'Your Reality ' by Tatjana Anders Gaslighting Award Winner Short film
عالمی ادب
تمہاری اصلیت
Your Reality
By
ٹیٹیانا اینڈز (
عالمی انعام یافتہ)
Tatjana Anders
مترجم و تجزیہ : غلام محی الدین
'اس
کے بارےفکر نہ کرو، لیکن میرے پہنچنے تک اس کی کاپیاںنکل جانی چاہیئں۔ بائی
'،کہہ کر اس نے فون رکھ دیا اورریستوران میں داخل ہوگئی۔کاؤنٹر پر جاکر ' دو کیپی
چینو ، ایک چکن سینڈ وچ اور ایک سبز چائے!''
'کیشیئرنے
اونچی آواز میں شیف کو کہا'دو کیپی چینو، ایک چکن سینڈ وچ اور ایک سبز چائے'اور
حساب لگا کر بولا' ساڑھے بارہ ڈالر! ۔
خاتون اپنے بیگ سے پرس نکالنے لگی تو وہ وہاں
موجود نہ تھا۔ ' میں پرس بھول گئی ہوں،کیا میں یہ بل کچھ دیر بعد نہ ادا کردوں؟میں
سڑک کے اس پار کام کرتی ہوں۔'
' نہیں،
مجھے خدشہ ہے کہ میں ایسا نہیں کر پاؤں گا۔ تمہیں ابھی ادائیگی کرنا ہو
گی'۔
'میری
میٹنگ پانچ منٹ بعد شروع ہونے والی ہےاور میری نائب میرا انتظار کر رہی ہے۔'
' مادام!
مجھے افسوس ہے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا، میری کمپنی اس بات کی اجازت
نہیں دیتی ۔۔۔تم نے دوسرے گاہکوں کا رستہ بلاک کر رکھا ہے،
مہربانی کرکے ایک طرف ہو جاؤ اور انہیں رستہ دو۔'
ایک گاہک یہ دیکھ رہا تھا،'اوکے! یہ بل میرے ذمہ
رہا'، اس نے کیشیئر سے کہا۔اس نے یہ بل ادا کردیا۔
'شکریہ'۔
'اوکے۔'
'اپنے
بنک کی تفصیلات دو تاکہ میں یہ رقم لوٹا سکوں'۔خاتون نے
کہا۔
' اس
کی ضرورت نہیں ،یہ میں خوشی سے کر رہاہوں۔ ویسے میرانام مارک ہے'
'میں
علیشا ہوں'
'یہ
میرا وٹس اپ نمبر ہے، اس پر ٹیکسٹ کر دینا۔'مارک بولا
'ضرور!
۔
'تمہاری
دو کیپی چینو، ایک سینڈ وچ اور ایک سبز چائے' کیشیئر نےاسے دیتے ہوئے کہا۔
'شکریہ۔۔۔
بائی مارک!' بول کر بنڈل لے کے چلی گئی۔
علیشا اور اس کی نائب صوفیہ ایک
ریستوران میں ایک صوفے پر بیٹھ کر قہقہے لگا رہی تھیں۔' میں نہیں جانتی کہ
میں نےاس پراجیکٹ میں اسے کیسے چکر دیا۔ہم اس وقت پوری طرح پھنس چکے
تھے۔ تم جانتی ہو کہ مجھے کمپنی میں جو پراجیکٹ سونپا جاتا ہے، وہ ہمیشہ میر اہو جاتا ہے۔اسی لئے تو کارپریشن مجھ
سے بہت خوش ہ۔ علیشا نے کہا۔'
' مجھے اس
کی تفصیل بتاؤ۔!' صوفیہ نے کہا۔
' بعد
میں بتاؤں گی۔'
'اچھا تو تم مجھے وہ
قصہ بتادو جس نے تمہارا بل ادا کیا تھا!'
بات کہاں تک پہنچی ۔'صوفیہ نے پوچھا۔
'اوہ!
وہ! س نے مجھے آج ڈنر پر مدعو
کیا ہے۔!'علیشا نے جواب دیا۔
'کتنی
بڑھیا بات ہے!وہ تمہیں کہاں لے کے جارہا
ہے؟'
' میں اس کے ہاتھ کی تلی ہوئی جھینگا مچھلی آزمانا چاہوں گی!' علیشا نے کہا۔
' ایسا
جوان اور خوبصورت شخص جو کھانا بھی پکانا جانتا ہو!۔۔۔سونے پہ سہاگا!!'
'اصل
میں وہ ایک باذوق اور فطین فوٹوگرافر ہے! 'علیشا نے کہا۔
'اچھا!'
'ہاں
! میں نے اس کی ویب سائیڈ چیک کی تھی۔ ۔۔ہم اسے اپنے اگلے پراجیکٹ کے
لئے کیوں نہ بک کر لیں!' علیشا نے کہا۔
'اوکے،کیا
تم پانچ سیکنڈ کے لئے اپنے پیشہ ورانہ کام پر باتیں کرنا بند نہیں کر سکتی؟۔۔۔اوہ!
