سلی تفرقہ بازین Generation Gap By Nadine Gordimer (Nobel Laureate-1991)


نسلی تفرقہ بازی

Generation Gap

By

Nadine Gordimer (Nobel Laureate-1991)

1923-2014

Gauteng (South Africa)

پیشکش : غلام محی الدین

جیمی تم گھرمیں سب سے چھوٹے ہو۔میتھیونے اپنے بیٹے کو کہا۔ جیمی کہاں ہے، کیا کررہاہے،کیوں باہر گیا ہے،فلاں دوست سے کیوں ملا ہے،  کام کیوں نہیں کرتا وغیرہ جیسے سوالات  کی زد میں رہتا۔      روک ٹوک  سے گھبرا کرجیمی بلوغت کی حد پار ہوتے ہی   گھر سےبھاگ گیاتھا ۔سالوں بعد اس کی ٹوہ ملی تو میتھیو اسے زبردستی واپس لے آیا۔  باپ کو  اپنے سے بات کرتے دیکھ کر اس نےاپنا جبڑا سختی سے بھینچ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔والد سے ناراضگی کا اظہار وہ ایسے ہی  کیاکرتاتھا۔ جیمی اس کا اکلوتا  بیٹاتھا۔ وہ خود متمول کاربار شخص تھا جس کی جنوبی افریقہ ،آسٹریلیا اور کینیڈا میں کاروبار تھا ۔اس کی توقع تھی کہ اس کا بیٹا اس کا ہاتھ بٹائے گا لیکن سب کی متفقہ رائے  یہ رہی کہ جیمی کام چور تھا جس نے اپنی زندگی میں ابھی تک کچھ  بھی نہیں کیا تھا۔والد کے پیسے ہی اڑائے تھے۔میتھیو کی محبت کی شادی تھی۔بیوی کا نام ازابیل تھا۔ان کی شادی کو بیالیس سال ہوگئے تھے۔

میتھیو  کی ازابیل سے تین بچے تھے۔دو ادھیڑ عمربیٹیاں جو شادی شدہ تھیں ۔بڑی بیٹی جینی کے تو تین بچے تھے جس کی دو بیٹیاں تو جوان ہوچکی تھیں لیکن بہت سالوں بعد ایک بیٹا پیدا ہوا تھا جس کا نام شان تھا اور اس کی عمر چارسال تھی۔ وہ  یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی ۔ اس کا خاوند وکیل تھا جس کا نام 'الیسٹر' تھا۔وہ والدین کے گھر سے ایک ہفتے کار سےڈرائیونگ پر رہتی تھی۔  ان کا اٹھنا بیٹھنا معزز لوگوں میں تھا جن میں افسر شاہی، جج ،وکیل ، پروفیسروغیرہ تھے۔سوسائٹی کے مسائل سے پوری طرح آگاہ تھے۔انہیں پودوں اور پھولوں سے پیار تھا ۔ حیوانوں ،پرندوں ،کیڑوں کی دیکھ بھال اور پودوں کی شناخت اور گھاس کا میدان کی محبت بھری آغوش میں مصروف رہتے تھے۔وہ سیروسیاحت کے بھی شوقین تھے اور ہر ہفتے سیر کے لئے جاتے تھے  ۔جینی اگرچہ  سب سےملتی رہتی تھی  لیکن کرسمس میں  جس میں میتھیو کا سکینڈل  بناان کے پاس نہ جاپائی

دوسری بیٹی   جینی سے کچھ چھوٹی تھی ۔اس کا نام با تھااورلاولد تھی۔  باکے میاں کا نام ' کارل' تھا جو محکمہ جنگلات میں منیجر تھا۔ با خود ایک سٹاک بروکر کی سیکرٹری تھی۔ وہ میتھیو کے شہر میں ہی رہتے تھے لیکن فاصلے پر۔ وہ سب اپنے اپنے گھروں میں ہنسی خوشی رہے تھے۔

میتھیو کے بارے میں بم اس وقت پھوڑا گیاجب وہ 67 کے پیٹے میں تھا اور آسٹریلیا کے صوبے کوینز لینڈ کے دارالخلافہ  برسبن گیا ہواتھا ۔ورجینیااورباربرا جو جیمی کی کزن تھیں  نےآسٹریلیا سے ای میل کے ذریعے یہ اطلاع دی کہ د میتھیو  نے اس کی والدہ کو چھوڑ دیا ہے۔ یہ  خبر بالکل غیر متوقع  اور اولاد کے لئے بے ھڈ شرمناک تھی۔ کسی کو اس خبر پر اعتبار نہ آیا۔ تجسس اور پریشانی میں انہوں نے میٹنگ کی ۔ ان کی کزن وثوق سے کہہ رہی تھیں کہ میتھیو نے ازابیل کو چھوڑ دیا ہے ۔یہ بات ان کی سمجھ  سے باہر تھی کہ ایک خاوند بیالیس  سال کی رفاقت کے بعد جس کی ادھیڑ عمر اولاد ہو اتنا بڑا فیصلہ کرسکتا تھا۔اگر کوئی افواہ تھی تو اس کے پیچھے کچھ توحقائق تو ہوں گے۔انہیں لگا کہ بڈھا سٹھیا گیا تھا۔قبر میں ٹانگیں پسارے   ہنستے بستے گھر کو اجاڑنے کی کیا ضرورت آن پڑی۔پورا خاندان سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ تصدیق یا تردید کے لئےکوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہوپارہاتھا۔سبکی سے وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔اس واقعے کی صحت سے انکارکر رہے تھے۔ انہوں نے سب سے رابطہ منقطع کرلیا ۔رفتہ رفتہ یہ افواہ دوسروں کے کانوں تک بھی پہنچ گئی  ۔اس افواہ کی نہ تو تصدیق ہوئی اور نہ کسی طرف سے تردید آئی۔والدین دونوں  ہی الگ ممالک میں تھے۔

