مینوڈو Menudo By Raymond Carver (1938 - 1988) U.S.A



مینوڈو

Menudo

By

Raymond Carver  (1938 - 1988)

U.S.A.

 

پیش کار: پروفیسر غلام محی الدین (کینیڈا)

 

صبح کے چار بج رہے تھے۔  میں رات بھر نہ سو سکا جبکہ میری بیوی ’وکی‘ مزے سے خراٹے لیتی رہی۔  میں دھیرے سے اس کے پہلوسے اٹھا۔   کھڑکی سے باہر جھانک کر پڑوسی کے گھر کی طرف دیکھا جو اداسی سے سائیں سائیں کر رہا تھا۔  ’مسٹراولیورپورٹر‘کسی بدگمانی کی وجہ سے ’امانڈا‘ کو چھوڑکرجا چکاتھا۔  امانڈا کے بیڈروم سے روشنی چھن چھن کر آرہی تھی۔  شاید وہ جاگ رہی تھی۔  باہر ہر طرف مرگ کی سی کیفیت طاری تھی۔  سڑک پر آمدورفت نا م کو بھی نہ تھی۔  ہوا ساکن تھی۔  یہاں تک کہ چاند کی روشنی بھی گہنا گئیتھی۔  موسم خزاں کی وجہ سے یوں توہر جگہ پتے بکھرے پڑے تھے لیکن اولیور،  ہمارے دوسرے طرف کے پڑوسی ’بیکسٹر‘ اور ہمارے گھروں کے سامنے ڈھیر باقیوں سے کچھ زیادہ ہی تھے۔

 

چند روز پہلے بھی مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو بیکار بیٹھنے کی بجائے میں نے اپنے گھر کے پتے اکٹھے کئے تھے۔  میری بیوی  نے جب دیکھا تھا تو اسے اچھا لگا تھا۔   اس نے مجھے بھرپور پیار کرکے معاوضہ ادا کیا تھا۔  لیکن یہ تو تب کی بات تھی۔  میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ آج بھی پتے صاف کر دوں حالانکہ اُس دن اور آج کے دن کے حالات سراسرمختلفتھے۔۔۔ آج مجھے انعام کی کوئی توقع نہیں تھی۔  میری بیوی بستر کے دس انچ موٹے میٹریس پر سسکیاں لیتے لیتے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔  مجھ پر اضطرابی کیفیت طاری تھی اور اولیور گھر چھوڑ  کر جا چکا تھا۔  وجہ ء تنازعہ کیا تھی، میں کسی حد تک لا علم تھا۔

 

میں نے وکی کی نیند کی گولیاں کھا ئیں لیکن وہ بے اثر ثابت ہوئیں۔  بیچاری امانڈا کا خیا ل بار بار آ رہا تھا کہ وہ اولیور کے گھر چھوڑنے کے بعد اپنی معصوم بچی ’ُ رُتھ‘کے ساتھ جانے کس حال میں ہو گی؟  مجھ میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ اس سمے اسے پردے کے پیچھے یا کھڑکی کے پاس یا اِدھر اُدھر حرکت کرتے ہوئے دیکھوں تا کہ معلوم ہو کہ وہ کس کیفیت سے گزر رہی تھی؟  اپنا ناک کھڑکی سے لگا یا، کان کھڑے کئے اور اُس کے گھر کی طرف نگاہیں دوڑائیں لیکن بے سود۔

 

پھر سوچا کہ اگر میں نے اسے دیکھ بھی لیا تو کیا ہوجاتا؟  کیا اُس سے اُ سے کوئی فرق پڑجاتا؟  دوسری طرف خیال آیا کہ  اگر اسے معلوم ہو کہ میں چپکے سے اسے دیکھ نا، اس کی جاسوسی کرنا چاہ رہا تھا تو اس کا رد عمل کیا ہونا تھا؟  گئی رات وِکی مجھ پر اولوں کی طرح برسی تھی۔  اس نے مجھے جانے کن کن ناموں سے نوازا تھا۔  وہ اچھل اچھل کر مجھے کوس رہی تھی۔  اس ہنگامے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے کسی خاتون کے ساتھ فون پر باتیں سن لی تھیں۔  اسے یقین تھا کہ میرا کسی کے ساتھ کوئی چکر چل رہاتھا۔  ممکنہ خواتین میں اس نے امانڈا کا نام بھی جوڑا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا تھا۔  وہ بار بار پوچھ رہی تھی اورمیں اس نام کو چھپا رہا تھا۔  کہہ رہا تھا کہ وہ اس خاتون کو نہیں جانتی اور نہ ہی کبھی اسے دیکھا تھا اور اگر نام بتا بھی دیا جاتا تو اس سے کیا فرق پڑ جانا تھا؟  غصے میں اس نے مجھے تکیے سے مارنا شروع کر دیا۔

 

جب میں اپنے کسی فعل کا منطقی جواز پیش نہ کرپاتا یا مطمئن کرانے میں ناکام ہو جاتا اور میرے بچنے کی آس نہ رہ جاتی تو میرا ایک ہسپانوی دوست ’الفریڈ‘کہا کرتا تھا کہ تم ہر طرف سے گھیر لیے گئے ہو، بچت کی راہ نہیں اور اب بھگتو۔  وہ ایک نامور مصور تھا جس کا شہرہ دُور دُور تک پھیلا ہوا تھا۔  کڑے وقت میں وہ میری دلجوئی کیا کرتا تھا۔  مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں میری مدد کرتا تھا۔  جذباتی واقعات مجھے پاگل کر دیتے تھے۔  خواہ مخواہ کا پنگا میں خود ہی لیتاتھا اور بعدمیں منہ چھپاتا پھرتا تھا لیکن میں پھر بھی باز نہیں آتا تھا۔  خواری سے بچنے کے آسرے ڈھونڈتا تھا۔  سب کچھ جاننے کے باوجود میں امانڈا کے بارے میں سوچنے سے خود کوباز نہیں رکھ پا رہا تھا۔  معاملہ بہت بگڑ چکا تھا۔  مجھے جب بھی تشویش، مصیبت اور آفت گھیر لیتی تو اپنی پہلی بیوی’کرسٹینا‘یاد آجاتی۔  وہ میری پہلی محبت تھی۔  ہمارا پورا بچپن اور جوانی ساتھ ساتھ گزری تھی۔  میں اسے ٹوٹ کر چاہتا تھا اور وہ مجھے جان سے بھی عزیز تھی لیکن اب۔۔۔؟


