قومی مہمان Guests of The Nation Frank ‘O’ Connor (UK) 1903-1966

 

    


 

قومی  مہمان

  Guests of The Nation

Frank ‘O’ Connor (UK)

1903-1966


پیش کار و  تجزیہ :  غلام محی الدین   

  

 میرا نام بونارٹ ہے ۔ میں آئرش ری پبلک آرمی کا  ایک جوان ہوں۔ میرے ساتھ    میری ہی یونٹ کا

 ایک جوان ُ نوبل  ُ ہے۔ہمیں سرکاری طور پر یہ فریضہ سونپا گیا  ہے  کہ  انگلستان کے دو فوجیوں کو اپنی

 نگرانی میں  اس طرح رکھیں کہ ان کو پوری سہولیات ملیں  لیکن رات کو تالے میں رکھیں اور ان کو

 فرار نہ ہونے دیں۔ان دنوں  خود مختاری کے مسئلے پر انگلستان اور آئر لینڈ کی ریاستیں  جو برطانیہ کے

 جھنڈے تلے متحد  ہیں ، میں  خود مختاری کے معاملےپر تنازعہ اٹھ کھڑا ہواہے اور دونوں ریاستیں

 ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار   ہیں۔  یہ  اندرونی لڑائی ہے جسےلسانی ، فرقہ بندی   اور خانہ جنگی  کی

 لڑائی کی حیثیت میں لیا جارہاہے۔ 

 ہم چاروں    ایک بوڑھی کی کٹیا میں پچھلے کئی ہفتوں سے بڑے امن اور شانتی سے رہ رہے ہیں۔ساتھ

 رہنے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے مزاج سے واقف ہو چکے ہیں اور مطابقت کر لی ہے۔ ایک

 دوسرے کو سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ ایک دوسرے کی عادات و اطوار  سمجھنے      لگے  ہیں۔   ہمارے مابین بھائی

 چارے کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ فکری اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے کو بخوشی برداشت کر

 رہے  ہیں۔  ہم آہنگی پیدا ہوچکی ہے۔  ان دنوں ہمارا روٹین سیٹ ہو چکا ہے۔ 

پو پھٹتے ہی ایک دیو قامت انگریز فوجی  ہیلو   دوستو !کہتا ہواآتش دان کے پاس اپنی لمبی ٹانگیں                       پسار

           کر بیٹھ جایا کرتا ہے۔ کیا حال چال ہیں پیارو!               کہتا ہے۔نوبل اور میں اسے                   ُ  سب ٹھیک ہے'                             کا 

 راگ  الاپتے ہیں۔ یہ شخص    دراز قامت اور  بھاری بھرکم ہے۔ وہ انگلستان کا                         فوجی     جوان      ُبیلچر ُہے ۔

اس کے ساتھ ہماری حفاظت میں ایک اور انگریز فوجی  ہے  جو دبلا پتلا شخص  ہے۔ یہ آوازیں سننے کے

 بعد    بیلچر                   اٹھتا ہے اور کمرے کا لیمپ جلاتا ہے۔  اس کے بعد  تاش کی گڈی نکالتا ہے اور ہم چاروں

 تاش کھیلنے لگ جاتے ہیں۔ بیلچر منجھا ہوا                کھلاڑی ہے وہ  سب سےاچھا کھیلتا ہے جبکہ ہاکنز کچا پلیئر ہے۔

 ہاکنز باتونی اور کام چور ہے اور بیلچر محنتی ہے ۔ہاکنز تاش کی بازی ہار کر دیوالیہ ہو جاتا ہے تو بیلچر اسے

 رقم واپس کر دیتا ہے تاکہ وہ بیکار نہ بیٹھے۔ یہ ہماری روٹین ہے۔ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں ۔ کبھی

 کبھا ر 'جرمیاہ ڈونوون' بھی آجاتا ہے وہ ہمارا سپروائزر ہے۔ وہ ہماری چیکنگ کے لئے آتا ہے  اور

 دیکھتا  ہے کہ ہم ڈیوٹی صحیح      طرح ادا کر رہے ہیں ۔                            وہ کھیلتا نہیں ۔ و     ہ                     کپڑ          ے کا چھوٹا سا ہیٹ پہنتا 

 ہے۔اور پینٹ کے نیچے لمبے موزے جو اس کے گھٹنوں تک آتےہیں،             پہنتا  ہے۔ ہمیشہ اپنے ہاتھ

 جیبوں میں ٹھونسے رکھتا۔ جب کوئی اس سے بات کرتا  تو اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔ اس کے پاؤں 

گنواروں جیسے بہت بڑے   اور جسامت کسی بھینسے  کی طرح    ہے ۔وہ سخت گیر  اور سنجیدہ ہے۔ نظریں

 جھکائے رکھتا ہے۔ اس کی بول چال اور لب و لہجہ عجیب وغریب ہے۔  اس کا رہن سہن دیہی                       ہے،

 نوبل    اور میں  شہری ہیں ۔ وہ ہمارے مزاج کے مطابق نہیں اس لئے ہم    اسے ناپسند کرتے ہیں اور 

 اس کامذاق اڑاتےہیں۔ 

 انگریز  جوان  ہاکنز اگرچہ اچھا  انسان تھا لیکن اس کی باتوں اور حرکات  ایسی  تھیں  جن سے ہم اکثر چڑ

 جایا کرتے تھے۔ تھا تو وہ انگلستان کا لیکن وہ ہمارے علاقے  کی تمام اہم معلومات کے بارے میں پوری طرح آگاہ تھا اور آئرش  ثقافتی معاملات کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتا تھا ۔اسے ہر موقعہ کے گانے، موسیقی اورڈانس یاد تھے۔ اسے وہ رسوم بھی یاد تھیں جو ہم ترک کر چکے تھے یا آئرش فوج  نےنے ممانعت کر دی تھیں۔ ہمیں غیر ملکی ڈانس کی ممانعت تھی۔ ہماری آپس میں چہلیں چلتی رہتی تھی ۔ا     س نے  باتوں باتوں میں میری ایک کمزوری  کہ جرابیں  جومیں اکثر اپنے بھائی کی پہنا کرتا تھا،  کا پتہ چلا لیا تھا اور  چھیڑا کرتا  تھا۔ وہ بہت باتونی تھا ۔  مجھے مذاق کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ 'بوناپارٹ!'                           تم  ان جرابوں کو جو تمہارے بھائی کی ہوتی ہیں، کو سنبھال کر رکھا کرو نہیں تو تمہارے پاؤں سردی سے ٹھٹھر جائیں گے۔ ہاکنز اور بیلچرچونکہ آئرش نہیں تھےاسلئے ان کی بول چال اور لہجہ مختلف تھا۔عام لوگوں کو یہ تاثر نہیں دیا جانا تھا کہ وہ فوجی ہیں  اس لئے ہماری یونٹ نے ہمیں ہدائت دی تھی کہ انہیں مہمانوں کی طرح رکھا جائے۔حکم صرف یہ تھا کہ انہیں بھاگنے نہ دیا جائے۔   اس لئے گھر سے باہر  وہ  اوور کوٹ پہن کر باہر نکلتے تھے، فوجی بوٹوں اور وردی کی بجائے  عام شہریوں والے کپڑے اور جوتے پہنتے تھے۔  پارک یا محفلوں میں  وہ جاتے تو لوگوں سے تال میل پر پابندی لگا دی جاتی۔ ان کی       شامیں مختصر کر دی جاتیں۔ وہ دونوں جوان تھے۔ ان پر کڑی نظر رکھی جاتی اور لڑکیوں سے گھلنے ملنےنہیں دیا جاتا تھا۔    

ہم   چاروں فوجی ایک چھوٹی  سی کٹیا میں رہتے تھے۔جو ایک سنکی بڑھیا کی تھی۔وہ بیمار، بد مزاج اور

