میری خوشی کی انتہا The Happiest I've Been John Updike (1932 - 2009) USA





                                                                                                                                                                                                                                    میری خوشی کی انتہا

 The Happiest I've Been

John Updike (1932 - 2009)

USA

مترجم:  پروفیسر غلام محی الدین (کینیڈا)



           نیل ہووی اور میں یعنی جان نورڈھولم شکاگو یونیورسٹی کے چار سالہ کورس کے دوسرے سال کے طالب علم تھے۔  نیل اور میں ہائی سکول سے دوست تھے۔  ہم دونوں میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔   پیار کا رشتہ تھااور ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔  میرے دادا کا پندرہ سال پہلے آلٹن میں ایک بڑا گھر تھا جہاں میرا بچپن گزرا تھا اور وہیں میری دوستی نیل اور لیری شولمن سے ہوئی تھی۔  پھردادا نے وہ گھر بیچ دیا اور اولنگر میں اپنے فارم ہاؤس منتقل ہو گئے۔

 اس دن جب میں نے نیل کو دیکھا تو وہ ڈبل بریسٹ سوٹ پہنے، اپنے ابا کی سرخ فورڈ کا دروازہ کھولے، اپنی گیبرڈین کی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالے،بڑی ادا سے ٹیک لگا ئے کھڑ اتھا۔  اس نے اپنے بالوں کو پانی سے گیلا کر کے کنگھی کی ہوئی تھی اور درمیان میں چیرکیا ہوا تھا۔  میرے دادا کا قول تھا کہ وہ شخص جو سرخ ٹائی پہنے اور بالوں کادرمیان سے چیر نکالے،اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔  میری ماں بھی اسے پسند نہیں کرتی تھی لیکن اس کے باوجود میں اسے اپنا بہترین دوست سمجھتا تھا۔
 
 میں نیل کا ہی انتظار کر رہا تھا۔  ہم موسم سرما کی چھٹیوں میں اپنے گھر آئے ہوئے تھے۔  پروگرام کے مطابق ہم نے کرسمس اپنے گھر میں منانی تھی جبکہ نئے سال کی تقریب کے لئے ہم نے آلٹن میں ایک خاندانی دوست مسٹر شولمن کے گھر جانا تھا۔  نیل مجھے وہیں لے جانے کے لئے آیا تھا۔  نیل کے اعلیٰ کپڑوں کے بر عکس میں نے عام سی پرانی پتلون اور قمیض زیب تن کی ہوئی تھی۔  چونکہ ہم نے نئے سال کی تقریب منانے کے بعد شکاگو چلے جانا تھا اس لئے میں نے اپنا ایک اٹیچی کیس بھی تیار کر لیا تھا۔  ہمارا ارادہ  ٹرن پائیک اورانڈیانا سے ہوتے ہوئے الینوائے جانے کا تھا۔  آلٹن او ر ٹرن پائیک مختلف سمتوں میں تھے۔  اس موسم میں ان علاقوں میں برفباری ہوناعام بات تھی۔  برفباری نہیں تو جمی ہوئی بارش توروز ہوتی ہے۔  نیل نے ہمارے گودام کے پاس گاڑی روکی ہوئی تھی اور برابر تیکھی نظروں سے گھر کی طرف دیکھ رہا تھا۔  رات کو تھوڑی سی برفباری ہوئی تھی جس نے باہر کے لان کی گھاس میں کیچڑ کر دیا تھا۔  شام ہونے کو تھی۔

 نیل کا باپ ایک تاجر تھا جو آلٹن میں ہی رہتا تھا لیکن اسے کاروبار کے سلسلے میں اکثر گھر سے باہر رہنا پڑتا تھا۔  اس لئے اس نے نیل کو دادا دادی کے پاس بورڈنگ ہاؤس میں چھوڑ دیا تھا جو میری رہائش کے قریب ہی تھا۔  نیل کے دادا اور دادی کا طرز حیات یکساں تھا۔  دونوں بزرگوں کی رات بھر کی کھانسنے، بستر کے پاس کموڈ رکھنے، صبح اٹھ کر ارد گرد چکر لگا کر ناشتے کی پکا رکرنے کی عادات سانجھی تھیں۔  وہ ایک دوسرے کے مزاج کو بہتر سمجھتے تھے۔  اُن کے ایک دوسرے کے قریب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔  نیل کا والد ان سے ملنے آتا جاتا رہتا تھا۔
  
 میرے والدین مجھے الوداع کرنے کے لئے کھڑے تھے۔  نیل بڑے احترام سے میری ماں کے ساتھ باتیں کررہا تھا۔  اس نے ماں کی اتنی تعریفیں کیں کہ وہ اس کا سراہنا کم اور خوشامد زیادہ لگ رہی تھی۔  میرے والد اور نیل نے میرا اٹیچی کیس کار کی ڈگی میں رکھا۔  ماں نے الوداع کہتے ہوئے کہا کہ تم لوگ بہت لمبے سفر پر جا رہے ہو، سترہ گھنٹوں سے بھی زیادہ کا سفر ہے۔  تم لوگ بہادر ہو لیکن بڑی ا حتیاط سے گاڑی چلانا۔  اس پر نیل نے میر ی ماں کو کہا کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں تو آرام سے گاڑی میں سو تا ہی رہوں گا۔  میں نے ماں کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے نیل کوکہا کہ میری اس پوز میں ایسے فوٹو کھینچے کہ  پیچھے والادرخت، سینری اور ڈوبتا ہوا سورج نظر آئے۔  اُس اخروٹ کے درخت کے نیچے میرے دادا سیب چھیل اور کاٹ کرکھایا کرتے تھے۔  یہ فوٹو مجھے اپنے خاندان کی یاد دلاتی رہے گی۔  نیل نے بڑے ادب سے میرے والدین کو الوداع کہا اور ہم وہاں سے رخصت ہو گئے۔

