رات کے راہی Night Travellers Sandra Birdsell 1942-


رات کے راہی
Night Travellers

Sandra Birdsell

1942-

مترجم:غلام محی الدین

جب کوئی خاتون برائی کی طرف راغب ہوتی ہے تو اسے بعدمیں احساس ہوتا ہے کہ اس سے کس قدر غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ یہ بات میکا کے ذہن میں اس وقت آئی جب وہ دریا کے پاس کیبن میں حالیہ عاشق جیمز کے ساتھ رات گزارکر واپس لوٹ رہی تھی۔ وہ اور اس کے بچے اپنے دینداروالدین کے ساتھ رہ رہے تھے جوایک پہاڑ پر رہتے تھے۔ان کا ایک باغ مکان کے ساتھ ملحق تھا۔ اس کے والدین کو اسکی ایسی حرکات ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں لیکن اکلوتی اولاد ہونے اور باغ کی دیکھ بھال کے لئے اسے برداشت کیا ہوا تھا۔میکا اپنی جوانی بھرپور طریقے سے گزاررہی تھی۔ وہ ہٹ دھرم اور ضدی تھی۔اس پر کوئی نصیحت کارگر نہ ہوتی تھی۔وہ اعمال جو دین اور کمیونٹی کی نگاہ میں معیوب تھے، وہ اسے دلچسپ اور مہم جوئی لگتے تھے۔تاریکی میں وہ کام اسے جسمانی ضرورت لگتے تھے۔جیمز کے پاس رات گزارنے کے بعد اب وہ لاشعوری طورپر احساس گناہ محسوس کررہی تھی جس سے آس پاس کے دلکش مناظر اس کے من کو نہیں بھا رہے تھے ۔گرمیوں میں بادلوں اورچاند کی آنکھ مچولی سے آسمان کا فاصلہ بڑھا دیتا تھا۔ جو اسےخدا سے مزید دور کردیتاتھا۔ جوں جوں وہ بلندی پر جاتی گئی ا طراف کے نمدار کھڈوں سے مینڈکوں کے ٹرانے کی آوازوں میں بڑھوتی ہوتی گئی اس کے کانوں میں پاس سےکہیں الو کی آواز بھی آرہی تھی جن سے اسکے اعصاب کو راحت مل رہی تھی۔اسے پورا یقین تھاکہ اس کے والدین اور بہی خواہ اس کےلئے ضرور فکرمندہوں گے۔اس کی نازیبا حرکات پرکڑھ رہے ہوں گے لیکن وہ اپنی عادات سے مجبورمن مانی کیاکرتی تھی ۔اسکے بچے اس کے والدین کے گھر میٹھی نیند کے خواب لے رہے ہوں گے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی والدہ ان کا خیال رکھ رہی ہوگی۔۔وہ اس بات پر غوروفکر نہیں کررہے ہوں گے کہ میکا اور مرد کا ملاپ اب کیا نیا گل کھلائے گا۔جیمز اور میکا کے ناجائز تعلقات اور حرامی بچوں پر اس کا نیک بوڑھاوالد بہت کڑھتاتھالیکن اپنی اکلوتی اولاد کی وجہ سے اسے گھر سے نکال بھی نہیں سکتاتھا۔ خدشہ تھا کہ وہ اپنی پرانی حرکتوں پر اکتفانہیں کرے گی اورنیابچے کا آنا بھی بعید نہ تھا۔دن بھر وہ اپنے بچوں اوراپنے والدین کے باغ کی دیکھ بھال میں مصروف ہوتی اس لئے اپنے سفلی جذبات کی تسکین کےلئے چوری چھپےرات کا انتخاب کرناپڑتا تھا ۔پہاڑ پر چڑھتی چڑھتی اپنا سانس برابر کرنے کے لئے وہ رکی۔پاس پڑے پتھروں سے ایک پتھر اٹھالیاتاکہ ایمرجنسی کی صورت میںاپنی حفاظت کر سکے۔دریا والے پارک پر واپس نظر ڈالی۔درختوں سے جیمز کے کیبن سے روشنی نظرآرہی تھی۔اس نے لالٹین جلادی تھی۔اسکے ذہن میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر وہ وہاں کھڑا اسے پہاڑی پر چڑھتے دیکھ رہا ہو تو میکا کی جوانی اور بہادری کی تصدیق کے لئے کتنی فخر کی بات ہوگی۔اس لئے و ہ جھک کر چڑھنے کی بجائے اکڑ کر قدم بڑھانے لگی جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اس مقام سے نظر نہیں آ سکتی تو وہ جھک کر چلنے لگی لیکن جیمز اس سے پہلے ہی ہلکی پھلکی ورزش کر کے لیٹ کر ان کتابوں میں سے جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا، پڑھ رہا تھا۔ ان میں معاہدہ تھا کہ میکا کے ذمے والد ماریس اور بچے ہوں گے جبکہ جیمز کے ذمے بادبانی کشتی کے ذریعے سیرو سپاٹا کروائے گاجسے میکا کو بہت شوق تھا۔

