شرمندگی Shame By Keith Ridgway

 




 
شرمندگی
Shame


By

Keith Ridgway

مترجم: غلام محی الدین

کہانی کی ابتداکیسےہوئی ، میرے ذہن میں پوری طرح واضح ہے۔دنیا کے نظارہ  کے لئے  میری چپچپاتی آنکھیں مچھلیوں کےاندازمیں کھلیں  توبادصبا چل رہی تھی  ۔ میراذہن تازہ اور مستعد تھا۔ہوا میں خنکی تھی۔میں نے سردی کی مناسبت سے   لباس پہنا۔

میں  نے دیکھا کہ پوپھٹ رہی تھی ۔شہر چوکڑی مار کر بیٹھاتھا اور  نئےدن  کے مقابلےکےلئے کمرکس رہاتھا۔

میرے کمرے کی کھڑکی کےایک رخ  دریا  ہے جو کھڑکی سے نظرآتاہے۔ور یا  کے بعد زمین  آہستہ ہستہ بلندہوناشروع ہوجاتی ہے جہاں صنوبرکے درختوں کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے۔اس کے پیچھے موجود تمام اشیا نظر آنابند ہوجاتی ہیں ۔صبح کے وقت وہاں نمی ہوتی ہےاور طلوع آفتاب سے   اس کی شعائیں  درخت ڈھانپ لیتے ہیں ۔اس لئے وہاں عام مقامات سے زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے کیونکہ سورج کی تمازت  وہاں بہت کم دیر کے لئے پہنچتی ہے    آہستہ آہستہ اونچی ہوتی جاتی ہے جن پر گھنے اور اونچے صنوبرکے درختوں کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے اور اس کے اندرکی اشیا چھپ جاتی ہیں اورنظر آنا بندہوجاتی ہیں۔

میں نے سینٹ آڈؤن کےپاس رات کو آگ جلتی ہوئی دیکھی تھی،جس کا سنگتری شعلہ چٹخا تواس نے نہ صرف بچے کوبلکہ مجھے بھی جگادیاتھا۔میں نےدیکھاکہ میری بیوی اس وقت گھرپرنہیں تھی۔میں اٹھا اور باہر چل دیا۔دریاکےکنارے  پہاڑی پر چڑھنےلگاتو بارش شروع ہوگئی۔چھتوں کےوسط میں ہلکا سا دھواں اٹھ رہاتھاجس  نے  نمدار قطعہ  کی خاکستری مٹی    میں  بھنوروں کےغلاف  بنادئیےتھے۔حدنگاہ تک کھلاپانی تھا۔سورج کی کرنوں نے شبنم خشک کردی تھی۔کسٹم   ہاؤس کے نزدیک مجھےدو جہاز نظر آئے جوپچھلی رات لنگراندازہوئے تھے ۔ وہ لیورپول کے بیڑے تھے جو جدول کےمطابق آتےرہتے تھے ۔گودی پرمزدورادھرادھر مستعدی سے چل رہے تھے ۔ ایک کریٹ پانی پرتیررہاتھاجواس وقت تھری۔ماسٹر کےمقام پرایک  لڑکے کاسایہ نظرآیااوراس کی گھڑی کی چمک دکھائی دی جہاںہم نےرات آگ جلتی دیکھی تھی۔ایک اور جہاز اب سمندرچیرتا تیزی سے پانی کاٹتاآرہاتھا۔

ایک کشتی ساحل کےایک ایسے کنارے سےباندھی گئی تھی جسے میں نے پہلے نہیں دیکھاتھا۔اس میں ایک چھوٹاسا کیبن تھاجو اس پر بڑی مہارت سے بنایاگیاتھا کیونکہ وہ جگہ بڑی پیچیدہ تھی۔اس کی شکل ایک الٹے صندوق جیسی تھی اور اس میں لکڑی لادی گئی تھی جولمبائی کے رخ رکھی گئی تھی۔میں نے دیکھاکہ تھوڑی دورعرشے پرایک بھدا ساشخص ایک بوتل سے منہ لگاکر پی رہاتھا۔ اس وقت وہ میری بیوی سے باتیں کررہاتھاجواس سےایک فٹ کےفاصلے پر جہاز  کےپاس کھڑی تھی۔اس کا رخ دریاکے دوسری طرف تھا۔اس نے مجھے دیکھ کر ہاتھ لہرایا۔وہ شخص ایک اور خاتون سے جس کاقدپانچ فٹ کےقریب تھا،بال گھنگریالے تھے،اور تیزطرار دکھائی دے رہی تھی ،ہاتھ ہلاتے وقت بالکل نہیں مسکراتی تھی۔ آدمی کی آنکھیں میری طرف تھیں۔ میری طرف اشارہ کرکے وہ اپنی آنکھیں ایسے جھپکاتاتھاجیسے میرے بارے وہ کوئی خاص بات جانتاتھایامیں کوئی ایسی بات نہیں جانتاجووہ جانتاتھااور اسےکسی نئے روپ  کاپتہ تھا۔میں نےاسے دیکھ کراپناسر ہلایا اور کھڑکی سے ہٹ گیا۔مجھے بھوک کااحساس ہواتومیں کھانےپینے کی اشیاڈھونڈنے لگا۔بھدی آوازوں میں پچھلی تین راتوں سےدنیا کے   ہنگاموں، افراتفری اور شوروغل سے متعلق مسلسل ڈراؤنے خواب دیکھ رہاتھا۔خوابوں میں گانے گائے جارہےتھے تھے جومیری سمع خراشی کررہےتھے۔مجھےایسے لگاکہ وہ  ایک چڑیل تھی۔ ۔۔میں نے اس خاتون کاچہرہ پہنچان لیاتھا۔۔۔وہ میری والدہ  تھی۔جب وہ حیات تھی توبڑے شوق سےنوحےگایاکرتی تھی ۔ اصل میں وہ میری والدہ نہیں تھی بلکہ میری والدہ کےبھیس میں آئی تھی۔وہ چڑیل  میرے خواب میں کیوں آئی تھی اور نوحہ خوانی  کررہی تھی،کامقصد میں نہ جان پایا۔اس کی آوازمتلی  دلانے والی تھی۔میں  اسے دیکھ کرڈر گیا ۔خود کوایک درخت کےپیچھے جہاں سورج کی شعاعیں  چھن چھن کرآرہی تھیں ، چھپالیا ۔  دریا مجھے آنکھیں ماررہاتھا۔میں نے ایسامحسوس کیاکہ میراگلادبایاجارہاتھا،اور خواب  میں  ڈر کر بھاگااورخوف سے میری آنکھ کھل گئی۔میں نے شکرادا کیاکہ  وہ سچ نہیں تھا۔

