا میاں گھر پر نہیں تھا۔وہ سمجھی تھی کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کرنے گیا تھا  لیکن جب اس نے کھڑکی سےدیکھا تواس کےتینوں بچے بھی غائب تھے تو سوچا کہ وہ کہاں جا سکتے تھے تو لاٹری کا یاد آیا  تو وہ برتنوں کی صفائی ادھوری چھوڑ کر آ گئی۔ ا س پر ڈیلا نے جواب دیا کہاس نے کچھ نہیں کھویا کیونکہ کاروائی کا ابھی آغاز ہی نہیں ہواتھا۔وہ دونوں بے دلی سے ہنسنے لگیں۔ اس وقت ٹیسی نے گردن گھمائی اور اپنے میاں مسٹر بل ہچنسن کو تلاش کرنے لگی۔ وہ سب سے پہلی قطار میں اپنے بچوں کے ساتھ کھڑا تھا۔  اس نے ڈیلا ڈیلو کروئکس  کے ہاتھ پر تھپکی دی اور بھیڑ چیرتے اپنے خاندان کے پاس  پہنچ گئی۔ کوئی اونچی آواز میں بولا۔۔۔ لو جی  ! ً  مسز ہچنسن  ُ بھی آگئی ہے۔ اس پر مسٹر سمرز نے فقرہ کسا کہ مجھے خدشہ تھا کہ آج لاٹری مسز ٹیسی کے بغیر ہی نکالنا پڑے گی۔ اس پر ٹیسی نے فوراً             جواب دیا کہ اب میرے گھر کے سارےگندے برتن مسٹر سمر ہی جا کر دھوئے گا جنہیں وہ  کچن کے بیسن میں گندہ ہی چھوڑ آئی تھی۔ اس پر لوگوں نے کھوکھلا قہقہہ لگایا۔                         

  باتیں چھوڑ کر اصل معاملے پر آئیں۔  ۔۔ کیا اس تقریب میں کوئی غیر حاضر ہے؟ سمرز نے دریافت کیا۔

ہاں ایک شخص ہے۔۔۔ مسٹر کلائیڈ  ڈنابر۔۔۔ وہ ٹانگ ٹوٹنے کی وجہ سے گھرپر ہے۔

مسٹر سمرز نے فہرست دیکھی اور اس کے نام کے آگے کانٹا لگا دیا۔۔۔  اس کی پرچی کون نکالے گا ۔

بھیڑ میں سے ایک ہاتھ بلند ہوا اور آواز آئی  ُ  میں  ُ۔  وہ ہاتھ کلائیڈ                ڈنا         بر                           کی بیوی کا تھا۔

کیا تمہارا کوئی لڑکا جوان نہیں ؟

مسز ڈنابر نے نفی میں جواب دیا۔میرے گھر میں   ہیریس ہے جو کم سن ہے۔

وہ جانتا تھا لیکن یہ سوال  لازم تھا۔۔۔کوئی  مرد نہ ہونے کی وجہ سے اپنے میاں کی بطور سربراہ خانہ اس کی بیوی مسز ڈنابر نکالے گی۔مسٹر سمرز نے فیصلہ سنایا۔

مسٹر واٹسن بھی موجود نہیں تھا۔مسٹر سمرز نے پوچھا کہ اس کی پرچی کون نکالے گا توہجوم میں ایک ہاتھ بلند ہوا  جو اس کے جوان بیٹے کا تھا۔ مسٹر سمرز نے اسے قبول کر لیا۔

لو جی!بستی کا بزرگ ترین شخص مسٹر وارنر بھی پہنچ گیا ہے۔۔۔اب لاٹری میں حصہ لینے والے تمام اراکین موجود ہیں اسلئے کاروائی کاباقاعدہ آغاز کیا جاتا ہے۔ جوں ہی مسٹر سمرز نے اعلان کےلئے اپنا گلا صاف کیا تو ہجوم پر خاموشی طاری ہوگئی۔

اس نے فہرست پکڑتےتے ہوئے کہا ۔  میں باری باری نام پکارنا شروع کروں گا ۔۔۔سب سے پہلے سربراہ خانہ کا نام پکاروں گا۔۔۔اس کے بعد اس وہ   مرد  اور پھر عورتیں آئیں گی جو پرچی نکالنے کے اہل ہیں۔ اور ہر ایک باری باری ایک ایک پرچی نکالے گا۔ اس پرچی کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رکھنا ہے۔اسکی تہہ کو نہ کھولیں جب تک کہ ہر ایک باری نہ لے لے۔ کیا یہ بات ہر ایک کی سمجھ میں آگئی؟مکینوں نے یہ عمل کئی بار کیا تھا ۔ انہوں نے نیم دھیانی سے سنا ۔ خاموش رہ کر اپنے ہونٹوں پر زبانیں پھیر کر انہیں گیلا کرتے رہے۔

اس کے بعد جو۔سمرز نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور سٹیو   ایڈمز  پکارا۔ایک شخص بھیڑ سے نکلا اور آگے آگیا۔

ہائے سٹیو  !

ہائے جو!

دونوں نے ایک دوسرے کو سہمے انداز میں دیکھا۔ سٹیو سیاہ  ڈبے  کی طرف بڑھا اور ایک پرچی نکالی۔ اسے کونے سے مضبوطی سے پکڑکر تیزی سے ہجوم میں اپنے خاندان کے ساتھ جو ذرا ہٹ کے تھا ، جا کر کھڑا ہو گیا۔

ایلن!

اینڈرسن!

بینتھم!

جو نے  ایک کے بعد دوسرے کو پکارنا شروع کیا۔

یہ سال تو بڑا تیزی سے گزر گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پچھلی لاٹری پچھلے ہفتے ہی نکلی تھی۔  مسز ڈیلا کروئیکس نے پاس کھڑی مسزگریووز  سے سرگوشی کی۔

وقت کے پرلگے  ہیں۔۔۔ مسز گریووز نے جواب دیا۔

جو نے کلارک  کانام پکارا ۔

  دیکھو  ۔ ادھر میرا میاں جا رہا ہے۔ مسز  ڈیلا کروئیکس نے اپنا سانس روکتے ہوئے کہا۔    

کلارک  ڈبے کے پاس پہنچا اور جو کو آداب کہا اور پرچی نکالی۔ ۔۔اب تمام مردوں نے اپنی باری لے لی تھی۔ پرچیاں ان کے ہاتھوںمیں تھیں اور اپنے ہاتھ موڑ کر پریشانی سے دیکھ رہے تھے۔  مسز ڈنابر اور اس کے دو بیٹے پاس ہی کھڑے تھے۔

اور مسز ڈنابر نے پرچی پکڑی ہوئی تھی۔

مسٹر گریووز ! 

گریووز مجمع کے ایک کونے سے نکلا ۔ سمرز کو تعظیم کہا اور ایک پرچی نکال لی۔

لگتا ہے کہ  اس کے بعد ہماری باری ہے۔مسز گریووز نے قیافہ لگایا۔

مسز جینی  ڈنابر۔ جو نے نام لیا۔

وہ آہستہ سے ڈبے کی طرف بڑھنے لگی تو پیچھے سے ایک خاتون نے آواز لگائی   ۔۔۔جلدی سے آگے بڑھو جینی۔۔۔ اس کے ساتھ ایک اور آواز سنائی دی۔۔۔دیکھو۔ وہ  چل دی ہے۔

ہربرٹ!

بل ہچنسن!

بل اٹھو اور جا کر پرچی نکالو۔ اس کی بیوی ٹیسی  نے اسے  جھنجھوڑ کر کہا۔وہ لوگ جو پاس کھڑے تھے  اس کی بات سن کر ہنس دئیے۔بل رینگتے ہوئے  باکس سے پرچی نکالنے لگا  تو مسٹر سمرز نے اسے  کہاجلدی کرو ۔ تم بہت دیر کر رہے ہو۔بل پرچی نکال کر ٹیسی کےپاس کھڑا ہو گیا۔

جونز۔۔۔۔!

ایڈمز نےاپنے سے اگلے شخص وارنر سے کہا  کہ  شمالی بستیوں میں یہ رسم ترک کر نے کا سوچا جا رہا ہے۔اس کی بیوی نے لقمہ دیا کہ کچھ بستیوں نے تو اس رسم کو ختم بھی کر دیا ہے۔

وہ بیوقوفوں اور پاگلوں کا ٹولہ ہے۔ آرتھر نے نرخرے سے آواز نکالتے ہوئے کہا۔ ان احمقوں پر لعنت بھیجو۔وہ  نوجوان بزدل ہیں ۔

انہیں سننا بیکار ہے۔ ۔۔  اس کے بعد تم جانتے ہو کہ کیا ہو گا؟۔۔۔ انہیں کچھ دیر اپنے حال پر چھوڑ دو ۔وہ غاروں کے زمانے میں لوٹ جائیں گے۔  ان خرافات پر کان مت دھرو۔ البتہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں  کہ  جو لاٹری  ہماری فصلوں کی ضامن ہے۔  ہم سب باغیچوں کے خود رو پودے ہیں اوراگر لاٹری ہماری بستی میں  اسی طرح جاری رہی تو ہم   بھنےہوئے چنے  اور سٹے کھا تے رہیں  گے۔ ۔۔ وارنر نے کہا۔

 کوئی چاہے یانہ چاہے، ہرشخص اس بات پر رضامند ہے کہ ہرسال لاٹری کھیلی جائے۔ کوئی بھی  حصہ نہ لے کر دہ دیویوں اور دیوتاؤں  کاعذاب  مول نہیں لینا چاہتا۔۔۔مارٹن  ! سمرز  نے کہا۔

بوبی نے اپنے باپ کو باکس کی طرف بڑھتے دیکھا۔میں تو اتنا جانتاہوں کہ جو کوئی بھی لاٹری میں حصہ نہیں لیتا،ااس پر عذاب طاری ہوجاتاہے۔

اوور ڈائیل!

 پرسی!

 جو نے اگلے نام پکارے۔

میری خواہش ہےکہ عمل تیز ہو۔ مسز ڈنا بر نے اپنے بڑے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ تقریباٍ تقریباً  ختم ہو چکے ہیں۔ سب نے اپنی اپنی باری پر پرچی نکال لی ہے۔ بیٹے نے جواب دیا۔

تو تم نتیجہ اپنے والد کو بتانے کے لئے تیار ہو جاؤ بیٹے۔

مسٹر جو ۔سمرز نے اپنا نام پکارا اور سیاہ باکس سے ایک پرچی نکال لی۔اس کے بعد اس نے  وارنر کہا۔

وارنر آگے بڑھا تو بولا کہ اس رسم کو میں ستتر برسوں سے دیکھ  اور نبھا رہا ہوں۔ وہ پرچی نکال کر اپنی جگہ کھڑا ہو گیا۔

واٹسن!

 ایک قد آور جوان سہما اور ڈرا ہوا   نکلا۔  ہجوم میں سے آواز آئی ۔ جیک گھبراؤمت۔ ۔۔ مسٹر سمرز نے کہا   جیک واٹسن گھبر اؤمت۔ اپنا وقت لو۔

زنیمی۔۔۔!

اختتام ہوا۔ 

ایک طویل وقفہ ہوا۔سناٹا چھا گیا۔ مجمع  کی سانسیں رک گئیں۔سناٹا چھا گیا۔ مسٹر سمرز نے اپنا  بازو اونچا کر کے پرچی ہوا میں لہرائی اورکہا کہ سب اپنی اپنی پرچیاں کھول دیں۔ اعلان کے باوجود سب اپنی جگہ ایک منٹ تک ساکت کھڑے رہے۔ اپنی پرچی کھولنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ اعلان دوبارہ دہرانے پر اپنی پرچیاں کھول کر دیکھا اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ،کہ کس کی لاٹری نکلی ہے؛ کیا یہ ڈنابر ہے ۔۔۔؟ نہیں؛تو کیا یہ واٹسن ہے۔۔۔؟  نہیں ؛ کیا یہ ٹیسی ہچنسن ہے؟۔۔۔ نہیں۔  ۔۔آج کا دن بل ہچنسن کے نام ہے۔ اس کی لاٹری نکلی ہے۔لوگوں نے بل کو دیکھنے کے لئے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔

اب ہجوم کی تمام تر توجہ بل ہچنسن کی طرف مبذول کر لی۔ بل خاموشی سے اپنی پرچی کو گھور رہاتھا۔

اب ہجوم نے تمام تر توجہ بل ہچنسن کی طرف مبذول کر لی۔

اچانک  اس کی بیوی ٹیسی ہچنسن  چلا اٹھی۔ بل کے ساتھ صحیح نہیں ہوا۔اسے مناسب وقت  نہیں دیا گیا۔

مسز ڈنابر نے اپنے بیٹے کو کہا کہ نتیجہ جا کر اپنے باپ کو بتا دے۔وہ چلا گیا۔

ایک بہادر کھلاڑی کی طرح نتیجے کو قبول کرو۔  ڈیلاکروئکس نے مشورہ دیا۔

یہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ سب کے  مواقع برابر کے تھے۔ مسز گریووز نے کہا۔

میں نہیں مانتی۔ ٹیسی نے کہا۔ بل کے ساتھ درست نہیں ہوا۔اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

خاموش رہو ٹیسی۔اس کے میاں  بل نے کہا۔

اچھا تمام دوستو !۔۔۔لاٹری کے زیادہ تر مراحل بخوبی سے طے پا گئے۔  اب ہمیں  تیزی کے ساتھ باقی ماندہ رسومات ادا کرنی  چاہئیں تا کہ وقت پر ہی یہ رسم مکمل کی جا سکے۔اس نے دوسری فہرست دیکھنا شروع کی جو ہاؤس ہو لڈ سے متعلق تھی۔

بل!  تم نے بطور سربراہ خانہ پرچی نکال لی ہے۔ کیا تہارے خاندان میں کوئی ایسا ہے جو پچاس فیصد سے زیادہ گھریلو اخراجات اٹھاتا ( ہیڈ آف ہائوس ہولڈ ) ہو۔

ایوا  اور ڈانز۔ ٹیسی ہچنسن بولی۔ ایوا میری شادی شدہ بیٹی ہے اور ڈانز اس کا میاں ہے۔ ان کو بھی شامل کرو۔بل کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔

شادی شدہ بیٹی کا خاندان اس کے شوہر والا ہوتا ہے۔ وہ والدین کے لئے پرچی نہیں نکال سکتی۔ کیا تم یہ نہیں جانتی۔ سمرز نے کہا۔

شادی کے بعد بل اس کا سربراہ خانہ  نہیں رہا ۔سمرز نے کہا۔

 جو !  میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بل نےافسردہ لہجے میں  کہا۔میری  بیٹی اپنے خاوند کے ساتھ پرچی نکالے گی۔یہی صحیح ہے۔

میری بیٹی  اپنے خاوند کے ساتھ لاٹری کھیلے گی۔میری فیملی میں ٹیسی کے علاوہ ہمارے بچے ہیں اور کوئی نہیں۔بل نے کہا۔

شادی شدہ بیٹی لاٹری اس کے خاوند کےلئے نکالے گی ۔ شادی کے بعد میں اس کا سربراہ خانہ نہیں رہا ۔یہ سچ ہےمیری فیملی میں ٹیسی کے علاوہ ہمارے بچے ہیں اور کوئی نہیں۔بل کے کہا۔

تم صحیح کہہ رہے ہو۔ بل نے کہا۔میری بیٹی اپنے خاوندکے ساتھ ہونی چاہیئے ۔ یہ درست  ہےاور میرے  گھر میں  میرے نابالغ بچوں کے علاوہ اور کوئی نہیں۔

تو جہاں تک خاندان کا تعلق ہے جس میں سے کسی نے چنے جانا ہے تو وہ تم ہو۔سمرز نے وضاحت کرتے ہوئےکہا  لیکن جہاں تک تمہارے خاندان میں سے کون ہوگا۔ اس میں بھی تم ہی ہو گے۔ کیا یہ سچ ہے؟

ہاں۔بل نے کہا۔

تمہارے گھر میں کتنے بچے ہیں۔رسمی طور پر سمرز نے پوچھا۔

تین۔ بل جونیئر، نینسی اور کمسن بچہ ڈیوی۔ بل نے  جواب دیا۔

جہاں تک خاندان کا تعلق ہے تو تم ہی سربراہ ہو سکتے ہووہ تینوں تو کم سن ہیں۔دوسروں کی طرح یہ بات تم بھی جانتےہو۔کیا ایسانہیں بل۔۔۔؟

بالکل سچ۔ بل نے جواب دیا۔

ان کمسن بچوں کو بھی شامل کرو۔ ہماری پوری فیملی کے ارکان کی پرچیاں بنائی جائیں۔ٹیسی نے کہا۔

ہیری  کیا تم نے ان دونوں کی ٹکٹیں ( پرچیاں)  واپس لے لی ہیں؟

ہیری گریووز نے سر ہلایا۔

ان کو دوبارہ سیاہ  بیلٹ  باکس  میں ڈال دو۔

میرا خیال ہے کہ اب لاٹری کے رکے ہوئے عمل کو پھر سے شروع کرنا پڑے گا۔ سمرز بولا۔

ٹیسی مسٹر سمرز سے مخاطب ہوئی۔۔۔ میں ایک بار پھر کہہ رہی ہوں کہ اس کے ساتھ صحیح نہیں ہوا۔تم نے اس کو مناسب وقفہ نہیں دیا۔ تمام لوگوں نے دیکھا کہ وہ تسلی سے پرچی نہیں  نکال سکا۔

گریووز نے پانچوں پرچیاں  بیلٹ  باکس میں ڈال دیں۔ باقی سب بستی کی زمین پر گرا دیں۔ ہوا کا جھونکا آیا اور انہیں اڑا لے گیا۔

بل  ۔۔۔ کیا اب تم تیار ہو ؟ سمرز نے دریافت کیا۔اب قرعہ اندازی صرف تمہارے خاندان کی ہی ہوگی۔

بل نے اپنی بیوی اور کمسن بچوں کی طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلا دیا۔

یاد رکھو!  ہر ایک صرف ایک پرچی نکالے گااور اس وقت تک بند رکھے گا جب تک تمام افراد پرچیاں نہ نکال لیں۔

ہیری گریووز تم  ڈیوی کی مدد کرو گے۔

گریوز نے چھ سالہ معصوم بچے کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ وہ انجام سے بے نیاز خوشی خوشی اس کے ساتھ ہو لیا۔باکس کے پاس پہنچ کر قہقہہ  لگایا  اور ایک پرچی باہر نکال لی۔وہ اس نے اپنی مٹھی میں سختی سے بند کی ہوئی تھی۔ گریووز نے مٹھی کھول کر وہ پرچی پکڑ لی تاکہ وہ کہیں گرا نہ دے۔ ڈیوی حیران ہو کر اس کے پاس ہی کھڑا ہو گیا۔

اب نینسی کی بار ی ہے۔ سمرز نے کہا۔

بارہ سالہ نینسی  جب باکس کی طرف بڑھ رہی تھی تو الجھن میں مبتلا تھی۔ اپنی سکرٹ کو نوچ رہی تھی ۔ اس کی سہیلیا ں اور کلاس فیلوز اس کے لئے دعائیں مانگنے لگیں۔وہ پرچی نکال کر اپنی جگہ کھڑی ہو گئی۔

ٹیسی!

 ٹیسی لمحہ بھر گھبرائی۔ پس وپیش کیا۔ منحرف ہو نے کے انداز میں ادھر ادھر دیکھا ۔ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بادل نخواستہ باکس کی طرف چلی گئی۔ایک پرچی نکالی اور اپنے پیچھے چھپا لی۔

بل!

بل نے باکس میں ہاتھ ڈال کر پرچی تلاش کی۔پرچی آخری تھی۔ اسے نکالا اور اپنی مٹھی میں دبا لی۔

تمام مجمع دم بخود تمام کاروائی دیکھ رہا تھا۔ سب پر مرگ کی کیفیت طاری تھی۔

ایک بچی  نے سرگوشی کی کہ اسے امیدہے  کہ وہ نینسی نہیں ہو گی۔

یہ سن کر بزرگ وارنر بولا کہ لاٹری کی پوری تاریخ میں اس طرح کے جملے اس نے کبھی نہیں سنے۔لوگ ایسے نہیں ہوتے تھے جیسےکہ یہ آج ہیں۔

پرچیاں کھول دو۔ سمرز نے اعلان کیا۔ہیری ! ڈیوی کی پرچی کھولو۔

ہیری نے پرچی کھولی۔ اس نے وہ پرچی سب کو دکھائی۔ہجوم نے سکون کی ایک لمبی سانس لی۔

نینسی اور بل جونیئر نے بھی اپنی پرچیاں دکھائیں۔ انہیں دیکھ کر سب کے چہرے کھل اٹھے۔

ٹیسی!   سمرز نے کہا۔

ایک لمحے کے لئے سکوت رہا ۔ ٹیسی کچھ نہ بولی۔سمرز نے بل کی پرچی دیکھی اور اعلان کیا کہ ٹیسی کی لاٹری نکل آئی ہے۔

بل اپنی بیوی کے پاس آیا اور اسے کہا کہ اپنی پرچی دکھائے۔اس نے لیت ولعل کی تو ا س نے زبردستی اس کی مٹھی کھول دی۔ اس پرگہرے سیاہ رنگ کا موٹا سا دھبہ تھا۔ یہ وہ نشان تھا جو سمرز نےپچھلی  رات ایک پرچی پر لگایا تھا۔

۔۔۔بل ڈبڈبائی آنکھوں سے لاٹری کا انجام دیکھتا ر

ٹیسی سٹ پٹائی۔ اس نے کہا کہ میں اس رسم کو نہیں مانتی۔ یہ ظلم ہے، نا انصافی ہے۔۔۔لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔

ٹھیک ہے دو  ستو! مسٹر سمرز نے کہا۔ اب اس رسم کا جلدی سے اختتام کریں۔ ٹیسی کو چوک کے درمیان صاف جگہ پر کھڑا کر دیا گیا۔

مکینوں کو اور باتیں یاد تھیں یا نہیں لیکن یہ بات ہوری طرح یاد تھی کہ انجام کیسے کرنا ہے۔سب کے ہاتھ پتھروں کی ڈھیری پر پڑے۔

مسزڈلیا کروئیکس نے سب سے بھاری پتھر بڑی مشکل سے اٹھایا اور ٹیسی پر دے مارا۔ مسز ڈنابر کے دونوں ہاتھوں میں پتھرتھے لیکن وہ چھوٹے تھے۔ اس کی سانسں پھولی ہوئی تھی۔ وہ دور سے اس کو پتھر نہیں مار سکتی تھی۔ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ آگے اس کےپاس جا کر مارے۔ جتنے زیادہ پتھر مار و گی اتنا ہی تمہارا فرض پورا ہوگا اور اتنی زیادہ خوشحالی لائے گی۔

 ایک پتھر زور سے اس کے سر پرلگا۔ تمام مجمع پتھر کے ڈھیروں پر حملہ آور ہوا ۔وارنر اس وقت یہ کہہ رہا تھا ۔ آؤ، سب آگے آؤ، جلدی کرو۔سٹیو ایڈمز اس بھیڑمیں سب سے آگے تھا۔ اس کے ایک طرف مسز گریوز تھی۔ باقی مجمع بھی اس پر چڑھ دوڑا۔۔۔ اور  ٹیسی اپنے بچاؤ کے لئے اپنے بازوؤں سے سر اور چہرے سے ڈھانپ کر  یہ نا انصافی ہے،،، یہ ظلم ہے، سفاکیت ہے کہتی رہی اور۔۔۔

بل اور اس کے بچے ٹیسی کی چیخیں سنتے رہے  اور کچھ نہ کر سکے۔

اس سال کی لاٹری بھی کامیابی سے نکلی ہے۔ اگلے سال پیداوار اچھی رہے گی۔ دشمنوں پر فتح حاصل ہوگی۔ 

لاٹری نے کسی کی قسمت کا فیصلہ کر دیا تھا۔ایک بار پھر ایک خاندان  برباد کردیا تھا لیکن  گاؤں نےلاٹری  کے ذریعے انسان جی قربانی دینا تھی تاکہ ان کے گاؤں پر کوئی مصیبت نہ آئے اور ان کی فصلیں اچھی ہوں ۔انہوں نے رسم نبھادی اور خوشی خوشی گھر لوٹ گئے۔

   جائزہ

اس کہانی  سے نتیجہ اخذ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے  کہ مصنفہ  اپنی والد ہسے نفرت کرتی تھی جس کی تصدیق اس  کی سوانعمری  سے بھی ہوتی ہے۔اس نےلاشعوری طور پر اپنی   ظالم والدہ  کوسزا دلواکر  انتقام لیاہے۔لاٹری بنیادی طور پر بل (  اس کے والد)کے نام نکلی تھی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹیسی یہ چاہتی تھی کہ لاٹری کا عمل پھر سے شروع ہو اور اس کے خاندان کا نام آنے کے مواقع کم ہو جائیں اور مصنفہ اگر چاہتی تو اپنی کہانی میں ایسا کر بھی سکتی تھی لیکن چونکہ اس نے لاشعوری طور پر اپنی ماں سے انتقام لینا تھا اس لئے قاری کے جذبات اس کے خلاف بھڑکانےکے لئے ایک تو پورے خاندان کو جن میں تین معصوم بچے بھی تھے ، کا نام شامل کروایا اور اس کے خلاف نفرت کے جذبات ابھارے اور دوسرا اپنی ماں کے نام کی لاٹری نکلوا کر اپنا انتقام لیا۔  

اس کہانی کا دوسرا رخ  زمانہ قدیم کے طبو اور طوطم کے نظریات کے اطلاق سے ہے جب  غاروں کے دور میں جنگلی لوگ جادو، ٹونےٹوٹکے ، کالا علم وغیر ہ پر یقین رکھتے تھے۔ دشمنوں، آفتوں، بیماریوں  اور فصل کی پیداور میں اضافے کے لئے بلی چڑھایا کرتے تھے۔ انسانوں کو کو ڈھول بتاشے بجا کر قربان  کرتے اور ان کی کھوپڑیاںاپنی حدود کے چاروں کونوں پر لٹکا دیتے تھے۔پہلے پہلے تو بلیدان انسانی اور نوجوان باکرہ لڑکیوں کا دیا جاتا تھا بعد میں جانوروں کی قربانی دی جانے لگی۔اس کہانی میں اس رسم کو ڈرامائی رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔

ابتدائی تفصیلات میں روشن سورج، پھول  ، بچوں کا معصومانہ انداز میں اپنے کھیل کے لئے یا شوقیہ پتھروں کااپنی جیبوں میں پتھر ڈالنا  اور انکے ڈھیر لگانا، حملہ کا لفظ استعمال کرنا ، خواتین  کا سہمےانداز میں طنز ومزاح  وغیرہ کا  ذکر کیا گیا ہے۔کہانی کے آغاز میں غیر موزوں لگتا ہے۔ یہ کیمو فلاج  ہے۔  لیکن اسوقت اس کی اصلیت کا  تصور  چونکہ واضح نہیں  اس لئے   ایسے مبہم فقرات  نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔ اس نے یہ الفاظ   اتنی مہارت سے استعمال کئے ہیں کہ قاری کو ان کی اہمیت  کی طر ف دھیان بھی نہیں جاتا ۔ یا اگر وہ الفاظ کھٹکتے بھی ہیں  تو ان کا تصور واضح نہیں ہوتا۔جیسے ُ  ۔۔۔ پتھروں سے جیب بھرناُ   ، ُ  پتھروں کی ڈھریاں بنانا، ڈرنا، سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرنا حملہ  کرنا  وغیرہ اور کہانی کے آخر میں  ان علامات کے ساتھ تعلق واضح ہوتا ہے۔ یہ خوفناکی اور قتل کی علامات ہیں۔ 

اس میں ایک اور اہم نکتہ جدید اور قدیم تصورات میں ٹکراؤکا بھی ہے۔معمر لوگ لکیر کے فقیر ہیں ۔ وہ روایات سے جڑے رہناچاہتے ہیں ۔ تبدیلی نہیں چاہتے جبکہ زمانے کی ترقی کے ساتھ لوگوں کی سوچ کا رخ بھی تبدیل ہو رہا ہے ۔ وہ ان بہیمانہ رسوم کو پسند نہیں کرتے ۔ انہیں بدلنا چاہتے ہیں لیکن غیر یقینی صورت حال اور سماجی دباؤ  کی وجہ سے ان رسموں کو توڑنا نہیں چاہتے۔

اس کے منفی  اور انسانیت سوز عمل کو جدید معاشرہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان جذبات کا برملا اظہار کرتا ہے۔ اور اس سےظالمانہ اورقاتلانہ رسم کی حمایت پر اس سے جواب طلب کرتا ہے۔

 

 Life history

Shirley Hardie Jackson ( USA)

-1965۔۔۔۔1919

 

حالات  زندگی 

 شرلی ہارڈی جیکسن   مصنفہ  لاٹری                سان فرانسسکو (امریکہ)میں پیدا ہوئی۔اس کے والد کا نام لیس لی جیکسن تھا۔اس کی والدہ  جرالڈین انگریز تھی جس کا شجرہ نسب انقلاب امریکہ کے ہیرو جنرل نیتھییل گرین (  1742-1786) جس نےبرطانیہ کے لارڈ کارنوالس کو1781 میں شکست دی تھی اورجان سٹیفنسن جو امریکی عدالت عالیہ کا جج تھا سےملتا تھا۔ اس نے  برلنکیم کیلیفورنیا میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب وہ چودہ سال کی تھی تو اس کا خاندان روچسٹر منتقل ہو گیا۔ اس نے سائراکیوس یونیورسٹی سے1940 میں انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی۔اس نے سکول کے زمانے سے ہی  لکھنا شروع کر دیا تھا۔ 

اس کی والدہ کا اس سےسلوک ہمیشہ ہی ناروا  رہا۔ وہ اس کو گالیاں دیتی رہتی، مار پیٹ کرتی اور ذہنی اذیتیں دیتی تھی۔اسے نیچ سمجھتی اور کیڑے نکالتی رہتی تھی۔ جس کی بدولت اس کی توقیر ذات  نچلی سطح پر رہی۔و ہ احساس کمتری  اور اپنی ذات پر عدم اعتماد کاشکار رہی۔ اسے اپنی ذات پر بالکل بھروسہ نہ تھا۔ 

شرلی جیکسن کی وجہ شہرت ڈراؤنی ادب نگاری ہے ۔اس کے ادب میں سب سے مشہور اور متنازعہ افسانہ  '  لاٹری 'ہے۔اس کہانی کو لکھتے وقت اس نے کہا کہ ہر انسان میں ایک تاریک پہلو ہوتا ہے۔اس کہانی میں اس نے اس میں اسے اجاگر کیا ہے۔ اس نے اس کہانی  لکھنے کےبارے میں  بتایا کہ اس نے اپنی بیٹی کو پنگھوڑے میں ڈالا، گراسری فریج میں رکھی اورکہانی  لکھنا شروع کی۔ خیالات آتے گئے، راستےکھلتے گئے اور کہانی ختم کرنے کے بعد ہی دم لیا۔ اس کہانی پر ناقدین کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا  اور اس کی سرزنش کی گئی اور اس کی موت سے پہلے قارئین نے اس انسانیت سوز کہانی لکھنے پر اس سے حساب مانگا اور اس کی لعن طعن کی۔ 

اس کی  ادبی زندگی جو بیس سالوں پر محیط ہے ، میں اس نے چھ ناول ، دو یاد داشتیں اور دوسو سے زیادہ افسانے لکھے۔ اس کی کہانیوں پرکئی فلمیں بن چکی ہیں۔ ا س کو بہت سے اعزازات سے نوازا گیا جن میں پی ۔ای۔این۔او، ہنری ایوارڈ اور ایڈگر ایوارڈ   فار بیسٹ شارٹ سٹوری اہم ہیں۔ 

وہ  1965میں  دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوئی اور برلنکیم ورماؤنٹ میں دفن ہے۔

 اس کی اہم تصانیف درج ہیں۔ 

Novels

The Road Through The Wall(1948); Hangman ;;The Sundial ; We have  always in the Castle 

                Short Stories                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 Lottery and other stories;  Come along with Me and Other Fiction etc

 -----------------------------------

33

              میرا  رشتہ  دار  میجرمونییکس

   My kinsman Major Mouneux

Nathaniel Hawthorne

1864-----1804

USA

      

) یہ وہ وقت تھا جب حکومت برطانیہ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔دنیائے عالم پر ان کا راج تھا۔ہرطرف ان کا سکہ چلتا تھا۔تمام احکامات صدر دفتر سے آتے تھے جو ان دنوں لندن تھا۔کسی کو ان کی حکم عدولی کی جرات  نہیں تھی۔ شہنشاہ حکومتی رِٹ قائم کرنے کے لئے انتہائی قدم اٹھایا کرتا تھا۔ انسانی جان کی کوئی قدر روقیمت نہ تھی۔زیادہ تر آبادی  غربت کی چکی میں پس رہی تھی۔اشرافیہ مراعا  ت یافتہ تھی۔ایک معمولی سرکاری اہلکار بھی عام لوگوں کو روند دیتا تھا اور کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔لوگوں کی زبوں حالی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ تنگ آمدبجنگ آمدکے مصداق لوگ ریاستی جبر و استبدادکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے  ۔ ریاست کے خلاف تحریکیں چلنا شروع ہو گئیں۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اٹھارو یں صدی میں شہنشاہ جارج دوئم کے پروٹسٹنٹ     طبقے کے متنازع قوانین کے احتجاج میں ایک مسیحی فرقے کےلوگ جوق در جوق امریکہ کی کئی ریاستوں میں آباد ہو گئے ۔ان ریاستوں کو،ُنیو انگلینڈ ' ُبائبل بیلٹُ کہا جاتا ہے۔ حالیہ امریکہ کی بہت سی ریاستیں  ان دنوں برطانیہ کے تسلط میں تھیں ۔گورنراور تمام اہم تعیناتیاں دارالخلافہ سے ہوا کرتی تھیں۔  بیوروکریسی بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے رہتی تھی۔ عالی شان محلات میں لا محدود اختیارات کے ساتھرہتے تھے۔لوگوں پر مذہبی اور لسانی قدغن لگائے گئےتوخفیہ تنظیموں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کر دیا۔یہ داستان اس دور سے عبارت ہےجو میساچوسٹس صوبے میں پیش آیا۔اٹھارویں صدی میں شہنشاہوں نے موجودہ امریکی ریاستوں میں  اپنے گورنر مقررکئے  تو  ریاست کے خلاف شورش شروع ہوگئی  اور حکومت شاذ                      و                 نادر ہی شہنشاہ کی  توقعات پر پورا اترتی۔ لوگ حکمرانوں سے شدیدنفرت کرنے لگے اور گوریلا جنگ سےکسی  کو جمنے کا موقعہ نہیں دیا۔ ان کے فرمان ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے جاتے ۔  ُمیساچوسٹس بے' کی تاریخ اس کی عبارت ہے۔ آٹھ گورنر جوپچھلےچالیس سالوں میں برطانوی ہیڈ کوارٹر سے  وہاں تعینات کئے گئے ، کو یا تو مار دیا گیا یا قید میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح اشرافیہ بھی ان باغیوں کی نفرت کا شکار ہوئی۔اگرچہ ابن الوقت بھی حکومت کی وفادار ی میں دفاع پر آئے لیکن حکومت کو شاذو نادر ہی سکون میسر ہوا۔

 ایک چاند رات نو بجے کے قریب ایک نوجوان جس کا نام  'روبن ُ  تھا  ریاست 'میسا چوسٹس بے' ساحل پر اترا۔ اس کی عمر لگ بھگ اٹھارہ سال  تھی۔ وہ   شکل سے سخت جان لمبےقد کاٹھ کاخوبصورت نوجوان  لگتاتھا۔  بال بھورے ، گھنگریالےاورخوبصورت ہنستی ہوئی آنکھیں  تھیں۔ تن بدن  سے وہ مفلوک الحال لگتا تھا۔ پرانی  گدلے سیاہ رنگ کی جیکٹ اور چمڑے کی نیکرپہنے  تھا ۔گھٹنوں سے اوپر تک نیلے رنگ کی ہاتھ سے بنی ہوئی اونی جرابیں  تھیں  جو اس کی ماں یا بہن نے بنی ہوں گی۔پرانی سی تکونی ٹوپی جو اس کے والدین نے (جب ان کے حالات کبھی اچھے رہے ہوں گے) خریدی ہو گی ، پہنی ہوئی  تھی ۔ ہاتھ میں شاہ بلوط کی جڑ کا  ایک مضبوط بھاری  عصا  پکڑے تھا۔ ۔دیکھنے سے لگتا تھا کہ وہ کسی گاؤں سے آیا تھا۔ اپنے گھر سے میساچوسٹس کی اس بندگاہ پر پہنچنے میں اسےبحری سفر میں پانچ دن لگے تھے۔.ساحل پر اتر کر اس نے  اپنی جیبیں ٹٹولیں  ۔ یہاں آنے کا کوئی تجارتی  روٹ نہیں تھااس لئے اکیلے ہی پوری کشتی منہ مانگا کرایہ دے کر  اسے آنا پڑا ۔ کشتی کے الک نے  لالٹین اوپر کی  تا کہ روشنی میں وہ رقم گن سکے ۔ کرایہ ادا کرنے کےبعد اس کے پاس صرف تین شلنگ بچے تھے۔ وہ پہلی بار' میسا چوسٹس بے'آیا تھا۔ وہ             رستوں سے انجان تھا۔اس نے ہ مضطرب ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ اسے نہیں علم کہ کس طرف جانا تھا اسلئے  اس نے رک کر  جائزہ لیا  اور بغیر سوچے سمجھے ہلکےہلکے قدموں سے ایک طرف چلنا شروع  کردیا۔ اس  گلی  میں تنگ اور پرانے ٹوٹے پھوٹے لکڑی کے گھر تھے۔وہ            کچھ سوچ کر واپس آگیا۔وہ ایک قریبی عزیز جواعلیٰ سرکاری عہدیدار اور امیر کبیر ہےسے ملنے آیا تھا جو ان مخدوش گھروں میں نہیں رہ سکتاتھا۔ دولت اور رتبے کی وجہ سے اسے یقین تھاکہ اس کو اس علاقے کا ہر شخص جانتا ہوگا۔

