جنوبی افریقہ کے سیا ہ فام شوقیہ فنکار The Amateur By Nadine Gordimer (Nobel Laureate Eng Lit 1991) South Africa

 




جنوبی افریقہ کے سیا ہ فام شوقیہ  فنکار

The Amateur

By


                                           Nadine Gordimer (Nobel Laureate Eng Lit 1991)

South Africa

پیشکار: غلام محی الدین

وہ پولی کلینک میں اپنے کردار کے حساب سے ملبوس بیٹھے تھے۔ ویگن میں بیٹھے ایک اداکا ر نے کہاا'اخراج' ۔دیکھو سامنے پانی کا     نکاس ہے۔یہ  ہماری منزل سے پہلے کی نشانی ہے۔ہم اس جگہ کے قریب ہیں        جہاں ہم نے  ڈرامہ پیش کرنا ہے۔یہ سن کر سب اداکار بیک وقت بولنے لگے۔ڈرائیورکھڑکی پر جھکااورپوچھاکیاسب ٹھیک تو ہے؟ان سب نے اشاروں میں کہا کہ اسکی آواز سنائی نہیں دے رہی۔اس پر ڈرائیورزور سے چلایا'ٹھیک تو ہے۔ اس وقت تمام ہمجولیوں کی ٹھوڈیاں ویگن میں گٹھڑیوں کے اوپر تھیں جس میں وہ سامان تھا جو انہوں  نے ڈرامے میں استعمال کرناتھا۔ وہ  اس کے بعد پولی کلینک آئے جہاں انہیں ڈرامہ ادا کرنے کو کہاگیا تھا۔انہوں نے دیکھاکہ وہاں توکوئی بھی نہیں تھااور کلینک کو تالہ لگاہواتھا۔یہ ایتھل ول کمیونٹی کے ایک رفاحی ادارے کے رکن تھےجو جنوبی  افریقہ کی نسل پرست حکومت جس میں سفید فام اقلیت  باقی تمام اقوام کاعموماًاور سیاہ فام اقلیت کاخصوصی استحصال کررہی تھی کےاحساس محرومی کو کم کرنے کے لئےایسے تفریحی پروگرام پیش کیا                                                     کرتےتھے جس میں اصلاح  اور ان میں تحریک بھی پیش کی جاتی تھی۔اس ادارے کے پاس وسائل کی کمی کے باعث ڈرامے کے لوازمات تو نہیں تھے لیکن  سستی اشیاسے گزارہ کرلیاکرتے تھے۔اس ڈرامے کا اہتمام ایتھل ول کمیونٹی کےایک سکول نے کیا تھا۔ اداکار اتر کر ویگن کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔

کیاتمہیں یقین ہے کہ انہوں نے ناٹک کرنے کے لئے پولی کلینک  مقام ہی بتایاتھا؟                                                           

ہاں۔ بالکل انہوں نے یہی  جگہ بتائی تھی۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ ایک شخص بولا۔ فنکار ویگن کے آس پاس ہی کھڑے رہے۔ پریشان بھی تھے کہ کہیں ان کے ساتھ کسی نے مذاق تونہیں کیالیکن وہ اس صورت حال سے لطف اندوز بھی ہورہے تھے ۔ انہیں  یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں وہ  راستہ  نہ بھول گئے  ہوں۔اتنے میں سامنے سےآتاہواایک منحنی شخص نظر آیااورانہیں تجسس بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔اس نے سرخ رنگ کی مٹی سے اٹی ہوئی واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔وہ جھجھکتاہوابڑبڑاتا ہواان کے پاس آیااورپوچھاکہ کیاتم اندر جاناچاہتے ہو؟ اگر ایساہے تو میں تمہیں ادھر لے جاتاہوں۔ اس نے پولی کلینک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

