بورڈنگ ہاؤس (The Boarding House) James Joyce





 

بورڈنگ ہاؤس

 (The Boarding House)

James Joyce

(1882 - 1941) Canada

 

مترجم؛  غلام محی الدین

  

        جارج سوچوں میں گم تھا کہ اپنے روزبروز پھیلتے ہوئے سٹور کو کیسے سنبھالے۔ وہ اپنی اکلوتی جوان بیٹی ایستھر کے ساتھ مل 

کر اپنا قصاب خانہ بڑی کامیابی سے چلا رہا تھا۔ اس کا سٹور شہر کے مشہور ترین کاروباری علاقے میں تھا۔ وہ ہمیشہ معیاری گوشت

 مناسب داموں پر فروخت کیا کرتا تھا۔ دور دور سے لوگ خریداری کے لئے اس کے پاس آیا کرتے تھے۔ اسکی مارکیٹ میں 

ساکھ تھی۔ گوشت کی بہترین کوالٹی، مناسب قیمت اور عمدہ اخلاق کی وجہ سے لوگ اس پر اعتماد کرتے تھے۔ کاروبار دن دگنی 

اور رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ باپ بیٹی سے کام سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ طلب پوری نہیں کر پا رہے تھے۔ جارج نے سوچا کہ 

اپنی مدد کے لئے ایک نوکر رکھ لے تا کہ سر پرستوں کو مطمئن کر سکے۔ جارج نے ایک ملازم رکھ لیا جو خوبصورت، صحت مند 

اور شکل و صورت سے سمارٹ لگتا تھا۔ اس کا نام مسٹر مونی تھا۔ وہ بہت محنتی اور کاریگر تھا۔ جارج نے اسے گوشت کاٹنے کے 

ساتھ ساتھ گوشت کی خریداری پر بھی لگا دیا تھا۔ وہ نہایت دیانتدار اور اپنے علم و تجربے کی بنا پر ہمیشہ اچھے نتائج حاصل کرتا 

تھا۔ ساتھ ساتھ کام کرنے سے اس کی خوبصورت اورجوان بیٹی ایستھر سے جذباتی تعلقات قائم ہوگئے۔ جارج نے جب  یہ بات 

محسوس کی کہ اس کی بیٹی اور مونی آپس میں پیار کرتے ہیں تو اس نے ان دونوں کی شادی کر دی۔ ایستھر جارج اب مس   مونی 

کہلانے لگی۔مسٹر مونی شادی کے بعد مزید مستعدی سے کام کرنے لگا اور کاروبار کو وسعت دی۔ مونی سے دو بچے ہوئے۔ لڑکا

   ُ  جیک  ُ  اور لڑکی   ُ  پولی   ُ۔ جب جیک سولہ اور پولی چودہ سال کی تھی تو ایستھر کا باپ دنیا ئے فانی سے کوچ کر گیا۔ مونی اسوقت 

تک بہت صحیح کام کر رہا تھا لیکن جلد ہی اس کی کارکردگی بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اس نے شراب نوشی اور جوا کھیلنا شروع کر 

دیا۔ روز بروز اس کی کارکردگی خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ مونی غیر معیاری گوشت خریدنے لگا۔ مسز مونی اس کو سمجھاتی تو 

وہ وعدہ کر لیتا تھا لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ رات کو جب وہ دیوالیہ ہو چکا تھا اپنی بیوی سے جوئے کے لئے پیسے 

مانگے۔ اس کے انکار پر وہ اس کے پیچھے چھرا لے کر بھاگا، وہ جان بچانے کے لیے چھپ گئی اور بڑی مشکل سے اپنی جان بچاٍئی 

۔روز روز کی چک چک سے اس نے مونی سے طلاق حاصل کر لی۔ عدالت نے مونی کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے دونوں بچوں 

کو مسز مونی کی تحویل میں دے دیا۔ دکان کی ساکھ اس کے خاوند مونی کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی اس لئے اس نی اُس سٹور 

کو معقولرقم کے عوض بیچ دیا اور سوچ سمجھ کر ایک بلڈنگ خریدی اور اُسے گیسٹ ہاؤس میں تبدیل کردیا جس کا نام اس نے   ُ  بورڈنگہاؤس  ُ  رکھا۔ یہ تین منزلہ عمارت تھی جس میں بیس کمرے تھے۔ اس گیسٹ ہاؤس کے کمروں کو روزانہ،ہفتہ وار اور ماہانہ بنیاد پر کرائے پر دیا جاتا تھا۔ مہمانوں کو صبح کا ناشتہ ہاؤس کی طرف سے صبح چھ سے آٹھ بجے تک فراہم کیاجاتا تھا۔ کچن کی مدد 

