Muhammad Abubakr Ibn Zakariya Al. Razi (Rhazes)



 




 

محمدابوبکر  ابن ِ ذکریا الرازی

Muhammad Abubakr Ibn Zakariya Al. Razi (Rhazes)

851……925     Ray (Iran)



ْمرتب   :   غلام محی الدین 


حالاتِ زندگی 

الرازی کاپورا   نام محمد ابوبکر محمد ابن ِ زکریا الرازی تھا۔انگریزی میں ان کا نام'  ریزز 'ہے۔آپ  تہران  سے چند کلومیٹر دور البروزپہاڑی علاقےکے ایک شہر 'رے ' میں پیدا ہوئے ۔ عربی اس شہر کو ' الرے ' کہہ کر پکارتے تھے۔مورخین  کے مطابق البروز    کا  یہ علاقہ  عباسیوں نے  سامانی شہنشاہ   یزدکردکو شکست دے کر اپنی سلطنت میں شامل کیاتھا۔ سامانی  حکوت امیہ کے خاتمے  کے بعد 874   ء میں ماوراءالنہر میں قائم ہوئی  تھی۔ اپنے مورث اعلیٰ اسد بن سامان کے نام پر یہ خاندان سامانی کہلایا ۔نصر بن احمد بن اسد سامانیوں کی آزاد حکومت کا پہلا حکمران تھا ۔ان دنوں    ماوراء النہر کے علاوہ موجودہ افغانستان اور خراسان  کے علاقے بھی اس کی حکومت میں شامل تھے ۔سامانیوں  کادارالحکومت  بُخارا تھا اور  ان کی حکومت 1005  ءتک قائم رہی۔ سامانیوں   کابادشاہ  ُیزدکرد  ظالم تھا لیکن علم دوست تھا۔مسلمانوں نے زبردست حملے کے بعد اسے شکست دی اور وہ اپنی جان بچاکر بھاگ اٹھا  اور عباسی  تخت نشین ہو گئے ۔ مورخ  امانت علی  کے مطابق وہ زمانہ پر آشوب تھا۔ سرداریاں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھیں۔ زور آور اپنی ذاتی فوج  سے دوسروں کے علاقےہتھیالیتے تھے ۔تاہم   عباسیہ  حکومت    نے اپنا وجود برقرار رکھا ۔ عباسی  خلیفہ مہدی  کی موت کے بعد اسکا بیٹا  ہارون الرشید  بھی وہیں پیدا ہوا اور اس کے بعد خلیفہ بنا۔

 مورخ امانت علی قاسمی کے مطابق ابوبکر  الرازی کا بچپن عام سا تھا۔ غریب والدین سے تھے ۔دوستوں کے ساتھ بیکار وقت گزارا کرتے تھے۔ ابتدا میں معمولی تعلیم  'رے ' سے حاصل کی    اور چودہ پندرہ سال تک   آوارہ گردی کرتے  رہے۔جب ان کی شادی اور بچے ہوئے  توان پر ذمہ داریاں آن پڑیں تو   انہیں  احساس ہوا اور وہ زندگی میں سنجیدہ ہو گئےاورسستی  دھاتوں ( پیتل ، تانبہ، کانسی وغیرہ )   سے سونا بنانے کا ٹھرک  تھا۔وہ اس کا    ُگر سیکھنے لگےاور کیمیا گر بن گئے  ۔انہوں  نے بھٹیاں لگا لیں جو ہر وقت جلتی رہتیں اور د ھواں چھایا رہتااور  کیمیائی عمل  سےسونا بنانے کے تجربات کرتے رہتے تھے۔ جس سے ان کی آنکھوں میں تکلیف ہو گئی وہ حکیم کے پاس گئے تو اس نے انہیں کہا کہ کیمیا وہ نہیں جو تم کررہے ہو۔سونا بنانا کیمیا گری نہیں ۔اصل کیمیادواسازی ہے۔ اس بات نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ انہوں نے بیوی بچوں کو خیر باد کہا اورطب کی تعلیم  کے لیے بغداد چلے گئے ۔ جہاں انہوں نے فلسفے اور طب کے علوم میں تعلیم حاصل کی ۔ جہاں وہ  حکیم حاذق علی بن ابنِ طری سےسترہ سال تک علم طب سیکھتے رہے اور ایسے کامل بنے کہ انہوں نے اپنے استاد کو بھی  مات دے دی۔انہوں  نے کیمیا سازی کے ساتھ حکمت اور معلمی کا کا پیشہ اختیار کرلیا۔ میڈیکل  پس منظر اور ادویات سازی سے ان کی ان کو بیماریوں ، علاج معالجہ میں استعمال ہونے والے برتنوں کی اشکال   میں ان کو خامیاں نظر آئیں۔انہوں نے حاضر سانچوں میں ترمیم و اصلاح اور نئے برتن  بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ  پرانے آلات کی  اصلاح کی جاسکے  اور نئے نئے برتن بنائے جا سکیں۔ان کی مہارتوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔  وہ مشاہدے سے بیماری کی تشخیص کرلیاکرتے تھے۔بغداد  میں  حکمت ، کیمیا گری  اور تعلیم وتدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ کامیابی نے ان کے قدم چھوئے  اور ان کی شہرت  دور دور تک پھیل گئی ۔کیمیا گری میں انہوں نےاس  زمانے کے  مروج طریقوں کو اپنایا اور جڑی بوٹیوں سے ادویہ سازی میں تجربات کرکے نئے نئے مرکبات  بنانے لگے۔اس دور میں جڑی بوٹیوں کو دنوں،مہینوں  بھٹیوں کی آگ پر رکھنا پڑتا تھا۔اس عمل میں انہیں دوا فروشوں کے پاس جانا پڑتاتھا۔ان کی دوستی ایک دوا فروش سے  تھی  اور   کچھ وقت اس کے ساتھ گزارتے تھے ۔وہاں انہوں نےسیکھا کہ کس طرح سے جڑی بوٹیوں، حیوانات اورچٹانوں سے طب میں  فائدہ  اٹھایا جا سکتاہے۔

مورخ ظفرسپل نے اپنی کتاب 'مسلم فلسفے کا تاریخی ارتقا ء ' میں  لکھاہے  کہ 'رے' شہر شاہراہِ   ریشم پرواقع تھااور تجارتی مرکز تھا ۔دنیا بھر کے  قافلے یہاں آکرٹھہرتے اور  خریدوفروخت کرتے تھے۔ہر وقت گہماگہمی رہتی تھی ۔وہ شہر مشرقی اور مغربی ممالک میں رابطے کاکام کرتا تھا۔ریاستیں چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بٹی ہوئی تھیں۔محلاتی سازشیں عام تھیں۔  جس کی لاٹھی اس کی بھینس  کازمانہ تھا۔حکومتوں میں ریشہ دوانیاں تھیں۔ المتکفی 902   ء سے 908  ء تک  خلیفہ رہا۔اسماعیل بن احمد اور اسحاق بن احمد اس کے بھائی تھے  نے عنانِ حکومت سنبھالی تو اس نے اپنے چچا زاد بھائی منصور بن اسحاق رے کا گورنر مقرر کردیا جس نے ایک عظیم الشان   اور وسیع و عریض ہسپتال بنانے   اورموجود بہت بڑے   سرکاری شفا خانے کو  مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں  رازی بغداد میں تھے ۔ان کو منصور  نے 'رے'واپس  بلالیا۔ ان  کو سلطنت ِ عباسیہ کے سب سے بڑے ہسپتال    الموتدید کاناظم بنادیا۔یہ بڑا اعزاز تھا۔ نئےہسپتال  کی جگہ کے انتخاب کے لیے انہوں نے شہر کو چاروں کونوں    اور مختلف  مقامات  پر درختوں پر  تازہ گوشت کے لوتھڑے لٹکا دیئےتاکہ معلوم ہوسکے کہ گوشت  کس جگہ پرزیادہ  خراب ہوتا ہے۔ اس سے انہوں نے مقامات کی  پراگندگی کا علم  کرنا تھا    تاکہ وہاں نیا ہسپتال  تعمیر کرکے  فوری علاج کی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ایک ہفتے کبعد گوشت کے لوتھڑوں کا معائنہ کیا اور وہ لوتھڑا جو سب سےزیادہ  زیادہ گل سڑ چکاتھا، وہاں ہسپتال تعمیرکرنے کافیصلہ کیا کیونکہ اس علاقے میں زیادہ بیماریاں تھیں اور اس علاقے کے لوگوں کو فوری علاج معالجے کی زیادہ  ضرورت تھی۔ ۔  اس طرح سےانہوں نےحقائق پر مبنی شہادت کا طریقہ استعمال کیا۔ الرازی اپنی اس تقرری سے بہت خوش تھے اور شکرگزاری کے طور پراپنی دو کتب المنصور   سے منسوب کردیں ۔اس ہسپتال کا نام خلیفہ کے بیٹے  اللمتکفی 'کے نام پر رکھا گیا۔انہوں نے اپنی زندگی کا آخری حصہ اپنے آبائی شہر رے میں گزارا جہاں ان کی آنکھوں پر موتیا اتر آیا اور وہ نابینا ہو گئے۔ ا ن کی بصارت سے محرومی کیوں ہوئی کی وجوہات افاہوں کا شکار ہیں ۔ایک روایت  ہے کہ سر پر  چوٹ کی وجہ سے ان کی بینائی جاتی رہی ۔ بعض مورخین نابینا ہونے کی وجہ موتیا قرار دیتے ہیں۔ ایک غیر مصدقہ روایت یہ بھی    ہے کہ کسی وزیر نے  بغض میں ان کے سر پر ڈنڈے مارے تھےجو ان کی بصارت سے محرومی کا باعث بنے۔ مورخ احیر  عمرنے  دعویٰ کیاہے  کہ  انہوں نے مرطوب آب و ہوا کے برے اثرات سے بچنے کے لیےکھانے میں کثرت سے لوبیا کھانا شروع کردیا تھا جس سے ان کی بینائی جاتی رہی۔ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ ہر وقت لکھتے رہتے تھے ۔ تواتر سے  لکھنے پڑھنے ، بھٹیوں کے پاس بیٹھنے  اور طرح طرح کے کیمیائی مرکبات اور جراحی کے آلات پر توجہ مرکوز کرنے سے ان کی آنکھیں کمزور ہوگئیں  اوروہ بینائی سے محروم ہوگئے۔انہیں  علاج کےلیے ماہر چشمِ امراض کے پاس لے جایا گیا ۔ انہوں نے حکیم سے آنکھوں  سے متعلق   تکنیکی  سوالات  پوچھے  تو وہ  ان کے سوالات  کا تسلی بخش  جواب نہ دے سکا ۔ اس پر  الرازی نے اس سے یہ کہہ کر علاج کرانے سے انکار کر دیا کہ  جس ماہرِ چشم کو آنکھ کے اعضاء کا مکمل علم  بھی نہ ہو ،اس سے علاج کیاکروانا !تاہم ان کی بینائی  موت کے بارے میں  مصدقہ معلومات حاصل نہیں۔

