یا د و ں کی با ر ا ت ( Previous Condition by James Baldwin )



یادوں کی بارات

Previous Condition

James Baldwin (U.S.A)

(1924-1987)

ترجمہ و تجزیہ:           غلام                     محی       الدین

 

 ڈربہ نما  کمرے میں سوتے ہوئے ہڑ بڑا کر اٹھ  بیٹھا۔ میں ٹھنڈے پسینے میں نہایا ہوا تھا۔  بستر کی چادر اور میٹریس  بھیگ چکےتھے۔چادر کا رنگ سرمئی  تھا اور وہ رسی کی طرح چڑ مڑ ہوئی تھی۔ میری سانس ایسے پھولی ہوئی تھی جیسے میں  سو میٹر دوڑ لگا کر آیا ہوں۔ میں کافی دیر تک بے حس و حرکت                پیٹھ        کے بل پاؤں پسارے  لیٹ کر چھت   تکتارہا اور کمرے کے باہر کی آمدورفت سنتا رہا۔ گھڑی کا الارم بجا۔ سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے اور باہر  گلی  میں گھوڑوں کی ٹاپیں، سامان لانے لے جانے والی ویگنوں، ٹرکوں اور کاروں  کے شور سے میں بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا کہ لوگ باگ تارکول کی سڑک پر آ جا رہے تھے۔ میرا بستر کھڑکی کے ساتھ تھا جس میں سوائے دھول کے اور کچھ نہیں آتا تھا۔

 کمرہ فرنیچر سے  ٹھسا ہوا تھا جو اس جیسے تین کمروں میں سما سکتا تھا۔ دو آرام دہ کرسیاں، ایک ڈیسک ، ایک بستر، ایک میز، ایک دفتری کرسی، ایک کتابوں کی الماری، ایک کپڑوں کی الماری، میری کتب  اور سوٹ کیس ( جو ابھی تک  میں نےکھولا ہی نہیں  تھا)،  ایک  بھاری بھرکم سنگ مر مر آتش دان   ۔ اس کے اوپر ایک دھندلا سرمئی شیشہ  تھا   جس میں  شکل  اندازے سےنظر   آتی تھی ۔   ان تمام چیزوں کے علاوہ میرے میلے کپڑے  بھی تھے جو ایک کونے میں کھو نٹیوں پر لٹکے تھے ۔    اس کمرے کے بارے میں بات کی جائے تو اس  کو کمرہ کہنا بھی کمرے کی توہین تھی۔ وہ  چال کی کھولی کی طرح تھا۔ اس کی  حالت     بوسیدہ تھی  جس میں حالت مجبوری ہی رہا جا سکتا تھا۔

میں خواب دیکھ رہا تھا جو ڈراؤنا  تھا۔ میں  کانپتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔ خواب  تو مجھےیاد نہیں  رہا، نہ ہی اندازہ تھا کہ کب خواب آنا شروع ہوا ۔ شائد بہت عرصے آتا رہا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ یہ بہت پہلے آنا شروع ہوا تھا ۔   اس سے پہلے مجھے کبھی خواب آتے ہی نہیں تھے لیکن کچھ عرصے سے  عموماً اور پچھلے چند دنوں سے خصوصاً     زیادہ آنے شروع ہو گئے تھے اورہر رات آ رہے تھے اور وہ بھی ڈراؤنے۔ ایسے    خوابوں سے بچنے کے لئے  میں پوری کوشش  کرتا کہ  بستر پر نہ جاؤں  یا بہت دیر سے جاؤں لیکن جب بھی سوتا ،   ڈر اؤنے خواب کی بدولت اٹھ  بیٹھتا۔  

 حال ہی میں شکاگو  سے  بے عزت ہو کر نیو یارک آیا  تھا۔  وہاں  اندرون شہر اپنے  ایک دوست کے ساتھ رہتا تھا۔ وہاں میرے ساتھ جو بھیانک واقعہ پیش آیا تھا، ( میں سمجھتا ہوں کہ اس واقعے سے ان ڈراؤنے خوابوں کا   شائدکوئی تعلق نہیں)۔ میں  شکاگو                    '                  عقلمند   ٹام                                   '               کے نام سے مشہور تھا۔ میں کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور نسلی تعصب کے خلاف   سرگرم تھا۔  ڈرامے لکھتا ، پیش کرتا اور ایکٹنگ کرتا تھا۔  جانا پہیچا نا  چہرہ بن گیا تھا۔ڈرامہ نگاری میرا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس کے ذریعے   ثابت کرتا تھا کہ سیاہ فاموں سے بے جا سلوک ہو رہا تھا۔ میں خود کو آزاد خیال سمجھتا تھا لیکن  میرے خیالات گوروں کو  پسند نہیں تھے۔ مجھ پر جائز ناجائز مقدمات قائم کر دئے گئے ۔میرا شو بند کر دیا گیا ۔ مقامی لوگوں نے میرا ناطقہ بند کر دیا ۔ مجھے نیویارک سے نفرت تھی۔ میں یہاں آنا نہیں چاہتا تھا لیکن  مجھے   شکاگو چھوڑنا پڑا۔         یہاں آنے کے سوا کوئی چارہ تھا۔   مجھے یقین تھا کہ یہاں بھوکا نہیں مروں گا۔ نوکری  مل تو جائے گی  لیکن وہ کو ئی نیلے کالر والی    مزدوری                ہی ہو گی۔ پٹرول پمپ پر یا سڑکیں صاف کرنے والی مزدوری  جہاں ہماری نسل کے لوگوں کو کم از کم مزدوری سے بھی کم اجرت ملتی ہے ۔ ویسے بھی  میرا قد درمیانہ ہے۔  خوبصورت بھی نہیں۔ آواز بھی بری ہے۔ ناچنا بھی نہیں آتا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں سفید فام بھی نہیں۔ خود ہی سوچیں اس امریکی معاشرے میں میری کیا حیثیت ہو گی۔  اپنے مزاج کے مطابق  ایسے معمولی کام  کر نہیں سکتا تھا۔    اچھی نوکری کی ناکامی سے میں روز بروز  خود سے نفرت کرنے لگا۔

 میری غیر حاضری میں جو کمرہ میرے لئے میرے دوست جیولز نے  کرائے پر لیا تھا ۔ اس کی مربع شکل کی   چھت  بہت  بھاری تھی۔ دیواریں کلیجی رنگ سے روغن کی گئی تھیں۔   خدا گواہ ہے وہ کھولی جسے مالکن کمرہ کہتی تھی، رہنے کے قابل  نہیں تھا۔ اس کو دیکھ کر وحشت ٹپکتی تھی ۔ اس میں رنگ برنگی روشنیاں تھیں۔ ان میں سے ایک تو چھت پر تھی ، ایک بائیں دیوار پر، دو دائیں  دیوار پر اور ایک لیمپ میز پر جو میرے بسترکے پاس پڑا تھا۔  وہ کمرہ ساز و سامان سے لیس تھا۔  اس میں کھڑا ہو کر چلنا محال تھا۔

تم یہاں زیادہ  عرصے تک اس کھولی میں نہیں رہو گے        جیولز نے  مجھے اندر دھکیلتے ہوئے   اس وقت کہا تھا جب رات ڈھل چکی تھی اور اس چال کے  گورے باسی سونے چلے گئے تھے۔ جیولز نے آس بندھائی تھی   کہ مجھے جلد  کوئی اچھا ٹھکانہ مل جائے گا۔اس نے مجھے ہدائت کی تھی کہ میں وہاں اس وقت داخل ہوں جب   اس چال کے سب سفید فام کرائے دار  سو جائیں اور اس وقت باہر نکلوں جب سب لوگ اپنے اپنے دھندے پر چلے جائیں۔  اس نے یہ بھی اطلاع دی تھی کہ وہ اپنا موجودہ کرائے کا کمرہ چھوڑ کر بڑی جگہ منتقل ہو رہا ہے  اور مجھے اپنے ساتھ رکھ لے گا۔  مرتا کیا نہ کرتا ، میں اس کھولی میں  داخل ہو گیا۔اس نے  روشنی جلا دی اور کہا یہ کمرہ وقتی طور پر صحیح ہے۔ تمہارا ڈنگ ٹپا دے گا۔ اس نے یہ بات شرمندگی سے ایسے کہی جیسے یہ کمرہ اس نے خود ڈیزائن کیا ہو۔

میں نے کمرے کا جائزہ لیا  اورمایوس ہو کر بولا۔ اوہ                 !                     یقیناً کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے یہاں رہنے میں دشواری  نہیں ہوگی؟

میرا خیال ہے کہ تم سکون سے رہو گے کیونکہ یہ کمرہ میں نے تمہارے نام پر لیا ہے اور کرایہ ایڈوانس دے دیا ہے  جیو لز نے کہا۔ مالکن تمہیں بے دخل نہیں کرسکے گی کیونکہ تمام قانونی تقاضے پورے ہیں۔

میں  نے کوئی جواب نہ دیا۔

لیکن تمہیں چھپ کر رہنا پڑے گا۔ تمہیں  اس بات کی احتیاط کرنا ہوگی کہ تمہاری شکل کوئی نہ دیکھ پائے۔ پیٹر !                   تم یہ بات اچھی طرح جان  لوکہ یہ گوروں کا علاقہ ہے جیولز نے کہا۔

میں اس کمرے میں پچھلے تین دنوں سے رہ رہا تھا۔  میرا باہر نکلنے کا وقت وہ ہوتا جب لوگ اپنے اپنے کام پر  جا چکے ہوتے اور واپس اس وقت آتا  جب سب سو چکے ہوتے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ طریقہ  مستقل نہیں اپنایا جاسکتا اورجلد یا بدیر ہانڈی چوراہے پر پھوٹے گی۔  ہوا بھی یہی۔ میں کمرے سے باہر آیا تو  اس چال کے چند         گورے  کرایہ دار سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ انہوں نے میری شکل دیکھ لی اور  وہ ایسے چونکے جیسے انہوں نے کوئی بھوت  دیکھ لیا ہو۔وہ سب سہم گئے۔

 اب  مجھے یہ دھڑکا  لگا رہتا  کہ  مالکن کسی بھی وقت   چیکنگ کے لئے آئے گی۔ اگر اس نے میری شکل دیکھ لی تو   میرا ستیاناس کر دے گی۔میرا یہ اندیشہ سچ بھی ہو سکتا تھا اور  مفروضہ  بھی۔   یہ گو مگو کی کیفیت مجھے کھائے جا رہی تھی۔