 سخت دل تھی۔ رومی اور یونانی دیومالاؤں پر اعتقاد رکھتی تھی اور دنیا میں تمام آفات  اور جنگیں       اس

 کے مطابق  ان کی بدولت تھیں ۔ جنگ عظیم دوئم  کو جرمنوں کی جنگ کہا کرتی تھی۔ غصہ اس کی ناک

 پر ٹکا رہتا تھا۔ٹوٹی ہوئی لاٹھیوں سے  ٹیک لگا کر چلتی تھی۔ وہ ہم سب کی سر زنش کرتی رہتی تھی۔اس

 کی بیلچر سے گہری چھنتی تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس کے گھر کے تمام کاموں میں اس کی مدد کرتا

 تھا۔  اس کے گھاس کے بیجوں کی بالٹی اٹھا کے لے جاتا ۔ اس کے لئے پانی گرم کرتا، آتش دان جلاتا ،

 وہ ٹوٹی لاٹھیوں کے سہارے چلتی تو یہ اس کی مدد کرتا ۔ اس کی کم و بیش تمام ضروریات کو  بنا کہے

  پورے کرتا۔  وہ    موٹا             اور     دراز قد تھا۔  ( میں 5 فٹ دو انچ کا تھا اور ا سکا چہرہ دیکھنے کے لئے مجھے سر اونچا

 کر کے دیکھنا پڑتا تھا۔موٹے شخص  کے لئے یہ تمام کام مشکل تھے لیکن وہ بھوت کی طرح اندر باہر

 آتا جاتا رہتا تھا۔ اس کی طمانیت سےایسے لگتا کہ  ان کاموں سے  اسے روحانی سکون ملتا تھا ۔                        عمدہ

 سلوک کی وجہ سے اس نے بڑھیا        کو زندگی     بھر کا دوست بنا لیا تھا۔ بڑھیا  اس کو بہت پسند کرتی تھی۔ 

 بیلچر  ہر وقت سنجیدہ رہتا۔ جب کبھی کسی سے باتیں کرتا تو ہمیشہ پیارے دوست کہہ کر پکارتا۔ تاش کا

 کھیل  اس کو مرغوب تھا اور   صبح  گھر کا کام نپٹانے کے بعد  وہ تاش لے کر بیٹھ جاتا تھا۔ 

میرے ساتھی نوبل کا بھائی پادری تھا۔  اس پر اس کے بھائی کے وعظوں  کا  گہرا اثر تھا ۔ وہ ہمیشہ  یہ سوچ

 کر ڈرتا رہتا کہ مرنے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا۔  انگریز  فوجی  ہاکنز اس سے ایسے سوالات کرتا تھا

 جس میں مذہبی اعتقادات کو مادی لحاظ سے پرکھا جا سکے جس کے جوابات میں اسے بعض اوقات ناکامی

 کا سامنا  بھی کرناپڑتا تھا ۔ہاکنز بحث کے دوران  نوبل کے لئے اتنی بری زبان استعمال کرتا کہ میں نے

 کبھی سنی ہی نہ تھی۔ وہ  پینترے بدل بدل کر اسے ہر طرح  کے دلائل  دیا کرتا تھا  اور باتوں میں  نوبل

 کو ہرا          دیا      کرتا تھا ۔ وہ کام چور  تھا اور باتوں سے کام چلاتا تھا۔ کسی  جھگڑا  نہ  کر رہا ہو تو بڑھیا سے الجھ پڑتا۔

 وہ لڑنے میں اس کے جوڑ کی تھی۔ وہ اسے مایوس نہیں کرتی تھی۔ جب ایک دن قحط پر اس نے بہت

 زیادہ وجوہات پیش کیں تو بڑھیا نے اس کے تمام دلائل جھٹلاتے ہوئے اسے لاطینی دیوتاؤں اور

 دیویوں کی ناراضگی قرار دیا۔ جنہوں نے  لوگوں کی گمراہی  کی وجہ سے ان کو سزا دی۔ بڑھیا نے  قحط کی

 وجوہات  میں ناراض رومی اور یونانی دیوتاؤں کے ایسے ایسے نام بتائے جو ہاکنز نے سنے بھی نہ تھے۔

اگلے روز ہاکنز سرمایہ داروں کو گالیاں دے رہا تھا جنہوں نے جرمنی کی مسلط کردہ جنگ شروع کی تھی ۔  بوڑھی  خاتون  اس وقت کپڑے استری کر رہی تھی ،                           نے اپنی استری رکھی اور اپنا کیکڑے جیسا

 منہ اونچا کیا      اور  ہاکنز سے کہا کہ تمہارا اس جنگ کے     بارے جو بھی خیال ہو،         مجھے دھوکہ نہیں دے

 سکتے کیونکہ میں اس جنگ کی اصل حقیقت جانتی ہوں ۔ یہ اس   وجہ سے ہے   کہ  لوگ دیوتاؤں  اور

 دیویوں سے منکر ہو گئے ہیں اس لئے دینا میں تباہی  آئی ہے۔ اس کی منطق کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔ 

 نوبل نے  جواب میں اتنا ہی کہا  کہ ا یسے خیالات کافروں کے ہی ہو سکتے ہیں۔  

  انگریز  ہاکنز اور  میرا  آئرش  ساتھی نوبل                  آپس میں گہرے دوست    بن گئے تھے اگر ان کا کسی بات پر

 اختلاف تھا تو مذہب اور سیاست  تھی ۔ نوبل مذہبی شخص تھا اور ہاکنز ملحد۔ وہ کمیونسٹ تھا۔    دونوں کے

 خیالات ان معاملات میں  دو انتہائی سروں پر تھے۔  نوبل آخرت، جنت دوزخ، آدم حوا   وغیرہ   پر  مکمل 

 ایمان رکھتا تھا جبکہ       ہاکنز ملحد اور کمیونسٹ  خیا لات رکھتا تھا۔  

 ایک  شام  ہم چائے پی رہے تھے   ہمارا سپروائزر  ( جریمیاہ ڈونوون                          )آیا اور ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔

 ہمیں کچھ دیر دیکھتا رہا  ۔ وہ انگریزوں کو جس نظر سے دیکھ رہا تھا مجھے ایسا لگا کہ وہ انہیں پسند نہیں کرتا

 تھا۔  مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کیونکہ اس کے  ایسے احساسات میں نے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ اس شام

 ہاکنز اور نوبل میں پھر سرمایہ داروں اور مذہب کے بارے میں تھی۔اس نے حقارت سے کہا کہ  سرما

 یہ    دار پادریوں کو خرید لیتے ہیں۔جو کرتوتیں  وہ حرامزادے  کرتے ہیں  ان سے ہم عوام  عذاب میں

  مبتلا  ہو  جاتے  ہیں۔کیا سرمایہ دار آخرت پر ایمان رکھتے ہیں؟                          نوبل  نے غصے سے کہا۔ اس کا انداز ایسا

 تھا جیسے وہ وعظ کر رہا ہو۔ یہ بات سن کر ہاکنز کھڑا ہو گیا  اور  نفرت  سے کہا۔  یہ بات کرکے تم کیا ثابت

 کرنا چاہتے ہو۔ تمہیں     یقین ہے کہ خدا نے حضرت نوح کے بیٹے  شام کو پیدا کیا  اور خدا کو منصف کہا۔

 تم ایسی باتوں پر یقین کرتے رہے ہو پیارے دوست۔ اگر تمہیں اس پر یقین ہے تو تم احمق ہو۔ 

  بیلچر پاس بیٹھا تھا ۔ میز سے اٹھ کر اپنی لمبی ٹانگیں کو سیدھا کیا اور اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا اور کمرے

 سے باہر نکل گیا۔   نوبل  اور ہاکنز                       نے  مذہب اور کمیونزم پر  بحث جاری رکھی جو طول پکڑ تی گئی۔ جرمیاہ

