چھوکرا (Chokra) ( -- 1975 ) Numair A Chaudhry Bangladesh


 

چھوکرا

(Chokra)

   (  --  1975 )   Numair A Chaudhry

    Bangladesh

 


مترجم:  غلام محی ا لدین


 

میری چھوٹی بہن منمن    (Munmun )  مٹی کے تیل کے ڈرم میں پیدا ہوئی تھی۔ میری عمر اس وقت چھ سال تھی جب وہ تیار ہوئی۔ ایک دن میری ماں میری انگلی پکڑ کر ریلوے ٹریک کے عقب میں لے گئی جہاں سخت گیر لوگ ٹھیلے کے پاس ڈھیر لکڑیوں پر بیٹھے چائے نوش کر رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر اس نے انگلی کی بجائے ہاتھ پکڑ لیا۔ جس سختی سے اس نے میرا ہاتھ پکڑا تھا وہ اس بات کی تنبیہ تھی کہ مجھے ہر طور خاموشی سے سفر طے کرنا تھا۔ کافی دور چلنے کے بعد ہم ایک ٹین والی چھت کے سامنے رک گئے۔ وہاں پر بیٹھے لوگوں کے کرخت چہرے دیکھ کرمجھ پر وحشت طاری ہوگئی۔ وہ پیشہ ور غنڈے لگتے تھے۔ ان کے چہروں پر درشتگی اور سختی دیکھ کر میں بے اختیار بے کلی محسوس کرنے لگا اور بے چینی سے اِدھر اُدھر ہلنے لگا جس پر میری ماں کو غصہ آگیا اور میرے ہاتھ کو زبردست جھٹکا دیا کہ میں حرکت نہ کروں۔

 

 میری ماں نے ان غنڈوں میں ایک سے پوچھا کہ  ُ  بابا میا   ُ ( Baba Mia  ) کہاں ہے؟  اُس نے ہمیں انتظار کرنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد ایک پستہ قامت شخص ظاہر ہوا اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔  داخل ہوتے وقت میں نے دو ایسی چیزیں محسوس کیں جو عام حالات میں نہیں پائی جاتیں۔ ایک تو گوشت جلنے کی بو اور دوسری کراہتی ہوئی مدھم آوازیں۔  جب ہم اس عمارت کے وسیع سٹور پہنچے تومٹی سے بنے تیل کے سائز کے ڈرم قطار اندر قطار پڑے تھے۔ وہ بڑے سلیقے سے کے ایک دوسرے کے ساتھ رکھے گئے تھے۔ ہر ڈرم پر چاک سے سفید نشان لگا تھا اور کچھ عبارت تحریر تھی۔ ایسے ڈرموں کی تعدادمیرے اندازے کے مطابق کم از کم سو تو ضرور ہوگی۔ اِن ڈرموں کے قریب جا کر پتہ چلا کہ جلنے کی بو اور درد بھری آوازیں ان ڈرموں سے آرہی تھیں۔ اُن ڈرموں سے جو عفونت پیدا ہو رہی تھی وہ مردہ جانوروں کے گلنے سڑنے جیسی تھی لیکن اس جگہ بدبو کی نوعیت اس سے زیادہ تھی۔ ان ڈرموں میں اذیت ناک کراہٹوں کی آواز یں واضح طور پر سنی جا سکتی تھیں۔ ڈرم کے اندر کھرچنے، حرکت کرنے اور چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایک چیخ میں ہزاروں درد چھپے تھے۔

           

اس پر اسرار شخص نے جو اس شعبے کا انچاج تھا، نے ڈرموں کا جائزہ لیا۔ ان پر  نشانات اور تحریریں پڑھتا رہا پھر ان میں سے ایک ڈرم کو کھینچ لیا اور میری ماں سے بولا کہ اس ڈرم کے نشان کو اچھی طرح پڑھ لے اور تسلی سے چیک کرلے۔  میری ماں نے غور سے دیکھا اور کپکپاتی آواز میں بولی۔ہاں!  یہ اس کا ڈرم ہے۔ پھر پوچھا کیا وہ تیار ہے؟

