شوپنہار دنیاوی نمائندگی کا نظریہ) دوسری قسط

دوسری قسط 




آرتھر شوپنہار کا دنیاوی نمائندگی کا فلسفہ

 (Arthur Schopenhauer (1788 - 1860

Germany

 تحقیق و تجزیہ:  غلام محی الدین

حصہ سوم شوپنہار کا فلسفہ ( قسط  2)

شوپنہارجس کے نام کا مخفف شوپ (Schop) ہے، روحانیت کا علمبردار تھا۔ اس کی سوچ دقیانوسی تھی۔ اس نے کبھی نہ ختم ہونے والے جسمانی، ذہنی، اخلاقی، سماجی تفاوت کو تسلیم کیا۔ یہ انسان کو خواہشات کے ذریعے میں جکڑے رکھتے تھے۔ فرد کے آلام اس کے نزدیک صرف ’روحانیت‘ سے ہی کم ہو سکتے تھے۔ اس کا ایمان تھا کہ خواہشات ذہنی بالیدگی پیدا کرتی ہیں اور یہ سلسلہ مستقل ہوتا ہے۔ اگر ان پر ضبط پا لیا جائے تو وہ بہت حد تک ختم کی جا سکتی ہیں۔ اس کے لئے اُس نے جو طریقہ اپنایا، وہ وجدان تھا۔ اب ہم شوپنہار کے فلسفے کے کلیدی نکات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان میں اہم درج ذیل ہیں۔ سب سے پہلے اسکی ماہیئت کو دیکھتے ہیں۔



فلسفے کی ما ہیت (Nature Of Philosophy)

شوپنہار نے اپنے فلسفے میں جس چیز پر زور دیا وہ گناہوں اور مظالم سے چھٹکارے کی خواہش اور ان وجوہات کو تلاش کرکے مسائل سمجھنا اور حل کرنا تھا۔ اس کے لئے اس نے دو بنیادی اصول بیان کئے۔ جن میں۔۔۔

1) خواہش بطور دنیاوی نمائندگی یا

The World As Will & Representation - WWR

2 ) اصول معقول وجوہات یا

The Principle Of Sufficient Reasoning



شوپنہار کے فلسفے کی بنیاد انسانی المیہ پر ہے۔ اس کے نظریے کے مطابق انسانی زندگی کا آغازہی دردناک ہے۔ وہ روتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت گناہوں کا طوق اس کے گلے میں پڑا ہوتا ہے۔ مادر شکم کے آرام دہ ماحول کی راحت ختم ہو جاتی ہے۔ تمام زندگی اسے سماج میں گزارنا ہوتی ہے۔ دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے والی صعوبتیں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔ اسے دنیا میں سانس اور روح کا تعلق قائم رکھنے کے لئے اپنی خواہشات کو محسوس کرنا، اس کی صحیح شناخت کرکے اسے نمائندہ حیثیت دینا اور دنیا کے سامنے دلائل سے ایسے پیش کرنا کہ وہ اسے حقیقی سمجھیں تاکہ وہ سلجھائی جا سکیں، ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ ایک کٹھن عمل ہوتا ہے جس کے لئے اسے مرحلہ وار اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔

شوپنہار نے کہا کہ ہر شخص ڈبلیو-ڈبلیو-آر کا عمل اصول معقول دلائل (پرنسپل آف سفیشنٹ ریزننگ) کے ذریعے کرتا ہے۔ اس اصول کو بیان کرنے سے پہلے ڈبلیو-ڈبلیو-آر کو جاننا ضروری ہے جس میں اس نے سب سے پہلے خواہش کے نقطے کو بیان کیا۔

1.1) خواہش - (WILL)

1.2) دنیا بطور نمائندگی - (WORLD AS REPRESENTATIVE OF WILL )

1.1) خواہش (Will)

جسم میں شئے کی کمی یا زیادہ ہونے کا ایسا عمل جو فرد میں بے چینی کا باعث بنے ُ خواہش ٗ کہلاتا ہے۔ یہ احساس اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ کیفیت ختم یا قابل برداشت نہ ہو جائے ۔ جان و تن کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان چاہئے۔ بھوک، پیاس،یند،تھکان،درجہ حرارت کی باقاعدگی، درد سے چھٹکارا،بول و براز کا اخراج، جنس،مادری پدری شفقت،رشتوں کے باہمی تعلقات، جان و مال کی حفاظت وغیرہ درکار ہوتے ہیں۔ ان میں کمی کی صورت میں اسے دور کرنا اور معمول سے زیادہ ہو جائے تو اسے نارمل کرنے کی خواہش ایک فطری عمل ہے۔

بات جسمانی خواہشات تک محدود نہیں رہتی۔ عضویاتی اور عضلاتی نظام جو غیرارادی اور ارادی طور پر نارمل افعال سر انجام دیتے رہتے ہیں، متوازن رکھنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ گلے، پھیپھڑے، دل، جگر، معدے، آنتوں، جنسی عضویا ت، حواس خمسہ، غدودوں کا نظام،اخراجی غدود(ایکسکریٹری یا ایگزو کرائن سسٹم)، دروں افرازی غدودوں کا نظام (انڈو کرائن گلینڈ سسٹم) وغیرہ کے اعمال معمول کے مطابق انجام دئیے جاتے ہیں۔ کسی نظام کا معمولی سے معمولی حصہ بھی بگڑ جائے تو خلل دور کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

ارسطور انسان کو سماجی حیوان کہتا ہے۔ دنیا میں آتے ہی وہ دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ آنکھ کھولتا ہے تو اپنے گرد ونواح میں ماں باپ اور عزیزو اقارب دیکھتا ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اسے معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے۔جب وہ آنکھ کھولتا ہے تو لامحالہ انہی سے رسمی اور غیر رسمی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ ماں باپ، بہن بھائیوں کو موجود پاتا ہے۔ انہی کے ساتھ معاشرت کرتا ہے۔ اپنی ضروریات کی کمی بیشی کا اظہار رو کر یا جسمانی تاثرات سے کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کو دوسروں سے تعلقات کی اہمیت کا علم ہوتا جاتا ہے۔ خود کو قابل قبول بنانے کے لئے وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسروں کو پسند ہوں یا جزا وسزا کے ذریعے وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔ ہر انسان اپنی خواہشات کے تابع ہے۔ہر شخص منفرد ہے۔ انفر ادی اور گروہی سطح پر ان سے نباہ کے لئے معاشرتی مطابقت کی خواہش پیدا ہوتی رہتی ہے۔ فرد کی دوسرے فرد سے تعلقات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ دوستانہ، معاندانہ نیم گرم جوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ باہمی تعلقات اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرکے حل ڈھونڈنے، رویے، تعصبات، فیشن، کلچر، ثقافت، قائدانہ صلاحیتوں کا حصول، پراپیگنڈہ، ذرائع ابلاغ وغیرہ کے تحت مقاصد پیدا ہونا اور ان سے مطابقت کے لئے موزوں اقدامات کئے جاتے ہیں۔

