91/ 3 ( ڈنکے کی چوٹ پر ) ا ببا نگ د ہل Shout About It From The Housetop By Kurt Vonnegut (USA)

 


                                                                                           ببانگ دہل

Shout About It From The Housetop

By

Kurt  Vonnegut (USA)

مترجم :  غلام  محی الدین

علاقےور شہرکےہرباسی نے  پڑھاکہ چرچاتھا۔  چرچا تھا ۔ان دنوں  ایک ناول  جس کا نام '  ہی پو کریٹک جنکشن  ' تھا جو                 ہمارے  علاقے  ورماؤنٹ  کی مشہور آبشاروں پرلکھاگیاتھا  ،کا بڑا چرچا تھا۔ وہ آبشاریں  کراکرفالز  میونسپلٹی میں واقع تھی۔اسے وہاں کے ہر شخص نے پڑھا اور وہ  سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول بن گیاتھا۔ میں نے بھی وہ خریدا تھا لیکن مجھے وہ ناول   بیکار اور بیہودہ لگاتھا۔ اسے ایک خاتوں 'ایلسی   سٹیئرنگ  مارگن'نے لکھا تھا۔ میں اس سےایک بارمل چکاتھا۔ اس کے خاوند لارنس مارگن سے بھی ملاتھا جو ایک  ہائی سکول ٹیچر تھا۔

میں ایلومینیم کی کھڑکیوں کاتاجر ہوں اور انہیں ایک بار کھڑکیاں فروخت کی تھیں جو کینیڈاکی شدید ترین سردیوں کی یخ بستہ ہواؤں اور موسموں کے تغیروتبدل  کا مقابلہ کرتی تھیں۔  اس کایہ ناول  مارکٹ  میں آئے  دومہینے ہوئے تھے اوراس کا تذکرہ ہر زد  وعام تھاا اوردھڑادھڑ فروخت ہورہاتھا۔اس کی تعریف میں دنیابھرکےقلابے ملائے  گئے  تھے ۔اس  وقت تک میں نے وہ ناول نہیں پڑھاتھالیکن  بعد میں پڑھا تو واہیات لگا۔اس ناول میں ہمارے آبشاروں کی تفریح گاہوں کی  خوبصورتی کے قلابے  ملائے گئے۔تھے ۔  جو  اس تفریحی  مقام سے چھ کلومیٹر دورتھا۔ان کا لوگوں سے ملنا جلنا نہ ہونے کے برابر تھا ۔ میں ان کے جنوب  میں    ایک شہر میں رہتاتھا۔وہ میرے گھر کے شمال میں تھے                                 جو        وہا  ں     سے کافی دور  ان کی مخالف سمت میں رہتاتھا۔ اور میرا کاروبار بھی وہیں تھا۔ ان کی سائڈ بوسٹن          میں میرا کاروبار بہت کم تھا کیونکہ ایک تو فاصلہ زیادہ تھا اور دوسرا یہ کہ رستہ بہت  خراب تھا ۔ پراجیکٹ پر ضرورت سے زیادہ  محنت اور لاگت آتی تھی اور بہت کم منافع ہوتاتھا۔ اگر کوئی بہت بڑا آرڈر ہوتا تو  وہ میں لے لیتا تھا۔اس بار مجھے وہاں سے ایک بہت بڑاآرڈر ملاتھاتو بوسٹن سے تجارتی میٹنگ کرکے لوٹ رہاتھا تو راستے میں مجھے وہ فارم نظرآیاجس نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ وہ بہت بڑاگھرتھا جس کی کھڑکیاں نہیں تھیں۔میں وہاں رک گیا۔

مجھے دوردورتک پتہ نہیں تھاکہ اس کامالک کون تھااور اس میں کون رہ رہاتھاچونکہ یہ ایک بہت  بڑا فارم ہاؤس تھا  ۔آگر مجھے اس کی کھڑکیوں کا آرڈر مل جاتا تو  وہ  کافی منافع بخش پراجیکٹ بن سکتاتھااس لئے   میں نے موقعہ غنیمت جاناکہ اسے حاصل کرنے کی ایک کوشش کر لی جائے۔میں نے  دروازے پردستک دی۔ایک نوجوان پاجامہ پہنے ،ٹوتھ پیسٹ کرتے ہوئے باہر آیا۔اس نے ایک ہفتے سے داڑھی نہیں  مونڈ ی  تھی۔اس کے آنے کے انداز سے لگ رہاتھاکہ وہ اس گھر میں ہی رہتاتھا۔میرااندازہ تھاکہ اس  نے اپناپاجامہ بھی ہفتوں سے نہیں دھویاتھا۔اس کیآنکھیں ویران سی لگ رہی تھیں ۔ اس کانام لارنس میگنم تھااور وہ اس گھر کی مالکن کاخاوندتھاجس کا ذکراس کی بیوی ایلسی سٹیرنگ مارگن  نے اپنے  ناول  میں کیاتھا۔لیکن جب میں اس سے پہلی بارملاتو تمام دنیاسے نفرت کرتاتھا۔

'ہائے! کیاحال چال ہیں۔'میں نے خوش اخلاقی سے کہا۔

'ہائے!!تمہاراحال چال کیساہے'۔اس نے بھی یہی سوال کیالیکن اس کالہجہ ناگوارتھا۔

'میں کھڑکیوں کاتاجر ہوں ۔یہاں سے گزررہاتھاتو اس خوبصورت  گھر میں  موسمی تغیر وتبدل  کےاثرات کم کرنےوالی کھڑکیاں لگاتاہوں۔تمہاراگھردیکھا تومحسوس کیاکہ تمہیں ان کی بہت ضرورت ہے  تو اس گھر کےباسیوں سے ملےبغیررہ نہ سکا۔'میں نے کہا۔

'تم پھر کبھی کیوں نہیں  آجاتے ۔پھرکوشش کیوں نہیں کرلیتے؟۔'اس نے کہا۔

'کس بات کی کوشش؟ 'میں نےپوچھا۔

'اس بات کی کوشش کہ اس خوبصورت گھر کی موسمی تغیرات  روکنے والی کھڑکیاں نہیں ہیں۔'اس نے کہا'۔یہ گھرمیری بیوی کاہے۔'