میں جانتی ہوں۔۔۔اب کافی عرصہ ہو گیاہے۔'صوفیہ نے
کہا۔
'میری
والدہ مجھ پر مسلسل شادی اور اس کے بعد بچوں کا دباؤ ڈال رہی ہے۔اس کا ماننا ہے کہ مجھے اپنی
پسند کا کبھی کوئی لڑکا نہیں ملے گاکیونکہ
کوئی بھی مجھ جیسی خود غرض لڑکی کواپنی بیوی نہیں بنا
سکتا۔'علیشما نے کہا۔
'یہ
تو تمہاری والدہ نے غلط بات کہی ہے، اوکے۔۔۔تم اس دنیا کی سب سے کم خود غرض
ہو؟'
'شکریہ
صوف ۔'
علیشا ڈنر کے لئے میک کے دروازے پر دستک دیتی
ہے۔مارک دروازہ کھول کر اسے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
'واؤ!
تم لاجواب لگ رہی ہو۔' مارک بولا
'شکریہ!'
'اندر
آجاؤ!'مارک نے کہا۔
' میں
تم سے یہِ گلہ کرنا چاہوں گا کہ تم نے آنے میں دیر
کردی۔ ۔۔ تمہارا یہ روپ مجھے لبھا رہاہے۔۔۔ لیکن میں تمہیں ایک بات کرنے پر معاف
کر سکتا ہوں'۔
'اس
بات سے تمہارا کیا مطلب ہے؟میرا خیال تھا کہ ڈنر آٹھ بچے تھا۔'
' نہیں،وہ
وقت جس پر ہم رضامند ہوئے تھے ، وہ ساڑھے سات تھا'، مارک نے کہا۔
'واقعی!'
'ہاں!
اور میں نے جھیگا مچھلی تل کر ٹھیک ساڑھے سات بجے میز پر ُچن دی تھی ۔۔۔ وہ اس وقت
ٹھنڈی ہو چکی ہو گی۔وقت ساڑھے
سات کا ہی تھا،' اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔
'سوری۔
تم میری مصروفیات کو اچھی طرح سے جانتے ہو، شائد مجھے غلط فہمی ہو گئی
ہو گی'۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ مارک کے ساتھ پہلے ڈنر پرہی اس سے اختلاف کرے۔
'کوئی
بڑی بات نہیں۔ میرے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ تم یہاں ہ۔۔۔'جام ؟'
'ہاں!'۔۔۔میک نے گلاس
تھما دیا۔
' کھانے
کی خوشبو تو بڑی اچھی آرہی ہے۔'
'تعریف
کرنے سے پہلے اسے چکھ تو لو!'
علیشا اس کے کمرے کا جائزہ لینے لگتی ہے جس میں اس نے
شاہکار فوٹو لگائے ہوتے ہیں اور کہتی ہے 'کیا یہ سب تمہاری فوٹو گرافی
ہے؟'
'ہاں!
میں نے پچھلے سال وی اینڈ اے کے عجائب گھر میں ایک نمائش منعقد کی تھی۔'
'تم
واقعی اپنے کام میں ماہرلگتے ہو!'علیشا نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
'لوگوں
کی میرے بارے میں بھی یہی رائے ہے۔ لوگ میری فوٹو گرافی کے دیوانے ہیں۔ تمہیں پراجیکٹ
ملتے یا نہ ملتے ہوں لیکن لوگ میری فوٹو گرافی دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔کیا ہم اب اصل مدعا کی طرف نہ آئیں!' وہ اسے کھانے کی میز کی
طرف اشارہ کرتا ہےاور وہ کھانے کی میز پر جا بیٹھتے ہیں۔
'اور
تمہاری وہ میٹنگ کیسی رہی ، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟'مارک نے سوال کیا۔
'کون
سی میٹنگ؟
'وہی
ایک میٹنگ جس کے بارے میں جانتا ہوں۔۔۔ جو کافی پر ہوئی تھی'۔
'وہ!