    الرازی   کیمیا اور طب   کے  استاد تھے۔کمرہ جماعت میں انہوں نے طلبا ء کی  صلاحیتوں کے حساب سے درجہ بندی کی ہوئی تھی اور  اس کے مطابق ان  کی  صفیں بنائی ہوئی تھیں ۔ پہلی صف میں وہ طالب علم تھے جو  مضامین پر گہری نظر رکھتے تھے۔وہ لیکچر کے دوران تمام گروہوں کو مستعد رکھتے تھے۔  مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے وہ پہلی صف کے طلباء سے سوالات کرتےجو اس موضوع پر  گرفت رکھتے تھے پھر وہ درمیانی قابلیت والے طلباء سے اور آخر میں تیسری صف میں بیٹھنے والےطلباء سے سوال پوچھتے تھے اورابہام کو مکمل طورپر دور کرتے تھےاور تصورات بڑی تفصیل سے واضح کرتے تھے۔وہ کلاس میں  کلام ( گفتگو )کا طریقہ اپناتے ۔چل پھر کر دلائل دیتے تھے جو ارسطو کا خاصہ تھا۔

مورخ ظفر سپل کے مطابق  ایک روایت ہے کہ الرازی مریضوں کے علاج و معالجہ کے لیے تین مراحل  طے کرتے تھے۔ پہلے مرحلے میں مرض  کی  نوعیت جاننے کے لیے اس کی صحت سے متعلق    حالات   معلوم کرکے یہ جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ  اس کی بیماری کے عوامل کون سے ہیں ۔ ان کی  سابقہ بیماریوں نے ان کے اعضائے رئیسہ کو کس حد تک نقصان پہنچایا ہے ۔آج کل اس طریقے کو  کیس ہسٹری  کہتے ہیں ۔ دوسرے مرحلے میں وہ بیماری کی تشخیص کرتے اور تیسرے مرحلے پر ان کا علاج تجویز کرتے۔ علاج  کے لیے وہ   اطباء کے   اس دور میں استعمال کیے جانے والے  تسلیم شدہ عقائد کا مطالعہ کرتے  لیکن وہ  ان  کو استعمال  کرنے کے پابند نہیں تھے اور  اس دور کی تشخیص کے طریقے اور  استعمال ہونے والی ادویات پر اندھا دھند یقین نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی تحقیق سے جو نتائج حاصل ہوتے اس پر یقین رکھتے تھےاور سختی سے اس اصول پر عمل پیراہوتے تھے۔ مریضوں  کی  صحت اور جواز کو خالص تحقیقات کے اصول اپنا کر نتائج کی روشنی میں  کوئی نظریہ قائم کرتے تھے۔اپنے اصولوں پر سختی سے پابند رہتے تھے ۔اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہیں عمر کے آخری حصے میں جیل کی صعوبتیں بھی اٹھانا پڑیں۔  بڑھاپے میں ان کی  آنکھوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیاتھا۔ انہیں جراحی کا مشورہ دیا گیا تو ایک حکایت کے مطابق انہوں نے جراحی سے منع کردیا اور بولے 'ہرگز نہیں ۔ میں اس دنیا کو دیکھتے دیکھتے تنگ آگیا ہوں۔البیرونی پہلے سائنسدان ہیں  جنہوں نے ان کی سوانح عمری لکھی ۔ان کی فوتیدگی  کے بعد ان کی شہرت تمام یورپ میں پھیل گئی اور صدیوں  قائم رہی۔

الرازی ایک نامورمسلمان کیمیادان تھے ۔ ان کی مادری زبان فارسی تھی۔عرب کے علمی حلقوں میں مشہور  ہے کہ یونانی فلسفی بقراط نے علمِ طب ایجاد کیا ، یورپ میں جالینوس (گیلن )نے  بقراط اور   اس دور  کی  طب    میں  استعمال  ہونے والے علاج معالجہ کے متفرق طریقوں   کو یکجا کیا اور انہیں  سلسلہ وار مجموعوں  میں   پیش کیا، الرازی نے  ان میں کمی بیشی کی اور ابنِ سینا نے ان  طریقوں پر عمل  کرکے ان میں  ترامیم و اضافے کرکے مؤثر انداز میں طبی  شعبے کو پایہ  تکمیل  تک پہنچایا ۔ ان کی طبی شعبے میں نمایاں خدمات پر   انہیں  ' جالینوس ِ العرب ' کے لقب سے نوازا گیاہے ۔ کہاجاتاہے کہ الرازی جوانی میں موسیقی کے دلدادہ رہے پھر ادب و فلسفہ ، ریاضیات  و نجوم اور کیمیا و طب اور فلسفے  کی طرف  بڑی سنجیدگی سے مائل ہوگئے۔ وہ اگرچہ ماہر نفسیات نہیں تھے لیکن بلاواسطہ ذہنی صحت کی بہتری کے لیے کام کیے ۔

نفسیات اور نفسی طریقہ علاج Psychology  and  Psychotherapy٭

الرازی عظیم طبیب تھے۔انہیں طبی امراض کی تشخیص، علامات اور علاج کے طریقے بتانے کی وجہ سے جو پہلے کسی نے نہیں بتائے تھے اپنے  وقت کے امام تسلیم کیاجاتاہے ۔ وہ فنِ طب میں  کامل اورطبی اصول و قواعد کےماہر تھے۔حصولِ طبی علوم میں  لوگ دور دراز مقامات سے ان کے پاس آتے تھے۔ ابنِ خلقان کے مطابق ان کے بارے میں مشہور تھا کہ قدیم یونانی فلسفیوں کے بعد علم طب مر گیاتھا، جالینوس نےاسے زندہ کیا ، الرازی نے اس کو منظم طریقے سے ترتیب دے کر ایک زنجیر میں پرو دیا اور ابنِ سینانے ان کی تکمیل کی۔انہوں نے فوری طبی امداد (فرسٹ ایڈ ) کا طریقہ مسلم دنیا میں پہلی بار متعارف کروایااور اس کے رہنما اصول مرتب کیے۔ ان کی امراض کی  دریافت ،تشخیص اور علاج میں مندرجہ ذیل خدمات ہیں۔

 اور گردن توڑ بخار    ، لاکڑا کاکڑا چیچک ،  خسرہ Small  Pox , Measles  ,Chicken  Pox   and Meningitis  (٭

    الرازی  کہتے ہیں  کہ چیچک کی بیماری جب شروع ہوتی ہے تو  وہ آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھوٹ  پڑتی  ہے ۔مریض کا جسم بخار سے   ُ ابل پڑتاہے۔ شدید بخار مسلسل رہتا ہے۔ کمر میں شدید درد ہوتی ہے۔ ناک میں خارش ہوتی ہے جو بعد میں تمام  جسم میں ہونے لگتی ہےمریض کا چہرہ سوج جاتاہے۔جسم کے ہر حصے میں سوجن ہو جاتی ہےگال بہت زیادہ سرخ ہو جاتے ہیں ۔جسم میں بھاری پن محسوس ہوتاہے۔سوتے میں ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔شدید بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔جسم ٹوٹتاہے۔ بار بار انگڑائیاں اور جمائیاں آتی ہیں۔گلے اور چھاتی میں درد اٹھنا شروع ہوجاتاہے۔سانس لینا دوبھر ہوجاتاہے۔کھانسنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔گلا سوکھ جاتا ہے، گاڑھا بلغم پیدا ہوجاتاہے۔آواز بھاری ہو جاتی ہے سر چکراتا ہے ۔پریشانی اور اضطرابی کیفیت طاری ہوتی ہے جو کم و بیش ہر وقت رہتی ہے۔مجموعی طور پر،مریض کوتمام دن اپناجسم گرم لگتاہے۔اس کی بڑی آنت میں سوجن ہوجاتی ہے۔ اور سوزش پیدا ہوجاتی ہے۔اس کاپورابدن کی رنگت چمکتی ہوئی سرخی مائل ہوجاتی ہے۔اس کے مسوڑھے حد سے زیادہ سرخ ہو جاتے ہیں۔یہ عمر کے کسی حصے میں بھی ہوسکتی ہے ۔الرازی نے کہا کہ   یہ اچھوت کی بیماری ہے اور مریض کے قریب رہنے والے شخص کو فوری طور پر ہوجاتی ہے۔اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ بیمار کو عام لوگوں سے دور رکھا جائے ۔اس بیماری کی علامات اور کامیاب علاج سے مریضوں کی ذہنی صحت  بہتر ہوجاتی تھی ۔۔انہوں نے لاکرا کاکڑا بیماری

 کی بھی نشان دہی کی۔لاکڑا کاکڑا  Chicken  Pox ٭

لاکڑا کاکڑا  ایک اچھوت  کی بیماری ہے جو خاص قسم کے وائرس کے جسم میں داخل ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ سانس لینے اور خارج کرنے سے وہ وائرس مریض کے پاس بیٹھے لوگوں میں داخل ہوجاتاہے اور وہ بھی لاکڑے کاکڑے کی بیماری ( چکن پاکس ) میں مبتلا ہو جاتاہے۔اس کی وجوہات بھی چیچک سے ملتی جلتی ہیں ۔ مرض کی تشخیص، علاج معالجہ میں ان میں لچک پائی جاتی ہے ۔ صھت یابی سے مریضوں کو ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔

 گردن توڑ بخار Meningitis ٭

الرازی نے گردن توڑ بخار  کے مریضوں کے علاج کے دوران  علاج کے دوران دریافت کیا کہ  اس میں  مریض کے پورے بدن کی رنگت چمکدار سرخی مائل ہوجاتی ہے۔اس کے مسوڑھے حد سے زیادہ سرخ ہو   جودماغ  کے ارد گرد جھلیوں کی ایک پرت  جس کا نام دماغی بخار کی جھلی  مینن جیٹس ہے کو تباہ کردیتی ہے۔اس  کر دماغی بافتوں میں سوزش  پیدا کرتے ہیں اور شدید بخار  ہوجاتا ہے جو اترنے کانام ہی نہیں لیتا۔ اس بیماری  کا کوئی علاج نہیں ۔تاہم  الرازی نے   کی علامات            پٹھوں میں کھچاؤ ، سردی لگنا،قے اور اسہال، کبھی نہ ٹوٹنے والا بخار وغیرہ ہو سکتی ہیں۔ اورایسے بہت سے  مریض  مخصوص  دورانیہ  کے بعد فوت ہو جاتے ہیں۔ تاہم  الرازی بت کیا کہ اگر مرض کے دوران  مریض کے جسم سے خون نکال دیا جائےتو   صحت مند ہونے کے امکان پیدا ہو جاتے ہیں۔تاہم   اگر مریض صحت یاب ہو جائے تواسے روحانی تسکین ملتی ہےجو نفسیاتی عمل ہے۔انہوں نے مواسیقی کے بارے میں بھی لکھا۔

٭ موسیقی      

الرازی اپنی  عمر کے کسی  دور میں موسیقی کے  رسیا رہےتھے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے موسیقی پر کتب لکھیں ۔ کہاجاتا ہے کہ انہوں نے موسیقی کے سازوں ، کمپوزنگ  وغیرہ میں بہت سی ایجادات کیں لیکن  وثوق سے نہیں  کہا جاسکتا کہ  انہوں نے موسیقی  کے آلات وغیرہ کی  کوئی ایجاد کی ہو یا اپنے دور میں موسیقی کو سنہری  دور میں داخل کیاہو لیکن یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے  فنون لطیفہ میں  اور موسیقی   کو اہمیت دی  ۔اس وقت     تمام مسلم دنیا  کے فلسفی، مشائخ اور ادباء زندگی کے ہر شعبے  پر خدمات انجام دے رہے تھے اور مختلف فنون میں ہم آہنگی پیدا  کررہے تھے جس سے موسیقی کے قواعد و ضوابط  اور کارکردگی میں بہتری پیدا ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کم عمری میں موسیقی کو کمپوز کیا۔ مریضوں کوموسیقی سننے کا مشورہ  دیاکرتے ۔ان کا ماننا تھا کہ موسیقی  روح تک پہنچتی ہے جو مریض کو ذہنی آسودگی مہیا کرتی ہے جس سے  اس کی بیماری میں تیزی سے اضافہ نہیں ہوتا۔ افسردگی ، فالج  اور ذہنی  تناؤکے مریضوں  خواہ   وہ  ہوش میں ہوں یا بے ہوش کو ادویات کے ساتھ    موسیقی  سنوائی جائے تو  ان کی   ذہنی اذیت  کم ہو جاتی ہےاور ادویات  جلد اثر دکھانا شروع کر دیں ۔انہوں نے موسیقی میں کتب لکھیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ  وہ  موسیقی  کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ یہ خالص نفسیاتی طریقہ علاج تھا۔ موجودہ دور میں بھی یہ استعمال کیا جا رہاہے۔ان کی خدمات فلسفے میں بھی ہیں جس میں انہوں نے کافرین کے فلسفے کو اسلامی تعلیمات میں ڈھالنے کی کوششیں کیں۔

Philosophy  ٭ فلسفہ                      

الر ازی نے  فلسفے پر بہت کچھ لکھا لیکن  اس کا بہت معمولی حصہ دریافت ہو سکاہے جن میں ان کے  مذہبی فلسفیانہ  نظریات  میں لافانی  اصول و ضوابط   ہی منظرِ عام پر آئے ہیں۔ وہ بھی  ادھورے ہیں اور مختلف مقالوں میں جزویات  کی صورت  میں پائے گئے ہیں یا دوسرے مصنفین  نے ان کے حوالے سے بیان کیے ہیں ۔ان ٹکڑوں کو جوڑ کر ان کے تصورات کو جانا گیا ہے۔فلسفے میں مختلف موضوعات پر ان کا نقطہ نظر درج ہے۔

Metaphysics          ما بعد از طبعیات   )  i                         

ما بعد از نفسیات  فلسفے کی ایک شاخ ہے جس میں ان اشیاء کا مطالعہ کیا جاتاہے جو ہمارے  پانچوں حواس (  بصری ؛ سمعی؛ شمعی ،ذائقی   اور لمسی  ) میں نہیں آتیں ۔لیکن   چھٹی حس اس علم  میں آتی ہے۔ یہ ایسی اشیاء کا مطالعہ نہیں کرتی جنہیں دیکھا، سنا ، سونگھا ، چکھا یا چھوا جا سکتا ہو۔ مابعد از نفسیات کا تصور ارسطو کی چودہ کتب سے لیا گیا۔ ارسطو خود بھی نہیں جانتا تھا کہ ما بعد از طبعیات کیا ہو تی ہے۔ اس کی چودہ کتب میں اس نے اسے  چار ناموں سے پکارا۔    فلسفہ اوّل ؛ وجوہاتِ ( اسبابِ) اوّل ؛   ذہانت ( دانشمندی )  اور مذہب ۔ ارسطو کے مرنے کے سو سال بعد ایک فلسفی  اینڈرونیکس  نے ارسطو کی چودہ کتب  کے موضوعات کو غور سے پڑھا اور اسے مابعد از طبیعیات کا نام دیا۔

مابعد از طبیعیات سے مراد یہ ہے کہ  وہ واردات جس کا طبیعیات   معروضی طور پر مطالعہ نہیں کیاجاسکے ۔ر ماورائے طبعی تحقیق ہے  ما بعد از طبیعیات ہے ۔ اس میںارسطو نے ان چودہ کتب میں  اس سے متعلق   چار قسم کے موضوعات شامل کیے تھے۔ ا)   ہر شئے کو خود مختار سمجھنا اور اس کی الگ حیثیت تسلیم کرتے ہوئے مطالعہ کرنا ۔  ب) اشیاء کیوں وجود میں آئی کا مطالعہ کرنا۔ ج) آزادانہ رائے کا استعمال کرنا۔ ان دنوں مابعد از طبیعیات کے اہم ترین مسائل تھے کہ کائنات کیا ہے، کیسے وجود میں آئی۔ کیا یہ مستقل ہے  یا عارضی۔ جسم کیا ہے ۔روح کیا ہے ۔ کون سے شئے فانی ہے ، کون سی لافانی۔کائنات کا نظام کیسے چل رہاہے۔کون اسے چلا رہاہے

  و غیرہ ۔ یہ مسائل منطق کی رو سے سلجھائے جاتے تھے۔

الرازی کے نزدیک مابعد از طبیعیات بانچ قوانین کے تحت کام کرتی ہے۔  طبعی کائنات  ایسے چھوٹے چھوٹے  ذروں جو مزید تقسیم نہیں ہو سکتے، بنی ہے۔پہلا قانون  یہ ہےکہ وہ ذرہ جو مزید تقسیم نہیں ہو سکتا وہ خدا ہے۔  خدا کائنات  کا خالق ہے اوراسے  کنٹرول کررہاہے۔ وہ واحد ہے اور اس کی حیثیت دائمی ہے۔ انسان خدا سے ربط پیدا کرتا ہے    اور دوسرے چار قوانین  یعنی  روح، مادہ ، زمانہ وقت، اور جگہ  مقام خدا کے تابع ہیں۔اور مزید  تقسیم نہیں ہو سکتے سے بنی ہے جنہیں جوہر یا ایٹم کہا جاتا ہے۔  یہ ایک فطری فلسفہ ہے کہ طبعی کائنات  ایسے چھوٹے چھوٹے ذروں  میں بٹے ہیں اور مزیدالرازی کے دور میں مابعد از طبیعیات جسم اور روح کے علمی  مغالطوں میں بٹی ہوئی تھی۔ روح لافانی اور جسم فانی قرار دیاگیا۔روح جسم میں ہوتی تو فانی، جسم سے باہر ہو تو  لافانی ہوتی ہے۔ نیند میں روح جسم چھوڑ جاتی ہے اور جاگنے پر دوبارہ جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس وقت اس کا کردار عقل و دانش کا ہوجاتا ہے۔ روح کے اعمال ماورائی ہیں۔

yاسلامی فلسفے میں مابعد از طبیعیات   کی بنیادرکھ کر  اسلامی قوانین اور اسلامی طرز حیات کا تصور پیش کیا ۔ ' فلسفے میں منطق، ریاضی،طبیعیات کے اصول اور قوانین استعمال کرتے ہوئے   الرازی نے فلسفے میں اپنے جس میں تحصیلی مسلم مذہب  ہے  کو باقاعدہ طور پر شروع  کیا۔ اس نظریے کی بنیاد سب سے پہلے مسلمان فلسفی   الکِندی نے رکھی تھی  جسے الرازی کے بعد ابنِ سینا اور ابنِ رشد نے جاری رکھا ۔ نویں سے بارہویں  صدی عیسوی  کا دور اسلامی سنہری دور کہلاتاہے۔ ابن رشد کی رحلت کے بعد اسلامی فلسفہ کا  مکتبہ فکر زوال پذیر ہوگیا اور اسلامی  فلسفہ کو بحثیت علیحدہ مضمون ختم کردیاگیا  اور مغربی  اسلامی مشرقی ممالک میں اسلامی فلسفے کا مکتبہ فکر جاری رہا۔اب ان کی طب کے شعبے میں لازوال خدمات  کا ذکر کیاجاتا ہے۔

٭ شعبہ  طب  میں خدمات

تشخیص   کو سائنسی بنایا ۔ الرازی علم ِ  طب اور   نے   الرازی  کیمیا گر ، فلسفی اور سائنسدان  بھی تھے۔انہوں نے بہت سے آلاتِ جراحی   ،  نئے نئے  لیکچربہت پر مغز ہوتے  تھے۔اور طلبا  شوق سے   سنتے تھے۔ان کو 'الشٰیخ  طب  ' کے لقب سے نوازا  جاتاتھا جو بہت بڑا اعزاز تھا۔انہوں نے انقلاب ِ طب اوترمیم ، جدت اور ایجاد یں کیں ۔ان کی مختصر تفصیل درج ہے۔   