 ڈونوون                               اس وقت وہیں موجود تھا ۔  اس نے مجھے باہر چلنے کا اشارہ کیاتومیں  ڈونوون کے ساتھ باہر چلا

 گیا  اور ہم  گھومنے لگے۔  وہ چلتے ہوئے مسلسل بڑبڑا رہا تھا  کہ   ان انگریز فوجیوں کی نگرانی اب سخت کر

 دی جائے  او رمیں  یہ بات نوبل کو بھی بتادوں ۔ 

 مجھے اس کی یہ بات بری لگی ۔ اس لئے میں نے جواباً                                                           ڈونوون کو کہا کہ تم ان کی نگرانی  سخت  کرنے کو

 بول رہے ہو، کی کوئی تک نظر نہیں آتی اور عین توقع ہے کہ وہ    یہ سن کر  اس بات کو ہضم نہ کر سکے

 اور کہیں ہم لڑ نہ پڑیں۔وہ انگریز فوجی  اب اتنے برےکیوں ہو گئے ہیں ؟میں نے آخر کار پوچھ ہی

 لیا۔

ڈونوون نے میری طرف حیرانی سے   دیکھا   ۔ ُ میرا خیال تھا کہ تم اس بات کو جانتے ہو کہ ہم نے انہیں

 یرغمال  کیا  ہواہے۔ُ 

  ُیرغمال                                     ُ ؟  میں نے چونک کر پوچھا۔


تم اچھی طرح جانتے ہو کہ انگریز دشمنوں نے  ہمارےآئرش فوجیوں کو جنگی قیدی بنا کر رکھا ہوا ہے۔

 ہمارا ارادہ تھا کہ  ان سے جنگی قیدیوں کا باہمی تبادلہ کر لیں گے لیکن  وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے اور

 انہوں نے ہمارے فوجیوں کو جو ان کی قید میں ہیں ، کو مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اگر انہوں نے یہ کیا تو

 ہمیں بھی ایسا ہی کرناپڑے گا۔ڈونوون  نے کہا۔

انہیں گولی مار دیں گے؟میں نے حواس باختہ ہو کر کہا۔ کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ تم مجھے یہ بات اس

 وقت بتاتے جب تم نے انہیں ہماری تحویل میں دیا تھا۔

 اس بات کا تمہیں     از خود معلوم ہونا چاہیئے تھا۔ یہ کیا تھا۔ کیسے تھا۔ انگریزوں سے ہماری جنگ  ہو 

 رہی ہے ۔ انگریز فوجی ہمارے پاس ہیں اور تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ فرار نہ ہونے پائیں   تو یہ عام فہم

 بات تھی کہ انہیں جنگی  قیدی سمجھا جائے۔۔ ڈونوون نے کہا۔ 

ہمیں اس بات کا کیسے پتہ چلتا جب ان کے بارے میں یہ ہدایات دی گئیں کہ ماسوائے نگرانی اور رات

 کو تالے میں سلانے کے ،ان کی بھی وہی مراعات ہیں جو ہماری تھیں ۔ ہمیں حقائق کا علم ہوتا تو ہمارا

 رویہ ان سے مختلف ہوتا  اور قربت نہ ہوپاتی۔ ہمارے پاس یہ کئی ہفتوں سے ہیں۔ ہم تو اسے قومی

 مہمان سمجھ رہے تھے میں نے کہا۔

ہمارے فوجی اس  عرصے سے پہلے کے ان کے پاس قید ہیں۔                  کیا تم یہ نہیں جانتے ؟                                             ڈونوون نے کہا۔

ان دونوں معاملات میں مماثلت نہیں ہے۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ میں نے کہا۔

ان میں کیا فرق ہے؟ اس نے پوچھا۔ میں نے مزید کچھ نہ کہا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس  کو اس نکتے

 کےسمجھنے کی اہلیت ہی نہیں تھی۔

اور یہ بات کس وقت ہو گی۔میں نے پوچھا۔

زیادہ توقع یہ ہے کہ یہ معاملہ آج رات تک واضح ہو جائے۔ ویسے ایک دو روز اوپر نیچے بھی ہو سکتے

 ہیں۔ تاہم زیادہ سے زیادہ پرسوں تک حتمی فیصلہ ہو جائے گا۔ اگر تم اس بات کے لئے پریشان ہو

 رہے ہو تو تمہیں اس سے الگ بھی کیا جا سکتا ہے۔

 یہ  بات سننے کے بعد انگریز فوجیوں کے ساتھ رہنا میرے لئے کسی پریشانی کا باعث نہیں تھا بلکہ ہماری

 تو ان سے گہری دوستیاں ہو گئی تھیں۔ہم ایک ہی ملک کے تھے۔ انگلستان  اور ہماری ریاست میں خود

 مختاری کے  مسئلے مسائل تھے لیکن  اس کے لئےکٹر دشمن جرمنی جیسا سلوک کرنا میرے نزدیک غیر

 مناسب تھا۔میں واپس کٹیا  پہنچا تو ہاکنز اور نوبل کی مذہب پر گرما گرم بحث ابھی بھی جاری تھی۔وہ اس

 قدر جوش میں تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ ان کو اس کے بعد موقعہ نہیں ملنا تھا۔ نوبل اس بات پر اصرار کر

 رہا تھا کہ آخرت ہے۔ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے لیکن ہاکنزاس کے خلاف اپنے بہترین دلائل

 دے رہا تھا۔  وہ ایک کڑوی مسکراہٹ سے کہہ رہا تھا کہ تم حقیقت میں اندر سے خود بھی ملحد ہو۔ تم

 آخرت کے حق میں بولتے ہو لیکن اس کے بارے میں تمہارا علم اتنا ہی ہے جتنا کہ میرا۔ تم اسے

 ثابت نہیں کر سکتے۔ جنت کیا ہے۔۔۔جنت کہاں ہے۔۔۔دوزخ کیا ہے۔۔۔ میری طرح تم بھی

 نہیں جانتے۔  چلو ایک بار پھر پوچھتا ہوں کہ کیا فرشتوں کے پر ہوتے ہیں؟

ہاں! ہوتے ہیں۔ کیا تم اس پر خوش ہو گئے۔ نوبل  نے طنزیہ جواب دیا۔

تو وہ پر کہاں سے حاصل کرتے ہیں ۔۔۔ انہیں کون بناتا ہے۔۔۔کیا وہاں پر بنانے کی فیکٹری لگی

 ہے۔۔۔کیا  کوئی گودام ہے۔۔۔اگر ہے تو کہاں ہے، مجھے دکھاؤ۔ کیا تمہارے ہاتھ میں کوئی پرچی

 ہوگی جو دکھا کر پر حاصل کر سکو گے۔؟تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تم پر کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی۔  وہ

 مزید دلیل دینے لگا اور یہ بحث آدھی رات تک چلی۔ دونوں اپنے اپنے  دلائل میں اتنے جوش میں

 آگئے کہ نفرت   سے ایک دوسرے پر تھوک دیا ۔ہاکنز کواس کے کمرے میں بند کر کے تالہ لگا دیا   گیا

 اور ہم اپنے کمرے میں سونے کے لئے آگئے۔     ۔ میں نے نوبل کو  پوری بات بتا دی۔ اس نے  سن

 کر خاموشی اختیار کی  اور ایک گھنٹے بعد مجھ سے مخاطب ہوا اور پوچھا کہ کیا یہ بات ان انگریزوں کو بتانی

 چاہئیے ۔میں نے خیال ظاہر کیا کہ انہیں اس کے بارے میں نہیں بتانا چاہئیے کیونکہ              مجھے  امید  تھی کہ

 حالات اتنے نہیں بگڑے تھے کہ وہ ہمارے فوجیوں کو مار دیں گے  اور  انگریز ہمارے فوجی چھوڑ دیں

