قطرہ قطرہ قلزم Kurt Vonnegut........... Little Drops of Water

 





قطرہ قطرہ قلزم

Little  Drops of  Water

By

Kurt Vonnegut

مترجم :  غلام محی الدین        

اب لیری جاچکاتھا۔۔۔ہم جیسےچھڑے  عموماًتنہائی کاشکاررہتے ہیں۔اگرمیں اکلاپا محسوس  نہ کرتاتو لیری  وائٹ مین کا ہمراز  نہ بنتاجوایک لیجنڈ فنکارتھااورپیشہ ورانہ موسیقی اکیڈمی چلاتاتھا۔میں اس  کاہم پیشہ تھا  اور دوست  نہیں تھا  کیونکہ وہ ایک دوسرے  کے ساتھ موزوں  وقت گزارتے، اپنے دکھ سکھ میں  شریک ہواکرتے ہیں۔جوں جوں  ان کنواروں کی عمربڑھتی چلی جاتی ہےتوں توں انہیں اپنے ہمراہیوں کے انتخاب میں  مشکلات  پیداہونااشروع ہوجاتی ہیں اور دیگر معاملات  کی طرح ان میں  ہر بات  برداشت کرنےکا حوصلہ پیداہوجاتاہے بلکہ یوں کہاجاسکتاہے کہ یہ ایسی باتیں ان کے روزمرہ  معمول کاحصہ  بن جاتی ہیں۔لیکن جب لیری نے   معمول سے ہٹ کر   خودفریبی ،دھوکہ دہی اور خود نمائی  کےلئے میری عزت نفس مجروح کرناشروع کی  تومیں  نے اس سے کئی سالوں تک ملاقات ہی نہیں کی۔اس کے بعد جب  تعلقات بحال ہوئے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں لیری سے ہرمنگل  پانچ اورچھ بجے شام  اس کےگھرملاکرتاتھا۔یہ روٹین اتناپکاتھا کہ اگر عدالت  میں میری گواہی   بھی ہوتی اور مجھ سےاچانک یہ سوال پوچھ لیتاکہ تم فلاں تاریخ کو منگل کےدن پانچ سے چھ بجے کہاں تھے  تو میں آنکھیں بند کرکے بتاسکتاتھا کہ میں اس وقت لیری کےساتھ تھا۔جواب واضح تھا۔

یہاں مجھے اس بات میں اضافہ کرنےدو،وہ یہ کہ  خواتین سے دوستی مجھےپسند  تھی۔کرتاتھالیکن کنوارا رہنا میری اپنی پسند تھا۔تمہارے علم میں ہوگاکہ کنوارے کم وبیش اکثر تنہازندگی گزارتے ہیں لیکن میرا ماننا ہےکہ شادی شدہ مرد نہ  کنواروں سے نہ صرف تنہا ئی  بلکہ اضافی  ماتحتی    اورپابندی کی زندگی بھی گزارتے ہیں۔

جب میں کہتاہوں کہ مجھے خواتین  پسند ہیں تومیں بہت سوں کےنام بتاسکتاہوں  جنہیں میں نے جنون کی حدتک چاہا ہے   اور ان کی عادات بھی بتاسکتاہوں۔لیکن میں یہاں ان سے متعلق بات کروں گا جولیری  کی شاگردتھیں۔ لیری  ایک  عظیم فنکار تھا۔موسیقی میں وہ لاثانی تھا۔وہ شہرہ آفاق  گلوکار اور موسیقار تھا۔وہ نجی حیثیت میں ان فنکاروں کوجو موسیقی میں دسترس حاصل کرنا چاہتے ہوں  کی تربیت کرتاتھا۔اس کامارکیٹ میں

 نام بکتاتھااور اس کے گریجوایٹ کو کنٹریکٹ ملناشروع ہوجاتے تھے آناًفاناً عزت و

شہرت کی بلندی پرپہنچ جاتاتھا۔وہ بہت ہی                    مہنگا ٹیوٹر تھا  ۔اس کی شاگردیں جوان   لڑکیاں                  ہوتی تھیں جو گلوکاری میں کمال حاصل کرناچاہتی تھیِ  وہ    اشرافیہ اور امراخاندانوں سے  

آتی تھیں کیونکہ          وہ ہی  اس کی فیسیں اورنخرے اٹھاسکتی تھیں اور ہیری  سیشن شروع ہونے سے پہلے ہی فیس دھرلیاکرتاتھااس معاملے میں وہ ایک اچھامنتظم  بھی تھا۔

اس کی شاگردوں کاذکرآیا تومیرے ذہن میں  بہت  سی ذہین ،نوجوان حسینائیں آئیں جواس کی عقیدت مندتھیں ۔گلوکاری  میں کمال حاصل کرنے کے لئے اس کے پاس آئیں اور اپنے ،قاصد میں کامیاب رہیں۔۔ان میں   ایڈیتھ ورینکن جس کاوالدشراب بنانےوالی فیکٹری کا مالک ؛جینس گرنی جوانڈیانا پولس  کے ہارڈوئرتاجر کی بیٹی ؛اور ملواکی  شہرکی ٹریس ورنر مشاورتی انجینئر کی بیٹی  ِ؛ ایلن سپارکس، بفلو کے ہول سیل سبزی فروش کی بیٹی  وغیرہ ۔وہ سب کی سب اس کی قدردان تھیں۔ان سب کی کئی اقدار مشترک تھیں جیسے  ان کو گلوکاری کا جنون کی حد تک شوق تھا، ان کی آواز اچھی تھی، نوجوان اور ملکہ حسن میں حصہ لینے کی اہل تھیں   اور داخلہ لینے سے پہلے اس کی  قدردان اوراپنے  والد کی طرح  اس کی  عزت کرتی تھیں ۔تعلیم کے دوران وہ اس کےعلم،ہنر اور شخصیت    سے مرعوب ہوکراسے دیوتاکا درجہ دینے لگتیں ، اسے رول ماڈل بنالیتیں اورفارغ التحصیل ہونے تک اس کی پجارن بن جاتیں اور اس کی قربت کی متلاشی ہوتیں اور ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ اسکے سب سے زیادہ قریب ہوجائے اوراسےقبول کرلےلیکن کےپاس شادی کے لئے وقت نہیں تھا۔

لیری بھی میری طرح کنواراتھا ۔میری دلچسپی بھی اس شعبے میں تھی اور دوستی ہوگئی ۔ میں بھی ان خوبصورت اورپرکشش حسیناؤں کوایک ایک کرتے ترتیب وارملتارہا۔

لیری نے اپنےاپارٹمنٹ  میں ایک سٹوڈیو بنایاہواتھاجہاں وہ موسیقی کی مختلف جہتوں پر عالمانہ لیکچر دیتااور ریاض کرواتاتھا۔وہ اپنے فن سے والہانہ محبت کرتاتھا۔اسے روپے پیسے کی کمی نہیں تھی لیکن وہ فن کی خدمت کرناچاہتاتھا۔اس کے لئے اس نے ایک اکیڈمی کھولی تھی جہاں ایک سیشن میں چند ایک لڑکیاں ہی داخل کی جاتیں۔

لیری  کادل نرم گرم برفی کی طرح کاتھا۔وہ کینیڈا کی رائل فورس کے جوانوں کی طرح بھاری بھرکم شخص تھا۔وہ ماہرگلوکاراور موسیقی کےآلات اچھی طرح  بجالیتاتھا۔اس کی شخصیت اور ہنرایسے تھے جس سے سب  مرعوب ہوجاتےاوراس بات پر یقین کرلیتےکہ وہ اپنےانگوٹھے اور اگلی انگلی  کے درمیان   طاقتور راک میوزک بجااورگاسکتاتھا۔ وہ انفرادی  سطح پر گلوکاری میں نکھارپیداکرنے کی خصوصی تربیت دیتاتھااور اس کے لئے بہت بھاری  رقوم بطورفیس لیاکرتاتھا۔اس کے پاس تربیت حاصل کرنے والوں کی  ایک لائن لگی رہتی تھی۔وہ ایک لیجنڈ تھااور اس کے اعزاز میں ہرسال بین الاقوامی  سطح پر  ایک  تقریب رکھی جاتی تھی اور اس کی  تخلیقی  د ھنوں، موسیقی پر تحقیقات  اور عالمانہ گفتگو  اورکارہائے نمایاں پرسیمینار منعقد کیاجاتااور ہرسال کسی اعزاز سے نوازا جایا کرتاتھا۔اس کی شاگرد بننا ایک اعزازتھا۔اس کے فارغ التحصیل گلوکار جب عملی قدم رکھتے تو ان کو گانے کی پیشکشیں ملناشروع ہوجاتی تھیں۔