 اس ساحل کے قریب ہی تنگ گلیوں کا جال بناہواتھا۔ وہ کشمکش میں مبتلا ہوگیاکہ اسپنے عزیز  کی تلاش کہاں سے شروع کرے۔اس کے سامنے جو گلی تھی اس میں چھوٹی چھوٹی کھولیاں تھیں ۔ارد گرد کی تقریباً تمام  گلیاں نچلے طبقے کے لوگوں کی رہائش گاہیں تھیں ۔اعلیٰ رتبے کا کوئی شخص خود تو کیا ، اس کا چپڑاسی بھی ایسی جگہ پرنہیں رہ سکتا  تھا۔اس نے  سوچا کہ  وہ کشتی کے ما لک سے مدد  حاصل کرےلیکن  اس نے رہنمائی دینے کے لئے   ایک شلنگ  مانگا۔اس نے یہ امکان رد کردیاورفیصلہ کیاکہ وہ  اٹکل پچو  سے  اسے ڈھونڈے گا۔اسے بھوک لگی تھی  لیکن اس کے پاس کھانے کےلئے کافی رقم کافی نہیں۔ ایک گلی ما جو آگے جاکر چوڑی ہو گئی تھی  ، میں بڑے  بڑے گھر تھے۔وہ اس میں داخؒ ہوگیا۔اس نے پکی سڑک پر کچھ لوگوں کو چلتے ہوئے دیکھا۔ وہ ہر آتے جاتے کو گھور رہا تھا کہ شائد اس کا رشتہ دار دکھائی دے ۔ لوگ اپنی باتوں میں مگن گزرتے رہے۔اس نے یک شخص کا ہیولا دیکھا جو اس کےآگے چل رہا تھا۔۔ وہ قدم تیز کر کےاس کے قریب پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک پیرانہ سال  شخص تھا۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ اس نے کالے رنگ کی مصنوعی وگ لگائی ہوئی تھی ۔کالا کوٹ اور گھٹنوں تک ریشمی جرابیں پہنی ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں لمبی بید کی چھڑی تھی جسے وہ عمودی طور پر زمین پر ٹکا کرآگے بڑھتا تھا۔۔

 ُعزت مآب!  میری درخواست ہے کہ مجھے  میجرمونییکس کی رہائش گاہ کا پتہ بتا دیں۔ُ  وہ اس شخص کےپیچھے سےکوٹ کا دامن تھامتے ہوئےتعظیم سے جھکتے ہوئے  ٹھہر ٹھہر کر اونچی آواز میں پوچھا۔اس پروہ    شخص  رکا۔ اس کا چہرہ لمبوترا تھا۔ وہ مڑ کر شدید غصےسے اس کی طرف دیکھا اور مردہ استخوانی ہاتھ سے بید کی چھڑی کو جھٹکا دیتے ہوئے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ُمیرا لباس چھوڑ دو۔ُ اس کی آواز ایسی تھی  جیسے ایک مردہ کفن پھاڑ کر بولاہو۔ جس شخص    کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو، اس کے بارے میں میں نہیں جانتا۔ ۔۔تمہیں بزرگوں کی عزت کرنا نہیں آتی؟' آس پاس دکانیں ہیں جن میں ایک پارلر کھلا تھا۔ان میں حجام اور گاہک اتفاقاً باہر دیکھ رہے تھے ۔ تم  ان سے جاکر پوچھ لو۔ وہ یہ منظر دیکھ کر قہقہے لگارہے تھے۔ روبن اس سنکی بزرگ کی ڈراؤنی شکل ، ڈانٹ اور پارلر والوں کا رد عمل دیکھ کر شرمندہ ہو کر اس کا دامن چھوڑ کرالگ ہو گیا۔

  روبن کی پیدائش اور پرورش ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوئی تھی۔ وہ شہر کی بودو باش سے ناواقف  تھا ۔ اس بزرگ اور پارلر کے لوگوں نے اسے اس کی اوقات یاد دلا دی تھی۔ وہ اپنے مسئلے کو کیسے حل کرے ، سوچتے ہوئے وہ چلتا رہا۔اس کے نتھنوں میں سڑک کی تار کول کی بو گھس رہی تھی ۔ساحل کے نواح میں ہونے کی وجہ سے سمندر کی مہک ، جہازوں اور کشتیوں کے بادبان چاندنی میں نظر آ رہے تھے۔ اس نے  اپنا سفر جاری رکھا اور شہرکے ڈاؤن ٹاؤن میں پہنچ گیا ۔ وہاں ہر جگہ اشتہارات اور بورڈ آویزاں  تھے۔ دکانیں زیادہ تر بند ہوگئی تھیں ۔ بازار خالی تھے ۔شو کیسوں میں بھانت بھانت کی اشیا سجی  تھیں  ۔ کثیر منزلہ عمارات سے چھن چھن کرچاندکی روشنی آ رہی  تھی۔دوسری اور اس سے اوپر والی منازل میں سکونت ہےاور کئی کھڑکیوں میں روشنیتھی۔ اس علاقے میں خوشحال لوگ رہتےتھے  اور اس کا معززرشتہ دار امکانی طور پر کسی ایسےیا اس سے اعلیٰ علاقے میں رہتا ہو گا۔ ایک نکڑ پر برطانیہ کےایک قومی ہیرو کا بورڈ آویزاں تھا۔قریبی ہوٹل میں چہل پہل تھی۔ کہیں سے شور آرہاتھا۔ محفل جواں تھی۔ ایک کھڑکی کے جھروکےسےاندر کا  منظر نظر آرہا تھا۔ کھانوں سے سجے ہوئے میزوں کے ارد گردفوجی اور مہمان بیٹھے تھے۔ کھانوں کی مہک سے روبن کی بھوک چمک اٹھی تھی۔ اس کے پاس صرف تین شلنگ  تھے جو ایک دفعہ کے کھانے کے لئےبھی ناکافی ہتھےلیکن اس کو امیدتھی کہ جب وہ اعلیٰ مرتبت رشتہ دار سےاپنی نسبت بتائے گا تواسے بڑی شان سے اسے اندر لے جایا جائے گا ۔ وہ نہ صرف شاندار ضیافت کا اہتمام کریں گے بلکہ اس کے بعد وہ احترام سے اسے اس کی رہائش گاہ تک بھی پہنچائیں گے۔ یہ سوچتے ہوئے وہ ہوٹل میں داخل ہو گیا اور ان آوازوں کی طرف چل پڑاجو ہوٹل سےآرہی  تھیں ۔مہمان نچلی منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں بیٹھے تھے جس کی دیواریں شاہ بلوط کی  تھیں  اورمسلسل دھوئیں سے سیاہ ہو گئی  تھیں ۔ فرش بھی میلا سا ہو گیا تھا۔ وہاں زیادہ تر مہمان بحری فوجی، ہنرمند تھے یامسافر تھے۔ وہ تین چار کے گروہوں میں بنچوں یا چمڑے کی کرسیوں پر بیٹھےتھے۔ درآمد بہترین شراب کےپیگ چڑھاتے ہوئےخوش گپیوںمیں مصروف تھے۔ کمرہ د ھوئیں سے بھرا ہواتھا اور وہ نکوٹین میں کھانا کھا  رہے  تھے۔ ایک حصے میں گوشت بھونا جا رہا تھا۔   

 روبن ہوٹل کے دروازے پر کھڑے ایک ممتاز شخص سے جو پستہ قد تھا۔ ناک چونچ نما انگلی کےبرابر خمیدہ اورمنحنی تھی۔آنکھیں پر کشش ماتھا باہر نکلا ہوا ،بے قاعدہ ، ابرو  گھنے اور کھردرےہیں ۔حلقہ چشم میں آنکھیں دھنسی ہوئی اورظالمانہ تاثر پیش کر رہی تھیں ، دیکھا۔ وہ اس قت ایک ایسے گروہ سے باتیں کر رہا تھاجن کے لباس خستہ ہیں اور ان سے کسی منصوبے پر گفتگو کر رہاتھا ۔ رابن یہ دیکھ کر سوچا کہ اس کے مخاطب اس کےبھائی بندے تھے اور وہ اس کے حمائتی ہوں گے۔وہ داخل ہوا تو وہ اس کے پاس آکرتعظیم سے پوچھاکہ وہ اس کی کیا خدمت کر سکتا تھا۔ اس  کا    اندازشائستہ تھا ۔ روبن کی ہیئت دیکھ کر اندازہ کر لیاکہ وہ کسی گاؤں سے آیا تھا ۔ اس کا خیر مقدم کیااور توقع کیا کہ وہ وہاں ایک طویل عرصے تک قیام کرے گا۔اسے لبھانے کے لئے کہا کہ یہ شہر بہت خوبصورت ہے۔ اس کی میزبانی سےوہ یقیناً مایوس نہیں ہو گا۔ ۔۔ آپ کھانے میں کیا پسند کریں گے ؟اس نے بڑی شائستگی سے پوچھا۔ روبن اس میں خدائی صفات دیکھتا ہے۔ اس کی عقل و فہم میں اس وقت یہ بات آتی ہےکہ وہ اس کی شخصیت سے وہ متاثرہو گیا ہے ۔شائد اس نے سونگھ لیاہے کہ وہ کسی معززین شہر کا قریبی عزیز ہے۔ اس لئے اس سےچکنی چپڑی باتیں کر رہا ہے۔اس کی چاپلوس گفتگو سے تمام مہمان ان کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ اور روبن بڑی ادا سے ڈنڈےکے سہارےکھڑا ہو جاتا ہے ۔میں تمہارے ہوٹل میں ضرور طویل عرصے تک قیام کروں گا۔ اس وقت آپ کی پیشکش سےاستفادہ حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ میرے پاس صرف تین شلنگ ہیں۔روبن نے اونچی آواز میں اعتماد سے کہا۔ اس وقت میں یہ چاہوں گا کہ آپ مجھے میرے رشتہ دارجس کا نام میجر مونییکس کی رہائش کےبارے میں بتا دیں ۔اس کی غربت کی بات سنتے ہی سناٹا چھاجاتا ہے۔ اس پر روبن یہ سمجھتا ہے کہ تمام لوگ اس کی حیثیت سے مرعوب ہو گئے ہیں اور اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ دیر خاموشی کے بعدایک شخص ایک فوٹو  کی طرف اشار ہ کرتا ہےاوردرشتگی سے کہتا ہےکہ پولیس اس کی تلاش میں ہے۔اسکی گرفتاری پر انعام مقررہے۔ لگتا ہے کہ تم ہی اشتہاری کے رشتے دارہو۔ لڑکے فوراًیہاں سے چلے جاؤ ورنہ وہ پولیس بلانے لگا ہے۔یہ بات سنتے ہی تمام لوگ اسےمشکوک  نظروں سے اسے دیکھنےلگتے ہیں۔ کئی نظروں میں نفرت ہے۔ ناگوار فضا اسے ہوٹل کے ہر حصے سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس ماحول میں جب اس نے اپنے بوسیدہ اور پرانے لباس کا موازنہ کیا تو اسے بہت شرمندگی محسوس ہوئی۔ روبن اپنا ہاتھ  پکڑے اپنےشاہ بلوط کے عصا سےاس کا سر پھوڑنا چاہتا ہے کہ  انتظامیہ اور دیگر لوگوں نےمیجر مونییکس کے نام کی بھی لاج نہیں رکھی ۔ اگر وہ گاؤں  میں ہوتا تو ان بدمعاشوں سے کوئی اس کے ہتھے چڑھ جاتا تو اسےا س کی نانی یاد کرا دیتا۔ تا ہم وہ اپنے غصے پر قابو پا لیتاہے اور ہوٹل سے نکل آتا ہے اور غصے اور مایوسی میں منہ اٹھا کر چل پڑتا ہے۔ تنگ گلی کی نکڑ کا موڑ کاٹتے ہوئے دورایک عظیم الشان مینار پر لگا گھڑیال ٹن ٹن  کرتاہے۔ کئی کھڑکیوں میں آتی ہوئی روشنیوں اور شاندار عمارتوں پر پڑنے والی چاندنی بھی وہ آواز سنتے ہیں۔ آگے گلیاں پیچدار ہو گئی تھیں۔ وہ ایک سے دوسری گلی میں مڑتا رہا۔ہر گلی میں اسے لگتا کہ میجر اسے مل جائے گا یا اتہ پتہ معلوم ہو جائے گا۔وہ ایک گلی میں جا رہاتھا اور درمیان میں تھاتو اسےایک لاٹھی کی آواز سنائی دی جو ہر قدم بڑھانے پر آتی تھی۔ کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے اس کو پہنچان لیاجو و ہی معمر شخص تھا جس سے وہ پہلے ہی مل چکا تھا۔ خدا مجھ پر رحم کرے اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔وہ دوسری گلی میں چلا گیا اور شہر کے دوسرے حصے کی طرف ڈھونڈنے کا سوچا۔ اب اس کا صبرجواب دے رہا تھا ۔ اب وہ کافی تھک چکا تھا اور بھوک سے بے حال تھا۔ یہ تکان اسے ان پانچ دنوں سے زیادہ محسوس ہوئی جو اس نے کشتی میں یہاں تک پہنچنے میں گزارے تھے۔ اس کےبس میں کچھ نہ تھااس لئے  اس نے خود کو حالات کے سپرد کردیاَ۔

 چلتے چلتے وہ ایک تنگ گلی میں آ گیا جس میں پرانے گھر تھے۔ اس میں چاندنی بکھری ہوئی تھی۔جب وہ تیسرے گھر کے پاس سے گزرنے لگا تووہ     اسے ایک نیم وا دروازہ دکھائی دیا۔اس ارادے سے کہ شائد اسے کوئی سراغ مل جائےوہ اس طرف چل پڑا۔ جوں ہی وہ دروازےکے قریب    پہنچاتو اسے ایک خوبصورت جوان لڑکی اسے تجسس بھری نظروں سے دیکھ کر باہر آگئی۔اس نے قرمزی رنگ کا پیٹی کوٹ پہنا ہوا ہے ۔خوبصورت گبھرو دیکھ کر اس کی آنکھوںمیں   چمک آ گئی۔ 

  میں نووارد ہوں۔ اس شہر کے بارے میں کچھ نہیں جانتا پیاری مہربان خاتون!  کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ میجرمونییکس  جو میراقریبی عزیز ہے ، کہاں رہتا ہے۔ ؟  روبن کی آواز  میں التجا تھی۔ 

لڑکی نے بڑے غور سے اس کا جائزہ لیا اوردروازہ کھول دیا ۔ وہ ایک نازک اندام دودھ کی دھلی ہوئی تھی۔ اس کے بازو گول گول تھے۔ اس کی کلائی نرم و نازک تھی ۔ اس کا پیٹی کوٹ اس کی کمر کے گرد کسا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ بیضوی اور خوبصورت تھا۔ اسکے ہیٹ کے نیچے اس کے سیاہ بال نظر آ رہے تھے ۔اس کی آنکھیں روبن کا آ زادانہ طواف کر رہی  تھیں۔ اس کی بے باکی اور اداؤں نے روبن کا دل موہ لیا۔

 میجر مونییکس یہیں ہی رہتا ہے۔لڑکی نے مخمور لہجے میں کہا۔

 اس رات روبن نے جن لوگوں کو دیکھا اور سنا تھا۔ یہ آواز ان سب سے پیاری تھی۔ اسے خیال آیا کہ اب اس کی قسمت نے اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔وہ کھڑا ہو کر اس گھر کا جائزہ لینے لگا ۔ وہ ایک چھوٹی سی تنگ دو منزلہ بوسیدہ عمارت تھی۔ اس کا پچھلا حصہ رہائش گاہ تھا جبکہ اگلے حصے میں پنساری کی دکان تھی۔وہ اس پر مکمل یقین کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے ذہن میں سوال ابھرا کہ میجر  جیسا             امیر کبیر اور اعلیٰ رتبے پر فائز اس خستہ حال گھر میں کیسے رہ سکتا تھا ۔ اس کے ذہن میں شک گزرا اور کہا۔میں گاؤں سے آیا ہوں اور اسے اس کے ایک دوست کا پیغام دینا چاہتا ہوں؟ اس کو پیغام دینے کےبعد میں واپس چلا جاؤں گا۔ کیا میں اس سے مل سکتا ہوں؟

 نہیں ! وہ اس وقت نہیں مل سکتا۔ اس نے بہت شراب  نوشی کر لی تھی۔ میں اسے اس حالت میں نہیں جگا سکتی۔ اسے اٹھانے کے لئے کوئی بڑی اہم وجہ ہونی چاہئیے ۔اس وقت میں اسے جگاؤں گی تو وہ ناراض ہو جائے گا۔۔۔وہ ایک ہمدرد شخص ہے ۔ تمہاری شکل اس معزز شخص سے ملتی ہے اور میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ میجر کابرساتی کوٹ بھی تمہارے جیسا ہے اس کی چمڑے کی ایک نیکر بھی تمہاری طرح کی ہے۔ ۔۔ اندر آ جاؤ، اس نے مٹکاتی نظروں سے کہا۔ میں اس گھر میں تمہارا شاندارطریقے سے استقبال کروں گی۔ اس نے روبن کا ہاتھ پکڑکردبایا۔اس کی آنکھوں میں ایک واضح پیغام تھاجس میں نشہ تھا لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔ وہ نازک اندام لڑکی اس جوان سے زیادہ طاقتور لگی اور اسے اندر لے جانے لگی تواتفاق سے پڑوس کا دروازہ کھلا اور ایک بھاری بھرکم شخص جورات کا محافظ لگتا تھا، خواب میں چلتا ہوا باہر نکلا۔ اس کو دیکھ کر لڑکی  چونک گئی اوررابن کا ہاتھ فوری طور پر چھوڑ دیا اور اندر بھاگ گئی۔محافظ نے رابن کو دیکھا اور کہا کہ وہ اس جیسی لڑکی کے پاس کیوں آیا ہے۔ بھاگ جاؤ، ورنہ رات جیل میں گزارنا پڑے گی۔یہ ایک اوراشارہ  تھا ،رابن نے سوچا۔میرا پکا اردہ تھا کہ رات وہاں گزار ے اور اپنے رشتہ دار سےملےتاہم اس ے محافظ کا دخل در معقولات اچھا نہ لگا۔ اس نے  میجر کے بارے میں پوچھنا چاہا تو وہ دور جا چکا تھا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن وہ دوسری گلی میں غائب ہو چکا تھا۔ اس نے قہقہوں کی آواز سنی جو اگلے مکان کی دوسری منزل سے آ رہی تھی ۔ وہ بھی ایک خوبصورت لڑکی کی آواز تھی۔ اسے  سیڑھیوں سے کسی کے اترنے کی آواز سنائی دی تو وہ وہاں سے بھاگ اٹھا۔ اس کا والد جو کہ گاؤں کا پادری تھا ، کی تربیت اس کے کام آئی اور وہ اس بار بھی برائی سے بچ گیا۔اب وہ نا امید ہو گیا تھا۔وہ بے مقصد گھومتا رہا ۔ اسے ایسا لگا کہ وہ کسی جادو کے زیر اثر تھا۔ اس کو یہ  احساس ایک بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ اس کے گاؤں میں رونما ہوا تھا جب ایک ان دیکھی چیزتاریکی میں اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ وہ فاصلہ رکھ کر سائے کی طرح اس کے ساتھ رہی۔ یہاں بھی وہ کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔ وہ چلتا رہا ۔ ۔۔ اس وقت ہر طرف سناٹاتھا۔ عجیب و غریب سنسناہٹ پائی جاتی تھی۔

 اب وہ ایک اورسڑک پر ہو لیا۔ کم و بیش تمام گھروں کی روشنیاں گل تھیں۔ ایک جگہ چھوٹی ٹولیوںمیں کچھ لوگ آ جا رہے تھے۔ اس نے  ان سےاپنے رشتہ دارکے ٹھکانے کا پوچھناچاہا۔ تین تین چار چار کی ٹولیوں میں راہ گیر شوخ وشنگ لباس میں ملبوس تین تین چار چار کی ٹولیوں میں  ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔کئی نوجوانوں نے تو شوقیہ رنگ برنگی بالوں کی چھوٹی وگیں لگائی ہوئی تھیں۔ سنہرے، روپہلے لیس لگے ہیٹ، لشکارے مارتی تلواریں لئے قہقہے مارتے دنیا             و                           مافیہا سے بے نیاز           اپنی اپنی دھن میں جا رہے تھے۔ کئی تو نشے میں جھوم جھوم کرتازہ                                دھنوں پرناچتے گاتے جا رہے تھے۔کئی لوگوں سے پوچھا لیکن ان کی زبان اجنبی تھی اس لئے وہ سمجھ نہیں پاتا تھا۔وہ چلتا رہا۔سڑک کے ارد گرد دکانیں تھیں۔ ان کے لباس اور گفتگو غیر مانوس تھی۔اجنبی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ روبن نے اس سے پوچھنا چاہا لیکن کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ انہوں نے باتیں کیں لیکن اس کے پلے کچھ نہ پڑا۔ اس نے انہیں برا بھلا کہا اور تیزی سے آگے چل پڑا۔ اب اس نے ارادہ کیا کہ وہ شہر کے ہر اس گھر میں جائے گا جو عالیشان ہو گا اور ہر ایک سے میجر مونییکس کے بارے پوچھے گا۔ وہ یہ سوچتے ہوئے چلنے لگا تو اسے ایک کلیسا نظر آیا جو دو گلیوں کے کونے پر بنا تھا۔ وہ اس کے گنبد کے شیڈ تلےرک گیا۔ اسے تا ریکی میں ایک دیوقامت شخص نظر آیا جو سر سے پاؤں تک کالی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ وہ اعتماد سے اس انداز میں چل رہا تھا جیسے اس نے کوئی اہم مشن  نبھانا تھا۔ روبن کے لئے اپنے رشتہ دار کے بارے میں جاننے کا اہم موقعہ تھا۔ وہ اس نے اپنے ڈنڈے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑکرایسے کھڑا ہو گیا کہ وہ اس کے ساتھ  ٹکر کھائے بغیر آگے نہیں جا سکتا تھا۔

 نیک بندے ذر ا  رکو! میرے سوال کا جواب دو کہ میرے عزیزمیجر مونییکس کی رہائش گاہ کہاں ہے؟

 اپنی زبان قابو میں رکھو احمق! مجھے جانے دو۔ اس شخص نے کہا۔اس کی آواز کرخت اور اجڈ لوگوںجیسی تھی۔وہ جاہلوں کی طرح بکنے لگا جس کا کچھ حصہ ہی اسے یاد رہا ۔

مجھے جانے دو۔ورنہ میں تمہیں زمین پر پٹخ دوں گا۔

 نہیں! نہیں دوست ! جب تک تم مجھے میجرمونییکس کے گھر کا پتہ نہیں بتاؤ گے میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔روبن نے ضد کی۔

 اس کے اصرار پر وہ آگے کی بجائے دو قدم پیچھےمڑاتو اس کا چہرہ چاندنی میں آگیا۔ اس نے اپنےچہرے سے چادر ہٹائی اور روبن کو غور سے دیکھا۔

 یہاں اسے ایک گھنٹے کے بعد دیکھ لینا۔ میجر یہاں سے ایک گھنٹے بعد گزرے گا۔ یہاں ایک گھنٹہ رکواور تم اسے دیکھ سکو گے۔روبن نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو اس کا حلیہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کی ناک طوطے کی مانند تھی۔ اس کے ابرو گھنے تھے۔ آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ ایسا چہرہ اس نے ہوٹل میں بھی دیکھا تھا ۔ اس کے چہرے میں بنیادی طور پر دو تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اس کا  دایاں  گال مکمل طور پر سرخ رنگ اور بایا ں گال مکمل طور پر سیاہ رنگ میں رنگاہواتھا۔ اس کی ناک ایک انگلی کی موٹائی کے برابر نتھنے کے نیچےمنہ کے اوپر کانوں کے آخری سرے تک گالوں کے رنگوں کے برعکس یعنی دائیں پر کالا اور بائیں پر سرخ رنگ کا پل کھینچا کیا گیا تھا۔ اس کی آنکھیں جانی دشمن لگ رہی تھیں۔ ملا جلا کر وہ ایک عفریت کا تاثر پیش کر رہا تھا۔ تاریکی اس کی شیطانیت میں اضافہ کررہی تھی۔ اس کے ماتھے پر دو سینگ بنے ہوئے تھے۔وہ  کسی پارٹی کا نشان لگ رہا تھا۔ وہ یہ بول کر تاریکی میں غائب ہو گیا۔

 ہم  پردیسیوں کو بھی کن چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ روبن نے خود کلامی کی اور اس عظیم الشان عمارت کی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔اس نے چاہنے نہ چاہنے کے باوجود ایک گھنٹہ رک کر میجرمونییکس کا انتظار کرنا تھا کیونکہ اس شیطان کے بقول اس نے وہاں سے گزرنا تھا۔ اس دوران روبن دن بھر جو واقعات پیش آئے تھے، یاد کرنے لگا۔ اس نے سوچا کہ اس وقت کو قنوطیت کی بجائے رجائیت سےصرف کرے ۔ اس نے اپنی نظریں ایک گلی کی طرف دوڑائیں تو اس میں عمارتیں پرانی لیکن معقول تھیں۔ ان کا حال دوسری گلیوں سے بہتر تھا۔ان گھروں کی ترتیب عجیب وغریب تھی۔ان کی چھتیں پرانی ہونے کی بدولت جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھیں۔ ان کے نمونے بھی مختلف تھے۔ کہیں عمودی، کہیں ڈھلوانی اور کہیں تنگ تھیں۔ ان چھتوں کے رنگ بھی  کالے، سنہری، نقرئی،سبز تھے ۔چاندنی میں وہ نظارہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ان عمارتوں کے ڈیزائن کچھ دیر تو اسے لبھاتے رہےلیکن جلد ہی وہ بور ہو گیاپھر اس نے دوسری گلی پر نظریں جمائیں تو اس کی عمارات بھوتوں کا مسکن لگ رہی تھیں۔ وہ نکڑ جس پر بیٹھا تھا  اس میں اعلیٰ  تعمیرات تھیں۔ایک مینشن جو پاس کی عمارت سے بالکونی کے ذریعے الگ کیا گیا تھا ، لمبے ستونوں پر کھڑا تھا۔اس پر قرون وسطیٰ کی طرز تعمیر تھی۔اس نے اپنے تصور میں کہا کہ یہ ہی وہ جگہ ہو سکتی تھی جہاں اس کا عزیز رہ سکتا تھا۔ اس کے پیچھے والی کھڑکی سے روشنی آ رہی تھی۔  وہ وہاں گیا اور کھڑکی کی چوکھٹ سے دیکھا کہ کمرے کے اندر کیا ہے۔ اس میں لرزتی چاندنی بھی  تھی ۔ اندر ایک لیمپ روشن تھا جس کی روشنی ایک کھلی کتاب پر پڑ رہی تھی۔یہ مقدس انجیل تھی جس نے ارد گرد کے ماحول کو  پاکیزہ بنا دیا تھا۔ وہ روشنی اس مقدس  جگہ کی عظمت بیان کر رہی تھی کیونکہ کوئی بھی انسانی پاؤں اس جگہ پر نہیں پڑا  تھا۔ اس کو دیکھ کر اس کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اسے اپنے والد کی مذہبی تعلیمات یاد آئیں۔وہ جذبات کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اس نے اس طرح کے جذبات کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس گرجے کے ارد گرد قبریں تھیں اورابرابن کے ذہن میں ایک پریشان کرنے والی شئے سامنے آئی جس کی کہ وہ تحقیق کر رہا ہے۔اس کے تصورمیں اس کا بارسوخ رشتہ دار مسکراتا ہوا  اس کے پاس آیا۔ان باتوں کو جو اس کے لئے پریشان کن تھیں، کو جھٹک کر اپنی سوچوں کا رخ اس نے جنگل، پہاڑ، چشموں اورگاؤں اور اپنے گھر کی طرف موڑ دیا۔وہ اور اس کا والد کس طرح  گھریلو کام کاج میں مصروف رہتے تھے۔خراب موسم سے، درخت اورپیچ دار مڑے ہوئے تنوں کو یا د کیا۔ گرمی کی شدید حدت میں والد کی کلیسامیں وہ عبادات دیکھتا تھا جس میں سب لوگ شریک ہوتےتھے۔ ہمارے پڑوسی بھی اپنے خاندان کے ساتھ شامل ہو تے تھے ۔ اس کا والد واعظ  تھا۔وہ  مقدس کتاب کا حوالہ دیتا اور سب دعا مانگنے کھڑے ہو جاتے۔خدا سے رحم کی بھیک مانگتے اورحاضرین شکرانہ ادا کرتے ، تسلسل سے حمد و مناجات ادا کرتے۔پیاس مٹانے کے لئے عبادات میں تھوڑا سا وقفہ کر کے چشمے سے پانی پیتے تھے۔ایسےشخص کو جو اس مجمع سے غیر حاضر ہوتا، کو والد   کی تنبیہ  اسے  بھی یادتھی۔ وہ یاد کرنے لگا کہ کس طرح اس کی ماں اس کا منہ گٹھیلے تنے کی طرف موڑ دیتی تھی، کس طرح اسکا بڑا بھائی اس کی طرف حقارت سے دیکھتا کیونکہ اس کے بالائی ہونٹ پر اس کی داڑھی بڑھی  ہوئی

  تھی، کس طرح اس کی چھوٹی بہن درخت کی      نچلی شاخ کوجو حرکت کررہی ہوتی، کو اس کی آنکھوں کے سامنے کرتی؛ اور کیسے چھوٹے بچے جن کی کھیلیں کسی وجہ سے رک یا ٹوٹ جاتی تھیں اور اس نظارے کا سگھڑ پن قائم نہ رہنا ، اپنے کھیل میں ساتھی کی حیثیت کے لئے دعا مانگنا اور اس کے غم میں برابر  کا شریک بن جانا اور دوسری باتیں ایک ایک کرکے یا د آ رہی تھیں۔ کیا میں یہاں ہوں یا وہاں گاؤں میں؟ رابن چلایا۔ دوبارہ سے فوری طور پر اپنے رشتہ دار کے بارے میں سوچناشروع کر دیا۔جب اس کی سوچیں اور بصیرت واضح ہو گئیں اور وہ خواب وخیال کی دنیا سے نکل آیا۔ اس نے خود کو کھڑا کیا اور اپنی توجہ آہستہ آہستہ مستقل مزاجی سے اس عظیم الشان عمارت کی طرف مبذول کر دی جسے کہ وہ پہلے دیکھ چکا تھا لیکن اب بھی اس  کے ذہن حقیقت اور تخیل میں فرق محسوس کرنا شروع کر دیا تھا ۔ اب اسے ایسا لگنے لگا کہ اس مقام پر جہاں وہ موجود تھا، کی بالکونی کےستون ، دیودار کی لکڑی سے بنی ہوئی اشیا وغیرہ نئی نئی اشکال بنانےلگے ہیں ۔اس نے اپنا سر جھٹکا  توخود کوجاگا ہوا پایا تو اسے سامنے والی  پکی سڑک  پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔رابن نے اپنی آنکھیں ملیں ۔ ایک آدمی کو اس بالکونی کے نیچےچلتے ہوئے دیکھا ۔ سکوت ٹوٹا اور ایک شخص روبن کے پاس آیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا ۔اسے اندازہ ہوا کہ ایک دیہاتی نوجوان بلا دوست اور بلاٹھکانہ نیند بھری آنکھوں سے کھڑا تھا۔

  اے      یک دل انسان !تم یہاں کیوں موجود ہو۔ کیا میں تمہارے کسی  کام آ سکتا ہوں ؟اس نے روبن سے سوال کیا۔

 دوست ! مجھے اپنے رشتہ دارمیجر مونییکسس  سے ملنے کے لئے یہاں انتظار کرنا پڑ رہا ہے ۔روبن نے دیکھا کہ وہ بھی ایک جوان تھا۔ کھلے دماغ والا ، خوش اخلاق اور ہمدرد دکھائی دے رہا تھا جو اس شہر کے مزاج کے خلاف تھا۔تم میرے ایک سوال کا جواب دو تو میں احسان مند ہوں گا۔ میں اپنے رشتہ داراعلیٰ حکومتی عہدیدارمیجر موینیِنکس کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ کیا  تم مجھے اس کی رہائش گاہ کا پتہ بتا سکتے ہو۔ کیا واقعی اس نام کا کوئی شخص یہاں بستا ہے۔ اس کا پتہ معلوم کرنے کے لئے میرےقدم ٹوٹ گئے ہیں؟روبن نے  پوچھا۔

 میجر مونییکس یہ نام میرے لئے غیر مانوس نہیں۔اس مہربان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ تمہیں اس سے کیا کام ہے؟

  میرا باپ پادری ہے ۔ اس کی آمدن محدود ہے ۔ ہمارا خاندان یہاں سے کافی دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہے۔میجرمونییکس  میرے باپ کا بھتیجا اور میرا کزن ہے۔ وہ با اثرہے۔ ایک اہم حکومتی عہدیدار ہے۔وہ بے اولاد ہے۔ وہ ہمارے گاؤں دو سال پہلے آیا تھا اور میرے والد سےمیرے بڑے بھائی اور مجھے گود لینے کی خواہش کی تھی۔بڑے بھائی نے چونکہ والد کی زمین کی کھیتی باڑی کرنا تھی اسلئے وہ گاؤں میں رہ گیا اور میں اپنی قسمت بنانےیہاں آگیا۔یہاں                   وہ                  اہم ترین حکمرانوں کےنزدیک ہے اسلئے میں نے سمجھا کہ اس کی تلاش آسان ہو گی لیکن اس کو ڈھونڈنا تو مشکل ثابت ہوا ہے۔روبن  نے     کہا۔

 مجھےنہیں لگتا کہ تمہیں بیساکھی کی ضرورت ہے ۔ تم ہونہارجوان لگتے ہو۔ اس ہمدرد نے کہا۔میں تمہای کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔

 جناب والا !میں اٹھارہ سال کا ہونے والا ہوں۔ میری صحت بھی اچھی ہے ۔ تنو مند ہوں ۔پرورش بھی بہترین ہو ئی ہے۔روبن سیدھا کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔ میرے والد نے کہا کہ میرے لئےیہ نہائت موزوں ہے کہ میں اپنی زندگی بنانے کی تگ و دو کروں۔ میری ماںاور چھوٹی بہن نے اس کی تائید کی ہے۔ میرے والد نے مجھے اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ میرے حوالے کر دیا ہے جس سے میں یہاں پہنچا ہوں۔ میجر مونییکس کی مدد سے اپنا مستقبل  بناؤں  گا۔غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے ہی پانچ دن سمندر کے سفر سے یہاں پہنچا ہوں۔اب تک میں اس کی رہائش گاہ سے بے خبر ہوں۔اب  میں یہاں اس لئے ہوں کہ ایک شخص نے لارا لگایا ہے کہ میجر مونییکس ایک گھنٹے بعد اس جگہ سے گزرےگا۔

 کیا تم اس شخص کا حلیہ بتا سکتے ہو؟

 اوہ !  وہ نا مہربان ، سخت گیر اور شیطانی فطرت کا مالک لگتا تھا۔ اس کے دونوں گال رنگے ہوئے تھے۔ ایک پر سرخ اور دوسری پرسیاہ رنگ کیا ہوا تھا۔ ناک طوطے جیسی تھی۔ ناک کے نیچےسرخ رنگ والی گال پر سیاہ اور سیاہ رنگ والی گال پر سرخ لائن لگی ہوئی تھی جو کان کے پیچھے تک جاتی تھی اور اس کے ماتھے پر سینگ بنے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں سے کینہ اور غصہ دکھائی دے رہا تھا۔ روبن نے اس کا حلیہ بتایا۔

 میں نے بھی ایسا شخص دیکھا تو ہےلیکن اس کے بارے میں نہیں جانتا۔ تمہاری بات سے مجھ میں تجسس پیدا ہوا ہے کہ تمہاری اورمیجرمونییکس کی ملاقات  کا حال دیکھوں۔ یہ کہہ کر وہ ہمدرد سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔وہ دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔یہ گفتگو مختصرلیکن تسلسل سے جاری رہی۔ اس دوران شور میں آہستہ آہستہ تیزی آتی جا رہی تھی ۔ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی جشن منایا جا رہا ہو۔ روبن نےپوچھا کہ کیا یہ شہر اس طرح کے پروگرام رات کو اکثر کرتا رہتا تھا لیکن اس نے آج تک نہیں دیکھے۔

   کیا اپنی نیند خراب ہونے پر مکین معترض نہیں ہوتے؟ روبن نے پوچھا۔

 ایسے پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان پر اعتراض نہیں کیا جاتا۔ اس شہر میں تین چار گروہ ہیں جو ان کا انعقاد کرتے ہیں۔ان کی سرپرستی یہاں کے عوام بھی کرتے ہیں۔عمدہ فطرت شخص نے جواب دیا۔اس وقت دور پار سےمدھم شور سنائی دیا تو انہوں نے اپنی توجہ اس طرف مبذول کر لی۔ آوازیں بہت ہی ہلکی تھیں۔ کبھی سنائی دیتیں اور کبھی غائب ہو جاتیں۔وہ ایک بھنبھناہٹ کا تاثر دے رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آوازیں اس گلی کے دوسرے سرے سے آ رہی تھیں اور اسکا                   رخ  انکی طرف تھا۔ وہ کوئی ایک آواز نہیں بلکہ بہت سی آوازوں کا مکسچر تھی ۔ اس میں بینڈ بھی دھنیں بجا رہا تھا،  لوگوں کا شور بھی تھا اور بےحد جوش و جذبہ بھی تھا۔ملی جلی آوازوں سے آوازیں گڈ مڈ ہو گئی تھی۔رات کے اس سمے گلیاںسونی تھیں۔ سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔وہ آوازیں آہستہ آہستہ قریب آتی جا رہی تھی۔ یہ آوازیں مکینوں کے سکھ چین  حرام   کر رہی تھیں۔وہ حیران تھا کہ اس وقت ایسے شور کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔روبن سے رہا نہ گیااور اس طرف دیکھنے لگا جدھرسے آوازیں آ رہی تھیں۔جوں جوں وہ مجمع نزدیک آتا جا رہا تھا ،شور میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ روبن کو لا لٹین والا محافظ ، پولیس اور فوج یاد آئی۔ اس نے سوچا کہ کیا وہ بھی اس کو کنٹرول نہیں کرتی۔ وہ شور بے ہنگم تھا ۔ ایسی آوازیں جو بیک وقت ہم آواز ہو کر جوشیلے نعرے لگا رہی تھیں۔ ایسی یکسوئی سے آواز اس وقت ہی آ سکتی تھی جب ہزاروں آوازیں ایک ساتھ نکالیں۔ اسے شہنائی کی آواز سنائی دی جو مسلسل آنے لگی۔ تو اسے حسین و جمیل                 خادمہ            یاد آگئی۔اس کے ساتھ بہت سے آلات موسیقی  یک جا ہو کر ساز بجانے لگے۔ قہقہے بلند سے بلند ہوتے جا رہے تھے۔روبن جوش میں آ کر سیڑھیوں سے نیچے اترا اور شور کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے دیکھا کہ چند لوگ تیز تیز قدموں سے اس سمت آ رہے تھے۔

 شائد کوئی بہت تفریحی تماشا                 ہونے جا رہا تھا۔ اس نے غل غپاڑا  کے بارے میں سوچا کہ اب مزہ آنے والا ہے۔ اس نے ہمدرد سے کہا۔ جناب والا!جب سےمیں نے اپنا گھر چھوڑا ہے، مصیبت ہی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اب ہنسی خوشی اور اس جشن کے اس موقع کا پورا فائدہ                 اٹھاؤں           گا               اور لطف اندوز                 ہوں گا۔ کیوں نہ ہم تاریک گھر کے کونے میں جا کر کھڑےہو جائیں اوراس جشن کو دیکھیں؟ روبن نے کہا۔