پہاڑ کی چوٹی پر سڑک چوڑی اور سیدھی ہو گئی تھی اسلئے وہاں سے گاڑیوں کی آمدورفت کی رفتار بڑھ گئی تھی۔پاس ہی اس کے والدکا باغ تھا۔ وہ پھلوں کے جھنڈ کے پاس سے گزری ۔سڑک پر چار سو خوشبو چھائی تھی۔ اسے یاد آیا کہ اس نے سیبوں کی ایک ٹوکری اپنی الماری میں رکھ دی تھی۔ اسے افسوس تھا کہ اسے ساتھ نہ لے جا سکی۔ اس نے دونوں بچوں کو ایک ساتھ اٹھایا ہوا تھا اور ان کو سلاتے سلاتے ذہن سےسیبوں کی ٹوکری نکل گئی تھی۔کھڈے سے آگے اسے غراہٹ کی آواز آئی۔ میکا ڈر کر رک گئی اور چپ سادھ کر کسی جانور کی آہٹ پر دھیان دینے لگی۔ ایک سیاہ اور بد وضع شئے درخت سے یکدم باہر نکلی اور اس طرف جانے لگی جوسڑک سے جا کر ملتی تھی۔

کون ہے؟میکا نے پوچھا۔اس کے ساتھ ہی خشک کھانسی کی آواز آئی۔

پاپا کیا یہ تم ہو؟سایہ تاریکی میں اس کے قریب آیا تو میکا نے گہری سانس لی۔

لیبی میکا! مجھے امید تھی کہ تم پو پھٹنے سے پہلے واپس آؤگی۔

تو اسکا مطلب ہے کہ پاپاجانتا تھا۔ ۔۔اسے کیا معلوم تھااورکس حد تک جانتاتھا۔میکانے سوچا۔

تم اتنی رات گئے یہاں کیا کررہے ہوپاپا۔رات گئے اس طرح جاسوسی کرنا تمہاری صحت کے لئے صحیح نہیں۔تمہارے پھیپھڑے پہلے ہی خراب ہیں، مزید بگڑجائیں گے۔

جب میرا کوئی بچہ مشکل میں ہو تواس وقت میں ایسی چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا۔

یہ سن کراس کا دل تیزی سے دھڑکا۔ وہ پتھر جو اس نے اٹھا رکھا تھا سینے سے لگا لیا ۔ میکا کا دل  اس وقت بلیوں اچھلا جب اسکاوالدتاریکی سے چاند کی روشنی میں آیا۔ وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئی کہ اس نے نائٹ ڈریس کے اوپرپینٹ چڑھا رکھی تھی۔ اس کی قمیص کے بٹن کھلے تھے۔ اس کی پیاز کی رنگت والی چمڑی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ میکا نےنےاس کے چہرے پر گہری فکر مندی کے آثار دیکھے۔اس نے قیافہ لگایا کہ اس سمے اگروہ اس سے کوئی سخت بات کرے گی توہی پاپا کے اعتراضات کو رد کر سکے گی۔۔۔تمہارا کون سابچہ مشکل میں ہے پاپا۔

تم جانتی ہو کہ میں کیاکہہ رہاہوں۔میں نےتمہیں کئی بارچوری چھپے دوسروں کی نگاہ بچا کر آتے جاتے دیکھا ہے۔تمہاری کرتوتوں کی وجہ سے مجھے شرمندگی اٹھانا پڑرہی ہے۔

کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ میں باغ  کی سجاوٹ  کے لئے پتھر چن رہی تھی۔ میکا نے کہا۔میں نے اسے پل کے نیچے سے اٹھایا ہے۔

میکا!پاپا نے بڑےافسردہ لہجے میں کہا۔ یہ وہ لہجہ تھا جس میں وہ زندگی بھر باتیں کرتارہا تھا۔ میکااسکی باتوں پرتوجہ نہیں دیناچاہتی تھی اس لئے اس نے اپنا رویہ بدل لیاکیونکہ وہ اس کی افسردگی کاخودکوذمہ وارنہیں ٹھہراناچاہتی تھی۔اسے یقین تھاکہ اسکا والدہر صورت بہتری چاہتاتھا لیکن وہ اپنی جسمانی ضروریات کی تسکین کے سامنے کسی اور شئے کو اہمیت نہیں دیتی تھی۔پاپا پیار، مذہب، قانون، کمیونٹی ، التجا اور دھونس سے میکاکو برائی سے روکناچاہتاتھالیکن وہ اپنے رویے پر نہ تو نادم تھی اور نہ ہی اسے ترک کرنا چاہتی تھی۔وہ اس وقت اس کی باتیں اس لئے برداشت کررہی تھی کہ اس نےوعدہ کیاتھاکہ وہ میکا کے کمرےمیں نئی کھڑکی لگوادے گا۔

