تین قلندر The Three Hermits Count Leo Tolstoy (1828 - 1910) USSR

 


تین قلندر
The Three Hermits
Count Leo Tolstoy
(1828 - 1910) USSR
پیش کار: غلام محی الدین
جہاز زائرین او دیگر مسافروں کو لے کر مقدس مقامات کی زیارت کے لئے اپنے سفر پر رواں تھا۔ سمندر پر سکون، موسم خوشگوار اور دیگر سفری لوازمات تسلی بخش تھے۔ اُن میں پادری، منسٹر، زائرین وغیرہ کے علاوہ بشپ بھی سوار تھا۔ وہ تمام لوگوں کی روحا نی رہنمائی اور دیگر انتظامات کا انچارج تھا۔ زائرین عقیدت سے مقدس مقامات، اہمیت، اُس سے وابستہ روایات، ارد گرد ہونے والے واقعات اور دیگر امور پر گفتگو کر رہے تھے۔ بشپ عام جائزے کے لئے عرشہ کا دورہ کر رہاتھا۔ ایک جگہ اسے ایک اکٹھ نظر آیا۔ ان میں ایک ملاح کسی جزیرے کی طرف اشارے کر رہا تھا اورحاضرین اس پرکوئی تبصرہ کر رہے تھے۔
بشپ کو خیال آیا کہ پوچھا جائے کہ معاملہ کیا تھا؟ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اُن کے پاس آیا،اپنی ٹوپی اتاری اور اُن کی باتیں سننے لگا۔ زائرین نے جب اُسے دیکھا تو انہوں نے بھی تعظیماً اپنی ٹوپیاں اتار دیں اور مؤدب ہو کر کھڑے ہوگئے۔ بشپ ان سے مخاطب ہوا، میرے پیارے ساتھیو! اِس بات کا برا نہ مانیں کہ میں یہاں کوئی خلل ڈالنے آیا ہوں بلکہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کون سی اہم بات ہے جس سے میں ابھی تک بے خبر ہوں۔ میں بھی اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ آپ ایک مقام کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ میں نے بھی ا دھردیکھا تھا لیکن مجھے تو کچھ نظر نہیں آیا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں ؎؎؎ کہ اصل معاملہ کیا ہے؟
وہ ماہی گیر ہمیں سنت سادھوؤں، بھگتوں ، درویشوں، قلندروں کے بارے میں بتا رہا تھا۔اُس مجمعے میں سے ایک شخص بولا۔
کون سے قلندر؟ بشپ نے پوچھا اور آگے رکھے ہوئے صندوق پر بیٹھ گیا۔ و ہ اُن کے بارے میں کیا بات کر رہا تھا؟ میں بھی سننا چاہوں گا۔
ماہی گیر نے دور ایک جزیرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جزیرے میں دو قلندر رہتے ہیں۔
وہ جزیرہ مجھے تو نظر نہیں آرہا۔۔ وہ جزیرہ کس طرف ہے؟
آپ میری انگلی کے اشار ے والی جگہ پر نگاہ جمائیں۔ آپ کو وہ بادل تو نظر آرہے ہیں ناں؟
ہاں! میں وہ بادل دیکھ سکتا ہوں۔
ان بادلوں کے بائیں طرف ذرا نیچے وہ جزیرہ ہے۔
بشپ نے بہت غور سے دیکھا۔ بار بار دیکھا لیکن وہ مقام کا تعین نہ کرسکا۔ اُس سے اشارے نہ پڑھے گئے اِس لئے وہ اس کو نہ دیکھ پایا۔
بھئی! مجھے تو کچھ پتہ نہیں چلا۔بتا ئیے کہ کس قسم کے قلندر اس جزیرے میں رہ رہے ہیں؟
وہ اللہ والے ہیں، ماہی گیر نے کہا۔ میں نے ان کے بارے میں بہت عرصہ پہلے سنا تھا لیکن ان کو نہیں دیکھ سکا تھا پچھلے سال گرمیوں میں موقعہ ملا تو میں نے انہیں دیکھ لیا۔وہ دو نہیں بلکہ تین تھے۔
ان کا حلیہ کیسا تھا؟ بشپ نے پوچھا۔