پھر میرے ذہن میں یکدم امانڈا کا وہ روپ آگیا جب وہ گلابی نائٹ گاؤن میں اسی رنگ کے سلیپروں کے ساتھ گھر بھر میں پھدکتی پھرتی تھی۔  اس میں وہ ا پسرا لگتی تھی۔  کیا اس وقت وہ جاگ رہی  تھی؟ یا شاید وہ سو رہی ہو۔۔۔ لیکن اس کے کمرے کی بتی جل رہی تھی۔  میں تو جاگ رہا تھا اورمیرا  دل چاہ رہاتھا کہ وہ بھی جاگ رہی ہو۔  بڑے سٹینڈ والے لیمپ کی روشنی تلے چمڑے کی کرسی پر بیٹھی پاس پڑے میز پر تازہ جرائد کی، جو صاحب ذوق ہی تفصیلاً پڑھا کرتے تھے، کی ورق گردانی کر رہی ہو۔  سگریٹ پر سگریٹ پھونک کر دونوں ایش ٹرے پاس ہی بھر ے رکھے ہوں۔  آہ! اتنی پیاری لڑکی کواس کا میاں چھوڑ گیا تھا۔  وہ شخص بد قسمت تھا اور مجھے اس پر بھی ترس آرہا تھا۔

 

اس کے بعد مجھے دو روز پہلے کی یاد نے آ لیا جب ہم شہر کے دور دراز صنعتی علاقے کے ایک غیر آباد ریستوران میں بیٹھے کافی پی رہے تھے اور  ا مانڈا نے مجھے کہا تھاکہ اب اس کا د ل کسی شئے کو پڑھنے کو نہیں چاہتا۔   ویسے پڑھنے کے لئے وقت کس کے پاس تھا؟  بگڑے حالات میں منطق اور باریک بینیوں پر کوئی کیسے توجہ دے سکتا تھا؟  اس ریستوران کی دیواروں میں ہر طرف اخبارات، رسالے اور دیگر چیزیں رکھی تھیں۔  اولیور اس سے بھی دو دن پہلے امانڈا کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔ 

کافی میں چمچ ہلاتے ہوئے وہ بولی تھی، آج کل کون پڑھتا ہے؟  کیا تم پڑھتے ہو؟  میں نے نفی میں سر ہلایا۔  تو اس نے کہا کہ وہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتی جو کتب بینی کا شوقین ہو۔

یاد رہے ہم یہاں کتابوں پر تبصرے کے لئے نہیں آئے بلکہ زمینی حقائق کو سلجھانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، امانڈا نے یاد دلایا تھا۔

 

تو۔۔۔آ ج اولیور کو گئے ہوئے چار دن بیت چکے ہیں۔  جاتے وقت اس نے تمہیں کیا بولا تھا؟  میں نے سوال کیا۔  اُس وقت میرے جذبات کچھ ایسے تھے جیسے تین بجے والی خبریں سنتے وقت ہو تے ہیں۔  اس وقت تناؤ چھاجاتا  ہے اور میں ٹی۔وی کا سوئچ آ ف کر دیا کرتاہوں لیکن موقعہ محل کی مناسبت سے یہاں بات ٹالی نہیں جا سکتی تھی۔  میں نے امانڈا کی طرف دیکھا تو اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔  وہ سنجیدہ تھی اور سوچتے وقت اس کے چہرے پر پریشانی نظر آرہی تھی۔

تم نے اولیور کے سامنے اپنی شادی سے باہر کے تعلقات کی بات تو نہیں کی۔ ایسا ہی ہے ناں؟  میں نے کریدا۔

ہاں، امانڈا نے نگاہیں نیچی رکھتے ہوئے ہی جواب دیا۔

 کیا تمہیں اس بات کا یقین ہے؟  اس نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔  میں کافی دیر تک اس کو دیکھتا رہا ۔  میں نے تصدیق کے لئے ایک بار پھر پوچھا، کیا تمہیں پکا یقین ہے؟  پھر میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا  کہ دیکھو!  میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے کسی کا نام لیا ہے، صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس کو کیا پتہ چلا ہے؟

نہیں،کوئی نام نہیں لیا۔

 کیااس نے بتایا کہ وہ کہاں اور کتنے عرصے کے لئے جا رہا تھا؟

نہیں۔۔۔ کچھ نہیں بتایا کہ وہ کہاں  جائے گا، امانڈا نے جواب دیا۔  شایدکسی ہوٹل۔۔۔ ہاں اس نے یہی کہا تھا کہ اب میں ایک ہوٹل جاؤں گا۔  وہاں جا کر کوئی بندوبست کروں گا۔  اس نے یہ بات سرسری طور پر ایسے کی  تھی جیسے کہ وہ کوئی اخبار پڑھ رہا تھا۔ 

 تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہفتے دو ہفتوں کے لئے ہی گیا ہے  اور واپس آجائے گا۔  اس لئے یہ وقت موزوں نہیں کہ ہم علیحدگی اور طلاق کی باتیں کریں، میں نے رائے ظاہر کی۔

نہیں!  میرے خیال میں وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔  ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنا  اوربہت جلد فیصلہ کرنا ہو گا، امانڈا نے تیزی سے کہا۔  یہ کہنے کے بعد وہ میری طرف دیکھنے لگی اور جواب کا انتظار کرنے لگی۔

 

میں اس وقت کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا۔  تم فکر نہ کرو، ایک ہفتہ کے اندر فیصلہ کر لوں گا، میں نے اپنے کپ کے اندر دیکھتے ہوئے کہا۔  اب بات سر سے اوپر چڑھ  چکی ہے اور سنگین صورت حال سے نپٹناہی ہے۔  بالآخر امانڈا کے خاوند کو میری وجہ سے گھر چھوڑنا پڑ ا۔  میرے ذہن میں کوئی حل نہیں سوجھ رہا۔  حالات کس رخ جانے والے ہیں، کا اندازہ نہیں۔


ہم اپنی محبت بھری ملاقاتوں میں کئی بار اپنے تعلقات پر علمی اور عقلی سطح پر سیر حاصل بحث کی تھی۔  فلرٹ سے لے کر چاہت تک، گھریلو ذمہ داریوں سے سماجی تعلقات اور ان کے انجام تک پر، باتیں کی تھیں لیکن حقیقی طور پر ایسا ہو جائے گا، کبھی ذہن میں نہیں آیا تھا۔  اب بات بہت اہم اور سنجیدہ ہوگئی تھی۔  اندیشہ تو تھاکہ ہمارے ساتھ ایسا ہو سکتا تھا لیکن اتنی جلد ہو جائے گا، توقع نہیں تھیکہ ہم چھپ چھپا کر آدم کے پچھواڑے سہ پہر میں ایک بیابان کیفے میں بیٹھے اس موضوع پر گفتگو کر رہے ہوں گے۔  عجیب سا محسوس ہو رہا  تھا۔  میں نے آنکھیں اوپر اٹھائیں تو دیکھا کہ امانڈا کافی میں چمچ ہلا رہی تھی۔  میں نے  اس کے ہاتھ کو چھوا تو چمچ نیچے گر پڑا۔  امانڈا نے چمچ واپس  اٹھایا اور دوبارہ کپ میں ڈال کرہلانے لگی جس سے میرے دل پر گہرا اثر ہوا۔  اس وقت چمکدار روشنی میں ہم دونوں ہی بیٹھے تھے۔  ملاقات ختم ہو گئی اور معاملہ چند روز پر ٹال دیا گیا۔