           

ہاں!  اگر اِس سے زیادہ وقت لیتے تو وہ مرجاتی۔ اس شخص نے آہستہ سے کہا۔ میری ماں نے سر ہلا دیا۔ اس شخص نے ڈرم کا ڈھکن کھولا، ہاتھ اندر ڈالا اور میری تین سالہ بہن منمن  (Munmun ) کو باہر نکال لیااسی طرح سے  وہ مٹی کے تیل کے ڈرم میں پیدا ہوئی یا کہا جا سکتا ہے کہ اس نے نیا جنم لیا۔

 

آج بارش ہو رہی ہے اور منمن بے حد چڑ چڑی ہے۔ وہ ٹین کی ٹرالی میں بیٹھی ہے۔بے چین ہے اور ہر طرف دیکھ کر طرح طرح کی شکلیں بنا رہی ہے۔ شکلیں بگاڑ کر دیکھنے سے تو لوگ متاثر نہیں ہوتے۔ ان میں صرف ایسی حرکات سے تو جذبہ رحم پیدا نہیں ہوتا۔ دوسروں کے دل میں جذبہ رحم پیدا کرنے کے لئے درد ناک آوازیں بھی نکالنا پڑتی ہیں۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ بھی پھیلانے پڑتے ہیں تب جا کر بھیک ملتی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ کراہے، گڑگڑائے تاکہ لوگ ترس کھائیں۔بار بار سمجھانے پر بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ آج بارش میں متواتر بھیگنے سے میری باتوں پر اس نے کوئی دھیان نہ دیا۔ میں جب بھی اس کو کوئی ہدایت دیتا، وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتی۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ میں بھی ایسے موسم سے بیزار تھا۔ یہ موسم اس وقت بہت تکلیف دہ ہو جاتا تھا جب بارش مسلسل ہو رہی ہو۔ ایسے وقت لوگ گھروں میں دبکے رہتے ہیں اور ا گر کوئی باہر نکلتا بھی ہے  تو مجبوری میں اور فوراً ہی واپس چلا جاتا ہے۔

 

اس وقت اس بارش میں ہم مارکیٹ میں قسمت آزمائی کر رہے تھے۔ چوکیدار ہمارے پاس سے دوبار چکر لگا چکا ہے اور اس بار اُس نے اپنی چھڑی سے تنبیہی انداز میں آگاہ کیا ہکہ اگلے چکر میں ہم اسے نظر نہ آئیں۔ جس انداز سے جھڑی لگی تھی ایسا نہیں لگتا تھا کہ یہ کبھی تھم پائے گی۔  اس بازار کے نواح میں کئی گلیاں تھیں جن میں چھوٹے چھوٹے گھر اور جھونپڑیاں تھیں، اس لئے سوچا کہ مارکیٹ سے نکل کر کسی گلی میں چھجے کے نیچے بارش رکنے کا انتظار کیا جائے۔ میں اس کی ٹرالی کھینچ کر ایک گلی میں چلا گیاکہ ہو سکتاہے بارش سے محفوظ رہنے کا کوئی ٹھکانہ مل جائے یا کچھ کھانے کو مل جائے لیکن منمن ایسی چیزوں سے بے نیاز شکلیں بگاڑ بگاڑ کر بے چینی سے ہر طرف دیکھ رہی تھی اور بے ہنگم آوازیں نکال رہی تھی۔ میرے روکنے پر بھی نہ رکی تو میں نے اس کے اس رویہ کو نظر انداز کر دیا۔ اس کو مزید گیلا ہونے سے بچانے کے لئے اس کے جسم کے ارد گرد گیلے کپڑے لپیٹ دیئے اور اس پر پلاسٹک چڑھا دیا اور ٹرالی کو دھکیلنا شروع کر دیا۔ جب سڑک پر مٹی اور پانی کھڑا ہو تو اس وقت ٹرالی دھکیلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ٹرالی اِدھر اُدھر لڑھکتی رہتی ہے اور زور بھی بہت زیادہ لگانا پڑتا ہے۔ یہ کیفیت منمن سے سہی نہیں جا رہی تھی اور ٹرالی لڑھکنے سے وہ ٹرالی پر اور بعض دفعہ تو وہ ٹرالی سے باہر سڑک پر گر جاتی تھی۔ اس کے ہاتھ سوکھی شاخوں کی طرح جھولتے تھے۔ وہ گلی بالکل سنسان پڑی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ جگہ پہلے سے بھی غریب ہوگئی ہے۔ اس گلی میں چند ماہ پہلے ہم نے بھیک مانگی تھی۔ اُس وقت بھی یہ گلی مخدوش حالت میں تھی لیکن اس بار تو گھروں کی حالت مزید دگرگوں تھی۔ کوڑا کرکٹ کا ایک بڑا ڈھیر نظر آیا۔ اس پر دو کتے منہ مار رہے تھے جو سونگھ سونگھ کر اشیائے خوردنی تلاش کر رہے تھے۔ میں نے انہیں دھتکارا تو وہ چلے گئے۔ جب میں نے ڈھیر میں سے کچھ کھانے کی اشیاء تلاش کی تو معلوم ہوا کہ کتے پورا انصاف کر چکے تھے۔ 