کے لئے اس نے ایک کلرک جس کا نام  ُ  میری  ُ  تھا اور  برتن دھونے اور صفائی کے لئے  نوکررکھ لی۔ ہاؤس ان مہمانوں کو 

اضافی رقم کی بدولت دیگر اوقات میں بھی کھانا فراہم کرتا تھا۔ زیادہ تر مہمان شاعر، موسیقار، تاجر، طلباء و طالبات او  کلرک 

وغیرہ ہوتے تھے۔ مسز مونی بے حد تجربہ کار، سمارٹ، بہترین منصوبہ ساز اور مرد شناس عورت تھی۔ ہر شئے پر اس کی نظر 

رہتی تھی۔گاہک کو دیکھ کر ہی بھانپ لیتی تھی کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ اس کی عمدہ کارکردگی کی بنا پر اس کابورڈنگ ہاؤس روز 

بروز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہا تھا۔

         

گیسٹ ہاؤس میں اس نے اپنے لئے، اپنے بیٹے جیک اور بیٹی پولی کے لئے الگ الگ کمرے مختص کئے ہوئے تھے۔ اُس کا بیس 

سالہ بیٹا جیک ایک مرکز میں کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔ وہ عیاش، بے حد جواری، بڑی بڑی ہانکنے والا، زُود رنج اور 

بات بات پر بھڑکنے والا شخص تھاجبکہ اس کی اٹھارہ سالہ بیٹی کھلنڈری، ناپختہ ذہن، کم عقل، رومانوی، روز بروز نئےسکینڈل میں 

   مبتلا ہونے والی دل پھینک لڑکی تھی۔ مسز مونی کی اس پر گہری نظر رہتی تھی۔ جہاں کہیں معاملہ سنجیدہ ہونے لگتا وہ مداخلت 

کرکے معاملے کو سنبھالتی تھی۔ اس نے اسے کمپیوٹر کلاسز کے لئے ایک سکول میں داخل کروا دیا۔ جب اسے پتہ چلا کہ لوگ

 اسے غیر ضروری طور پر تنگ کر رہے ہیں تو مسز مونی نے اسے سکول سے اٹھا لیا۔

         

گیسٹ ہاؤس میں ہر ہفتے کی رات ہال میں ایک موسیقی کی محفل جمتی تھی جس میں تمام مہمان شرکت کر کے اپنے اپنے فن کا 

مظاہرہ کر سکتے تھے۔بعد میں وہ اگر چاہتے تو جیوک باکس کے ذریعے پسندیدہ گانوں پر ڈانس بھی کر سکتے تھے۔ پولی اس محفل 

میں پورے جوش سے شرکت کرتی تھی۔وہ بھی گانے گاتی تھی لیکن وہ بیہودہ ہوتے تھے جیسے۔۔۔

میں ایک بری لڑکی ہوں۔

تمہیں جھکنے کی ضرورت نہیں۔

تمہیں شرمانے کی ضرورت نہیں۔

تم جانتے ہو کہ میں کیا ہوں؟۔

         

پولی ہمیشہ میڈونا کی نقل کرتی تھی۔ اس جیسا لباس پہنتی اور میک اپ کرتی، اس کے انداز میں گاتی اور اس کے شہوانی انداز 

کی بدولت لوگ کھنچے چلے آتے۔ وہ ہر ایک سے فلرٹ کرتی۔ لوگ وقت گزاری کے لئے اس سے تعلقات بناتے تھے۔ ویسے 

تو اس کی ماں مسز مونی اس کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی تھی لیکن ایک بار اسے محسوس ہوا کہ پولی کے ایک بڑی 

عمر کے شخص ڈوران سے تعلقات سنجیدہ حد تک گہرے ہوگئے ہیں تو اسے فکر لاحق ہوئی۔ اس وقت ڈوران کی عمر چونتیس سال 

تھی اور وہ ایک مذہبی ادارے میں پچھلے تیرہ سال سے فل ٹائم پکی نوکری کر رہا تھا۔ پولی کا  اتنا ایڈوانس پہلے تعلق کسی کے 

ساتھ نہیں ہوا تھا۔ اس پر مسز مونی کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس نے انتہائی مہارت سے جس طرح قصاب چربی گوشت سے 

الگ کرتا ہے،کی طرح کی چال چلی اور ان کے تعلقات کو ختم کرنے کی تدبیر سوچی۔

         

