Ibn Sina Episode 2 ( Metaphysics) ما بعد ا ز طبیعیا ت


 

دوسری قسط(          ما  بعد از طبیعیات            )

  

 ابن سینا (بو علی سینا)

(Avicenna)

1037-980

 

ما بعد از طبیعیات

Metaphysics

 

تحقیق                                    :                                               غلام  محی       الدین

 

آدم تجسس کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ اس کے ذہن میں پیدائشی طور پر کھوج کی جستجو رہی ہے۔    وہ ظاہر ا ور ان دیکھے مظاہرات کو سمجھنے کی کوشش کرتا              رہا ہے،                                          کر     رہا ہے                اور           کرتا  رہے گا۔ زمین  اور کائنات کیسے تخلیق ہوئی۔ کیا اس کا کوئی خالق ہے یا موسموں کے تغیر و تبدل سے معرض وجود میں آئی۔                                مادی اشیا                           کے       جائزے     کے ساتھ رفتہ رفتہ اسے علم ہوا کہ ارد گرد ایسی اشیا بھی ہیں جو نظر نہیں آتیں مگر موجود ہوتی ہیں  جیسے وہ نیند کی حالت میں ایسے واقعات و حالات سے گزرتا ہے جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن میں یکدم کوئی سوچ آتی ہے جو سچ ثابت ہوتی ہے۔ ایسی اشیاء موجود تو ہیں لیکن نظروں سے اوجھل ہیں۔ ایسی اشیا جو ظاہری حالت میں دیکھی نہیں جا سکتیں لیکن موجود ہیں، انہیں ماورائی کہا جاتا ہے۔ ایسے مظاہر ما بعد از نفسیات کے مطالعے کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس کے ذرائع  میں آگاہی انسان اپنی فطری صلاحیتوں، چھٹی حس،  خوابوں، علم، عقل، تجربے اور ذاتی بصیرت سے لگا سکتاہے۔صوفی، اولیا، نبیوں اور رسولوں میں یہ وصف عام لوگوں سے بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان پر تجلی، وحی اور کشف سے  عالم ارواح تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔  اس  جستجو میں ابن سینا                     دوسرے          علما  کے ساتھ   یہ کھوج لگانے میں کامیاب ہو گئے کہ کائنات تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب سال سے موجود ہے۔ اس کی وسعت تیرہ اعشاریہ چار سال سے اس وقت ہونا شروع ہوئی جب سوئی کے ہزارویں حصے         میں موجود ہائیڈروجن گیس گرم ہو کر زبردست  دھماکے ( بگ بینگ    ) کے ساتھ پھٹی اور پھیل گئی۔ اس کے بعد سیارے، ستارے ، چاند سورج   وغیرہ پیدا ہوئے جو روشنی کی رفتار سے زمین پر دس کھرب                نوری سالوں   کی مسافت پر ہیں۔