 چند ہفتوں بعد  میتھیو نے   تصدیق کر دی کہ اس نے ازابیل کو چھوڑدیاہے۔ رونا دھونا ، چیخ وپکار شروع ہوئی۔چند دنوں بعد ہوش وحواس بحال ہوئے تو جینی نے والدہ کو فون کیاتاکہ اس کانقطہ نظر بھی معلوم کر لے۔اس معاملے میں اس کی طرف سے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں آیاتھا۔جینی نے  ُسن ُگن  لینے کے لئے ازابیل کو فون کیا تو اس نے اپنے دوہتے دوہتیوں اور اس کے میاں کے بارے میں گفتگو شروع کر دی۔ اس کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ سب معاملات صحیح تھے اور کوئی گڑبڑ نہیں تھی۔اس لئے اس نےوالدہ سے  شادی  ٹوٹنےوالے معاملے کو نہ چھیڑا۔ادھر ازابیل شائد یہ سوچ رہی تھی کہ اس کے بچوں کواس کی شادی ٹوٹنے کا علم ہی نہیں۔جینی نے با سے کہا کہ کیاتمہیں اس  کے رویے سے یہ نہیں لگا کہ وہ اس بات کو ہم سے اس لئے چھپا رہی تھی کہ اسے یقین تھا کہ ہانڈی میں وقتی ابال تھا  جو یقیناً بیٹھ جاناتھا۔جب اس نے لوٹ کر آنا ہی تھا تو کسی اور کو اس مسئلے میں شامل کیا کرنا۔لگتا تھا کہ ازابیل نے اسے نجی معاملہ ہی سمجھاہوگا۔

تمہاری یہ دلیل مضحکہ خیز لگتی ہے اس نے اپنی بہن جینی کی بات سن کر کہا۔دراصل والدہ سکتے میں ہے۔اپنی بے وقعتی پرشرمسار ہے۔اپنی بے حرمتی پر افسردہ ہے ۔اس لئے وہ کسی سے ذکر نہیں کررہی۔جینی نے خاموشی سے اس کی بات سنی اور کہاکہ ہمیں اس معاملے کی تہہ تک جانا چاہئیے۔ ہمیں اب کیا کرنا ہوگا۔ اس میں  ہماراکیا رول ہونا چاہیئے۔اس سےکیسے نپٹا جائے اس پر سوچنا چاہیئے۔اپنےوالد کے بڑھاپے کے عشق کو تبدیل کرکے والدہ سے دوبارہ صلح کروادینی چاہئیے۔جینی نے کہا۔ ہمیں ضرور ایسا کرنا چاہیئے ۔میتھیو اپنی بیٹی با کو سب سے زیادہ پسند کرتاتھا اس لئے اس کو کہا گیا کہ والدین کی علیحدگی کے معاملے کو حل کرنے میں پہل کرے اورباقی اس کی مدد کریں گے۔

 میتھیو نے ازخود علیحدگی کی تصدیق کردی تھی ۔ معاملہ ٹیڑھا  تھا۔آخر اس نے ایسا کیوں کیا۔کیا اس کے پیچھے کوئی ناری تھی۔اس پر سوچ بچار ہوئی تو قیافہ لگایاگیاکہ اس کے پیچھے یقیناً کوئی عورت ہی ہوگی ۔انہیں اس بات کا قلق تھا کہا کہ اب اس کے والدین زندگی  بھر ایک دوسرے  کے ساتھ رہ نہ ہوپائیں گے۔وہ فساد کی جڑ ابھی تک  ظاہر نہیں ہوئی تھی ۔کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کون تھی، کدھر سے آئی تھی۔میتھیو سے اس کی ملاقات کیسے ہوئی تھی۔یہ بھی ممکن تھاکہ وہ ان کی جان پہنچان والی ہو یا ان کی والدہ کی گہری دوست ہو  جینی کے خاوند الیسٹرنے اپنی رائے دی۔اس نے میتھیو کی تصویر جو سامنے والی دیوار پر لٹکی تھی، دیکھ کر کہا 'بیچارہ  باپ!

والدین آخر کہاں گئے تھے جہاں یہ خاتون میتھیو سےٹکرائی اور وہ اس کے سامنے دل ہار بیٹھا۔امی اچھی طرح سے اس خاتون کو جانتی ہو گی۔ جب وہ پوچھے گی توابا یہ بات با کو بتادے گا۔جینی نےاپنی بہن سے کہا۔

اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی۔با نے جواب دیا۔اب میتھیو برسبن  چلاگیا ہے اور  شوشے چھوڑ رہا ہے۔وہ ہمیں تو نہیں بتائے گا بلکہ رجسٹرار کے پاس شادی ریکارڈ کرانے پر یہ عقدہ کھلے گا کہ کہاں آنکھ مٹکا لڑا۔با نے اپنی رائے دی۔

یہ کیوں ہوا۔ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھاجینی نے کہا۔امی ابا کی محبت کی شادی تھی۔اب ایک اور محبت پرانی محبت پر حاوی آگئی تھی۔ان کی والدہ اب ٹھکرائی ہوئی شئے بن گئی تھی۔وہ یقیناًجانتی ہوگی کہ اس کے حقوق پر کس نے ڈاکہ ڈالاتھا۔یہ سوچ کر ادھیڑ عمر بیٹیاں، جوان بیٹا اور نوجوان دوہتیاں شرم سے پانی پانی ہوئے جارہے تھے۔داماد طنز یہ لہجے میں تنقید کر رہے تھے۔اب ان سب کو اس سانحے سے نپٹنے کے لئے تیار کرنا تھا کہ میتھیو کی دوسری شادی کے مسئلے کوحل کیا جائے۔کیا وہ ناروالدہ کی عمر کی تھی،زیادہ یا کم عمر تھی۔وہ اپنے طور قیافہ لگارہے تھےکہ ان کے بھائی جیمی نے بتایا کہ اسے بتایا گیا ہے کہ اس خاتون کا چارسال کاایک بیٹا بھی ہے۔اس کی کبھی بھی شادی نہیں ہوئی۔وہ ایک آرکسڑا کمپنی میں سازندہ ہے اور تھیٹر میں دوسرا وائلن بجاتی ہے۔میتھیو کو موسیقی سننے کا شوق تو تھا لیکن وہ اسے ازابیل کے ساتھ یا اکیلے میں اپنے کمرے میں سنا کرتا تھا۔اسےمیوزیکل کنسرٹ  یا تھیٹرجانا بالکل پسند نہیں تھا۔ اس کے مطابق وہ محض وقت اور پیسوں کا ضیاع تھا۔ جب دنیابھر کے کلاسیکل موسیقاروں کی سی ڈیز عام میسر تھیں تو تھیٹر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ گھر بیٹھے ہی انہیں سنا جا سکتاتھا۔اس لئے اس نے سی ڈیز کا انبار لگارکھاتھا اور انہیں سنتا تھا۔اگر اس کی  نئی محبوبہ موسیقی سے متعلق تھی تو اس کی ملاقات کیسے ہوئی ہوگی،اچنبھا تھا۔ انہیں اس بات سے اور بھی حیرانی ہوئی جب انہیں پتاچلاکہ  پچھلےآٹھ مہینوں سے اس سے رومانس  چل رہاتھا۔ازابیل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میتھیو سے کہاتھاکہ تم نے اپنی پسند کا انتخاب کرلیاہے،مجھے نہیں لگتاکہ تم اسے نبھاپاؤگے۔