ان میں ایک دبلا پتلا تھا جو بہت بوڑھا تھا۔ وہ سو سال سے اوپر کا لگتا تھا۔ اُس کی سرمئی داڑھی سبزی مائل ہو رہی تھی۔ اُس نے پادریوں جیسا چوغہ پہنا ہوا تھا۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا۔ وہ اتنا بارعب اور باوقار تھا کہ ایک فرشتہ لگتا تھا۔ دوسرا قلندر لمبے قد کا تھا۔ اس نے پھٹا ہوا کوٹ پہنا تھا۔ اس کی داڑھی چوڑی تھی جو کہ پیلی اور سفید رنگ کی تھی۔ اس میں دیو کی قوت تھی۔ اُس نے میری کشتی کو اکیلے ہی اٹھا کر الٹ دیا۔ میں نے مدد کرنا چاہی تو اُس نے منع کر دیا۔ وہ بھی بہت مخلص تھا۔ تیسرا بھی طویل قامت تھا، اُس کی داڑھی بہت لمبی تھی جو گھٹنوں تک تھی جس کی سفید ی ایسی تھی جیسے نیلگوں پتنگ۔ وہ کم گو اور سنجیدہ تھا۔ اُس کے ابرو بہت گھنے تھے جو اس کی آنکھوں تک کو ڈھانپ رہے تھے۔ وہ کافی حد تک ننگا تھا اور پٹ سن کی بوری سے خود کو ڈھانپ رکھاا تھا۔
تمہارے ساتھ انہوں نے کیا باتیں کیں؟ بشپ نے پوچھا۔
انہوں نے تمام کام خاموشی سے کئے۔ وہ ایک دوسرے سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے لیکن وہ ایک دوسرے کے ذہن پڑھ لیتے تھے۔ کوئی قلندر جب اوپر دیکھتا تھا تو دوسرا فوراً اس کی خواہش سمجھ جاتا تھا۔ طویل قامت درویش سے اس نے پوچھا کہ کیا وہ اس جزیرے پر کافی عرصے سے رہ رہے ہیں؟ اُس کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آئے۔ اس نے بات پر غصہ دکھانے کے لئے بھنویں بھینچ کر کچھ کہنا چاہا لیکن دوسرے قلندر نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور مسکرایا تو وہ خاموش ہو گیا۔ مسکراتے ہوئے کہا کہ خدا سب پر رحم کرے۔
ماہی گیر اپنے ساتھ بیتے ہوئے واقعہ کو بیان کر رہا تھا۔ جہاز سمندر میں پوری رفتار سے تیر رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ وہ جزیرہ اب قریب آگیا تھااور وہ نظر آنے لگا تھا۔ ماہی گیر نے کہا کہ اب آپ اس جزیرے کو دور سے دیکھ سکتے ہو۔ اُس نے بشپ کو اُس جزیرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ عالیجاہ! آپ خود اس جزیرے کو دیکھ لیں۔
بشپ نے اپنی آنکھوں سے وہ جزیرہ دور سے دیکھ لیاتوجہاز کے اگلے حصے کی طرف چلا گیا اور وہ لوگ جو سٹیرنگ گھما رہے تھے،کے کیبن میں تصدیق کے لئے جا پہنچا تاکہ وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کرسکے۔
بشپ نے ا س جزیرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاز ران سے پوچھا کہ اس جزیرے کا کیا نام ہے؟
اس کا کوئی نام نہیں۔۔ سٹیرنگ (Steering) کرنے والے ایک شخص نے جواب دیا۔ اِس علاقے میں ایسے کئی جزیرے پائے جاتے ہیں جہاں شاید ہی کوئی جاتا ہو۔
کیا یہ سچ ہے کہ اس جزیرے میں و ہ قلندر دنیا تیاگ کر یہاں اپنی بخشش کے لئے عبادت کرتے ہیں؟ بشپ نے اس سے سوال کیا
اِس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ اس نے کئی لوگوں سے یہ سن رکھا ہے کہ اس جزیرے پر وہ رہتے ہیں۔ اس نے خود تو نہیں دیکھے۔ یہ بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ اس نے جواب دیا۔