 ابن سینا  دیگر         علوم میں دلچپی کے باوجود غیر مادی  اور سما وی  اشیاء  یعنی  ما بعد از طبیعیات  ( میٹا فزکس )  کے مطالعے  کی اہمیت    بھی سمجھتے  تھے۔   ان  کے نزدیک منطق اور علم و دانش سے کائنات میں وجود (کاسمالوجی)اور انسان کی باطنی دنیا کے بارے میں معتبر اور صحیح معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔  یہ موضوعات مابعد از طبیعیات کے دائرے میں آتے ہیں۔  اسکے  تحت منطق کے ذریعے منظم طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے                   کہ وجودکس اصول کے تحت تشکیل پایا ،  وہ کون سی چیز ہے جو وجود میں زندگی بھرتی ہے۔زندگی اور موت کے پیچھے کون سے عوامل شامل ہیں۔ وجود اور عدم وجود  لازمی طور پر  کسی اصول     کے تحت واقع ہوتے ہیں   جسے انہوں نے  اہم ترین  اور بنیادی  اصول یعنی    ُ   اول اصول   ُ               کا نام  دیا۔  اس اصول کو استعمال کر کے مظاہر کے  ہونے یا                نہ ہونے  کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ما بعد از طبیعیات موضوعات  کے بارے میں  مختلف  ذرا ئع سے  معلوم کر سکتا ہے کہ وجود کیا ہے، کیسے بناور اس سے متعلقہ امور کون کون سےہیں۔ اس سے آگے بڑھ کریہ  بھی معلوم کیا جا  سکتا ہے کہ فلسفہ کیا ہے،  فلسفے کا کیا کردار ہے اور مذہب اس کی تشریح کس طرح کرتا ہے۔ طبعی اور روحانیت کیا حلیف ہیں یا حریف،  جنت، د وزخ، سزا جزا، فرشتوں (اینجیالوجی)   اور دیگر ماورائی خلقت،  پیش بینی (پروفیسی)، خوابوں کی تشریح، موت اور حیات بعد از موت ( ایس چیٹالو جی) اور الٰہیات ( تھیالوجی) ،  روح  النفس اور تجلی کے مظاہر (ایمینیشن) وغیرہ کا کیا کوئی کردار ہے۔ ان ذرائع سے مواد اکٹھا کر کے حاضر و  غائب،  موجود  و  عدم  کامعروضی اور موضوعی علوم          کا مطالعہ  ما بعد از طبیعیات سے کیا جا سکتا ہے۔                یہ            اصول اول          کے تحت  ان میں اسباب و علل (علت  و معلول یا سبب و  وجہ یا مسبب اور ا  ثر)  میں تعلق معلوم کرتی ہے۔ ان وصائف  کی بنا پر ما بعد از طبیعیات  کو تمام علوم کا منبع  اور مقدم سمجھا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس علم میں دلچسپی بڑھتی گئی۔ اس کا سلسلہ جاری رہا اور مستقبل میں بھی  اتنے ہی انہماک سے جاری رہے گا  جب تک کہ معروضی حقائق تک رسائی حاصل نہیں ہو جاتی۔     یہ سب موضوعات مابعد اس طبیعیات  کے مطالعے میں شامل ہیں۔اب ہم علم الٰہیات اور علم وجودیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

 

 (2.0علم الٰہیات اور علم وجودیات کے مابین مابعد از طبیعیات

Metaphysics  between Theology  and  Ontology               

 

 ابن سینا نے اپنے فلسفے کی بنیاد ارسطو کے فلسفہ ما بعد از طبیعیات (میٹا فزکس) سے لی ۔ ان میں ایک فلسفہ تو ارسطو سے براہ راست بھی لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ الفارابی، الکندی، یحییٰ بن عدل اور دیگر یورپی  فیلسوف ( الگزینڈر آف ایفرو  ڈی عس ،  تھا مس ٹی عس،  ہر نیز کا  امونی عس اور نو افلاطونی) عظیم ترین فیلسوف  اہم نام)      ہیں جن کے مطالعات سے وہ فیض یاب ہوئے ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے نظریات میں بہتری کی گنجائش تھی۔ان میں ترمیم و اضافہ کیا جا سکتا تھا  ۔

 انہوں  نے  ما بعد از  طبییعات  پر  اپنا نظریہ پیش کیا۔ ان کے فلسفے میں علم الٰہیات اور علم موجودات مقبول موضوعات تھے۔ انہوں نے اپنے فلسفے میں خدا کی ذات، اس کی آفاقی حیثیت،  خدا اور دنیا کے تعلقات، نیکی بدی کے مسائل کے مطالعات کا تاریخ میں پہلی بار مادی اور غیر مادی علوم  کے تحت کیا۔

ابن سینا نے اس میں سب سے پہلے جو موضوع چنا وہ علم الٰہیات ( تھیالوجی) بمقابلہ علم   وجودیات  یا   موجوداات (اونٹالوجی) تھا۔ 

  (2.1 علم الٰہیات  اور  علم موجودات

Theology and Ontology              

ابن سینا نے مابعد از طبیعیات کی بنیاد الفارابی کے فلسفہ ما بعد از طبیعیات  پر رکھی۔   اس کی رو سے  جب بھی کسی موضوع پر بحث کرنی ہو تو لازم ہے کہ اس موضوع  سے متعلق  موزوں مواد وافر مقدار میں  پہلے سے مو جود ہونا چاہئیے تاکہ اسکو بنیادبنا کر گفتگو کا آغاز کیا جا سکے۔ چونکہ اس وقت   علم الٰہیا  ت  اور علم وجودیات  پر طبعی علوم اور فلسفے نے  اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا  ہوا تھا اس لئے ان  کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر تبصرہ کیا جا سکتا تھا۔ 