 

میں نے ٹرالی وہاں سے ہٹا لی اور آگے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ ساتھ والی جھونپڑی کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔ ایک شخص ننگے دھڑ، لنگی باندھتا نمودار ہوا۔ میں نے اپنا ہاتھ بھیک مانگنے کے لئے اس کے سامنے کر دیا۔ اُسے یہ دیکھ کر طیش آگیا۔ اُ س نے گالی دی اور اپنی ٹانگ سے ٹھوکر مارنے کے لئے اپنی ٹانگ پیچھے کی تو میں سڑک کر ایک طرف ہوگیا۔ پھر اس نے گالی دے کر کہا ٹھہرو ابھی تیری ڈنڈے سے ٹھکائی کرتا ہوں۔ وہ ڈنڈا لینے کے لئے جوں ہی پلٹا، میں فوراً اس جگہ سے ہٹ گیا۔ ہم نے گلی کے دیگر گھروں سے بھی کھانا مانگنے کی درخواست کی۔ کسی نے گالی، کسی نے بے کار اشیاء ہم پر پھینکیں۔ ایک شخص نے سوکھی ہوئی ایک چپاتی پھینکی جو منمن اور میں نے مل کر کھائی۔ بالآخر ایک گھر پر دستک سے ایک مہربان خاتون نکلی۔ ہمیں غور سے دیکھا پھر جھجکتے ہوئے ہمیں اندر بلا لیا۔ اس نے نہایت پیارسے بات کی۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم مہمانِ خصوصی ہوں۔ اُس کے گھر میں بہت کم سامان تھا لیکن ہمارے لئے خوشخبری یہ تھی کہ اندر بارش نہیں جا رہی تھی۔ اس کا کمرہ خشک تھا۔ نمی بھی نہ تھی۔ میں نے جب اپنے ساتھ اس مہربان عورت کا یہ سلوک دیکھا تو میرا دل زور زور سے رونے کو چاہا۔

           

چ ۔چ۔چ      ۔   بیچارے!   لڑکے بیٹھ جاؤ۔ اس موسم میں بارش میں بھیگتے رہنا بہت برا ہے۔ میں فرش پر بیٹھ گیا اور اپنا سر اپنے گھٹنوں پر رکھ دیا۔  اُس نے ہمارا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔لگتا ہے تم بہت دیر سے بھیگ رہے ہو۔۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا۔

 

کیا تم بہن بھائی ہو؟

           

میں نے سر ہلا کر ہاں کہا،  میری بہن کا نام منمن ہے۔ وہ پانچ سال کی ہے اور میں آٹھ سال کا ہوں۔ میری بہن بول نہیں سکتی لیکن باتیں سمجھ لیتی ہے۔

 