میں یہ جزیرہ خود غور سے دیکھنا چاہوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس جزیرے پر پڑاؤ ڈال دیا جائے۔
یہ نا ممکن ہے۔ ہم براہِ راست اِس جزیرے تک پہنچ نہیں سکتے۔ اگر اس جزیرے کی رسائی مقصود ہے تو کشتیوں کے ذریعے جانا پڑے گااور اگر وہاں جایا گیا تو زائرین اور دیگر مسافروں کا وقت ضائع ہوگا۔ زائرین عبادت کم کر پائیں گے اور دیگر مسافروں کا مالی نقصان ہوگا نیز پڑاؤ ڈالنے کا حکم کپتان ہی دے سکتا ہے۔اس نے کہا۔
بشپ کپتان کے پاس گیا اور کہا کہ پڑاؤ ڈال دے۔
کپتان نے کہا کہ اس نے بھی درویشوں کے قصے سنے ہیں۔ یہ آدم بیزار اور مردم بیزار لوگ ہیں۔ وہ کوئی بھگت وگت نہیں بلکہ احمق ہیں جو وہاں اکیلے سڑ رہے ہیں۔ وہ لاعلم لوگ ہیں۔ مچھلیوں کی طرح جاہل مطلق اور گنوار ہیں۔ نہ کچھ کہتے ہیں اور نہ ہی کچھ سنتے ہیں۔
پھر بھی وپ وہاں جانا چاہے گا۔ آپ جہاز کو جزیرے کے باہر لنگر انداز کر دیں۔ اس کے نقصان کا ازالہ کر دیا جائے گا۔ بشپ نے کہا۔۔ اسے وہاں لے چلیں۔
کپتان نے جہاز لنگر انداز کر دیا۔ پھر ایک کشتی بشپ کے حوالے کی اور بولا کہ اگر وہ جزیرے پر جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ وہ اس کے واپس آنے تک اس کا انتظار کرے گا۔ کشتی والا فوراً بشپ کو لے کر جزیرے کی طرف روانہ ہوگیا۔ جزیرے پر اتر کر بشپ نے تین قلندر دیکھے۔
ماہی گیر اپنا قصہ بیان کرنے لگا کہ وہ مچھلیوں کے شکار کے لئے نکلا تو اس کی کشتی خراب ہوگئی اور راستہ بھول گیا۔ اتفاقاً اُس جزیرے پر جا پہنچا۔ اِس بات کا اسے علم نہیں تھا کہ وہ کس جگہ پر تھا۔ صبح کا وقت تھااور کشتی کی مرمت کے لئے وہ جزیرے پر اِدھر اُدھرکوئی جگہ ڈھونڈ رہا تھا کہ اِسے ایک درویش نظرآیا جو ایک جھونپڑی سے نکل رہا تھا۔ اُس نے اس کی بھرپور مدد کی۔ اسے کھانا کھلایا اور اس کی کشتی کی مرمت کی۔ وہ وہاں اکیلا نہیں رہ رہا تھا بلکہ اس کے ساتھ دو اور بھی وہاں رہ رہے تھے۔
اُن کو اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ تم اللہ والے ہو۔ تیاگی ہو۔ اپنی عبادت کے لئے یہاں آئے ہو۔ خدا کی رضا چاہتے ہو اور دوسرں کی نجات کے خواہاں ہو۔ میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا ایک معمولی خادم ہوں اور تم لوگوں کے پاس خدا کی رضا مندی سے آیا ہوں۔ تمام لوگوں کی فلاح و بہبود، رہنمائی اور مشاورت کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ کیا میں تم لوگوں سے چند باتیں کر سکتا ہوں؟
تینوں قلندر بشپ کو دیکھتے رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی باتیں انہیں پوری طرح سمجھ نہیں آئی تھیں اس لئے وہ مسکرا دیئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
کیا تم بتاؤ گے تم کس طرح سے عبادت کرتے ہو؟ گناہوں سے بخشش حاصل کرنے کا کون سا طریقہ اختیار کرتے ہو؟ خدا کی رحمت کے کس طرح سے طلبگار ہوتے ہو؟ بشپ نے سوال کیا۔
