برفبا د ( دوسری قسط) Tempest (2nd Episode) Isak Dinnesen Denmark


 




 برفبا د      (        دوسری قسط)

Tempest (2nd Episode)

Isak Dinnesen 

Denmark

مترجم : غلام محی ا لدین 

   آسمانی آفت  کی بدولت  ڈرامہ ' طوفان  برفباد '      ۔       ملتوی کردیاگیا تھاجوچم ہوزوینکل کا وسیع و عریض گھر  کانام  سکوئر ہاؤس تھا۔اس کے دروازے ایملی کے لئے واکردئیے گئے۔اس کے ساتھ   فیاضانہ  سلوک کرنے لگےکیونکہ اس نے اپنی جان پر کھیل کر اس کے قیمتی بحری جہاز اور انسانی جانیں بچائیں۔اہل خانہ کی نظریں جب بھی ایملی پر پڑتیں توان کے چہرے کھل جاتے۔ان کے چہرے پر خوشی کی لہر پھیل جاتی اورشکرانے اور ممنون ہونے کے تاثرات پائے جاتے۔وہ گھر اس لڑکی کے لئےیقینی طور پر ایک مستقل رہائش گاہ بن گیاتھا۔ایسے عظیم الشان گھر میں رہنا تو کجا اس نے ایسے گھر کا تصور تک بھی نہیں تھا۔کرسٹل کے فانوس ،سونے اور چاندی کے برتن،لیس کے بنے ہوئے بھاری پردے،،بستر پر ہی سینڈوچ،اور خوشبودار کافی اور عطر والا صابن دیاجاتا۔۔سب کچھ فراخدلی کے باوجود ایملی اب بھی بہت شرمیلی اور کم گو تھی۔۔ہرممکن کوشش کی جاتی کہ کھل کر رہے لیکن وہ سمٹی سمٹی رہتی تھی۔سوال وجواب سے گھبراتی تھی لیکن وہ جب بھی کسی کاسامناکرتی یا چلتی تواس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔اسے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ گھر والے اس سے جس طرح کاسلوک کرتے تھے اس سے ایسا لگتا کہ وہ خوبصورت تھی۔اس سے پہلے اسے اس بات کااحساس ہی نہیں ہواتھا ۔ جب وہ اس گھر میں آئی تھی تو اس کارنگ پیلا او ربرف اور سمندری پانی سے لتھڑی ہوئی تھی۔ مردانہ ملاح کی میلی کچیلی ڈھیلی ڈھالی وردی  میں ملبوس لباس میں لڑکا لگ رہی تھی۔اس گھر میں چند روز قیام سے اس نے اپنے عمدہ لباس اور صاف ستھرے جسم کے ساتھ قد آدم آئینے میں دیکھا تو اسے یقین نہ آیا کہ یہ وہی ایملی تھی جو ہمیشہ ڈھیلے ڈھالے سادہ  لباس پہنتی تھی اور معمولی شکل و صورت والی لڑکی تھی۔اس کے حسن میں روزبروز اضافہ ہورہاتھا۔اب اسے دیکھ کر گھر کاہرفرد خوش ہوتاتھا۔اس لئے ایملی گھروالوں کی پسندیدگی اور تعریف سے وہ ایک قدم ترقی کی اور ان جیسی شکل و صورت اور رہن سہن اختیار کرلیا۔وہ  بوڑھے جہازران کی صحبت کو پسند کرتی تھی ۔اسے زندگی بھر اپنے باپ کی کمی رہی تھی۔اتنے عرصے بعد باپ کا نعم البدل   مل گیاتھا ۔ وہ بھی اسے اپنی مرحومہ بہن اور بیٹی سمجھتا اورپیارکرتاتھا۔مسز جوچم ہوزوینکل ایک وضع دار خاتون تھی جو سیاہ لباس پہننا پسند کرتی تھی اور ایملی کے خیال میں  اسکی شکل' ملکہ  تھورا'سے ملتی تھی۔گھر کا دوسرا مرد ان کا نوجوان بیٹا ارڈنٹ تھا جسے ایملی دنیا کا خوبصورت ترین شخص سمجھتا تھا۔

مسٹر اور مسز جوچم ہوزوینکل دونوں ہی خداترس تھے۔ان کا گھر شہر کا عمدہ ترین گھر تھا۔وہ مخیر تھے۔نادار اور مساکین کی دل کھول کر مدد کرتے تھے۔ان کی شادی نوجوانی ہی میں ہوگئی تھی اور پرمسرت زندگی گزاررہے تھے۔ان کی واحد اولاد ان کا بیٹا ارنڈٹ تھا۔وہ روزانہ صبح شام عبادت اپنے ذاتی عبادت خانے میں اولاد نرینہ کے لئے دعائیں کیا کرتےتھے۔شادی کے اٹھارہ سال بعد ان کی دعا قبول ہوئی اور ارڈنٹ پیدا ہوا۔اردنٹ بچپن ہی سے رحمدل تھااور ہر ایک سے عزت سے پیش آتاتھا۔لوگ اسے پسند کرتے تھے۔اس کے آنے پر اس کی تعظیم کے لئے خاموش ہو جاتے تھے۔وہ ذہین ، معاملہ فہم  اور تیزفہم تھا۔جوں جوں وہ بڑھتاگیاوہ زیادہ انصاف پرست اور نیک بنتاگیا۔اسے جہازرانی  کی صنعت  میں خصوصی تربیت کے لئے ایمسٹرڈیم کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی بھیج دیاگیا۔تربیت کے بعد وہ تجارت میں آیا تو اپنی ایمانداری، مہارت اور عمدہ حسن سلوک سے سب  کا اعتماد حاصل کر لیاجس سے اس نے تجارت کو بہت تیزی سے آگے بڑھی۔اسے موسیقی سے محبت تھی۔وہ ایک اچھا گلوکار تھا اور کئی آلات موسیقی بجانے کا ماہر تھا۔اس کے والدین اس سے ایک بات  پر نالاں تھے کہ وہ شادی کے لئے رضامند نہیں ہورہاتھا۔  اس کی عمر اب ستائیس سال ہوچکی تھی۔ ان کے خاندان کے بہت سے لوگ  شادی کے بغیر مرگئے تھے۔انہیں خدشہ تھاکہ کہیں ارڈنٹ اس راہ پر نہ چل پڑے۔بوڑھے لوگ،تاہم،بےوجہ فکرمند نہیں ہورہے تھے۔بہرحال ان کا بیٹا سیدھا سادہ  اور کرسچین سینڈ کی کنواریوں کا منظور نظر تھا۔وہ جس پر بھی ہاتھ رکھتاوہ اسکی ہوجانی تھی۔اس کے چہرے پرمتانت،سوچ بچاراور مخصوص قسم کاتاثرپایاجاتاتھااور جو چاہے  حاصل کرسکتاتھا۔اس کے پاس دولت کے انبار تھے۔جب ارڈنٹ کی عمر پندرہ سال تھی تو ایک ملاح کی بیٹی جس کانام 'گورو' تھا کو اس کا والد  ' وطنی گاؤں'سے لے کر ان کے گھر لے کر آیا ۔وہ اس سے ایک سال بڑی تھی۔جوانی کا شعلہ بھڑکا ور وہ ایک دوسرے  سے پیار کے بندھن مین جڑ گئے۔وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی اس کا جسم بھرا بھرا تھا۔ محبت اتنی بڑھی تو گورو  امید سے ہوگئی۔یہ کھیل صرف چھ ہفتے جاری رہا۔ یہ سب راز داری میں ہوا ۔ارڈنٹ اس کو ٹوٹ کر چاہتا تھا۔جب اس کے والدین کو علم ہوا تو انہوں نے نوکرانی کے والدین کو بلوا کر اس کے  ہاتھ واپس بھجوا دیا لیکن اس لڑکی نے سمندر میں کود کرخودکشی کر لی۔اس کا زندگی میں یہی ایک  افیئر رہا ۔اس بات کو بارہ سال  بیت چکے تھے۔اس کا دل بجھ چکاتھااوراس نے اس دوران اپنے رویے سے ثابت کردیا تھا کہ کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اس کی لڑکیوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ اسے اپنی طرف راغب کرنے کی تمام کاوشیں ناکام ہو گئیں۔ا س کے کئی ممالک میں دوست تھے اور اسے کئی ایسی خوبصورت لڑکیاں بھی ملی تھیں جو اتنی ہی محبت کرنے والی ملاح کی بیٹی گورو کی طرح جان قربان کرنے والی تھیں۔اس نے کسی پر توجہ نہیں دی تھی ۔

کرسچینز سینڈ میں جوچم ہوزوینکل کے گھر اعلیٰ ایوانوں سے ایک وفد آیا جنہوں نے اصرار کیا کہ اایملی کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے شہر کے اعلیٰ ترین ہوٹل میں  ڈانس پارٹی رکھی جائے جسے جہازران نے بخوشی قبول کرلیا۔اس وقت وہ سادہ سے فراک پہنے ہوئی تھی۔اس وقت اس کے لباس پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔اس کے پاس تو ڈانس کے لئے فراک تو کبھی سرے ہی نہیں تھا۔اس لئے مادام خانہ'فُرو' نے اپنے درزی کوبلایا اور عجلت میں درزن کو بلایاپنی نوجوان مہمان کے لئے ناچ والا قیمتی فراک سینے کوکہا۔دعوت میں ایملی کالباس  دیکھ کر مہمان حیران رہ گئے کہ ایک کُلاہ فروش کی بیٹی  نے کیسے موقع کی مناسبت سے  بہترین لباس زیب تن کیاہواتھا۔اس قسم کے بہترین سلوک کے ساتھ اسکادماغ خراب ہوجانا چاہیئے تھا لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ اس نے خود کو حالات کے ہاتھوں کھلونا بنالیاتھا۔وہ ناچ پارٹی پر چلی تو گئی لیکن اسے ناچنا نہیں آتا تھا۔مہمانوں میں سے ایک خاتون  نے اس سے التجا کی کہ وہ کوئی گانا ہی سنادے۔اس نے بات مان لی اور پرندوں کی طرح چہچہانا شروع کردیا۔