بے چاری منمن۔ اس نے کہاکہ ان لوگوں نے تمہارا کیا حال کر دیا ہے۔ پھراس نے منمن کے ارد گرد پلاسٹک اور کپڑوں کو نکالا۔ اُس کے بعد اس نے بڑی احتیاط سے اس کے پاؤں پر ( جو کہ کسی موٹی گانٹھوں کی طرح کے تھے ) سے کپڑا اتارا۔ اُس کے ہاتھوں سے جس کی ہڈیاں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں، سے کپڑے اتارنے لگی تو میری بہن منمن دکھ بھری آواز میں، اونچی آواز میں گنگنانے کے انداز میں رونے لگی۔

 

وہ!  ان لوگوں نے تم سے کتنا بھیانک سلوک کیا ہے۔ وہ لوگ کتنے بے رحم اور ظالم تھے، اس نے افسردگی سے کہا۔ مجھے اس کا یہ سلوک بہتاچھا لگا۔ یہ جاننے کے لئے وہ اتنی مہربان کیوں ہے،  ارد گرد کا جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ وہ خاتون بالکل اکیلی تھی۔ اس کے گھر میں کوئی بچہ نہیں تھا۔ وہ بے اولاد تھی۔ میرے تجربے  کی رو سے صرف ایسی خواتین ہی ہماری مدد کیا کرتی تھیں  جو بے اولاد ہوں۔لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر تھیں اور ہمارے لئے باعث رحمت ہوا کرتی تھیں۔ ایسی رحم دل خواتین سے جب بھی الگ ہونے کا وقت ہوتا تو منمن بعد میں دنوں تک مسلسل روتی رہتی۔

 

اس ہمدرد خاتون نے ہمیں چاولوں کی ایک ایک پلیٹ کے ساتھ ایک ایک انڈہ بھی دیا۔ یہ ہمارے لئے دنیا کی عظیم ترین دعوت تھی۔ اس کے بعد اس نے ہمارے کپڑے اٹھائے اور انہیں گرم پانی میں ڈال دیا۔ منمن تو سوگئی اور میں جاگتا رہا کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔

           

تم نے ان ظالموں کو ایسا کیوں کرنے دیا؟  آہ!  کیوں؟  ان لوگوں نے کتنی مدت تک اسے طرح طرح کی اذیتیں دیں؟  وہ رحمدل خاتون مجھ سے باتیں نہیں کر رہی تھی بلکہ خود کلامی کر رہی تھی۔ وہ اپنی محرومیوں کوہم پر ترس جتا کر دور کر رہی تھی۔ وہ اپنی مایوسیوں سے اس طرح چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی جس طرح وہ شخص جو ڈنڈا لانے کے لئے لپکا تھا اور اپنی محرومی ہمیں مار کر دور کرنا چاہتا تھا۔

           

اس سے پہلے میں سوچا کرتا تھا کہ لوگ ہمیں دیکھ کر کیوں طیش میں آجاتے ہیں؟ کیوں گالیاں دیتے ہیں؟ کیوں دھتکارتے ہیں؟ کیوں حقارت سے پیش آتے ہیں؟  اس کی وجوہات سمجھ نہیں آتی تھیں لیکن اب مجھے یہ بات سمجھ میں آگئی ہے۔ دراصل ان کا یہ رویہ ان کی ذات کا پر تو ہے۔ وہ خود کو بھی لاشعوری طور پر ہم جسے حقیر ہی سمجھتے ہیں۔ اُن کو بھی زندگی کی آسائشیں میسر نہیں اس لئے و ہ ان محرومیوں کا بدلہ جارحیت کی انتقالیت سے اتارتے ہیں۔اتنے میں مجھے نیند آگئی۔  مجھے آج تک یہ پتہ نہ چلا کہ منمن کے ساتھ ماں نے ایسا سلوک کیوں کیا؟ میری ماں نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے منمن کو نئی زندگی دینے اور دوسروں سے مختلف بنانے کے لئے ایساکیا ہے۔ 

           