گرمیوں کی ایک صبح کی ایک اتوار جب مہمانوں نے ہال میں ناشتہ کر لیا تو مسز مونی نے نوکرانی کو کہا کہ ہال صاف کر دے۔

 میزوں پر سے پلیٹیں اٹھائے، انہیں دھوئے، دودھ،شکر، چائے، کافی، ڈبل روٹی او ر پڈنگ وغیرہ فریزر میں سنبھال دے۔ اتوار

 کو ناشتے کے بعد جن لوگوں نے عبادت کرنا ہوتی،وہ نزدیکی گرجا گھر چلے جاتے۔ ان کاموں سے فراغت کے بعد اس نے تہیہ

 کیا کہ پولی کے مسئلے کو منطقی موڑ دیا جائے۔ اسنے پولی سے بات کی اور کھل کر اس سے دوران کےتعلق کے بارے میں پوچھا 

ا۔ پولی نے صاف صاف جوابات دیئے۔ وہ ہر

صورت ڈوران سے شادی کرنا چاہتی تھی اور اس بات پر شدید غصے میں تھی کہ اس کی ماں اس کی خواہش کی قدر نہیں کررہی

 -اُس کی باتیں مسز مونی نے سنجیدگی سے نہ لیں۔ اُس نے سوچا کہ مسٹر ڈوران سے بات کی جائے۔ اُس نے کچھ لمحے سوچا 

اور پھر اس کے چہرے پر مسکان اور اعتماد ظاہر ہونے لگا۔ اسے پختہ یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوگی۔

 

 مسٹر ڈوران ایک مدبر اورباوقار شخص تھاجس نے گھاٹ گھاٹ کاپانی پیا تھا۔ مسز مونی کو ایسا لگا کہ وہ ٹائم پاس کر رہا تھا، دوسرا 

یہ کہ پولی ابھی نادان تھی، نا تجربہ کار تھی اور جذباتی تھی، جس کا وہ فائدہ اٹھا رہا تھا۔ تیسرا یہ کہ جب بھی کم سن کی کسی پختہ 

عمر کے شخص سے شادی ہوتی تھی تو اس میں لڑکی کے اقتصادی مفادات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ اس کی لڑکی کو کیسے 

معاشی تحفظ فراہم کر سکتا تھا۔ آدمیوں کیلئے تو یہ کھیل تھا لیکن لڑکیوں کے لئے عمر بھر کی اذیت۔  علاوہ ازیں جنسی تسکین کا 

معاملہ بھی اہم تھا کہ وہ کب تک اسے مطمئن کر پائے گا۔ مسٹر ڈوران کے پاس اس قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہ تھی کہ اس 

کی بیٹی کو تحفظ دے سکے۔ یہ تو معاملے کا ایک پہلو تھا جب کہ مسٹر ڈوران کے نقطہ نظر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ 

اب اسنے مسٹر ڈوران کی جانب سے سوچنا شروع کیا۔  ُ مسٹر ڈوران   ُ ایک بے حد معقول شخص تھا۔ پکی ملازمت تھی۔وہ عزت 

دار تھا۔ جذباتی نہیں تھا۔ مخلص تھا۔ اتنی بے عزتی کسی صورت نہیں کروا سکتا تھا۔ دوسرے اس کی ناکام محبت پر طنز کریں، وہ

 ہر گز پسند نہیں کرسکتا تھا۔ اُس کے پاس تھوڑی بہت جمع پونجی تھی جو مالی تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تھی۔ مسز مونی نے فیصلہ 

کرتے وقت یہ تمام باتیں ذہن میں رکھیں۔

         

  ُ  مسٹر ڈوران   ُپچھلے چند دنوں سے بے چین تھا لیکن اس روز اس کی پریشانی بے حد بڑھی ہوئی تھی۔ اس نے کئی بار کوشش کی

 کہ اپنی بڑھی ہوئی داڑھی مونڈے لیکن اس کی ہمت نہیں ہو پا رہی تھی۔ تین دنوں کی بڑھی ہوئی داڑھی اس کے چہرے پر 

بہت بُری لگ رہی تھی۔ وہ ایک روز قبل اپنی رہنمائی کے لئے فادر کے پاس اعترافِ جرم کر آیا تھا جسے فادر نے اُس فعل کو 

گناہِ کبیرہ قرار دیا تھا۔ فادر کے مطابق وہ شادی اس لئے گناہ تصور کی جائے گی کیونکہ وہ ذاتی لطف و عیش کے لئے ایسا کر رہا 

تھا۔ اپنا من مار کر پولی سے شادی نہ رچا کر وہ اس گناہ کی تلافی کر سکتا تھا۔  ڈوران نے سوچا کہ اسے اپنی کمپنی کی انتظامیہ عزی