 گے۔

  نوبل نے بھی کہا  کہ وہ بھی اس سے اتفاق کرتا ہے۔ لیکن اگر  گوروں نے مار  دیا تو ہمارے  افسران بھی

   یہ چاہیں گے کہ بدلے میں انہیں مار دیں گے۔ یہ معاملہ چونکہ غیر واضح ہے اس لئے  ان کو ا س بات

کی اس وقت خبر دینا میرے خیال میں ان کے ساتھ  زیادتی ہوئی۔

اگلی صبح ہمیں بیلچر اور نوبل کا سامنا کرنا بے حد دشوار لگ رہا تھا۔ ہم نے ان سے کوئی بات نہ کی  اور

 سارا دن بے چینی سے پھرتے رہے۔ انہوں نے بھی محسوس کر لیا ۔ پچھلی رات نوبل اور ہاکنز میں تو

 تکار ہوئی تھی۔انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمارے سلوک میں تبدیلی شائد اسی وجہ سے تھی۔ اس لئے

 ہاکنز نے کہا کہ بحث کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا جانا چاہیئے  بلکہ اسے اس موضوع تک ہی رکھنا چاہیئے اسے 

 ذاتیات پر نہ لیا جائے۔ تمہیں آدم اور حوا کو جنت سے نکالے جانے  اور دیگر مذہبی عقائد پر یقین ہے

 جبکہ میں کمیونسٹ نظریات کا حامی ہوں اور میں سرمایہ داری نظام اور اس کے تحت قائم کردہ  

 حکومت کو تہس نہس کرنے کے حق میں ہوں۔ آدم اور حوا!       سیب کے درخت کے پاس جانے اور

 انہیں کھانے کے علاوہ اور بھی کام کر سکتے تھے۔ اس قصے کو چھوڑو۔تم اپنے خیال پر قائم رہو اور میں؎

 جو صحیح سمجھتا ہوں، اس پرقائم رہوں گا۔ 

مجھے علم نہیں کہ وہ سارا دن ہم نے کتنی تکلیف میں گزارا۔میں خوش تھا کہ رات آ گئی تھی۔ہم چائے

 پی چکے   تو بیلچر تاش لایا اور کہا کہ پیارے دوستو !                                کیا خیال ہےبازی نہ ہو جائے۔؟ہم چاروں میز پر

 بیٹھ گئے۔ ہاکنز پتے بانٹنے لگا ۔ عین اس وقت  باہر دورسڑک پرڈونوون  کے قدموں  کی چاپ سنائی دی 

 میرا ماتھا ٹھنکا۔میرا دماغ ماؤف ہو گیا۔ میں فوراً اٹھا اور باہر جا کر اسے باہر والے گیٹ میں داخل ہونے

 سے پہلے ہی  اسےجا لیا اور کہا۔ ُ تم کیوں آئے ہو ؟ ُ    میں نے پوچھا۔

مجھے تمہارے دونوں دوست چاہئیں۔ ڈونوون نے کہا۔

یہ کیا طریقہ ہوا        ڈونوون ؟

یہی صحیح طریقہ ہے بونا پارٹ ۔آج انگریزوں نے ہمارے چار فوجی اڑا دئیے ہیں۔ان میں ایک کی عمر

 صرف سولہ سال  تھی۔ڈونوون نے  جواب دیا۔

بہت برا ہوا۔ میں نے کہا۔

اس وقت نوبل بھی آگیا اور ہم تینوں اندر آنے کے لئے چل پڑے۔ ہم سرگوشیوں میں باتیں کر

 رہے تھے۔ جب ہم باہر والے گیٹ پر پہنچے تو مقامی جاسوس ' فینی' وہاں موجود تھا۔تم  نےگوروں کے ساتھ اب کیا سلوک کرو گے ڈونوون ؟میں نے پوچھا۔

جاؤ!  بیلچر اور ہاکنز کو باہر لے آؤ۔ ڈونوون نے حکم دیا۔ ان کو کہو کہ انہیں اس مقام سے منتقل کیا جا رہا

 ہے۔نوبل نے آہ بھر ی اور کہا کہ اسے اس عمل سے دور رکھا جائے۔ وہ یہ سب برداشت نہیں کر

 پائے گا۔

                                          '       اچھا                     ' ڈونوون نے اس کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔  تم اور فینی چھجے سے کھودنے کے

 آلات لے کر دلدل والی جگہ پر جا کر قبر کھودو۔ بوناپارٹ اور میں تمہیں وہاں ملیں گے۔ میں یہ نہیں

 چاہتا کہ یہ بات ہم سے باہر نکلے۔ہم  کٹیا واپس چلے آئے۔

مجھے  حکم ملا ہے  کہ تمہیں یونٹ واپس لایا جائے۔  ڈونوون نے انہیں مطلع کیا۔ اس پر ہاکنز نے 

   ناپسندیدگی سے نتھنے سکوڑے لیکن بیلچر نے سکون سے سنا ۔  اس نے کوئی بات نہ کی لیکن اس کے

 چہرے پر پریشانی کی ایک لہر آئی ۔ بڑھیا انہیں                     نہیں جانے  دینا چاہتی تھی ۔ اس کی خواہش تھی کہ ہم

 سب اس کے پاس ہی رہیں۔ اس نے اعتراض کیا تو ڈونوون کا پارہ چڑھ گیا۔ وہ غصے میں پاگل ہو جاتا

 تھا۔  اس وقت گہری تاریکی چھا چکی تھی۔  کسی نے اس وقت تک لیمپ نہیں جلایا تھا۔ انہوں نے

 اندھیرے میں ہی  اپنے اوور کوٹ پہنے اور بڑھیا کو الوداع کہا۔

جب تم آرام سے اپنے گھر میں سکون سے رہ رہے ہوتے ہو تو نہ جانے کسی حرامی کو ہیڈ کوارٹر سے یہ

 سوجھتی ہے کہ لوگوں کا جینا حرام کیا جائے۔ ہاکنز نے سر ہلاتے ہوئےطنزیہ طور پر جملہ کسا     جب کہ

 بیلچر نے بڑی محبت سے بڑھیا کو  ُ لاکھوں لاکھوں شکریہ مادام  !                  کہا۔ 

ہم اپنےرستے پر جانے کے لئے گھر کے عقب میں چل پڑے اور دلدل والی جگہ کی طرف بڑھنے

 لگے۔ اس وقت ڈونوون غصے  سے لرز رہا تھا ۔ اس نے گوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم

 لوگوں نے آج صبح ہمارے چار فوجی شہید کر دئیے ہیں اس کا بدلہ تم سے لیا جائے گا۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟  ہاکنز نے صدمے اور حیرانی سے کہا۔ تمہیں ہم سے ایسا بھونڈا مذاق نہیں کرنا 

چاہئیے  ڈونوون ۔

یہ مذاق نہیں ہے۔ مجھے اس کا افسوس ہے ہاکنز۔ لیکن یہ سچ ہے۔ مجھے تم  سےکوئی خوار نہیں اور نہ

 ہی  تمہارے رویہ سےکوئی شکائت  ہے بلکہ اپنے  فرائض کی ادائیگی میں  احکامات بجا لانا پڑرہے ہیں۔  وہ

 لوگ جو فرائض سر انجام دیتے ہیں ا ن کے لئے یہ بھی کتنی پریشانی ہوتی ہے۔کیا تم سمجھ سکتے ہو؟

کہانیاں گھڑنا چھوڑو۔ ہاکنز نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ بوناپارٹ سے بھی پوچھ لو ۔

ڈونوون نے  جب یہ دیکھا کہ وہ اس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تو اس نے کہا کہ ان سے پوچھ