 اچھے روبن  بیٹھ جاؤ!اس ہمدرد نے ہاتھ اپنے کوٹ کی جیبوں میں ڈالتے ہوئے کہا۔ہمیں یہیں تمہارے عزیز کا انتظار کرنا چاہئیےاور میرا اندازہ ہے کہ جلوس ہمارے سامنے سے ہی گزرے گا۔فرشتہ سیرت نے رائے دی۔

 جوں جوں جلوس قریب آتاگیا ، گلیوں کی کھڑکیاں کھلتی گئیں۔ جلوس ابھی بھی کچھ فاصلے پر تھا۔خواتین بالائی منزل سے ٹکٹکی باندھ کر آنے والے جلوس کی طرف دیکھنے لگیں۔اس جشن میں قیدی بھی تھے جن کی حالت زار بہت              دگرگوں تھی۔ وہ تقریباً ننگے تھے جن کے جسموں پر مار پیٹ سے زخموں کے نشانات تھے۔وہ سڑک کے کنارے لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے۔ وہ جوں جوں قریب آرہے تھے۔ہجوم جوشیلی آواز میں جشن کی انتطامیہ کا        حوصلہ بڑھانے لگا ۔ان قیدیوں کے مظالم کا حساب مانگنے لگا۔ وہ بے بسی              سے چلتے رہے۔ تماشائی خوشی سے قہقہے لگا رہے تھے۔ان کی آوازیں وحشیانہ تھیں ۔ان کے قہقہوں کی آواز             ایسی تھی جیسے گدھے ہینگ رہے ہوں ۔رابن نے دیکھا کہ کچھ لوگ اس بھیڑ سے نکل کر آگے چل کر منتشر ہو گئے تھے۔ جب وہ جلوس ان سے سو گز کے فاصلے پر تھا تو اس جلوس کے خد وخال  واضح ہونے لگے تھے۔ جلوس کا ہراول                  دستہ ان کے قریب پہنچا تو ہمدرد نے روبن سے پوچھا کہ کیا تمہیں ان میں میجرمونییکس نظر آیا۔ کیا تم اسے اس مجمع میں پہنچان سکتے ہو؟

میرے سامنے آیا تو میں اسے پہنچان لوں گا لیکن وثوق سے نہیں کہہ سکتا جناب ۔ روبن نے جواب دیا۔  میں اسی جگہ پر شرکا کو غور سے دیکھوں گا۔  وہ              باہر والے  اونچے حصے کی طرف کھڑا ہو گیا  تاکہ دور تک جائزہ لے سکے۔ ایک جمگھٹا گلی سے نکلا اور آہستہ آہستہ اس جگہ بڑھنے لگا جہاں روبن کھڑا تھا۔ ان کے درمیان ایک گھوڑ سوار مجمع کو کنٹرول کر رہا تھا ۔ وہ ان کا قائد تھا۔وہ جلوس کو آگے بڑھنے اور نعرے لگانے کی ہدایات دے رہا تھا۔ہراول دستے کے پیچھے سب سے زیادہ جوشیلا ہجوم تھا۔ ان کی آنکھوں میں نفرت اور خون تھا۔ ان کا شور کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا تھا۔ علاقے کا ایک گھر بھی بے پناہ شورسے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ اس وقت تیز روشنی ہوئی جس نے چاندنی کو مات دے دیا اور پورا مجمع  صاف نظر آنے لگا۔ گھوڑ سوار  فوجی  وردی میں ملبوس تھا۔ وہ ایک جنگجو کے روپ میں تھا۔اس نے اپنے ہاتھ میں تلوار اٹھائی ہوئی تھی جو چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔ وہ تلوار لہرا لہرا کر احکامات دے رہا تھا۔ اس کا انداز جارحانہ اور خوفناک تھا  اس کے گال سرخ اور سیاہ رنگ سے رنگے ہوئے تھے۔ باغی پارٹی کا آگ اور سینگوں کا نشان بنا ہوا تھا۔اس کےساتھی وحشی تھے جو قدیم امریکی ریڈ انڈین کے روپ میں تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر رنگ برنگے بیل بوٹے بنے تھے۔ ان   میں وہ بھی شامل تھے جو روبن نے ٹولیوں میں دیکھے تھے۔ہر ایک کا فیشن عجیب و غریب تھا۔ کسی ایک کا سٹائل دوسرے سے نہیں ملتا تھا ۔ اس جلوس کو پریڈ کا نام دیا  گیاتھا۔اس میں ہوٹل میں موجود لوگ بھی شامل تھے۔روبن  جلوس کے قائد کوپہیچان گیا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے اسے کہا تھا کہ میجر مونییکس اسے یہاں ایک گھنٹے کے بعد ملے گا۔اس جلوس میں  ایک حصہ وہ تھا جو پریڈ میں حصہ نہیں لے رہا تھا بلکہ وہ تالیاں بجا کر انہیں شاباش دے رہا تھا۔ اس حصے میں کئی خواتین جلوس کے اگلے کونےسے پچھلے یا پچھلے سے اگلے کونے میں تیز رفتاری سے جا رہی تھیں۔ سپہ سالار کی نظریں مجھ پر جمی تھیں ۔روبن جلوس کی اصلیت دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس وقت مجمع کے ہاتھوں میں ٹارچیں تھیں۔ منظر واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ گھڑ سوار نے مڑ کر شعلہ برساتی آنکھوں سے روبن کو دیکھا۔جلوس آہستہ آہستہ اس کے سامنے سے گزرنا شروع ہوا۔بجری پر                 پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ کی آوازسنائی دے رہی تھی۔ پریشان حال زخموں سے چور قیدی اس کے سامنے سے گزرنے لگے ۔ ایک چھکڑا جب روبن کے سامنے سے گزرنے لگا تو قائد نے گرج کر ' رک جاؤ ۔' کہا۔جلوس یک دم رک گیا۔ قہقہےختم ہو گئے ۔ شہنائیاں بجنا بند ہو گئیں ۔ اس وقت  ماحول میں ہر سمت خاموشی چھا گئی۔

  روبن نے سامنے دیکھا تو اس کے قدموں سے زمین نکل گئی۔ چھکڑے پر کوئی سائبان یا چھت نہیں تھی۔ اس چھکڑے پر تیز روشنی ڈالی جا رہی تھی۔اس میں چاندنی بھی شامل ہو گئی تھی جس نے اسے دن کے اجالے کی طرح واضح کر دیا تھا۔میجرمونییکس اس چھکڑے میں بوسیدہ کپڑوں میں زخمی     تھا۔   اس کے کپڑوں پر تار کول کے نشانات تھے۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔اس کے چہرے پر موت کی زردی چھائی ہوئی تھی۔اس کا کشادہ ماتھا رنج و غم سے افسردہ تھا۔ اس کے ابروؤں پر ایک تاریک لائن تھی۔ اس کی کرشماتی شخصیت خاک میں مل چکی تھی۔ وہ بے وقعت اور حقیر شخص کے روپ میں نظر آ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی ۔ اس کے منہ سے جھاگ   بہہ رہی تھی۔اس کے دشمنوں نےاس کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا تھا۔ اسے اپنی مزیدہتک اور حقارت اس وقت ہوئی جب اس نے روبن کو دیکھا۔ جب ان دونوں کی نظریں دوچار ہوئیں تو بے بسی سے اس نے آنکھیں چرا لیں۔ روبن اس کی بےعزتی دیکھتا رہا۔اس پر رحم اور خوف طاری ہو گیا۔اس نے پھر روبن کو دیکھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں خاموشی سےدیکھتے رہے۔روبن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔باغی حکومت پر غالب آ گئے تھے۔جب قائد نے محسوس کر لیا کہ رشتہ داروں نے ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ لیا تھا تواس نے مارچ کا حکم دیا ، شہنائیاں بجنے لگیں، بینڈ نےاپنی                دھنیں بجانا شروع کر دیں۔ جوشیلے نعرے لگنے لگے اور جلوس چل پڑا۔ نفرت آمیز سلوک نے اس کے ذہن کو مفلوج کر دیا۔ روبن اس غیر متوقع واقعے  کو دیکھ کر اضطراری طور پر کونے میں دبک گیا۔ وہاں ایک خاتون لالٹین لئے کھڑی تھی۔ اس وقت اس نےروبن کا ہاتھ پکڑا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا۔ مدبھری آنکھوں سےخمار سے قرمزی پیٹی کوٹ والی خاتون اسے دیکھ رہی تھی۔اس وقت جلوس سے قہقہے ابھرےتو وہ اس جلوس میں پنجوں کے بل چلنے لگی۔

  روبن سکتے کی حالت میں وہیں کھڑا رہا۔ اسے بالکنی سے  ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا،ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا قہقہوں کی  کی آواز آئی۔ روبن نے مڑ کر دیکھا تو یہ وہ پیرانہ سال تھا جو اسے سب سے پہلے ملا تھا۔ اس نے اس وقت سفید گاؤن  پہنے ہوئے تھا۔اس کی سیاہ               وگ اب تبدیل ہو چکی تھی جو اس کے ماتھے سے ذرا نیچے تھی۔ اس کی ریشمی لمبی جرابیں گھٹنوں تک چڑھی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنا بوجھ لاٹھی پر ڈالا ہوا تھا۔ جوش اور خوشی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔ وہ حکومتی عہدیداروں کی بے عزتی پر خوش تھا۔ حجام اور ہوٹل کے لوگ بھی اسے اس بھیڑ میں نظر آئے ۔ وہ بھی قہقہے لگا رہے تھے۔ لوگوں کا یہ سلوک دیکھ کو وہ زور سے چیخا  جو جلوس کے قہقہوں سے بھی بلند تھا۔ سب نے اس کی آواز سنی اور اس کی طرف دیکھا۔  شہنشاہ کے جو جانی دشمن اس کا  ٹھٹھا اڑا رہے تھے۔ اس کے غموں میں اضافہ کر رہے تھے۔روبن کے سہانے خواب ٹوٹ چکے تھے۔امنگیں دم توڑ چکی تھیں۔

تواچھا ، کیا                           روبن تم کوئی خواب دیکھ رہے ہو، نیک دل شخص نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوال کیا۔

کیا  مجھے واپس جانے والی کشتی کا بتا سکتے ہو؟              روبن کچھ دیر بعد بولا۔

اب تم نے ایک انداز میں سوچنا شروع کر دیا ہے۔ بھلے مانس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ہاں! روبن نے بجھے دل سے جواب دیا۔میں صرف ایک رات ہی اس شہر میں گزاری ہے۔ میں اس زندگی سے تنگ آگیا ہوں اور میں مزید اس میں نہیں رہنا چاہتا جناب۔ کیا تم مجھے ساحل کا راستہ بتاؤ گے؟

نہیں !پیارے دوست روبن ۔ کم از کم آج رات نہیں، ہمدرد شخص نے جواب دیا۔ چند دن مزید یہاں  رہ لو ، اور اگر اس کے بعد بھی تمہارا من واپس جانے کو چاہے تو میں تمہیں تمہارے سفر میں مدد کروں گا           یا           اگر تم یہاں ہمارے ساتھ رہنا  چاہو تو جس طرح کہ تم ایک سمارٹ ، ہوشیار اورعقلمند ہو تو  تم اس جگہ اپنے رشتہ دار کے بغیر  اپنا  نام  بنا                   لو   گے۔

   تجزیہ

  نیتھییل ہا تھورن نے اپنی اس کہانی                                 '   میرا                   عزیزمیجر مونییکس   ُ میں اٹھارویں صدی کے انقلاب امریکہ کی ایک رات کے واقعات کا ذکر کیاہے۔یہ وہ                 دور تھا جب برطانوی جارج             دوئم کم و بیش تمام دنیا پر حکمرانی کرتا تھا۔ امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں بھی اس کی حکمرانی تھی۔ اس کے جبر و استبداد سے        نا   لاں عوام الناس نے کئی علاقوں میں بغاوت کی ہوئی تھی           تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئ تھیں۔' میسا چوسٹس بے 'ریاست بھی اس سے مبرا نہیں تھی ۔عوام الناس نے حکومتی رٹ کو چیلنج                      کر  رکھاتھا۔ا س کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا ہوا تھا۔شہنشاہ نے طاقت استعمال کی تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ پچھلے چالیس سالوں میں مرکزی حکومت کے مقرر کردہ آٹھ گورنروں کو             یا               تو قتل کر دیا  گیا                   یا               ایسے حالات پیدا کر دئیےگئے          جن سے وہ اپنے فرائض سر انجام نہ دے سکے۔ان سالوں میں تمام اشرافیہ باغیوں کے زیر عتاب           رہی۔

 نیتھینیل ہارتھورن اس کہانی میں وہ ایک سٹیج قائم کرتا ہے جس سے وہ یہ پیغام دیتا ہے کہ بے چینی  میں روز بروزا ضافہ ہو رہا ہے۔یہ واقعات 1732سےواقع ہونے لگے ہیں۔امریکی عوام برطانوی استحصالی           نظام پر بے حد نالاں ہیں۔افراتفری ، ابتری پھیل رہی ہے اورتحریکیں شروع ہو گئی ہیں جو               درپردہ            حکومتی اداروں پر حملے کر رہی ہیں۔ عوام الناس کی سطح پر مزاحمت شروع ہو گئی ہے۔یہ کہانی 1832میں لکھی گئی ہے۔ آباد کار ریاستوں کے عوام ان تمام نامزدگیوں کے شدید مخالف ہو جاتی ہیں۔ 

 روبن اس میں ہیرو ہے جو اٹھارہ سالہ خوبصورت ،صحت مند جوان ہے جو اپنے روشن مستقبل کے لئے اپنے پیرانہ سال فرسٹ کزن میجر مونییکس کے پاس جو اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور دولت مند ہے کے پاس قسمت آزمانے آتا ہے۔ روبن ایک چھوٹی سی بستی  کا رہائشی ہے۔ اس کا            والد گاؤں کا پادری ہے جس کی تھوڑی بہت زرعی زمین ہے۔ اس کا مشاہرہ کم ہےلیکن کھیتی باڑی کی آمدن                 ملا کر گزارہ ہو جاتا ہے۔ روبن کا ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹی بہن ہے۔میجرمونییکسس لا ولد ہے۔ وہ ایک دوسال پہلے گاؤں آکر اپنے چچا  ( پادری) کو پیشکش کرتا ہے کہ وہ اس کے دونوں بیٹوں کو گود لینا چاہتا ہے۔بڑا بھائی  تو کھیتی باڑی میں مشغول ہے اس لئے پادری روبن کو میسا چوسٹس بے بھیج دیتا ہے۔ پانچ دن کے سفر کے بعد وہ  اس شہر پہنچتا ہے۔اس کے ذہن میں  اسکے بارے میں تاثر ہے کہ وہ اس شہر کا معزز ترین شخص ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے۔اس کا رعب ودبدبہ ہے ۔ وہ جوں ہی وہاں پہنچے گااسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ اسے اصل صورت حال کا علم  نہیں ہوتا۔جب حقیقت آشکار ہوتی ہے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔میجر مونییکس کا رتبہ اور مالی حیثیت ہی اس کی دشمن بن جاتی ہے۔

 مقامی لوگوں کے لئے روبن ایک مذاق بن گیا ہے ۔ وہ اس کی معصومیت اورنادانی پر ہنستے ہیں۔ روبن خود کو یہ بتا کر مطمئن ہوتا ہے کہ وہ پیرانہ سال ضعیف  اس کے عظیم کزن میجر مونییکس کےبارے اس لئے نہیں بتاتا کیونکہ وہ سنکی ہےجبکہ اصل میں وہ اس کے رشتہ دار کے بد خواہوں میں سے ہوتا ہے۔وہ استخوانی  ڈھانچے والا شخص ہاتھ میں لاٹھی تھامے ایک سراب کے طور پر استعمال ہوا ہے۔وہ بد روح ظاہر کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ سیاہ چادر میں ملبوس طوطے کی ناک ، شعلہ برساتی آنکھوں، کینہ پرور اور مکروہ شکل والے بدطینت شخص میجر مونییکس کے دشمنوں کا قائد ہے جس نے اسے  قید میں ڈال کر طرح طرح کی اذیتیں دے کر روبن  کا مستقبل تباہ کر دیا ہے۔ ہوٹل کی انتظامیہ اور اس میں موجود تمام افراد ماسوائے چند ایک کے سب حکومت کے مخالف ہیں اوردر پردہ غداروں کے ساتھی ہیں جو اسے اشتہاری تک قرار دیتے ہیں۔

 روبن کا صبر جواب          دینے لگتا ہے۔ اس کی اس وقت امید بندھتی ہے جب وہ قرمزی لباس والی نوجوان خادمہ  باور کراتی ہے کہ وہ میجر مونییکس  کا ہی  گھر ہے اور وہ سویا ہوا ہے۔ وہ اسے ترغیب دیتی ہے کہ اندر آ جائے ۔ وہ ایک طوائف ہے اور اس نوجوان کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ہاتھورن  نے قرمزی رنگ   کا ذکر  ایک مشہور کہانی  سکارلیٹ لیٹر میں بھی کیا ہے جہاں اس رنگ کو طوائف کی علامت کے طورپر استعمال کیا ہے۔ جس میں' ہسٹر پیرنےُ کو شہوانی ، آزاد جنسی تعلقات رکھنے والی اور رشوت خور  بیان کیا ہے ۔روبن اس لڑکی کی عیاری سے جس میں وہ اس کی مشابہت میجر مونییکس سے کرتی ہےاور چکنی چپڑی باتوں سےاندر لے جا کر اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کرنا چاہتی ہے سے روبن کو  رات کا محافظ بچا لیتا ہے کیونکہ وہ اس لڑکی کے غیر قانونی دھندے کو جانتا ہے۔

 سیاہ چادر میں ملبوس شخص ایک ابلیس ہے۔ امن تباہ کرنے اور حکومتی استحصال ختم کرنے کے نام پر نجات دہندہ  اور اوتار کے روپ   میں  ظاہر ہوتا ہے  وہ  رات کوایک باغی  جنگجو سپہ سالار بن کربڑے دھڑلے سے اپنے غنڈوں سمیت  حکمرانوں کو نشان عبرت بنا کر ان کی  تذلیل  کے لئے جلوس نکالتا ہے۔اس کے آدھے چہرے پر سرخ اور آدھے پر سیاہ رنگ کیا ہوا ہوتا ہے اور ماتھے پر سینگوں کا رنگ کیا گیا ہے۔۔ ۔جلوس میں روشنی اور تاریکی کا تصور چہرے پر کئے گئے سرخ  رنگ               جنگ اور مزاحمت، آنکھوں کے شعلوں، اشتعال، نفرت، اور انتقام  کو  ظاہر کرتا ہے۔ سفیدی  ، چاندنی  اور سفید برف  کو امید، اچھے مستقبل اور حکومتی ظلم و ستم سے چھٹکارے، غربت کے خاتمے  کی علامت بتاتے ہیں  جبکہ اندھیرے، سیاہی،چہرے کے کالے رنگ کوموت ، عذاب اور مایوسی  قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مراد عوام الناس پربرطانوی شہنشاہ  کی طرف سے طویل عرصے تک ڈھائے گئے مظالم  پر افسوس، افسردگی ، ماضی کی ناامیدی اور ان کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ کھولیوں، تنگ مکانوں، خستہ حالی اور غربت کی بھی علامت ہےجو رنج و الم کی نشاندہی کرتا ہےماتھے پر پسینہ مزاحمتی پارٹی کو پیش کرتے ہیں۔

 پرسکون رات کےوقت جب سب لو گ دن بھر کی مصروفیا ت سے تھک کر چور ہو کر سو رہے ہوتے ہیں، میں ہنگامہ آرائی اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کو باور کرایا جائے کہ انقلاب آ چکا ہے اور اس دوران ہر غیر معمولی  بات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ ان سب کے لئے  پیغام ہے کہ حکومت سے انتقام  لینےکے لئے ہر وقت تیا ر رہنا چاہئیے۔ وہ  عوام کورات میں جلوس سے اس بات کا تاثر بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے اس وقت بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جب سب سو رہے ہوتے ہیں۔ انہیں ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا احساس ہے اور ان کے تدارک کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ اس  مکروہ  فعل  کے شرکا اور تماشائی امریکی روایات سے انحراف پیش کررہے ہیں۔وہ                     پیچیدہ                   لوگ ہیں۔ اچھوت اور مقناطیسی اثرکی طرح پھیل رہے ہیں جبکہ حقیقت میں کم و بیش تمام آبادی امن پرست ہے اور قوانین کا احترام کرتی ہے۔

روبن دل برداشتہ ہو جاتا ہے ۔ رات کی غلط مہمات  دیکھ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے گھر واپس چلا جائے۔ اس نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ اشیا کو حقیقت پسندانہ طور پر دیکھنے کے قابل ہو گیا ہے ۔ اب وہ پختگی کی منزل پر پہنچ رہا ہے۔ امید کی کرن میں اندھا عقیدہ اور دکھاواختم ہو گیاہے اور واپس گاؤں جانا چاہتا ہے لیکن ایک بھلا مانس اسے ایک نئی راہ دکھاتا ہے۔ اسے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ کسی پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرناچاہیئے اور اپنا مقام خود  بنائے اور وہ  اگر ہمت کرے  تو ضرور کامیاب                     ہو جائے گا۔ اس میں وہ تمام  اوصاف ائے جاتے ہیں جو اسے کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ اسے اس رات روک لیتا ہے۔ روبن  غیر واضح ہے کہ وہاں رکے گا یا              واپس گاؤں چلا جائے گا۔ لیکن گھر سے دور  کا تجربہ سے یہ سکھاتا ہے کہ اسے سہارے ڈھونڈنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا چاہئیے ۔ اپنی جبلت پر اعتماد کرکے آگے بڑھنا چاہئیے۔ قسمت اور تقدیر پر تمام تر انحصار کرنے کی بجائے جستجو بھی ایک لازمی عنصر ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات جو راوی نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے ، یہ ہے کہ ۔ ُ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ ُ  ہمت کی جائے تو راہیں خود بخود نکلتی چلی جاتی ہیں۔

 

Life history

Nathaniel Hawthorne

1864-----1804

USA

 حالات  زندگی

 مائی  کنز  مین  میجر مو  ننییکس       کا مصنف  ’نیتھینیل ہاتھارن‘ 1804 میں ’سیلم میساچوسٹس            بے ،نیو انگلینڈ‘ میں پیدا ہوا۔اس کے والد کا نا م ’نیتھینیل  ہا             تھارن‘ اور والدہ کا نام’الزبتھ کلارک میننگ‘ تھا۔میساچوسٹس نیو انگلینڈ امریکہ کی ان چھ ریاستوں پرمشتمل ہے جہاں سترہویں صدی میں شہنشاہ چارلس کی متعارف کردہ کیتھولک عقیدے(لندن کلیسا) سے بغاوت کرکے ہالینڈ، نیو ہا لینڈ،آسٹریلیا، آئر لینڈ اور انگلینڈ سے ہجرت کرکے شمال مشرقی امریکہ کی چھ ریاستوں ورماؤنٹ، مین،نیو              ہیمپشائر، میساچوسٹس، رہوڈ اور کنیٹی کٹ آکر آباد ہو گئے۔اس کے علاوہ بہت سے لوگ شمالی اور جنوبی کیرولینا کی طرف بھی بس گئے۔ان دنوں امریکہ پربھی برطانیہ کا           راج تھا۔

   ہاتھارن کے آباؤ اجداد اور پروٹسٹنٹ شہنشاہ              چارلس، ہنری ہشتم اور ملکہ الزبتھ اول کے ادوار میں مذہبی آزادی کی خاطر ہالینڈاور آئرلینڈ سے نقل مکانی کرکے میساچو سٹس سے ہزاروں کی تعداد میں آ باد ہوئے۔1604سے21-                1620 تک اور بستیاں قائم ہونے کے ساتھ آہستہ آہستہ منتقل ہوتے رہے۔ان کو یورپی ا           دب        میں حاجی (پلگرم) کہا جاتا ہے جبکہ دراصل وہ مہاجر تھے۔اسکے آباؤ اجداد اپنے علاقے میں ممتازمقام رکھتے تھے۔ان کے نزیک طرزحیات مکمل طور پر انجیل مقدس کے صحیفوں میں دیئے گئے طریقوں کے مطابق             اپنانا                   ہی صحیح              تھا            جبکہ برطانیہ میں شہنشاہ             چارلس نے                 رسوم و رواج           میں جو تبدیلیاں کر دی تھیں،وہ            ان کے نزدیک بنیادی عقیدے کے برعکس تھیں جسے پروٹسٹنٹ نے قبول نہ کیا اور مذہبی آزادی، عبادات کے آداب، تقریبات میں رسوم و رواج صحیفوں میں بیان کردہ طریقوں سے انجام دینے کی خاطر نیو انگلینڈ آباد ہو گئے جہاں ا ن کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزاد ی تھی۔بعد ازاں  مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ روزگار کی تلاش میں بھی لوگ وہاں آنے لگے۔ ملکہ الزبتھ اول نے طنزیہ طور پر ان مہاجرین کو پیورییٹن یا پیوریٹینزم کا نام دیا جو بعد میں مستقل نام پڑگیا۔ آباد کاری کے بعدانہوں نے فصل کاٹنے کے دوران شکرانے کے طور پر ایک رسم متعارف کروائی  جسے’تھینکس گیوونگ‘ کہا جاتا ہے جوموجودہ دور میں کاشتکاری کے دوران بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے  ۔ یہ علاقے سیاہ فام لوگوں کو غلام رکھنے کے حق میں تھے اور خانہ جنگی میں غلاموں کی آزادی کے خلاف جنگ میں بھی حصہ لیا۔ عصر حاضر میں نیو انگلینڈکنزرویٹوو سیاسی جماعت کا گڑھ ہے۔

   ہاتھارن کا           والد ’ہے تھار ن                بحری جہا ز کا کپتان تھاجو اس وقت فوت ہو گیا جب ہاتھارن  چار سال کا تھا۔اس کی والدہ’الزبتھ میننگ‘  ایک متمول تاجر خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔باپ کی وفات کے بعد اس کی والدہ اسے اپنے والدین کے ہاں لے گئی۔اس کے نانا ’رچرڈ میننگ‘ نے اپنے مینشن میں اس کے آٹھ بہن بھائیوں کی بہترین انداز میں پرورش کی۔ 1853میں نانا کی وفات کے بعد اس کے ماموں ’رابرٹ میننگ‘ نے اپنے والد کا کاروبار سنبھالا اور ان کا کفیل بن گیا۔اس کے مطابق میننگ مینشن میں اس نے جو وقت گزارا وہ اس کی زندگی کا بہترین دورتھا۔ اس کے بر عکس وہ اپنے والد کے خاندان سے ان کی بدنامی کے باعث اجتناب برتتا تھا کیونکہ اس کا دادا جو پادری تھا، بدکردار تھا۔اس نے ان سے قطع تعلق کر لیا، یہاں تک کہ اس نے اپنا خاندانی نام بھی تبدیل کر دیا تھا اور ہے تھارن کی جگہ ہاتھارن لکھنے لگا۔

ہاتھارن نے 1825میں باؤڈن کالج سے ڈگری لی۔وہ اشرافیہ کی یونیورسٹی تھی۔اس کے کئی دوست حکو مت کے اعلی درجوں پر فائز ہوئے جن میں ایک کلاس فیلوجب امریکی صدر منتخب ہوا تو ا         سے لیور پول میں حکومت امریکہ کا کونسلر بنا دیا گیا۔اس کا دور چودہویں پندرہویں صدی کے ادبی دور (گوتھیک دور) کی طرح سیاہ رومانیت اور رومانیت کا دور تھا۔(سیاہ رومانیت بھی دراصل رومانیت ہی تھی لیکن اس میں محبت میں منفی عوامل، جادو، آسیب اور جنتر منتر پیش کئے جاتے تھے)  ۔اس نے ایڈگر ایلن پو اور ڈی ایچ لارنس کی طرح کا ادب لکھا۔وہ فطرت کو اپنے علم کے زور سے تبدیل کرنے کی خواہشات کا اظہار کرتا تھا۔ اس کی اہم تصانیف میں ’سکارلٹ لیٹر (1850)‘ بہترین خیال کی جاتی ہے۔اس کی دیگر تصانیف میں ’ینگ گڈ مین، دی ہاؤس آف دا سن، دی برتھ مارک، دی منسٹرز بلیک وش، دی گڈمین براؤن،  ٹوائس اولڈ ٹیلز اور ریپی ڈاٹر‘ ہیں۔  وہ  1864 میں ٹی۔ بی کی بیماری سے ’پلے ماؤتھ نیو ہیمپ شائر،نیو انگلینڈ‘میں فوت ہوا اور وہیں دفن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          34/ 54

                      طوفان

The Storm

Kate Chopin

(1851 - 1904) USA

ُگھٹن و حبس اس بات کی علامت تھی کہ موسم تبدیل ہونے جا رہا ہے اور طوفان آنے کو ہے۔ُ اودے  اُودے، سفید سفید، پیلے پیلے بادل تیزی سے نیلے  گگن کوتیزی  سے گھیرنے لگے۔  ہوائیں  آناً فاناًتیز سے تیز تر ہوتی گئیں اور  آندھی کی شکل اختیار کر لی۔ آبادی کے درخت اور قریبی کھیتوں کی فصلیں مستی میں جھوم کر راگ الاپنے  لگیں۔ محلے کے مکانات، دکانیں اور کثیر منزلہ عمارات اپنی طبعی عمر اور مرمتوں کے معیار کے لحاظ سے  جلترنگ بجانے لگیں۔ بوسیدہ عمارات، ٹین کی چھتیں اور چھجے اپنی الگ الگ موسیقی الاپنے لگے۔

اس وقت سونیا کا خاوند بوبی اور چار سالہ بیٹا ہنی گھر سے باہر تھے۔ باپ بیٹا ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ہنی باپ کا لاڈلاتھا۔ دونوں ایک دوسرے سے مستیاں کرتے ہوئے سڑک پر جا رہے تھے کہ انہوں نے محسوس کیا کہ ُرت بدلنے والی ہے اور بادل کی گھٹائیں اندھیرا کرنے جا رہی ہیں۔ آندھی اس بات کی علامت تھی کہ بارش ہونے کو ہے۔ بوبی اپنی بیگم سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ اس کی سحر انگیز شخصیت سے بہت متاثر تھا۔ وہ بے حد حسین، باوقار اور سنجیدہ عورت تھی جو اس کا اور اس کے بچے کا بہت خیال رکھتی تھی۔ وہ تمام معاملات کو سلیقے سے حل کرتی اور دوسروں سے بھی اسی انداز میں کام کرنے کی توقع رکھتی تھی۔  بے اصولی، لاپرواہی اور گندگی اسے سخت نا پسند تھی۔

باپ بیٹا اس وقت سونیا کے کہنے پرگھر کے لئے کچھ سودا سلف لینے نکلے تھے۔ وہ اٹھکیلیاں کرتے ابھی سٹور کے قریب ہی پہنچے تھے کہ بارش کے موٹے موٹے قطرے پڑنے لگے جو بہت جلد طوفانی بارش میں تبدیل ہوگئے۔ وہ فوراً اسٹور میں داخل ہوئے۔ سودا خریدتے ہوئے بوبی کی نظر جب جھینگے کے ڈبے پر پڑی تو اُس نے وہ بھی خریدلیا کیونکہ وہ ڈش اُس کی بیوی کو بہت پسند تھی۔جب طوفان نہ تھما تو اس نے سوچا کہ سٹور کے برآمدے میں یا چھتے کے نیچے طوفان رکنے کا انتظار کیا جائے۔ وہ بھیگتے ہوئے واپس نہیں جانا چاہتے تھے کیونکہ گیلے جوتے اور کپڑے ایک تو انہیں بیمار کر سکتے تھے اور دوسرا مکان میں گندگی پھیل جاتی چنانچہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑا بارش رکنے کا انتظارکرنے لگا۔ اُس کو سونیا کی فکر تھی کہ وہ گھر میں تھی اور اکیلے کیسے اِس طوفان کو جھیل پائے گی۔ اُس نے تازہ تازہ لانڈری بھی کی تھی اور کپڑے چھت کے شیڈ پرسوکھ رہے تھے۔ طوفان نے سٹور کی چھت اور چھجے کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور یہ لگ رہا تھا کہ طوفان کھڑی فصلوں کو اکھاڑ لے جائے گا۔

اُدھر سونیا اپنے گھر میں جو ایک پرانا چھوٹا سا مکان تھا، اکیلی تھی۔ اس مکان میں گیراج، بالکنی، ڈرائنگ روم، کچن، چھوٹا سا ہال اور سٹور تھا جِس میں عام یوٹیلیٹی رکھنے والا سامان پڑا تھا۔ مکان کی چھت ٹین کی تھی۔ گیراج کے عقب میں دروازہ تھا جو گھر کے چھوٹے سے ہال میں کھلتا تھا۔ اُس نے بالکنی کے دونوں سروں پر تار لٹکائی ہوئی تھی جس پر وہ دُھلے ہوئے کپڑے ٹانک کر خشک  کرتی تھی۔ گیراج میں کباڑخانہ اورباغبانی کے آلات رکھے تھے جن سے وہ اپنے چھوٹے سے صحن میں جو کہ عقب میں تھا، بپھول اگاتے تھے۔کچھ مٹی کی بوریاں بھی گیراج میں تھیں اور اس کے علاوہ مرغیوں کے ڈربے بھی پڑے تھے۔ کسی زمانے میں اُس کو مرغیاں پالنے کا شوق تھا لیکن بچے کی پیدائش کے بعد اسے ترک کرنا پڑا۔ اس کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے۔ وہ عائلی زندگی سے مطمئن تھی اور نہایت ذمہ داری سے اپنا فرض نبھاتی تھی۔

بوبی اور ہنی سٹور میں بیٹھے قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ سونیا ان کے بارے میں بہت فکر مند ہوگی۔ گھر کی تمام بے ترتیب اشیاء اور دُھلے ہوئے کپڑوں کو اِس موسم میں سنبھالنا اُس کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ ہو سکتا تھا کہ وہ کسی ہمسائی کو بلالے اور اس کی مدد سے چیزوں کو سنبھال لے۔ بوبی کو یہ خدشہ بھی تھا کہ طوفان کے شور کی وجہ سے بوبی ڈر نہ جائے لیکن اس کا خیال غلط نکلا۔ وہ اس کے ساتھ اس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر سکون سے بیٹھا رہا۔ اس کے چہرے پر خوف و خطرے کی کوئی علامت موجود نہ تھی جبکہ دُوسری طرف سونیا کو اپنے میاں اور بیٹے کی سلامتی کی فکر لاحق تھی۔ وہ ایک سمجھ دار بہادر عورت تھی اور اِس بڑ ھتے طوفان سےڈ ر نہیں رہی تھی۔ وہ کھڑکی کے سامنے کھڑی بستر کی چادر کی ہاتھ سے کڑھائی کر رہی تھی کہ یکدم اسے گھٹن محسوس ہوئی۔ اب آندھی کے ساتھ زور دار بارش پڑنے لگی تھی جس نے شدید طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ وہ اپنے کام میں اتنی محو تھی کہ اسے انداز ہ ہی نہ ہوا کہ طوفان نے کب شدت اختیار کر لی۔ جب اسے احساس ہوا تو اسنے دروازے کھڑکیاں بند کر دیں۔ اسے اپنے خاوند کی لانڈری یاد آئی جو چھجے کی بالکونی میں تار پر لٹکی سوکھ رہی تھی۔ وہاں سے اس کی نظر بارش میں بھیگتے ہوئےاس کے سابقہ محلے دار' کافکا'پرپڑی۔ اس نے کافکا کو اس کی بیوی اور بچے کے بغیر پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ حیران تھی کہ وہ اکیلا کیوں تھا؟ اسے بھیگتے ہوئے دیکھ کر نیچے چلی آئی۔ کافکا نے اُسے دیکھا تو درخواست کی کہ کیا وہ گیراج کے چھتے کے نیچے رک کر طوفان سے بچ سکتا تھا؟ سونیا نے ہاں کہا۔ وہ چھجے کے نیچے آگیالیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ طوفان اسی طرح اس پر اثر انداز ہو رہا تھا اور گیراج میں پانی جمع ہو رہا تھا۔ اس لئے سونیا نے اُسے گیراج کے اندر بلا کر پانی سے بچنے کے لئے دراوزہ بند کر دیا۔

کیا طوفانی بارش ہے؟ ایسی بارش دو سال پہلے ہوئی تھی، سونیا نے کہا۔ اس نے بوریاں جو باغبانی مٹی سے بھری ہوئی تھیں، دروازے کی درز کے نیچے رکھ دیں تاکہ پانی اندر داخل نہ ہو سکے۔ کافکا نے اس سلسلے میں سونیا کی پوری مدد کی۔ سونیا شادی سے پہلے دبلی پتلی لڑکی تھی۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس کا جسم بھر گیا تھا لیکن اس کی کشش برقرار تھی۔ اُس کا رنگ روپ آج بھی ایسا تھا کہ بڑے بڑوں کے دل موم کر دے۔ آندھی نے اس وقت اس کے بالوں کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ بارش نے انہیں الجھا دیا تھا۔ اس وقت اس کے بال کانوں اور کندھوں پر پھیلے ہوئے تھے۔اب اسے بھوک نے ستاناشروع کردیاتھا۔ اور اشتہاء میں اضافہ  ہورہاتھا۔

طوفانی بارش ٹین کی چھتوں پر ایسے پڑ رہی تھی کہ پورا خدشہ تھا کہ گیراج کی چھت اور چھجے کو اُڑا نہ لے جائے اس لئے انہیں گیراج کے عقبی دروازے سے گھر کے اندر جانا پڑا۔ دروازہ ہال میں کھلتا تھا۔ اس سے ملحق اس کا بیڈ روم تھا جس پر سفید رنگ کا کنگ سائز خوبصورت بیڈ پڑا تھا۔ کھڑکیاں بند تھیں جس نے کمرے میں نیم تاریک ماحول پیدا کر دیا تھا جو اسے بے حد رومانوی بنا رہا تھا۔ ہال میں اشیاء بے ترتیبی سے بکھری پڑی تھیں اس لئے وہ بیڈ روم میں آگئے۔ وہاں ایک آرام دہ کرسی تھی۔ سونیا نے کافکا کو کہا کہ اس پر بیٹھ جائے۔ وہ بیٹھ گیا۔ اگر یہ طوفان اسی طرح جاری رہا اور اس کی تیزی کم نہ ہوئی تو ہمارے تمام علاقے کو اپنے ساتھ بہالے جائے گا۔

' تمہارا خاوند اور بیٹا نظر نہیں آرہے؟' کافکا نے سوال کیا۔

' وہ کچھ سودا سلف لینے گئے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق طوفان کے وقت وہ سٹور کے آس پاس رہے ہوں گے اور سٹور کے اندر ہی چھپے بیٹھے ہوں گے۔ طوفان تھمے گا تو وہ نکل پڑیں گے، 'سونیا نے جواب دیا۔

