**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی

 

****   Book 4    'Bid  '   ( Edna  Alford )


 

نیلامی

The Bid

ایڈنا ایلفورڈ

 Edna Alford(-1947) Canada

 قیسی  (Cassi)  کینیڈا میں تعلیم و تدریس اور تحقیقی شعبے سے منسلک تھی۔ اسے لسانی علوم سے جنون کی حد تک دلچسپی تھی۔ اسےکئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ علم لسانیات کے فروغ کے لئے شہر شہر کوچے کوچے کانفرنسوں میں جاتی رہتی تھی۔ اہم قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں حصہ لیتی، لسانی ارتقاء کے مراحل اور اثرات وغیرہ  اس کے پسندیدہ موضوعات تھے۔تین سال پہلے مشرقی ممالک میں، پچھلے سال سان فرانسیسکو کی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ امسال وہ یہاں روس کے دارالخلافہ ماسکو  میں اپنا  پر مغز مقالہ  پڑھنے آئی تھی۔ وہ لسانیات میں ایک معتبر نام تھا۔ اس کی اہمیت اس کانفرنس میں اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اس کا آبائی وطن روس تھا۔ قیسی کا بچپن اور جوانی کا کچھ حصہ ماسکو میں ہی گزرا تھا۔ یونیورسٹی کی پہلی ڈگری بھی وہیں حاصل کی پھر انگریزی ادب میں مزید تعلیم کے لئے امریکہ چلی گئی۔ وہاں سے کینیڈا کی شہریت حاصل کر لی۔ خصوصی مندوب کی حیثیت سے اس کی ذمہ واری میرے سپرد کر دی گئی۔ 

ماسکو میں یوں تو مقالہ پڑھنے کے لئے آئی تھی لیکن اپنے آبائی وطن کی مٹی کو چومنا اور اپنی والدہ سے ملنا بھی مقصدتھا۔علاوہ ازیں میں ماضی کی یادیں تازہ کرنا ا چاہتی تھی۔ کانفرنس میں جو تحقیقی مقالے پڑھے جا رہے تھے ان کے موضوعات زبان دانی،لب و لہجہ، بولیاں، تلفظ، ہجے، کمیونسٹ ممالک میں زباندانی، جمہوریت میں زباندانی، حالتِ امن اور حا لتِ جنگ کے زبان دانی پر اثرات ، زباندانی اورتجارت، سول ڈیفنس اور نیوکلیئر وارکے زباندانی سے تعلقات پر مقالے پڑھے جانے تھے۔ایک  محقق جوہری توانائی، ایٹم بم، تابکاری کے گفتگو پر اثرات سy متعلق مقالہ پڑھ رہا تھا۔وہ  ایٹم بم کے  جسمانی اور  زباندانی  پر مہلک اثرات بیان کر رہاتھا۔وہ مثالوں  اور تحقیقی مواد سے واضح کر رہا تھاکہ متاثرہ مقام سے ہزاروں میل رہنے والے کس طرح سے جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ تابکاری لوگوں کو مارتی ہے، زمینوں کو راکھ کر دیتی ہے جہاں صدیوں تک کوئی فصل نہیں اگائی جا سکتی۔ر بچ جانے والوں میں طرح طرح کی بیماری کی علامات پیدا کر دیتی ہے۔ سر چکرانا، قے، بدہضمی، پیچش، سر کے بال اترنے اور کینسر، حاملہ عورتوں کے بچوں کاگرنا، مردہ یا معذور پیدا ہونا، ذہنی پسماندی اور گفتگو میں لکنت  عام اثرات ہیں۔یادداشت یا تو ختم ہو جاتی ہے یا اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے  اور یہ اثرات نئی نسلوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس کی سفارشات تھیں کہ              ا یسی مہلک ایجادات پر نہ صرف کنٹرول کرنا چاہیے بلکہ جو اسلحہ اور او زار بنائے جا چکے ہیں انہیں تلف  کر دینا چاہیے تاکہ انسانیت کو بچایا جا سکے۔ 

یہ موضوعات غمگین کر دینے والے تھے۔ ان کے بارے میں سوچ کر، پڑھ کر اور سُن کر دماغ ماؤف ہو جاتا تھا۔ ایک جگہ اس نے یہ بھی پڑھا تھا کہ ایٹم بم کے ٹیسٹ کے دوران تابکاری اثرات سے بچنے کے لئے جو سرنگ بنائی جاتی ہے۔ بعض ریاستیں تو وہ بھی نہیں بناتیں اور ایٹمی تجربہ کر دیا جاتا ہے جس سے عام زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ امن پسند خاتون تھی۔ جنگوں کے ہولناک نتائج اسے غمزدہ کردیتے تھے۔ وہ اسے سفاکانہ اور جارحانہ اقدامات تصور کرتی تھی۔ مہلک ہتھیار اور جواہری اسلحہ کے تابکاری اثرات اورلامحدود تباہی و بربادی کی جانکاری سے اس پر شدید افسردگی طاری ہو جاتی تھی۔ محقق کی ہولناکیوں کی تفصیل سن کر  وہ بے حد مضطرب ہوگئی۔ اپنی حالت سنبھالنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور گھومنے پھرنے اور اپنی ماں سے ملنے کا پروگرام بنا لیا ۔ 

قیسی کی ماسکو سے بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔یونیورسٹی ڈگری یہاں سے ہی حاصل کی تھی۔ تمام اہم مقامات سے مکمل طور پر واقف تھی۔دوستیاں دشمنیاں پالی تھیں۔ تلخ و ترش اور شیریں واقعات و احساسات بھی جڑے تھے۔ گھبراہٹ میں  وہ ہال سے باہر آگئی۔اس کا یہ عمل بے اختیاری تھا۔ اس کااندازہ تھا کہ گھومنے پھرنے سے وہ خود کوسنبھال پائے گی۔ بے خودی میں ہال سے نکلی اور اپنی  کار تک پہنچی جو اس نے یہاں آکر کرائے پرلی تھی۔ پارکنگ کے بائیں طرف  ایک ہوٹل تھا جس کے بارے میں اس نے بچپن میں پریوں سے متعلق جو داستانیں سنی تھیں، یاد آگئیں۔ اس کے آگے ایک پل آتا تھا جہاں سے وہ بس پکڑ کر اپنے گھر جایا کرتی تھی جو نواحی علاقے میں تھا۔پل کے ساتھ جو کثیر منزلہ عمارت تھی۔ اس کاتمام بچپن اس عمارت کے بادامی رنگ کے گنبد میں بند تھا۔وہ آج تک اس میں لگائی گئی بندوقوں کو نہیں بھلاسکی تھی۔ 

اسے پرانے دور کی سہانی باتیں یاد آنے لگیں۔ ہیلوئین کے تہوار پر وہ بچوں کے لئے تحائف اور چاکلیٹ لے کر ایک بلاک سے دوسرے بلاک جایا کرتی تھی اور بچوں میں نقدی اورتحائف بانٹاکرتی  تھی او ررسم و روائت کے مطابق گھر گھر جا کر تحائف سے تھیلا بھر کر لاتی تھی۔اس جگہ ایک تالاب بھی تھا جس میں سنہری مچھلیاں پانی میں مستیاں کرتی نظر آتی تھیں۔ سکول بس پکڑنے سے پہلے وہاں کچھ دیر ضرور رکتی تھی اور ان کا نظارہ کیا کرتی تھی۔ وہ مچھلیاں اب بھی موجودتھیں۔ ان کو دیکھ کر ان سے متعلق اسے وہ کہانیاں بھی یاد آگئیں جو اس کی دادی ماں نے ان سے متعلق سنائی تھیں۔  

اس نے گاڑی ماسکو کے سب سے حساس علاقے ریڈ سکوائر کی طرف گھمائی جہاں کریملن دیوار کے اندر ایک بلند و بالا شان و شوکت والا بہت بڑا قلعہ تھا۔ اس میں ایسے حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے جس سے ایمرجنسی میں چاروں طرف سے گولیاں برسائی جا سکتی تھیں۔ اس کے دور میں تو وہاں بہت سخت پہرہ ہوا کرتا تھا لیکن اب اس علاقے  کی نگرانی ذرا نرم کر دی گئی تھی۔ اس علاقے میں مذہبی مجسمے بھی تھے جو ابھی بھی موجود تھے۔وہ ماسکو سے پوری طرح واقف تھی اسلئے  بلا روک ٹوک آگے بڑھتی گئی۔ جب وہ اولڈ شی اون اور ایڈل ویلڈن کے درمیان پہنچی تو اسے گرمی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی جیکٹ اتار دیَ۔ گاڑی سڑک کے کنارے  کھڑی کی۔ کھلی ہوا میں کچھ دیر آرام کیا اور پھر چل پڑی۔  چلتے چلتے اس بیکری کے پاس پہنچ گئی جہاں اپنی ماں کے لئے بیگل بندخریدا کرتی تھی۔ اپنی ماں کے لئے وہاں سے بیگل اور کچھ چیزیں خریدیں۔ 