ز واقارب اور رفقائے کار کے سوالات کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ اُس کا مینجر اس کو بلائے گا، مسئلے کی تہہ تک پہنچے گا یا تو تنبیہ کر 

یگا یا پھر ملازمت سے نکال د ے گا۔ اس کی ماضی کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔ اس کے بعد اس کا خاندان اور دیگر احباب 

پولی کے خاندان کا پوچھیں گے تو اس بارے میں وہ کیا جواب دے گا۔ اس کا باپ، بھائی اور وہ لڑکی خود بے توقیر تھے۔وہ  

شرابی، کبابی، جواری اور  بے کار لوگ تھے جو عدالت میں بھی ثابت ہو چکے تھے۔ اس کا باپ مسٹر مونی آج بھی در بدر کی 

ٹھوکریں کھا رہا تھا جس کے پاس نہ تو کوئی ذریعہ معاش تھا اور نہ ہی رہنے کی جگہ۔ پھر اس نے پولی کے بارے میں سوچا کہ کیا 

وہ واقعی اس سے محبت کرتا تھااور اس کی خاطر ہر ظلم سہ سکتا تھا۔وہ اس بات کا فیصلہ نہ کر پایا۔ ایسی صورت میں کیا اُسے

 اپنی آزادی ختم کرکے زندگی بھر کولہو کا بیل بن کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہو گا؟ کیا اتنی قربانی پولی سے شادی کے لئے 

مناسب ہے بھی کہ نہیں؟  ان باتوں نے اسے مزید الجھا دیا۔ اس نے فیصلہ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

 

ڈوران کو یاد آیاکہ پچھلی رات پولی اس کے کمرے میں آئی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ مسز مونی آج اس سلسلے میں مجھ سے بات 

کرے گی۔ اس نے اپنی بانہیں میری گردن میں حائل کر دی تھیں، روتے ہوئے بولی تھی کہ یا خدا اب کیا کروں؟ میں نے

 یہ کیا کر دیا؟ اس نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ رونا بند کرو کیونکہ رونے دھونے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سب ٹھیک 

ہو جائے گا۔ اس کے ذہن میں وہ لمحات یاد آنے لگے جب پولی کےساتھ جذباتی تعلق پیدا ہونا شروع ہوا تھا۔ ایک رات کسی

نے  اس کے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی تھی،  وہ اس وقت اپنا لباس تبدیل کر رہا تھا۔ دروازہ کھولا تو باہر پولی تھی جس نے اپنے ہاتھ میں موم بتی تھامی ہوئی تھی۔ وہ ابھی ابھی نہا کر آرہی تھی۔ اس کے بال گیلے تھے۔ سونے کا لباس پہنا ہوا تھا جسکا گلا بہت کھلا تھا۔ فلالین کی جیکٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ اس کی بڑی بڑی غزالی آنکھیں، چمکتا ہوا سفید و سرخ چہرہ اور کھلے بال ایک مست سماں پیدا کر رہے تھے۔ وہ ایک اپسرا لگ رہی تھی۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے گھورتے دیکھ کر وہ بڑی لحاجت سے بولی کہ لائٹ چلی گئی ہے۔ میرے پاس لائٹر نہیں، براہِ کرم اسے جلا دوں۔ چنگاری سلگنے لگی، اگلے چند دن بعد اس چنگاری نے آگ کی شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ جب بھی اسے موقع ملتا میرے پاس آجاتی۔ اس کے ہاتھوں اور جسم کی بھینی بھینی خوشبو اور بے باکی آگ پر تیل کا کام کرتی گئی۔ وہ میرے پاس بلا ناغہ آتی رہی، جس رات وہ نہ آنا چاہتی وہ مجھے بتا دیتی تھی۔ وہ رات کے کھانے کے بعد ہال میں میرے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرتی اور آدھی رات کے بعد تیسری منزل تک ساتھ چلتی اور پھر ہم الگ ہو جاتے۔ جانے سے پہلے بوس و کنار کرتے تو اس کی آنکھیں شدتِ جذبات سے بند ہوتیں۔ کبھی کبھار اس کا بھائی جیک رنگ میں بھنگ ڈال دیا کرتا تھا۔ وہ ریسٹ ہاؤس میں آدھی رات کے بعد آتا اور وہ آکر دیکھتاپھر ہائے کہہ کر اپنے کمرے میں چلا جاتا۔ جیک کی بات چلی تو اسے وہ رات یاد آگئی جب ہال میں تفریحی رات کو ایک گلوکار گا رہا تھا جو انگلینڈ سے آیا تھا۔ وہ گاتے وقت پولی کو فحش اشارے کر رہا تھا۔ اس محفل میں پولی کا بھائی جیک بھی موجود تھا۔ اس نے بیہودہ اشاروں کو پسند نہ کیا۔ وہ اس پر مشتعل ہو گیااور ہنگامہ برپا کر دیا۔ محفل میں موجود ہر شخص اس کو چپ کرانے میں مصروف تھا لیکن وہ مان نہیں رہا تھا۔ دوسری طرف وہ گلوکار کہہ رہا تھا کہ پولی کے ساتھ ایسا سلوک کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ وہ ایسی ہی تھی اور اس کے کردار کے مطابق ہی پولی سے سلوک کیا جا رہا تھا۔  جیک نے دھمکی دی کہ اب کے بعد اگر کسی نے ایسی حرکت کی تو وہ اس کا خون پی جائے گا۔