تو تم کو میرے آنے جانے کی خبر ہےاور کہتے ہو کہ میری ایسی حرکات سے تم شرمندہ ہولیکن میں تو اپنی اس حرکت پر بالکل بھی شرمندہ نہیں ہوں۔میکا نے کہا۔

پاپا نے میکا کا رستہ روک لیا۔ چلو گھر چلو۔ہم وہاں بات کرتے ہیں اور۔۔۔ میکا نے اپنے پاپا کو ایک طرف ہٹایا اور جانے لگی۔بات۔۔۔بات۔۔۔بات۔پاپاسے بات۔اس کے تلخ مزاج کاسامنا ؟ ایک اور بچہ ۔ گھر میں ایک اور بچہ ۔ بچوں کی بھرمار؟ اس کی بجائے میں اپنی ذمہ داریوں کی بات کروں گی۔میکا نے کہا۔

اس بات کامطلب یہ ہوا کہ تم بہت آگے تک جاچکی ہو۔ میکانے اس کی بات پیچھے سے سنی۔اب تم اپنے گھناؤنے کردار کی توجیہہ تلاش کررہی ہو۔ ۔۔ میں کمیونٹی میں تمہارے بارے میں کیابات کروں۔ میں پادری کو کیا کہوں؟

میکا کے آگے تکون آسمان سالیوٹ کررہاتھا۔آگے دیکھا تو دو چمگادڑیں کیڑے کھا رہی تھیں۔ وہ اس کو چمٹ بھی سکتیں تھیں۔اس نے اپنے پیچھے ہلکی چاپیں سنیں۔اس کا پاپا آرہاتھا۔

تم کمیونٹی اور چرچ کو ہربات کیوں بتاتے ہو؟ان کا اس سے کیا واسطہ؟وہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔میکا نے کہا۔

ہم خلامیں نہیں رہ رہے۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ہم کمیونٹی ہیں۔سب کے مفادات مشترکہ ہیں۔اگرکوئی غلط کام کرتا ہے تو اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ خاندان کے کسی فردپر اثر ہوتوپورا خاندان مشکل میں آجاتا ہے۔تو سمجھ لوکہ میں اس خاندان کا حصہ نہیں ہوں۔میرا کسی طور پر بھی کسی کے ساتھ تعلق نہیں۔میکا نے کہا۔

تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟جب تم دوسری خواتین کے ساتھ ملتی ہوتووہ تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ تم پر ترس کھاتے ہیں۔تمہارےلئےدعا کرتے ہیں کہ خدا تمہیں سیدھے راستے پر لائے۔

وہ دونوں کچھ دیر تک خاموش چلتے رہے۔ پاپانے اپنی سفیدگھنی مونچھوں کو تاؤدیاجواسوقت دیاکرتا ھاجب وہ کسی گہری سوچ میں ہوتا۔ میکا کچھ ددرچلنےکے بعد رکی ۔ باپ کی طرف مڑی اور بولی ۔

پاپا! تم جانتے ہو وہ راجراور تعلق دارکو قبول نہیں کریں گے۔ تم یہ بات اچھی طرح جانتے ہو۔ اگر وہ لوگوں سے ملوانا بھی چاہوں تولوگ اس کو اپنے گھروں میں کبھی گھسنے نہیں دیں گے۔وہ تو مجھے بھی قبول نہیں کرتے۔۔۔اور اگرتم اب بھی مصر ہوتو جاؤکمیونٹی اور چرچ سے بات کرو۔ ویسے وہ میرے اور میرے کھلاڑیوں کے بارے میں جو سوچتے ہیں، مجھے اس کی ذرا بھرپرواہ نہیں۔ میکانے کہا۔

وہ چمگادڑیں۔۔۔کیا مصیبت تھی۔سر کے عین اوپر سے وہ ایک سمت سے دوسری سمت اڑرہی تھیں۔وہ پھڑپھڑاتے ہوئے درختوں میں گھس گئیں۔ میکا نے تیز قدم اٹھانے شروع کر دئیے۔ میرے بچے اکیلے ہیں۔ میکا نے کہا۔

توتم کواپنے بچوں کا خیال آیا۔ شکر ہے۔ باپ نے کہا۔

یقیناً میں اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہوں لیکن میری اپنی بھی جسمانی ضروریات ہیں۔میراجسم میری مرضی۔

اس کے باپ نے ٹھنڈے ہاتھ سے میکا کا بازو پکڑا اوراسے سڑک کے ایک طرف کھینچ لیا۔اس کاچہرہ پیلا پڑچکاتھااور خوف سے کانپ رہاتھا۔اس نے کہا۔۔۔