'اگرتم کھڑکیاں لگوالوتویہ اس پراٹھنےوالےاخراجات  ازخودپورےکرلےگا۔وہ خرچ جوتم کوئلہ یابجلی کےبوائلرپرکررہےہووہ نہ ہونے کےبرابررہ جائے گا۔ماہانہ بہت بچت کےعلاوہ تم  خواہ مخواہ کی  ٹھنڈک کی وجہ سےہونےوالی بیماریوں سے بچ جاؤگے۔' میں نے کہا۔میں اس وقت اس کی مخدوش حالت دیکھ کربھانپ گیاتھاکہ مالی لحاظ سے وہ اس قابل نہیں تھاکہ خرچ برداشت کرسکے۔پھر بھی میں نے کہا، 'میں نہیں جانتاکہ تمہاری مالی حالت کیسی ہے؟'

'تمہیں یہ جاننا بھی نہیں چاہیئے۔ہردوسراشخص میری مالی حالت جاننا چاہتاہے۔تم کواس سے کیا؟کیاتم  خود اندازہ نہیں لگاسکتے؟'اس نے کہا۔

'میں بالکل اندازہ لگاسکتاہوں'۔میں نے جواب دیا۔

' اگر ہماری مالی حالت جانناہو تو میری بیوی کا مقبول ناول                                                          '  ہی پو کریٹک جنکشن  '                                         پڑھ لو۔اپنی نزدیک  ترین لائبریری یا بک سٹور پر جاؤ، چھ دالر خرچو اور  پڑھ لو۔اس میں تمہیں اس بات کابھی علم ہوجائے گا  کہ دنیا کا سب سے بڑا محبوب  اور عاشق کون ہےتو پتہ چل جائے گا کہ وہ میں ہوں۔'یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کرلیا۔اس کی باتوں سے مجھےیہ تاثرملاکہ وہ اپنے آپ میں نہیں تھااورمجھےاپنی بات بنتی نظر نہیں آرہی تھی۔میں جانے کےلئے مڑاتومجھےگھرکےپچھواڑےسےایک  زوردار آوازسنائی دی۔مجھےایسالگاجیسے اس شخص نے کوئی گھناؤناکام  نہ کردیاہو۔میں نے جائزہ لینے کے لئے باہر سےنظردوڑائی تودیکھاکہ یہ آواز ایک  زنگ آلود نلکے کی تھی جو کسی نےچلادیاتھا۔جس نے اسے چلایاتھاوہ ایک خاتون تھی۔اس کی حالت دیکھ کرایسا لگتا تھاکہ وہ  چیخنےوالی تھی۔اس نے اپنےدونوں ہاتھ پانی کےنلکےپررکھے تھے ۔ وہ سسکیاں لےرہی تھی۔نلکے سے پانی نکالنے کے لئے  اپناپورا زورلگارہی تھی ۔پانی ایک ایسی  بالٹی میں جارہاتھاجوپہلےہی لبالب بھری ہوئی تھی اورپانی اچھل اچھل کرباہر گررہاتھا ۔  چونکہ بالٹی بھری ہوئی تھی اس لئے اسے مزید پانی کی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ اضطراری طور پر نلکا چلائے جاکر اپنی پریشانی کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔اس نے مجھے  جھانکتے ہوئے دیکھ لیا ۔ اس نے   اپنی   آنکھوں  سےبال ہٹائے ۔ وہ'   کرینک جنکشن 'کی مصنف     'ایلسی   سٹیئرنگ  مارگن' تھی۔اس نے مجھے جھانکتے ہوئے دیکھ لیااور نلکاچلانا بند کردیا۔

 میرے ناول               '  ہی پو کریٹک جنکشن  ' کی  ہیروئن کانام 'سیلیسٹی 'تھا  جس میں وہ خودہی ہیروئن تھی۔وہ گاؤں کی سیدھی سادھی معصوم اور شرمیلی لڑکی تھی۔ وہ محبت کےنام سے اس وقت تک ناآشناتھی جب تک وہ لارنس میگنم ( مارگن)سے نہیں ملی تھی۔اس وقت وہ جس حال میں تھی سے لگتاتھاکہ وہ محبت کے مفہوم سے ناآشناتھی۔

'تم کون ہو؟'اس نے پوچھا۔۔۔سیلزمین یاقرض خواہ جونالش کانوٹس لےکرآیاہے؟'

'دونوں میں سے کوئی بھی نہیں مادام'۔میں نے جواب دیا۔

'توپھرتم غلط جگہ پرآگئے ہو۔اس گھر میں صرف دوطرح کے لوگ آتے ہیں۔ایک وہ جو مجھ پردس لاکھ ڈالر ہرجانے کی دھمکی دیتے ہیں یا پھروہ جوچاہتے ہیں کہ میں مصرکےبادشاہ  فاروق کی طرح زندگی بسر کروں۔'اس نے کہا۔

'ایساہےکہ میں تمہیں ایک عمدہ شئے بیچناچاہتاہوں۔اگر تم اسے لگوالوگی تویہ اپنی قیمت خود ہی پوری کردےگی۔یہ بات میں نےتمہارے خاوندکوبھی بتائی تھی۔'

'تم نےمیرے خاوندمارگن کوکب دیکھا؟ 'اس نے پوچھا۔

'ابھی ابھی،مین گیٹ پر'۔میں نےکہا۔

وہ یہ سن کرحیران  رہ گئی ۔پھر کہا۔۔۔ 'مبارک ہو۔مبارک ہو۔'

'معاف کرو۔تم نےکیاکہا؟'

'جب سےاسے سکول بورڈ نےاس کونوکری سےنکالاہے،تم پہلے شخص ہوجس نےاسے دیکھاہے'۔اس نے کہا۔

'مجھے یہ سن کردکھ ہواکہ اسے نوکری سے نکال دیاگیاہے۔'میں نےکہا۔

'تم پہلےشخص ہوجس سے اس نےبات کی ہے۔'اس نے کہا۔

'میں اس علاقے میں نہیں رہتامادام۔میں ریاست کےشمالی حصے سےہوں۔'