میں نے ذکر کیا کہ اس کے شاگرد ناگزیرطورپر اس کی محبت میں گرفتارہو جاتی   تھیں۔ اگر کوئی سوال کرے کہ وہ کس طرح اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتی تھیں ' وہ کیسے  اس  کےچکر میں پھنس جاتی تھیں ؟'اس کے چکر  میں آنےسے کیامراد ہے؟کے عمل کی میں پہلےہی وضاحت کرچکاہوں۔اس کی بات بنی ہوئی تھی۔

اب آتے ہیں  اس کی ایک شاگرد  'ایلن سپارکس' کی طرف جو  بفلوکے ہول سیل فروٹ مرچنٹ کی بیٹی تھی اور جس پر یہ کہانی لکھی گئی ہے۔

ایلن سپارکس        نے جب لیری سےاپنے پورے   جنون و جذبہ سے تعلیم حاصل  کرناشروع کیاتو           اس کی  دیگر شاگردوں کی طرح وہ  اس  کے علم،تجربے اورمہارت  کے سحر میں مبتلا ہوگئی۔پہلے پہل اسےایک باپ کی طرح لحمیہ  کاکرداراداکرنے والاسمجھا۔اسےمقدس سمجھنےلگی اور اس کی بےحد عزت کرنےلگ گئی۔رفتہ رفتہ یہ جذبہ تبدیل ہوکر ایک لیجنڈ

کاروپ دھارلیاپھر اس کے دل میں جگہ  بناناشروع کردی  اسےمحبوب بنالیا۔اس درجے میں وہ فارغ التحصیل لڑکیاں لیری سے    مستقل پیارکی جستجومیں لگ جاتیں۔جس میں  درحقیقت اس بات سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہوتاتھا کہ وہ گلوکارہ تھیں یابن رہی تھیں  بلکہ محبت کےچکرچلائےجاتے تھے۔اس دور میں   لفاظی اور چرب  زبانی  کے خارجی اظہارمیں زبانی کلامی شادی کااقرارکئےجاتےتھے۔

لیری کی  کبھی چھوٹی سی داڑھی ہواکرتی تھی جولوگ کہتے تھےکہ وہ ایک  خوش قسمت کتے کی طرح تھی اور اس سے وہ اپنی شاگروں کا قلعہ فتح کرلیاکرتاتھا۔ایڈیتھ۔جینی، بیٹریس اورایلن ۔۔۔ تازہ ترین  گریجوایٹس تھیں۔ان تمام سےلیری نےعشق  کیاتھااور جواباًانہوں نے بھی اس سےمحبت کی تھی۔ لیری نے ان سب   کواستعمال کر کےچھوڑ دیا تھا۔وہ سب کی سب امیروکبیر،پرکشش اوربلاکی حسینائیں تھیں۔ان کےعلاوہ بھی تھیں  جوان سے ہرگز کم نہیں تھیں۔اس کے لئے وہ ایسی مسافروں کی مانندتھیں جواپنی منزل پراترجایاکرتی تھیں۔مسافرچڑھتے اترتےرہتے تھے ۔ان میں نیویارک  سےبھی  لڑکیاں  آتی تھیں ۔

لیری کی زندگی،دیگر کنواروں کی طرح  تھی لیکن بہت منظم تھی۔ایک ایک منٹ  کی مصروفیت تھی۔اس نے اپنی شاگرد لڑکیوں کےلئے سوموار اور جمعرات کی شامیں مقررکی ہوئی تھیں ۔ان میں وہ عملی تربیت کیاکرتاتھا۔ وہ انہیں گاناسکھایا کرتاتھا ۔ نظریات کاعلم دینے کےلئے دن مقررتھے،ایک دن کھانے اور دوستوں کےلئے ، ایک دن ریاض کےلئے ۔۔۔ایک دن   حجام کےلئے۔اور ایک دن  میرے ساتھ کاک ٹیل کےلئے مخصوص کیاہواتھا۔وہ ہرکام مقررہ دن اورمقررہ وقت پرہی کیاکرتاتھا۔اس نےاپناایک سٹوڈیو ایسابنایاہواتھاجیساکہ وہ چاہتا تھا۔جس میں ہرایک کےلئے جگہ تھی اوربھکاریوں کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی اور اس کی نگاہوں میں کوئی شئے بھی غیرضروری  نہیں تھی۔جبکہ شادی  کرنے کی طرف وہ کبھی نہ آتاتھا۔اس معاملے میں کسی کی مداخلت   نہیں  کرتا تھا ۔ شادی کےلئے اسے وقت دیناناممکن ہوگیاتھا۔   کیا کوئی اسے ہمیشہ کےلئے پکڑپائے گااور اس  کو ایک  سچی  محبت   کرنےوالانہیں بناپائے گا۔آہ!لیری کہاکرتاتھاکہ ۔۔۔اچھا۔اس سےپہلے کہ وہ مجھےاپنےجال میں پھنسائیں ان کومجھ پر لگے زنگ کواتارنا پڑےگا ۔مجھے اپنااوورہال کرناہوگاجو ناممکن تھا۔ میں اپنی آرام دآ رائش   اورعادات کوجوپختہ ہوچکی تھیں  ،پسندتھیں اور انہیں چھوڑنا           نہیں چاہتاتھا۔ یہ اطوار میرے لئے خوش کن تھے۔یہ میری تکونی تہہ تھی۔یہ میرے  خول  اور میراآتشیں اسلحہ تھا۔لیری کے ان افکار کوبدلنا ممکن نہیں تھا۔لیری کایہ رویہ سچائی کےقریب تھااور اس کی شادی کےبندھن میں جکڑجانے کادوردورتک شائبہ نہیں تھا۔

اس وقت ایلن سپارکس        لیری کے بہت قریب تھی اورلیری کی جنت کی اہم ترین محبوبہ شمارکی جاتی تھی۔اس نے 'بیٹرکس ورنر' کوچندماہ پہلے چھوڑدیاتھااور اب  ایلن بھی اپنی پیش  روؤں سےمختلف  نہیں تھی اوراس سے پیارکی پینگیں بڑھاکر  پیارومحبت کے مرحلےطےکرچکی تھی۔

 ایک محفوظ فاصلہ رکھ کر  میں ان کے روابط کونوٹ کیاکرتاتھا۔میں نے ان کاجائزہ اس وقت سے لیناشروع کیاتھاجب  'ایلن سپارکس' نے لیری  کو احترام اورعقیدت  کادرجہ دیناشروع کردیاتھا۔ اور لیری  باپ کی طرح       کاکرداراداکرنے لگاتھا۔ مجھے اس کی شکارلڑکیاں  مجھے اس کا دوست سمجھ کر  لڑکیاں مجھےبتایاکرتیں کہ ان کی تربیت اوردیگر معاملات کیسے جارہے تھےاوراپنی ترقی اوربہتری کےلئے مجھ سے مشورے مانگتی تھیں ۔ ان کاخیال تھاکہ میں اس بات کااہل تھاکہ صائب مشورے دے سکوں کیونکہ میں ہمیشہ جوہرپرکھ کربتاسکتاتھاکہ وہ ہیرا کس قدرقیمتی ہے اوراسے اعلیٰ فنکاربننے میں اس میں کتنی صلاحیت ہے ۔اس کی کامیابی  کے مواقع کتنے ہیں اور وہ اچھی گلوکارہ کیسے بن سکتی ہے۔ اور میری رائے کااحترام کیاجاتاتھا۔

میں نے ایلن سپارکس سے بھی بہت کچھ کہاجوبےحد خوبصورت  اور امیرتھی اور اچھی

گفتگوکرتی تھی جوخوشگواراور پسندکی جاتی  تھی لیکن جب  وہ گاتی توایسالگتا کہ اس کونزلہ

زکام تھا۔وہ ناک میں گاتی تھی۔

لیری نے موسیقی میں نیاتجربہ کیاتھا جس میں  وہ ساز جو یہودی استعمال کرتے تھے وہ انہیں اب  اطالوی  راک میں استعمال کررہاتھاجو روزبروز مقبول ہورہاتھا۔  اب  گیت اطالوی   مغرب کے لب و لہجے میں گائےجانے لگے تھے۔ایلن وہ انداز سیکھ رہی تھی۔ لیکن اس  نے جو لب ولہجہ اختیارکیاہواتھاوہ  موسیقی  کےاصولوں کے مطابق نہیں تھابلکہ عجیب ساتھا۔ایلن کوگاتے دیکھ کربڑامزہ آتاتھا۔بحثیت مجموعی ور انداز اچھالگتاتھا۔وہ اپنی فیسیں  بغیر کہے ،بغیر مانگے  ایڈوانس  اداکردیاکرتی تھی ۔