لیکن ایسے نہیں۔ تمہیں اپنی جسمانی ضروریات کا خیال اس طرح نہیں رکھنا چاہیئے۔ تمہیں اللد سے اپنی کرتوتوں کی معافی مانگنی چاہیئے۔ تم بہت غلط رستے پر چل پڑی ہو۔ان گناہوں کی سزا آگ کے شعلے ہیں۔

میکا کا پاپا مقدس انجیل کی آیات سے اسے قائل کیا کرتا تھا جو میکا کے ذہن میں اینٹوں کی طرح لگتی تھیں۔ پاپاکی باتیں سن کر

ا س کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔

پاپا یہ میرے گناہ ہیں اور یہ میری موت ہے۔مجھے تنہا چھوڑ دو۔ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ میکا نے کہا۔ مجھے میرے حال پرچھوڑدو۔ اس نے جو پتھر اٹھایا ہوا تھازورسے زمیں پرپٹخ دیااورسرپٹ بھاگنے لگی۔گھرپہنچ کروہ بچوں کے کمرے کے باہرکھڑی ہو کران کاجائزہ لیتی رہی۔ وہ میٹھی نیندسورہے تھےپھر وہ دوسرے کمرے میں اورآخر میں اس کمرے میں جس میں سب سے چھوٹا بچہ پنگھوڑے میں لیٹا ہواتھا۔اندھیرے میں اس کومحسوس کیا۔ا اس کے کمبل کے نیچے اس کا ڈایاپر بھیگا ہواتھاجو اس نےاسے بغیرجگائےتبدیل کیا۔اس نے جلدی سے اپنے تمام لپڑے اتارے اور سو گئی۔

اگلی شب وہ وعدے کے مطابق دوبارہ تمام رکاوٹیں دورکرتے ہوئے جیمز کے کیبن جا پہنچی۔اس کاپیٹ پھولنے لگا تھا۔اس نے اسے آہستہ سے ملا۔یہ کیا ہوگیا۔جب جیمز کو پتہ چلے گا تواس پر کیااثرہوگا۔کیاوہ جذباتی ہوجائے گا۔وہ پریشان ہوکر لیٹ گئی اور منہ چھت کی طرف کرلیا۔اسے جیمز کے قدموں کی چاپ سنی۔وہ سیڑھیاں چڑھ رہاتھا۔

ایک شخص ایسا ہے جس نے آج تک میری پیٹھ  نہیں لگنے دی۔کیبن کی ایک کھڑکی سے چاندکی روشنی اوردوسری سے اس کے والدین کا گھرنظرآرہاتھا۔اسے یقین تھا کہ اس کاباپ اس وقت بھی اس کی ٹوہ میں ہوگااورپردوں کے پیچھے سے کیبن  کی طرف دیکھ رہا ہوگا۔

تم کیا سوچ رہی ہو؟راجرز نے پوچھا۔

کچھ خاص نہیں۔دن بھر میکا کوخیال آتارہا کہ اسں نےجو گناہ کئے،نافرمانیاں کیں،ان کے لئے وہ معافی کی خواستگار نہیں اور نہ ہی اپنے کئے پرنادم ہے۔، خدااسے کیسے معاف کرسکتاہے؟اس بھدے کیبن سے اخروٹ کے درخت کی سی مہک آرہی تھی۔وہ سورج کی طرح گرم تھا۔اس میں دوسرے آدمیوں کے پسینے کی بو بھی شامل تھی جوان مزدوروں کی تھی جو سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد کیبن کی مرمت کے لئےشہر سے آکر وہاں سوئے تھے۔

تم کتنی خوبصورت ہومیکا۔

چھوڑو یہ بات نہ کرو۔

کیوں؟یہ نہ کہوں کہ تم خوبصورت ہو۔جیمز نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہااور اس کے پاس آکربیٹھ گیا۔اس نےکھڑکی کے تختے پر پڑی ڈبیا سےسگریٹ نکال کرسلگایااورکہا۔تم بھی عجیب خاتون ہو۔میکاکواپنے قریب کھینچااورپھرکہاکہ تم شاندارہو۔وہان دنوں اس کی پریمیکاتھی۔وہ اسے سیکس سمجھتا تھا۔وہ اسے شدت جذبات سے دبوچتا۔وہ اسے پیارکرتے وقت پاؤں سے شروع کرتا گھٹنوں کے پیچھے جاتا۔اگر میکا موڈمیں نہ ہوتورک جاتاتھا۔

تم خدا کی بات درمیان میں نہ لایاکرو۔میں اس بات کے خلاف نہیں کہ اپنے گناہوں کی معافی نہ مانگویاخداکی عبادت نہ کرو بلکہ یہ کہتا ہوں کہ اپنے جنسی معاملات میں خداکوبیچ میں نہ لاؤ۔ کیاتم نہیں چاہتیں کہ تمہیں حور کہوںجیمز نے کہا۔جب وہ میٹریس پر بیٹھے توان کی رانیں آپس میں ٹکرائیں۔اسے اس پر دونوں نے کوئی ردعمل نہ دیاکیونکہ وہ اس کے عادی تھے۔