' چلو اس بات کی ا مید کریں کہ تمہارا خاوند اتنا عقلمند تو ہوگا کہ وہ ننھے سے پیارے بیٹے کو اس طوفان سے محفوظ رکھے۔ کھلے میں نہ نکلے'، کافکا بولا۔ طوفان کم نہیں ہو رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی۔ طوفان کے طول پکڑنے کی وجہ سے اب اُس کے چہرے پر کچھ پریشانی جھلکنے لگی تھی۔ بارش امڈ امڈ کرآ رہی تھی۔ ایک جھونکے کے بعد دوسرا جھونکا آجاتا تھا اور ماحول کو مزید تاریکی میں چھپا دیتا تھا۔ پس منظر میں درختوں کے جھومنے سے جو موسیقی پیدا ہو رہی تھی وہ سونے پر سہاگہ ثابت ہو رہی تھی۔ باہر کے طوفان سے اندر کا طوفان بڑھ رہا تھا۔ اتنے میں بجلی کڑکی اور ایک درخت پر آن گری۔ وہ آواز اتنی بلند تھی کہ اس نے سونیا کو ہلاکر رکھ دیا۔ اُس نے ڈر کر زور سے چیخ ماری۔ اُس کی چیخ سن کر کافکا فوراً اٹھا اور بھاگ کر کھڑکی طرف لپکا۔ سونیا چیخ مار کر ڈر کر کھڑکی سے ہٹی تو کافکا سے ٹکرائی۔ اس نے سونیا کو بانہوں میں بھر لیا لیکن وہ اُس کے بازؤں کے حصار سے فوراً باہر نکل آئی۔

'ایسا لگتا ہے کہ اب بجلی ہمارے گھر کے باہر درخت پر گرنے والی ہے۔' سونیا بولی۔' پتہ نہیں میرا میاں اور بیٹا کس حال میں ہوں گے۔ وہ بھی اس طوفان سے بچ نہ پائے ہوں گے۔' اس کا سر چکرانے لگا لیکن وہ کھڑی رہی۔

کافکا اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس نے سونیا کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا، ' ڈرنے کی ضرورت نہیں،۔میں تمہارے ساتھ ہوں ناں! کچھ نہیں ہوگا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ گھر محفوظ  ہے۔ یہاں بجلی نہیں گرے گی کیونکہ یہ گھر وادی میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔پہلے اونچےمقامات متاثر ہوں گے ۔اس کے محل و قوع کی وجہ سے ایسا کوئی خطرہ نہیں۔ فکر چھوڑ دو اگر بجلی کو کوئی مہم جوئی کرنی تھی تو مکان سے دور بہت سے درخت ہیں گھنے اور لمبے ہیں،اُن کو نشانہ بنائے گی۔'

سونیا یہ سن کر دکھی ہوگئی اور رونے لگ گئی۔' کیا تم یہ رونا دھونا بند نہیں کر سکتی؟ چپ نہیں ہوگی۔' اس نے سونیا کی پریشان زلفیں جو اس کے ماتھے اور کانوں پر تھیں کو پیار سے ہٹانا شروع کر دیا۔

کافکا نے جب اس کی زلفیں سلجھائیں تو اس نے دیکھا کہ سونیا کے ہونٹ ابھی تک شادی سے پہلے کی طرح رسیلے تھے۔ اس کی صراحی دار گردن  اور بھرابھرا جسم اسے مدہوش کرنے لگا۔ اُس نے اپنے حواس کھو دیئے، سونیا نے اپنی مدبھری نگاہیں اٹھائیں او ر کافکا کو دیکھا۔ کافکا خود پر قابو نہ رکھ سکا اور اُس کے ہونٹوں کا رس پینے لگا۔ اس پر بھولی بسری یادیں تازہ ہونے لگیں۔ شادی سے پہلے وہ پریمی تھے۔ ان کی محبت پاکیزہ تھی اس لیے تمام تر جذبات کے باوجود ایک حد قائم کر رکھی تھی۔ خانگی حالات کی وجہ سے ان کی شادی نہ ہو سکی تھی۔ اب دونوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ نئی زندگی پر شاکر تھے۔ اس بار اندر کا طوفان تھم نہ پارہا تھا۔ تمام معاشرتی، اخلاقی، مذہبی، اور قانونی بندھن ان کے راستے میں حائل نہ ہو پا رہے تھے۔ سنگین صورت حال اور خطرات کو ملحوظِ خاطر نہ لاتے ہوئے وہ سیلاب کے ریلے میں بہہ نکلے۔ اس طوفان کی طغیانی میں وہ شدتِ جذبات میں بہہ گئے۔ کافکا نے جب اس کی چھاتیوں کو چھوا تو وہ مدہوش ہوگئی اور خود کو کافکا کے سپرد کر دیا۔ اس کے کانپتے ہونٹ دعوت گناہ میں اضافہ کر رہے تھے۔ اس کا منہ خوشی کا منبع تھا۔ وہ میٹھا رس چوستا رہا اور وہ فرط جذبات میں تمام حدیں پار گئے۔ بالآ خر باطنی تلاطم تھم گیا لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے رہے اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے۔

بیرونی طوفان کا زور تمام تر قوت سے برسنے کے بعد آہستہ آہستہ کمزور پڑتا جا رہا تھا۔ بالآخر بارش رکی اور آندھی تھم گئی۔ سورج بادلوں کی اوٹ سے نکل آیا تھا اور شعاعوں نے ماحول کو ہیرے کی طرح چمکا دیا تھا۔ اُدھر سونیا دوازے کی اوٹ میں کافکا کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کہہ رہی تھی۔ کافکا مڑ مڑ کر مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔ سونیا نے اپنی تھوڈی اوپر اٹھائی اور زور زور سے قہقہے لگائے۔

دوسری جانب باپ بیٹا طوفان تھمتے ہی سٹور سے نکلے۔ بھیگی ہوئی سڑک اور طوفان کی وجہ سے دلدل اور کھڑے ہوئے پانی سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے گھر کا رخ کیا۔ وہ خود کو ہر صورت گیلا ہونے سے بچانا چاہتے تھے لیکن بچ نہ پا رہے تھے۔ بوبی نے کہا اس طوفان نے ہماری تمام تدبیریں خاک میں ملا دی ہیں۔ ہمارے کپڑے اور چہرے گندے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے جوتوں اور کپڑوں کو گھر پہنچنے سے پہلے ایک نل پر دھویا تاکہ بہت زیادہ خراب حالت میں گھر نہ پہنچیں۔ بوبی نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنی ماں کی باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائے۔ وہ کہے گی، تم نے اچھے خاصے کپڑوں کا ستیا ناس کر دیا ہے، تمہیں اتنی عمدہ پتلون پہن کر باہر نہیں جانا چاہیے تھا۔ میری تمام محنت پر پانی پھیر دیا۔ تمہاری قمیض کے کالر پر بھی کیچڑ لگا ہوا ہے۔ یہ تم نے کیسے لگا لیا؟ اس قسم کا لاپرواہ لڑکا میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اپنے باپ کی باتیں سن کر وہ خود کو قصور وار سمجھنے لگا۔

اپنے من میں وسوسے لے کر وہ ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوئے اور وہ ہر قسم کی ڈانٹ کی توقع کر رہے تھے۔ سونیا کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔ ان کے آنے سے پہلے ہی اس نے ڈائننگ ٹیبل پر دستر خوان سجا دیا تھا۔ ان کو دیکھ کر وہ ان کے پاس آگئی۔

'تم واپس آگئے؟ میں تم لوگوں کے بارے میں بہت فکر مند تھی۔ تم کہاں رہ گئے تھے؟ کیا ہنی ٹھیک ہے۔اسے کوئی زخم تو نہیں آیا؟' اaس نے اپنے بیٹے کو اٹھا یا اور زور زور سے اسے بازوؤں میں بھینچا۔ وہ تمام وضاحتیں اور معافی کے الفاظ جو وہ رستے بھرسوچتا آیا تھا، اُس کے ہونٹوں پر آتے آتے رہ گئے۔ سونیا نے ان کے خیر و عافیت سے گھر واپس آنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ بوبی نے اسے جھینگا مچھلی کا ڈبہ پیش کیا۔سونیا اسے لیتے ہوئے بولی،'تم کتنے اچھے شوہر ہو۔ میرا کتنا خیال رکھتے ہو ۔' اپنے خاوند کی گال پر زبردست بوسہ کیا اور کہا ، ' ہم رات کو اِس سے دعوت اڑائیں گے۔ 'کھانے کے بعد تینوں اطمینان سے بیٹھے، ہلکی پھلکی باتیں کرتے، ہنستے مسکراتے رہے۔اُن کے قہقہوں کی آواز آسمان کو چھو رہی تھیں۔

اس رات کا فکا نے اپنی بیوی کو فون کیا اور کہا  'میں تمہاری اور اپنے بچوں کی کمی شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔ یہاں کا موسم بہت خراب ہے۔ آج بھی بے حد طوفان آیا تھا۔ تمہارے میکے کا موسم بہت اچھا ہے۔ ایسا پیارا موسم جو تمہارے میکے میں ہے، یہ صرف خوش نصیب لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ میری رائے ہے کہ تم یہ سہانا موسم پورا گزار کر ہی واپس آجاؤ۔ مجھے تمہاری کمی تو بے حد محسوس ہوگی لیکن میں اپنی خود غرضی کے لیے یہ نہیں کہوں گا کہ تم جلدی واپس آؤ'۔ اُس کی بیوی اس بات پر بے حد خوش ہوگئی کہ اس کا میاں اسے اور سسرال کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ اپنے بچوں اور بیوی سے کتنی محبت کرتا ہے۔ اس کے بچے اس بات پر خوش تھے کہ انہیں نئے دوست مل گئے ہیں۔

اور اب ………………ہر طرف سے طوفان تھم چکا تھا۔ راوی چین کی بنسری بجا رہا تھا۔

Life history

Kate Chopin

(1851 - 1904) USA

حالات ِ زندگی

کیٹ چوپن سینٹ لوئیس میسوری 1850میں پیدا ہوئی۔ وہ چار  بھائیوں  کی اکلوتی   بہن تھی ۔ اس وقت  اس کی عمر25سال سے زیادہ تھی۔ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں اسے سیکرڈ ہارٹ سکول داخل کروا دیاگیا۔ داخلےکے دو ماہ بعد اس کا والد حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔ وہ اس سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں پلی بڑھی وہاں کی راہبائیں اپنی ذہانت کی وجہ سے مشہور تھیں اور کیٹ ہمیشہ کلاس میں اوّل آتی تھی۔ اس نے بچپن سے ہی روز نامچہ لکھنا شروع کر دیا تھا پھر وہ بھی راہبہ بن گئی۔ 1870میں اس نے ایک امیر آدمی سے شادی کرلی جو کہ لوزییانا کا تھا۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرتا رہتا تھا۔ اسے اس کے شوہر نے مکمل خودمختاری دی ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ نیواورلین چلے آئے۔ یہاں اسکے پانچ بیٹے اور دو بیٹیا ں ہوئیں۔ اس کی تمام اولاد 28سال کی عمرسے پہلے پہلے ہی ہوئی۔ 1882میں اس کے خاوند کی رحلت ہوگئی ۔اس کے خاوند کا بہت بڑا جنرل سٹور تھا۔ اس نے اسےایک سال تک سنبھالاپھر س نے سٹور بیچ ڈالا اور لکھنا شروع کر دیا۔ وہ اس میں کامیاب رہی۔ اس کی کتاب جو The Awakening 1899میں چھپی، کو بے حد پذیرائی ملی ۔اس ناول کی ہیروئن  نیو آرلین کی ایک بدنام خاتون تھی۔

اس کا پہلا ناول At Frault 1890میں چھپا، Bayou 1894میں اور A Night in Acadia 1897میں۔ وہ اب ایک مستند ادیب کے طور پر مشہور ہوگئی۔ اس کے پاس ہمیشہ وقت کی کمی ہوتی تھی۔ اپنے بچوں کے شور شرابے میں ہی اسے لکھنا نصیب ہوتا تھا۔ وہ اگست1904میں فوت ہوئی۔ اس کی دیگر اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

Short Stories

The Story of An Hour ; Desiree Bab  ; Grave Island.

Films

 The Joy That Kills  ;    Grand Isle

Awards

WHSmith Award 2015; CWA   Diamond  Dagger Award 2016 etc.

    Guest of a Nation  ; The Rising of the Moon

 

فرینک نے آئرلینڈ کی سیاست، مذہب، رسوم و رواج   پر لکھا ۔ وہ  کیتھولک  تھا۔وہ  10مارچ   1966کوڈبلن  (Dublin)  آئرلینڈ میں فوت ہوا۔

 

--------------------------------------------

  35

صرف دوکلک

Just Two Clicks

Peter James

مائیکل   جیمز کمپیوٹر پر گھنٹوں بیٹھنے کاعادی تھا۔ ایک  دن   اس نے کیرین  کو  دوستی کا پیغام بھیجا تو اس نے قبول کرلیا۔  اور ای۔میل کے ذریعےان  میں پہلے دوستی  ہوئی جو گہری دوسری میں بدل گئی۔مائیکل    کی زندگی  بڑی خشک  تھی۔ اس کی بیوی  مارگریٹ  ا اس کے رویے سے بےحد نالاں تھی۔اس کو اس سے شکایت تھی کہ وہ روکھا شخص تھا۔ اسے اور اپنے بچوں کو  وقت دینے کی بجائے ہر وقت یا تو فٹ بال کے میچ دیکھتارہتا یا پھر فیس بک سے چمٹا رہتاتھا ۔ ان کی عائلی زندگی     انجماد کا شکار  تھی۔مائیکل     بوریت  کا شکار تھا۔ اسے کیرن  کے روپ  میں  ایک محبوبہ  مل گئی تھی۔ کیرین نے  اس کو اپنی تصویر بھیجی تو وہ اس پر مر مٹا۔تصویر میں     کیرن کے لمبے لمبے سنہری بال تھےجو آگےتک آئے ہوئے تھے۔اس نے اسے بہار کا جھونکا سمجھا۔۔مائیکل  اپنی  زندگی میں نئی مہم جوئی کے بارے میں سوچتاتو اپنی قسمت پر ناز کرتا اور اس کا موڈ خوشگوار رہنے لگا۔اسے اپنی قسمت پر ناز ہونے لگا۔کیرین اسے ایک ماڈل  سے بھی زیادہ خوبصورت لگی۔

مائیکل  فٹ بال کے میچ دیکھنے کا شیدائی تھا۔وہ جہاں کہیں بھی فرسٹ کلاس میچ ہورہاہوتا، ضرور دیکھتاتھا۔اس کا ٹی وی  سیٹ سیڑھیوں کے نیچے رکھا تھا ۔اس کی ز۔ندگی سکوت کا شکارتھی۔اس کی اپنی بیوی اور  بچے اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ٹی وی   پرفٹبال میچ لگاہواتھا اور وہ میچ دیکھ رہاتھا۔    اس کی بیوی                                          گھر چھوڑنے  کی دھمکی دے چکی تھی ۔ مارگریٹ اپنے خاوند کو   ٹی  وی کا کیڑا کہا کرتی تھی                       ۔  وہ  اس سے نالاں تھی ۔وہ اسے غیرذمہ دار سمجھتی  تھی۔مائیکل بوریت کا شکارتھا۔وہ  کیرین جیسی   بہادر لڑکی چاہتاتھا جو شادی شدہ اور بچوں کے باوجود بڑے دھڑلے سے اس کی  محبوبہ بننے   پر آمادہ  اور اس سے ایک کلک کی دوری پر تھی۔اس کے ذہن اور دماغ پر وہ چھائی ہوئی تھی۔ کلک سے اس کاچہرہ سامنے آ سکتاتھا ۔وہ ۔اس سے گفتگو کر سکتاتھا۔ 

    ٹائپ   رائٹر کی کلید پرہلکے دباؤسے اپنی  انگلیاں چلارہاتھا۔  ایسا کرنے سے اس کو لطف مل رہاتھا۔ اس کی مستی میں اضافہ ہورہاتھا اور ٹائپ رائٹر  کی  ٹک ٹک                                         اسے  مدہوش کررہی تھی۔ان کا یہ معاشقہ            دومہینے                                   ، انیس گھنٹے   سے چل رہاتھا۔                                          وہ                                                         رومانوی لگ رہی تھی ۔ اسے ایسا لگ رہاتھا جیسےوہ اسے                                          پچکاررہی تھی۔ وہ ای۔میل کےذریعےایک دوسرےسے مسلسل رابطے میں تھے ۔۔اور  اب کل شام  ساڑھے سات بجے صرف بائیس  گھنٹوں بعد انہوں نے ملنے کا فیصلہ کرلیاتھا۔

 

  دونوں نے ملاقات سے پہلے کچھ باتیں طےکرناتھیں۔پہلی بات توملاقات کے دن دونوں  جو لباس پہنیں گے۔دونوں بات یہ طے کرناتھی کہ ملاقات کہاں ہو۔دوسرا یہ کہ وہ کون سا لباس پہنیں کہ ایک دوسرے کوپہلی نظرمیں ہی پہچان لیں۔تیسری یہ کیرین کون سابہانہ بناکر گھر سے نکلے               کہ  اس گھنٹوں کی غیرحاضری  کی اجازت دے ۔ان سب پر ان کی گفتگوہورہی تھی۔اس نے اپنے خاوند    کی گھناؤنی  تصویر کشی کی ہوئی تھی۔  وہ سفاک تھا ۔اس کا مارگریٹ سے  مخاصما نہ تھا۔وہ ایک درازقد ،کم عقل ، کینہ پرور،حاسد،دھمکیاں دینے والا، موالی تھاجوگھر میں                               ہوتے وقت  ٹھو کر سے دروازہ کھولتاتھا۔ اس نے خود کو بہت مظلوم ظاہر کیاتھا۔

کیرین نے مائیکل کو ایک تصویر بھجی تھیں  جس میں وہ بڑی رومانی لگ رہی تھی۔مائیکل اور                          اس سے  ہزاروں ای ۔میل کا تبادلہ ہواتھا ۔ یہ تاثر ابھرا کہ    مائیکل کےذہن میں ابھری  وہ یہ  جو   کی شکل وصورت اس  اس کی شباہت کسی ہیروئن سے کم نہیں لگتی تھی۔اس  خوبصورت تھیں۔ ۔ وہ دراز قد تھی۔اس کی  لمبی اور خوبصورت  ٹانگیں تھیں۔  اس کے ذہن میں                   ایکس۔ فائلز سیریل' میں کام کرنےوالی لڑکیاں           آئیں۔ذرا سی صحت مند ، چست  چوبند، ذہین ،معاملہ شناس اور اور  معمولی   سی فربہ تھی  ۔ان کی رومانوی خط وکتابت کےدوران کبھی ملاقات  کی نوبت نہ آئی۔ان کی پہلی ملاقات ہونے جارہی تھی اس لئے مائیکل میں جذبات کالاواابل رہاتھا۔دو ماہ پہلے مائیکل کی بیوی  مارگریٹ    نے سخت ناراضگی  میں  اس سے بات چیت بند کردی  تھی۔ وہ مارگریٹ  اور بچوں سے زیادہ کمپیوٹر سے محبت کرتاتھا۔وہ کمپیوٹرکاکیڑاتھا۔کمپیوٹر پرزیادہ وقت گزارتاتھا۔اس لئے وہ گھر سےزیادہ تر باہر رہتی تھی۔ مائیکل  اپنے ہی  گھر میں بیگانہ ہوگیاتھا۔ اپنی تشنگی دور کرنے، محبت کی پیاس بجھانے اور   کیرین  کو اس کے ظالم خاوند سے نجات کے لئے   کوئی پروگرام  بنانا چاہتاتھا۔ لیکن اس میں حوصلے کی کمی تھی۔وہ جرات نہ کرپایااور اس کے ذہن میں اس وقت  کیرین کے میاں  پر غصہ آیا کہ وہ   اس  سے سفاکانہ سلوک کرتاتھا۔ اس سے رویہ معاندانہ تھا اورمکوں سےدروازہ توڑ سکتاتھا۔وہ وحشی تھا۔

 کیرین کی تازہ ترین ای ۔میل   ڈاک میں پڑی تھی جوبائیس گھنٹے سات منٹ پہلے آئی تھی جس میں اس نے لکھاتھا'

میں تم سے ملنے کےلئے مری جارہی ہوں۔'  'ڈارلنگ!کل کاشدت سے انتظارکررہی ہوں۔

کیاتم نےیہ فیصلہ کیا ہے کہ کہاں ملناہے؟'مائیکل نے لکھا۔

کیرن  کا جواب  ابھی موصول ہواتھا۔ 'کیاتم ریڈ لائن کلب جوہینڈ کراس پرواقع ہے،جانتے ہو؟وہاں   بڑے بڑے کیبن بنے ہوئے ہیں               ۔جن میں معقول نوعیت کی سجاوٹ کی گئی ہے۔وہاں آرام سے وقت گزاراجاسکتاہے۔یہ جگہ تمہارے گھراور میرے گھرکےدرمیان ہے  ں جانتاکہ آج مجھے نیندکیسے آئے گی۔کل  رات ساڑھے سات بجے وہاں آجانا۔میں تمہارا انتظارکروں گی۔

مائیکل کے من میں پہلی بار لڈوپھوٹنے لگے۔اس نے بئیر                   کا کاایک  جام پیا۔    ' میں نہیں جانتا کہ میں یہ وقت کیسے گزاروں۔گا۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے رات نیند کیسے آئے گی۔ اس کے گھر کے نزدیک تمام  کیفے، ریستوران اور ہوٹل  غیر محفوظ  اور بدتر تھے۔  مارگریٹ نے بڑی عقلمندی سے ملاقات  کا مقام  منتخب کیا تھا۔ کیا یہ ایک مے خانہ ہے؟' یہ لکھ کر اس کلک کردیا۔                                 'مارگریٹ نے اپنی ای۔میل جلدی سے پڑھی۔            

                              '       میں نہیں جانتی ڈارلنگ!                     میرے ہفتے کےآخری دودن پیرس ،  واشنگٹن اورکبھی کبھار رٹز ،کارلٹن یا برسٹل میں گزرتے ہیں۔یہ لکھنے کے بعد اس نےوہ تحریرکاٹ دی تھی۔۔۔میں بیوقوف ہوں ،تمام وقت میرے اعصاب پر یہ سوار ہوتاہے کہ تم سے کیسے ملوں  گی۔ میں تمہارےلئے بہت خوش ہوں  کیرین نے ٹائپ کیا۔ یہ لکھ کر کاٹ دیا۔اس نے اس کی جگہ لکھا۔ڈارلنگ!'ریڈ لائن کلب' بہت زیادہ رومانی لگتاہے۔۔۔توساڑھے سات بجے ۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔میں بھی رات بھر سو نہ پاؤں گی۔   '                  بھرپور پیارکے ساتھ  کیرین۔سیڑھیوں کے نیچے مائیکل جیمز نے ایک جوشیلا نعرہ لگایا۔'گول۔ شاندار گول، بہت عظیم، دلچسپ'۔۔۔

اگر اس کامیاں اس کی ای۔میل پڑھتارہاہو تو وہ مارگریٹ کی جاسوسی کرنے کے لئے کیا تدبیر اپنائے گا۔ مائیکل جیمز سے سوچا۔

  کیرن کا میاں  شکی مزسج ہے۔وہ کیرین کی ہر مشکوک حرکت پر نظر رکھتاہوگا۔    رات ساڑھے سات بجے اس کا پیچھا کرکے 'ریڈ لائن کلب'               تک  پہنچے گا۔ ماحول کا بغور جائزہ لینے کے لئے دور دراز تاریک  جگہ پر اپنی گاڑی پارک کرے گا تاکہ نظروں میں آئے بغیر اپنی بیوی   کیرین  کو اپنے آشناکے ساتھ  رنگے  ہاتھوں پکڑ سکے۔اس کے بعد اگلاقدم اٹھائے گا۔اس لئے مائیکل نے   کیرین کے خاوند  کی نظروں سے بچنے کے لئے سوچاکہ وہ  اس ہوٹل  کی پارکنگ میں ایک گھنٹہ پہلے پہنچ کر حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی ہوٹل کے اندر جائے گا۔اس نے ایسا ہی کیا ۔ اس نے بتایا تھا کہ  وہ پروگرام کے مطابق  نے ایساہی کیا۔مائیکل  نہا دھوکر مطلوبہ سوٹ پہن کر ہوٹل کے لئے نکل پڑا۔اس نے وہ پرفیوم لگائی جو مارکیرین  کو پسند تھی۔۔  پہنے گا۔اس  سبز رنگ کاسوٹ  میں ہوگا ۔وہ نہایا اورغسل کرکے شیوبنا کرآیاتھا، پودینے والی ،جسم پر  خوشبو سے اس کی مردانہ وجاہت میں اضافہ ہوگیاتھا ۔ اس وقت اسے                                  ایسالگ رہاتھاکہ جیسے  اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوں ۔ مائیکل جیمز  نے   پورے ماحول کاجائزہ لیا  تو اسے کوئی ایسی  بات نظر نہ آئی  جو مشکوک ہو۔اس نے اپنی                                                            گھڑی پروقت دیکھاتوسات بج کر بتیس منٹ ہوچکےتھے۔اس نےگہری سانس لی اوراندر داخل ہوگیا۔اس کی محبوبہ ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔وہ  کسی کی نظروں میں آئے بغیر اس کا انتظارکرنے لگا۔

کیرین بی۔ایم۔ڈبلیو میں آئی تھی                          ۔ا س نے یہ دیکھ کر اطمینان کاسانس لیاکیونکہ کار پارکنگ تقریباًخالی تھی۔اس نے اپنی کار پارکنگ لاٹ  کے سب سے دورکونے  میں گاڑی پارک کردی۔اس کی انرونی بتی جلاکر اپنامیک اپ ٹھیک کیا۔پھر دروازہ کھول کر کار مقفل کیسات بج کر سینتیس منٹ ہوچکے تھے۔اس کے کہا کہ ملاقات  کے لئے وہ  سات منٹ لیٹ  ہو گئی تھی۔وہ   گھبرائی ہوئی  تیز تیز قدموں      سے ریڈ لائن کلب کے مین  دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔  مائیکل  نے اسے اس کے لباس اور نشانی سے پہنچان لیا۔

وہ کلب  میں داخل ہوگئی  اور یہ دیکھ کر ناامید ہوگئی کہ مائیکل کانشان دوردور تک نہ تھا۔اس کا خیال تھا کہ جس طرح کاجنون مائیکل نے دکھایاتھا،وہ پہلے پہنچ چکاہوگالیکن وہاں چند میزوں  پر سیلز مین قسم کے جوڑے بیٹھے تھے۔ایک بوڑھا تنہابیٹھاتھااور بار کے ایک سٹول پرایک موٹی ادھیڑعمر خاتون  بیٹھی تھی۔اس کے ساتھ والے سٹول پر ڈینم پہنےایک گوریلانما شخص  واش روم سے آیا اور اس کے پاس آکربیٹھ گیا۔اس کاجسم گودنے والے نشانات سے بھراپڑاتھا۔اس کے حلئے سےوہ  خاتون   جھینپ گئی۔اس کا سگریٹ ایشٹرے میں سلگ رہاتھا۔اس نے اٹھایااور کش لینے لگی۔

کیرین  بارمیں داخل ہوئی۔ ادھر ادھر اپنے محبوب کو تلاش کیا ۔اسے نظر نہ آیاتو وہ کاؤنٹر کے سٹول پر  گئی اور جام کاآرڈر دیا۔ س کی شکل و صورت اور ہیئت دیکھ کر مائیکل  بھونچکا رہ گیا اور اوٹ میں ہو کر اس کا مشاہدہ کرنے لگا۔

سگریٹ کاایک پیکٹ اور لائٹر اس کے سامنے کاؤنٹر پرپڑاتھا۔اس سے پہلے   کیرین نے کبھی نہیں بتایاتھا کہ وہ سگریٹ پیتی تھی لیکن مائیکل نے  دیکھا کہ وہ    بے حد، بےحد ۔۔۔۔ضرورت سے زیادہ بھدی تھی۔وہ ایک چڑیل سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔اس نے اپنی جوتصویر مائیکل کوبھیجی تھی،اس کے برعکس تھی۔ وہ  ریستوران  اس وقت قریباًخالی تھا۔۔۔وہ مائیکل کی سوچ سے بھی بری تھی۔سگریٹ کاایک پیکٹ اور لائٹر اس کےسامنے کاؤنٹر پررکھاتھا۔اس سے پہلےمارگریٹ نےکبھی نہیں بتایاتھاکہ وہ سگریٹ پیتی تھی لیکن وہ بہت بہت بہت  ہی زیادہ بدصورت  ی،وایک  بال سنہری تھے لیکن وہ چڑیل سے بھی بھیانک تھی ۔اس نے اپنی  مماثلت نہیں تھی۔تصویر میں  کیرین  کے گیسو بہت لمبے تھےلیکن اب وہ بہت چھوٹے تھے۔ جواس نے مائیکل کو بھیجی تھی  سے ذرہ              برابر مشابہت  س نہ تھی۔ اس نے اپنی طرف سے اپنے بال سنہری کئے ہوئے تھے  جو اصل میں مہندی  رنگ کےتھے۔ لگاکر ۔وہ اس کےبال گھنے بھی نہیں تھےجواس نےنے یہ کبھی  نہیں بتایاتھاکہ  اس  نے اپنے بال ترشوا لئے تھے ۔اس کا چہرہ ہولناک تھا۔   بےحد بھداتھا اپنی تصویر سے تین چارگنا زیادہ موٹی تھی۔ متفقہ  پروگرام  کے مطابق اس نے ایک بیہودہ سی سکرٹ پہنی ہوئی تھی۔اس نے اپنی عمر کےبارےمیں نہیں    بتایاتھااور اس کی یہی بات ہی سچ تھی۔

 اسےدیکھ کرمائیکل نے حتمی فیصلہ کرلیااورکہا۔'نہیں۔ بالکل بھی نہیں۔نہیں۔افسوس ہے، افسوس  ہے،افسوس اوہ۔نہیں۔'مائیکل سے اپنے سرپرہاتھ مارکرکہا۔اس کادل بیٹھ گیا۔

  مائیکل نے  اس سے ملنا گوارا تک نہ کیا۔  ۔ مائیکل                 نے اسے دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیا                 ۔ اور اضطراری کیفیت میں  چیختاہوا اپنی پارکنگ کی طرف بھاگا کہ کہیں کیرین دیکھ نہ لے۔اسے اپنے آپ پر شدید غصہ  آگیا۔  دوڑنے کی وجہ سے وہ پسینے  سے شرابور ہوگیا۔  چیختاہوابھاگا،غصے سے پسینے میں شرابور اور انتہائی شرمندگی سے،اپنے موبائیل کوبند کردیاتاکہ کہیں مارگریٹ کا فون نہ آجائے۔  جھک کرتیزتیزچل کراپنی کارکی طرف بڑھا۔۔۔'احمق'۔ ۔۔اس نے خود کوکہا۔

مائیکل پارکنگ سے گاڑی بھگاتا اپنے گھر آیا۔اپنے    کمرے میں جاکر کمپیوٹر چالو کیا۔ سکرین دیکھی۔۔۔'کتیا'۔۔۔اس کےمنہ سے نکلا۔کس قدر ذلیل ہو تم توگھٹیا  سورنی نکلی۔' اس نے ایک کلک کی اور اس کی تمام ای۔میل اڑا دیں۔دوسری کلک سے  اس نے اس کے فوٹو بھی  ردی کی ٹوکری میں بھیج دئیے۔اس  کی صرف دو کلیک نے اس سے  ماضی کاتمام   ریکارڈ   مٹادیا۔  

دس بجے  رات  واپس گھر پہنچنے پر  جیمز   نے  فٹ بال کے میچ کے ختم ہونے پر  ٹی وی سکرین سے نظریں ہٹائیں تودیکھا کہ اس کی بیوی مارگریٹ    اپنی پارٹی سے واپس  آچکی تھی۔

'تم جلدی آگئیں۔  خیریت تو ہے ۔تمہاری تورات گئے واپسی تھی ۔ تمہارا اپنی سہیلیوں سے ملن کیسارہا؟مائیکل 'جیمز نےپوچھا۔

'مجھے ملن پارٹی میں ایسالگاکہ میں             تمہیں مناسب وقت نہیں دے پارہی تھی۔ میں تمہیں  نظر اندازکررہی تھی۔مجھے  احساس جرم محسوس ہوااورایسا  لگا کہ میں  تمہارے ساتھ زیادتی کررہی تھی۔مزید  وقت گزارنا مشکل ہوگیا تو میں وہ پارٹی  درمیان  میں چھوڑ کے  چلی آئی۔ اپنی سابقہ سردمہری پر بے حد افسوس ہے۔اس نے اپنا ہاتھ جیمز کی گردن میں حمائل کیااور اس کا بوسہ لیا۔جیمز نے اپنی نظریں  سکرین سے ہٹائیں  اور   مارگریٹ کی طرف دیکھا اور جواباً اس  کی گال  کوچوما۔ 'میں  تم سے محبت کرتاہوں۔'کہا۔

دوسری  طرف کیرین  اپنے کمرے میں گئی۔اپنامیل۔بکس           چیک کیا۔وہاں اس وقت کچھ بھی نہیں تھا۔کوئی نیاپیغام نہیں آیاتھا۔اس پر اس نے ٹائپ کیا۔۔۔میں نےتمہارا دوگھنٹے انتظارکیا۔۔۔پھر کچھ  سوچا   ۔وہ غصے سے لال پیلی ہوگئی ۔کمرے میں سردی  تھی۔ طیش میں لوہے اور  دہکتی چٹان کی طرح ہوگئی۔ تہہ تک پہنچ گئی ا۔ اپنی بے عزتی پر تپتی ہوئ چٹان  اور گرم  لوئے کی مانند ہوگئی  اور  مائیکل  کی ہسٹری کو  ٹائپ رائٹر کی دو کلک کرکے مٹادیا۔ 

    مائیکل نے   بھی دو کلک کیں اور کیرین اس کی زندگی سےہمیشہ ہمیشہ کےلئے غائب ہوگئی۔۔۔ کسی کوزندگی میں شامل کرنا یا خارج کرناآسان ہوگیاہے۔

Life history

Peter James

Uk

1948……….

پیٹر جیمز 22 اگست 1948 کو سسکس  شہر میں برائٹن  برطانیہ میں پیداہوا۔اس نے چارٹر ہاؤس  میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد راونس  بورن  میں فلم سکول میں گریجوایشن کی ۔اس کےوالد کانام  جیک  جیمز اور والدہ کانام کارنیلا کاٹز تھا۔ اس نے دوشادیاں کیں جارجیا   ویلکن   سے 19 سال شادی رہی،پھر اس نے 2015 میں  لارا جیمز سے شادی کی۔وہ 1970 میں شمالی امریکہ آیااور بہت عرصہ یہاں گزارا۔ امریکہ میں اس  نے اپنی زندگی ہاؤس کلینر سے شروع کی۔پھر وہ گالف کاکھلاڑی بنا۔اس کے بعد  ادیب اور  پھر 'پولکا  ڈاٹ  ڈان ' ٹی وی پروگرام کرنے لگا۔اس کو گاڑیوں کا بہت شوق ہے۔اس کے پاس قیمتی اور ریسنگ کاریں ہیں۔اس نے جرمیات،مذہب، ماورائی مخلوق  پر 36 ناول لکھے۔اس  کی کہانیوں پر بہت سی فلمیں بنیں۔اس نے بہت سی فلمیں پروڈیوس بھی کیں۔اس کی اہم تصانیف میں:

 Dead Simple( 201 Good Reads)’, Looking Good Dead, Not Dead Enough. Dead Man’s Footsteps, The Truth. Host, On Citadel Hill. The Secret of Cold Hill.Biggles. Dreamer etc.