گرمیوں کا موسم تھا۔ڈراؤنے خواب   سے میرا سارا جسم ٹھنڈے پسینے سے تر تھا اور مجھے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ نچلی منزل پر جیوک باکس پر ناشتے کے وقت والے گانے بج رہے تھے ۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا لیا۔ میں نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا                ،                      پیٹر !             ان خوابوں کو اتنا سنجیدہ نہ لو کہ وہ تمہاری جان لے لیں۔ تم ایک انسان ہو اور بہادروں کی طرح اس کا مقابلہ کرو۔  یہ کہہ کر میں                       '               لیڈ ویگ پاپ               ' موسیقی سننے لگا۔ا س دوران مجھے چند لوگوں کی سیڑھیاں  اترنے کی آواذ سنی۔ میں کش لے کر مرغولے بنا کر چھت کی طرف پھونکنے لگا۔  مجھے اس سے راحت مل رہی تھی۔

میں نے اپنی زندگی میں   بہت سے مقامات  دیکھے ہیں۔  سینٹ   لوئس،  فریسکو، سی ایٹل ، ڈیٹرائیٹ ، نیو آرلینز  وغیرہ  رہا ہوں اور کام بھی کیا ہے۔  میری والدہ   نیویارک شہر کے نواحی علاقے کی غریب بستی میں رہا کرتی تھی۔ مجھے تو نہ وہاں کے لوگ پسند تھے اور نہ وہ جگہ۔        اس غلیظ علاقے کے باسیوں کا مشغلہ یا تو مے نوشی ، منشیات ، دنگا فساد اور جوا کھیلنا تھا  یا          اتوار کوگرجے جانا ۔ میں وہاں سے دور  جاناچاہتا تھا۔  سفید فام لوگوں کی عزت تھی۔ کالوں کی چال          میں   گورےمالک دندناتے پھرتے تھے۔ کرایہ داروں سے کرایہ وصول کرتے اوران کو گالیاں دیتے اور خوشامد کرواتے تھے۔

مجھے  حبشی سب سے پہلے اس وقت کہا گیا جب میری عمر سات سال تھی۔ ایک گوری بچی جس کے بال گھنگھریالے تھے ، نے مجھے یہ لفظ کہا تھا۔ اس عمر میں میری روٹین تھی  کہ میں ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کے  ادھر ادھر آوارہ گردی کرنے لگتا۔ ایک دفعہ میں  نے دیکھا کہ ایک گوری اکیلے ہی  گیند سے کھیل رہی تھی ۔ اس نے بال لڑھکایا تو وہ نالی میں جا پڑا۔ میں نے اسے نکال کر دیا اور کہا   آؤ  کیچ  کیچ کھیلتے ہیں۔  اس نے مجھے دیکھ کر حقارت سے منہ سکوڑ لیا  اور کہا کہ میری ماں نے حبشیوں سے کھیلنے سے منع کیا ہے۔ مجھے اس وقت علم نہ تھا کہ حبشی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ میں نے یہ سنا تو مجھے برا لگا اور میں نے زبان باہر نکال کر اسے چڑایا اور کہا  کہ مجھے  کوئی پرواہ نہیں۔ نہ کھیلو۔ اپنا گیند اپنے پاس رکھو۔ یہ کہہ کر میں گھر کی طرف چل پڑا۔ میرے پیچھے سے اس نے آوازے کسے              '               حبشی ،  حبشی،               حبشی'۔ میں نے اس کے جواب میں کہا۔ تو حبشی، تیرا باپ حبشی ،تمہاری ماں حبشی۔  گھر آ کر اپنی ماں سے پوچھا کہ  حبشی کا کیا مطلب ہے۔

تم کو یہ کس نے کہا۔ ماں نے سوال کیا۔

میں نے یہ لفظ کسی کو کہتے ہوئے سناتھا۔ میں نے جواب دیا۔

کس سے؟۔ ماں نے پوچھا۔

کوئی تھا۔ میں نہیں جانتا۔ میں نے جواب دیا۔

جاؤ اور منہ دھو لو۔یہ گناہ کی طرح آلودہ ہے۔ تمہارا کھانا میز پر رکھا ہے۔ منہ ہاتھ دھونے کے بعد کھا لینا۔ ماں نے کہا۔

میں غسل خانے گیا۔ پانی کے چھینٹے منہ پر مارےاور تولئے سے منہ ہاتھ خشک کر کے آ گیا۔

تم اس کو دھلا ہوا  کہتے ہو؟  ماں نے غصے سے کہا۔ ادھر آؤ لڑکے۔ وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے  دوبارہ غسل خانے لے گئی ۔ میری گردن اور منہ پر صابن لگا کر دھونے لگی۔ تم ہر وقت گندگی میں گھسے رہتے ہو تو لوگ تمہیں حبشی ہی کہیں گے۔ اس نے میرے ہاتھوں کو دیکھا  اور خشک کیا اور کہا۔ اب جاؤ اور کھانا کھا لو۔

میں بغیر کچھ کہے میز پر بیٹھ گیا اور کھانا کھانے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت چیخنا چاہتا تھا۔ رونا چاہتا تھا۔ میری ماں میرے سامنے میز پر بیٹھ گئی۔

میں نے کہا۔ ماں۔

ماں نے میری طرف دیکھا۔ میں نے رونا شروع کر دیا۔ وہ اٹھ کر میرے پاس آئی اور مجھے گلے لگا لیا۔  میرے بچے، پریشان نہ ہو۔ اگلی باراگر کوئی تمہیں حبشی بولے  تو کہو رنگ روپ  اللد کی دین ہے۔ یہ رنگ تمہارا بھی ہو سکتا تھا۔

میں ذرا بڑا ہوا تو ہم نے ایک جتھہ بنا لیا۔سیاہ فام آبادی اور سفید فام آبادی کو ایک جالی الگ الگ کرتی تھی۔ ہم گوروں کا مقابلہ اپنی طرف رہ کر کرتے۔ ہم ان پر اور وہ ہم پر پتھر پھینکتے۔ ایک دوسرے پر آوازے کستے۔میں بار رہا پتھر کھانے کے بعد زخمی ہو کر گھر آیا تو ماں  مجھے پیٹتی، ڈانٹتی ،دوائی لگاتی اور رونے  ہوئے کہتی۔

بیٹے۔ کیا تم خود کو مروانا چاہتے ہو؟ کیا تم اپنی زندگی اپنے باپ کی طرح دنگے  فساد میں ختم کرنا چاہتے ہو۔ تمہارا باپ گھٹیا تھا۔ بے کا رتھا ۔ کیا تم اس جیسا بننا چاہتے۔  تم کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ تم بھی اپنے والد کی طرح بے روزگار، یا جرائم پیشہ حیثیت سے زندگی گزارو گے۔ پولیس تمہارا پیچھا کرتی پھرے گی۔ میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا۔ میری ماں نے میرا نام اس کے نام پر         '        پیٹر        '          رکھا تھا۔

میرے تمام ہمجولی  سب بڑے ہوگئے۔ کم اجرتوں پر نوکریاں کر لیں۔ شادیاں کرلیں اور معاشرے میں مزید سیاہ فام  مزدور اور بدمعاش پیدا کرنا شروع کر دئیے۔ چال میں رہ کر انہیں گورے مالکوں کو باقاعدگی سے کرایہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح چلتا تھا اور  چلتا رہے گا۔

جب میں سولہ سال کا ہوا  تو میں گھر سے بھاگ گیا۔ میں نے تہیہ کیا کہ واپس اسوقت آؤں گا جب میرے مالی حالات بہتر ہوں گے یا یہاں کی حالت سدھر جائے گی۔  میں نواحی شہر نیو جرسی  چلا آیا۔ وہاں بھی میری نسل کے لوگ رہتے تھے۔ سارا علاقہ کالے لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ امریکی ریاستوں میں سیاہ فام باشند ے ملک بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ وہ پس ماندگی اور غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔

  22 سال کا تھا تو میری والدہ فوت ہوگئی۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے لحد میں اتارا۔  علاقے کے حالات بالکل ویسے ہی تھے جیسے میں انہیں چھوڑ گیا تھا۔        کوڑا کرکٹ  سے پورچ بھرا تھا۔ کھڑکی میں ٹوٹی ہوئی جالی کا سوراخ بند کرنے کے لئے ایک  برساتی  کوٹ ٹھونسا گیا تھا۔  کھولی خستہ حال تھی۔ اس پر رنگ و روغن اتر چکا تھا۔    والدہ کے کمرے میں  دوسرا خاندان منتقل ہو رہا تھا۔  فرنیچر کا ڈھیر اوپر نیچے دیواروں کے ساتھ لگا ہوا تھا۔  لوگ اودھم مچا رہے تھے۔ ایک دوسرے پر تبرے  کسے جا رہے تھے۔ ایک لڑکا  کھولی میں آئینہ لگا رہا تھا۔و  ہ منظر دیکھ کر میں بد دل ہو کر واپس آ گیا۔

پچھلے سال                      '               ایدا                      '               اپنی کار میں  نیو یارک کے بالائی علاقے میں سیر سپاٹے کے لئے  مجھےلے گئی تھی۔  وہاں کے گھر خستہ تھے۔  تاروں پر کپڑے  لٹکے ہوئے  ہوا میں اڑ رہے تھے۔

اس کا مطلب یہ  ہےکہ یہ علاقہ بے آباد نہٰیں۔ یہاں  آبادی ہے۔ ایدا نے تبصرہ کیا۔

صرف کالے لوگوں کی۔ میں نے کہا۔ ایدا         نے گاڑی آگے بڑھا دی۔   میں نے مایوسی میں ہارن پر ہاتھ رکھ کر زور سے ہارن بجا دیا۔یہ میرا احتجاج تھا۔

تم پیرا نوید ہو رہے ہو۔ پاگلانہ حرکتیں چھوڑ دو۔           کیا سیاہ فام  سے ہی ناروا سلوک ہوتا ہے۔ ایدا نے  پوچھا۔