سب کے نزدیک بھی یہ پیاروقتی ہی تھا۔جلد ہی جھاگ بیٹھ جانا تھی۔ایساعشق ایک ایسے افسانے کی مانند تھاجو ان کے خاندان میں پہلے کبھی نہیں لکھااورپڑھاگیاتھا۔یہ ایک مختصر قسط تھی۔یہ وقتی شہوت تھی۔اور کسی کو شک ہو نہ ہولیکن ازابیل ُپر از یقین تھی کہ وہ واپسی کا رخ کرکے ضرور اس کی طرف لوٹے گا۔ اس لئے اسے اس بات کی قطعی پریشانی نہیں تھی کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسے چھوڑ رہاتھا۔

اب ان کی سوچوں کارخ اس طرف چلاگیا کہ وہ خاتون دیکھنے میں کیسی تھی؟ان کی ملاقاتیں کہاں ہوتی رہیں۔بیٹیوں نے تہیہ کیا کہ وہ اپنے والدین میں صلح کراکر دم لیں گی۔وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اسکی اولاد اور احباب اس کے خلاف ہوجائیں۔ با نے جینی کو مشورہ دیا کہ اپنے تینوں  بچوں کولے کر اس خاتون کے گھر جائے تاکہ اس کو اندازہ ہو کہ وہ جوان بچوں کانانا ہے اور وہ کچھ حیا کرےلیکن جینی نے یہ تجویز مسترد کردی۔میتھیو کی ای میل سے پتہ چلا  کہ  اس نے اپنی تجارت کے لئے  جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن  جنوبی افریقہ میں ایک اور  اپارٹمنٹ لے لیا تھا اور وہاں وہ اپنا  نیا دفتر قائم کرنے جارہا تھا اسلئے اس نے اپنی بیٹیوں کو کہا کہ دفتر کے اوقات اسے فون نہ کریں ۔

ازابیل سے کس بات پر ان بن ہوئی کہ تم نے اسے چھوڑدیا  تو میتھیو نے کہا کہ ازابیل اور مجھ میں کوئی جھگڑانہیں  لیکن صدیاں گزرگئی ہیں کہ ہم اکٹھے نہیں سوئے۔ایسی بیوی کا کیا فائدہ۔

جب اس سے سوال کیاگیا کہ وہ  نئی محبوبہ سے کیسے ملا تو میتھیو نے جواب دیا کہ  اس کی ملاقات  ہوائی جہاز میں ہوئی۔اس کے گروپ نے موسیقی کاشو کرناتھا۔وہ کیپ ٹاؤن  جانے والے جہاز میں پریٹوریا کسی امریکی کمپنی سے تجارتی مذاکرات کے لئے جارہاتھا۔اسی جہاز میں ایک  آرکسٹرا  بڑے تہوار میں شو پیش کرنے جا رہاتھا۔وہ خاتون جہاز میں اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔اس سے باتیں شروع ہو گئیں۔  اس نے بتایا کہ وہ وائلن بجاتی تھی اور آرکسٹرا میں دوسرے نمبر پر تھی ۔اس کی عمر 35 سال تھی۔ اس کا نام علیشیا تھا۔اس نے کبھی شادی نہیں کی تھی لیکن اس کا ایک چار سال کا بیٹاتھا۔اس کا  صحافی عاشق اسے چھوڑکر لندن جابساتھا۔                

تمہیں  یہ شادی مبارک ہولیکن تمہیں یہ احساس نہیں کہ تمہاری عمروں میں اتنا زیادہ فرق ہے۔ وہ ہم سے بھی چھوٹی ہے۔کچھ تو خیال کرو۔تم دونوں بہت بڑی غلطی کر رہے ہو۔  تم اب ہماری ماں کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہو؟ حیرانی کی بات یہ ہے کہ تمہارا عشق شروع کیسے ہوا۔با نے اس سے پوچھا۔ 

اس سفر میں ہماری خوب گپ شپ ہوئی۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے موسیقی بہت پسند ہے لیکن میں یہ شوق بہترین مغنیوں کو سی ڈی پر سن کر پسند کرتا ہوں۔ جب میں اپنا شوق ویسے ہی اپنی مرضی کے اوقات میں پورا کرلیتا ہوں تو  تھیٹر جانے کی کیا ضرورت ہے۔اس پر اس نے کہا کہ تھیٹر میں سننے کا اپنا مزہ ہے۔   اس نے مجھے دعوت دی کہ وہ اس کا شو دیکھنے کے لئے آئے۔میں نے اس کی دعوت قبول کر لی۔ میں وہیں رک گیا۔ شو اگرچہ ہاؤس فل تھالیکن اس نے  اپنے اثر و رسوخ سےتھیٹر میں مجھے عمدہ ترین سیٹ دلوا دی۔ تین گھنٹے تھیٹر میں موسیقی سننے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ سی ڈی سے میوزک سننے اور موسیقاروں کو براہ راست  اہتمام کے ساتھ سننے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ان دونوں کی کوالٹی میں موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتاتھا۔تھیٹر میں ان کی اصلی آواز اور سازوں کا احساس ہوتا تھا۔ان کی تخلیق جب کانوں تک پہنچتی تھی، ان کے اشارے کنائے، سانس کے زیروبم، مرکیاں، حرکات و سکنات ، چہروں کے تاثرات اور سروں کی ہم آہنگی ناچ گاناکا تاثر لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتاتھا۔موسیقی سننے میں اتنا لطف مجھے کبھی بھی نہ آیا۔شو ختم ہونے کے بعد  مجھے یکدم خیال آیا کہ علیشا کی میزبانی کا شکریہ تو ادا کیا ہی نہیں تھا۔مجھے اس کے نام کا تو پتہ تھا لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ٹھہری ہوئی تھی۔مجھے اس کا شکریہ اسی روز ہی ادا کرنا تھا کیونکہ اگلے روز ان کا شو  کسی اور شہر میں تھا۔اس وقت مجھےمعلوم نہیں تھا کہ اس کا اگلاشو کہاں کا تھا۔میں نے اسے ڈھونڈ نکالا ۔ اس کا شکریہ ادا کیا۔اس کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔

 اگلے روز تجارت کے سلسلے میں میں نے  جاہنسبرگ جانا تھا تو میں نے اس کا آرکسٹرا بھی وہاں لدا ہواپایا۔ علیشا اور میں الگ الگ قطاروں میں تھے۔ میں قطار کے دائیں سرے پر اور وہ ساتھ والی قطار کی بائیں نشست پر تھی ۔درمیان میں راستہ تھاجو تنگ سا تھا لیکن ہم باآسانی آپس میں گفتگو کر سکتے تھے۔میرے جیسے لوگ مشہور فنکاروں سے ہمیشہ مرعوب ہوتے ہیں۔ہم انہیں آزاد منش سمجھتے ہیں لیکن ان کی زندگیاں عام لوگوں سے زیادہ سخت ہوتی ہیں۔ان کو لازماً قواعد وضوابط کا پابند رہناپڑتاہے۔وہ عام لوگوں سے مشکل زندگی گزارتے ہیں۔علیشا نے بتایا کہ روزانہ مخصوص اوقات میں ریہرسل، لوگوں کے سامنے دوبدو پیش کرنا،جھلملاتی روشنیوں میں گانا، راتوں کو دیر تک جاگنا اور نئی نئی دھنوں کی مشق کرنا، موسیقار کے اشاروں کے مطابق ہم آہنگی دکھاناآسان نہیں تھا۔ اگر ساز کی لے میں ذرا سی بھی اونچ نیچ  اور غلطی ہوجائےتو قیامت ٹوٹ پڑتی تھی۔ اس کے ساتھ نیند پوری نہ ہونا  اور تکان عام مشکلات تھیں۔مزید بر آں پروگرام میں اکثر تبدیلیاں بھی کرتا رہتا تھا جس سے  طبیعت پر مزید برااثر پڑتا تھا۔

میں تمہاری طرف کھنچاچلاجارہاہوں۔ میں یہ اپنے بچوں  کو کیسے بتاؤں؟میتھیو نے خاتون سے کہا۔سوچو۔ میں  اپنی اولاد کو جو ہزاروں میل دور بیٹھی تھی کوفون پرکیاکہوں؟ وہ میری بات پرطنزکریں گی۔ان کے لئے یہ سب مضحکہ خیز تھی۔مجھے باتیں بنارہی تھیں ے۔میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہر کوئی میرے پاس آئے اور تمہارے بارے میں پوچھ تاچھ کرتاپھرے ۔لیکن یقیناًہرایک شئے جو میں فرض کرتا ہوں اس معاملے کو لازماًان کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ واقعہ  ان کی ماں  سے متعلق ہے جسے انہوں نے زندگی بھر دیکھا ہے۔اسے دیکھتے  رہیں گے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ وہ ہم دونوں  کو ایک دفعہ پھر یکجاہوجائیں۔

دونوں بہنوں(جینی اور با )نے ایک پیانو والے ریستوران میں لنچ اکٹھا کیا۔اس میں بازوؤں والی کرسیاں تھیں۔ان کے ساتھ لمبے لیمپ رکھے گئے تھے جو  چھت سے غروب آفتاب  کی روشنی دیتے تھے۔وہاں چھوٹے چھوٹے میز رکھے گئے تھے جن کو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر کھانا کھایاجاتاتھا۔با نے ایک غیر معمولی مقام چناتھااس نئ مصالحہ دار زیتون ، پستہ اور اخروٹ سے بنے کھانوں کا آرڈر دیا ۔مینو  جینی نے تجویز کیاتھاجبکہ ریستوران با نے چناتھا۔  با اور کارل اگرچہ  ہوٹلوں کے شوقین نہیں تھے  لیکن با نے یہ جگہ اس لئے چنی تھی   کہ اس کا باس اپنی میٹنگ کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیا کرتا تھا۔انہوں نے میٹنگ کی لیکن کسی حتمی فیصلے پر نہ پہنچا جا سکا۔ہفتے گزرتے گئے ۔ جب کبھی فون کی گھنٹی بجتی تو وہ ان کے والد کا فون ہوتا یا ان کی والدہ ہوتی۔دونوں الگ الگ جگہ رہ رہے تھے۔اس وقت انہیں یہ آس ہوتی کہ شائد ان کی صلح ہوگئی ہواور دوبارہ اکٹھے ہو گئے ہوں لیکن یہ ان کا خیال ہی تھا۔تاہم سب کو یہ یقین تھا کہ اب کے ابا کی شادی نبھ نہیں پائے گی۔

اولاد کو پتہ چلا کہ ان کی سوتیلی ماں  کا نام  علیشا تھا۔اس کے خاندان کی عرفیت پارکس تھی۔ جوشائد ایک حد تک اس لقب کی وضاحت کرتی تھی۔اس نے بچپن سے ہی موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا اور ساز بجانے شروع کر دئیے تھے لیکن وہ آرکسٹرا میں دوسرے وائلن کے درجے  سے آگے ترقی نہ پاسکی۔وہ لوگ جو اس قسم کی موسیقی جانتے تھے، اس کی فنکاری کو دوسرے  نمبر پر شمار کرتے تھے۔ بیچارے والد کو آرکسٹرا کے  سازندوں کے درجات کا پتہ نہیں تھا۔اس کی تو دوڑ اپنے کمرے کی سی ڈییوں  تک ہی تھی اور وہ انہیں سن کر مست  رہتا تھا۔ آرکسٹرا کی کمرشل دنیا کا تو علیشا سے ملاقات کے بعد اسے پتہ چلنا شروع ہواتھا۔علیشیا کی پیشہ ورانہ زندگی سے وہ بہت متاثرہواتھا۔اس آدمی کو کیا ہوا جو علیشا کے بیٹے کاباپ تھا۔کیا وہ میتھیو کا یا میتھیو اس کا رقیب تھا۔کیا وہ میتھیو کے لئے کوئی مصیبت کھڑی کر سکتا تھا۔وہ لندن میں ایک صحافی تھا۔ اس کے والدین مختلف ممالک اور نسل سے تھے۔ اس  ے بھی علیشیا سے بچہ پید کیا تھا جس کی نسل بھی مخلاط تھی۔اس کی ماں  اور باپ کی نسل اور آبائی قومیت مختلف تھی۔ وہ صحافی علیشیا کے بیٹے کا  حقیقی باپ تو تھا لیکن والد کی ذمہ داریاں پوری طرح نہیں نبھا رہاتھا۔کیا وہ اس کے لئے دھمکی بن سکتاتھا۔بہر حال معاملہ واضح نہیں تھا۔ایک خطرہ تھا جو 67 سالہ بوڑھا لے رہا تھا۔ وہ جذباتی جرم میں  مبتلاہوگیاتھا۔یہ سب باتیں اس نے اپنی بیٹیوں کے گوش گزار کیں۔

