جزیرہ Island Altair MacLeod 1936-2014 (Canada)

جزیرہ

Island

Altair MacLeod

1936-2014

(Canada)

 

ترجمہ             :                   غلام محی الدین


بارش چھاجوں برس رہی تھی۔جزیرے میں اپنے باورچی خانے کی کھڑکی سے وہ اس کے رکنے کا انتظار کرتی   رہی۔ 

جب اس کےترچھے  قطرےشیشوں پر پڑتے تو ان کی آواز ایسے آتی جیسے ٹیبل ٹینس کے بال       کے اچھلنے سےآتی 

ہے ۔ بوندیں ژالہ باری  کے ننھے اولوں سے مشابہہ تھیں جو پڑتے وقت تو  گول گول کنکری لگتیں لیکن فوراً گھل کر 

پانی بن جاتیں۔محلول ہونے سے پہلے  غیر محسوس آواز میں اپنا نشان چھوڑ جاتیں۔ بعض اوقات ایسا  بھی ہوتا کہ  

کھڑکی کو چھوئے بغیر وہ  زمین پر براہ راست پڑتیں۔  ایسا لگتا جیسے  نرم و نازک شفاف موتی فضا  سے پھولوں       پر گر کر       

ان  کی خوبصورتی  میں اضافہ کر رہے تھے۔

اس  نے آتش دان  کی نیم جلی لکڑیوں کو ہلایا تاکہ آنچ بڑھا کر سردی کا کسی حد تک مداوا کیا جا سکے۔ ان  لکڑیوں کی  

 لمبائی  چوڑائی  اور شکل یکساں نہیں تھی۔ کچھ تو درختوں کے تنے تھے، کچھ شہتیر ، کچھ باڑ  کی اونچائی جتنی لمبی              شاخیں 

اور کچھ کیبن اور جھونپڑیوں کے بالے جن میں مڑے ہوئے کیل تھے۔ مقصد کمرے کو کسی نہ کسی طرح گرم  

رکھنا تھا۔  جب لکڑیاں پوری آگ پکڑتیں  تو ان کی روشنی  چیری کے رنگ کی طرح سرخ یا  بھٹی میں شوخ سرخ 

رنگ والے لوہے جیسی     دہکتی  ہوتی تھیں۔ کینیڈا کے         صدیوں پہلے اس  غیر ترقی یافتہ جزیرہ کا موسم تباہ کن  تھا۔ یہ 

جزیرہ              '       نو وا سکوشیا                       '              صوبے کے دور دراز علاقے میں تھا جہاں سردیوں میں گزوں  اور میٹروں کے حساب سے 

برفباری پڑتی تھی اور درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری     سنٹی گریڈ تک عام پایا جاتا تھا۔ صبح ہونے پر آتش دان  راکھ

 کا ڈھیر ملتا تھا جو سیاہ رنگ کا تھا۔  اگر لکڑیاں نم آلود ہوتیں  تو وہ  جلتے وقت  سانپ کی طرح سنسناہٹ         یا ایسی آواز نکالتی  جیسے کفن کے باکس کو توڑتے وقت آواز آتی ہے۔ ان کی حرارت بھی کم ہوتی۔

 وہ کھڑکی کے پاس گئی اور باہر کا جائزہ لیا تو تین کتے جو میز کے نیچے بیٹھے تھے ،  اپنی جگہ چھوڑی تو نہیں لیکن  نظروں 

سے اس کا تعاقب کرنے لگے۔ وہ کئی بار گھر سے باہر نکلے تھے اور موسلا دھار بارش سے گیلے ہو کراندر آ کر           اپنا 

جسم زور سے ہلاتے تھے تو اس وقت چھینٹیں جب آتش دان کے لوہے کے فریم پر پڑتیں تو سوں سوں کی آواز 

آتیں۔           اس کمرے میں گرم لمبا  کوٹ ، کپڑے جو  نمی سے گیلے ہوگئے تھے  ،        خشک ہو چکے تھے۔  

کھڑکی کے سامنے لائٹ ہاؤس اور کھلا سمندر تھا۔  عام روشنی میں   اس جگہ سے  وہ دو میل دور باہر تک دیکھ سکتی تھی لیکن گدلے موسم کی وجہ سے  اب اس کی بصارت کا احاطہ چوتھائی بھی نہیں رہا تھا لیکن وہ نصف صدی سے بھی اوپرایسے  موسم دیکھتی رہی تھی         اس لئے فاصلوں    کا کسی حد تک صحیح    اندازہ لگا سکتی تھی ۔اس کا خاندان   صدیوں سے سکاٹ لینڈ سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہو گیا تھا۔  اس کا باپ، دادا، پردادا اور جگڑدادا دنیا سے الگ تھلگ اس چھوٹے سے جزیرے میں آباد تھے       اور اس کےلائٹ ہاؤس کی ذمہ داری نبھا رہےتھے۔  اس  سے  ڈیڑھ دو میل  دور        اس کے بالکل سامنے بہت بڑا خشکی کا ٹکڑا تھا جو      اس زمانے میں ترقی یافتہ  تھا ۔ اس               بڑے جزیرے کا نام                 '               مین لینڈ                     '              تھا۔           وہ جزیرہ پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ سے بھی بڑا تھا۔  اس میں  بڑی بڑی مارکیٹیں  تھیں ۔ آبادی بھی زیادہ تھی۔ ہر طرف سڑکوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ بارش یا دھند  لی شاموں  میں   مین لینڈ کودیکھنا مشکل ہوتا تھا   لیکن اگر سورج روشن ہوتو اس جزیرے  کے بڑے بڑے سفید مکانات  سرمئی  غلہ کے گودام، سر سبز لان  اور کھیت جو ان مکانات سے ملحق تھے۔ باغات ، پہاڑ  اور صاف ستھرا  ماحول اس کے گھر کی کھڑکی ، لائٹ ہاؤس اور ساحل سے  براہ راست  دیکھا جا سکتا تھا۔ رات کے وقت  اس مقام کی تفصیل زیادہ واضح ہو تی تھی۔ ہر شئے، بڑی بڑی عمارات، سڑکوں پر ٹریفک  کی نقل و حرکت صاف دکھائی دیتی  تھی۔ بہت خوبصورت نظارہ ہو تا تھا جبکہ  دن کے وقت  اشیا زیادہ واضح تو ہوتیں لیکن احاطہ محدود ہو جاتا تھا۔

سوال یہ تھا کہ مین لینڈ کی بجائے لائٹ ہاؤس چھوٹے جزیرے میں کیوں تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ محل وقوع کے 

لحاظ سے  اس جزیرے کے سامنے کھلا سمندر تھا اور جہاز ران میلوں سے اس روشنی کو دیکھ لیتے تھےا ور اپنی سمت کا 

تعین کرسکتے              تھے۔ ایسا نظارہ مین لینڈ میں نہیں ہو پاتا تھا۔ رات کے اندھیرے میں بحری سفر میں جہاز ران یا تو 

راستہ کھو دیتے تھے یا پھر جزیرے کی چٹانوں سے ٹکرا کر غرق ہو جاتے تھے۔ لائٹ ہاؤس کی عمارت سینکڑوں فٹ 

اونچی ہوتی تھی جس میں بڑی طاقتور لالٹینیں جلائی جاتی تھیں جو جلتی بجھتی رہتی تھیں جس سے میلوں دور آنے 

والے جہازوں         کو آگاہی ہوتی رہتی تھی        کہ آگے جزیرہ ہے، پتھریلی زمین ہے، چٹانیں ہیں۔           محتاط ہو جائیں۔   

مسافر اپنے سفر کی سمت کا تعین بھی کر سکتے تھے اور ایمرجنسی میں مدد بھی حاصل کر سکتے تھے۔         لائٹ ہاؤس کی تعمیر 

سے پہلے وہاں سردی کے موسم میں کئی جہاز حادثات کا شکار ہو چکے تھے  جن کی ہڈیوں اور لباس کے نشانات 

گرمیوں میں ملے تھے۔ جب سے وہ لائٹ ہاؤس بنا تھا ، کسی جہاز کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تھا۔  سینکڑوں سال پہلے 

وہاں ذریعہ ابلاغ بھی نہ ہو نے کے برابر تھا اور اگر کوئی ایمرجنسی ہوجاتی تو متوجہ کرنے کے آگ  بھڑکائی جاتی 