Movies

Under Milkwood. Dead of Night. Children should Not Play with Dead things .Spanish Fly etc

Awards

W.H.Smith Award 2015, CWA Diamond Dagger Award (2016) and lot more Ards.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

36  

    لذت    کدہ                      

Love  Object
Edna ‘O’Brien

Ireland

Many Award Winner

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        اس نےمیرانام لیا 'مارتھا'۔۔۔اورمیں نے محسوس کیاکہ ایک بارپھریہ ہونےجارہاتھا۔میری ٹانگیں سفیدکپڑےکےنیچےکانپیں اورچکرآنےلگےحالانکہ میں پورےہوش وحواس میں تھی۔میں اس کی محبت میں گرفتارہوچکی تھی۔وہ آکر میرے سامنے بیٹھ گیا۔'عشق مقصود'   قاتل  بلوری آنکھیں ،بھورے خشخشی بال ، باہر کونکلی ہوئی  پسلیاں  چوڑائی میں ایسے پھیلی ہوئی تھیں کہ  انہیں اصلیت سے  بہت  زیادہ  بڑا  ظاہرکی جاسکے۔ اس کا  انداز  کچھ ایساتھا جیسے کوئ اپنا گنجاپن چھپانےکےلئے اپنے  بچے کھچے بالوں کی لٹ  کواپنے سرپرڈال  دیتاہے۔اس کےچہرےپردلفری مسکراہٹ تھی  جودل کی اتھاہ گہرائیوں کوچھورہی تھی ۔یہ لندن کی گرمیوں کاایک دن تھا۔ویٹر گرم گرم کھانے پیش کررہی تھیں۔سب ڈشیں مزیدارتھیں۔نائلن کےپردے  لٹک رہےتھے ۔میں  کھڑکی کےپاس بیٹھی تھی اور وہ بالکل ساتھ والی کرسی پرتھا اس لئےاس کےہاتھ  میرے ننگے  بازوؤں سے ٹکرارہے تھے۔مجھے غصہ تو آرہاتھالیکن میں نےبرداشت کیا۔

 ہم اِدھر      ُ ادھر کی باتیں کہتےسنتے  نازک رشتے میں  منسلک  ہوگئے تھے۔ ہم نے منگنی کرلی تھی۔اس دوران ہماری گفتگو کاموضوع  کامیاب اور ناکام جوڑوں  کی زندگی  تھا۔تمام وقت وہ ایک تابعدار بچے کی طرح ہاتھ باندھے بیٹھارہا۔ایسالگ رہاتھا جیسے وہ عبادت گاہ میں کوئی خطبہ سن رہاہو۔حقیقت میں اس وقت تک  ہم تقریباًاجنبی تھے لیکن پہلی نظر  والی محبت میں  گرفتار تھے۔ ٹی۔وی اناؤنسر کے طورپر میرا ایک بڑانام تھااور وہ  فلمی دنیا کی  مقبول ترین ہستی  تھی۔ہماری پہلی ملاقات ایک ایسے پراجیکٹ پر ہوئی جس میں ہم اکٹھےکام کررہےتھے۔میں فلمی اور نشرواشاعت کی نمائندہ تھی۔اس نے مجھے ڈنر کی پیشکش کی جومیں نے قبول کرلی۔وہ وہاں اپنی بیوی کی باتیں کرتارہا جو میری طرح تیس سال کی تھی اور اس کی تیسری بیوی تھی۔ اس کے مطابق  اس کی  یہ شادی  یکدم  ہوگئی تھی۔۔۔ جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ ہوگیاتھا لیکن  وہ اس  کی تفصیل میں نہیں گیاکہ ان کی ملاقات کہاں ہوئی، بات کیسے آگے بڑھی ،اس کی شکل و صورت کیسی تھی وغیرہ ۔۔۔میں  اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ مجھے جہاں تک یادپڑتا ہے ،اس سےپہلی ملاقات میں میں نے لمبے بازوؤں والاکریشئیے کا ارغوانی رنگ کا آستینوں والا  سویٹر پہناتھا۔ وہ پہناوا مجھے بے حد مرغوب تھا ۔اسے پہن کر میرا حسن   دوبالا ہو جاتاتھا اور میں بے حد سیکسی لگتی تھی۔مجھے محسو س کرکے اس کے جذبات  اتنے وحشیانہ ہوگئے تھے  جیسے  وہ میرےساتھ فوری بھاگناچاہتاہو ۔اس  نے اپنے  گلابی ہاتھ  اس انداز میں  اٹھائے ہوئے تھے جیسے وہ اپنے دعا کی فوری  تکمیل چاہتاہو۔اس کاچہرہ اگرچہ اس وقت غمزدہ تھالیکن  پرکشش  تھا۔

ہم نےسہ پہرکی ضیافت کے بعد بڑےشوق سےانجیریں کھاناشروع کیں۔  بڑی نفاست سے اس نے پہلی انجیر میری انگلیوں پررکھی  اور میں نےاسے کھایاتو مجھے بہت مزہ آیا تو اس نےمزید تین انجیریں میری پلیٹ میں رکھ دیں۔میں اس پھل کی سیاہی مائل ارغوانی رنگ کی  خوبصورتی میں کھوگئی  اور سوچنے لگی کہ  کیا میں  پوری کھا بھی پاؤں گی ۔۔اس نے میرےتذبذب کوبھانپ  لیا  اورایک لڑکی کاقصہ سناناشروع کردیاجس نے  ٹی وی  کے ایک شو میں  اس کا انٹرویوکیاتھا۔وہ جوتوں  اور کپڑوں کی شوقین تھی ۔اس کےپاس ہرقسم کے جوتے تھے جن کی تعداد اس وقت 37 تھی ۔ابھی بھی انہیں ناکافی سمجھتی تھی اوروہ اس روزایک اور جوڑاخریدنے جارہی تھی۔وہ ہرہفتےنیالباس بھی خریداکرتی تھی جسےبعد میں اپنےدوستوں اور رشتےداروں میں بیچنے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔اس کی اس بات کا میرے معاملے سےکیاربط تھا، کاپتہ نہ چلاتاہم وہ وموضوع بدلنے میں کامیاب ہوگیاتھا۔ ممکن ہےکہ اس نے بیٹھے بیٹھے  کہانی گھڑی ہو۔ایسی بے تکی کہانی  اور اپنی نجی زندگی پرکوئی  معقول شخص   پہلی  ملاقات  میں دوسروں کےسامنے نہیں کرسکتا  تھا تاہم میں  نے  اس  ذکر کو  جو اس نے غیر ضروری  طور پر کیاتھا ، نظرانداز کیا۔

بات انجیر سے چلی تھی۔میں نے ایک اور انجیر بغیرڈنڈی کاٹے کھائی۔یہ میرے لئے ایسا پھل تھاجسے میں پہلی بارکھا رہی تھی۔ اس  کا ذائقہ  بھی میرے لئے بالکل اجنبی تھا۔ مجھے کچھ کھٹامیٹھالگا۔بعد میں انجیر اور  ہم بستر ی   پرپریمی  کاذائقہ دونوں ہی زبردست تھے۔اگلی صبح اس  کاجوش وولولہ ختم ہوگیاتھا۔وہ  سردمہری  دکھارہاتھا۔رات گئی بات گئی والی کہاوت ہو گئی تھی۔ بھرپور رات  گزارنے  پر نہ تو اسے کوئی شرمندگی تھی اور نہ ہی چاہت کااحساس۔وہ  لطف  اس کے لئے اب  غیراہم ہوگیاتھا۔ اس کی بجائے اس کے نزدیک اس وقت   سب سے اہم   چیز اپنے لباس    کو صاف کرنا تھا۔ وہ بڑی شدت سے  کپڑوں کابرش تلاش کررہاتھا۔ تھا تاکہ وہ داغ  صاف کرسکے۔رات مجھ سےبغلگیر ہوتے اور ُکشتیاں کرتے وقت  لپ سٹک ،پاؤڈر وغیرہ   کے دھبے اس کی جیکٹ پر لگ گئے تھے انہیں اچھی طرح مٹانا چاہ  رہاتھا۔رات جوکچھ بھی ہوا  ،میرا کرنے کاارادہ نہ تھا۔بات  چومنے سے شروع ہوئی اور معاملات  آگے بڑھتے گئے۔وہ  سب اتفاقی تھا۔میرااس کےساتھ اتناآگےتک  جانے  کاکوئی ارادہ نہیں تھالیکن اس کی کرشماتی    شخصیت  کے زیر اثر میں  اسے چوم بیٹھی اورمعاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔ ۔مجھے ایسانہیں کرنا چاہیئے تھا۔بہرحال جوہوناتھاوہ ہو گیا تھااور اب افسوس کرنے سےکیاحاصل بات برش کی ہورہی تھی۔میرے پاس  کپڑے صاف کرنے والا برش  نہیں تھا۔مجھے اسے خریدنے کی کبھی  ضرورت ہی پیش نہ آئی تھی۔میری یہ عادت تھی کہ میں اس کی کمی   نت نئے جدیدترین فیشن کے لباس   پہن کر اور پرفیوم لگاکر پورا کرتی تھی۔میں ایسے کیمیاجس سے کپڑوں کی عمربڑھائی جاسکےکواستعمال کرناپسند نہیں کرتی تھی بلکہ انہیں یاتوپھینک دیتی یاپھر خیراتی اداروں کودان کردیاکرتی تھی۔ برش  نہ ہونے کا حل اس نے یہ نکالا  کہ اس نے رومال گیلاکرکےوہ دھبے مٹادیئے۔کپڑوں کےبرش کے علاوہ دوسری شئے جواس نے مانگی  وہ جوتوں میں ڈالنےوالااسترتھا۔نئے جوتے نےاس کےپاؤں کاٹنے شروع کردئیے تھے۔وہ بھی میرےپاس نہیں تھا۔ بچوں نےگرمیوں کی چھٹیوں میں انہیں ضائع کردیاتھا۔اس نے میرے گھرکاجائزہ لیاتواسے معلوم ہواکہ میرے دونوں بیٹوں کے مشغلے لیٹ کرلطیفوں والی  کتب  پڑھنا،سائیکل سواری ،ُکشتیاں اورجناسٹک میں  چوٹیں  اور زخم لگواناتھےجنہیں دور کرنے کےلئےہروہ حربہ استعمال کرتے تھے جوانہیں فوری آرام پہنچائے۔انہوں نے وہ  اشیا استعمال کرلی تھیں۔ مجھے چونکہ ان چیزوں کے ختم ہونے کااندازہ نہیں تھااس لئے میں  نے  نہ  خرید یں۔ لیکن اسے میرے بچوں کی سرگرمیاں اچھی لگیں۔میرے  دونوں بیٹوں کی تعریف نے اس کی  میرے دل میں مزیدجگہ بنالی۔ میرے بچے اس رات  میرےپاس نہیں  تھے  جو اپنے باپ   سے ملنے گئے تھے۔مجھے وہ بہت یادآئے۔

اس شخص  کی دوسری بات جومجھےاچھی لگی کہ اس نےمیری لاپرواہی جوکپڑوں کےبرش اور جوتوں کے استرکےنہ ہونےکی تھی کو  یکسرنظرانداز کردیا۔میرے دونوں بیٹے جوبتدریج آٹھ اور دس سال کےتھےاور میری طلاق کےبعدبورڈنگ ہاؤس میں رہ رہے تھے ،کی مجبوری کوتسلیم کیا۔علیحدگی کےوقت میں انہیں اپنے پاس رکھناچاہتی تھی لیکن اس وقت میرے میاں نے ایساکرنے پر اعتراض کردیااور عدالت میں یہ مؤقف اپنایااکہ اگروہ اپنی ماں کےپاس رہیں گے تو بیٹوں کارجحان اپنی والدہ کی طرف زیادہ ہوجائےگا۔اس کاان پر اثرورسوخ  زیادہ ہوجائےگااور اس کی حق تلفی ہوگی۔ عدالت نے اس کی دلیل  تسلیم کرتے ہوئے انہیں بورڈنگ میں رکھنے کا حکم  صادر کر دیاتاکہ دونوں والدین کااثربرابررہے جب کہ میں یہ سمجھتی تھی کہ میرے پرانے خاوند نے عناد میں  ایسا کیاتھاکہ میں اپنے بیٹوں کی صحبت اورپیارسے محروم ہوجاؤں۔

اس شخص اور میں نے ناشتہ باہرکیا۔یہ موسم گرماکادوسرادن تھا۔ان دنوں گردوغبار فضامیں چھانے لگتاہے۔گرمی میں اضافہ ہوگیاتھا۔میرے پڑوسی نے اپنی گھاس اور کیاریاں  سوکھنےسےبچانے کے لئے پانی کی پھوہار چھوڑی  ہوئی تھی۔ناشتے میں اس نےتین سلائس اورچندٹکڑے گوشت کےکھائے۔میں  ناشتہ نہیں کیا کرتی تھی لیکن  اس  کا  ساتھ دینے کےلئےتھوڑابہت زہرمارکیا۔میں نےاس دوران سوچاکہ میں کپڑوں کابرش اور جوتوں کااستر وغیرہ خریدلوں گی تاکہ بعدمیں  شرمندگی  نہ ہو۔

کیاپھر آؤگے؟ میں نےپوچھا۔اس نے سلائس  منہ میں ڈالتے ہوئے میری آنکھوں  میں آنکھیں ڈال کرمیری طرف دیکھتےہوئےاپناہاتھ میرے کاندھےپررکھتے ہوئے پرعزم  لہجے میں کہاکہ میں تمہارےساتھ عارضی تعلقات نہیں رکھوں گا۔یہ مستقل ہوں گےلیکن  ایسی ملاقات  ہرماہ  یااس  سے کچھ اوپر دنوں میں ایک دفعہ ہوگی۔ امیدکرتاہوں کہ  ہم پکے دوست  بن جائیں  گے۔میراارادہ  صرف  اپنی تسکین کی حد تک ہی تھا۔اس سےپکی دوستی کاہرگزنہیں  تھالیکن اس کی جادوئی  نامور شخصیت سے مجھےاس کا ارادہ اچھا لگا۔مجھے اس کی کہی گئی رات کی وہ بات یادآئی جس میں اس نےاپنی تینوں بیویوں اور ان کےبچوں  کےبارے میں لگی لپٹی بغیرسب کچھ  سچ سچ بتا دیا تھا اورمیں اس کی بےباک  سچائی سے مرعوب ہوگئی تھی۔اس نے  ہمدردی حاصل کرنے کے لئےمبالغہ آرائی نہیں کی تھی۔وہ تنہائی کاشکاراب بھی نہیں تھا۔آج بھی اس کی ایک بیوی تھی اور ادھرادھر بھی اس کی دوستیاں تھیں۔اس کے علاوہ اس کی ایک اور چیز جواچھی لگی  وہ یہ تھی کہ اس نے خود سے  بستر کی چادر سیدھی  کی اوردوسری تہہ کی  جومیں نےکبھی نہیں کی تھی۔

وہ چلاگیاتومیں مطمئن تھی۔اس کے ملاپ  سے مجھ میں  لذت   کااحساس  پیداہوگیاتھا۔میری گھٹن اور اضطراری کیفیت ختم ہوگئی تھی۔مجھے قراراورسکون آگیاتھا۔اس کے ساتھ اختلاط  میں کوئی وعدے وعید اور وفاداری کی  شرط  نہیں تھی۔یہ  انتظام  ہم دونوں کے حالات  کے لئے موزوں  تھا۔تعلقات میں کسی قسم کے منفی اثرات  کا خطرہ نہیں تھا۔میں  رات کواس کے جذبات کی شدت سے متاثرہوگئی تھی۔اسکے ساتھ مشقت میں میرے بال بکھرگئےتھے۔میں نےوہ رات ایک فاحشہ کی طرح گزاری تھی۔میں اس کےساتھ پہلی ہی ملاقات میں اس حد تک آگےچلی گئی تھی  پرحیران  تھی۔اس کے جانے کے بعد مجھ پررات کی   محنت کا نتیجہ سامنے آرہاتھا۔ تھکاوٹ طاری ہوگئی  تھی جسے  دورکرنے کے لئے میں  آرام کرنا چاہتی تھی۔ میں نے کمرے کےپردے چڑھائے اور بسترپردرازہوگئی۔ایسامحسوس ہورہاتھاکہ ایک   سہانا خواب تھاجو گزشتہ شب  میں نے  دیکھاتھا۔میں گہری نیند سوگئی جب جاگی توتازہ دم تھی اور خیال تھاکہ میرادن خوشگوار گزرے گا۔دودن بعداس کافون آیااورکہاکہ  وہ رات میرے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ اس روز میں فارغ تھی اسلئےمیں نےاسےکہاکہ سہ پہرکوہی آجائےتاکہ ہم  اکٹھے کھاناکھائیں اوراپنی نئی نئی دوستی پرحق مہرثبت کریں ۔میں نےرات کے لئے بھی خودکوتیارکرلیا۔

ہم نےبڑااچھاوقت گزارا۔اس نے  اپنی رائے دی (اور میں بھی یہی چاہتی تھی) کہ  عشق کسی  پابندیوں کونہیں مانتااورجوکیا جائےکھل کربےخوف وخطرہوکرمکمل بھروسےسےکیاجائے۔اس بار اس نے انجیریں خودہی صاف کرکے مجھے کھلائیں۔ہم نے ریستوران میں اپنی پوزیشن ایسی رکھی کہ ہمارے گھٹنےایک دوسرے کوچھوئیں اور ضرورت پرفوری ہٹائےجاسکیں۔ہماری اس وقت شدیدخواہش تھی کہ  ہمارے جنون   کی تسکین ہو۔ہم گھر آکرلیٹے تومجھے اس سے  رومانی پرفیوم کی خوشبوآئی۔ میں پرفیوم سےزیادہ فطری خوشبوپرزیادہ یقین رکھتی  ہوں۔اس میں مصنوعی کیمیاکی خوشبوسے زیادہ چاشنی تھی۔میں نےاسے اپنی یہ پسندبتائی تووہ کھلکھلاکرہنس پڑا۔اس سے پہلے میں عمل میں میں اتنی مطمئن نہیں ہوئی تھی۔اس سے پہلے میں چارایسے عشق کرچکی تھی لیکن اپنے  جذبات کااظہار کھل کرنہیں کیاتھا۔عاشقوں کےعطر   کی خوشبوؤں سے کسی حدتک مسحورہوبھی جاتی تھی لیکن   وہ مجھے جڑی بوٹیوں اجوائن،دھنیا ،پارسلی  ،پودینہ وغیرہ  کی یاددلادیتی تھیں۔تاہم ہمارادوسری بارکاپیار مجھے زیادہ اچھالگا۔

'تم نے اگرمجھے ایک ہوس زدہ عورت بنادیاتوتم کیسے نبھاؤگے؟'میں نےاس سےپوچھا۔

'اس صورت میں  تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ تمہاری  مکمل تسکین  میر ا کوئی    طاقت ورگہرا دوست  کر دیاکرے گا۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔' اس نے کہا۔او وقت اس کا ارغوانی سر میری چھاتی پر اور میرا اس کے کندھے پر تھا اور ماحول رومانی تھا۔ مجھے اس وقت ایسا محسوس ہوا جیسے  ایک ریلوے پل کے نیچے اپنے گھونسلے میں اپنے ارمان پورے کر رہے ہوں۔ رات بھر ہم  سرگوشیوں میں میٹھی میٹھی باتیں کرتے رہے اور  ایک پل بھی  نہ سوئے۔

                                                               ہم میں سے کسی نے بھی رات والے واقعےکاذکرنہ کیا۔پھر آخر اس منہ سے نکلا کہ ہمارے تعلقات اتنے قریبی ہوگئے ہیں کہ وہ   معاشقے کی شکل اختیار کر گیاہے۔اس  کے بعد ہمارے تعلقات میں مزید گہرائی آتی گئی اور یہ  جذبات محبت میں تبدیل ہوگئے۔ملاقاتیں تواتر سے  ہونے لگیں۔ ریستورانوںم یں جانابند ہوگییااور  خلوت  میں وقت بسری  ہونے لگی۔ میرے عاشق کے لاکھوں کروڑوں مداح تھےاور کوئی سکینڈل اس پر بہت بھاری پڑسکتاتھا۔ جب وہ میرے پاس آتا تو پہلے سے  بتادیتا۔وہ  رات کےکھانے پرآنےلگاتو میں تازہ پھول گملوں میں سجاتی، دھلی ہوئی چادر بسترپربچھاتی،تکیوں کوتھپتھپاکر نرم  کرتی ،بہترین کھاناپکاتی، میک اپ کرتی،  بالوں کابرش قریب ہی رکھتی تھی۔لیکن وہ ۔۔۔ایک روز وہ طےشدہ وقت سے پہلے آگیا۔بدقسمتی  یہ ہوئی کہ میں   گھنٹی کی آواز نہ سن پائی۔

'کیاتم جانتی ہوکہ نخلستان کیاہوتاہے'؟اس نےکہا۔اس کےبعداس نےاپناہاتھ میرے کندھےپررکھا۔میرے پتلےریشمی لباس کو کھینچااور کہا  ' میں نے تمہیں دیکھناہے ۔دیکھنے دوناں !اور مجھے دھکادے کرلٹادیا۔ میرے جذبات پوری طرح بھڑک اٹھے تھے۔میں خود بھی یہی چاہتی تھی۔جب کبھی ایسا معاملہ ہوتا  تو بوس وکنار سے سلسلہ شروع ہوتاجس کادورانیہ تقریباًپانچ منٹ ہوتا۔وہ میرے نتھنوں کوبھی چومتا۔اس کےبعدہم دیوان خانے میں بیٹھ جاتے اور محبت کاکھیل کھیلتے کھیلتے لاؤنج میں چلےجاتے۔اس وقت تک ہم کوئی لفظ کہے بغیر ایک دوسرے میں الجھے ہوتےپھروہ میری ران پرہاتھ پھیرتااوراس کی تعریف کرناشروع کردیتا ۔ میراایک ایک انگ دیکھتااور سراہتا۔میرے پہلے عاشقوں میں سے کسی نے کبھی ایسانہ کیاتھا۔اس کے بعد ہم بستر پرچلےجاتے۔اور۔۔۔

سہ پہرکےآخری حصے میں ایک دفعہ  میں کسی کےساتھ تھیٹرجانے کےلئےتیارہورہی تھی تو وہ غیرمتوقع طورپرآگیا۔'میری کتنی خواہش تھی  کہ تمہیں تھیٹرلےجاؤں۔ہم کسی روز اکٹھے  تھیٹرجائیں گے۔'یہ کہہ کراس نے اپناسرجھکالیا۔یہ پہلی بارتھی کہ  میں نے اس کی آنکھوں میں افسردگی دیکھی ۔میں  نےمصنوعی پلکیں لگائی ہوئی تھیں اورپورےمیک اپ میں تھی۔اس نےکہا ، کیاتمہیں کسی شخص نےیہ بتایاہے کہ  ایسی خاتون جس سے تم ملناچاہ رہےہوکےساتھ  ملاپ نہیں کرسکتےتواس کوکتنی تکلیف ہوتی ہے۔آج جومیرے ساتھ ہورہاہےمجھ سے پوچھو۔'وہ درد مجھ میں بھی پیداہوگیا اورتھیٹرمیں پورے شومیں رہا۔میں نے خودکوکوساکہ میں نےاسےملاپ سےمنع کیوں کیابلکہ محرومی کے اس احساس نے مجھے مزید مایوس کیاکیونکہ  اس انکار کے بعد یہ ملاقاتیں محدودہوگئی تھیں۔ دوسری  وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی جو اپنے بچوں کےساتھ چھٹیاں  گزارنےفرانس گئی ہوئی تھی واپس آگئی تھی۔ وہ اپنی نجی زندگی  کاتذکرہ اپنی ملاقاتوں میں کیاکرتاتھا۔اس نے یہ بھی بتایاتھاکہ اس کی بیٹی نے اس کی  نہائت قیمتی دستاویزپرپیشاب کردیاتھا۔اس نے یہ بات برسبیل تذکرہ  کردی تھی۔اس کایہ اطلاع دینےکاکوئی مقصدنہیں تھا۔

اس کی فیملی آنےکےبعداس کارات کوملناختم  ہوگیاتھا۔اس کی جگہ اب وہ نہائت مختصرنوٹس پرسہ پہر کوملاقاتیں کرتا۔جس رات اس نے میرے ساتھ رات گزارنی ہوتی وہ  اپنا سفری بیگ تھامے  اپنی بیوی سے کاروبار میٹنگ کا  شہر سے  باہر جانے کابہانہ بناکےآجایاکرتاتھا۔میراخیال تھاکہ اس کاسفری بیگ اس کی بیوی تیارکرتی ہوگی۔وہ اس کےسفری کپڑے،نائٹ ڈریس،شیونگ کٹ وغیرہ رکھتی ہوگی۔میں سوچتی کہ چیزکتنی مضحکہ خیزتھی  کہ بیوی کسی میٹنگ کےلئے تیارکرے اور میاں اسے دھوکہ دےلیکن میرے دل میں اس کی بیوی 'ہیلن'  کےلئے کوئی رحم نہیں تھا۔میں اب اپناحق  سمجھنےلگی تھی۔وہ عام انداز میں ہیلن  کاذکرکرتاتومجھے غصہ آجاتاتھاجیسے کہ ایک بار رات کوان کےگھرایک چور گھس آیاتواس کی بیوی نےپولیس بلالی لیکن وہ  ہاتھ نہ آیا۔وہ صرف امراکےگھروں میں جاتے ہیں۔تمہیں حفاظتی تدابیراختیارکرنی چاہیئں  پڑوسی نےہمدردی میں مشورہ دیا۔مجھے اس کی ان باتوں سےکوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے فوراًموضوع بدل دیا۔

ہیلن سےمیری جلن روزبروزبڑھ رہی تھی جویقیناًغیرمنصفانہ تھی۔اس کے باوجودمیں اس کےخلاف بات کرتی اورہرمعاملے میں ہیلن کوہی قصوروار ٹھہراتی جسے وہ پسند نہ کرتااور اس کےبارے میں گفتگوکرتے وقت بے حدمحتاط ہوجایاکرتا۔وہ  ہمیشہ جمع کاصیغہ استعمال کیاکرتاتھا۔وہ  جب بھی آتا ملاپ کےبعدکم وبیش ایک گھنٹہ بیٹھتا ۔اپنا مطلب پورا کرنے کے بعداس کے چہرے پر بے پناہ سکون  کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ایک بارہم فطری لباس میں بسترپربیٹھے دھوئیں میں  تلی سالمن مچھلی  کا سینڈوچ کھارہےتھے۔ شام ٹھنڈی ہوگئی تھی۔یخ بستہ ہوائیں چلناشروع ہوگئی تھیں۔آتشدان  کی آگ ہلکی آوازپیداکررہی تھی۔وہ کہہ رہاتھاکہ مارتھاتمہارارنگ وروپ ایسا پرکشش ہے کہ وہ محبت کئے بنارہ نہیں سکتا۔اس کاچہرہ اور مہاگنی رنگت والی چھاتی  پرمیں مرمٹی تھی۔تصاویرمیں تووہ  یونانی دیوتالگتاتھا۔

عمدہ باتوں کےباوجود سب کچھ اچھانہیں تھا ۔جنون  میں کمی لگ رہی تھی جس کااثرآتشدان پربھی نظرآرہاتھا۔اس کی حدت بہت کم ہوگئی تھی۔وہ قالین جوبکری کی کھال کاتھا، کھڑکی کےپاس بچھایاگیاتھا،نرم وملائم تھا۔اس پربیٹھنے یاسونے سےبہت آرام  ملتاتھا۔ بستر  سے زیادہ اسے قالین یافرش پرآنکھوں پرتکیہ رکھ کر سونے میں مزہ  آتا تھا۔اس کایہ انداز مجھے بھاتاتھا۔میں نے اضطراری طورپر اس کاہاتھ پکڑااور اس  قالین  پرلٹادیا۔اس مقام پرہمارے کردارتبدیل ہوگئے ۔ میرا رول ماں والابن گیاتھا۔میں اس کےلئے سب کچھ کررہی تھی۔متنوع  مطالبات نے ہمارے اندر جوش و ولولہ پیداکردیاتھا۔ہم نے رومانیت میں کوئی مفاہمت نہ کی اور ارمان پورے کئے۔ملاپ کےبعد وہ سب سے زیادہ شہوت انگیز  اعمال بیان کرکے لطف اندوز  ہورہاتھا۔میں بھی  ایساکرناپسند کرتی تھی۔اس کے بعد ہم کپڑے پہن لیتے۔وہ اپنی بغلوں کے پسینے کومیرے  اس بلاؤزسے جومیں پہنے ہوتی اچھی طرح خشک کیاکرتاتھا۔وہ میرے پسندیدہ لباس کےبارے میں پوچھاکرتا۔جب بھی میں اس کےساتھ ڈنرپرجاتی تووہ میرے لئےکالالباس ہی پسندکرتاتھا۔اسےپتہ تھاکہ میں دوسروں کےساتھ بھی ڈنرپرجاتی تھی تووہ میرے ان لباسوں پرجومیں نے ان  کھانوں  پراوراس کےساتھ پہنے ہوتے تخیلات میں لاکر موازنہ کیاکرتاتھاکہ کون سالباس اچھاتھا۔میں اسے کہتی کہ تمہاری بیوی ہیلن مجھے عملی طورپرتوتم سے دورکرسکتی تھی لیکن میرے خیالوں  سے جدانہیں۔ میں تمہارے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔اس نے کہاکہ وہ بھی  ایساہی کرتاہے۔جب ہم جداہوتے توہم غم سے بیگانہ  ہواکرتے تھے۔

یہ واقعہ اس کےبعد کاہےجسے میں خواب کانام ہی دےسکتی ہوں کہ میں نیند سے بیدارہورہی تھی۔آنکھیں زبردستی  کھولنےکی کوشش کر رہی تھی ۔ لعاب دہن جوسوتے میں تکئےپرلگ گیاتھا خشک کرنےلگی تو کسی نے مجھے اپنی طرف کھینچااورمیں مفلوج ہوکررہ گئی اوروہ مجھ پرغالب آگیا۔میں بےبس ہوگئی اور میں اپنےاعضااستعمال کرنابھول گئی۔پچھلے کئی ماہ سے میں انتہائی بوریت کی زندگی گزاررہی تھی ۔ کھانا ۔،پینا، کھڑکی سے باہر تکتے رہنااورسونا میری زندگی کامعمول بن گیاتھا۔میں بالائی منزل پررہ رہی تھی۔میرے کام نچلی منزل پررہنےوالی خاتون کیاکرتی تھی۔مجھے اس کےکمرے سےآنےوالی آوازوں سےپتہ چلتا رہتا تھاکہ وہ کیاکررہی ہوتی تھی۔ وہ باروچی خانے میں کیا پکا رہی، کب کپڑے استری کررہی ،کپڑے دھورہی   ہوتی تھی۔ میں اس وقت صرف  اسی طرح ہی سوچ سکتی تھی۔اس  خاتون  کو میرے مشاغل کاپتہ تھا۔وہ  جب چاہے میرے پاس آ سکتی تھی۔وہ ہر روز یاہر دوسرے دن میرے پاس آیاکرتی تھی۔ وہ کئی روز سے میرے پاس نہ آئی تھی۔اس نے سوچاہوگاکہ میں کسی  عاشق کےساتھ مصروف ہوں گی کیونکہ ایساہوتارہتاتھالیکن زیادہ تر میں اکیلی ہی  ہوتی تھی۔وہ میرے کپڑے استری کرکے میزپررکھ دیتی اور استری  بند کرکے کھڑی کردیاکرتی تاکہ  استری سٹینڈ کاکپڑاجل نہ جائے۔میرے استری شدہ بلاؤز ہینگروں پرلٹکادیتی ۔ان کے لیس والے کالر اور فوم کواچھی طرح دھوتی۔وہ اس قسم کی خاتون تھی کہ نائلن کی لمبی  جرابوں  کی ایڑیوں  کوبھی استری کرتی تھی۔اپنے امور نپٹانےکےلئے وہ چپکےسےآتی اورچلی جاتی۔اپنے کام سے کام رکھاکرتی تھی۔اکلاپا ہونے سے میں  نے بوریت محسوس کی اور کم وبیش اکثر خوابوں  خیالوں میں کھوئی رہنے لگی  یاسوئی رہنے لگی ۔

میرے گھر کے سامنے کئی آوارہ منش لوگ مجھے تاڑتے رہتے تھے۔ مجھے ان کی پرواہ نہیں تھی اور نہ ہی وہ میرے معیار پر پورے اترتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ  ایک رات میں نیند میں تھی کہ  میں نےاپنی پشت پردباؤمحسوس کیا۔ کسی نے میرے بستر کی چادرکوہلکے سے  کھینچا۔وہ کوئی طاقتور شخص   لگتاتھا ۔وہ کیسے ۔کب اور کہاں سےمیری خوابگاہ میں آیاتھااور کون ہوسکتاتھاکا اندازہ لگانےلگی۔وہ دیوار کےپاس تھا۔میں جانتی تھی کہ وہ میرے ساتھ کیاکرناچاہ رہاتھا۔نچلی منزل والی خاتون کو اندازہ بھی نہیں  تھاکہ کسی نے میرے گھر میں بے جا مداخلت کی تھی۔وہ لمباتڑنگا زورآورتھا۔ہوسکتاہےکہ یہ وہی تھا جوہروقت گھرکےسامنے کھڑاگھورتارہتاتھا۔میں  لاعلمی میں  لانڈری بوائے کاسمجھ کردروازہ کھولتی تووہ کھڑا          ملتااوراس کےہاتھ میں گراری والا چاقوہوتاتھاجس کی دھار چمک رہی ہوتی جووہ  پتھر پررگڑکر میرے سامنے تیز کیاکرتاتھا۔ میں اچانک ماخلت  پر چیخناچاہ رہی تھی لیکن میری زبان  نے میراساتھ نہ دیا ۔ اس نے ہ مجھے پکڑ لیا اور چاقو دکھا کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اس نے  اپنی تمام حسرتیں پوری کیں ۔ میں نے سوچاکہ شائد وہ پھر آیاتھا لیکن یہ وہ نہیں تھا بلکہ کوئی اور تھا۔یہ بھی دراز قد تھااجومیرا ہار مضبوطی سے پکڑکراپنی طرف کھینچتاتھا ۔میں چاہتی تو کئی تولے ہار کوجھٹکادےکرخود کو چھڑاکربھاگ سکتی تھی لیکن  میں ایسانہ کر سکی ۔ وہ  ہار میری والدہ نے بچپن میں لاکردیاتھااور حفاظت کےلئے زنجیرلگادی تھی کہ وہ گرنہ جائے۔۔۔لیکن میں اب بچی نہیں رہی تھی۔وہ جوکوئی بھی تھاوہ اب میرے بسترپرتھا۔مجھ میں حوصلہ نہیں تھاکہ اس کی طرف دیکھوں ۔چادر آہستہ آہستہ کھسکانے سے ایسا لگ رہاتھاکہ وہ یہ ان  غنڈوں میں سے نہیں تھا جو میرے گھر کے باہر کھڑے رہتے تھے بلکہ کوئی اور تھا۔اس کی نیلی رگیں ابھری ہوئی تھیں ،حقیقی سرخ بال تھے۔  وہ میرے بسترپرتھا۔ہوسکتاہے کہ یہ وہی شخص تھاجومجھےچندہفتےپہلےملاتھاجونہ تومیرے مزاج اور نہ ہی میری پسندکےمطابق تھا۔پراس سےکیافرق پڑتاتھااسے توچیزچاہیئے تھی،حاصل کر لیناتھی وہ مجھے بکری کی کھال والے قالین پرلےگیا۔مجھے جووہ کہتارہامیں  اپنی جان بچانے کے لئے کرتی گئی ۔اس دوران میں بھی جوش میں آگئی اور ضرورت سے زیادہ سرگرم ہوگئی ۔اسے یقین نہیں آرہاتھاکہ میں یہ سب کررہی تھی۔پھر اس نے مجھے ہرطرف سے  چومناچاٹناشروع کردیا۔وہ جوجوکررہاتھامیں دیکھ نہیں سکتی تھی لیکن پوری طرح محسوس کرسکتی تھی۔وہاں لذت تھی  اور صرف لذت تھی۔وہ اپنے عمل کوطول دیتارہا۔اس وقت  تک وہ تمام  چیزیں   جومیں  دیکھ کر یاکرکے  خوشی محسوس ہوتی تھی  جیسے   جھوٹ   بولنا، آئینے یاپرندوں کےپر ،موتیوں کے بٹن ،ریشمی کپڑےاوربیدمجنوں کے درخت تازہ  لطف کے سامنے سب  ہیچ ہوگئے تھے۔اس کےساتھ بات کرناایسالگ رہاتھاجیسے کسی ننھے بچے کےساتھ گفتگوکی جارہی تھی۔کمرے میں روشنی چھاگئی تھی۔اس نے مجھےنرم اور نم کردیاتھا۔اس کے کھردرے ہاتھ اوربےدردی   ۔۔۔میں  ریاکاری برتنانہیں چاہتی  ،نےمجھے تکلیف کی بجائے مزہ دیاتھا۔یہ زبردستی کاپیار تھا۔وہ  اجڈتھااورایسےالفاظ استعمال کرتارہاجو کوئی بھی مہذب استعمال نہیں کرتا۔تاہم یہ بھی کھیل کاحصہ تھا۔میں اس کاچہرہ  دیکھنانہیں چاہتی تھی۔کون تھا۔کوئی پراناتھایاکوئی نیاچہرہ تھا معلوم نہیں کرناچاہتی تھی۔وہ اپناکام کرکے چلاگیا۔

جب میں پوری طرح ہوش میں آئی تومیں نے اپنے محبوب کوفون کرنے کاسوچا۔اس نے اگرچہ سختی سے فون کرنے سے منع کیاتھا۔مجھے معلوم تھاکہ وہ ایساکرنے سے ناراض ہوجائے گا۔میں ان لمحات کودہراناچاہتی تھی جوہم ماضی میں کیاکرتے تھے۔لیکن معاملات پہلے جیسے نہیں رہے تھے اور درمیان میں  جانی انجانی الجھنیں پیداہونے لگی تھیں   ۔اس لئے ہم  نے  محتاط ہوکرملاقاتیں عارضی طورپر منقطع کردی تھیں۔اس  نے بتایا کہ  اگلاملاپ  کب ہوگالیکن غیرمتوقع طورپر وہ  وقت سے پہلے سہ پہرکوآگیا۔اپنےساتھ سوٹ کیس لایا۔جس میں ڈنرکی تقریب کاسوٹ  اور اس سے متعلقہ سامان  بھی تھا۔وہ کسی   اہم رسمی تقریب میں جارہاتھا۔اس نےاپنے سوٹ کیس میں سے ٹکسیڈو سوٹ اور سوٹ کی ریشمی ٹیل اور کمربند لٹکادئیے تاکہ ان کی تہہ خراب نہ ہو۔اس پر بہت سے تمغے جواسے انعام کے طورپر دئیے گئے تھے  سجے ہوئے تھے۔ میں اس کے تمغات  سے بہت متاثرہوئی۔میں اسے اپنا لباس پہنتے دیکھتی رہی۔میں ان تمغوں کی تفصیل جانناچاہتی تھی۔ اس کی  فنکاری کےاعتراف میں  جن انعامات سےاسے نوازاگیاتھا ،جاننا چاہتی تھی ک وہ  اس نے کیسے جیتے اور کس کارکردگی میں ملے۔میں بےحس وحرکت ایسے بیٹھی رہی جیسے کوئی فالج زدہ بیٹھتاہے۔

دانتوں  کوسیدھارکھنےوالی تاریں! اس نےاس وقت کہاجب  اس نے اپنی پتلون اپنےتمغوں کےدرمیان پہنی۔

مجھے شام تک کسی سے ملنے   'وول ورتھ' جاناہے۔'  اس نے کہا۔

' وہاں تم وقت پرپہنچ نہیں پاؤگے۔وہ کافی فاصلےپرہےتمہیں دیرہوجائےگی۔'

اس نے پتلون پر کمربند کس لی۔میں نے پیچھے سے بکسوالگا کر کس  دیا۔یہ ایک مشکل مرحلہ تھاکیونکہ بکسوا کمزورتھا۔اسی طرح  ان جگہوں پربھی بکسوئے ٹانک دئیے  جہاں جہاں لباس میں ضرورت تھی۔

'تمہیں تمام بکسوئےواپس کرنےہوں گے۔'میں نےکہا۔'مجھے  شک  ہے کہ لوگ ان سے ٹوناٹوٹکاکرتے ہیں اس کئے میں انہیں  کسی  کونہیں دیتی۔میں ان کےبارے میں حساس ہوں'۔اسےمیری بات کاجواب دینے میں کچھ وقت لگاکیونکہ وہ اپنی قمیض  کے سینے اور آستینوں کے سونے کےبٹن لگانے میں مصروف تھا۔وہ کالر کوبڑی احتیاط سےپکڑرہاتھاکیونکہ  ذراسی لاپرواہی سے یاتواس کی استری خراب ہوسکتی تھی یاپھرگندیہوجانی  تھی۔مجھے اس  کے اس اندازمیں  تیاری دیکھ کراندازہ ہورہاتھاکہ وہ  اہم ترین لوگوں سے  ملاقات کرنے جارہاتھا۔اس نے اس کےبارےکچھ نہ بتایا۔میں نےبھی نہ پوچھا۔اس نےچندگھونٹ وسکی کےلئےتاکہ اس تقریب میں  ڈیکورم قائم رکھ سکے۔اسےبوٹائی باندھنےکافن  نہیں آتاتھا۔وہ سعی وخطاسے باربار کوشش کررہاتھا۔