ایک دفعہ میں نےاس سے پوچھ لیا کہ اس کےذہن میں گلوکارہ بننے کاخیال کہاں سے آیا  ؟اس نے کہاکہ وہ 1970 کےمشہورومعروف گلوکار 'للی پونز' سے بڑی متاثرتھی جوہر قسم کی موسیقی بجاتاتھا۔وہ راک سٹار تھالیکن موسیقی کی ہرصنف کاماہرتھا۔ایلن  کے پاس  ہرسوال کاجواب تھا۔اس کے پاس  وہاں قیام کرنے کی کوئی نہ کوئی معقول وجہ ضرور ہوتی تھی لیکن میراخیال تھاکہ وہ اپنےگھرکےماحول  سےدوررہناچاہ رہی تھی اور وہاں مزے  کرناچاہتی تھی جہاں  اسے کوئی نہیں جانتاتھا۔اس نےامکانی طورپر ڈرامے ، موسیقی   اور مصوری کی کلاسوں میں بھی داخلہ لیاہواتھا۔وہ ہرکام سنجیدگی سے سیکھتی تھی ۔وہ  اپنے والد کی دولت سے ایک   عالیشان شاہانہ  گھر  میں رہتی تھی۔اورباپ کی رقم سےبہت سے رسالے لگوائے ہوئے تھے۔ان رسالوں کودیکھتی اور ان میں سے کوئی مذہبی شئے نکالتی اور اپنے قیمتی پین سے حاشیے لگاتی تھی۔

 ایلن کومیں نےیہ کہتے ہوئے سناکہ وہ لیری سے محبت کرتی تھی اوروہ اس بات کووثوق سے نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ بھی اس سے محبت کرتاتھایاوقت بسری  کےلئے اسے استعمال کررہاتھالیکن اسکواپس پر نازتھاکہ وہ ایک لیجنڈ کےساتھ تعلقات میں تھی ۔لیری کی کلاسوں میں درس حاصل کرتے اسے صرف پانچ دن ہی ہوئےتھےکہ  اس کی عقیدت ،احترام اور تقدس لیری   کے لئے  لطیف جذبات میں تبدیل ہوگئے تھے۔اس کے نقطہ نظر سے اتنی  کم مدت میں ایک لیجنڈ سے تعلق ایک بڑی کامیابی تھی جس نے اس کامزہ دوآتشہ کردیا۔۔۔مراد لذت   ہنرمندی کے ساتھ ساتھ لذت لعاب ودہن بھی حاصل کررہی تھی۔میں نے اس  سے ان ایام کے بارے میں پوچھاجب لیری اس وقت دیتاتھا تو اس نے جواب دیاکہ سومواراور جمعرات کی شاموں کو؟  اس نے معنی خیز انداز میں نشیلی آواز میں کہا۔میراسوال آلات  اور گانے کی تربیت سےتھالیکن اس نے اسے رومانوی انداز میں لیا۔اس کے بعدوہ میری طرف حیرانی سے دیکھنے لگی۔'تم کون ہو۔کیاتم مفت میں مزے لینے والے شخص یا تانک جھاک  کرنے والے ٹھرکی ؟میری اس سے واقفیت میں اضافہ ہوتاگیا۔

چھ ہفتوں بعد اس نے اشاروں کنایوں میں   مجھے بتایا کہ وہ لیری  سے شادی کرناچاہتی ہے۔ میں   نےاس کاذکر لیری سے  کیا۔اس نے قہقہہ لگایااور چپ رہا۔سات ہفتوں بعداس کی تربیت ختم ہوگئی۔میں منگل کی شام لیری کےپاس گیاتو ایلن کواس کی کھلی چھت والی کار میں بدحال دیکھا۔وہ تقریباً ڈرائیونگ سیٹ پر لیٹی ہوئی تھی۔

میں نے اپنےتجربے سےجان لیاکہ اسکے ساتھ کیابیتی ہوگی۔لیری نے ایلن کی امیدوں پرپانی پھیر دیاتھا۔ یقیناً لیری نے اس سے شادی سے انکارکردیاہوگا۔ میں نے اس وقت یہی مناسب سمجھا کہ  اسےاس کےحال پر چھوڑدوں لیکن اس نےمجھےدیکھ لیااور اتنا اونچا ہارن بجایاکہ اس سے میرے بال ہلنےلگے۔

اچھا۔ایلن کیاآج تم گریجوایٹ ہوگئیں۔کیاآج تمہاراکورس ختم ہوگیا۔میں نے اس سےپوچھا۔

طنزجاری رکھو۔مجھ پرہنسو۔ایلن نے کہا

میں   ایسی کوئی بات نہیں کررہا۔

تم بھی اس میں شامل ہو۔اس نے تلخی سے کہا۔تم وہ ہوجودوسروں کےبارے میں سب

جانتا  ہے۔ تمہیں علم ہےکہ آج سےپہلےلیری نے لڑکیوں کےساتھ کیاکیاتھا۔ وہی آج میرے ساتھ ہواہےاور کل  کیاہونے والاہے۔کیاایسانہیں؟

مجھےبخوبی علم تھاکہ لیری کی شاگردیں لیری کی کیسےگرویدہ ہوجاتی تھیں اورکررہی ہیں۔ کیسے تمام  حدیں پارکردیتی تھیں       اوراب بھی کررہی ہیں۔اور پھرجب لیری انکی امیدوں  پرپانی پھیردیتا تھاتو پہلے پہل تلملاتیں  اور پھرآہستہ آہستہ الگ ہوجاتی تھیں۔ میں نے محسوس کیاکہ  یہ دھان پان سی لڑکی  لیری کے فیصلے  کوقبول نہیں کررہی تھی۔  وہ اسے چھوڑنانہیں چاہتی تھی ۔

تم اچھی طرح جانتی ہوکہ وہ کتنامصروف شخص ہے۔میں نے کہا۔

اس نے کہاہےکہ موسیقی ہی اس کی روزی روٹی ہے۔وہی اس کاپیشہ ہے۔اسےاس  پرپورا اس دھیان دیناہوتاہے۔وہی  اس کی رکھیل ہے۔ایلن نےبھرائی ہوئی آواز میں کہا۔اسکی اس بات نےمجھےکیاسےکیابنادیاہے۔اس نے مجھے وحشااور رنڈی کہہ دیاہے۔

میرے خیال میں لیری  کویہ بات نہیں کرنی چاہیئے تھی ۔میرامانناہےکہ  اس نے  علامتی طورپر  تمہیں رنڈی   کہہ دیاہوگا۔میں نے اسے سمجھانےکےلئےاسےکہا۔ایلن!تم جوان ہو۔حسین  ہو۔ فنکارہو۔صاحب ثروت ہو۔تم اس بات کی مستحق ہو کہ تمہیں اچھابرملے جوتمہارا ہم عمرہو۔

عمرشمر!یہ گھٹیاسوچ ہے۔میں لیری  کی  مستحق ہوں۔ایلن نے کہا۔

اگرتم  اس بیوقوفانہ سوچ پرقائم  رہی توبھی لیری کونہیں پاسکتی۔میں نےکہا۔تم نیویارک   

جاؤاو ر کسی اوپرا میں شمولیت کرلو۔تمہاری ترقی کےامکانات بہت روشن ہیں ۔ اشتہارات  وغیرہ  مل جائیں گے۔میں نےرائے دی۔

میں واپس آؤں گی۔اس نےمنہ پرچیلنج کےانداز میں ہاتھ پھیرااور گاڑی چلادی۔

جب میں   لیری کےداخل ہوا تواس کی  پیٹھ میری طرف تھی۔وہ کاک ٹیل بنارہاتھا۔

'آنسو' اس نے کہا۔

کیااس میں کوئی شبہ ہے؟ میں نےجواب دیا۔

اس کےلئےاچھارہےگا۔لیری نےکہا۔اس نے مجھے جوکہا،مجھےان پریقین نہیں۔جب وہ روتی ہیں تومیں خودکوکمینہ محسوس کرتاہوں اس نے  ہاتھ جھٹک کربے بسی سےکہا۔۔ ۔ پرمیں کیاکروں؟ میرا پیشہ ہی میری باندی ہے۔

میں جانتاہوں۔اس نے بھی مجھے یہی بتایاتھا۔بیٹریس، جینی، ایڈتھ  اورباقی لڑکیوں کی بھی یہی  کہانی تھی۔وہ توچلی گئیں لیکن ایلن نے چیلنج کردیاہے۔وہ ان سب سےالگ ہے۔

واقعی؟ کتنی غیرمعقولانہ بات اس نے کی ہے۔دیکھتے ہیں ،آگے کیا ہوتا ہے۔ ا نتظار کرتےہیں۔