کیمیا  کے سامان  کی  ایجادات کی فہرست  List of Alchemy٭

الرازی   نے کیمیائی تجربات  میں  محسوس کیا کہ   آلات  کی شکل، سائز وغیرہ  ان کے تجربات  میں مناسب نہیں تھے۔ انہوں نے   دھاتوں کا مشاہدہ شروع کردیا۔  دھات ، غیر دھات  اور دھات نما   کی خصوصیات میں تمیز معلوم کی ۔  تجربات سے انہیں معلوم ہوا کہ  دھاتیں موصل ( جس میں بجلی اور حرارت آسانی ، سے گزر سکتی ہو) ہوتی ہیں ؛  خاص درجہ حرارت پر پگھلنے والی ؛  سخت؛ مضبوط ؛زنگ     چڑھ جانے والی  ؛وزنی ؛  بھاری ہتھوڑے  کی چوٹ سے بھی نہ ٹوٹنے والی اور کسی حد تک چمکدار ہوتی ہیں؛ کمرے کے درجہ حرارت پر ٹھوس ہوتی ہیں؛ ان میں سختی پائی جاتی ہے؛اسے  اس کے پگھلنے والے درجہ حرارت پر گرم کیاجائے تو پگھل کر موڑی جاسکتی ہیں۔ان میں ایک دھات ایسی ہے جس میں یہ خصوصیات نہیں پائی جاتیں اور  پارہ ہے۔دیگر تمام دھاتوں میں مندرجہ بالا خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

انہوں نے دریافت کیا کہ غیر دھاتیں  چمکدار ہوتی ہیں ۔اگر یہ ٹھوس ہو جائیں تو ہتھوڑے کی ضرب سے ٹوٹ جاتی ہیں۔وہ  کسی حد تک غیر موصل ہوتی ہیں ۔ان سے بجلی اور حرارت گزر سکتی ہے؛ان کے آکسائڈ تیزابی ہوتے ہیں جیسے گندھک؛ اکثر غیر دھاتیں گیس کی صورت میں پائی جاتی ہیں  جیسے آکسیجن ، نائٹروجن  وغیرہ  ما سوائے نوبل گیسوں    کے  جو سیال ہوتی ہیں ۔

جبکہ دھات نما دھاتیں   دیکھنے میں عام   دھاتوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔چمکدار ہوتی ہیں ؛ٹھوس ہوتی ہیں لیکن ہتھوڑے کی مار برداشت نہیں کر سکتیں اور ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔ ان میں بجلی اور حرارت   دھات اور غیردھات کے مقابلے میں کم موصل ہوتی ہے۔یہ دھاتیں  سیمی کنڈکٹرکے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔

وہ بار بار ناکامی  اور بہت  زیادہ محنت ، وقت اور پیسہ خرچ کرنے کے بعد   ایسے سانچے بنانے میں کامیاب ہوگئے جو        ان کی مرضی کے مطابق    تجربات میں آسانیاں پیدا کرکے ان کی تخلیقات میں  معاونت کر سکتے تھے۔

الرازی نے کیمیاکے سامان کو دو درجوں میں تقسیم کیا۔ پہلے درجے میں کیمیا میں استعمال ہونے والے آلات کو  بہترکرنا اور دوسرے درجے میں  کیمیا میں محلول کے مرکبات تیار کرنا۔پہلے درجے میں الرازی نے  دوا سازی میں استعمال ہونے والےبہت سے ایسے آلات ایجاد کیے یا پہلے سے استعمال ہونے والے سانچوں  یا آلات میں  اصلاح  ،  ترامیم یا جدت پیدا کی  جس سے جراحی اور  ادویات کی تیاری میں مریضوں کی تشخیص اور جراحی میں کم وقت، زیادہ فصاحت   پیدا ہوگئی  ۔ دوسرے درجے میں  انہوں نے ان سانچوں کو استعمال کرکے کیمیا گری کی۔خام دھاتوں یا دوا سازی پگھلانے والی بھٹیاں  بنا ئیں۔ مختلف دھاتوں کے ملاپ  سے  دھ   آلات  اور مرکبات بنائے۔جن کی تفصیل درج ہےانہوں نے لوہے ، سٹیل وغیرہ اور خصوصی   اشیاء    لوہار کی بھٹی ( ہرتھ ) ؛کھالیں صاف کرنے  اور انہیں مختلف اشکال میں تبدیل کرنے کی مشین بنائی ؛   جیسےکھالیں  اور انہیں مختلف اشکال  دینے کے آلات ؛ڈوئی (زبان )؛    دھاتوں کو  کاٹنے والے اوزار ( کٹر)؛بھاری اشیاء ہلانے والی سلاخ ( میک سیریٹ )؛ مخصوص اشیاء کو بھگو صاف کرنے رنگنے، کاٹنےکا آلہ  ؛  کٹھالی (کروسیبلز)  ؛پیسنے لوہا  اور دیگر  اشیاء کو ریزہ ریزہ کرنے والی  مشین (گرائنڈر)؛  سونٹا، موسلی ؛ُکوٹنے کا دستہ ( پیسٹل )؛ریتی ( فائل)؛لوہا کاٹنے کا آلہ(شیئرز )؛ اسطوانی  سانچہ ( سلنڈریکل آئرن مولڈ  )؛  نیم اسطوانی  سانچہ (سیمی۔ سلنڈریکل آئرن مولڈ)وغیرہ  ایجاد کیں ۔ الرازی نے کشیدگی کے عمل کے لیے   قرع البنیق آلہ ایجاد کیا جو آج بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

جبکہ کیمیائی تجربات میں انہوں  نے کشیدگی کے آلات بھی بنائے۔جو درج ذیل ہیں ۔    

عرق کشیدگی کے آلاتDi stilling  Apparatus)ii

عمل کشید میں جو مائع     اور دھاتوں  کو محلول  میں تبدیل کرنے  کے لئے جو آلہ بنایا اسے قرع ابنیق   یا المیرک  یا ریٹارٹ کہتے ہیں ۔یہ عرق کشیدگی کا ایسا سانچہ ہے جس کے دو حصے ہیں ۔ ایک حصے میں  کیمیا وغیرہ کو پگھلایا جاتاہے تو  وہ آبی بخارات میں تبدیل  ہوجاتے ہیں ۔ دوسرا حصہ اس طرح کا بنایا گیاہے کہ وہ آبی بخارات اس میں جمع ہوجاتے ہیں ۔ جب وہ آبی بخارات وہاں پہنچتے ہیں تو  وہ مائع شکل اختیار کر لیتے ہیں جب وہ ٹھنڈے ہوجاتے ہیں  تو  ٹھوس شکل  اختیار کر لیتے ہیں ۔ قرع انبیق کے ذریعے  انہوں نے  لوہے، تانبے، چاندی ،سونے ، پیتل  وغیرہ کی دھاتیں  پگھلاکر نئی دھاتوں کا اضافہ کرکے نئی نئی دھاتیں اور کیمیا ایجاد کیے۔ اس سانچے کے علاوہ  انہوں نے کھوکھلا  سانچہ (شیلو آئرن پین )؛  کمہار ی  کھال کا سانچہ ( پاٹرز سکن ) ؛دھونکنی؛اسطوانی ذخیرہ کرنے کا سانچہ  ؛(بلوئر ز) ؛بڑا چولہا ( لارج  اوون (   ؛   ہواذخیرہ کرنے والا سانچہ ؛چھلنی ؛چھلنی (سییو)کرنے والے (یشےکے پیالے؛صراحیاں ، فیال شیشی ( فیالز ) ؛   اسطوانی ذخیرہ کنے والا سانچہ  (    سلنڈریکل  سٹوریج  آلات (  بریکرز ) ؛ شیشے  کے ؛ شیشے کی قیف ( گلاس فنل )؛ سنار کا کھرپا (سائڈ رون  )؛  ؛گرم کرنے والے لیمپ اور کھرل ؛ مورٹرس))؛  بڑی کڑھائی  (ہیئر بینڈ بال ڈھانپنے والا خصوصی کپڑا ہموار پتھر  والا کڑھاؤ؛ ریت ؛ سفید گسل؛ چھلنی ( سییو ) ؛  مخصوص  آتشدان ( چیفنگ ڈش )  ؛ہوائی جہاز اورموٹر گاڑیوںاور انجن سے چلنے والی مشینوں میں خام پٹرول کو صاف کرنے کا طریقہ ا یجاد کیا۔انہوں نے پودوں ،جانوروں ،معدنیات کے گروہ اور ان سے ادویات تیار کیں۔۔انہوں نے  مٹی کے تیل کو پٹرول سے علیحدہ کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ الرازی نے  آنکھ کے موتیے ( کییٹیرِ ک ) ، جسمانی  علم الاعضاء،نظامِ عصبی اور مرگی کے دوروں کی عضویاتی وجوہات پہلی باربیان کیں ۔ انہوں نے بہت سی کیمیائی مرکبات ایجاد کیے  جن کی تفصیل درج ہے

شراب اور گندھک کے تیزاب کا علاج میں استعمال۔ Invention  of Alcohol and Sulphuric Acid)                   iii

 ا لرازی  نے  طرح طرح کے تیزاب ایجاد کیے جو ادویات اورکیمیا دانی ، صنعتی ترقی  میں استعمال ہوئے اور آج بھی ہورہےہیں۔ انہوں  نے شراب اورگندھک کا تیزاب  ایجاد کیا   ۔انہوں  نے تجربات سے مختلف قسم کے تیزاب  ایجاد کیے اور ان  سے طرح جو علاج معالجے اور کیمیا دانی میں استعمال ہوئیں  اور آج بھی ہو رہی ہیں ۔ان کا دور مسلمانوں کا سنہری دور کہلاتاہے ۔نوویں سے گیارہویں صدی  تک مسلمان سائنس دان اور فلسفی  ہر میدان میں آگے تھے۔انہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایجادات کیں لیکن انہیں اپنے اپنے ناموں سے رجسٹر نہیں کروایاتھا جسے بعض  مفاد پرست ٹولے نے اپنے نام سے کروالیا۔اس کے باوجود زیادہ تر  ایجادات ان مسلمانوں  کے نام سے آج بھی مشہور ہیں ۔انہوں نے مندرجہ ذیل جراحی کے آلات ایجاد کیے یابہتر بنایا جن میں اہم درج ذیل ہیں۔

الرازی نے جراحی میں استعمال ہونے والے نشتر کی ساخت میں تبدیلی کی ۔اسے چھوٹا، زیادہ نوکیلا اور تیز دھار کیا  جس سے سے وہ نشتر صحیح مقام پر نشانہ لگاتا تھا جس سے مریض کو کم درد ہوتاتھا۔ٹھیک نشانے پر چیر لگاتا تھا اور زیادہ محفوظ تھا۔