میں اسے پچھلے دو سالوں سے ٹرالی پر گھسیٹ رہا ہوں۔ ہم اس دوران کتنی بار بھوکے پیاسے رہے، یا دنہیں۔ کتنی بار بیمار ہوئے، کتنی بار بے عزت ہوئے، شمار نہیں۔ میں تو یہ بھی جاننے سے قاصر ہوں کہ اگر میری بہن کو اپاہچ نہ کیا جاتا تو ہماری حالت کیسی ہوتی؟  ہم زندگی کیسے گزارتے؟ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اگر مجھے اس وقت ذرا سا بھی یہ اندازہ ہوتا کہ اسے اپاہج بنایا جا رہا ہے تو چھ سالہ بچہ ہونے کے باوجود یہ کبھی نہ ہونے دیتا۔ اسے اپنے سے کبھی جدا نہ کرتا۔

 

ہمدرد خاتون نے پوچھا کہ اس جہاں میں کوئی ہے جس کے پاس تم جا سکو؟ اس بات کا جواب اسے خود بھی معلوم تھا۔ ورنہ ہم در بدر ٹھوکریں نہ کھا رہے ہوتے۔ وہ رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی اور میرے ذہن میں بارہا خیال آتا رہا کہ کوئی ایسی جگہ تلاش کروں جہاں اس کا علاج ڈھونڈا جا سکے۔ جواب ملا،  اس کے لئے دولت کا انبار چاہیے۔ اس ہمدرد خاتون نے کہا کہ ہم رات اس کے گھر گزار سکتے ہیں۔ اس پر میں نے خود کو چھوئی موئی انداز میں سمیٹا اور سو گیا۔ رات کے کسی پہر اس خاتون کی دبی دبی ہچکیوں اور رونے کی آ واز سنی لیکن میں نے اس پر توجہ نہ دی اور پھر سو گیا۔ میرے نزدیک ان آنسوؤں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔

           

جوں ہی سورج کی پہلی کرن اس کے گھر کی اینٹوں اور دراوزے کی درزوں سے ظاہر ہوئی تو اس نے ہمیں جگا یا اور بولی کہ اس کے خاوند کو فیکٹری سے چھٹی ہوگئی ہوگی اور وہ جلد ہی واپس آنے والا ہے اس لئے ہمیں جانا ہوگا۔  میں نے بغیر کہے ٹرالی کو سڑک پر دھکیل دیا۔

           

رات بھر بارش سے دھول بیٹھ چکی تھی۔ ٹرالی دھکیلنے میں آسانی پیدا ہوگئی تھی۔ صبح پانچ بجتے ہی رونق بحال ہونا شروع ہو گئی تھی۔ لوگ آنے لگے تھے اور ہمارا کاروبار شروع ہوگیا تھا۔ سورج کی کرنوں کو سبز پتوں اور عمارتوں کے بیچ چمکتے ہوئے دیکھا تو سوچاکہ آج کا دن روشن ہوگا۔

 



Numair Chaudhry


(۔۔۔5 197)

  Bangladesh


حالات زندگی

 

نمیر اے چوہدری   1975  میں بنگلہ دیش کے ایک مشہور ادیب کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا والد تعلیم و تدریس سے منسلک تھا۔ اس نے ابتدائی تعلیم ڈھاکہ ہائی سکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ امریکہ چلا آیا جہاں اس نے   Oberlin Colleg میں  انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی پھر ناروچ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور وہیں تخلیقی ادب پڑھانے لگا۔ آج کل وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں فل پروفیسر ہے اور   ناروچ یونیورسٹی میں جزوقتی ملازمت کر رہا ہے۔  اس نے درجنوں مختلف کہانیاں اور ایک ناول تحریر کیا ہے۔  اس کی اہم کہانیوں میں اہم درج ہیں۔



           ٭                 Truth                                        ٭ Rabia                

٭                     Different Eyes                                              ٭        Thief

٭                       Crumble                                                     

 Sky        Asking      

 


وغیرہ نمایاں ہیں۔  چھوکرا بھی اس  کی مختصر کہانیوں میں سے  ایک ہے۔

Popular posts from this blog