ابن سینا نے کہا کہ مابعد از طبیعیات  کا تعلق وجود  (بی اینگ)  کے ساتھ ہے جس کا مطالعہ علم موجودات  (اونٹالوجی) کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک وجود کا قیام جس اصول کے تحت ہوتا ہے اسے  ُ  اصول  اول ُ                                              (    فرسٹ پرنسپل)کہتے ہیں۔  الٰہیات (تھیاالوجی)   کی تفہیم  اس اصول کے تحت کی جاتی ہے۔ انہوں نے علم بحث کا آغاز وجود کے تصور سے کیا۔ اس نکتے کو بنیاد بنا کر ابن سینا نے اپنی رائے قائم کی۔ ابن سینا نے کہا کہ ما بعد از طبیعیات میں وجود کی تعریف دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ اسے انہوں نے  ُ  دوہری  تعریف'                                 کہا جو ذیل میں بیان کی گئی ہے۔ 

(2.2 دوہری تعریف کا مفہوم

The  Meaning of Double Definition    

 اس سے مراد ہے کہ کسی بھی صورت حال یا  مظہر کو دو          ذرائع   سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ایک ذریعہ تو علم الٰہیات (تھیالوجی) اور دوسرا ذریعہ علم وجودیات ( اونٹالوجی) ہے۔ یعنی  ایک شئے  کو دوپہلوؤں سے واضح کیا جا سکتا ہے۔                           ان دونوں             پہلوؤں   کا الگ الگ دائرہ کار ہو  نا چاہئیے۔ اگر واقعے  کی روحانی طور پر   اور طبعی علوم کے تحت بھی تعریف کی جائے  تو   مختلف تناظر سامنے آئیں گے۔ مذہبی پہلو اپنے انداز میں اور طبعی علوم اپنے حساب سے وضاحت کرے گا۔  ان پر بحث و مباحثے کے بعد  درمیانی  راستے پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ ان میں مکمل  یا کسی حد تک ربط قائم ہو  سکے گا۔ ان کے مابین خلیج پاٹی جا سکے گی۔ دوسرے معنوں میں دونوں علوم ایک دوسرے کو راستہ دیں  گے اور اختلافات کم سے کم ہو سکتے ہیں۔ ان تعریفوں سے مذہب اور فلسفے میں تفاوت کم سے کم  کی جا سکتی ہے۔  

دوہری تعریف                   یعنی            دو پہلوؤں  اور الگ الگ نقطہ نظر کا طریقہ اس لئے              بھی معقول ہے کہ یہ معروضی بھی ہے اور موضوعی بھی۔  اگر خدا کے وجود  کی ما بعد از طبیعیات                 کے  تعقل کی دوہری تعریف   کی جائے تو  مطالعے کی غرض سے                         الٰہیات(         تھیالوجی)   کے ذریعے   وجود                  کی تعریف کی وضاحت  کرتے وقت  اسے کسی بھی شرط سے مبرا کر دیا جاتا ہے اور وہ ذات مطلق ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے اسے کسی اور چیز سے  نہ تو منسلک کیا جا سکتا ہے اور نہ     ہی دوسرے  علم کی تعریف کے لئے لازم قرار دیا جا سکتا ہے۔  جبکہ علم وجودیات ( اونٹولوجی ) کے تحت تعریف کرتے وقت ہمیں خدا کے وجود کی شناخت کرنا پڑے گی اس کے لئے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس کے وجود کو ثابت کرنا پڑے گا۔ 

خدا کے وجود (ایگزسٹینس آف گاڈ)کو وجودی علم  ( اونٹالوجی ) کے ذریعے پرکھنے کے لئے فلسفی سب سے پہلے ان مشاہدات کو سامنے رکھتا ہے جو میسر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ تحقیق سے مزید ایسے حقائق اکٹھے کرتا ہے جو موضوع سے متعلق ہوتے ہیں پھر اپنے علم،  عقل ،  ذاتی تجربے  اور اپنی بصیرت سے حقائق کو سامنے رکھ کر  اس مظہر کی وضاحت کرتا ہے جو ماسوائے تجزیے کے اور کچھ نہیں ہو تا۔  شئے موجود تو ہوتی ہے لیکن براہ راست نظر نہیں آتی بلواسطہ اور بلاواسطہ طریقوں سے اس کا علم ہوتا ہے۔ ہوا،  باطنی خیالات ،  خواب ،  وقوف، خواہشات ، طلب،  تاثرات  وغیرہ ظاہری طور پر نظر نہیں آتے لیکن حقیقت میں موجود ہیں۔  علم وجودیات کی  منطق سے خدا کے وجود کا  مطالعہ کیا جاتا ہے۔  