اس نے میری بات مکمل ہونےسے پہلے ہی روناشروع کردیااور کہا، 'جب سے مارگن کو سکول سے نکالاگیاہےوہ سمجھتاہےکہ اس کی زندگی ختم ہوگئی ہےاور کسی سے، یہاں تک کہ مجھ سے بھی نہیں ملتا۔'

ایلسی  سے مل کراب مجھے یقین ہوگیاتھاکہ میاں بیوی  دونوں ہی ذہنی مریض تھےاور اگران کاکوئی بچہ تھاتووہ بھی کھٹمل کی طرح خوفناک ہی ہوگا۔ان کی مالی حالت اس وقت ایسی تھی کہ اگر انہیں قسطوں پر بھی کھڑکیاں لگادیتاتوا ن کےپاس قسط اداکرنے کے پیسے بھی نہ ہوتے۔میں تو یہ بھی نہیں دیکھ رہاتھاکہ وہ  اس کے  ابتدائی خرچ   جو  ترپن   بھی ادا کرنے کے قابل تھی۔ جومجھے  نظر آرہاتھا۔تین مرغیاں اور ایک  پرانی سی بیکار شیورلیٹ کار، گھریلو کپڑےجواس  نے سوکھنے کے لئے تارپرڈالےتھے،نیلی جین، ٹینس کے جوتے ، اور خواتین کی گرم قمیض جواس نے پہن رکھی تھی  وغیرہ ملاکر کو بھی  چالیس  ڈالر  کے قریب بنتی تھی۔ کینیڈا میں اگر گاڑی  ناقابل استعمال ہوجائے تو اسے  اپنے پیسے دے کر گاربیج کرناپڑتاہے۔ اس لئے یہ تخمینہ لگا یا کہ ان سے  تجارت نہیں ہو سکتی تھی ،واپس   جانے کو مڑا اور کہا۔

'مادام!مجھےافسوس ہے کہ تمہاری طبیعت صحیح نہیں۔میں پورے خلوص سے تمہاری مدد کرنا چاہ رہاتھا۔کاش میں ایساکرسکتا۔امید ہے تمہارے حالات  جلد بہتر ہوجائیں گے ۔ تم ایلومینیم کی کھڑکیاں کسی سے بھی لگوا لینا۔ یہ تمہارے لئے بہت فائدہ مند رہے گا۔ ویسے اگر مجھ سے لگوائیں تو میں اپنے کام کی عمر بھی کی گارنٹی دوں گا اور تم تمام موسموں  سے محفوظ رہوگے۔اس کے علاوہ میں مفت میں سکرین بھی لگادوں گا۔'

'رکو۔'ایلسی  نےکہا۔

'مادام؟ 'میں کہہ کررک گیا۔

'جس طرح کاسلوک میں نےتمہارے ساتھ کیاہے تمہاری بیوی سنے  گی تو اس کا کیا رد عمل ہوگا۔اان جیسے حالات اگرتمہارے ہوتے توتمہاری بیوی کس طرح ؟'میں چپ رہا۔

اس نےدوبارہ سےنلکےکاہینڈل پکڑااور چلاناشروع کردیاجس سےپھر بلند آواز پیدا ہوناشروع ہوگئی۔

'میں نے اپنے ناول '  ہی پو کریٹک جنکشن  ' کے آخری صفحے پر جوتصویرلگائی ہے، وہ بے حد بری ہے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ میں نےوہ کیوں لگائی؟وہ تصویرکوئی اچھارخ پیش نہیں کرتی۔ میں کوئی عمدہ تصویر بھی لگاسکتی تھی۔'

وہ سگار پینے کی عادی تھی ۔ سب سےاہم چیزجوا اس کے جسم میں  نمایاں تھی وہ اس کاچہرہ تھا۔وہ پرکشش تھی ،خوبصورت اورپیارکرنےوالی لگتی تھی ۔حقیقت میں وہ اتنی مہیب نہیں تھی  مگر جس حالت میں وہ اس وقت تھی ، ہونق  لگ رہی تھی۔ایلسی  کو اس وقت یہ حیرانی تھی کہ وہ اپناسگارکہاں رکھ بیٹھی تھی۔دوسری بار جب اس نے نلکا چلانا شروع کیاتو اس کاشوراتنازیادہ تھاکہ اس کےمیاں کوباورچی خانےکےدروازےتک لےآیا ۔اس کےہاتھ میں اس وقت بیئر کی بوتل تھی۔وہ چلایا، 'یہ بھری ہوئی ہے۔'

'کیا؟ 'اس نے پوچھااور بدستورنلکاچلاتی رہی۔

'بالٹی جس میں تم پانی بھررہی ہو۔'مارگن نے کہا۔

'کوئی پرواہ نہیں۔'اس نے جواب دیا۔اس کےخاوندنےنلکےکاہینڈل پکڑلیاتاکہ اسے نلکامزیدچلانے سے روک سکے۔

'اس کی طبیعت ٹھیک نہیں'۔اس نےمیری طرف دیکھ کرکہا۔۔۔'امیر اورمشہور ۔ لیکن اس وقت وہ کتےکی طرح بیمارہے۔بہترہےکہ تم یہاں سےنکل لو۔'  مارگن  مجھےمخاطب ہوکر بولا                'ورنہ اس کی باتیں  اگلے ناول طبع ہونےسے پہلے ہی تمہیں بیمارکردیں گی اورتم بسترپرپڑےنظرآؤگے۔پھرآگے جانے کیاہو۔'

   ایلسی پرمردنی چھاگئی۔وہ وہاں سے اپنی کارمیں بیٹھی ۔چابی گھمائی تو وہ سٹارٹ نہ ہوئی۔اور اس کے سٹیئرنگ پرسررکھ کرسو گئی۔ایسالگ رہاتھاکہ وہ عمربھرایسے ہی بیٹھی رہے گی ۔جب وہ چندمنٹ          وہ اس حالت میں رہی تو مارگن ننگےپاؤں بھگتاہوااس کےپاس گیا۔اس کےبےساختہ رویےسےایسالگاکہ وہ اسے بہت چاہتاتھا۔