ان پہلی ریتوں پرآؤ۔۔۔اس کے بعد ہاتھ میں ہاتھ ڈالو۔۔۔ہمارے پاس مہربانیاںاور گرم جوشی ہے۔۔۔طوفانی لہروں میں صفائی ہے۔۔۔اپنے پاؤں کو اِدھراُدھر مہم جوئی کی طرح ہلاتے رہو۔۔۔اے میٹھی اور پیاری روحو،بوجھ اٹھاؤ۔۔۔اس کے گانے کے ساتھ ڈانس شروع ہوگیااور ایملی اس جگمگاتے ہال کے درمیان کھڑی ہوگئی اور ناچنے والوں کے ترتیب وار قدم اور ان کی پھیریاں  کو دیکھتی رہی جو اس کی آوازاورگانے کی دھن پرناچ ہی تھیں۔فرڈیننڈ کو بھی اس دعوت میں مدعو کیا گیا تھااوروہ وہ خوشی اور شوق سے اسے ملنا چاہ رہی تھی کیونکہ وہ دونوں اب تک طوفان بادوباراں کے بعد سے اب  تک  نہیں ملے تھے۔لیکن وہ شریک نہیں ہوا۔گانے کے دوران ایملی نے اپنی نگاہیں ارنڈٹ پر جمادیں جو اس وقت تاجروں سے محو گفتگو تھا۔جب اس نے یملی کے گانے کی آواز سنی تو وہ گانا سننے میں محو ہوگیا۔جب اس نے ناچنے والوں کے لئے گاناشروع کیا تو وہ بھی ناچنے لگا۔وہ ایملی کے بارے میں تمام وقت سوچتا رہاحالانکہ رنگ برنگی تتلیاں  اس کا طواف کررہی تھیں۔جب وہ واپس گھر آئی تورات بھر سونہ سکی۔موم بتی کے سامنےاپنے گاؤن میں بیٹھی رہی۔دوسری طرف ارنڈٹ بھی سو نہ پایااور لمبی سیر کے لئے گھر سے باہ چلاگیا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہواتھاکہ وہ رات کے وقت بندرگاہ یا گوداموں کی طرف  گیاہو۔

ایملی  ولدمیر ہیئر سووورینس سے ملناچاہ رہی تھی جو اس وقت بیمارتھااس لئے  ارنڈ ٹ اسے لے کر اس کے ہوٹل چلاگیا۔وہ اس کی تعزیت کے بعد اس کو ایملی کی بہادری پر اسے مبارکباد بھی دینا چاہتا تھا جو اس کی ٹیم کا حصہ تھی۔جب وہ وہاں پہنچے تو اس وقت  وہ کرسی پر بیٹھا تھا۔بیماری نے اسے گونگا اور بہرہ کردیاتھالیکن وہ ہوش و حواس میں تھا۔ان کی یہ میٹنگ  ایک گنگ ڈرامے کی طرح تھی۔لیکن ایملی اسے اپنے استاد کی حیثیت  سے اس کا احترام کرتی تھی۔وہ ایملی کودیکھ کر خوش ہوا۔اس کی جوانی اور حسن کو دیکھ کر حیران بھی ہوا کیونکہ وہ اس کے سامنے سادہ اور کھلے کپڑوں میں آیا کرتی تھی اور اس میں تو وہ لڑکا ہی لگتی تھی۔اس نے ارنڈٹ  کو دیکھا تو خواہش کی کہ کاش وہ ایملی کا محبوب بن جائے۔ایملی اس وقت یہ نہیں جانتی تھی کہ چند دنوں میں ایملی کی ظاہری جسامت میں اتنی زیادہ تبدیلی کیسے آگئی۔اس کی چھاتیاں اتنی بڑی اور موٹی کیسی ہوگئیں۔جب ارنڈٹ اور ایملی سووورنس سے  واپس آنے لگے تو اس نے ایملی کا ہاتھ دباتے ہوئے سرگوشی کہ برفباد ڈرامہ ہیروءئن ایرییل  کی کمی کو بری طرح محسوس کرے گا۔ سووورنس تنہا رہ گیا۔وہ اس ملاقات پر کئی روز تک کھویارہا۔تاہم وہ ایملی کے بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوا۔

جیسے ہی سووورنس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو وہ جوچم ہوزوینکل  کے گھر گیا۔اس دوران اس نے ایملی کے لئے ہلکے ارغوانی رنگ کے دستانے خریدے جو اس کے پرانے سادہ لباس سےمطابقت رکھتے تھے۔وہ گھر میں داخل ہواتو وہ ہرلمحے جھکتاتھااور کمرے کی ہرشئے کی تعریف کرتاتھا۔اگر وہ کسی شئے کونظراندازکردیتاتوبعد میں کوئی وجہ تلاش کرتا کہ اس کی کیوں تعریف نہ کی۔وہ ڈرائنگ روم میں بٹھادیاگیا۔اس کی مسٹر اینڈ مسز جوچم ہوزوینکل اور ایملی سے ملاقات ہوئی۔جب کسی وجہ سے ایملی اور وہ  اکیلے رہ گئے  تو اس نے ایملی کوکہا۔میری بچی۔تم بہت خوش قسمت اور مقبول ہو۔اس پر جب ایملی نے اس کو غور سے دیکھا تو اس نے اپنی نظریں پھیرلیں۔اپنے کوٹ سے رومال نکالااور اپنا ماتھا خشک کیاا۔جب  وہ اپنی خاطر تواضع کے بعد جانے لگا تو ایملی تعظیم کے لئے دروازے پر کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی اور وہ فخریہ طور پر گھر سے رخصت ہوگیا۔

طوفان بادوباراں کے بعد وہ جوچم ہوزوینکل کے خاندان اور لوگوں کی پر زور فرمائش پر  سکوائر ہاؤس میں  مستقل طور پر رہنے لگی تھی۔یہ اییک قصبہ تھا۔ایسی کمیونٹی  جو چھوٹی ہو وہاں تقریبات کم  اور افواہیں زیادہ جنم لیتی ہیں۔اس دوران  اس بات نے زور پکڑا کہ ایملی کو منگنی کرلینی چاہیئے۔اس مطالبے کو غیرشادی شدہ نوجوان  شدت سے پیش کررہے تھے۔ہرایک کی خواہش تھی کہ اسکے ساتھ اسکی منگنی ہوجائے۔ارنڈٹ بھی اس قصبے میں مقبول تھا۔معززین کے مطابو ایملی سے منگنی کے لئے وہ موزوں ترین تھا۔ویسے بھی ایک ہی گھر میں رہتے رہتے وہ ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے تھے۔ایملی کے دل میں اس سے پہلےایسے لطیف جذبات پہلے کبھی نہیں ابھرے تھے۔اسی طرح  نوکرانی گورو کے واقعے کے بعد جو بارہ سال پہلے اس کی اوائل بلوغت میں پیش آیاتھا کے بعد پہلی بار اس کا دل بھی جذبات سے دھڑکنے لگا تھا۔آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی۔لوگ بھی شدت سے یہ چاہ رہے تھے کہ سینڈریلا اور شہزادے کا قصہ دہرایا جائے۔کسی کے دل میں اس کے لئے کوئی کینہ،کپٹ یا حسد نہیں پایا جاتا تھا۔کمیونٹی کی یہ رائے اعلیٰ ایوانوں تک بھی جا پہنچی۔مینشن     میں رہتے رہتے اس کی عادات بھی بدل گئی تھیں۔وہ جس انداز سے کلام کرتی، لباس پہنتی اور چلتی پھرتی تھی وہ باوقار تھے۔اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کسی پسماندہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے.چونکہ اس ہیروئن نے سمندر اور اس میں  ہم آہنگی کولازم و ملزوم ثابت کردیاتھااور اس کا والد الیگزینڈر راس ایک معتبراورعزت دارآدمی تھاجو بحری  سفر   پر بطور کپتان روانہ ہواتھا۔وہ خود ثابت قدم اور شیردل تھی جس کا ثبوت اس نے برفباد  میں دے دیاتھا۔

میمزیل راس (ایملی)کے نزدیک اس نے عظیم  الشان مقصد کی تکمیل کر لی تھی۔اسے محسوس ہواکہ اسے پرندوں کےپردے دیئے  گئے تھے۔وہ عاجزانہ طور پرپل بڑھ رہی تھی اور اس بات میں معجزانہ طورپرکامیاب ہوئی تھی اور بھی بلندمقام پرجس کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتاتھاحاصل کرلیاتھا۔وہ ایک درخشندہ مقام پر پہنچ چکی تھی لیکن وہ اس مقام سے کہیں بھی،کسی وقت بھی گرسکتی  تھی ۔اب وہ  اس کی بیوی بننے جارہی تھی۔وہ ان تمام اشیا کوجووہاں تھیں  پر قادرہونے جارہی تھی جس میں وہ خودبھی شامل تھا۔وہ کانپتے ہوئے جولیٹ  کاکرداراداکرناکرناجارہی  تھی۔وہ آرینڈل کی خادمہ تھی جو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ کسی کے انعام کے طورپرآئی تھی۔ارنڈٹ کی خوشی کی نوعیت مختلف قسم کی تھی۔کسی سے محبت نہ کرنے کے وعدے جو بہت پہلے کئے گئے تھے،دوبارہ پیدا ہوگئےتھے۔ایملی نے  ان کےایک جہاز کو غرق ہونے سے بچایاتھاوہ اسے کسی حالت میں  بھی اسے افسردہ نہیں دیکھناچاہتاتھا۔وہ اس کی قسمت سنوارناچاہتاتھااس نے اسکا ماتھاچومااور اس کے بعدوہ اسے اپنے والدین کے گھرلایاتھا۔  ایک دن ایملی کی آنکھوں میں اس کے لئے پیار کی جھلک  دیکھی اور اس کے بعد اس کی طرف مائل ہوگیا۔اسے عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی لیکن ایملی  نے اس میں جان ڈال دی تھی اور رومان بھرے جذبات جگادیئے تھے۔شام ہونے سے پہلے اس کے ذہن میں اس کی پہلی محبوبہ گورو  کی تصویربھی اس کی آنکھوں میں آئی۔اس کے بارے میں اس نے سالوں پہلے سوچنا چھوڑدیادیاجاتاتھا۔اسے یادآیاکہ وہ دونوں دوست تھے اور بڑی ہنسی خوشی رہ رہے تھے، جو اپنی خواہش میں بہت  رومان پروراورجذباتی تھی۔موسم بہار کی راتوں میں تووہ بہت  مستی میں آجاتی تھی اور آج کی رات ویسی ہی ایک رات تھی۔اگر وہ آج ہوتی تو اس کی جوانی اس سےسنبھالی نہ جاتی۔اسے پتہ تھا کہ ایسی ہی ایک رات کو سمندر نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔اس نے محبت،قوت ،معانی اور فراموشی کی تمام خاصیتیں وہاں سے حاصل کری تھیں۔