تھی     ۔ اس کا دھواں اور آسمان کو چھوتے ہوئے شعلے دیکھ کر معلوم ہو جاتا تھا کہ کوئی افتاد آن پڑی ہے اور کمک 

پہنچ جاتی تھی۔

اس کے آباؤاجداد اگرچہ  صدیوں سے  سکاٹ لینڈ سے نووا سکوشیا (کینیڈا) آکر  آباد ہو گئے تھے۔ لیکن انہوں نے 

اپنی روایات اور رسوم برقرار  رکھیں ۔ وہ دو زبانیں بولتے تھے۔ انگریزی اور سکاٹش          (      Gaelic)۔ اس جزیرے  

کا  کوئی نام نہ تھا  لیکن بعد میں اس کو سرکاری نام دے دیا گیا تھا جو                '                    میکفی ڈران آئی لینڈ                       تھا اور چونکہ کہ  انہوں 

نے یہ جزیرہ آباد کیا تھا اسلئے انہیں                 '                     میکفی ڈرمن                  '                کہا جانے لگا۔یہ نام اس کی پیدائش سے پہلے ہی طے پا چکے 

تھے۔اس  کے رکھنے میں اس کا کوئی عمل دخل تھا اور نہ ہی وہ اسے تبدیل کر سکتی تھی۔ وہ اس جزیرے میں پیدا 

ہوئی تھی لیکن سرکاری کاغذات میں رجسٹرار کی نا اہلی کی وجہ سے وہ مین لینڈ کی پیدائشی تھی۔

وہ اس جزیرے میں ہی پیدا ہوئی تھی۔ اس کے پانچ بھائی تھے ۔ سب سے چھوٹا بھائی پانچ سال کا تھا لیکن بالغ ہونے 

پر وہ جزیرہ چھوڑ کر مختلف مقامات پر آباد ہو گئے تھے۔  اس وقت اس جزیرے  صرف اس کا خاندان رہ رہا تھا جن 

میں اس کا دادا، باپ، ماں اور وہ تھی۔کسی کو پکا پتہ نہ تھا کہ وہ کس مہینے اور سال پیدا ہوئی تھی۔ کسی نے اس کی 

پیدائش کی رجسٹریشن  کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔              اتنا ہی پتہ تھا کہ وہ وقت سے ایک ماہ پہلے ہی 

اس دنیا میں آ گئی تھی اور موسم بہار سے پہلے پیدا ہوئی تھی۔  اس کی والدہ نے اسے مین لینڈ لے جانے کی کوشش 

کی تھی لیکن سمندر میں برف کے  بڑے تودےبرفانی  چھکڑے ، گھوڑے اور انسانوں کا وزن نہیں سہار سکتے تھے ۔  

کشتی بھی ان پر چلائی نہیں جا سکتی تھی۔ وہ وہاں اس لئے رہائش پذیرتھے کہ وہاں ان کی روٹی روزی تھی۔ وہ لائٹ

 ہاؤس کے تمام تر انتظامات کےذمہ دار تھے۔ اس کے باقی رشتہ دار  وہا ں سے مین لینڈ منتقل ہو گئے تھے یا پھر محنت مزدوری کے لئے دور دراز مقامات پر                         '            ہڈسن بے  '                             یا                       '                     نارتھ ویسٹ کمپنی        '             میں چلے گئے تھے۔ان کمپنیوں کا کاروبار کھالوں، اون  اور گوشت کا تھا۔ ان کو گڈریوں  کی بہت ضرورت ہوتی تھی ۔ وہ بھیڑ بکریوں اور مویشیوں کی نگرانی کرتے تھے۔ ان کے بڑے بڑے ریوڑ ہوتے لیکن گڈریا  ان پر صرف ایک ہی ہوتا تھا۔ ان سے باتیں کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ ان کے ایک رشتے دار نے تو یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بھوتوں سے باتیں کی تھیں۔ ان کو زیادہ تر مونٹاکا           وائیمنگ     کے  دور دراز مقامات پر بھیجا جاتا تھا۔               وہ  مویشیوں سے باتیں کرتے  یا اونچی  آواز میں صدائیں لگاتے  اور ان کی آواز کی گونج ان تک لوٹ آتی تھی۔گڈریے  سالوں  بعد مختصر چھٹیوں پر  لوٹتے تھے۔

وہ  جزیرے  اور اپنی ضروریات کے لئے ضرورت کے مطابق       مین لینڈ           جایا کرتے تھے۔دادا اور والد     تو بھاری     

 سامان  خود لے آتے تھے لیکن جب سے اس پر ذمہ داری پڑی تھی  اس کے مین لینڈ میں آباد  رشتہ دار  ذاتی اور سرکاری       خریدنے میں نہ صرف مدد کرتے  بلکہ اسے ساحل تک  پہنچاتے بھی تھے جہاں سے وہ کشتی کے ذریعے اپنے جزیرے تک لے جاتی تھی۔  بے روزگاری کی وجہ سے وہ اس کی نوکری کو اچھا سمجھتے تھے۔ کئی مواقع پر اس کی والدہ نے کوشش کی تھی کہ اس کے بچے مین لینڈ میں پیدا ہوں لیکن      وہ سب ان        موسموں      میں پیدا ہوئے جن میں       نقل و حرکت  نہیں ہو سکتی تھی۔۔اس کی ماں نے کوکوئی خطرہ مول نہ لیا اور تمام بچے جزیرے میں ہی پیدا کئے۔  جب اس نے جنم لیا تو اس کا والد ساٹھ سال کا    اور ماں پچاس سال کی تھی۔ وہ بچوں  میں سب سے چھوٹی تھی اور اکلوتی لڑکی تھی۔ اس وقت اس کا سب سے چھوٹا بھائی پانچ سال کا تھا۔

پیدائش کے کافی                عرصہ بعدمسیحی            مذہب          کی     رجسٹریشن کے لئے اسے مین لینڈ لایا گیا۔ اس کے لئے پیدائشی

سرٹیفکیٹ ضروری تھا۔  اس کے لئے جس دفتر گئے اس کا انچارج ایک معمر پادری تھا جو اونچا سنتا تھا ، بہت مصروف 

رہتا تھا  اور باتوں پر پوری طرح توجہ بھی نہیں دے پاتا تھا۔ اس نے غلطی سے اس کا نام                           '                  ایگنس        '  کی بجائے                              '            

اینگس               ' لکھ دیا۔ مقام پیدائش اس نے لاپرواہی سے  '              جزیرےمیکفی                             ڈران               '  کی جگہ               ' مین لینڈ           '        لکھ دیا اور  تصدیق

 کئے بغیر   تفصیلات  ہیڈ آفس بھیج دیں۔  اس کے والدین نے ان  کی نشاندہی نہ کی اور وہ غلط معلومات پختہ ہو گئی۔ ایک چھوٹے سے سرٹیفکیٹ میں تین بنیادی غلطیاں جن کی اصلاح نہیں ہو سکتی تھی ۔   اسے ان غلطیوں کے ساتھ ہی رہنا تھا۔

  اس سال    اس کا دادا پیٹ میں درد سے اس وقت فوت ہوا جب وہ خزاں کے آخر میں         اور سردیوں سے قبل کشتی کو 

کھینچ کر محفوظ مقام پرپارک کرنے کے لئے کھنیچ کر لا رہا تھا تو اس کی پسلیوں کے ایک طرف شدید درد ہوا جس