لیری کاخیال تھاکہ موسیقی میں گریجوایشن کےبعد ایلن  نیویارک  چلی جائےگی۔اس

کے پاس ہنربھی تھااور وسائل بھی۔وہ جلد ہی مقبول ہوکر اس شہرمیں لوٹے گی تووہ اسےبہترین ہوٹل میں ڈنردے کراسے اعزاز بخشے گا اوراس کےفن کوسراہےگا۔اس کے نزدیک  یہ مقام  اس سے صرف چند ہفتوں  دورتھا ۔۔۔یہ عجیب بات تھی کہ لیری  اکثراس ر یستوران  میں پایاجاتاجو ایلن کو پسند تھا۔

اس  میں کوئی شک نہیں تھاکہ  لیری اور میری متفقہ رائے کے مطابق وہ بہتر شخص کی مستحق تھی جواس کاہم عمرہو۔ہمارے نزدیک اسے ایسے شخص کاانتخاب کرناچاہیئے جو غمگسار، ملنسار او ر اس سےدیوانہ وار محبت کرنےوالاہو۔کھانے کےوقفے میں اس کے خیال میں ڈوبارہے اور اسے ٹوٹ کر چاہے۔سابقہ  شاگردوں میں   لیری کوحاصل کرنے کی کسی میں اتنی شدید خواہشات     کبھی نہیں  پائی جاتی تھیں۔

جب       بھی  ایلن  کےمنیجر اس کی گلوکاری کی بکنگ کے  چیک پیش کیاکرتا  تووہ بےچین ہوجاتی ۔وہ یہ سمجھتی کہ وہ پیشکش اس کےشایان شان نہیں تھی۔

ایلن اپنے ساتھی کےساتھ  اور میں جب بھی   اتفاقاً  اس  ریستوران جومیرابھی  پسندیدہ تھا میں بیک  وقت داخل ہوتے تووہ ہلکاساسر ہلاکر مجھےنظراندازکردیاکرتی تھی ۔وہ سمجھتی تھی کہ   اسے بےعزت کرنے میں میں  لیری کامددگارتھاجویکسر غلط خیال تھا۔

کچھ دنوں بعداس نےہمعمر جوانوں  کےساتھ آناچھوڑدیا اور اکیلی آنے لگی اوراپپنابل خود

 ہی اداکرنےلگی۔پھرایک دن  میرےلئے بڑےاچنبھےکی بات ہوئی کہ وہ میری ساتھ والی کرسی پر بیٹھی نظرآئی۔اس نے اپناگلا مسلس صاف کرناشروع کردیا۔میں اس وقت اخبارپڑھ رہاتھاجوپڑھنا  ناممکن  ہوگیا۔

اس نے سردمہری سے پوچھا:تم کیسےہواور تمہارا کیاحال چال کیسا رہا؟ کیااب بھی تم مجھ پرقہقہے لگاتے  اور دوسروں کاٹھٹھہ اڑاتے ہو؟

اچھا،جس طرح میں رہتاہوںاور سانس لیتاہوں۔جس طرح یہ سچ کہ میں زندہ ہوں ، یہ بات سوفیصد صحیح ہے کہ میں نے اس وقت  اس  کے اس فقرے اورمنظر سے  پہلےاتنا خوبصورت  نظارہ نہیں دیکھا۔

میں  نے اس کی بات  کاجواب  گول مول طریقے سے دیا اور کہا اوہ۔ہاں۔حالات بہت زیادہ سادیت پسند ہوگئے ہیں ۔ہم  دوسروں کواذیت پہنچا کر خوش ہوتے ہیں  ۔اب ان میں مزیدتیزی آگئی ہے۔  لگتا ہے کہ حالات پہلے سے بھی خراب ہونے والے ہیں  کیونکہ تم جانتی ہوکہ نیوجرسی سے اس نےمقدمہ جیت لیاہے  اوراس  کی تخلیقات اور تجرباتی  طرز موسیقی  کوتسلیم کرلیاگیاہے۔انڈیانااور ویومنگ اسے قانونی بنانے پرسوچ رہے ہیں۔میں نے کہا۔

اس نے سرہلایا۔اس کا مطلب کہ ایک خاموش رہنےوالا شخص  گہرائی  میں   ہی ہےاس

نے معمے کے انداز میں کہامراد یہ کہ وہ شادی کےبارے میں نہیں سوچ رہا۔

وہ میرےلئےبھی معنی  رکھتاہےایلن۔میں نے کہا۔

میرےلئےبھی۔اس نےکہا۔

اوہ۔چھوڑواسے۔مجھے یقین ہے کہ تم اس حادثے سے سنبھل چکی ہوگی۔لیری اب تمہارے لئے بیکارہے ۔وہ خود غرض ہےاوراپنےمعدےکوکمربندکے ساتھ رکھتاہے۔

اس نےاپنےہاتھ پکڑلئے۔'نہیں،نہیں'،مجھے پوسٹ کارڈ وں اور گاڑی کے ہارن  بجانے  کےبارے میں بتاؤ کہ وہ ان کےبارے کیاکہتاہے؟

پوسٹ کارڈ اور ہارن بجانا؟میں اس بارے میں کیاکہتاہے؟میں نے حیرانی  سے کہا۔اس نے ان کےبارے میں تومجھ سے کبھی کوئی بات ہی نہیں  کی۔

یقیناً۔اس نےکہا۔زبردست۔، بالکل درست۔ایلن نے کہا۔

مجھے افسوس ہے کہ اس معاملے سےمیں بےخبرہوں۔میں نےکہا۔

اس کاکیامطلب ہوا؟ اس نے پوچھا۔

میں متذبذب ہوں  ایلن۔میں اس سے اس بارے پوچھوں گا۔میری  دندان ساز ر سے   ملاقات طے  ہے ۔میرا   دانتوں کا مسئلہ  جتنی جلد حل ہوگیااتنا ہی میرے لئے  اچھا ہو جائے  گا۔

میرے پاس  معالج  کے پاس جانے میں کچھ  وقت تھا۔اس لئے میں نےسوچاکہ لیری سے اس سلسلے میں پوچھ لوں  کہ پوسٹ کارڈوں اور گاڑی کے ہارن ببجانے کاقصہ کیاتھا؟

 یہ  منگل کی چاربجے  والی سہ پہر تھی اورپروگرام کےمطابق  لیری  کو اس وقت حجام کے پاس ہوناچاہیئے  تھا۔جبکہ میری ملاقات اس روز پانچ سے چھ بجے  ہونی تھی ۔روٹین میں اس وقت اسے  حجام کےپاس ہوناچاہیئے تھا۔۔میں وہاں پہنچ گیاحجام سے کہاکہ بال کاٹے ۔ساتھ والی کرسی پر ایک شخص کے چہرے پرجھاگ تھی اور وہ اپنی داڑھی منڈوارہاتھا۔ پروگرام کے مطابق وہ لیری ہی ہوسکتاتھا۔میں اس سے مخاطب ہوااورپوچھا۔کیاایلن سپارکس اب بھی تم سے گہری محبت میں گرفتارہے؟

وہ لوگ جوسنجیدہ ہوتے ہیں وہ بہت گہراسوچتے ہیں۔وہ جانے کن سوچوں میں تھا۔اس نے میراسوال سن کرپوچھا۔ کون ایلن سپارکس  ؟

وہ جو تمہاری شاگرد تھی۔کیا تمہیں یادنہیں؟اس نے تم سے دوماہ پہلےگریجوایشن کی تھی۔کیا مصروفیت کی وجہ سے بھول  گئے ہو؟

ہرایک  کویادرکھنامشکل ہوتاہے لیری نےکہا۔

وہ چھوٹی سی لڑکی  جوبفلو سےآئی تھی جس کاوالد ہول سیل فروٹ مرچنٹ تھا؟ اب

یادآیا؟

اب شیمپوکرو ۔لیری نے حجام سےکہا۔

یقیناً۔اب  میں  نےیہی کرناہے۔حجام نےکہا۔

پوسٹ کارڈ اور ہارن بجانے کےبارے میں جانناچاہتی ہے۔میں نےکہا۔

پوسٹ کارڈ اور کارکاہارن؟ وہ کچھ  سوچنے لگا۔۔۔ان الفاظ نےمیرے ذہن میں کوئی گھنٹی نہیں بجائی۔مجھےاس بارے  کچھ یادنہیں آرہا۔اس نےاپنی انگلیوں کوچٹخاتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ارے ہاں!یاد آیا۔۔۔تم اسےبتادو کہ وہ اس طرح کی حرکات کرکے مجھے خواہ مخواہ پریشان کررہی ہیں ۔ہرروزصبح میرے پاس ایک کارڈ آتاہے ۔