ہر بنی نوع انسان پیدائش سے ہی بہت سے اداروں کا رکن بن جاتاہے۔ خواہشات کا علم، بیان اور تکمیل وہ انہی اداروں سے سیکھتا ہے۔ ارثی اور سماجی اداروں کی رکنیت کے مطابق اسے اپنی خواہشات کو ڈھالنا پڑتا ہے ۔ ہر شخص کو پوری زندگی سماج سے تال میل رکھنا پڑتاہے اس لئے اسے معاشرت (سوشلائیزیشن) کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں اسکے والدین، گھریلو ماحول، پرورش اور تربیت کے طریقے، رشتے دار، ہمجولی، سکول، کھیل کے میدان، ہمسائے، مذہبی اور قانونی ادارہ جات وغیرہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اسے ان اداروں کے تحت اپنے گروہ کے ساتھ ، اپنے گروہ کے دوسرے گروہ یا گروہوں کے ساتھ تعلقات بھی سیکھنا پڑتے ہیں۔ اگر وہ اپنے دوستوں، ہم جولیوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، سماجی، رفاہی اداروں کی اطاعت گزاری نہ کرے تو ان گروہوں میں اس کی قدر کم یا ختم ہوجاتی ہے۔ بعض حالات میں تو اس کا حقہ پانی بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ ہر ایک کی جبلت میں شامل ہے کہ اس کو عزت ملے۔ اس کی اہمیت کم ہو جائے تو خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے۔ اسی طرح لوک ریت یا فوک لور(عوامی رواج جو مخصوص علاقے کے رہن سہن سے متعلق ہوتے ہیں) سیکھے جاتے ہیں جس سے ان میں نظم و نسق، شادی، غمی کی رسومات، معر وف آداب یا موریز (رسوم و رواج کی وہ قسم جو کسی خاص سماجی گروہ کے لے لازمی ہوتے ہیں) ، موت پر سنجیدگی، مسجد کا احترام، چھوٹے بڑے سے سلوک، گندگی سے نجات وغیرہ کے اسلوب پیدا ہوتے ہیں۔ معاشرے کے یہ غیر تحریری معیارہیں۔ انہیں نبھانا اخلاقی فریضہ شمار کیا جاتا ہے۔ انہیں نہ اپنایا جائے تو حزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔

طبو یا معاشرتی بندھن بھی انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاشرہ انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتااور ایسا کام کرنے سے روکتا ہے۔رسوم و رواج یا ریچوئل۔ وہ سماجی معیار جن کو پورا کرنا معاشرے کے لئے پسندیدہ ہو،مخصوص مواقع پر مخصوص ادراک گروہی معیار، عمری معیار، معاشرتی بندھن، طبو وغیرہ ایسی خواہشات ہیں جنہیں ہر شخص کو پورا کرنا پڑتا ہے۔

طاقت کا حصول ایک جبلی خواہش ہے۔ اس کی تسکین فرد کو راحت بخشتی ہے۔ طاقت دوسروں کو رام کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کا حصول جسمانی قوت، ذہنی اعمال کے ذریعے تخلیق، دولت کے انبار جمع کرنے، اعلیٰ تعلیم کے حصول، سیاست میں حصہ لے کر عوامی فلاح و بہبود، حکومت یا اپوزیشن میں رہ کر حکومتی پالیسیوں پر تنقید، نوکر شاہی ، بادشاہت وغیرہ سبھی اہمیت جتانے والی خوا اہشات ہیں۔ بعض صورتوں میں تو وہ اتنی شدید ہوجاتی ہیں کہ قتل وغارت بھی کی جاتی ہے۔ اس کے حصول میں باپ بیٹے کو، بیٹا باپ، ماں، بھائی اور عزیزو اقارب کو مروا دیتا ہے۔ ہر شخص کی ایک قیمت ہے۔ کوئی مذہب، کوئی دولت، کوئی شرافت، کوئی حسن، کوئی عہدے، کوئی اس بات پر کہ ایک شخص کس حد تک کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے، کے تحت کیا جاتا ہے۔سماجی قبولیت، محبت اور وابستگی (لو، بیلونگنگ نیس)، تحصیل،خود مختاری،شعوری بیداری، وغیرہ خواہشات پیدا کرتی ہیں۔

ہر ایک ارادے کے تحت فرد اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ اخلاقی اور مذہبی توقعات پورا کرنا بھی مقصد ہے۔ہر ایک شخص کا وقوف، احساس اور تائثرات نفسیاتی خواہشات ہیں۔ جسمانی،اقتصادی،سماجی، قانونی، مذہبی،نفسیاتی یا روحانی نوعیت کا مقصد بی پایا جا سکتا ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر خواہشات جنم لیتی رہتی ہیں جو ایک مسلسل عمل ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ ضرورت، احتیاج، مقصد، محرک ، دلچسپی،توجہ وغیرہ کی متبادل اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔

مندرجہ بالا عمومی بحث سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ خواہش، آرزو، تمنا، تصور، طلب، مطالبہ، مقصد، محرک وغیرہ مترادف ہیں۔ ایک ہی سکے کے مختلف رُخ ہیں۔ کوئی ذی روح خواہشات سے مبرا نہیں۔ زندگی کے ہر لمحے یہ خواہشات پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات یہ حقیقی ہو تی ہیں اور بعض اوقات تخیلاتی۔ ہر شخص آخری سانس تک ان سے عہدہ پیرا رہتا ہے۔ شوپنہارنے اپنے فلسفے میں اس کی بنیادی اہمیت اجاگر کی۔

شوپنہار کے نزدیک خواہش کی اصطلاح کو خیال (idea)، بذاتِ خودآرزو ( Will.In.Itself) کے طور پر بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس نے اپنے فلسفے کا آغاز اس نکتے پر کیا کہ کائنات بے جان اور جاندار اشیا پر مشتمل ہے۔ کچھ اشیا ء دیکھی جا سکتی ہیں اور کچھ نظروں سے اوجھل ہیں۔ کچھ مادی ہیں اور کچھ غیر مادی۔ انسان بھی اس میں شامل ہے جس کا وجود زمین پر ہے اور اس کا درجہ باقی مخلوق سے ممتازاس لئے ہے کہ اس میں قوت گفتار اوربصیرت جملہ اشیا ء سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس سے وہ محل وقوع میں پائی جانے والی اشیاء اور صورت حال کو سمجھ سکتا ہے۔ ہر شخص میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ جس سے وہ اپنے جسم میں شے کی کمی، زیادتی،توازن و غیرہ کا احساس کر سکتا ہے۔ داخلی کیفیات اور خارجی حالات سے آگہی حاصل ہو جاتی ہے اور ان معاملات کو سمجھنے کی کسی حد تک قدرت حاصل ہوتی ہے جو چھٹی حس کے دائرے میں آتی ہے۔ یہ تمام اشیاء شخص کی دنیا بناتے ہیں۔