ٹھیک ہے            !               ٹھیک ہے                 !             میں نے کہا۔ میرے علم میں ہے کہ   سیاہ فام ہی نہیں بلکہ سفید فام  بھی امتیازی سلوک کا شکار ہوسکتے  ہیں۔ میں کئی گوروں کو جانتا ہوں جو غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔  بھوک سے مر رہے ہیں۔ ان سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ میں نے اقرار کیا۔

تم سچ کہہ رہے ہو پیٹر۔  میں نے خود بھی غربت کا مزا چکھا ہے۔ میں آئر لینڈ  کے پس ماندہ خاندان سے آئی ہوں۔ بوسٹن میں پلی بڑھی ۔ فاقوں سے بچنے کے لئے میں نے کم سنی میں زیادہ عمر والے امیر آدمی سے شادی کر لی۔      ایدا  نے کہا۔  میرا خاوند   مشہور گلو کار  اور بیلے ڈانسرہے جو قریہ قریہ شو کرتا رہتا ہے ۔مجھے  شک ہے کہ   وہ ہم جنس ہے۔  مجھے اس کی ذرا بھر پرواہ نہیں۔ بہت کم گھر رہتا ہےاور میں یہاں  نت نئے نوجوانوں  سے اپنے جذبات کی تسکین کرتی ہوں۔ ایدا نے بتایا۔

میں اس وقت 25  اور ایدا                    30       سال کی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی اور میری خدمات اکثر حاصل کرتی رہتی تھی۔ ہمارے تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہتی تھی  لیکن تعلقات بدستور قائم تھے۔ میں جب بھی نیویارک آتا ، اس سے ضرور ملتا تھا۔ زیادہ تر میں شکاگو                میں رہتا تھا۔  جب میں واپس جاتا تو مطلع کر دیا کرتا تھا۔  ہم تعلقات میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوئے تھے۔ لیکن وقت مزے سے گزرتا تھا۔  اپنی اپنی ڈگر پرچل رہے تھے۔

   زندگی کی دوڑ میں میں نے چند سبق سیکھے تھے۔  ان میں اہم ترین یہ تھا کہ   صبر بڑی نعمت ہے ۔                             مجھ میں قوت برداشت پیدا ہو گئی تھی۔ جیسے ایک مکہ باز مکہ سہنے یا ایک ڈانسر  ناچتے وقت گرنے کی توقع  اور اس کو سہنے کا حوصلہ رکھتا تھا              ویسی ہی ہمت مجھ میں پیدا ہو گئی تھی۔ میں ہر صدمے اور ناگہانی صورت حال  سے مطابقت کر سکتا تھا۔  دوسری بات جو میں نے سیکھی  وہ یہ کہ غیر قانونی کام جو کالوں کی نس نس میں بسےہوتے ہیں ، سے چھٹکارا حاصل کروں۔  مجھے  غیر قانونی کاموں سے گھن آنے لگی تھی۔ اپنی بقا کے لئے  جو حرکات کیں اب ان پر  افسوس ہوتا تھا۔خود کو دغا باز سمجھنے لگتا اور بعض اوقات اپنے حق میں  دلائل نہیں دے پاتا تھا۔  ایک اور اہم بات جو میں نے سیکھی ، وہ یہ   کہ پولیس والوں سے کبھی پنگا نہیں لینا چاہئیے۔ وہ جو بھی کہیں، جس طرح کا سلوک بھی کریں ، خاموش رہنا چاہیئے۔ ان  کو کبھی اپنے حقوق کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہییے۔ ان سے بحث اور تکرار نہیں کرنی چاہیئے ۔اس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔  وہ کسی  نہ کسی مقدمے میں پھنسا دے گا۔ اگر خاموش کھڑے رہیں۔ خواہ میں سچا ہوں یاغلط   ۔  اس کی بات پر اعتراض نہ کیا    جائے  تو وہ ڈانٹ کر یا چند تھپڑ لگا کر چھوڑ دے گا۔   کئی ایسے واقعات کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھے ایسی چالاکی سے معاملات  سلجھانا  چاہیئے اور مجھے اسی طرح  کا   رویہ اختیار کرنا چاہیئے جیسا کہ            پولیس توقع کرتی ہے اور اس سے جہاں تک ہو اجتناب برتا جائے۔میرا ایک ہی دل و دماغ تھا اور اسے ٹوٹنے  میں ذرا سی دیر بھی نہیں لگ سکتی  تھی۔ اس اصول کو اپنایا۔اس لئے جب بھی میرا کسی پولیس مین سے ٹاکرا ہوتا تو میرا موقف یہی ہوتا کہ مجھے اس بارے  میں علم نہیں۔ میں منہ لٹکا لیتاس۔ اپنی آنکھیں حیرت سے پھیلا لیتا اور گول مول جواب دیتا اور اپنی زبان پر کبھی یہ لفظ نہ لاتا کہ یہ میرے حقوق ہیں۔  پہلے پہل ایسا کیا تو میری اکڑ ایک منٹ میں ختم کر دی گئی تھی۔       اسن تجربات  کے بعد پولیس مین جس قسم کے جوابات کی توقع کر رہا ہوتامیں اس کی توقع کے مطابق جواب دیا کرتا تھا۔ میں نے اسے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کی حیثیت کسی بادشاہ سے کم ہے۔ قتل، ڈکیتی، چوری  ، دنگا فساد یا کسی اور معاملے میں زیر تفتیش ہوتا  تو اپنے چہرے پر گہری معصومیت طاری کر لیتا۔ کچھ نہ بولتا  اور دعائیں پڑھتا رہتا۔ تھوڑی بہت مار پیٹ کر کے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس طرح جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے بچ نکلتا تھا۔

تمہارے جتھے کے لوگ اندر کر دئے جاتے تھے اور تم بچ نکلتے تھے۔ تمہارے بچنے کی وجہ  تمہاری تدبیر کے  علاوہ تمہاری قسمت اور  خوش قسمتی بھی شامل ہوتی تھیں۔ ایدا نے لقمہ دیا۔  تمہارے ساتھ تو بہت سے ناگہانی واقعات پیش آچکے۔ کیا تم نے یہ نہیں سیکھا۔  اس  نے عجیب سی آواز میں  اس وقت کہا جب میں نے زور سے ہارن بجایا تھا۔( ترقی یافتہ مملاک میں ڈرف اس وقت ہی ہارن بجایا جاتا ہے جب غصے کا اظہا ر کرنا ہو )

آخر تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ میں نے اس کی عجیب آواز سن کے کہا۔

اپنے غصے پر قابو رکھو پیٹر۔

تم ٹھیک کہہ رہی ہو شائد۔ میں نے کہا۔  کیا تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ میں بزدل بنوں۔

میں نے یہ کب کہا۔ ۔ ایدا بولی۔

لیکن تمہاری بات کا یہی مطلب تھا۔ میں نے کہا۔

میرا بالکل بھی یہ مطلب نہیں تھا۔ ایدا نے کہا۔  ہمیں آپس میں لڑنا نہیں چاہئیے۔ بعض اوقات سیاہ رنگ کشمکش میں مفید بھی ثابت ہوتا ہے اور تفتیشی افسر کو نسلی تعصب  قرار دے کر بیچ بچاؤ  کرلیا جاتا ہے۔وہ  اس ہتھکنڈے کو تیز چاقو کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ وہ حقائق کو مروڑ کر نسلی تعصب کا الزام لگا  کر فیصلہ  اپنے حق میں   کروالیتے ہیں۔

مجھے ان باتوں کا پہلے سے علم تھا۔ پہلے پہل میں نے یہ تکنیکیں استعمال کی تھیں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں۔  بعد میں مجھے احساس ہوتا کہ میں ہار گیا  تھا اور زیادہ نقصان اٹھایا تھا۔

یہ وہ سال تھا جب میں ایدا سے پہلی بار ملا تھا۔ ان دنوں میں سٹاک  کمپنیوں میں کام کر رہا تھا ۔ میری  یہ نوکری معقول تھی۔  میں بڑی تندہی سے کام کر رہا تھا  اور لوگ میرے کام سے خوش تھے۔ مجھ میں اس کام کی اہلیت تھی لیکن مجھے اس بات پر الجھن ہوتی تھی کہ تمام تر صلاحیتوں کے باوجود سیاہ فام ہونے کی وجہ سے   ترقی نہیں ہو پاتی تھی۔ جب کوئی مجھ پر رحم کھاتا  یا تعریف کرتا تو احساس محرومی کی وجہ سے مجھے ان پر غصہ آ جایا کرتا تھا کیونکہ الفاظ سے ترقی تو نہیں ہو سکتی تھی۔کوئی ہاتھ ملاتا تو میرے ذہن میں یہ بات آتی کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا۔  نیو یارک میں بھی میری ملاقات کئی  ایسے کاروباری حلقوں سے ہوئی جن کی سوچیں کافی پختہ تھیں۔ وہ مجھے پسند بھی کرتے تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ میں بھی  ان کے سفید فام ہونے کے باوجود ان پر اعتبار کرنے لگا تھا۔

 یہ  سوچیں  آ رہی تھیں۔ مجھے خیال آیا  کہ وہ کیا خواب تھا جس نے مجھے ہلا کر  نیند سے جگا دیا تھا۔  اس وقت  میں اپنے جیوک باکس پر لیڈویگ کے گانے سن رہا تھا۔ اس کا بڑا ڈرم اتنی تیز آواز پیدا کررہا تھا کہ میری کھولی ایسے لرز رہی تھی جیسے بہت بڑے مارچ پاسٹ میں  زمین پر دھمک سے لرزتی ہے۔

