البانیہ کی باکرہ ( دوسری قسط ) The Albanian Virgin (2nd Episode) By Alice Munro


 البانیہ کی باکرہ ( دوسری قسط )

The Albanian Virgin (2nd Episode)
By
Alice Munro
پیشکش : غلام محی الدین
جب لوٹر بشپ کے صحن سے جارہی تھی تو اس وقت لمبے کالے چوغے میں ملبوس تھی جوانہوں نے اسے پہننے کودیاتھاتاکہ وہ اپنے پھٹے پرانے کپڑے چھپا سکے یااپنے جسم کی بدبو پھیلانے سے روک سکے۔قونصلر کےدفتر کے آدمی نے اس سے انگریزی میں بات کی۔اس کی ذہنی حالت اتنی دگرگوں تھی کہ وہ بات سمجھ توسکتی تھی لیکن جواب نہیں دے پارہی تھی۔اس وقت کچھ زیادہ اندھیرانہیں ہواتھا ۔وہ اب بھی گلاب کے پھولوں کی شکلیں دیکھ سکتی تھی۔ فرانسیسکن اسوقت سے جب وہ بشپ کے دروازے کے باہر بٹھاکر گیاتھا دوبارہ نظر نہیں آیا۔لوٹرنے اونچی آواز میں فرانسیسکن کو ذوٹی ذوٹی کہہ کر پکارا جس کامطلب قائد یا مالک تھا۔اس کے جواب میں اس نے ایک ہاتھ ہلتے ہوئے دیکھا۔وہ فرانسیسکن تھاجودرخت کی اوٹ میں چھپاہواتھاا۔ا س کے ہاتھ میں جلتی ہوئی لالٹین تھی۔ اس کے اس طرح کرنے سے زرد روشنی اس کے چہرے پرپڑرہی تھی جو اگرچہ بے حد افسردہ تھا لیکن ایساتاثردے رہاتھاکہ اس میں فخر اوراطمینان تھا۔اس کے بعد وہ وہاں سےچلاگیا۔اس پر لوٹر نے ٹھنڈی آہ بھری اورفرانسیسکن کوپکارتی رہی لیکن اب دیر ہوچکی تھی لیکن جب اس کی کشتی بندرگاہ پرآئی توفرانسیسکن جہازپرعرشے پرکھڑاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے سٹور کو ہلکا پھلکاپیلارنگ کیا۔زردرنگ میں نے اس لئے چناتھاکیونکہ وہ ذہنی تجسس کی علامت شمارکیاجاتا ہے۔ 1904 میں یہ سٹور میں نے اپنی بصیرت اور ماہرین کے مشورے سے منتخب کھولا تھا۔اگرچہ کتب بیچنے کے لئےجو مشورےدئیے گئے تھے وہ پالتو جانوروں، کتے، بلیوں، پرندوں، گھوڑوں وغیرہ سے متعلق لٹریچر کی کتب لکھنے سے متعلق تھےکیونکہ وکٹوریہ کے رہائشیوں کو مقبول تھیں اور ان کی فروخت زیادہ تھی لیکن اپنے ذوق کے مطابق شاعری، فکشن ، ادب ،افسانوں ، ناول ،فلسفہ، نظریاتی اورصوفی مت سے متعلق کتب رکھیں۔میں نے انہیں ایک خاص ترتیب دی جس میں جدید اور قدیم جواہرات کا امتزاج پایاجائے اور خریداروں کوپرکشش لگیں ۔ میری یہ تدبیر کارگر نہ رہی اورخریدار آخر میں تاش کی گدی یا معمولی خریداری کرکے چلے جاتے جس سے بمشکل باورچی خانہ ہی چلایاجاسکتاتھا۔سٹور میں گاہک کئی
کئی گھنٹے نہ گھستاتھا۔اگر کوئی بھولے بسرے آ بھی جاتاتوکسی غیرملکی، درسی یا اتوارسکول یالا ئبریری یا کوئی ایسی کتاب جو نانی دادی کے دور کی ہوتی جس کا عنوان اسے یادنہ ہوتاکہانی بیان کرکےاس کامطالبہ کرتاجیسے کہ یہ ایک چھوٹی بچی کے بارے میں ہے جواپنے دادا کے ساتھ آسٹریلیا سونے کی تلاش میں گئی تھی یااس چھوٹے بچے سےمتعلق تھی جوتن تنہاالاسکا چلا گیا تھایاان بحری جہازوں کی دوڑوں کے مقابلے کے بارے میں ہے جو 1840 میں منعقد ہوئے تھے۔ جب میں نفی میں جواب دیتی تو گاہک کہتاکہ 'اوہ!۔تو۔میں نے یہ سوچاکہ پوچھنے میں کیاحرج ہے۔' ایسے گاہکوں کے حشرے بشرے سے ایسا لگتاتھا کہ دولت ان سے کوسوں دور تھی۔کئی تو میرے حسن انتخاب کی تعریف کرتے تھے ۔وہ آدھا گھنٹہ سٹور دیکھتے رہتے اورآخر میں 7سینٹ کی خریداری کرکے چلے جاتے۔کئی لوگ اس بات پر مشکورہوتے تھے کہ اس ٹاؤن میں ایک شاندار کتاب گھرکااضافہ ہوگیاہے۔تاہم دکان داری چمکنے میں وقت درکار ہوتاہے۔
میں نے نزدیکی عمارت میں ایک کمرے کااپارٹمنٹ کرائے پرلےلیاجس میں ایک چھوٹا ساباورچی خانہ اورایک بستر تھاجسے تہہ کر کے دیوارکے ساتھ لٹکایاجاسکتاتھا۔میری کوئی یاری دوستی نہ تھی۔چندایک سے صرف جان پہنچان تھی۔وہ کنڈی جس کے ساتھ وہ بستر کھڑاکیاجاسکتاتھا خستہ حال تھا اورناقابل بھروسہ تھا۔اندیشہ تھا کہ وہ کسی وقت بھی مجھ پر گرکرمجھے جان سے مار سکتا تھا ۔
سٹور کی کھڑکی میں ہمیشہ کھلی رکھتی تھی تاکہ گاہکوں کواپنی طرف متوجہ کرسکوں۔مجھے اپنے حسن پرنازتھااوریقین کامل تھاکہ لوگ(خواہ خریداری کریں یانہ کریں)مجھ سے متاثرہوکرسٹور میں ضرور داخل ہوں گے۔میں بڑی گرم جوشی سے تنگ اونی جرسی اور سرخ کارڈرائی چوغہ جس پر میرے خاوند کے رومال اور انڈروئر کے نارنجی نشان پڑے ہوئے تھے پہنے ہوتی تھی۔ مندہ ہونے کی وجہ سے فارغ اوقات میں ہروقت سوئی رہتی اورٹھنڈ سے کانپتی رہتی لیکن میںمایوس نہیں تھی۔مجھے اس بات پر فخرتھاکہ میں اس دنیامیں خوبصورت گوری چمڑی اور اداؤں سے اس دنیامیں آئی ہوں ضرور لوگوں کواپنی طرف کھینچوں گی۔ اس قسم کی باتیں سوچتے ہوئے میں ڈیسک کے پیچھے بیٹھ کر کافی یاپتلاشوربہ بناتی اورچسکیاں لے کے پیتی اس عمل میں ایک گھنٹہ گزرجاتاتھا۔اس دوران اپنے ہاتھ میں کوئی کتاب پکڑتی اور بلامقصد پڑھتی رہتی۔اگر مندرجات بے ربط ہوتے تو بھی مطالعہ کرتی رہتی۔اکثراوقات تحریر دلچسپ ہواکرتی تھیں ۔کچھ تواتنی معلوماتی ہوتیں کہ میں ان سے لطف اندوز ہوتی اور گردوپیش سے بیگانہ پڑھتی رہتی۔جو میرے خوابوں میں بھی آیاکرتی تھیں۔ہر وقت سٹور میں رہنے اور کم گاہکوں کی وجہ سےاگرچہ میرارابطہ دوسروں سے بہت کم تھالیکن بازار کی تازہ ترین صورت حال سے ہمیشہ باخبررہتی تھی۔