 لو۔

کیا جو بات وہ کہہ رہا ہےصحیح  ہے بونا پارٹ؟

یہ سچ ہے ہاکنز۔ میں نے افسردہ لہجے میں  جواب دیا۔

جس انداز میں تم نے بات کی مجھے یقین ہے کہ تم ہمارے ساتھ ایسا نہیں کرو گے میرے یار۔ ہاکنز نے کہا۔

اس عمل میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ کوئی عمل دخل نہیں ۔ڈونوون نے کہا۔

تم مجھ سے کیوں خوار کھاتے ہو ڈونوون؟مجھ سے کیا گلہ اور شکائت ہے۔ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟

ہاکنز نے کہا۔

میں نے کب کہا کہ ایسا ہے۔ یاد کرو کہ تمہارے لوگوں نے ہمارے چار فوجیوں کو بغیر کسی وجہ کے

 بھون ڈالا ہے۔

 اس نے سختی سے ہاکنز کا بازو پکڑا اور اسے جھنجھوڑتے ہوئے آگے لے جانے لگا۔ میں اس وقت اپنی

 بے چینی کو بمشکل کنٹرول کر رہا تھا۔  میری جیب میں سمتھ اور ویسن ریوالور  تھے اور میری انگلی ٹریگر

 پر تھیں اور میں اس وقت کیا کروں گا کہ  اگر انہوں نے لڑنے یا فرار ہونے کا سوچا۔ میں نے اپنے

 من میں سوچ لیا کہ اگر انہیں نے بھاگنے کی کوشش کی تو میں اس پر فائر نہیں کروں گا ۔ کیا ہم ایک

 لمحہ کے لئے بھی یہ سوچ سکتے تھے کہ  ہم انہیں کبھی  گولی مار  دیں  گے۔ 

ہاکنز نے مجھے مجھ سے پوچھا کہ آیا نوبل بھی اس کھیل میں شامل ہےاور جب ہم نے اسے بتایا کہ ُ  ہاں  ُ تو

 اس نے پوچھا کہ نوبل کیوں اسے کیوں مارنا چاہتا ہے ۔ کیا ہم سب گہرے دوست نہیں ؟               

فوج میں ایسا نہیں ہوتا ۔ تم جانتے ہو کہ حکم عدولی کی سزا موت ہے۔                    اس کا اس بات سے کوئی تعلق

 نہیں  کہ  کوئی  کسی کو           کیوں  مارنا چاہتے ہے۔ ملک  کی  حفاظت  کے لئے ایسا ضروری ہوتا       ہے۔کیا تم اپنے

 تخیل میں ایک لمحے کے لئے بھی اپنے ذہن میں  ایسی بات  لا سکتے ہو ۔ 

 اس وقت ہم سب ہم دلدل والے مقام کے قریب  پہنچ چکے تھے اور میری حالت اس حد تک خراب

 ہو گئی کہ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پایا اور میں خاموش ہو گیا۔ ہم رات کی تاریکی میں بندپر چلتے رہے۔

چند قدموں کے بعد ہاکنز رکتا اور پھر سے دلائل دینا شروع کر دیتا۔  اس کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ

 ہمارے رویہ سےجو اس کے قریبی دوست تھے  ، سے اس کا دل بہت مجروح ہوا تھا۔ وہ دل برداشتہ ہو

 گیا تھا۔ اسے اس فیصلے سے بہت دکھ ہو رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا لیکن میں اپنے ذہن میں سوچ

 رہاتھا کہ اسے اس وقت یقین آجائے گا جب وہ دلدل والی جگہ پر کھدی ہوئی قبر دیکھے گا۔ اس وقت

 میں سوچ رہاتھا کہ کاش                وہ   بھاگ اٹھے یا نوبل مجھ سے  یہ ذمہ داری لے لے۔لیکن اس کے ساتھ مجھے

 یہ بھی لگا  کہ نوبل کی ڈیوٹی مجھ سےبد تر تھی کیونکہ اس نے ان کے لئے قبر کھودنی تھی۔

آخر کار ہم نے دور سے ایک لالٹین کی روشنی دیکھی  اور اس طرف بڑھنے لگے۔نوبل لالٹین کو  ہاتھ

 میں لئے  سر جھکا کر خاموشی سے کھڑا  تھا۔

  ہاکنز کی باتوں کا جواب اس وقت ڈونووان دے رہا تھا۔ جب اس نے بیسویں بار اپنے دلائل دئیے تو

 اس کے بعد ہاکنز نے کہا کہ کیا کوئی کبھی یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ میں نوبل کو گولی سے اڑا دوں گا۔

ہاں ! تم ایسا کرتے اگر تمہاری کمانڈ     تمہیں کہتی۔ ڈونوون نے جواب دیا۔

نہیں۔ میں کبھی بھی نہ کرتا۔ تم پر تف ہو۔ ہاکنز نے کہا۔  اس وقت تک ہم نوبل کے قریب پہنچ چکے

 تھے۔ہماری باتیں اس تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ گفتگو سن رہا تھا۔

تم ایسا  ہی کرتے کیونکہ تمہیں معلوم تھا کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو وہ تمہارے افسر حکم عدولی پر گولی مار

 دیں گے۔ نوبل نے کہا۔

میں کبھی ایسا نہ کرتا ۔ خواہ اس کے بدلے میرے افسر مجھے بیس بار بھی گولیا ں مار دیتے ۔ ہاکنز نے کہا۔

 میں اپنے دوست کو کبھی بھی نہ مارتا بعینہِ بیلچر بھی ایسا ہی کرتا ۔ کیا ایسا نہیں ؟

یہ بات سچ ہے پیارے دوست۔ بیچلر نے کہا لیکن اس کا جواب صرف اس کے سوال کا جواب دینا تھا

 اور الجھنا نہیں ۔ وہ اس وقت یہ سوچ رہا تھا کہ اپنی زندگی میں کسی انہونی کے بارے میں جو وہ سوچا

 کرتا تھا، وہ وقت آگیا تھا۔ بہر حال اگر  نوبل  نہ بھی ہوتا گولی اس  کا مقدر تھی۔

فرض کرو کہ اگر میں اس کی جگہ  اور وہ میری جگہ پرہوتا تو میں کیا کرتا  ؟   ہاکنز نے کہا۔

تم کیا کرتے ؟ڈونوون نے پوچھا۔

میں بھی اس کے ساتھ وہاں جاتا جہاں وہ جا رہا تھا۔ میں اس کا ساتھ کبھی نہ چھوڑتا  ۔ کانوں میں ایک

 بند ے  کی طرح لٹکتا رہتا۔ کوئی بھی یہ نہ کہہ سکتا کہ کہ میں نے اپنے دوست کا ساتھ نہ دیا۔ ہاکنز نے کہا۔

تم بہت بول چکے ہو ۔تم نے بہت سی باتیں کر لی ہیں۔ ڈونوون جو اس کے عقب میں تھا اپنے ریوالور

 کے ٹریگر پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔ کیا مرنے سے پہلے تم کوئی پیغام دینا چاہو گے ؟

نہیں۔

کیا آخری دعا مانگنا چاہو گے؟

ہاکنز آگے بڑھا اور ایسے الفاظ کہے جس نے ہم سب کو لرزا کر رکھ دیا۔ اس نے کہا ۔ ؟ نوبل میری بات

 سنو! تم اور میں بہت گہرے دوست ہیں۔ اگر  تم میری جگہ نہیں لے سکتے تو کم از کم میں تو  تیری  سمت

 آ سکتا ہوں۔ گوروں کا بھگوڑا بن کر آئرش فوج میں شامل ہو سکتا ہوں اور تمہارے سا   تھ ان کے

 خلاف لڑ سکتا  ہوں۔سوچو اورسمجھوکہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ تم مجھے اسلحہ دو  میدان جنگ میں  میں

 تیری طرف سے لڑوں گا۔

اس بات کا کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔

جو بات میں نے کہی ہے  وہ بڑی سوچ بچار کے بعد کی ہے۔ اس پر غور کرو۔ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔

 انہوں نے جو آئرش فوجیوں کے ساتھ جو کیا ہے ، یا تم جو کرنے جا رہے ہو، بہت برا ہے۔کیا ایسا

 سلوک تمہارے ضمیر کو مطمئن کر سکتا ہے؟  اس کی بات سن کر نوبل نے  جو سامنے کھڑا تھا،سر اونچا

 کیا اور بولنے ہی لگا تھا کہ ڈونوون  نے بات شروع کردی اور نوبل نے اپنا سر پھر جھکا لیا۔

آخری بار پوچھ رہا ہوں کیا کوئی پیغام دینا چاہتے ہو   ہاکنز ؟

چپ رہو ڈونوون۔ کیا تمہارے  پلے نہیں پڑرہا کہ میں کیا  پیشکش کر رہا ہوں ؟  تم نہیں سمجھ رہے جبکہ

 یہ دونوں لڑکے ( نوبل اور بوناپارٹ )میری بات  سمجھ رہے ہیں۔ وہ ایسے نہیں ہیں۔ کہ کسی پیارے

 کو سرمایہ داروں کی بھینٹ چڑھا دیں۔

اس وقت میں ڈونوون کے ہمراہ ہاکنز کے پیچھے چل رہا تھا ۔  نوبل اس کے سامنے تھا۔میں نے دیکھا کہ

 ڈونوون نے اپنا ویلبی نکالا ۔ اس کی گردن کے پیچھے ریوالور کا نشانہ باندھا۔ جوں اس نے ایسے کیا میں

 نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے لئے میرے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ اندھیرے میں فائر کی

 آواز گونج اٹھی  تو میں نے ڈر کر آنکھیں کھول لیں۔ ہاکننز   گولی کھانے کے بعد آہستہ آہستہ گھٹنوں

 کے بل جھکا  اور لڑکھڑاتے ہوئے نوبل کی طرف بڑھا  اور ایسے خاموش ہو گیا جیسے معصوم بچہ سوتے

 وقت ہوتا ہے۔نوبل کی لالٹین کی روشنی ہاکنز کی پتلی ٹانگوں  اور ڈونوون کے گنوار پاؤں پر پڑ رہی تھی

 ۔ ہم خاموش کھڑے اس درد ناک خاتمے  کو دیکھتے رہے۔گولی کی آواز سے  پرندے اپنے گھونسلوں

 سے باہر نکل آئے اور شور مچانا شروع کر دیا۔ 

بیلچر یہ کاروائی خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اپنی آنکھوں پر باندھنے

 لگا  جو اس کی دونوں آنکھوں کو ڈھانپنے کے لئے ناکافی تھا۔ 

(اضطراری کیفیت میں ہم ہاکنز کی آنکھوں پر پٹی باندھنا بھول گئے تھے)۔اس نے مجھ سے میرا

 رومال مانگااس نے دونوں رومالوں کو باندھا  تو اس کی نظر ڈونوون کے پاؤں پر پڑی ۔ اس نے ادھر

 اشارہ کیا اور کہا ۔۔۔ ُ  وہ مرا نہیں۔یہ بہتر ہو گا کہ اس کو ایک گولی اور داغ دو ۔ُ اس کی بات صحیح تھی۔

ہاکنز اپنا گھٹنا اٹھا رہا تھا۔ پہلے اسے گولی مار کر ٹھنڈا کرو۔ میں   یہ منظر بھی سہہ لوں گابیلچر نے پھر کہا ۔

میں آگے بڑھا   اوراسے اذیت سے بچانے کے لئے جھک کر  ہاکنز کے بھیجے میں  گولی اتار دی اور وہ فوراً

 ساکت ہو گیا۔  میری حالت بہت خراب تھی۔ میں بڑی مشکل سے کھڑا ہو ۔ بیلچر میری بگڑتی حالت

 سمجھ رہا تھا۔

 ہم نہیں جانتے تھے کہ اب بیلچر کا خاتمہ کیسے ہو گا۔  اس وقت وہ رومال کو اپنی دونوں آنکھوں کے

گرد لپیٹنے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ عجیب طریقے سے باندھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس نے قہقہہ

 لگایا۔ وہ ذرا بھی پریشان نہ تھا۔  اس کے ساتھ میں کئی ہفتوں سے تھا۔ میں نے پہلی بار اسکو   قہقہہ لگاتے

 دیکھا تھا۔ اس کے اس قہقہے نے میری گردن میں جھری پیدا کر دی۔ اس کا یہ رویہ غیر فطری لگ

 رہا تھا۔ اس نے مجھے اپنا رومال دینے کو کہا کیونکہ ایک رومال سے اس کی آنکھوں پر پٹی  نہیں باندھی   

  جا سکتی تھی۔

بیلچر نارمل طریقے سے باتیں  کر رہا تھا۔ اس نے بتایا  کہ   ہاکنز ہمارے دن کی سرد مہری پر بہت پریشان

 تھا۔رات بھر وہ اس سے اس معاملے پر باتیں کرتا رہا۔ وہ متجسس تھا جبکہ مجھےکچھ کچھ اندازہ تھا  اور

 جلد یا بدیر اسے بھی علم ہو جانا تھا۔ ڈونوون نے اس کی آنکھوں کے گرد رومال اچھی طرح باندھا۔

 اب وہ بھی اپنی قسمت کے بارے میں اتنا ہی جان گیا تھا جتنا میں جانتا تھا۔   پٹی باندھنے کے بعد اس

 سے پو چھا کہ کیا وہ کوئی آخری پیغام دینا چاہتا ہے۔ 

 میرا کوئی پیغام نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ اگر تم میں سے کوئی ہاکنز کی ماں کو اس کے مرنے کی اطلاع

 دے اور اس کی جیب سے وہ خط  جو اس کی ماں نے لکھا تھا ، ساتھ بھیج دے۔ وہ اور اس کی ماں ایک

 دوسرے سے بہت پیا رکرتے تھے۔ وہ اس کی بہت باتیں کیا کرتا تھا۔بیلچر نے کہا۔  میری بیوی آٹھ

 سال پہلے اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی  اور ہمارے بچے بھی ساتھ لے گئی۔ مجھے اس کٹیا میں اپنائیت کا

 احساس ہوا تھا۔ اس کو میں اپنا گھر سمجھنے لگا تھا اسلئے میں اسے سجا کر رکھتا تھا جیسا کہ تم سب نے نوٹ کیا۔ 

اس تشویش ناک حالت میں اس  کا اتنا زیادہ بولنا غیر معمولی تھا ۔بیلچر  نے پورے عرصے کل ملا کر اتن

 باتیں نہیں کی تھیں جتنی اس نے آج کردی تھیں۔ یہ شائد گولیوں کی گونج تھیں جس نے اسے اتنی باتیں کرنے پر مجبور کر دیا تھا اور جس انداز سے وہ شروع ہوا تھا ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے رات بھر اپنے باتیں کرتا رہے گا اور قصے سناتا رہے گا۔ ہم اس کے پاس ہونقوں کی طرح کھڑے تھے۔

  اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی جا چکی تھی۔وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ڈونوون نے نوبل کی طرف

 دیکھا۔ 

نوبل نے سر کو جنبش دی تب ڈونوون نےاپنا ویبلی بلند کیا، ٹریگر  لوڈکیا تو بیلچر  نے عجیب و غریب قہقہہ

 لگایا۔ ہم اس کے اس قہقہے کی وجہ نہ جان سکے۔ 

مجھے معاف کر دہ میرے پیارے دوستو ! مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں خواہ مخواہ بہت بول رہا ہوںاور

 یہ بیوقوفانہ ہیں۔ میں اس گھر میں بہت خوش تھا اور مطمئن تھا ۔ نہ جانے یہ تمام باتیں میرے ذہن