ایک فنکارہ نے اپنے ایک ساتھی کو کہنی ماری اور کہاکہ چلو اس کے پیچھے چلتے ہیں ۔وہ سب  ویگن میں بیٹھ گئے اورڈرائیور  آہستہ آہستہ  ویگن اس کے پیچھے چلانے لگا۔ گائیڈ نے اپنے ہاتھ جیبوں میں ٹھونسے ہوئے تھے۔اسی لمحے  پولی کلینک کا دروازہ کھلا اوراس میں سے ایک منچلا بائیسکل سوار   آڑے ٹیڑھے انداز  میں چلاتا ہوا باہر نکلا۔ایک پولیس والا جو ڈیوٹی پرتھا نے ٹارچ جلائی اور پوچھاکہ کیا  مدددرکار ہے؟

لگتاہے کہ ہم غلط جگہ آگئے ہیں۔ ہم شوقیہ فنکارہیں اور ہم نے مقامی آبادی کے لئے ڈرامہ کرناتھا جس کاپتہ انتظامیہ نے پولی کلینک کادیاتھا۔یہاں تک تو دور                     دور تک کسی پروگرام کانام و نشان نہیں ۔پچھلی سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے کہا۔

ڈرامہ؟  ہاں۔اس کا پروگرام تو ہے لیکن وہ  پولی کلینک میں نہیں بلکہ ہال میں ہے۔میرے پیچھے آؤ۔پولیس مین نے کہا۔

پولیس مین کی سرکاری حیثیت دیکھتے ہوئے وہ اس کے پیچھے پیچھے   چل دیے۔وہ انہیں ایک تنگ سی        لمبی گلی میں لے گیا جس کانام رٹڈسٹریٹ تھا۔انہوں نے   کئی گلیاں پارکیں  ۔ایک جگہ ایک بیئر میں ڈوباہواشخص  انہیں  ویگن  کے شیشوں کے اندر دیکھنے لگا۔انہیں دیکھ کر قہقہہ لگایااور کچھ بڑبڑایا۔بہت دور سے انہیں ایک سٹیج جس کا رنگ سفید تھا نظر آیا۔فنکار گاڑی سے جھانک جھانک کر دیکھ رہے تھے کہ سٹیج کس طرح کالگایاگیاتھا ۔ لٹکی ہوئی بجلی کی تاروں، دیواروں ،ارد گرد کے مکانوںاور دروازوں پر رنگ برنگے قمقمے چمک رہے تھے۔ساتھ والی گلی میں بہت شور تھااور لوگ جوش میں گانے گارہے تھے۔بائیسکل والا لڑکا اپنے کرتب دکھاتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ آرہاتھا۔یہی وہ جگہ تھی   جہاں ان شوقیہ فنکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھانے تھے ۔ ہال میں کرسیاں قطار اندر قطار لگائی گئی تھیں۔یہ پروگرام سکول کی انتظامیہ نے منعقد کروایا تھا۔اساتذہ ہال میں تماشائیوں کو بٹھانے اور  کنٹرول میں لگے ہوئے تھے۔تماشائی مچلے ہوئے تھے۔فنکار  اس بے ترتیب مجمع کو دیکھ کر  کانپتے ہوئے اترے۔تماشائیوں کے ہلے گلے سے وہ گھبرارہے تھے۔تماشائیوں کے قہقہے  منفردانداز کے تھے۔فنکاروں کی آمد کے اعلان نے ان کے جوش وجذبہ کو  ِجلابخش دی تھی۔ اداکار سٹیج کے پیچھے  بنائے گئےایک کمرے میں میک اپ کرنے چلے گئے۔ ڈرامے کا ڈائریکٹر سٹیج پر چلاگیا۔سٹیج کے تین پردے  تھے وہ ہر ایکٹ کے مطابق سامان لگانے لگے،