بارہ سال خزاں کے بعد ایملی اس کی زندگی میں بہار لائی تھی۔ ارنڈٹ نے ایملی کو شادی کو باقاعدہ درخواست کردی تھی جو اس نے بخوشی قبول کر لی کیونکہ وہ بھی اس سے محبت کرتی تھی۔چند دنوں بعدوہ دونوں ایک صوفےپر بیٹھے تھےکہ ایملی نے خمارآلود لہجے میں اس سے پوچھا کہ کیاوہ اس شادی سے خوش ہے و اس نے مثبت میں جواب دیالیکن ارنڈٹ کو محسوس کیا  کہ ایملی خوش نہیں تو اس نے ایملی سے یہ بات پوچھی تو اس نے بھی کہا کہ وہ خوش ہے۔

ارنڈٹ کو ناروے کے چوتھے بڑے شہر جانا تھا جہاں اس کا ایک بحری جہاز جو دیوالیہ ہوگیاتھاکا معاملہ طے کرنا تھا۔ایملی نے اسے نہ روکا کیونکہ وہ بھی کچھ دم آرام کرنا چاہتی تھی اور جب سے طوفان کاسانحہ ہواتھا ۔ فرڈنینڈ کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔وہ اسے الوداع کہنے گھر سیڑھیوں پرکھڑی تھی۔اس نے اس وقت مشرقی انڈین شال پہنی ہوئی تھی جو اس کی ماں نے دی تھی۔اس نے اس کی دوپہیوں والی گھوڑاگاڑی کو دیکھا۔اس کے ذہن میں ایک انجانا خوف پیدا ہوا کہ شائد وہ واپس نہ آئے  لیکن اس نے صدق دل سے دعا کی کہ خدااسے ہر بلا سے محفوظ رکھے'

ارڈنٹ کے جانے کے اگلے روز دوخواتین  مادام  فرہ سے ملنے سکوائر ہاؤس آئیں،وہ افی پی رہی تھیں۔ایملی چھجے دار ہیٹ اور خوبصورت لباس پہنے وہاں آئی۔اس کا چہرہ تمتما رہاتھا۔اس کا رخ سکوائر ہاؤس سے باہر جانے کاتھا۔اس کی ساسُُ فرو 'نے پوچھا 'بیٹی تم کہاں جارہی ہو؟'

'میں فرڈیننڈ سے ملنے جارہی ہوں'۔ایملی نے کہا۔۔۔ُفرو اپنی جگہ سے اٹھی اور ایملی کا ہاتھ پکڑکربولی'پیاری بچی۔تم اسے نہیں مل سکتی'۔۔۔'کیوں؟'مالی نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔'کیونکہ کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔'فرو نے جواب دیا۔'فرڈیننڈ' ! یملی ہذیانی انداز میں چیخی۔۔۔ہاں۔بیچارہ۔ہمارااچھا فرڈیننڈ  ۔۔۔ہمارا ا پیارا فرڈننیڈ۔۔۔خدا کی یہی مرضی تھی۔ُفرو نے افسردہ ہو کر کہا۔وہ آج فوت ہوگیاہے۔۔۔'فرڈیننڈ ' اایملی نے دکھ بھرے لہجے میں کہااوررونے لگی۔

وہ خواتین بھی فرڈیننؑڈ کی فوتگی کی تفصیل بیان کرنے لگیں۔اس برفباد رات  جب وہ  ایملی کے احکامات کی تعمیل میں جہاز کے بھاپ کے انجنوں  کی نگہداشت اور عرشے پو موجود خوفزدہ مسافروں کی ایملی کے ساتھ مل کو مناسب اقدامات کر رہا تھاتو کہیں سے دھات کا بڑا سا ٹکڑا اس پر آگرا جس نے اسےاندرونی طور پر گہرا نقصان پہنچایا۔وہ بظاہر ٹھیک تھا لیکن دراصل اندرونی زخم گہرا تھا جو اس کی موت کا باعث بنا۔اور اس کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا۔ ہم اس کی موت کی اطلاع دینے کے لئے یہاں آئی تھیں۔وہ طوفان بالآخر ایک بہادر کی جان لے اڑا۔

افسوس صد افسوس!وہ طوفان!نے اونچی آواز میں کہا۔تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ طوفانبادہ وباراں سےہی وہ فوت ہوا؟ مجھےحقیقت جاننے کے اس کے گھر جانا پڑے گا۔ہوسکتا ہے کہ تمہاری  اطلاع غلط ہو۔اس کی وجہ کچھ اور ہو۔

بدقسمتی سے اس خبر میں کوئی غلطی نہیں۔وہ بیچار   ہ                 اس بدبخت طوفان  کی بھینٹ چڑھا ہے۔اس کا گھرانہ نہائت غریب ہے۔اب اس کی بوڑھی ماں کاگزارا کیسے ہوگا۔میمزل راس۔حیف!اس کے خاندان کی زندگی بہت کٹھن ہو جائے گی۔بھوک سے مرجائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں۔ایک خاتون نے کہا۔

ایملی سوچ میں پڑگئی۔ہاں!  یقیناً ایسا ہی ہو جائے گا۔۔۔وہ میرے ساتھ تمام وقت میرے ساتھعرشے پر کھڑارہا۔تم جانتی ہو:ہم دونوں تمام رات اکٹھے ہی کھڑے رہے۔صبح کے وقت ،ملاح کے کیبن میں اس نے میرے برف اور پانی سے بھرے کپڑے دیکھ کر اپنے خشک کپڑے دیئے تاکہ میں انہیں پہن لوں۔تم سب نے یہ دیکھاتھا۔اپنا چہرہ خواتین کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے ساتھ ہی میری کشتی کے ساتھ آیاتھا۔۔۔نہیں! وہ نہیں مرا! اس کے بعد وہ خاموش ہوگئی۔۔۔مجھے اسے دیکھنے کے لئے ایک بار جانا چاہیئے۔وہ چیخی۔'اے خدا! مجھے پہلے اس کے پاس جانا چاہیئے تھا'۔

خواتین اس کی ہذیانی کیفیت سے پر یشان ہوگئیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ اس کو کیسے سنبھالیں۔اسلئے وہ خاموش رہیں۔

ایملی  فرڈیننڈ کے گھراس وقت پہنچی جب اس کی نعش کفن میں لپیٹی جارہی تھی۔اس کی والدہ،چھوٹے بھائی ، بہنیں اور چند رشتہ دار اس کی مددکررہے تھے۔وہ سب سیاہ لباس میں ملبوس نیم تاریک لباس میں  تھے۔انہوں نے ایملی کے لئے رستہ بنایا۔مرنے والی کی ماں نے اسےہیلوکہا۔اس کا ہاتھ پکڑااوراسے آگے لے گئی تاکہ وہ فرڈیننڈکاآخری دیدار کرلے۔

ایملی کاوہاں جانے کی خبرپورے شہر میں آناًفاناًپھیل گئی۔وہ   پتھر بنی کھڑی تھی۔فرڈننیڈ کا چہپرہ پرسکون تھا۔ اس کے چہرے پر نور تھا۔ایسے لگ رہاتھا کہ وہ میٹھی نیندسورہاہو۔اس پر غم اور صدمے  کی کیفیت   دوبارہطاری ہوگئی۔وہ اس کے سرہانے کھڑی تھی۔اس نے پہلے کبھی نعش نہیں دیکھی تھی اورنہ ہی اس نے فرڈیننڈکواتنا خاموش کبھی نہیں دیکھاتھا۔جب وہ ہاں پہنچی تھی تو  فرڈیننڈ کے عزیز واقارب واپس جانے کے لئے تیارتھے۔ایملی نےآبدیدہ آنکھوں سے سب سے باری باری ہاتھ ملائے۔فرڈیننڈ کی ماں  مہمانوں کو الوداع کرنے کے لئے اپنی جھونپڑی سے باہر چلی گئی۔

وہ کفن کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔۔'فرڈیننڈ!۔اس نے آہستہ سے کہا۔۔۔'فرڈیننڈ۔۔۔پیارے فرڈیننڈ!' جب اس نے جواب نہ دیاتو اس نے اپنابازوآگے کیااور اس کا چہرہ چھولیا۔موت کی برفانی ٹھنڈک کی لہر اس کی انگلیوں کے ذریعے اس کے جسم میں دوڑگئی ۔ اس نے  دل کی گہرائیوں  سے دکھ محسوس کیا۔اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیالیکن تھوڑی دیربعدپھر اپناہاتھ اسکی گال پررکھ دیااور اوپرہی رہنے دیایہاں تک کہ وہ بھی سرد ہوگیا۔اس نے اس کی گالوں  پر ہلکے سے تھپتھپانا شروع کردیا۔اس نے اس کی گالوںکی ہڈیوں اور حلقہ چشم کواپنی انگلی کی پوریوں سے محسوس کیا۔اسکا چہرہ بھی مردے کی طرح ہوگیااوردونوں بہن بھائی لگنے لگے۔

فرڈیننڈ کی والدہ واپس آئی  اور ایملی کو کرسی پربٹھادیا۔وہ فرڈیننڈکے بارے بتانے لگی کہ اسکا بیٹااس کے لئے ہمیشہ ہی کتنااچھارہا۔اس کی مختصرزندگی کا جائزہ لیا۔اس کی خوبیاں  اور بچپن کے قصے سنانے لگی۔اس وقت اسکی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔جب اس نے  یہ کہاکہ  وہ اپنی پوری اجرت اس کے ہاتھ میں لاکررکھ دیتاتھاتووہ چلاناشروع ہوگئی۔اپنی دکھ بھری اور آنے والی  تکلیف یاد کرکے ٹھنڈی آہ بھری۔