ہم آدھے میل کے بعد ہا ئی وے پر چڑھ گئے۔  اس کے بعد یک طرفہ ٹریفک شروع ہو جاتی تھی۔  یہ سفر آرام دہ تھا۔  میں نے اپنی قمیص کی جیب سے دو انگلیوں سے دو سگریٹ نکالے اور انہیں سلگا کر ایک نیل کو دیا اور د وسرا خود پینے لگا۔  میرے والدین کو علم تھا کہ میں سگریٹ پیتا تھا لیکن ا حتراماً ان کے سامنے کبھی نہیں پیا تھا۔  ہماری دوستی بڑی پائیدار تھی۔  ہماری عادات اور وصائف بھی کم و بیش ایک سے تھے۔  سپورٹس، قد کاٹھ، تعلیمی درجہ اور لڑکیوں کے بارے میں ہماری قسمت ایک جیسی تھی۔  کوئی ٹکتی ہی نہیں تھی۔  ایک دو ملاقاتوں کے بعد چھٹی ہوجاتی تھی۔  جہاں کہیں تقریبات میں ہلے گلے اور ڈانس گانے کی نوبت آتی توہم چاروں شانے چت ہو جاتے تھے۔  اس وقت اگر ہمیں کسی شے کی انتہائی ضرورت تھی تو وہ لڑکیاں تھیں۔   میری فنونِ لطیفہ میں ایک لڑکی سے دوستی ہو گئی تھی اور میں ایسا سمجھتا تھا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔  میں ارادہ بنا رہا تھا کہ اس سے شادی کر لوں۔  اُسے میں نے شولمن کی پار ٹی میں مدعو کیا تھا لیکن اس کی کوئی اپنی مصروفیت تھی۔   ہماری جوانی برباد ہو کے رہ گئی تھی۔  ہم بیس سال کے ہو چکے تھے اور افسوس سے ہاتھ مل رہے تھے۔   کم از کم میری جوانی تو بنجر ہی تھی۔  ویسے مجھے اڑتی اڑتی خبر ملی تھی کہ نیل نے کسی سے اٹی سٹی لگا لی تھی او ر نئے سال کے آغاز میں باقی ماندہ چھٹیاں اس کے پاس گزارنے کا وعدہ کر لیا تھا۔  میں نے جب اس سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اور کیا وہ اس سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے  تو اس نے جواب دیا کہ ممکن ہے۔

نیل کے دانت باہر کو نکلے ہوئے تھے اور ٹیڑھے تھے اس لئے اس نے اپنے دانتوں پر جالی چڑھوا لی تھی جبکہ  مجھے اس چیز سے الرجی تھی۔  ہماری یادیں بھی مشترکہ تھیں اس لئے ہم میں خوب نبھتی تھی۔  ہماری ایک بات جو سب پسند کرتے تھے وہ ہماری حسِ ظرافت تھی۔  ہم ایک دوسرے سے چھیڑ خوانی کرتے مزے سے اپنی منزل پر رواں دواں تھے۔  ہمارا رادہ تھا کہ ہم نئے سال کی تقریب میں کاؤنٹ ڈاؤن کر کے   رات بارہ بجے کے بعد ہی شکاگو کے رستے نکل پڑیں گے۔  بالآخر ہم مسٹر شولمن کے بڑے سے گھر پہنچ گئے۔  سجاوتی ہرن اور برف گاڑی، سنومین آس پاس ایک عمدہ سماں ڈھا رہے تھے۔  گھر دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔  مین گیٹ، ڈرائنگ روم، کچن، بیسمنٹ جھنڈیوں اور چھوٹے چھو ٹے قمقموں سے منور تھے جو چھت تک لٹکائے گئے تھے۔  ڈرائنگ روم میں تین بڑے بڑے بکس رکھے تھے جن میں کچھ تحائف  بانٹنے کے لئے پڑے تھے۔  سب مہمان تقریباًآ چکے تھے۔  ہر طرف تتلیاں تھرک رہی تھیں۔  جام پر جام لڈھائے جا رہے تھے۔  جیوک باکس پر خوشی کے نغمے لگاتار بج رہے تھے۔  رات ڈھلنے کے ساتھ جذبات بھڑک رہے تھے۔  سکرٹ، بلاؤز، نوکدار اونچی ایڑیاں، چھوٹی ایڑیاں، فلیٹ جوتے، ہیرے جواہرات سے لدی پھدی دوشیزائیں حواس میں تلاطم پیدا کر رہی تھیں۔  جب ہم وہاں  پہنچے تو مسز شولمن اپنے بیٹے لیری کی منگیتر سے میٹھی میٹھی باتیں کر رہی تھی۔    منگیتر جس کا نام جینیفر تھا،اپنی ہونے والی ساس کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہی تھی۔  مسز شولمن کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ ہمارے دوست لیری کے سفید ابرو،سرخ بال، وقار اور خود اعتمادی کس پر گئی تھی۔  فرق صرف اتنا تھا کہ وہ منجھی ہوئی شاطر تھی جبکہ لیری ابھی کسی حد تک معصوم تھا۔  دونوں خواتین ایک دوسروں کی باتوں پر زور زور سے سر ہلا رہی تھیں۔  ہماری ایک کلاس فیلو جس کا نام این تھا،بھی آئی ہوئی تھی اور لیری کی ایک پرانی گرل فرینڈ مارگریٹ اپنی ایک پر اسرار سہیلی کے ساتھ جس نے اپنا چہرہ ایک سٹائلش ٹوپی میں ایسے چھپایا ہوا تھا کہ اس کا چہر ہ نظر نہ آئے، پہلے سے موجود تھیں۔  اتنی حسین پریوں کی موجودگی میں اسے دیکھنے کی کسے پرواہ تھی۔  ہر طرف کھلی دعوت عام ہو تو وہاں ایسی ہستیوں کو کو ن پوچھتا ہے۔  وہ محض مارگریٹ کی باؤنسر لگ رہی تھی۔