ایک نے دوسرے، دوسرے نے تیسرے کی طرف حیرانی سے دیکھا ان کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ نجات حاصل کرنے کے لئے اور رحمت کے حصول کے لئے مخصوص طریقے سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ وہ یہ پہلی بار سن رہے تھے پھر سب سے بزرگ درویش بولا، وہ کچھ نہیں جانتے۔ وہ صرف اپنے لئے دعا کرتے ہیں۔ اس سر سبزجزیرے پر فطری طور پر اُگی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنی بقا چاہتے ہیں۔ ہم خدا سے صر ف یہ دعا مانگتے ہیں کہ یا خدا! اے مالک! تینوں پر اپنا رحم کر۔
بشپ جوش میں آکر بولا۔تم تینوں غلط انداز میں دعا مانگ رہے ہو۔ یہ ثلاثہ (Trinity) ہے جس سے مراد خدا، یسوع مسیح اور انجیل ہے۔ تم بھی ہماری طرح خدا کی رحمت کے متلاشی ہو۔ تم بھی محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہو لیکن تمہارا طریقہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے غور سے سنو اور میرے تما م الفاظ ہو بہو اسی انداز میں دہراؤ اور ازبر کر لو۔
بشپ نے ان تینوں قلندروں کو دعا مانگنے کا طریقہ بتایا۔ کہا کہ خدا نے کس طرح سے خود کو بنی نوع انسان کے سامنے ظاہر کیا ہے۔ اُس نے خدائے عزوجل، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بتایا، کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُس نے تمام دنیا کے لوگوں کی نجات کے لئے بھیجا۔ بشپ نے انہیں دعا کرنے کا طریقہ بتایا۔ کہا۔ اِس کو سن کر اس کے پیچھے پیچھے دہرائیں۔
بشپ نے دعا شروع کی۔ ’ہمارے باپ‘، ایک درویش نے ’ہمارا باپ‘ دوسرے اور تیسرے نے بھی ’ہمارا باپ‘،’ہمارا باپ‘ کہا۔ اُس کے بعد بشپ نے ’کائنات کی تخلیق کرنے والا‘ کہا۔ پہلے درویش نے ’کائنات کی تخلیق کرنے والے ُ کو صحیح طور پر ادا کیا۔ دوسرا درویش صحیح طور پر نہ دہرا سکا جبکہ تیسرا جو کہ طویل قامت اور ننگا تھا، ان الفاظ کو ادا نہ کر سکا اور اُس کی زبان پر لکنت طاری ہوگئی۔شاید اُس کی بڑی مونچھیں اس کی ادائیگی میں مشکلات پیدا کر رہی تھیں۔ وہ بڑ بڑاتا ہی رہا اور ان الفاظ کو صحیح طور پر ادا نہ کر سکا۔
بشپ نے ایک بار پھر دہرایا، تینوں نے بھی اس کو دہرایا۔ بشپ نے اور الفاظ ادا کئے۔ وہ تینوں بشپ کے نزدیک کھڑے ہو کر اسی طرح دہراتے رہے۔ صبح سے لے کر شام تک بشپ بار بار الفاظ یاد کراتا رہا۔ اُس نے سینکڑوں بار عبادت کے طریقہ کار اور الفاظ کی مشق کروائی پھر بھی وہ بار بار الفاظ کی ادائیگی میں گڑ بڑ کر دیتے تھے۔ بشپ نہایت صبر سے صحیح الفاظ ادا کرتا اور وہ تینوں اُسے صحیح ترتیب میں دہرانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔
بشپ اُس وقت تک ان کے پاس سے نہ گیا جب تک اسے یہ یقین نہ ہوگیا کہ وہ تینوں اب صحیح طور پر عبادت کے الفاظ ادا کر سکتے ہیں۔اُن میں سے درمیانہ درویش ہی ایسا تھا جو عبادت کے الفاظ کو بالکل صحیح طور پر ادا کر سکتا تھا۔ باقیوں کو بھی عبادت کے الفاظ اس وقت تک سکھائے جاتے رہے جب تک وہ مکمل طور پرا نہیں صحیح ترتیب میں ادا نہیں کر سکتے تھے۔