فرڈیننڈ۔اس نے دکھ اورتکلیف سے کہا۔فرڈیننڈیہ دیکھ کربہت غمزدہ ہوگا۔ ایمی نے اس کی باتیں بڑے برے دل کےساتھ سنیں اور اسے ان کی غربت کا احساس ہوا کہ اب خاندان کی روٹی کے لالے پڑگئےتھے۔اس نے  تنگ کمرے کو دیکھاجو اس کی والدہ کے گھرسے ملتاجلتاتھا۔اسی طرح کے گھر میں وہ پلی بڑھی تھی۔اسے ظالم دنیا کابراسلوک یاد آگیا۔اس کا سرچکرانے لگااوردل ڈوبنے لگااور وہ تمام اشیا جو اس کے سامنے تھیں دھندلا گئیں۔فرڈیننڈ کی ماں نے اس کی بگڑتی حالت دیکھی لیکن خاموش بیٹھی رہی اور پھر اس نے موضوع تبدیل کردیا۔وہ فرڈینڈ اور اسکی محبوبہ کے بارے میں گفتگو کرنے لگی۔وہ اپنے بیٹے  سے اس طوفانی رات کی پوری تفصیل کئی بار سن چکی تھی اور ایملی کے وہ تمام اقدامات جواس نے عرشے  سے بحری جہاز کے انجن  کی قیادت تک  کئے تھے،وہ اس نے باربار بتائے تھے۔بیماری میں اپنے سرہانے پر رکھے کرسچینزسینڈ کا اس روز کااخبار مزے سے پڑھ پڑھ کرسناتاتھا۔اس کا ایک ایک لفظ اسے یادہوگیاتھا۔یہ کہتے ہوئے اسکے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ پھیل گئی جب اس نے بذات خود اس نے یہ بتانا شروع کیاکہ اس نے کس طرح،اس کو خوش کرنے کے لئے اس نے بذات خود اس لڑکی کی چیخیں جو اس نے ادا کیں ا  ور طوفان کی گرج  کے درمیان بیان کیں۔

جب ایملی کرسی سے اٹھی تو وہ  ایک لاش لگ رہی تھی۔اس نے سادہ بنچ اور کھڑکی میں پڑے گلدان اور بوڑھی خاتون  کے پھٹے ہوئے  میلے کچیلے کپڑے دیکھے۔اس کے بعد اس نے اپناچہرہ کفن کی طرف کیا۔اب وہ اس کے نزدیک  نہ گئی۔ایک لمحے کے لئے ایسے لگاجیسے وہ چیخناچاہ رہی ہو۔اس کی ماں سے ہاتھ ملایا اور واپس اپنے گھر آگئی۔اس نے اپنی ساس فُرو کو ڈھونڈااورکہا'فرڈیننڈ جہان فانی سے کوچ کر گیا ہے۔اس کا خاندان اتنا غریب ہے کہ معلوم نہیں کہ اب اس کی روٹی روزی کاکیاہوگا۔' وہ یہ سن کر افسردہ ہوگئی

۔اس نے کہا '        پیاری ایملی۔ہم فرڈیننڈ کے ایثار کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ہم اس کے خاندان کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔امیر ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ وسائل وہاں خرچ کئے جائیں جہاں اس کی ضرورت ہو۔فکر نہ کرو انہیں کسی قسم کی مالی مشکلات نہیں ہوں گی۔'

اگلے روز صبح جب ایملی اپنے کمرے سے نیچے آئی تو اسکی آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے/ کی حالت بہت خراب تھی۔ اہل خانہ اس کی یہ حالت دیکھ پر پریشان ہوگئے۔وہ پہلے والی لڑکی نہیں لگ رہی تھی۔اس کے اعضا میں جان ہی نہیں تھی۔اس کی یہ حالت ویسی تھی جب وہ طوفان کو شکست دینے کے بعدبری حالت میں لائی گئی تھی۔اب وہ اسی طرح گونگی بن گئی تھی جیسے ووورینس سے ملنے وہ اور اردنٹ  ہوٹل میں اس کی تیمارداری کے لئے گئے تھے۔وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی ۔فُرو نے فوراًڈاکٹر کو بلوا ناچاہاتوایملی نے منع کردیا۔تمام گھر پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ایملی تمام دن افسردہ  ایک جگہ سے دوسری جگہ پھرتی رہی۔اگر ارڈنٹ گھر پر ہوتا تو وہ اس کو سنبھال لیتا لیکن وہ تو تجارت کے لئے گیاہواتھا۔ایملی اپنے میاں کے آنے کاانتظار کر رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیا کرے۔

ارڈنٹ اپنی والدہ کے قریب تھا۔ایملی اس کو بہت پیاری تھی۔وہ ایک قیمتی اثاثہ تھی۔اس نے اس کی دلجوئی کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن ایملی کی طبیعت نہ سنبھلی۔اس کے چہرے پر موت کے سائے نظر آرہے تھے۔اس کی زندگی نے اچانک رخ پلٹا تھا۔غربت سے انتہائی امارت کی زندگی گزار رہی تھی کہ فرڈیننڈ کی موت نے اس کی زندگی میں بھونچال پیدا کردیا۔وہ گھرتک محدود ہو گئی ۔تمام تقریبات سے کنارہ کشی کر لی۔اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ کسی کو بھی نظر نہ آئے۔فُرو اس بات سے بے خبر تھی جوایملی کوکون سا غم کھائے جارہاتھا۔اسے اس کے دکھ دردکی گہرائی کاکوئی اندازہ نہیں تھا۔وہ  اس بات پر کسی حد تک مطمئن تھی  کہ اب وہ اس کے بیٹے اور اپنے خاوند ارڈنٹ کانام خاموشی سے سن لیتی تھی اور وہ  اس کے دل کوچھولیتاتھا۔ایک دفعہ فُروکویہ  خدشہ لگاکہ کہیں وہ ذہنی مریضہ تو نہیں  ہوگئی یا اس پر آسیب کا سایہ تو نہیں آگیا یا  طوفانی رات اس نے کوئی فرڈیننڈ سے کوئی وعدے وعید تو نہیں کرلئے تھے  جسے وہ ایفا نہ کرسکی ہواوراحساس گناہ یا جرم کی وجہ سےخود کوملامت کررہی ہویا یہ سوچ رہی ہو کہ مردہ قبر سے باہر آکر اس سے حساب لے گالیکن سوائے  چپ سادھنے کے اور کوئی علامت ظاہر نہ ہوئی۔ڈاکٹر نے اس کی وجہ شدید ذہنی صدمہ قراردیا۔اسے ایملی کی ناگفتہ بہ حالت دیکھی نہ گئی تو اس نے  خیال کیا کہ ہوسکتا ہے کہ فرڈیننڈ کی موت سے اس  سے ملتا جلتا ماضی میں کوئی واقعہ ہواہو۔اس لئے اس نے اس کے بچپن  سے متعلق   اور دلدمیر ہیئر سووورنس  کے بارے میں کرید کرید کر باتیں کیں لیکن وہی ڈھاک کے تین پات!اس نے لاگ لپٹی رکھے بغیر سب باتوں کے نارمل انداز میں جوابات دیئے۔ اس نے روحانی عاملوں کی مدد بھی حاصل کی لیکن اس سے بھی اسے افاقہ نہ ہوا۔اس کے تمام طریقوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ماضی میں  بےراہروی اور غیر اخلاقی   واقعات  وابستہ نہیں تھے۔وہ نیک،سادہ لوح اور پاکدامن لڑکی تھی اور اسکی پہلی اورآخری محبت اس کا بیٹا ارڈنٹ ہی تھا۔اب اس کو ایملی پر غصہ آنے لگا تھا کہ وہ  ذہنی اذیت برداشت کررہی تھی ۔اس پر اعتبار نہیں کررہی تھی اور اپنے غم میں کسی کو بھی کھل کر نہیں بتا رہی تھی۔

فُرو کی شادی کو چالیس سال بیت چکے تھے۔انہوں نے اپنے گھر میں عبادت خانہ بنایاہواتھاجہاںمیاں بیوی شام کو وہاں عبادت کیا کرتے تھے۔اس سانحے کے بعد اب ُفرونے ہراتوار کرجاگھر جاناشروع کردیاتھااور یہ دعا مانگی کہ ایملی کے اصل مسئلے کو صاف اور واضح کردے۔جب وہ وہاں سے واپس آئی تو اسے امید تھی  کہ خدا اس کی دعا ضرور قبول کرے گا۔وہ ایملی کی اس بات پر مشکور تھی کہ اس نے بحری جہاز بچالیاتھا۔وہ کلیسا میں صدقے کے طورپر خیرات دینا ا اورعمدہ کڑھائی والالینن کا غلاف چڑھانا چاہتی تھیں۔اس نے یہ جانلیا تھاکہ اس کی والدہ نے اسے کڑھائی سکھا دی تھی اور وہ خوشی سے یہ کام کرتی تھی اسلئے اس نے یہ کام ایملی کے ذمے لگا دیااوروہ بغیر کسی حیل وحجت یہ کام کرنے لگی۔ایک شام ساس اور بہو ڈرائنگ روم میں لینن پھیلائے کڑھائی کر رہی تھیں کہ اس کا میاں  جوچم ہوزوینکل آگیا۔پچھلے چند سالوں سےاسے اپنی کوہتاہیاں ،گناہ اور زیادتیاں یاد آنے لگی تھیں۔اس کے ذہن پر ضمیر کا بوجھ بڑھتا جا رہاتھا۔اس پر احساس گناہ شدت سے پیدا ہونا شروع ہوگیاتھا۔اسے اپنے بڑھاپے کا احساس ہونے لگ گیا تھا۔اس کے آباؤاجداد کی عمریں لمبی تھیں۔انہوں نے نام کمایاتھا۔وہ  دیندار لوگ تھے۔وہ ہر کام ضوابط کے تحت کرتے تھے اسلئے ان کا بڑھاپا بھی خؤبصورت گزرا تھا۔ جوچم ہوزوینکل  وسوسوں  میں گھرا رہتا تھا تو اس نے یہ تصور کرلیا کہ اس کا بڑھاپااس کی نانی پر گیا تھا۔اس کی یادداشت بھی خراب ہو رہی تھی۔جسمانی اعضا بھی کمزور ہو گئےتھے۔اب وہ ماضی اورحال میں تمیز نہیں کرسکتاتھا۔اب اسے تجارتی معاملات کی بجائے بچپن کے کھیل اور مذاق  لگتے تھے۔

ایملی گھر میں آئی تھی۔ایک نوجوان خوبصورت لڑکی جو دنیا کی حریص نہیں تھی۔اس کی کوئی خواہشات یا مطالبات نہیں تھے۔وہ جس حال میں بھی رہتی مطمئن رہتی تھی۔