اس سے اگلی رات میں نے اپنی بیوی کو ایک بارپھر خواب میں دیکھا۔وہ کسی سے  صاف اور کڑک لہجے میں باتیں کررہی تھی جومیرےلئےحیران کن نہیں تھا۔مجھے لگاکہ اس کے الفاظ  ناگوار اورغصیلےلگے۔میں انہیں اس وقت تک نہیں سمجھ پایا لیکن جب میں غور سے سنا توپتہ چلاکہ وہ  انگریزوں سے مل کر میرے قتل کامنصوبہ بنارہی تھی۔مجھے   یہ آواز سنائی آئی کہ وہ اس بات پرآرادےرہےتھے کہ مجھے کس مقام پراور کیسے قتل کیاجائے۔کون ساآلہ استعمال کیاجائے۔لاش کوکیسے ٹھکانے لگایاجائےگا ۔قتل  کے بعد کس کیمیائی  محلول میں ڈالاجائے جس سے وہ  جلدازجلد گھل  جائے۔میری بیوی ایک پیشہ ورقاتل کی طرح منصوبہ بندی کررہی تھی ۔مشاورت سے طے پایاکہ ایک سنسان جگہ پر تین دنوں  کےلئے ایک گودام کرائے پرلے کر میری لاش کوگندھک کے تیزاب میں رکھا جائے گا ۔اس دوران ہڈیاں گل سڑ جائیں  گی۔پوراجسم  شوربہ بن جائیں گی  اور پھر اس  کودریا بردکردیاجاناتھا ۔   سب شرکا اس منصوبےپرمطمئن  ہوگئے ۔ میری بیوی  نے ادھرادھر نگاہ دوڑائی کہ سن گن لےسکے کہ کہیں کوئی ان کا منصوبہ سن  تونہیں رہاتھاتواس  کی نظرمجھ پرپڑ گئی۔وہ  سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے  میری طرف بڑھی۔خوف سے میری چیخ نکل گئی اور میری آنکھ کھل گئی۔میں نے اردگرد جائزہ لیاتوسب نارمل تھا۔ میں نے خداکاشکراداکیا۔

پچھلی رات میں نےبچے کودیکھا۔ خواب میں تالاب کے کنارے  لیٹاتھا۔ میراکمسن بیٹا مجھ سے بالغوں  کی طرح  گفتگو کررہاتھا۔ اس کی گفتگو پختہ اور ذہین لوگوں کی طرح تھی۔مجھ سےقدیم  زمانے  کی باتیں کررہاتھا۔میں نے مدعاجاننے کی کوشش کی لیکن معانی  سمجھ میں نہ آئے۔ گفتگو نامکمل اور غیرفہم تھی۔وہ اپنی گفتگومیں  'اور۔۔۔'لیکن' بےمقصد استعمال کررہاتھا۔ کہنے کوتووہ بول انگریزی ہی رہاتھا۔لیکن مطلب میرے پلے نہیں  پڑ رہاتھا۔اس نےاپنی  گفتگو میں'ماں' اورباپ  بھیڑکی اون بولا تومیں چوکناہوا لیکن سیاق و سباق نہ جان

سکا۔ وہ ایک بندرگاہ  کی گھاٹ میں بیٹھاتھا،اس کی ٹانگیں لٹکی ہوئی  تھیں  اوراس  نے ایک بارتھوکا بھی تھا  جس کانشانہ میراچہرہ تھا۔نظارہ ڈراؤناتھا جس سےمیں خواب سے بیدار ہوگیا ۔ارد گرد کاجائزہ لے کر معلوم ہوا میں اس وقت گھرمیں اپنے بستر پرلیٹاتھااور خطرے کی کوئی بات نہ تھی۔مسلسل ڈراؤنے خوابوں سے میں پریشان تھا۔

نوکرانی  نے ناشتے میں  میرے لئے چائے بچاکررکھی  تھی  ۔میں نے کپ پکڑاتو اس کاایک قطرہ میرے کپڑوں پر پڑگیاجس سے دھبے کانشان پڑگیاتھا۔اس نے میرےلئے  ایک نان اور گوشت کا ایک پسندہ  بھی رکھاتھا۔ میں  نےتھوڑا ساکھایا،چائے پی ، اور گنگنانے لگا،میں نےوقت دیکھا۔آٹھ سےاوپر بج چکے تھے۔مجھے یہ شئے  پسند نہیں تھی کہ مجھےدیرہو۔چونکہ میں لیٹ ہورہاتھاس لئے وقت بچانے کے لئے اپنامنہ ڈبل روٹی سےبھرکر اپنےجوتے پہننےلگا۔میں نےکھونٹی سے کوٹ اتارااوراپنے کندھے پر ڈال لیااور اپنے مگ کوایک بارپھر چائے سے بھرلیااور اسے لےکرباہر آگیااور اس طرف چل دیا جہاں میری بیوی اور بیٹا دریاکے کنارے کھڑے تھے۔

کیاتمہیں دیرنہیں ہوگئی؟اس نے پوچھا۔

ہاں۔میں نے جواب دیا۔

میں نے چائے پی کر مگ اپنی بیوی کےحوالے کردیا،میں نے اپنی کمرپر آنکھوں کےدوجوڑے پڑتے دیکھتے۔اس کےبعد آنکھوں کاتیسراجوڑا بھی ان میں شامل ہوگیاجومیرے بیٹے کی آنکھیں تھیں۔میری بیوی اس بھدے شخص  کوپسندکررہی تھی  ۔۔۔یوں کہاجائے تووہ ہراجنبی کو پسندکرنےلگ جاتی تھی۔مجھے وہم تھاکہ وہ ان کےساتھ سویا بھی کرتی  تھی ۔بےوفائی کرتے وقت  بیٹے کوگھرمیں آوارہ گردی کرنے کےلئے کھلاچھوڑ دیاکرتی ہوگی اوروہ جو سنناچاہتا تھایا   کمپیوٹرپرکھیلناچاہتا،کی اجازت دےدیتی ہوگی ۔

میں  اپنی  ڈیوٹی پرجانے کے لئے دریاکےساتھ چلنےلگا۔زیادہ دیرکرنااچھانہیں تھاخواہ مجھے وہاں جاکر کچھ بھی نہ کرناہوتا۔مجھے وہاں جلدازجلد پہنچناتھا۔رستے میں جومجھے جانتے تھے ، نے مجھے خوش آمدید کہا۔میں ان کا جواب سرہلاکردیتارہا اورمختصر راستوں  سے اپنی نوکری پر جلدازجلدپہنچناچاہتا تھالیکن مجھے دیرہوگئی۔میں   ایک گورےکا اسسٹنٹ تھا  جس کانام گورڈن تھا۔اور کمپنی نے  مجھے ایک معاون دیاتھا۔تنخواہ کمپنی دیتی تھی ۔مجھے اس اگورڈن  اور مالک دونوں کےسامنے جوابدہ ہوناپڑتاتھا جس سے مجھے کوفت ہوتی تھی۔۔یہ طریقہ مجھے پسندنہیں تھا۔ گورڈن میرے دیرپرپہنچنے سے ناراض  ہوگیا۔وہ زمین کا سروے کررہاتھا۔کسی موزوں جگہ پرایک پل بناناتھا۔ پراجیکٹ پرفوراً  کام شروع کرکےجلدازجلد اسے پایہ تکمیل تک پہنچاناچاہتاتھا۔ اس نے حتمی منصوبہ بندی کرلی تھی۔وہ  اس  پراجیکٹ کوحتمی شکل دینے کے لئے مجھ سے ضروری معلومات حاصل کرنا چاہتاتھا۔یہ منصوبہ سست روی کاشکارتھا۔ کمپنی کامالک ، اوروہ دونوں ہی اس کا مجھے موردالزام ٹھہراتے تھے  کہ  یہ میری کوتاہی کی وجہ سے ہواجومیرے خیال کےمطابق احمقانہ الزام تھا۔۔۔مجھے انہوں  نے اس بات کے لئےنوکرنہیں رکھاکہ میں ان کی اضافی محبوبہ کی طرح تھا۔ان کےمنہ کی طرف دیکھتارہوں کہ وہ کب حکم صادر کرےااور میں بھاگ پڑوں۔ گورڈن کے احکامات اور ضروریات  پوری کرنا میری ڈیوٹی میں شامل تھالیکن کس طرح انہیں ادا کروں۔۔۔یہ میری مرضی تھی۔میں ایمانداری اور خلوص نیت سے  متبادل طریقے استعمال کرتاتھاجوزیادہ  تیزاور معیاری ہوتے تھے۔میں اس عہدے پر کام کرکے خوش تھا۔اور میں نےمن بنایاہواتھاکہ اگر اس نے میرے ساتھ زیادتی کی اور اپنی حدود سےبڑھکرکام کرنے کااصرار کیا  تومیں یہ نوکری چھوڑ دوں گا۔