۔۔۔اوہ ، ہاں۔ وہ بہت اچھی ۔ کمپنی کومیراآئیڈیا
پسند آیا۔۔۔ اس کافی نے ہمیں
تازہ دم کردیا تھا ۔ہمیں
وہ کنٹریکٹ مل گیا تھا'۔
'مبارک
ہو! مجھے خوشی ہے کہ میں کام آیا!'( وہ یہ کہنا چاہ رہا تھا ، کہ اگر وہاسے
کافی لے کر نہ دیتا تووہ پراجیکٹ ہار جاتی۔
'تم
جانتے ہو، مارکیٹنگ کی دنیا ایسی شاندار ہے کہ لوگوں کی نفسیا ت سمجھنے میں
بڑا مزہ آتا ہے۔ میں ان پر فریفتہ ہو جاتی ہوں اور میں یہ دیکھ کر لطف
اندوز ہوتی ہوں کہ اس میں معمولی سے معمولی باتیں بھی بہت اہم ہوتی ہیں جو نکتے
کے وزن میں بہت زیادہ فرق ڈال سکتی ہیں۔'
' میرا
بھی یہی خیال ہے! فوٹو گرافی کے شعبہ میں بھی ایسا ہے ۔ اس میں بھی چھوٹی چھوٹی باتیں
حتمی فیصلے میں مدد دیتی ہیں!تمہارے پراجیکٹ بھی شائد ٹھیک ہی رہتے ہوں گے۔
کچھ روز بعد وہ
مارک کے ساتھ تعلقات قائم کرکےوہ اس کے
کمرے میں منتقل ہوکر اپناسامان
سلیقے سے رکھنے لگتی ہے۔
' اوہ
! تم نے کتنی عمدگی سے سامان رکھا ہے، اس میں مزید سامان بھی آسکتا ہے
، کسی کے پاس اتنا سامان ہوسکتا ہے ،سوچا بھی نہیں تھا۔'مارک نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
'یہ
تو ہے،۔۔۔ تمہیں مجھے یہاں لانے سے پہلے دو بارسو چنا چاہیئے تھا، امید ہے کہ تم
اپنے کئے
پر پچھتا نہیں رہے ہو گے!' علیشا نے کہا۔
' میں
سوچ رہا تھا کہ جوں ہی تم اپنا سامان یہاں ترتیب سے رکھ لو،ہم باہر جائیں اور جشن
منائیں'۔مارک نے کہا۔
'نہیں
، نیویارک سے میری دوست حنا یہاں آئی ہوئی ہے،اور ہم پچھلے دوسال سے نہیں
ملے، میں نے آج اس کے ساتھ ڈنر کرناہے۔'
'واقعی!
آج کا دن ہمارے لئے خصوصی تھا!'
' میری
اس بات سے تم پریشان ہوگئے؟' علیشا نے حیرانی سے پو چھا۔'میرا خیال ہے میں نے
یہ تمہیں پچھلے ہفتے بتایا تھا۔'
' میں
سوچ رہاتھاکہ تمہیں باہر کہیں لے جاؤں۔'
'تو
میں حنا کے ساتھ آج کا پروگرام کینسل کر دیتی ہوں۔اور تم اور میں باہر جاکر مزے
کرتے ہیں۔'
'نہیں۔
۔۔اوکے جاؤ اور عیش کرو!'وہ روٹھ کر جانے لگتا ہے تو علیشا اس کا ہاتھ
پکڑ لیتی ہے۔
'مارک،
مجھے واقعی افسوس ہے۔۔۔تمہارے احساسات کو مجروح کروں آخری بات ہوگی جو میں چاہوں
گی۔۔'وہ اٹھ کر اس کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اور کہتی ہے ۔'میرے پاس ایک آئیڈیا ہے
،اگر تم چاہو تو!'۔۔۔ وہ کچھ نہیں بولتا۔
علیشا آئی فون پر مارک کی تصاویر کاالبم دیکھتی
ہے ۔
'مارک میں
تمہارے فوٹو دیکھ کر حسد میں مبتلا ہو گئی ہوں'
وہ اگلے دن دفتر جاتی ہے اور اپنی نائب صوفیہ کو
کہتی ہے ،'میں کام سے کچھ دن چھٹی لینا چاہتی ہوں۔'
'ہاں،
چھٹی لے لو۔۔۔ مارک کو کہو کہ وہ تمہیں تعطیلات پر لے
جائے،'صوفیہ نے رائے
دی۔'ویسے
اس کے ساتھ دن کیسے گزر رہے ہیں؟'
'زبردست!'
'یہ
تو عمدہ بات ہے۔'صوفیہ نے کہا۔
'ہاں!
میں بہت خوش ہوں۔۔۔لیکن کبھی کبھار ہم ب فضول بحث میں پڑ جاتے ہیں۔' علیشا نے کہا۔
'جیسے
کہ؟'
'کل اس
کی پسندیدہ گھڑی خراب ہو گئی جو اس سے نہاتے یا کپڑے بدلتے یا واش روم میں گر
گئی ہو گی، خراب ہونے پر سخت برہم تھا۔'
'یہ
تو عجیب بات ہے۔۔۔ کیا تم نے اس کی مرمت کروائی؟'صوفیہ نے پوچھا۔
' ہاں! کچھ زیادہ نقصان نہیں تھا ، صرف اس کا ہاتھ پر باندھنے والا
پٹہ ہی ٹوٹا تھا۔اس پر وہ اتنا خفا ہو گیاتھا کہ
اس نے مجھ سے دو گھنٹے تک بات نہیں کی!'
' یہ
تو توقع سے بڑھ کر رد عمل تھا'، صوفیہ نے کہا۔
'میرا
بھی یہی خیال ہے۔۔۔ویسے ہو سکتا ہے کہ یہ میری غلطی سے ہی ہوا ہولیکن میں پوری قوت
سے انکار کر رہی تھی کہ یہ میرا کام نہیں لیکن
وہ مجھے ہی دوشی دے رہا تھا۔۔۔لیکن اس نے کہا کہ وہ گھڑی خراب ہونے سے اتنا پریشان
نہیں تھا جتنا کہ میرے انکار پر!'
' تمہارے
ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرنےکی یہ تو کوئی وجہ نہ تھی۔'صوفیہ نے کہا۔
' میرا
خیال ہے کہ اس پر کام کا دباؤ رہتا ہے!'