ریہرسل میں کافی وقت لگ گیا،رات کا اندھیرا چھانے لگا تھا تو بشپ نے واپس جانے کا سوچا۔ وہ تینوں بشپ کو الوداع کرتے وقت تعظیماً جھکے۔ بشپ نے ایک ایک کرکے انہیں اپنے گلے لگایا، انہیں دعا دی اور کشتی میں بیٹھ کر واپس جہاز پر چلا گیا۔ جب بشپ کشتی میں واپس جا رہا تھا تو اس نے اُن تینوں قلندروں کو اونچی آواز میں عبادت کرتے سنا۔ تینوں صحیح ترتیب سے عبادت کے الفاظ ادا کر رہے تھے۔ کشتی رفتہ رفتہ اُن سے دور ہوتی گئی ان کی آوازیں آنا بند ہوگئیں لیکن اُن کو دیکھا جا سکتا تھا۔ اُن کی ترتیب دیکھی تو چھوٹے قد کا درمیان میں، طویل القامت دائیں جانب اور درمیانے قد کا بائیں طرف کھڑا تھا۔ دور سے لگتا تھا کہ وہ اسی خضوع و خشوع کے ساتھ دعا مانگ رہے تھے۔
بشپ جہاز پر پہنچا، لنگر کی رسیاں کھول دی گئیں، باد بانو ں میں ہوا بھرنے لگی اور جہاز اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ بشپ جہاز کے اگلے حصے کے پاس بیٹھ گیا۔ اُس کی نظریں اس جزیرے پر ہی جمی رہیں اور وہ اس جزیرے کو اپنی نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔ چاند کی روشنی میں ہر طرف سمندر ہی سمندر نظر آنے لگا۔ زائرین اپنے طور پر سو گئے اور عرشے پر خاموشی تھی لیکن بشپ کی نیند غائب ہو چکی تھی۔ وہ جہاز کے عقبی حصے پر تن تنہا بیٹھا رہا۔ اسی سمت دیکھتا رہا جہاں جزیرہ غائب ہوگیا تھا اور جزیرے پر موجود پیارے قلندروں کو یاد کرتا رہا۔ وہ اس بات پر خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس نے ان تینوں کو صحیح عبادات کے طور طریقے سکھا نے کا شر ف حاصل کر لیا تھا۔ وہ اِس بات پر خوش تھا کہ تینوں ہی بہت اچھے تھے اور انہوں نے انتہائی جوش و خروش؎ سے دعا کے الفاظ اور طریقے سیکھ لیے تھے۔
بشپ کی تمام تر نگاہیں اب بھی کھوئے ہوئے جزیرے کی طرف ٹکی ہوئی تھیں۔ اُس کی نظریں اس وقت دھندلا جاتیں جب چاند کی روشنی لہروں پر ادھر اُدھر بکھرتی۔ اسے سمندر میں اچانک متحرک چمکتی ہوئی کوئی چیز دکھائی دی۔ یہ کیا ہے؟ پرندہ ہے، عقاب ہے، وہیل مچھلی ہے یا کچھ اور! وہ چمکتی ہوئی شئے تیر کی رفتار سے حرکت کرتی ہوئی جہاز کے قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ وہ کوئی تیرنے والی شئے تھی جو تیزی سے ان کی طرف آرہی تھی اور ان تک پہنچنا چاہتی تھی۔ اتنی تیزی سے حرکت کرتی ہوئی شئے ان کے پاس اتنی جلدی کیسے پہنچ گئی؟ وہ حیران تھا۔
یہ نہ تو کوئی پرندہ تھا، نہ عقاب،نہ ہی کوئی مچھلی پھر یہ کیا تھا؟ وہ متحرک شئے مزید قریب آئی تو بشپ نے دیکھا کہ وہ ایک بھاری بھرکم انسانی جسم تھا لیکن کوئی شخص عین سمندر میں اتنی دور تک نہیں تیر سکتا، بشپ نے سوچا۔پھر وہ جہاز ران کے پاس گیا اور پوچھا، دیکھو! وہ کیا چیز ہے جو تیزی سے حرکت کرتی ہوئی ہماری طرف آرہی ہے؟وہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے میرے دوست؟ بشپ نے جہاز ران سے بار بار پوچھنا شروع کر دیا۔ اب وہ خود اسے دیکھ سکتاتھا کہ وہ کیا چیز ہے۔وہ تینوں قلندرتھے جو نہایت تیزی سے تیرتے ہوئے درمیانی فاصلہ ایسے طے کر رہے تھے جیسے کہ جہاز کھڑ ا ہ