  میرا ارادہ تھا کہ میں اٹھوں اور جیولز، ایدا اور میں اکٹھے  سٹیڈیم جائیں  اور ستون کے ساتھ والی  ٹھنڈی سیڑھیوں پر بیٹھ  کر محظوظ ہوں۔ وہاں بیٹھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کرتا تھا کہ آسمان کافی دور  تھااور میں اپنے آپ میں نہیں ہوتا تھا۔، ہواؤں میں اڑنے لگتا تھا۔ میرا ذہن سوچوں سے بھر جاتا۔ ہم تینوں وہاں خاموشی سے بیٹھے رہتے۔ فضا  کے دھوئیں اور سگریٹ کے مرغولوںکو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے۔ اس دوران سیاہ فام لڑکے اپنے گلوں میں پٹے  ڈالے آئس کریم، سگریٹ، ٹھنڈے مشروب، چپس، سوڈا ، بھنے ہوئے چنے، بھنی ہوئی مکئی وغیرہ بیچنے کے لئے آتے۔  ایدا   اپنے نیلے کالے بالوں کو سنوارتی اور جیولز تیوری چڑھاتا۔ میں  اپنے گھٹنے اوپر اٹھایا کرتا  اور آدھے چاند کو دیکھنے لگتا تھا۔ اس کالے لپٹے ہوئے  دھبے والےبادل ، بغیر چہروں والے آدمی کی طرح اپنے نیچے سمندر کی طرح ہموار طریقے سے حرکت کر رہے ہوتے تھے۔ اس دوران دکانوں کی  موسیقی میں وقفہ آجایا کرتا تھا جس میں ہر ساز بند ہو جاتا تھااور صرف ایک شخص ہی گا تا تھا جب وہ اونچی لے لگاتا تھاتو دوسرے  سازندے اس کاساتھ دینا شروع ہو جاتے تھے۔ اس سے میرے جذبات  ابھر آتےتھے۔میں ایسے روتا، چیختا چلاتا  جیسے ایک نومولود اپنی ماں کی گود میں بھوک سے  بلبلاتا  ہویا ایسا گنہگار جو اپنے گناہوں کے بوجھ سے چھٹکارے کے لئے حضرت یسوع مسیح کے پاس جاتا  ہو۔  ایسی یادیں میرے لئےبے حد قیمتی تھیں۔

  میں ان یادوں میں گم تھا کہ میں نے  موسیقی کے بیچھے سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ مجھے انجانا خطرہ محسوس ہوا۔میں چوکنا ہو گیا۔ میرے بال کھڑے ہو گئے۔میں نے اپنی سگریٹ بجھا دی۔ میرے دل کی دھڑکن اتنی بڑھ گئی  کہ میں سمجھا کہ یہ چھاتی سے باہر آ جائے گا۔ اس وقت کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میرا شک یقین میں بدل رہا تھا۔

میں نے سوچا کہ اس کا جواب نہ دوں، شائد وہ اس طرح واپس چلی جائے۔ لیکن ایک بار پھر دستک ہوئی اور اس بار وہ زیادہ زور سے بجی۔

ایک منٹ۔ میں نے کہا۔   ننگے جسم پر چوغہ پہنا ۔ میں ایک چور کی طرح کانپ رہا تھا۔ میں نے اپنے اعصاب قابو کئے اور  خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔  پیٹر !                تم اس قسم کی صٖورت حال سے پہلے بھی گزر چکے ہو ۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو  سکتا ہے؟ مالکن تم سے کمرہ خالی کروا لے گی ۔ کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ تمام دنیا کمروں سے بھری پڑی ہے۔

میں نے جب دروازہ کھولا تو مالکن دروازے پر کھڑی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ و سپید تھا اور ہسٹریائی انداز میں کانپ رہی تھی۔  اسے دیکھ کر میرا منہ خشک ہو گیا۔

تم کون ہو؟     میں نے  تو تمہیں یہ کمرہ کرائے پر نہیں دیا۔

میں نے اسے کچھ کہنا چاہا تو اس نے اس سے پہلے ہی بول دیا۔

میری پراپرٹی میں ایک بھی کرایہ دار ایسا نہیں جو سیاہ فام ہو۔ تمام  لوگ شکایت کر رہے ہیں۔ خواتین  رات کو اپنے گھر جاتے ہوئے           تمہاری وجہ سے  ڈرتی ہیں۔مالکن نے کہا۔ تمہیں یہ کمرہ خالی کرنا ہو گا۔

ان کو مجھ سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت  نہیں۔ میں نے جواب دیا۔میں نے اپنا لہجہ نرم ہی رکھا۔ میری آواز میرے گلے میں پھنس کر رہ گئی لیکن اندر سے مجھے اس پر بےحد طیش آیا اور میں اسے قتل کر دینا چاہتا تھا۔ میرے دوست نے یہ کمرہ میرے نام پر کرایہ پر لیا تھا۔کسی نہ کسی طرح میں نے یہ الفاظ ادا کئے۔

 مجھے افسوس ہے  لیکن اسے ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ مجھے تم سے کوئی شکائت نہیں ہے لیکن تمہیں یہ کمرہ خالی کرنا ہو گا۔  اس کی عینک کے شیشے روشنی میں دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔  میرے سیاہ فام ہونے کی وجہ سے  اس کو یہ خوف بھی تھا کہ کہیں میں اسے غصے میں آ کر قتل ہی نہ کر دوں لیکن اس سے زیادہ اس کو اپنی پراپرٹی کے سفید فام کرایہ داروں سے خطرہ تھا کہ اگر میں وہاں رہا تو کسی اور جگہ چلے جائیں گے۔اس کی سانسیں تیز ہو گئی تھیں۔ اس کے ہونٹوں پر پٹڑی جمی ہوئی تھی۔  اس کے منہ کے کناروں پر تھوک جمع تھی اور بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے جیسے سخت گرمیوں میں باسی گوشت کے ہوتے ہیں۔

تم مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتیں۔  کرایہ نامہ میرے نام پر ہی ہے  ۔ کرایہ پیشگی ادا کیا جا چکا ہے۔ میں یہاں پر قانونی طور پر رہ رہا ہوں۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔             تم مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتیں۔ میں نے اسے  ایسے کہا کہ جیسے معاملہ ختم ہو گیا ہو۔

میرے گھر سے فوراً نکل جاؤ۔ مجھے پورا حق حاصل ہے کہ میں یہ جان سکوں کہ میری پراپرٹی میں کون رہ رہا ہے !              یہ جگہ سفید فام لوگوں کے  لئے ہے۔ میں رنگدار لوگوں کو اپنی پراپرٹی کرائے پر نہیں دیتی۔   تم لوگوں کے رہنے کا علاقہ بالائی  نیو یارک ہے۔ تم وہاں جا کر کیوں نہیں رہتے۔  مالکن نے کہا۔

مجھے کالے لوگ پسند نہیں۔ میں نے اسے جواب دیا۔ یہ کہہ کر میں نے دروازہ بلند کرنا چاہا تو اس نے دروازے میں پاؤں پھنسا دیا۔ میں نے غصے سے اس کا جھر یوں سے بھرا چہرہ       سفیددیکھا جو اس وقت ڈرا ہوا لیکن پر عزم تھا۔  میرا اس وقت دل چاہا کہ کلہاڑی سے اس کی کھوپڑی کے پر خچے اڑا دوں لیکن  خیالات کو عملی جامہ نہ پہنچا سکا۔

پاؤں دروازے سے نکالو۔ میں لباس بدلنا چاہتا ہوں۔ میں جان چکا تھا کہ وہ خاتون جیت چکی تھی۔ مجھے وہ کمرہ چھوڑنا ہی پڑنا تھا۔ وہ خوفزدہ ہونے کے باوجود وہیں کھڑی رہ کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورتی رہی۔ میں نے ذہن میں اسے گندی گندی گالیاں دیں۔چوغے کے نیچےمیرے سارے جسم پر سوئیاں چبھنے لگیں۔ میرا دل کیا کہ اس کے ساتھ وہی بہیمانہ سلوک کروں جو میں نے چند سال پہلے کیا تھا۔اگر ان سفید فام لوگوں کو اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو مجھے مار ڈالتے۔ مزید برآں میں کسی نئے پنگے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔

دروازے سے پاؤں نکال لو  میں نے کپڑے تبدیل کرنے ہیں۔ میں نے اسے کہا۔

وہ کچھ نہ بولی اورگھورتی رہی۔

میں نے آنکھوں میں مستی بھر کر شرارتی لہجے میں کہا۔ ۔۔ تو پھر اندر آ جاؤ تاکہ میں کپڑے بدل لوں۔

کمرہ فوراً خالی کردو، نہیں تو میں پولیس بلا کر تمہیں بے دخل کروا دوں گی۔ مالکن نے دھمکی دی۔

میں نے دروازہ پکڑ لیا لیکن اسے نہ چھوا کیونکہ اگر ایسا کرتا تعزیرات کے دائرے میں آتا اور گرفتار کر لیا جاتا ۔

ٹھیک ہے !          ٹھیک ہے !            میں یہ منحوس کمرہ خالی کر دوں گا ۔  تم دفع ہو جاؤ۔ لیکن مجھے لباس تو بدلنے دو۔  میں نے کہا۔

یہ سن کر وہ مڑی  اور چلی گئی۔ میں نے اسے سیڑھیاں اترتے ہوئے سنا۔  میں نے اپنا سامان اٹیچی کیس  میں ڈالا۔ میں زیادہ سے زیادہ           دیر کرنا چاہتا تھا۔ لیکن یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں مالکن پولیس لے کر ہی نہ آ جائے۔ اس لئے میں نے داڑھی          بھی نہ مونڈی اور کمرہ چھوڑ  کر جیولز کے پاس چلا گیا۔

 جب میں وہاں پہنچا تو میرا  دوست جیولز کافی بنا رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر پوچھا

خیر تو ہے۔ صبح صبح کیسے آن ٹپکے۔

اس چال میں اب میرا کمرہ نہیں رہا۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اٹیچی فرش پر رکھ دیا۔

جیولز نے میری طرف دیکھا اور کہا۔ کافی آ رہی ہے۔ بیٹھو ۔ وہ کافی پیالیوں میں ڈالنے لگا۔ میں بیٹھ گیا۔ سگریٹ سلگائی اور پینے لگا۔ میرا ذہن بالکل خالی تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بات کروں۔  جیولز اس واقعے میں شرمندگی محسوس کر رہا  تھا لیکن اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس نے تو میرا بھلا  ہی کیا تھا۔  اس نے میرے سامنے کافی کی پیالی، چینی اور کریم رکھ دی۔

جانی           !                              خوش رہو۔دنیا وسیع ہے اور زندگی سے بھر پور ہے۔۔۔ زندگی ایک طویل سفر ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔  جیولز نے کہا۔

بکواس بند کرو۔ میں تمہاری بکواس اور بیکار کا فلسفہ سننے کے موڈ میں نہیں ۔ میں نے کہا۔