اس تقریب میں تین بن بلائے مہمان بھی آئے ہوئے نظر آئے۔  وہ چمڑے کی جیکٹیں پہنے  اور ان پر کھیلوں میں جیتے ہوئے تمغے سجائے آئے تھے۔  وہ ہم سے ہائی سکول میں سینئر تھے۔  پڑھائی میں پیدل تھے اس لئے ان کا کسی اچھے کالج میں داخلہ نہ ہو سکا تھا لیکن ایک عام سے کالج میں وظیفہ مل گیا تھا۔  ان میں دو توٹھیک کھلاڑی تھے جبکہ تیسرا ریلو کٹا تھا جو ہر وقت ان کا دم چھلا بنا رہتا تھا۔  وہ شولمن کی ہر تقریب میں گھس آتے تھے۔  مسٹر شولمن ایک بڑی سیاسی شخصیت تھا۔   وہ چاہتا تو انہیں باہر نکال سکتا تھا یا پولیس کے حوالے کر سکتا تھا لیکن وہ ان کی موجودگی کو نظر انداز کر دیتا تھا کیونکہ وہ تقریب میں کسی قسم کی مدا خلت نہیں کرتے تھے۔  ان کا کام صرف مفت کی مے نوشی تک ہی محدود ہوتا تھا۔

 اُس تقریب میں ایک نو بیاہتا جوڑا بھی آیا ہوا تھا جو ایمی جانسن اور ڈیرل برچل کا تھا۔  سال نو کی خوشی میں ایمی کی شدید خواہش تھی کہ وہ ڈانس کرے۔  وہ اپنے خاوند کو مجبور کر رہی تھی کہ اس کے ساتھ ناچے لیکن وہ مان نہیں رہا تھا تو موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسٹر شولمن نے اپنا ہاتھ پیش کیا اور وہ اس کے ساتھ ناچنے لگی۔  باقی مہمان اب مزیدجوش میں آ گئے اور زیادہ دھما چوکڑی مچانے لگے۔  یہ دیکھ کر ڈیرل اٹھا اور  ملحقہ چھوٹے کمرے میں چلا گیا۔  میں بھی اس کے پیچھے گیا تو میری نیل پر نظر پڑی جواپنی ٹانگوں میں سر دئے موسیقی کی تال پر پاؤں بجا رہا تھا۔  اس کے سامنے وہ پر اسرار لڑکی منہ کے سامنے رسالہ رکھ کر پڑھ رہی تھی۔  میں یہ دیکھ کر واپس ڈرائنگ روم میں آ گیا۔  رات کے بارہ بجنے کے لمحات آئے تو مہما نوں نے ہاتھوں میں غبارے پکڑ لئے اور کاؤنٹ ڈاؤن شروع کر دیا۔  دس، نو، آٹھ، سات، چھ، پانچ، چار، تین،دو،ایک اور۔۔۔۔۔ٹھاہ۔۔۔ پرانا سال الودع۔۔۔ نیا نیا سال مبارک۔۔۔ الوداع پرانا سال، نیا سال مبارک۔  مسٹر شولمن نے ایمی کا منہ چومنا شروع کر دیا۔  سب جوڑے مستی میں آ گئے اور سب نے اپنی حسرتیں پوری کیں اور اگلی پچھلی کسریں نکالیں۔  ڈیرل واپس آیا تو ایمی کی جان چھوٹی۔ 

نئے سال کا آغاز ہو چکا تھا، اب ہمیں نکل جانا چاہئے تھا۔  میں دوبارہ نیل کے پاس گیا۔  وہ اسی طرح کا پوز بنا کر افسردہ بیٹھا نظر آیا اور پر اسرار لڑکی اب کوئی دوسرا رسالہ پڑھ رہی تھی۔  میں نے نیل سے کہا کہ اب ٹریفک کم ہو گئی ہو گی اور اس کی نئی لڑکی اس کی واپسی کا انتظار کر رہی ہو گی اس لئے ہمیں نکلنا چاہئے۔  اس پر نیل نے اپنے گھٹنوں سے سر اٹھا یا اور انتہائی غصے میں مجھے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کیا مجھے دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے میں مزا آتا ہے؟ تمہیں ہر وقت لڑکیوں کی پڑی رہتی ہے، تمہاری قسمت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔  اس کے ایسے تیور میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔  اس نے آج سے پہلے مجھے ایسی بات کبھی نہیں کہی تھی۔  میں اپنا سا منہ لئے ڈرائنگ روم لوٹ آیا۔