خدا کی ہستی ثابت کرنے کے لئے دنیاوی مشاہدات اور دیگر مواد کے بعدایسے دلائل دئیے جاتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ خدا موجود ہے لیکن یہ تجزیہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایسا نتیجہ مؤخر حالت ( پوسٹی ریئؤ ری) کی بنا پر نکالا جاتا ہے۔ کائنات، چرند پرند اور اشرف المخلوقات کی تخلیق کس نے کی  ہے ؟   نظام ہستی کون چلا رہا ہے؟  سے اخذکیا جاتا ہے کہ کوئی مطلق ہستی موجود ہے اور وہ وجود خدا کا ہے۔ 

 کینٹ بری کے فلسفی  ُ اینیسلم  ُ کے نزدیک خدا کے وجود کا مطالعہ کرتے وقت یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا کوئی ایسی شئے ہے جس کی عظمت کا زیادہ سے زیادہ تصور کیا جا  سکے اور وہ سب سے بڑی  شئے ہو۔ اس  کے وجود سے بڑھ کر کوئی اور ہستی نہیں کا تصور ذہن میں لایا جائے۔   اس  بلند و بالا ہستی  کو وہ خدا  کہتا ہے  جومطلق ہے۔ 

 مذہب اور طبعی علوم میں مطلق کامل وجود کی تعریفوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں  انتہائی کامل وجود میں بھی کسی نہ کسی جگہ عدم موجودگی پائی جاتی ہے۔ وہاں بھی تکونی زاویے کا  زیادہ سے زیادہ اس بات کا تصور پایا جاتا ہے کہ جس  کے اندرونی زاویے  180 درجے کے نہیں ہوتے۔ ڈیکارٹ یہ کہتا ہے کہ چونکہ ہما رے ذہن میں کامل اور اعلیٰ شئے کا تصور پایا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عظیم کامل ہستی کا وجود ہے۔ 

اٹھارویں صدی میں لیبزگ نے خدا کے وجود (ایگزسٹنس آف گاڈُ) میں ڈیکارٹ میں کمی کو دور کرنے کے لئے کہا کہ جب تک اس بات کو ثابت نہ کیا جائے کہ عظیم کامل وجود اس سے مربوط ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ وہاں ہونے کے لئے کہ ایک  بر تر کامل ہستی موجود ہے۔ لیبنز نے کہا چونکہ کاملیت ایک غیر تجزیاتی عمل ہے اس لئے مکمل پن کے اظہار اور تضادات دور کرنے کے لئے الٰہیاتی ( تھیالوجی ) اور وجود ی علوم ( اونٹالوجی )کو ملا کر مطالعہ کیا جائے  تو وہ واحد یت پیدا کر دے گی۔ لیبزگ نے اینسیلم  اور ڈیکارٹ کی خدائی وجود کے نظریے میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے کہا کہ علم وجودکے دلائل معقو ل نہیں َان کی مخفی                     اورمضمر ات کے فرضیوں پر جو وہ خدائی ہستی کے بیان میں استعمال کرتے ہیں ، وہ صحیح نہیں  اور ٹھیکطرح پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تا ہم مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کے مطابق یہ بات آسان ہے کہ اگر اس بات کا پتہ چل جائے کہ وجودی دلائل درست نہیں اور اس کے مکمل طور پر صحیح ہونے کا بھی علم نہیں  تو فلسفی اس موضوع پر زور شور سے  مزید ایسی معلامات حاصل کرنے لگتا ہے جو اس موضوع سے متعلق ہوں۔ اس کے لئے مزید مطالعات کرنا پڑتے ہیں۔  یہ عمل ہمیشہ سے جاری ہے اور پر بحث  آئندہ بھی جاری رہے گی۔ 