 گاڑی چلاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں پانی آیا تو اسے ایک  واقعہ یاد آیا جب ایک بار بچپن میں اس کی آنکھیں خراب ہو گئی تھیں۔ اس کی علامات عجیب سی تھیں جس میں چیزوں کو دیکھ تو سکتی تھی لیکن ان کا ادراک غلط ہوتا تھا۔سیاہ چیزیں سفید اور سفید چیزیں چمکدار نظر آتی تھیں۔ تتلی کی شکل جوؤں

 جیسی یا بھوت جیسی، لائبریری کے فانوس جن لگتے تھے۔ اس بیماری سے وہ بے حد خوفزدہ ہو گئی تھی۔خوش قسمتی سے اس کی یہ بیماری تین ماہ میں خود بخودختم ہوگئی۔اس کے بعد وہ ہائی وے پر آگئی۔ آگے بڑھتی گئی۔ سڑک کے ارد گرد کے تمام گاؤں، قصبے، شہر اس کی انگلیوں پر تھے۔ ایک قصبے میں ایک کلاک نظر آیا تو اسے یاد آیا کہ اس مقام پر پہلے بھی گھڑیال تھا لیکن ڈیجیٹل نہیں تھا۔ اُس وقت کلاک پر صبح کے گیارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے۔اس نے گاڑی آگے بڑھائی تو آگے ایک  گیس سٹیشن  آگیا۔ وہ اتوار کی دوپہر سنسان پڑا تھا۔ ٹینکی بھروا کر آگے چل دی۔

سورج کی روشنی آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی۔ یکدم اس کی آنکھیں دھندلانے لگی تھیں خدشہ چھانے لگا کہ بچپن کی آنکھ کی بیماری کہیں پھر نہ لوٹ آئی ہو۔وہ یہ محسوس کر رہی تھی کہ آنکھوں کی حالت  اگرچہ  اس بیماری جیسی نہیں تھی لیکن کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور تھی۔ آس پاس کی اشیاء دیکھ تو سکتی تھی لیکن  وہ سب راکھ کی شکل کی طرح نظر آرہی تھیں۔

اس کی خواہش تھی کہُ کوچین مقبرے ' جلد از جلد پہنچے، دو اڑھائی گھنٹوں کی مسافت پر تھا،کا نظارہ کرے ا اس لئے وہ وہاں پہنچ گئی۔ اس مقبرے میں ایک عظیم الشان گرجا گھربھی تھا۔ بجری کے ڈرائیو وے سے ہوتی ہوئی وہ وہاں تک پہنچی۔ کار سے اتری تو شام ہونے  کو تھی۔مسیحی عبادت گاہ کے چار سو خاموشی تھی لیکن اس سے ملحق قریبی جھیل والی خوبصورت عمارت میں اس نے ایک ہجوم دیکھا۔ ایک خاتون حضرت مریم کے مجسمے کے سامنے عقیدت سے جھک کر دعا مانگ رہی تھی۔ یہ مجسمہ تراشی گئی لکڑی سے بنی تھی جس پرتازہ تازہ پالش کی گئی تھی۔ اِس پالش کا عکس تالاب کے پانی میں پڑ رہا تھا۔ اُس ہجوم  میں ایسی خواتین بھی دکھائی دیں جنہوں نے مزدوروں والے لباس پہنے  تھے۔ اُن کی جوتیاں ربر کی تھیں اور وہ تنکوں کے ہیٹ پہنے ہوئے تھیں۔سکول کی لڑکیاں بھی تھیں جنہوں نے ہاکی کے کھلاڑیوں والی یونیفارم پہن رکھی تھی او رپیلے سرخ رنگ کے ربن باندھے ہوئے تھے۔ اِن میں کئی لڑکے ایسے  بھی تھے   جنہوں نے لڑکیوں کو تھاما ہوا تھا۔ قیسی نے کوچین کے مقبرے کو دیکھا اور پھر چل نکلی۔ رستے میں بہت سے مقامات آئے۔ کار ڈرائیو کرتے ہوئے نظاروں کواپنی روح میں اتارتی گئی۔ اس سے اس کی طبیعت میں ہلکا پن محسوس ہوا۔ آگے بڑھتی گئی۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد اسے غلے کے گودام نظر آنے لگے۔ اس  کےدائیں طرف فیکٹری تھی۔ وہاں ایک تختی لگی تھی جس پر میڈو لیک شمال کی طرف'  میڈو جھیل جانے کے لئے شمال کارخ کریں۔'  کااشارہ تھا۔ اسے دیکھ کر اسے یاد آیا کہ وہاں ایک بہت بڑا نیلام گھر تھا جہاں وہ اکثر جایا کرتی تھی۔ اسے خیال آیا کہ ماں سے ملنے سے پہلے ادھر بھی ایک چکر لگا لے اور ماں کے لئے کوئی اس کی پسند کی کوئی چیز خرید لے۔ سورج ڈھل رہا تھاجِس کی سنہری کرنیں دائیں بائیں لمبے درختوں پر پڑرہی تھیں۔ ان کا عکس ایسا  تاثر دے رہا تھا کہ وہ خونخوار کھا جانے والے سرخ سرخ دانت ہوں۔ وہ دہکتی ہوئی گندھک کی طرح چمک رہے تھے۔اس نے کار نیلام گھر اور سٹور کے درمیان گلی میں پارک کر دی۔ اُس کے بالمقابل امدادِ باہمی اور عقب میں پوسٹ آفس تھا۔

نیلام گھر ایکڑوں پر محیط تھا۔حسب معمول وہاں پرسینکڑوں گاڑیاں پارک تھیں۔جب وہ نیلام گھر داخل ہوئی تو  سہ پہر ہو رہی تھی۔ لوگوں نے زیادہ تر خریداری کر لی تھی لیکن ابھی بھی درجنوں ایسے بلاک  اورشعبے تھے جہاں نیلامی ہونا باقی تھی۔ ان   شعبوں میں  آڑھتی نے کاؤ بوائے ہیٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ دراز قد، درمیانے جسم، داڑھی اور مونچھوں والا تھا۔ اُس نے کالے رنگ کی ریشمی قمیض پہنی تھی جس کے نارنجی بٹن تھے۔ قمیض پر پھول کڑھے ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ لمبا تھا۔ وہ بڑی تیزی سے ایک  بلاک سے دوسرے بلاک جا رہا تھا۔ اس نیلام گھر میں چھوٹی، بڑی، نئی پرانی اشیاء کی بے پناہ ورائٹی تھی۔ کھلونوں والے بلاک کی نیلامی کی گئی۔ چقندر، گاجریں، سیب اور مالٹوں کے کریٹوں کے بعد پیپر ٹاول اور ٹشو پیپر اگلے تین بلاکوں میں بیچے گئے ۔ منڈی کی سیکر ٹری ہاتھ میں کاغذ پنسل لئے سٹاک لکھ رہی تھی اور جو جو چیزیں  فروخت ہو  رہی تھیں ان کو ریکارڈ کر رہی تھی۔ اِس نیلام گھر میں سینکڑوں   خانے  بنائے گئے تھے جن میں اس شعبے کی اشیا رکھی گئی تھیں  جہاں ایک ایک کرکے نیلامی کی جاتی تھی۔ بچے کھچے بلاکوں میں بھری اشیاء کو بیچا جا رہا تھا۔ان بلاکوں کے آڑھتی نے اونچی اور تیزی سے کہا.  خواتین و حضرات!  نیلامی میں حصہ لیتے وقت ہر ایک کو تین چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔یہ میں تمہیں بار بار بتا چکا ہوں۔پہلی یہ کہ عمدہ چیز دیکھ کر فوراً خرید لو اورذرا سا بھی پس و پیش نہ کرو ورنہ کوئی دوسرا شخص خرید لے گا۔  دوسری  بات یہ کہ بلند اور صاف آواز میں بولی لگاؤ اور تیسری یہ کہ دنیا میں کوئی ایسی شئے نہیں جسے بیچا نہ جا سکے۔'  اِس کے بعد وہ بولا'۔ دس کلو پیاز کی بوریوں کی کیا بولی  لگاؤگے؟ میری بولی کیا ہے؟  ُ  Whatamibit   ُ ِ ُ Whatamibit   ُ  ِ  ُ  Whatamibit   ُ َ  ُ  Whatamibit   ُ  ُ  Whatamibit    یعنی ٌ  What is my bid ‘روانی سے بول تھا  ۔جس کا مطلب تھا 'میری یہ بولی ہے ۔   میں یہ بولی لگاتاہوں '(ُ What is my bid )۔ وہ ہر فروخت کرنے والی شئے پر پانچ با ر یہ نعرہ دہرایا کرتا تھا۔وہ پیشہ ورانہ انداز میں اسی طرح بولی لگایا کرتا تھا۔