نیل نے میرے ساتھ ایسا ناروا سلوک پہلی بار کیا تھا۔  مجھے چند گھنٹے پہلے کا نیل یاد آ نے لگاجو خوشامدانہ حد تک میرے والدین سے دوستانہ دکھا رہا تھا۔  اس کا یہ رویہ میری سمجھ سے بالا تھا۔  دوسری طرف مارگریٹ کے ساتھ آئی ہوئی وہ پر اسرار لڑکی کیوں دوسروں کی طرح ہلے گلے میں شریک نہیں ہو رہی تھی؟۔۔ حیرانی تھی۔  اس لڑکی کی ٹانگیں اور کپڑوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ کوئی نیا پرندہ تھا۔  مارگریٹ آلٹن کے نواحی علاقے ریور سائڈ میں رہتی تھی۔  جیسا میں نے پہلے بتایا کہ وہ لیری شولمن کی سابقہ محبوبہ رہی تھی۔  اب یا تو لیری کا اُس  سے جی بھر گیا تھا یا پھر والدین کی ناپسندیدگی آڑے آ گئی تھی جو مارگریٹ کو لیری کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔  ان دونوں کی شناسائی موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران ایک ریستوران میں ہوئی تھی جو بڑھتے بڑھتے رومانیت کی تمام حدود پار کر گئی تھی۔  اس پارٹی میں وہ اس سے کترا رہا تھا۔  شاید پرانی شناسائی اور مروت کی وجہ سے اسے مدعو کر لیا گیا تھا۔  مارگریٹ دھان پان والی لڑکی تھی۔  خوبصورت تو نہیں البتہ قبول صورت ضرور کہا جا سکتا تھا۔  اس کا قد چھوٹا تھا۔  اس کا وزن بمشکل سو پونڈ کے قریب ہی ہو گا۔  جبکہ اس کی چھاتیاں جسم کی مناسبت سے بہت بڑی تھیں۔  اس نے اپنے کالے بالوں کا ایک حصہ رنگ کاٹ سے سفید کیا ہوا تھا۔  سر کے بال ترشوائے ہوئے تھے اور ارغوانی کئے ہوئے  تھے۔  مجموعی طور پر وہ سیکسی لگ رہی تھی۔  لیری مارگریٹ کو ذرا سی بھی لفٹ نہیں کروا رہا تھا اس لئے وہ از خود روح رانجھا کر رہی تھی۔  اس نے خو ب چڑھا رکھی تھی۔  مستی میں ڈوبی الٹی سیدھی حرکات کر رہی تھی،اچھل اچھل کر اپنے جذبات کی حدت کم کر رہی۔  جب وہ اچھلتی تو اس کی چھاتیاں اوپر نیچے ہوتیں۔  میں اس منظر سے دل بہلاتا رہا۔  اس کے چہرے پر تکان دکھائی دینے لگی۔  ایسا لگا کہ اس کی طبیعت متلا گئی ہے وہ واش روم چلی گئی۔   کچھ دیر بعد باہر لوٹی تو اس نے خود کو سنبھال لیا تھا۔  وہ پھر اپنے ڈانس میں مگن ہو گئی۔  مجھے اس کی حالت پر ترس آ رہا تھا کیونکہ لیری شولمن اس کی ذرا سی پرواہ بھی نہیں کر رہا تھا۔  وہ اس وقت این ماہلون کے ساتھ محو رقص تھا۔  ڈرائنگ روم میں تمام جوانیاں جھوم رہی تھیں۔  انہوں نے اپنے جوتے اپنی ٹانگوں سے اتار پھینکے تھے جو پورے کمرے میں پھیلے ہوئے تھے۔  ان کے ہیرے جواہرات ان کے پیروں کی دھمک کے ساتھ ادھر ادھر حرکت کر کے شہوت میں اضافہ کر رہے تھے۔  پھر میں نے دیکھا کہ لیری این کا ہاتھ پکڑے ایک طرف کو نکل گیا۔

کچھ مہمان ریفریشمنٹ کے لئے کچن چلے گئے۔  واپسی پر ان کے ہاتھوں میں کافی کے کپ تھے اور وہ اپنا جسمانی توازن قائم رکھتے ہوئے ڈ را ئنگ روم میں واپس آگئے۔  دو بجے چند خواتین ایپرن پہنے  پھرکچن گئیں،گلاسوں اور کپوں کودھو کر ایک ہا تھ میں کافی اور دوسرے ہاتھ میں ایشٹرے تھامے ڈولتے ہوئے دوبارہ نمودار ہوگئیں۔  اسی وقت وہ تین بن بلائے کھلاڑی مدھم روشنی میں باہر لا ن میں کچھ کھیلتے نظرآئے۔  باہر پرندے بھی اپنی شوخیاں دکھا رہے تھے۔  وہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر اڑ رہے تھے۔  نیل ابھی بھی چھوٹے کمرے میں آدم بیزار مردم بیزار اپنی ٹانگوں کے درمیان سر دیے گانے کی دھن پر پاؤں بجا رہا تھاجبکہ وہ دوسری لڑکی ابھی بھی چہرے کے سامنے اخبار رکھے پڑھ رہی تھی۔