جیمز کی ناک بھدی تھی اس کا ایک کونہ موٹاتھا۔اس کا پوراچہرہ کیل مہاسوں سے بھرا تھا۔وہ ان کیلوں کو ہاتھ سے نکالتا رہتا تھا جس سےزخم اوردھبے پڑگئے تھے۔وہ اس سے روزانہ ملتی تھی۔باپ کے گھرسے چوری چھپےیابہانے سے آتی تھی ان کا جوڑا غیرموزوں تھا۔ان کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔جب بھی وہ وہاں آتی ،بے صبری سے کام لیتا تھا۔وہ ہمیشہ جلدی میں ہوتا تھا۔اس روز رات کے بارہ بج چکے تھے۔

کیا تم اب واپس نہیں جانا چاہوگی۔

ابھی کچھ دیر اور ٹھہروں گی۔

وہ اٹھا۔پہلےاس کا چہرہ ،پھراس کی ننگی چھاتی پھر اس کی پیٹھ چاندنی کی روشنی میں نظر آئی۔وہ جھکااورمیکا کی ہیئر پنیں اٹھاکراس کی گود میں رکھ دیں۔اس نے انہیں اپنی جیب میں ڈال لیا۔وہ اس کی پنیں اٹھانا نہیں بھولا کرتا تھا۔اس کی منشاہوتی تھی کہ جس حلئے میں وہ آئی تھی ویسے وہ جائے۔

کیاتماب اپنے بال نہیں سنواروگی؟

نہیں۔ایسے ہی ٹھیک ہیں۔میکا نے کہا۔ماریس مجھ سے پہلے گھر نہیں آتا۔

جیمزاس پرجھکا۔اس کاماتھاچوما۔اس نے اپنا ہاتھ اس کے قمیص میں ڈالا جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔اس کی چھاتیوں کو مسلااور کہا کہ یہ مجھے بےحد پسند ہیں۔کینیڈامیں میں انہیں مس کروں گا۔میکا نے جیمزکی گردن میں اپنی بانہیں حائل کردیں اور اسے اپنے اوپر لٹالیا۔اس نے میکا کی گردن چومتے ہوئے کہاکہاب ہم زندگی بھر نہ مل پائیں گے اور کبھی ملے بھی تو وہ اتفاقیہ ہو گی۔تم جانتی ہو۔

ہاں۔اس نے اپنے من میں سوچاکہ جیمز کے یہ جذبات لمحاتی تھے۔اگر وہ یہاں بھی رہتا تو بھی ایک مہینے بعد اس نے ماسے اس لئے چھوڑ دینا تھا کہ وہ حاملہ ہوگئی تھی اور اس کے پیٹ نے پھولنا شروع کر دیاتھا۔اس کا نین نقشہ بھول جائے گاجیمز کی تیکھی سانسیں اس کی چھاتی پر محسوس ہو رہی تھیں۔باہرہرطرف خاموشی تھی۔وہ لمحہ بھی گزر گیا۔جیمز نے ہئیر پنوں کوجیب سے نکال کر کمبل میں پھیلادیا۔صبح جب وہ بستر کے کونے ٹھیک کررہاتھااور دن کا پروگرام بنا رہاتھا۔ اس سے پہلے کہ میرا ذہن بدل جائے اورتمہیں کہوں کہ رات رک جاؤ،بہتر ہے کہ تم اب چلی جاؤ۔تم اس استعمال شدہ بگڑے چہرے میں بری لگ رہی ہو۔

وہ خود بھی جیمز میں ہزاروں نقص نکال سکتی تھی۔اس کی ایک کل سیدھی نہ تھی۔اسکا داغدار پیپ بھراچہرہ،لمبادبلا پتلا جسم ،بھونڈی چال، چلتے وقت اس کے ہاتھ ناک تک پہنچتے تھے۔وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی پھر بھی وہ اس سے باقاعدگی سے ملتی تھی۔وہ اس کی عادی ہو چکی تھی۔میکا نے خود کو اس سے دور کیا۔اپنی قمیص کے بٹن بند کئے۔کنگھے سےپسینے والے الجھے بال سنوارنے لگی۔جیمز کی ہوس کی باقیات اس کے بالوںمیں چپکی ہوئی تھیں۔جیمز ننگا ہی اٹھ کر دروازے کی طرف گیاتو میکابھی ادھر چل پڑی۔اس نے میکا کو بالوں سے کھینچ کراپنےسینے سے لگالیا۔اس کی درد سے چیخ نکل گئی۔اسوقت آسمان ساف اور شفاف تھا۔ چانداپنی پوری تابناکی سے دمکرہاتھااور ستارے کھللکھلا رہے تھے۔