 قیسی کو  اس وقت   محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ سٹور کے چاروں طرف اسے  ہر شئے دھندلی  نظر آ ر ہی تھی    جب کہ آڑھتی کی آواز  اسےصاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ اتنی اُونچی تھی کہ ہر سُو پہنچ رہی تھی۔ اُس نے اٹھانوے بھوسے کی گانٹھوں، ٹماٹر کی چٹنی کے بنڈل، انڈوں کے کریٹ، گندم کی پچھتر بوریوں، چالیس گیلن انٹی فریز اور بھیڑ بکریاں جو کہ نیلام گھر کے باہر تھیں،بیچ دیں۔ پھر اُس نے سلاد کے ڈبے، تصاویر، آرٹ اور سنہری آلات وغیرہ بیچے۔اگلے بلاک میں اس نے انگوروں کے گچھے اٹھالئے۔ وہ کالے اور نارنجی رنگ کے تھے جو کیلیفورنیا سے آئے تھے۔ اُس نے ان کے کئی کریٹ نیلام گھر کی طرف سے گاہکوں کی سمت بطور تحفہ اچھالنے شروع کر د یئے۔پھر وہ جوتوں کے بلاک کی طرف آیا۔ اُس نے ایک شخص کو جس نے سبز اوورآل پہنا تھا اور ہال کے درمیان کھڑا تھا،  پکار کر کہا۔ ' لوؤ!تمہیں جوتوں کی ضرورت ہے؟ تم جوتوں کے تاجر ہو اورمیں جانتا ہوں کہ تمہیں یہ چاہئیں،بولی لگاؤ۔ میرے دوست دیر نہ کرو۔۔ بولی لگانے کا تمہیں ایک موقع دے رہا ہوں۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وقت کم ہے جلدی جلدی بولی لگاؤ۔ اِس سے کوئی فر ق نہیں پڑتا کہ تم کہاں کے رہائشی ہو۔ میرے لئے سب علاقے ایک جیسے ہیں۔'یکدم وہ گھوما اور  مذاق میں اپنی پیٹھ گاہکوں کی طرف گھماکرہلانے لگا۔ سب حاضرین نے قہقہے لگائے اور لو ؤنے وہ جوتے خرید لیئے۔

شام ہونے کی وجہ سے تمام کمرہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ سگریٹوں اور سگریٹ لائٹر کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔آڑھتی تمام اشیاء فروخت کرنے کے بعد آخری بلاک کی طرف آیا جہاں جنگِ عظیم اوّل اور دوم سے متعلق نودرات تھے۔ان میں جنگ عظیم دوئم کی فوجی وردیاں تھیں، بڑے بڑے کوٹ سرمئی، نیلے اور بھورے رنگ والے تھے جو کہ جگہ جگہ پھٹے ہوئے تھے۔ مختلف ٹکڑوں سے اُن کو سی دیا گیا  تھا۔ یہ کوٹ کینیڈا سے آئےتھے۔اِس بلاک کے ایک کونے میں 1931کی فوجی قمیص اورپینٹ بھی تھی۔ وردی کے تمام کپڑے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے سی کر بنائے گئے تھے۔ فوجی کمبل بھی ٹکڑوں میں تھے۔ ان کو ملا کر  سلائی کر دی گئی  تھی ۔ اس دور میں کساد بازاری تھی اور نوکریاں بالکل نہیں تھیں۔ روپے پیسے کی کمی تھی اور خوراک کا  قحط تھا۔ گرم کپڑے میسر نہیں تھے اِس لیئے پھٹی ہوئی وردیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے سی دیئے جاتے تھے تاکہ وہ پہن سکیں یا اوڑھ سکیں۔ ایسا کرنا فوجیوں کے خاندان کی ضرورت تھی جو انہیں کسی حد تک سخت سردی سے محفوظ رکھ سکتی تھی۔ اس بلاک میں ایک ایسا کمبل بھی تھا جو فوجیوں کے کوٹ پینٹ، قمیضوں اور سویٹروں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا گیا تھا۔ایک جگہ  پر جنگ عظیم دوئم میں استعمال شدہ ایک لالٹین بھی  نیلامی کے لئے رکھی گئی تھی۔ جنگ عظیم اول اور دوم ختم ہوئے عرصہ بیت چکا تھا اور اس زمانے کے نوادرات نیلامی کے لئے اس لئے پیش کی جاتے تھے تاکہ عوام الناس میں ایک تو ماضی کے لوگوں کی قربانی کا احساس اور  جذبہ ہمدردی پیدا کرنا تھا۔ 

 آڑھتی بولا، 'یہ برف میں جلنے والی لالٹین ہے۔ بولی لگاؤ۔ یہ لالٹین چین سے براہِ راست آئی ہے۔ایک نادر تحفہ ہے جو بالکل اصلی حالت میں ہے۔ ہمیں اب اِس کو بیچنا ہے اور ہر شے نے بک جانا ہے۔'

 اس لالٹین کے پلیٹ فارم پر برف کی قوس اور رنگدار روشنی پڑی جس نے اس کو قوس و قزح کے رنگوں سے سجا دیا۔ اِس وقت ماحول اس طرح کا بنا دیا گیا تھا کہ سبز، نارنجی، پیلی، اور نیلی روشنیاں جنگی سماں پیش کرنے لگی تھیں۔ ہجوم نے اس لالٹین کو دیکھ کر یک دم  ’اوہ‘ کی آواز نکالی۔ ان میں قیسی بھی شامل تھی۔ 

'خواتین و حضرات! یہ اصلی ہے، مصنوعی نہیں۔۔۔بولی لگاؤ۔۔۔ بولی لگاؤ۔۔۔یہ بک گئی ہے۔  اس کا خریدار کیفے کا مالک ہے۔ میرے خیال میں یہ صحیح خریدار ہے۔ لوگو! تمہارا کیا خیال ہے؟ 'پھر وہ ایسے مجسموں اور تصاویر کی طرف بڑھا جو لکڑی اور دھات سے کھود کر بنائی گئی تھیں۔ تصاویر پلیٹ فارم پر رکھی گئی تھیں اورمتعدد رنگوں سے بنائی گئی تھیں۔اس کے بعد اس بلاک کی طرف گئے جہاں خمدار برف پر رنگ برنگی روشنیاں پڑ رہی تھیں۔ اس پر قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے جو تاریک آسمان کے نیچے سبز، بنفشی، پیلے اور نیلے رنگ کی روشنیاں بکھری ہوئی تھیں َ۔ وہ چینی  آرٹ تھا۔ خواتین و حضرات! یہ خالص شئے ہے۔ کیا بولی لگاؤ گے ۔کیا بولی ہے، کیا بولی ہے؟۔۔۔ یہ بک گیا ہے۔ بلیو بوائے کیفے کے مالک نے کامیاب بولی دی ہے۔ وہ اس کا صحیح حقدار ہے۔تم لوگ کیا ایسا سمجھتے ہو؟ اس پر ہجوم نے پرجوش ہو کرُ ہیلو '  کہا۔ 