اس میں کیالکھاہوتاہے؟ میں نےپوچھا۔

اسے بتاؤ کہ میری ڈاک  اس وقت  میزپررکھی جاتی ہے جب مجھے ناشتہ کرتے ہوئے چارمنٹ ہوجاتے ہیں اورمیں اس وقت انڈاکھارہاہوتاہوں۔۔ پوسٹ کارڈ سب سےاوپررکھاہوتاہے۔اسے دیکھے بغیر پہلے میں  اس کے دو، پھرچار،پھرآٹھ ٹوٹے کرکے ردی  کی نذرکر دیتاہوںمجھے دوردورتک علم نہیں کہ وہ کس کا ہوتاہےاوراسمیں کیالکھاہوتاہے۔لیری نےکہا۔

اور کارکےہارنوں کی آواز؟ میں نے پوچھا۔

وہ پوسٹ کارڈ سے بڑی  چال ہے اوراس سے زیادہ بھونڈی  ہے۔اس نےقہقہہ لگاتے

ہوئے کہا۔وہ ایک   مضحکہ خیزاورچڑانےوالی چیزہے۔اس نے قہقہہ لگاتے ہوئےکہا ۔ دوزخ میں کسی کےساتھ اتنی نفرت اور غصہ نہیں ہوتاہوگاجتنااس ہارن کی آواز  میں ہوتاہے۔ لیری نےکہا  ۔

کیایہ  بات تمہیں تکیف دیتی ہے۔میں نے پوچھا۔ 

دوزخ شائد اتنابرانہ ہوجتنااس  کی بیزاری۔اس کاوقت دوپہرکے اڑھائی بجے ہےجب میں ریاض کررہاہوتاہوں۔کوئی  شخص ہارن بجاناشروع کرتاہے ۔میں اپنے کام میں پورا دھیان نہیں دےپاتا۔طوعاًکرہاًاٹھناپڑتاہے ۔مسلسل پانچ منٹ تک ہارن بجتارہتاہے۔ لیری نےکہا۔میں معلوم کرنےکہ وہ کون  ہےاورکیاچاہتا ہے، اٹھتا ہوں  تووہ گئیر تبدیل کرکے بھاگ جاتاہے۔میراموڈ خراب ہوجاتاہے۔دوبارہ اس سطح پر پہنچنے کےلئے کافی وقت لگ جاتاہے۔ میں بہت حساس واقع ہواہوں لیکن اسے میری مطابقت کی صلاحیت معلوم نہیں ۔ پہلےپہلے تو الجھن ہوئی  لیکن اب مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اور میں اب اسے ٹرین  گزرنے کےشور کی طرح لینےلگاہوں۔میں ایک منٹ پہلےاس ہارن کے بارے  سوچ رہاتھا۔مجھے یہ علم نہیں تھاکہ وہ یہ سب کررہی تھی۔

ایلن کی آنکھوں میں خون اتراہواہے۔میں نےلیری کوبتایا۔

ویسے!تم میری نئی طالبہ کےبارے میں کیاکہوگے؟ لیری نےپوچھا۔اس کانام کرسٹینا

ہے۔اگر میں وقت  پرشادی کرلیتاتواس جتنی   عمرکی  میری بیٹی ہوتی۔اس کی قابلیت  اتنی ہے کہ کسی  وہ ویلڈنگ سکول میں ہی داخلےکےقابل ہے۔۔وہ صرف تماشائی بن سکتی ہے  گلوکارہ نہیں یاآرکسٹرا میں اس کامقام  زورزور سےاپنے  پاؤں زمین پر ردھم  سے مارنا اورسختی سےمنہ  بند رکھناہےلیکن اسے گلوکاری سیکھنے کاجنون کی حد تک شوق ہے۔لیری نےکہا  ۔

اس کی  یہ عادت تھی کہ وہ کسی بھی طالبہ کی صلاحیتوں کومثبت انداز میں پیش کرتاتھا۔ اگر کسی میں بہتری کی گنجائش ہوتی تو وہ اپنی طالبات کی صلاحیت  پربڑے محتاط انداز میں  تبصرہ  کیا کرتا تھالیکن کرسٹیناکےبارے میں طنزیہ لہجےمیں رائےدینامیرےلئے نیاتھا۔ 

دس سالوں میں کرسٹینا اس قابل ہوجائےگی کہ وہ ابتدائی نرسری گیت  گاسکے۔

تووہ تمہیں پریشان کرتی ہوگی۔میں نےپوچھا۔

نہیں۔ اس نے کہا۔وہ اپنی دھن  پرہی سواررہتی ہے۔

میں نےکہا۔میں ایلن کےرویے سے لگتاتھاکہ وہ اس کا غم وغصہ  انتہائی درجے پرتھااور وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتی تھی اور اس کی تقریب میں پھڈاڈالنے کئے سب کچھ کرسکتی تھی۔

اس وقت حجام کی دکان کافون بجا۔حجام اس کوسننےکےلئے جانےلگاتووہ بندہوگیا۔

 

اس نے اپنے کندھے جھٹکے۔ہرروز ایسی عجیب و غریب چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ جب بھی

مسٹرلیری وائٹ مین یہاں پرموجودہو،ایساہی ہوتاہے۔

یہ سن کرلیری  نے کہاکہ یہ بات اس دکان تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ شرمیرے گھرپر بھی ہوتاہے۔رات دوبجےمیرے بستروالافون بجاکرتاہے۔فون اٹھاکر'لیری وائٹ مین' بول کرکہتاہوں کہ میں مردے کی طرح سورہاہوں۔۔۔میں ریسیوراٹھاتاہوں توفون بندہوجاتاہے۔اسےکہو کہ ایساکرنابندکردے۔

ٹھیک ہے۔یقیناً۔مجھ پریقین رکھومیں ایساہی کروں گا۔میں نےکہا۔

ہول سیل فروٹ مرچنٹ کی بیٹی، بفلو کی لڑکی کویہ سب فوری طورپرچھوڑناہوگا۔ اس نےغصے کااظہار کیا۔

اور فلیش لائٹ؟ میں نے پوچھا

لیری  نے کہا کہ وہ رات کوبیٹری سے فلیش لائٹ مارتی ہے۔ رات   کوگھرکےسامنے اتنی تیز روشنی مارتی ہے جوکسی کو اندھابھی کرسکتی ہے۔اس کایہ کام بھی  بچگانہ ہے۔بہت برا ہے۔جب گھرکی  تمام بتیاں بندکردی جاتی ہیں  تووہ احمقانہ انداز میں فلیش لائٹ جلاتی ہے اوراسےاس وقت تک جلاتی رہتی ہے جب تک کہ  اس کی بیٹری ختم نہیں ہوجاتی۔

اس فلش لائٹ کے پیچھے   ارد گرد تاریکی میں کھڑی ہوکراپنےدانت پیس رہی ہوتی ہے۔

اورایسالگتاہےکہ موت سرپرکھڑی ہے۔میراخیال تھاکہ اس کی بیہودہ حرکات کو لوگ روکیں گےلیکن ایسانہ ہوا۔

جب  اس کوپتہ چل جاتاہےکہ میں  اس منظرکودیکھ رہاہوں تووہ   کھانسناشروع کردیتی ہے اورلگاتار کھانستی رہتی ہے۔اے خدا!  وہ  واہیات کھانسیاں !

ہوسکتاہے یہ تمہاری غلط فہمی ہو۔وہ کوئی بیماربھی توہوسکتاہے۔میں نےکہا۔

یہ کسی بیمار کی کھانس نہیں ہوتی بلکہ مصنوعی ہوتی ہے۔جب میں فون اٹھاکر ڈائل گھماتا ہوں   تووہ کھانسنابند کردیتی  ہے۔جب کریڈل پررکھتاہوں توپھر مصنوعی انداز میں کھانسنا شروع کردیتی ہے۔

میں ایلن کی  انوکھی مہم  پر حیران رہ گیا،لیکن اس بات پرناامید ہواکہ اس  کی یہ مہم دیرپاثابت نہیں ہوپائے گی اور تم جیسےپرانےکھلاڑی کواس قسم کےہتھکنڈوں سے پریشان نہیں ہوناچاہیئے۔میں نے لیری کوکہاجوسچ بھی تھاکیونکہ وہ خودکو پےدرپے وارادتوںکو برداشت کرنے لگاتھا۔

وہ مجھے ہرطرح سے نیچادکھانے اور تنگ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اس نے میرے

ناک میں دم کررکھاہے لیری نے تلخی سے کہا۔وہ اپنی احمقانہ حرکات میں تسلسل اور

اضافہ  کرکے مجھے توڑناچاہ رہی ہے۔

لیری کے اعزاز کی سالانہ تقریب دومہینے دور تھی۔جس میں  اس نے موسیقی کے خزانے میں کیااضافہ کیا،مقالوں، پرفارمنس،راک سٹار کی کارگزاری،نئے تجربات  وغیرہ  کاتنقیدی جائزہ لیاجاتاتھااور ان کے بعد عموماً اسے کسی اعزاز سے نوازا جاتاتھا۔یہ کانفرنس اس کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہوتی تھی۔لوگ  اس تقریب کا بے چینی سے انتظارکیاکرتے تھے۔