جیمی  اپنی بڑی بہن جیمی کے گھر تھا۔ اس نے اسے مشروب دیتے وقت قہقہہ لگا کر کہا ۔ڈیڈی!  تم نے وہ کیا جو نوعمر لونڈے کرتے ہیں۔سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔پیتے پلاتے ہیں۔رومان کرتے ہیں۔گپ شپ  اور عیاشی کرتے ہیں۔ باپ تو خیر سے ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا۔میتھیو بظاہر آزاد منش تھا۔وہ ذات پات، رنگ روپ، مذہب ،نسل خاندان وغیرہ کو اہمیت نہیں دیتاتھا۔وہ اپنی بیٹیوں کو بھی کہتا کہ غیر امتیازی سلوک ظاہر کرنے والے گلابی ربن باندھیں ۔دراصل ایسا کھلا رویہ دوسروں کے لئے پیش کیا جاتا تھا لیکن جب اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی 'جینی 'کا کسی بھارتی طالب علم سے افیئر چل رہاتھا تو  اس نے دھمکی ۔پیار محبت اور مختلف طریقوں سے  اسے روکا ۔جب  لڑکےکا کسی            اور یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا تو وہ از خود اسے چھوڑ کر چلاگیا۔اس کے کھلے پن اور غیر متعصب پن کی قلعی کھل گئی۔

خاندان کی ایک میٹنگ میں الیسٹراپنی بیوی جینی سے علیشیا کے بچے کے بارے معلومات لے رہا تھا۔اس کے بارے میں دلچسپی لے رہاتھا۔اس کے بارے میں کہ وہ بچہ قوس و قزح کی طرح مخلوط نسلیں لئے ہوئے تھا  ۔ ماضی  کے بہت سے ایسے معقول لوگ اب کسی طرح سےاس شئے کوعملی طور پر ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ انہوں نے اس وقت خود کو اس تصور کے پیچھے خود کو چھپارکھاتھا۔ اس نے جینی سے کہا کہ میں تمہارے والد کے اس پہلوکو نہیں جانتا تھا۔اس پر جینی نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔یا ہم ایسا سوچتے ہیں۔با چپ رہی کیونکہ وہ ایسی  محفل میں کم بولا کرتی تھی۔ با  سمجھتی تھی کہ جب بھی اسے کوئی الجھن ہو تو وہ خواہ اپنے گھر میں ہو یا والد کے گھر میں یاپھر کسی اور جگہ اس مصیبت کا حل اسے خواب میں مل جاتا ہے۔اسے خواب آیاکہ تھیٹر جاؤ اور علیشیا کے بارے معلومات حاصل کرے۔

بااور جینی نے اپنے طور کسی کو بتائے بغیر ایک پروگرام بنایااور علیشیا کے کنسرٹ پر چلی گئیں۔وہ ہال میں ایسی سیٹوں پر بیٹھیں جو نہ تو آگے تھیں اور نہ ہی بہت پیچھے۔انہوں نے آرکسٹرا کے گروپ کا جائزہ لیا ۔مردوں نے اپنی قمیص کے کالر کھڑے کئے ہوئے تھے،کالی ٹائیاں لگائی ہوئی تھیں  اورسرخ رنک کے کمر بند باندھے ہوئے تھے۔خواتین نے ایک ہی انداز کی خوبصورت شالیں اپنے اپنے کندھوں پر ڈالی ہوئی تھیں جن کے گوٹے والےکنارے تھے۔انہوں نےاس خاتون کو جو دوسرا وائلن بجا رہی تھی کا جائزہ لیا تو انہوں نے اندازہ لگایا کہ وہ ہی علیشا ہوگی۔اس نے جو شال اوڑھی ہوئی تھی وہ اس کے جھکے ہوئے بازو کی وجہ سے ڈھلک گئی تھی۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس بات کی تصدیق وہ  موسیقی کے دوران وقفے میں کر لیں گی۔وہ بہت دبلی پتلی تھی۔اس نے اپنی بائیں ٹانگ بڑے وقار سےپھیلائی ہوئی تھی اور ُجوڑا کیا ہواتھا۔اس کےایسے  گہرے سنہرے بال تھےجو نہ تو سرخ تھے اور نہ ہی بھورے۔مہندی مائل تھے۔میوزک ڈائرکٹر ہاتھوں کے اشاروں سے آرکسٹرا کو ہدایات دے رہاتھا۔اس نے اپنی تھوڈی کو ساز پر ٹکایا ہواتھا۔جب وہ اس کی طرف اشارہ کرتاتووہ وائلن بجانا شروع کردیتی تو وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوجاتیں۔انہیں ایسا لگا کہ علیشا کی چھٹی حس نے اسے خبردار کردیاتھا کہ کوئی اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔ ہال میں اندھیرا تھا  اس کے باوجود علیشیا کی نظریں عین اس جگہ دیکھ رہی تھیں جہاں دونوں بہنیں بیٹھی تھیں ۔۔علیشیا کی آنکھوں میں سٹیج کی چکاچوند روشنی سے گہرے حلقے پڑے ہوئے تھے۔اس کامنہ اور چہرہ چمک رہاتھا۔حالانکہ وہ ایک دوسرے کو بالکل نہیں جانتی تھیں پھر بھی نہ جانے اس کو کیسے اندازہ ہوگیاتھا کہ اس کا ناقدانہ جائزہ لیا جارہا تھا۔اس وقت اس کا ایک ہاتھ حرکت میں تھا۔وہ میوزک ڈائرکٹر کے اشاروں پر وائلن بجارہی تھی۔

انہیں اس کی ہتھیلی کا خیال آہا جو اس نے ان کے باپ کے ہاتھوں میں جہاز میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاتے ہوئے دی تھی۔اس کے ہاتھ کی لکیروں نے ان لمحات میں فیصلہ سنا دیاتھا کہ میتھیو اوروہ  ایک ہونے والے تھے۔قسمت نے ان کو ملادیاتھا جو بعد میں مختلف مقامات پر ملتےرہے۔

ان کو میتھیو کی سرد مہری  پر تعجب ہو رہا تھا۔ وہ ان سے بے اعتنائی برتنے لگا تھا۔اس کی اولاد نے اس بات کا برا منایا۔ وہ کیسے انہیں اس معاملے سے الگ کرسکتاتھا۔وہ اس کو ای میل کرتی تھیں۔وہ  اس خط وکتابت میں ہم کا لفظ ادا کیا کرتی تھیں جس سے مراد ازابیل،جیمی، جینی، اسکا خاوند اور دونوں بیٹیاں ، با اور اس کا میاں  سب شامل تھے۔وہ باہمی مشورے سے میتھیو کے کسی فیصلے پر اعتراض اٹھاتیں تووہ اپنا دفاع کرتا۔ان کے تیکھے سوالوں نے اسے مشکل میں ڈال دیاتھا۔وہ میتھیو کو واسطہ دیتی تھیں  کہ بڑھاپے کی آگ میں نہ جلے اور بے وقت کی راگنی نہ اپنائے لیکن عشق وہ جو سر چڑھ کر بولے۔