 سے وہ صحت یاب نہ ہو سکا        اور فوت ہو گیا۔ اس وقت   ایگنس  کی عمر چالیس برس تھی۔ برفباری کی وجہ سے اسوقت جزیرے کی نقل و حمل ان کے بس سے باہر تھی۔ اسے موت کی تصدیق،  دفنانے او ر ضروری سرکاری کاروائیوں کے لئے مین لینڈ لے جانا تھا۔ ا                  س وقت انہیں اندازہ نہیں تھا  کہ آگے کیا کیا جائے۔ انہوں نے کشتی کو واپس پانی میں ڈالنے کی کوشش کی  لیکن کامیاب نہ سکے۔ اس کے والدین نے دو دن تک سردی میں اس کی نعش باورچی خانے کی میز پر رکھی                  اور اس کے اوپر سفید کپڑا ڈال دیا اور آتش دان نہ جلایا      تا کہ اس کی لاش سڑ نہ جائے۔ تیسرے دن انہوں نے چھوٹی کشتی  لی اور اسے مین لینڈ لے جانے کا ارادہ کیا۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ اس میں کامیاب ہو بھی پائیں گے یا نہیں۔ اس لئے انہوں نے بہت سے خشک پھول, لکڑیاں*         دلدلی علاقے سے اکٹھی کیں۔ انہیں دھات کے ٹب میں ڈالا   ۔   لائٹ  ہاؤس کا تیل پھینک کر آگ لگا دی جس سے الاؤ بھڑک اٹھا اور شعلے اور دھواں آسمان کو چھونے لگا   ۔یہ  ایمرجنسی کااعلان    تھا۔ مین لینڈ  میں بھی کشتیاں سردیوں کی وجہ سے ہٹا لی گئی تھیں۔ لیکن ان تک پیغام پہنچ گیا اورسرکاری  مدد آ گئی ۔ سب کو  وہاں لے جایا گیا اور  موزوں کاروائیاں عمل میں لائی گئیں۔  اس کے بعد لائٹ ہاؤس کہ ذمہ داری اس کے والد نے سنبھال لی۔  

میکفی ڈران جزیرہ   سارا سال بیابان رہتا تھا  ماسوائے شکار کے موسم سے جو موسم بہار         کے آغاز              سے شروع ہو جاتا تھا۔ اس  جزیرے میں مچھلیوں کی بہتات تھی۔ ما ہی گیر جو کم و بیش ہمیشہ جو  اٹھارہ بیس سال کے ہوتے  ڈیرہ جما لیتے۔ یہاں آ کر کیبن  اور جھگیاں بنا لیتے                         یا پہلے سے موجود            کیبنوں کی مرمت کر لیتے ۔ اس میں ضروری ساز و سامان رکھتے۔ جال بنتے، پرانے جال مرمت کرتے ۔  پوپھٹے اندھیرے میں صبح        چار بجے  نکل جاتے اور سہ پہر چار بجے کےقریب واپس آ جاتے۔       اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کراونچی اونچی باتیں کرتے۔  اپنے شکار کی ڈھیریاں لگا کر ایک دوسرے سے ٹھٹھہ مذاق کرتے۔ وہ لاپرواہ، اپنے آپ میں مست، کھلنڈرے، مکہ بازی  کرتے    اور  دوستانہ پالنے والے لگتے تھے۔   جب وہ سہ پہر کو اپنے شکار سے لوٹتے تو     مین لینڈ کے تاجر کشتیاں لے کر ان کا انتظار کر رہے ہوتے اور ان  کا کیا ہوا  شکار ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔ اگر ہوا کا رخ ایگنس کے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی گفتگو کا ایک ایک لفظ سنائی دیتا تھا ورنہ ٹوٹ ٹوٹ کر ہلکی آواز میں سنائی دیتا تھا۔ اگر کوئی گڑ بڑ کرتا تو ان میں گھمسان کی جنگ بھی ہو جایا کرتی تھی۔ یہاں جھینگا مچھلی وافر مقدار میں پائی جاتی تھی۔ مئی جون کے مہینے جھینگا مچھلی کے شکار کے لئے بہترین ہوتے تھے۔  جولائی  میں برفباری شروع ہو جاتی تھی اورسمندر میں  برف کے گالے بننا شروع ہو جاتے تھے  جس سے شکار ناممکن ہو جاتا تھا۔ ان کے جانے کے بعد وہ ان جھگیوں کی تلاشی لی جاتی     اور باقیات میں کھانے یا کپڑے اور کوئی  کارآمد  اشیا کی تلاش کی جاتی۔ اس کے علاوہ کھلے موسم کی وجہ سے چرواہے بھیڑ بکریاں اور دنبے وغیرہ چرانے کے لئے بھی آ جاتے تھے۔ جزیرے پر جب بھی کوئی اترتا تو کتے  بھونکنا شروع کر دیتے ۔ وہ قریب آتے تو وہ ان پر غرانے لگتے لیکن کاٹتے نہیں تھے۔ وہ          کتوں کو بھگا دیا کرتی تھی۔

 یہ بات اس وقت کی ہے  جب                        ایگنس سترہ سال کی تھی ۔ اپریل کے آخری ایام تھے۔ برف کے تودے سمندر 

کی سطح پر تیر رہے تھے ۔ مچھلی کے شکار کا موسم شروع ہونے کو تھا۔ اس نے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی جو اس 

بات کی علامت تھی کہ کوئی ساحل پر آ رہا ہے۔ وہ اس وقت باورچی خانے میں کپڑے سے برتن خشک کر رہی 

تھی۔ کپڑا اس کی ہتھیلی پر لپٹا ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے وہ ہٹایا۔اس کی کھڑکی سے گھاٹی اور کھلا سمندر نظر آتا تھا ۔  اس نے د یکھا کہ ایک جوان کشتی سے اتر کر گھاٹی کے کنڈوں سے اپنی کشتی  باندھنے جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا ایک ساتھی تھا جس نے اسے رسی پکڑائی ۔وہ رسی باندھنے کے لئے جھکا تو اس کا ہیٹ گر گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے بال سرخ تھے    اور روشنی پڑنے پر چیری پھل کی طرح چمک رہے تھے۔ وہ بہت پر کشش لگ رہے تھے۔ 

ماہی گیری کا موسم شروع ہونے والا تھا۔وہ        سیزن شروع ہونے سے پہلے اس لئے آ                         گئے             تھے      کہ   کسی اچھے  

کیبن            کو       منتخب کرکے مناسب انتظامات کر کے وقت ضائع کئے بغیر کام شروع کر دیں۔ سرخ بالوں والا لڑکاشام کو

 ان کے پاس آیا اور تیل مانگا تاکہ اپنےکیبن میں لالٹین جلا سکے۔ اس کی عمر بیس سال تھی۔

 مچھلی کے موسم میں وہ ایک دوسرے کو روزانہ دیکھتے رہے لیکن بات کبھی نہ کی۔ وہ صبح تین بجے اٹھتے ، ناشتہ 

کر کے شکار پر نکل جاتے اور رات کو آٹھ بجے ہی  سو جاتے تھے۔ان دنوں ایگنس اپنی ماں کے ساتھ کھیتی باڑی میں 

مصروف رہتی تاکہ  خوراک کا بند و بست ہو سکے۔ وہ  کبھی کبھار کیبن اور جھگیوں کی طرف بھی چلی جاتی تھی۔ وہ اتنے سارے مردوں کے سامنے جاتے ہوئے جھجکتی تھی۔سب اسے جانتے  تھے۔ کئی ایک تو اس کے رشتہ دار بھی تھے۔اس جزیرے میں دو ہی خواتین تھیں۔اس کی ماں اور وہ خود۔

 اس جزیرے کے               دوسری  طرف عقب میں  کافی فاصلے پر کسی زمانے میں  بحری بیڑوں کی دیکھ بھال کی جھیل تھی جو سمندر سے ہٹ کر تھی۔ وہ       ماہی گیروں اور اس کے گھر سے نظر نہیں آتی تھی۔ وہاں قدرتی طور پر ایک ایسی چٹان تھی جس کی بناوٹ میز جیسی تھی اور وہ وہاں بیٹھ کر منظر کا نظارہ کرتی تھی۔اس جگہ کا سمندر قدرتی طور پر بلبلے چھوڑتا رہتا تھا۔               ایک دن وہ اپنے کتے کے ساتھ        ٹہلتی ٹہلتی       وہاں گئی             اور چٹان پر بیٹھ کر سمندر کی بے پناہ وسعت کو دیکھنے لگ گئی۔  اسے محسوس ہوا کہ اس           کے پیچھے  کوئی اور بھی ہے۔             اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا  تو  وہ سرخ بالوں  اور نیلی آنکھوں والا   نوجوان  اس کے ایک طرف کھڑا ہوا تھا۔ وہ کب وہاں آیا ، اسے پتہ نہ چلا اور نہ ہی اس کے کتے نے  بھی کوئی آواز نہ نکالی۔ اس کو اپنے قریب دیکھ کر وہ  گھبراہٹ سے  اٹھ کھڑی ہوئی۔