علیشا گھر آتی ہے۔
'مارک کمپیوٹر
پر بیٹھا ہوتا ہے۔وہ اسے پوچھتا ہے۔' ہائے! 'کام کیسا رہا؟'
'زیادہ
اچھا نہیں تھا، ہمیں وہ پروجیکٹ نہیں ملا!'
'یہ
تو برا ہوا ۔! 'مارک نے تبصرہ کیا۔
'اس
مہینے میرا وسرا اکاؤنٹ چلا گیا ہے ۔ مجھے یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ آج کل میرے
ساتھ کیا ہو رہا ہے؟'علیشا نے افسردگی سے کہا۔
'یہ
تو اور بھی بری خبر ہے ، یہ بات جب مارکیٹ میں گردش کرتی ہے تو شہرت
کو دھچکا لگتا ہے ۔ اکاؤنٹس چھن جانے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔چلو کوئی بات نہیں ! میرے پاس ایک خبر ہے جس سے تم خوش ہو جاؤ گی ! مجھے ایک بہت بڑا
اکاؤنٹ مل گیا ہے اور میں نے اگلے مہینے اس پراجیکٹ کی فوٹو گرافی کرنی
ہے!'مارک نے کہا۔
؛یہ تو شاندار خبر
ہے!
'اور
صرف یہی نہیں بلکہ آج مجھے نامور لوگوں کی عظیم پارٹی میں
مدعو کیا گیا ہے،اور تم میرے ساتھ جا رہی ہو۔'
'میں
کہہ نہیں سکتی۔ میرا موڈ خراب ہے۔ میں چاہوں گی کہ گھر پر رہوں اور کل
کے پروجیکٹ کی تیاری کروں'۔میرے پاس صرف دو ہفتے کے پروجیکٹ ہی رہ گئے ہیں، کمپنی
کا دباؤ بڑھ گیا ہے ۔' علیشا نے کہا۔
'دیکھو!
اگر مجھے اس طرح کے بڑے بڑے اکاؤنٹ ملتے رہے ، تو تمہیں کام کرنے کی
ضرورت نہیں رہے گی۔اس کے علاوہ آج جمعہ ہےاور اگلے دو دن چھٹی ہے، تم ان میں تیاری
کر سکتی ہو۔۔۔جلدی سے تیار ہو جاؤ، تاکہ ہم پارٹی کے لئے نکلیں۔'
وہ تیار ہونے لگتی ہے،مارک کہتا ہے ،تم اس لباس میں بہت
خوبصورت لگتی ہو۔ 'میں اپنے پیشے
سے محبت کرتا ہوں۔۔۔اور مشورہ دیتا ہوں کہ لال پری سے ہاتھ کھینچ کر رکھنا، دھت نہ ہو جانا۔ میں نے
دیکھا ہے کہ تم آج کل کچھ زیادہ ہی پینے لگی ہو۔'
' میں
اتنی زیادہ تو پیتی ، کیا ایسا ہے؟'علیشا نے کہا۔
' اس
پارٹی میں بہت سے اہم لوگ شرکت کرنے والے ہیں، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ سب کام
عمدگی سے ہو جائے۔'مارک نے کہا۔
'ہاں!
میں اپنی پوری کو شش کروں گی۔'
پارٹی سے واپس آکر سونے لگتے ہیں تو مارک کافی سنجیدہ ہوتا
ہے۔ علیشا اسے کہتی ہے،
'مارک
سب کچھ ٹھیک تو ہے ناں!'وہ کوئی جواب نہیں دیتا اور منہ پھیر لیتا ہے۔
'کیا
میں نے پارٹی میں کوئی غلط کر دیا؟ ' ۔۔۔وہ کوئی جواب نہیں دیتا ،
'مارک!
بتاؤ، تم اتنے پریشان کیوں ہو؟بتاؤ ناں! تم نے منہ کیوں بنایا ہوا ہے؟'
' تم
بے اعتباری ہو؟'
'کیوں!
کیا ہوا ؟'
'تم
نے سب کے سامنے مجھے رسوا کیا! یہ نامورلوگوں کا بہت بڑا فنکشن تھا، اور میرے
لئے یہ
بہت اہم تھا اور تم نے ہر ایک سے فلرٹ کر
کے میری عزت خاک میں ملا دی!'
'نہیں! میں نے
ایسا کچھ نہیں کیا۔' علیشا بے بسی سے بولی۔
'میں
اندھا نہیں ہوں علیشا۔تم پر ہر کوئی ہنس رہا تھا اور تم ہر ایک کی توجہ کے لئے
کتنی بے قرار تھی۔یہ چیز قابل ِ شرم ہے!ٍ'
'مجھے
افسوس ہے مارک۔۔۔میں۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے زیادہ تو نہیں پی تھی۔۔۔'
'بالکل
یہی! تمہیں بالکل یاد نہیں کہ تم نے کتنے جام چڑھائے!۔۔۔اب میں تمہیں
کبھی اپنے ساتھ پارٹی میں نہیں لے جاؤں گا! سوری!