 

اگلے دن صبح اٹھا تو وِکی سو رہی تھی۔  میں نیچے کچن میں گیا اورتھوڑا سا دودھ گرم کر کے پیا۔  عام نوعیت کی الجھن میں میں وسکی پی لیتا تھا تو میری حالت سنبھل جایا کرتی تھی لیکن اس وقت حالات قابو سے باہر تھے۔  شادی بچانے کا مسئلہ تھا اور معاملہ روز بروز شدت اختیار کر رہا تھا۔  میری خانگی، نجی، پیشہ ورانہ زندگی اور صحت بری طرح متا ثر ہو رہی تھی۔  مجھے مدہوشی کی بجائے ہوش سے کام لینا تھا۔  مجھیمزیدپیاس محسوس ہوئی تو میں نے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پی لیا۔  میری ذہنی حالت خراب تھی۔  میرا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا۔  کوئی حل سجھائی نہیں دے رہا تھا۔

 

میری پہلی بیوی معالی میری پیاری دوست تھی۔  جب کبھی بھی وہ مجھے غمگین دیکھتی تو بہلانے کے لئے جام پیش کر دیتی تھی۔  میرے لئے فریج میں شراب کا ذخیرہ رکھا کرتی تھی۔  چونکہ وسکی میری نیند میں معاونت کرتی تھی اس لئے میں کبھی کبھار بوتل منہ سے لگا کر غٹاغٹ پی جایا کرتا تھا اور مجھے میٹھی نیند آجایا کرتی تھی۔  معالی سکول ٹیچر تھی، پورا ساتھ نبھاتی تھی اور اب۔۔۔۔؟

 

 اس دکھ کی گھڑی میں اولیور ہوٹل کے کمرے میں سوٹ  بوٹ پہنے، ٹائی ڈھیلی کئے، بوٹ اتار ے، ٹانگیں میز پر پسارے چسکیوں سے ووڈکا پی رہا ہوگا۔  اس سنگین صورت حال سے نپٹنے کے لئے یہ اس وقت  ناممکن سی بات لگ رہی تھی کہ وہ اپنی کم سن بیٹی رُتھ، بیوی امانڈا اور برے انجام کو  مد نظر رکھتے ہوئے مفاہمت کی طرف آئے گا۔  اس نے اس بات کواپنی انا کا مسئلہ بنالیا تھا اور ٹھنڈے دماغ سے دھمکی دے کر گیا تھا کہ وہ واپس نہیں آئے گا۔  امانڈا نے مجھ سے جلد فیصلہ کرنے کو کہا تھا اور میں نے اس سے ایک ہفتے کا وقت مانگا تھا جس میں سے چار دن گزر گئے تھے۔  وقت جوں جوں بیتتا جا رہا تھا، میری ذہنی حالت بگڑ رہی۔

 

رات بے چینی سے گزر گئی تھی۔  سوچ سوچ کر دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔  تناؤ کی وجہ سے نیند کوسوں دور تھی۔  میں دودھ پینے کے بعد دیوان خانے میں بیٹھ گیا اور صوفے پر بیٹھ کر کھڑکی سے سڑک کا نظارہ کرنے لگا۔  سٹریٹ لائٹس ابھی تک جل رہی تھیں۔  میرے تن بدن میں آگ سی لگی تھی اور ٹک کر بیٹھا نہیں جا رہاتھا۔  میں سوچ میں ڈوبا انگلیاں چوسنا اور  ناخنوں کو چبانے لگا۔  میرا دل کر رہا تھا کہ میں کھڑکی تو ڑ دوں یا فرنیچر کو الٹ پلٹ کرکے رکھ دوں۔ 

 

معالی کی یاد پلٹ آئی۔  وہ مجھے اپنا نصیب قرار دیا کرتی تھی لیکن میں اب اس کے بارے میں لا علم تھا۔  ایک وقت تھا ہم یک جان دو قالب تھے۔  ہم نے کئی زندگیاں ساتھ گزاریں تھیں۔  اس کا دعویٰ تھا کہ ہمارا ساتھ جنم جنم کاتھا۔  میں اس کا مقدر تھا اور میرے بغیر وہ ادھوری تھی۔  جب  میری دوستی وِکی سے ہوئی اور میں اس کے ساتھ سنجیدہ ہوا تو  معالی کو  اُس کا علم ہو گیا۔   اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپے وہ کچن میں بیٹھی رو نے لگی تھی۔  اس کے کندھے آگے کو جھکے ہوئے تھے۔  میری اُس کے ساتھ نبھ نہ سکی۔  ایک دفعہ اُس کے سکول کی انتظامیہ نے مجھے فون کیا کہ معالی بچوں کو جمنیزیم میں ورزش کروا رہی تھی تو گر پڑی اور بے ہوش ہو گئی تھی۔  میں بھاگا بھاگا گیا اوراسے گھر لے کر آیا۔ اس کے بعد اس نے روحانیت اور وقت کے بہاؤ کے ساتھ چلنے کی باتیں شروع کر دیں۔  جب  معالی اور میری  علیحدگی ہو گئی تھی تو ایک بار اُس نے وکی کو فون  کیا اور کہا تھاکہ اگرچہ اس وقت  وِکی  میرے ساتھ محبتسے رہ رہی تھی لیکن اُس کے میرے لئے پیار میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔  اس نے کہا تھا کہ چاہے و ہ او رمیں اکٹھے رہیں یا الگ الگ، وہ ہمیشہ مجھ سے جو اُس کے بچپن کے پیا ر تھا، سے محبت کرتی رہے گی۔  ہمارا مقدر ایک تھا اور اب چونکہ بہتری کی امید نہ تھی اس لئیوہ حالات سے سمجھوتہ کر لے گی۔  مگر ناچاقی کے بعد جب اس نے نہ پاٹنے والی دراڑ کا ذکر کیاتو اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے جداگانہ رستہ اپنالیا تھا۔۔۔ اور ہمارا نصیب ایک تھا، کا فلسفہ تبدیل کر لیاتھا۔۔۔ سو میں نے فوراً اُس سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔  اُس لڑکی سے جسے میں پوری عمر سے جانتا تھا۔۔۔جو قدم قدم میں میرے ساتھ رہی تھی۔۔۔ مدتوں سے میری بہترین دوست تھی  اور مانوس تھی۔  میرے اس سے ہر طرح کے تعلقات تھے۔  میں اس پر مکمل انحصار کرتا تھا۔  یقین تھا کہ وہ میرے اور میں اس کے نصیب میں تھا۔  وہ میری زندگی کا حصہ تھی اور میں اس کا دلبر تھا۔  ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔  ہم اکٹھے بالغ  ہو ئے تھے۔  وہ میری محسنہ تھی۔  ہماری پچیس سالہ رفاقت تھی۔  مگر اس کے نظریہ ء تقدیر میں تبدیلی سے مجھے ایسا لگنے لگا کہ وہ مجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔  میں شاکی ہو گیا تھا اور ان حالات میں سمجھتا تھا کہ وہ صحیح عمل تھا۔  مجھے اسے اس کی جنونی کیفیت کی وجہ سے چھوڑنا پڑا۔  مجھے اس کی باتوں سے خوف آنے لگا تھا۔  اس کے نئے عزم اور دیوانگی سے وحشت سی ہونے لگی تھی۔