اس ملک کے مغربی سرے پر وکٹوریاکے بارے میں بتایاجائے تویہ ایک چھوٹاساشہر ہےجس میں سیاحوں کے لئے پرکشش مقامات ہیں۔ڈبل ڈیکر بسوں،ٹیوڈر کے دور کے طرز کی دکانوں،پھولوں کے برتن اور بگھی کی سواریاں، سمندر ی نظارے ، ورزش کرتے سینئر شہری ،تاردارجھاڑیوں سے بھری چٹانوں پر ادھرادھربنے بنگلے جن پرپیچیدہ اندازمیں اگےشاہ بلوط اور اخروٹوں سے آراستہ باغات موسم بہارمیں پھل ،گلیوں میں کانٹے دارجھاڑیوں پر سفید اورسرخ پھول اگاکرتے تھے۔تیل دارپتوں والی جھاڑیاں اپنی گلابی شان وکھاتےتھے۔اس علاقے کا اس کہانی میں ذکرکیاگیاہے۔میں نے سوچا کہ یہ شہر نیوزی لینڈکے پاس ہےجوتسمانیہ ملک میں واقع ہے لیکن ان کاتہذیب وتمدن امریکی ہے جبکہ یہاں لوگ زیادہ تر سیسکیچوان یاوینی پیگ سے آکرآباد ہوئے ہیں۔ غریبوں کے اپارٹمنٹوں سے رات کو مدھرگیت سنائی دیا کرتےتھے۔ان کے گھروں سے بھنےگوشت،ابلتی سبزیوں،کھیتوں سے لائی گئی تازہ سبزیوں کی خوشبوآتی تھی۔اگروہ ٹھنڈی ہوتی توگرم اوراگرگرم ہوتی تھیں توانہیں ٹھنڈا کیاجارہاہوتاتھا۔وہاں میری سب سے زیادہ مرغوب شئے کیاتھی؟یہ وہ نہیں تھی جس کی تلاش میں سیاح آیاکرتے تھےیعنی چہل پہل اورتوانائی جواس کی تمازت کوفروغ دے سکے بلکہ ماضی کی یادوں کی تلخی کم کرنا تھی۔
کاروبار اسلئے کھولا جاتاہے کہ منافع ہو۔ روزی روٹی کمانے کے علاوہ اپنامستقبل محفوظ کیاجاسکے۔بنیادی مقصدآرام دہ ماحول میں کام کرنااور اس کاوش میں وہ ایک بلاک یا کسی گلی کاحصہ بن جاتاہے۔لوگ رفتہ رفتہ اس کےمقام کوتسلیم کرلیتے ہیں اورمیٹھی،ترش اورتلخ یادداشتیں بنناشروع ہو جاتی ہیں۔صبح کی چائے،ہلکے رنگے کاڈھیلامیلا لباس پہن کرکرسمس میں گھر سے باہر نکلنا،موسم بہار آنے پرکھڑکیاں دھوناروزمرہ معاملات میں شامل ہو جاتا ہے اوریادیں تشکیل دیتاہے۔
کمجھے ورثےمیں کچھ رقم حاصل ہوئی تھی اس لئےناگہانی حالات سے مفر مجھ میں حوصلہ پیدا ہواکہ میں یہاں آکر کتب سٹور کھولوں۔ پہلے پہل تومندارہالیکن وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتاگیا۔میری تجارت مستحکم ہوتی گئی۔بقاکی امید روز بروز بڑھنے لگی۔سکولوں میں بہترکارکردگی کی بناپرانعام واکرام میں کتب دی جانے لگیں۔لوگ باقاعدگی سے خریداری کرنے لگے۔پبلشر زیادہ سے زیادہ مراعات دینے لگے۔واقفیتیں بڑھنے لگیں۔کئی تو دوستوں کی طرح گپ شپ کرنے لگے۔میں ان کے ساتھ مصروف رہنے لگی لیکن میں ان کے ناموں سے واقف نہیں تھی۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایاہے میں کہ حالات سے آنکھیں چراتے ہوئےمیں وکٹوریا آگئی تھی۔ میں اپنے ملک کینیڈا کے دوسرے کونے پر اس لئے آئی تھی کہ وہ لندن اونٹوریو سے دوربہت دور تھااورمیں وہاں سے بھاگناچاہتی تھی۔بھاگنے کی وجہ میری بیوفائی تھی۔لندن میں میرے خاوندڈونلڈ نےاضافی آمدن کے لئے اپنے گھرکا تہہ خانہ ایک نوجوان جوڑے نیلسن اورسلوییا کوکرائے پردےدیاتھا۔ وہ انگریزی ادب کا گریجویٹ تھااور سیلوییا ایک نرس تھی۔میرا خاوند مجھ سے آٹھ سال بڑاتھا۔وہ ' ِجلدی امراض' کاڈاکٹرتھااور رات کوہسپتال ڈیوٹی پر جاتاتھا۔
میں انگریزی ادب پر 'شیلی کی وفات پر اس کے ادب 'پرمقالہ لکھ رہی تھی۔میری اپنے خاوند سے اس سے پہلی ملاقات اسوقت ہوئی جب میں گردن پر خارش کےعلاج کے لئےاس کے پاس گئی تھی۔ڈونلڈ دراز قد تھا۔اسکے چہرے پرچھائیاں تھیں اور شرمیلا تھا۔وہ بظاہرسمارٹ دکھائی دیتاتھالیکن حقیقت میں وہ بے حدشرمیلااورسادہ تھا۔وہ قابل ڈاکٹر تھا۔اس کے ہاتھ میں شفاتھی۔وہ مریضوں کی کیفیت سمجھنے میں قدرت رکھتاتھا۔وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھاکہ آس ونراش اور غمی خوشی میں چہرے کی کیفیت جسم پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ وہ رکھ رکھاؤ والا نرم دل تھا۔اس نے صحیح شناخت کری اورمیری خارش کو میرا ذہنی تناؤ تشخیص قرار دیا۔اس نے مجھے یقین دلایاکہ وہ مجھے اس کیفیت سے نکالے گااوروہ اس میں پوری طرح کامیاب رہا۔
ہم نیلسن اور سلوییا کو اپنے گھرگراؤنڈ فلور پر دعوت دیتے اور گپ شپ کرتے تھے۔ سلوییا نے دوران گفتگو یہ بتایاکہ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے آئے تھے۔نیلسن اپنے سکول اورپورے گاؤں میں لائق ترین شخص تھا۔جب وہ نیلسن کی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہوتی تو وہ سپاٹ دار چہرے سے اس کی طرف دیکھ رہاہوتاتھا۔اس کے چہرے کے تاثرات ایسے ہوتے تھے جیسے وہ اس کی تعریف نہ کررہی ہوبلکہ اس پرطنزکررہی ہو۔میری اس میںروزبروز دلچسی اس لئے بڑھتی گئی کہ ہمارا ادبی ذوق ملتاتھا۔