پھر وہ تینوں اتھلیٹ پڑوسی کا سنومین گھسیٹ کر لاتے دکھے اور اسے سڑک کے درمیان رکھ کرغائب ہو گئے۔  اس وقت اڑھائی بج رہے تھے۔  جوانیاں تھک کر چور ہو چکی تھیں اور آہستہ آہستہ واپس اپنے اپنے گھونسلوں میں جانے لگیں۔  لے دے کے ہم ہی باقی بچ گئے۔  آخر کارنیل بھی حجرے سے باہر آگیا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ اب روانگی کا اراد ہ کر رہا تھا۔  شاید اس نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے گھروں تک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔  اس وقت میں شیلف پر پڑی کتابوں کو چھیڑ رہا تھا۔ 

نیل نے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے کہا،  او کے۔۔ ناروے کے باشندے۔۔ اب چلا جائے۔

میں اس کے منہ سے یہ ا لفاظ سن کر اور اس کی متلون مزاجی سے پریشان رہ گیا کیونکہ وہ مجھے اس لقب سے اس وقت پکارتا تھا جب اسے مجھ پر بہت پیار آ رہا ہو۔  میں اس مخمصے میں پڑ گیا کہ وہ پہلے صحیح تھا یا اب۔

 ہم نے گھر کی تمام بتیاں گل کر دیں ماسوائے پورچ  کے۔  مارگریٹ نے ا پنی طبیعت کسی طرح سے سنبھال لی تھی۔  اب اسے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ اس نے پارٹی میں صحیح طر ز عمل نہیں اپنایا تھا۔   اس کا ڈانس بیہودہ اور وحشیانہ تھا اور اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔  نیل نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور مارگریٹ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔  وہ بیٹھ گئی اور میں نے بھی ایک طرف ہو کراُس پراسرار لڑکی کے لئے رستہ چھوڑناچاہا لیکن اس نے مجھے اشارے سے  ماگریٹ کے ساتھ بیٹھ جانے کو کہا  اورخودآگے نیل کے ساتھ بیٹھ گئی۔  اس نے چہرے سے نقاب ابھی تک نہیں اٹھایا تھا۔  وہ کھڑکی کے ساتھ سرٹکا کر سو گئی۔  نیل نے گاڑی چلانا شروع کی اور بڑی احتیاط کے ساتھ سڑک کے درمیان پڑے سنومین کے پاس سے نکالی۔  ہماری گاڑی کی روشنیاں جب سنومین پر پڑیں تو دیکھا کہ وہ پیچھے سے کھوکھلا تھا۔

 آ لٹن سےہم اب ان لڑکیوں کو چھوڑنے کے لئے ریور سائڈ شہر کی طرف  چل پڑے۔  پتہ چلا کہ وہ شہر کے دوسرے کنارے پر رہتی تھیں۔  ریور سائڈ کا علاقہ قوس کی شکل میں آڑا ترچھاتھا۔  تمام آبادی سو رہی  تھی۔  رستے بھر سبز سگنل آتے رہے اور ہم تیزی سے آگے بڑھتے رہے۔  چلتے چلتے شہر کے اُس حصے میں داخل ہو گئے جہاں محسوس ہوا کہ بدنام زمانہ لوگ رہتے ہوں گے۔  جوا خانے، قحبہ خانے، منشیات فروشی کے اڈے وغیرہ عام دِکھ رہے تھے۔  باہر کھمبوں پر شرابوں، نائٹ کلبوں، قحبہ خانوں، شراب خانوں اور تفریحی مقامات کے اشتہارات کی بھرمار تھی۔  اس سے ظاہر تھا کہ اس علاقے کے لوگ عیاش اور قانون شکن تھے۔    اس علاقے کے گھر وں کا بیرونی حصہ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔  ہر گھر کے دروازے پر ایک مصنوعی پھولوں کا گلدستہ لٹکا ہوا تھا جس کے اندر گھر کا نمبر تانبے سے دروازے پر لگانظر آ رہا تھا۔  ہرگھر کی حد بندی گملوں کو ایک سیدھ میں رکھ کر کی گئی تھی۔  گھر ڈربوں کی مانند بہت چھوٹے تھے۔  آمنے سامنے گھروں کے دونوں طرف گاڑیاں پارک کی گئی تھیں۔  ان کے درمیان سڑک تنگ تھی اس لئے گاڑی بڑی احتیاط سے چلانی پڑ رہی تھی۔  ایک گرجا گھر بھی نظر آیا۔  ہمیں وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ مضافاتی آبادی تھی۔  دراصل مارگریٹ کا گھر ریورسائڈ پر نہیں تھا بلکہ اس سے کافی آگے ایک اور علاقے میں تھا جس کا نام شویلکل تھا۔  کھمبوں کے اوپر روشنیوں کو ڈھانپا گیا تھا تا کہ بارش اور برفباری سے محفوظ رہیں۔  وہ آبادی ڈھنگ سے نہیں بنائی گئی تھی۔  اس وقت صبح ساڑ ھے تین کا وقت تھا لیکن ادھرگھروں میں اونچی آواز میں گانے بج رہے تھے اور لوگ شو ر و غوغا کر رہے تھے۔  وہاں لوگ ابھی تک پارٹی کر رہے تھے۔۔ اور پھر بالآخر مارگریٹ کا گھر آ گیا۔  اُس کا گھرچھوٹا سا اورخستہ حال تھا۔  اُس گھر کی چھت پتری کی تھی۔  گھر کا داخلہ پچھلے حصے سے تھا۔  نیل نے گھر کے سامنے مارگریٹ کو اتارا۔  اُس نے نیل کو کافی کی پیشکش کی جو اُس نے قبول کر لی۔  گھر  کے اندر داخل ہوئے تو داخل ہوتے ہی وہ ختم ہو جاتا تھا۔  ایک چھوٹا سا کچن تھا جس کے باہر اتنی جگہ تھی کہ ایک میز اور بنچ رکھا جا سکے۔  میں بنچ پر بیٹھ گیا۔  یہ حصہ ڈائننگ کے طور پر استعمال کیا جارہاتھا۔  کچن کی کھڑکی میں ٹیلیفون رکھنے کی جگہ تھی لیکن اس پر کپ رکھے ہوئے تھے۔  اندرایک اورچھوٹا سا کمرہ تھا جس میں وہ پراسرار لڑکی اور نیل چلے گئے۔  مجھے تھوڑا تعجب ہوا لیکن میں نے اس بارے میں زیادہ نہ سوچا۔  مارگریٹ کافی بنانے لگی۔  پاس کھڑکی پر کچھ لکھا ہوا تھا۔   میں وہ پڑھنے لگا جو کچھ اس طرح تھا۔۔ مرچ، نمک، پولیس، وفاقی میگی سٹور، وینس کارپوریشن، دسمبر، ٹام سے دودھ، اِس گھر میں خدا ہے وغیرہ۔  مارگریٹ نے کافی بنائی اورمجھے پیش کی۔  پھر دو کپ اندر جا کرنیل اور اپنی پراسرار دوست کو دئیے اور خود اپنے کپ کے ساتھ واپس میرے سامنے آ کربیٹھ گئی۔  اس کے کچن سے باہر لگے کھمبوں کی ہلکی سی روشنی اندر آ رہی تھی جو کمرے میں مایوسی، اداسی اور حسرت ظاہر کر رہی تھی۔  مارگریٹ کی آنکھوں کے گرد تھکاوٹ کی وجہ سے حلقے پڑ ے ہوئے تھے۔