صبح بخیر جناب گورڈن۔میں نے کہا۔

وہ  بیٹھاکچھ لکھ رہاتھا۔اس کے مذاق بھونڈے ہوتے تھے۔۔وہ کوٹ پہننے اوراتارنے کی طرح ہوتے تھےجووہ اپنے کندھوں اور بازوؤں کوجھٹکا دے کراتارتاچڑھاتا رہتاتھا۔ اس نےکالا لباس پہناہواتھا وہ مجھے بے رخی دکھانے کےلئے  اس نے  دستاویزات سے نظریں  اٹھائیں  اور کاغذ پر جھریٹیں مارتارہا۔ایسا لگ رہاتھا جیسے وہ پنجوں سے کھرچ رہاہواور ساتھ ساتھ کچھ  بڑبڑابھی رہاتھا۔پوراکمرہ کتابوں ،منصوبوں اورایسی اشیاجو زمین کی پیمائش میں معاون تھے،پڑے  تھے جومیری عقل وفہم سے بہت  زیادہ  تھے ۔میرااندازہ تھاکہ وہ جومنصوبہ بھی بنائے گاوہ ناقص ہی ہوگااور اس میں ناکام رہےگا۔ اس وقت  وہ وہ ایک پل کی تعمیر کے لئے محل وقوع اور اس سے متعلق معلومات اور اور پیمائش پرکام کررہاتھا۔

کیاتم ٹھیک ہو جناب۔میں نےپوچھا۔

نہیں ۔گورڈن نے تلخی سےکہا۔

وہ ایک ناٹاقد،دبلاپتلاشخص تھا۔اس  کےہاتھ  چھوٹے چھوٹے،،ہلکے بال ،آنکھیں  نیلی اوروہ عام  شکل وصورت کامالک تھا۔ اونچے کالر کی قمیض پہنی ہوئی تھی جس کے کالر میلےتھےاورسلوٹین پڑی تھیں ،ایسا لگتاتھا جیسےابھی بستر سےنکل کرآیاہو۔

تم اس خط کوبراہ راست پہنچادو۔دیر نہیں ہونی چاہیئے۔یہ خط بہت اہم ہے اس نے اسے لفافے میں بند کرکے سیل لگاتے ہوئے کہا۔اس نے میری طرف نہ دیکھا۔۔۔اورتم ان کے جواب کاانتظار کروگے۔

میراایک معاون ہے۔میں اسے بھیجتاہوں جناب۔میں نےکہا

گورڈن نے  میری طرف دیکھااور کہامعاون کی بجائےتم خودجاؤ۔

گورڈن  نے میری تجویزرد کردی ۔

میں نے اسے  غصے سےدیکھا۔میں نےایسی کوئی بات نہیں کی تھی جس سےوہ  مجھے کسی الجھن میں ڈال سکے۔۔۔میں قربانی کابکرانہیں بنناچاہتاتھا۔میں اپنی وجہ سے کسی کو کسی کےلئے غصے کاباعث نہیں بناناچاہتاتھا۔معاف کرو۔میرامقصدحکم عدولی  اور بےعزتی کرنانہیں تھا۔اس خط پر'فوری 'لکھاتھاجو گورڈن کے حکم کےمطابق مجھےاس خط کومالک  تک بنفس نفیس  پہنچانا تھاجومیرے فرائض منصبی میں شامل نہیں تھا۔ یہ تو میری ذمہ داری تھی کہ اس خط کو کمپنی کے مالک تک فوراً  پہنچاؤں۔اسے کیسے فوری پہنچاؤں،یہ میرافرض تھا   ۔۔۔لیکن  میں ڈاکیا بنوں میرے فرض میں شامل نہیں تھا۔

میراکام جناب تمہارے ساتھ  ہی رہناہے،خط تقسیم کرنانہیں۔میں نےکہا۔میری ڈیوٹی تمہارے ساتھ شام تک ہے۔میں یہیں ہی رہوں گالیکن میں اسے اپنے معاون کے ذریعے مالک  بریس فورڈ تک ڈاک  فوری پہنچادوں گاجناب ۔

گورڈن  نے آہ بھری اوراپناسرکرسی کی پشت پرٹکادیا۔اس کمرے میں ایک کھڑکی تھی جس سے باہرکالان نظرآتاتھا۔اس کی روشنی کمرے میں آرہی تھی اور میں سبز پتوں کوکھڑکی کےشیشوں پردیکھ سکتاتھا۔

توتم وہ خط نہیں لےجاؤگے؟گورڈن نے پوچھا۔

 یہ خط فوری طورپرمتعلقہ شخص تک پہنچ جائے گااور اس خط کا جواب بھی فوری تمہارے پاس آجائے گا۔یقین کروکہ یہ سب کچھ اتناجلدی ہوگاکہ مسٹر بریس فورڈاس کی سرعت رفتاری  سے متاثر ہوجائےگا۔میرایقین کرجناب۔مجھے اپنے ڈھنگ سے کام کرنے دو۔

گورڈن نےدوبارٹھنڈاسانس لیا۔میں یہ دیکھوں گاکہ تم یہ سب کیسے کرتے ہو۔اس نے اپناسرکھجایا۔میں نےاس کےہاتھ  سے خط پکڑااور اس نےمیری آنکھوں میں نخوت سےدیکھالیکن کہاکچھ نہیں،اسےکچھ کہنابھی نہیں چاہیئےتھااور مجھے اپنادعویٰ ثابت کرناتھااور اس نے کھڑکی میں ان سرسبز پتوں کودیکھااور پھر اس کےپاس گیا۔میں نے کچھ کہناچاہالیکن پھر رک گیا۔

اب کیاہے؟اس سے پوچھا۔

وقت کیاہواہے جناب۔

کیوں۔

یہ  نامہ بہت تیزی سے مسٹر بریس فورڈ کےپاس پہنچےگااورفوری جواب لائے گا۔میں نے یہ کہاتومیری گالیں سرخ ہوگئیں اور میرے ماتھے پرابھی بھی پسینےکےقطرے تھے۔جناب۔مسٹر بریس فورڈ میری عزت وتکریم اسی طرح سےکرتاتھاجیسی کرناچاہیئے۔

مسٹر گورڈن نے اپنا سرہلایا۔

میں اس بات سے پوری طرح آگاہ  تھاکہ کسی واقعے  میں شہادت کس قدر اہم ہوتی تھی ۔گواہی وہ تھی جسے میں دیکھتااورسنتاتھا۔ اس بات سےپوری طرح آگاہ تھا کہ گواہی کی اہمیت کسی واقعے  میں کس قدر اہم ہوتی تھی۔اس سے پتہ چلتا تھا کہ واقعہ حادثاتی طورپر ہواتھایاپھراس کے پیچھے کوئی محرک   تھا۔۔میں نے یہ بات ایک ایسے شخص سےسیکھی جو امریکی تھاجومتجسس تھااورنئی نئی چیزوں کی سیکھنے کاشوق بھی تھا،اور،وہ میری آنکھوں کے عین سامنےورجینیا میں ریڈ انڈین کےساتھ لڑائی میں اب  وہ مرچکاتھا لیکن  اس نےمجھے تنبیہ کی تھی کہ میں ہوشیار رہوں اور ایک امریکی نے مجھے بتایاتھا کہ جب تک  تجھےمکمل  یقین نہ ہوجائےکہ  واقع کیسے رونماہواتھا اس پر یقین نہ کرے۔