ٰ  ابن سینا کے نزدیک  ُ خدا کا  وجود   ُ مابعد از طبیعیات میں علم  الٰہیات (تھیا لوجی) او علم وجودیات  ( اونٹالوجی ) کا  ایک اہم موضوع ہے۔ خدا کا وجود ہونا بذات خود وجود د کا جزو ہے                                :                                      ما بعد از طبیعیات   میں یہ خود  ہی ا پنے آپ میں دوہری تعریف پیش کرتا ہے۔ اس کی  خاصیت کی  دوہری تقسیم کی وضاحت کرتے وقت اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے جس سے وہ کسی بھی شرط سے مبرا ہو جاتا ہے۔ اسی بنا پر اسے مطلق کہا جاتا ہے۔ جب وجود یا ذاتی ہستی ( بی انگ سیلف)  کی دوہری تعریف(دو پہلوؤں           کا تناظر       ) کرکے کسی اور شئے کے ساتھ منسلک  نہ کر کے کیا جائے غیر طبعی مواد موضوع تک بغیر کسی سبب کے وجود تک ہی محدود رکھا جائے تو وہ مطلق ہی رہے گا۔ لیکن اگر اسے مابعد از طبیعیات سے الگ کرکے وجود کی  شناخت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دو حصوں میں بٹ جائے گا۔ اس قت اسے منطق کے دائرے میں لا کر  غالب ( ڈومی نینس) اور اس میں منطقی پیشگوئی عزم  کے تحت امتیاز کیا جائے گا ۔ اس وقت  وجود نہ تو کسی شرط (من  شرط)  کے اصول پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی بلا شرط پر۔ ( من  غیر شرط)  کے جو عام لوگوں کے لئے مشترک وجود کے حصول میں اہم ہیں۔الٰہیات میں عزم کو شرط کے طور پرلیا جاتا ہے۔( لا بی شرط الزیادہ)  اور یہ بغیر کسی شرط کے جس کی پیش گوئی نہ کی جاسکے یا کسی اصول کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو ترتیب موٗخر الذکر میں وجود تشکیل ہو تی ہے۔ اس وقت وہ بغیر کسی پیش گوئی اور شرط کے بغیر وجود کی حیثیت تسلیم کر لے گا۔ اس وقت ایسا محسوس ہو گا کہ جیسے ان میں کبھی تعلق ہی نہ رہا ہو۔ اس سے اس نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ یا تو اس  سے عمومی وجود کی  اہمیت کم ہو جاتی ہے یا  اس سے اس کے عزم میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ کسی ربط، تعلق  اور تشریحات کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس سے عمومی وجود کی حیثیت  اور اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ تکنیکی زبان میں یکساں خاصیت والے جواہر الٰہیات میں بیان کرتے ہیں کہ وجود  یا تو ہے یا  پھر نہیں۔کسی بھی مظہر کی تفہیم میں ابن سینا نے تصور مطلق کے اصول اول کی اہمیت بیان کی جو درج ذیل ہے۔ 

       (2.3   ما  بعدا  ز طبیعیات کی الٰہیات  کا اصول اول  بطور مطلق سبب

Theological Vocation of Metaphysics : The First Principle is Absolute Cause

 ابن سینا  کے نزدیک کسی شئے کے مطالعے  کے لئے کسوٹی بنانا ضروری ہے  اس کے لئے انہوں نے کہا کہ حقیقت تک رسائی کے لئے  کوئی  ایک بنیادی نکتہ ضرور ہونا چاہیئے  جس پر وہ مظہر پورا اترے۔                                        خدا  کا وجود، کائنات اور مطلق العنائیت مقبول موضوعات تھے جن پر  اہل دانش اپنے اپنے رنگ میں  وضاحت کر رہے تھے۔

 ابن سینا نے  ان علمی تنازعات کا  موازنہ  ارسطو کےُ  تصور وجودیت                     ُ سے کیا۔  اپنے فلسفے  میں کائنات کی تخلیق اور مستقل و جود کا مط لعہ کرتے وقت انہوں نے اس ماد ے کی بات کی جس پر وہ  بنی تھی۔ اس کی صورت و شکل کا جائزہ لیا اورقوت اور اعمال کو اپنے فلسفے میں شامل کیا۔ اس کے استقلال ( مستقل  پن)  اور حرکت کے بارے میں وضاحت کی۔ انہوں نے کہاکہ ان تمام موضوعات کو  مابعد از طبیعیات اور طبعی علوم کے ذ ریعے '                      اصول مطلق ' کے تحت ثابت کرنا چاہئیے۔ فزکس جو کہ اجسام اور ان کی حرکات پر بحث کرتی ہے، اس بات کو معروضی طور پر واضح کرسکتی ہے لیکن اس کی وضاحت صرف اس عنوان کی باریکیوں تک ہی محدود رہتی ہے  اور اس موضوع  سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس سے متعلقہ دیگر موضوعات کو اپنے دائرے میں شامل نہیں کرتی۔ اگر مادہ پر تحقیق ہورہی ہو تو اس کی بناوٹ، اس میں شامل کیمیائی عناصر یا  اگر حرکیات پر مطالعہ ہو رہا ہو تو اس کی مبادیات اور حرکت کی وضاحت  توکر سکتی ہےلیکن بڑے موضوع ُ                       بنیادی وجودیات '                کے سوال  کا جواب دینے میں ناکام رہی ہے کہ دنیا کے وجود کی ابتدا  کیسے ہوئی،   ایسے موضوعات  ما بعد از طبیعیات  اور فلسفے سے ہی سلجھائے جا سکتے ہیں۔  ( الٰہیات  1, 6, 12-14, 17) 