ایملی اب بیمار پڑگئی تھی ۔دسروں کے ساتھ نہیں بیٹھتی تھی۔نرسری کے گیت اور بچپن کی یادیں اسے اچھالگنے لگ گئی تھیں۔اس کا ضعیف سسر اس کا بڑا خیال رکھتا تھا۔وہ شام  کو اپنے مرحوم دادا کی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کراسے الف لیلوی کہانیاں سناتا۔جہازرانوں کے واقعات اور ان سے متعلق قصے کہانیاں سناتا جواسے اچھی لگتیں۔وہگاہے بگاہے اس کے لئے تحائف لاتا رہتا۔ایک بار و ہایک پرندہ اس کے لایاتووہ بہت خوش ہوئی اور اس بپرندے کوباربارچوما۔آج وہ  ایملی کو اہم تازہ کہانی سنانا چاہتاتھا۔وہ ڈرائنگ روم میں آیا ۔اپنی بیوی اور ایملی کو ساتھ بٹھایا اور کہانی شروع کی۔

ایک رات اسی گھر میں جس میں تم اب بیٹھی ہومجھے ایک خطرناک صورت حال کاسامناکرناپڑا جوچم ہوزوینکل نے ایملی سے کہا۔یہ کہانی میرے داداسے متعلق ہے ۔میرے دادا کانام 'جینز  گوٹورمس آئیل' تھا۔جس کرسی پر میں اب بیٹھا ہوں یہ اسی کی کرسی ہے۔شام کا وقت تھا۔مشعل کی روشنی اسکے جھریوں والے ہاتھ پر پڑرہی تھی۔چہرہ تاریکی میں تھا۔وہ تجارت کے سلسلے میں ایک ایسے مقام سے لوٹاتھاجس کی زیادہ تر آبادی مذہبی تھی۔میرا دادا بھی مسیحی مذہب  کانہ صرف ماننے والاتھابلکہ ہرکام میں مذہبی رہنمائی حاصل کرتا تھا۔اس نے بتایا کہ آج وہ ایک راز اس مقدس کتاب  کے بارے میں بیان کرنے جارہاہوں جو میرےدفترکے ایک میز پر رکی ہے۔ جب  بھی اور جہاں بھی دادا کوالجھنیں پیش آتیں تو وہ ا اس سےہنمائی حاصل کیا کرتا تھا۔ وہ میری رہبر ہے۔۔ میں  گمبھیر صورت حال میں اس کی مدد حاصل کرتا ہوں۔بات میرے دادا مرحوم کی ہو رہی تھی۔وہ کھاتاپیتاآدمی تھا۔وہ سخی دل تھا اور تمام شہراس کی عزت کرتاتھا۔یہ فروری1717کی بات ہے کہ ہمارے کرسچینز سینڈ  قصبے میں کسی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی جو لمحہ بہ لمحہ تیز ہوکر سب کچھ جلاکر خاکستر کررہی تھی۔بڑی تباہی مچی۔چھ گھنٹوں میں تیس گھر جل کرراکھ کا ڈھیربن گئے۔آگ کے بلندوبالاشعلے میلوں دورکے ساحلوں  سے دیکھے جاسکتے تھے۔اس وقت شمال مغرب سے ہوااٹھی جوآندھی کی شکل  اختیار کرگئی  جس سے آگ پھیلتے پھیلتے اس گھر تک پہنچبنے لگی۔بزرگ لوگ یہ بیان کرتے تھے کہ شدید ترین سردمیوں میں  میں اس علاقے میں  اتنی زیادہ گرمی تھی کہ جلتی ہوئی بھٹی لگ رہی تھی۔دادا کی ساری   جمع پونجی   خاک ہونے جارہی تھی۔اس دوران گھبراہٹ سے اس کے ملازمین دستاویزات   اور اس کی دولت بچانے میں مصروف ہو گئے۔ کرنسی محفوظ  کرنے میں لگ گئے۔ لوگ اس نیک آدمی کی جان ومال کی حفاظت  پرفکرمندتھے۔

میری بچی ایملی۔ اس بحران میں میراداداخاموش  نہ بیٹھا۔اس نے نجیل مقدس سے مشورہ کیا جس کا طریقہ میں بعد میں بتاؤں گا اور اس کی ہدائت کے مطابق  دائیں ہاتھ میں ترازو لئے گھر سے باہر نکلااور پیمائش کا گز دوسرے ہاتھ میں لئے گھر سے نکلا۔وہ ایک گلی میں آکر رک گیااور اونچی آواز میں بولا'میں ترازواورپیمانے کے ساتھ اس گلی میں کھڑا ہوں۔اگر میں نے اپنی زندگی میں کبھی اس کا غلط  استعمال کیاہوتوہوااور آگ میرے گھرکوجلادے!لیکن  اگر میں نے ان کااستعمال انصاف کے ساتھ  کیاہے تو  خدامیرے گھرکوجلانے سے بخش دے تاکہ آنے والےدنوں میں کرسچینز سینڈجزیرے کی خواتین وحضرات  کی خدمت کرسکوں جس طرح کی میں پہلے بھی کرتارہاہوں۔اتناکہنے کے بعد جوچم ہوزوینکل چپ ہوگیا۔ ایک گہرا سانس لیا پھر بولنا شروع ہوگیا۔

وہ لوگ جو اس وقت گلی میں موجود تھے نے دیکھاکہ ہوااور آندھی  کارخ تبدیل ہوکر مخالف سمت  ہوگیا ۔  آگ خود بخود بجھنے لگی اور اگلے لمحے سب کچھ معمول کے مطابق ہوگیا۔شعلے اور دھواں ختم ہوگیا۔اس کاگھر،دستاویزات اور دولت بچ گئی تھی۔وہ خطرے سے باہرآگیا۔گھر کے گھڑیال نے آٹھ بجائے۔ایملی اس وقت خاموشی سے اس کو سن رہی تھی۔ جوچم ہوزوینکل نے  کہانی جاری رکھی اور کہا'تم نے میرے دفتر میں  اانجیل مقدس کی موٹا نسخہ دیکھا ہوگا۔یہ مقدس کتاب میرے والد کی والدہ کے خاندان سے مجھ تک پہنچی ہے۔یہ معجزاتی کتاب ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اگراس گھر کا کوئی بھی شخص  کسی بحران میں ہو یا شدید تذبذب میں مبتلا ہو اور کسی حتمی فیصلے تک نہ پہنچنا پارہاہوتویہ مقدس کتاب اسے صحیح فیصلہ کرنے کی رہنمائی کرتی ہے۔اگر وہ شخص جو کسی مخمصے کا شکار ہواور کسی نتیجے پر نہ پہنچ پارہاہوتو وہ اپنے ذہن میں اپنے مسئلے کو رکھ کر آنکھیں بند کرکے اسے کھولے اور جو صفحات اس کے سامنے آئیں کو غور سے پڑھے تو اس عبارت میں اسے حل مل جائے گا۔

جوچم ہوزوینکل سچ کہہ رہا ہے۔ُفُرو نے اپنے خاوند کی تائید کی۔اس نے ایک مشکل میں خود بھی اس مقدس کتاب سے ہدائت لی تھی۔میری دعا کاجواب اس مقدس کتاب نے فراہم کردیا۔ایملی تم ایک موم بتی میرے پاس لاؤ۔دفتر سے وہ مقدس انجیل اٹھا کر لاؤ۔وہ بہت بھاری ہےاسے دونوں ہاتھوں سے اٹھانا۔موم بتی کو اسوقت تک سٹینڈپررہنے دینا جب تک اس کو صحیح طرح سے اس کے ٹھکانے پر رکھ نہ دو۔ایملی نے ایساہی کیااور امقدس کتاب اپنے سسر کےسامنے رکھ دی۔اس نے اپنی عینک لگائی۔ایک لمحے کے لئے رکا اور پھر واقعہ بیان کرناشروع کیا۔

آج سے تیس سال پہلے  میری خالہ کاایک بیٹامیرے پاس ایک تجارتی منصوبہ لے کرآیا۔ اس کی خواہش تھی کہ میں اس کےساتھ بحری جہاز میں آدھے کاشراکت دار بنوں۔اس نے مجھے جذباتی طورپر بلیک میل کرناشروع کردیا۔میں اپنی خالہ کو بہت چاہتاتھا۔اس نے اس کا واسطہ دینا شروع کردیاتو میں اس سے کچھ وقت مانگاا۔مجھے یکدم خیال آیاکہ مقدس کتاب سے رہنمائی لی جائے۔میں نے آینکھیں بند کرکےدعامانگی کہ مجھے صحیح  راہ دکھائے اور کتاب کھول دی۔اس وقت جو صفحات کھے وہ انتیسواںباب تھا ۔ اس  کو پڑھا تو اس میں کچھ یوں لکھاتھا۔

'کئی لوگوں نے دوسروں کو ادھار ایسے دیاجیسے کہ آندھی آتی ہےاور ان لوگوں  کی  دل آزاری اور حق تلفی کی جس نے اس کی مدد کی۔۔۔اور جب ادائگی کاوقت آتاہےتوحیلے بہانے کرکے اسے ٹالتارہتا ہے اور بازارکی مندی کاروناروتاہے۔ہروقت شکائت کے انبارلگاتارہتاہے۔۔۔ایک شخص جس کی جائیداد بری حالت میں ہوتواس کو خیرات  نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اپنی رقم گنوادوگے۔یہ واضح  رہنمائی تھی۔میں نےاس منصوبے پر دوبارہ غور کیا تو مجھے احساس ہواکہ میں غلط فیصلہ کرنے جارہاتھاکیونکہ میرے کزن   کا بیوپاری لین دین اچھا نہیں تھا۔ میں نے اس سودے سے ہاتھ کھینچ لیا۔میری بچی! میں اب اپنی کہانی ختم کرتا ہوں۔میرے کزن نے وہ جہاز خریداجس نے پہلے پھیرے میں نفع کمایا اور دوسرے پھیرے میں دیوالیہ ہوگیا۔اس طرح  میں نقصان سے بچ گیا۔

یہ سب کے لئے مشعل راہ ہے۔جاؤ! اس کو واپس میرے دفتر میں رکھ آؤ۔وہ مقدس انجیل اٹھا کر چلی گئی۔ میاں بیوی نےساتھ والے کمرے میں کسی شئے کے فرش پر گرنے کی آواز سنی۔وہ  ادھر گئے توایملی ایسے پڑی تھی جیسے کہ وہ مرگئی ہواور مقدس کتاب اس کے سینے پر کھلی ہوئی تھی۔انہوں نے اسے اٹھا کر بسترپرڈال دیا۔کچھ دیر بعد اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔اپنابازو اٹھایااور اپنے سسر کے چہرے پر تھپکی دی اور سرگوشی کی کہ اس کا سر چکرارہا ہے۔اسے نوکرانیوں کی مدد سے بالائی منزل پر اس کے بستر پر لٹادیاگیا۔جب وہ اسے لٹا کر واپس آئی تو اس کا خاوند اسی جگہ کھڑاتھاجہاں وہ اسے  چھوڑ گئی تھی ۔اس کے ہاتھ میں کھلی کتاب  تھی اور وہ سکتے میں تھا۔