 میری بیوی  کی بیوفائی  کےبارے میں میرے پاس ایسی کوئی معقول گواہی نہیں تھی۔میں اس کے بارے میں ہمیشہ سوچاکرتاتھااور میں جتنا زیادہ اس کےبارے سوچتا اتناہی پریشان ہوجاتا۔ دیگرذرائع سے میں اس کی بےوفائی  کاپتہ چلتارہتاتھالیکن میں نے اسے کبھی رنگے ہاتھوں نہیں پکڑاتھا۔اس لئے میں  حتمی فیصلہ کرسکتاتھا۔تاہم وہاں ہمیشہ میرے ذہن میں شکو ک و شبہات رہتےتھےاور ان وجوہات کی بناپر میرے اپنی بیوی سےتعلقات بری  طرح متاثر ہوجاتےتھے۔لوگوں کی باتوں اور ثبوت نہ ہونے پرمجھے شرمندگی تھی۔

میں احمق نہیں ۔میں نے لوگوں کوشک  کی بناپرٹوٹتے اوربرباد ہوتےدیکھاتھا۔میں سوچتاہوں کہ میں حاسد نہیں ہوں لیکن اپنی بیوی کےبارے میں خواب جومیں سوتے جاگتے دیکھاکرتاتھا۔اس کےماضی،حال اور مستقبل  کےبارے میں سوچتارہتااورسچی جھوٹی باتیں اپنے ذہن میں بٹھالیتا۔وہ شائد خیال خام تھے۔کبھی وہ میرے پاس ہوتی  اور کبھی نہیں بھی ہوتی۔میں جانتاتھاکہ وہ میرے قتل  کے منصوبے نہیں بناتی تھی ۔مجھےیہ معلوم تھاکہ اس کاکوئی اورپروگرام نہیں تھا ماسوائے اس کےکہ اس کی جنسی  تشفی ہو،اور اس کی ایسی کوئی خواہش نہیں تھی کہ وہ مجھے مرا دیکھےلیکن ایسی باتیں معاشرے میں موجود تھیں۔میں نےاپنی آنکھوں سے ایساہوتے دیکھاتھا۔وہ واقعات کیوں رونماہوئے۔میں مذبذب تھا ۔کیاسچ تھاکیاجھوٹ تھاپر مجھے پشیمانی تھی۔

سہ پہرکا وقت تھااور مسٹر بیرس فورڈنےمیرے انگریز باس مسٹر گورڈن  کوشاباش دی تھی۔مجھے یہ ہدایات ملی تھیں کہ میں اس کی رہنمائی کروں ۔مالک کے محافظوں کےساتھ شام کو اسے پل کی سائٹ پرلےجاؤں تاکہ وہ علاقے کاسروے کرکے ان مقامات کی پیمائشیں لےسکے جہاں پل بناناتھا۔میں اپنے ساتھ اپنا معاون  بھی لےجاناتھا۔

میرا ذہن  نہ جانے کیوں اس خاتون کی طرف چلاگیا جو دفتر میں آئی تھی اور اپنانام نہیں بتایاتھا۔وہ استقبالیہ کےکمرے میں کھڑی تھی اور فرنیچر پراور تصاویرکاسروے کررہی تھی اور مغرور تھی لیکن اس کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تھایاکوئی عظیم یامتاثر کن شخصیت کی حامل تھی اور انگریز سے ملناچاہتی تھی۔

کیاوہ خوبصورت ہے؟

میں اس سوال پرجھجھکااورکہاکہ وہ خوبصورت نہیں لگتی لیکن مجھے پتہ نہیں تمہیں کیسی لگےگی ۔

اچھا۔

وہ خوشگوار لگتی تھی،میں نےکہا۔

یہ کوئی جواب نہیں۔مسٹر گورڈن نےکہا۔

میں خاموش ہوگیا۔اس قسم کےسوالات کاجواب دینامیری ذمہ داری نہیں تھی۔

اسےاندر بھیج دو۔اس نے کہا

اس  خاتون نےاپناننھاساہاتھ مجھ سےایسےملایاجیسے وہ مجھےچڑارہی تھی ۔میں اس خاتون کوگورڈن  کےمطالعہ کےکمرےمیں لےگیااوردروازےپرکھڑاہوگیا،اس خاتون کے بالکل پیچھےجوہرطرح سے فٹ تھی۔اس کی کمردبلی پتلی اور کوکاکولاکی بوتل کی مانند تھی۔وہ اسے دیکھ کرکھڑاہوگیا اور کھاناایک طرف رکھ دیاوراس کےبولنےکاانتظارکرنےلگا۔اس نے اپنے پیچھے مڑکرمیری طرف دیکھا۔

خوش آمدید مادام۔میں کیامددکرسکتاہوں؟

کیاتم مسٹر گورڈن ہو؟

یقیناً۔اس نےکندھے جھٹکتےہوئےکہا۔

میں مسز میلنگٹن ہوں۔

یہ سن کرگورڈن  کےچہرے کی رنگت بدل گئی اوراس کامنہ حیرت سے کھل گیا۔۔۔کیوں؟ معلوم نہیں۔وہ چندلمحے اسے ٹکٹکی لگاکردیکھتارہااورپھراس کارویہ ملتجانہ ہوگیا، اس کےچہرےپرہمدردی کےجذبات ابھرآئے،اس کانام سن کراس کاچہرہ ہاتھی کے دانت کی طرح سفیدہوگیاتھا۔وہ اپنے ڈیسک کےپیچھے سےاٹھا،اس خاتون کےپاس ا س کی طرف   میری پیاری مسز میلینگٹن   سفید ہوگیا۔

مجھے بہت افسوس ہےا میری بہت ہی  پیاری خاتون ۔مجھے قطعاًاندازہ نہیں تھاکہ تم ڈبلن میں ہو۔تم کیسی ہو،تم کیاکرتی ہو۔میرےلئےاعزازکی بات ہے۔۔۔ مسٹر گورڈن نے غصےسےمیری طرف دیکھااورباہرجانےکااشارہ کیا۔میں ہچکچایالیکن اگروہ اپنےملاقاتی  سے  خوش  اور خاتون بھی مطمئن تھی تو میراوہاں کھڑارہنا نہیں  بنتاتھا۔میں کمرےسےباہرآگیااورمیں نے انہیں ایک دوسرے کے بہت قریب کھڑے دیکھا۔  دونوں مطمئن تھے۔ کمرےسےنکلتے وقت آخری باردیکھاتووہ دونوں ایک تصویرکے مطابق دکھائی دے رہے تھےاور وہ تصویر میرے ذہن میں واضح اور یقینی تھی۔ایسالگتاتھا جیساوہ واقف ہونے یادوست ہونے کہیں بڑھ کرتھے۔وہ اس کا ہاتھ اس خاتون کے ہاتھ میں تھا وراس کا سرخاتون  کےایک زاویےپرتھا،جوکھڑکی کی طرف جھکاہواتھااورمسٹر گورڈن اسےدیکھ اس کے پھیکےاور افسردہ چہرے پر