میتھیو        کی اپنی  اولاد کے بارے میں  رائے تھی کہ وہ گمراہ  ہوگئے تھے ۔ کہنے کو وہ غیر متعصب تھا لیکن جینی کی  اس کے ہم جماعت بھارتی لڑکے سےناجائز  تعلق کاپتہ چلا تو اسنے جینی کا حمل گرواکر شادی سے منع کردیا۔اس کے خاوند  الیسٹر  کواس کی اس افیئر کا پتہ نہیں تھا۔اگر اس کے دامادوں کو ان کی بیٹیوں کی کرتوں کاپتہ ہوتا یا پتہ چل جاتا تو یا تو ان سے کبھی شادی ہی نہ کرتے یا اب انہیں اب چھوڑ دیتے۔جیمی اپنی بہنوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالا کرتا تھا۔ اب جب والد کی باری آئی تو اس کو اپنی وہ تمام باتیں جو اس نےاپنی اولاد پر لاگو کی تھیں  سب بھول گیا تھا۔

اب اس شئے کو امکانی بنادیاگیاتھاکہ خاندان مسلسل رابطے میں رہے۔ اب وہ باقاعدگی سے ایک دوسرے کے کھانے کرتے رہتے تھے۔ کبھی جینی کے گھر اور کبھی با کے گھر ۔ان ملاقاتوں میں باپ موجود        نہ ہوتا تھا جو اس وقت نوبالغ عاشق کی طرح کا کردار ادا کر رہا تھااور اپنے جنون میں اندھا پورے خاندان کو تباہ کرنے پر تلاہواتھا۔وہ سب اس کی موجودگی ایک باپ کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے جو ان کی ماں کا خاوند  تھا۔البتہ ازابیل اس محفل میں  کبھی کبھارشامل ہوجایاکرتی تھی۔علیشیا نے میتھیو کواپنی محبت میں گرفتارکرلیاتھا۔وہ اس پر پوری طرح غالب آگئی تھی۔وہ ان کے خاندان میں زبردستی گھس آئی تھی۔ ان ملاقاتوں  کا سبب میتھیو ، ازابیل اور علیشیا کے درمیان کوئی مستقل حل ڈھونڈنا تھا۔ کھانے کی میز پر وہ اپنے باپ کو سمجھانے کے نت نت طریقے نکالتے۔بحث ومباحثہ چلتارہتاتھااور کوئی لائحہ عمل طے کیاجاتاتھا۔

اولاد نے ازابیل کے لئے وکیل کیا جس نے میتھیو سے ملاقات کی اور اس کی مراعات  اور دیگر امور  طے کرنےکے بارے میں  گفتگو کی۔الاؤنس اورجائیداد وغیرہ  میں شرکت کے معاملات نپٹائے۔اس میں یہ بھی تصفیہ کیا گیا کہ  وہ اپنی اپنی زندگی اپنائیں گے اور حالات نے ان تلخیوں پر مٹی ڈال دی اور معاملات کو بہتر طریقے سے سمجھے  تو  دونوں مرضی سے دوبارہ مصالحت کرلیں گے۔ازابیل اس تمام معاملے سے لاتعلق ہی رہی۔ وہ اس طرح پیش آرہی تھی جیسے سرے سے کوئی واقعہ ہوا ہی نہ ہو۔ایک دن ہفتے کے آخری دن  ازابیل جینی کے گھر آئی ۔وہاں پورا خاندان تھا۔اس کے چارسالہ بیٹے کو والدین نے بچوں کے اس میں بیٹھ کر چلانے والی جیپ لاکر دی تھی۔ وہ جتنی دیر بھی بیٹھی یا تواس بچے سے کھلونوں کے بارے میں ہی باتیں کرتی رہی یا پھر اپنی نوعمر دوہتیوں سے ان کے مشاغل پر باتیں کرتی رہی۔ان سے ان کے دوستوں کے بارے میں گپ شپ کرنے لگی۔انہیں کہاکہ اسے معلوم تھا کہ ان کی پسند کیاتھی اور پوچھا کہ آج بالائی منزل پر موسیقی کا شور نہیں  کیا اس روز ان کا بوائے فرینڈ نہیں آنے والا تھا؟جب ازابیل واپس چلی گئی تو کارل نے تبصرہ کیا کہ ازابیل کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ میتھیو  اس کے پاس لوٹ آئے گا اور دوسرا یہ  کہ پورا خاندان اس کے ساتھ تھا۔اس کے اس بیان پر کوئی کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔ہوسکتا ہے کہ علیشیا آخری وقت تک میتھیو سے نباہ کرلے جینی نے کہا۔

 

دوسری طرف صبح کو میتھیو سورہاہوتاتو دروازے میں کنجی کی آواز آتی ۔تالہ کھلتا ۔ اس کی آبکھ کھلی اور بند ہوجاتی کیونکہ وہ ہلکی آہٹ اس کی نیند اڑانے کے لئے ناکافی تھی۔کچھ دیر بعد مائم ٹھنڈے گال اس کی بغیر شیو کئے چہرے سے لگ جاتےاور مستقل جڑے رہتے۔علیشیا کو اپنے اپارٹمنٹ سے صبح سات بجے اپنے بیٹے کو نرسری میں چھوڑنا ہوتا تھا۔ اسے اتار کر وہ میتھیو کے پاس آجاتی تھی۔یہ اس کا روزمرہ کا معمول تھا۔کل وہ آئی تو اس نے تالہ کھول کر اپنے جوتے ادھر ادھر پھینکے اورلباس اتار کر اس کے ساتھ لیٹ گئی۔ سخت سردی سے اس کا چہرہ ٹھنڈا تھا لیکن اس کے باقی تمام جسم میں خصوصی گرمی پائی جارہی تھی۔میتھیو کی خواہش تھی کہ وہ روزانہ ایسا ہی کیا کرے۔