سٹیرنگ چلانے والا شخص خوفزدہ ہو کر بہت اونچی آواز میں بولا۔ جناب والا یہ تینوں قلندر ہیں جو انتہائی سرعت سے تیرتے ہوئے ہمارے جہاز کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اِس تیزی سے تو کوئی خشکی میں بھی نہیں دوڑ سکتا۔دیگر لوگوں نے بھی جہاز ران کو چیختے ہوئے سنا اور وہ اس مقام کے گرد جمع ہوگئے۔ اُن لوگوں نے دیکھا کہ تینوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھتے تھے اور ایک ایک ہاتھ سے جہاز کو رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔
وہ سمندر کی سطح پر اس تیزی سے تیر رہے تھے جیسے تیز ترین کھلاڑی سو میٹر ریس میں بھاگتا ہے۔
کپتان نے جہاز جو تمام تر رفتار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا، بڑی مشکل سے روکا۔ وہ فوراً جہاز کے قریب آئے۔ تینوں نے یکسو ہو کر اپنے بازو لہرائے اور بولے۔
اے خدا کے نیک بندے! ہم آپ کی سکھائی ہوئی عبادت کے الفاظ صحیح طریقے سے ادا کرنا قطعی طور پر بھول گئے ہیں۔ جب تک ہم اسے مسلسل ادا کرتے رہے تو ہمیں ترتیب اور الفاظ یاد رہے لیکن جوں ہی کسی وجہ سے انہیں دہرانا بند کر دیا تو سب کچھ بھول گئے۔ ہمیں اب کچھ بھی یاد نہیں۔ ہماری مدد کریں اور دوبارہ سے سکھا دیں۔
بشپ یہ بات سن کر حیران بھی ہوا اور شرمندہ بھی۔اُن کا خلوص، لگن اور محبت دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ خواہ مخواہ اُن کے طریقہ عبادت کو صحیح نہ سمجھا۔ وہ لوگ اللہ والے تھے۔ انہیں عبادت کے طریقوں اور ترتیب میں ادا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ بخشی ہوئی روحیں تھیں۔
بشپ ان کے سامنے عقیدت سے جھک گیا اور اونچی آواز میں کہا۔تمہاری دعا خدائے عزوجل کے پاس اسی طرح سے پہنچتی ہے جیسے علماء اور دیگر مشائخ کی بلکہ تم لوگ ان سب سے بہتر ہو۔ میری تمہیں سکھانے کی حیثیت نہیں۔ میری درخواست ہے کہ تم ہمارے لئے بھی دعا مانگا کرو۔
بشپ کی یہ بات سن کر وہ تینوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر واپس جزیرے کی طرف مڑ گئے۔
Count Leo Tolstoy
(1828 - 1910) (USSR)
کاؤنٹ لیوٹالسٹائی ایک بہت بڑے جاگیر دارکے گھر پیدا ہوا۔اس نے ابتدائی تعلیم اپنی آبائی ریاست ُ یاسانیا ُ میں حاصل کی۔اپنے والد کی وفات کے بعد اس کی بڑی پھوپھی نے جو بیحد مذہبی تھی اس کی تعلیم و تربیت کی جس سے وہ بھی مذہبی ہو گیا۔ اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی چھوٹی پھوپھی اس کی سرپرست مقرر ہو گئی۔ جو واجبی سی مذہبی تھی۔ اس نے یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔ ٰٓ ( Yasanaya) کا نواب تھا۔ وہ 25اگست1828کو یاسانیا میں پیدا ہوا۔ وہ چار بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا تھا۔ اُس کی ماں دو سال کی عمر میں ہی فوت ہوگئی تھی .اُس کے والد نے پرورش کے لئے کسی رشتے دار کے گھر بھیج دیا جو بے حد مذہبی خاتون تھی۔ اُس کی مذہبی تعلیمات کا اثر اس پر بہت ہوا۔ اسے سکول میں داخل نہ کروایا گیا بلکہ جرمن اور فرانسیسی اساتذہ اس کو گھر پر پڑھاتے تھے۔ جب وہ نو سال کا تھا تو اس کا باپ بھی چل بسا۔اس کی بڑی پھوپھی ( Osten - Saku ) اس کی سرپرست مقرر کر دی گئی۔ پڑھائی میں وہ زیادہ اچھا نہیں تھا لیکن کھیل اسے بہت پسند تھے اور بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ اس کی بڑی پھوپھی بھی فوت ہوگئی تو تمام بچے دوسری پھوپھی کے پاس بھیج دیئے گئے۔ وہ کازان ( Kazan ) یونیورسٹی میں داخل ہوگیا۔ اسے سفارت کاری کا شوق تھا لیکن وہاں معقول کارکردگی نہ دکھا سکا تو اس نے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اُس میں بھی ناکام رہا اور1847میں اس نے یونیورسٹی چھوڑ دی۔تعلیم کے دوران اُس نے تیرہ زبانیں سیکھیں۔روسی، جرمن اورفرانسیسی زبانوں میں تو اسے پورا عبور حاصل تھا۔ انگریزی بھی اچھی تھی لیکن باقی زبانوں میں سوجھ بوجھ تھی۔
یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہ اپنی ریاست یاسانیا صوبہ ٹولا (Tula) میں آگیا۔ اس نے منصوبہ بنایا کہ اپنی ریاست میں جدید زراعت کے ماڈل فارم بنائے گا۔ وہ ان مزدوروں کی جو بیگار پر تھے، کی مالی معاونت کی تاہم وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا اور وہاں کی اشرافیہ میں کے رنگوں میں ڈھل گیا۔ 1848میں اس کا بڑا بھائی نیکولے (Nikolay)جس سے وہ بہت پیار کرتا تھا، گھر آیا۔ وہ آرمی میں تھا۔ اُس نے اسے قائل کیا کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائے۔ اُس نے اس کی بات مان لی اور فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔فوجی زندگی میں اسے تنہا پن محسوس ہونے لگا تو وہ پینے پلانے، سونے، عورتوں کا پیچھا کرنے اور شکار میں دلچسپی لینے لگا۔ وہاں اس نے اپنے تجربات سے اس نے اپنی سوانعمری کا پہلا حصہ ( Childhood ) لکھاجو بے حد مقبول ہوا۔ اُس نے باقاعدہ روز نامچہ بھی لکھنا شروع کر دیا جو آخری وقت تک وہ لکھتا رہا۔
اُن نوٹس نے اس کی باقی تمام تصانیف لکھنے میں مدد کی۔ اُس کے بعد اس نے باقاعدہ لکھنے کا کام شروع کر دیا۔ جب اس نے اپنی مکمل سوانعمری ُ کراسیکس ُ لکھنا شروع کی تو اس نے اپنی ٹرانسفر یوکرائن کروالی۔ اس وقت روس اور فرانس میں شدید جنگ جاری تھی۔ اس نے کرائیمین جنگ ( Crimean War) میں بھرپور حصہ لیا۔ وہاں اس نے سوانعمری کا دوسرا حصہ (Youth) لکھا۔ وہ کتاب بھی اتنی مقبول ہوئی کہ لوگوں نے اسے اعلیٰ مرتبہ ادیب کے روپ میں لینا شروع کر دیا۔
جب وہ یوکرائن سے ٹرانسفر ہو کرسینٹ پیٹر برگ آیا تو تمام فوجیوں نے اس کی پذیرائی کی۔ 1863 میں اس کے تیرہ بچوں میں سے پہلا بچہ پیدا ہوا 1873-77 میں اس کی مکمل سوانعمری کراسیسُ مکمل ہوگئی۔