ابن سینا  دنیا کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کے سوال  کے جواب میں               ُ                                   نظریہ مستقل وجود                     '                  کو اپنے فلسفے میں تسلیم کیا جو ارسطو نے اپنے                  '                                          نظریہ حرکت                                      '                  میں بیان کیا تھا۔ مادہ ، صورت ، قوت اور افعال میں ابن سینا یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کی تخلیق مستقل حیثیت میں ہوئی ہے۔ حرکت پائیدار اورمستقل ہے۔ اس موضوع کے پیش نظر ارسطو نے مابعد از طبیعیات میں فزکس کا مضمون شامل کیا  تھا۔  اس لئے وہ اس بات کو  فرض کرتے ہیں کہ دنیا کی وجودیت (موجود) میں بغیر حرکت والی شئے کی بجائے متحرک شئے ہی وجود بنانے کی  اصلی  وجہ ہے ۔ ( الٰہیات    VI  1, 13-16, 257) اس طرح سے وہ ما بعد از طبیعیات اصول کو  ایک نما ئندہ طور پر لیتے ہیں۔ ( اعتقاد   14-19, 62)۔یہ اول اور کامل اصول  وجود کی تشکیل کی بدولت ہے اس لئے اس بنا پر وہ اور ان کے مقلد اس اصول کو اس کے نمائندہ کے طور پر لیتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کئی پہلوؤں سے دیکھا جائے تو وجود کی حیثیت کامل  لگتی ہے۔ اصول اول ہمیشہ وجود کے تعین میں حتمی سبب ہونا چاہئیے۔ چونکہ خالق کے تصور سے ہی وجود جنم لیتاہے اور اس نکتے کو کہ حرکات سے وجودیت کو حتمی شکل دینی چاہیئے موزوں لگتی ہے۔اصول اول ہر پہلوسے بنیادی بغیر حرکت کرنے والے حرکات کا جواز نہیں بنتا بلکہ وجہ بن جاتا ہے۔ اس لئے  اپنی باری پر   لازماً بنیا دی اصول اپنایا جانا چاہئیے  تاکہ معتبر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔   ابن سینا نے اس کے بعد دوہری تعریف میں وجود میں آہنگی اور امتیاز پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ 

  4. 2                                               دوہری تعریف میں وجود  میں ہم آہنگی اور امتیاز   

Univocacy of Being and Ontological Distinction 

الگ الگ  مضامین اور پہلوؤں سے کسی شئے کا جائزہ  لینے سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون سی خصوصیات یکساں ہیں اور کہاں فرق پیا جاتا ہے۔  اختلاف  دور کرنے کے لئے ان خیالات کے علاوہ جہاں اعتقادات کا ٹکراؤ ہو  افہام و تفہیم  کرنا پڑتی ہے۔ مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کے مطابق یہ بات آسان ہے کہ اگر اس بات کا پتہ چل جائے کہ وجودی دلائل درست نہیں اور اس کے مکمل طور پر صحیح ہونے کا بھی علم نہ ہو تو فلسفی اس موضوع پر زور شور سے مطالعات کرنے لگتا ہے۔ تضادات کو سلجھانے کا  یہ سلسہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔  

وجود کی علم الٰہیا ت  اور علم وجودیات میں تفریق کرتے وقت معلوم ہوا کہ ان کے معانی میں معمولی فرق ہے۔ الٰہیات میں وجود کی تخلیق بلا سبب ہے۔ اصول بذات خود وجود کا حصہ ہوتا ہے۔ جو وجود کے قائم ہونے تک رہتا ہے۔ وجود ختم ہونے کے بعد وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔ جبکہ علم وجودیات میں پہلے  اصول کا اطلاق لازماً کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو پیش کرنے کے بعد انہوں نے روح اور وجود کا فلسفہ پیش کیا۔جسے آگے پیش کیا جائے گا۔

 

Popular posts from this blog