اس وقت کمرہ گھومنے لگا اور قیسی  اس  پہیے کے رم کے جوڑے کو  جو کہ بید کی لکڑی سے جس پر نیلا رنگ کیا گیا تھا، پر نظریں جمائے کھڑی رہی ۔یوہ چیز  ڈزنی لینڈسے آئی تھی۔ اس وقت محل سے گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں جو تخیلاتی دنیا کی نشان دہی کر رہی تھیں۔  قیسی کو پھر سے ُ بیس برو'ُ کے بنچ یاد آئے جوموسم خزاں میں  اس کے گھر کے قریبی دریا کی طرف جو روسی کانگریس ہال تھاچمکتے دمکتے بالشوائی ناچنے والے لباس میں  وہ اور دیگر لوگ ' ڈان کویکزوٹ ُ کی لے پر ڈانس کیاکرتے تھے۔ اب اس نیلام گھر میں  زیادہ تر بلاک  پرنیلامی مکمل ہوچکی تھی۔اب وہ  چینی الماری  پر کندہ کی ہوئی پریاں، سانڈسے لڑنے والے سفید برف  اورسات بونوں کی بولی لگوارہاتھا۔ یہ بات طے ہے کہ قیسی  ایک رومانی شخص تھی۔ نظاروں اور نوادرات کو اصل مقامات پر جا کر دیکھنا اس  کاپسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس کا من چاہا کہاس ماحول سے دوربندرگاہ کے کسی ایسے سہانے ٹھکانے پرجو چاہت کو رومانی رنگ دینے والے  اوریگون ساحل'  پرریت کے ٹیلے،  رائے تھامپسن ہال، ویج لینڈ، ماؤنٹ ہوڈونا ، گرینڈکینین اور میڈیسن سکوئر کے علاوہ بہاما کے اعلیٰ دو کمروں والے سویٹ جو کہ حقیقت میں یورپی لحاظ سے بہت کمتر، آبی بخارات سے بھرے ہوئے مقامات تھے، پر جائے۔وہ اپنی والدہ کے لئے  کچھ خریداری بھی کرنا چاہتی تھی۔ مخبوط الحوا س آڑھتی  چیزوں کی خصوصیات   بڑھا چڑھا کر  نیلام کر رہا تھا۔ اسے یقین نہیں تھا کہ اشیافروخت کرتے وقت   آڑھتی جو خصوصیات بیان کررہاتھا یا  ان کے بارے میں دعوے کررہاتھا سچ تھے یا جھوٹ  ۔یہ بات  سرگوشی  میں کرتے ہوئے وہ ہال میں ادھر ادھر بھاگنے لگی۔

  اس کے بعد آڑھتی نے  لوگوں کے سامنے  جنگ میں پہنے گئے پھٹے ہوئی فوجی وردیاں جو ٹکڑوں سے  سی گئی تھیں؛اور ان کے جنگ میں استعمال کئے گئے   لحاف  نیلامی کے لئے پیش کئے گئے۔ وہ ہجوم کے ہمدردی کے جذبات ابھارنے میں پوری طرح کامیاب ہو گیا تھا۔وہ جنگی تکالیف ومصائب اور دکھ درد کی صحیح عکاسی کر رہاتھا۔ اسے دیکھ کر موجود خواتین سسکیاں لے رہی تھیں یا آنسو پی رہی تھیں۔ وہ ایسے درد ناک تاثرات پیش کر رہی تھیں جیسے ان کے جسم کا کوئی جزو کاٹ دیا گیا ہواور انہیں اس کے اذیت محسوس ہو رہی ہو۔

 اب آڑھتی لوک ورثہ کے بلاک کی طرف گیا۔ اس نے روس کے سردیوں کے محل میں صدیوں پرانے نوادرات اور ثقافتی ورثے، ملکہ کیتھرائین کے نوادرات کے ذخیرے، ماٹسی کی شاہکار تصاویر و آزادی نسواں سے متعلق تھیں کاتفصیلاً جائزہ لیاتھا۔ اس  نے جنگ عظیم دوم کے بے شمار نوادرات جمع کر رکھے تھے ۔ کوئی شئے موجودہ دور میں اتنی زیادہ مقدار میں نہیں ہوتی جتنا کہ الہام یا بصیرت ہوتی ہے۔ وہ ایک اکیلی بھی ہو سکتی ہے اور ایک درجن بھی۔ اس میں خیال کرنا آسان نہیں اور سرسری طور پر کسی لحاظ سے ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔اسے کینیڈا کے بحیرہ قلزم کے مغربی ساحل کا سفر یاد آیا ججو کافی معلوماتی تھا۔ قیسی  و ہ شخص تھی جس میں ایسی اندھیری رات میں جس کے پیچھے دور کہیں روشنی ہو، ریت کے نشانات پر چل سکتا ہے۔۔سمندر اور ریت دونوں کی اپنی اقدارہیں ۔ان کا اپناحسن ہے۔ اس میں قدیم تہذیب و تمدن کی جدید روحوں میں موجودگی پائی جاتی ہے

سب سے آخر میں اُس نے ایک خوبصورت لڑکی کا مجسمہ بیچنے کے لئے رکھا۔ یہ لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اُس نے ہاتھ میں جال پکڑا ہوا ہے۔ اُسے سنگِ مر مر کے ایک اونچے پلیٹ فارم پر رکھا گیا تھا جس سے وہ کافی اونچا ہو گیا تھا۔  قیسی  نے اس مجسمے کوپہچا ن لیا۔یہ  مجسمہ اس خوبصورت لڑکی کا تھا   جس کے آس پاس، ادھر ادھر پانچ لاکھ فوجی جنگ عظیم دوم میں اجتماعی قبروں میں دفن تھے۔ یہ فوجی لینن گراڈ کے محاصرے میں عوام  کو محفوظ  رکھنے کی خاطر  ملک کے  کام آئے تھے۔ اس مجسمے کے عقب میں نیلام گھر کی ایک نو حہ خواں ایک غمناک موسیقی کی دھن پر گا رہی تھی۔ وہ جس موسیقی پر گا رہی تھی  ، وہ جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد بنائی گئی تھی۔ اس کے بول کچھ اِس طرح تھے۔

        ہمارے  مرد  واپس  کرو     ……    ہمارے  مر د  واپس  کرو

        ہمارے  مرد  واپس  کرو     ……    ہمارے  مرد  واپس  کرو 

شماریات  بیان کرتی ہے کہ جنگ عظیم  دوم کے خاتمے پر سات عورتوں کے لئے صرف ایک مرد بچا تھا جو یا تو بوڑھا تھا یا بچہ۔ وہ اسے دیکھ کر بے حد غمزدہ ہوگئی۔کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ وہ اتنی قیمتی ہوتی ہیں کہ جان دے کر بھی خرید ی نہیں جا سکتیں۔ لڑکی کے اس مجسمے نے  قیسی کا دل چیر کے رکھ دیا۔ اس کی والدہ کاگھر قریب تھا۔وہ اس   منظر سے اتنی دل برداشتہ ہوگئی کہ وہ وہ اپنی ماں سے ملے بغیر واپس اپنے ہوٹل چلی گئی۔ اس کے چہرے پر کرب کے نشان پیدا ہو گئے تھے۔اسے ایسا ملگا کہ عظیم فوجیوں  کی دی گئی قربانیوں کو کرنسی میں بیچ کر ان کی عظمت میں توہین  کی جا رہی تھی۔ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا دل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اوران کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ان کی خرید وٖفروخت گناہ ہے۔ چیتھڑوں سے بنے ہوئے کمبل، کوٹ، ْقمیصیں،لالٹین، گلوگارہ کا بلک بلک کر گانا کہ ہمارے مرد واپس کر دو اندوہناک واقعات تھے۔ ایسی اشیاء انمول تھیں۔ ان کی نیلامی انسانیت کی   تحقیرتھی۔ ان کی عظمت  کے دوام پن ختم کرنے کی کوشش تھی۔ ان سے منسلک تاریخی واقعات ورثہ تھے۔ ان کی خوشی، غمی، ترشی،مٹھاس کو روپے پیسے میں تولنا قطعاً غیر مناسب تھا۔ انہیں کسی ایک فرد کے قابض ہونے کی کی بجائے عجائب گھروں کی زینت بننا چاہئیےتھا۔ ایسے رتن پاسبان عقل سے نہیں پرکھے جا سکتے۔کسی ایک گھر میں جانے سے ان کے اثرات محدود ہو جاتے ہیں اور ثمرات عوام الناس تک نہیں پہنچتے۔ اس نے اس نیلامی کودل پرلیا اور بوجھل دل لئے واپس چلی گئی ۔۔۔ لیکن  یاد باقی ہے۔   

حالات زندگی   

ایڈنا الفورڈ  کینیڈا کے صوبے سیس کیچوان   کے شہر ٹرٹل دورڈ  میں 1947میں پیدا ہوئی۔ اس کو بچپن ہی سے ادبی سرگرمیوں سے دلچسپی تھی۔ مقبول معیاری رسالوں میں اس کی کہانیاں چھپیں۔ اس کی کہانیاں ' سی۔ بی،سی 'ریڈیو پر بھی پڑھی