 خواتین صاف شفاف  پھولدارکپڑے پہنے  خوشبو لگائے ،  سستا  اور بھونڈا میک اپ کرکے آئی تھیں۔ لڑکے موالیوں کے بہترین لباسوں میں ملبوس ٹائیاں لگائے لڑکیوں کو مرعوب کررہے تھے ۔ان کی جیبوں سے پین اور پنسلوں کے سرے باہر نکلے ہوئے تھے۔ہال کی کرسیوں پر معزز افراد،سماجی کارکن، اساتذہ اور ایک نوجوان چنچل لڑکی جس نے حال ہی میں  میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا کو بھی کرسی پر بٹھایا گیاتھا۔ لوگ بے تابی سے پردہ گرنے  کاانتظارکررہے تھے۔ سٹیج کے پیچھے ایک کمرے میں اداکاراور اداکارائیں  تابانی رنگ، ٹیلکم پاؤڈر سے چہرہ اور بال سفید کرنے میں استعمال  کررہے تھے اور اینٹوں کے ُبورے ،سرخ سیاہی اورکچے رنگ کے مارکروں وغیرہ سے میک اپ کررہے تھے۔یہ کمرہ نیانیاتعمیر کیاگیاتھا جو باورچی خانہ تھا اور عام دنوں میں کھاناپکایا جاتا تھااورمقامی تقریبات میں اسے مقامی ناچ گانے کے طور پر بھی استعمال کیاجاتاتھا۔اس کی سجاوٹ وکٹوریہ دورکی گئی تھی۔اپنے اپنے ہیٹ  کو بالوں والی سوئیوں سے کس دیاگیاتھاجو اس انداز کا لگ رہاتھاکہ       سر پر پروں کا جہاز لگادیاگیاہو۔ایک موٹاشخص ناک میں  ایک نئے گانے کی مشق کررہاتھااورچہرے پرمسکراہٹ لارہاتھا۔پھراس نے کلرکوں والاکوٹ پہن لیا۔ اتنے میں ڈائرکٹر  بھڑوں  رنگ والی دھاری دارہیٹ پہناہوا آیا اور پوچھاکہ تیاری کیسی ہے۔ کیامیک اپ وغیرہ میں دقت تو پیش نہیں آرہی۔ ایک اداکارہ جس کا چہرہ مومی گڑیا جیسا   تھا شیشے کے سامنے بیٹھی تھی کہاکہ اس گھٹیا میک  اپ سے تو ڈرامے کے اصل کردار کی نمائندگی نہیں ہوپائے گی تودائرکٹر نےکہا۔فکرنہ کرواگرتم مہنگا ترین میک اپ بھی کرلوگی تو بھی کوئی تفریق نہیں کرپائے گااور کچھ خامی رہ جائے گی۔ تم کسی اور چیز پر دھیان نہ دواور اپنا کام جاری رکھو۔ ایک اداکار نے گریس اور چربی  چمچ میں چائے ملائی  اسکو  سگریٹ  لائیٹر سے  پگھلاکرنیم کوسا کر کے  اپنے کردار کی مناسبت سے چہرے پر چھینٹے مارے۔

مونچھوں اور دیگر اشیاکے بارے میں کچھ نہ سوچو۔ اس نے اسےہدائت کی۔ فکرنہ کروتماشائی اصل اور نقل ،قیمتی اور سستی شئے میں فرق نہیں کرپائیں گے۔ وہ لڑکی سانس روکے میک اپ کرنے    میں مصروف رہی۔ اور ایک بار پھر بولی کہ کتنی زیادتی ہے کہ فضول اشیاسے میک اپ کروایاجارہاہے۔ ٹھیک ہے۔۔۔ٹھیک ہے۔زیادہ باتیں نہ بناؤ اور بولنا بند کروڈائرکٹر نے اس اداکارہ کے منہ پر تھپڑمارتے ہوئے کہا۔ اگر تمہیں اپنی چھاتی چھوٹے ہونے کاغم ستارہاہے تووہاںمزید  روئی ٹھونس لو۔