(Scalpel  )                                                                 نشتر (i

جراحی  میں استعمال ہونے والے نشتر  کی ساخت میں تبدیلی کی۔ اسے چھوٹا ، زیادہ نوکدار اور تیز بنایا۔جس سے وہ   الرازی   نے جراحی میں صحیح  مقام پر ، کم تکلیف  دیتاتھا اور ٹھیک نشانے پر چیرا لگاتاتھا اور زیادہ محفوظ تھا۔  

سلائی کی سوئیاں   Needles for Suturing) ii

الرازی نےجراحی  میں  استعمال کے لیےمختلف اشکال اور لمبائی کی سوئیاں ایجاد کیں۔یہ سوئیاں جراحی کے بعدمخصوص زخم سینے کے لیےضروری تھیں کیونکہ جراحی کے چمٹے  اس دو کے(   ( فورسپ)سے ایک تو  مریض متعدی امراض  کا شکار ہو سکتا  سکتا تھا  اور دوسرا  یہ کہ اس کا زخم مندمل ہونے میں دیر ہو جاتی تھی۔ دوسرا  الرازی نے جراحی میں استعمال کے لیے مختلف قسم کی چمٹیاں بنائیں جن کا مقصد یہ تھا کہ آپریشن کے دوران مختلف زاویوں سے اشیاء  کو پکڑ کر رکھنے کے لیےاستعمال کیا جاتا تھا۔دانتوں میں  ڈاکٹری  استعمال  کے لیے زبورایجاد کیاجومختلف نسیجوں اور بافتوں  میں غیر ضروری اشیاء نکالنے  اور انہیں حسب منشا ء استعمال  کرنے کے قابل بناتاتھا۔

قثاطیر ، قسطر ( پیشاب کی نالی  کی  ٹیوب ))    Catheters   (iii

الرازی نے  جسم سے فاسد مادے نکالنے یا  خصوصی طور پر پیشاب  کے بلیڈر کو جسم کو خشک کرنے کے لیےایک ٹیوب ایجاد

 کی جسے قثاطیر  ( کیتھیٹر ) کہتے ہیں    مختلف مواد کی بنی ہوتی ہیں جسے پیشاب کی نالی میں  لگاکر فاسد مادے نکالے جاتے ہیں ۔ اس سے  فاسد مادوں کا اخراج کیاجاتاہے۔قثاطیر مختلف  سائز اورمختلف

 (ناک ، کان ، گلا وغیرہ چیک کرنے کاآلہ  ) Speculum      (iv

الرازی  نے ایک قسم کا آئینہ ایجا د کیا جس کا مقصد  جسم کے اندرونی حصوں کو کھول کر اندرونی اعضاء  کا معائنہ کرنا تھا۔ اس کے ذریعے   خواتین کی زچگی کےدوران  ،  ناک ،کان ،گلے  اور دیگر اعضاء کھول کرآئینےمیں ان اعضا ء کا معائنہ کیا جاتا تھا۔

   کھرل اور دھسکاکوٹنے والا اوزار)Mortar and Pestle  (v

 الرازی نے   ادویات کی مقررہ مقداراور تناسب سےُ کوٹنے والے سانچے ھرل  اور دھسکا ( پیسٹل اینڈ مورٹر ) ایجاد کیے جو جڑی بوٹیوں کو پیسنے ، مختلف تناسب سے بالکل صحیح وزن کے  جزو  تناسب  سے  ملاکر  ادویات  بناسکیں  ایجاد کیے۔یہ آلات  اس لحاظ سے اہم تھے کہ بالکل صحیح مقدار میں  مؤثر ادویہ کے فارمولے  ۔بنا سکیں ۔ عرق کشی کے آلات جو  ادویات میں استعمال ہوتے تھے ،  عرق کشی  کرکے انہیں بالکل صاف اورگاڑھا کیا۔ جراحی اور طبی آلات کی تیاری سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھیں۔   علاج معالجہ میں جراحی کے پہلےعمدہ مخصوص آلات کی ایجاد اورمیسر آلات کو نفیس اور مزید کارآمد بنایا۔اس  کا نتیجہ یہ نکلا کہ جراحی سے پہلے ، جراحی کے دوران  اور جراحی  کے بعد کے الگ الگ   آلات  بن گئے۔اس طرح سے اس نے قدیم جراحی کو تبدیل کرکے جدید جراحی آلات  اورادویات  بنانے  کی بنیاد رکھی  جس سے  مریضوں  کی بہتر دیکھ بھال کی جاسکتی  ہےاور عمدہ نتائج حاصل لیے جاسکتے ہیں۔الرازی نے  دوا سازی میں بھی گرانقدر خدمات سر انجام دیں جس کا مختصر خاکہ ذیل میں درج ہے۔

Pharmacy٭ دوا سازی

دواسازی کے انتدائی دور میں  الرازی نے عہد حاضر میں استعمال ہونے والی تمام ادویات کی فہرست تیار کی ۔ اس کے بعد انہوں نے معلوم کیا کہ وہ کن بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں ،ان کے اجزائے ترکیبی کیاہیں۔  ادویات میں کون سی جڑی بوٹیاں استعمال کی جاتی ہیں۔وہ کن  پہاڑوں ، جنگلوں ، سمندروں وغیرہ سے لائی جاتی ہیں۔ان میں کون سی دیگر  اشیاء شامل کی جاتی ہیں۔ اجزائے ترکیبی کی مقدار کیا ہوتی ہے۔ وہ کن بیماریوں کاعلاج کرتی ہیں اور وہ  علاج میں کس حد تک علاج میں  کامیاب  ہوتی ہیں۔انہوں نے الکحل ایجاد کی اور اسے بہروں کے علاج میں استعمال کیا۔کیمیا سازی کے علاوہ انہوں  پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق بھی بنایا۔

Ethics of Medicine ٭دواسازی میں ضابطہ اخلاق

کسی بھی پیشے کے کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں  جن کو ماہر کو عمل کرنا پڑتاہے۔ ان دنوں معالج  کے لیےکسی قسم کی  رہنمائی نہیں تھی ۔ شہر میں تو پھر بھی کچھ سوجھ بوجھ تھی لیکن  دیہی علاقوں  کے ماہرین اس سے نابلد تھے۔الرازی نے اس کمی کو دور کرتے ہوئے پیشہ ورانہ سطح پر  طبی شعبے سےتعلق رکھنے والے  ماہرین کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کیا۔

اس کے علاوہ الرازی    نے معلوم انہوں نے عطائیوں کو جو گھوم پھر کر ادویات بیچتے تھےعلاج ومعالجہ کے لیے خطرناک تھے ۔ان کو علاج معالجہ سے باز رکھنا چاہیئے۔ الرازی نے  معلوم کیا کہ حکیم حاذق اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبیبوں کے پاس بھی  ہر بیماری کا علاج نہیں تھا۔وہ ہر ایک کو صحت مند نہیں بناسکتے تھے۔انہوں نے تجویز دی کہ ہر معالج کو طبی کتب کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیئے ۔ مسلسل تحقیقات  کی جائیں اور جدیدمعلومات کی روشنی میں اپنے طریقہ علاج کو بہتر سے بہتر کیاجانا چاہیئے۔  پہلی منزل پر ہی پکڑ لیاجائے۔ کے پہلے ، دوسرے اور تیسرے سٹیج  کے مرض کی علامات کیا کیا ہیں   ۔انہوں نے کہا کہ  کسی ۔ اس وقت اس مرض کا علاج  ممکن ہے ۔ ان پر تحقیقات کرکے معلوم کیا کہ آخری منزل تک مرض پہنچنے تک ایسے امراض لاعلاج ہو جاتے ہیں۔ایسے معالج جو ایسا نہیں کرتے انہیں موذی امراض کی آخری سٹیج پر پہنچنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

ان کے دور میں  اشرافیہ کے مخصوص طبیب ہواکرتے تھے۔  شاہی طبیب ، شاہی خاندان ، نوابوں، راجوں، مہاراجوں اور خواتین کی امراض کے خصوصی معالجوں پر وہ ترس کھایا کرتے تھے۔وہ انہیں بے بس سمجھتے تھے کیونکہ ان کے مریض ان کے مشوروں کی نہ تو پابندی کرتے تھے اور اور نہ ہی ان کی ہدایات کے مطابق ادویات کھاتے تھے۔الرازی نے  صحت مند رہنے کے لیے غذائیت پر زور دیا۔

خوراک کا استعمال   Food  intake٭

الرازی نے  کھانے پینے کے بارے میں رہنما اصول بیان کیے۔ انہوں نے مشورے دیئے کہ   کھانا اس وقت کھایا جانا چاہیئے جب پہلے کھانے کا بوجھ معدے پر کم ہوچکا ہو اور پیٹ میں ہلکا پن پیدا ہوگیا ہو۔ جب  بھوک لگے تو کھایا جائے۔ پیٹ بھرا ہو تو نہ کھایا جائے۔اگر شدت کی بھوک لگی ہو  تو کھانا کھانے میں قطعی دیر نہ کی جائے ۔ ایک دم کھانے پر ٹوٹ نہ پڑا جائے۔ اتنا زیادہ نہ کھایا جائے کہ معدے میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہوجائے اور سانس لینا دوبھر ہو جائے۔ کھانا نہ کھایا جائے اور بھوک رکھ کر کھایا جائے۔اگر کسی وجہ سے کھانا شکم سیر ہوکر کھایا ہو اور طبیعت بوجھل ہو جائے تو سکنجبین یا گرم پانی پی لیاجائے۔نیز اگلی خوراک اس وقت تک نہ کھائی جائے جب تک قے یا اسہال نہ ہوجائے یایہ کہ بھوک زور نہ پکڑ لے۔