کیا تم کل آؤگی؟راجرز نے پوچھا

نہیں جانتی۔اگر آسکی تو آجاؤں گی۔راجرز نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیااور اس کے بالوں کی سوئیاں زور سے چبھو دیں اور کہا کہ تم یہ یہاں چھوڑ کر جارہی تھی۔

میکا نے واپسی کاراستہ پکڑا۔پارک۔دریاسے ہوتی ہوئی پہاڑپر چڑھنے لگی۔حشرات الارض کی آوازیں فضا میں چھانے لگیں۔الوکیڑے مکوڑوں کا شکار کررہاتھا۔جگنو جگ مگ جگ مگ کرتے اڑرہے تھے۔رات کی خاموشی میں اسے صرف اپنے قدموں کی ہی چاپ سنائی دے رہی تھی۔وہ زور لگاکر پہاڑپر چڑھ رہی تھی تو اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔وہ سوچ رہی تھی کہ اس جیسی گنہگار کی کی مغفرت کیسے ہوسکتی تھی۔اگر وہ اپنا وطیرہ نہیں بدلے گی تو وہ یقیناً دوزخ میں جائے گی۔جب وہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچی تواس کاباپ بےچینی سے ادھرادھرچکرلگارہاتھا۔وہ پتوں سے مچھروں کی یلغارکو اپنے چہرے اور سرسے دھکیل رہاتھا۔میکانے اپنے قدم تیزی سے اٹھانے شروع کردئیےتاکہ وہ سن لے کہ وہ کیبن میں رات نہیں گزارنے والی تھی بلکہ واپس آرہی تھی۔اس کا والدبھی اس کی طرف آنے لگا۔اس نے اپنے پاؤ ں اور ٹانگوں میں کانٹوں اور اکڑےسوکھے پتوںکی چبھن محسوس کی۔وہ فوراًرک گئی۔اس کی سانس اٹک گئی اور غصے پرقابوپانے لگی۔اس کے والدنےچھڑی ایک طرف پھینک دی۔

وہ پتھر کہاں ہیں جوتم کل رات چننے گئی تھیں۔کہاں رکھے ہیں؟

میں اس بارے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔تم خواہ جیسے بھی اپنی باتوں میں الجھاؤ،میں تمہارے جال میں پھنسنے والی نہیں۔ اگرتمہارا بحث کا موڈ ہےتوخودسے کرو۔میکانے ترش ہوکرکہا۔اسے اب بھی پتوں اور کانٹوں کی چبھن محسوس ہو رہی تھی۔اس نے اپنی رفتار بڑھادی اور والد سے دور سے دورجانے لگی۔اس کی سانس چڑھ گئی تھی۔اس کے باوجودوہ نہ رکی۔گھر پہنچ کر دروازہ بندکرلیااورخود کومحفوظ سمجھنے لگی۔وہ باورچی خانے کی کرسی پربیٹھ گئی اوراپناسر میز پر ٹکا دیا۔وہ چاہتی تھی کہ اکیلی رہے اور اس کا کسی سے سامنانہ ہو۔اس نے دیکھا کہ کچن کی بندکھڑکی کے باہر ایک مکھی بھنبھنارہی تھی۔ہواکمرے کے اندر ونی پودوں کے پتوں کو ہلا رہی تھی۔حوض کی ٹونٹی کا پانی ٹپ ٹپ گررہاتھا۔وہ پانی بند کرنے گئی تو اس کی ٹانگوں میں سکت نہیں رہی تھی۔میز پر خواک کے ننھے ریزے پڑے تھے۔وہ انہیں صاف کرنے لگی۔اتنے میں اسکا نحیف و نزار والد آہستہ آہستہ چلتاہوا دروازے پر رک گیا اور دستک دی۔میکا نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ یہ تاثردینے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ بالائی منزل پر جاکرسوگئی ہے ۔ اس کے والد نے پھردروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ میکادروازہ کھولومیں جانتا ہوں کہ تم نیچے ہی ہو۔ دروازے کواندر سے کنڈی نہیں لگی تھی ۔میں اس وقت تک اندر نہیں آؤں گا جب تک تم خود نہیں کھولوگی۔وہ زور سے کھانسااور خون آلود بلغم کو اپنے رومال سے پونچھ لیا۔تم ہمیں بہت تکلیف پہنچارہی ہو۔تمہاری ماں پورادن تمہارے غم میں روتی رہی۔

بچوں کے لئے روناوقت ضائع کرنا ہے۔میکانے سوچاکیونکہ انہوں نے وہی کرنا ہوتاہے جوان کے من میں ہو۔