خدارا کوئی دروازہ تو کھول دے۔حبس سے دم گھٹاجارہاہے۔ لڑکی نے روہانسی ہوکرکہا۔

وہ دروازہ بجری کے صحن کی طرف کھلتاہے۔اسے کھولاتوباہر کیچڑاور جوہڑتھا۔بوکابھبھکااندر آگیا۔ایک بچی وہاںمردوں کے بیت الخلاکے سامنے کھڑی تھی اور پیشاب اور پاخانے کی بو پھیلی ہوئی تھی۔رات کی تاریک میں نظرتوکچھ نہیں آرہاتھا بس بساند پھیلی ہوئی تھی۔محلے کے لوگ وہاں اسے شاہراہ عام کے طورپراستعمال کررہے تھے۔وہاں ایک شخص  نے ایک سوٹ پہناہواتھا جس میں اس کاکوٹ  اس کی پیٹھ کے بہت نیچے تک جاتاتھا   نظرآیا۔ایسا سوٹ غنڈے پہنتے تھے باہر نظر آیا اور لڑکی کو ہوس بھری نظروں سے دیکھااور جھک کو مسکراتے ہوئے سلام کیا۔ اس پر ایک موٹااداکار طیش میں آیااور کہا کہ دروازے کو بندکردے۔

گھبراؤنہیں۔تمہیں کوئی کھانہیں جائے گا۔لڑکی نے ہاتھ اٹھا کر غصے سے کہا۔اب وہ اس میک اپ والے کمرے سے نکلے اور سیڑھیاں چڑھ کرسٹیج پر پردے کے پیچھے چلے گئے۔تماشائیوں کی آوازیں ان میں ارتعاش پیداکررہی تھیں۔وہ سٹیج پر پڑے سیٹ کاجائزہ لینے لگےاور اسے منظر کے مطابق ترتیب دینے لگے۔

تمہیں وہ کرسی ذراپیچھے کرناپڑے گی۔لڑکی نے ساتھی اداکار سے کہا۔یہ کرسی اتنی تنگ جگہ پرپوری نہیں آسکتی۔

وہ اور زیادہ پیچھے نہیں جاسکتی۔وہ جوان اداکار جس کے چہرے پر پاؤڈر اور سرخ سیاہی کا رنگ چڑھاہواتھا نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر تم نے اچھی اداکاری کی تو ناظرین تمہارے میک اپ پر دھیان نہیں دیں گے۔علاوہ ازیں زبردست  بلوری روشنی میں میک اپ ایک ہی جیسا چمکتاہے۔

میں جتنی اچھی اداکاری بھی کروں  وہ اسے  نوٹ کر لیں گے۔کیا تم نے فرانسیسی فلموں کے سیٹ نہیں دیکھے؟لڑکی نے کہا۔

یہ اس طرح کاشونہیں ہے۔ہماری اوقات فرانس والی نہیں۔ہم تو بقاکی جنگ لڑرہے ہیں۔ہمارے ڈرامے میں زبان مشکل نہیں اور ہر شخص  کو بات سمجھ آجائے گی اور ہمارا مقصد پورا ہو جائے گا۔ ایک تو ان  غریب و نادار لوگوں کی تفریح ہوجائے گی اور دوسرا ہمارا پیغام ان تک پہنچ جائے گا۔یہاں وکٹورین آداب، سماجی طور طریقے تہذیب و تمدن  کی نہ تو ضرورت ہے ، نہ توقع ،نہ ہی کسی کوسمجھ آئے گی اور نہ ہی ہمارے پاس وسائل ہیں۔ڈئرکٹر نے کہا۔

اداکار ایک دوسرے کو سابقہ ڈراموں کے قصے سنانے لگے اور اس میں ہونے والے  دلچسپ واقعات بیان کرنے لگے۔ایک دوسرے سےہنسی مذاق کرنے لگے۔شو شروع ہونے کے قریب ہواتو وہ سب اپناگلاصاف کرنے لگے تاکہ وہ اپنی بہترین کارکردگی پیش کرسکیں۔وہ پردہ گرنے کاانتظار کرنے لگے۔سٹییج پر تینوں پردوں کے پیچھے سیٹ مکمل ہوچکے تھے اور تماشائی بھی مضطرب ہو گئے تھے۔