سلویا نرس تھی۔ اس کی ڈیوٹی رات کو ہوتی تھی ۔ اس کے بعد نیلسن کی یہ عادت بن گئی کہ وہ ہمارے ساتھ ہی کھاناکھایاکرتا۔ہم اسکی تہذیب ، آداب واطواراور پروقار شخصیت سے مرعوب تھے ۔اس کے پسندیدہ کھانوں میں چاول، نوڈلز،بینگن ، مچھلی چینی بڑی مرچیں مرغوب تھیں۔اسے ایوا کیڈو اور کچھ دوسری سبزیاں پسند نہیں تھیں کیونکہ وہ ان کے گاؤں میں عام نہیں تھیں۔اس لئے وہ اسے پسند نہیں کرتا تھا۔
نیلسن دکھنے میں اپنی عمر سے زیادہ کا لگتا تھا۔قد ناٹا اورکاٹھی مضبوط تھی۔اس کاچہرہ بیدوالی رنگت کاتھا۔بہت کم مسکراتاتھالیکن سیرت سے وہ کسی طور نالائق طالب علم نہیں لگتا تھاجس کے چہرے پر ہروقت ناگواری ٹپکتی تھی۔حلئے سے وہ ہاکی کاکوچ اورغیرتعلیم یافتہ چڑچڑابدزبان فورمین لگتاتھا۔لیکن وہ بستر میں وہ شرمیلانہیں تھاجہاں میں نے اسے ہمیشہ تیار اورمستعد پایا۔میں نے کسی سیانے سے سن رکھاتھاکہ معاشقے کامزہ تو شادی کے بعد ہی آتاہے۔شادی سے باہرسمبندھ سے پوری طرح لطف اندوز ہواجاسکتا ہے۔میرا تعلق جب اس سے قائم ہواتوتمام وقت اس کے سحر میں جکڑی رہی ۔اس دوران ہمارے جذبات میں وحشت اور دیوانگی چھائی رہی ۔چمکداردھوکے نے جکڑے رکھا۔ایک دن ایساہواکہ نیلسن میرے عقب میں آکربولا کہ اب ہمیں تعلقات ختم کرنے ہوں گے۔ہمیں اب اک دوجے کو چھوڑناہوگا۔میں اس کی بات سے یہ اخذکیاکہ وہ ہمارے تہہ خانے سے جانے کاعندیہ دے رہاتھا۔ شائد اسےکوئی اور مناسب جگہ مل گئی ہواور ہماراگھر چھوڑنے کی اجازت مانگ رہاتھا لیکن اس کامقصد ہمارے ناجائز تعلقات کوختم کرنے کی اطلاع دینا تھا۔
شیلی کے بعد از مرگ ادب پر ان ناولوں کو کھنگال رہی تھی جن سےبہت کم لوگ آشنا تھے۔اس کے ان ناولوں میں اس لئے زیادہ دلچسپی لے رہی تھی کیونکہ شیلی کی زندگی کے اس دور میں ٹھہراؤ آگیاتھا۔اسےصدمات کم جھیلنے پڑے تھے اور اس نے اپنے بیٹے کی نازونعم سے پرورش شروع کر دی تھی۔ فینی ایملی جو شیلی کی پہلی بیوی تھی اوراس کی سوتیلی بہن تھی جو شیلی کے عشق میں مبتلا تھی اورمیری کی ایک اور سوتیلی بہن جس کانام ج
ڈونلڈاور شیلی کے ساتھ کم وبیش اکثر ملاقاتیں میری والدہ کی قبر پر ہواکرتی تھیں جہاں ہیرییٹ ٹب مین اور فینی نے خودکشی کی تھی۔ور جین کاؤنٹ نے میرانام کلیرا اپنالیاتھا۔اس کا برائن سے ایک ناجائزبچہ بھی تھا ، ہمارے ساتھ موجود ہوتی تھی۔ان ملاقاتوں کے بارے میں میں نے نیلسن سے کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ میں جب بھی اس کے ساتھ ہوتی ہم باتوں کے علاوہ سب کچھ کر کےہر طرح سے لطف اندوزہوتےتھے۔میں اس سے گناہ والی محبت میں اپنے خاوند سے دھوکہ اور ڈرامہ بازی کررہی تھی۔نیلسن انیسویں صدی کارومان پرور عاشق نہیں تھا۔اس کامقصد سفلی جذبات کی تسکین تک ہی محدود تھا۔
سلوییا نےہیریٹ کے سیاہ فام غلاموں کی طرح کا سلوک نیلسن سے نہیں کیاتھاجس نے انہیں آزاد کر دیاتھا۔جب اسے میرے اور نیلسن کے ناجائز تعلقات کاعلم ہوا تو وہ غصے سے پاگل ہوگئی۔اس نے مجھے دوغلی کہا۔یہ راز اس وقت آشکار کیاگیا جب ہم چاروں اپنی بیٹھک میں بیٹھے تھے۔ڈونلڈ اپنے پائپ میں تمباکو بھرنے اورسلگانے کے لئے کمرے سے باہر نکلاہواتھا۔یہ اس کی پرانی عادت تھی اور مجھے اس سے کوفت ہوتی تھی۔ ہمارے ناجائزتعلقات ظاہرہونے پر وہ بے حدپریشان ہوگیا۔اس نے اندر آکر کچھ کتابیں ، میکلین رسالے کی تازہ ترین کاپی اور شیونگ سامان بریف کیس میں ڈالا۔اسے اور کچھ نہ سجھائی دیا تو اپنی بیوہ خوبرو نوجوان سیکرٹری کے گھر چلاگیاتاکہ آئندہ کالائحہ عمل طے کر سکے ۔
سیلویا گیارہ بجے کام پر ہوتی تھی۔ان کے پاس گاڑی نہیں تھی ۔نیلسن اسے پیدل ہی ہسپتال چھوڑنے جایاکرتاتھا۔ نیلسن نے بتایا کہ بجائے کسی اجنبی یابے اعتماد شخص کےوہ خود ہی اسے چھوڑآیاکرتاتھا۔اس کو چھوڑنےکے بعد نیلسن اور میں دونوں گھر میں اکیلے رہ جاتے اور عیش ونشاط کی محفل سجاتے۔اب اسے مجھے چھوڑنے کا دکھ تو تھالیکن اس کے چہرے سے سکون ٹپک رہاتھا ۔اس مختصرعرصے کے رومانس سے محبت کی لہر توابھر آتی تھی جس کااظہارالفاظ میں نہیں بیان کیاجاسکتا۔