 سرجھکائے اسےتسلی دینے والے والےانداز اور نیک خواہشات کو خاموشی سے قبول کر رہی  تھی۔اس نے اس کی ہمدردانہ رویے کےسامنے ہتھیارڈال دئیے تھے۔گورڈن  کےجذبات کےسامنےمغلوب ہوکراپناوقار ختم کردیاتھا۔مجھے اس طرح سے خاتون کےہارماننا پسند نہ آیا۔میں نے یہ کیوں کہاکیونکہ میرےلئےیہ بہترین نظارہ تھاجومیں نے کمرہ چھوڑتے وقت کیاتھا۔اگرچہ وہ کم مدت کاتھالیکن وہ سدابہار یاد رہنے والاتھا۔ایسا نظارہ میں نے آخری بارکیا تھالیکن یہ نظارہ اسی طرح میری نظروں کےسامنےآگیا۔یہ بات ایسی نہیں ہوسکتی اوریہ ممکن بھی نہیں  کہ ایسامعاملہ تھابشرطیکہ میں ابھی اوراسی وقت مرجاؤں اورمیں اپنی معیاری زندگی کامعمول کےقصے کوظاہرکروں۔مجھےاپنی اس سوچ پرشرمندگی ہوئی۔

میں باورچی خانےگیا،کچھ ڈبل روٹی  اورپنیرکھایااورمشروب سے اپناگلاس بھرا۔ایک نوکرانی مجھ سےفلرٹ کرتی تھی اورمیں اس کی باتوں پرخاموش رہتاتھا تو وہ کسی حدتک مایوس ہوکر، مزیدبات بڑھائے وہاں سےچلی جاتی تھی۔پالش کرنے سےاس کی انگلیوں کی پوریں سبزہوچکی تھیں۔باورچی خانہ گرم تھااوریہ پرانی جگہ کاتاثردیتاتھاجس میں سالہاسال سےکوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی ،اس سےمجھے اپنےبچپن کازمانہ یادآگیاجب میں خاموش طبع ہواکرتاتھااورمجھے کہنہ مشق بنایاجاتاتھااور مجھےہروقت برابھلاکہاجاتاتھا۔ہمارےعلاقے میں بہت  سے آوارہ کتے جمع ہوجاتے تھے جونہ جانے کہاں کہاں سے آتے تھے۔ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھاہوتاتھا۔ان سے میں کھیلاکرتاتھا۔وہ اجنبیوں پرجھپٹتےتھےوہ مجھے کبھی کبھاراپنےساتھای سے دوردراز مقامات پر ایسی گلیوں ،سڑکوں دوسرے علاقوں سے یکسر مختلف ہوتی تھیں  ،لےجاتے تھے۔میں واپس گھرآناچاہتا لیکن وہ نہ آتےاور مزید بڑھتےجاتے۔وہ زمین میں شگاف ،دیواروں میں سوراخ اورکمبل میں پھٹی ہوئی جگہ تلاش کرتےرہتے جومیرے بچپن میں مزیدپریشانیاں پیداکرتےتھے۔میراخیال ہوتاتھاکہ ہم رستہ بھول گئے تھے اور پریشانی سے میں چلانااورکتے زورزور سے بھونکناشروع کردیں گے اور کوئی اجنبی میری حفاظت کرےگا اور رہنمائی  کرکے ہمیں سیدھی راہ پرڈال دےگالیکن میرااندازہ غلط ثابت ہوتاتھاکیونکہ وہ اچانک کسی جگہ سےمڑتے اور گھرکاراستہ لے  لیتے تھے  اور ٹھیک ٹھیک واپس پہنچ جاتے تھے۔ ایسالگتاتھا  کہ وہ  کبھی اپنے  گھرسےنکلےہی نہیں تھے ۔اپنی ماں اورباباکے ساتھ جہاں رہتاتھا،مجھے معلوم تھااور بذات خود  ساتھ والی جگہوں سےپہنچ سکتاتھالیکن کتوں کےساتھ جاتاتومجھے قطعاًیقین نہ ہوتاکہ میں  گھرپہنچ پاؤں گابھی یانہیں۔

مسز میلینگٹن   وہاں سے میرے علم میں لائے بغیرچلی گئی شائد کوئی گھنٹہ بھرمسٹر گورڈن  کےپاس رہی۔اب وہ اپنے بیگ سمیٹ رہاتھا۔دستاویزات اور نوٹ بکیں اکٹھی کررہاتھا۔میں سوچ رہاتھاکہ اب مسٹر گورڈن کی رنگینیاں مزید رنگ دکھائیں گی۔اسے مجھ سے ہمیشہ یہ گلہ ہی رہاکہ میں اسےمناسب وقت نہیں دےپایا اور موزوں انتظامات نہیں کئےاور اس نے مجھ پر بھرسہ نہیں کیا ۔جب میں اسےتسلی دیتا کہ سب کچھ کنٹرول میں تھااورہر کام اسکی توقع کے عین مطابق میرامعاون کردے گاتووہ اسے اپنی حکم عدولی سمجھتاتھا۔۔

اس روز ہم نے پل کی سائٹ پر جاناتھا۔مسٹر بیرس فورڈ کے محافظ مدد کےلئےآج پانچ بجے پہنچ جانےتھے اوراسے ان کےوقت پر نہ پہنچنے کاجوخدشہ تھاجو بالکل بےبنیاد تھا۔میری ایک چھوٹی تلوارمیان میں بالائی منزل پرپڑی  تھیں جومیراکھلوناتھا،وہ اسے اپنے ساتھ

لےجاناچاہتاتھا جس نے گورڈن کو تشویش میں مبتلا کردیاتھا۔وہ بے صبری دکھاتے ہوئےچلاگیا۔اوروہاں ماسوائے ایک گھنٹہ انتظار کرنےکے سوا اور کوئی چارہ کارنہیں تھا۔گورڈن نے تلوارکمرپرباندھے ،  اپنی دستاویزات  والے بیگ کوپکڑااور کھڑکی سے  آسمان کی طرف دیکھا تواس نے اخذکیاکہ  بارش نہیں ہوگی۔ میں حیران ہوا کہ وہ تلوار کیسےاستعمال کرےگا۔اسے کیسے میان سےنکالےگا۔وہ کسی سے کوئی بات نہیں کررہالیکن گنگنارہاتھااور چھچھوندرکی کھال سےبنی ڈائری پرکچھ لکھااوراسےاپنی جیب میں  رکھ لیا۔اپنی پنسل کو ضرورت سےزیادہ چاٹاجس سے اس کےہونٹوں پرکالانشان پڑگیاتومجھےاس وقت وہ بہت مضحکہ خیز لگاجس نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ گورڈن اب کیاکرنےجارہاتھا۔میرامطلب یہ کہ وہ اپنی زندگی کےساتھ ،میری زندگی کےساتھ،میرےشہرکےساتھ کیاکرناچاہتاتھا۔اس کےکیا

مقاصد تھےکسی کونہیں بتارہاتھا جواس جگہ پرپورانہیں اتررہا تھا۔وہ ہمارےپاس اس لئےآیاتھا کہ چیزیں درست کرےلیکن میں اس کے ذہن میں کوئی ایسا منصوبہ نہ دیکھ پایاجس سے شہرکےحالات میں تبدیلی آئے۔میرے ذہن میں تبدیلی لانے کے پیچھے جونظریہ تھا اسےکوئی سوچ ہی نہیں رہاتھا۔