پردہ اٹھا۔پہلے منظر میں کوئی اہم بات نہیں تھی ماسوائے میک اپ زدہ اداکاروں کے جو سٹیج کی بہت زیادہ تابانی میں  ڈرامے کے کرداروں  کی نوعیت  پر مبنی تھا۔ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ غریب تو تھے لیکن مقامی سیاہ فاموں سے مالی لحاظ سے کچھ بہتر تھے۔ خواتین اپنی استطاعت کے مطابق  سج دھج کرآئی تھیں۔ تھیں اور مردوں کے کاسٹیوم دکھ کر تماشائی ہنس رہے تھےلیکن کچھ دیربعد خاموشی چھاگئی اور ان کی توجہ اداکاروں کے مکالموں پرچلی گئی۔ان   کی نگاہیں   سٹیج  پرتھیں۔وہ اتنی مستی سے ڈرامہ دیکھ رہے تھے جیسے کہ  کوئی بچہ کسی دھت شرابی کو دیکھتا ہے۔

جب اداکاروں نے ناظرین کی بھرپور توجہ اپنی طرف پائی  تو اپنے اپنے کرداروں کو ہسٹریائی طور پر اداکرنے لگے۔ان کے تاثرات گہرے ہوتے چلے گئے۔خواتین اداکاراؤں کی مسکراہٹیں ہال کی نیم تاریکی میں جلتی ہوئی مشعلوں کاکام کیا۔حضرات  کے مکالمے تھتھلانے والے تھےجووہ خوبصورت اداکررہے تھے۔ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ہر ایک نے بھنبھناتی آواز میں خوف والی  آوازیں نکالیں اور تماشائیوں نے انہیں محسوس کیاکہ عجیب و غریب پریشانی کا یہ بلبلہ، جوشیلی شیطانیت جوکہ ان کے اندر پھٹ رہاتھا۔انوکھے انداز میں وہ کردار کی صحیح عکاسی کررہے تھے۔ انہوں  نے اوسکر وائلڈ کی اعصابی محبت کے مناظر بڑے جوش خروش سے اداکئے۔موسیقی کی  پیاری دھنوں نے ان محبت بھرے مکالموں  کوچارچاندلگادئیے۔اداکار بڑی شائستگی سے عمدہ لہجے میں مکالمے ادا کررہے تھے۔جادوگرشوقیہ فنکاروں نے  قابل شناخت  صورت حال پیدا کردی تھی۔ شائد وہ تماشائی ہی تھے جنہیں نے یہ معلوم کرلیاتھاجوبہت نزدیکی سے دیکھ رہے تھے، اتنے زیادہ پر عزم تھے۔وہ اپنی نظریں اوپراٹھارہے تھے،ایک ایک لفظ سن رہے تھےاور اپنی ذہانت کے مطابق معانی پہنارہے تھے۔