شوپنہار نے کہا کہ ُ خواہش اور جسمٗ (The Body & Will ) میں باہمی تعلق پایا جاتا ہے۔ اس کے نزدیک خواہشات اور مادی جسم لازم و ملزوم ہیں۔ جسم ہو تو تن اور من کو یکجا رکھنے کے لئے احساسات کا پیدا ہونا لازم ہے جن سے خواہشات جنم لیتی ہیں۔ جب تک خواہش کا احساس پیدا نہ ہو جائے، اس سے پہلے جسم کی حیثیت صرف جاننے والے شخص سے زیادہ نہیں ہوتی جسے شوپنہار نے ُ بلا جسم کے وجود ٗ کا نام دیا۔ خواہشات بے چینی اور بےآرامی کی کیفیات پیدا کرتی ہیں جس کے لئے اسے مناسب الفاظ کے ذریعے لوگوں کے سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ خواہش کو ایک شخص کے طور پر ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ وہ اس کے جسم کا مکمل حصہ ہو۔ اس طرح اسکی یہ حالت دنیا میں بطور نمائندگی سامنے آتی ہے اور ادراک کے آغاز کا باعث بنتی ہے۔

ہر شخص اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے دیگر اشیا ء کی موجودگی میں جو جتن کرتا ہے، ان طور طریقوں اور اقدامات سے باخبر ہوتا ہے۔ دیگر تما م لوگوں کی طر ح اس کا وجود بھی اس میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ ادراک کے دوران حالات میں جو جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں یا جو جو چیزیں موجودہوں یا اس پر واقع ہو رہی ہوں یاکردار ادا کر رہی ہوں،دوسروں کی طرح وہ خود بھی اسکا مشاہدہ کرتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کو براہ راست محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس وقت اسے دوسرے کیا سوچ رہے ہیں؟ کیوں کر رہے ہیں؟ کا علم نہیں ہوتاکیونکہ انکا تعلق اسکے جسم سے نہیں بلکہ دوسروں کی اپنی اپنی ہستی سے ہوتا ہے۔

خواہش میں نیت بھی پائی جاتی ہے۔ نیت اور عمل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہ لازم نہیں کہ شخص نیت کے مطابق کام کر رہا ہو۔ نیت کچھ اور ہو اورکردار کچھ اور، عین ممکن ہے۔ جسم کی حرکات و سکنات کا وہ جس طرح اظہارکرتا ہے، براہ راست سمجھی جا سکتی ہیں۔

شوپنہار کے نزدیک خواہش (Will) انسان خود کو سمجھنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اسکی مدد سے وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے مظاہر کی تفہیم کر سکتا ہے۔ اس کی عکاسی کر سکتا ہے۔ اس مظہر کے بارے میں صحیح بتاسکتا ہے کہ اس عمل کی حیثیت کیا ہے اور اسکے اپنے اندر بطور ایک انسان کے کون سا ایسا میکانزم کام کر رہا ہے جو اس کو حرکات و سکنات، جوابات، سوالات کرنے اورانہیں سمجھ کر ان کو کس انداز میں پورا کر رہا ہے ۔ جسم دو طریقوں سے کسی بھی مظہر کو سمجھ کر موزوں رویہ اپناتا ہے جو۔۔۔

1.1.1) دوسرے اشخاص کی طرح وہ بھی ایک وجود اورہستی ہے اور اپنی ذات کی نمائندگی کر رہا ہے۔

1.1.2) وہ فوراً اپنے مقابل کو براہ راست دیکھ سکتا ہے ا ور اگر چاہے تو نظرانداز بھی کر سکتا ہے۔ یہ اسکی انتخابی سرگرمی ہے جس میں وہ اپنی پسند اور ناپسندکا خیال کرتا ہے اور اس خواہش کے تحت وہ پروگرام بناتا اور رد عمل پیش کرتا ہے۔

شوپنہار کے نزدیک خواہش اور سوچ، فکر، استدلال ایک چیز نہیں۔ ان میں رابطہ اسباب اور علل (کاز اینڈ ا یفیکٹ) کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اور یہ ہمیشہ الگ الگ افعال تصور کئے جاتے ہیں جبکہ اصل میں ان کی حیثیت الگ الگ بھی ہے اور ان میں ملاپ بھی پایا جاتا ہے۔ ایسا دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھار بظاہران کے مابین اسباب و علل کا تعلق نہیں پایا جاتا لیکن اصل میں وہ دونوں ایک ہی شئے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ خواہش اسکی احتیاجات کا تعین کرتی ہے۔ وہ اس کے وجود کو احساس دلاتی ہے کہ اس کا اصلی مقصد کیا ہے اور اسکی محنتوں کا رخ کدھر ہونا چاہئے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا دارومدار خواہش کی شدت اور سنگینی پر ہوتا ہے۔ ہر وجود کے نزدیک یہ کیفیت ایک اضافی اصطلاح ہے۔ ہر ایک کی بر داشت یا اسے حاصل کرنے کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔ جو کام بھی اسکے نزدیک اہم ہوگا،وہ اسے حاصل کرنے یا تکمیل کی کوشش کرے گا اسلئے خواہش اور سوچ علمی مطالعے کے حساب سے مختلف ہو سکتی ہیں لیکن عملی طور پر ایک سکے کے دو رخ ہیں اور باہمی ربط کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب ہم کوئی خواہش کرتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں تو ہم اپنی دانشمندی کے تحت جو بھی قدم اٹھاتے ہیں، ان میں ارتباط پایا جاتا ہے مثلاً سال نو میں جب کوئی عہد کرتے ہیں کہ ہم نے کوئی کام کرنا ہے تو وہ عہد خواہش ہوتی ہے جس پر قائم رہا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اسطرح سے خواہش اور ردعمل دو مختلف اشیاء بھی ہو سکتی ہیں اور مربوط بھی۔ اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ ہر شخص اپنی تمام خواہشات یا ایک خواہش سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے اور اس کی حقیقت سے واقف ہوتاہے۔

شوپنہار کہتا ہے کہ دنیا محبت کرنے والوں کے لئے نہیں بلکہ شیطانوں کے لئے ہے جو دوسروں کو اذیت میں دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ا گر کوئی شخص کو دنیا پسند ہے تو اسکی حالت ایک جاہل، ان پڑھ، کی طرح ہو گی جو سونے چاندی کو بہت قیمتی سمجھتا ہے۔ ایسی خواہش سے اس کے وجود میں ابہام پیدا ہو جاتے ہیں جو اس میں نہ صرف دکھ پیدا کرتے ہیں بلکہ ان میں خاطر خواہ اضافہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہرشخص میں دنیا کا شعوری احاطہ محدود ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو اس حد تک ہی جان سکتا ہے جتنی اور جیسے وہ اسکے سامنے آتی ہے۔ بہت معمولی حصہ ہی آشکار ہوتا ہے اور باقی ساری دنیا اسکے لئے پراسراررہتی ہے اور وہ انکے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔

شوپنہار کہتا ہے کہ ہم تکلیف دہ زندگی گزار کر مر جاتے ہیں کیونکہ ہم اسی کے مستحق ہیں۔ہم اس دنیا میں آئے ہیں،ہمارا ایک وجود ہے۔ اس وجود کی وجہ سے ہم گنہگار اورمجرم ہیں اسلئے سزا پانا بر حق ہے۔ انسان کے لئے بہتر ہوتا کہ وہ اس دنیا میں ہی نہ آتا۔ زندگی ایک پریشان کن اور رکاوٹیں ڈالنے والا وجود ہے۔ علاوہ ازیں شوپنہار دنیا کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر صحیح اندازہ لگاتا ہے کہ اشرافیہ نے عوام کو اپنےظا لمانہ نظام میں جکڑ رکھا ہے۔ کمزوروں کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایک سمت تو پسے ہوئے مظلو م لوگ ہیں اور دوسری سمت ظالم اور شیطان لوگ اور وہ لڑتا لڑتا آخری سانس لے لیتا ہے۔

کئی یورپی فیلسوف نے جن میں ارسطو ، افلاطو ن اور ہوبز وغیرہ ہیں، نے اپنے نظریات میں اس نکتے کو چھوا ہے لیکن مکمل تصور اور وضاحت شوپنہار نے پیش کی۔ وہ ایسا فلسفی ہے جسکے نظریات کو آئن سٹائن، ڈاروِن، فرائیڈ، کارل یونگ اور دیگر دانشوروں نے اپنے نظریات میں استعمال کیا۔ ا س نے اپنے فلسفے میں لاطینی، یونانی، رومی، عیسائیت (جدید عہد نامہ)، بدھ مت اور ہندو مت کو شامل کیا۔ اس نے تھامس ہابز کی طرح انسان کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کیا۔

شوپنہار کے نزدیک عیسائیت میں انسان کا تصور ایک گنہگار کا ہے۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کو قابل نفرت اور گناہ کا نتیجہ شمار کیا جاتا ہے۔اس کو پیدائش سے ہی مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ذہنی طور پر مشکلات کی توقع کر رہا ہوتا ہے۔اسلئے وہ حیران نہیں ہوتا کیونکہ اسکے لئے یہ نارمل ہے اور یہ اسکو اسکی غلطیوں کی سزا مل رہی ہوتی ہے۔( P II..303)۔ یہ خاکہ ہمیں اس بات پر یقین کرنے میں مدد دیتا ہے کہ ہم بنی نوع انسان میں کم و بیش ہر شخص کی برباد شدہ،گھناؤنی اور تباہ کن فطرت کو اخلاقی اور عقلی طور پرقبول کر لیں۔ اس کافلسفہ قنوطیت پر مبنی ہے اس لئے اسے قنوطی فلسفی( Pessimist Philosopher) کہاجاتا ہے۔ شوپنہار نے ہیگل کے نظریہ ثنویت (Hagel's Idealism) کو چیلنج کیا۔ وہ اپنے دور کا پہلا یورپی فلسفی ہے جس کے پورے فلسفے کی بنیاد دقیانوسی طرز حیات پر ہے۔

خواہش بطوراشیاء کے وجود (Will As The Being Of Things) کے موضوع پر بھی شوپنہار نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ شوپنہار اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ خواہشات دلائل کے ذریعے قائم کی جاتی ہیں۔ وجود معلومات حاصل کرتا ہے، انہیں علم و دانش کی کسوٹی پر پرکھتا ہے،تفکر کرکے اونچ نیچ دیکھتا ہے، معلومات اور احساسات میں تعلق معلوم کرکے خواہش قائم کرتا ہے۔اس کے نزدیک یہ منطق باطل ہے کیونکہ خواہشات استدلال کی بدولت پیدا نہیں ہوتیں۔ اگر معلومات کی بنا پر وہ قائم کی جائیں تو اسطرح خوا ہش ایک محدود منظر پیش کرے گی جو صرف دلائل اور منطق کے تحت ہی پیدا ہو گی اور خواہش کی اپنی اہمیت نہیں ہو گی۔ عقل و د انش جو کہے، وہی شخص کی خواہش بن جائے گی۔ خواہش کو اس طرح بیان کرنا اسکی وسعت اور اہمیت کم کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہر شخص اپنی ضروریات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ خواہش اسکے شعور میں پائی جاتی ہے۔اسطرح سے خواہش ُبذاتِ خودشئے کے اندر ٗ ( وِد ان اٹ سیلف) کی شکل بن جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خواہش کا اظہار شئے کے اندر ہو جاتا ہے جو نمائندگی کا احساس پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس طرح سے یہ معلومات سے بدرجہا برتر ہے کیونکہ معلومات کا کام ان خواہشات کی تکمیل کرنا رہ جاتا ہے۔ خواہش جو مقصد بناتی ہے، علم منصوبہ سازی کر کے اسکی تسکین کرنے کے طریقے تجویز کرتا ہے۔ اس طرح خواہش کا علم پایا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کی تکمیل کے لئے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس لئے خواہش بنیاد ہے، پہلے پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کو مٹانے کے لئے طریقے معلوم کئے جاتے ہیں۔ خواہش کے بیان میں بذات خود شئے ایک تجریدی تصور نہیں ہے بلکہ یہ شخص کی ضروریات ہوتی ہیں جو بقا کے لئے لازمی عنصر شمار کی جاتی ہیں۔ یہ زندگی بھر کم، درمیانی یا شدید نوعیت میں ہر وقت موجود رہتی ہیں اور شعوری سطح پر ہر کسی میں ہر وقت پائی جاتی ہیں۔ اس عمل میں جو نمایاں ترین شئے سامنے آئے گی ، اسے ُ خواہشٗ کہا جائے گا۔ اسکے نزدیک خواہش بذاتِ خود اندرونی کیفیت کا نام ہے جس میں تمام اشیاء اس مظہر کا حصہ ہوتی ہیں۔

مخصوص نباتات و حیوانات کے لئے تو خواہشات عضویاتی تسکین حاصل کرنے تک ہی محدود رہتی ہیں لیکن اشرف ا لمخلو قات میں ان کی نوعیت سوچ اور افکار کی وجہ سے عضویاتی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بھی ہو جاتی ہے۔ شوپنہار کے مطابق خواہشات (Will) اپنے مقاصد کا تعین کر کے مضبوط ارادے کے ساتھ محنت کرتی ہیں تاکہ ان کی تسکین ہو سکے۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی بھی اور کوئی خواہش مستقل طور پر مطمئن نہیں کی جا سکتی۔ مسلسل کوششیں کبھی بھی حتمی اطمینان حاصل نہیں کر سکتیں۔ ( W-I3

شوپنہار نے خواہشات کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد اپنا شہرہ آفاق نظریہ پیش کیا کہ کوئی شخص ان کو کس طرح سے دنیا کے سامنے نمائندہ بناتا ہے جو درج ذیل ہے۔

1.2) د نیا بطور نمائندگی

The World As Will & Representation - WWR



شوپنہارکے فلسفے میں مرکزی حیثیت ْخواہش کے دنیاوی اظہارٗ کی ہے جس کی تشریح اس نے اپنی کتب ُڈبلیو۔ڈبلیو-آر والیم اولٗ اور ُ ڈبلیو۔ ڈبلیو۔آر والیم دوم ٗ اور ُ ضمیمہ و متروکاتٗ ( Parerega & Paralipomena) میں کیں۔