نیلسن اور میں بستر پر منصوبے بناتےاور بھرپور محبت کرتے ۔وہ رات کو میرے ساتھ ہی سوجایاکرتا اوراپنی بیوی اورمیرے میاں کے آنے سے پہلے تہہ خانے چلاجاتا۔بلاناغہ ایساہوتااورہم اس کے عادی ہوگئے۔راز اخفاہونے کے بعدمیں بےحدشرمندہ تھی۔ میں نے ٹیکسی منگوائی اور بس سے ٹورونٹو آگئی اور وہاں سے میں نے یہ مناسب خیال کیا کہ ملک کے دوسرے کونے برٹش کولمبیا چلی جاؤں جہاں مجھے کوئی نہیں جانتاتھا۔ان دنوں ٹرین پر سفرسستاتھا۔میں پہلے وینکوور گئی اورپھر ایک قصبے وکٹوریا بسیرا کرلیا۔وہ بہت خوبصورت علاقہ تھا۔ سنہری اور بادامی انگوروں کی بیلوں سے بھراتھا۔کانٹے دار جھاڑیاں تھیں۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑتھے۔یہ دسمبر کا مہینہ تھا ۔لندن میں منفی بیس پچیس ٹمپریچر ہوتاتھاجبکہ یہاں موسم مرطوب رہتا تھا۔اپنی ذلت کے احساس سے میرے ذہن میں طوفان برپاتھا۔اسلئے کرسمس قریب ہونے کے باوجوداس کااحساس ختم ہوگیاتھا۔بارش چھاجوں پڑرہی تھی۔میرے منہ سے پیسٹ نہ کرنے سے بدبوآرہی تھی۔میرے پاؤں شل ہوچکے تھے۔مجھے قبض ہوگئی تھی۔میرا جذبہ اور امنگیں ختم ہوچکی تھیں۔میں حیران تھی کہ اتنے کم عرصے میں جذبات اتنے متضاد بھی ہوسکتے تھے اور زندگی اتنی بیکار ہو سکتی تھی۔مجھے اس وقت ایک کپ کافی اورنیند کے لئے جگہ چاہیئے تھی۔اس وقت اگرنیلسن بھی میرے قریب بیٹھاہوتا تووہ بھی ایک اجنبی لگتا۔مجھ پر ویرانی اور بے کلی چھائی تھی۔نیلسن اب میرے لئے بالکل اہم نہ تھالیکن میں اس کے جسم کے لمس کو نہیں بھولی تھی جو ذہن کے کونے کھدرے سے ذہن میں آجاتاتھا۔ ڈونلڈ کے لئے گہری ہمدردی تھی۔ میں نے اسے دھوکہ دیاتھا۔وہ مجھ سے ہمیشہ محبت، شفقت اور مہربانی سے پیش آیاکرتا تھا۔مجھے دونوں ہی پسندتھے۔میں ان میں دونوں کی خصوصیات دیکھنا چاہتی تھی۔اگر یہ اوصاف ایک میں پائے جاتے تو ہی میں خوش رہ سکتی تھی۔کسی ایک کا انتخاب مشکل تھا۔ میں نے دونوں کوساتھ رکھااور آگے بھی یہی چاہتی تھی۔
وکٹوریا میں میں نے دکان شروع کی تو کئی لوگ باقاعدگی سے آنے لگے۔ ان میں ادھیڑ عمر خواتین بھی تھیں۔ ان میں ایک تو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھی لیکن اس کیا مشغلہ فلسفہ تھا۔ایک بیوروکریٹ جومجھ سے بہت زیادہ کتب خریدتاتھاجو شاہکار اوربہت مہنگی ہوتی تھیں ۔وہ فحش نگاری پرکام کررہاتھا جس کے بارے میں اس وقت زیادہ نہیں جانتی تھی۔ایک نوٹری پبلک جوجانسن سٹریٹ کے سامنےاپنے دفترکے پیچھے ہی رہتاتھا،نے مجھے بتایا کہ مضافات میں وہ خود کوغیرمحفوظ سمجھتا تھااوراسے خدشہ تھاکہ اسے کسی رات زخمی کردیا جائے گا۔
ایک خاتون لڑکھڑاتے ہوئےسٹور میں بے مقصد منڈلاتی رہتی جس کانام مجھے بعد میں معلوم ہواکہ شارلٹ تھا کووہ نوٹری پبلک گندگی کاکیڑاکہاکرتاتھا۔تمام گاہک ایک دوسرے سے لاتعلق رہتے تھے۔میں نے ان کے مابین گفتگو کروانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وہ کارگر ثابت نہ ہوئی ۔
یہ بات سچ تھی کہ ایک پچاس سالہ بوڑھا مصور جسکے ہاتھ بڑے اور بھاری تھےاپنے ابروؤں پر کالی سیاہی لگایاکرتاتھاجو اس کے چہرے پر عجیب لگتی تھی۔وہ سٹور میں آیا کرتا ،ادھر ادھر کتب کا جائزہ لیتا اور بے نیازی سے چلا جاتا۔اسکے نکوٹین سے بھرے زنگ آلود دانت تھےاور اس کی گالیں پچکی ہوئی تھیں ۔اس نے مجھ سے کبھی بات نہ کی تھی۔ بے رخی سے پیش آتا۔ اس مصورکے بارےمیں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے تبصرہ کیا کہ اس کی سوچ اور گفتگو سطحی ہوتی تھی۔ میں نے اس کی رائے کو اپنے تک ہی محدود رکھا ۔ اس مصور کے نام تک کا بھی مجھے علم نہ تھا کے ایک دن سٹور بند ہونے سے پہلے ہیوی موٹر بائیک پرآیااور کہاکہ اس کے ساتھ وکٹوریا کے نواحی علاقے میں خوبصورت نظارے کے لئے جاؤں۔ میں نے اس کاکہامان لیا۔ وہ مجھے ایک ایسی جگہ پر لےگیاجہاں خوبصورت پھول تھےاور آس پاس کیبن تھے۔ وہ ایک خالی کیبن میں لے گیااورہم نے بھرپور محبت کی۔ اب ایسا ہونے لگا کہ وہ مجھے اکثروہاں لے جاتااور میری سنسان زندگی میں تازکی بھر دی۔وہ مستقل مزاج نہیں تھااور یکایک غائب ہوگیا۔
سٹور میں شارلٹ اوراس کامیاں جوردھی اکثر آیاکرتےتھے ۔ بعد میں علم ہواکہ وہ میاں بیوی تھے۔شارلٹ بھاری بھرکم وزنی بد وضع ،سرخ وسپیدچہرے والی تیز طرازعورت تھی۔اس کی آنکھیں چمکدار تھیں ۔اس کےسفیداورلمبے بال نوجوان لڑکیوں کی طرح کندھوں پرلٹکے رہتے تھے۔موسم میں حدت آچکی تھی۔اس دن اس نے سیاہ سرمئی مخملی بلاآستین چھوٹی چولی زیب تن کی ہوئی تھی ۔ اس کے نیچے ڈھیلی شمیز تھی ۔ پاؤں میں اونی موزے تھےجو اس کے سینڈلوں سے صاف نظرآرہےتھے۔ ایسالباس اداکارائیں سٹیج پرپہنتی تھیں۔ گلے میں کچھ اس طرح کے رنگ برنگےپتلے بھاری موتیوں کی مالاتھی ۔بظاہر ایسالگتاتھاجیسے اس نے زرہ بکترپہن رکھی ہو۔اس کے ساتھ جوردھی بھی تھا۔ایک خاتون جواس کی پڑوسن تھی نے انہیں دیکھ کر مجھے ہولے سے کہاکہ ان کی طرف خصوصی دھیان دو۔ان کی شہرت اچھی نہیں ۔اس نے ایک کتاب اٹھائی اورکہاکہ ہنری ملربہت عمدہ ادیب ہے۔ میں نے جواباًکہاکہ میں بھی اس کی مداح ہوں۔