مجھے افسوس ہے۔  دل پر نہ لو۔ جیولزنے کہا۔

میرا مطلب ہے کہ ہمیں اچھی باتیں   کرنی چاہییں  لیکن اگر تمہارا دل نہیں چاہتا تو  تمام آداب کو ملحوظ خاطر میں نہ لاتے ہوئے اونچی اونچی گالیاں بکو۔ خوب چیخو چلاؤ۔  جیولز نے کہا۔

ایسا کرنے سے کسی بہتری کی امید نہیں۔ ویسے اب میں بڑا ہو چکا ہوں۔ کافی میں چمچ ہلاتے ہوئے میں نے کہا۔

کیا تمہاری اس سے لڑائی ہوئی؟  جیولز نے پو چھا۔

میں نے نفی میں سر ہلایا۔

کیوں ؟  اس نے پوچھا۔

میں نے کندھے اچکائے۔

تمہیں آسانی سے وہ جگہ خالی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ اسے ناکوں چنے چبوانے کے بعد ہی چھوڑنا چاہیئے تھا۔ جیولز نے کہا۔

میں نے پھر کندھے اچکائے لیکن اس بار کچھ شرمندہ بھی تھا  کیونکہ وہ صحیح کہہ رہا تھا لیکن میں نے جواب دیا کہ میں اس سے جیت نہیں سکتا تھا۔

یہ بھی ہو سکتا تھا کہ تم جیت جاتے۔ کچھ اس کے ساتھ برا تو  کر سکتے تھے۔ جیولز نے کہا۔

اس قضیے پر لعنت بھیجو۔ میں اس پر سوچ سوچ کر تنگ آ گیا ہوں۔  پولیس اور عدالتوں کا چکر نہیں کاٹ سکتا۔ میں تمام وقت ٹام، ڈک، ہیری  اور ایسے لوگوں سے الجھا رہا ہوں۔اتنی لڑائیاں کی ہیں نتیجہ  وہی ۔۔۔ڈھاک کے تین پات۔اب تو مجھے یہ شک بھی ہونے لگا  ہےکہ میں انسان ہوں بھی یا نہیں۔   میں تھک چکا   ہوں۔اس جگہ سے بیزار ہو چکا   ہوں۔  ذہن  پر اب مزید زور دینا نہیں چا ہتا ۔   ہر جھنجھٹ   سے پاک رکھنا چاہتا    ہوں۔ اگر مزید ان معاملات میں پڑا تو میری جگہ اب بیلی وییو دماغی ہسپتا ل ہو گا۔ میں اپنا سر اڑا لوں گا یا کسی کی کھوپڑی چٹخا ڈالوں گا۔  میں  اس وقت بوسیدہ اور گھٹیا کمرے کے بارے میں پریشان نہیں   بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا  ہے اور  غلط ہو رہا ہے۔ میرے ذہن میں لاوا پھٹ رہا  ہے۔ میں اب گلیوں میں آوارہ گردی نہیں کرتا۔ میں کسی اجنبی  مقام پر جا نے سے ڈرتا   ہوں کہ جانے میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ اس سے قبل میری یہ کیفیت کبھی بھی نہ ہوئی تھی۔ میرے ذہن میں سوال ابھرتے تھے کہ کیا لوگ مجھے قبول کر لیں گے۔ اگر انہوں نے  ایسا کرلیا تو کیا میں بھی انہیں تسلیم کر لوں گا۔میں نے کہا۔

سکون کرو۔ تم  جذباتی ہو رہے ہو۔جیولز نے کہا۔

میں شکست خوردہ ہوں۔میں ٹوٹ چکا ہوں۔ کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔  میں نے کہا۔

میں ایسا نہیں سمجھتا۔ جیولز نے کہا۔

اوہ                !                  میں چیخا۔ تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں کوئی ڈرامہ کر رہا ہوں یا  ذہنی مریض ہوں۔پریشانی پیدا کر رہا ہوں!              میں بار بار اتنا ذلیل ہوا ہوں کہ اب بے عزتی میرے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ تم ایک یہودی ہو ۔ سفید فام ہو۔ تمہارے ساتھ بھی امتیازی سلوک ہوتا ہوگا لیکن وہ اتنا سنگین نہیں۔تم گوری چمڑی کی وجہ سے ہر قسم کی نوکری حاصل کر سکتے ہو۔ تم ہر جگہ جا سکتے ہو۔ تم کیسے سمجھ سکتے ہو کہ میری حالت کیا ہو گی اور کیسی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ کالے کے لئے یہاں کتنے مسائل ہیں۔ میں اپنی مرضی سے تو کالا نہیں بنا۔ میری نسل ہی سیاہ نسل ہے۔ میں اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔ میں کسی نے نفرت نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ لیکن شائد اب ایسا کروں ،  میں کسی سے محبت بھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی حقیقی دوست بنا سکتا ہوں۔  کیا ہم دوست ہیں؟  کیا ہم حقیقی دوست ہیں ؟  میں نے کہا۔

ہم دوست ہیں ۔ جیولز نے کہا۔ اس بارے   نہ تو افسردہ ہو اور نہ ہی افسوس کرو۔ میں  تمہیں مشورہ دیتا  ہوںکہ تم   ہرلیم   جا کر رہو۔ وہ تمہارے لئے محفوظ جگہ ہے۔ جیولز نے کہا۔

اس کی بات سن کر میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔

میں یہودی ہو ں ۔ میرا علاقہ الگ ہے  اسلئے تم سے یہ  کہا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود میں اس سلسلے میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔  ۔۔ لیکن تم اس وقت  یہ تو کر سکتے  ہوکہ غم دور کرنے کے لئے گھومو پھرو۔  سیر کرو۔ دھیان بٹ جائے گا ۔ ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں۔ جیولز نے کہا۔

وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ چکا تھا۔ اس کی بات سن کر میں اٹھ کھڑا ہوا  اور جیولز کو کہا  کہ میں کچھ دیر  بعد واپس آ جاؤں گا۔ مجھے اپنی باتوں پر افسوس ہے جو میں نے تمہیں کہیں۔

افسردہ ہونے اور معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم جس وقت بھی آؤ، دروازہ کھلا ملے گا۔ جیولز نے کہا۔

شکریہ۔ میں نے کہا لیکن اندرونی طور پر میں ڈوب رہا تھا۔ نفرت نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔

ایدا  اور میں رات کو ملنے والے تھے۔ اس نے  ایک دور دراز  گاؤں کے ایک اطالوی ریستوران جہاں لوگوں کی آمدورفت کم ہوتی تھی، میں پروگرام طے تھا۔ اس میں مکمل رومانوی ماحول تھا۔ میزوں پرموم بتیاں سجائی گئی تھیں۔ میں وہاں پہنچا تو  کمرے کے ایک طرف دو تین جوڑے بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے داخل ہونے کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ میں ایک کونے  کی میز پر بیٹھ گیا اور سکاچ کا آرڈر دیا۔ ایدا  اس وقت نہیں پہنچی تھی۔ اس کے آنے تک میں تین  پیگ پی چکا تھا۔ ایدا آئی تو اس نے کالے رنگ کا  بند گلے کاخوبصورت  لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ اس نے موتیوں کا ہار پہنا ہوا تھا۔ اس نے بال پیارے انداز میں سنوارے ہوئےتھے جو اس کے کانوں پر پڑ رہے تھے۔

تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو  بے بی۔ میں نے  اس کی تعریف کی۔

ایسا میک اپ کرنے میں 15 منٹ زیادہ لگتے ہیں لیکن   جو عمدہ نتیجہ نکلتا ہے  اتنی دیر جائز  ہے۔

واقعی اس  مزید میک اپ سے تمہاری خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ میں نے کہا۔ تم کیا پیو گی۔

اوہ                    !                  تم کیا پی رہے ہو۔ ایدا نے پوچھا۔

وہی پرانی والی۔  میں نے جواب دیا۔

کتنی؟ ایدا نے پوچھا

تین۔

واہ۔    تمہیں  سوچنا سمجھنا چاہیئے ۔ حد میں رہو۔اس نے کہا۔ اتنے میں ویٹر آگیا۔

ایک لسانییا، ایک مین ہٹن  اور چٹنی کے ساتھ سپےگیٹی لے آؤ اور پینے کے لئے  پرانے آرڈر کو دہرا دو۔

کیا تمہارا دن تعمیری رہا جان من۔ایدا نے سوال کیا۔

نہیں۔ کوئی  بہتری نہیں آئی۔ مجھے بلدیات سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے ۔ ساحل پر جانے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔  وہاں یہاں سے زیادہ اجرت ملے گی ۔ یعنی مجھے صفائی وغیرہ کی نوکری وغیرہ  کے لئے درخواست دینے کو کہا گیا ہے۔اچھی نوکری ملنا بہت مشکل ہے۔میں نے کہا۔

اگر تمہیں کوئی اچھی نوکری نہ ملی تو تم ان کو بتا دو کہ  کوئی فلمساز لے لے گا یا  کوئی اچھی نوکری دلا دے گا۔ تمہارا اس میں تجربہ ہے۔ ایدا نے تجویز دی۔

تمہیں  یہ بات مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں یہ بات پہلے سے ہی جانتا ہوں۔میں نے کہا۔اگر مجھے دو ہفتوں میں ڈھنگ کی نوکری نہ ملی  تو میں نیویارک چھوڑ دوں گا۔

یہ ہوئی نہ بات ڈارلنگ۔ ایدا نے کہا۔

ویٹر ڈرنکس لایا ۔ ایک دو منٹ کے لئے ہم خاموش ہو گئے۔ میں آدھا گلاس ایک ہی وقت میں خالی کر دیا اور میز پر پڑے ہوئے خلال کی تیلیوں سے چھیڑ خوانی کرنے لگا۔ تمام وقت ایدا مجھے دیکھتی رہی۔

پیٹر  !            تم نے بہت پی لی ہے۔ چڑھ جائے گی۔ ایدا نے تنبیہ کی۔

ایک بات یاد رکھنا کہ ہم   امریکی اس معاملے میں بہادر ہوتے ہیں۔ ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔ انہیں  اچھی طرح معلوم ہے کہ اسے کیسے ہضم کرناہے۔میں نے جواب دیا۔