علیشا یہ سن کر پریشان ہو جاتی ہے۔وہ صوفیہ کو
فون کرتی ہے ۔
'مجھے
سمجھ نہیں آرہی کہ ہوا ۔۔۔میں نے تو زیادہ لوگوں سے بات بھی نہیں کی۔۔۔ہو سکتا ہے
کہ مارک کے مطابق میں لوگوں سے فلرٹ کررہی ہوں اور مجھے اس کا احساس ہی نہ ہوا ہو
۔۔ ۔ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے صوفیہ؟ میں بہت آشفتہ اور افسرہ ہوں۔
میری سمجھ میں نہیں آرہی ۔۔۔میں کیا کروں؟'
'تم
کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کر سکتی ہو۔۔۔مارک پچھلے کئی ہفتوں سے تم پر انگلیاں
اٹھا رہا ہے۔'
'کیا
تمہاری مارک سے کوئی بات ہوئی ہےَ؟'
'ہاں ! اس نے مجھے فون کیاتھا۔اس نے مجھ سے مشورہ
مانگا تھا۔وہ بہت پیارا آدمی ہے۔وہ تمہارے لئے فکرمند تھا۔'صوفیہ نے کہا۔
'ہاں!
ایسا ہی ہے۔'
'کیا
تم ٹھیک تو ہو؟
'ٹھیک
ہوں! ۔ ۔۔ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔۔اب مجھے جاناہے۔۔۔'یہ کہہ کر وہ فون بند کردیتی
ہے۔۔۔'ٹھہرو!' صوفیہ کہتی ہے لیکن علیشا فون رکھ چکی ہوتی ہے۔
' کیا
تم نے میری ہارڈ ڈرائیو ڈیکھی؟۔۔۔میرا تمام ڈیٹا اس میں موجود ہے۔ میں نے آج ایک
تجوہز ایک پارٹی کے سامنے پیش کرنی ہے' علیشا نے مارک سے کہا۔
'میں
نے اسے ڈیسک پر دیکھا تھا۔' مارک نے کہا۔
وہ ڈیسک پر جاتی ہے اور کہا، ' مل گیا! شکریہ!۔۔۔میں جارہی
ہوں ،دعا کرو کہ یہ پروجیکٹ مل جائے۔'
'گڈ لک!'
علیشا اپنے دفتر کے لئے نکل پڑتی ہے۔اس کا فون گھر پر ہی رہ
گیاتھا؛ وہ گھبرائی ہوئی گھر آتی ہے
اور فون ڈھونڈنے لگتی ہے ۔۔۔تلاش کے بعد اسے فون مل جاتا
ہے۔
'میں
جانتا تھا کہ تم ڈھونڈ لو گی!' مارک نے کہا۔
'او
کے ! میں جارہی ہوں! میں دفر کے بعد سیدھا آجاؤں گی!' وہ شام کو آتی ہے
تو اس کے چہرے پر گہری مایوسی کے بادل چھائے ہوتے ہیں۔ وہ غمگین موسیقی
لگا کر سننے لگتی ہے۔وہ کسی کو فون ملاتی ہے تو وہ بند ملتا ہے ، وہ بار بار فون
ملاتی ہے جسے کوئی نہیں اٹھاتا۔
رات گئے مارک گھر آتا ہے۔۔۔'تم اتنی دیر تک کہاں رہے؟'
علیشا نے پوچھا۔
' میں
اپنے دوستوں کے ساتھ تھا۔۔۔کیوں؟ تمہیں کیا ہوا ؟'
'میں
کئی مہینوں سے محسوس کررہی ہوں کہ تم مجھے نظرانداز کر رہے ہو۔تم نے میرا فون کیوں
نہیں اٹھایا۔ میں نے تمہیں فون اور ٹیکسٹ سینکڑوں بار
کئے لیکن تم نے اسے جوتے کی نوک پر رکھا!'
'ہنی!
میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ شراب سے دور رہو۔' مارک نے کہا۔
'میرا
پراجیکٹ فضول ترین رہا!'
'تمہاری
سخن رانی مسلسل ناکام ہو رہی ہیں ، مہینوں سے ہر روز مجھے ایسی ہی خبریں دیتی ہو!'
'میری
کمپنی نے مجھے نوکری سےنکال دیا۔'
'مجھے
افسوس ہے ہنی!تم جانتی ہو کہ اس وقت تمہیں کیا کرنا چاہیئے ، تم بستر پر جا کر سو
جاؤ، ہم اس بارے میں صبح بات کریں گے۔'
وہ بے خیالی میں اٹھتی ہے تو اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس
ٹوٹ کر گر جاتا ہے، وہ اس کی کرچیاں اٹھانے لگتی ہے تو اس کی ہتھیلی زخمی ہو جاتی
ہے ۔وہ اس پر پٹی کرتی ہے۔
صبح وہ جاگتی ہے تو مارک اسے کہتا ہے ' ہنی، کیا
تمہیں یاد ہےکہ تم ڈاکٹر راجرز کی تشخیص کردہ گولیاں کھا رہی تھی؟ تمہیں وہ دوائی
جاری رکھنی چاہیئے! تمہاری صحت ٹھیک نہیں ہے، بیماری روز بروز بڑھ رہی
ہے، دوا باقاعدگی سے لیتی رہو۔'
صوفیہ علیشا کو فون کرتی ہے ۔وہ اٹھاتی ہے تو
اسے مارک کی آواز سنائی دیتی ہے 'تم نے پھر سے پینا شروع کر دیا ! '
علیشا نے ہیلو کہہ کر اسے شکوہ کیا'تم میری کالیں نہیں لے
رہی۔میں تمہیں سینکڑوں کالیں اور ٹیکسٹ کئے ہیں لیکن تم نےگھاس ہی نہیں
ڈالی'۔۔۔۔لیکن پیچھے سے مارک کی آواز آئی ۔۔۔،
' ذرا
غور کرو اور اپنی حالت دیکھو۔۔۔تمہاری حالت کتنی قابل رحم ہوگئی ہے!'