کیا  پارٹی میں تمہارا وقت اچھا گزرا؟ میں نے بات چیت شروع کرنے کے لئے پوچھا۔

وہ مسکرائی، نظریں جھکا ئے ہوئے ہلکی آواز میں خالی ذہن سے کپ کو ہلا تے ہوئے بولی، میری حالت مخدوش ہو گئی تھی۔

آخر میں تو صرف ہم لوگ ہی رہ گئے تھے، باقی سب نے تو اپنی راہیں ناپ لی تھیں۔  میزبانوں میں سے یہاں تک کہ لیری بھی نہیں تھا، میں نے بات بڑھاتے ہوئے کہا۔  وہ شایداین کے ساتھ چلا گیا تھا۔ 

 معلوم ہے، مارگریٹ بولی۔

مجھے اس کے جواب سے اچنبھا ہوا کیونکہ میرے حساب سے اُس دوران وہ اپنے آپ میں مگن تھی اور اسے ارد گرد کا کوئی ہوش نہ تھا۔  اوپر سے اس کی طبیعت بھی بگڑی ہوئی تھی اور متلی کی وجہ سے بار بار واش روم کے چکر کاٹ رہی تھی۔
            
کیاتمہیں این کے لیری کے ساتھ جانے پر جلن محسوس ہو رہی ہے؟ اُس نے پوچھا۔

کیوں مجھے کیوں جلن ہوگی؟ میں نے استفسار کیا۔

جان،کیا تم اسے پسند نہیں کرتے؟ اس نے میرا پہلا نام لے کر پوچھا۔  کیا تم اسے پسند نہیں کرتے؟ اس نے یہ فقرہ دو ہراتے ہوئے کہا۔۔کیا وہ تمہیں اچھی نہیں لگتی؟

ہم پہلی بار مل رہے تھے۔  میں اس طرح کی بے تکلفی کی توقع نہیں کر رہا تھا۔  میری کافی ختم ہو چکی تھی۔  میں ابھی اس کی بات پر غور ہی کر رہا تھا کہ اس نے میرا کپ پھر سے بھردیا۔

اس سے کیا موقوف؟ مجھے تو تمام لوگ ہی اچھے لگے، میں نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔۔ چونکہ میں ایسی محفل میں پہلی بار آیا ہوں اس لئے میں حتمی رائے نہیں دے سکتا۔   جوں جوں میل ملاقات بڑھتی جاتی ہے  اورزیادہ معلومات حا صل ہوتی ہیں تو بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بے شک تم نے یہ بات وزن دار کہی۔  اس کا مطلب ہے کہ تم لیری کو اچھی طرح جانتے ہو کیونکہ تمہارااور اُس کا بچپن اکٹھے گزرا ہے۔

کیا تم مجھے اس کے بچپن کے بارے میں کچھ بتاؤ  گے؟ مارگریٹ نے معصومیت سے پوچھا۔
                     
میں نے کچھ دیر سوچا اور بولا،ضرور!مجھے لیری کی ماں کی ایک بات ابھی تک سمجھ نہیں آ ئی کہ وہ اسے بچپن میں سکول یارڈ میں کافی عرصیتک خود کیوں لاتی رہی جبکہ دیگر بچو ں کے والدین نے مہینوں پہلے ایسا کرنا ترک کر دیا تھا۔  یہ بات کہتے ہوئے میں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہا کہ اس کا ایسی باتیں پوچھنے کا مقصد کیا ہے لیکن اس کی جذبات سے خالی آنکھوں میں کچھ نظر نہ آیا۔
                     