 

جس خاتون کے ساتھ میں نے نئی زندگی گزارنا شروع کی وہ وِکی تھی۔  وہ بھی سکول ٹیچر تھی اور بظاہر بڑے ابتلا میں زندگی گزار رہی تھی۔  مجھے وہ اس وقت نرم دل اور مخلص لگی۔  اپنے خاوند کو طلاق دینے کے بعدوہ اُن دنوں خود کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔  بہت مظلوم لگ رہی تھی۔  وہ نئے تعلق کی متلاشی تھی۔  کوئی اپنا دیرپاساتھی ڈھونڈنے کے چکر میں ماری ماری پھررہی تھی۔  سنت، فقیروں، جوگیوں، پیروں، نجومیوں، دست شناسوں، جنتر منتر، بابوں اور ہر طرح کے ٹونے ٹوٹکے کرنے والوں  کے پھیرے کاٹ رہی تھی۔  پھر اس نے اپنی نوکری بھی چھوڑدی اور ریٹائرمنٹ رقم حاصل کر کے سادھو ؤں کا سا روپ  دھار کرعجیب و غریب قسم کے کپڑے پہننے لگی تھی۔  ان لباسوں کا رنگ سنگتری یا ارغوانی ہوتا تھا جس پر بہت سی سلوٹیں ہوتی تھیں۔  وہ تھڑوں پر بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھنے لگی۔  ملنگی کپڑوں میں اور بلوری آنکھوں  کے ساتھ وہ حسین لگتی تھی۔  مجھے اس کی حالت زار دیکھی نہ گئی۔  میں اسے سکون دینا چاہ رہا تھا۔  میرا خیال تھا کہ اس کو سہارا دینا نیک کام تھا۔  وہ ایک ساتھی کی متلاشی تھی۔  معالی سے دوری اور وِکی کی جنسی کشش کی وجہ سے میں اس کی طرف مائل ہو گیا اور اس سے شادی کرلی۔  معالی اس کے بعد مجھ سے دور چلی گئی لیکن پھر بھی کبھی کبھار فون پر اپنی لازوال محبت کا یقین دلاتی رہتی تھی۔   وہ کہاں رہتی تھی،مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔  نہ چاہنے کے باوجود جب بھی مجھ پر بحرانی صورت حال پیدا ہوتی تو نہ جانے ذہن کے کس کونے سے وہ آٹپکتی تھی۔

 

سوچوں میں گم ہی تھا کہ مجھے امانڈا کے گھر میں کچن  کی بتی جلی نظر آئی۔  باقی تمام گھر میں گھپ اندھیرا تھا۔  میں نے اِس کا  مطلب یہ سمجھا کہ وہ بھی جاگ رہی تھی اور اس وقت میں اسے فون کر کے معاملے کی سنگینی اور تازہ ترین صورت حال کا پوچھ سکتا تھا۔  لیکن پھر سوچا کہ اگر اس کی کمسن بچی رُتھ نے فون اٹھا لیا تو؟! ۔۔۔  میں کسی بچے سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اور بات کرتا بھی تو کیا کرتا۔  علاوہ ازیں بہر حال آبیل مجھے مار والی صورت بن جاتی۔  اگر ہم نارمل آوازمیں بات کرتے تو وِکی بستر پر لیٹے لیٹے ہماری باتیں سن سکتی تھی۔  اگر ہم سرگوشی کرتے تو وہ اپنے کمرے میں فون کا کریڈل اٹھا کر چپکے سے سن سکتی تھی یا متجسس ہو کر نیچے چلی آتی کہ میں کس کو فون کر رہا ہوں تو کیا ہوتا؟  کاش!  میرے اڑوس پڑوس خوبصورت لڑکیاں نہ ہوتیں۔  آج کا دن اہم ترین ہونے جا رہا تھا۔  مجھے خود کو  برے سے برے وقت کیلئے تیار کرنا تھا۔  اس کے لئے مجھے اس وقت پوری طرح نیندلینا ضروری تھا۔  ایسے کام تو ایسے لوگ ہی کر سکتے تھے جن کی عائلی زندگی نارمل ہولیکن میرے گھریلو حالات شادی سے پہلے کے بھی اور بعد کے بھی، دوسروں سے مختلف تھے۔  میرا خاندان بھی تو عام لوگوں کی طرح نہ تھا جو دوسروں سے منفرد اور کمتر تھا۔

 