انہوں نے ہدایت کی کہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ  معینہ وقت پر کھایا کرے۔اگر وقفے وقفے سے کھانے کی عادت ڈال لی ہو تو کم کم کھایا جانا چاہیئے۔ متوازن ۔ایک صحت مند شخص کے لیے ضرورکھانا چاہیئے ۔   کھایا جائے۔چوبیس گھنٹوں میں کم ازکم ایک بار   وقت  پرمتوازن  خوراک کھائی جائے۔  کمزور اور خشک بدن لوگوں محض دن میں ایک دفعہ اور قوی جثہ لوگوں کو دن میں دو دفعہ کھانا چاہیئے۔جسمانی محنت کرنے والے لوگوں کی غذا کی مقدار عام لوگوں سے ۔کھانے میں طرح طرح  کی غذائیت والی اشیا ء ہوں۔ کھانے کے شروع میں ہلکی غذا (سوپ  وغیرہ ) لیا جائے اور بعد میں مرغن غذا   کھائی جائے ۔ موسم گرما میں کھانا ٹھنڈا اور   سردیوں میں گرم ہونا چاہیئے۔کھانے کے دوران پانی صرف ضرورت پڑنے پر ہی پیاجائے۔سیر ہوکر پانی اس وقت پیا جائے جب  خوراک معدے سے نیچے جا چکی ہو جسے سوا یا ڈیڑھ گھنٹہ لگتاہے۔ کمزور اعصاب کے مالک لوگوں کو برف سے ٹھنڈا کیا ہو اپانی نہیں پینا چاہیئے لیکن گرم مزاج لوگ ایسا ٹھنڈا پانی پی سکتے ہیں ۔ایک سانس میں ٹھنڈا پانی نہیں پینا چاہیئے۔ آہستہ آہستہ گھونٹ گھونٹ کر کے پیا جائے۔ 

٭  تصانیف

انہوں نے  دوسو کتب  لکھیں   جنہیں منگولوں نے فتح حاصل کرنے کے بعد دریا برد کردیں یا جلا دیں۔انہوں نے بڑی تفصیل سے  طب سے متعلق لکھاجو صدیوں تک   یورپ میں پڑھائی  جاتی رہیں ۔ انہوں نے  یوں تو دوسو کتب لکھیں  تاہم  کچھ یونانی طب  مل سکیں ۔ان کی تصانیف  کے انگریزی، عربی اور دیگر زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ ان کی کتب مستند تصور کی جاتی تھیں اور سترہوں صدی عیسوی تک یورپی درسگہوں میں بطور نصاب  پڑھائی جاتی رہیں۔اہم تصانیف درج ہیں ۔

٭کتاب الحاوی  جامع اللغات

ان کی مقبول ترین کتاب الحاوی ہے جو  پچیس  جلدوں پر مشتمل ہے۔ کتاب  الحا وی  میں الرازی نے دنیابھر سے طب سے متعلق معلومات اکٹھی کیں اور اپنی تحقیق، مشاہدے، علم و دانش ، تجربے اور بصیرت سے طریقہ علاج  معلوم کیے۔  یہ تصنیف طبی دارالغات ہے جس میں انہوں نےتمام طبی علوم کو متقدین کی معاونت سے ایک  جگہاکٹھا کیا  اور اور خلا کو  اپنی ذاتی تحقیقات سے پر کیا۔اس کتاب میں بہت سے امراض  کی تفصیل و علاج بیان کیے گئے ہیں ۔ جن میں امراض زچگی ، آشوب چشم ،آنکھ کا موتیا اور آنکھ کی دیگر بیماریوں پر  تفصیل سے بیان کیا گیا علامات  اور طریقہ علاج پر زبردست تنقید کی ہے۔انہیں اس کتاب کی وجہ سے قرون وسطیٰ کا  عظیم  ترین  مسلمان معالج بھی کہا جاتاہے  ۔ تصانیف الحاوی   میں  انہوں نے بیماریوں کی درجہ بندی  ، علامات، علاج وغیرہ  بیان کیں۔ان تصانیف کو  جامع الکبیر  (کنٹی  ننس  لائیبر )  یا طبی لغات بھی کیاجاتاہے۔ انہوں نے ارسطو اور افلاطون کے  مقالوں پر تجزیے لکھے۔الکتاب الحاوی ایک رسمی علم طب کی کتاب نہیں ہے  بلکہ یہ الرازی  کی رحلت کے بعد از مرگ تصانیف کا مجموعہ ہےجن میں ان کی روزمرہ ڈائری  جن میں دیگر کتب سئے حاصل کردہ  معلومات اور اس کے ساتھ اپنے ذاتی علم کی بناپر معلوم کیے گئے امراض اورطریقہ علاج پر اپنے حقیقی مشاہدات اورنتائج بیان کیےگئے ہیں ۔یہ کتاب اس لحاظ سے نمایاں ہے کہ اس میں چیچک پر عظیم و نشان خط ِ طغری ٰ( مونوگرام )  ہے جس میں ایک ہی موضوع پر تفصیلاً معلومات اکٹھی کی گئی ہیں۔ یہ لغت  مستند ہے اور اسے ہر جگہ تسلیم کیاجاتاہے۔اس کتاب کا 1279 ء میں فراج بن سلیم نے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا ے  یورپ نے قبول کیا۔

الحاوی میں جالینوس ( گیلن )  جسے تمام دنیا مستند ماہر طب و  ماہر ِادویات  کے طورپر مانتی تھی کی معلومات پر تحقیقات کرکے ثابت کیا کہ اس کے طریقہ علاج کی مثال کے طورپر الرازی نے جالینوس کی پیشاب کی بیماریوں اور بخارکی وجوہات اور علامات صحیح نہیں  تھیں۔ الرازی  نے سینکڑوں مریضوں کا مطالعہ کرکے جالینوس  کو غلط ثابت کیا۔ مریضوں کا مطالعہ کرکے اسے غلط ثابت کیا۔ جالینوس نے صرف تین مریضوں کا مطالعہ کرکے اسے عمومی نظریہ بنادیاتھا۔  

یہ کتاب عربی زبان میں سب  سے بڑا طبی دائرہ المعارف ہے اس میں طب کے ہر مسئلے پر تمام یونانی اور عربی اطبا  ء کی آرا پیش کی گئی ہیں۔اس کتاب میں یونان و ہند اور ایرانی علوم کوایک ہی نظام میں مربوط کردیاگیاہے اس کتاب کالاطینی ترجمہ ایک یہودی طبیب نے 1289 ء میں  صقلیہ ( سسل ) میں کیا۔ یہ کتاب صدیوں یورپی یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ رہی۔ وہ اتنی مقبول تھی کہ 1522  میں اس کا پندرہواں ایڈیشن شائع ہوا۔

٭ کتاب  الجدری و الحصبہ

الرازی کا یہ پہلا رسالہ ہے  جس میں چیچک اور خسرے  کی معالجاتی تفصیل بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ان سے پہلے کسی  بھی سائنسدان نے چیچک ، خسرے اور لاکڑے کاکڑے کی تفصیل نہیں بیان کی تھی۔انہوں اسباب ، علامات اور علاج تجویز کیا ۔ اس کتاب نے  قرون وسطیٰ میں انہیں لازوال شہرت بخشی۔اس کا  انگریزی  ترجمہ    1545میں  پہلی بار ہوا اور اس کے بعد یورپ بھر میں فرانسیسی، جرمن، اور یونانی زبانوں  میں اس کے تراجم کیے گئے ۔یہ کتاب  بھی کئی صدیوں تک یورپی یونیورسٹیوں کے درسی نصاب کا حصہ رہی۔

برء السعتہ  کتاب ۔۔۔فوری طبی امدا د  کی کتاب  (First   Aid  Book٭(  

الرازی نے تاریخ میں پہلی بار فوری طبی امداد کی اہمیت  بیان کی اور ہنگامی صورت حال میں مریض کی کس طرح مدد کی جانی چاہیئے کے بارے میں لکھا۔انہوں نے تفصیل سے بیان کیا کہ اگر ان کی ہدایات پر عمل کیا جائے تو مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے۔

الاسرار   کتاب The Secrets ٭(

کتاب میں الرازی نے اپنے شاگرد ،  یہ کتاب الرازی نے اپنے فلسفی   ریاضی دان   سائنسدان دوست محمد ابنِ یوسف بقائی کی فرمائش پرلکھی۔ ان دنوں یعقوب الَکندی  ہارون الرشید کے بغداد میں قائم کردہ علومِ عقلیہ (ہاؤس آف وزڈم ) میں  مہتمم تھے جو نامور فیلسوف کی تصانیف  کے  مترجم کررہے تھے۔الرازی نے الِکندی  کے نظریات کو جو انہوں نے ولادت، امراضِ چشم  اور امراضِ نسواں کے بارے میں کیے تھے کو الرازی نے مسترد کردیااور اپنے نظریات  پیش کیے۔ان کی اس کتاب میں انہوں نے کیمیا گری کے رموز بیان کیے ہیں۔

Secret   of  Secrets ٭ کتاب  اسرار   الاسرار

یہ الرازی کی مشہور ترین تصانیف میں سے ہے۔اس میں  انہوں نے بیان کیاہے کہ  بنیادی کیمیائی رداعمال کی ادویات  سازی کی تاریخ میں اس کی  بہت اہمیت ہے۔اپن درجہ بندی  وہی ہے جوانہوں نے پہلے کی  تھی اسےرقراررکھاہے۔  کتاب  الاسرار ' میں بیان کیا ہے۔

)i

نباتات، یوانات اور نمکیات سے  وہ عناصر لیے جائیں  جو طب میں مفید ہوں تاکہ ان کی ادویات بنائی جا سکیں ۔وہ مخصوص  آلات جو علاج معالجہ کے لیے جودواسازی میں استعمال ہوتے ہیں یا عطار انہیں استعمال کرتے ہیں  ،کے بارے میں  مکمل معلومات فراہم کی    کی کتاب ( من لائحضرہ الطبی)لکھی۔

٭   سیرت الاسرار کتاب الرازی کی مشہور ترین تصانیف میں سے ہے۔اس میں  انہوں نے بیان کیاہے کہ  بنیادی کیمیائی رداعمال کی ادویات سازی کی تاریخ میں انہوں نے مادے کو تین  درجوں میں تقسیم کیا ہے جس  کی تفصیل ذیل میں کیمیاگری کی خدمات میں بیان کی گئی ہیں ۔

الرازی نے  الاسرار کتاب میں مادہ کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔

1)پودوں (جڑی بوٹیوں )، جانوروں  اور دھاتوں  ( اور معدنیات )   ان تمام عناصر میں پتوں، پھلوں  اور دیگر متعلقہ اشیاء  کی جو اس مادے میں پائے جاتے ہیں۔ان کا تفصیلی معائنہ کرکے کسی حتمی بتیجے پر پہنچنا کہ  ان کی خوبیاں کیاہیں اور انہیں طب میں کیسے استعمال کیا جا سکتاہے۔انہیں عوام الناس کے لیے کیسے مفید بنایا جاسکتاہے،اسرار پر مبنی مندرجہ بالا دونوں تصانیف الرازی کی مقبول ترین تصانیف میں سے ہیں۔ان میں وہ کیمیائی عناصر کے عمل اور ردِعمل ،ترتیب، مرکب    کی ہیئت  وغیرہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔یہ معلومات ادویہ سازی کے لیے بہت اہم ہیں۔ ان میں الرازی نے '  مادہ  ' کو انہی تین درجوں میں تقسیم  کیاہے جو وہ الاسرار میں  بیان کیے جا چکے ہیں۔مادے  کو قابل عمل بنانے کے لیے  مؤثر  آلات  کی ایجاد یا پہلے سے موجود آلات میں ندرت  پیدا کرنا۔الرازی نے علاج معالجہ میں استعمال ہونے والے آلات  ایجاد کیے۔جن  کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے ۔ مادے کو صحیح طور پر استعمال کرنا دوسرا درجہ ہے۔الرازی کے نزدیک اس عمل کا تیسرا درجہ کیمیاگری کا ہنر ہے جو  علوم کی قدیم ترین شاخ ہے۔ٍکیمیا ء  ایک فکسفیانہ  اصول و ضوابط کے تحت  کام کرتی ہے۔متناسب مقدار  میں  کیمیا کے مخصوص  عناصر کے ملاپ کے اثرات  دیکھ کر مفید اور کامیاب تجربات کو استعمال کیاجاتاہے۔یہ ترکیب زمانہ قدیم سے  چین ،  بھارت  ، فرانس اور  رومی مصر میں استعمال کی جاتی رہی ہیں ،ان کا ذکر یورپی کتب سے ملتاہے۔ مسلم  اور یورپی دنیا میں استعمال کی جاتی تھی۔اس کا ذکر  قدیم صحیفوں میں بھی ملتاہے۔ایسی تصانیف  یونانی ۔روم۔مصر ( گریکو۔ رومن ۔ ایجیپٹ ) کی تصانیف میں ملتاہے۔

الرازی کے نزدیک  کیمیادان  دھاتوں کو صاف ستھرا کرنے کے لیے آلات کے سانچے بنائے۔  او ر طب میں استعمال ہونے والے آلات کو نہایت مضبوط  بنایا جنہیں کامیابی سے استعمال کیا جاسکے پر کام کیا جس میں وہ کامیاب ہوئے  جو کامیابی سے استعمال ہوا۔کیمیاگر  دھاتوں کو کثافتوں سے پاک کرکےصاف کرکے خالص بنانے ۔انہیں پختہ کرنےاورپھر اس مواد کوایسے سانچے میں ڈھالنے کہ وہ   ہرقسم کی دھات اور شیشے کو اس میں  پگھلاکرجراحی  کے برتن اور آلات بناسکیں، جیسے اہم امور میں مصروف تھے۔وہ ان  خام دھاتوں کو اکسیر  کرکے لافانی بنانا چاہتے تھے۔الرازی کو یقین تھا کہ  انسانی جسم کی کاملیت اور روح کی   پاکیزگی      کیمیاگری سے پیدا کی جاسکتی ہے۔مقدس پتھروں کے  شخصیت اور قسمت پر اثرات  کو مثال کے طورپر پیش کیا  ۔الرازی  میں   نےاسلامی اور یورپی  کیمیا گروں نے بنیادسائنسی تجربہ گاہوں   کی  تکنیکیں ، نظریات  اور اصطلاحات متعارف کروائیں جو آج بھی  استعمال کی جارہی ہیں۔

الرازی نے قدیم یونانی  فیلسوف   کا نظریہ کہ  ہر شے چار عناصر سے مل کر بنی ہے اور وہ ایک پراسرار طریقے سے اپنے جسم میں ان عناصر کے تناسب کو خفیہ  رموز کے تحت  تناسب  کی حفاظت کرتے ہیں ۔اس عمل  کو انہوں نے  کلاسیکی رمز نگاری    کلاسیکل  کریپٹوگرافی ) کہا۔اس  میں پیچیدہ میکانکی اور برقی عمل کےاصول وضوابط  استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس عمل کو ایم۔ فور کہا ،  اسے ایک مشین جس کا نام  انیگما  روٹر تھا  'کے انجنوں میں استعمال کیے جاتے تھے ،  اور  ان کی یہ اصطلاح تقریباً  ایک ہزار سال تک رائج رہی۔    بعد (1942) تک استعمال ہوتی رہی۔

  )رمز نگاری کی ایجاد   Cryptoanalysis (٭

الرازی نے رمزنگاری ( کریپٹو انیلیسز ) کو سائنسی طورپر متعارف کروایا  جسے عوامی سطح پر زمر مین نے ٹیلیگراف میں استعمال کیا۔ جنگ عظیم اول میں اسے نہائت احتیاط سے استعمال کیا گیا اور آج یہ عام انسان کی دسترس میں ہے۔خفیہ اداروں ، ممالک، فوج  اور اداروں میں مختلف   پہلوؤں میں استعمال ہو رہی ہے ۔

الرازی نے ایسے لوگوں کے لیے جہاں فوری طبی سہولیات میسر نہ تھیں ، یا  غریب تھے اور  اطباء کے اخراجات  برداشت کرنے کے قابل نہ تھے یا پھر  شفاخا نے سے دور تھے  یا  طبیب تک رسائی نہ تھی۔ انہوں نے  یا  ہنگامی  صورت حال سے نپٹنے کے لیے گھریلو علاج کے لیے  ٹوٹکوں کی کتاب لکھی جس میں  عام امراض کے علاج بیان کیےگئے ۔یہ کتاب بیسویں صدی تک مقبول رہا ۔الرازی  نے اس کتاب میں چھتیس ابواب  لکھے ، جو غذائیت اور ادویات کے عناصر پر مشتمل  تھی ۔ اس کتاب میں درج کیے گئے مشوروں اور نسخوں  کو کوئی بھی  اور کہیں بھی استعمال کرکے فائدہ حاصل کر سکتاتھا۔ اس کتاب میں کچھ مشورے سر درد، سردی سے بچاؤ، مراق اور آنکھوں کی امراض سے متعلق تھے۔ انہوں نے مشورہ   دیا کہ  مندرجہ بالا بیماریوں  سے نجات حاصل  کرنے کے لیے تِل کا عرق، گلاب کے پھولوں کاعرق میں ایک حصہ سرکہ ڈال لیں اورلینن کےپڑے کو پانی میں بھگو کر مریض کے ماتھے پر رکھیں  تو مرض کو خاطر خواہ افاقہ ہوگا۔ قبض دور کرنےکے لیے اس نے یہ ٹوٹکابتایا ۔بنفشہ کے خشک پھولوں   میں  بیس    ناشپاتیوں کو کوٹ کر نرم کرکے انہیں ملالیں،اس کے بعداسے رگڑ  کر کشید کرلیں اور اس میں بیس اونس   ( ڈرامز)چینی ڈال کر پی لیں تو قبض جاتی رہے گی۔مالیخولیا میں الرازی نے ایسے نسخے  بیان کیے  ۔ میں  افیون یا اس کا شربت  استعمال کرنے کو کہا۔ِ  چھوٹے بچوں کی بیماری یا آنکھ کی بیماری میں انہوں نے ُلوبان  کی طرح  خوشبودار زعفران اور کشمش کے دو  اونس پانی کو  پیلے سنکھیا  میں ملاکر اس کی گولیاں بنا لی جائیں۔پھر ہرگولی کودھنیا کے پانی میں ڈبو کر حل کرلیں اورانہیں آنکھ کے قطروں کے طور پر استعمال کریں وغیرہ

کتاب  المنصوری Book for al. Mansuri ٭

الرازی کی یہ دوسری کتاب ہے جو  کچھ عرصہ  ہوامنظر عام پر آئی ہے۔الرازی نے یہ کتاب اپنے سرپرستِ اعلیٰ ابو صالح المنصور  جو ا لرازی کے آبائی دطن 'رے کاگورنرتھ کا گورنر تھا  کے نام یہ کتاب منسوب کی ہے ۔ یہ  کتاب دس جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس کی دس  جلدوں  کا لاطینی میں ترجمہ 1180 ء کریمنا کے رہائشی  جیرالڈ  نے کیا۔ اس لاطینی ترجمے کو سولہویں صدی میں ایک ولندیزی ماہر علم الاعضا ء اینڈریاز  ویسیلس نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔اس کے چند حصے حال میں فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔

      Doubts about Galen ٭الشکو ک  اعلی  جالینوس  کتاب

  ٰ     جالینوس  الشکوک  اعلیٰ جالینوس   ٰ کتاب  میں الرازی نےطب اور سائنس میں چھائے ہوئے طبی ماہر جالینوس کے کئی نظریات کی خامیاں بیان کیں۔انہوں نے  نظریات کی تصدیق نہ کی ۔ اس کے کئی  دعووں پر شکوک و شبہا کا اظہار کیا۔ اس کی لاطینی زبان کی قدرت  پر اعتراضات کیے۔ انہوں نے اس کے کائنات کے  نظریات اور طب کے کئی لوگ تصورات کو رد کیا۔ الرازی ط ب کو فلسفے کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ علاج ومعالجہ میں ہر طبیب کو  گہرائی میں سوچنے اور آزادانہ سوچ و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جالی نوس  کی تفصیلات  حقائق کے برعکس ہیں کیونکہ اس نے جن تحقیقات کی بناپر مفروضے قائم کیے وہ  باطل ہیں کیونکہ الرازی کے تجربات ان کی  تصدیق نہیں  کرتیں ۔ بعض صورتوں میں الرازی کے تجربات جالینوس سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔

انہوں نے جالینوس کے اس نظریے کو کہ جسم میں چار رطوبتیں   تناسب میں رہیں تو فرد صحت مند رہتا ہے  اوراگران  میں نرطوبتیں  میں کمی بیشی ہوجائے تو  کمی   بیشی ہو جائے تو جسم جسم بیمارپڑجاتاہے۔ٹمپریچر  یاتو بڑھ جاتاہے یا کم ہوجاتاہے۔اسے صحت یاب کرنا ہو تو رطوبتوں کاتناسب متوازن کرنا ضروری ہے۔عدم توازن دور کرنے کے لیے عدم توازن والی رطوبت خوراک یا ادویات کے ذریعے داخل کی جانا چاہیئے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ گرم رطوبت مریض کے موجودہ ٹمپریچر کو بڑھا دیتی ہے۔گرم تاثیر والی رطوبت اگر پی لی جائے تو وہ  جسم کو گرم کردیتی ہے۔ اسی طرح سرد تاثیر والی رطوبت بدن کو ٹھنڈا کر دیتی ہے۔اس کی اس تحقیق سے ارسطو کاکائنات میں عناصر کا نظریہ چار رطوبت  آگ، پانی ، مٹی اور ہوا مسترد کر دیاگیا۔اس کی جگہ الرازی  نے اپنا نظریہ پیش کیا ۔انہوں نے تجربات سے ثابت کیا  کہ مادہ کی صفت  ، معیار اور قدر کسی شے کے توازن میں اہم ہیں۔  

اہم ہہے۔ الرازی کایہ نظریہ پیش روؤں کے نظریات سے مختلف تھاجس نے طب کے بنیادی اصولوں  کو چیلنج کردیا۔انہوں نے بارہا جالینوس کے بہت سے نظریات کی تائیدبھی کی اور ان کی باربار تعریف بھی کی  لیکن ان کے کئی مخالفین نے کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں جاہل  اور مغرور کہا ۔.