تمہاری ماں نے کہا ہے کہ تمہیں کہوں کہ آخرت پر دھیان دو۔

یہ سن کر میکا مزید تپ گئی۔وہ بند دروازے کی طرف ' آخرت، آخرت۔آخرت۔' کہتے ہوئے بڑھی۔ہر روز آخرت کی بہتری کے لئے صرف کروں۔میں زندہ ہوں،وقت بسری کے لئے اب کیا کروں۔اس جگہ جہاں میں اب ہوں کیسے گزاروں؟

اس کے والدنے ٹھنڈی آہ لی اور کہا کہ تمہارے لئے ہم ہیں۔یہ زندگی عارضی ہے۔اسے دائمی نہ سمجھو۔ مرنے کے بعد کی زندگی ابدی ہے۔ہماراآخری وقت ہے۔ہم اپنی زندگی گزار چکے ہیں۔یہ کہہ کر وہ رک گیا۔میکا انتظار کرنے لگی کہ وہ چلاجائے لیکن وہ دروازے کے باہر سے ہی باتیں کرتا رہا۔اس کی ناجائزحرکات نے باپ کو گہرا صدمہ پہنچایا تھالیکن میکا اپنی راہ ترک کرنے پر آمادہ نہ تھی۔

میکا ایک بات نوٹ کر لو اس نے سرگوشی میں کہا۔میری صحت ٹھیک نہیں۔میں شدید بیمار ہوں۔۔۔یہاں اس پر کھانسی کا دورہ پڑا۔اس سے پہلے۔۔۔میکا نے 'کہ میں مرجاؤں' باپ کی بات اچکتے ہوئے کہا۔ یہ سن کر باپ نے میکا نے اپنی انگلیوں کی پوریں اپنے منہ میں ڈالیں اور زور سے کاٹ لیا۔میکا نے چیختے ہوئے کہاکہ یہ میری زندگی ہے۔میں جیسے چاہوں اسے گزاروں۔ہٹ جاؤ میرے راستے سے۔چلے جاؤ۔وہ چاہتی تھی کہ پردوں کو اکھاڑ کر باہر پھینکے،بچوں کو نیچے بلاکر ان کے سامنے چیزیں پٹخے تاکہ وہ اس کا طیش دیکھ سکیں۔لیکن اس کے بچے نے اس کے پیٹ میں کروٹیں لینا شروع کر دیں اور ٹانگیں مارنا شروع کر دیں جس سے اسے ٹیسیں اٹھنا شروع ہوگئیں اور وہ چپ ہوگئی۔

میکا مجھے تمہاری بہت پرواہ ہے۔۔۔ میکانے دروازہ کھولاتواسکا والد سامنے کھڑا تھا۔اس کاسر جھکا ہواتھا۔اس کے دونوں بازو لٹکے ہوئے تھے۔سر جھکاہواتھا۔اس نے نظریں اٹھا کر اپنی بیٹی کو دیکھا۔میکا نے کہا۔اندر آجاؤ۔ تمہیں سردی لگ گئی ہے۔میں تمہیں جیمز کا کوئی سویٹر دیتی ہوں۔یہ کہہ کر میکا رونے لگی۔

اس کا باپ جلدی سے کمرے میں داخل ہو گیا۔

اپناہاتھ میکا کے کندھے پررکھا۔ہاں۔ہاں۔تمہارا یہ ردعمل بالکل صحیح ہے۔تمہارا اپنے اعمال پر رونا ہی بنتا ہے۔رو رو کر گناہوں کی معافی مانگو۔خدا تمہیں معاف کر دے گا۔

میکانے جذبات میں اپنے باپ کے بازوپکڑلئے جو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے اور کہا کہ میں اس لئے روئی ہوں کہ میں وہ شئے حاصل کر سکوں جو میں چاہتی ہوں۔جیمز میرے پاس سے جلد ہی چلا جائے گا۔وہ مجھ سے اورکچھ نہیں چاہتا۔وہ مجھے اچھی طرح نچوڑچکا ہے۔اس کے دوستوں اور دگر لوگوں نےمجھ سے جو لیناتھالے چکے ہیں۔میں جیمز کو چاہتی ہوں۔اگرمیں اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پالوں تو میری اس کے لئے چاہت ختم ہو جائے گی۔میں عام عورت نہیں ۔میں معاشرے سے مختلف ہوں۔میں ان کی اقدار نہیں اپنا سکتی۔میں منفرد ہوں۔میرے لئے سب ختم ہو چکا ہے۔

وعدہ کروتم دوبارہ وہ گندا کام نہیں کروگی۔اس کے یا دوسروں کے پاس اب کبھی نہیں جاؤگی۔ایسےاشخا ص سے اب کبھی نہیں ملو گی۔اس کے سینے سے بلغم کی سرسراہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ میکا باپ کو اپنے انداز میں پیار کرتی تھی۔اس کے دل میں باپ کے لئے پیار امڈآیا۔اس نے اپنا چہرہ باپ کی ہڈیوں والی چھاتی میں چھپالیااوردھاڑیں مارمارکر رونے لگی۔اس