جاتی رہیں۔ اس نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ 

A sleep full of Dreams (1981)  اس کی مقبول ترین  تصانیف میں سے ایک ہے جس میں اس نے البرٹا کے سینئر شہریوں کے بارے میں لکھا ہے۔ اس نے متنوع موضوعات پر لکھا ہے۔ اس کی تحریر میں شائستگی پائی جاتی ہے۔ اسے ہر فن مولا کہا جاتا ہے۔ بولی /نیلامی (The Bid

ایک دل لبھانے والی کہانی ہے جو اس کے مختصر کہانیوں کے مجموعے  The Garden of Eloise Loon (1986)  سے لی گئی ہے۔  اُسے  Mariam Enzel Award   اور Award Gerala    Limpest   سے نوازا گیا۔ 

Xxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxx

 Book  3))39

مور کی مستی کا وقت

The Time of The Peacock

مونا  عبداللد

Mena Abdullah  

جب میں بچی تھی تو تمام دنیا میرے لئے جنت سے کم نہ تھی۔  فارم ہاؤس کی دنیا میرے لئے شاندار تھی۔ ہم ایک فارم ہاؤس میں رہتے تھے۔  اماں، ابا، بڑی بہن رشیدہ، میں (نمی) اور چھوٹا بھائی لعل۔  زندگی نہایت خوشگوارتھی۔ابا جب پندرہ سال کے تھے تو اپنے گہرے دوست انکل سعید کے ساتھ قسمت آزمائی کے لئے پنجاب انڈیا سے آسٹریلیا چلے آئے تھے۔  ابّا کا خاندان پشتی کا شت کار تھا۔  آسٹریلیا میں اس پیشہ کی بڑی قدر تھی۔ دور دراز دیہی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمین بے آباد پڑی تھی۔  اُس نے سخت محنت سے اپنا مقام بنایا اور بڑے رقبے پر کاشتکاری کی۔  بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے پالے۔   ایک فارم ہاؤس بنا لیاجو ہمارا مسکن تھا۔ اُس میں ایک باغ بھی تھا جس میں پھلوں کے درخت، پھول اور پرندے پالے تھے۔  میری ماں کا آبائی وطن بھی انڈیا تھا۔  اُس کے والدین پانڈیچری سے ہجرت کرکے آسٹریلیا کے شہری علاقے میں آباد ہو گئے تھے۔  ابا سے اس کی شادی ہوئی تو وہ اس کے ساتھ گاؤں چلی آئی۔  اسے گاؤں کی زندگی کا اگرچہ کوئی تجربہ نہیں تھا پھر بھی وہ ابا کے ساتھ گاؤں میں پر مسرت زندگی گزار رہی تھی۔ ابا کی تعلیم واجبی تھی اس لئے وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے لئے دارالخلافہ سڈنی منتقل ہوگئے لیکن اس نے فارم ہاؤس اور گاؤں کی زمین فروخت نہ کی۔ 

ہمارا فارم ہاؤس کے ساتھ گہرا تعلق رہا۔  چھٹیاں اور تہوار ہم ہمیشہ گاؤں میں ہی منایا کرتے تھے۔  ہمارے والدین کے عزیز و اقارب، دوست احباب بھی اس دوران جمع ہو جاتے اور پرانی یادوں کو دہرایا کرتے تھے۔ 

مجھے یاد ہے کہ جب ہم گاؤں آتے تو ابا اور اس کے دوست انکل سعید صبح صبح گھڑ سواری پر نکل جایا کرتے تھے اور سورج نکلنے پر واپس آیا کرتے تھے۔  رشیدہ کو گاؤں کی کہانیاں یاد تھیں۔  وہ اماں سے کرید کرید کر قصے کہانیاں سنا کرتی تھی۔  ہم تینوں بہن بھائی فارم ہاؤس میں خوب دھما چوکڑی مچایا کرتے تھے  اور اگر وہاں کوئی مہمان یا ملاقاتی ہوتے تو ان کے ساتھ اٹھکیلیاں بھی کیا کرتے تھے۔  مجھے یہ بھی یاد ہے جب ایک کالے رنگ کے شخص لاسکر نے میری ماں کو مور دیا تھا جسے اس نے باغ میں باڑ لگا کر مرغ کے قریب رکھ دیا تھا۔  یہ مور انڈیا سے لایا گیا تھا۔ 

مجھے اُس دور کی خزاں کی شامیں بھی یاد ہیں جب ہم دریا کے کنارے خشک پتوں کو جلا کر ان کے بلند شعلوں کا عکس دریا میں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔  اماں اگرچہ مسلمان ہوگئی تھی لیکن وہ پیدائشی طور پر ہندو تھی اور ہمیں ہندو مذہبی تہواروں اور اہم واقعات کے بارے میں آگاہ کرتی رہتی تھی۔  اُن میں قابلِ ذکر رام لیلےٰ، رام شیام وغیرہ کے قصے کہانیاں ہوتی تھیں۔  میں اس بات سے بہت متاثر تھی کہ رام کی بنسری کی لے اتنی مسحور کن اور طاقتور تھی کہ وہ ایک پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔  جب آگ کے شعلے کم ہو جاتی تو ہم اماں سے ایسی کہانیاں سنتے سنتے آگ پر مکئی کے سٹے ڈال دیتے  اور پھر جب وہ بھُن جاتے تو ہم انہیں کھا  لیتے۔

 سردیوں کا موسم بڑا شدید ہوتا تھا۔  بہت زیادہ برفباری ہوتی تھی۔  درجہ حرارت نقطہ انجماد سے درجنوں درجے نیچے چلا جاتا تھا۔  تندو تیز سرد ہوائیں ہمارے بالوں کو اڑایا کرتی تھیں۔  جب ہم آتش داں کے قریب بیٹھ کر آگ تاپ رہے ہوتے اور گھر کے باہر سردی میں کتے بھونک رہے ہوتے تو کتنا اچھا لگتا تھا۔

موسم بہار میں ہر طرف ہریالی اور پھول ہی پھول کھلے ہوتے تھے۔  اس موسم کے پہلے دن میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ’راز‘ کا لفظ سنا، وہ بھی ابا سے۔  مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اب میں بڑی ہوگئی تھی اگرچہ اس وقت میری طبعی عمر صرف چار سال تھی لیکن ابا نے مجھ پر اعتماد کرکے ذمہ دار بنا دیا تھا۔  اس دوران میں نے ابھیگنتی سیکھنا شروع کی تھی۔  میرا خیال تھا کہ میں ہر شئے کو گن سکتی تھی۔  میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیاں گن سکتی ھی۔قدم، کھڑکیاں یہاں تک کہ ان پہاڑیوں کو بھی گن سکتی تھی جو ہمارے گھر کی کھڑکی سے نظر آ تی تھیں۔ ان پہاڑیوں کو گنتے وقت کئی بار مجھے محسوس ہوتا کہ  کچھ گڑ بڑ ضرور ہوجاتی تھی۔ میرے حساب کے مطابق وہ پانچ ہونی چاہئیں تھیں۔  پہلے وہ پانچ ہی گنی جاتی تھیں لیکن اب گننے کے بعد ایک بچ جاتی تھی، شاید یہ رام کی بنسی کا کمال تھا جو اس نے ایک اور پہاڑی کو ہلا کر یہاں منتقل کر دیا تھا۔  ایک دو تین پانچ ……ایک بچ گئی۔  بار بار گننے پر بھی ایک بچ جایا کرتی تھی۔  مجھے یہ بات بے حد پریشان کرتی تھی۔  کرشنا رام نے گائے بھینسوں، ریوڑوں یا بھولے بھٹکے مسافروں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے شاید ایسا کیا ہو گا۔  بات جو کچھ بھی تھی، پہاڑی کی اس حرکت نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔  اس لئے میں بھاگی بھاگی اماں کے پاس یہ پوچھنے گئی کہ میں کس طرح کرشنا بھگوان کو خوش کر کے پہاڑی کو اس کے اصلی مقام تک لا سکتی تھی لیکن جب میں وہاں پہنچی تو اماں کا بڑا پیٹ دیکھ کر سب کچھ بھول گئی۔  مجھے یاد آیا کہ ہمارے گھر نیا بے بی آنے والا تھا۔  میں جوش میں آکر بستر پر جمپ لگانے لگی۔