'انہوں
نے مجھے نوکری سے نکال دیا مارک، میں کل رات تمہیں بتایا تھا!
'اگر
میں دیانتداری سے بات کروں،تو میں ان پر الزام نہیں لگاؤں گا۔وہ حق بجانب تھے!تم
ان ے لئے بیکار ہو گئی تھی اور اس کی وجہ تمہاری کثرت سے مے
خوری ہے!تمہارا منہ کبھی بوتل سے ہٹا ہی نہیں!تم صرف ایک عادی مے خور ہو!تم میرے
بھی کسی کام کی نہیں رہی ہنی!'
' نہیں
، میں نہیں ہوں۔'علیشا نے تڑپتے ہوئے کہا۔
' تم نے جو کام کرنا تھا ، کرلیا میں نہائت سنجیدگی سے کہہ رہا
ہوں اور کہ تم بیکار ہو۔' مارک نے کہا۔
' میں
ایسی نہیں ہوں ، شائدکمپنی اور تمہارے دباؤ کی وجہ سے میں کوئی
تخلیقی کام کر نہیں پا رہی ۔مسلسل بیمار رہنے لگ گئی ہوں۔'علیشا غصے میں کہتی
ہے۔یہ سن کر مارک اسے تھپڑ رسید کر دیتا ہے، اور کہتا ہے:
'میں
نہیں سمجھتا کہ کسی نوکری اور میرے جیسے اہل شخص کے قابل ہو۔'
' نہیں
، میں نہیں۔' علیشا روتے ہوئے کہتی ہے لیکن مارک بپھرا ہوا ہے ۔
'ادھر
دیکھو! تم نے یہ کیا کیا ہے !تم نے سارا فرش گندا کر دیا ہے!
' مجھے
تمہارے فرش کے گندہ ہونے کی پرواہ نہیں!'علیشا کہتی ہے۔
'اسے
صاف کرو ۔۔۔ بیکار عورت ! اور نکل جاؤ میرے گھر سے،'
تجزیہ
ٹیٹیانا اینڈز کا افسانہ ' تمہاری اصلیت '( یوئر ریئلٹی )ایک ایسی کہانی پر مبنی ہے جس میں
نفسی بدسلوکی ( گیس لائٹنگ
) کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے ،یہ تکنیک ایک امریکی ادیب 'پیٹرک ہملٹن نے 1938 میں متعارف کروائی اور 1944 میں' جارج کیوکر 'نے اس
موضوع پر ایک فلم بنائی جس کا نام 'گیس
لائٹنگ ' تھااور یہ اصلطلاح آج کل یہ
نفسیات میں شامل کردی گئی ہے ۔اس کا اردو
ترجمہ ' نفسی بدسلوکی ' کیا جا سکتاہے ۔ اس تکنیک
سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کسی
دوسرے شخص کو کنٹرول کرنے کےبلواسطہ یا بلاواسطہ
ایسے حربے استعمال کرتا ہے جس میں
دوسرا شخص خود کو کمتر سمجھنے لگتا ہے ۔ اس کی اپنی نظر میں وقعت کم ہوجاتی ہے، اعتماد کا فقدان ہو جاتا ہے اور ذہنی عارضوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ عمل آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے مسلسل کیا جاتا
ہے جو سالہا سال جاری رکھا جاسکتا ہے جیسےکوئی شوہر کسی کو ذہنی طور پر غیر متوازن
بنانے کے لئے ایسے فقرات، طنزیہ جملے یا
اقدامات کرتا ہے کہ بیوی خود کو اپنی
نظروں میں گرا نے لگے یا دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ سےاس کی عزت میں کمی کردے جیسے شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ 'وہ ضرورت سے زیادہ حساس ہے'، دوسروں کے سامنے
تضحیک کرے اور پھر کہے کہ وہ مذاق کررہا تھا،یا بیوی کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر
کہے'کیا بات ہے بڑی مسکرا رہی ہو، خیر تو ہے!'یا یہ کہنا تم کو ایجوکیشن میں پڑھی
ہو ،کتنے لڑکے دوست بنائے ہوں گے'،انکار کرے تو تکرار شروع کردینا۔ یا بیوی کا
دروازہ دیر سے کھولنے پر تیز تیز گھر میں داخل ہوناجیسے کہ وہ کوئی غلط کام کررہی
ہو، پچھلا دروازہ کیوں کھلا رکھا ہے، چیزوں کو مقررہ جگہوں سے ہٹا کر الزام بیوی
پر لگا دینا۔، خود نقصان بیوی پر تھوپ دینا، بیوی کا شوہر کے سامنے صفائیاں پیش
کرنا لیکن اس کا نہ ماننا ، اس طرح کے
ہزاروں چھوٹے واقعات جو روز مرہ زندگی میں واقع ہوتے ہیں ، دیرپا ذہنی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس طرح سے لوگوں کا ادراک ایک مسئلے پر
شدید انداز میں بکھرجاتا ہےجس سے ان میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
اس افسانے میں ایک