نے کہا

نہیں۔اب میں اس شخص سے دوبارہ کبھی نہیں ملوں گی۔اب میں کسے بھی نہیں کروں گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں تمہاری نصیحت پر دل وجان سے عمل کروں گی۔یہ کہہ کر اس کے دل کو سکون حاصل ہوگیا۔وہ بیتتی رات کو گھورنے لگی۔وہ خود کو خالی خالی محسوس کر رہی تھی۔اس کے دل کو قرار آگیا تھا۔باہر باغ میں ایک تیز روشنی ابھری۔اس نے سوچاشائدکسی نے سگریٹ گرائی تھی۔اس کی شکل موتیوں کی مالا جیسی ہو گئی۔پیلی چمکدارجو بلند سے بلند ہوتی گئی اور تمام باغ کا احاطہ

کرلیا۔یہ سگریٹ نہیں تھی بلکہ جگنو تھا جو میکا کےراہ راست پر آنے کا درختوں کی شاخوں میں جشن منا رہا تھا۔

۔

Life history

Sandra Birdsell

- 1942

Canada

 

حالات زندگی

 سینڈرا برڈسیل  کینیڈا کے صوبہ  مینی ٹوبا  کے شہر  ' ہیمی اوٹا'  میں 1942 کو پیدا ہوئی۔ اس کا والد کینیڈا میں پیدا ہوا تھا لیکن اس کی نسبت   نیدر لینڈ سے تھی  اور ولندیزی زبان ( میٹیس کری)  کو زندہ رکھا ہوا تھا جبکہ فرانسیسی اور انگریزی اس کی  کینیڈین زبانیں تھیں۔ اس کی والدہ جرمن نژاد تھی جو روس میں پیدا ہوئی تھی ۔1943 میں اس کے والد نے فوج  میں نوکری کر لی تو اس کا خاندان ایک جگہ مستقل طور پر کسی ایک جگہ رہائش نہ رکھ سکا۔ وہ اپنے گیارہ بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھی۔اس نے ابتدائی تعلیم  موریس سے حاصل کی۔اس نے 15 سال کی عمر میں اپنا گھر  چھوڑ دیا۔ وہ یونیوسٹی آف  وینی پیگ اور یونیورسٹی آف مینی ٹوبا میں پڑھی۔ اس  کا گائیڈ  رابرٹ کروشن تھا۔1966 میں  وہ  سیسلیچوان  صوبے کے دارالخلافہ  ریجائنا منتقل ہو گئی۔ جب وہ 35 سال کی تھی تو اس نے یونیورسٹی آف وینی پیگ مین انگریزی  تخلیقی ادب میں داخلہ لے لیا۔ پانچ سال کے بعد تھرسٹون پبلشر نے اس کا سب سے پہلا ناول (نائٹ ٹریلولز) چھاپا۔ آج کل وہ اونٹوریو صوبہ اور کینیڈا کے دارالحکومت  اٹاوا میں مقیم ہے ۔

 دو  واقعات نے اس کی سوچ کا رخ بدل دیا۔  پہلا  واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ساڑھے چھ سال کی تھی۔ اس وقت اس سے بڑی بہن کینسر سے فوت ہو گئی۔اب اس کا وقفہ اپنی  دوسری بڑی بہن سے چار سال کا ہوگیا۔بڑے خاندان کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔ دوسرا واقعہ 1950 میں پیش آیا جب اس کے شہر موریس میں سیلاب آیا ۔ اس نے اوپر نیچے تین کہانیاں سیلاب کی تباہ کاریوں پر لکھیں جو اس کی تصنیف  آسیز سٹوریز میں شامل کی گئیں۔  2007  میں چار سال تک یونیورسٹی آف وینی پیگ میں پیشہ ور مصنفہ کے طورخدمات سر انجام دیں۔ 2010 میں وہ آرڈر آف کینیڈا اور 2012 میں سیسکیچوان کے آرڈر آف کینیڈا  کی رکن منتخب ہوئی۔

'  برائڈ ڈول  ' اس کے مجموعے  '  اگیسیز سٹوریز ؛ سے لی گئی ہے۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

 

Novels

The Missing Child (1989),The  Chrome Suite (1992),The Town That Floated Away (1997) ,The Russland (Katya 2001),Children of The Day (2005),Waiting for Joe (2010)

 

Short Stories

Night Traveler’s (1982),Ladies Of The House (1984) ,Assassiz Stories (1987),The Two Headed Calf (1997), Awards ,The Missing Child  (First Novel Award 1987),The Two Headed Calf (1997 Saskatchewan Book

Awards

,The Town That Floated Away (1997 Saskachewan Book Award)

The Russlander (1997 Saskachewan Book  


 





 

Popular posts from this blog