شوپنہار کے نزدیک نمائندگی (Representation) سے مراد ہر وہ شئے ہے جو شخص کے شعوری احاطے میں آ کر اپنی موجودگی ظاہر کرے اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو عضویاتی، عضلاتی اور حواس خمسہ کے ذریعے ادراک میں آ کر محسوس کی جا تی ہیں۔

نما ئندگیوں کی اور بھی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے کہ افلاطونی مثالیت (Platonic Idealism) جن کی نوعیت سراسر ذاتی ہوتی ہے۔ کسی بھی شخص کے حقیقی احساسات، تخیلات اور جذبات کا صحیح علم تو اس کو ہی ہوتا ہے جس سے وہ گزر رہا ہو۔ اس کی اصلی حالت کا ا اندازہ خارجی طور پر نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لئے اس نے مشاہدہ باطن کو اہمیت دی۔ شوپنہار نے نمائندگی کے لئے جمالیاتی حس کو بہت اہم قرار دیا۔ جان لاک اور اس کے پیروکاروں نے افلاطون کے بر عکس حقیقی اشیاء کو نمائندگی کے لئے اہم قرار دیا۔ ان کے نزدیک تخیلاتی اشیاء بذاتِ خود اشیاء کے درجےمیں نہیں آتیں کیونکہ ان کا حقیقی وجود نہیں ہوتا اور صرف ذہنی طور پر اپنی موجودگی ظاہر کرتی ہیں۔ شوپنہار ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بذات خود شئے کی نمائندگی کے لئے اصلی شئے کی موجودگی لازم نہیں۔ وہ اس سے آگے کا سوچتا ہے۔ اسکے نزدیک ہماری زندگی اور بذات خود شئے میں اسباب و علل والا لازمی تعلق قائم نہیں پایا جاتا بلکہ وہاں اشیاء کثرت میں موجود ہوتی ہیں جن کی ہر شخص سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ ایک میز کی جسامت کا ہر ایک کو اندازہ ہے اسلئے اسکی نمائندگی کے لئے اسکی عدم موجودگی میں بھی صحیح ا ندازہ لگا کر اسکی نمائندگی کی جا سکتی ہے اور وہ بذات خود شئے (Thing-In-Itself) بن جاتی ہے۔

شوپنہار نے 1819میں ْدنیا بطورخواہش اورثنویتٗ لکھی جس کا موضوع اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے۔ اس نظریے کی تشریح کے لئے ایک سلسلے میں چار کتب لکھی گئیں جن کا نام تھیوری آف نالج، فلاسفی آف نیچر، استھیٹکس اور ایتھکس ہیں۔ پہلی کتاب میں اس نےامینول کانٹ کے اس نظریے کی تائید کی کہ دنیا میرے وجود کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کی تشریح ذہانت، مقام، وقت اور اسباب و علل کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے۔ ان کو اپنے سامنے رکھ کر اشیاء کا باہمی تعلق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی اور تیسری کتاب میں خیالی اور ذاتی خواہش جبکہ دوسری اور چوتھی کتاب میں اس نے اسے نمائندگی اور دنیا کے معنوں میں لیا۔ اس کے فلسفے میں یہ اہم ترین اصطلاح ہے۔ اس کے نزدیک خواہش ایک حقیقت ہے۔ اس میں اتنی زیادہ توانائی اور طاقت پائی جاتی ہے کہ اس شخص کی تمام معلومات اور استدلال اس خواہش کی تکمیل کے لئے کام کرتی ہیں۔ ا سکی بدولت التباس یعنی غلط ادراک پیدا ہوتا ہے جس سے مصائب شروع ہوتے ہیں اور خواہش ان تکالیف کو دور کرنے کے لئے تگ و دو کرتی رہتی ہے۔

شوپنہار کہتا ہے دنیا میری نمائندہ ہے۔ دنیا مادی اور غیر مادی اشیا ء سے مل کر بنائی گئی ہے۔ اس میں جاندار اور بے جان دونوں اشیاء شامل ہیں لیکن خواہشات کا صحیح اظہارصرف بنی نوع انسان ہی کر سکتا ہے۔ یہ ضرورت جب لوگوں کے سامنے پیش کی جائیں تو وہ خواہش کی دنیا میں نمائندگی کہلاتی ہے۔ ہر شخص کے ذاتی افکار، ضروریا ت، خواہشات خارجی دنیاکا ا ظہار کیا جاتا ہے اور ردعمل دیکھا جاتا ہے۔ اشیاء ہمیشہ ذہن کے تابع ہوتی ہیں۔ ذہن کے تحت ہی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک دنیا میں اشیاء کی نمائندگی دو طرح سے کی جاتی ہے۔

پہلی صورت یہ ہے کہ وہ اشیاء مادی ہوتی ہیں اور جسمانی شکل و صورت میں پیش کی جا رہی ہوتی ہیں۔ چونکہ وہ واضح ہوتی ہیں اور دیکھا جا سکتاہے اسلئے ہر شخص اپنی خواہشات کا جائزہ لے سکتا ہے اور اس کی اس کے نزدیک اہمیت کے مطابق اپنی مرضی سے اپنی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس میں اسے عقل، ذہانت، وقت، جگہ، وجوہات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو من میں آتا ہے، کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرتے وقت وہ اپنی مرضی کے مطابق خواہشات کی اہمیت متعین کر سکتا ہے۔ وہ صعودی ترتیب سے حقائق ترتیب دے سکتا ہے جس میں وہ پہلے نچلی سطح، پھر اس سے زیادہ اہم اور آخر میں سب سے اہم خواہش کی تکمیل کر سکتا ہے اور نزولی بھی، جس میں خواہشات کی ترتیب اس کے بر عکس ہوتی ہے اور شدید خواہش سے کم ترین خواہش کی طرف آیا جاتا ہے۔

دوسری صورت میں خواہشات کی حیثیت نجی اور ذاتی ہوتی ہے۔ وہ مادی شکل میں ظاہر نہیں ہوتیں۔ دوسروں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ صرف وہی اسے محسوس کر سکتا ہے جن پر وہ وارد ہوئی ہوں۔ ان کی نوعیت مبہم ہوتی ہے اس لئے ہر شخص صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے اور موڈ کے مطابق کسی احساس کو اصل ضرورت سے شدید سمجھ سکتا ہے اور ا ندھی خواہشات اور آرزوؤں کو بھی اپنا سکتا ہے۔ اگر تنقیدی طور پر جائزہ لیا جائے تو دنیا کے سامنے خواہشات کی نمائندگی کی حیثیت باطنی ہوتی ہے، اس لئے ان کو باطنی نمائندگیاں (Subjective Representations) بھی کہا جاتا ہے۔ جو یہ بیان کرتی ہیں کہ سوچ میں آنے والی اشیاء اور خواہش ہم آہنگ ہیں۔ جس فردکی سوچ ہے اسے شخص(Subject) اور جو چیزمحسوس کی جا رہی ہے وہ شئے (Object) کہلاتی ہے۔ نمائندگی یا خواہش کے لئے دونوں باتوں کا ہونا لازم ہے یعنی شئے اور شخص۔ اگر ان دونوں میں ایک عنصر بھی غائب ہے تو وہ نمائندگی نہیں کہلائے گی۔