'کیاتم نے آج سےپہلےبوٹائی نہیں باندھی ؟'میں نےپوچھ لیا۔میرااندازہ تھاکہ اس کی بیویاں یہ کام کرتی  رہی ہوں گی۔جس انداز میں وہ لباس پہن رہاتھا اس کےکسرتی  جسمانی اعضا واضح ہورہے تھے۔میں  حیران ہوئی کہ یہ چیزمیرےسامنےپہلےکیوں نہیں آئی۔ میں نے اس کےجسمانی اعضاکاتناسب دیکھاتومجھے  عجیب سالگا۔اس سے پہلے میں نے غیرجانبدارانہ نظر سے اسے دیکھاہی نہیں تھاکیونکہ صورت حال ہمیشہ رومانی ہوتی تھی۔اس کی ٹانگیں بدنما،گلابی اورضرورت سے زیادہ لمبی تھیں۔اسکے دھڑ اور چھاتی غیر متناسب تھےاور انہیں غور سے دیکھنے پرمضحکہ خیزلگتی تھیں۔لیکن جسم گٹھا ہواتھا ۔اس کمر کسی صورت انسانی کمر نہیں لگتی تھی۔اس کی آنکھیں ایک کینہ پرور شخص کی سی تھیں جوآئینے میں اس کی مکاری کی گواہی دے رہی تھیں۔وہ کسی طرح ٹائی باندھنے میں کامیاب ہوا۔اس کے بعد اس نے کوٹ پہناتوتمغوں کی جھنکارکانوں میں گونجی۔ایسالگاجیسے کوئی میٹھی دھن بج رہی ہو۔سب سے آخرمیں اس نےریشمی سکارف پہنا۔اور مکمل  تقیب والا پہناوا   پہننے کے بعداس نے قدآدم آئینے کے سامنےجائزہ لیا تووہ اپنے تئیں مطمئن ہوگیا۔اس کے بعد وہ ایک عمومی نہیں لگ رہاتھا۔مجھے ایسالگاکہ میں اسے نہیں جانتی تھی۔وہ مجھے ساتھ لے کرتیزی سے سیڑھیاں اترنے لگااور میں اس کاساتھ دینے کے لئے جاگنگ کرنے کےانداز میں اس کےساتھ چلنے لگی۔اس تیزرفتاری میں  گفتگونہیں ہوسکتی تھی۔اس کی  تیزچال سے جو شئے مجھے ہراساں کررہی تھی وہ اس کے ریشمی سکارف کا آگے پیچھے ہوناتھاخوفناک لگ رہاتھا۔اس نےاعلیٰ برانڈ کے جوتےزیب تن کئے ہوئے تھےجوغیرموزوں طریقے سے چرچرکررہے تھے۔

' کیاوہاں صرف حضرات ہی ہوں گے؟'میں نےسوال کیا۔      

' نہیں۔مخلوط محفل ہے۔'اس نے جواب دیا۔''       تواس لئے وہ جلدی میں تھاکہ اپنی بیوی کوکسی طے شدہ مقام پرملے۔میں نے سوچا۔میرے دل میں نفرت کی چنگاری جاگ پڑی۔وہ مجھے ساتھ نہ لے گیا۔

جب وہ ڈنرسےلوٹاتواس نےبکسوئے واپس کئے لیکن وہ اصل حالت میں نہیں تھےکیونکہ چاربکسوؤں کے سرسیاہ رنگ کےتھے اور گول تھےجومیں اس کی نئی قمیض میں لگائے تھے وہ بدلے ہوئے تھےجسے میں نےواپس لینے سے انکارکردیا۔میں توہمات کاشکارتھی  لیکن وہ میرے خدشات کو نہیں مانتاتھا۔برے دن بھی یک دم اور آگے پیچھے آجاتے ہیں ۔میں اس کےلباس پہننے کے موقع کولوں تو اس کی باتوں او ر واقعات میں مناسبت نظرنہیں آتی تھی۔

مجھے ایک واقعہ یادآیاجب ہم ایک ریستوران تلاش کررہے تھے،اس دوران میری ایک دوست میرے ہاں ٹھہری تھی۔جوہمارے نجی پروگرام  کو خراب کررہی تھی۔میراوہ عاشق اس پربرہم تھالیکن اسےبرداشت کرناپڑرہاتھا۔میں اس کادل بہلانے کے لئے میں اسے  اپارٹمنٹ سے باہرلے آئی۔یہ اکتوبرکامہینہ تھا۔ہوائیں تیزاور ٹھنڈی ہوگئیں تھیں۔وہ یہ پسندنہیں کررہاتھاکہ اسے بےوجہ سردی   بھوگے۔میں نے سینڈل پہنی تھی جس کی ایڑی اونچی تھی۔چلنے سے اس کی ٹک ٹک کی آواز آتی تھی جس پر مجھے شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔ وہ        بڑی احتیاط سے ریستورانوں میں جھانک کردیکھتاکہیں کوئی شناساتونہیں تھا یا وہ  جگہ ان کے بیٹھنے کے لائق تھی۔اس کا فیصلہ وہ خود ہی کررہاتھا۔کسی جگہ اس کا کوئی شناسانظرآتااور کہیں  معیارکم  لگتا۔کئی بار ایساکرنے کے بعد اسےایک ریستوران معقول لگااور ہم  نے اس میں جانے کاسوچا۔اس میں نارنجی روشنی تھی  جو ہال کےجھرنوں سے رس رس کرآرہی تھی۔ ہم نے سڑک عبورکی اورباہر سے جائزہ لینے لگےتا  کہ موزوں جگہ پر ہم بیٹھ سکیں۔ہال کھچاکھچ بھراتھا ۔شورو غل تھا۔ہم ابھی اندر جانے کاجائزہ لےرہے تھے کہ ہم نے مخالف  سمت سے آتاہوا غنڈوں کاٹولہ دیکھاجوتیزی سے ہماری طرف بڑھ رہاتھا۔ہمیں یقین تھاکہ وہ ہم پرفقرے کسے گااور بدتمیزی کرے گا۔کسی ایسے غیرسماجی  گروہ سے اندھیرے میں  میرا  پہلی بار واسطہ پڑاتھا۔ہمارے ساتھ کیا ہوگاسوچ کرہم سہم  کرایک طرف کھڑے ہو گئے ۔ میں  نے اسے پوچھا ،'کیااس کااس طرح کے تلنگوں  سے کبھی پالاپڑاتھااور ان سے خائف ہواتواس نے مثبت میں جواب دیا۔'اس نے بتایا۔ 'چندروزقبل رات گئے  میں اکیلاہی ایک سڑک پرجارہاتھا توایسا آوارہ گردوں کاایک گروہ مجھے نظرآیا ۔مجھے خدشہ تھا کہ وہ مجھےتنگ کریں گے اس لئے میں  نے اپنی  کنجیوں کے گچھے کو مضبوطی سے  اپنی جیب میں ایسے تھام لیاکہ ہنگامی صورت حال سے نپٹنےمیں  اسے بطور ہتھیار استعمال کرےگااور اپنی جان بچائے گا۔'اب بھی وہ ایساہی کررہاتھا۔وہ خود کواس وقت محافظ سمجھ کرمجھے ان کے حملے سے بچاناتھا۔حیرانی یہ تھی کہ میں اس وقت اسے اپنامحافظ نہیں سمجھ رہی تھی۔مجھے اس وقت خیال آیاکہ اس وقت ہم  اس طرف صرف دولوگ تھےجواس گلی میں تھے۔دونوں  کی اپنی اپنی شہرت اور  پہنچان تھی۔دونوں  کی  دنیامشکل تھی۔ایک طرف توہم  تشدد، بیماری، آفاقی سماوات  کاسامناکررہے تھے  اوردوسری طرف  ہم ان بدمعاشوں  سے محفوظ رہناچاہتے تھے۔میں یہ سوچ رہی تھی  اگر وہ حملہ آور ہوئے تومیں اپنا بچاؤکیسے کروں گی ۔۔۔لیکن اس کی نوبت نہ آئی اور وہ گروہ  توجہ دئے بغیر ہمارے پاس سے گزرگیا۔ہمیں بالآخر ایک اچھاریستوران مل گیاجہاں ہم نےخوب مےنوشی کی۔اس کےبعد ہم ایک ہوٹل گئے اور جسمانی ضرورت پوری کی جواچھی رہی۔اس کے بعد ہم گھر آگئے اوروہ رات اس نے میرے گھرگزاری۔

اس کے ساتھ گہری  دوستی میں میں سمجھتی تھی کہ اس پرمیراحق سب سے زیادہ تھا۔اپنے تمام رقیب مجھے حقیرلگنے لگے۔اس  کی ذہنی حالت بھی ابتر تھی۔اس پر اضطراری کیفیت طاری رہتی۔ وہ اپنی بیوی کو جھوٹ بتاکرآتاکہ وہ فلاں ہوٹل کے فلاں کمرے میں ٹھہرے گا،جھوٹ نبھانے کےلئے اسے طرح طرح  کےحربے استعمال کرناپڑتے

۔ مجھے یقین تھا کہ  ایک نہ ایک دن  ہانڈی چوراہے پر ٹوٹے گی ۔ اس کی بیوی  جب رنگے ہاتھوں پکڑے گی  تووہ  اس کی منتیں  کرےگا اور اسے  کہے گاکہ وہ باہرجائے تاکہ  وہ کپڑے بدل  لے۔ان خطرات کے باوجود وہ رسک لیتارہا۔میرے من میں اس کی بیوی کےلیےکوئی رحم نہیں تھا۔ میں اس پراپناحق زیادہ سمجھتی تھی۔کبھی کبھارمیرے ذہن میں یہ بھی خیال آتاتھاکہ کیااس  کی بیوی سے کبھی ٹاکرایااتفاقی  ملاقات ہوپائے گی۔۔بادی النظر میں ایساممکن  نہ تھاکیونکہ ہم دونوں لندن کے انتہائی سمتوں میں رہتی تھیں۔

ایک دفعہ حیرانی ہوئی کہ ایک  امریکی جریدے نے ایک تقریب کااہتمام کیاجس میں  چیدہ چیدہ لوگ بلائے گئے تھے۔ مجھے بھی مدعوکیاگیاتھا۔وہ آیاتواس نے وہ دعوت نامہ دیکھ لیاجومیزپرپڑاتھا اور پوچھا 'کیاتم بھی اس تقریب میں شرکت کروگی۔' میں  مسکرائی اورکہا' ہوسکتاہے۔'            میں نے اس سے پوچھا، ' کیاتم اس میں جارہےہو۔'تواس نےکہا'ہاں'۔میں اس کی بیوی کودیکھناچاہتی تھی۔میں عموماًہجوم سے گھبراتی ہوں ۔اس نے مجھ پرزور دے کر پوچھاک، 'ابھی بتاؤکہ تم وہاں جاؤ گی یانہیں۔'               میں نے ہاں میں جواب دےدیا تووہ میری منتوں پراتر آیااورکہاکہ میں وہاں نہ جاؤں۔صورت حال بندگلی میں جانےوالی ہوگئی تھی۔اس کی بیوی اور میراکبھی نہ کبھی توٹاکرا ہوناتھا ۔میں نے دیکھا ، ایک چھوٹاجانوررسی تڑواکربھاگ رہاتھا جس کی شکل نیولے جیسی تھی اور وہ اسے پکڑ کرلکڑی کے  صندوق کی بجائے کہیں اور قید کرناچاہتاتھا۔صندوق میں اس نے ایک   سانپ قید کیاہواتھا۔وہ نیولے اور سانپ کی لڑائی نہیں ہونے دیناچاہتاتھا۔اس کی اس سوچ پرمیں پریشان ہوگئی۔میں مذبذب  رہی کہ نیولےاور سانپ کی لڑائی لڑنی ہے یااس سے بچناہے۔میں ایک  سفید نیولے کاعکس اپنے ذہن میں لائی  جس کےنتھنے ننھے منے تھے ،اس کی ظاہری شکل کواپنے تخیل میں تبدیل کیااور صندوق کاایساڈیزائن بنایاجس کادروازہ سلائڈکرنے والا تھا۔اس نیولے نےو روازہ کھولااوراس میں داخل ہوگیا۔

جب دن آیاتو میں         تقریب میں چلی گئی۔میں نے اپنی ظاہری شکل  کومزیدپرکشش بنانے کے لئے بیوٹی پارلر گئی ،بال  اچھی طرح بنوائے۔میڈیکیور پیڈیکیوراور مکمل  میک اپ کروایااورایک خوبرودوشیزہ کی طرح کالباس پہناجوسفید اور سیاہ کاحسین امتزاج تھا اور محفل میں جاپہنچی۔تقریب ایک بڑے ہال میں منعقد ہوئی جس کی دیواریں  بھوری لکڑی کی تھیں ۔الماریاں جرائد سے اٹی پڑی تھیں۔ایک کونے میں بارتھی۔سفید وردی میں ملبوس ویٹر مہمانوں کی خدمت پرمامور تھے۔مہمانوں کومشروبات پیش کررہے تھے۔میں نے وسکی پینی تھی لیکن ہال میں شیمپین پیش کی جارہی تھی۔ مجھے وسکی کےلئے بارکاؤنٹر جاناپڑناتھا۔ایک شخص مجھے وہاں لےگیا۔رستے میں ایک جاننے والے نےمیری گردن پربوسہ کیا۔مجھے اندازہ تھاکہ وہ کہیں چھپ کر میری ایک ایک حرکت نوٹ کررہاہوگا۔مہمان سینکڑوں  کی تعداد میں تھے اس لئے آسانی  سے دیکھاجانا آسان نہ تھا۔مجھے تووہ کہیں نظرنہ آیا۔میں نےایک خاتون کو ایسے لباس میں دیکھاجومجھےبہت پسند تھا۔جس کارنگ چمکیلافالسے کاتھاجس پرسفید کروشیے کی آستینیں تھیں۔ میں آستینوں کے ڈیزائن کاجائزہ لےرہی تھی  اور وہ  خاتون  میری طرف دیکھ رہی تھی شائد میری طرح وہ بھی میرے لباس کاجائزہ لے رہی تھی۔ایسی تقریبات میں ایساہوتارہتاہے۔ایک دوسرے کےلباسوں کوتنقیدی نگاہوں سے دیکھ کر تعریف یا تنقید   کی جاتی ہے۔میں نے اپنی ایک دوست سے اس کی بیوی کے بارے میں پوچھاتو اس نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک خاتون کی طرف  آنکھ سے اشارہ کیا۔مجھے علم نہیں تھاکہ وہ کیسی ہوگی۔میراخیال تھاکہ اس میں کوئی خاص بات ہوگی لیکن وہ توعام سی نکلی  لیکن اس کی آنکھوں میں حرص اور لالچ تھااور نشے میں دھت تھی۔

آخرکار میں نےاسےپالیا۔میں ایک  مشترکہ دوست کلیمنٹ ہیسٹنگز  کے ساتھ  ہال میں گھوم رہی تھی تواس نے سامنےسےگزرنے والے ایک شخص سے ملوایا۔یہ وہی تھا۔اس نے سردمہری سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا۔اس کی ہیئت اس وقت عجیب و غریب تھی۔اس کی گالوں کی ہڈیاں واضح نظرآرہی تھیں۔وہ اس   دوست سےباتیں کرنے لگااورمجھے بالکل نظراندازکردیااوراس نےیہ تاثردیاکہ وہ تقریب سے لطف اندوز ہوریاتھا۔میں نے اس پر طنزکرتے ہوئے  کہاکہ ہال میں بہت ٹھنڈک ہے۔ میں اس کی سردمہری  کاذکرکررہی تھی۔اگر میں سردی کاذکرکرناہوتاتو کسی اور طرح سے اظہاکرتی۔وہ میرامطلب سمجھ گیااورکہاکہ مجھے  نہیں پتہ کہ تمہیں اتنی زیادہ  ٹھنڈک کیوں لگ رہی ہے اور اتنی سردی کیوں محسوس ہو رہی ہے۔مجھے توبالکل نہیں لگ رہی۔اس کارویہ ایساتھاجیسے وہ اپنے آپ میں نہیں تھا۔اس کے بعد ایک اور خاتون آگئی جومستی میں ڈگمگارہی تھی۔اس نے اس کاہاتھ تھام لیا۔یہ اس کی بیوی تھی۔اس نےبدتمیزی سے اس پرتھوک دیا۔میں نے معذرت کی اور وہاں سے  ہٹ گئی۔اس نے میری طرف  خصوصی اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ امیدہےتم سےپھرملاقات ہوگی۔

میں نے محفل چھوڑنے سے پہلےایک بار اسےنظربھرکردیکھا۔مجھےاس پرافسوس بھی تھااور غصہ بھی۔وہ مبہوت کھڑا  ایسے  بڑبڑارہاتھاجیسےکہ کوئی نہائت اہم  خبراس تک پہنچی ہو۔

میں لوگوں کےساتھ باہرنکلنےلگی۔دروازے کےپاس مڑکراسے بغیرمسکراہٹ کےدیکھابالکل۔ہاں۔ یہ سچ ہےکہ میں اس کےرویے سےافسردہ تھی۔اس سےاگلے دن ہم پھرملے۔میں نےپچھلی رات کامعاملہ اس کےسامنے چھیڑ دیا۔وہ اس بات کومکمل طور پر بھول چکاتھاکہ پچھلی رات ہم آپس میں ملے تھے۔میں نے اسے یاد دلایاکہ تقریب میں کلیمنٹ ہیسٹنگز نے ہماراتعارف کروایاتھا۔اس نے زیرلب اس کانام دہرایا۔اس کے رویہ سے لگاکہ واقعی اس کو یادنہیں تھاکہ رات میں ہم ملے تھے۔ اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ وہ حالت اضطراب میں تھا۔

یہ ناممکن ہےکہ بری خبرایک مخصوص اندازاوروقت میں دی جائےتواس کابرااثرکم ہوتاہولیکن میں اس بات پرقائم تھی کہ میں  نے غلط مقام پراسے براپیغام دیاتھا۔وہ سوگیا تومیں نے اس کے جگانےکا الارم لگادیاتھا۔الارم بجاتووہ اٹھ بیٹھاتھااس لئے اس نے الارم فوراًبند کردیا۔

مجھے افسوس ہےڈارلنگ۔اس نے کہا۔کیاتم نے الارم لگایاتھااس نے خفگی سے پوچھا۔مجھے ایسالگاکہ مجھے خبرکئے بغیر جاناچاہتاتھا۔اس نے اپناہاتھ میری کمرمیں ڈالااور ہم دوبارہ لیٹ گئے۔باہرابھی تک تاریکی تھی۔مجھ میں ایک احساس پیداہوگیاتھا۔ایک  احساس اگرچہ وہ ٹھنڈاہوچکاتھا۔مجھے  بہتری  کارکردگی کی بناپراعزازدیاجارہاتھا۔۔سرکاری سطح پر اس کےلئےایک تقریب منعقدکی گئی تھی۔

'مبارک ہو،تم آج اعزاز وصول کرنے جارہی ہو۔'اس نےسرگوشی کی۔مجھےاعلیٰ ایڈورٹائزنگ  کانمبر ون  قراردیاگیاتھا۔میں  شہرت  سےکتراتی تھی۔مجھے شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔اس اعزاز نے مجھے سکول کےدنوں کی یاددلادی جہاں میں ہرجگہ پہلاانعام حاصل کیاکرتی تھی۔مجھے احساس جرم ہوتاتھاکہ میں دوسروں کاحق ماررہی تھی۔'

بستر میں سوتے یاجاگتے اس کےساتھ جڑکرسوتی تھی۔ اس کے ہاتھ  کبھی  ایک جگہ نہیں رکتے تھے۔میں اس کے ساتھ ملاپ اپنے لئے نہیں بلکہ اس کی تسکین  کےلئےکیاکرتی تھی۔ اسے یقین دلانے کے لئے کہ میں اسے آرام دے رہی ہوں ،کرتی تھی۔میں اس  پراپناحق جتانے کےلئے ایسا کرتی تھی۔اسے جوادائیں پسند ہوتیں انہیں کرتی اور جوناپسند تھیں سے احتراز کرتی تھی۔اس نےمیراہاتھ چومااورکہاکہ پوری زندگی میں اسےاتنی پیاری اور پرکشش شئے نہیں ملی۔اس کی ستائش سے مجھے ایک بارپھر جوش آگیااور وہ بھی اس میں پوری طرح شامل ہوگیا۔

ایک روز  صبح وہ آیاتوگھبرایاہواتھا۔۔ ۔آتے ہی اس نے کہا ،' تعلقا ت مزیدجاری نہیں رکھے جاسکتے۔ تم جانتی ہو،'۔میں نے  اس سے اخذ کرلیاکہ جوتعلقات ہم نےقائم کئےتھے            برقرارنہیں رکھےجاسکتےتھےاوریہ جلدہی ختم ہونےوالے تھے۔میں اپنی ڈیوٹی پرجارہی تھی  اوراسےبھی اپنے کام پر جاناتھااس لئے اس پرمزیدگفتگونہ ہو سکی ۔ میں نےاسےدیکھاتووہ سنجیدہ تھا۔

' مجھے لگ رہاہے کہ تم مجھ سے محبت کرنےلگ گئی ہو۔'اس نےکہا۔میں نے  ا پنی آنکھوں سےجو میرے سرکے بالوں سےڈھکاہواتھا کے جھروکے سے اسےدیکھاتاکہ وہ میراجواب  میراچہرہ دیکھ کرپڑھ لے۔اس نے میری آنکھوں سے لٹ ہٹاتے ہوئے اپناسرمیرےسرسے جوڑدیااوربولا 'میں تمہیں  پوجتاہوں لیکن تم سےمحبت  میں نہیں 'جس قسم کی ذمے داریاں ہیں  میں نہیں سمجھتاکہ ان میں کسی سےمستقل روبط قائم  رکھے جاسکتےہیں۔ہمارے تعلقات باہمی رضامندی سےشروع ہوئے۔کوئی مجبوری نہیں تھی لیکن اب مزیدچلانامشکل پڑرہاہے۔' اس کےآخری الفاظ سن کرمیرے دل پرتیرچل گیا۔اس سے میں بکھرگئی اور اسے کہا،' میں ایسا نہیں سمجھتی۔میں ان تعلقات کوایسے نہیں دیکھتی ۔ہمارے افیئر کویادکریں  توایک لمحہ بھی  چاہت کے بغیرنہیں  گزرا۔تم نے پہلی ملاقات کے بعد جوتارمجھے ارسال کیا تھا اس میں یہ پیغام تھاکہ  مارتھا !میری تمناہےکہ میں تم سےملوں ۔تم پرسورج چمکتارہے اورروشنی بکھیرتے رہو۔پہلی چندملاقاتوں میں جب بھی ہم ملےتورومانیت اور جذبات کی شدت غالب رہی۔ جھجک

 چھوڑ کرایک دوسرے میں سرشاررہے۔ہم ان دنوں ایک دوسرے میں ایسے کھوگئےتھے کہ ڈکشنری میں ان جذبات کے لئے نئے نئےالفاظ تلاش کرنے پڑگئے تھےجو باہمی چاہت،لگن،محبت اور ستائش کےلئےاستعمال ہوسکتےتھے۔ وہ الفاظ ڈنر کی موم بتیوں میں ادا کرتے۔ اس رومانی             روشنی میں لطیف جذبات کی عکاسی کےلئے  پوجااور خوشبو میں ڈبوبنا  جیسےالفاظ میری تعریف میں  استعمال کرناشروع کردئیے تھے۔کیاتمہیں یہ باتیں یادنہیں رہیں۔تم  اب ان جذبات کی نفی کیسےکرسکتے ہو؟'میں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔'تم مجھے اپنی زندگی کے  جھمیلوں میں گھسیٹ رہے ہو۔اپنے نجی مسائل کےتحت مجھے محض دوستی تک محدود کررہے ہو۔کیاتمہیں اس  پرشرم نہیں آئی  ؟' میں نےیہ تمام باتیں اسےکہناچاہیں لیکن میں خاموش رہی۔کیونکہ میں نےسوچاتھاکہ اگرمیں بولی تواپنی نظروں میں گرجاؤں گی اورمیری حالت قابل ِرحم ہوجائے گی۔جب اس نےبولنابندکیاتومیں نےسیدھادیکھاوہاں پردوں کےپٹ ہل رہےتھےاور اس سے روشنی کی ایک لکیراندر آرہی تھی۔میں نےاسےنظراندازکرتے ہوئے موضوع تبدیل کرنےکےلئےموسم کاذکرکردیا۔'لگتاہے کہ آج کافی برفباری ہوئی ہے'۔ ' شائدایساہی ہے۔سردی سرپرآن کھڑی ہے۔' اس نے کہا ۔اس جگہ جہاں ٹیبل لیمپ کاسوئچ لگاہواتھااتارکراپنابرقی استرالگادیا۔میں باورچی خانےسےناشتہ لینے چلی گئی۔اس کی تلخ دل ہلادینے والےذکرسے میں یہ بھول گئی تھی کہ اس کےلئے مالٹے کاجوس بناناتھا۔میراخیال ہےکہ اس نے جوس کی کمی پراپنی بےعزتی محسوس  نہیں کی تھی۔وہ نوبجےسےپہلےچلاگیا۔

اس کی وحشت کےاثرات اب بھی دیوان خانےمیں موجود تھے۔جیسے سگارکی باقیات،پرچ میں خاکستری سیاہ راکھ کاڈھیراور دیگرگندگی۔۔۔ میری توجہ راکھ صاف کرنے پرزیادہ تھی کیونکہ اس کی مماثلت اس کی بے ڈھنگ ٹانگوں کی طرح تھی جس سے مجھے نفرت تھی۔ راکھ  کا ڈھیراٹھانےکےبعد اسے  آتش دان میں ڈالناچاہاتو  میرے لاشعورنےایساکرنےسےروک دیا  اور میں  اسے بالائی  منزل پر لےگئی۔سیڑھیاں چلتے ہوئے راکھ  کے ڈھیر کی شکل تبدیل ہوتی گئی پہلے وہ  کتے کی  لینڈی کی طرح ہوگئی پھر ایسی ہوگئی جیسے مردہ جلانےکےبعدبن جاتی ہے۔میں نےوہ راکھ ایک ڈبےمیں ڈالی اوراسےکپڑوں کےنیچےرکھ دیا۔

اس روز مجھے  جواعزازدیاگیاوہ چاندی کا بڑاتمغہ تھاجس پرمیرانام کندہ تھا۔اس کاجشن منانےکےلئےمیں نےجی بھرکرپی لیکن خودکوبےوقارنہیں کیا۔عموماًایسی حالت میں ہوش وحواس جاتے رہتےہیں۔مجھےایک کہانی یادآگئی جسے میں آگےنہیں بڑھاناچاہتی تھی۔اس کی وجہ یہ  نہ تھی کہ اس کےمتن  نے میری مشکلات میں اضافہ کردینا تھا بلکہ اس دوران الفاظ میرے منہ سے مناسب الفاظ نہیں نکل رہےتھے۔اس رات ایک شخص مجھےمیرے گھر اتارنےآیاتومیں نےاسےچائےپیش کی اورشکریہ اداکرتے ہوئے رخصت کیا۔جب وہ چلاگیاتو میں ڈگمگاتی بسترپرجاگری۔زیادہ پینے کی حالت میں میری نیند غائب ہوجاتی تھی لیکن اس رات ایسانہ ہوا۔جب میں بیدار ہوئی  توابھی بھی اندھیراتھا۔مجھے رات کی باتیں یادآنےلگیں۔اس تقریب میں میرے تعارف میں  جوکہاگیامجھے  اس میں تہہ در تہہ جمی ہوئی برف جیسی ذہانت اور مہارت کی شبیہ کی مثالیں صحیح لگیں۔مجھے شعورہونےلگاتھاکہ اس کےاپنی بیوی سےتعلقات بگڑنےلگےتھےاور قوی امکان تھاکہ ان کے  رشتےکی تباہی وبربادی  ہوجاناتھی۔ان   تشویشناک حالات میں بھی اس نے میرےپاس آناکم نہ کیااورہم ہر طریقے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔       اس کی بیوی بیمار تھی۔                                                                                                                                                                                                                                     

اب عام دوست  بن کر   رہ  گئے تھے۔یہ سوچ کر میری امیدیں دھڑام سے گرجاتیں اس کے باوجود جب بھی میں اس کے ساتھ  ہوتی تومیں اپنی عزت،وقار ،تحریم بھول جایاکرتی تھی ۔ایک بےحیثیت طوائف زادی بن جاتی۔وہ جس طرح کاذلت آمیزرویہ بھی رکھتامیں خوشی سےقبول کرلیتی تھی کیونکہ میں اس کی محبت میں گم ہوچکی تھی جہاں نفع نقصان کی پرواہ نہیں کی جاتی۔کبھی کبھار یہ سوچ کہ وہ  چھوڑ دےگامجھے پریشان کردیتے تھے اور میری چاہت کاہرابھرادرخت سوکھ کر گرجاتااور میرےرومانوی پیاربھرے سفلی جذبات کی موت واقع ہوجاتی تھی۔ ان  بھٹکتے خیالوں میں گم میں اٹھی اورڈریسنگ گاؤن پہنا۔رات کی مےکشی سےمیراسرچکرارہاتھا ۔سوچتے سوچتے میں اس نتیجےپرپہنچی کہ مجھے اس کوخط لکھناچاہیئےاور  عاشقی معشوقی  کی حقیقت کواجاگرکرناہوگا۔اس سے  شکایات کےانداز میں عزت کےدائرے میں رہ کر اپناحق مانگناہوگا۔گتھی سلجھانے کےلئے میں اس سے ایک بارضرورملناچاہتی تھی۔اسے بہلاپھسلاکر پھر سے اپنابناناچاہتی تھی۔سہانی یادوں کودوام بخشناچاہتی تھی۔

میں نےاسےایک نوٹ بھیجاجس میں ارغوانی  شئے کابھی ذکرتھا جوہمارے جذبات کوبھڑکاتاتھا۔یہ کوئی بیکار ذکرنہیں تھا۔میں نے دوٹوک لکھاتھا،' اگر تم سمجھتےہوکہ میرےپاس آنابےوقوفی ہےتومیرےپاس مت آؤ۔میں تمہاری مرضی کےخلاف کچھ نہیں چاہوں گی لیکن وہ میٹھےلمحات جوہم نےساتھ بتائے ہیں ان کی بےقدری نہ کرو۔ہمیں ان کی عزت کرنی چاہیئے۔انہیں برقراررکھاجاناچاہیئے'۔یہ خط ایک حد میں رہ کرلکھا گیا تھا ۔اس کاجواب اس نے فوری دیااور کہا'تمہارا  خط عجیب تھا۔ میں  ایسے خط کی قطعی توقع نہیں کررہاتھا'۔اس کے  اس جواب سے مجھے صدمہ ہوا۔اگرچہ اس نے یہ مانا کہ میں نے جولکھاتھاوہ صحیح تھااس نے تسلیم کیاکہ  وہ بھی مجھ سے محبت کرتاتھا،کرتاہے اور کرتارہےگااور یہی نکتہ تھا جومیں اس کے منہ سے سنناچاہ رہی تھی۔اس کےان جذبات کولےکرمیں نے ختمی منصوبہ بنایااوراس پرکام شروع کردیا۔

اس کےاس  خط کےجواب میں میں نے ایک طویل  چٹھی ڈالی۔میرےدماغ کی چرخی گھوم گئی تھی۔میں نے اس باراسےہرچھوٹی بڑی شئےیاددلادی۔میں پاگل پن کےکنارےپہنچ گئی تھی۔میں نے ان کی عائلی معاملات پرتنقید  کی۔اسے اپنی طرف پوری لانے کے لئے ایسا کرنا ضروری تھا۔بھرپورکوشش میراحق تھا اور نتیجہ جوبھی آتااسے قبول کرنے پر آمادہ تھی۔میں کسی معجزے پریقین نہیں رکھتی تھی اور انسانی رشتوں کو انسانی سطح پرہی دیکھتی تھی۔اس رشتے میں نہ صرف وہ، اس کی بیوی بچےاور پوراخاندان کےساتھ ساتھ میرا خاندان بھی شامل  ہوجاناتھااور فیصلہ ہم انسانوں نے ہی کرناتھا۔۔۔اس دوران اس کی بیوی فوت ہوگئی۔

وہ اپنی بیوی کےجنازے سے اپنے بچوں کےساتھ لوٹ رہاتھا۔اس نے کالاسوٹ پہناتھا۔اس کے کوٹ کےکالرپرگل لالہ  لگاہواتھاجوتعزیتی موقع پرلگایاجاتاہے۔جب وہ میرے پاس آیاتو میں نے وہ تعزیتی پھول اتار کرمحبت کا اظہار کرنے والا میں بھی اس جنازے میں شریک تھی۔ نرگس کاپھول لگادیا۔اس نے ردعمل میں اپناسکارف اپنے گلے سے اتار کرمیرے گلے میں ڈال کراپنی طرف کھینچ لیااور بغل گیرہوگیا۔سوگوارماحول کی نزاکت سے میں  نےاپنی گردن ادھرادھرگھمانی شروع کردی تاکہ وہ مزید کوئی ایسی حرکت نہ کرے جواس ماحول میں غیرمناسب ہو۔دفنانے کے بعد رسمی ناچ ہواتومیں نے اس کاساتھ دیا۔ناچ گھرکافرش سفیدلکڑی کابناتھاجس پرپھسلن  تھی اورذرا سی بداحتیاطی سےقدم رکھنے پرگرجاناتھا۔اسلئے ہم بڑے دھیان سےناچتے رہے۔اس کے بعد وہ چلاگیا  اور ہفتوں غائب رہا تو میں نے اسے تفصیلی خط لکھا۔

مشاس کاجواب کئی ہفتوں بعد بھی نہ آیاتومیں دلبرداشتہ ہوگئی ۔اس دوران کئی بار فون کےکریڈل پرگئی لیکن کسی غیرمرئی طاقت نے مجھے روک دیااورمزیدانتظارکامشورہ دیاکہ اسےاپنی مرضی سے حتمی فیصلہ کرنے کاپوراموقع دیاجاناچاہیئےتاکہ اسے بعد میں پچھتاوانہ ہو۔مجھے یہ بھی سوچ آتی کہ کہیں ایساتونہیں کہ ملاہی نہ ہواور رستے میں ہی کھوگیاہو۔لیکن میں نے اس خیال کورد کردیاکیونکہ جس ڈاک خانے میں وہ خط پوسٹ کیاتھاوہ اس علاقے کاسب سے بڑااور مصروف ڈاکخانہ تھااور اس کےدفترکی عمارت میں تھا۔ہفتوں انتظارکے بعد میں نے اسے ایک کارڈ بھی بھیجا تھاجس پر صرف دوحروف لکھے تھے۔۔۔ہاں۔۔۔۔نہیں۔ایک پرنشان لگانے کوکہاتھا۔اقرار کی صورت میں ہاں اور انکار  میں نہیں لکھ کربھیجنے کا کہاتھا۔کارڈ جواس نےواپس  بھیجا،کو میں گھنٹوں ٹکٹکی  باندھ کردیکھتی رہی۔میں خودکوکانپنے سے نہ روک سکی۔اس پرظالمانہ پیغام تھا۔میں نےاپنے آپ سے سوال کیاکہ اس صورت حال کامقابلہ کیسے کروں گی۔۔۔میں بالائی منزل پرگئی۔وہ ڈبی جس میں راکھ تھی کپڑوں کےنیچے سے اٹھائی  اور سینے سے لگاکر آنسوؤں کےدریابہادئیے۔میں نے وہ ڈبی کھولی اور کھڑکی سے باہراڑا دیا۔اس  کی یادوں سے چھٹکاراحاصل کرلیا۔میں نے جو انداز اپنایا تھاوہ درست نہیں تھالیکن میں اس فعل سےمطمئن تھی۔

ایک بار ہلکی پھلکی گفتگومیں اس نےبتایاتھاکہ  وہ ہارمونیم بجاتاتھا۔وہ ساز مجھے پسند نہیں تھا۔اس لئے میں اس غمزدہ ماحول میں موسیقی نہ سنی کیونکہ اس گانے کے ہر فورے پر ہارمونیم بجایاجاتاتھا۔وہ دن مجھ پربھاری تھا۔دوسرے دن مایوسی بڑھ گئی اور میں افسردگی سے بےسدھ بیٹھی رہی اور تیسرے دن میں غصے سے بےقابوہوگئی۔

غم غلط کرنے کےلئے میں نےافسردگی دورکرنے کی گولیاں کھائیں اور مشروب مغرب کاسہارالیاجس سے میری طبیعت بگڑگئی۔پورے جسم پرلرزہ طاری ہوگیا۔سانس کی پھونکنی لگ گئی۔ایسی کیفیت ہوگئی تھی جیسے میں نےکوئی خوفناک حادثہ دیکھاہو۔بالائی منزل کی کھڑکی کےپاس کھڑی ہوگئی اور گلدان میں پڑے گل ادریسی سونگھنے لگی جوسوکھ کرسرخ بادامی شکل اختیارکرگئےتھے۔میں نے سوچاکہ اپنی اس بحرانی حالت میں گھر پر کیااثر پڑاتھاتوحیران رہ گئی کہ کوئی شئے ٹھکانےپرنہ تھی۔ہرشئے الٹ پلٹ ہوگئی تھی۔میں بمشکل چل پارہی تھی اور ڈر تھاکہ سیڑھیاں اترتے کہیں گرہی نہ پڑوں ۔اگر ایساہوگیاتواپنی جسمانی بربادی سنبھال نہ پاؤں گی۔میں  شدید احساس محرومی کاشکارہوکر اپنے بستر پر گر گئی ۔ میں کبھی بھی نہیں چاہتی تھی کہ وہ مجھے  بےوقعت سمجھ کر قابل رحم سمجھے ۔اس میں توکوئی شک نہیں تھاکہ میں اپنی حالت سدھارنا چاہتی تھی اوراس میں غیر شعوری طورپر اس کی مدد کی ضرورت تھی۔وہ میری رہنمائی کرسکتاتھاکہ میں ایسی حالت میں کیاکروں جس سےمیری بگڑی حالت سنبھل جائے۔۔۔ایسی توقع کرنا                 بیہودہ بات تھی۔ میں گھنٹوں فون کےپاس بیٹھی کسی اہم فون کاانتظار کرتی رہتی۔کبھی سوچتی اپناوقار داؤپرلگادوں  اور اس سے گڑگڑا کر بھیک مانگوں کہ مجھے اپنالے۔میرادماغ سوچ سوچ کے ماؤف ہوگیاتھا۔میں نے بالآخر فیصلہ کرلیاکہ خودکودوبارہ سنبھالوں گی۔میں نےاپنی ملبوسات کودیکھااور سوچاکہ اب میں   لباس میں سادگی اپناؤں گی  اور لمباچوغہ  پہنا کروں گی جس کارنگ ایساہوگاجو میں نے ٹی وی کے ایک مخصوص صوفی پروگرام کے لئے سلوایاتھااورایک بارہی پہناتھا۔میں نے اس وقت ایک خط لکھاکہ میں اپنی کم عقلی اورکم فہمی کی زندگی کی بناپرجوناکامی ہوئی کی بناپر خودکشی کررہی ہوں۔

سردیاں سرپرتھیں۔اگر میں اسی طرح رہتی تو گھر کے نل ، ٹائلٹ اور غسل خانے کے گرم سرد پانی اور گیس  کی مرمت نہ ہوسکتی تھی ۔ میں نے پلمبر بلوالیاتاکہ  ان کی مرمت  کی جاسکے جواپنے دوساتھیوں کے ساتھ آیااور  نلوں کو ٹھیک کرنے لگا۔اس دوران ایک عجیب بات ہوئی کہ میراعاشق نامدار اس روز  میرے پاس آنے کی ضدکرنے لگالیکن میں نےسنی ان سنی کردی۔پلمبر نچلی منزل پرمرمتیں کررہے تھے۔میں نےسوچاکہ اپنی نگرانی میں اپنے کام کرواؤں تاکہ وہ لاپرواہی سے کوئی  کام چھوڑ نہ جائیں۔وہ میری موجودگی میں تیزی سے کام کریں گےاور بہترین کارکردگی دکھائیں گے۔ساتھی نیچےتھےاورسپروائزر  میرے ساتھ باورچی خانے میں تھا۔جانے میرے من میں کیاآیا کہ میں نے اس سے درخواست کی  کہ وہ مجھے میری خود کشی کرنےمیں مدد کرے۔میری بات سن کر وہ حیران ہوگیا لیکن  اپنےکام میں مشغول رہا۔