اگلی صبح ایملی اسوقت  اٹھی جب پورا گھرجاگ رہاتھا۔اس نے لباس پہنااور عقبی سیڑھیوں سے اتری اور  گلی سے ہوتے ہوئے ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئی جہاں اس کا استاددلدمیر ہیئرسووورینس سے قیام پذیر تھا۔رات بھروہ صبح ہونے کا بے چینی سے  انتظار کرتی رہی۔وہ اب دنیاکو ایک الگ انداز سے دیکھ رہی تھی۔اب اسے ہواؤں سے بھینی بھینی خوشبوآنی شروع ہو گئی تھی۔اس کے ذہن میں ارڈنٹ  اور اس کاگرمیوں کا تفریحی پروگرام  یاد آیا جو وہ اپنے بحری جہاز میں شمال میں مناناتھاجہاں سورج کبھی غرور نہیں ہوتا۔وہ ہوٹل پہنچی اور دلدمیر ہیئر  سووورنس کے کمرے کی طرف جانے والی سیڑھیاں پکڑیں اور دستک دئے بغیر اس کے کمرے میں داخل ہوگئی جسکی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ ایملی اس کے پاس آنے والی تھی۔جب ایملی نے آہستہ سے دروازہ کھولاتواس وقت وہ واش روم میں تھا ۔اس نے  دروازہ کھلنے کی آواز سنتے ہی کہا کہ کرسی پر بیٹھ  کر انتظار کرے۔ایملی نے اپنا ہیٹ  اور کوٹ اس انداز میں اتار کر کھونٹی پر لٹکایا جیسے وہ وہاں مستقل رہنے کے لئے آئی ہواور کرسی پر بیٹھ گئی۔استاد نے واش روم میں اپنی شیو بناتے ہوئے اسے تین بار جھانک کردیکھالیکن کچھ نہیں بولااور بالوں کی وگ لگا کر باہر آگیا۔ایملی اٹھی اور اس سے چمٹ گئی۔وہ شدت جذبات سے بید کی طرح کانپ رہی تھی۔اس کے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔دلدمیر ہیئر  سووورنس خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔اس نے اسے گلے نہ لگایا لیکن ایملی اس سے چپکی رہی۔کچھ دیر بعد وہ ایک قدم پیچھے ہٹی اور سووورنس کا چہرہ دیکھااور پھر سے چمٹ گئی۔ایسا لگتا تھاکہ اسے اسکی پناہ گاہ مل گئی ہو۔

'فرڈیننڈ مر گیا ہے'۔اس نے  روتے ہوئے کہا۔'کیا تم  یہ بات جانتے ہو۔کیا تم تک یہ خبر پہنچ چکی ہےکیا تمہیں اس خبر پر یقین ہے؟'ایملی نے پوچھا۔۔۔ہاں۔مجھے پتہ چل گیا ہے۔استاد نے ضواب دیا۔۔۔ایملی نے خود کو سنبھالا اور اپنی آواز پر کنٹرول کیا،اس سے ہٹ گئی اور اونچی آواز میں بولی۔۔۔ارڈنٹ مجھے پیاکرتاہے۔'۔۔۔دلدمیر ہیئر  سووورنس نے ایملی کی طرف دیکھااور اسکے چہرے کے تاثرات  بدل گئے۔اس نے سوال کیا 'کیام بھی اس سے پیارکرتی ہو؟َ'کیونکہ یہ سوال اس سوال کے مطابق تھاجوایک محبوبہ سے پوچھنابنتاتھا۔ ایملی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے دوبارہ یہی سوال پوچھاتو ایملی نے  چلاتے ہوئے کہا۔۔۔سورج اورچاند،ستاروں والا میزبان،فرشتے،خداکی اپنی ہستی سب سن لیں کہ میں ار ڈنٹ  کی محبت میں ثابت قدم ہوں۔

اچھا!تو اب تم کیا چاہتی ہو۔ تمہارا اب کیا ارادہ ہے؟اب  کیا کرناچاہتی ہو؟دلدمیر ہیئر  سووورنس نے پوچھا۔

اب!اس نے نوحہ خوانی کے لہجے  میں ایسے کہا جیسے پرندے کسی ناگہانی آفت میں بے بسی سے مارے مارے اڑتے ہیں۔۔۔'اب۔۔۔مجھے لازماًارنڈٹ سے دور چلے جانا چاہیئے۔۔۔خدایا، مجھے ان سب سے دور ہوجاناچاہیئے۔اس سے پہلے کہ میں ان  عظیم لوگوں کو مزید دکھی کردوں۔ایملی نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا۔میں ان کواذیت میں نہیں ڈالوں گی۔میں کسی کو تکلیف نہیں دوں گی۔مہرے دل کا حال خدا جانتاہے۔میں جھوٹ نہیں بولتی۔۔۔نہ ہی میں جانتی ہوں کہ میں کیا کرنے جارہی ہوں۔ میرا فوری مقصد تو ان کو ناخوشی سے بچانا ہے۔اس حالت میں ان کو تکلیف کے سوا کچھ نہیں دے رہی۔اب مجھے یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیئے۔مجھے یہاں  سے چلے جانا چاہیئے۔میں مزید یہاں نہیں رک سکتی۔۔۔۔میں اس گھر میں دوبارہ کبھی نہیں جاناچاہتی۔ان کا دردسر نہیں بنوں گی۔ اس کے بعد وہ رکی ۔کچھ دیر بعد پھر اس کے دل میں ابال آیا۔میں سکوئر ہاؤس میں واپس نہیں جانا چاہتی۔ میں وہاں جرہنے کے قابل نہیں ہوں۔میں اس گھر کو چھوڑ ناچاہتی ہوں۔جتنا جلدی ہو سکے ، جتنا جلدی جان لوںمیں دوبارہ وہاں نہیں جاناچاہتی ۔ارڈنٹ اور اس کے والدین سچے لوگ ہیں ۔کبھی بے ایمانی نہیں کی۔۔مجھے کل رات ہی صحیح راستے کا علم ہوا ہے۔سچے لوگ ہی طوفانوں کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ جھکڑ سے دلیری سے ٹکر لے سکتے ہیں۔ان کارخ شمال مغرب سے شمال کی طرف موڑ سکتے ہیں۔لیکن  فرڈیننڈ! وہ مرگیا۔بیچارہ بے موت مارا گیا۔میرا ساتھ دیتے دیتے لوگوں کی جان ومال بچاتا ہوا بے بسی کی حالت میں مارا گیا۔میں نے مڑ کر بھی اس کی خبر نہ لی۔اسکا  نادار خاندان یہ صدمہ کیسے برداشت کر پائے گا۔وہ میری وجہ سے مرگیا۔وہ میرابھائی تھا۔اس نے میری اطاعت میں جان دی۔۔۔ وہ بولتے بولتے رک گئی پھر بولنا شروع کردیا۔

میری نانی میری والدہ سے  اس بات پر شدید ناراض تھی کہ اس نے میرے  والد جیسے بدطینت شخص سے شادی کیوں کی۔ ماں  نانی کے گھر قدم نہیں دھر سکتی تھی۔ماں نے ایک دن بتای کہ ا میرا کپتان باپ  سکاٹ لینڈسے نہیں آیاتھا۔وہ ایک مشہور شخص تھا۔اس کا بڑا نام تھا۔ کیا یہ بات سچ ہےدلدمیر ہیئر  سووورنس؟

وہ کچھ دیر سوچتارہا،پھر کہا کہ'میرا خیال ہے کہ نہیں'۔یہ سن کر ایملی کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ پھر بولی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا باپ دھوکہ باز تھا۔میں بھی ویسی ہی ہوں ۔وہ چیخی۔

تم نے کس کو دھوکہ دیا ایملی؟

میں نے اپنی ماں کو ویسے ہی دھوکا دیاجیسے میرے باپ نے میری ماںکو دیا!۔میں نے فرڈیننڈ کو دھوکہ دیا۔اب میں رڈنٹ اور اس کے والدین کو دھوکہ دے رہی ہوں،ایملی نے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔جب میں ان سے دور ہوں گی تو میں جرات کرکے ہی      اپنے  خاوند     ارڈنٹ کو  اپنے دل کی بات بتا سکتی ہوں۔اس کے منہ پر نہیں کہہ سکتی۔پھر اس نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور زور سے نیچے کرتے ہوئے کہاکہ 'مجھے ضرور اس سے دور چلے جانا چاہیئے۔اگر اس وقت یہ قدم نہ اٹھایا تو ان کی بدنصیبی بن جاؤں گی دلدمیر ہیئر  سووورنس'۔۔۔ایک طویل خاموشی  چھاگئی۔

 میں تمہاری تمام باتوں سے اتفاق کرتاہوں ننھی  سی ایملی۔میں خود بھی شادی شدہ ہوںاسلئے تمہاری باتیں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں۔دلدمیر ہیئر  سووورنس نے کہا۔۔۔شادی شدہ؟ ایملی نے حیرانی سے کہا۔۔۔ہاں۔ڈنمارک میں۔۔۔اب وہ کہاں ہے؟ایملی پوچھا۔۔۔اس نے اب دوسری شادی کر لی ہے۔ہمارا ایک چھوٹا سا پیارا سا گھر تھاجو پوری طرح سجاہواتھا۔ایک رات ہم اکٹھے بیٹھے تھےتو اس نے مجھ سے کہا۔ہر کام جو تم کرتے ہوولیمر۔وہ مجھےخوش کرنے کے لئے ہوتا ہے۔یہ تمہارا بڑاپن ہے اور بڑی عنائت ہے۔۔۔یہ سچ ہے کہ میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتاہوں۔ہمارا کوئی بچہ نہیں تھا۔