 میں نے دیکھاکہ اماں باغ میں پھولوں کے قریب نظریں جھکائے کھڑی تھی۔  اس کی آنکھیں بند تھیں اور کچھاشلوک پڑھ رہی تھی۔  اس کے دونوں ہاتھ اس کے چہرے کے سامنے جڑے ہوئے تھے۔  پھولوں کے گر د انار، آلو بخارا اور دیگر پھلوں کے درخت تھے۔  اس وقت وہ انار کے درخت کے نیچے دودھ سے بھرا ہوا کٹورا رکھ رہی تھی۔ دیگر درختوں میں بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا۔  میں نے چیخ کر ماں سے پوچھا کہ بے بی کب آئے گا؟  اب تو واقعی بہار کا موسم آگیا ہے، تم نے کہا تھا کہ موسم بہار میں آئے گا۔بے بی جلد ہی آجائے گا ناں؟

ہاں، ماں بولی۔۔ جلد ہی 

میں نے یہ سن کرخوشی سے  قہقہہ لگایا اور اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر اپنا سر تھپتھپانے لگی۔  میں نے کہا کہ میں اب بڑی ہوگئی ہوں،میں ایک ٹانگ پر اچھل سکتی ہوں۔

  ابا نے مجھے راز بتانے کا کہا ہے اورمیں پانچ تک گنتی گن سکتی ہوں۔  میں بھاگتے ہوئے اپنے مور کی طرف چلی گئی۔  شاہجہان دیکھو!  موسم بہار آگیا ہے اور گھر میں نیا بے بی آنے والا ہے، میں نے جوش میں کہا لیکن مجھے ایسا لگاکہ اسے اس خبر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔  بے وقوف کہیں کا!   تمہیں تو ارد گرد کا کچھ بھی علم نہیں اور مجھے لگا کہ اب میں دس تک بھی گن سکتی ہوں لیکن شاہجہان کو اس خبر پر بھی کوئی اثر نہ ہوا  اور  وہ اپنی بے وقوف سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھتا ہی رہا۔  مجھے یہ حیرانی تھی کہ وہ ساتھ والے پنجرے میں مرغ کے ساتھ کیوں رابطہ نہیں رکھتا؟  میری طرح اچھل کود اور بھاگ دوڑ کیوں نہیں کرتا؟۔۔ ۔ اور کچھ نہ سہی وہ اپنی دم کے پر تو پھیلا سکتا تھا۔  چلو اگر وہ اس قابل بھی نہیں تھا کہ دم پھیلائے تو کم از کم وہ اس کی کوشش تو کر سکتا تھا ۔لیکن وہ میری طرف ہونقوں کی طرح دیکھتا رہا۔  ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہتے۔  میں بولتی رہی کہ وہ پر پھیلائے لیکن سب بے سود۔  اس پر میں بے حد افسردہ ہوگئی۔ 

رشیدہ صحیح کہتی ہے کہ شاہجہاں اُس مور کی طرح، جس کی تصویر پر پھیلائے ہوئے کشمیری پنکھے پر لگی ہے، کیطرح پر کبھی نہیں پھیلائے گا۔  میں نے اسے کہا کہ زیادہ سے زیادہ شاہجہان تم ناکام ہو جاؤ گے، کم از کم تمہیں کوشش تو کرنی چاہئے۔  اُس کو اماں کے پاس لانے والا شخص لاسکر (Lascar)تھا۔  اس وقت مور کا رنگ سفید تھا۔  رشیدہ نے اسے دیکھ کر سوال اٹھایا تھا کہ مور کے پر تو نیلے، سبز اور سنہرے ہوتے ہیں۔  یہ مور کیسے ہو گیا  ؟

 اماں نے کہا کہ یہ بچہ ہے ابھی یہ پر نہیں پھیلا سکے گا،   ابّا نے کہا کہ یہ آسٹریلیا میں کبھی بھی پر نہیں پھیلا سکے گا جبکہ انکل سعید کا ماننا تھا کہ یہ اس وقت تک پر نہیں پھیلائے گا جب تک کہ اس کی مادہ اس کے سامنے نہیں ہوگی۔

 نرس اماں کی تیمار داری کے لئے گھر میں رہ رہی تھی۔  اماں کا برا حال تھا۔  اس وقت اس کا چہرہ سیب کی طرح گول اور گلابی ہوگیا تھا۔  رشیدہ کھڑکی میں ایک کتاب لئے بیٹھی تھی اور ایسا تاثر دے رہی تھی جیسے کہ وہ اسے پڑھ رہی ہو۔  یہ کتاب بے بی کی پرورش کے بارے میں تھی۔  اس نے کہا کہ میں یہ کتاب اس لئے پڑھ رہی ہوں تاکہ بے بی کی دیکھ بھال عمدہ طریقے سے کی جائے۔  مجھے اس کی بات پر اس لئے یقین نہیں تھا کیونکہ وہ ابھی کچھ بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔  میں نے کہا،   تم تو پڑھ نہیں سکتی تو اس نے جواب دیا کہ وہ کتاب پڑھ نہیں رہی بلکہ تصویریں دیکھ کر اندازہ لگا رہی تھی کہ بے بی کی دیکھ بھال کیسے کی جائے۔  میں باہر باغ میں چلی گئی جہاں میرا چھوٹا بھائی لعل زمین کو کرنڈی سے کھود رہا تھا۔  اس نے کہا کہ وہ آنے والے بے بی کے لئے کیاری بنا رہا تھا۔  میں بھی اس کے ساتھ زمین کھودنے لگی تو اس نےمنع کر دیا اور کہا کہ یہ کام عورتوں کا نہیں بلکہ مردوں کاہے تو مجھے وہاں سے جانا پڑا۔

 ابّا آلو بخارے کی پتلی شاخوں سے ایک ٹوکری بنا رہے تھے۔  شاخیں زمین پر رکھی تھیں اوراس کے چاروں طرف ٹوکری بن چکی تھی جو اس کے کاندھوں تک آگئی تھی۔  وہ درمیان میں اکڑوں بیٹھا تھا۔  میں نے اسے ڈرانے کے لئے چپکے سے بنی ہوئی ٹوکری پھلانگ کر اندرچھلانگ لگائی اور ’ٹھاہ‘ کہا تاکہ وہ ڈر جائے لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پہلے کی طرح اپنا کام کرتا رہا۔  اس نے کہا کہ اسے پتہ تھا کہ یہ میں ہی ہوں۔  میں اس پر غرائی اور منہ بنایا تو وہ حسب معمول ہنس دیا۔

میں نے پوچھا،   ابا۔۔ ۔موروں کی دمیں اتنی خوبصورت کیوں ہوتی ہیں؟

کیونکہ ان کے پاؤں بھدے ہوتے ہیں اور دم انہیں چھپا لیتی ہے،  ابا نے جواب دیا۔

لیکن شاہجہان کے پاؤں تو ہر وقت ہر کسی کو نظر آتے ہیں وہ تو کبھی بھی دم کے پر نہیں پھیلاتا؟

 ہاں۔ ابا نے ایسے کہا جیسے کہ اس نے میرے سوال کا جواب دے دیا ہے۔  دن بھر میرے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا رہا۔  کبھی ہنسنا، کبھی رونا، کبھی صدمہ اور آج موسم بہار کا پہلا دن تھا۔  شاہجہان نے اپنے پر نہیں پھیلائے، رشیدہ ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے اسے پڑھنا آتا تھا۔  لعل نے مجھے کیاری نہیں کھودنے دیاور اماں سانپوں کے لئے دودھ رکھ رہی تھی۔  مجھے اپنی ایسی زندگی پر بے حد افسوس ہونے لگا میری بھی کیا زندگی ہے۔  دکھ ہی دکھ۔  غم دور کرنے کے لئے میں نے گنتی شروع کر دی۔  ایک دو تین پانچ، یک دم ابا بولے،  سنو!  تم اب بڑی ہوگئی ہو اس لئے تمہیں مناسب وقت پر ایک راز بتاؤں گا۔

 وہ راز کیا ہے؟  میں نے پوچھا۔

اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ یہ بات ہم دونوں میں ہی رہنی چاہیے۔

یہ راز کہیں نہیں جائے گا۔ یہ راز راز ہی رہے گا،   میں نے یقین دلایا۔

 ہم مسلمان ہیں لیکن تمہاری ماں کے ماتھے پر بندی کے نشان سے ظاہر ہے کہ وہ پہلے مسلمان نہیں تھی۔  وہ برہمن تھی اور اُن تمام رسموں پر یقین رکھتی تھی جو اس وقت اس کے ہندو  مت میں پائی جاتی تھیں۔  اب بھی وہ ان روائتوںپر یقین رکھتی ہے۔