اب پانچ بجنے والےتھے اور میرامعاون  آچکاتھااورمیں اسے دیگرعملے سے یہ شکائت کرتے ہوئے سنا کہ کوئی کام نہ تھاتو انہیں بلایاکیوں گیا ۔اب وہ آرام کررہے تھے توان کےآرام میں مداخلت  کیوں کی تھی۔میرامعاون  یقیناًایک محنت کوش، مضبوط ،سخت جان،عمدہ لباس میں ملبوس اوررات کو ڈیوٹی کےدوران اپنےفرائض خوش اسلوبی سےاداکرتاتھالیکن افادیت کےلحاظ سے بہت زیادہ کارآمد نہیں تھااورمیں اسےباربار ترغیب دیتاتھاکہ ہمارے راستے میں بیرس فورڈ کےآدمیوں سےمڈبھیڑنہیں ہوسکتی تھی اور اس  بات کے بہت امکانات تھےکہ ایساہی ہوکیونکہ ہم کسی دوسرے راستےپرجارہے تھےاور وہ  دوسرے راستے پرلیکن  وہ ابھی نہیں پہنچے تھے۔انہیں دیرہوگئی تھی اورگورڈن بےچین تھا اورمیرامعاون متواترشکائت کررہاتھاکہ گرمی ہورہی تھی اورمیراذہن اس وقت اپنے قابو میں نہیں تھااور دریا کے کناروں پر ایساہی تھاجہاں وہ سب کچھ چھوڑتے ہوئے ایک مختلف وقت کےلئے جارہاتھا۔میں بھی وہاں سے نکل جاناچاہتاتھا۔

بیرس فورڈ کے محافظ آگئے تھے۔تعدادمیں  وہ تین تھے،اونچی آوازمیں بولتے تھے۔انہوں  نےمجھے  جانے کاکہا۔وہ ایک قطارمیں تھے  ،اس سےپہلے میں زیادہ آگے جاتاگورڈن نے روک کر ہمیں زیادہ منظم  چلنے کوکہا۔اس وقت ایک بیگ میرے کندھےپر اوردوسرا میرے معاون  کےکندھےپرتھااورتین بھاری بھرکم شخص جوبیرس فورڈ کے محافظ تھے جوگورڈن کےارد گرد تھےایک تیرکے سرے کی طرح  مجھے ایسا لگاکہ اس انتظام پربہت سوں کواعتراض  تھااورشائد ہم دونوں صبح کوبغیر کسی کواطلاع دئیے وہاں سے غائب ہوجانے تھے،لیکن  اس وقت ایسی بات کتنافضول تھاکیونکہ اسے مقصد کےلئے اب بہت دیرہوچکی تھی۔

۔ہم  نےمشرق کارخ کیا۔ہم دریاکےساتھ ساتھ چلتے رہے۔میرامعاون کی جیبیں  ۔اس بات پرمیں حیران تھاکہ ہم سب پیدل کیوں چل رہےتھے،کوئی سواری کیوں نہیں پکڑلی اوربھاری بھرکم محافظوں  کی طرف دیکھااورمسٹر گورڈن کی طرف اورحیران ہوئے

گورڈن کی تلوار اس کےکوٹ کےنیچے لٹکی تھی۔اس  کےآگےان کی پیٹھیں عجیب وغریب  اوربےجوڑ طریقے سےابھری ہوئی تھیں۔میں نہیں جانتاکہ ہم کیسے لگ رہےتھے۔میں یہ بھی نہیں جانتاکہ ہمیں ایسی حالت میں دیکھ کر  کوئی دیکھ بھی رہاتھایانہیں۔ہم چھ لوگ  اس ایک جلوس کی شکل میں پچھلی گلیوں سےاپنارستہ شہرکےایسے علاقوں کی طرف جہاں بہت کم آبادی تھی ،جارہےتھے۔ہم نے ایسی گلیاں منتخب کی تھیں جو کوڑاکرکٹ اور تنکوں سےبھری تھیں ۔مہذب دنیا کی  صفائی سےدور خستہ حال   علاقے میں جہاں ساکن گندا تالاب تھا،ہم جزیرے کےڈوبے ہوئے حصے کی طرف ،جوپانی کے قریب ترین تھاجہاں ہم تب کھڑے ہوتے تھے اوراگرہم مرکز میں پہنچ جاتے اور ہم گہرے سانس  لیتے اورایک دائرے میں کھڑے  ہوتےاورہمارے پاؤں اچانک گیلے ہوگئےتھےاورہماری گالیں تنگ اورسرخ ہوگئیں اور مسٹر گورڈن جوہمارے درمیان تھا،نے خوف سےاپنے ہاتھ جوڑے اور حیران ہوئے ،اور احتجاج کیا ۔ میں نہیں جانتاتھاکہ اس نے اپنے حواس جمع کرکےایسے الفاظ کیسے ڈھونڈے تھے۔خداکی قسم ۔یہ اس سےبھی بدترین تھی جوہمیں بتایاگیاتھا۔خداکی قسم یہ ایسا ہی تھاجیسامیں نےکہاتھا۔یہ کتنابدترین عظیم تھا۔

یقیناًایساہی تھا۔مجھےایسا محسوس ہوا کہ جزیرے میں سالہاسال تک کی کوششوں کےبعد تم کوئی ٹھوس شئےیہاں نہیں بناسکے۔کچھ بھی ایسانہیں جو پائیدار اورمحفوظ تھا،یہ سراسرپاگل پن تھا۔دریایہاں پر ناقابل بصارت تھا،لیکن یہ ہرجگہ موجود تھا۔ہم اس کےاندرکھڑے تھے۔یہ ایک سطح پرتھی جس نے میرے بوٹ دھوکر سیاہ دلدل صاف کردی۔میرمعاون نے جمائی لی  توبھاری بھرکم محافظ ہنس دئیے لیکن مسٹر گورڈن کوکچھ نظرنہ آیا۔اس نےمجھے اشارہ کیاکہ میں بیگ لےکر اس کےپاس جاؤں اورمیں وہ اس کےحوالے کردوں۔میں   

ایسی جگہ ڈھونڈنا چاہتاتھا جو خشک ہو جہاں   پتے  نہ ہوں اورجہاں ہم سب بیٹھ کر توازن قائم رکھ سکیں۔ہم نےبانس کی ایک لمبی سی ٹہنی لی جو پیمائش کےطورپر استعمال کی جائےاور نہ صرف  پانی  کی گہرائی ماپی جائےبلکہ عرض بھی نقشے کے مطابق ہو۔ہم نے ایک ایسی جگہ منتخب کرلی جوجھاڑی دارتھی اور ہمارے معیارپر پورااترتی تھی ۔میں نے وہ چھڑی جواس نے چنی تھی دیکھ کرکہاکہ اس کی لمبائی چھوٹی تھی۔ایک ساتھی نے ایک چھڑی نکالی جوتہوں میں تھی اور جوں جوں تہیں کھولیں تواس کی لمبائی  پانچ گز تک ہوگئی تھی۔وہ لکڑتی پتلی اورسخت    وہ ہمارے مقصد کے لئے بالکل موزوں تھی۔