خاتون علیشیا جو ایک بڑی کارپوریشن کی مارکیٹنگ کے شعبے میں
اہم پوزیشن پر تعینات ہے ۔وہ اپنے شعبے میں کامیاب ہے اور کمپنی کو اکاؤنٹ دلواتی
رہتی ہے اور اپنی کمپنی میں مقبول ہے ۔ ریستوران کے ایک واقعہ میں اس
کی ایک خوبرو فوٹو گرافر جس کا نام مارک ہے،کی
شخصیت سے بے حد متاثر ہو کر اس سے دوستی کر لیتی ہے اور اس کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔
کہانی سے ایسا لگتا ہے کہ اس دن کے بعد غیر محسوس انداز میں
علیشاکی ذہنی حالت میں گراوٹ آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ بدسلوکی جسمانی
تشدد اور گالی گلوچ سے ہی نہیں ہوتی بلکہ پیار بھرے رویے سے بھی ہو سکتی
ہے۔ہیروئن اپنے پریمی سے مخلص ہوتی ہے لیکن ایک طرف تو میٹھی میٹھی
باتیں کرتا ہے اور دوسری طرف نرم
لہجے میں علیشا کی شخصیت کو
دباؤ میں لاتا رہتا ہے۔بات بے بات پر لطیف پیرائے میں اس پرالزام تراشی کرنے لگتا ہے ۔ ہیروئن اس
سے محبت کرتی ہے ، اس کی تنقید کو صحیح ماننے لگتی ہے اوراس کا پورا
ساتھ نبھاتی ہے لیکن مارک خود پسند ہےاور انا پرستی کے لئے نرم اور دھیرے لہجے میں
سچی جھوٹی خامیاں گنوا کر اس کا مورال گراتا رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
علیشاء کے اعصاب آہستہ آہستہ کمزور پڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور اس کی صلاحیتوں کو
گرہن لگنا شروع ہو جاتا ہے اور اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔مارک اس کی زندگی
برباد کرکے اپنی انا کی تسکین کے لئے اسے معمولی بات پر گھر سے نکال دیتا ہے۔
مارک دوستی کے آغاز سے ہی علیشا پر نفسیاتی تسلط حاصل کرنے کے لئے
فقرہ بازی شروع کردیتا ہے جیسے وہ ڈنر پر ٹھیک وقت پر پہنچتی ہے تو کہتا ہے کہ وہ
لیٹ آئی ہے، یا میری کافی نے کام دکھایا اور تمہیں اکاؤنٹ مل گیا، اس کے کمرے
میں سامان کی زیادتی پر طنز، علیشا کی سہیلی حنا سے ڈنر پر اعتراض جس سے علیشا کووہ ملاقات منسوخ کرنا پڑی ، پسندیدہ
گھڑی کی خرابی پر علیشا کے انکار پر کہ اس کااس میں کوئی ہاتھ نہیں پر خفگی کا اظہار ،علیشا
کو اکاؤنٹ نہ ملنے پر اسے ہی مورد الزام
ٹھہرانااور مارکیٹ میں شہرت خراب ہونے کا کہنا،مارک کا اسے نامور لوگوں کی
پارٹی پر لے جانا اور گھر آکر شرکاء کو فلرٹ کرنے اور کثرت سے مے نوشی کاالزام لگا کر کہنا کہ اس کی
عزت خاک میں ملادی ہے،اس کی سہیلی سے اس
کی شکایات لگانا اور اپنی اہمیت بنانا، علیشا کو جب نوکری سے نکالا جاتا ہے تو اسے
عادی مے خور کہنا اور کہنا کہ وہ اس نوکری کی تو کیا کسی شئے کی بھی اہل نہیں، یا
گلاس کا ٹوٹنا اور غصے سے اسے کہنا کہ گند
صاف کرےاور گھر سے نکنے کا کہنا وغیرہ۔
دوسری طرف علیشا اس کے ساتھ مخلص ہے ۔وہ اس سے پیار کرتی ہے
اور اس سے بحث سے
بچنے اور اسے خوش
رکھنے کے لئے اس کی ہربات مان جاتی ہے۔ اس سے وقتی ماحول تو کنٹرول ہو جاتاہے لیکن اس کے قوت اعتماد میں
بتدریج کمی آتی جاتی ہے، تصور ذات کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے ، ذہنی عارضے میں مبتلا ہو کر نفسیاتی علاج شروع
کردیتی ہے، چونکہ ماحول اسے مسلسل ذہنی
اذیت دے رہا ہوتا ہے اس لئے صحت مند ہونے کی بجائےمزید پریشان ہو جاتی ہے جس بنا
پر کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہوجاتی ہیں
اور اس کے اکاؤنٹ چھن جاتے ہیں اور اسے نوکری سے باہر کر دیا جاتا ہے۔علاوہ
ازیں مارک اپنی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔علیشا
پر اس کی کردہ ناکردہ غلطیوں کی نشان دہی کر کے اسے رفتہ
رفتہ احساس دلانا کہ مارک اس سے ہر لحاظ