یہ میں جانتی ہوں اور وہ پہاڑ۔۔۔۔۔۔۔میں بولنے لگی تو ابا نے چپ کرا دیا۔

 بندریا!  چپ ہو جاؤلیکن اب تیری ماں مسلمان ہو چکی ہے۔  اسے وہ پرانی باتیںپوری طرح  یاد ہیں اور وہ موسم بہار میں سانپوں کو دودھ پلاتی ہے تاکہ وہ ہمیں نقصان نہ پہنچا سکیں۔ میں اپنی طرف سے مکمل کوششکر رہا ہوں کہ وہ مسلمان طرزِ حیات اپنائے۔  مجھے امید ہے کہ میں اس میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا۔ انشاء اللہ۔  آہستہ آہستہ وہ سب اسے دل سے اپنالے گی، ویسے ہمارے باغ میں کوئی سانپ نہیں ہے۔

اماں بتاتی ہے کہ وہ ہر روز دودھ پی لیتے ہیں اگر سانپ نہ ہوتے تو دودھ ویسے کا ویسا ہی رہتا،   میں نے کہا۔

 اگر دودھ کو برتنوں میں رہنے دیا جائے تو سانپ ضرور ہمارے باغ میں آ جاتے اور یہ بدبخت کسی کا لحاظ نہیں کرتے ،جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ ضرور ڈس لیتے ہیں اور وہ راز ہے جو میں تمہیں بتانے جا رہا ہوں،   وہ میرے اور تمہارے درمیان رہنا چاہیے۔  میں ہر روز رات کو باغ میں جاتا اور دودھ کو ضائع کر دیتا ہوں۔ اس طرح مجھے ڈر نہیں رہتا کہ کوئی سانپ تمہیں، رشیدہ، لعل، تمہاری اماں، مجھے یا کسی اور کو ڈس لے گا۔  دوسرا فائدہ یہ کہ تمہاری ماں کی تسلی رہتی ہے کہ اس نے ہم تمام لوگوں کو نقصان سے بچا لیا ہے۔  یہ راز کسی کو بھینہیں بتانا ہوگا،   ابا نے کہا۔

 نہیں، کبھی نہیں۔ یہ بات میں اپنے تک ہی محدود رکھوں گی۔ ابا کی اس بات نے  مجھ میں اعتماد پیدا کردیا تھا کہ اب میں بڑی ہوگئی ہوں۔  میں فخر یہ انداز سے دن بھر گھومتی رہی۔  رشیدہ اور لعل سے مہربانی سے پیش آئی۔

  میں اس بات پر اترا رہی تھی کہ میں ہی ایسی لڑکی ہوں جسے اس راز کا پتہ ہے۔  میں نے خود کو اماں سے بھی زیادہ معتبر پایا کیونکہ اس راز کا تو اسے بھی پتہ نہیں تھا۔  میں نے اماں سے پوچھا۔ بے بی کب آئے گا۔ جلد۔ 

کتنی جلد؟

رات کو یا کل صبح تک یا اس سے اگلے دن۔  ماں بولی

کیا تمام بے بی رات کو ہی آتے ہیں؟  میں نے پوچھا۔

میرے تمام بے بی رات کو ہی آئے ہیں۔   ماں نے جواب دیا۔

لیکن……؟ میں بولنے لگی۔

بس اب اور کچھ نہیں۔ بھاگ جاؤ۔۔ میرا سر چکرا رہا ہے،   ماں نے کہا۔

 اس رات مجھے درد ناک عجیب سی آوازیں سنائی دیں جبکہ سب لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔  میں نے سوچا کہ یہ مور کی ہی ہو سکتی ہے۔  میں اسے دیکھنے کے لئے فوراً کھڑکی کی طرف بھاگی۔  کھڑکی میں سے باغ میں جھانکا۔  چودھویں کا چاند تھا۔  ہر سو روپہلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔  چاند سوا نیزے پر تھا۔ میں اگر اچھل کر اس کو پکڑنے کی کوشش کرتی تو میرا خیال ہے کہ وہ پکڑا جا سکتا تھا۔  وہ بہت بڑا تھا۔  شاہجہاں ایک کونے میں گم سم افسردہ براق کی طرح سفید چاند کی روشنی میں چمک رہا تھا۔  اسے دیکھ کر میرے دل میں ہمدردی بھرآئی۔

 میرے منہ سے فوراً نکلا،   شاہجہاں!  میرے بھائی۔ تمہیں اپنے بدصورت پاؤں کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔  تمہیں اپنی خوبصورت دم کی طرف توجہ دینی چاہیے جو بے حد نرم، ملائم اور خوبصورت ہے۔  اِدھر میں یہ بات کہہ رہی تھی تو اُدھر شاہجہان نے دھیرے دھیرے اپنی دم پھیلانا شروع کر دی اور وہ پنکھے پرمور کی تصویر کی طرح سفید جھالر کی شکل اختیار کر گئی جو رو پہلی روشنی میں بے حد چمک رہی تھی اور اُس نے ناچنا شروع کر دیا۔  میرے منہ سے بے اختیار نکلا،  میرے شاہجہان!  ایسا لگتا ہے جیسے تم آسماں سے اترے ہو۔  اُس کی خوبصورتی کا یہ نظارہ صرف میری قسمت میں ہی تھا۔  میں نے اس نظارے کو قید کرنے کے لئے آنکھیں بندکر لیں، جب ایک پل کے بعد آنکھیں کھولیں تو وہ نظارہ ختم ہو چکا تھا۔  اس کی دم کے پر نیچے ہوگئے تھے اور وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔

 صبح کے وقت نرس نے ہمیں جگایا۔  کہا اندازہ لگاؤ رات کون سا بے بی آیا تھا؟  تم لوگوں کی ایک بے حد پیاری اور خوبصورت بہن پیدا ہوئی ہے۔

 بھائی نہیں؟   لعل نے پوچھا،  کیا وہ بے بی بھائی نہیں ہے؟  ہم نے اس کی بات پر قہقہہ لگایا۔  رشیدہ اور میں اماں کے کمرے کی طرف بھاگے تاکہ نئے بے بی کو دیکھ سکیں۔  اماں بالکل چپ چاپ بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔

  اُس کا موٹا پیٹ غائب ہو چکا تھا۔  اس کے سر کے بال تکئے پر بکھرے پڑے تھے اور بے بی گرل پرانے پنگھوڑے میں مٹھیاں بند کئے ہوا میں لہرا رہی تھی۔  ہم پنگھوڑے کی پٹیوں کے درمیان سوراخ سے اُس کو دیکھ رہی تھیں جبکہ لعل نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اماں کے پاس جا کر لیٹ گیا اور افسردگی سے بڑ بڑایا۔۔ لڑکا نہیں ہوا۔۔ میرے س ساتھ کھیلنے کے لئے لڑکا نہیں آیا۔

میرے پیارے۔  میرے ننھے منھے بیٹے مجھے افسوس ہے کہ تمہارے ساتھ کھیلنے کے لئے لڑکا نہ لا سکی،   ماں نے کہا۔یہ خدا کی طرف سے تحفہ ہے ۔

کیا اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

یہ خدائی تحفہ ہے اور تحفے تبدیل نہیں کئے جاتے۔

ابا ڈیری فارم سے لوٹے تو وہ سنجیدہ تھے۔ انہوں نے بے بی کو پچکارا اور بستر پر بیٹھ گئے۔  اچھے بچو تمہارے لئے ایک چھوٹی بچی آگئی ہے،   انہوں نے کہا۔

چھوٹی نہیں۔۔ ۔ بڑی ہے۔۔۔یہ پیدا ہوتے وقت نوپاؤنڈ کی تھی،   نرس فخر سے بولی۔

ارے لعل بیٹے،  تم نے اپنا منہ کیوں سُجا رکھا ہے؟  اچھے بچے تمہارا کیا مسئلہ ہے؟  ابا نے اسے اٹھا کر ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا۔

لڑکا نہیں۔  میرے ساتھ کھیلنے اور باتیں کرنے کے لئے کوئی لڑکا نہیں پیدا ہوا،   لعل بولا۔

اوہ!  تو یہ بات ہے۔  یہاں اس گھر میں لڑکیاں زیادہ ہوگئی ہیں یوں کرتے ہیں کہ ایک لڑکی کو ڈبو دیتے ہیں۔  لعل بتاؤ ان میں سے ہم کس کو ڈبوئیں؟

یہ بات سنتے ہی رشیدہ اور میں اچھلیں اور ابا کو پکڑ لیا اور دونوں نے یک زبان ہو کر کہا۔  ’میں نہیں‘ ’میں نہیں‘۔  پلیز، پلیز میں نہیں۔  نرس نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھر اس نے ابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