تو کیا تم بچپن میں اسے پسند کرتے تھے؟ وہ کس قسم کا بچہ تھا؟ مارگریٹ نے ایک اور سوال داغ دیا۔
                     
بہت ہونہار تھا لیکن اس میں قوت ِ برداشت کی کمی تھی۔  وہ ناکام ہونا اور ہارنا قبول نہیں کرتا تھا۔  اُس میں چھوٹا پن پایا جاتا تھا۔

وہ کیسے؟ مارگریٹ نے متجسس انداز میں اور معلومات دریافت کرتے ہوئے پوچھا۔
                     
اس میں سپورٹس مین شپ نہیں تھی۔  وہ ہار کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔  ہم سکول کے بعد روزانہ شطرنج کھیلا کرتے تھے۔  میں اسے ہمیشہ ہرا دیا کرتا تھا۔  اُس نے اِس کا توڑ یہ نکالا کہ اپنے باپ کو کہا کہ ُاسے  کسی ماہر سے سبق دلو ائے اور مجھے بتائے بغیر شطرنج کھیلنا سیکھتا رہا۔  اُس کے ساتھ ساتھ وہ شطرنج کے بارے میں کتب سے بھی رہنمائی حاصل کرتا رہا۔
            
تو کیا پھر اس نے تمہیں ہرانا شروع کر دیا؟ مارگریٹ نے جاننا چاہا۔
            
 ایک بار۔۔صرف ایک بار۔۔جس کے بعد میں سنبھل سنبھل کر کھیلتا رہا اور اسے مات دیتا رہا اورآخرکار اس نے ایک دن جھنجھلا کر شطرنج کے مہرے پھینکتے ہوئے کہا کہ یہ بچوں کا کھیل ہے اور میرے ساتھ کھیلنا  بند کر دیا۔  لیکن وہ چپکے چپکے ایسے بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا جو اس سے کم کھیلنا جانتے تھے اور وہ انہیں ہرا کر بہت فخر محسوس کرتا۔  علاوہ ازیں وہ اس پر بھی اکتفا نہیں کرتا اوربچوں کے گروہ بدل بدل کر انہیں ہرا کر اپنی انا کو مزید تقویت پہنچاتا۔  وہ اچھا منصوبہ ساز ہے اورجو سوچتا ہے کر گزرتا ہے۔  اس کے فیصلے سے اسے کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔  ویسے وہ ٹھنڈے دل و دماغ کا مالک ہے۔  اس کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ اس کی حسِ ظرافت بہت عمدہ ہے۔  میں نے یہ جان لیا تھا کہ مارگریٹ لیری کے بارے میں حساس ہے، اس لئے میں اس کی زیادہ سے زیادہ باتیں بیان کرتا گیا۔  مجھے یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ مارگریٹ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ لیری کے والدین اسے پسند نہیں کرتے تھے۔

نیل اور لڑکی اس طرح غائب ہو چکے تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔  میں نے ان کے بارے میں بالکل نہیں سوچا تھا، پر اُن کے کمرے سے شہوانی آوازیں آ نے لگیں۔  میرے لئے نیلکا یہ افیئربالکل  نیا تھا۔  اِس طرف مارگریٹ مجھ سے باتیں کرتے رہناچاہ رہی تھی اور میں اُسے مایوس نہیں کر رہا تھا۔  میری باتوں پر وہ سر ہلارہی تھی۔۔ اپنی بھولی بسری یادوں کو تازہ کر رہی تھی۔  میری کافی دوبارہ ختم ہو چکی تھی۔  اُس نے مزید کافی کا پوچھا تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔  اِس بار کافی دینے کے بعد سامنے کی بجائے چھوٹے سے بنچ پر میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی۔  اس کا رویہ حیرت انگیز حد تک رومانوی ہو گیا تھا۔  اس کی آنکھوں میں خمار طاری تھا۔  وہ کھلم کھلا مجھے دعوت ِگناہ پر آمادہ کر رہی تھی۔  اُس نے اپنے ہونٹ میرے سامنے ایسے رکھے تھے کہ میں انہیں چوم لوں۔  پھر اس کے لبوں سے یہ نکلا کہ خو اتین کے ساتھ ناروا سلوک ایک عام بات ہے، سب کے سامنے بھی جنسی زیادتی کی جائے تو لوگ اسے برا نہیں سمجھتے بلکہ اُسے سراہتے ہیں۔  شاید اُس کا اشارہ مسٹر شولمن کا ایمی کا رومانوی انداز میں نئے سال کی خوشی میں  چومنے چاٹنے کی طرف تھا۔  بہرکیف یہ کہتے ہوئے اُس نے میرا ایک با زو اٹھایا اور اپنے کندھے پر رکھ دیا اور دوسرے ہاتھ کو اپنی گو د میں اِس طرح رکھا کہ میرے انگوٹھے کا عقب اُس کی اکڑی ہوئی چھاتی کو چھو رہا تھا۔  وہ میرے بازؤں کے حلقے میں آ گئی تھی۔  ننھی منی سی گڑیا کی مانند وہ میری گود میں سمٹ گئی تھی۔  اُس کے خوبصورت ابرو خمار میں ڈوبے ہوئے تھے۔  مجھے وہ اس حالت میں بہت پیاری لگی اور  میں نے اُس کے دو بھرپور بوسے لے لئے۔  اُس کی رنگ کاٹ والی لٹیں ماتھے پر پڑی تھیں،میں انہیں چومنے لگا۔  اُس کے ہونٹوں کی لالی قیامت ڈھا رہی تھی۔  
              