کیا تم یہاں اکثر آتی ہو؟

ہاں۔

کیا تم یہاں سردیوں میں بھی آتی ہو۔

سردی میں یہاں رہنے            کے سوال  پر وہ  ہمیشہ دفاعی ہو جایا کرتی تھی کیونکہ ان دنوں   اس کا والد، والدہ اور وہ ہی رہ 

جاتے تھے۔ اس شدید ترین سردی میں وہاں رہنا     ہرذی روح سے دوری تھی۔لوگ پوچھ پوچھ کر مت مار دیتے 

تھے  کہ      کیسے رہتے ہو، کیسے گزارا کرتے ہو۔ تنہائی میں کیسے گزارا ہو تا ہوگا۔ ایسے  سوالات اسے پریشان کرتے 

تھے۔ یہ سوال کر کے لڑکا  اس کا ذہن پڑھ رہا تھا۔

ہاں۔ہم یہاں رہتے ہیں۔

کیا تم اس جگہ سے کہیں اور جگہ رہنا چاہو گی۔ اس لڑکے نے پوچھا۔

نہیں جانتی۔۔۔ شائد ۔ لڑکی نے کہا۔

مجھے اب جانا ہوگا۔میں تمہیں بعد میں ملوں گا۔ میں واپس آؤں گا۔ لڑکے نے کہا۔

وہ              اچانک اسی طرح  سے واپس چلا گیا جیسے آیا تھا۔

لڑکی کچھ دیر وہاں اور بیٹھی رہی پھر چٹان پر بیٹھ کر اپنی حالت پر قابو پا کر اٹھی اور واپس آگئی۔ جب اس نے کھڑکی 

سے دیکھا تو وہ اپنے جال کی مرمت کر رہا تھا۔ اس نے اپنا ہیٹ پیچھے کیا ہوا تھا اور اس کے سرخ بال دہک رہے 

تھے۔ اس نے اس کی طرف دیکھا تو  نہ جانے کیوں اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔

اگلے ہفتے وہ پھر اس چٹان کی طرف جانے لگی تو اس وقت وہ لڑکا اپنے کیبن میں             جھینگے کا  کریٹ سامنے رکھے  رسی کی 

مرمت کر رہا تھا۔ اس نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ بھی آ رہا ہے۔             '         ملاقات کی جگہ            ' ۔  یہ سن کر اس کا چہرہ شرم 

سے لال ہو گیا۔ وہ وہاں پہنچ  کر         چٹان       کے میز پر ایسے بیٹھ گئی کہ اس کی پشت  ایسی تھی کہ اس کے پیچھے آنے والا  

نظر نہ آئے۔ اس  کا کتا اس لڑکے کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس  کے پہلو میں آ کر کھڑا ہو گیا۔

میں نے کہا تھا کہ میں آؤں گا۔

ہاں۔تم نے ایسا کہا تھا۔

اگلے  ہفتوں وہ اکثر وہاں جانے لگے۔ ان کی ملاقاتیں اسی جگہ ہونے لگیں۔ وہ سمندر کی وسعت دیکھا کرتے۔

باتیں کرتے۔ ان کی باتیں ختم ہی نہ ہوتیں۔ کبھی کبھار ہنس بھی لیتے تھے۔  ہمیشہ اپنے درمیان فاصلہ رکھتے۔

اس نے اسے شادی کے لئے کہا  تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔لڑکی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا  تو  اس نےہاتھ ملا کر          

دونوں کے  چٹان پر رکھ دئیے جو سورج کی گرمی سے ابھی بھی گرم تھی۔لڑکی کو وہ حرارت بری نہ لگی اور اس نے 

ہاں۔ ہاں۔ ہاں۔ کہہ دیا۔ لڑکے نے کہا کہ مچھلیوں کا موسم ختم ہونے کے بعد سردیوں میں مین لینڈ کے آگے 

پہاڑوں میں درخت کاٹنے کی مزدوری کے لئے  چلا جائے گا اور اگلے سیزن یہاں اپنے اسی ساتھی  جو اس کا  بھتیجا 

تھا،  کے ساتھ واپس آئے گا اور اس سے شادی کر لے گا۔ اس کے بعد وہ اسے یہاں سے لے جائے گااور وہ 

دونوں کسی اور جگہ رہنے لگیں گے۔

اوہ  ہاں۔ ہاں۔ ہم ایسا ہی کریں گے۔ایگنس نے جوش سے کہا۔

شکار کا موسم  کب کاختم ہو گیا تھا۔  خزاں کا موسم تھا۔اسے گئے ہوئے کافی دن ہو چکے تھے۔  اس  دن  بارشتمام دن 

 ہوتی رہی ۔             سردی بڑھ گئی تھی۔ رات  وہ کئی کمبل لے کے گہری نیند سوئی ہوئی تھی کہ اس کے کتے نے اس کے کمبل کھینچ دئیے۔ اسے شدید سردی لگی تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی   اور جائزہ لینے لگی کہ کیا ہوا تھا۔ اس وقت بھی موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ ترچھے قطرے باورچی خانے کی کھڑکی پر پڑ  کر ٹک ٹک کی آواز پیدا  کر رہے تھے۔ کتے کی آنکھیں  اندھیرے میں انگاروں کی طرح         چمک رہی تھیں۔ کمبل کندھوں تک اوڑھنے کی وجہ سے اس کی ناک جم گئی تھی۔ اس نے کسی کو  اپنے کمبل کو کھینچتے ہوئے دیکھا۔ وہ ڈر گئی۔       اس نے اپنے  والدین کے  کمرے کی طرف دیکھا  وہ         بند تھا۔ ان کے خراٹوں کی آواز آ رہی تھی۔  کمبل کھینچنے والے نے  اسے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ اور کوئی نہیں   ، اس کا  ہونے ولا شوہر تھا۔ وہ باورچی خانے سے  گزر کر کھڑے پانی  سے  ہوتے ہوئے وہ  گھر سے باہربارش میں آگئے  ۔  باہر لائٹ ہاؤس کی روشنی سے وہ تھوڑا بہت دیکھ سکتے تھے۔ وہ اس کی جدائی برداشت نہ کرتے ہوئے 

رات ایک کشتی سے اسے ملنے کے لئے خصوصی طور پر آیا تھا۔  کشتی اس نے گھاٹی میں پارک کی ہوئی تھی۔ وہ اسے 

لے کر اس کیبن میں لے گیا جہاں وہ رہا کرتا تھا۔

کیبن کا دروازہ  شور سے کھل گیا۔ اس کے اندر پھپھوندر ی سی تھی۔دروازے کی جھریوں سے یخ بستہ ہوا اندر آ 

رہی تھی ۔ اس کی آنکھوں نے کسی حد تک اندھیرے میں مطابقت  کر لی تھی۔کیبن کی ٹوٹی ہوئی لکڑیاں ادھر 

ادھر بکھری پڑی تھیں۔  میٹریس جو اس نے چوہوں سے بچاؤ کےلئے محفوظ جگہ پر رکھی تھی اسی طر ح کھڑی 

تھی۔دونوں برف سے بھیگے ہوئے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو تھاما ہوا تھا۔  وہ فرش پر لیٹ گئے۔ ایگنس 

نےمحسوس کیا کہ لڑکے کا بھاری لباس اس کے اوپر آن پڑا تھا۔ جب کہ اس کے کپڑوں کےاندر کا جسم  گرم 

تھا۔ وہ اس کے جسم کی گرمی سے مدہوش ہو گئی۔ طوفان تھم گیا تو اس نے کہا کہ شادی کے بعد ہم یہ کام اکثر کیا  

کریں گے ۔        زندگی میں پہلی بار     اسے احساس ہوا تھا کہ دنیا کتنی پیاری ہے۔ لڑکی  نےاپنی اکھڑی ہوئی سانسوں سے 

اس کی گردن کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کشتی صبح واپس کرنا تھی۔ اسے اس کے گھر چھوڑ کر 

وہ چلا گیا۔ وہ اپنے والدین کے کمرے کے سامنے سے گزری تو وہ اسی طرح خراٹے لے رہے تھے۔ اس کے ذہن 