میں اس سے اگرچہ کبھی نہیں ملی لیکن اس کی کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔اس کے بعد وہ دوسری میز کی طرف مڑگئی جہاں نئی کتب کا ذخیرہ سجایاگیاتھا۔وہ اسے دیکھنے لگی۔ اس کے میاں نے خاکی مخملی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ جس کی بناوٹ ایسی تھی جیسے ظالم پادری کی انگریزی فلم میں دکھائی جاتی ہے۔اس کاچہرہ لمبوترالیکن پیلاتھا،آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں۔اس کے چہرے پردوردورتک خوبصورتی نہیں پائی جاتی تھی۔اس نے جومیلے کچیلےکپڑے پہن رکھے تھے ایسا لگتاتھاکہ کسی کی اترن ہو۔وہ چپکے سے تمام سٹور کاجائزہ لے رہاتھا۔وہ اکثروبیشتر سڑک پر منڈلاتارہتاتھا۔میراخیال تھاکہ وہ وقت بسری کے لئے یہاں آتاتھایا یہ دیکھنے کے لئے آتاتھاکہ سٹورمیں ذخیرہ کتب کیساتھایامیری چوائس کیسی تھی وغیرہ۔ شکل و صورت سے وہ نشئی یامنشیات فروش نہیں دکھائی دیتاتھا شارلٹ نے اسے سیٹی بجائی تووہ ایک وفادار کتے یاگدھے کی طرح چپکے سے اس کے پاس آگیا۔وہ شہرکے بیکار سینئر شہریوں کی طرح تھاجواپناوقت ایک محدود دائرے میں گزارتے ہیں۔شارلٹ نے ایک کتاب چنی اور اس کی ادائیگی کرتے وقت کہاکہ وہ اس پرسیلز ٹیکس ادا نہیں کرے گی۔اس کے نزدیک حکومت لوگوں کے ساتھ ظلم کررہی تھی۔وہ اس قانون کی خلاف ورزی کرے گی خواہ اس کے لئے اسے جیل جاناپڑے۔میں نے اس کی بات مان لیکن میں نے اسے نہیں بتایا کہ میں نےاس سے ٹیکس وصول نہیں کیا۔میں اس طرح کی رعائت دیگر خریداروں کوبھی دیتی تھی۔جب وہ چلے گئے تومیں نے نوٹری بیک سے ان کے بارے میں پوچھاتوکہاکہ وہ ان کے بارے میں حتمی طورپرتو نہیں بتاسکتا۔حلئے بشرے سے تومشکوک تھے ۔شکل سے وہ دہشت گرد،تخریب کار بھی ہوسکتے تھے۔ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی وین میں شہربھر میں مارے مارے پھرتے تھے۔
میرے معاملات بہت بگڑے ہوئے تھے جن کے سلجھنے کادوردورتک امکان نہ تھا۔میں نے ڈونلڈکولکھاکہ معاملات سدھارنے میں میں کوشش کرنے والی کون ہوتی ہوں؟میں اسےباقاعدگی سے لکھتی رہی ۔اپنے سٹوراور شہرکے بارے میں جہاں تک ہوسکااپنے جذبات واحساسات کے بارے میں آگاہ کرتی رہی ۔وہ اپنی سیکرٹری ہیلن کے ساتھ ہی رہ رہاتھا۔ اس دوران میں نےنیلسن کوبھی لکھا ۔ مجھے اس بات کاعلم نہیں تھاکہ وہ اکیلارہ رہاتھایاسیلوییا کے ساتھ۔ ہوسکتاہےکہ سلوییا نے اس سے صلح کرلی ہولیکن اس کا پہلا رد عمل جو اس نے رنگے ہاتھوں پکڑنے پر نیلسن کودیاتھا،بہت سخت تھااور وہ اس کی بے وفائی کو ناقابل معافی جرم سمجھتی تھی۔اسکا ایڈریس تبدیل ہوچکا تھاجومیں نے ٹیلیفون ڈائرکٹری میں تلاش کرلیا۔میرے خطوط کااس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ میں نے اب اسے رجسٹرڈ خط لکھا۔اس نے اس کابھی جواب نہ دیا۔لیکن ڈونلڈ نے کچھ عرصہ بعد اسکے خطوط کے جواب دیناشروع کر دیئے تھےجو سرسری اور عام نوعیت کےہوتے تھے۔ وہ روزمرہ معاملات پر لکھاکرتاتھا۔وہ اپنی ذات اور کلینک کے بارے میں کچھ نہیں لکھتاتھا ۔
ایک بار مجھے ایک رقعہ ملا جس میں مجھے سہ پہر کادعوت نامہ دیاگیا۔اس پر شارلٹ کے دستخط تھےجس کے الفاظ رسمی تھے۔۔۔ مسٹر جوردھی اور میں خوش ہوں گے اگر۔۔۔۔۔۔'اس قسم کا دعوت نامہ مجھےوکٹوریا میں پہلی بار موصول ہواتھا۔اسے پاکر بیک وقت پریشان ، حیران اور خوش ہوئی۔شارلٹ نے اس دعوت نامے کےذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ عام گاہکوں کی طرح نہیں بلکہ نجی سطح پربھی تعلقات قائم کرناچاہتی تھی۔وہ ایک بوسیدہ سی عمارت میں رہتی تھی ۔اس کاکمرہ کھولی نماتھا۔ دیواروں پر رنگدار کاغذ چپکائے گئے تھے جو آسانی سے آگ پکڑسکتے تھے۔ چھت ٹوٹی پھوٹی تھی جسے دیکھ کر ایسالگتاتھاکہ وہ بیت الخلا ہولیکن وہ بدبو دار نہیں تھی۔اس کا پورا کمرہ کتابوں سے بھراپڑاتھا۔ان کے انباردر و دیوار اور کھڑکیوں پرترتیب سے لگائے گئے تھےجن کی اونچائی چھت تک تھی۔ان کو چادروں سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی تھی۔کھڑکیوں پربیدکے پردے تھے ۔
ڈارلنگ!مہربانی۔شکریہ۔شارلٹ نے مجھے دیکھ کرکہا۔مجھے شک تھاکہ تم بہت مصروف رہتی ہو۔تمہارے پاس بوڑھے جوڑے کی نسبت بہت زیادہ کام ہوتے ہیں شائد تم نہ آؤ۔
کہاں بیٹھوں؟ میں نے پوچھا۔
شارلٹ نے کرسی پرسے رسالوں کاڈھیر اٹھاکر کہا۔یہ کرسی آرام دہ ہے۔یہاں بیٹھ جاؤ۔میں اس پر براجمان ہوئی تووہ طرح طرح کی آوازیں نکالتی تھی۔پہلوبدلنے پر مختلف سریں نکلتی تھیں۔مسٹرجوردھی نے میٹھے مشروب کاجام بنایااورایک لمبے گلاس میں پیش کیا۔