س نے اپنی ایک اور مقبول ترین کتا ب ُاین کرینینا لکھی۔ اس کا مذہبی جنوں آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ اب اس نے سوچا کہ زندگی کو با مقصد بنانے کے لئے ایسی کتب لکھی جائیں جو عوام الناس کی بگڑتی حالت کو سدھار سکیں۔ اس دوران اُس کی ملاقات ایک انقلابی لیڈر چرخوف سے ہوئی۔ اس نے تحریک چلانے کی ترغیب دی۔ یہ مان گیا اور 'وٹ آئی بیلییو' کے نام سے ایک ایسی کتاب لکھی جس میں مزدوروں کی مشکلات کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں وہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ آناً فاناً 60 لاکھ کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ وہ امیر سے امیر تر ہوتا گیا۔ اُس کے انقلابی رویے کی بدولت حکومت نے اس کی تمام کتب ضبط کر لیں۔
اُس نے اپنی تمام کتب کے کاپی رائٹ اپنی بیوی کے نام کر دیئے۔ اس کے آخری ایام مصیبت میں گزرے۔ باقی عمررشتہ داروں، مذہبی علما، دوستوں، حکومت سے لڑائی میں مصروف رہا۔ 1910میں وہ حج پر روانہ ہوا اور اُسی سال 19نومبر کو فوت ہوگیا۔ صوبہ ٹُولا (Tula Provjisca) کےشہر Yanaya Polyana میں دفنایا گیا۔ اس کی دیگر اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔
اس نے اپنی ایک اور مقبول ترین کتاب 'این کرینینا لکھی۔ اس کا مذہبی جنوں آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ اب اس نے سوچا کہ زندگی کو با مقصد بنانے کے لئے ایسی کتب لکھی جائیں جو عوام الناس کی بگڑتی حالت کو سدھار سکیں۔ اس دوران اُس کی ملاقات ایک انقلابی لیڈر چرخوف سے ہوئی۔ اس نے تحریک چلانے کی ترغیب دی۔یہ مان گیا اور 'وٹ آئی بیلییوُ' کے نام سے ایک ایسی کتاب لکھی جس میں مزدوروں کی مشکلات کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں وہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ آناً فاناً 60 لاکھ کاپیاں فروخت ہوگئیں۔وہ امیر سے امیر تر ہوتا گیا۔ اُس کے انقلابی رویے کی بدولت حکومت نے اس کی تمام کتب ضبط کر لیں۔
اُس نے اپنی تمام کتب کے کاپی رائٹ اپنی بیوی کے نام کر دیئے۔ اس کے آخری ایام مصیبت میں گزرے۔ باقی عمررشتہ داروں، مذہبی علما، دوستوں، حکومت سے لڑائی میں مصروف رہا۔ 1910میں وہ حج پر روانہ ہوا اور اُسی سال 19نومبر کو فوت ہوگیا۔ صوبہ ٹُولا (Tula Provjisca) کے شہر Yanaya Polyana میں دفنایا گیا۔ اس کی دیگر اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔
To Live Prisoner of Mountains
Vronsky's Story
Filipok
Matrix The Cobbler
The Death of Ilyvich
A confession
Resurrection
The Jackie at Night
The Sun also Shines
Cabastopol Sketches
Atonement Write
The White Warrior
، Kingdom of God within You
، waits God sees the Truth but
وغیرہ اہم ہیں۔ اس دور کی تخلیق ہے جب وہ زیادہ مذہبی ہوا کرتا تھا۔

Popular posts from this blog