پرانی تہذیب اور قدیم پتھروں کی طرح   یہ نظریہ اب متروک ہو چکا ہے لیکن تم تو نیو جرسی سے آئے ہو۔ایدا نے کہا۔

ان  کی خصوصیت  بھی ایسی ہے جیسا کہ جنوب والوں کی۔یہ قول صادق ہے۔ میں نے غرا کر کہا۔

مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ معاملہ پینے پلانے سے رکاوٹ کی طرف جا رہا تھا۔ ایدا کا منہ کسی حد تک بند تھا 'اس کی ٹھوڑی پر تھوڑا  شگاف پڑا تھا  ۔       جو اس کے غور و فکر کرنے کی علامت تھی۔

تمہیں کیا ہوا ہے  پیٹر؟    ایدا نے فکر مندی سے پو چھا۔

کچھ خاص نہیں۔میں نے اپنے چہرے پرزبر دستی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔  بس میرا موڈ آج کچھ ایسا ہی ہے۔

اب مجھے پختہ یقین ہو گیا ہے کہ تمہارے ساتھ کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہے۔  اگل دو۔ کچھ نہ چھپاؤ۔ایدا نے  کہا۔

اس کی اس ہمدردی نے  تیل پر جلتی کا کام کیا۔  میں نے تمہیں بتایا تھا کہ جیولز نے میرے نام پر ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا۔  مالکن نے مجھے اس کمرے سے باہر نکال پھینکا ہے۔ میں نے کہا۔

اللد  جمہوریہ امریکہ پر رحم کرے۔ اس نے سینے پر کراس بناتے ہوئے کہا۔ کیا تم میرے خاوند کی کچھ رقم ضائع کرنا چاہو گے تاکہ اس مالکن پر مقدمہ کیا جا سکے؟ ایدا نے پیشکش کی۔

اگر ایسے ہی مقدمات کرتا رہا تو مجھے امریکہ کی ہر ریاست میں مقدمے کرنا پڑیں گے۔ میں نے اسے جواب دیا۔

اس کے باوجود  نیک خواہشات کے اظہار کے طور پر۔۔۔ ایدا نے پیار سے کہا۔

اس وقت ویٹر کھانا لے کر آ گیا۔ان باتوں سے میری بھوک اڑ گئی تھی ۔ میرا کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔  ایدا لسانییا کاٹنے لگی۔ چونکہ کھانا منگوا لیا تھا اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی میں  نے لسا نییا کا ایک نوالہ منہ میں  ڈالا تو وہ حلق میں اٹک گیا۔

پیٹر !                   اپنےبارے میں اتنا نہ سوچو۔ ہم سب اس اذیت میں  مبتلاہیں۔ پوری دنیا  نسلی امتیازات کا

 شکا ر ہے۔ اس بلا نے ہم سب کو جکڑ رکھا ہے۔ اس کا اتنا گہرا اثر نہ لو اور امتیازی سلوک کے مسئلے کے ساتھ زندہ رہنا سیکھو۔ ایدا نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔

تم سفید فام ہو اس لئے تم یہ بات کہہ سکتی ہو ۔ میں نے طنز کی۔

یہ بات سن کر اس نے فوراً میری طرف دیکھا اور پھر چہرہ دوسری طرف کر لیا اور کہا کہ میں تمہیں مجبور نہیں کر رہی کہ ایسا کرو اور نہ ہی یہ آسان کام ہے۔ ایدا نے کہا۔

میرا خیال تھا کہ وہ میرے سیاہ فام ہونے کے مسائل سے پوری طرح آگاہ نہیں تھی۔اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ میں کن مشکلات کی بات کر رہا  تھا۔ بھلا ایک سفید فام ایک حبشی کی تکالیف کیسے سمجھ سکتی تھی۔  وہ ہر مقام اور ہر قسم کے لوگوں کے لئے قابل قبول تھا اور کالے کسی جگہ پر بھی نہیں۔ لیکن میں اسے اس ماحول میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا اور ایک ایسے بچے کی طرح سر جھکا کے سر نیچے کر کے بیٹھ گیا جیسے  وہ اپنی والدہ کی ڈانٹ سنتے وقت بیٹھتا ہے۔ میں ا پنی پلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ کچھ نہیں کھا رہا تھا۔ میری خواہش تھی کہ وہ بولنا بند کردےاور نام نہاد نصیحتیں نہ کرے۔ جوں جوں وہ گفتگو کر رہی تھی میرےضبط کا بندھن ٹوٹ رہا تھا۔ وہ اپنی پرورش جو اس نے سفید فام  غریب آئرش ہونے کی وجہ سے اس نےظلم  سہےتھے ، بیان کرنے لگی۔ میں  سوچ رہا تھا کہ ہم میں سے کوئی بھی ذہنی طور پر  مکمل مطمئن نہیں۔

ایدا  مسلسل بولے جا رہی تھی۔ کسی جگہ بہتری نہیں ہے۔ تمام یورپ میں قحط  اور بیماریاں پائی جاتی ہیں۔فرانس اور انگلستان میں سب یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ کہیں بھی کچھ تبدیل نہیں ہونے والا بے بی۔ لوگوں کے ذہن بغض سے بھرے ہیں۔ ایسا ہمیشہ سے رہا ہے۔ وہ ہمیشہ اشیا تباہ کرنے پر تلے  ہوتے ہیں۔ وہ  نہیں سمجھتے۔ وہ تقریباًہر شئے سے نفرت کرتے ہیں۔

میں اس کے سامنے بیٹھا پسینے  میں بھیگ رہا تھا۔ میں چاہ رہا تھا کہ وہ خاموشی سے اپنا کھانا کھائے اور مجھ سے باتیں نہ کرے۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔میں نے نگاہ اٹھائی تو اس دوران   ریستوران میں کافی جوڑے آ چکے تھے۔ ویٹر ایک میز پر آرڈر لے رہا تھا۔ ایک جوڑا داخل ہو رہا تھا۔

پیٹر  !               پیٹر                           !                   ایسے ادھر ادھر نہ دیکھو پلیز۔ مت دیکھو۔ایدا نے کہا۔ لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔

فکر مت کرو بے بی۔میں پوری طرح آگاہ ہوں کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔ میں ان لوگوں کے پاس چلا جاؤں گا جہاں سے میں تعلق رکھتا ہوں۔وہ مجھے قبول کر لیں گے۔ مجھے سراہیں گے اور ایک اچھا سیاہ فام چھوکراسمجھیں گے۔ میں بچے پیدا کرکے ان  جیسی پرورش کروں گا۔ ایدا               نے نصیحت کا دامن نہ چھوڑا۔وہ  ایسے پند و نصائح کر رہی تھی جیسی میری ماں کیا کرتی تھی۔

 تم اب بڑے ہو چکے ہو۔ منہ بسورنا اور رونا دھونا چھوڑ دو۔ گلے شکوے کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس نے اپنی انگلیوں کے درمیان کانٹا لے کر لا سانییا کا ایک ٹکڑا اٹھایا۔ وہ مزید بولنا چاہتی تھی کہ میرا پیمانہ صبر سے لبریز ہو گیا۔    مجھ سے برداشت نہ ہو۔میں نے دانت پیسے  ۔ اٹھ کھڑا ہوا ۔  پاؤں پٹخے ۔موم بتی پر زور سے ہاتھ مار کر اسے دور پھینک دیا۔ چیخ کر کہا۔ میرے ساتھ ایسا نہ کرو۔ایسا میرے ساتھ کبھی نہ کرنا۔ میری چنگھاڑ سے ریستوران میں موجود تمام جوڑے میری طرف متوجہ ہو گئے۔ میری  گوروں پر نظر پڑی تو میں حواس باختہ ہو گیا اور مجھ کالے حبشی کے ساتھ جو سلوک ہونے والا تھا، سوچ کر لرز گیا۔

ایدا نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اٹھی۔ گری ہوئی موم بتی اٹھائی اور میز پرپھر سے ٹکا دی اور میری طرف دہشت زدہ ہو کر دیکھا۔ اس کا چہرہ یک دم پیلا پڑ چکا تھا لیکن اس نے اپنے غصے کو ضبط کرکے کہا۔بیٹھ جاؤ۔ بیٹھ جاؤ۔ میں بیٹھ گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میرا پیٹ اس وقت پانی سے بھرا ہوا ہو۔لوگ متجسس ہو کر ایک سیاہ فام اور ایک خوبصورت سفید فام خاتون کو دیکھ رہے تھے اور تیاری  کر رہے تھے کہ میری درگت بنائیں۔

مجھے اپنے کئے پر افسوس ہے ۔مجھے بہت افسوس ہے ۔ میں نے کہا۔

  اس واقعے کو دیکھ کر ویٹر تیزی سے ہمارے میز پر آیا ۔کیا سب خیریت ہے مس؟    اس نے ایدا سے مخاطب ہو کر ادب سے پوچھا۔ اب میری قسمت ایدا کے جواب پر منحصر تھی۔

ٹھیک ۔  سب ٹھیک ہے۔ ایدا نے بڑی تمکنت سے کہا۔ شکریہ۔بل لے آؤ۔

اس نے اس انداز سے اسے کہا جیسے وہ کوئی شہزادی ہو اور اپنے غلام کو کوئی حکم دے  کر واپس بھیج رہی ہو۔ میں نے اپنی نگاہیں نیچے ہی رکھیں۔میرے پیٹ میں پانی بھر جانے کا جو احساس پیدا ہوا تھا وہ یکدم ختم ہو گیا۔ ویٹر واپس چلا گیا ۔

بے بی۔ مجھے معاف کر دو، مجھے معاف کر دو پلیز ایدا۔میرا ہاتھ میز کے کپڑے پر تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا تو سفید اور سیاہ رنگ کا ملاپ نظر آیا۔

چلو ۔ اب چلیں ۔ میں نے کہا۔مجھے اس واقعے پر دلی افسوس ہے۔

کہاں جائیں ؟  نائٹ کلب  یا سینما   یا کچھ اور۔ ایدا نے خمار آلو د آواز میں کہا۔

نہیں جانی۔ آج نہیں۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اب جیولز کے پاس جانا چاہئے۔ میں کچھ دیر اس کے کمرے کے فرش پر سونا چاہتا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔میرے بارے فکر مند  نہ ہو۔ جلد سنبھل جاؤں گا۔

ایدا نے میری طرف  خمار آلود  نگاہوں سے کہا۔  پرو گرام کل تک ملتوی؟

ہاں بے بی۔ میں نے جواب دیا۔

ویٹر بل لے کر آگیا۔ ایدا نے حساب چگتا کیا اور بڑی سی ٹپ دی۔

ہم ریستوران سے باہر نکلے۔ فاصلہ عبور کرتے وقت تمام وقت میری نگاہیں زمین پر ہی رہیں۔ میں لوگوں کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔میرے پٹھے اکڑے ہوئے تھے۔ باہر جانے کا رستہ بہت لمبا              لگ رہا تھا۔ ریستوران سے باہر آ کر میں نے اپنے ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈال لئے۔  ہم فٹ پاتھ پر چلنے لگے۔ سامنے سینما ہال ۔ تھیٹر اور نائٹ کلب تھا۔ ان کی چکا چوند روشنیاں دور سے ہم پر پڑ رہی تھیں۔

پیٹر!