  کتابِ اطفالBook on Paediatrics٭    

جملہ امراض کی  کیمیا پر تفصیل سے لکھا وغیرہ ۔  الرا  زی  نے اطفال پربھی ایک کتاب تحریر کی۔یہ بچوں  کی بیماریوں، وجوہات، علامات اور دیگر تفصیلات پر تھی۔

Alchemy ٭ الکیمیا

  نے علاج معالجہ میں  کائنات میں موجود تمام عوامل الرازی نے کیمیاگری کو اہم شمارکیا۔انہوں نے تجربات سے ثابت کیا کہ وہ حت کی بہتری میں کامیابی سے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے چٹانوں ، پتھروں کی افادیت  ثابت کی۔ان میں  غیر معمولی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔پیدائش کے دن کے لحاظ سے انتخاب فرد کو فائدہ پہنچاتاہے اور منفی اثرات کم کرتاہے۔دولت، محبت ، کشش اور کامیابی کی نشانی سمجھاجاتاہے۔( موجودہ دور میں اکمکتبہ علاج عتیق، روبی،نیلم، پکھراج،فیروزہ، زمرد وغیرہ زیورات میں عام استعمال کیے جاتے ہیں )۔ آپ جابر بن حیان کے بعد بعد سب سے بڑے  کیمیا دان تھے۔  انہوں نے آبِ حیات بنانے پر کام کیا۔

الرازی نے دھاتوں کو بھی  ادویات کے استعمال میں استعمال کیا۔ابن ِ ندیم نے  اپنی تصنیف  الرازی  کے فوتیدگی کی آدھی صدی بعدان کے  اس نظریے کی توثیق کی کہ  سونے سے کمتر حیثیت رکھنے والی دھاتیں  اہم ہو جائیں گی۔ انہیں ادویات، تعمیرات  اور روزمرہ زندگی میں  کثرت سے استعمال کیا جانے لگے گا۔تانبہ ،چاندی ،جست،لوہے وغیرہ کا استعمال   عام ہے۔ ان دھاتوں کو مخصوص طریقوں سے ملاکر ایسے آلات بنادئیے گئے کہ  وہ  لوہے کوبھٹی میں پگھلا سکیں ۔ ابن ِ ندیم نے اپنی بارہ کتب الرازی کو مطعون کیں جبکہ الکندی873 ۔۔۔801) کے الرازی کے ان نظریات کو جو انہوں نے الکیمیا میں  بیان کیے تھے سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔الرازی کو  پیتل ،تانبے اور چاندی کو کیمیائی عمل کے ذریعے سونے میں تبدیل کرنے میں بہت دلچسپی تھی۔وہ اس پر تجربات کرتے رہتے ۔ ان کے دور میں مسلسل   دھاتوں  کو پگھلانے ، جڑی بوٹیوں  سے  ادویات بنانے کے لیےدن بھر مسلسل انگیٹھیاں جلتی رہتیں ، عرق کشید کیے جاتے رہتے ۔ ظاہری طور پر ان کے ناقدین یہ سمجھتے تھے کہ الرازی عام دھاتوں کو سونا بنانے میں   ا کامیاب  ہوگئے تھے۔ایک  فوجی جرنیل ان سے  بحث میں الجھ گیا اور انہیں طعنہ دیا  چونکہ تم پیتل اور دیگر سستی دھاتوں سے سونا بنا لیتے ہو اس لیے مغرور ہوگئے ہو۔اس بات کے کئی گواہ موجود تھے جنہوں نے دیکھا کہ الرازی نے جرنیل  کے اس طعنے کو پسند نہ کیا اور ادھر ادھر دیھا ،کچھ سوچا اور اسے جواب دیا ۔

'الرازی نے دھات ، دھات نما اور  غیر دھات   پر  تحقیقات کیں ۔انہوں  نے کیمیا پر طبعی  علوم کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے بڑے محتاط انداز میں تجربات کیے۔   کسی عنصر کا اضافہ کرنے ، کم کرنے یا تناسب   تبدیل کرنے سے کیا نتیجہ نکلتاہے، تجربات میں کون کون سے آلات استعمال کیے جائیں  ، کے معروضی مشاہدات سےانہوں نے اسباب و علل میں تعلق معلوم کیا اور اپنے نظریات قائم کیے۔اس طرح سے انہوں نے بہت سی ایجادات کیں جن کی تفصیل انہوں  نے اپنی دو  تصانیف  ( الاسرار  اور  ) میں تفصیل سے بیان کیں ۔اسی طرح کےمرکبات ( املگمز) کے بارے میں آٹھویں صدی عیسوی  میں جابر بن حیان  پر تبصرہ کرتے ہوئے الرازی نے چاندی  پر سونے کا ملمع چڑھانے کا طریقہ اور ملمع  اتار کر  واپس  چاندی کے اصلی  رنگ کی طرف لایاجاسکتاہے ، بتایا۔انہوں نے کیمیاگری میں کئی طریقے  ایجاد  کیے۔

)ملمع  سازیi

   تانبا وغیرہ کے بارے میں ملمع چڑھانے اور پھر سے اتارنے کاطریقہ دوسر ی دھاتوں  میں کیلشیم کی نمکیات ، پھٹکڑی بھی الرازی نے تفصیل  بیان کی ۔یرشبدیل کیے  ان پر رنگ  (ٹارنش )کیسے کیاجاسکتاہے اور انہیں برقرار رکھاجاسکتاہے۔انہوں نےواضح کیا۔ انہوں  نے دھاتوں  کی اہم  خصوصیات زنگ آلود ہوجاتی ہیں ؛ موصل ہوتی ہیں، ان میں سختی پائی جاتی ہے اور وزن ڈالنے پر ٹوٹتی نہیں ؛مضبوط ہوتی ہیں؛کسی حد تک کھینچاؤ برداشت کر لیتی ہیں؛چاقو سے کاٹنا مشکل ہوتاہے ؛کسی حد تک چمکدار ہوتی ہیں،  غیر پھوٹک ( ٹف نیس ) پائی جاتی ہے وغیرہ ماسوائے پارہ کے۔کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے دھاتوں کی اقسام بیان کیں۔رازی نےعمل تصعید کی اہمیت بھی بیان کی ۔طریقوں  اور تکنیک کا مکمل علم ہونا چاہیئے ۔ان کی تصعید ( سبلیمیشن کے تصعید عمل ii تصعید اور کثافت ( کنڈن سیشن ) اور سنکھیا کی راکھ ( سونا، چاندی ، تانبہ، سیسہ  ، لوہا اور نمکیات ؛شیشہ ، )ابرق کا سفوف ، گھونگھےاور موم کاری ( ویکسنگ )

    ) طبی اور کیمیائی انقلاب Transmutation  ٭  

 ( ٹرانسمیوٹیشن   سے مراد ایسے طبی اور کیمیائی   مواد جو موجود ہے لیکن   بکھرا پڑا ہے کو حالات  حاضرہ کے مطابق جامع  انداز میں  پیش کرنا ہے۔حقائق   ایک جگہ پر موجود نہیں  ہوتے ، ایک ہی موضوع پر ہوتے ہیں ، ٹکڑوں کی صورت میں مختلف  کتب ، ممالک  وغیرہ میں  موجود ہوتے ہیں ۔ بے ترتیب  انداز میں بیان کیے گئے ہوتے ہیں   یاان کی اصلاح ، ترمیم ،یا جدت  کی ضرورت ہو تی ہے یا اس موضوع  پر کوئی نئی بات  دریافت ہوئی ہو  اور ان میں  اضافہ  کرنا مقصود ہو تو ان کو جامع انداز میں یکجا کرکے مجموعے کی شکل میں   پیش کرنے کے عمل کو انقلاب ( ٹرانسمیو شن) کہتے  ہیں۔وہ طب کے میدان میں  انقلاب لائے جن میں نمایاں درج ذیل ہیں۔الرازی نے  دواؤں کے صحیح  صحیح وزن معلوم کرنے کے لیے ایسا ترازو ایجاد کیا جسے 'میزان  طب ' کہتے ہیں۔اس سے چھوٹی سے چھوٹی شے کو صحیح طور پر ماپا جاسکتا تھا۔علاوہ ازیں  انہوں نے  کیمیا گری میں نئے نئے سانچے بنائے جن کی تفصیل درج ہے

یہ تیسرا درجہ  انقلاب  طب ( ٹرانس میو ٹیشن ) کے عمل میں جو اضافی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں کو برقرار رکھتی ہے۔؛ اضافی ملاپ اور ل شدہ عناصر کا استعمال ؛ اجسام اور چٹانوں  میں کس حد تک گرمی  (آگ ) ؛ الاسجد  اور الحجر )  کی ضرورت ہو گی  یا جسمانی  مواد میں  تقسیم  ہو بھی سکتاہو اور نہ بھی استعمال ہو سکتاہو،جیسے کہ نمکیات۔؛ ایک سیال  نشتر کا استعمال جو جلدی سے اور مستقل  رنگوں میں جو کم حیثیت کی دھاتیں  ہوتی ہیں،ان کی فروخت  زیادہ  منافع بخش   ہوتی ہے۔

ابوبکر الرازی ساٹھ سال کی عمر میں 925 ء میں رے میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔ 

 


Popular posts from this blog