میں یہ بات کبھی بھی نہ آئی تھی کہ وہ بھی کبھی جوان بھی رہے ہوں گےاور یہ سب کرتے ہوں گے۔

اگلی صبح اس نے اپنے والد کو   آتش دان میں لکڑیاں جلا کر     لائٹ ہاؤس کی چمنی صاف کر تے دیکھا ۔ اس نے  اونی 

پینٹ پہن رکھی تھی۔ اس کی ماں حسب معمول اون کا گولا گود میں رکھے کچھ بن رہی تھی۔ اس کے ذہن میں آیا 

کہ اس کے والدین بھی ایسا کرتے ہوں گے جیسے اس نے رات کیا تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکل گئی  اور اپنے محبوب

 کے کیبن اور جھگیوں کی طرف چل دی۔ اس نے کیبن کا دروازہ بڑی مشکل سے کھولا۔ اندر سب کچھ مختلف تھا۔ اس نے فرش پر سرمئی تختے دیکھے  کہ شائد رات کے واقعے کی کوئی علامت نظر آ جائے۔ ایک کالے دھبے کے علاوہ اسے اور کچھ نظر نہ آیا۔

وہ شدت سے موسم بہا ر کا انتظار کرنے لگی۔ سردی کا موسم آیا اور چلا گیا۔ موسم بہا ر آیا  تو وہ کھڑکی کے پاس 

کھڑی رہتی اور ہر ماہی گیر کو دیکھتی   لیکن نہ تو اس کا محبوب آیا اور نہ ہی اس کا ساتھی۔ تمام سیزن تجارتی 

سرگرمیاں عروج پر  رہیں لیکن  اس کے بیاہ رچانے کی حسرت دل میں رہ گئی۔ ایک روز اس کا والد مین لینڈ سے 

سپلائی لے کر سال بھر کے اخبارت         اور ڈاک لے کر گھر آیا تو اپنے ساتھ سنسنی خیز خبریں لایا۔ ان دنوں ابلاغ 

عامہ اس کے جزیرے تک نہیں پہنچتا تھا  اسلئے سپلائی لیتے وقت وہ یہ اشیا ساتھ  اخبارات اور سال بھی کی ڈاک  اور

 خبریں لے آتا تھا۔ اس نے  بتایا کہ پہلی جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی۔ ہر طرف تباہی مچی ہوئی تھی۔   اس نے بحری کیٹیلاگ نکالا اور اس پر نظریں جما دیں۔ پڑھتے پڑھتے اسے کچھ یاد آیا تو  عینک کے اوپر سے  اس نے کہاکہ  تم  لوگ اس لڑکے کو تو جانتی ہوں گی  جس کے بال سرخ اور نیلی آنکھیں  تھیں  اور وہ پچھلے سال یہاں شکار کے لئے آیا تھا (بغیر کسی احساس کے کہا کہ  )         وہ بیچارہ  مر گیا ہے۔

اوہ           !       خدا اس پر رحم کرے۔ اس کی والدہ نے کہا۔  ایگنس  اس وقت سویٹر بن رہی تھی۔یہ سن کر اس کو شدید ذہنی دھچکا لگا  اور بنائی کی سوئیاں اس کی ہتھیلی میں چبھ گئیں اور اس میں خون نکل آیا۔ اس کے والد نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا       کہ   وہ پہاڑوں پر درخت کاٹ رہا تھا  کہ اس کا کسی سے جھگڑا ہو گیا  جس میں اسے قتل کر دیا گیا۔  

تمہارے ہاتھ سے خون بہہ رہا ہے ۔ اس کی والدہ نے کہا۔ کیا ہوا ؟ احتیاط کیا کرو۔

اس کے دل پر آرے چل رہے تھے۔ وہ کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتی تھی۔ماہی گیروں کے کیبن اور جھونپڑیوں کو 

دیکھنے لگی۔وہ سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے۔ اس نے اپنا خون آلود ہاتھ  دیکھا ۔    سوچنے لگی       کہ  اس نے  تمام عرصے  مجھے خط کیوں نہ لکھا؟   یہ سوچ کر وہ گھر آئی  تاکہ خطوط کو دیکھے کہ کہیں اس کا خط  ڈاک میں موجود       

ہو۔اس نے سوچا کہ ان دونوں کا معاملہ خالص نجی تھا اور کسی کو اس کی بھنک بھی نہیں تھی جو خط میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اگر خط لکھنے کے بعد وہ شخص  اسےنہ مل پاتا  تو اس کی حالت اور بھی بے معنی ہو جاتی اور  مزید صدمہ پہنچتا۔ 

وہ تو اتنا بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ پڑھ بھی سکتا تھا یا نہیں۔ یہاں تک کہ اسے  اس کے نام تک کا بھی پتہ نہیں تھا۔ 

اس نے نہ کبھی پوچھا اور نہ کبھی خود سے اس نے بتایا۔ وہ ہمیشہ باتیں ہی کیا کرتے تھے ماسوائے   بھیگی رات کے 

واقعے کے۔اس دوران اس کے ہتھیلی  کا خون سوکھ کر سیاہ ہو گیا تھا۔

وقت گزرتا گیا۔ اس کا پیٹ باہر آنے لگا۔ اس جزیرے میں صرف ایک ہی مرد تھا جو اس کے ساتھ رہتا تھا وہ اس 

کا باپ تھا۔          اس کےہونے والے شوہر اور اس  کے معاشقے کا کسی کو علم نہیں تھا۔ وہ سہ پہر کو ملاقات        والی جگہ چلی 

جاتی اور وہ نگاہوں میں آئے بغیر ملتے رہے۔ وہ اس کے ساتھ کبھی نہیں سوئی تھی۔ اس نے اس کبھی نہیں چھوا تھا ۔ اس نے کبھی کسی مرد کو ننگا نہیں دیکھا تھا ۔ اگر اس کا کوئی تجربہ تھا تو وہ بھی اندھیرے والا اور وہ بھی غیر متوقع جو قصہ پارینہ بن چکا تھا۔ جوں جوں اس کا پیٹ بڑھ رہا تھااسے یقین ہو رہا تھا کہ وہ کوئی بھوت تھا۔ اس  کے دن پورے ہو رہے تھے تو  بچے کی پیدائش کے لئے ان کو مین لینڈ جانا پڑ گیا ۔اس کی خالہ  وہاں رہتی تھی۔ سب لوگ پریشان تھے کہ یہ سب کیسے ہو گیا ۔ سب اس بچے کے باپ کا نام جاننا چاہتے تھے۔خالہ اس کو اور وہ اس کو پسند نہیں کرتی تھیں لیکن بادل نخواستہ انہیں اس وقت تک اس کے پاس رہنا تھا  جب تک کہ بچے کی پیدائش نہ ہو  جائے۔  لوگ جب بھی اس سے پوچھتے کہ اس کا باپ کون ہے تو وہ کوئی جواب نہ دیتی۔

اس کے  ہاں بچی پیدا ہوئی۔         اس کے بال اور آنکھیں ماں کی طرح کالی تھیں۔ اس کی رجسٹریشن کے لئے پادری 

نے اس  بچی کے  باپ کا نام پو چھا  تو اس نے نہ بتایا۔  سرکاری  طور پر جب تک بچی کے پورے کوائف کا پتہ نہ ہو وہ  

 مسیحی مذہب  اختیار نہیں کر سکتی تھی۔  یہ بات اور تھی کہ باپ کا نام صیغہ راز میں رکھا جا سکتا تھا۔

اچھا۔ میں ایک بار پھر پوچھ رہا ہوں کہ بچی کا باپ کون ہے؟

نہیں۔ میں  نہیں بتا سکتی۔

پادری نے اسے ایسا دیکھا جیسے اسے پتہ ہو کہ وہ نہیں بتائے گی  لیکن اس کے لئے ضروری تھا کہ بچی کے باپ کا 

اندراج کیا جائے۔ اس نے لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا۔  دوسروں کے گناہ کی وجہ سے ایک معصوم کلی کو میں جہنم 

میں نہیں جھونک سکتا۔ تمہارے گناہ کا اس پر اثر نہیں پڑنا چاہیئے۔

وہ یہ سن کر خوفزدہ ہو گئی۔ اس نے منہ پھیر لیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