 تم تو بچیوں سے بھی بد تر ہو۔  اُس کے بعد وہ ہنسی اور اسکے ساتھ ہم بھی ہنس دیئے۔  عین اسی وقت بے بی کے رونے کی آواز آئی۔

اب اس کے نام کا مسئلہ ہے۔  اِس بے بی کو کیا نام دیاجائے؟  ٍہر ایک نے اپنی اپنی رائے دی اور اسی لمحے انکل سعید نے دروازے سے اندر جھانکا۔  ابا نے بے بی کو اٹھایا اور اس کی گہری موٹی موٹی کالی آنکھوں کو دیکھنے لگا۔ اس کیآنکھیں اسے انکل سعید کی چھوٹی بہن کی طرح کی لگیں۔  

ابا نے انکل سعید سے پوچھا کہ تمہاری سب سے چھوٹی بہن جس کی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں جو انڈیا میں ہے، کا کیا نام ہے؟  

اُس کا نام جمیلہ ہے،   انکل نے جواب دیا۔ 

آج سے اس کا پہلا نام ’جمیلہ‘ ہوگیا،   ابا نے کہا جبکہ اس کا دوسرا نام شہناز ہوگا جس کا مطلب دل و جان سے پیاری۔

 مجھے شاہجہان یاد آگیا اور ان سب کو بتایا کہ رات میں نے اسے پر پھیلاتے اور ناچتے ہوئے دیکھا تھا۔  کسی کو میری بات پر اعتبار نہ آیا۔  رشیدہ نے کہا کہ تم نے خواب دیکھا ہوگا۔  میں بولی کہ یہ خواب نہیں تھا۔  میں نے حقیقت میں اسے ایسا کرتے دیکھا ہے۔ 

 یقینا تم نے خواب دیکھا ہوگا،  ابا بولے اور چونکہ ابا نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کی تھی اس لئے میرا یقین متزلزل ہونے لگا اور میں نے بات ٹال دی پھر میں بے بی کی انگلیاں گننے لگی۔ ایک دو تین پانچ۔۔

تم نے درمیان میں چار نہیں کہا، ابا بولے۔

 اوہ!  میں چار کہنا بھول گئی تھی۔  ایک دو تین چار پانچ۔  جب ابا لعل اور رشیدہ کو گنتی سکھا رہے تھے، میں ہولے سے وہاں سے کھسکی اور کھڑکی ے باہر کی پہاڑیاں گننے لگی۔  ایک دو تین چار پانچ۔  ارے!  اِن پہاڑیوں کی تعداد تو پانچ ہی تھی۔  میں نے انہیں بار بار گنا تو وہ پانچ ہی نکلیں۔  مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میں پانچ تک صحیح گن لیتی تھی۔  میں نے لعل، رشیدہ  اور بے بی کی انگلیاں گنیں،سب کی پانچ پانچ تھیں۔  مجھے پانچ کی گنتی پوری طرح آگئی تھی۔  میں نے مور کو بھی پر پھیلاتے دیکھا تھا اوریقینا دیکھا تھا۔ یہ میرے پاس دوسرا راز آگیا تھا۔  ایک دو تین چار پانچ تک گنتی اچھی طرح گن لیتی تھی۔  یہ میری یہ گنتی پکی ہوگئی تھی،  پھر میں بڑی ہوتی گئی اور گنتی کبھی بھی نہ بھولی۔  میرے راز ابھی تک میرے پاس رہے۔  میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا کہ ابا رات کو کٹوروں سے دودھ غائب کر دیتے تھے اور یہ کہ میں نے مور کو ناچتے دیکھا تھا۔

 

 



مور کاناچ

Mena Abdullah

(1930 -) Australia

Author of The   Time of Peacock

 

حالات زندگی مصنفہ   مور کا ناچ

مینا عبداللہ ( Mena Abdullah )  آسٹریلیا کے صوبے نیو ساؤتھ ویلز کے ایک چھوٹے سے گاؤں  بندارے میں 1930میں پیدا ہوئی۔ اس کے والدین تارکین وطن تھے۔  اس کا والد عبداللہ اور گہرا دوست سعید پندرہ سال کی عمر میں ہی قسمت آزمائی کے لئے انڈیا سے آسٹریلیا آگئے تھے۔  اس کے خاندان کا آبائی پیشہ زراعت تھا اس لئے اس نے زراعت کو اپنا پیشہ اپنایا جہاں کاشتکاروں کے لئے وسیع مواقع تھے۔  جلد ہی اس نے گاؤں میں وسیع زمین حاصل کرلی اور ان پر نہ صرف مختلف فصلیں اگانے لگا بلکہ اس نے پھلوں کے باغ، بھیڑوں اور گھوڑوں کا فارم ہاؤس بنا لیا۔  وہ متمول لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔  اس نے اڑتالیس سال کی عمر میں ایک ہندو خاتون کو مسلمان بنا کر شادی رچالیجس کا خاندان بھی پانڈیچری سے ہجرت کرکے آسٹریلیا آباد ہواتھا۔  ان میںتین بچے رشیدہ (چھ سال)، نمی (چار سال)، لعل (اڑھائی سال) کے تھے اور ایک بے بی پیدا ہونے والا تھا۔ اس کا والد چونکہ بہت کم پڑھا لکھا تھا اس کی تمام عمر آسٹریلیا کے دور ددراز گاؤں میں گزری تھی اس لئے اس نے اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر وہ نیو ساؤتھ ویلزکے دارالخلافہ سڈنی منتقل ہوگیا لیکن اس نے اپنی زمین اور فارم ہاؤس نہ بیچا۔  وہ تمام تہوار فارم ہاؤس میں ہی آکر منایا کرتے تھے۔ 

مینا عبداللہ نے ہائی سکول سڈنی سے کیا۔  اس کے بعد اس نے اعلیٰ تعلیم اکاؤنٹس میں حاصل کی اور دولت مشترکہ میں افسر بن گئی۔  اسے بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا جو مختلف مقبول جریدوں میں چھپا کرتی تھیں۔  اس کی پہلی نظم  Red Koran (1954)  میں چھپی۔  اس کی مختصر کہانیوں کی کتاب The Time of Peacock (1965)  میں چھپی اس زمانے میں گورے اقلیتوں کو بہت حقیر سمجھتے تھے خواہ وہ صدیوں سے ہی وہاں آباد ہوں،   اُن کو غیر ملکی ہی تصور کیا جاتا تھاجبکہ اس وقت بھی یہ خود کو ان سے برابر سمجھتی تھی کیونکہ وہ آسٹریلیا میں ہی پیدا ہوئی تھی۔  اُس کی تمام اقدار، تعلیمات، فیشن اور اندازِ گفتگو آسٹریلوی ہی تھا اس لئے وہ بجا طور پر یہ مطالبہ کرتی تھی کہ اس کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔  اِسی لئے اس نے امتیازی سلوک کے خلاف تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا بالآخر حکومت کو ان کے حق میں قانون سازی کرنا پڑی۔

 وہ آسٹریلین تھی۔  اس کا ہندوستان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اپنے والدین کی وجہ سے اس کے تمام امور میں دلچسپی لیتی تھی۔  وہ صرف ایک ہی بار انڈیا گئی لیکن اس کی بڑی بہن کو وہاں جانے کا بڑا شوق تھاجو کثرت سے بطور سیاح انڈیا جایا کرتی تھی۔  مینا نے انڈین آسٹریلین پر بے شمار کہانیاں لکھیں۔  ان کی زندگی آسٹریلیا میں کیسے گزر رہی تھی اور  ان کا طرزِ حیات عام آسٹریلوی باشندوں سے کس طرح مختلف تھا۔  ہمیشہ آسٹریلیا میں رہنے کے باوجود وہ اپنی اقدار کو نہیں بھولے تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح اپنی جڑوں سے منسلک رہنا چاہتے تھے۔

 اس کی ماں نے اگرچہ اسلام قبول کر لیا تھالیکن اس کے ماتھے پر لگی بندی جو ہندو مذہب کی علامت تھی، موجود تھی نیز اس کے سابقہ مذہب کی جو ریت روایات تھیں وہ اپنے طور ادا کرتی رہتی تھی۔  مینا نے بھی ہندومت کا مذہب اختیار کر لیا۔  یہ کہانی اس کی کتاب  The Time of Peacock  سے لی گئی ہے۔

 

 

Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)