بیرس فورڈ کےتینوں آدمی اکٹھے کھڑے ہوئےتھےاور میرے خیال میں ان تینوں نےایک صراحی سے پانی پیا۔معاون  کھڑاہوکرتھک گیاتھا ۔اس نے ایک چھوٹی سی  چٹان ڈھونڈ لی تھی اوراس پربیٹھ گیا ۔اس نے اپنے کوٹ کانچلاحصہ پکڑلیا تاکہ اسے مٹی نہ لگےاوروہ اپنے گھٹنے اوپراٹھائے اور ان کےسامنےاپنے ہاتھ جوڑے اوراپنےبازوؤں پراپنا سررکھ دیااوراس کےعلاوہ کسی اور شئےپر توجہ نہ دی۔میں نے اس کےدوسری طرف پڑاہوا بیگ اٹھایااورمیں گورڈن سےآگے جاکربیٹھ گیا۔اس نے میری طرف دیکھاتومیں نےاس کی مدد پیمائشی لکڑی  دےکرکہا اور جب ہم دونوں نےاسے مل کر دھکیلاتوایک ایسی لکڑی  جوکانٹے کی شکل کی تھی ،جس کے آخری سرےپر سوراخ تھا۔گورڈن نےمجھےکہاکہ اسے عمودی رکھوں۔اس کےہاتھوں کی طرف برابر  دیکھتارہوں ،اور اس کی سطح پر اپنے ہاتھ رکھوں۔وہ کئی بار رکااور پیچھے ہوکرکھڑاہوگیااور اسے گیلاکیا۔ایک ہینڈل کےایک حصے اور چھڑی سے بھی پیمائش کی۔جب اسے یقین ہوگیا کہ دونوں ایک سیدھ میں آگئے تواس نےہمیں اجازت دی کہ ہم ایسا کرناجاری رکھیں ۔جس جگہ ہم رک جاتے تھےوہ ڈائری پرریڈنگ  لکھتااور چھڑی وہاں سے نکال لیتاجس سے اس کےہاتھ اورکوٹ پرکیچڑلگ گیا۔وہ  چندقدم چلااورہم  نےمل کر اس عمل کودہرایا۔ہم  نے یہ کام  وسیع علاقے میں چاربار دہرایا   اوروہ اس سےزیادہ  بھی کرسکتاتھا لیکن اس کویہ فکرتھی کہ سورج کی روشنی بالکل ختم نہ ہوجائے۔وہ ہرصورت اپناسروے غروب آفتاب سےپہلےکرناچاہتاتھا۔اسے مزیدلٹکانامشکل تھا۔اس عمل نے ہمیں تھکادیاتھا ۔کثیرالجثہ محافظ ہماری مدد کونہ آئےبلکہ خاموشی سےہمیں دیکھتے ہی رہے ۔ان کی لالٹینیں  اب کھل کرسامنےآگئی تھیں۔ان میں سےایک پرپائپ کی روشنی جل رہی تھی۔ان تمام آلات میں سے جوگورڈن استعمال کرتاتھا اور تمام کام جووہ اداکرتاتھا،میں پیمائش والی چھڑی ہی ایک ایساآلہ تھی جسے میں سمجھ سکتاتھا۔

وہ  بیگوں سے  باربارآلات نکالتاوراپنی آنکھوں کے سامنے لاکردیکھتااور زمین پررکھ دیتااور ڈائری پرنوٹ کرتا۔وہ مجھے دریاسے دور تک دلدل میں چلاتارہا۔اس وقت اس نےمیرے ہاتھ میں پالش شدہ چھڑی دی ہوئی تھی اورایک پیچیدہ آلےسےمیری طرف دیکھاجومجھے بحری جہاز کے سمت پیما اور زاویہ پیما کی طرح کا لگا۔ا س سے وہ اپنے رسے کوستاروں کی مدد سے یا سورج کی سمت سے ترتیب دیاکرتےتھے یاکچھ اس طرح کی بات کرتے تھے۔اس نےاپناہاتھ لہرایااور اونچی آواز میں میری سمت کوآگےپیچھے کرکے حتمی تعین کیا۔میں نے دیکھا کہ بیرس فورڈ کے تینوں آدمی ہماری ان حرکات کوبڑی دلچسپی سے دیکھ کر ہم پرہنس رہے تھے۔میرا معاون  اس وقت اونگھ رہاتھا۔اتنے فاصلے سےگورڈن نے شہر کی مخالف سمت دیکھاجہاں سورج ڈھل رہاتھا۔کھمبوں کےسائے ڈھل رہےتھے اورگھاس پھوس اور پتھر پڑے تھے۔وہ ایک چھوٹاشخص تھااس کاگروپ بھی چھوٹاتھا۔میں دوروالا کنارہ دیکھ سکتاتھا۔زمین اتنی نیچی تھی کہ تعمیرات بہت کم کی گئی تھی۔دوری سے پہاڑ کی روشن چوٹیوں کودیکھاجاسکتاتھا،اور میرے بائیں طرف کی زمین سے دور پانی وسیع  ہوتادیکھا جاسکتاتھا۔صدیوں سے ایساہی تھا۔

میں جوکرتاتھاوباعث ذلت تھا۔میں اسے نہیں کرسکتاتھا۔یہ میرے لئے شرمندگی تھی ۔یہ جگہ ہمیشہ سے خالی تھی اور ایسی ہی رہنےوالی تھی۔اورمیں نےگورڈن کی ڈرائنگ دیکھی،اس کے منصوبوں کامشاہدہ کیااورمجھے معلوم تھاکہ مجھ میں انہیں سمجھنے کی قابلیت نہیں تھی ۔میرااس بنجرزمین پر جوبیکارتھی پر میراکردار بےمعنی تھا۔کیااس کےذہن میں دوسروں کی نسبت  پچھلے دنوں کےجب سورج بالآخر غروب ہوچکاتھا اوراس نےاپنی گھڑی دیکھ کرکام بندکردیا۔اس کےلئے یہ جگہ اتنی اہم کیوں تھی،مجھےمعلوم نہ تھا۔

 کام کے دوران جب شام پڑنا شروع ہوتی اورروشنی کم ہوجاتی   توہم اپنی چیزیں اکٹھی کرتے تھے۔میرامعاون  اور میں واپسی کارخ کرتے تھے۔دلدل میں  چلتے رہتےتھے۔گورڈن بہت خوش تھا،اس کاچہرہ دمک رہاتھا،اس کی آنکھیں روشن تھیں۔وہ دیکھ رہاتھاکہ  وہ ہم نہیں تھے،وہ مستقبل کوایک بچے کی طرح دیکھتاتھا۔اس کےمنصوبے ہی اس کے لئے سب کچھ تھے۔اس سےوہ اس بات کودیکھ نہیں پایاکہ ہمارے پیچھے کچھ لوگ آرہےتھے۔ان میں موٹے آدمی ،جن کےرویے میں اب تھوڑی سی سختی آگئی تھی کی وجہ اس کاشراب پینا تھا، کندھے  سےکندھا ملاکر تیزی سے چل رہےتھےجبکہ میں اورمیرامعاون ایک بیگ اپنےکندھوں پراٹھائے ان کےپیچھےچل رہےتھے۔گورڈن کی آواز اونچی تھی اور 'شرم کرو'کہااورباربار یہ بولتارہاجیسے کہ یہ کہنااس کے لئے معقول تھا جیسے وہ  یہ جانتاتھا کہ وہ تمام لوگ اس کامطلب سمجھتے تھے جواس کےساتھ  اورارد گرد تھے۔اس کےآدمی اور لڑکے بھی یہی الفاظ اداکرتے ہوئے ان پرسنگ پاشی کرتے ہوئے قہقہے لگارہےتھےاورہم انہیں برداشت کرتے ہوئے گلیوں میں تیزی سے گزرتے جارہے تھے۔ہم میں احساس جرم  پیداہورہاتھا اور ہم پوری کوشش کررہے تھے کہ اس احسا س کودور کیاجائے۔