کسی شخص کی آزاد و خود مختار دنیا کے پیچھے کیا چل رہا ہوتا ہے اور وہ ُ بذات خود۔ایک۔ شئےٗ Thing-In-Itself کیسے بن جاتی ہے؟ ِ ابھی تک ایک راز ہے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ نمائندگیاں چونکہ ذ ہن کی پیداوار ہوتی ہیں اسلئے وہ ذ ہنی اعمال وقوف (Cognition) پیدا کرتی ہیں۔ کسی شئے کی جانکاری کے لئے اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں۔ اس کے شیریں، ترش، تلخ تاثرات (Affection) کی نوعیت جانی جاتی ہے ۔ کمی یا زیادتی کی نوعیت کے مطابق اسے حل کرنے کی طلب (Conation) پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے خواہشات کی نمائندگی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ذہنی صلاحیتیں (Mental Faculties) تخیلات( Imagery) کی مدد سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے اور فرد اپنے احساسات کی نمائندگی کا اظہار خواہش پیش کر کے کرتا ہے۔

خواہشات پہلے غیر نامیاتی پھر وہ نامیاتی ہو کر جانوروں سے ہوتی ہوئی حتمی شکل اختیار کر کے طلب کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور محرک پیدا کرکے اسے حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگ جاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک آتی رہتی ہیں۔ پورے عمل میں رسہ کشی چلتی رہتی ہے۔ یہ سلسلہ آخری سانس تک رہتا ہے۔ خواہشات کی نمائندگی کی یہ دونوں صورتیں اس کی کتب میں خواہش کو مثبت انداز میں پیش کرتی ہیں۔

شوپنہار کہتا ہے کہ کائنات میں پائے جانے والے مادہ کا عمل ان اشیاء پر ہوتا ہے جو فرد کے سامنے ہوتی ہیں اس لئے وہ فوری ادراک کا باعث بنتی ہیں۔ مادہ کے مطالعہ سے اسباب و علل میں تعلق قائم کیا جاتاہے۔ علاوہ ازیں جب کوئی شخص کسی مظہر کا ادراک کرتا ہے تو اس وقت وجدان اور حواس کی حیثیت ُ ضمنی پیداور ٗ (By Product) کی نہیں ہوتی۔ اس وقت و ہ شخص کی عقل و دانش کا حصہ ہوتے ہیں۔ ادراک کے عمل میں اہم شمار کئے جاتے ہیں۔ وقت اور مقام میں بھی ان کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اگر مادہ نہ موجود ہو تو بھی شخص کے ادراک میں وقت اور مقام میں وجدان کو نمائندگی مل سکتی ہے۔ جبکہ مادہ کو اس طرح کی نمائندگی نہیں حاصل ہوپاتی (RI-9 F)۔ شوپنہار نےنمائندگی کےموضوع ُہماری خواہشات کی دنیاوی نمائندگی ُکا ذکر دوسری کتاب میں کیا ہے۔

ہماری خواہشات کی دنیاوی نمائندگی کے موضوع پر شوپنہار کہتا ہے کہ کوئی ذی روح سدا بہار خوشی حاصل نہیں کر سکتی۔ آرام و سکون عارضی اور لمحاتی ہوتا ہے، نئی شکل میں خواہش (Will) ظاہر ہوتی ہے اور بے سکونی کا عالم شروع ہو جاتا ہے۔ اس نے مصیت و آلام کے متعلق جو فلسفہ بیان کیا وہ اس کی کتاب ْخواہش زیست کی نمائندگی حصہ دوئمٗ ( WWR II) میں موجود ہے۔

شوپنہار حقیقت کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ وہ چیز جو پیما ئش کی جا سکتی ہو، طبعی وجود رکھتی ہو اور التباس نہ پایا جائے، کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ حقیقت ہے جبکہ اس کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ وہ مقداری ہو۔ وہ اس بات کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتا تھا کہ حقیقی دنیا کی اصلیت کیا ہے؟ حقیقی نمائندگی ا صطلاح استعمال کرنے کے بارے میں اس کے نزدیک دو اشیاء اہم ہیں۔

1.2.1) یہ کہ اس بات کا یقین نہ ہو کہ وہ ایک مثالیت پسند شخص (Subjective Idealist) نہیں ہے اور یہ شئے اس کی ذہنی اختراع ہے۔کسی شئے کے بارے میں جس کا تجربہ حاصل ہو، اورسیدھے سادے طریقے سے نہ تو ہم غور و فکر کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی شئے ہوتی ہے جس کا تجربہ کر سکیں ماسوائے ان نقوش کے جو ذہن پر مشروط انداز میں نقش ہوتے ہیں۔ اس طریقے سے کسی شئے کی نمائندگی کا عمل ممکن ہو تا ہے۔ اس وضاحت کو اگرچہ اس نقطہ نظر کے مخالف حقیقت پسند فیلسوف نے بھی تسلیم کیا ہے لیکن وہ اس بات پہ متفق نہیں کہ اشیاء کے ادراک میں یہ کیسے لازم و ملزوم ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ جو بیان کیا جا سکتا ہے وہ باطنی کیفیات کی خود مختاری کی صحت معلوم نہیں کر سکتا۔

1.2.2) اس نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ ہماری باطنی کیفیات غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ خارجی اشیاء کی نوعیت حسی ادراک سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ التباس پیدا ہوجائے یعنی حواس میں ان کی نوعیت خارجی ماحول میں موجود اشیاء سے مختلف ہو اور وہ ایک دوسرے سے بیر نہ کھاتی ہوں۔ اس صورت میں واقعات کی تشریح پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں او ر نمائندگی میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ علاوہ ازیں ہر شخص اپنی عقل، علم اور تجر بات کی بنا پر ایسی اشیاء جو اس وقت خارجی ماحول میں نہ ہوں وہ اپنے تئیں سمجھ لے کہ چونکہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے، اس لئے اب بھی ویسا ہی ہو گا، کی بنا پر قبل از وقت قیاس آرائی کر لیتا ہے اور ایسے مفروضے جو اصل واقعے سے پہلے کر دئے گئے ہوں، معتبر نہیں رہتے۔ اگر بعد میں توقعات کے عین مطابق نہیں ہوتے یا اس کے برعکس ہوتے ہیں تو نمائندگی باطل ثابت ہوتی ہے۔ اس نے اس بات کو تصدیق نہیں کی کہ ہماری باطنی کیفیات غلط بھی ہو سکتی ہیں۔

کسی بھی تجربے میں مقام، وقت اور اسباب لازمی عوامل ہیں جو تجربہ حاصل کرنے میں اہم ہیں۔ کسی ایک کی عدم موجودگی سے وہ نامکمل رہتا ہے۔ اگر اس میں کوئی عنصر صوابدیدی طور پرشامل کر لیا جائے تو وہ نمائندگی غیر معتبر ہو جائے گی کیونکہ اس صورت میں مقداری اور باطنی کیفیات، تجریدی ادر حقیقی تعلق قائم کرنے میں ناکام رہتی ہیں کیونکہ ان میں سچ کے ساتھ جھوٹ بھی شامل ہو جاتا ہے۔