ایک دن   بہنوں نے  فیصلہ کیا کہ وہ اپنے طور میتھیو کی دوسری شادی والے مسئلے میںعلعشا سے بات کریں گی۔  ان کے خاوند اس دن وہاں نہیں تھے۔انہوں نے میتھیو اور علیشیا کواتوار کو اپنے ساتھ لنچ پربلایا۔ علیشیا جب جینی کے گھر آئی تو میتھیو نے ایسا رویہ اپنایا جو میزبان کا ہوتاتھا۔ ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔جینی کے گھر کو وہ اس وقت اپنا گھر سمجھ کر جام اور اشیا  خورد و نوش پیش کررہاتھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ علیشیا سے معاشقہ بھی لڑا رہا تھا۔سب اس تماشے کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔انہوں نے علیشیا کا اپنی والدہ سے موازنہ کیا تو ان کی والدہ  اس سے کہیں خوبصورت تھی۔؛علیشیاکاچہرہ لمبوتراتھا۔اس کی آنکھیں  شربتی  سبزتھیں جن میں حلقے پڑے تھےان  پر مصری مجسموں  کی طرح کا میک اپ کیا ہواتھا۔اس نےڈھیلی ڈھالی قمیص پہنی تھی لیکن اس کے نیچے اس کی چھاتیاں سخت تھیں۔انہوں نے اس کا علیشیا کا جائزہ آدمیوں کی نظر سے نہ لیا۔اس کے ہاتھ عام سے تھے بلکہ کہا جائے کہ بدصورتی کی طرف زیادہ مائل تھے۔ان کی انگلیاں انگوٹھیوں سے بھری تھیں۔ان کے والد نے اسے ان کی ماں سے زیادہ زیور دیاتھا۔اس کے بال کسی حد تک گھنگریالے تھے۔اس کی ہتھیلیاں کھلی ہوئی تھیں جو آدھی کرسی پراور آدھی اس کی گود میں تھیں۔ایسا محسوس ہورہاتھا کہ وہ اپنی پریشانی اس طرح دور کرنا چاہتی تھی۔لیکن وہ ہتھیلیاں توان کے والد کے لئے قیمتی تھیں کیونکہ وہ اس کوراحت پہنچاتی تھیں ۔وہ مستی میں ڈوبی  ہوئی آواز میں باتیں کر رہی تھی جسے مرد پسند کرتے ہیں۔جیمیشاب کا چھکاچڑھاکر دم بخود  محبت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔

تقریب بالکل رسمی تھی۔سرسری سی باتیں ہورہی تھیں۔ان کا رویہ مصنوعی تھا۔ایک دوسرے سے بیگانہ تھے۔ان کی باتوں میں گہرائی نہیں تھی۔موسم،اخبارات،سیاست،جنگیں، مہنگائی، قحط، بڑھتی ہوئی ٹریفک اور اس کا جام ہونا،سیلاب  اور موسیقی وغیرہ جیسے موضوعات پر گفتگو ہورہی تھی۔یہ عاشق ہی تھا جو اصل موضوع کی طرف آیا۔جینی اور بااس وقت اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہ رہی تھیں ۔ان کا مقصد علیشیا کو قریب سے دیکھا ہی تھا۔میتھیو اس کی تعریفوں کے قلابے ملانے لگا۔علیشیا بہت عمدہ  موسیقار ہے۔ وہ کئی بین الاقوامی میلوں میں شرکت کر چکی ہے اور سردیوں میں مونٹریال میں ہونے والے بین الاقوامی میلے پر جارہی ہے۔دوسرے وائلن پر بڑی میٹھی دھنیں بجاتی ہے۔ پہلے وائلن پر ایک اور لڑکی ہے جو موسیقار کی پسند ہے۔وہ انگریزی اور فرانسیسی  بڑی روانی سے بول سکتی ہے اسلئے مونٹریال میں دوسروں سے زیادہ مقبول ہو گی۔وہ جینی کی بیٹیوں سے دوستانہ باتیں کرنے لگی۔  اس نےجینی کے چارسالہ  بیٹے شان کو جھک کر پیار کیا اور کہا کہ اس کا بھی اتنا ہی پیارا بیٹا ہے۔  تمہاری طرح اس کے پاس بھی بہت سے  کھلونے ہیں۔ تم جو جیپ چلارہے تھے وہ بہت خوبصورت ہے  لیکن میرے بیٹے کے پاس نہیں ہے۔ تم نے یہ جیپ کہاں سے لی؟میری نانی میرے لئے یہ جیپ لائی تھی شان  نے جواب دیا۔یہ بات شرمناک تھی کہ  اس کادادا  اس کے لئے نہیں لایاتھا۔فکر نہ کرو میں تمہارے بیٹے کو  ایسی ہی جیپ لے کر دوں گا میتھیو نے کہا۔اسے تقریب کے کسی فرد کو بھی متاثر نہ کیا اور میتھیو کی کسی بات کو پسند نہ کیا۔اب وہ پرانا باپ نہیں رہاتھا۔اس نے کسی اور کے بیٹے کے لئے قوس و قزح کا وعدہ کرلیاتھا۔ میتھیو کی بیٹیاں سوچ رہی تھیں کہ اگر علیشیا کوبچہ ہوگیاتو حالات مزید بگڑ جائیں گے۔اس کا بچہ بھی میتھیو کی طرح کا گھمنڈانہ انداز اپنا کر ان کے اعصاب پر سوار ہوتا رہے گا۔نہیں، نہیں، نہیں۔ہمیں تو اس معاملے سے باہر ہی رکھو۔ ہم  کسی اور کی دھونس ہرگز برداشت نہ کر پائیں گی۔لیکن جب وہ پھر سوچتے کہ ان دونوں نے شادی کی ہے تو وہ ساتھ ساتھ ہی رہ رہے ہوں گے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاں بچہ نہ ہو۔وہ تو لازم ہے۔اسے تو برداشت کرنا ہی ہوگا۔اس بچے کے آنے سے ان کا اپنے خاندان پر کنٹرول کھو جائے گا۔میتھیو بھی ان سے دور چلاگیاتھا۔وہ ایک اکھڑ بیل کی طرح رسی تڑواکربھاگ  اٹھا تھا۔اس حالت میں کوئی کیا کرسکتا تھا۔ان کی پختگی کہاں گئی۔اس نے سب کا اعتماد کھو دیاتھا۔

میتھیو ان کے ساتھ ای میل کے ساتھ رابطہ رکھتااورانہیں ملامت کرتا رہتا کہ ان کے ساتھ کیا مسئلہ تھا۔ وہ اپنے باپ کی خوشی نہیں دیکھ سکتے تھے۔وہ حقیقت تسلیم کیوں نہیں کرلیتے۔علیشیا جو  اس کی بیٹیوں سے بھی کم عمر تھی اسے اپنی ماں کیسے تسلیم کرلیتیں۔ اس کا انجام کیا ہوگا سوچ سوچ کر پریشان تھیں۔یہاں ان کی والدہ کو سیروں کی پڑی ہوئی تھی۔اس پر اس سانحے کا کوئی اثر نہیں تھا۔وہ مطمئن نظر آتی تھی۔یہ صورت حال عارضی نہیں تھی۔باقی ماندہ زندگی کیسے گزرے گی۔اس نے اپنے بچوں کو کچھ نہیں سمجھا۔اس کے بچے اب عمر بھر خوفزدہ ہی رہیں گے۔ بیٹیوں کی آنکھوں میں یہ بات سوچ کر آنسو جاری ہوگئے تھے۔ ان کا اپنے دونوں والدین پر بھروسہ اٹھ گیاتھا۔والدہ بالکل غیرسنجیدہ تھی اور مسئلے کا حل ہی نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ سمجھتی کہ میتھیو ٹھوکریں کھا کر خود ہی لوٹ آئے گا اور باپ پر خرمستیاں سوار تھیں۔