میرا شرابی باپ جو ایک آری مشین میں مزدور تھا، سخت بیمار ہو کر ہسپتال میں زندگی اور موت سے بر سر پیکار بے ہوشی میں چلا گیا۔  میں سنگین دور سے گزر رہاتھا۔   کئی ہفتے اسی حالت میں رہا۔  ایک ہفتے کے روز وہ کومے سے نکلا، کمرے میں موجود ہسپتال سٹاف کو دیکھا اور انہیں ' ہیلو 'کہا۔  پھر اس کی آنکھوں نے مجھے ڈھونڈا اور مجھے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور ' ہیلو میرے پیارے بیٹے ' کہا۔  اس کے ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ فوت ہو گیا۔  اس تمام بحرانی دور میں میں ایک ہی جوڑے میں اس کے ساتھ رہا اوررنہ ہی سوپایا۔  انتظار گاہ میں بیٹھا رہتا۔   کبھی کبھار اونگھ آبھی جاتی تھی لیکن نیند دور ہی بھاگتی رہی۔  میں نے اس برے وقت کا بہادری سے مقابلہ کیا۔  وِکی نے اس وقت میرا ساتھ دینے کی بجائے کسی اور سے یاری گانٹھ لی۔  مجھے پتہ چل گیا تھا لیکن اپنے باپ کی تیمارداری کی بدولت اس وقت اسے ثانوی معاملہ سمجھا اور سوچا کہ بعد اس سے نمٹ لوں گا۔  باپ کی تجہیز و تکفین کے بعد گھر آیا اور سو گیا۔  پورا ہفتہ ہی سوتا رہا۔  صرف کھانے پینے اور واش روم کے لئے ہی اٹھتا۔  اگلا ہفتہ بھی نیند کے بوجھ تلے ہی گزرا۔  میرے ذہن میں اس کے معاشقے کے بارے میں کوئی بات نہ آئی۔  وہ بہت چالاک نکلی اور اس نے بوائے فرینڈسے تعلقا ت فوراً ختم کر لئے۔  یا تووِکی نے اسے چھوڑدیا تھا یا پھر اُس نے وکی کو چھوڑ دیا تھا۔  یہ راز راز ہی رہا۔ وہ میرے باپ کی بیماری کے دوران مجھ سے دور چلی گئی تھی پھر دوبارہ میری طرف مائل ہو گئی تھی لیکن یہ معاملہ سادہ نہیں تھا۔  میں اس سلسلے میں اس سے بات کرنے جا رہاتھا کہ والدہ کا خط آیاکہ وہ مصیبت میں تھی۔  اس کو روزانہ کے کام کرنے میں دقت ہونے لگی تھی۔

 

ماں تو ماں ہی تھی۔ وہ سینئر سٹیزن تھی۔  اپنے  اچھے برے ادوار میں ایک اچھے بیٹے کی طرح ذمہ داری سے اسے نان نفقہ کے لئے ہر ماہ یا ہر ششماہی مقررہ رقم بھیجا کرتا تھا۔  اس کی سالگرہ کے لئے الگ اور کرسمس کے لئے الگ تحائف بھیجتا تھا۔  ان سب باتوں کے باوجود اس نے مجھ سے اب ایک ایسے ریڈیو کی مانگ کی تھی جس میں گھڑی بھی ہو تاکہ کچن میں کام کرتے ہوئے اسے سنے اور روز مرہ کام ٹائم ٹیبل کے مطابق سر انجام دے سکے۔  وہ خط اور فون میں یہی فرمائش کیا کرتی تھی۔  اس کا پہلا ریڈیو گر کر ٹوٹ گیا تھا۔  اس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ نیا خرید سکے۔  وہ باتوں باتوں میں جتلاتی کہ کیا اسے اس کے لئے اپنی سالگرہ یا کرسمس تک انتظار کرنا پڑے گا۔  میں نے جھنجھلاہٹ میں منع کردیا اور کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں اور جو اس کے لئے کر رہا تھا اس سے زیادہ نہیں کر سکتا۔  حقیقت میں میرے مالی حالات خراب نہیں تھے۔  ریڈیو کی قیمت کیا تھی؟  تیس سے چالیس ڈالر! میں اسے آسانی سے برداشت کر سکتا تھا۔  میں دکاندار کو کہہ کر پارسل کروا سکتا تھا۔  ماہانہ رقم کے ساتھ بھیج سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میں اس کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔

 

پھر کیا ہوا؟۔۔۔  وہ اس دنیا کو چھوڑ گئی۔  وہ چلی گئی۔  وہ بازار سے گھر آرہی تھی۔  گراسری کا بیگ اس کے کندھوں پر تھا۔  وہ کسی جھاڑی سے ٹکرا کر گری اور مر گئی۔  میں نے فوراًجہاز پکڑا، کرائے کی کار لی اور اس کی تدفین کا بندوبست کرنے چلا گیا۔  اس کی میت موت کی وجہ کی تشخیص کرنے والے  ادارے کے دفتر میں تھی۔  اس کی گراسری کے ساتھ اس کا پرس اور دانتوں کی بتیسی بھی مجھے دے دی گئیں۔  میں  نے اس کی گراسری کا بیگ دیکھا۔  اس میں قبض کشا دوا کی ایک شیشی، دو چکوترے، ایک لیٹر دودھ کا پیکٹ، چھ آلو،، کچھ پیاز، تھوڑا ساقیمہ تھا جو اب بو چھوڑنے لگا تھا اور روئی کا ایک پیکٹ۔  یہ دیکھ کر میرا دل بھر آیا تو میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔  میں نے پرس نہ کھولا۔  بتیسی میں نے اپنے کو ٹ کی جیب میں رکھ لی۔  اس کے بعد میں میت جنازگاہ لے گیا۔  بتیسی کسی کو دے دی اوردفنا کر لوٹ آیا۔  سابقہ معاملات ابھی سلجھے نہیں تھے کہ اب نیامسئلہ شروع ہوگیا تھا اور بجائے میں اس سے پوچھتا وہ اوپر سے پڑ رہی تھی۔۔۔  اور اب اوپر سے اولیور اپنی بیوی امانڈا کو دھمکی دے کر گھر چھوڑ گیا تھا۔

 

ایسی باتیں تو زندگی بھر ڈستی رہیں گی۔  اب نظر ماری تو امانڈا کے کمرے کی روشنی جل رہی تھی۔  پتوں پر نکلتے  سورج کی روشنی کی کرنیں ان کی زردی کو زیادہ واضح کر رہی تھیں۔  ایسا لگتا تھا کہ کرنیں بھی میری طرح  خوفزدہ تھیں۔  امانڈا نے بتی شاید اس لئے جلا رکھی ہو کہ اسے رات کے بلب کے طور استعمال کر رہی ہو یا وہ کچن میں ہو اور کھانے کی میز پر بیٹھی میرے نام چٹھی لکھ رہی ہو۔  میں نے یہ کیوں ایسا سوچا کہ وہ خط لکھ رہی ہوگی، معلوم نہیں کیونکہ چھ آٹھ ماہ کی جان پہنچان سے دوستی اور نہایت قریبی مراسم تک اس نے مجھے کبھی بھی کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔  مجھے تو یہ تک بھی علم نہیں تھا کہ اس میں لکھنے کی قدرت  تھیبھی کہ نہیں کیونکہ ہم بالمشافہ یا ٹیلیفون پر ہی گفتگو کیا کرتے تھے۔  ویسے بھی یہ فضول بحث تھی۔  حقیقت تو یہ تھی کہ میں اس سے محبت کرنے لگا تھا۔۔۔

 