اس عظیم تقریب سے دوہفتے پہلے لیری کے کہنےپر  میں ایلن سے یستوران میں ملا۔ اس کارویہ اب مخاصمانہ تھالیکن میرے ساتھ ملاقات کو اہم سمجھ رہی تھی لیکن اس کے کسی عمل کوقابل بھروسہ نہیں سمجھاجاسکتاتھا۔وہ کسی لمحے کچھ بھی کرسکتی تھی۔مجھے نہائت  محتاط ہوکراس سے بات کرناتھی۔اس نے مجھے یہ تاثردینے کی کوشش کی کہ  اسکے پاس خفیہ  جادوئی طاقت تھی اور کسی شئے کوجب چاہے بگاڑ سکتی تھی۔وہ معجزے دکھاسکتی تھی ۔  اس کارنگ چمک رہاتھااور اس کے ذہن میں  جوپروگرام تھا اس نے راز میں کھاہواتھا۔

 لیری   کےشب وروز کیسےگزررہے ہیں ؟اس نےابتدائی کلمات کےبعدپوچھا ۔اس کی

تازہ ترین صورت حال کیاہے؟کیا اس  نے فلیش لائٹ کے بارے میں کچھ کہا؟

بہت زیادہ۔ تم نے جب  فلیش لائٹ پہلی بار جلائی تھی تواس وقت ہی اس نےاس کا ذکر

مجھ سے کیاتھا۔میں نےکہا۔اس پروہ کافی جلابھناہواتھا۔

لیکن اب ؟اس نے بڑی بیتابی سےپوچھا۔

تمہارے لئے بری خبرہےایلن۔۔۔لیری کےلئے اچھی  خبرہے۔ تم نے  اپنے پروگرام کے مطابق  جب    اسےتنگ  کرنے کے حربے  دہرائے تو لیری  نے خودکوسنبھال لیا ۔ اب  وہ اس کاعادی ہوگیاہے۔اب وہ    مطمئن  اورخوبصورت زندگی گزاررہاہے۔اب تمہارے تمام    حربوں  کاردعمل ،مجھے خدشہ ہے  کہ  صفررہ گیاہے۔دیکھو،اس کاپیچھااب چھوڑدو۔تم نے اس کاقافیہ تنگ کرنے کےلئے جوکچھ کرناتھاوہ کرلیاہے۔زیادہ سے زیادہ تم یہی کرسکتی تھی۔تم نے اسے کافی ستالیاہے۔اس کوکافی نقصان پہنچادیاہے ۔ کیاایسا نہیں؟۔۔۔تم نے اس سے انتقام لے لیاہے۔کیاتمہارا دل  ابھی بھی نہیں بھرا؟ لیری  نےتمہیں شادی سے منع کردیاتھا جوتمہارے نزدیک وہ اس کی غلطی تھی اور تمہارے نزدیک تمہاری ناراضگی  جائزتھیں۔تمہاراغصہ قابل تشریح تھا۔اس کے خلاف  احتجاج کرنامناسب تھالیکن لیری  کےاچھی خبریہ کہ اس نے ان تمام غیرمناسب حملوں پرقابوپالیاتھا۔

تمہارے لئے بری خبریہ ہےکہ تم تیز چلی۔اگرسہجے سہجے اقدامات کرتی توکامیاب بھی

ہوسکتی تھی ۔تمہیں اب مجھ سے ایک وعدہ کرناہوگاایلن۔میں نےکہا۔

کہو۔ ایلن نےکہا۔

ایلن۔میرے ساتھ وعدہ کروکہ اب مزید جارحیتیں  بندکردوگی۔اس کے اعزاز والی تقریب جو ٹاؤن میں  عنقریب  ہونےوالی ہے،میں تخریب کاری  نہیں کروگی۔

ایک سکاؤٹ کاوعدہ کرتی ہوں۔ایلن نےکہااورمسکرادی۔یہ سب سے آسان وعدہ ہے جو میں نےآج تک کیاہے۔

اگلی  شام میں لیری کےہاں بیٹھ کر کرکرے بسکٹ  کھارہاتھا۔تو ا س نے بڑے غم وغصے سے کہاکہ اس نے تھوک  کرچاٹ لیاہے۔ایلن مکارہے۔

کیسے؟ ایلن پارکس    ؟ کیسے؟میں نےپوچھا۔

اس کانام جوبھی ہے۔وہ جلدہی اپنےگھرکارستہ ناپ رہی ہوگی۔لیری نے کہا۔میں نہائت دیانت  داری سےکہتاہوں کہ وہ  تقریب میں ضرور رخنہ ڈالے گی۔کاغذ چباچباکرگولےبناکر مجھ پرپھینکے گی یا میرے گھر کی گھنٹی کوگوندلگاکر بندکردے گی یاگھنٹی بجاکربھاگ جایاکرے گی یااس قسم کی کوئی اورکمینی  حرکت کرے گی۔

 گلی کی نکڑپرمیونسپل کمیٹی نے کوڑے دان اور ریسائیکلنگ کے بڑے بڑے کنستر (

کنٹینر) رکھے ہوئے تھے۔رات کوکسی نے اس کے گھر کی گھنٹی  بجائی اور بٹن سے انگلی نہ ہٹائی۔ جب لیری ہڑ بڑا کرباہرنکلا توباہرکوئی نہ تھا۔ رات کےپچھلے پہر کوڑے دان کا ڈھکن  زورزورسے بجنے لگا۔ اس نے جاکردیکھا تووہاں کوئی نہ تھا ۔جب لیری سوجاتاتو باربار فون کی گھنٹی  بجاکرتی۔ دن رات  یہی تماشہ لگنے لگا۔ہر وقت شور، کھڑکھڑاہٹ   وقتاًفوقتاً رہنے لگی   ۔ لیری  کسی شئے پر دھیان  نہ دے پاتا۔ اس پر زبردست جھنجھلاہٹ  طاری ہوجاتی ۔ جس قسم کے ہنگامےاورشورمتواتر ہورہے تھے کاکوئی عادی بھی ہو  جائے توعدم  توجہ  کاشکار ہوجاتا ہے۔کوئی بہادر اورفطین شخص بھی  ایسے   واقعات جن کاکوئی وقت  مقرر نہ تھاپرضبط نہیں لاسکتاتھا۔لیری کے مطابق ایسے مجرموں کےدماغ چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ غیر سماجی ہوتی ہےاور مستقل  طورپر کوئی نہ کوئی   بکواس کرتے رہتے ہیں۔ان کی ان گندی حرکتوں کی وجہ سے ان کاذکر بھی زبان پرنہیں لانا چاہیئے۔

ایلن نے    لیری کو چھوڑنے کے بعد چھ ماہ تک   مسلسل ایسی چھوٹی موٹی    چالیں  چلیں  اور آخری بڑا حربہ چھپاکر رکھا جواس نے لیری  کی عظیم تقریب کے لئے سنبھال رکھاتھا۔

تقریب سے   پہلے لیری اور میں  مشورہ کرنے لگے کہ  اسے کس طرح زیادہ سے زیادہ پروقار اورشاندار بنایاجائے۔اس  مقصد کےلئے ہم روزانہ ریستوران میں ملنے لگے۔ ٹاؤن ہال کی تقریب سے دودن پہلے لیری آیاتوبہت گھبرایاہواتھا۔اس نے  ٹیلی فون پر

ایک خبر گول مول طریقے سے سنائی کہ ایلن اپنی حرکات سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔

اس روز  میں نےایلن کوریستوران میں بلالیا۔

ایلن تم نے  وعدہ کیاتھاکہ  تقریب میں کسی بھی شرارت سےبازرہوگی۔اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالوگی اور کوئی بدبودار حرکت نہیں کروگی۔میں نے اسے کہا

اتنا فری ہونے کی اوربےباک ہونے کی ضرورت نہیں۔ایلن نےکہا۔

ڈئرتمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ تقریب نہ صرف لیری کے لئے اہم ہےبلکہ موسیقی کے شائقین کےلئے بھی بے حد ضروری ہے۔سامعین کو جدید ترین روایات کا علم ہوگا۔یہ سالانہ کانفرنس  ہرایک کے لئے خاص  ہوتی ہے۔تم اپنی ذاتی  سیاست سے باز رہو۔ اس سے فن کوبہت نقصان پہنچے گا۔اس جگہ سیاست نہیں چمکانی چاہیئے۔تم کوایک بارپھر تمہاراوعدہ یاددلاتاہوں  کہ کسی قسم کی گڑبڑ سےبازرہو۔میں نےکہا۔