مجھے صحیح  صحیح بتاؤ کہ کیا تمہارا والد اس لڑکی کا باپ ہے۔ لوگ تو یہی کہہ رہے ہیں۔ پادری نے کہا۔

نہیں۔ بالکل نہیں۔ اس نے بڑے اعتماد سے کہا۔  وہ ہرگز نہیں۔

یہ سن کر پادری کے چہرے  کی اضطرابی کیفیت کافی کم ہو گئی۔  میں لوگوں کی افواہوں کو ختم کر دوں گا اور تمہارا 

باپ بھی  تہمت سے بچ جائے گا۔ پادری اٹھا اور دروازے کے پاس پہنچا اور اس کے  لٹو پر ہاتھ رکھ کر  پوچھا۔ کیا 

میں اسے جانتا ہوں یا  میں نے اسے دیکھا ہے۔ کیا وہ مین لینڈ سے تعلق رکھتا ہے؟

نہیں۔ وہ اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ لڑکی نے جواب دیا۔

وہ تمام خزاں اپنی خالہ کے پاس مین لینڈ رہی۔ وہ جب  بھی میکفی ڈران جزیرے جانا چاہتی، اس کی بیٹی بیمار پڑ جاتی 

اور ہر بار بیماری کی نوعیت مختلف ہوتی۔ یہاں تو علاج معالجہ  اور دیکھ بھال سرکاری سطح پر ہو سکتی  تھی جبکہ جزیرے میں ایسی کو   ئی سہولت نہیں تھی اس لئے اسے رک جانا پڑتا۔ اس کے والدین اسے ہمیشہ ضعیف ہی لگتے تھے۔ جب انہوںنے کہا کہ ذمہ داریاں نبھانے کے لئے ان کو واپس جزیرے جانا ہو گا تو وہ وہاں چلےگئے۔ واپس جا کر  اس کا والد         ایک دن         اونچے  لائٹ ہاؤس کی صفائی  کرتےہوئے سیڑھیوں سےگر گیا اور اس کی ایک ٹانگ اور ایک بازو ٹوٹ گیا۔           وہ کوئی کام نہ کر سکتا تھا۔اب پھر بقا کا مسئلہ ہو گیا تھا۔ اس کی والدہ بوڑھی تھی وہ یہ فرائض سر انجام نہیں دے سکتی تھی اس کا باپ سینکڑوں سیڑھیاں بیماری کی حالت میں چڑھ اتر نہیں سکتا تھا کشتیوں، جہازوں  کی آمدورفت اور لائٹ ہاؤس کے انتظام کے لئے کسی نہ کسی کو تو وہ  کام سنبھالنا تھا۔  

اس کا بڑا بھائی ہیلی فیکس میں تھا ۔ وہ آیا اور اس نے ذمہ داری سنبھال لی اور موسم خزاں تک فرائض سر انجام دیتا 

رہا۔ وہ کنوارا تھا اور ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ وہ عادی شرابی تھا اور افسردگی کا شکا ر رہتا تھا۔         اسے  وہاں 

رہنا پسند نہیں تھا۔اس نے اپنے والد کو کہا کہ وہ واپس جا رہا ہے اور یہاں نہیں رہ سکتااس کے والد نے کہا ۔ گھبراؤ 

نہیں یہاں  رہو گے تو عادی ہو جاؤ گے۔لیکن  اس نے بات نہ مانی اور        فروری میں جزیرہ چھوڑ کر چلا گیا۔وہ اس 

وقت مین لینڈ تھے۔  

 اس کےوالد نے اپنے چار عزیزوں کو            جزیرے  کی حالت کا اندازہ لگانے کے لئے بھیجا۔       فروری میں سردی اپنے 

جوبن پر تھی  اور گھر سے نکلنا محال تھا۔   شدید برفباری میں کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔کوئی بھی برفباری اور تند و تیز ہوا میں کھڑا نہیں ہوسکتا تھا اور اپنے ہاتھ کو اپنی اپنی آنکھوں کے سامنے کر کے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ  موسم       کی سختیوں کے باوجود جزیرے اترے۔ان کی سانس باہر آتی تو جم جاتی۔ان کے ابروؤں پر برف جم گئی تھی۔ ان کی آنکھوں سے پانی جوں ہی نکلتا جم جاتا تھا۔ جزیرہ بھاری برفباری سے کئی فٹ اونچا ہو چکا تھا۔ وہ لڑکھڑاتے کسی نہ کسی وجہ سے جھگیوں         اور کیبن تک پہنچے تو کسی جگہ آتش دان نہیں جل رہا تھا ۔ نلوں کا پانی جم گیا تھا۔ کیتلی سردی   سے دو لخت ہو چکی تھی۔ کسی جگہ سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ اناج کا کمرہ کھل اور بند ہو رہا تھا۔  کتےاور 

مویشی بھوک اور سردی سے مر چکے تھے۔ سربراہ خانہ  کا  موٹا اونی اوور کوٹ ، دستانے، مفلر، سردی والی ٹوپی  وغیرہ 

نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک بندوق       جس میں کارتوس    تھےاور ایک پستول لٹکا ہو  تھا۔ انہیں برف پر اپنے پاؤں کے 

نشانات کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے آتش دان میں آگ جلائی اور اگلے روز واپس مین لینڈ چلے 

گئے۔ انہوں نے وہاں جو دیکھا اور پایا ،                           بیان کر دیا۔واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے   یہ فیصلہ کیا  گیا کہ لڑکی کا 

والد، والدہ اور لڑکی جزیرے پر واپس چلے جائیں اور بچی کو اس کی خالہ کے پاس چھوڑ دیا         جائے گا۔ اس کے والد کا 

ٹوٹا ہوا بازو اور ٹانگ جڑ چکی تھیں لیکن وہ بوجھ  نہیں سہار سکتی تھیں۔ اس لئے اب ساری ذمہ داری ایگنس کو  نبھانا 

پڑ گئی تھی۔

وہ ہر وقت سوچتی رہتی کہ وہ جزیرے  کیوں آگئی۔ اس کے والدین اس لائٹ ہاؤس  کو اپنی نسل میں رہنے دینا 

چاہتے تھے۔ان کا یہی ذریعہ معاش تھا۔ اس کے علاوہ وہ   عمر بھرمیکفی ڈرین           جزیرےمیں  رہے ۔ تنہائی اور موسم کو 

سہار لیا تھا۔ جوں جوں     ایگنس کی بیٹی بڑی ہوتی جا رہی تھی  اس نے خود کو بوڑھی سمجھنا شروع کر دیا تھا۔  وہ یادوں 

کے ساتھ وہاں زندگی گزار رہی تھی۔ اس کی بیٹی خالہ کے پاس رہ رہی تھی جو لاولد تھی۔ اس کو  اس کی بیٹی سے پیار 

ہو گیا               تھا اور اسے اپنی ہی اولاد سمجھنے لگی۔ ایگنس جب کبھی اپنی بیٹی سے ملنے آتی  اسکی خالہ کو اچھا نہ لگتا ۔ وہ سمجھتی 

کہ وہ اسے واپس لینے کے لئے آئی تھی۔ اس بات کو مدت بیت چکی تھی کہ اس کا مرحوم محبوب  اسے کسی اور جگہ 

لے جائے گا۔ اس نے اس خیال کو شعوری طور پر دبا دبا کے بھلا دیا تھا لیکن پھر بھی کوئی خیال آجاتا  تو وہ ڈر جاتی 

تھی۔ وہ اپنی عمر کے راز کو سمجھنے  کے قابل نہیں تھی۔ اگر عمر کا کوئی تصور تھا بھی تو وہ  یقیناً رک  گیا            تھا ۔

وہ گھر کا سارا کام کرتی ۔ اپنے والد کے بھاری کپڑے  جو جھول رہے ہوتے پہن کر تمام سرکاری فرائض سر انجام 

دیتی تھی۔ اس کی وہ عادی ہو گئی تھی۔ اس کے والدین ہر وقت آتشدان کے پاس بیٹھے  تاش کھیلتے رہتے۔ بہت کم 

کھڑکی کے پار دیکھتے۔  

مارچ آیا  ۔ ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے ، موسم بہتر نہیں ہوا تھا۔             انہیں                 جزیرے آئے چند ہفتے ہو گئے تھے۔ اس کا 