کچھ عرصہ بعد ازابیل نے اپنی اولاد کو الگ الگ ای میل کی ۔ متن توایک تھالیکن ڈئر کے آگے نام لکھا ہوا تھا۔ اس میں اس نے انہیں مطلع کیاتھا کہ وہ میتھیو کے پاس رہنے جارہی تھی۔ وہ اس کے ساتھ اس کے   اپارٹمنٹ میں رہے گی۔اسکے پوتے اور پوتیوں کو اس کے پاس  بھیج دیاجائے۔

علیشیا پارکس کینیڈا   کا مونٹریال شہر پسند آگیا ۔اس نے وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ میتھیو اس نے اس کے ساتھ ای میل اور فون کے ذریعے رابطے میں رہا۔ وہ اس دوران زیادہ مقبول ہوتی گئی ۔وہ میتھیو کو اپنی کامیابیوں کےقصے بتاتی رہتی اس سے بے خبر کہ اس کی یہ کامیابیوں کی خبریں اسے اچھی لگ رہی تھیں یانہیں۔وہ اس کے بغیر تنہائی محسوس کررہاتھا اور علیشیا پارکس کہہ رہی تھی کہ ان دوریوں کو برداشت کرنا ہوگا۔ان کی ملن کی آس روز بروز دم توڑ رہی تھی ۔میتھیو کا زیادہ تر ک کاروبار جنوبی افریقہ میں تھا اور وہ اسے ختم نہیں کرسکتاتھااور علیشیا کا افریقہ میں کوئی چانس نہیں تھا۔ میتھیو نے ایک بار فون کیاتو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اب کسی اور کےساتھ رہ رہی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا ذاتی فون کسی اور مرد نے اٹھایا تھا۔انکوائری پر علیشیا نے بتایا کہ وہ اب نئے آدمی کے ساتھ رہ رہی تھی۔

علیشیاپارکس نے ایک بات چھپا دی تھی کہ اس نے آرکسٹرا چھوڑ دیاتھا۔اب وہ مونٹریال چیمبر  کی پیشکش پر وہاں کام کررہی تھی جس  کے آرکسٹرامیں اس کو پہلی وائلن بجانے والی سازندے کے طور پر رکھ لیاگیاتھاجو اس کی دیرینہ خواہش تھی۔کینیڈا میں مزید ترقی کے مواقع تھے اور افریقہ میں ترقی کے مواقع ناپید تھے۔

میتھیو سے طویل گفتگو  جو رات میں کئی گھنٹے جاری رہی  میں اس نے بتایا کہ جس شخص کے ساتھ وہ اب رہ رہی تھی اس کا کوئی بچہ نہ تھا۔یہ بات ان کی بیٹیوں تک پہنچی تو جینی نے میتھیو سے پوچھا کہ کیا وہ اب بھی اسے اپنے پاس بلالے گا اور شادی برقراررکھے گا تو میتھیو نے جواب دیا کہ جب اس ملک میں اس کو ترقی کے مواقع ملیں گے تو وہ آجائے گی۔ اس نے موسیقی میں اپنا نام پیداکرلیاتھا۔

تو اب میتھیو اس بات کاانتظار کر رہاتھاکہ علیشیا کبھی نہ کبھی اس کے پاس آجائے گی۔ کتنا معصوم تھا بیچارہ!میتھیو اپنی اس ذلالت کو قبول کیوں نہیں کر لیتا؟ استرداد کے جذبات میں تھا۔بہر حال اسے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ وہ دونوں اب الگ ہوچکے تھے۔وہ مانے یا نہ مانے۔علیشیا ایک سراب تھی۔

تو میتھیو!تم اب بھی اس کا انتظار کر رہے ہو۔اسے بھول جاؤ۔تمہاری چڑیا ُپھر سے اڑ گئی۔ اب ایک بوڑھے باپ کی حیثیت سے اپنی اولاد اور اپنے حقیقی خاندان میں واپس آجاؤورنہ ذلت کی موت مروگے۔واپس آنے سے مزید خفت سے بچ جاؤ گے۔ہنس کی چال چل کراپنی چال بھی بھول گئے۔ہو سکتاہے کہ تم اس صدمے کوبرداشت کر بھی لولیکن تمہیں سکون نہیں مل پائے گا۔تم واپس آجاؤ ۔ہمارا پکا ارادہ ہے کہ تم واپس آجاؤ۔ ہم تمہیں واپس لاکر ہی رہیں گی اس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔اولاد نے فیصلہ کیا۔

میتھیو واپس آگیا لیکن علیشیا پارکس کے ساتھ بیتےلمحات وہ بھول نہ پایا۔اس کو وہ یخ گالیں مرغوب تھیں جووہ صبح تالہ کھولنے کے بعد اس کی گالوں سے چپک جاتی تھیں۔اس کا متبادل کیا ہوسکتاتھا۔وہ محبت کرنے کے بعد وہ دونوں اکٹھے نہانے غسل خانے جاتے۔وہ نہانے کے بعد وہ اپنا جسم خشک تولئے سے صاف کرتی تھی۔اپنی پھیلی ہوئی ٹانگوں میں تولیہ ڈال کر خشک کرتی تھی اور پھر وہ اپنی گردن کے پیچھے وہ ایسے خوبصورت انداز میں جھکتی جیسے کہ اس کے ماتھے پر بھاپ پڑرہی ہوتی تھی۔وہ اپنے بال جب ڈرائر سے قد آدم آئینے کے سامنےسکھاتی  تو میتھیو اسے پیاربھری نظروں سے نہارتا رہتاتھا۔

موت ایک خالی آئینہ کی طرح ہے۔اس کا تمام خالی پن دیکھا اوردکھایا جاسکتا ہے۔ موت انتظار کررہی تھی  اور قضیہ سلجھ گیا  تو خبر آگئی تو اولاد نے کیپ ٹاؤن  کا جہاز پکڑ لیا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

.

 

 

Popular posts from this blog