'          میری شہدسے میٹھی جان1میرا                !میراشہدکاچھتہ!' اس کے دل سے آواز نکلی۔

ایلسی نےاپناسر نہ اٹھایااور اسی حالت میں بیٹھی رہی۔اس کے منہ سے اس وقت یہ الفاظ اداہورہے تھے ، ' مجھے نئی رولز رائس چاہیئےاورابھی چاہیئے۔''پیاری۔'اس کے خاوند نے اسےپیارسے تھام لیا۔اس نے اپناسراٹھایااور ایسا لگا کہ اس نے اپنے کمزور لمحات   پر قابو پالیاہو۔ اس کا لہجہ ایسا تھاجیسے   وہ حقیقی  طور پر  نئی رولز رائس  چاہ رہی ہو۔پھر وہ مضبوط  لہجے میں بولی۔ مجھے چھوٹاساجانور منک چاہیئے۔ مجھے ایسےسموری چھوٹے جانورلادو!ایک سو برینڈڈ سوٹ دلادو!پوری دنیاکی سیر کروادو! ایک قیمتی ہیرا لادو!۔۔۔اس کے بعدوہ کار سےنکلی تواس کامزاج اچھاتھا۔

'تم کیابیچتے ہو۔'اس نے مجھ سےسوال کیا۔

'موسمی تغیروتبدل سے محفوظ رکھنےوالی کھڑکیاں۔'میں نے کہا۔

'مجھے وہ چاہیئں۔اس نے کہا۔ کیاتم صرف یہی بیچتے ہو؟'اس نے پوچھا۔'کچھ اور نہیں بیچو گے ؟ باورچی خانے کے کاؤنٹر پرایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر کاچیک پڑاہے جو مجھے اپنے ناول   کو  فلمانے کےمعاہدے پرملےہیں ۔تم نےتواس میں ذراسابھی نشان نہیں ڈالا۔اسے پچکایاتک نہیں اورنہ ہی اس میں کوئی نشان ڈالاہے۔'اس نے کہا۔

'اس کے علاوہ میں کھڑکیوں،دروازوں کےملفوظات اور غسل خانے کاپوراسامان بھی بیچتاہوں'۔میں نے کہا۔'ٹھیک ہےمیں تم سے  یہ سب خریدوں گی۔'پھراس نے اپنے خاوندکوسر سےپاؤں تک دیکھا اورکہا ، 'کیاتم اپنی زندگی کی بازی ہارچکےہو۔تم جینانہیں چاہتے ۔کیاتم اس سے باہر نہیں آناچاہتے۔؟اپنی برطرفی بھول جاؤ ۔اب توتونے جیناشروع کرناہے۔ میں جو بھی                             چاہوں خرید سکتی ہوں۔             اگر      تمہاراپیارجوکبھی ملتاتھامزیدنہ ملا۔۔میرے پاس  اتنی دولت ہے'۔میں  جو چاہوں اب خریدسکتی ہوں۔میرے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے سے بھی بہت زیادہ رقم ہے۔'                          یہ کہہ کروہ باورچی خانے چلی گئی اوردروازہ اتنے  زور سے بند  کیاکہ کھڑکی ٹوٹ گئی۔اس کاخاوند بھری ہوئی بالٹی کے پاس  گیااوراس میں پوری بیئر انڈیل دی اور بولا ، 'اب شراب پینےکاکوئی فائدہ نہیں۔یہ تمہاری مددنہیں کرتی بلکہ نقصان پہنچاتی ہے۔'

'مجھے افسوس ہے۔'میں نے کہا۔

ا'گرتم میری جگہ ہوتےتوکیاکرتے؟' اس نےکہا۔

'میراخیال ہےکہ میں خودکشی کرلیتا۔'اس وقت مجھے کوئی اور جواب نہ سوجھا۔'انسان اپنےمصائب ایک حد تک ہی برداشت کرسکتاہے۔'

'توتم یہ کہناچاہ رہےہوکہ ہرشخص کی قوت برداشت ہوتی ہےاور جب وہ معاملہ حد سے بڑھ جائےتووہ حوصلہ ہاردیا کرتاہے۔میرا مسئلہ اتناگھمبھیرنہیں ۔میں لایسنس شدہ ہوں اور نوکری تلاش کرنامیرے لئے بالکل بھی مشکل نہیں۔میں نےاپنی حالت جو بنا رکھی ہے وہ ناپختہ ذہن کی بدولت ہے۔اس نے کہا۔تم نہیں سمجھ سکتے کہ میرے حقیقی مسائل کیاہیں؟صرف ایک لمحےکےلئے سوچوکہ اس شادی نے مجھ پرکتنابراا ثرڈالا ہے ؟' مارگن  نے پوچھا۔

'مجھے کوئی اندازہ نہیں کیونکہ تم لوگوں سےپہلی بارملاہوں۔' میں نے کہا۔

'تم تومیرانام تک نہیں جانتے۔اس نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ تم تواس کانام بھی نہیں جانتے'۔اس نے کہا۔

'میں کیسے جان سکتاتھالیکن اب جانناچاہوں گاکیونکہ اس نے مجھے بڑاآرڈر دیاہےاور خرید وفروخت کے معاہدے میں اس کی ضرورت ہے۔' میں نے کہا۔'مجھے امیدہےکہ وہ مذاق نہیں کررہی ہوگی'۔

مارگن  نےمیری طرف عجیب وغریب نظروں سےدیکھا۔۔۔'میں ایک عام انسان ہوں  اوربےحد سادہ بھی'۔اس نے کہا۔

'ہاں۔'کیونکہ میاں بیوی کاجوبرارویہ میں نے پہلی نظرمیں دیکھاتھاوہ حقیقی نہیں تھابلکہ لمحاتی تھا۔پورے حالات جاننے کے بعد مجھے معلوم ہواتھاکہ وہ ایک دوسرے سے سچی محبت کرتے تھے۔

'اندرآجاؤ۔'مارگن نے کہا۔ میں اندر گیاتواس نے پوچھا۔۔۔'کافی یابیئر؟'