ایملی عقیدت سے اس کے گلے لگ گئی۔ولدمیر کا سٹیج پر بڑا نام تھا۔لوگ اس کی اطاعت کو فخر محسوس کرتے تھے ۔لیکن وہ کسی کو بھی اپنے گلے سے لگاناتوکجاکسی کونزدیک نہیں   آنے دیتا تھا۔لیکن جب ایملی اس سے بغل گیر ہوئی تو اس نے اسے خود سے الگ نہ کیا۔اسے اچھا لگ رہاتھا۔اس بات سے وہ دلی طور پر خوش تھا کہ وہ دوبارہ اس کی کمپنی میں واپس آنے کا سوچ رہی تھی۔اس سے پہلے وہ فیصلہ کر چکاتھا کہ وہ  اس شعبے سے کنارہ کشی کر لے گا۔اب وہ  نہ صرف ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے 'برفباد' کو بلکہ نئے نئے پراجیکٹ بنائے گا۔وہ اٹھا اور چلتے ہوئے  دوسری کھڑکی کے پاس گیا۔وہاں کی میز سے کچھ دستاویز نکالیں اور ان کی چھانٹی کرنے لگا۔ان کے نوٹس بنانے لگا۔اس نے کچھ دستاویزات دوبارہ دراز میں رکھ دیں۔اس میں کافی وقت صرف ہوگیا۔پھر بولا کہ ہم  راز داری سے یہ شہر چھوڑ جائیں گے اور نئی جگہ شو کریں گے۔

تم کب یہ شہر چھوڑنے کاارادہ رکھتے ہو؟ایملی نے پوچھا۔

بدھ کو کیونکہ اس روز ایک بحری جہاز عازم سفر ہورہاہےدلدمیر ہیئر  سووورنس نے کہا۔

یعنی ۔دودن بعد!ایملی کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہوچکاتھا۔وہ ایک ایسے ہی جہاز سے موت کے منہ سے نکل کرآئی تھی۔

ہاں دو دن بعد۔سووورنس نے کہا۔

ایملی نے سوچاکہ یہ تو ولیم شیکسپئیر کے ڈرامے'برفباد'کاا ڈائیلاگ تھا۔وہ اس وقت شدید کشمکش میں مبتلا تھی ۔اس نے فوری طور پر فیصلہ کرناتھا کہ کیاوہ اداکاری کو چنے یا عیش وعشرت والی زندگی۔۔۔پہلی صورت میں اس  کو تھیٹر  ووورینسمیں دوبارہ شامل ہونا تھا ا جو کٹھن منزل تھی۔ور  دوسری صورت میں اپنے شوہر ارڈنٹ کے پاس  رہنا تھا۔اس نے من  میں کوئی فیصلہ کیااور پورے عزم کے ساتھ جیسے کہ لہر سمندر کے کنارے کی طرف آتی ہےاور آہستہ آہستہ صاف اور ٹھہری آواز میں کہا۔۔۔'دیکھو!میں نےجانیں اور  جہاز بچاکر ان کی بہت خدمت کی ہے۔انکو کوئی جھوٹ نہیں بولا۔کوئی غلطی نہیں کی۔نہ تو کوئی شکائت کی ہے اور نہ ہی کبھی حسداور کپٹ رکھا۔

دلدمیر ہیئر  سووورنس خاموش بیٹھا رہا۔اس نے دیکھا کہ لڑکی کی آنکھوں میں بہت زیادہ چمک ہے۔وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔شائد وہ اس وقت دیکھنا پسند ہی نہ کررہی ہو۔لیکن اس کی آنکھوں میں بڑی چمک ہے۔وہ خاموش ہی رہا۔ایک وقفے کے بعد وہ دوبارہ بولی۔

تمام خیرمقدم اور استقبال درست ہےآقا!میں ان کے بہترین خزانے کے جواب میں آگ میں تیرنے،غوظہ کھانےآڑے ترچھے بادلوں سے ہوتی ہوئی اس خطرناک صورت حال کو قابو میں لاتی ہوں۔تم اچھی طرح جانتے ہو کہ 'ایرییل' میں ایسا کرنے کی جرات ہے'۔۔۔سووورنسن نے محسوس کیا کہ ایملی ڈرامے کے ڈائیلاگ بول رہی تھی۔۔۔اس نے بھی اس کے جواب میں ڈرامے وال ڈائلیاگ بولااور پورے ڈرامے کی ریہرسل کر ڈالی۔اس کے بعد اس نے کھونٹی سے ہیٹ اور کوٹ اتارا تو سووورنس نے دیکھا کہ یہ وہی لباس تھا جواسکی ماں نے دیاتھااور وہ کمپنی کے عملے کے ساتھ کرسچینز سینڈ پہن کر جہازپرسوارہوئی تھی۔

جب جمعے کی شام ارڈنٹ اپنا کاروباری دورہ ختم کرکے سکوئر ہاؤس واپس آیاتواسے ایک   لفافہ د یاگیا۔اس نے اسے کھولا تو اس میں ایک سونے کاسکہ اور ایک خط  تھا۔اس نے پڑھناشروع کیا۔

پیارے ارڈنٹ!

میں تمہیں یہ الفاظ آنسوؤں کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔جب یہ خط تمہارے ہاتھ  میں ہوگاتو میں بہت دورجاچکی ہوں گی  اور دوبارہ کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے۔میں تمہارے لائق نہیں ہوں۔میں اپنے اداکاری کے جنون میں تمہیں دھوکا دے کر جا رہی ہوں۔میں تم سے بے وفائی کررہی ہوں۔۔۔ہاں!میں نے تم کودھوکادیاہے۔اس وقت جب میں نے  تمہیں  دیکھا اور نہ تمہارے بار  سے سناتھاتم نے مجھےگود میں اٹھالیاتھا۔میں حلفیہ  کہتی ہوں  کہ اس بات سے قطعی بے خبر تھی کہ برفباد سے نمٹنے کے بعد معاملات س حد تک چلے جائیں             گے کہ میں تمہاری بیوی بن جاؤں گی۔تم پہلے بشخص تھے جس نے مجھے چھواتھااور مجھے بہت اچھا محسوس ہواتھا۔میں قسم اتھا کے کہتی ہوں کہ تم میرا پہلااورآخری پیارہو۔جب تک  میری سانس چلتی رہے گی تمہیں پیار کرتی رہوں گی۔

ارڈنٹ! میں جانتی ہوں کہ تم مجھے بہت چاہتے ہو۔اس خط میں میں تمہیں ایک راز بتاناچاہتی ہوں۔امید کرتی ہوں کہ تم مجھے معاف کردوگے۔میں توقع کرتی ہوں کہ تم اسے کسی کو نہیں بتاؤ گے۔ التجا کرتی ہوں کہ ہات ہمیشہ راز میں ہی رہنی چاہیئے۔یہ تم میں اور مجھ میں ہی رہنی چاہیئے۔اگرچہ میں تمہیں بے حد چاہتی ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے کہ تم میرے خاوند ہو لیکن میں تم سے جو بےوفائی کر رہی  تھی وہ قابل مذمت ہےالانکہ  اس سے میرے کردار، عزت ،شہرت ، پیارمحبت اور بودوباش میں  گراوٹ آئے گی لیکن  روح اور ضمیر کے ہاتھوں میں سرخرو ہوجاؤں گی۔

سکوائر ہاؤس میں تمام وقت  گومگو کی حالت میں رہ رہی تھی۔ کوشش کے باوجود میں یہ ہمت نہ کر سکی کہ تمہیں بتا پاؤں۔ پہلی بار احساس اس وقت ہوا جب میں نے فرڈنینڈ کی موت کی خبر سنی۔وہ دنیا چھوڑ چکاتھا۔تم کاروباری سلسلے میں شہر سے باہر تھے۔تم اس کی رحلت سے ناآشناتھے۔جب میں نے اسے کفن میں لپٹے ہوئے دیکھاتو اس کی گریہ  زارماں کے الفاظ نے میرا سینہ چیر کے رکھ دیا۔اس کے منہ سے الفاظ بہت دور سے آرہے تھے۔اس وقت مجھے ایسالگا کہ تم اور میں  ایک سطح پر نہیں۔ہماری حیثیت اور مقام یکساں نہیں۔اس وقت سے میرا ذہن اس معاملے میں صاف ہونا شروع ہوگیا اور ہمارے درمیاں دوری  بڑھنا شروع ہوگئی۔میں اب تک یہ نہیں سمجھ پائی کہ کوشش کے باوجود میں فرڈیننڈ کی موت سے پہلے والے جذبات پر کیوں نہیں پہنچ سکی۔ *

اتوار کی شام جب ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے تو  تمہارےدالد اور میرے سسر  جنہیں میں بھی اپنے باپ کی طرح سمجھتی ہوں،نے محسب سابق میری دلجوئی کے لئےاپنے دادا اور آگ کا قصہ سنایا۔اس کے بعد اس نے تجویز دی کہ اگر کسی نے اپنی کشمکش اور تذبذب  سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو تو اس داداکے پُرکھوں  کی انجیل مقدس سے رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔میں نے اس کے مشورے  کی روشنی میں وہ عمل کیا تو وہ میرے لئے بہت پریشان کن تھا۔ اس میں لکھاتھا۔

ایریل کو رنج ہو۔ایرییل ۔۔۔اور وہ لوگ ذلیل کئے جائیں گے۔وہ اپنے مقام سے گرائے جائیں گےاور زمین کے اندر سے وہ بولیں گے اور ان کی آواز ایسی ہوگی جس سے اس کی روح مانوس ہوگی اور ان کی گفتگو اس مٹی سے سرگوشی میں باہر نکلے گی۔

مقدس کتاب کے ان فقرات نے میرے من کو چھو لیا۔اس سے آگے پڑھاتو  خوف سے میرے جسم پر رعشہ طاری ہوگیا۔اور مجھے لگا کہ میرے لئے سب کچھ ختم ہوچکاتھا۔میں نے آٹھویں آیت پڑھی جواس طرح سے تھی۔

یہ اس طرح سے ہے کہ جب ایک بھوکا شخص کوئی خواب دیکھتا ہے تو متاثرہ شخص  کھاتاپیتا ہے لیکن جب وہ خواب سے بیدار ہوتا ہے تو وہ بھوکااور پیاسا ہی ہوتا ہے اور دوبار بیہوش ہو جاتا ہے۔اس طرح اس کی روح اور پیٹ دونوں ہی خالی ہوتے ہیں۔

ہاں!اس نے میری ذہنی حالت کی صحیح عکاسی کی تھی۔ میری روح پیاسی تھی ۔اگر میں یہ قدم نہ اٹھاتی تو میں عمر بھر پیاسی رہ کر چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لئے دنیاداری نبھا رہی ہوتی۔ارڈنٹ! یہایساہی ہےجیسا تمہارے ساتھ پیش آنا چاہیئے۔میں اسی لئے جارہی ہوں۔مجھے معاف کرنے کا نہ سوچنا کیونکہ میں اک ایسی غلطی کرنے جارہی ہوں جو معافی کے قابل نہیں۔مجھے اپنے اس فیصلے پر بےحد قلق ہے۔