زندگی کےمعمولات میں کبھی کبھارایسا لمحہ بھی آتاہے جب  ہر فرد افسوس کرتاہے۔اس مسئلے سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کرتاہےلیکن بسااوقات وہ اس سے نکل نہیں پاتا۔مجھے بھی اس دوران ایسامحسوس ہورہاتھاکہ  وہ بحران  مجھ پراضافی بوجھ  ڈال دے گاجو میری برداشت سے باہرہوگا۔میں اس وقت اس عاشق نامراد پرتوجہ نہیں دیناچاہتی تھی ۔تم سوچو گے کہ میں بےرحم ہوں  اوراپنے بیٹوں کاخیال ذہن میں نہیں لارہی جو ابھی کم سن تھے اور میرے زیرکفالت تھے۔اپناعشق شروع کرنے سے پہلےہی وہ بورڈنگ ہاؤس میں رہ رہے تھےاور مجھےان کی سرپرستی سے محروم کردیاگیاتھا۔وہ میرے بغیرجیناسیکھ گئے تھے۔میرا ہونایانہ ہونا          ،ان کےلئے اب غیرضروری ہو گیاتھا۔مجھے ان سے علیحدگی کے عدالتی  فیصلے کو ہسٹریائی اانداز میں قبول کرناپڑاتھا۔میں اب سمجھ رہی تھی  کہ میرے اس  دنیاسے چلے جانے سے ان کوکوئی فرق نہیں پڑنے والاتھا۔ان کی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہنی تھی ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ آخری بار میں نے انہیں  ایک ماہ  سے نہیں دیکھاتھااور میری اس غیرحاضری سے میں نے ان کی محبت میں ذرابھرفرق نہیں  آیاتھا۔اس طرح کےواقعات نے مجھے  صبرسکھادیاتھا لیکن محبت جوں کی توں قائم رہی تھی۔بیٹوں کے ساتھ  ایساہی ہوناتھا۔یہ وہ عرصہ تھا کہ ان کا ایک سمسٹر ختم  ہوگیا تھااور اگلے سیمسٹر میں کچھ دن تھےاور درمیان میں چھٹیاں تھیں اور جدول کےمطابق انہوں نے یہ چھٹیاں اپنے باپ کےپاس گزارنی تھیں۔میں نے انہیں صرف چند گھنٹے ہی دیکھنا تھااور پھر انہوں نے غائب ہوجاناتھا۔اس لئے میری خودکشی  ان کے لئے غیراہم تھی۔مرنے والوں کےبعد بھی دنیاکے معمولات میں فرق نہیں آتا۔

پلمبروں کےسپروائزرکانام مائیکل تھا،نے ایک نظرمجھے دیکھااور کہاکہ چائے پیو۔اس نے اسی وقت چائے بنائی تھی اور اپنے کپ میں انڈیل رہاتھا۔میں نے کانپتے ہاتھوں سے کپ پکڑلیا۔اس کے مگ کارنگ بھوراتھا۔جب میں نے پلمبر کے ہاتھ سے  مگ پکڑاتو میں اپنےاوراس کےہاتھ کامعائنہ لیا۔اس سے مجھے یادآیاکہ میراعاشق بستر میں  ہم  دونوں کے ہاتھوں کی پیمائش کیاکرتاتھا۔لمبائی اور چوڑائی ماپاکرتاتھا۔اس کے بعد مجھے ایک اورواقعہ یادآیاجواتنازیادہ اہم تونہیں لیکن قابل ذکرضرورتھا۔ ۔۔ اس کی بیٹی کاہاتھ اس کی لاپرواہی سے کارکےدروازے میں آگیاتھا اور اس کی انگلیاں ٹوٹی تونہیں تھیں مگر سخت زخمی ہوگئی تھیں۔اس پروہ بہت روئی تھی اور وہ غمزدہ ہو گیاتھااور توقع کررہاتھاکہ اس کی بیٹی اس کی غلطی معاف کردے گی۔یہ سنتے ہی مجھے ایسامحسوس ہواکہ میری انگلیاں کٹ گئی تھیں ان میں کوئی حس  باقی نہیں رہی تھی۔ہرکوئی میرے اس قصے سے یہ اخذ کرسکتاتھاکہ میں بےرحم خاتون ہوں۔لیکن اگر حقیقی طورپرکسی کی انگلیاں کٹ جائیں تو مجھے بہت دکھ ہوتا۔لیکن ان چھوٹے موٹے واقعات کا تعلق اس غم سے نہیں جومجھے اپنے عاشق سےملاتھا۔اس نے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیاتھا۔میں اپنادکھڑاپلمبرکوبتایاکہ محبت کامعاملہ بڑاپیچیدہ ہوتاہے جوایک وقت تو عروج پرہوتاہےاور یکدم ماند پڑجاتاہے۔اس سے دل کوٹھیس لگتی ہے لیکن یہ درد ارغوانی رنگ کےپھولوں کی طرح کاہوتاہےجواپنی بہاردکھانے کےبعد سوکھ کرغائب ہوجاتے ہیں ۔ میں اس وقت ایک ایسے صدمے سے گزری ہوں جس کامقابلہ نہیں کرسکتی ۔ میں اسے کہنا چاہتی تھی کہ مائیکل  میری مدد کرے۔ یا تو مجھے قتل کردےیا  خودکشی میں  میری مدد کرے ۔

مجھے گفتگوکاوہ حصہ یادآرہاتھاجب اس عاشق اورمیرے درمیان خفیہ تعلقات تھے۔میں اس کی عشقِ مقصود تھی اور مجھے جنسی کھلونے کی طرح استعمال کرتارہا۔ مجھے لذت گاہ سمجھتارہا۔اس نےمجھے اس حالت میں پہنچادیاتھا۔میں کوئی بکاؤمال تونہیں تھا۔اس کاکھلونابنناانسانیت کی توہین تھی۔وفا ،خلوص اورایماندارانہ تعلقات میں سب کچھ خوشی سے برداشت کیاجاسکتاہے لیکن محض عیاشی کے لئے نہیں۔اس کے رویےسےمیں دلبرداشتہ ہوگئی تھی اور اس سے تعلقات ختم کرنے کافیصلہ کرلیاتھا۔میں  اس کی مطلبی  محبت کےبارے میں پلمبرکوبتاناچاہ رہی تھی لیکن نہ بتاپائی۔محبت ارغوانی  رنگ کی طرح کی کوئی شئے تھی جسے شدت سے محسوس کیاجاسکتاتھا۔ایسے عاشق جو جسم سے محبت کرتے ہیں فانی ہوجاتے ہیں۔ مائیکل  نے شکرڈالنے کےبعد چائے میں چمچ پھیراتاکہ شکر حل ہوجائے۔

میرے منہ سے نکل گیاکہ میں اس دنیاسے تنگ آگئی ہوں ۔مجھے ماردویا مرنے میں میری مدد کرو۔

کیامسئلہ ہے۔کس شئے کی مدد کروں۔مائیکل نےپوچھا۔میں جانناچاہوں گا ۔ہم ایک دوسرے سے واقف تھے۔وہ سینیٹری کےکام کاماہرتھا۔پائپ لگاناآسان کام نہیں تھا۔وہ ایک فن تھا۔وہ  نلوں کی خرابی کی وجہ بیان کرنے لگاکہ   ان پر جو رنگ کیاگیاتھا ، یا تو اتر گیاتھا یا اڑکر پیلا ہوگیاتھا۔تم سوچ سکتی ہوکہ میں ان نلوں کوپہلے سفید رنگ کروں گاپھراسے فٹ کروں گا۔   'میں بھی یہی رنگ چاہتی ہوں۔ تم  میری مدد کرو جو میں نے کہاہے۔'  

اے خدا!مائیکل نے ماتھے پرہاتھ مارتے ہوئے کہا جس پر ہم قہقہہ لگاکر ہنس پڑے۔ظاہری طورپریہ بات میرےچہرےسےعیاں تھی ۔مائیکل  نےاپناہاتھ میرےگردحائل کردیااوردیوان خانےلےگیا۔مجھے اندازہ ہوگیاتھا کہ اس کی نیت  ٹھیک نہیں تھی۔وہ پاگلوں جیسی حرکات کررہاتھا۔اس سے کسی نیکی کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔میں نےغیرجانبدارانہ طریقے سےسوچا۔

' تمہارےپاس زندہ رہنےکےکئی مقاصدہیں اےجوان نئی  قیمتی  کارکی مالکن۔تم تعلیم  یافتہ اور  قابل تعظیم  لڑکی ہو۔ہرکوئی تمہاراآٹوگراف لینےکےلئےماراماراپھرتاہے۔تمہیں ایسا نہیں کرناچاہیئے۔'اس نے کہا۔

'بس۔بس۔بس۔'میں نےاسکی بات کاٹتےہوئےکہا۔ '          میری زندگی بےمقصد ہے۔میں نےبےوجہ تمہیں نہیں  کہا۔مجھ پرہرقسم کےظلم اورزیادتیاں ہوئیں اورہورہی ہیں جسے میں نےبرداشت کیا اوراب بھی سہہ رہی ہوں۔اور لڑکوتمہاری زندگی؟۔۔۔وہ کیسے گزرتی ہے'۔۔۔ میں نے ان خطوں کاپلنداجولڑکوں نے مجھے لکھے تھے اس کے سامنے رکھ دئیے؟

مائیکل نےوہ دیکھے۔اس میں نےایک لڑکے کاخط اٹھایاورپڑھنےلگی۔'ظالم'کالفظ میرے ذہن میں آیااورکمرے کےہرکونے سےگونجنےلگا۔اس لفظ نےمیرے ذہن کوجکڑلیا۔مائیکل مجھے گدھ کی طرح لگا اوراس سےاجتناب کے لئےمیں نےاپنی جرسی کی آستینوں کی طرف دیکھاجس کاڈیزائن کچھ اس طرح کاتھاکہ کپڑوں کے مختلف ٹکڑے خوبصورتی سےجوڑ کرایک چھوٹے گیند کی شکل بنادی گئی تھی ۔

ایک لمحےکے وقفےکےبعدمائیکل نےکہاکہ۔۔۔'        تم  تیسری ہو ۔'

'تیسری! مطلب؟ 'میں نےاپنے سکارف کو اپنےگلےپرلپیٹتے ہوئےکہا۔

                       '           میری زندگی میں تم تیسری لڑکی ہو جو خودکشی کی طالب ہے۔ایک لڑکی اوربھی تھی۔اس کےخاوندکاایک بینڈتھا۔وہ اپنےشومنعقدکیاکرتاتھایاگانوں پر ریاض کرتا رہتا           تھااوررات بھرگھرسے غائب رہتاتھا۔ایک رات وہ  کسی پارٹی میں  گئی تواپنےخاوندکوکسی اورلڑکی کےساتھ ناچتے دیکھا۔اس نے اسی وقت  اپنے میاں  سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔'پلمبر نے کہانی سنائی۔

'                      نہیں!                'میں نے تجسس بھرے لہجےمیں کہا۔

*'  اس نےاسے نشہ آوردوائی کھاکر خودکشی کرلی۔ اس طرح سے  اس خاتون سے سمجھا ہوگا کہ اس نے اپنے بے وفا خاوند سے بدلہ لے لیاتھا۔'اس کےبعداس نے ایک اور قصہ سناناشروع کردیا۔'                ایک لڑکی نے اپناکمرہ اچھی طرح بندکرکے گیس چھوڑکرخودکشی کرلی تھی۔۔۔خودکشی کےاوربھی طریقے ہیں    '    مائیکل نےکہا۔۔۔ ' تمہیں ایسانہینا چاہیئے ۔' اس  نے  آنکھیں ٹیڑھی کرتےہوئے کہاکہ تمہیں  زندگی کا ایک ایک لمحہ     اس  کالیور بند کردیا۔ وہ جب آیاتھاتو گیس  چیک کرنےکےلئے اس نے اسے کھول دیاتھاجس سےکمرے میں گیس بھرنے لگی تھی جو بے حد خطرناک تھی۔                                 پھر بولا۔  '           تمہیں اپنی زندگی بھرپورطریقے سے گزارنی چاہیئے۔تم نے بہت اعلیٰ لباس پہننا                         بند کرنا چاہیئے۔تمہاری ملبوسات کی پسند بےحد عمدہ ہے۔ایسا ہی لباس پہناکرو'۔۔ ۔

میں نےاس کی طرف دیکھا۔وہ بہت سنجیدہ تھا۔میں نے اسے اتنے قریب سے کبھی نہیں دیکھاتھا۔بےچارہ مائیکل!ایک کمزور سی معافی۔۔۔میں نےسوچاکہ اگر وہ  مجھے ماردےیاخودکشی میں میری مددکرنے کاوعدہ کرلے تومیں ایسے طریقے سے خودکوماروں گی کہ لوگوں کومدتوں یادرہے گی۔

'            ایک پیاری لڑکی۔ایک خوبصورت جوان لڑکی۔یچاری  لڑکی۔۔۔   تم غلط سوچ رہی ہو۔'              اس نےرحم انگیز لہجے میں کہا۔اس نےمددسے صاف انکارکردیا۔'اس کےبعد اس سے کہنےسننے کوکچھ نہیں رہا۔اس نےمجھے گومگوکی کیفیت سےباہرکردیا۔میں خوکونارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی۔میں نے سائیڈ ٹیبلوں سے برتن اٹھائے اورباورچی خانے میں دھونے کے لئے رکھ دئیے ۔ایک مہینے سے گندے برتن ہرجگہ بکھرے پڑے تھے۔ان سب کو اٹھاکر دھونے میں ڈال دیا۔

پلمبرنےمجھےفعال دیکھا۔ ٹھنڈی سانس لی اور  کہا۔'  تمہیں مل کر اچھالگا   ' اور پھر اپنے کام میں مشول ہوگیا۔

اس روزاوربھی کئی مسائل پیداہوئے۔مشکل اس وقت پیداہوئی جب اس روز   اس کے بیٹوں نے عدالتی حکم کے مطابق اس باراپنے والد کےپاس ٹھہرناتھا۔۔۔اس نے مجھے فون کیا، ہمارے  بڑے بیٹےکوبخارتھااس لئے۔۔۔ ' اس نے کہاتو کچھ نہیں لیکن اس کامطلب تھاکہ وہ اس کاخیال نہیں رکھ سکے گا۔ 'اگر تم  اجازت دوتو کیا  وہ تمہارے  پاس آجائیں؟' میں نے مثبت میں جواب دیا۔۔۔وہ سہ پہرکوپہنچ گئے۔میں دروازے میں ان کاانتظارکررہی تھی اور اپنے چہرے سے پریشانی کےآثارمٹانے کی کوشش کررہی تھی۔بیمار بیٹے نے اپنے موٹے پٹ سن کے کوٹ پر کمبل لپیٹاہواتھا اوراپنے باپ کاسکارف گلے اور چہرےپر ڈالاہواتھا۔میں نےاسے گلے لگایاتووہ رونے لگا۔ جبکہ دوسرابیٹاگھربھرمیں گھومنے لگا۔اس نے محسوس کیاکہ  گھرمیں سامان کی ترتیب بدلی ہوئی تھی۔جب مجھے پتہ ہوتاکہ انہوں نے  اس ہفتے میرے پاس آنا ہوتا تھاتومیں ان کے لئے تحفے خرید کر ایک میز پررکھ دیتی تھی اور وہ وہاں سے اٹھالیاکرتے تھےلیکن اس بار چونکہ وہ میرے پاس اتفاقیہ آئے تھے اسلئے میں ان کے لئے تحفے نہیں لاسکی تھی۔اس لئے وہ افسردہ ہوگیاتھا۔

جب میں نےبیماربچے کے کپڑے اتارے تواس نےمیری آنکھوںاور چہرےپرآنسوؤں کےنشانات دیکھےاورپوچھا، ' ماما!تم کیوں روئی ہو۔'

'  کیونکہ تم بیمارہو۔'میں نےجواب دیا۔

                      '            اوہ مومسی!                وہ مجھے اس نام سےپکاراکرتاتھا۔اس نےاپنی بانہیں میرے گلےمیں ڈال دیں اور ہم دونوں رونے لگے۔مجھے اندازہ تھاکہ اس کے رونے کی وجوہات اور بھی تھیں جو ٹوٹے گھروں میں ہوتی ہیں۔میں اس سے گلے مل رہی تھی ۔مجھے یاد آیا کہ میں پچھلے ایک مہینے سے اپنے نام نہادعاشق سےنہیں ملی تھی اوروہی میرے گلے میں  ایسےبانہیں ڈالا کرتاتھا جیسے میرابیٹااس وقت ڈال رہاتھالیکن ان دونوں کے جسمانی سائز میں فرق تھا۔اس کی چھاتی کی چوڑائی،قدوقامت اتنی بڑی تھی کہ اس سے گلے ملنے کےلئے مجھے ایڑیوں پرکھڑاہوناپڑتاتھا۔جب میں نےاپنے بیٹے کوپکڑاہواتھاتومجھے وہ بہت چھوٹالگالیکن اس پربہت پیارآیا۔اس کےعلاوہ ان دونوں کے بارے میں اپنے احساسات میں بھی فرق تھا ۔

چھوٹابیٹااورمیں خوابگاہ میں بیٹھے ایک گیم کھیل رہےتھےجس میں ایک پیراپڑھاجاتااوراس پرسوال پوچھےجاتے۔ایک ویڈیو میں  فٹ بال کے کھلاڑی پرایک شودکھایاگیااور اس پر سوالات پوچھے گئے  توچھوٹابیٹا جھٹ سےصحیح جواب دے دیتا لیکن  بڑابیٹااورمیں اس کھیل میں نالائق تھے۔جب آگ کی گرمی آنے لگی توہم  جوش سے اٹھ بیٹھےکیونکہ بوائیلرجوہمارےکمرے کی پشت پرتھا  پلمبر نے ٹھیک کرکےچلادیاتووہ شورکرنےلگاتھا۔میں ایک مہینےسےکمرےمیں بندرہی تھی اورچاہتی تھی کہ باہرکی تازہ ہواکھاؤں ۔

 اس وقت مائیکل اپنے دوساتھیوں کےساتھ نمودار ہوااوربتایاکہ اس نےکام ختم کرلیاتھا۔میں نے صبح خودکشی والےڈرامےکےبعد اپنی غلطی مان کر شرمندہ ہورہی تھی اوراس سے نظریں چرارہی تھی اوردوپہرکوتومیں نےاس کی چائے بھی ادھوری چھوڑدی تھی اور اسے چبوترے پرچھوڑکرآگئی تھی۔اس نے اپنے دوستوں کوبتادیاتھاکہ میں نے اس سے درخواست کی تھی کہ وہ مجھے قتل کردےیاخودکشی میں  میری معاونت کرے۔ مجھے یہ بھی شک تھاکہ اسے میری مشکلات کااندازہ ہوگیاہوگا۔مجھے یہ سوچ کربڑی سبکی محسوس ہوئی تاہم میں نےان تینوں کو مشروب مغرب پلایا،مزدوری اداکرکے شکریہ اداکیا۔میرے بیٹے حیرانی وپریشانی سے انہیں دیکھتے رہے۔ان کے چہرے اُڑےہوئےتھے۔میں نے سوچاکہ وہ جلد ہی خودپرقابوپالیں گے۔اب کچھ نہیں ہوسکتاتھا۔

باقی ماندہ شام میں نے اپنے لڑکوں کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوںمیں  گزاری اوررات سوتے وقت میں نے انہیں کہانی پڑھ کرسنائی۔جوایک مہم جوکی تھی۔کہانی سنتے سنتے دونوں سوگئے۔ صبح اٹھے تودونوں بخار میں پھنک رہے تھے۔مجھے بہت پریشانی ہوگئی اوراگلےکئی ہفتے میں ان کی تیمارداری میں لگی رہی۔ڈبل روٹی دودھ میں ڈبوکر، دلیا اور وہ کھانے جو زودہضم ہوں پکائےاور  انہیں  منت ترلوں کےساتھ  ادویات دیتی  رہی۔ خداکاشکرہے کہ دونوں صحت یاب ہوگئے۔ وہ اس دوران مچلاکرتے کہ انہیں تفریح کروائی جائے جومیں کراتی رہی۔وہ بورڈنگ ہاؤس نہیں جاناچاہتےتھےلیکن  برے دل سےانہیں زبردستی بھیجناپڑا۔اس دوران میں نےانہیں  وینزویلامیں تتلیوں کےطوفان کابھی بتایاجوگچھوں کی صورت میں درختوں سے چمٹی رہتیں اور حشرات الارض انہیں ڈھانپتے رہتے۔ان کو بتایاکہ فرانس کی چڑیاں انگلستان کی چڑیوں سےمختلف ہوتی ہیں۔وہ اور۔اور۔اور کہتےرہتے اورمجھے جتنامعلوم ہوتاتھا انہیں بتاتی رہتی۔جوشئے ان کے تخیل سے دورتھی انہیں  ایک ساتھی جوٹی وی پرکام کرتاتھاسےوڈیومنگواکردکھاتی تووہ سمجھ جاتے۔

میں نے کئی باراپنےذہنی خلفشارکوبچایا۔جب بھی بچوں کاباپ ہمارے بیٹوں سے ملنے آتاتو میں اس کے سامنے نہ آتی اوراپنے کمرے میں بیٹھ کر چائے پیتی رہتی۔وہ لمحات میرے لئے مشکل ہواکرتے تھے۔میرے گھر میں ہلکی واٹ کے بلب لگے تھےجن کی روشنی کم تھی اورایسی روشنی رومانی امورکےلئے بہترین تھی۔اس روشنی میں میری پرانی یادیں تازہ ہوجاتی تھیں جوروح فرسا تھیں۔مجھے ان سے چھٹکاراحاصل کرناتھا۔مجھے وہ پل یادآتے جب میں اپنے   پرانے خاوند کےساتھ اپنی زندگی کےحسین لمحات گزارے تھے۔ہم لندن کے تفریحی مقامات پر جہاز کے پروں کی طرح ہاتھ پھیلاتے سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہےتھے۔ہماری ہرتفریح سنٹرل آئی لینڈ پر جاکرختم ہوتی تھی۔ مجھے یہ قلق رہاکہ ہم  کئی غروب آفتاب اکٹھے نہیں گزارسکےتھے۔ تاہم ہماری لذتوں میں کسی نے بھی مداخلت نہ کی تھی۔ ہم سگریٹ کے اشتہاروں،پتلی تماشوں اور کسی بھی دوسری دلچسپ  اشیا  پرتوجہ نہ دیتے  اور اپنےآپ میں مگن  رہاکرتے تھے۔ایسے واقعات میں نے گنے توان کی تعدادسترہ تھی جوطویل راتوں میں سینڈوچ بن گئی تھیں ۔ ہمیں کھل کھیلنے کے لئے وافروقت میسرتھا۔وہ سہاے دن تھے جوُ اڑگئے۔گم ہوجانے والی خرمستیاں  اور جذبات کی انتہائی آسودگی اسی کمرے میں ہواکرتی تھی۔ صحبت میں میں سنگترے چھیل کر پھاڑیاں اس کے منہ میں ڈالتی رہتی تھی۔

مجھے یادآیا کہ دوسراکمرہ بھی ہمار ی  جنگلی محبت کاگواہ تھا۔اس کمرے میں ہم نےایک طاعون زدہ ملاپ بھی کیاتھا۔شادی جب تک قائم تھی میں اپنے خاوند سے اسی کمرے میں حقوق زوجیت اداکیاکرتی تھی لیکن طلاق کے بعد مجھے اس کمرے میں ملاپ سے ہول آتاتھا۔ وہ محبت  اور وابستگی جومیں اپنے خاوند سے کیاکرتی تھی اب  نئے عاشق سے ہوگئی تھی۔اس نے میرے خط کےجواب میں جو بیان دیاتھاکہ وہ مجھ سے محبت کرتاتھا، کرتاہے اور ہمیشہ کرتارہےگا ایک جھوٹ تھا،مکاری تھی۔اس نے مجھے دھوکادیاتھا۔نام کی محبت تھی لیکن حقیقت میں اس نے اپنے راستے جداکرلئے تھے۔اس نے مجھ سے تعلق توڑلیاتھااوراس نے سوچاتھاکہ وہ آزاد ہوگیاتھا۔لیکن لگتاتھاکہ وہ یوٹرن لینے لگاتھااور  اب وہ میرے پاس واپس آنے کے بہانے ڈھونڈ رہاتھا اور مجھ پرپھر سےسوارہونا چاہتاتھا۔۔اس نے اب مجھے ایک کارڈ ارسال کیا۔میں اس وقت تک خود سےبھی بیگانہ ہوچکی تھی۔میں اس کی بےعزتی کرنا چاہتی تھی۔ میں نے اس سلسلے میں ایک ڈنر کاانتظام کیاجس میں اسے بھی بلایا۔میراارادہ تھاکہ اسے اس پارٹی میں طریقے طریقے سے ذلیل کروں۔میرے جذبات اس وقت دوراہےپرتھے۔ دوجذبی حالت تھی۔محبت اور نفرت میں رسہ کشی جاری تھی ۔ہوسکتاتھاکہ کوئی درمیانی صورت بھی نکل آتی۔ میں ڈنر پرجانے لگی اور ٹرین پکڑی تو اس میں اس کےاشتہارات چل رہے تھے۔ایک میں اس کاڈائیلاگ تھا'گھبراؤ نہیں'۔جذباتی خلفشار کاشکارنہ ہو۔ہم بگڑی سنوارتے ہیں۔ہم آپ کی ضروریات سمجھتے اور آپ کی مرضی کےمطابق  ترجیحات دوبارہ سے تشکیل کرتے ہیں۔ہم پربھروسہ کریں۔ہمیں آزمائیں ۔ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک آپ مطمئن نہیں ہوتے۔'یہ ایک جیولرکمپنی کااشتہارتھا۔میں نے اس وقت حتمی فیصلہ کرلیاکہ بگڑے حالات کی اصلاح اس سے انتقام لےکرکروں گی۔

میں نہیں کہہ سکتی کہ یہ شروع کیسے ہواکیونکہ یہ چیزبڑی دہشت ناک تھی۔میں نہیں جانتی۔یہ وہ زمانہ تھاجب بچے تندرست ہوکرواپس بورڈنگ ہاؤس چلے گئے تھے۔اب ان سےملاقات  کرسمس پرہوناتھی۔عاشق نامراد اور میں نےکرسمس کارڈوں کاتبادلہ نہیں کیاتھا۔ اس وقت میرے جذبات میں کسی حد تک ٹھہراؤآچکاتھا۔اب میں میانہ روی کی طرف مائل ہوگئی تھی۔اب میں کبھی کبھار گھرسےباہرجاکر ریستوران بھی چلی جاتی اور کھاتی پیتی تھی۔تفریح کے لئےفلم یاتھیٹر بھی چلی جاتی تھی۔ماحول اورموسم کی مطابقت سے شراب نوشی کرنے لگ گئی تھی۔مجھے اپنی بدلتی ہوئی حالت پرحیرانی بھی آتی اور ہنسی بھی۔ اس کے ساتھ ڈنر میں  میری سوچ اور رویہ کیاہو ،نہیں جانتی تھی۔حالات کسی  رخ  بھی  مڑ سکتے  تھے۔

اس وقت میری  سوچ اپنے بیٹوں کی طرف گئی جن کی تعلیمی کارکردگی کا مجھے حال ہی میں علم ہواتھا۔ وہ اپنی کارکردگی مبالغہ آمیز حد تک بڑھا چڑھا کر بتاتے تھے۔ انہیں  کس طرح  راہ راست پر لایا جائےمیرے لئے لمحہ  فکریہ تھا۔شحقیقت میں ان کےکھیل کود اور تعلیمی میدان  کی کا  رکردگیاں نچلے درجات پرتھیں لیکن انہوں زمین کےقلابے ملاکر اعلیٰ ظاہرکررکھاتھا۔انہوں نے ہم سے ہر چیز چھپائی تھی۔میں اس پربھی پریشان تھی۔

دوسری  طرف وہ تاروں پہ تاریں بھیج رہاتھا۔ وہ  مسلسل خط لکھ رہاتھا اور ملنا چاہ رہاتھالیکن۔۔۔اس نے میرےاندرکی رطوبت نچوڑلی ہوئی تھی۔اس احساس اور سنسنی  خیز تعلقات کے مقابلےمیں یہ چیزیں حقیرتھیں۔ایسے  حقیربحالی کےاقدامات نے مجھےتقریباًچیخنےپرمجبورکردیا۔اس کےیہ حربےاب بے اثر تھے۔ان سے اب اسےکچھ حاصل نہیں ہونےوالاتھا۔اسےاب فون کرنے کی خواہش اب دم توڑچکی تھی۔ایک دن اس کااچانک فون آیا۔یہ وہ دورتھاجب میں  اپنےاندرلڑائی میں الجھی تھی کہ اس کی تاروں اور خطوط کاجواب دوں یانہ دوں۔اس نے کہاکہ کیاہم مل سکتے ہیں۔اس نے یہ بات اتنی عاجزانہ طورپرنرمی اورپیارسےکی تھی کہ میرے اعصاب پرطاری خفگی نے اس کی چیرہ دستیوں کونظراندازکردیا۔میں ذہنی طورپراس وقت تک کسی حدتک خودکوسنبھال چکی تھی۔۔۔ہم ایک کیفے میں  چائےپرملے۔ہم نے وہی آرڈر کئےجوتعلقات کی ابتدا میں دیاکرتے تھے۔اس نے پوچھاکہ میں کیسی ہوں۔میرے رنگ روپ کی تعریف کی۔ہم میں سےکسی نےبھی خط وکتابت کاذکرنہ کیا۔نہ ہی اس نے یہ بتایاکہ اس نے فون کس مجبوری سے کیاتھا۔اس نے اپنے کام کےبارے بتایاکہ وہ مصروف تھا۔اس نےایک چھوٹاساقصہ سنایاکہ ایک دفعہ وہ اپنی خالہ کوسیرکےلئے لےجارہاتھا۔میں کارآہستہ آہستہ چلارہاتھا۔خالہ اکتاکربولی۔گاڑی تیز چلاؤ۔میں توپیدل بھی اس سے تیز چلتی ہوں۔تم نے نامساعد حالات پرقابوپالیاہے۔اس نے اچانک یہ  کہا۔میں نےاس کے چہرے کی طرف دیکھا۔اس کی آنکھوں میں شہوت زدہ تھی۔میں اس کامقصد سمجھ گئی  کہ مجھ سےملنے کےلئےوہ اتنابیتاب کیوں تھا۔

میں نے اسےکہا۔میرے لئے اب یہ معاملات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔میں نے ان پرقابوپالیاہے۔چلاگیاتھا  میں سکون میں ہوں۔مجھے کوئی چاہ نہیں اور میں نےاپنی اسے اپنی درمیانی انگلی دکھائی اور شکر کی پیالی  میں ڈال کر اس کےمنہ کے سامنے رکھ دی۔جس کا  علامتی مطلب 'ہرگزنہیں' تھا۔۔۔بیچارہ آدمی۔۔۔اپنی  ہوس میں  کس  تک حدتک گرجاتاہے۔مجھے اسے کوئی بات نہیں بتاناچاہیئے تھی۔وہ میرے جذبات واحساسات سے لاعلم تھا۔وہ کچھ نہیں سمجھ سکتاتھا۔ایک لحاظ سے وہ بدلا ہواشخص تھایہ وہ شخص نہیں لگ رہاتھاجواپنامقصد پوراہونے کے بعد بستر تہہ کرتاتھا۔مجھے خشک کرتاتھااوراپنےسگارکی راکھ کوپرچ میں چھوڑجاتاتھاتاکہ میں اسےصاف کردوں۔   پہلےوالا عاشق ہرگز نہیں تھا۔

                   '      ہم کبھی کبھار ملتے رہیں گے'                   ۔اس نے کہا۔

                  '             ٹھیک ہے۔    '                    میں نےجواب دیا۔                '          میں نے  آگےکاسوچانہیں ۔'

                 'شائد تم ایسانہیں چاہتیں؟               '                   

' جب بھی تم محسوس کرو اورچاہو۔'           میں نےتوہاں کہااور نہ ہی منع کیا۔ایسالگاکہ میں عمربھر کسی قیدخانے میں رہ رہی تھی اورمجھے اس کھولی میں راہبانہ زندگی یاہسپتال کے بستر سے یا ایسے غیرآباد علاقے سےجہاں بندہ          نہ بندے کی ذات ہو سے شدید خوف آناشروع ہوگیاتھا۔اس شخص کومیری رتی برابرپرواہ نہ تھی اور میں اس کی محبت میں مبتلارہی تھی۔

میں شکروالی انگلی اس کے منہ کےآگے کررہی تھی۔اب میں ایک تاریک کوٹھڑی میں داخل ہوچکی تھی۔وہ میرےجذبات واحساسات سے بےخبرتھاکیونکہ وہ کسی دوسری تاریک کوٹھری میں تھا۔میری چاہت  کے بدلے میرے لئےکیاتھا۔ان لطیف احساسات کا کوئی موازنہ بنتاہی نہیں تھا۔میرے لئے کیاتھا  ،کچھ بھی نہیں۔اس کے بھی مسائل ہوں لیکن ان کی نوعیت مجھ سے مختلف تھی۔

اپنےگھرکی کال کوٹھری نےمجھےخانقاہ کی یاددلادی جہاں میری بہن راہبہ تھی۔

                '            میں اپنی بہن کودیکھناچاہتی ہوں۔میں اسے ملنے جاؤں گی۔'           میں نےکہا۔          

' وہ اب کیسی ہے          ۔'        اس نے پوچھا۔جب تعلقات زوروں پرتھےتووہ اکثراس کےبارے میں پوچھتا         رہتاتھا۔اسے اس کوجاننے کی خواہش کااظہارکرتارہتاتھا۔اس کی شکل وصورت کیسی ہے۔اس کے مشاغل کیاہیں۔تم اس سے کب ملتی ہو وہ وہاں دن کیسے گزاررہی ہے وغیرہ۔دراصل وہ اسے بھی پٹاناچاہتاتھا۔                            

وہ ٹھیک ٹھاک ہے۔میں نے کہا۔بہت پہلے میں نے اسے اس کا ایک واقعہ سنایاتھا۔ایک دفعہ میری بہن اور میں دونوں خانقاہ کی راہداری سے گزررہے تھےتواس نے کہاکہ ادھرادھرنگاہ                   رکھوں کہ کوئی راہبہ ہمیں دیکھ تونہیں رہی۔جب کوئی نظر نہ آیاتواس نے  اپنا سکرٹ اٹھایا اور نیچے سے بردہ برکان اتار دیا۔

' پیاری لڑکی'۔اس نے کہا۔اسے اس کایہ عمل اچھالگا۔اس قسم کی شہوانی باتیں اسے خوش کردیاکرتی تھیں۔                           

ہم نے چائے ختم کی ۔یہ سہ پہرمیرے لئے زیادہ تر بور رہی تھی۔جب ہم کیفے سے باہرآئے تواس نے میراہاتھ تھام کرکہاکہ کتنااچھاہو کہ ہم چنددنوں کی تفریح کےلئے جائیں۔شائد اس کے آنےکااصل مقصد یہی تھا۔وہ یہ دعوت سنجیدگی سے دے رہاتھا۔

دراصل ہم نےاپنے وعدے نبھائے ۔گاہے بگاہے ملتے رہے۔کہاجاسکتاہے کہ تعلقات کسی حدتک سابقہ ڈگرپرآگئے تھے۔اس سے مراد یہ تھی کہ ہم  رات بیٹھ کر چاندنی کانظارہ کیاکرتے تھے۔درختوں،تارکول کی سڑکوں پر تھوکاکرتے  تھے۔میں اجنبیوں کی طرف دیکھتی اور اپنی حالت زار پران کےتاثرات دیکھتی۔یہ باتیں میری روزمرہ زندگی کاحصہ بن گئی تھیں۔میرے بستر کی ایک جابنب ٹیبل لیمپ ہے جواس وقت کڑکڑکی آوازپیداکرتاہے جب ریلوے لائن پرسےریل گزرتی ہےاور ہررات میں اس کڑکڑکوگنتی رہتی ہوں۔اس کارویہ اب پہلےجیسا          ہوگیاہے۔پہلے جیسابن گیاہے ۔وہ مجھے خیالوں میں مجھے اکثرملتارہتاہے کبھی کیفے میں کبھی پارٹی میں ،کبھی میزپر۔۔۔وہ میرے من میں بستاہے۔وہ میرے احساسات میں بستاہے ۔میری آنکھوں کےسامنےہوتاہے ۔اس کے دعامانگنےوالے ہاتھ۔اس کی زبان جو چٹخوری تھی ۔اس کی عیارآنکھیں ،اس کی مسکراہٹیں، اس کے گالوں کی وریدیں ، اس کی پرسکون آواز جس میں وہ دانشمندانہ باتیں کرتاہے ۔تم حیران ہوتے ہوگے کہ یہ تمام باتیں کیسے ہوجاتی ہیں جب کہ وہ تمہیں جسمانی طورپرنہیں ملتا۔میں خوداذیتی میں مبتلاہوگئی ہوں۔مجھے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اس طرح اس کاوجود اپنے میں شامل کرلیتی ہوں۔میں اسےاپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیناچاہتی کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تومیری تمام خواہشات مٹ جائیں گی اور مجھ پرشدید افسردگی چھاجائے گی  اور میں بےموت مرجاؤں گی۔ میں پہلے ایسی نہیں تھی لیکن   میرے غلط  فیصلوں اور فوری  لطف  کی خواہش نے مجھے جنسی  بلی  بناکر رکھ  دیا۔ میں  لذت گاہ بن گئی                                                                               میں خود کو جنسی شئے بن  گئی۔ اب تم مجھے حسن طلب ہستی کہہ سکتے ہو ۔اس پر میں شرمندہ ہوں۔ یہ   میری بربادی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔اسے کچھ بھی نہیں ہوا۔یہ بات خوفناک اور پریشان کن ہے کہ اسے اپنی یادوں میں رکھاجائے کہ میں ایک کھلوناہوں۔جب چاہاکھیلااور جب چاہاتوڑ دیااور نیالےآیا۔میں عشقِ مقصود نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

Life history

Edna ‘o’ Brien

Ireland

Won France’s highest Award in L iterature.