 میں کیسے آ گئیں۔

کیا تم آخری وقت دعا نہیں کرو گے؟  ڈونوون نے پوچھا۔

میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت کوئی دعا اثر کرے گی اور یقیناً تم اپنا کام جلد ختم کرنا چاہتے ہو۔بیلچرنے

 کہا۔

تم جانتے ہو کہ ہم اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔  ڈونوون نے کہا۔ 

بیلچر نے اپنا سر  ایسے اوپر کیا جیسے کوئی اندھا شخص اٹھاتاہے۔ ہم اس کی ٹھوڈی اور ناک کا کچھ حصہ ہی

 لالٹین کی روشنی میں دیکھ سکے۔

میں خود بھی اپنی ڈیوٹی پوری طرح نہیں نبھا سکا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم اچھے انسان ہو ۔ اگر تم یہ باور

 کرانا چاہے ہو کہ تم مجبوری سے کر رہے ہو تو میں کوئی شکائت نہیں کر رہا۔ نوبل اس سے زیادہ اس کی

 ذباتی باتیں برداشت نہیں کر سکتا تھا، نے اپنی کلائی ڈونوون کی طرف اٹھائی  اور اسی لمحے اس نے اپنے ویلبی سے گولی داغ دی۔ دیو قامت نوجوان بیلچر گندم کی بوری کی طرح ڈھیر ہو گیا اور اس کےلئے

 دوسری گولی کی ضرورت نہ پڑی۔ 

مجھے ان کے دفنانےکے عمل کا پتہ نہیں لیکن  جو کام ابھی رہ گئے تھے  وہ بھی بہت  برا تھےکیونکہ ہمیں

 ان  دونوں کو اب  قبر میں اتارنا تھا۔ یہ سب پاگل پن تھا ۔ ہمارے پاس اور کچھ نہیں تھا صرف ایک لالٹین  جس نے ہلکی سی روشنی کی ہوئی تھی اور کھودنے والے اوزار تھے۔۔۔ پرندے فضا میں اڑ رہے تھے اور شور کر رہے تھے۔نوبل نے ہاکنز کی تلاشی لی اور اس کی جیب سے اس کی ماں کا خط نکالا۔ اس کے بعد ان کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔بیلچر کی تلاشی کے بعد اس کے لئے بھی دعا مانگی۔ جب ان کو قبرمیں اتار دیا تو ڈونوون نےبیلچے کو چھجے میں رکھنے کا بول دیا۔ رستہ بھر ہم خاموش رہے۔ کٹیامیں اسی طرح اندھیرا تھا   ، اسی طرح ٹھنڈا تھا جیسے ہم چھوڑ گئے تھے۔ 

بڑھیا موتیوں کی مالا ہاتھ میں لے کر بیٹھی تھی۔ ہم اس کے پاس سے گزر کر کمرے میں چلے گئے۔

نوبل نے لیمپ جلانے کے کئے ماچس جلائی۔

تم لوگوں نے ان دونوں کے ساتھ کیا کیا؟ بوڑھی نے پوچھا۔

 تم نے کیا کہا ۔ نوبل نے بغیر مڑے پوچھا۔ 

 میں نے تمہاری باتیں سن لی تھیں۔ بڑھیا نے کہا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے تمہیں نہیں سنا۔

نوبل نے دوسری تیلی جلائی اور لیمپ جلا دیا۔

کیا  تم نے اس کے ساتھ یہ کیا۔ اس نے اپنی گردن پر چھری چلانے کے انداز میں کہا اور دروازے

 میں گھٹنوں پر گر پڑی اور ان کے لئے دعائیں مانگنے لگی۔ پرندے اور خونی ستارے وہاں سے دور

 تھے۔ اور جہاں تک میرا تعلق ہے  تو میری حالت ناقابل بیان تھی۔ میں پوری طرح گم  اور تنہا تھا

 ایک ایسے بچے کی طرح جو برف میں گم ہو گیا ہو ۔ اس کے بعد زندگی نے میرے ساتھ جتنا بھی برا

 سلوک کیا  اور مصائب آئے  اس جیسی  صدمے کی کیفیت مجھ پر کبھی  بھی طاری نہ ہوئی تھی۔

 

تجزیہ

 

ملت کے مہمان (گیسٹس آف نیشن) فرینک او کانر  کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں بیک وقت جذبہ

 حب الوطنی، ذمہ داری، دوستی، بے وفائی، رشتوں کی اہمیت جیسے موضوعات کو خوبصورت انداز

 میں پیش  گیا ہے۔

فرینک او  کانر نے اس کہانی میں قومی شناخت ، مذہب، روحانیت  اور مادیت پرستی ، جنگ اور فرائض

 اور خاندان  کی اہمیت کے بارے میں بیان کیا۔

علاوہ ازیں فرینک۔  او ۔کانر  نے اس کہانی میں بہت سے پہلوؤں کو بیان کیا ہے۔، مذہبی، اقتصادی 

،معاشرتی  اور وفا جفا  کےموضوعات  کو اجاگر کیا ہے۔انگلستان اور آئر لینڈ ایک ملک کی دو ریاستیں ہیں۔ اگر کوئی ملک ان پر حملہ آور ہو تو وہ  مل کر یک جان ہو کر ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔دشمن کو شکست   دے کر جشن مناتےہیں۔ اس صورت میں وہ ایک قوم ہیں اور ایک ملت ہیں۔ 

یہ کہانی اس دوران لکھی گئی جب جب بیسویں صدی میں آئر لینڈاپنی جنگ آزادی لڑ رہا تھا۔ وہ

 انگلستان کے چنگل سے چھٹکارا چاہتا تھا۔ آزاد اور خودمختار سلطنت کے طور پر دنیا   کے نقشے پر اپنی جگہ

 بنانا چاہتا تھا۔ ان کی باؤنڈری حال ہی میں تقسیم کی گئی تھی۔ یہ کہانی ڈرامائی انداز میں انگریزوں اور

 آئرش کے مابین قومی شناخت کا تجزیہ کرتی ہے۔ 

 تنازعات میں مذاہب بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک سطح تک اس میں اختلافات برداشت کئے جا

 سکتے ہیں۔ اس کے بعد  نوبت قتل و غارت تک  پہنچ سکتی ہے۔

اس کہانی میں  او  کانر   مذہب اور کمیونزم  میں امتیاز کرتا ہے۔ہاکنز ایک ملحد ہے۔ وہ مادہ پرست ہے جو

 اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ تمام دنیا میں جو واقعات ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سرمایہ کاروں کی 

ہوس دولت ہے۔ جس قسم کا اقتصادی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اور

 تمام دنیا کو متاثرکرتے ہیں۔

اس کاخیال ہے کہ سرمایہ داری نظام نے  مذہب اور پادری      کو  جکڑ رکھا ہے اور اس سےعوام الناس کا

 استحصال کیا جا رہا ہے۔۔ 

 مختلف انداز فکر میں ایک نظریہ  بوڑھی خاتون کا بھی ہے   اس کے روحانیت اور انسانی مصائب کے

 بارے میں  تصورات  نوبل اور ہاکنز  سے مختلف ہیں۔ وہ  رومی اور یونانی دیوتاؤں پر یقین رکھتی ہے۔

 جنگ عظیم دوم   اور قحط کی اصلی وجہ دیوتاؤں کی ناراضگی قرار دیتی ہے۔ 

اس نے آئر لینڈ کی آزادی کی تحریک میں جو کہ کئی دہائیوں تک جاری رہی ، کی تلخیوں کا ذکر کیا۔

 بوناپارٹ ، نوبل ، بیلچر اور ہاکنز اپنی اپنی سطح پر انگریزوں اور آئرش کے درمیان جنگ کو  بدنصیبی