 خط و کتابت میں معالی لاثانی تھی۔  اس کی تحریر بڑی موئثر ہوتی تھی۔  وِکی باہر ڈبے سے اس کے خطوط لا کر کچن کی میز پر میرے سامنے رکھ دیا کرتی تھی۔  اس کے خطوط میں سنسنی ہوتی تھی۔  وہ تمام تر جذبات سے بھر پور ہوتے تھے، پڑھ کر مزا آتا تھا۔  ان دنوں وہ اپنی بہن کے ساتھ رہ رہی تھی۔  بہننے جب یہ دیکھا کہ میں معالی کے ساتھ برا سلوک کر رہا تھا تو اس نے سوچا کہ اگر وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے تو اس کا تناؤ کم ہو جائے گااور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔  وہ اس سے بہت اچھا برتاؤ کر رہی تھی۔  اس نے ایک خط میں لکھا تھا کہ وہ میرے ساتھ تعلق کا از سر نو جائزہ لینا چاہتی تھی۔  وہ  اپنا مستقل ٹھکانہ ڈھونڈنا  چاہتی تھی کیونکہ میں اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔  اس نے یہ یقین دلایا تھا کہ وہ جو بھی  فیصلہ کرے گی، جہاں بھی ہو گی، جہاں بھی رہے گی، جس کے ساتھ بھی رہے گی، میرے ساتھ مکمل رابطے میں رہے گی۔ اس نے اپنے خطوط میں اب’مقدر‘کی جگہ ’کرما‘ کی طرح کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی تھی۔  اگرچہ وِکی میرے ساتھ رہائش پذیر تھی لیکن پھر بھی مجھے پریشانی تھی۔  ماں باپ کے غم، وِکی کی بے وفائی اور نئے پھڈے نے میرے حواس بے قابو کر دئے تھے۔  غم غلط کرنے کے لئے پھر کثرت سے مے کشی کرنے لگا تھا۔

 

 مجھے امانڈا کی سنگین صورت حال میں اسے سنبھالا دینا چاہئے تھا لیکن میں ایک بار بھی اس کی دلجوئی کے لئے نہ گیا،کیونکہ میں اس وقت سمجھتا تھا کہ میری ذہنی حالت ایسی تھی کہ میں اسے برداشت  نہ کر پاؤں گا۔ کہیں وہ مجھے مطلب پرست سمجھنا نہ شروع کر دے۔  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میں نے اس کے سا تھ اپنی زندگی کے بہترین لمحات گزارے تھے۔  اپنی غیر معتدل ذہنی حالت کی وجہ سے اب اس سے بیگا نگی کا سلوک کررہا تھا۔  معاملات بگڑتے جا رہے تھے۔  میری زندگی میں ایک پل بھی سکون نہ تھا۔  معالی مجھ سے الگ ہو گئی اور میری قسمت میں وِکی آگئی۔  ماں باپ رخصت ہوگئے۔  وِکی سے معاملات بگڑگئے اور اب امانڈا اور اولیور آگئے تھے۔  میں کس سمت جاؤں؟ کیا کروں؟ دماغ شل تھا۔  مجھے اس وقت نیند کی اشد ضرورت تھی لیکن ایک تو مجھے نیند نہیں آرہی تھی اور دوسرا  یہ کہ سورج نکل آیا تھا اور اس وقت کون کافر سو سکتا تھا۔  وِکی ابھی بھی سوئی ہوئی تھی۔  اس کا الارم بج بج کر خاموش ہو گیا تھا۔

 

میرے ذہن میں موجودہ مسئلے کا ایک حل یہ بھی نظر آیا کہ میں واپس بیڈ روم جاکر وکی کے ساتھ لیٹ جاؤں، اُس سے کہوں کہ میں غلطی پر تھا۔ واقعے کو  اس طرح بھول جائے جس طرح  میں اس کی بے وفائی پر بھولاتھا۔  ایسا کرتا تو زندگی عام ڈگر پر چل پڑتی۔  میں آرام کی نیند کے بعد اٹھتا تو اس کے بازو میری گردن میں حائل ہوتے۔  اگر ایسا کیا تو پھر امانڈا کا کیا ہو گا؟  میں نے اس سوچ کو یکسر مسترد کر دیا۔  اس کے علاوہ باقی تدابیرمیرے حق میں نہیں تھیں۔  میں سربراہ خانہ کا حق کھو چکا تھا۔  میں کھیل سے باہر ہوچکا تھا۔  میں اس میں اب شامل نہیں ہو سکتا تھا۔  معالی کے بعد میں اب وکی کو بھی کھو نے جارہا تھا۔  وہ  معالی سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ اس میں علیحدگی یا طلاق کا صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ تھا۔  وہ بڑے اعتماد سے نئی راہیں تلاش کر سکتی تھی۔  اس نے اپنے پرانے شوہر کرافٹ ہوز کو چھوڑنے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا تھا۔  اس کی آ نکھوں سے اس کی علیحدگی کے لئے ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکا تھا۔  اس کے بعد اس نے اپنے بوائے فرینڈ کو بھی ایک منٹ میں فارغ کر دیا تھا۔  ایسے حساس معاملات میں بھی اس ے اپنی ایک لمحہ کی نیند بھی ضائع نہیں کی تھی۔  اس نے ان تعلقات کو ختم کردیا تھا تو میں کس درجے پر آتا تھا۔  امانڈا پورٹر کے کمرے کی روشنی اب گُل ہو گئی تھی اور پورچ کی بجلی  جل رہی تھی۔  امانڈا اور میرے معاملات کے حل ابھی نہیں تو کبھی نہیں والے مرحلے میں داخل ہو چکے تھے۔

 

روشنی میں ایک کار وہاں سے گزری۔  آسمان نے اپنی روشنی بکھیرنی شروع کر دی۔  پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا۔  اب میں مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔  مجھے کچھ کرنا ہو گا۔  میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتاتھا۔  عوام الناس روزی روٹی کے چکر میں پڑ نے والے تھے۔  باقاعدہ آمدو رفت شروع ہو نے والی تھی۔  امانڈاکی بچی رُتھ بھی اٹھ کر سکول جانے وا لی ہو گی۔  اسی وقت میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی کہ میں اپنے اور دوسرے گھروں کے خزاں کے پتے اکٹھے کرنا شروع کر دوں۔  میرے نزدیک اس کے کئی فائدے تھے۔  میرا وقت اچھا گزر جائے گا، پڑوسیوں کی نظر میں اچھا بن جاؤں گا، ہو سکتا تھا کہ امانڈا سے ملاقات ہو جائے اور میں اس سے تازہ ترین صورت حال معلوم کر  لوں۔  وکی کے جھڑپ سے کچھ دیر کے لئے بچ جاؤں، میری توانائی خرچ ہو جائے، مجھے نیند آجائے اور میں تازہ دم ہو کر حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاؤںوغیرہ۔عقبی صحن میں میں نے چند جین کی پتلونیں اور  پسینہ خشک کرنے والی قمیصیں دیکھیں۔ پاجامہ تبدیل کیا، سفید کینویس کے جوتے پہنے اور پتے صاف کرنے لگا۔ اس دوران مجھے الفریڈ  کا فون آیا۔ اس نے رات کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی تھی۔