دونوں میں سےکوئی شئے بھی میری صحت کےلئے موزوں نہیں تھی۔آرڈر کی تفصیل اور کاغذی کاروائی کے لئے مجھے پورادن ان کےساتھ گزارناہی تھا۔مجھےآج تک کوئی ایساشخص نظرنہیں آیاجواتنامعصوم اور بھولاتھا۔ہماری باتیں آدھ گھنٹے میں ہی ختم ہوگئی تھیں اور اس دوران پیارومحبت اور ادب کےعلاوہ  ہرموضوع پربات ہوگئی۔

اس کے بعد ایلسی اندرآئی ۔وہ نئے منظرپیش کرنےکےلئےتیارہوکےآئی تھی۔ اس نے آتے ہی کہاکہ ، 'میں نے نئی رولزرائس کاراورپرانی شیورلیٹ کی نئی بیٹری  کاآرڈر دے

۔جب نئی  بیٹری آئے گی تومیں اس پر نیویارک چلی جاؤں گی۔ تم نئی رولس رائس کواپنے پاس جزوی ادائیگی کےلئے اس وقت  تک رکھ لیناجب تک تمہاراپورابل ادا نہیں ہوجاتا۔ 'اس نے مجھے کہا۔

اوہ ایلسی! 'اس کےخاوندنےچلاتے ہوئے کہا۔'

'میں ایسی چیخوں اور رونے دھونےسےتنگ آچکی ہوں۔میں اب نئی زندگی کاآغاز کرناچاہتی ہوں'۔

'کیاتم سمجھتی ہوکہ ایساکرنے سے تمہیں مزید قوت حاصل ہوجائے گی ؟ 'مارگن  نےکہا۔'مجھے افسوس سے کہناپڑرہاہےکہ تمہیں اب نیادوست مل گیاہے۔' اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

'میرااس دنیامیں اس وقت کوئی دوست نہیں جومجھے سمجھےاورمیراساتھ دے۔لیکن مجھے امید ہےکہ نیویارک میں جہاں لوگ گھٹ گھٹ کر نہیں رہتے اورزندگی سےخوف نہیں  کھاتےاورحقائق کامردانگی سے مقابلہ کرتے ہیں۔کئی نئے دوست بنالوں گی'۔ایلسی نےکہا۔

 'مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ تمہیں میرے روپ میں ایک دوست مل گیاہے۔' مارگن نے کہا۔ 

'تم مجھ پربھروسہ کرسکتے ہو۔'میں نےاسےکہا۔

'تم جانتے ہوکہ میں اس وقت کس کودوست سمجھ رہاہوں'۔مارگن نے پوچھا۔۔۔کچھ دیربعدوہ بولا۔'تم ہو۔جوہمارے پاس کھڑکیاں بیچنےکےلئے آئےہواورایلسی کواپنی طرف مائل کرلیاہےاور وہ تمہاری ہربات مان رہی ہے۔'

ایلسی نے میری طرف دیکھاورکہا، 'تم نے مجھے قائل کرلیاکہ میں تمہاری پیشکش کوقبول کروںاور میں توقع کروں گی کہ میں چاہتی ہوں کہ   ہر موسم سے محفوظ رکھنے والی کھڑکیاںہمیں خراب موسموں میں  بچی  رہوں گی۔   میں نیویارک جاکر دوسری شادی کرلوں گی ۔اس سے پہلےکہ میں یہ گھرچھوڑوں ۔                     میں اس پاجامےوالے شخص  مارگن کو مکمل طورپر محفوظ اور آرام دہ بناکرجاناچاہتی ہوں۔'

'ایلسی۔۔۔میری بات سنو۔جس کےسامنے یہ کتھاسنارہی ہو،وہ جاندار مخلوق ہے جسے ہمارے بارے میں کچھ نہیں پتا۔وہ کچھ نہیں جانتا۔تجھے، مجھےاورتیرے ناول کے مندرجات کےبارے میں کچھ نہیں جانتا۔یہ ہمیں عام انسانوں کےروپ میں ہی دیکھے گا۔اس  کے دل میں نہ تو نفرت ہے ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جس سےوہ طنزیہ بات

کرےاور نہ  ہی غلیظ،فحش اورگندی قیاس آرائیاں کرے'۔۔۔مارگن نے کہا۔

ایلسی نے اس کی بات سنی اورکچھ سوچنے لگی۔وہ اپنے معاملات پرجتنازیادہ غورکرتی اس کاتناؤ اتناکم  ہوتاجاتا۔وہ ایک جابر عورت  سے ایک نرم خو،شائستہ اور گائے کی طرح معصوم خاتون بن گئی۔پھر میری طرف دیکھااور پوچھا'۔تمہاراکیاحال ہے۔'

عمدہ۔ شکریہ مادام۔'میں نےجواب دیا۔'

'تم یہ سمجھ لوکہ اس گھرمیں دونامعقول لوگ رہ رہےتھے۔'ایلسی نےکہا۔اس نے غصے سے سامنے پڑے میز کوٹھوکی ماری توکافی چیک پر گرپڑی۔

'اوہ۔ نہیں مادام۔'میں نےکہا۔تمیاری یہ بات میرے گلے میں اٹک گئی ہے۔یہ تم نے صحیح  نہیں کہاہے'۔اس کی بات سے مجھ میں بےکلی پیداہوئی ۔میں نے میزپرپڑی شکر کی


 

پیالی جس کی قیمت ساڑھےپانچ سینٹ تھی کےنیچے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر کاچیک پڑا تھا  جواسے اپنے ناول کوفلمانے کےلئےملاتھا،اٹھائی اور چیک اسےدیتے ہوئے ،'میں مذاق نہیں کررہا ۔کیاتم جانتی ہوکہ کتنےلوگوں نے اس چیک کوخراب ہونے سے بچانے کی  کوششیں کیں؟ا'میں نے کہا۔

میں نےچیک پر کافی صاف کی۔اسے خشک کیا۔اس دوران ایلسی اور مارگن خاموشی سےمجھے دیکھتے رہے۔انہوں نےاس بات کی پرواہ نہ کی کہ وہ چیک ان کی آرام اورپرتعیش زندگی کاضامن تھا۔انہوں نےاسےلاٹری کاٹکٹ سمجھاہواتھا۔