وہ گلاس ایساتھاجسے مدتوں دھویانہیں گیاتھا۔اس پر مٹی پڑی تھی۔ان دونوں نے پلاسٹک کے چھوٹے جام میں مشروب پیا۔وہ کھولی اتنی تنگ تھی کہ برتن رکھنے کی جگہ تک نہ تھی۔خوراک اور پلیٹیں ایک دوسرے پر چڑھی تھیں۔ایک ڈونگے میں بھنے مرغ کی خوشبوآرہی تھی۔ایک پلیٹ میں کھیرے اور ایک میں دہی تھی۔ شارلٹ ایک بازووالی کرسی پراور جوردھی فرش پر بیٹھ گیا۔ شارلٹ نے اس وقت پاجامہ پہناہواتھااوربغیرانگیا تنگ قمیص پہنی تھی جواس کے جسم سے بری طرح چمٹی ہوئی تھی۔اسکے کڑے ہر حرکت کے ساتھ بجتے تھے۔اس نے اپنے پاؤں کے ناخن اپنی قمیص کے رنگ کے ساتھ پالش کئے ہوئے تھے۔جوردھی نے پاجامے پرگہرےسرخ رنگ کا چوغہ پہناہواتھا۔سر پر اونی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ کھیروں کے بعد مرغ پیش کیاگیا۔اس کے بعد چاول اور ڈبل روٹی دی گئی۔ مجھے انہوں نے چھری کانٹا دیاجبکہ انہوں نے ہاتھ سے کھایا کیونکہ ان کے پاس ایک ہی چھری کانٹاتھا۔سالوں بعد بھی یہ غیررسمی ڈنر میرے ذہن میں گھومتارہا۔انہوں نے اپنے وسائل سے بہت عمدہ انتظام کیاتھا۔میں نے اس دعوت کو نجی ہی رہنےدیااوراسے اپنی تجارت میں شامل نہ کیاکیونکہ ان کامقصد مجھ سے اپنی جمع کردہ کتب بیچ کرمالی مفاد حاصل کرناتھا۔
ڈنرٹھیک طریقے سے ہوگیااورسب اچھارہا۔وقت دلچسپی سے گزر گیا۔میں نے امید ظاہر کی کہ ہمیں ذاتی تجلیات کے انکشاف پرتوجہ دینی چاہئیے لیکن پرکھ کے بعدہی ان پراعتبارکرناچاہیئے۔میں نے تصدیق کے بغیرنیلسن کے بارے میں سلویا کی معلومات پر بلاسوچے سمجھے اعتبارکرلیاتھا۔ میں نیلسن کی خوبیوں کے قصے سننے میں کس قدر مشتاق تھی۔
میں اپنےخاوند ڈونلڈ اور عاشق نیلسن سےتعلقات کے مستقبل بعیدکے بارے میں سوچ رہی تھی کہ وقت کیادکھائے گا۔میں نے پکڑے جانے سے پہلے کئی بار سوچاکہ نیلسن سے اپنے ناجائز تعلق سے اپنے خاوندکو آگاہ کروں لیکن مجھے اندازہ تھاکہ اس انکشاف سے خانگی تعلقات میں تباہی آجائے گی۔ ڈونلڈمیرے انکشاف سے نہ صرف حیران ہوگااورطیش میں آجائے گااور اس خبر کوہضم کرلے گا۔اگر اس بات کا علم میرے مرحوم والدین کو ہوجاتاتووہ مجھےعاق کردیتے۔نیلسن بھی ہمارے رشتےپرمسلسل خاموش تھا۔اس نے بھی ہمارے ناجائز رشتے کا کسی کو نہیں بتایاتھا۔میرے خطوط کے جواب میں جو میں نے نیلسن کو لکھے تھے وہ واپس آگئے تھےپچھلے ہفتے بغیر وصول کئےواپس آگئے تھےجس میں بتایاگیاتھا کہ وہاں کوئی نہیں رہتا۔
شارلٹ کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہ آئی۔ایسی بات کرنےکاکوئی موقعہ ہی نہیں تھاجس میں میری سابقہ زندگی کے بارے میں جانا جائے۔مرغی کے بعد شراب کاایک گلاس بھرکرپیش کیاگیا۔باقی برتن ہٹالئے گئے۔اس کے بعدچھوٹے کپوں میں کڑک کافی پیش کی گئی۔اب اس کی کھولی میں تاریکی چھائی جانےلگی تھی توجوردھی نے دوموم بتیاں جلائیں۔مجھے ایک موم بتی تھمائی تاکہ میں بیت الخلاجاسکوں۔شارلٹ نے کہاکہ بجلی نہیں آرہی تھی کیونکہ کچھ مرمتیں چل رہی تھیں ۔اس نے یہ بات بتانے میں شرمندگی محسوس کی کہ بل ادانہ کرنے سے بجلی کاٹ دی گئی تھی۔خوش قسمتی سے ان کے پاس تیل والاچولہابھی تھاجس پر اس نے کھانابنالیاتھا۔وہ خوش تھی کہ دعوت اچھے طریقے سے ہوگئی لیکن اسے اس بات کارنج تھاکہ وہ موسیقی نہ چلاسکی۔ڈونلڈ موسیقی کاشوقین تھاوہ روک اینڈرول کے گانے پسند کرتا تھااور ہلکے نشے میں انہیں سنتااور گنگنایاکرتاتھا۔شارلٹ بھی ایسے گانے پسندکرتی تھی۔میں یہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ شارلٹ کو نوجوانوں والی موسیقی کیوں پسند تھی۔شائد اس لئے کہ وہ ان چیزوں کو پسندکرتی جو مقبول ہوتے۔
دعوت کے دوران جوردھی مجھے مختلف کتب دکھاتارہا۔یہ سلسلہ کیسے شروع ہواجب میرے منہ سے ایک فقرہ نکلاکہ مجھے ایسی کتابیں پسند ہیں جن کی جلد چمڑے کی ہو۔اس نے ایسی کتب دکھانی شروع کردیں جوخوبصورت جلدوالی تھیں۔پہلے پہل تومیں نے ان کی بہت تعریف کی لیکن میں ان کتب کے متن کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی لیکن جب میرے کانوں میں روپے پیسے اور فروخت کی بھنک پڑی تو میں محتاط ہوگئی اور سپاٹ دار لہجے میں کہاکہ میں ایسی کتب کاکاروبارنہیں کرتی کیونکہ سیکنڈہینڈکتب کی خرید وفروخت ایک الگ شعبہ ہے۔جوردھی نے زور سے ایسے سر ہلایا جیسے میں ان کتب کی افادیت سے ناواقف ہوں اور زبردست اصرارکرنے لگاکہ میں انہیں خریدوں اور انہیں کم قیمت پر بیچنے کی پیشکش کی۔وہ شائد یہ سمجھ رہاتھاکہ میں اس سے سودا بازی کررہی تھی یاوہ یہ بتانے جارہاتھاکہ اس نے یہ کتاب کتنے میں خریدی اور کتنے میں بیچی جاسکتی تھی نہ یہ کہ میں اسے کتنے میں خریدوں۔میں ہر پیشکش پرمنع کرتی رہی۔میں کہتی رہی کہ مجھے افسوس ہے کہ یہ کتب میرے دائرہ کار سے باہر تھیں۔ میں اس قابل نہیں کہ میں ان کی اہمیت معلوم کرسکوں۔