ہم دونوں جوان ہیں۔ میں تم سے زیادہ جوان ہوں۔اس کے باوجود میں تمہیں ایک گر بتارہی ہوںجو  خدا کا  کوئی برگزیدہ شخص ہی بتا سکتا ہے۔حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی یہی ہدائت کی تھی اور اگر میں اتنی ہی ذہین ہوتی جتنے کہ وہ تھے تو میں دل کی گہرائیؤ ں سے یہی بات کرتی جو میں اس وقت کر رہی ہوں۔یہ اور بات ہے کہ  اپنے اس اقدام پر بے حد افسردہ ہوں۔دل کی اتھاہ گہائیوں سےغمزدہ ہوں۔میں ناخوش ہوں لیکن پھر بھی ایسے الفاظ ادا کرنے کی کوشش کروں گی جو تمہیں کسی حد تک تسلی دے سکیں۔حقائق جاننے کے بعدتمہیں بھی فائدہ ہوگا۔اس سے روحانی الجبن میں کمی میں مدد ملت گی۔ تم مجھے منافق نہیں سمجھو گے۔ارنڈنٹ تم مجھ سے ملے۔میں تمہیں چاہتی ہوں اور مجھے اس پر بےحد قلق ہوگااگرمیرے لئے پریشان ہو۔آج میں نے تمہارے لئے ایک نظم بھی لکھی ہے۔میں نے آج تک کبھی شاعری نہیں کی۔یہ ایسی عمدہ نہیں ہوگی جیسی ہونی چاہیئے۔اس کے باوجود تمہیں اسے پڑھناچاہیئے اورجب  کبھی میری یاد آئے تو اسے پڑھ لینا۔

میں نے تم کو غریب کردیا،میری جان

میں جسمانی طورپرتم سے بہت  دور ہوں گی لیکن روحانی طور پر تمہارے بزدیک ہوں میرے پیارے۔

میں نے تم کو بہت امیر بنادیا ہے،پیارے دل

ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں حالانکہ ہم جسمانی طورپربہت دور ہیں۔

اور اب مجھ میں حوصلہ آیا ہے اور میں تمہیں وہ بات بتانے جارہی ہوں جسے کوئی نہیں جانتا۔جب میں طوفان کے درمیان تھی تو   صوفیہ ہوزوینکل بحری جہاز  جو اس وقت شدید ترین بحران میں مبتلا تھا، اس وقت میں ذرا سی بھی خوفزدہ   نہیں تھی۔

کرسچینز سینڈ جزیرےکے لوگوں نے جب مجھے ہیروئن کہا  کیونکہ ان کے نزدیک  بہادر وہ  ہے  جو خطرہ دیکھتی ہے تووہ خوفزدہ  نہیں ہوتا یا ہوتی۔ان کے معیار کے مطابق میں بہت بہادر تھی۔میں طوفان باد و باراں میںاس کے خلاف خم ٹھوک کر اور تن کر کھڑی ہوگئی۔ میں نے اسے کھٹکا اوراندیشہ سمجھا ہی نہیں اور نہ ہی میں اسے خطرہ سمجھتی تھی۔اسے میں نے کبھی خوناک سمجھا ہی نہیں۔

افسوس صد افسوس! اس وقت ولدمیر ہیئر ہوزوینکل اپنے طور پر جہاز کی سلامتی کے لئے اور فرڈیننڈ کی ماں اپنے بیٹےکی جان کے لئےشدید  فکرمند تھی۔دونوں بےحد خوفزدہ تھے لیکن وجوہات ایک دوسرے کے برعکس تھیں۔ ایک اپنی دولت کا معمولی سا  حصہ ضائع ہونے جبکہ دوسرا فاقہ کشی  کی وجہ سے پریشان تھاکیونکہ فرڈیننڈ بڑے خاندان کا واحد کفیل تھا۔وہ لوگ جو خاندان  کے کفیل ہوتے ہیں ڈرپوک ہوتے ہیں اور وہ جو ایک اکیلے ہوتے ہیں اجو کسی  معاشرتی یا معاشی ذمہہ داریوں  سے پاک ہوتاہے۔جس کیا انتظار کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ، جسکی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اور اپنی کشتیاں جلا دی ہوتی ہیں وہ ہر قسم کی جرات  دکھا سکتا ہے۔میں  اس قسم کے لوگوں میں شمار ہوتی ہوںاسلئے خوف مجھ سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔

 اس رات ج کے طوفان بادوباراں کوجسے لوگ زمانے کابدترین برفباد قرار دے رہے تھے،اسی قسم کے طوفان کے مقابلے پر منحصر وہ ڈرامہ تھا جو ہم نے سٹیج پر کرناتھا۔اس میں میں  اس ڈرامے کی ہیروئن'ایرییل' کا کردار کرنا تھاجس  نے اپنی  دلکش،ساحرانہ اور شیر جیسی بہادری دکھانی تھی۔۔مجھے اپنے حصے کا ایک ایک لفظ،ایک ایک تاثر،صورت حال کے مطابق جسمانی رد عمل از بر تھا۔ میں اس ڈرامے کی ایک سو بار رہیرسل کرچکی تھی۔اس رات جب یہ افتاد پڑی تو میں نے سوچاکہ اگر مسافر مرگئے اور جہاز غرق ہوگیاتو میں بے مقصد مر جاؤں گی۔جب میں نے عملے کے اراکین کو ابتری کے عالم میں چیختے چلاتے سناکہ 'سب برباد ہوگیا'تو مجھے ڈرامے کے وہ ڈائیلاگ یاد آگئے جو میں اس وقت ادا کرنے تھے۔ان کو دہرانے کا یہ صحیح موقع تھا ۔جب انہوں نے کہا کہ'خداہم پررحم کرے' تو میں نے  ہیروئن ایرییل کے فرائض منصبی والا  پارٹ ادا کرناشروع کردیا۔اس کے ڈائیلاگ بولتی گئی اور عملے کے اراکین بشمول کپتان میرےاحکامات پر عمل کرنے لگے۔میں تو سکرپٹ کے مطابق  دائیلاگ بول رہی تھی اور عملہ سرتوڑ کوشش سے  عملدرآمد کررہاتھا۔

ولیم شیکسپیئر برفباد کے نہیرو کا نام 'بھی فرڈیننڈ تھا۔عملے کے اراکین نے مجھے بتایا کہ اس رات میں نے فرڈیننڈ کو کئی بار اپنے پاس بلایا تھااور کئی بار اسے احکامات دئیے اور اس نے من و عن ان کی تعمیل کی۔میں طوفان کے شور کا مقابلہ کرنے کے گلاپھاڑپھاڑ کر بول رہی تھی تاکہ میری اواز تماشائیوں تک پہنچے۔اس تمام وقت میں ایرییل کا کردار ہی ادا کر رہی تھی۔

شیکسپیئر کے اس ڈرامے میں ایک جزیرے کا بھی ذکر ہے جس میں ہر شئے اچھی ہے۔میں اداکاری کرت وقت سوچ رہی تھی کہ میں اس جزیرے سے دور نہیں تھی۔میں اس بات پر مطمئن تھی کہ میں نے حقیقی بحران میں بہترین ادا کاری کرے نہ صرف انسانی جانیں بیکہ جہا ز کو بھی بغیر کسی نقصان بچالیا۔

تو اب تمہیں اصلیت کا پتہ چل گیا ہے۔میری تمہارے ساتھ نہ رہنے کے فیصلے کی بنیادی وجہ یہی ہے۔جو عزت جو آپ لوگوں نے مجھے بخشی ہے، میں خود کو اس کی مستحق نہیں سمجھتی۔تم مجھے معاف کر بھی دو تو بھی حقیقت یہی رہے گی۔اگر میں  تم لوگوں کے پیار اور سہولیات کا استعمال جاری رکھتی تو منافقت کرتی۔لیکن تم سے محبت میں کوئی کھوٹ نہیں۔میں آخری سانس تک تہمیاری ہی رہوں گی۔میں تم سے سچاپیار کرتی ہوں۔

پیارے ارڈنٹ ۔ تم ایک بھوکے پیاسے شخص کی طرح خواب میں بھوک پیاس مٹالیا کرو کیونکہ بیداری  میں تمہارا پیٹ  اور روح خالی ہی رہے گی۔

اس میں میں نے ایک سونے کاسکہ بھی رڈالاہے جو خصوصی طور پر تمہارے لئے ہے۔اسے اپنے پاس رکھنااوراسے دیکھ کرمجھے یادکرلیاکرنا۔یہ سکہ میرے باپ نے میری ماں کودیاتھااور میری ماں نے وہ باپ کی نشانی کے طور پر مجھے دےدیا۔

اب میں خاموش ہوجاتی ہوں ۔ایک گھنٹہ بعد اس خط  کو بند کردوں۔اگر کچھ اور یاد آیا تو لکھ دوں گی۔

اب ایک گھنٹہ گزر چکا ہے۔مزید انکشاف کے لئے کچھ نہیں بچا۔میں اسے بند کرنے لگی ہوں۔اس کے بعد  میرا جہاز سمندر میں اتر جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ مجھے کوئی اور طوفان آن لےلیکن اس بار میں اسے وہ طوفان نہیں سمجھوں گی جو میں صوفیہ جہاز میں برفباد والے ڈرامے میں لیا تھا۔اس سے میں اسی طرح خوفزدہ ہوں گی جیسے دوسرے لوگ ہوں گے اور میں اس میں مر جانا پسند کروں گی۔جب میں جہاز کے ساتھ ڈوب رہی ہوں گی تو میں تمام تر حقیقت اور سچائی کے ساتھ تمہاری ہی ہوں گی اور رہوں گی۔میری خواہش ہے کہ ایسا ہی ہو۔سمندو کی لہریں میرے دل کو ڈھانپ کر اسکی دھڑکن کا خاتمہ کردے۔ایک دل یہ بھی کرتا ہے کہ مجھے اس وقت بچالیا جائے تاکہ اس وقت کو یاد کرسکوں جب تم مجھے پہلی بار ملے تھے۔میں تمہارے قدم دفتر جانے کے لئے،میرے کمرے میں آنے کے سنوں!وہ میری زندگی کے بہترین لمحات ہوں گے۔

الوداع۔الوداع۔الوداع ارڈنٹ۔

تمہاری ایملی

Popular posts from this blog