 

میں گیراج سے باہر آگیا۔ دانتوں والا ریک اور پتوں  اور گھا س ڈالنے والے  خاکی تھیلے اٹھائے تاکہ میں پتے اکٹھے کر کے اس میں ڈال سکوں۔میں پڑوسی گھر  کے سامنے آیا اور پتوں کی صفائی  شروع کر  دی۔صحن کا ایک ایک  انچ اچھی طرح صاف کیا۔ بیگ پتوں سے بھرنے کے بعد سڑک کے کنارے رکھ دئے تاکہ بلدیہ اسے اپنے پروگرام کے مطابق اٹھا لے جائے۔ اس وقت گلی میں اکا دکا  گاڑیاں  آنا  جانا شروع ہو گئی تھیں لیکن میں بڑے انہماک سے اپنے  کام میں مشغول رہا اور ان کی طرف  بالکل توجہ نہ دی۔اپنے گھر کی صفائی کے بعد میں اپنے دوسرے  پڑوسی  بیکسٹر  کے سامنے سے پتے صاف کرنے لگا۔میں اس کے صحن کے پتے اٹھا اٹھا کربیگوں میں ڈالنے  لگا تو  مسز بیکسٹر رات کے لباس میں سلیپر پہنے  پورچ میں آئی اور مجھے حیرانی سے دیکھنے لگی۔

 مسٹر ہیوز  تم کیسے ہو؟مسز بیکسٹر نے پوچھا۔

 اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو میں تمہارے صحن کے پتے  صاف کر دوں، میں نے  پسینہ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔

وہ کچھ دیر دیکھتی رہی پھر کہا،تم ہمارا کام کر رہے ہو۔ شکریہ۔ جاری رکھو۔  اس نے صحن کی طرف تنقیدی نظروں سے  دیکھا اور بولی، تم نے بہت اچھی صفائی کی ہے۔ تم نے اچھا کام کیا ہے۔ میں خاموش کھڑا رہا۔میں نے دیکھا کہ عین اس کے پیچھے اس کا خاوندرسمی لباس میں ملبوس دفتر جانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔مسز بیکسٹر نے خفیف مسکراہٹ سے اپنے میاں کو دیکھا اور اس نے کندھے اچک دئے۔ اس کے بعد ہم سب کئی منٹ خاموش کھڑے رہے۔ 


اس لمحے میں نے مسٹر بیکسٹر کو خود سے اس لئے  بہتر سمجھاکیونکہ وہ رات بھر بغیر کسی پریشانی کے سویا تھا۔ دفتر جاتے وقت  وہ  اپنی بیوی کو چوم کر الوداع کرنے والا تھااور پھر اس کی بیوی اس کی واپسی کا انتظار کرنے والی تھی۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اپنے پیچھے کار کا دروازہ کھلتے اور بند ہوتے سنا۔ مسٹربیکسٹرنے گاڑی سٹارٹ کی، آسانی سے اسے ریورس کیا، ہاتھ اٹھا کر مجھے الوداع کہا  اور  روانہ ہو گیا۔ اب سڑک پر ٹریفک  زیادہ ہو گئی تھی۔ میں احتیاط سے  اسے عبور کرنے لگا تو کسی واقف کار نے ہلکا سا ہارن بجایا لیکن میں نے اس پر تو جہ نہ دی۔میں نے اس کے بعد کئی گھر اور بھی صاف کئے جن میں امانڈا کا گھر بھی تھا لیکن بدقسمتی سے وہ نظر نہ آئی۔

 

میں شام کو  اپنے مصور دوست الفریڈ کے پاس چلا گیا۔ بگڑے حالات کی وجہ سے میں اپنے آپ میں نہیں تھا۔ میرا ذہن غیر متوازن تھا۔میں دیوانگی محسوس کر رہا تھا۔ اس کے گھر میں ایک محفل جمی ہوئی تھی۔سب نے مجھے خوش آمدید کہا۔اسکی بنائی گئی تصاویر گھر کی دیواروں، فرنیچر اور گھر کے چپے چپے پر لگی ہوئی تھیں۔یہاں تک کہ اس کی تصاویر کا ایک ڈھیر پورچ میں بھی پڑا تھا۔اس نے اپنے کچن کو اپنا  سٹوڈیو بنایا ہوا تھا۔پینٹ کی پچکی ہوئی ٹیوبیں، برش، سٹینڈ پر لگا ہوا کینوس وغیرہ موجود تھے۔ وہ پارٹی  سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مصوری بھی کر رہا تھا۔ اس نے کینوس والا سٹینڈ کچن کی کھڑکی کے سامنے اس طرح   رکھا  ہوا تھا کہ گلی کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ دوست  موسیقی کی مدھر دھنوں میں ڈرائنگ روم میں جام پر جام چڑھا  رہے تھے۔مصوری کے کچھ برش اور شراب کی بوتلیں کچن کی میز پر رکھی تھیں۔میں اس کے پاس  جا کر بیٹھ گیا۔الفریڈ نے اپنے اور میرے لئے جام بنایا۔ اس چھوٹے سے کمرے میں اس نے عمدہ انتظام کیا ہوا تھا۔موسیقی  چند لمحوں کے لئے بند ہوئی تو کچن کی کھڑکی سے گلی کی آوازیں واضح ہونے لگیں ۔

 

تھکا ماندہ بے خوابی کا شکا ر، منوں غموں کا بوجھ اٹھائے، میں کچن میں بیٹھا تھا۔اپنی  تکالیف کچھ دیر برداشت کرتا رہا پھر میری حالت غیر ہونے لگی۔میرے جسم پر ہلکی سی کپکپی طاری ہونے لگی۔۔الفریڈ میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور اپنا مصوری کرنے والا بڑا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا  اور بولا۔۔۔