اگرہم غیرملک رہ رہے ہوتےتوشائد جوردھی کی اقتصادی مددکرسکتی شارلٹ نے کہا۔علاوہ ازیں ہمارے ملک میں اصلاحی فلمیں بن رہی ہوتیں تو میں ایکسٹرااداکارہ کے طور پرکام کرکے پیسے بنالیتی۔ایسی فلموں کے لئےجوردھی کاچہرہ اداکاری کے لئے بہت مناسب تھا۔وہ گفتگو کےدوران اسےشفقت اور محبت سے دیکھتی رہی۔جوردھی کامسلسل اصراربڑھتاگیاتومجھے ناگواری محسوس ہوئی اور اس کی باتوں کو سرکی جنبش سے منع کرتی رہی۔میں نے اسے مشورہ دیاکہ تمہیں ان کتب کو نوادرات والی دکان پرلےجاناچاہیئے۔یہ کتب میری بساط سے باہر ہیں۔جوردھی یہ سن کرکراہا اور منت ترلے کرنے لگا۔اس کارویہ اب خوشدلانہ نہیں تھابلکہ ایسے بول رہا تھاجیساکہ وہ مجھے حکم دے رہاتھاکہ میں انہیں لازماً خریدوں ۔ ایسامحسوس ہورہاتھاکہ اس کا لہجہ اب ترش ، تلخ اور نفرت انگیز ہونے جارہاتھا۔وہ مکمل طورپرناخوش لگ رہاتھا۔میں نے بمشکل اپنی جان چھڑائی ۔ واپس گھر پہنچی تومیراسرشدیددردکررہاتھا۔مجھے خرید و فروخت کے اصرار پر شدیدغصہ تھاکہ جوردھی نے ایسی بات مجھ سے کی ہی کیوں۔
اس وقت نیلسن اور ڈونلڈ مزید یاد آنے لگے جب شارلٹ کے چہرے کی وہ مسکراہٹ نمودار ہوئی جب میں نے اس سے رخصت لی تھی ۔شارلٹ نے جوردھی اور میری بحث پرعجیب ساردعمل پیش کیاتھا۔ میں اس بحث کومکمل طورپر نظراندازکرناچاہتی تھی ۔ میں ان کی کھولی کی سیڑھیاں اترکرسڑک پرآئی تواس وقت میرے ذہن میں شارلٹ کی پلیٹوں،غیرشائستہ خارش زدہ وحشی بوڑھے جوردھی کےسوکھےسڑےبدن اور اس کی گفتگو کے ڈھیر میں گندگی نظر آئی۔اس واقعے کے ایک یادودن بعد ڈونلڈ کی طرف سے مجھے ایک خط موصول ہوا۔اس نے مجھ سے طلاق کامطالبہ کیاتھاتاکہ وہ اپنی سیکرٹری ہیلن سے شادی کرسکے۔
میری دکانداری فروغ پانے لگی تومیں نےایک جزوقتی ملازمہ رکھ لی تاکہ میں بنک اور دیگرروزمرہ معاملات سلجھاسکوں۔وہ کالج کی طالبہ تھی(یہ واقعہ اس کے بیمار ہونے سے پہلے کاتھا)۔ شارلٹ نے جب اسےپہلی باردیکھاتووہ اس ڈیسک پر جس پر ڈسکاؤنٹ والی کتب سجائی گئی تھیں پر گئی۔اسے دیکھ کر شارلٹ بولی کہ اس کی بجائے اسےیا اسکے میاں کو نوکر رکھ لیناچاہیئے تھا۔کلرک بڑی متانت سے مسکرائی لیکن اس کی بات کاجواب نہ دیا۔ اس نے اس لڑکی کےبارے کہاکہ اسے فروخت کرنے کاگر نہیں آتااور وہ گاہکوں کوبھگادے گی۔جب شارلٹ سٹور سے چلی گئی تو کلرک بولی کہ مجھے اس عورت کے بارے میں ایک بات بتانی ہے ۔
وہ کیا ہے؟
یہ حصہ کچھ خوشگوار نہیں اوردلچسپی کاباعث نہیں ہے۔
تمہاری اس سے کیامراد ہے؟میں نے پوچھا
وہ چور ہے۔کلرک نے بتایا۔اس دن کے بعد شارلٹ بیمار پڑ گئی تھی اور میں ہسپتال میں اس کی کہانی سننے بیٹھ گئی تھی۔اب اس کی
کہانی کاآخری حصہ تھا ۔اس نے بتایا کہ اس نے کتاب میں کہانی کی ترتیب کسطرح سے کرنی ہے۔ اس نے یہ خاکہ اپنے ذہن میں بٹھایاتھالیکن اس نے مجھے ظاہر نہیں کیاتھا۔اس وقت میں نوٹری پبلک کے بارے میں بھی سوچ رہی تھی جوایک رات پہلے حادثے کاشکار ہواتھا۔اس کے سرپرکسی نے دھاردار شئے سے ضرب لگائی تھی۔وہ مرا تو نہیں تھا لیکن سخت زخمی ہواتھا،اور اس حادثے کی بدولت اندھاہوسکتاتھا۔وہ یاتواپنے دفترمیں اس وقت جوجانسن سٹریٹ پراپنے دفتر میں ڈاکے کی واردات پرسوچ رہاتھایاوہ انتقام اورطیش میں جو اسکی زندگی کے کسی موڑ سے جڑاہواتھا کے بارے میں فیصلہ کررہاتھا۔میلوڈرامہ اور تذبذب نے اس مقام کومعمول سے زیادہ کامعاملہ سمجھ لیاتھاجس کے تانے بانےمیں نہیں جانتی تھی۔اس لئے اسکی باتیں میری سمجھ سے بالاترتھیں۔
تمہاری یہ کہانی جو تم نے مجھے سنائی ہے،سراسر تخیلاتی ہے۔میں نے اسے کہا۔
تخیلاتی کہانی؟شارلٹ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔اس کا منہ اس اندازمیں کھل گیاجیسے ایک ننھابچہ دودھ کے انتظار میں پینے کے لئے کھولتاہے۔ شارلٹ کی آنکھیں مجھ پرگڑی ہوئی تھیں اور بچگانہ ،چمکدار اور سب سے اہم یہ کہ اسکی نیلی آنکھیں اپنا رنگ کھورہی تھیں ۔اس کی ملاحت اب نفرت میں بدل رہی تھی۔۔۔بالکل ایسے جیسے کہ لوگ آئینے میں دکھاتے ہیں لیکن ایک دوسرےکودوبدو نہیں دکھاتےکیونکہ وہ سوچیں جو میرے ذہن میں موجود تھیں۔وہ میرےسامنے ایسے واضح ہوئیں۔ان میں ایسی ناقابل گفتگو کی جاتی تھی جس سے بےزاری جھلکتی تھی۔شارلٹ کی زندگی کے دن گنے جاچکےتھے۔اس نے اپنامنہ دوسری طرف کرلیااور اپنے مڑے ہوئےپلاسٹک کےسٹرا سےپانی پینے لگی۔میں نے اسے سہارادیاتاکہ وہ آسانی سے پانی پی سکے۔اس کے بعمیں نے اسےدوبارہ تکیوں پرلٹاتےہوئے کہاکہ تمہاری کہانی پراچھی فلم بن سکتی ہے۔اس نے میرا ہاتھ تھام لیااورپھرچھوڑدیا۔
تم نے اپنی کہانی کاتصور کہاں سے لیا؟میں نے سٹارلٹ سے پوچھا۔