ہاں !

میں تم سے کل ملوں گی۔ تمہارا انتظار کروں گی۔ اب تک کے لئے اتنا ہی کافی۔ کل پھر ملیں گے۔ شب بخیر ڈارلنگ۔

شب بخیرجان من۔ میں نے جوابا ً کہا۔   ہمارے راستے جدا ہو گئے اور مخالف سمتوں پر چل پڑے۔ میں نے اس کی آنکھوں کی گرمی  اپنی پشت پر پڑتے محسوس کی۔ میں نے فٹ پاتھ پر پڑی کوک  کو ٹھوکر ماری اور وہ لڑھکتی ہوئی دور جا گری۔  خدا امریکی جمہوریہ کو نظر بد سے بچائے۔ میں نے منہ ہی منہ میں کہا۔

سب وے سٹیشن آ گیا تو میرا جیولز کے پاس جانے کا ارادہ تبدیل ہو گیا اور  سیاہ فام لوگوں کی بستی ہرلیم جانے کا ارادہ کر لیا جونیویارک کے  نواحی  پس ماندہ بالائی جزیرے میں تھی۔پتہ نہیں  میں نے   اپنا ارادہ کیوں بدلا۔ میں  نے کیوں ایک انجانی جگہ جا نے کا فیصلہ کیا۔  سب وے  ایک چمکتے دمکتے جزیرے پر جا رہی تھی۔ میں  ریل کار میں لگے اشتہارات، گلابی چہروں والے افراد،  سگریٹ ، ٹافیاں، شیونگ کریم۔ نائٹ گاؤن ، اخبارات  وغیرہ دیکھنے لگا۔  ریل کار ایک سٹیشن پر رکی تو ایک نوجوان سفید فام جوڑا داخل ہو گیا۔ لڑکی چھوٹے قد کی تھی لیکن بہت پیاری تھی۔ وہ دونوں میرے سامنے کھڑے ہو کر آپس میں چھیڑ خانی کرنے لگے۔وہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ہاتھوں میں جھول رہی تھی۔ لڑکا گٹھےہوئے جسم کا تھا اور فٹ بال کھلاڑی لگتا تھا۔ انہوں نے گرمیوں والے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ لڑکی نے جو ٹاپ پہنا ہو تھا  اس کی لمبائی گھٹنوں سے اوپر تھی اور  ہوا سے اڑ رہا تھا ۔  اس نے اسے گھٹنوں سے پکڑ ا ہوا تھا تاکہ وہ نہ اڑےاور مکمل  بے پردگی نہ ہو۔وہ ایک دوسرے سے کھسر پھسر کرکے قہقہے لگا رہے تھے۔میں اس لڑکی کوگھوررہا تھا۔ مجھے دیکھا  تو وہ سہم گئی ۔مسکرانا بند کر دیا اور منہ دوسری طرف کر کے کھڑی  ہو گئی ۔دونوں نے میری طرف بالکل نہ دیکھا۔  مجھے ان دونوں سے نفرت ہو گئی۔ میں پھر اشتہارات دیکھنے لگا۔ وہ دونوں اگلے سٹیشن پر اتر گئے۔

 کرتے کرتے میں منزل مقصود پر جا پہنچا جو   ہرلیم  تھی  جو 7 ویں  ایوینیو  پر تھی۔ وہاں چہل پہل تھی۔ فریم کئے ہوئے تاریخی فوٹو  جگہ جگہ لگے تھے۔ اونچی ایڑیوں والی   کالیاں چھوٹے چھوٹے کپڑے پہنے ٹک ٹاک ، ٹک ٹاک کرتی پھر  رہی تھیں۔  سفید فام پولیس   گلیوں اور بازاروں میں گشت پر تھی تاکہ امن و امان قائم رکھا جا سکے۔ مجھے ایک سیاہ فام پولیس مین بھی نظر آیا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ یا خدا امریکی جمہوریہ کو محفو ظ رکھ۔

لاؤڈ سپیکروں پر گانے بج رہے تھے۔ ہر جگہ رونق تھی ۔زندگی سے بھر پور جگہ تھی۔ سیاہ فام اچھل کود، ناچ گانے، پینے پلانے میں مست تھے۔ کسی کو کوئی فکر فاقہ نہیں تھا۔ کھوکھوں پر منشیات سر عام فروخت کی جا رہی تھیں۔ رنڈیوں کے بھاؤ تاؤ کئے جا رہے تھے۔ نائٹ کلب تھا۔میک اپ سے لپے ہوئے چہرے جھومتے ہوئے پھر رہے تھے۔ موٹے، گوشت  سے بھرپور  ،  چوڑے چپٹے ناک جو دونوں گالوں تک پھیلے ہوئے تھے ، رات کی سیاہی سے بھی سیاہ   اور سپاٹ آنکھیں لئے اپنے آپ میں مگن تھے۔  کسی نے میری طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھا۔  ایک  کھوکھے پر گیا  تو  وہاں ایک دادی اماں ٹائپ کی آزاد خیال خاتون کھڑی  ہر ایک کو فلرٹ کر  رہی تھی۔ اس نے بے باکی سے کہا۔

ہیلو پاپا                     !               تم یہاں  کیا کر رہے ہو ؟

تم کیا  چاہتی ہو؟  میں نے اسے بے رخی سے کہا۔

بے بی۔ تم مجھے سنبھال نہیں پاؤ گے۔ اس خاتون نے کہا۔

 میں نے اس کی بات  کا جواب  نہ دیا۔میرا مشروب آیا اور میں وہ لے کر ہٹ گیا۔

او کالے !  آخرتم خود کو کیا سمجھتے ہو ؟ اس نے کہا

میں نے منہ دوسری طرف کر لیا  اور کوئی جواب نہ دیا،

وہ بیر لے کر  موسیقی کی دھن پر ڈانس کرتی ہوئی چلی گئی۔ میں چور آنکھوں سے اس کا جائزہ لینے لگا۔ وہ بھرے جسم کی مالک تھی۔ اس کےجسم پر کافی گوشت تھا۔ کھنڈرات کہہ رہے تھے کہ عمارت عظیم تھی۔ اپنے وقتوں میں  بہت پیاری رہی ہوگی۔ اس نے جانے کتنے بستر گرم کئے ہوں گے۔  اس کا گوشت کچھ ڈھلک گیا تھا۔ اس کا موٹا جسم صاف نظر آ رہا تھا۔ اب بھی بری نہیں  تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت وہ بستر پر کیسی رہی ہو گی اور اب کیسی ہو گی۔ ایسا سوچنے سےمجھے ایسا لگا کہ مجھے وہ جنسی طور پر  اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔  میں نے منہ ہی منہ میں اسے کہا                     '              بیئر کی رسیلی              

جیوک باکس پر اب نیا گانا چل رہا تھا جو کمرشل تھا ۔ ایسے گانے مجھے پسند نہیں تھے۔ میں ایک طرف بیٹھ گیا اور طرفین کا جائزہ لینے لگا۔ میں اس بات پر افسوس کر رہاتھا کہ خواہ مخواہ دادی اماں کو ناراض کر دیا ۔ میں  لوگوں کو دیکھتا رہا۔ انہیں سنتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ  میری بائیں جانب دادی اماں ایک نوجوان خاتون تھی اور وہ  مست  تھیں۔ میں چاہ رہا تھا کہ تلافی کی جائے۔ کوئی ایسا  طریقہ  اپنایا جائے کہ برف پگھلے تاکہ میری زندگی میں  کچھ تو رونق آئے۔ مجھے ایک سفید فام نظر آیا جو خوب مزے کررہا تھا۔  میرا ایک من یہ کہہ رہا تھا کہ واپس چلا جاؤں لیکن ایک دل کہہ رہا تھا کہ آگے بڑھا جائے۔  میں نے ان خواتین کو دیکھا تو   میرے منہ سے بے اختیار نکالا۔

کیا میں  ڈرنک کی پیشکش کر سکتا ہوں۔

میں بیئر لوں گی۔ نوجوان خاتون نے کہا۔

بے بی  تم کیا چیز ہو ۔ تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہے۔ میرے لئے بھی بیئر۔ دادی نے کہا۔

میں کپکپا رہا تھا۔ میں نے ہنسنے کی کو شش کی۔ میری کوئی کہانی نہیں۔

 انہوں نے میری پیشکش قبول کرکے میرے لئے راہ ہموار کر دی تھی۔  ویٹر تین بوتلیں لے آیا۔ میں اپنے لوگوں میں آگیا تھا اور  خوش تھا۔

تجزیہ

 

جیمز  بالڈ وین ایک ترقی پسند ادیب تھا۔ اس نے پوری عمر کالوں کے حقوق حاصل کرنے میں صرف کر دی۔ اس کے مشاہدات اور ماضی  کی کیفیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ امتیازی سلوک جو مختلف نسلوں اور مذاہب کے ساتھ روا رکھا جاتا  ہے ،کی سوجن   کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اسے برداشت کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ کوئی شخص بھی مکمل حالت سکون میں نہیں ۔ ہر ایک اپنی سماجی حیثیت کے حساب  سے مسائل کا شکار ہے۔ مشکلات کی نوعیت اگرچہ مختلف ہو تی ہے لیکن جو ذہنی کوفت اور اذیت کسی کو نسل پرستی  ، مذہبی تعصب اور غلام ملک میں ہو تی ہے ، اس کا عشر عشیر بھی  دوسرے طبقے کو نہیں ہو سکتا۔  یہی بات اس نے اس کہانی  (  پری وییس  کنڈیشن) میں پیش کی ہے جو اس مجموعی افسانوں کے مجموعے           '                 گو       ئنگ    ٹو میٹ    دا   مین       '             سے لی گئی ہے۔