تم جس دور سے گزر رہے ہو، اس پر مجھے افسوس ہے۔ میں تمہاری تکلیف اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔ میرے پاس  ہسپانوی  تہوار میں پرکھوں کی خصوصی خوراک کا آزمودہ نسخہ (مینوڈو)  ہے۔ وہ تم پر تریاق  ثابت ہو گا۔  وہ تمہاری بیماری دور کر دے گا۔۔ دھیرج رکھو۔ تم اس خوراک سے صحت یاب ہو جاؤ گے۔ اپنے اعصاب پر قابو رکھو  بہادر انسان۔ اس وقت خود کو ٹھنڈا کرو۔  تمہارے لئے تریاق بنانے کے تمام اجزائے ترکیبی میرے پاس موجود ہیں اور میں اسے تمہارے لئے بنانے جا رہا ہوں۔  تم اس سے مکمل طور پر ٹھیک ہو جاؤ گے۔    

اس وقت صبح کے دو بج رہے تھے۔میرا تمام جسم لرز رہا تھا  اور وہ بے قراری کی کیفیت  زیادہ ہو رہی تھی۔ مے کش مد ہوش تھے۔سٹیریو پوری آوازسے مقبول دھنیں بجا رہا تھا۔    


میری بات سنو!الفریڈ فریج کے پاس گیا۔  اُس کا فریزر والا حصہ کھولا اور وہاں  سے ایک پیکٹ  نکالا۔ ہاتھ دھونے والی سلفچی (بیسن)  کے پاس گیا اور کہا ،  میری بات  سنو پیارے شخص۔۔۔ جو میں کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو۔ اب ہم اب ایک خاندان ہیں۔ تم مینوڈو کھانے کے ایک دم فٹ ہوجاؤ گے۔     


اس کے بعد مصالحوں والے حصے کی طرف گیا اس میں سے کچھ جڑی بوٹیاں اور مصالحے نکالے۔ پھر اس نے ایک بڑی سی پتیلی اٹھائی۔ اب وہ تریاق پکانے کے لئے تیار تھا۔

 

وہ اوجھری سے شروع  ہوا۔ اس کو ایک گیلن پانی سے بھرا۔ پیاز چھیلے، کاٹے اور انہیں اس میں ڈال اور چولہے پر رکھ دیا۔ جب پانی ابلنا شروع ہو گیا تو اس نے  ہسپانوی گرم مصالحے ڈالے۔ ۔۔  کھڑی کالی مرچ کے دانے ، کچھ سرخ مرچیں، ایک ڈبے سے ٹماٹرکی چٹنی، لونگ، لہسن کی تریاں، ڈبل روٹی کے ٹکڑے، نمک اور لیموں کا  رس۔۔۔ پھر پسا ہوا دلیہ بھی  ڈالا۔ اس کے بعد اس نے چولہے کی آگ آہستہ کردی اورکیتلی کو ڈھکن سے ڈھانپ دیا۔

 

میں اسے ہسپانوی تہوار کے تریاق (مینوڈو) تیار کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وہ خوراک بناتے ہوئے مجھ سے باتیں بھی کر رہا تھا مگرمجھے اس کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں۔۔۔ وہ  پکاتے ہوئے وقفے وقفے سے اپنا سر ہلا تا  یا  ا س قسم کی کوئی حرکت کرتا اور منہ سے سیٹی بجانا شروع کر دیتا۔ کچھ دیر بعد تمام دوست کچن میں آگئے  اوروہ  انہماک سے تریاق تیار کرنے میں مصروف رہا۔ ایسا لگ  رہا تھا کہ وہ ذہنی طور میرے لئے اس پیار سے مینوڈو تیا ر کر رہا تھا جیسے اپنے  خاندان  کے لئے خصوصی خوراک تیار کر رہا ہو۔

 

رات کے تیسرے پہر خصوصی تریاق تیار کرتے ہوئے دیکھ کر دوست اس کا مذاق اڑاتے رہے لیکن الفریڈ پر اس کا کوئی اثر نہ ہو ا  اور بڑی احتیاط سے اپنا کام کرتا رہا۔  ہاتھ میں بڑا چمچ لے کر نگاہیں کیتلی پر ٹکائے مستعدی سے کھڑا رہا۔ میرے جسم میں بدستور لرزش طاری تھی جو اب شدید کپکپی میں تبدیل ہو گئی اور اب میرے کندھوں تک پہنچ گئی تھی۔ دانت بھی زور زور سے بجنے لگے اور میں گلاس اپنے ہاتھوں میں تھام نہ سکا۔

تمہیں کیا ہو رہا ہے دوست؟ الفریڈ نے میری حالت دیکھتے ہوئے کہا۔  اوہ!  یہ کیا ہو گیا۔تمہاری طبیعت ٹھیک تو ہے؟ کیا ہو رہا ہے تمہارے ساتھ؟  وہ گھبرا کر بولا۔

 ایسا لگتا ہے کہ مجھ پربیماری نے حملہ کر دیا ہے،میں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔


اس بات پر وہ میرے  ساتھ بغل گیر ہوا، میرے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا اور مجھے کانپتا ہوا دیکھنے لگا۔ وہ پھر جب  کیتلی کی طرف گیا تو میں اس کے کام میں مداخلت کئے بغیر آہستہ سے اٹھا اور چلتے ہوئے دوسرے بیڈ روم میں  گیا۔ اس کے آگے ایک اوربیڈ روم تھا جو خالی تھا۔ میں اس میں جیسے ہی بستر پر بیٹھا تو مجھے نیند نے آلیا اور میں گہری نیند سو گیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو پورا گھر خالی تھا۔ تریاق ( مینوڈو) کی کیتلی صفا چٹ تھی۔ آخری قطرہ تک بھی کھا لیا گیا تھا۔

           

 اس رات کے بعد ہماری زندگانی  دو مختلف سمتوں کی طرف چل پڑی اور وہ تمام احباب جو اس رات اس کے ساتھ تھے، وہ کہاں  تھے، کہاں گئے، کیا کرتے تھے، کچھ علم نہیں۔ جو تریاق میرے لئے باالخصوص طور پر بنایا گیاتھا، میرے علاوہ سب نے کھا لیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں ایک طویل عرصے تک اپنی حالت نہ سدھار سکا۔ اگر مجھے وہ اس رات مل جاتا تو میں بہت جلد مسائل سے نکل آتا۔ایک کسک سی رہ گئی۔شاید میں اس تریاق کو چکھے بغیر ہی مر جاؤں گا، میں نے سوچا۔لیکن کسے کیا خبر؟ وہ معالی کی طرح میرے نصیب میں نہیں تھا۔ اب سوچتا ہوں میں نے معالی کی قدر نہیں کی۔ اس کے ہوتے ہوئے  مجھے کسی مینوڈوکی ضرورت نہ تھی۔وہ ہی میرا  تریاق تھی۔میں اسی غم میں مر جاؤں گا۔میری روح تمام عمر مجھے کچو کے لگاتی رہے گی کہ میں نے اس کو کیوں الگ کیا۔

اب پچھتائے ہوت۔۔۔


Popular posts from this blog