 

حالات زندگی

ایڈنا    'او'بریین 15 دسمبر 1930 کو آئرلینڈ  میں کاوئنٹی                        کلیئر کے شہر 'ٹوآموگرینی  ' میں پیدا ہوئی۔اس کے والد کا نام مائیکل  'او'بریین تھا۔وہ   جاگیرداروں  جیسی زندگی گزار رہاتھا۔اس کی ایک ہزار ایکڑ زمین تھی اور اسے اپنے رشتہ داروں سے بھی  وصیت میں خطیر رقم ملی تھی، اس  نے ایک  غریب خاندان کی لڑکی لینا سے شادی کی تھی۔ ایڈنا اپنے والدین کی سب سے چھوٹی اولاد تھی۔اس کی والدہ سخت مزاج تھی۔ اسے ایک  کانونٹ سکول میں داخل کروادیاگیا اور وہ   وہاں کے  گھٹے ہوئے ماحول سے تنگ آگئی۔1950 میں اس نے فارمیسی میں ڈگری لے کر لائسنس حاصل کیا۔وہ     کچھ دیر کے لئے امریکہ رہی اور نینی کی نوکری بھی کی ۔اس کا والد سخت شرابی اور جواری تھا جو اپنی تمام جائیداد جوئے میں ہار گیا۔ ایڈنا  نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ایک ادیب  سے  1954 میں  شادی کی۔ جس کا نام ارنسٹ  گوبلر تھا۔ اس سے ایک بیٹا   'کارلو' پیدا ہوا جو ادیب بنا۔اس کے بعد ایک بیٹی 'ساشا' پیدا ہوئی جو آرکیٹکٹ بنی۔ایڈنا کی شادی دس سال چلی۔اسے کلاسیکی ادب پڑھنے کا شوق تھا ۔بچپن  میں  اس  نے ٹالسٹائی ،ٹھیکیرے، سکاٹ فٹز جیرل وغیرہ کو پڑھ لیاتھا۔

ڈبلن میں  وہ جیمز جوائس  سے متاثر ہوئی۔وہ  افسانہ نگا، ناول نویس، ڈرامہ نگار تھی ۔اس کی کہانیوں کی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنے۔ اس  کی اہم تصانیف

Short Storis

 

The Love Object and other stories, Returning (1982). Sinners a (1968), A Scandulous Woman (1974), Mrs. Rainhardt (1978) , Saints and Sinners etc

Novels

The Country Book (1960), Girl with Green Eyes (1962),Girls in Married Bliss(1964),August is Wicked  Month (1965), A Pagan Plan (1970 ) etc

ہیں۔اس کی کتب  مذہبی اور معاشرتی  اقدار سے آزاد ہوتی ہیں۔ حکومت نے اس کی کئی کتب بند کیں  اور کئی کتب کو آگ لگوا                دی کیونکہ اسے ڈی۔ایچ۔ لارنس کی طرح فحش نگار قرار دے دیا گیاتھالیکن بعد میں اسے پذیرائی ملی اور اس نے بہت سے انعامات اپنے نام کئے۔جیسے:

France’s highest honour for the Artist Award (2021). Kingsley Amis Award (1970),The Yorkshire Post Book Award (1960) etc

وہ ابھی بھی ادب کی خدمت کررہی ہے۔ 

 

 



36
 

پہلا اعتراف گناہ

( First Confession )

Frank O' Connor

(1903 - 1966) (Ireland)



مترجم:   غلام محی الدین

 

ہم پر یہ آفت اُس وقت نازل ہوئی جب ہمارے داد ا اللہ کو پیارے ہوئے۔ دادی اماں اکیلی رہ گئی تو ابا نے انہیں اپنے ہاں بلا لیا۔ اس کا ہمارے پاس آنے سے اور کسی کو کوئی فرق پڑا ہو یا نہ لیکن کم از کم میری زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔  مجھے ان کی کوئی بات پسند نہیں تھی۔ اُس کا لباس، خوراک، میرے لئے کنجوسی، میری شکایات، بات بات پر دخل اندازی کچھ ایسے معاملات تھے جن کو برداشت کرنے کی مجھ میں سکت نہیں تھی۔ ہمارے گھر میں امی، ابا اور مجھ سے تین سال بڑی بہن نورما  اور جیکی  (میں)  تھے۔ ہمارے امی ابا دونوں نوکری پیشہ تھے۔  وہ صبح کام پر جاتے اور شام ڈھلے لوٹتے۔  اُن کی واپسی سے پہلے دادی ہمارے اعصاب پر سوار رہتی۔  نورما اور میری آرا ہمیشہ مختلف ہوتی تھیں۔ وہ مجھ پر ہر وقت دھونس جماتی رہتی تھی جسے میں قبول نہیں کرتا تھاپھر بھی کسی طرح گزارا ہو رہا تھا۔ دادی ماں کے آنے سے حالات مزید بگڑنے لگے۔  وہ گاؤں سے آئی تھی۔ اُسے شہر کی خوراک، رہن سہن اورعادات و اطوار وغیرہ کا یا تو پتہ نہیں تھا، یا پھر جان بوجھ کر ایسی حرکات کرتی تھی جن سے ہمیں کوفت ہو۔ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ بے حد سادہ اور معصوم ہے لیکن لوگ کچھ بھی کہیں، وہ کیسی بھی ہو، کم از کم میری حد تک تو وہ ناقابل برداشت تھی۔ اُس کی شکل و صورت، پہناوا اور حرکات وغیرہ مجھے زہر لگتی تھیں۔ موٹا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے پہننے، کھانے کے عادات و اطور کسی کو بھی پسند نہیں تھے۔ دادی کو اپنے پاؤں میں جوتے پہننے سے سخت نفرت تھی۔ وہ ہمیشہ ننگے پاؤں پورے گھر میں دندناتی پھرتی تھی۔ اُس کو یقین تھا کہ اگر وہ جوتی پہننا شروع کر دے گی تو وہ اپاہچ ہو جائے گی اور اُس پر فالج کا حملہ ہو جائے گا۔  وہ کھانے کے اوقات میں پانی سے بھرا ہوا جگ اور آلوؤں کا قیمہ کرکے ایک بڑے پتیلے میں ڈالے سر پر اٹھائے پھرتی تھی۔ وہ اپنی ان چیزوں کو جو کھانے سے متعلق تھیں، نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ کسی پر اعتبار بھی نہیں کرتی تھی اور کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتی تھی۔ تبدیلی کے لئے کبھی آلوؤں کی جگہ کالی مرچوں سے بنی مچھلی بھی بنا لیتی۔ وہ کھانا ہمیشہ انگلیوں سے کھاتی تھی۔ کبھی چمچ یا فورک استعمال نہیں کرتی تھی۔ کھانے کے بعد اپنی انگلیوں کو اچھی طرح چاٹ کر صاف کرتی تھی۔ اس کے علاوہ اس کی جیب میں نسوار کی ڈبی ہوتی تھی۔  وہ اس ڈبیہ کو کھولتی،ایک انگلی سے نسوار نکالتی اور اپنے منہ میں ڈال لیتی۔ کبھی کبھار وہ نسوار ناک میں بھی ڈالتی تھی۔

         

ہمارے گھر میں پانچ افراد تھے۔  میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔  میں توقع کرتاتھا کہ چونکہ میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں اس لئے سب لوگ مجھے پیار کریں گے لیکن یہاں کا تو آدم ہی نرالا تھا۔ سب لوگ

 مجھے دبانے پر ہی لگے رہتے تھے۔ نورما مجھ سے تین سال بڑی تھی اور ہر دم میرے ناک میں دم کرتی رہتی تھی۔ مجھے احساس دلاتی رہتی کہ میں دنیا کا سب سے بڑا گنہگار ہوں۔ میں حیران اس بات پر ہوتا تھا کہ دادی اماں اس کی پوری تائید کرتی اور اس کی ہر بات مانتی۔ وہ ہرہفتے جب اسے اس کی پنشن سے جیب خرچ مانگتی تو وہ اسے دے دیتی جبکہ مجھے اس نے آج تک ایک سینٹ بھی نہیں دیا تھا۔ دادی اماں جب عجیب و غریب حلئے میں گھر میں پھرتی ہوتی، میں جب گھر آتا اور میرے ساتھ میرے دوست ہوتے تو میں انہیں باہر سے ہی فارغ کر دیتا۔ میں دادی کی وجہ سے اپنے دوستوں کے سامنے مذاق کا نشانہ نہیں بننا چاہتا تھا۔  مجھے یقین تھا کہ اگر کوئی میرے ساتھ گھر میں داخل ہوگا تو ہ ہمارے ساتھ کچھ بھی کر سکتی تھی۔ آخر میری بھی تو کوئی عزت تھی، اگر ناروا سلوک ہوا تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔ دادی ماں سمجھتی تھی کہ وہ بہت خوش لباس اور خوش خوراک ہے۔ ہمارے والدین کی عدم موجودگی میں جب وہ کھانا بناتی اور ہمیں وہ کھانے کے لئے دیتی تو اس خوراک کو دیکھتے ہی مجھے قے آجاتی تھی لیکن نورما اپنا بڑی ہونے کے ناطے مجھے زبردستی کھلانے کی کوشش کرتی تو میں اس سے اجتناب کرتا،یا تو بھاگ جاتا یا پھر میز کے نیچے چھپ جاتا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ دادی نے کھانا دیا اور میں نے کھانے سے انکار کیا لیکن میری بہن مجھے زبردستی کھلانے کی کوشش کرنے لگی۔ میں نے اپنے ہاتھ میں کچن سے جام اور مکھن لگانے والا کانٹا  (فورک) ہاتھ میں لیا اور میز کے نیچے چھپ گیا۔ جب نورما نے زبردستی مجھے میز کے نیچے سے باہر آنے کو کہا اور مجھے بازو سے پکڑ کر کھینچنے لگی تو میں نے چاہا کہ اس کو فورک سے قتل کردوں۔ وہ میرے غصے سے ڈرگئی اور واپس مڑ گئی۔  رات کو نورما نے مرچ مصالحہ لگا کر ابا سے میری شکایت کر دی۔ اس کی تائید دادی ماں نے بھی کی تو ابّا نے مجھے ڈانٹا۔  کچھ دیر بعد ماں بھی آگئی تو میں نے غصے میں اسے کہا کہ میں دادی ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کبھی نہیں کھاؤں گا۔  ماں یا تو شام کو یا پھر کام سے آکر میرے لئے کھانا بنا دیتی۔

         

نورما اور میں ایک ہی سکول میں تھے اور اکٹھے آتے جاتے تھے۔ تین بجے سکول کی چھٹی ہوتی تھی۔  دن بھر پڑھائی لکھائی میں مصروف ہم تھکے ہارے واپس گھر جا رہے ہوتے تھے تو ایک بوڑھی عورت جو دادی ماں کی عمر کی ہوگی، بچوں کا رستہ روک کر کھڑی ہو جاتی اور کہتی کہ اگر کسی نے پیسے کمانے ہیں تو اُس کی بات سنے۔ اُس کے ایک ہاتھ میں موم بتی اور دوسرے ہاتھ میں لائٹر ہوتا تھا۔  وہ لائٹر سے موم بتی جلا کر اپنی جیب سے ایک چونی (کوارٹر)نکالتی اور مجمع سے پوچھتی کہ اگر کسی نے چونی کمانی ہے تو موم بتی کے جلتے ہوئے شعلے پر پانچ منٹ تک اپنی ایک انگلی رکھے۔ وہ ہمیں دوزخ کے عذاب سے ڈرایا کرتی تھی۔ میں بہادر ہوں اس لئے میں اس کی ایسی باتوں سے مرعوب نہیں ہوتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اپنی بہادری کی دھاک بٹھانے کے لئے موم بتی کے شعلے پر ایک انگلی پانچ منٹ تک رکھ کر انعام حاصل کروں لیکن ایک بات مجھے ایسا کرنے سے روکتی تھی کہ لوگ مجھے لالچی سمجھیں گے اِس لئے میں اپنے اس ارادے سے با زرہتا۔ جب کوئی بچہ اپنی انگلی شعلے پر نہ رکھتا تو وہ بوڑھی عورت کہتی کہ تم سوچو اس وقت کیا ہوگا؟ بڑی بڑی آگ کی بھٹیاں آسمان سے بلند شعلے اگل رہی ہوں گی اور تم اس میں جل رہے ہوگے۔۔ یہ پانچ منٹ کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہوگا۔  ذرا سوچو، غور کرو، فکر کرو کیونکہ یہ زندگی بیکار ہے۔  ہر شخص بے حد گناہ گار ہے اس لئے ہر ایک کو خدا سے ڈرنا چاہیے اور گناہوں سے باز آنا چاہیے۔ اُس بوڑھی عورت کا تمام تر دھیان دوزخ کی ہولناکیوں پر ہوتا تھا اور میرا اس کی چونی پر۔  اپنے وعظ کے ختم ہونے پر وہ ہمیشہ چونی کو واپس اپنے پرس میں رکھ لیتی تھی۔  یہ دیکھ کر مجھے بہت مایوسی ہوتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ یہ عورت بھی کیا چیز ہے؟ کسی کو دمڑی تک نہیں دیتی اور ڈرا دھمکا کر چلی جاتی ہے۔

         

ایک دن اس نے ایک قصہ سنایا کہ اسے ایک پادری نے بتایا کہ ایک رات وہ سو رہا تھا تو ایک شخص نے اسے جگایا۔ وہ گہری نیند میں تھا۔ وہ اُس شخص کو دیکھ کر گھبرا گیا اور کہا کہ تم اِتنی رات گئے مجھ سے کیا چاہتے ہو؟  وہ سائل اُس کے سامنے رونے لگا اور گڑ گڑا کر کہا کہ وہ اس کے سامنے اعتراف کرنے آیا ہے۔ پادری نے کہا کہ وہ وقت اعترافِ گناہ کے لئے موزوں نہیں تھا سو  صبح آئے لیکن وہ مصر رہا کہ باقی تمام گناہ معاف کرائے جا چکے ہیں اور یہ صرف ایک ہی رہ گیا ہے۔  اگر وہ یہ گھناؤنا گناہ معاف نہ کروائے گا تو وہ دوزخ کی آگ میں بھنے گا۔ اُس کی منت سماجت سے پادری متاثر ہوگیااور اسے کہا کہ وہ رکے۔  پادری اپنا سرکاری چوغہ پہننے کے لئے اُٹھا اور اس کمرے میں چلا گیا جہاں وہ لٹکا تھا۔  اتنے میں ایک کوا باہر صحن میں زور سے کائیں کائیں کرنے لگا۔  وہ واپس آیا تو کمرے میں کوئی ذی روح شئے موجود نہ تھی۔  اُسے لکڑی کے جلنے کی بو آئی اور بستر پر یا کسی اور جگہ اس شخص کا سایہ نظر نہ آیا تو پادری سمجھ گیا کہ اس شخص کا گناہ معاف کر دیا گیا ہے کیونکہ اگر وہ معاف نہ کیا جاتا تو اس شخص کا سایہ نظر آتا۔  اُس کی یہ بات سن کر میں بے حد متاثر ہوا۔

س سے بھی زیادہ اثر اُس کی اِس بات سے ہوا جب اُس نے کہا کہ ہم نیک کیسے بن سکتے ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں؟ (میں نے پوچھا کہ کیا اس میں دادی اماں بھی شامل ہے؟ تو اس نے کہا ہاں)۔  کیا ہم اپنے پڑوسیوں سے محبت کرتے ہیں؟  کیا ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں؟ کیا ہم چوری کرتے ہیں؟ وغیرہ۔  اِس بوڑھی عورت کے تجزیے کے مطابق میں بے حد گنہگار تھا کیونکہ میں دس احکامات  ( Ten Commandments  )  میں سے کسی پر بھی عمل نہیں کرتا تھا۔  اُس کے نزدیک میں پکا دوزخی تھی اور مجھے اُسی ہفتے پادری کے پاس جا کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا ہوگا جبکہ پادری کے سامنے جا کر اعتراف گناہ میرے لئے موت کے برابر تھا۔

 

اگلے روز میرے دانت میں شدید در د اُٹھا اور میں سکول نہ جا سکا۔ میرا خیال تھا کہ سکول کے تمام بچوں کی موجودگی میں اس بوڑھی عورت کو میری عدم موجودگی کا احساس تک نہیں ہوگالیکن میرا دوست رائن  چھٹی کے بعد اس بوڑھی عورت کا پیغام لے آیا کہ مجھے ہفتے کی شام پادری کے پاس اعترافِ گناہ کے لئے جانا ہوگا۔ میری تو سٹی گم ہوگئی۔ نورما نے ماں کو یہ بات بتائی تو ماں نے کہا کہ نورما تم اسے پادری کے پاس لے جانا۔ یہ بات مجھ پر ایسے گری جیسے کہ مجھے ہسپتال میں بڑے آپریشن کے لئے لے جایا جا رہا ہو۔

         

 میری بڑی بہن نورما نے گڑ گڑا کے خدا سے میری بخشش کی دعا کی۔ کہا کہ وہ  اِس قابل تو نہیں ہوں لیکن اُس کی خاطر اُسکے چھوٹے بھائی کے گناہوں کومعاف کر دے۔ پھر مجھے کہا کہ میرے لئے اس کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ تم معافی کیسے مانگو گے؟  اپنے گناہوں کو کیسے بیان کرپاؤ گے؟ کیا تم شرم سے ڈوب نہیں مرو گے؟  تم یہ کیسے بتاؤ گے کہ تم نے دادی ماں کے گھٹنوں پر زور سے ٹھوکر ماری تھی۔ اُس نے میرا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا تاکہ میں بھاگ نہ جاؤں۔

         

میں نے اپنا ہاتھ نورما کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا میں  نے فادر کے پاس نہیں جانا چاہتا۔

         

جیکی تمہیں ہر صورت فادر کے پاس جانا ہوگا ورنہ فادر تمہیں ڈھونڈتا ڈھونڈتا ہمارے گھر آجائے گا تو اعتراف کے ساتھ ساتھ تمہاری ٹھکائی بھی ہو گی۔ تم نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں۔ فادر تمہارے گناہوں پر جو سزا تجویز کرے، وہ ادا کرنا۔ مجھے تمہاری سزا پر کوئی افسوس نہیں ہوگا۔ تمہیں یاد نہیں کہ ایک بار تم نے میز کے نیچے گھس کر مجھے چھری کانٹے  سے قتل کر ہی ڈالا تھا۔ اگر میں وہاں سے چلی نہ جاتی میں تو مر چکی ہوتی۔ اُس کے علاوہ تم جو زبان میرے لئے استعمال کرتے ہو کتنی گندی ہوتی ہے۔ نورما کو یہ یقین تھا کہ میرے گناہوں کا سن کر فادر مجھے بشپ کے پاس بھیج دے گا کیونکہ میرے گناہوں کی سنگینی اتنی زیادہ تھی کہ وہ معاف نہیں کر سکتا تھا۔

         

میں چپکے سے اپنے من میں بڑی تلخی سے سوچ رہا تھا کہ نورما جو میرے گناہ گنوا رہی ہے، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو میں نے حقیقت میں کئے ہیں جن کا اس کو علم نہیں۔ میں نے اُس بوڑھی عورت کے بارے میں کیا کیا گندی باتیں کی تھیں۔ اُس کے قصے کہانیوں پر بہت ساری گالیاں بکی تھیں۔ میں اُس بوڑھی عورت کو بھی قتل کرنا چاہتا تھا اور بہت سی باتیں تھیں جو نہ بتانا مناسب ہے۔

         

نورما میرا ہاتھ پکڑ کر گھاٹی اتر رہی تھی۔ وادی میں آس پاس بہت خوبصورت گھر تھے۔ باغیچے تھے، ندی نالے تھے، پھول تھے اورمیں بڑی حسرت سے ان سب کی طرف دیکھ رہا تھا کہ شاید ان نظاروں کی یہ میری آخری زیارت ہے۔ جب ہم ریلنگ پکڑ کر گھاٹی سے اتر ے اور گرجا گھر کی سیڑھیوں پر چڑھے تو نورما کا لہجہ یکا یک بہت سخت ہو گیا او ر وہ مجھے حقارت سے بلانے لگی۔  شیطانی آواز میں کہا کہ جلدی کرو۔ دیر نہ کرو۔ تمہارے آہستہ چلنے سے تمہارے گناہوں کی سزا میں کمی نہیں ہو گی۔

         

گرجے کے دروازے پر اس نے طنزیہ انداز میں کہا کہ لو، تیرا ٹھکانہ آگیا ہے۔ سزا کے لئے تیار ہو جاؤ۔ میرے سامنے دروازے کے پٹ ہل رہے تھے جہاں سے گزر کر میں نے فادر کے سامنے اپنے سنگین گناہوں کا اعتراف پہلی دفعہ کرنا تھا۔ میری بہن نورما اُس باکس کے سامنے بیٹھ گئی جہاں اس نے اپنا بھی اعتراف گناہ کرنا تھا۔ وہاں اور بھی کئی خواتین بیٹھی تھیں۔ ایک ہٹا کٹا مکروہ شکل و صورت کا شخص آیا، اگر میں بھاگنے کی کوشش بھی کرتا تو بھاگ نہ سکتا۔ نورما بکس میں چلی گئی۔  مجھے بھنبھنانے کی آواز سنائی دی پھر وہ باہر آگئی۔ خدایا یہ لڑکی کتنی عیار تھی۔ ا س کی آنکھیں بند تھیں،سر جھکا ہوا تھا، ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ اس بنچ کی طرف چل دی جہاں گناہگاروں کو اس کے گناہوں کے حساب کے بعد فیصلہ سنایا جایا کرتا تھا۔ اُس کے اِس رویہ سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس جیسی اطاعت گزار لڑکی دنیا میں کہیں نہیں ہوگی۔  مجھے یاد آیا کہ وہ کس طرح اپنی شیطانی فطرت کی بنا پر تمام رستہ مجھے ملامت کرتی رہی تھی اور میں حیران تھا کہ تمام مذہبی لوگ اتنے سخت کیوں ہوتے ہیں؟  اُس کے بعد میری باری تھی۔  میں اعترافِ گناہ کرنے والے دروازے کی طرف گیا۔ میں اپنے گناہوں کی سزا کے خوف سے کپکپا تا ہوا اندر داخل ہوا دروازہ میرے پیچھے بند ہوگیا۔

         

یہ کمرہ بالکل تاریک تھا جہاں میں کچھ بھی یہاں تک کہ فادر کو بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اور میں حقیقتاً خوفزدہ ہوگیا۔ اِس اندھیرے میں میرا خدا کے ساتھ براہِ راست رابطہ ہونا تھا اور فادر جو اس کا نمائندہ تھا، میرے ساتھ کچھ بھی سلوک کر سکتا تھا۔ مجھے بتانے سے پہلے ہی اسے میری نیتوں کا پورا پتہ تھا۔ میرے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ مجھے اعتراف گناہ کے بارے میں جو طریقہ اور گفتگو بتائی گئی تھی، میرے ذہن میں بالکل عکس ہوگئی تھی۔ میں ایک دیوار کے سامنے جھکا۔ فادر میرے پر رحم کرو کیونکہ میں نے بہت زیادہ گناہ کئے ہیں۔ یہ میرا پہلا اعتراف گناہ ہے۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا، کچھ نہ ہوا تو میں دوسری دیوار کی طرف چلا گیا۔  وہاں بھی کچھ نہ ہوا۔ لگتا تھا کہ اس نے مجھے معاف کر دیا تھا۔

         

اس وقت میں نے ایک جگہ ایسی دیکھی جو کہ میرے قد کے برابر تھی، یقینا یہ وہ جگہ رہی ہوگی جہاں بالغ سہارے کے لئے اپنی کہنی رکھتے ہوں گے لیکن اس وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ جگہ وہ ہے جہاں میں نے جھکنا ہے۔ اُس کی بناوٹ ایسی تھی کہ وہ دہلیز ذرا اونچی تھی اور زیادہ گہری نہیں تھی لیکن میں اوپر چڑھنے میں طاق تھا اس لئے میں پاؤں رکھ کر اس پر چڑھ گیا۔ اوپر چڑھ کر بیٹھے رہنا بہت مشکل امر تھا۔ اِس جگہ پر میں صرف اپنے گھٹنے ہی ٹیک سکتا تھا۔ وہاں پر پکڑنے کے لئے کچھ نہیں تھا اس لئے اس پوزیشن میں زیادہ دیر تک رک نہیں سکتا تھا۔ میں نے گرفت حاصل کرنے کے لئے اس تھوڑی سی نکلی ہوئی جگہ کو پکڑ لیااور جو جو گناہ میں نے کئے تھے ذرا اونچی آواز میں بیان کرنا شروع کر دیئے۔ لگتا تھا اس دفعہ میں نے صحیح جگہ منتخب کی تھی کیونکہ اِس وقت میں نے ایک آواز سنی۔

 

یہاں کون ہے؟

         

یہ میں ہوں، میں فوراً بولا تاکہ وہ میری آواز کی طرف دیکھ سکے اور ویسے ہی واپس نہ چلا جائے۔ یہ آواز اُس مقام سے آئی تھی جہاں پر میں چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اپنی گرفت وہاں پر مضبوط کر رکھی تھی۔ اتنے میں میں نے ایک جوان پادری دیکھا جس کے چہرے پر حیرانی تھی اور وہ دیکھ رہا تھا۔ میں اس وقت فادر کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ہم ایک دوسرے کے سامنے ایسے تھے کہ میں سر کے بل اور پادری پاؤں پر کھڑا تھا اور ہم باتیں کر رہے تھے۔

         

فادر مجھے معاف کر دیں میں نے بہت زیادہ گناہ کئے ہیں اور یہ میرا پہلا اعتراف گناہ ہے۔ میں نے یہ بات ایک ہی سانس میں بیان کر دی اور میں نے شیڈ سے اپنا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہی رہنے دیں تاکہ وہ

میرا چہرہ دیکھ سکے۔

         

تم وہاں اوپر کیا کر رہے ہو؟ فادر نے غصے سے کہا۔  میں جس حالت میں تھا اس میں اسے غیر مہذبانہ آواز کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی اس لئے میری گرفت اس شیڈ پر ڈھیلی پڑگئی اور میں ڈولتا ہوا دھڑام سے فرش پر آپڑا۔ وہ لوگ جو اعتراف گناہ کے لئے بیٹھے تھے،گرنے کی آواز سے اٹھ بیٹھے اور ان کے چہروں پر حیرانی کے تاثرات تھے۔ پادری نے درمیانی دروازہ کھولا اور باہر آگیا۔ اس نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھا لیا اور میرے پاس آگیا۔ میری بڑی بہن بھی یہ آواز سن کر دوڑتی ہوئی اعترافِ گناہ کے دروازے کے باہر آکر کان لگا کر کھڑی ہوگئی۔

         

اے چھوٹے گندے کافر لڑکے! مجھے پتہ تھا کہ تم یہ کروگے۔ مجھے پکا یقین تھا کہ تم ہماری بے عزتی کا سبب بنو گے۔ میں تمہیں اب اپنی نظروں سے ایک منٹ کے لئے بھی اوجھل نہیں ہونے دوں گی۔ میری بڑی بہن نورما نے کہا۔ اِس سے پہلے کہ میں سنبھل کر اپنے پاؤ ں پر کھڑا ہوں، اُس نے کود کر مجھے مارا اور ایک کلپ میری کان پر لٹکا دیا۔ اُس کی اِس حرکت نے مجھے اتنا خوفزدہ کر دیا کہ میرے منہ سے اس وقت چیخ بھی نہ نکل پائی لیکن اندر سے مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں حقیقت میں مر چکا ہوں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر میں چیخا، فادر غصے سے بولا۔ یہ سب کیا ہے؟  پہلے سے بھی زیادہ غصے سے نورما نے کہا کیا میں ایک بدتمیز لڑکے اور گناہ گار کو اس کے گناہوں کی سزا نہیں دے سکتی؟ فادر نے اسے کہا اٹھو اور اس لڑکے سے معافی مانگو  ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔

تو تمہارا اعترافِ گناہ کرنے کا یہ طریقہ ہے؟  فادر نے مجھ سے پوچھا۔

میں نے ہچکی لیتے ہوئے کہاکہ میں معافی مانگتا ہوں۔

تمہارے جیسے مضبوط لڑکے نے یقینا بہت سے گناہ کئے ہوں گے۔ کیا یہ تیرا پہلا اعتراف گناہ ہے؟

جی ہاں فادر۔

         

بہت برا، بہت برا، وہ غمزدہ آواز میں بولا۔ تم نے اپنی زندگی میں سنگین گناہ کئے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ آج تم اپنے گناہوں سے کیسے چھٹکارا پا سکتے ہو۔ تم یہاں بیٹھ کر انتظار کرو تاکہ پرانے گناہگاروں کو فارغ کر لوں۔ ان کی آنکھوں سے تم دیکھ سکتے ہو کہ وہ اتنے پریشان نہیں ہیں۔

         

جی اچھا! میں انتظار کروں گا، میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ میری بڑی بہن جو فادر کے پیچھے کھڑی تھی،نے یہ بات سن کر میرا منہ چڑایا۔ میں نے اس کو جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ فادر نے جو پہلی بات کی تھی، سن کر مجھے محسوس ہوا کہ وہ کوئی عام شخص نہیں ہے۔ یہ شخص دوسرے لوگوں سے بہت ذہین تھا۔ میں نے اپنے گناہوں کے بارے میں سوچا تو مجھے فادر کی بات سچ لگی۔ میں اپنی سات سالہ زندگی میں پہلی بار اپنے گناہوں کے بارے میں بتانے جا رہا تھا، وہ لازماً اُن لوگوں سے بہت زیادہ ہوں گے جو ہر ہفتے آکے اپنے گناہوں کو معاف کراتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فادر مجھے ایسی مقدس آیات یاد کرنے کے لئے دے دے جو میرے گناہوں کو معاف کرنے کے لئے ہوں یا بشپ کے پاس بھیج دے یا پھر دونوں سزائیں دے دے۔ میں نے اپنے ضمیر کو اجاگر کرنا شروع کر دیا۔ باقی سب کچھ صحیح ہوگیا۔ اپنے ضمیر کو پرکھا تو باقی سب ٹھیک تھالیکن میں دادی ماں کو نہ معاف کر سکا اور اس سے متعلق منفی خیالات کو ذہن سے نہیں نکال پایا۔

         

تھوڑی دیر بعد فادر واپس آیا اور مجھے اپنے ساتھ اعتراف گناہ کے بکس میں لے گیا۔ مجھے وہاں ایک کونے میں بٹھایا  اور خود دوسرے کونے میں بیٹھ گیا۔

فادر بولا،  ہاں  اب   بتاؤ۔۔ وہ تمہیں کس نام سے پکارتے ہیں؟

جیکی۔ میں نے جواب دیا۔

تمہارے گناہ کیا ہیں جیکی؟  فادر بولا۔

اِس عرصے میں میں نے اپنے تمام گناہوں کی فہرست کو منظم کر لیا تھا اس لئے مجھے جواب دینے میں آسانی پیدا ہوگئی۔

میں اپنی دادی کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بھی بنا لیا تھا، میں نے جواب دیا۔

ایسا لگتا تھا میرا یہ جواب سن کر اسے صدمہ ہوا کیونکہ وہ یہ بات سن کر کافی دیر خاموش رہا۔

میرے خدا!  یہ تو بہت سنگین بات ہے۔ کون سی ایسی چیز ہے جس نے تم کو یہ سوچنے پر مجبور کیا؟ فادر نے پوچھا۔

میں اس طرح سوچنے پر معافی مانگتا ہوں لیکن وہ اتنی عجیب و غریب ہے جو دادی اماں کے بارے میں ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔

وہ کیسے قابلِ نفرت ہے؟  فادر نے پوچھا۔

         

اس کے پاس ایک بڑا برتن ہوتا ہے جسے وہ اپنے سر پر اٹھائے رکھتی ہے، ایک بہت بڑا پانی کا مگ ایک ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میں نے اس بات کو ایسے لہجے میں کہا جیسے میری ماں اس بارے میں اظہار کرتی تھی کہ جیسے  یہ کوئی بڑا گناہ کر رہی ہو۔ میں نے یہ بات اس لئے کہی کہ میرا لہجہ اور تاثرات فادر پر میرے بارے میں مثبت اثرات ڈالیں۔

اوہ!  تو یہ بات ہے۔ فادر کے چہرے کے تاثرات سے مجھے لگاکہ وہ میری بات سن کر بہت متاثر ہوگیا ہے۔

اور وہ نسوار پیتی ہے۔  اپنی انگلیوں میں نسوار ڈال کر اپنے نتھنوں سے سونگھتی ہے،  میں بولا۔

واقعی یہ تو بہت بڑی برائی ہےَ  فادر نے کہا۔

اور وہ ننگے پاؤں پھرتی ہے فادر  ُ  میں نے کہا۔

میں نے جذبات میں اپنی بات جاری رکھی اور بولا۔  وہ یہ جانتی ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا۔ وہ ہر جمعے کو میری بڑی بہن کو پیسے ؎دیتی ہے اور مجھے نہیں۔ میرے پاپا بھی اس کا ؎ساتھ دیتے ہیں اور مجھے ڈانٹتے ہیں۔ ایک رات میں اتنا پاگل ہو گیا تھا کہ میں فورک لے کر اپنی دادی ماں کو مارنا چاہا۔

اور مارنے کے بعد تم اُس کے جسم کا کیا کرتے؟ فادر نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اور کوڑے دان میں پھینک دوں گا۔میں نے جواب دیا۔

جیکی کیا تم جانتے ہو کہ تم ایک بے حد برے بچے ہو؟  فادر بولا۔

میں بھی اپنے بارے میں یہی سوچ رہا تھا۔ میں نے اپنی بڑی بہن کو بھی میز کے نیچے سے فورک سے مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلی۔

لڑکی جو تمہیں مار رہی تھی وہ تمہاری بڑی بہن ہے؟  فادر نے پوچھا۔

ہاں فادر!

میں تو کامیاب نہیں ہوا لیکن کوئی نہ کوئی تو ضرور ہو جائے گا اور اسے فورک سے مار ڈالے گا، میں نے کہا۔  اس بار وہ بچ نہیں پائے گی۔

 لیکن اس کے لئے بڑی جرأت اور بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں بھی بہت سے لوگوں کو ایسے ہی انداز میں مارنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں ہمت نہیں کہ میں یہ کر پاؤں۔ مجھے پھانسی سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ پھانسی بڑی درد ناک موت ہوتی ہے،  فادر بولا۔

میں نے گہری دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا کہ واقعی پھانسی سے بہت تکلیف ہوتی ہے؟  مجھے پھانسی کے موضوع پر بات کرنے میں دلچسپی تھی اس لئے میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کیا آپ نے کسی کو پھانسی لگتے ہوئے دیکھا ہے؟

درجنوں اور وہ سارے کے سارے درد ناک چیخیں مارتے ہوئے مرگئے،  فادر بولا۔

اوہ!  میں گھبرا کر بولا۔

 بہت اذیت ناک موت۔ میں ایسے بہت ے لوگوں سے بھی ملا ہوں جنہوں نے اپنی دادیوں کو قتل کیا ہے، بعد میں ان کے یہ تاثرات تھے کہ ان کو قتل کرنا بالکل بھی صحیح نہیں تھا۔ ان کو قتل کرنے کے بعد انہیں بہت زیادہ قیمت چکانی پڑی۔ پھانسی میں درد ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ فادر بڑے اطمینان سے بولا۔

 

فادر میرے ساتھ دس منٹ تک گفتگو کرتا رہا اور پھر ہم دونوں اس جگہ سے باہر آگئے۔ مجھے اُس سے الگ ہوتے ہوئے دکھ ہوا کیونکہ تمام مذہبی لوگوں سے جن سے میں ملا تھا،ان میں سب سے دلچسپ فادر تھا۔  سورج غروب ہو چکا تھا۔ تاریکی چھا چکی تھی۔ ساتھ والے ٹریک پر ٹرین جا رہی تھی۔ میرا من فادر سے باتیں کرکے ہلکا ہوگیا تھا۔ مجھے احساس ہوگیا تھا کہ میرے گناہ معاف ہوگئے ہیں،اب میرے مرنے کے بعد میری روح نہیں بھٹکے گی اور جلنے سے فرنیچر پر کوئی نشان نہیں پڑے گا۔

 

بڑی بہن نورما باہر بینچ پر بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی۔ میرے ساتھ پادری کو دیکھ کر وہ جل گئی اور برا منہ بنایا۔ فادر اس کے ساتھ کمرے سے باہر کبھی نہیں نکلا تھا۔ فادر مجھے اس کے پاس چھوڑ کر چلا گیا اور جاتے وقت مٹھی بھر کچھ چیزیں مجھے دے گیا۔

فادر نے تمہیں کیا دیا؟  بہن نے مجھ سے پوچھا۔

تین  بسکٹ۔میں نے جواب دیا۔

تین  بسکٹ؟  اس نے بڑی حیرانی سے پوچھا،  تو تم نے اپنے گناہوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہوگا۔

سب کچھ بتایا۔میں نے جواب دیا۔

تم نے دادی اور دوسرے معاملات کے بارے میں بتایا؟  بہن نے پوچھا۔

ہاں۔

دراصل بہن گھر جا کر یہ خبر دینا چاہتی تھی کہ میں ایسا گنہگار ہوں جس کی معافی نہیں ہو سکتی اور وہ یہی توقع کر رہی تھی۔

کیا تم نے فادر کو یہ بھی بتایا کہ تم مجھے فورک سے قتل کرنا چاہتے تھے؟ بہن نے پوچھا۔

یقینا!میں نے بتایا تھا۔

اور اس پر اس نے تمہیں تین  بسکٹ دے دیے۔

ہاں۔

ٹھنڈی سانس لے کر وہ ریلنگ سے اتری، یہ بات اس کی سوچ کے برعکس تھی۔ جب ہم مین سڑک پر آئے تو اس نے مجھے شک کی نظر سے دیکھا۔  تم نے تینوں بسکٹ کھا لئے تھے۔ اب تمہارا منہ کیوں چل رہا ہے؟  ا کہ اب تم کیا کھا رہے ہو؟

چاکلیٹ۔

کیا یہ بھی فادر نے تمہیں دیئے تھے؟

کچھ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں۔چھا بننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں بھی تمہاری طرح گناہگار بنوں گی۔

Frank O'Connor

1903 - 1966

 

   ُ  فرینک۔ او۔ کانر  ُ کا اصلی نام مائیکل۔او۔ ڈونوون  تھا۔ وہ17ستمبر1903کو آئرلینڈ کے شہر   ُ کورک   ُمیں ایک غر یب خاندان کے گھر پیدا ہوا۔  اس کی ماں برتن مانجھ کر اور دوسروں کے گھروں میں صفائی کرکے گزارہ کرتی تھی۔ اُسے چودہ سال کی عمر میں سکول چھوڑنا پڑا۔ اُس عمر تک اپنی فطری دلچسپی کی وجہ سے اس نے تمام شہرہ آفاق مقبول ادیبوں کو پڑھ لیا تھا اور خود لکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ سکرین رائٹر بھی تھا۔  س کی اہم تصانیف میں قابل ذکر درج ذیل ہیں:

    ;The Stories of Frank O' Conner (1953) ;        Collected Stories     ;           Guest of a Nation

The Oedipus ComplexThe Big Follow

 

     

         

اس نے جو فلمیں تحریر کیں وہ درج ذیل ہیں:

             ;   Guest of a Nation                                  The Rising of the Moon

 

فرینک نے آئرلینڈ کی سیاست، مذہب، رسوم و رواج،عقائد اور روایات کو بڑے مثبت انداز میں پیش کیا ہے۔  وہ کیتھولک تھا اور پہلا اعتراف The First  Confession  ا س کی منتخب کہانیوں میں سے لی گئی ہے۔  وہ  10مارچ   1966کوڈبلن  (Dublin)  آئرلینڈ میں ؎  فوت ہوا۔

 


Popular posts from this blog