'یہ۔'۔۔میں نے خشک  چیک مارگن کوپکڑاتے ہوئے کہا۔ ' اسے کسی محفوظ مقام پررکھو۔اس نےاپنےہاتھ باندھ لئےاورمجھ سےچیک نہ لیا۔

میں نےچیک ایلسی کودیاتواس نےبھی نہ لیااورمجھے کہا،' اسے اپنی پسندیدہ خیراتی ادارے کودےدو۔یہ وہ شئے نہیں خریدسکتاجومیں چاہتی ہوں۔'

'تم کیاچاہتی ہو۔'ایلسی۔مارگن نےاس سے پوچھا۔

'میں اشیاءکو اسی طرح چاہتی ہوں جیسے پہلےتھیں جواب کبھی نہیں ہو سکتیں۔میں ایک سادہ، کندذہن شرمیلی اورپیاری گھرہستن تھی اوراب پھرسےوہ بنناچاہتی ہوں۔ محنت مشقت کرنے والے اس ہائی سکول کے استاد کی بیوی بنناچاہتی ہوں جوکامیابی کےلئے ہر دم کوشاں رہتاتھا۔اور میں چھوٹی چھوٹی بیکاراشیاء بیوقوفانہ انداز میں حاصل کرناچاہتی ہوںجسے سورج کی شعائیں ، برگر میں چندسینٹوں کی کمی۔اوراپنے خاوند کی تنخواہ میں تین ڈالرفی ہفتہ اضافہ۔۔۔اور مجھے پورایقین ہے کہ دنیاکی کوئی خاتون  ایسے مطالبات سے خوش نہیں ہوگی لیکن میں اپنی ان خواہشات پرمطمئن ہوں۔ایلسی نے کہا۔اس کے بعد اس نےمجھےاپنےناول  '  ہی پو کریٹک جنکشن  ' کےبارے میں بتایا۔بات کرتےکرتے وہ اٹھی اورکھڑکی کے پاس جاکرباہران بیکاراشیاءکودیکھنے لگی جوموسم بہارکے ختم ہونے کےبعد کھلے میں باہرپڑی تھی ۔ایلسی نےاپنی تخلیق کےبارے میں بتاناشروع کیا ۔ 'ناول ایک دھن کے پجاری شخص سےمتعلق ہےجونیویارک رہتا ہے اوروہاں سےایک چھوٹےشہروورماؤنٹ کےایک ہائی سکول میں پڑھانےآتاہے۔'

یہ سن کرمارگن نے کہا ، 'یہ میں ہوں۔لیکن ناول میں میرانام لارنس  مارگن سے تبدیل کرکے 'لارنس میگنم 'رکھ دیاہےتاکہ امکانی طورپر مجھے پہنچانانہ جا سکےاورپھرمیری ناک کےنیچے اس نےمیری بھرپوربرائیاں کی ہیں۔'یہ کہتے ہوئے وہ اٹھااورفریج سے ایک ٹھنڈی بوتل بیئر کی لےآیا۔'وہ اپنے ناول پررازدارانہ طورپرکام کرتی رہی۔ میرے تووہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ اسے کیک بنانےکےعلاوہ اسے کچھ اور بھی آتاہے۔ مجھے اس کی خبر اس وقت ہوئی جب پبلشر نے اسے چھ نسخے  نمونے بھیجے اور کہا کہ وہ ناول  'ہی پو ہ ڈھیرلگاکرباورچی خانے میں رکھ دیا۔میں نے دیکھاتو اس کاعنوان   'ہی پو کریٹک  جنکشن  '  تھا۔   لیا اور کہا ،میں نے ان کا   کریٹک  جنکشن  '                ایلسی            سٹرینگ     مارگن  نےلکھاتھا۔۔۔یہ کہہ ڈھیرکےاردگرد روشن موم بتیاں  رکھ دیں اور ان سب کےاوپرگلاب کاایک پھول پڑاتھا۔

اس کے بعد ایلسی نےاپنےناول کےبارے میں  بتاناشروع کردی'۔یہ شخص جواس ناول  ہیپو کریٹک جنکشن   میں ہےایلسی سٹرینگ مارگن نے کھڑکی سےباہردیکھتے ہوئے کہا۔ گاؤں کی ایک ایسی لڑکی   

 دل ہارجاتاہے ڑکی تھی ۔۔۔جب وہ ہائی سکول میں جونئرکلاس میں تھی اور  مارگن  پردل ہار جاتاہے۔وہ اس وقت  واشنگٹن ڈی۔سی ۔ میں تھا۔

'یہ لڑکی  ایلسی ہے۔'ومارگن نے کہا۔'

'ہاں۔وہ میں ہوں۔وہ میں ہی تھی۔'ایلسی نےکہا۔'اورجب مارگن نے مجھ سےشادی کی تومارگن کو محسوس ہوا کہ میں اتنی شرمیلی اور معصوم تھی کہ وہ برداشت نہ کرپایا۔'

 'ناول میں ؟' میں نےپوچھا۔

 'جیتی جاگتی زندگی میں بھی اورناول میں بھی۔'ایلسی نے کہا۔

'حقیقی زندگی اور ناول دونوں میں'۔مارگن نےتائید کی۔'دونوں میں کوئی فرق نہیں۔'

'اس میں ولن کون ہے؟'میں نے پوچھا۔

'کوئی نہیں'۔اس نےکہا۔'ایک لالچی بنکر جس کانام واکرولیمز ہے ۔ اور تم جانتے ہوکہ آج کل کراکرفالز بنک کاصدرکون ہے؟'

'میں نہیں جانتا۔'میں نےجواب دیا۔

'ایک لالچی بنکر جس کانام ولیم واکر ہے۔'اس نےکہا۔۔۔'یاخدا!میری بیوی امریکی انٹیلیجنس کے لئے کام کررہی تھی اوران کے لئے کوڈنگ  پرکام کررہی  تھی'۔