والد اگرچہ بیمار نہیں تھا لیکن  روز بروز  لاغر ہو  رہا تھا۔ وہ اسی سال کا ہو چکا تھا۔ روز بروز اس کے اعضا انحطاط پذیر ہو 

رہےتھے اور ایسا لگتا تھا کہ اس کے دن تھوڑے رہ گئے تھے۔

ایک  دن ان کے رشتہ دار مین لینڈ سے ان کے پاس  برفانی چھکڑا  لے کر آئے۔ 

اس کے والد کی حالت دیکھی تو پریشان ہو گئے کہ اتنے کم وقت میں اتنا ناتواں ہو گیا  تھا۔ موسم بہتر ہو رہا تھا لیکن 

برف ابھی بھی ہر طرف چھائی ہوئی تھی۔ وہ اسے لے جانا چاہتے تھے۔ اسکے والد نے شرط رکھی کہ اگر اس کی

 بیوی ساتھ گئی تو ہی وہ   جائے گا۔

 والد نے   اپنا سامان برف گاڑی میں رکھتے  ہوئے اپنی بیٹی سے کہا کہ زندگی کے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔یہ اسی طرح 

چلتی رہتی ہے۔زندگی کے کسی موڑ  پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو 

گا۔اسی وقت ہوا کا تھپیڑا ان کے منہ پر پڑا          اور وہ مین لینڈ چلے گئے ۔            اسے اس وقت اسے ایسا لگا کہ یہ ان کی آخری 

ملاقات تھی۔ شائد وہ دوبارہ ااسے مل نہ پائے گی۔  وہ یہ بات اسے بولنا چاہتی تھی             لیکن نہ کہہ سکی۔ جب وہ  جانے 

لگا تو اس نے اپنے باپ کو کہا کہ اس کی بیٹی کا باپ سرخ رنگ  اور نیلی آنکھوں   والا تھا جو لڑائی میں مارا گیا تھا۔

اوہ ہاں !                                                               اس نے کہا۔ لیکن اپنے باپ کی ذہنی حالت کی وجہ سے یہ نہ سمجھ پائی تھی کہ وہ بات کی تہہ تک پہنچا بھی ہو گا کہ نہیں۔  برفا نی چھکڑے کا گھوڑا چل پڑا اور پہیے رگڑ کھا کر آواز کرنے لگے۔

اگرچہ وہ اپنے والد کی موت سے آگاہ تھی لیکن اسے اپنی والدہ کی رحلت کا اندازہ نہیں تھا۔والد کی فوتگی کے  دس 

دن بعد اس کی والدہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئی  جس کی طبعی وجہ معلوم نہ ہو  سکی۔ اس نے سوچا کہ جب کسی جانور 

کا ساتھی اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا اور وہ بھی مر جاتا ہے۔ اس کی والدہ کے ساتھ 

شائد کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔              سرما                  کے     شدید موسم                  ،  برفبار ی، سمندر میں برف کے ٹیلوں کی وجہ سے اسے سواری 

میسر نہ آ سکی اور وہ ان  کے جنازوں میں شامل نہ ہو سکی لیکن ساحل کے کنارے کھڑے ہو کر اس نے ان کے 

جنازے لمبی قطاروں میں قبرستان جاتے ہوئے دیکھے جنہیں گھوڑے کھینچ رہے تھے۔  

موسم بہار  اور گرمیوں میں وہ لائٹ ہاؤس  کی دیکھ بھال کرتی رہی ۔  اس واقعے کے بعد اس نے  ماہی گیروں کو جو 

موسم گرما  میں مچھلی کے شکار کے لئے آتے تھے ، کی طرف کبھی  کوئی دھیان نہ دیا اور نہ یہ ان کے کیبن کی طرف 

گئی۔ وہ دستور کے مطابق ہر مہینے سرکار کو میکفیڈن جزیرے کی ضروریات کی درخواست بھیجتی رہی۔  اس    کو

       ' اے         کے نام سے چیک آتے رہے۔ انہیں کیش کروانے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ کوئی شخص بھی لائٹ ہاؤس کی انکوائری کے لئے کبھی کوئی نہ آیا  اور وہاں موجود ساز وسامان  کی  چیکنگ  نہ کی۔ ایمر جنسی کٹ تو کبھی کھلی ہی نہیں تھی۔ نہ ہی اس کی پوری زندگی میں کوئی بھولا بھٹکا جہاز  یا مسافر نہ آیا اور نہ ہی کبھی کوئی حادثہ ہوا۔

دو سال بعد موسم گرما  کی ایک سہ پہر وہ لائٹ ہاؤس کے پاس تھی  جب اس نے ایک کشتی کو دور سے  آتے دیکھا ۔

ا  یگنس      نےتجسس                  میں  جزیرے کے دو چکر لگائے۔      شکار               کا موسم ختم ہو چکا تھا۔وہ حیران تھی کہ وہ کیا کر رہے تھے وہ  سمندر کے اس حصے کی طرف گئی جہاں بلبلے پیدا ہوتے رہتے تھے            جو    ملاقات والی جگہ           پر تھا۔ وہاں پانی زیادہ نمکین اور ٹھنڈا ہو تا تھا۔اس نے اپنے والد کا کوٹ جو چوغہ کی طرح کا تھا، پہناہوا تھا۔وہ اب اس کا یونیفارم بن چکا تھا۔ پانی اس کے پاؤں چھو رہا تھا۔اسے چھوٹے چھوٹے پتھرپاؤں کے نیچے  محسوس ہوئے ۔ اس نے اپنے پاؤں دیکھے تو وہ گہرے سبز پانی میں ٹیڑھے لگ رہے تھے۔کتے گرمی سے بچنے کے لئے پانی کی سطح پر سو رہے تھے۔ اس نے دیکھا کہ اس کشتی میں چار ملاح سوار تھے جو شوقیہ   شکار ی لگ رہے تھے۔ 

ان کی کوئی خاص منزل نہیں تھی۔انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ کہاں کنڈی ڈالنی ہے۔ کہاں مچھلی کی بہتات ہے ۔وہ 

ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔  سعی و خطا کے ذریعے  مچھلیوں کا شکار کر رہے تھے۔ کسی جگہ رکتے ،جال پھینکتے ، 

کچھ دیر انتظار کرتے اور جال نکالتے تو خالی نکلتا۔  ایگنس نے سوچا کہ ان کی مدد کرنی چاہیئے۔ اس نے ان کو آواز 

دی کہ مچھلی اس وقت جہازوں کے توڑنے  والے علاقے  میز والی چٹان کے پاس ہو گی۔ پہلے تو انہیں سمجھ نہ آئی پھر 

وہ سمجھ گئے اور کشتی کا رخ ادھر موڑ لیا۔   ایک شخص نے شکریہ ادا کرنے کے لئے اپنا ہیٹ اتارا تو اس کے سر کے 

بال سفید تھے۔ شکریہ ۔ اس نے دہرایا۔ وہ بھی ادھر چلی گئی۔

وہ چٹان والے میز (ملاقاتی مقام )پر کھڑی ہو گئی اور انہیں شکار کی جگہ کی نشان دہی کرنے لگی  جو کہ بلبلوں والی جگہ 

پر تھی۔انہوں نے کنڈی ڈالی تو جاتے ہی ساکت ہو گئی  ۔ باہر نکالی تو اس کے ساتھ تین جھینگے لٹکے ہوئے تھے۔ 

انہوں نے جال پھینکا تو وہ مچھلیوں سے بھرا ہوا آیا۔           ڈھیروںمچھلیاں پانی کی سطح پر آئیں اور ان کی کشتی کو چاروں 