شوپنہار کہتا ہے کہ دنیا میری نمائندہ ہے کیونکہ وہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں اس میں وقت اور مقام کے درمیان ربط پایا جاتا ہے اور اس کا تعلق اس شخص کے ذہن اور اشیاء کے مابین لزوم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان جذبات و خواہشات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے جس طرح ہمارا ذہن بیان کرتا ہے۔ یہ ْمثالیتٗ کی کیفیت ہوتی ہے۔

وہ اشیاء جو کہ دنیا میں نمائندگی کرتی ہیں، باہمی تعلق کی وجہ سے معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ ہم کسی ایسی صورت حال یا دنیا کو جو معروضی ہو اور ہم نے اسے نہ جانا نہ دیکھا ہو، کے بارے میں اگر ایسا کوئی تخیل پیدا کر لیں کہ ہماری سوچ صحیح ہے لیکن اگر وہ غلط ثابت ہو جائے تو ہماری سوچ کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں یہ صرف ذہن کا ایک عمل ہو گا جو کہ معروضی کوشش ہے ۔ اسلئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جس دنیا کو ہم اپنے ذہن سے خارج کرنا چاہتے تھے،کے تمام مظاہر اور حقیقی دنیا کا ادراک صرف ہمارے دماغ کی صورت حال کی وجہ سے تھا۔ اس لئے یہ مفروضہ کہ دنیا ہر ایک کے ذہن اور دماغ کے ساتھ منسلک نہیں بلکہ ہر ایک کیلئے ایک نئی اور الگ دنیا ہے جس میں اس کے الگ دماغ اورسوچ وجود کے لئے ضروری ہیں تاکہ وہ اشیاء کے بارے میں واقفیت اور معلومات آزادانہ طور پر حاصل کر سکے۔

مقام اور وقت کو بھی اسباب و علل (Cause & Effect) کے تحت تعلق ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ خود مختار طریقے سے موجود ہوں تو اسباب اور علل میں تعلق پیدا نہیں ہو سکتا۔ وجود کا تعلق ظاہر سے ہے۔ عمومی طور پر شخص کے وجود سے ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ کوئی شئے موجود ہے جبکہ وہ حقیقی طور پر موجود نہ ہو تو شوپنہار کے نزدیک اسکا کوئی وجود نہیں۔ نمائندگی کی نوعیت معلوم کرنے کے لئے ہمیں دنیا کو باہر سے ہی دیکھنا ہو گا۔ ہم فردکے اندرونی حالات میں نہیں جا سکتے اور نہ ہی معلوم کر سکتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اس لئے وہ مشاہدہ باطن کی حیثیت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔

شوپنہار کہتا ہے کہ کوئی ذی روح سدا بہار خوشی حاصل نہیں کر سکتا۔ آرام و سکون عارضی ور لمحاتی ہوتا ہے۔ نئی شکل میں خواہش (Will) ظاہر ہوتی ہے اور بے سکونی کا عالم شروع ہو جاتا ہے۔ اس نے مصیت و آلام کے متعلق جو فلسفہ بیان کیا وہ اس کی کتاب خواہش زیست کی نمائندگی والیم دوئم ( WWR II) میں موجود ہے۔ سب تکبر عارضی ا ور بیکار ہے۔ قوموں کی طرح انسانوں کی زندگی بھی مسلسل جدو جہد کا نام ہے۔ روح اور جسم کا تعلق قائم رکھنے کے لئے ہر پل اذیتیں سہنا پڑتی ہیں۔ قدم قدم پر تصادم، کشمکش اور تذبذب پائے جاتے ہیں ( PII-292

شوپنہار کے نزدیک ہر کس و عام در ماندہ درگاہ ہے۔ ہر ایک مصیبتوں کا کھلاڑی ہے۔ ہر شخص میں انا بھی پائی جاتی ہے جس کی سطحات مختلف ہوتی ہیں۔ کسی میں زیادہ تو کسی میں کم۔ ہر شخص اپنے ڈھنگ سے تمام مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ کم انا والی خواہش ابتدائی ضروریات کی تسکین تک محدود رہتی ہے جبکہ جس شخص کی انا کی سطح بہت زیادہ ہو تو اس میں طاقت کے حصول کا وصف زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ اعلیٰ معیار کی زندگی گزارنا پسند کرتا ہے اس لئے اس کے مقاصد بھی دنیاوی لحاظ سے اعلی اور ارفع ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ اپنا مقصد حاصل کر لے تو وہ دنیاوی معیار کے مطابق کامیاب قرار پاتا ہے۔ بہتر منصوبہ بندی، ذرائع، وسائل، مواقع ، قسمت اور محنت سے دنیاوی مقام بناتا ہے۔ یہ تمام اعمال ایسی خواہشِ زیست Will-To-Live کے تحت حاصل کئے جاتے ہیں جہاں اسکا تفاخر، انا اور تکبر (Vanity) معاونت کرتا ہے۔

سقراط کہتا ہے کہ زندگی ایک الگ شے ہے اور اس کی خواہشات الگ اوراپنے علم، عقل اور تجربات کی بنا پر انہیں حاصل کرنا دوسری شے ہے۔ اس کے لئے زندگی اہم ہے، اس کا وجود ہے۔ شوپنہار کہتا ہے کہ مند ر جہ بالا دلائل ناقص ہیں اور بناوٹی ہیں جو مطالعہ کی حد تک تو درست ہو سکتے ہیں لیکن ان کا عملی زندگی میں اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ تمام منصوبہ بندیاں، نصب ا لعین خواہشات کے تحت ہوتے ہیں اور خواہشات کو رد کرنا ہی فخر اور انبساط پیدا کرتا ہے۔ تمام دنیاوی خواہشات بے مقصد، خالی اور بیکار ہیں۔ زندگی کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنا فلسفے کی روح کے منافی ہے۔ زندگی کا روشن پہلو اسلئے نہیں ہے کیونکہ بظاہر کا میاب ترین زندگی بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا بلکہ زیادہ مبتلا رہتی ہے۔ اس کے مسائل کی نوعیت اور شدت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ سکون سراسر محدود مدت کے لئے ہوتا ہے اور پھر سے نئی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور پھر کو ہلو کا بیل بننا پڑتا ہے۔

شوپنہار نے خواہش اور جسم، خواہش بطور اشیاء کا وجود کو بھی تفصیلاً بیان کیا ہے۔ تجربات کے ساتھ بصیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جو خواہش کو بناتی، بگاڑ تی اور تبدیل کرتی رہتی ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں علم، عقل اور تجربات سے خواہش جنم لیتی ہے۔ حقیقت کا احساس ٹکڑوں کی صورت میں آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے۔ خواہش کا اظہار فوری طور پر کیا جاتا ہے لیکن اس کو اپنے علم، عقل، تجربات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ خواہشات کی صورت قطعی طور پر نجی ہوتی ہے لیکن ہر شخص ان کو اس وقت دوسروں کے سامنے اس وقت بیان کرتا ہے جب وہ مناسب سمجھتا ہے۔ کس وقت کون سی رائے دینی ہے، کس وقت رائے لینی ہے، شخص خود طے کرتا ہے۔ وجود اظہارِ رائے کے لئے ضروری ہے۔