ڈرامے کی نوعیت ایسی تھی کہ اس میں صورت حال اور مواقع کی منظر کشی زیادہ تھی۔مکالموں کی بجائے صورت حال اہم تھی جن میں وہ کردارپیش کئے جارہے تھے۔یہ کردارروائتی اور ہنسانے والے تھے ۔ ڈرامے میں والدہ والاسخت لب ولہجہ ،شرمیلا عاشق،،رومانی حقارت آمیز جوان لڑکی جب اپنااپناکرداراداکرکے سٹیج کے پیچھے چلی جاتیں توناظرین پنڈال میں اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص  سے ان اداکاروں کے بارے میں تبصرہ ضرور کرتا کہ اس نے کردار کیسے نبھایا اور وہ  پردے کے پیچھے کیاکررہے ہوں گے!اسی طرح کے فقرے کسے جاتے تھے۔بیچارہ آسکر!  ایک لڑکی نے سرگوشی کی کہ اسے معلوم تھاکہ اس کے ساتھ ایساہی ہونے والاتھا۔سٹیج کے نزدیک بیٹھی ایک لڑکی بڑی عمرکےاستاد کو دیکھ رہی تھی جوآدم بیزارمردم بیزار تھا۔اس کا رخ سٹیج کے الٹ تھااور وہ اونگھ رہاتھا۔لڑکی نے اپنی کرسی پرپہلوبدلتی تواسے ناگوار گزرتاکیونکہ جھٹکے کی وجہ سے اس کی آنکھیں کھل جاتیں۔پہلو بدلنے کی وجہ سے جو جھٹکااسے لگتاتھاوہ غیر ارادی ہوتاتھا۔ آنکھیں کھلنے کے بعداس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی تھی۔وہ زبان اپنے ہونٹوں پر پھیرتااورپھر سوجاتا۔

پہلے ایکٹ کے بعد ،وہ لوگ جن کومدعو نہیں کیاگیاتھاہال میں داخل ہونے لگے۔اس ایکٹ میں جو جومکالمے یاصورت حال سٹیج پر پیش کی گئی تھی انہوں نے ہال کے باہر سے ہی سن لی تھی۔اس لئے نئے ایکٹ میں انہیں ڈرامے کوسمجھنے میں دقت پیش نہیں آئی ہوگی۔ان کی دیکھادیکھی اور لوگ بھی  پولیس کو دھکیلتے ہوئے دودوچارچارکی ٹولیوں میں زبردستی گھسنے لگے۔آنے والے تماشائی  ننگے پاؤں تھے۔ان میں سے کئی لوگ تواپنےگودی کے بچے بھی اٹھالائے تھے۔ان کوجہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔کوئی بھی ان کے اس طرح کی ہٹ دھرمی سے ہال میں کیوںزبردستی  داخل ہوئے کی جرات نہ کر سکا  ۔ہال میں کرسیوں پر بیٹھے تماشائیوں نے اس طرح کارویہ اپنایاجیسے انہوں نے انہیں دیکھاہی نہیں لیکن نئے تماشائی ہال میں بلااجازت اوردعوت کے اندرآنے کو اپنا حق سمجھ رہے تھے۔دوسرے ایکٹ کے دوران مکالمےلمبے تھے۔سکول کے اساتذہ نےاپنی نگاہیں سٹیج پر ہی رکھیں۔ہر مکالمے پرتالیاں بجاکر اور قہقہوں سے  حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

ہال میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا۔دوسرے ایکٹ میں ایسا ہواکہ اداکار جب  اپناکردار ادا کررہے ہوتے ۔جس کاسٹیوم یا منظر  یا شکل وصورت پر اعتراض ہوتایا مکالموں کی سمجھ نہ آتی تو  وہ ہوٹنگ کرتے  لیکن فوراً ہی خاموش ہوجاتے۔اگر انہیں کوئی مکالمہ یامنظر اچھالگتاتو وہ قہقہے مارتے اور تالیاں بجاتے اور اسوقت تک بجاتے رہتے جب تک  ان کاجی چاہتا۔دھکے سے آنے والاہجوم بے قاعدہ تھا۔ن ظم ونسق کا خیال تک نہ تھا۔ اداکار ر سٹیج پر اپنا کردار ادا کررہاتھا۔ہال میں نیم تاریکی تھی۔ہال کے ایک طرف  اداکار وں  کی نظر ایک لڑکی کے  ہیٹ  پرپڑی  جوآگے کو جھکی ہوئی تھی  اور مالٹا کھا رہی تھی۔وہ لڑکی کافی موٹی تھی اور اس نےاپناایک ہاتھ ایک لڑکے  کے ہاتھوں میں دیاہواتھااور اس کے کانوں میں قہقہے لگارہی تھی۔اتنے میں کسی دل جلے نے  ایک نوکدار جوتا لہراتے ہوئے اس جوڑے پر پھینکا۔ اس پر اساتذہ کے قہقہے رک گئے۔اس لڑکے کو ہال سے نکال دیاگیا۔