میں نےدیکھاکہ اس تمام عرصے وہ  پرسکن بیٹھی رہی۔ اس کاچہرہ چمک رہاتھااور بہت زیادہ  پراعتماد تھا۔اس کی آنکھوں سے ایک ایسی امید دھکائی دے رہی تھی جوپراسرار تھی۔وہ میرے سامنے بیٹھ کر خاموشی  سے کھاتی رہی اورلیری کےبارے کچھ بھی نہ پوچھااور نہ ہی میرے پاس کوئی نئی بات تھی جومیں کہہ سکوں۔اس کےپوسٹ کارڈ ، ہارن ،فلیش لائٹ، گھنٹی  کے بٹن پرہاتھ، ٹیلیفون وغیرہ  اور نہ جانے کیاکیا  باتیں  وہ کرچکی تھی، خداہی جانتاہے۔اس نے سب سے مطابقت اختیارکرلی تھی  اورلیری کی زندگی بغیر کسی خلل کے روٹین پرجاری ہوگئی تھی۔اور وہ پھرسے منظم طریقے سے کام کررہا  تھا۔

میں اس بات پر خوش تھا۔

ایک دن لیری  کے کہنے پرمیں ایلن سے پھرملا۔اس نےکہا۔کسی جنگ میں دوہی باتیں ہوتی ہیں۔ فتح یا شکست، غازی یا شہادت ۔ موت ہی بہترین حل ہوتاہے۔تم اس فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔اس نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے  کہا۔میں اس کی اس بات سے متفق تھا۔

 ایلن  نے کہا کہ اس نے تہیہ کرلیاہے کہ وہ  اپنی ناکامی  نہیں سہے گی  اوراپنے مؤقف کے حصول کےلئے اسے موت بھی  آئی تو قبول کرلےگی۔اس کے نزدیک یہی سوچ اس کےلئےبہترین تھی ۔

 میں  نے سوچاکہ ایلن کی ان باتوں کااصل مقصدکیاتھا۔اس میٹنگ  میں یہی بات حیران کن تھی کہ اس نے جاتے ہوئے میرےچہرے کوچومااور ریستوران سےچلی گئی۔

حسب معمول منگل کی  سہ پہر پانچ بجے لیری کےساتھ کاک ٹیل کےلئے  اس کے سٹوڈیو چلاگیا۔وہ ادھر ادھر کہیں بھی  نہ یکھاجارہاتھا۔پہلے جب بھی میں طےشدہ وقت کے مطابق اس کے گھرجاتاتھا تووہ بیٹھک میں ہی ہوتاتھااورمختلف  بوتلوں سے شراب انڈیل کر نئے ذائقے کاجام بنایاکرتاتھا۔اس نے چوخانے کی اونی جیکٹ پہنےہوتی تھی جو اس کی ایک چاہنےوالی  نے تحفے میں بھیجی تھی۔

لیری!میں نےآواز دی۔اس کی خوابگاہ کے پردے کھلےاوروہ اس میں سے آرام آرام 

سےسکون  سے  چلتاہواآیا۔اس نےباتھ روب پہنناتھاجس کااستر سرخ تھا۔اس نےاونی ٹوپی پہن رکھی تھی جواس طرح کی تھی کہ اوپرامیں پہنی جاتی تھی۔وہ ایک زخمی جرنیل کی طرح ایک صوفے میں دھنس گیااوراپناچہرہ اپنےہاتھوں میں چھپالیا۔

کیازکام ہوگیاہے؟میں نےپوچھا۔

یہ  وائرس ہے جواپنےوقت پرختم ہوگا۔ڈاکٹرسے تشخیص نہیں ہوسکی۔ڈاکٹر کچھ بھی معلوم نہیں کرسکا ۔ہرطرف جراثیموں کاراج ہے۔بیماریاں ہی بیماریاں ہیں۔لگتاہے جراثیموں کی جنگ عظیم چھڑنے والی ہے۔لیری نے کہا۔

میراخیال ہے کہ تم نیندکےمارےہو۔ جی بھرکے نیندبھرلوتو تمہاری طبیعت سنبھل جائے گی۔تمہیں سونے کی ضرورت ہے۔ میں نے مشورہ دیا۔

نیند!ہاں !میں رات بھرنہیں سوسکا۔گرم دودھ پیتارہااوراپنی پشت کی ٹیک تکئے سے

لگاکرجاگتارہا۔

کیااڑوس پڑوس میں کوئی فنکشن تھا۔دھوم دھڑکاہوتارہا تھا؟

نہیں۔وہاں تومرگ کی کیفیت  طاری تھی۔قبرستان کی  سی خاموشی تھی۔میرے منہ کاذائقہ خراب ہوگیاہےایسا لگتاہے کہ میرے منہ میں لکڑی کابرادہ بھراہواہے۔

لیکن تمہاری آواز توصحیح ہے۔میں نےکہا۔اس سےتولگتاہےکہ کوئی سنجیدہ  بیماری  نہیں ۔میں نےکہا۔۔

ہاں! اگر تمہیں معمول کےمطابق بھوک لگتی رہےتو۔میری  آج سہ پہر کی موسیقی  کلاس بالکل ناکام رہی۔لیری نےتلخی سےکہا۔سبق میں گڑبڑرہی اور مجھے اس دوران باربارغصہ آتارہا۔میں خود کوتندرست نہیں پارہا۔لیری نےکہا۔میری آج  سہ پہر کے لیکچرکی تیاری نہیں تھی۔مجھے یہ تبصرہ یادآگیاجو ہمارے حجام نے ایک بھلےدن اپنی دکان پرکہاتھاکہ'لیری تم ایک نادر ہستی ہو۔ہر حال میں تم کروڑوں ڈالرکےہو'اسے یہ ڈائیلاگ یادتھا۔میں کہایہ تمہیں حجام نے کہاتھا۔

حجام کوچھوڑو۔ وہ قصاب کی طرح چمڑی ادھیڑتاہے۔اسے شیوکرناتک نہیں آتی۔وہ ایک زخم لگانے والابے رحم آدمی ہے۔لیری نےکہا۔

میں تمہاری بات سے متفق نہیں۔وہ ایک اچھاکاریگرہے۔میں نےکہا۔

توپھروہ جوکام کرتاہے،میرے دل کوکیوں نہیں چھوتا۔۔۔آج کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں ہوپارہا۔آج تمام کےتمام  طے شدہ  امور غلط طریقے سےانجام پائے۔لیری نے بیزاری سےکہا۔سب جدول جہنم واصل ہوگئےہیں۔میری زندگی میں آج تک  ایسی بےقاعدگی نہیں ہوئی۔خاص طور پر ریاض میں توآج تک کبھی گڑبڑ نہیں ہوئی۔لیری

نےکہا۔

ہوسکتاہے کہ تمہیں کوئی خوشخبری ملےجوتمہیں شانت کردے۔ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔اس کےبعد میں اسے اپنی پچھلی ملاقات  کی داستان سنانےلگا۔

میں ایلن سپارکس سے کل  دوپہر  لنچ میں ملاتھا۔اس نےکہاکہ وہ۔۔۔

لیری نے یہ سن کراپنی انگلیاں چٹخائیں اور پھرچٹکی بجائی۔۔۔وہ  تمام گڑبڑ کی ذمہ دارہے ۔۔ ۔لیری نے کہا۔ایلن نے مجھے زہریلاکردیاہے۔اتنازہریلاکہ مجھے ڈسنے سے سانپ بھی مرجائے۔ میں اب بچ نہیں سکتا۔وہ مجھے مارکر ہی دم لے گی اور اپناحساب برابر کرے  گی۔

میں نہیں سمجھتاکہ ایلن نےتمہیں زہردیا ہے۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔میں نے اس کی افسردگی دورکرنےکےلئے موضوع  مثبت  بنانےکی کوشش کی۔میں  بے تکلفی سےبات کرتے ہوئےرکااور سوچا کہ میں اسے کون سی بری خبرسناؤں جوایلن نے کی تھی۔

 ایلن  بفلوواپس چلی گئی ہے۔آج رات وہ اپنے گھر جاچکی ہے۔میں نےبتایا۔

اچھاہے کہ جان چھوٹ گئی۔لیری نےکہا۔ناشتے کےوقت   مزید پوسٹ کارڈ نہیں پھاڑنےپڑیں گے۔ریاض سےپہلے مزید ہارن کی آوازیں نہیں آئیں گی۔مزیدبربادی سے بچ جاؤں گا۔حجام کےپاس بال ترشواتے اور شیوکرواتے وقت ٹیلی فون کی گھنٹی نہ بجاکرے گی۔سوتے وقت کوڑے کرکٹ کے کنٹینر کےڈھکنےزور سے کھلنے بندہونےکی آوازیں نہیں  آیاکریں گی۔۔۔میں نے بات کرتے ہوئے کہا۔