شوپنہار کے نمائندگی کے علم اور جسمانی معلومات کے بارے میں ہیڈیگر نے کہا کہ وجود خواہش کی تشکیل میں محرکات اور خارجی عوامل کی مدد حاصل کرتا ہے۔ یہ وجودیت کے نظریے کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ ہمارا جسم دو طرح سے معلومات حاصل کرتا ہے۔

1.2.2.1) محرکات کی وجہ سے جواعمال سر انجام دئے جاتے ہیں

1.2.2.2) خارجی عوامل کی وجہ سے جو مشکلات اور تکالیف سامنے آتی ہیں، کا علم فراہم کرتا ہے۔ظاہری طور پر جو معاملات سامنے آتے ہیں۔نیت، اعمال اور جسمانی تکالیف یا دوسری اشیاء کے بارے میں جو معلومات وہ حاصل کرتا ہے وہ اسکے مشاہدہ باطن سے حاصل ہوتی ہیں۔

دنیا کی تمام اشیاء کو اگر نمائندگان کے طور پر لیا جائے یا ان کا تصور ذہنی صورت یا انہیں شئے کے وجود میں استعما ل کیا جائے تو ان سب باتوں کے لئے ضروری ہے کہ کیا ہمیں انکے بارے میں واضح شعور ہے؟ شعورچونکہ ر اپنے تک ہی محدودہوتا ہے لیکن اسکے ساتھ دوسرے عوامل کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کی جاگتی ہے جو اپنی اپنی نمائندگیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں،اپنے وجود کی اہمیت بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر شخص صرف ایک کی تعداد ظاہر کرتا ہے۔ ہر دوسری اشیاء کے بارے میں جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ وہ اسکی نمائندگی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ شخص کو اپنی نمائندگی کا ہی پتہ ہوتا ہے،دوسروں کا نہیں۔ اسلئے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی معلوم کئے جائیں کیونکہ وجود کی حیثیت ا ور اسے حاصل کرنے کیلئے پوری طرح سرگرم رہنا پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس کی بنیاد پر فلسفے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے ( W-I-104

شوپنہار کے مطابق تمام مصائب کی جڑیں ان تمام خواہشات سے متعلق ہیں جو انسان کے اندر اور خارجی ماحول میں پائی جانے والی صورت حال کی بدولت پیدا ہوتی ہیں جو اس میں اضطراری کیفیات طاری کردیتی ہیں۔ بسا اوقات اس کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آتا ہے جو ایسے آگ برساتے سورج کی مانند ہوتا ہے جس کے نیچے کالے گھنگھور باد ل مسلسل حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ چند لمحوں کے جب وہ سورج کے درمیان آ جاتے ہیں تو ٹھنڈک پڑ جاتی ہے۔۔۔۔ اور پھر وہی جھلسا دینے والی آگ۔

شوپنہار کہتا ہے کہ انسانی وجود کا پایا جاناایک غلطی ہے۔ عام مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ انسان بنیادی ضروریات کا غلام ہے۔ اس کے لئے یہ بات اسکی زندگی کیلئے لا زمی کر دی گئی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی خواہشات کی تکمیل میں بھاگتا رہے۔ مضطرب رہے۔ کیونکہ اگر اس کی خواہشات خود بخود پوری ہوتی رہیں گی تو اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہو گا۔ وہ زندگی کیسے گزارے گا؟ اگر ایسا ہو بھی جائے تو یہ ایک مثالی دنیا ( Utopia) ہو گی جس میں ہر شخص کی تمام مرادیں پوری ہوتی ہیں اور کوئی کسک، کوئی طلب نہ ہو گی۔ ایسی زیست کا کیا فائدہ ؟ (PII 293)

وجود (Being) کی اصطلاح تجریدی انداز میں استعمال نہیں ہوتی بلکہ اس سے مراد کسی ذات کے اندر کی کوئی خواہش ہے ( Being in whose being) ہے۔ ہیڈیگر کے نزدیک وجود سے مراد میری ہستی ہے۔ یہ میری ملکیت ہے جو اس بات کاتعین کرتی ہے کہ حقیقت اور معیار کیاہے جس کے تحت میں اپنی ذاتی شناخت یا بالادستی قائم کرسکوں جبکہ شو پنہار کے نزدیک وجود ایک خود مختار حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کسی نئی صورت حال کی وجہ سے پیدا ا نہیں ہوتا اور یہ اپنی ذات کے اندر پیدا ہو کر فوری طور پرذاتی شعور میں آ جاتا ہے ( W.1-112)۔ جب ہم خواہش کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ایک ایسی چیز لی جاتی ہے کہ ہمارے اندر جو چیز ہماری ذات میں موجود ہے، وہ نمایاں اور وافر انداز میں پائی جاتی ہے

شوپنہار بدھ مت کے اس قول کو سراہتا ہے کہ زندگی نہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ زندگی ہمارے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھتی ہے۔ اندھی خواہشات کی غلامی اسے ہمیشہ بے بس کئے رکھتی ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا دل گردے کا کام ہے جن کا مقابلہ صوفی،سنت، بھکشو،سادھو اور فنکار ہی کر سکتے ہیں۔

شوپنہار کہتا ہے کہ انسان خود ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہے۔ وہ اپنے لئے برا آدمی اور شیطان ہے۔ اگر اس کا بس چلے تو وہ ہر اک کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ اس نے طاقتور لوگوں اور شہنشاہوں کے بارے میں بیان کیا کہ انہوں نے لاکھوں بے گناہوں کو جنگوں میں یا ا پنی حکومت بچانے کے لئے قتل کروایا۔ ہٹلر نے کہا تھا کہ اذیتیں برداشت کرنا تمہارا مقدر ہے۔ اس کے علاوہ ا س نے حبشی غلاموں، بچوں کے بیگار کیمپ وغیرہ کی بھی مثالیں دیں جو انائیت کا شکار ہوئے ( W.II 578

شوپنہار اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ آخر میں اچھائی برائی پر غالب آ جاتی ہے۔ وہ اسے بیکار بحث سمجھتا ہے کیونکہ بدی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ مسئلہ گمبھیر ہے۔ برائی کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اچھائی کر کے اس کے متوازن کیا جا سکتا ہے۔ بدی ہمیشہ نیکی پر بھاری پڑتی ہے۔ برائی کا وجود مفکرین کو سوچنے پر اکساتا ہے کہ اس کا حل نکالا جائے۔ کسی بھی فلسفی نے شر پھیلانے کو نہیں سراہا بلکہ تدارک کا سوچا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ کہتا ہے کہ بدی کو دیکھ کر ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ اداس ہونا چاہئے۔

جاری ہے۔۔۔

 

Popular posts from this blog