جب  ہم گھرپہنچے تومیری بیوی نےمیرےلئے کھاناپکایاہواتھا۔بچہ ابھی تک جاگ رہاتھا۔میرادن کیساگزرااسے نہیں بتاسکتاتھا۔میں نے خاموشی سےکھاناکھایا ۔میں نےان دونوں کوکھیلتے ہوئے دیکھا۔میری خواہش ہوتی تھی کہ میں ان کے کھیلوں اورزیادہ سے زیادہ گھرپررہنےکواس وقت تک ترجیح دیتاتھاجب تک کہ مرنہ جاؤں۔ان کےدرمیان رہوں اورروزمرہ زندگی کےمعمولات  میں حصہ دار بنوں ۔میں اب مزید مسٹر بیرس فورڈ کےلئے کام نہیں کرناچاہتاتھا۔میں اس کےپاس  جاناچاہتاتھا اوراسے اطلاع دینا چاہتاتھاکہ میری جگہ اسسٹنٹ  کوئی اور ڈھونڈ لے۔

میں اگرچہ تھکاہواتھا لیکن میں سونے سے ڈررہاتھا اور باربار خودکلامی کہہ رہاتھا کہ اس امیدپر میں اپنی نوکری چھوڑدوں گا جومیرے خوابوں کومتاثر نہیں کرے گی۔میں پوری رات خواب ہائے بیداری میں نہیں گزارناچاہتاتھا یاایسے معاملات جن کاتعلق  نہ توماضی سےاور نہ ہی مستقبل سے ،لیکن وقت میں جوشگاف پڑے تھے ،انہیں میں پرکرنے کی کوشش کروں گا۔میں مورخوں سے تھک چکاتھاجوان خلاؤں کوپرکرتے تھےیاانہیں گڈمڈکرتے تھے۔جومیرے ذہن کواکاس بیل کی طرح کھاجاتے تھے۔

میرابیٹا ایک تختے پر موتیوں سےکھیل رہاتھا۔اس نےاسے ہلایا اورانہیں گھماکر چھوڑدیتااور دیکھتاکہ وہ کہاں جاکررکتاتھا۔اس کے جھکنے  اورہاتھوں کےزاویے بدلنےسےوہ  وزن کومتوازن رکھتاتھا۔وہ اپنے ذہن میں یہ فیصلہ کرتاتھا کہ کون سی شئے اسے پسند تھی اور کون سی ناپسند۔وہ اس بات کوزیادہ پسندکرتاتھا جب وہ موتی کنارے کے قریب نیچے گرنےوالے ہوتے تھے تووہ انہیں روک لیتاتھااورانہیں کناروں کےپاس ہی گھومنےدیتاتھا۔جب حالات اس کے قابوسے باہرہوجاتے تھےتوموتی گرجاتے تھےلیکن وہ باربار مشق کررہاتھا کہ  اس کےکنٹرول کرنے کی صلاحیت بڑھے جو زوربروزبڑھ رہی تھی۔میری بیوی اس کی کاوشوں کودیکھی اور میری طرف فخریہ انداز میں دیکھتی تھی۔اور میں مسکراکراس کاجواب دیتاتھا۔میں سمجھتاتھاکہ ہم خوش کن زندگی گزاررہےتھے۔

مجھےوہ خاتون یاد آگئی جوگورڈن سے ملنے آئی تھی۔میرے ذہن میں وہ منظرابھراجب  میں نےان کوآخری بادیکھاتھا۔ غیرمتوقع  طور پراس کی رعونت اور قبولیت    میں گورڈن کے خوش آمدید کو مصنوعی سمجھتاتھا۔وہاں بہت زیادہ  شہادت تھی  کہ معاملہ گڑبڑ تھا۔وہ خاتون کون تھی اور میں اس کانام اپنی بیوی کوبتاناچارہاتھا لیکن میں ایک معاملےکودوسرے میں مخلوط نہیں کرناچاہتاتھا۔میری یہ عادت نہیں تھی کہ مختلف کہانیوں کوجوایک دوسرے سے متعلق نہ تھیں  کوخلط ملط نہیں کرناچاہتاتھا۔

میں نےاپناکھاناختم کیا۔اپنی بیوی اور بیٹے کو چومااورگھرسےباہر دریاکے پاس جاکرتاریکی میں اس کانظارہ کرنے لگا۔میں جانتاتھاکہ میں  ذہین شخص نہیں تھااورمیرے ذہن میں معاملات واضح نہیں تھے،کہ میرے ذہن میں یہ سوچ پیداہوئی کہ اس میں معاملات واضح نہیں تھے،میرے اندر یہ سوچ پیداہوئی کہ میرے ذاتی معاملات  بالکل واضح نہیں  تھے بلکہ بکھرے ہوئے تھے اور اسے کمرے  میں یہ معلوم نہیں کرسکتاجوسب کےلئے یہ کافی تھا کہ میں دیکھتاتھا،جو میں سنتاتھا،جوکچھ بھی میں نےخواب دیکھا  تھا۔میں اس وقت  سبزے پربیٹھا اور دریا کودیکھا اور یہ امیدباندھی کہ وہ خود بھی تھک گیاتھا لیکن یہ اشیا اکٹھی کی اور بہت زیادہ  حجم جس کی وجہ سے یہ نتیجہ نکلاتھا جسے میں یقینی نہیں کہہ سکتاتھااور میں محسوس کرتاتھاکہ میں پھٹ جاناتھااورمیرے جسم کے تمام ٹکڑے دریابرد ہوکرمنتشرہوجانےتھےاوروہ خواہ کچھ بھی ہو میری   خواہش  بھی اس  کاوزن  تھا وہ ڈوبنے نہیں تھے۔یہ وہ احساس تھا جومیں محسوس کیاکرتاتھا اور میں وہاں ہمیشہ دریامیں تیرتارہوں گا اور میں ہمیشہ موجود رہوں گا۔جسم کےالگ الگ ٹکڑے،جو لازماً قرار دیئے،کبھی اپناوقت کبھی نہ جانتے ہوئے،پانی  سے پھسلتے ہوئے ،پلوں کےنیچے چھپتے ہوئے وقت نہ دیکھتے ہوئے،ہروقت دریامیں،میرا ذہن جس کی کوئی چمڑی  نہیں تھی،دریامیں تیررہاہوگا، جومعیاری وقت ڈھونڈنے کی کوشش کررہاہوگا۔ایک مقررہ جگہ ،ایک خشک کنارہ،ایک بندشہر،ایک ایسی  جگہ،جس سے دوبارہ  ظاہرہو رہی تھی ،ایک مکمل جگہ ، جس سےوہ دوبارہ نکل سکے۔

میری بیوی میرے پاس آئی ۔اس نے میرے کندھے پکڑے اورمیرے بالوں پربوسہ کیا۔ہم دونوں اندھیرے میں خاموش کھڑے رہے اورہم سن سکتے تھے ،بغیر چاہنے کےبھی ،بغیرسننے کے،ہم شہر کو سانس لیتے ہوئے سنا ،اور آہیں بھرتے ہوئے  ٹھنڈی سانسیں لیتے ہوئے جداہوگئے۔وہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے چھوڑکرچلی گئی۔

میں ان حالات سے تنگ آگیاہوں ۔مقابلہ نہیں کرسکتا۔ میں اس  دنیاسے کنارہ کشی اختیار کرتاہوں ۔میری دائمی خوشی راہ فرار میں ہی ہے۔مجھے اس بات کی شرمندگی ہے کہ میں نے ایسے کام کئے جوقابل عزت نہ تھے۔نجھے اس پرشرمندگی ہے۔مجھے اپنی بیوٰی کی بےوفائی پر شرمندگی ہے۔ عدم تحفظ سے ڈراؤنے خوبابوں، ناحق مسز میلنٹن اورگورڈن کے اپنی طرف سے رومانیت پیداکرنے اور اپنی نوکری پرشرمندگی ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ میں مرجاؤں لیکن اپنے بچے کاخیال آتاہے۔۔۔۔۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

 


Popular posts from this blog