 قراردیتے ہیں۔ ایک ملک اپنے ہی لوگوں کو مارہا ہے، کو برا سمجھتا ہے۔ ایک ہونے کے باوجود  جب 

ان میں اختیارات کی تقسیم پر  اتفاق رائے نہیں ہوتا تو وہی قوم بٹ جاتی ہے اور ایک دوسرے کی جانی

 دشمن ہو جاتی ہے۔ ہر فوجی اپنی ریاست کا  وفادار ہو جاتا ہے۔اس کی حب الوطنی ملک کے لئے نہیں   رہتی بلکہ اپنے علاقے تک محدود ہو جاتی ہے۔ متحارب گروہ ان کے لئے باغی یا غدار کا درجہ

 اختیار کر لیتا ہے۔ 


 روز مرہ زندگی کی معاشیات  پر بحث مباحثہ بھی ایک کبھی ختم ہونے والی حقیقت ہے۔ سرمایہ داررانہ

 نظام، کمیونزم اور سوشلزم  اور مذہبی اقدار کے تحت اقتصادیات پرہر ایک کے خیالات ہیں جو

 انفرادی  ا ور ملکی ضروریات کے تحت  لاگو کی جاتی ہے۔یہ بھی اختلافات کا باعث بنتے ہیں۔ ہاکنز اور

 نوبل ایک ہی مسئلے کو دو انتہائی مختلف انداز میں تشریح کرتے ہیں  لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے

 کے ساتھ دوستی برقرار رہتی ہے۔ 

اس کہانی میں اس نے گھر کی اہمیت بیان کی۔ اگرچہ یہ کہانی جنگ کے دروان ترتیب دی گئی  لیکن اس

 میں اس نے  سادگی اور گھریلو  رنگ کی جھلک دکھائی۔ اس میں رحمت  اور نعمت پائی گئی ہے۔  بیلچرگھریو

 معاملات سلجھانے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ہے ۔ اس کی خانگی حیثیت بکھر چکی ہے۔ اس کی

 کوئی فیملی نہیں ۔ اس کی بیوی اسے چھوڑ گئی۔ اس کے بچوں کو ساتھ لے گئی ہے۔ وہ خاندان کی اہمیت

 کو سمجھتا ہے اس لئے وہ اس خاتون کی مدد کرتا ہے اور وہ اس بات کو بیان کرتا ہے کہ گھر وہ نہیں جہاں

 تم پیدا ہوئے یا رہتے ہو بلکہ وہ ہے جہاں تمہارا دل پایا جاتا ہے۔ جہاںجذبات وحساسات پائے جاتے

 ہیں۔  وہ گھریلو زندگی کا پیاسا ہے۔ خواہ وہ کسی اجنبی                  کے                       گھر سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ وہ تاش کھیلنا

 پسند کرتا ہے۔وہ ہر ایک سے پیار سے ملتا ہے۔ کم گو ہے۔ ٹھنڈے مزاج کا مالک ہے۔وہ اس وقت   

 بھی  اپنے  سے پورا یقین ہوتا ہے کہ اس کا آخری وقت آ پہنچا ہے۔ اس کی سوچ بہت مثبت ہے۔

احکامات بڑی دیانتداری سے سرانجام دیتاہے۔ 

اس کہانی میں تمام فوجیوں کی  معاشرت کم و بیش ایک ہے ۔ رسوم و رواج  یکساں ہیں۔ علاوہ ازیں

 ہر علاقے کے لوک رنگ اور تہوار کو سیکھا جا تا ہے۔ اس سے ان میں یگانگت پیدا ہو تی ہے۔ اسی وجہ

 سے ان فوجیوں میں بھائی چارہ کی فضا قائم ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے گہرے دوست بن

 جاتے ہیں۔ اس لئے جب انگریزوں کو مارنے کا حکم ملتا ہے تو وہ دل سے چاہتے ہیں کہ وہ بچ جائیں۔

 اگر وہ فرار حاصل بھی کرنا چاہیں تو ان پر گولیاں نہ داغیں۔  جب وہ مر جاتے ہیں تو وہ صدمے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 

وفا اور جفا بھی ایک اہم وصف ہے۔بیلچر خطرناک سے خطرناک معاملے کو بھی بڑی استقامت سے

 لیتا ہے۔ وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ ٹھنڈے دل سے ہر دکھ برداشت کرتا۔ مثبت سوچ کا مالک ہے  اور اپنے خلاف ہونے والے عمل کو بھی آئرش فوجیوں کی ریاست سے ذمہ داری کے روپ میں لیتا ہے اور ان کو معاف کردیتا ہے ۔ اس کے برعکس اس کا ساتھی ہاکنز ایک ابن الوقت ہے۔ اپنا موقف بدلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی فوج سے دھوکہ    کر نے  کی پیشکش کرتا ہے اور آئرش کی طرف سے گوروں کے خلاف لڑنے کا سوچتاہے۔ ایسا شخص کبھی بھی قابل اعتبار نہیں ہو سکتا  ۔ اگر وہ گوروں کو دھوکہ دے سکتا ہے تو ہر کسی کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔ 

اس افسانے سے اہم ترین نتائج جو اخذ کئے جاتے ہیں ۔

مسلح افواج میں نظم و نسق  کی پابندی   لازم ہے۔ اس سے وہ  ایک منظم طریقے سے اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکتے ہیں۔قومی اور اداراتی مقاصد کے سامنے ذاتی مقاصد پیچھے  رکھ دئیے جاتے ہیں۔ 

اپنے ملک کی حفاظت ان کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے آگے رشتے ناطے ہیچ ہیں۔ وہ بات جو ملک کے لئے اہم ہو ، اسے نتائج کی پرواہ کئے بغیر ادا کیا جاتا ہے۔

ہر  شخص اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اس کے لئے  ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے خوشی  سے ہر دم تیار رہتا ہے۔ عزم، سالمیت  اور یک جہتی  کا سبق دیتا ہے۔

وفاداری اہم ترین وصف خیال کی جاتی ہے۔ وہ شخص جو اپنے  ملک کو دھوکا دے سکتا ہے ۔ وہ بالکل نا اعتبار ہے۔ وہ کسی وقت بھی  عہد کی پا سداری  کے خلاف جا سکتا ہے۔



Frank O'Connor

 1903 - 1966

 Ireland 

 

حالات زندگی


  ُ  فرینک۔ او۔ کانر  ُ کا اصلی نام مائیکل۔او۔ ڈونوون  تھا۔ وہ17ستمبر1903کو آئرلینڈ کے شہر   ُ

 کورک   ُمیں ایک غر یب خاندان کے گھر پیدا ہوا۔  اس کی ماں برتن مانجھ کر اور دوسروں کے گھروں

 میں صفائی کرکے گزارہ کرتی تھی۔ اُسے چودہ سال کی عمر میں سکول چھوڑنا پڑا۔ اُس عمر تک اپنی

 فطری دلچسپی کی وجہ سے اس نے تمام شہرہ آفاق مقبول ادیبوں کو پڑھ لیا تھا اور خود لکھنا شروع کر دیا

 تھا۔ وہ سکرین رائٹر بھی تھا۔  س کی اہم تصانیف میں قابل ذکر درج ذیل ہیں:

 

  •  The Stories of Frank O' Conner (1953) 
  • Guest of a Nation
  • Collected Stories 
  •  The Oedipus Complex     
  • The Big Follow

 

         

اس نے جو فلمیں تحریر کیں وہ درج ذیل ہیں                                                 :                              


  •     Guest of a Nation  
  •  The Rising of the Moon

 

فرینک نے آئرلینڈ کی سیاست، مذہب، رسوم و رواج   پر لکھا ۔ وہ  کیتھولک  تھا۔

وہ  10مارچ   1966کوڈبلن  (Dublin)  آئرلینڈ میں ؎  فوت ہوا۔

 

ے گا۔می

Popular posts from this blog