باہر سناٹا ہو چکا تھا۔۔لیکن پھر اچانک ایک کار سائلنسر کے بغیر پوری آواز کے ساتھ قریباً پانچ بجے گزری اور سکوت چیرتی ہوئی چلی گئی۔  اتنے میں اندر کے کمرے سے آوازیں آ نا شروع ہوگئیں۔

نہیں تو۔۔ کون سی؟ یہ نیل کی آواز تھی۔
                
چھوڑو۔ لڑکی کا جواب سنائی دیا۔

 کیا تمہیں لڑکا نہیں چاہئے؟  نیل نے پوچھا۔
                 
کسے پرواہ ہے! لڑکی نے جواب دیا۔ 

تم کیا چا ہوگی؟ تمہاری کیا خواہش ہے؟ کیا تمہیں لڑکا نہیں چاہئے؟ 
                 
کچھ بھی ہو جا ئے۔۔ میری کوئی ترجیح نہیں، لڑکی نے جواب دیا۔ 
                 
اس وقت پانچ بج چکے تھے۔  ایک ٹرک گلی میں آ کر رکتا سنائی دیا اور اس نے ہارن دیا۔  اُس میں ریڈیو بھی بج رہا تھا۔  یہ گوالے ٹام کا ٹرک تھا۔  وہ دودھ کی بوتلوں سے بھرا ہوا تھا۔  وہ لوگوں کے گھروں کے سامنے بوتلیں رکھتا گیا اور جو گاہک آئے ان کو بانٹتا گیا۔  مار گریٹ نے وقت دیکھا تو وہ گھبرا گئی۔  اس کے والد کے آنے کا وقت ہو چکا تھا۔  اس نے ہمیں جانے کو بول دیااور ہم نکل آئے۔  نیل نے اُس لڑکی کو اس کے گھر اتارا جو قریب ہی تھا۔  وہ اس کا پتہ جانتا تھا۔  اس کے بعد اُس نے گاڑی واپس اولنگر کی طرف مو ڑ لی۔  ہم میرے گھر کے سامنے سے گزرے، سب سو رہے تھے۔  میری ماں تو یہ سوچ رہی  ہو کی کہ ہم نے انڈیانا بھی پار کر لیا ہو گا۔  ہم اپڈائیک پہنچے تو نیل نے گاڑی روک دی اور مجھے گاڑی چلانے کو بولا۔۔۔ آج یہ انوکھی بات تھی۔  اسے تو میری ڈرایونگ پر بھروسہ ہی نہیں تھا۔  خاص طور پر اپنے  باپ کی کار کو تو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا۔  میں نے سٹیئرنگ سنبھا لا اور نیل کھڑکی کے ساتھ ٹیک لگا کر سو گیا۔  برفباری کی وجہ سے سڑکیں برف سے اٹی پڑی تھیں۔  ایک جگہ پہاڑ ی علاقہ آیاتومیں نے گاڑی ٹاپ گیئر پر ڈال لی۔  آگے خطرناک موڑ آ گیا جہاں ایک بہت بڑا ٹریلر موڑ کاٹ رہا تھا۔  ریڈیو پر ایمرجنسی اور بڑی احتیا ط سے ڈرا ئیونگ کی تنبیہ کی جا رہی تھی۔  میری رفتار اُس وقت پچاسی میل فی گھنٹہ کی ہو گی۔  آگے ٹرک کی وجہ سے کچھ نظر نہ آ رہا تھااور برف کی تہہ موٹی ہوتی جا رہی تھی۔  نیچے کی طرف کھائی تھی۔  موت میرے سامنے ناچنے لگی۔  معجزاتی طور پر ٹر الے والے نے اتنی مہارت سے موڑکاٹاکہ میرے لئے بھی راستہ بن گیااور میں  بال بال بچ گیا۔  نیل کی طرف دیکھا تو وہ خراٹے مار رہا تھا۔  اُس واقعے کے بعد میری سانس میں سانس آئی اور میں گاڑی بڑی ا حتیاط سے آگے بڑھا تا گیا۔  آخرکار جب ہم شکاگو کے گرد و نواح میں داخل ہوئے تو نیل نے انگڑائی لی اور پوری آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔  میں نے اسے محفوظ منزل مقصود پر پہنچا دیا تھا۔  وہ میری ڈرائیونگ سے مطمئن تھا اور میں خوشی  سے پاگل ہو رہا تھا کہ میں نے نیل کو بمع اس کی گاڑی صحیح سلامت پہنچا دیا تھا۔  اب میں اِس قابل ہو چکا تھا کہ وہ میری ڈرائیونگ کے درمیان مزے سے سو سکے۔  میں نے اُس کا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔  وہ میری زندگی کا مسرت بھرا بہترین دن تھا۔


Popular posts from this blog