اپنی زندگی کےتجربات سے۔شارلٹ نےآہستہ سے کہا۔ایک منٹ ٹھہرو۔ اس نے تکئے پراپنےسر کو پیچھے دھکیلااور ساکت ہوگئی لیکن وہ مری نہیں۔کم ازکم وہ ہسپتال میں تونہیں مری۔جب میں اگلی سہ پہر اس کی تیمارداری کے لئے ہسپتال گئی تواس کابستر خالی تھااوراس کودوبارہ یہ کسی اور مریض کے لئے تیار کردیاگیاتھا۔وہ نرس جس نے پچھلی دفعہ مجھ سے شارلٹ کی بات کی تھی اب کرسی پر بندھی ایک مریضہ کا ٹمپریچر لے رہی تھی۔اس نے مجھے دیکھاتوہنس پڑی اور کہاکہ وہ آج صبح یہاں سے چلی گئی ہے۔ہم نے اسے دوردراز مقام سانیچ ہسپتال منتقل کرناچاہا لیکن اس کے خاوندنے کہاکہ وہ اسے اسے خود اس ہسپتال لےجائے گالیکن اس ہسپتال سے ہمیں فون آیااوربتایاکہ وہ وہاں کبھی پہنچی ہی نہیں۔اس روزاس کاخاونداسکے لئے ڈھیروں کرنسی لایاتھا۔وہ نوٹوں کواچھال رہی تھی ۔ جو ایک ایک ڈالرکےنوٹ تھے۔مجھے اس بات کاقطعی اندازہ نہیں کہ اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے۔وہاں سے میں ان کی کھولی گئی کہ ہوسکتاہے کہ وہ اپنے گھرہوں۔ مجھے رستہ بھول گیا ۔مجھے وہ عمارت ہی نظرنہ آئی جس میں وہ رہتے تھے لیکن بعد میں اندازہ ہواکہ عمارت کا رنگ و روغن تبدیل کردیاگیاتھا۔کھڑکیاں بدل دی گئی تھیں۔فرانسیسی طرز کے دروازے لگادئیے گئے تھے ۔ بالکونیوں پر جنگلے لگادئیے گئے تھے جن پر سفید رنگ کردیاگیاتھا۔پوری عمارت آئس کریم پارلر میں تبدیل ہوچکی تھی۔اب اس میں متمول لوگ رہنے لگے تھے کیونکہ کرائے بڑھادئیے گئے تھے جوجو ردھی اور شارلٹ کی پہنچ سے باہر تھے۔ان کی کھولی اب شاندار کمرے میں بدل چکی تھی اور وہاں کسی اور کے نام کی تختی لگی تھی۔اب وہ یاتو کسی اور مقام پرمنتقل ہوگئے تھے یا پھر وہ انتقال کر گئے تھے۔میں ایک مختصرراستےسے جوخطرناک تھا سٹورواپس جانے لگی کیونکہ میں نے جزوقتی سیلز پرسن کو چھٹی دیناتھی۔
ایک دن جب میں سٹورآئی تومجھے دروازے پر کھڑاایک شخص نظر آیا جوآدھاکھڑکی کے اندراور آدھاسڑک پرتھا۔اس کا قد ناٹاتھا۔اس نے سڑک پراورپھرمیری طرف دیکھا۔اس نے برساتی کوٹ اور ہیٹ پہناتھا۔مجھے ایسالگاکہ اس نے اپناروپ بدلا ہوا تھاجومضحکہ خیزتھا۔اس وقت مجھے یکدم زندگی کاسب سے بڑاصدمہ پہنچااوریہ بات سچ بھی تھی کہ میرے ساتھ ایساہی ہواتھا۔یہ نیلسن تھااور مجھ پر حق جتانے آیاتھا۔اس زندگی میں و ہ یہ معلوم کرناچاہتاتھاکہ میری رائے اس کے بارے میں اب کیا تھی۔وہ مجھ پر حق جتانے آیاتھا۔
ہم بہت خوش تھے۔میں اکثر خود کو بالکل تنہا محسوس کرتی تھی۔زندگی ہےتونت نئی چیزیں ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔اس طرح دن، مہینوں اور ماہ سالوں میں بدلتے گئے۔مجموعی طور پر ہم خوش زندگی گزار رہے تھے۔میں مکمل طور پر مطمئن تھی۔
مجھے نیلسن کے ساتھلندن میں گزاراوقت یاد آنے لگا ۔اگر میں وہاں احتیاط کرتی اورمناسب اقدامات اٹھاتی تو کسی کوپتہ نہ چلتااور مجھے حزیمت اٹھانا نہ پڑتی اور سلسلہ اب بھی چل رہا ہوتا۔
نیلسن وکٹوریاآیالیکن اس نے میرے سٹورپر کام کرنے سے منع کردیااور لڑکوں کےسکول میں پڑھانے کوترجیح دی۔وہ سکول امرا کے علاقے میں تھاجہاں پسماندہ لوگوں کے لئے حقارت پائی جاتی تھی۔اس کے آداب واطوار چونکہ عمدہ تھے اس لئے وہ وہاں مقبول ہوگیا۔ہم ایک کمرے کی عمارت سے ایک بنگلے میں منتقل ہوگئے اور ہم نے شادی کرلی ۔میں امید سے ہوگئی۔اس دوران نیلسن ایک طالب علم کی والدہ کے عشق میں مبتلاہوگیااورعین اسی دوران میں ایک زیرتربیت ڈاکٹر کی محبت میں گرفتارہوگئی جسےمیں زچگی کے دوران ہسپتال میں ملی تھی۔
اپنے مسائل کے باوجود اکٹھے رہنے لگے۔نیلسن سے میراایک اور بچہ ہوا۔ہم اب لوگوں سے ملنے لگے ۔ہماری دوستیاں ہونے لگیں۔ہمارانیافرنیچرآگیااور رسوم ورواج میں حصہ لینے لگےاور تقریبات میں بھرپور حصہ لینے لگے۔ہم نزدیک دور،دور نزدیک آتے رہےاور یہ سلسلہ اسی طرح چل رہاہے۔
xxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxx
اسے لوگ بہت غریب تھے اور ہر طریقے سے پیسہ بنانا چاہتے تھے خواہ عورتوں کو مسلمانوں کے پاس ہی کیوں نہ بیچنا پڑے۔ وہ ایک دوسرے کی زبانوں سے نابلد تھے۔اس کے لئے سب کچھ اجنبی تھا۔ ایک مہذب ترقی یافتہ ثقافت سے وہ ایک اجڈ اور قدیم معاشرے میں آگئی تھی۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیااتنی وحشی اور غیر متمدن بھی ہو سکتی تھی۔اسے اس قبیلے سے چھٹکارے کا کوئی وسیلہ نظر نہ آیااور اسے ان وحشیوں کے احکامات پر عمل کرناپڑا جو عورتوں سے بیگارلے کر انہیں خوراک دیتے تھے یعنی وہ قبیلے کےلئے کام کریں گی توکھاناحاصل کرتی تھیں۔
مادھے قبیلہ ایک قلعے نما عمارت میں رہتاتھا۔ پوری عمارت کے گرد ایک بہت بڑا برآمدہ تھا۔ قبیلے کے لوگ سارا دن برآمدے اور صحن میں کام کرتے اور رات بالائی منزل پر اپنے اپنے کمروں میں سو جاتے۔ جانوروں کے لئے اصطبل بنائے گئے تھے۔سردیوں، بارشوں اور برفباری میں وہ سب قلعے میں ہی محصور ہوجاتے۔

Popular posts from this blog