جب آخری ایکٹ ختم ہواتوتمام اراکین سٹیج پر آگئے۔ان کا تعارف کروایاجانے لگا۔پوراہال جوش میں آکرتالیاں بجانے لگااور پھر یہ تالیاں تال کی صورت اختیار کر گئیں۔ایسالگاجیسے کوئی مدھر گیت گایاجارہاہو۔ہرایک کی ہتھیلی میں جوش و ولولہ پایاجاتاتھا۔شوقیہ فنکاروں کے چہروں پر  مسکراہٹیں چھاگئیں۔پوری کاسٹ سر جھکائے کھڑی رہی۔تماشائیوں میں ایک لڑکی  جو سب سے اگلی نشست  پر بیٹھی تھی ،نے مخمل کاسیا ہ سکارف پہناہواتھااٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی سٹیج پر چڑھ گئی ۔وہ  سکول کی ہیڈ مسٹریس تھی۔اداکاروں کودیکھ کر دھیمے انداز میں مسکرانے لگی۔اس نے شاباشی کے انداز میں  ہاتھ لہرایا۔ مائیک ہاتھ میں پکڑااور بلند آواز میں بولنے لگی۔اس کا لہجہ افریقیوں والاتھا۔

مسٹر ماؤنٹ اینڈ کمپنی کی خواتین وحضرات!یہ کہہ کر وہ کاسٹ کی طرف پلٹی اور ناظرین کو ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ڈرامے کے ذریعے اپنی کمیونٹی کو یہ بتانے کی کوشش  کی  کہ   کم وسائل میں بھی عمدہ پروگرام پیش کئے جاسکتے ہیں۔ نئی نئی راہیں ڈھونڈی جاسکتی ہیں۔ بچے بیکار پھرنے اور مجرم بننے کی بجانے تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لےسکتے ہیں۔یہاں پر وہ رکی پھر کہا کہ ایتھل وِلز کمیونٹی  کہ               ہم دل کی گہرائیوں سے اس گروہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ہم ان کے ساتھ آپ لوگوں کابھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے بڑی دلچسپی سے یہ ڈرامہ دیکھا۔ہم کمپنی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پھر پھی یہاں پر پروگرام کریں۔آج کے ڈرامے سے پتہ  چلا کہ آپ  اپنی روزمرہ مصروفیات کے ساتھ کیاکرسکتے ہیں بلکہ اس بات کی بھی رہنمائی کی کہ اگر نیت ہوتودوسرے بھی فاضل اوقات میں   ایسے مشاغل  صرف کرکے دوسروں کوخوشیاں مہیاکرسکتے ہیں۔۔۔وہ شخص جو اس ہال میں اس رات  جس انداز میں بیٹھا ہے۔ان کے سراوربازوباہر پھیلے ہوئے ہیں۔اپنے سر فخریہ انداز میں بلند کئے ہوئے ہیں۔                  یہاں ہر شخص آپ لوگوں کی کاگزاری سے خوش ہے۔اس کی تقریر سے پنڈال سے بھی گرم جوشی دکھائی گئی۔وہ لڑکی تین قدم آگے آئی اور سختی سے   لوگوں  سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اتھیل ِول میں جونوعمر مجرم تیزی سے بڑھ رہےہیں،کاجواب  یہ ڈرامہ ہے جو شوقیہ فنکارو ں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔اگر تمہارے نوعمر بچے اس نےایک ایسےنوعمر کو جس کی مسیں بھیگ رہی تھیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئےجواس کی طرف  بڑے غور سے دیکھ رہاتھا،اگر اس قسم کامشغلہ شام کوکرلیاکریں تو اپنی مجرمانہ صلاحیتوں کو عوام الناس کی فلاح وبہبود میں استعمال کرکے پولیس افسر بھی بن سکتے ہیں۔اگر ایسا ہوجائے توکیاہم گلیوں میں چلتے ہوئے ڈریں گے؟کیاہماری مائیں اپنے بچوں کی بدقسمتی پر رویاکریں گی بلکہ ان کے والدین اپنے ان بچوں پر فخرکیاکریں گے۔کیایہ ایسی  خواہش ہے جسے ہم حاصل نہیں کرسکتے۔