سے بر ترہے اس لئے اس کی محکوم بن کر رہے، یہ کہناکہ وہ اس کے کمرے میں رہ رہی ہے اور ایسا
رویہ رکھنا کہ وہ جو کہہ رہا ہے بالکل صحیح ہے اور علیشا غلط ہے، اس کی سہیلی سے
ہمدرد بن کر اس کی بدخوئی کرنا اور اس کے ذہن میں علیشا کے خلاف اکسانا، اس کے فون
اور ٹیسکٹ پیغامات کو یکسر نظرانداز کرنا اس کے بلاواسطہ کنٹرول کرنے کی
مثالیں ہیں۔ایسے واقعات جب تسلسل سے واقع
ہوتے ہیں تو اس سے لامحالہ علیشا کا خو د پر اعتماد، ادراک
اور حافظہ بری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔وہ تنزل کی راہ پر چل پڑتی ہے اور اس کے
اکاؤنٹ چھننے لگتے ہیں ہیں جس سے اس کے ہوش وحواس کھونے
لگتے ہیں جبکہ دوسری طرف مارک بلند یوں کو چھو رہا ہوتا ہے، سےبھی علیشاکمتری کا
شکار ہو جاتی ہے۔
ٹیٹنیا نے اس افسانے کی تکنیک میں قابل
بیاں واقعات اور پریشانی دونوں شامل کئے ہیں۔ اس نے بتایا ہے کہ نفسیاتی
بدسلوکی کس طرح نفیس طریقے سے تال میل سے اختیار کی جا سکتی ہے۔
لالٹین کی مدھم لیکن مستقل لو بالآخر کام دکھاتی ہے اور علیشما کی خود
اعتمادی ، ذاتی شناخت اور حقیقی شعور کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔
اس افسانے میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایسے لوگ جن سے آپ محبت کرتے ہیں وہ کتنے
اہم ہوتے ہیں ۔وہ کیسے کنٹرول کرسکتے ہیں۔اس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بدسلوکی کس
طرح سے تعریفوں کے پل باندھتی ہے،اور جب اجارہ دار کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس
کا حربہ کارگر ثابت ہو رہا ہے،تو وہ اپنی ہربات منوا سکتا ہے۔کوئی شخص کتنا ہی ذہنی
اور جسمانی طور پر تگڑا ہو، اگر اس پر ہلکے پھلکے انداز میں مسلسل اور مستقل طور
پر کوئی خاص تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جائے، تو قطرہ قطرہ قلزم بن جاتا ہے اور وہ اپنا مقصد پالیتا ہے۔
یہ افسانہ اس بات کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ معاشرہ کس طرح
خواتین پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منواتا ہے۔۔۔ان میں بڑھتی عمر کا احساس
دلانا، شادی بیاہ کی توقعات ،بچےاور ولدیت اہم قوتیں ہیں جو
اس پر نفسیاتی دباؤ ڈال کر باہم تعلقات میں خلل اندازی کرتی ہیں۔
اس افسانے کا پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھی اسی
طرح کا تعلق ہے جیسا کہ مغربی
معاشرے میں۔پاکستان
میں شادی، خاندانی آبرو،اور روائتی مرد و زن کے خیالات
اصناف میں متضاد ہیں۔معاشرہ انہیں مجبور
کرتا ہے کہ وہ رسوم و رواج ، ریت روایات کی پابندی کریں ۔ اس میں تعلقات میں پوشیدہ طبو میں
تناؤکی کیفیات پیدا ہوتی رہتی ہیں۔یہاں کے پدرانہ نظام میں ، خواتین مردوں کی
محکوم ہیں۔وہ اپنے فیصلے میں آزاد نہیں اور حضرت اپنی مرضی سے چلاتے ہیں۔ان کی صلاحیتوں پر
شک کرتے ہیں۔پاکستان میں زیادہ تر حضرات ، خواتین سے روکھے اور سخت
لہجے میں بات کرتے ہیں ، مار کٹائی کی نوبت بھی پائی جاتی ہے ، لیکن
مغربی معاشرے میں چونکہ جسمانی تشدد کو سنجیدہ جرم سمجھا
جاتا ہے اور ایسے مردوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اس لئے وہ زیادہ تر نفسی بدسلوکی کا طریقہ اپناتے ہی تاکہ قانون کی گرفت میں نہ
آسکیں۔
یہ افسانہ بھی یہی ظاہر کرہاہے کہ استحصال کی نوعیت کیا ہو
سکتی ہےجنہیں کھلے عام بیان نہیں کیا جا سکتا۔لوگوں کے بین الذاتی تعلقات قائم کرنے کے لئے جذباتی بہتری ، کے لئے
صحت مندانہ حدود مقرر کی جانی چاہیئں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