ہر شخص کا اپنا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اپنے انداز سے حالات کو محسوس کرتا ہے ۔ انفرادی تجربے کا اطلاق تمام لوگوں پر نہیں کیا جا سکتا لیکن  اس نے جس امتیازی سلوک کی نشاندہی کی ہے  اسے دنیائے عالم تسلیم کرتی ہے۔  سیاہ فاموں  سے ناروا سلوک  ہر جگہ واضح نظر آتا ہے کیونکہ کہ ہر جگہ واضح نظر آتا ہے۔ اس لئے اس ناروا سلوک کو عمومی شمار کر لیا گیا ہے۔ ان کے خلاف دنیا بھر میں تحریکیں اٹھی ہیں۔ ان  کو کھلے عام پیٹا جاتا ہے، سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ قتل کر دیا جاتا ہے ۔زنا بالجبر کیا جاتا ہے۔ عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔  بالڈ وین نے اس کی صحیح عکاسی کی ہے۔

 پیٹر کے دوست جیولز  اور ایدا دونوں ہی سفید فام ہیں لیکن  اقلیتی  گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ایدا آئرش ہے اور جیولز یہودی لیکن پیٹر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ  اس سے برتر ہیں ۔  ان  کی رنگت سفید ہے  اس لئے ان کو کالوں پر برتری ہے۔ وہ ہر جگہ جا سکتے ہیں۔ اچھی نوکری حاصل کر سکتے ہیں۔اچھے لوگوں سےمیل ملاقات رکھ سکتے ہیں۔ لوگ  ان سے نفرت نہیں کرتے۔ ملنے سے نہیں کراتے، پولیس کے ہاتھوں خوار نہیں ہوتے۔جب تک ان کی اصلیت کا پتہ نہیں چلتا ، اس وقت تک وہ  گوروں والی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔پیٹر  اپنےدل کی بھڑاس اس وقت نکالتا ہے جب گوری مالکن اسے کمرے سے بیدخل کرتی ہے۔

اس کہانی میں رنگ و نسل کی بنا پر برا سلوک  بنیادی موضوع ہے  ۔گوری مالکن کا  اسے کمرے سے بے دخل کرناایک مثال ہے۔ علاوہ زیں  خطرناک موڑ اس وقت آیاجب  ایدا  کے ساتھ ایک ریستوران میں اس نے  بد تمیزی دکھاتا ہے۔  پیٹر  نے جب اپنے پاؤں پٹختے ہوئے موم بتی  ہاتھ مار کر گراتا ہے اور غراتا  ہے    تو وہاں بیٹھے تمام لوگوں کا موڈ بدل جاتا ہے۔پیٹر اس وقت سمجھتا ہے کہ اس کا کھیل ختم ہو گیا ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ اس کے پیٹ میں پانی بھر گیا ہے۔ جسم ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ایک تو سیاہ فام اور دوسرا سفید فام خوبصورت خاتون سے بد تمیزی اور وہ   گوروں کے سامنے !                   وہ اپنا انجام  سوچ کر لرز  جاتا ہے۔ ویٹر تیزی سے ان کی طرف آتا ہے اور اس کی ساتھی  گوری سے معاملہ کی نوعیت جاننا چاہتا ہے۔ بھلا ہو  اس ایدا کا جس نے معاملہ خوش اسلوبی سے  سلجھا دیا۔ ا اس کی جان  خلاصی ہو گئی           تو اس کے پیٹ میں پانی بھرجانے کی کیفیت  ختم ہو گئی۔۔ حالانکہ اس کے برے رویہ سے وہ خوفزدہ تھی۔ پھر بھی اس کا ساتھ دیا ۔ پیٹر یہاں یہ ثابت کرتا ہے کہ سفید رنگت لوگوں  کی گواہی  اپنے جیسے لوگوں کے اذہان کو کس حد تک متاثر کرتی ہے۔

ایدا آئرش  غریب   سفید فام خاتون ہے ۔ سفید فام آئرش سے نفرت کرتے ہیں۔ اسی طرح جیولز  یہودی ہے اور دنیا بھر کے لوگ  معدوے چند انہیں اچھا نہیں سمجھتے لیکن  وہ  تمام سہولیات  اس لئے حاصل کرتے ہیں کیونکہ   ان کا رنگ گورا ہے جبکہ  پیٹرسے نفرت اس لئے کی جاتی ہے کہ  وہ سیاہ فام ہے۔  اس سے اچھوتوں والا سلوک کیا جاتا ہے۔ زندگی بھر بے چین، مضطرب رہتا ہے  وہ  ذہنی طور پر خود کو ان  سے بر تر سمجھتا ہے اور کالی بستی میں نہیں رہنا چاہتا۔ کہانی کے آخر میں پیٹر  اپنی کالی نسل کو ذہنی طور پر قبول کر لیتا ہے اور ان کے ساتھ  زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اسے ذہنی سکون دیتے ہیں۔

 امتیازی  برتاؤ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو یہ اس وقت سے ہے جب دنیا قائم ہوئی تھی اور اس وقت تک ہے جب تک دنیا رہے گی۔ کسی کی نسل، علاقے، ملک، اقتصادی رتبے۔ رنگ، عقل ، مذہب               کا چناؤ  وغیرہ  کسی انسان کے بس میں نہیں۔ یہ سب خدا کے ہاتھ میں ہے۔  اگرکوئی  جنگجو  خاندان ، ترقی یافتہ ملک، امیر ، سفید فام، فطین  یا کسی آزاد خیال  خاندان  میں پیدا ہوتا ہے تو  اس سے اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔اس نے کون سی نیکی کی ہے  جو   وہ اعلیٰ               سلوک کامستحق ہے۔ اسی طرح اگر کوئی  سیاہ  فام ۔محکوم ملک،  قحط زدہ مجرم خاندان۔ ابلہ، ذہنی مریض  اور دہشت گرد خاندان  میں پیدا ہوا  ہو تو اس سے  برا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس سےکون سا گناہ سر زد ہوا ہے جس سے ان سے نفرت کی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں یہ تفاوت تھا اور ہے۔ استحصال تھا ، ہے اور رہے گا۔ رہوڈیشیا  ، امریکہ   ترقی یافتہ ہونے کے باوجود  نسل پرستی کا شکار ہے۔ پاکستان میں تمام مسلمان ہونے کے باوجود فرقہ پرستی میں مبتلا ہیں اور ایک فرقہ دوسرے کو برداشت نہیں کرتا۔ بھارت  میں ذات پات اور مذہب کے حساب سے  تعصب پایا جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر فرد جس ماحول میں ہے ، اسے کھلے دل سے قبول کرکے ہمت، محنت  کرکے اپنی اور عوام الناس  کی فلاح و بہبود کی کوشش کرے۔  تعصب کم سے کم کر کے قوت برداشت کرے تو اپنی ذہنی صحت معتدل رکھ سکتا ہے۔

 

James Baldwin

u.s.a

(1924- 1987)

 

حالات زندگی

 

جیمز بالڈوین  نیویارک کے سیاہ فام علاقے                           '            ہرلیم                       ' میں پیدا ہو ا جو                               '                مین ہٹن                  'کے قریب ہے۔ اس نے سکول کے زمانے سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ اس کا والد گرجا گھر میں منسٹر تھا۔ وہ خود  بھی اپنے والد کا پیشہ اپنانا چاہتا تھا لیکن ہائی سکول کے بعد اس نے ارادہ بدل دیا اور نوکری کر لی      ۔ 1944    میں اس کی ملاقات مشہور ادیب                            '                          رچرڈ رائٹ                      'سے ہوئی  جس نے اسے مشورہ دیا کہ ناول نگاری کرے۔  اس نے اسے سیکسٹن فیلوشپ وظیفہ دلوایا۔ وہ پیرس آگیا جہاں  1953 میں اس کا پہلا ناول چھپا۔ اس کے بعد اسے امریکی یونیورسٹیوں سے وظائف ملتے رہے  ۔ ان کی حوصلہ افزائی سے  اس نے لکھنا جاری رکھا۔وہ نسل پرستی کے خلاف تھا اور آخری سانس تک سیاہ فاموں کے حق میں لکھتا رہا۔

اس کی سوچ اصلی ہے۔اس میں ندرت ہے۔ اس کی قوت مشاہدہ عمیق ہے۔ وہ نڈر لکھاری ہے۔ معاشرتی شعور سے اس کی انتہائی گہرائیوںمیں جا کر اس کے تاریک پہلوؤں کو ڈھونڈنکالتا ہے اور خفتہ عوامی معاشرتی شعور کو  جو کیموفلاج کر کےتلخ حقائق  چھپا کر   اچھی باتیں لکھتا ہے ، کو مکار کہتا ہے۔

  بالڈ وین کی تحریروں میں شاعرانہ موسیقی ہے۔ ترنم ہے۔ وہ اپنی دلیل اس بات پر ختم کرتا ہے کہ وہ جرائد اور اخبارات   جن میں        اس  نے  جو  لکھا ہے۔ اس سے قارئین کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بالڈوین نے مایوسی، اضطراب ، گناہ، احساس جرم امریکی ثقافت  اور معاشرتی  اقدار  کے حصول میں ناکامی ہوئی ہےسے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اجاگر کیا ہے۔

اس کی اہم تصانیف درج ہیں۔

 

Novels

Notes  Of  A Native Son (1953)

Tell Me How Long The Train's Been  Gone(1968)

If  Beale Street Could Talk (1974)

I Can't Get Ahead Of You(1980 )

The Price Of The Ticket (1985).

 

Collected Stories

Going To Meet The Man                                                    (1953)

          '   

یہ افسانہ                     '    پریوی یس                     کنڈیشن          '                 اس کے مجموعے                  گوئنگ ٹو میٹ دا مین                 '             سے لیا گیا ہے۔              وہ 1987  میں  سینٹ پال ڈی وینس  میں فوت ہوا اور وہیں دفن ہوا۔

 

 

 

 

Popular posts from this blog