شوقیہ فنکاراپنی تعریفیں سن کر فخر محسوس کررہے تھے۔ بارے میں اور ایک دوسرے کے بارے میں بھول چکے تھے۔کسی نے بھی اس سے نظر نہ ہٹائی اور ان سب کے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی،اس کا ہاتھ ایک تیز زاویے پر تھا۔اس کے نتھنے پھولے ہوئے تھے۔اس کی کالی کالی گالوں پر تیز روشنیاں پڑرہی تھیں ۔اداکاروں نے اپنے حواس بحال  کئے اور آہستہ آہستہ  تمام کاسٹ  وین میں بیٹھ گئی۔ڈائرکٹر نے تبصرہ کیاکہ آج ہم نے اپنے ڈرامے کوصحیح طرح سے پیش نہیں کیا۔لڑکی نے اس کی بات سن کرکہاکہ میں نہیں جانتی کہ میں سٹیج پر کیابول رہی تھی۔میرے ساتھ کیاہورہاتھا۔آج سے پہلے کسی نے بھی ہمیں  عقیدت  اور پیارسے نہیں چوما۔۔۔اور پھراچانک ایک دم ۔۔۔وہ اپنے ساتھی اداکاروں کی طرف مڑی۔وہ مجھے تھام لیتاہےاور مجھے چومتاہے۔میں نہیں جانتی میرے ساتھ کیاہورہاتھا!

انہوں نے اسے پسند کیااس نوجوان شخص نے نتھنے پھلائے۔وہ بہرحال کم از کم ایک بات تو سمجھ گئے۔!

اوہ!میں نہیں جانتا،کسی نے کہااورایسا لگاکہ وہ اس بات کوآگے بڑھانے لگاتھالیکن اس نے بات نہ کی اور ایسا لگا کہ وہ اس بات کوآگے بڑھانے لگاتھالیکن اس نے بات نہ کی اور مکمل خاموشی چھاگئی۔

ہم نہیں جانتے کہ کیاکرناچاہیئے۔ڈائرکٹر نے بے یقینی لیکن سنجیدگی سےکہا،کہ جس طرح وہ اپنے آپ  میں گم تھا تووہ اداکاری کرتے وقت اپنے مکالمے بھول گیاتھا۔

ہم جنوبی افریقہ کے نسلی امتیاز کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ ہم پر زندگی کی ہر نعمت حرام کردی ہوئی ہے،سیاہ فام  غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ہمارے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ہم اگر اپنے لوگوں کوذراسابھی راحت سے سکیں تو یہ ان لوگوں کی عظیم خدمت ہوگی۔ہم اپنے ڈراموں سے ان میں حوصلہ امنگ کاسبق دے سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی  شناخت کریں اور کوروں کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل کرسکیں۔ ہمارے پاس سوائل نہ صحیح لیکن ہمت تو ہے اور یہ کوشش اپنی آخری سانس تک سرانجام دیتے رہیں گے۔ہمارا پیغام اگر کم لوگوں تک بھی پہنچ گیا ہے تو بھی ہم اسے اپنی کامیابی سمجھیں گے۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کبھی ہمیں بھی چھوٹی یا بڑی سکرین پر کام کرنے کا موقعہ مل جائے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

                                                                                                                                                                                                                                       

 



Popular posts from this blog