         

دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ ڈوران نے دروازہ کھولا۔ میری (Mary) باہر کھڑی تھی۔ اس نے کہا کہ مسز مونی بات کرنا 

چاہتی ہے۔،  یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ ڈوران کا حلیہ اس وقت بہت برا تھا۔ ڈوران نے اسے کہا کہ وہ ابھی آتا ہے۔ میری کے 

جانے کے بعد اسی حالت میں وہ مسز مونی کے پاس جانے لگا تو اسے خیال آیا کہ پہلے پولی سے مل کر حالات معلوم کرنے 

چاہئیں۔ پولی کے کمرے میں سفید چادر اور تکئے دیکھ کر لذت بھرے لمحات یاد آگئے۔ لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو پایا 

اور اسے بتایا کہ وہ مسز مونی کے پاس ہم دونوں کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہے۔ پولی مطمئن ہو گئی۔

         

پولی صبر سے، کسی حد تک رجائیت سے، بلا خوف و خطر ملاقات کے نتیجے کا انتظار کرتی رہی……کرتی رہی ……کرتی رہی ……پھر اس

 کی ماں مسز مونی کی آمد ہوئی۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

         

مسز مونی نے کہا: پولی نیچے آؤ مسٹر ڈوران تم سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ وہ بورڈنگ ہاؤس چھوڑ کر جا رہا ہے۔

 

James Joyce

(1882 - 1941) Ireland

 

جیمز جوائس کا پورا نام جیمز آگسٹائن ای لوسی یس جوائس تھا۔ یہ ڈبلن (آئرلینڈ) میں 1882کو پیدا ہوا۔ وہ د س بچوں میں 

سب سے بڑا بیٹا تھا۔ چھ سال کی عمر میں اسے ایسے بورڈنگ سکول میں داخل کروا دیا گیا جس میں امرا کے بچے پڑھتے تھے 

لیکن اس کے باپ کے غلط اقدامات کی وجہ سے وہ متمول نہ رہا۔ اس کی شراب نوشی، اپنی نوکری اور دیگر امور میں لاپرواہی 

اور اپنی کمپنی سے قرض کی وجہ سے اس کا خاندان غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بچے محرومی اور ذلالت کا شکار 

ہوتے گئے۔ جیمز1891میں دوبارہ سکول نہ جا سکا۔ اس کے برعکس اس نے دو سال اپنے گھر میں گزارے اور اپنی تعلیم مکمل 

کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی ماں کو کہتا کہ اس کی اصلاح کر دیا کرے۔ 1893میں وہ اور اُس کا بھائی ایک سکول میں داخلہ 

لینے میں کامیاب ہو گئے اور ان کی فیسیں معاف کر دی گئیں۔ وہاں اس کی تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیاں عمدہ رہیں۔ وہ 

سٹوڈنٹ یونین کا دو بار پریزیڈنٹ منتخب ہوا۔ اس نے زباندانی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ 18سال کی

 عمر میں اس کا ایک مضمون  ُPlay When we Dead Awakes  ُجب 1900میں پندرہ روزہ معروف جریدہ لندن میں چھپا تو

 اسے ادیب تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے بعد اس کے مضامین دیگر جرائد میں چھپنے لگے۔ 1902میں اس نے ڈگری حاصل کی۔ 

اس کی اہم تصانیف میں

 

٭      Ulyssas (1922)                                          ٭      Dubliners (1914)

٭      The Dead (1914)                                      ٭      Araby (1914)

٭      A portrayal of the Artisit of a Young Man (1916)   ٭     Evaline (1904)

٭      The Sister                                        ٭      The Boarding House

٭      An Encounter                                           ٭      Two Gallants






Popular posts from this blog