'مجھے افسوس ہے۔۔۔افسوس ہے۔ 'ایلسی نے کہا۔اس نے یہ الفاظ کچھ ایسے اداکئے کہ جس میں اسےکوئی دکھ نہ ہواہو۔اس ہیروئن کی شادی اب انجام کوپہنچ چکی ہے۔میں

 سکول کے بورڈپر ناراض تھا۔مارگن نے کہا۔'میں اپنےآپے میں نہیں تھالیکن انہیں کون الزام دے سکتاتھا؟ اس ناول میں جن چار اراکین کےنام دئیے گئے ہیں وہ بہت ا اثر و رسوخ والے ہیں اور اتنے طاقتور ہیں کہ ان پرکوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔اگران کانام ناول میں آیابھی ہےتو ایک نامورعاشق ،بےرحم  خاتون لوگوں میں شعوراجاگر کرنےالی جیسی کہ میں ہوں  جوہروقت نصیحتیں کرتی رہتی تھی۔'اس پرمارگن اوراس کے بعد مارگن  اپنی بیگم ایلسی  سٹرینگ مارگن کےپاس گیااورکہا،' اس دینامیں وہ شخص کون تھا  جس پرتم اپناحق جتاتا اور جوتمہیں سب سےزیادہ پیارکرتاتھا؟'

وہ   'تم تھے۔' ایلسی نے بڑے سکون سے جواب دیا۔ 'تم' ۔۔۔سوچو۔میں  تم سےبےحد پیار کرتی تھی۔تم یہ بات اچھی طرح سےجانتے ہو۔اس عرصے کاذکرناول میں کیاہے تواس میں تمہارے خلاف ایک بات بھی نہیں لکھی کیونکہ اس وقت تم بالکل ٹھیک تھے۔ تمہارے مزاج میں بگاڑ بعد میں ہی پیداہوا۔اوہ۔ میں اس وقت کراکرز فالز کے چھوٹے موٹے راز اس وقت بھی جانتی تھی۔لیکن ان پرسوچتی نہیں تھی کیونکہ وہ مجھے  برے نہیں لگتے تھے۔'

اب اس نے مارگن کی طرف چہرہ کیا،'اور تب تم ،عظیم لارنس میگنم اس قصبے آئے توتمہارے پاؤں اکھڑگئےاور وہ شرمیلی،سادہ اور خوبصورت لڑکی اجڈ،گنوار اور زمانہ

قدیم کےوچاررکھنےوالی لگنےلگی۔تمہاری سوچ مکارانہ ہوگئی۔تم نے مجھے بتایا کہ زندگی کےتلخ حقائق سےڈرناچھوڑدوں۔۔۔میں نےڈرناچھوڑدیا۔تم نےکہاکہ  میں دوستوں اورپڑوسیوں سے ملناجلناچھوڑدوں اور انہیں لفٹ نہ کراؤں ،میں نےتمہاری محبت میں ایساہی کیا۔میں نےلوگوں کوتمہاری ہدایات کی روشنی میں پرکھناشروع کردیا۔تم نے مجھے بتایا' ،ایلسی نے کہا، 'محبت میں شرم وحیاکو درمیان میں نہ لاؤ  اور بےشرم ،بے حیااوررنڈی بن جاؤاور تمہاری شہوت زدہ آوازیں چھت تک جائیں۔ میں نےوہ بھی کردیا۔میں نےناول اس لئے لکھاکہ تمہیں بتاؤں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتی تھی۔یہ بتاناچاہتی تھی کہ تمہاری محبت میں کیاسےکیابن گئی تھی۔تم میری قربانیوں کااعتراف کرو۔۔۔یہ ناول جتناتیرے بارے میں ہےاتنامیرے بارے میں بھی ہے'۔ایلسی نے کہا۔'میں نے بتاناتھاکہ میں کتناجان گئی تھی۔تم نے مجھے کتناسکھادیاتھا۔۔۔۔میں انتظار ، انتظار، انتظاراورانتظار کرتی رہتی کہ تم ان عنایات اور قربانیوں کا جو میں نے تمہارے لئے دیں، ایک  ہلکاسااعتراف بھی کردوتوسب بھول جاؤں گی۔۔۔تم یہاں باپ کاکردراداکررہے تھے۔اور یہ ناول ۔۔۔یاخدا!ہماراپہلابچہ تھا۔'

اس منظرکےبعد میں وہاں سے چلاآیا۔مجھے ان کی محبت کایقین ہوگیاتھا۔میں اس سے یہ سننا چاہتاتھاکہ لارنس میگنم نے اپنے منصوبے کاجس کاوہ خالق اور باپ تھا۔گاؤں کی ایک سادہ اور شرمیلی لڑکی کے بار ے میں پوچھوں۔لیکن اس نے کہاکہ بہتر ہے کہ میں وہاں سے چلاجاؤں۔

مجھے اب ان کی پوری سٹوری کاپتہ چل گیاتھا۔ایلسی اس وقت  جنونی حالت میں تھی ۔لیکن وہ  مارگن سے شدید محبت کرتی تھی اور اس ہیجانی کیفیت میں وہ غلط فیصلے بھی کر سکتی تھی اور اس بات کے بہت زیادہ امکانات تھےکہ ان کی شادی ٹوٹ جائےگی۔وہ نیویارک چلی جائے گی اور نیابیاہ                         رچالےگی اورعمربھر پچھتاتی رہےگی کیونکہ مارگن اس کاسچا پیار تھا۔۔۔میں نےاس کمپنی کوجس سے ایلسی نے نئی بیٹری  کاآرڈر دیاتھاکوفون پر کہا کہ شیورلیٹ کار میں ایک  بڑی تکنیکی خرابی ہوگئی تھی اس لئے اب بیٹری کی ضرورت نہیں۔ اس لئے اس نے وہ آرڈر کینسل کردیا۔میں خوش ہوں کہ اس وقت میں  نےیہ چال چلی تھی جومجھ پرالٹ بھی پڑسکتی تھی اور میرا آرڈر کینسل بھی ہوسکتاتھا۔ دودن بعد میں دوبارہ ان کےفارم ہاؤس  گیاتو میاں بیوی خوش خوش کافی پی رہے تھے۔ایلسی اورمارگن ساتھ ساتھ  تھے۔ میں ان کے زبانی آرڈرز کی  دستاویزات تیارکرکے لایاتھا۔  انہوں اس وقت  جیکوزی   کاآرڈر نہیں دیاکیونکہ نلوں کاکام ابھی نہیں کروایا گیا تھالیکن اب وہاں ایک  نئی رولزرائس کھڑی تھی جسے اس نےاپنابچہ کہا۔جب میں کھڑکیوں کی پیمائش کررہاتھاتو میں نے ایلسی سے پوچھا'کیاتم نے  اپنے بچے اور بچے نےاپنے باپ کوقبول کرلیاہے؟'