نہیں۔ لیری نے میرا بازوپکڑتے ہوئے کہا۔

ہاں۔ میں نے اپنے آپ ہی ہنسناشروع کردیا۔۔۔وہ تمہارے حواس پراتنی چھاگئی ہےکہ تم  ہروقت کسی نہ کسی وجہ  سےاس سے بات کرتے رہتے ہو۔

وہ ننھی دیمک !لیری نے کہا۔اس کاانداز کھردرا،تخریبی  اوردخل دراندازی والاتھا۔ لیری نے کارنس پرغصے سے مکہ مارا۔میں اس کی تمام نیچ عادات ختم کردوں گا۔

عادات؟ میں نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے کہا۔عادات نہیں بلکہ چالیں۔اگرتم ایسا کرتے  ہو توزندگی میں یہ پہلی بات ہوگی جوتم اپنےروٹین سے روگردانی کرتے ہوئے کرو گے۔کیا تم یہ کرناکل سے شروع کروگے؟ میں نے پوچھا۔

کل ؟اس نے کراہتی آوازمیں کہا۔

گھر کی تمام روشنیاں بند کردی جائیں گی۔کسی ٹارچ کی روشنی نہ ہوگی۔مسلسل کھانسی کی آوازیں کہاں  سے آئیں گی؟لیری نےافسردگی سے کہا۔میں ایلن کوفیلیکس شہر کی طرح بھسم کردوں گا! اس کے چہرے پر میں نےاعتماد دیکھا۔اس نےکانپتے ہاتھوں   سے

 ٹیلیفون   اٹھایااورکہا مجھے بفلوکانمبر ملاکےدو۔ویسے ۔۔۔اس لڑکی کاکیانام تھا؟

سپارکس۔ایلن سپارکس۔میں نے کہا۔

۔۔۔مجھے اس نےاپنی شادی پرمدعوکیا۔مجھے شرکت کی دعوت  موصول ہوئی۔میں نے اسے خالص چاندی کافورک جو اچارکےلئے استعمال ہوتاہے،  اسے تحفے میں بھیجااور جانے سے معذرت کرلی۔

میری حیرانی کی انتہانہ رہی جب ایلن شادی سےاگلےروز میرے پاس آئی۔وہ اکیلی تھی۔اس کےہاتھ میں ایک بھاری پیکٹ تھا۔

تم اپنی زندگی کے اہم ترین دن پریہاں کیاکررہی ہو؟میں نےاس سے پوچھا۔

ہنی مون منارہی ہوں۔اس نےچہکتے ہوئے  سینڈوچ کا نوالہ لیتے ہوئےکہا۔

اوہ! دولہاکہاں ہے؟میں نےپوچھا۔

وہ اپناہنی مون اپنے سٹوڈیو میں منارہاہے۔ ایلن نے کہا۔

اوہ!تویہ بات ہے۔میں نے کہا۔میرے لئے یہ غیر مناسب بات تھی کہ تفصیل پوچھوں یااس کی شادی کی تفتیش کروں۔

میں نے آج دوگھنٹے لگائے ہیں۔اس نےخود ہی رضاکارانہ طور پر کہا اوراس کےایک لباس کو الماری میں لٹکادیا۔اور آنے وال کل؟اڑھائی گھنٹے اور جوتوں کاایک جوڑا۔

پانی کی بوندیں ،قطرہ قطرہ قلزم ۔تھوڑی سی ریت  کی ماننداناج ۔۔۔میں نےدہرایا۔ بوندیں ایک بہت بڑاسمندر بناتے ہیں اور زندگی  خوبصورت  کردیتے ہیں۔ایک ایک بوند اکٹھی کرکے  میں نے قلزم بناڈالاہے۔

میں نےاس کے بڑے پیکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ کیاہے؟دلہن کاجوڑا؟مسزایلن لیری مسکرائی۔ایک طرح سے! یہ کوڑے کرکٹ کے 

کنٹینرکاڈھکناہےجومیں نےاپنے بستر کےایک طرف رکھاہے۔

 


 

 

 

 

 

Life history

Kurt  Vonnegut

1922…..2007

USA

  حالاتِ زندگی

کرٹ وونی گٹ  11  ست   1922 کو  کارنیل انڈیاپولس  میں جرمن والدین  خاندان میں پیدا ہوا۔اس نے اپنی ابتدائی تعلیم  کارنیل سے حاصل کی۔        1940 

میں ہائی سکول کے بعد اس نے اعلیٰ تعلیم کے لئے کارنیل یونیورسٹی کارنیل میں داخلہ لیااور پھر یونیورسٹی آف شکاگو سے تعلیم حاصل کرنے لگا لیکن 1943 میں تعلیم چھوڑ کر  امریکی ائر فورس میں فلائنگ افسر بھرتی ہو گیا۔۔اپنی تربیت کے لئے فوج نے اسے مکینیکل انجینرنگ کی تعلیم دلوانے کے لئے کارنیگی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جو اب کارنیگی میلون یونیورسٹی ہے اور ٹینیسی یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے بھیج دیا۔اس دوران  فوج نے اسے بھیجا۔۔اس دوران جنگ عظیم  دوم چھڑ گئی اور اسے یورپ کے ایک محاذ پر لڑنے کے لئے بھیج دیا گیاجہاں جرمنوں نے قبضہ کرلیا۔ وہ اپنے پانچ سو فوجیوں کے ساتھ قید ہوگیا۔ اسے ڈریسڈن کے جنگی قیدیوں کے کیمپ منتقل کردیا گیا۔وہ علاقہ شہری آبادی تھی جس میں عام فیکٹریاں تھیں اور وہاں متحدہ فوجوں کے حملے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی لیکن  متحدہ  افواج نے اس شہر پر زبردست بمباری کی اور تمام شہر تہس نہس کردیا ۔ اس دوران کم از کم پچیس ہزار شہری مارے گئے۔ اسے ایک مذبح خانے میں بیگار کیمپ  میں  رکھا  گیا تھا جس  میں فوجیوں کو  خوراک کی فراہمی کے  تین  منزلہ تہہ خانے تھے۔اس کے اوپر عام عمارت نظر آنا شروع ہوتی تھی۔ ۔وہ اپنے ہی ملک کی بمباری سے بچنے کے لئے  سب سے نچلے تہہ خانے  (تیسری) میں چھپا اوراس کی جان بچ گئی لیکن اس کی بیگار میں اضافہ ہو گیا اور جرمنوں نے  اسے ان  ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے پر لگا دیا۔ اس نے اس واقعہ کو اپنے ناول 'ٖڈا سلاٹر ہاؤس' میں لکھاہے۔ اس نےاپنی فوج کے خلاف لکھنا شروع کیا تو اسے فوجی نوکری سے نکال دیاگیا۔

اس کے والدین چونکہ جرمن تھے اور ہٹلر کے رویے سے نالاں ہوکر امریکہ آباد ہو گئے تھے، گھر میں جرمن زبان بولتے تھے۔جنگ عظیم ختم ہوئی تو اسے آزاد کر دیاگیا۔ اس نے 'ایک جرمن خاتون جو اس کے ساتھ یونیورسٹی  آف شکاگو میں پڑھتی تھی ، سے شادی کر لی ' اس کا نام 'میری کاکس 'تھا'۔ اس سے اس کے تین بچے ہوئے۔اس کی بیوی کینسر سے فوت ہوگئی۔اس کے علاوہ اس نے اپنی بیوہ بہن کے ایک بیٹے کو متبنیٰ بنالیا اور اس کی پرورش کی۔

      تھا۔وہ رات کو ایک  وہ شروع سے ہی علمی اورادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سکول میں وہ سکول کے رسالے کا کو ۔ایڈیٹر تھا اور مشہور رسالوں میں لکھا کرتا تھا۔                                                         رات کو ایک رپورٹر کے طور پر بھی کام کیا کرتاتھا۔وہ ایک زبردست ادیب  تھا۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

Novels

Player Piano, The Sirens of Titan, Mother Night, Cat’s Cradle, God Bless You. Rosewater, Slaughterhouse, Happy Birthday Wanda June, Breakfast of Champions, Slapstick,Jailbird,Palm  Sunday etc

Short Stories

All the Kings Horses, Any Reasonable Offer, Deer in the works, EPICAC Harrison Bergeron, Miss Template, Welcome to Monkey House, Mnemonics, Miss temptation, The Package, Tomorrow, Tomorrow, Tomorrow  etc

 A

Awards

2009   Audio Award for Short Stories, 1973 Hugo Award for Best Dramatic Presentation, 1971 Drama  Desk Award for Outstanding Play writing , 1970, 1969 Award Nominated Slaughterhouse 

 اپریل 2007 کو گرکر شدید چوٹیں آئیں جن سے وہ جانبر نہ ہوسکا اور فوت ہوگیا۔

                                                                                                                                           

                

Popular posts from this blog