'ہاں۔'اس نے جواب دیا۔

مارگن بئیر کی دوبوتلیں لے آیا۔اس نے اب داڑھی مونڈی ہوئی تھی اور نیاسوٹ پہناہواتھاتومیں ' ہیپو کریٹک  جنکشن'                                'میں سب سے بڑے مکارہوتا'۔کیساباپ ہوتا '

 'جو یہ بات جانتاہے کہ وہ اس کابچہ ہےاور اسے پیارنہ کرے؟'

اب میں نے سناہے کہ ایلسی کاایک اورناول آگیاہے جسے میں دیکھنے سے پرہیز کررہاہوں۔ان کی شادی بچانےمیں  جوسب سے بڑاکردار پیش کیاگیاہےوہ ایک ایسابیوپاری ہےجو موسمی تغیروتبدل سے بچاؤ کی کھڑکیاں فروخت کرتاہے۔۔۔یہ پوراناول اس تاجرپرہے۔

 

Life history

Kurt  Vonnegut

1922…..2007

USA

  حالاتِ زندگی

کرٹ وونی گٹ   11 اگست 1922 کو  انڈیاپولس  میں  جرمن والدین کے ہاں پیدا ہو۔ اس نے ت ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی ۔1940 میں اس نے ہائی سکول کیا۔اعلیٰ تعلیم یونیورسٹی آف شکاگو ، یونیورسٹی آف ٹینیسیس  ، کارنیل یونیورسٹی  اور کارنیگی یونیورسٹی سے حاصل کیا۔اس نے کارنیل یونیورسٹی میں  داخلہ لیا اور ایک سال بعد ہی 1943 میں چھوڑ دیا۔اور امریکی ائر فورس میں فلائنگ افسر بھرتی ہو گیا۔۔اپنی تربیت کے لئے فوج نے اسے مکینیکل انجینرنگ کی تعلیم دلوانے کے لئے کانیگی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جو اب کانیگی میلون یونیورسٹی ہے اور ٹینیسی یونیورسٹی  بھیجا۔۔اس دوران جنگ عظیم چھڑ گئی اور اسے یورپ کے ایک محاذ پر لڑنے کے لئے بھیج دیا گیاجہاں جرمنوں نے قبضہ کرلیا۔ وہ اپنے پانچ سو فوجیوں کے ساتھ قید ہوگیا۔ اسے ڈریسڈن کے جنگی قیدیوں کے کیمپ منتقل کردیا گیا۔وہ علاقہ شہری آبادی تھی جس میں عام فیکٹریاں تھیں اور وہاں متحدہ فوجوں کے حملے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی لیکن انہوں نے اس شہر پر زبردست بمباری کی اور تمام شہر تہس نہس کردیا ۔ اس دوران کم از کم پچیس ہزار شہری مارے گئے۔ اسے ایک مذبح خانے میں بیگاپر لگایا گیا تھا ۔وہ اپنے ہی ملک کی بمباری سے بچنے کے لئے تہہ خانے کی سب سے نچلی منزل (تیسری) میں چھپا۔ اس کی جان بچ گئی لیکن اس کی بیگار میں اضافہ ہو گیا اور جرمنوں نے ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے پر لگا دیا۔ اس نے اس واقعہ کو اپنے ناول 'ٖڈا سلاٹر ہاؤس' میں لکھاہے۔ اس نےاپنی فوج کے خلاف لکھنا شروع کیا تو اسے فوجی نوکری سے نکال دیاگیا۔

اس کے والدین اور وہ جرمن زبان فر فر بولتے تھےجنگ ختم ہونے کے بعد اس نے میری کاکس سے شادی کی   جو اس کے ساتھ یونیورسٹی آف شکاگو میں پڑھتی تھی۔جس  میں اس کے تین بچے ہیں۔اس کے علاوہ اس نے اپنی  بیوہ بہن         جو کینسر سے فوت ہوگئی تھی کے ایک بیٹے کو بھی متبنیٰ بنا لیا۔وہ شروع سے ہی علمی اورادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سکول میں ایں وہ سکول کے رسالے کا کو ایڈیٹر تھا اور مشہور رسالوں میں لکھا کرتا تھا۔ رات کو ایک رپورٹر کے طور پر بھی کام کیا کرتاتھا۔وہ خدا کی ہستی سے منکر ہے۔وہ ایک زبردست ادیب ہے۔اس کی اہم تصنانیف درج ذیل ہیں۔

Novels

Player Piano, The Sirens of Titan, Mother Night, Cat’s Cradle, God Bless You. Rosewater, Slaughterhouse, Happy Birthday Wanda June, Breakfast of Champions, Slapstick,Jailbird,Palm  Sunday etc

Short Stories

All the Kings Horses, Any Reasonable Offer, Deer in the works, EPICAC Harrison Bergeron, Miss Template, Welcome to Monkey House, Mnemonics, Miss temptation, The Package, Tomorrow, Tomorrow, Tomorrow  etc

 

Awards

2009   Audio Award for Short Stories, 1973 Hugo Award for Best Dramatic Presentation, 1971  Drama  Desk Award for Outstanding Play writing , 1970, 1969 Award Nominated Slaughterhouse etc.

 

اپریل 2007 کو گرکر شدید چوٹیں آئیں جن سے وہ جانبر نہ ہوسکا اور فوت ہوگیا۔

 

 

Popular posts from this blog