طرف سے گھیر لیا۔ ہر طرف ان کا رنگ پھیل گیا۔بعض اوقات  وہ چھلانگ مار کر کشتی میں گر جاتیں۔  ان کی آنکھوں، پشت یا ان کی دموں  پر کنڈیوں سے زخم ہوجاتے اور ان کا خون پانی میں گرتا تو              اس کی خوشبو    سے مزید مچھلیاں نزدیک آ جاتیں۔کشتی مچھلیوں سے بھر گئی۔ ان کے گھٹنوں تک مچھلیوں کا ڈھیر لگ گیا۔پھر اچانک وہ  غائب ہو گئیں۔ان کی کنڈیاں اور جال خالی اوپر آنے لگے۔ شکار شدہ مچھلیوں کے بوجھ سےکشتی   ڈکمگا  نے لگی۔انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ماتھوں سے پسینے صاف کئے۔ گرمی کی وجہ سے سب نے اپنی قمیصیں اتار دی تھیں۔            وہ کھڑی ہو گئی اور انہیں کشتی کو پارک کرنے کی جگہ  کا  بتایا۔ وہ وہاں  آئے اور رسی اس کی طرف پھینکی  جو اس نے کنڈی  سے باندھ دی۔ وہ سب اوپر آ گئے۔      ان کے ہاتھ زخمی اور سوجے ہوئے  تھے۔  وہ آ کر ساحل پر لیٹ گئے۔ وہ تھک گئے تھے اور مضطرب تھے۔ تھوڑے سے آرام سے  وہ پر سکون ہو گئے اور کھل گئے۔ ایگنس نے پہلی بار ننگ دھڑنگ جسم دیکھے تھے ۔ وہ  سب گورے چٹے  اور  خوبصورت تھے۔وہ سب اسے پیارے لگے۔   اس نے  پوری زندگی صرف ایک شخص کے ہی  اندھیرے میں جذبات واحساسات محسوس کئے تھے۔  شام ہونے کو تھی ۔ انہوں نے کپڑے پہنے ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کیا                   اور  واپس چل دیئے ۔ اس نے ان لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا۔ جیسے ہی اپنا جائزہ لیا  تو اس کے پورے جسم   پرمچھلیوں اور انسانی  خون کے دھبے تھے ۔   ا ن کی  غلاظت سے   ایگنس کا پورا جسم چپچپا رہا تھا۔ وہ سب دور دور سے مڑ مڑ کر ہاتھ  اور اور ہیٹ لہرا لہرا کر اس کا شکریہ کر رہے تھے۔

وہ لائٹ ہاؤس کی طرف چل دی ۔ اس نے سمندری پرندوں کی چیخیں سنیں ۔ اس نے سمندر میں دیکھا تو وہ کشتی  بیچ 

سمندر   میں تھی۔ اس کا رخ مین لینڈ کی طرف تھا اور وہ چن چن کر مری ہوئی مچھلیاں واپس سمندر میں پھینک  کر 

کشتی کا بوجھ ہلکا کر رہے تھے اور پرندے انہیں خوراک بنا رہے تھے۔

اس بات کو دو سال بیت گئے۔ وہ مین لینڈ  سپلائی لینے گئی۔اس کا کزن جو اس           کےسامان کو ساحل تک پہنچاتا تھا، 

ابھی تک نہیں آیا تھا۔وہ بل ادا کرتے ہوئےسوچ رہی تھی کہ کیا کرے  کیونکہ سامان میں ایک بوری آٹا بھی تھا۔

ایک آدمی  کاؤنٹر پر آیا  اور یہ کہتے ہوئے بوری اور سامان اٹھا لیا کہ یہ بہت بھاری ہے۔تم اسے نہیں اٹھا پاؤ گی۔        

میں تمہاری مدد کر دیتا ہوں اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو وہ سفید بالوں والا  شخص تھا ۔اس نے آسانی 

سے ایک سو پونڈ والی بوری اٹھا لی۔ آٹا اس کے کپڑوں پر لگ گیا۔ اسے بوڑھےکا سرخ و سفید جسم یاد آ یا جو اس نے 

جزیرے پر دیکھا تھا۔ جب وہ  سٹور کے دروازے سے نکل رہے تھے تو اس کا کزن بھی آگیا اور اس سے وہ بوری  یہ 

کہہ کر لے لی کہ اب میں اسے اٹھا لیتا ہوں۔

کوئی بات نہیں۔ سفید بالوں     والے شخص نے اپنے ہیٹ کو خم دے کر کہا۔ اس کے ہیٹ پر جو آٹا لگ گیا تھا وہ فرش

 پران کے درمیان گر پڑا۔ اس نے اپنے کپڑے جھاڑے۔

وہ بہت اچھا انسان ہے۔ مین لینڈ میں سب اس کی عزت کرتے ہیں ۔ لیکن تم اسے کیسے جان سکتی ہو کہ وہ اعلیٰ 

انسان ہے۔

ہاں۔ میں کیسے جان سکتی ہوں؟۔۔۔ ان چاروں   سے اس کا متوقع بچہ ضائع ہو چکا تھا۔

اگلے دس سال بیت گئے۔اس کی بے کیف زندگی ویسی ہی رہی۔ اس نے اپنا خیال رکنا چھوڑ دیا تھا۔ لا پرواہ ،  بد دل 

اور کج رو  ہو گئی تھی۔اب دنیا کی ترقی کے تھوڑے بہت آثار وہاں بھی آگئے تھے۔ ریڈیو کی نشریات شروع ہو گئی 

تھیں اور اسے تازہ ترین معلومات تک رسائی ہونے لگی تھی۔ اس کی بیٹی اب بالغ ہو گئی تھی۔ ایک بار وہ اسے ملنے 

اپنی خالہ کے پاس گئی تو اس کی بیٹی نے اس کی خالہ کو کہا کہ وہ اب اپنی حقیقی ماں کے ساتھ جزیرے میں رہنا چاہتی 

ہے۔ اس نےیہ بات کہہ کر قہقہہ لگایا   اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔  ایک رات اس کی بیٹی کا اس کی خالہ سے 

جھگڑا ہو گیا تو  وہ کار میں ٹورنٹو  چلی گئی اور وہاں کی روشنیوں میں گم ہو گئی۔

وہ روز بروز  اجنبیت کا شکار ہو نے لگی۔وہ بے ڈھنگے چوغے میں باؤلوں کی طرح پھرتی رہتی۔ تنہا رہتے رہتے وہ سنکی ہو گئی تھی۔ وہ لوک ریت کہانی کا کردار بن گئی تھی۔چند سال اور بیت گئے۔ موسم گرما کا دن تھا۔ مچھلیوں  کے شکار کا موسم گزر گیا تھا۔ اس نے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں جو اس بات کی علامت تھی کہ کوئی ادھر آ رہا تھا۔اس نے کھڑکی سے جھانکا  اور ایک بیڑے  کو لائٹ ہاؤس کی طرف آتے دیکھا۔ اس میں موجود افراد نے سرکاری یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ اس کے مستول پر کینیڈا کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ یہ سرکاری بیڑا تھا جو مختلف اوقات میں معائنے کے لئے آیا کرتا تھا۔  انہوں نے بیڑے کو گھاٹی میں پارک کیا۔ اس کے پاس اس کےگھر آ گئے۔

حکومت نے اب میکفی ڈرین  جزیرے کے بارے میں فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ سہولت گاہ ختم کر دی جائے۔ اب لائٹ 

ہاؤس خود مختار طریقے سے جلانے کی صورت نکال لی تھی۔مین لینڈ پر اس کو براہ راست  کنٹرول کیا جانا  تھا ۔         اور 

مشینوں کے ذریعے نظام چلایا جانا   تھا۔وہ سال میں کئی دفعہ         اور ایمر جنسی             میں ہیلی کاپٹر سے  جزیرے کا  معائنہ

              کیا  جانا تھا۔ اس جزیرے میں مدتوں سے نہ تو کوئی حادثہ ہوا تھا نہ ہی بھولا بھٹکا مسافر آیا تھا یہاں تک ایمر جنسی   میں استعمال ہونے والی کٹ  ابھی تک  سیل بند تھی۔انہوں نے نوٹس دیا کہ  ڈیڑھ سال کے بعد اسے بند کر دیا جائے 

گا۔ اس وقت تک وہ وہاں رہے گی اور اس کے بعد وہ فارغ  تصور کی جائے گی ۔اسے کسی اور جگہ رہنا ہو گا۔یہ پیغام 

دینے کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے ۔اس کی خدمات کو سرا ہا اور واپس چلے گئے۔

دنیا ترقی کر گئی تھی۔ مین لینڈ  میں ٹیکنالوجی آ گئی تھی۔ بڑے بڑے جہاز  آ گئے تھے۔ انہوں نے بار برداری کے 

علاوہ  ٹورازم بھی سنبھال لی تھی۔فٖاصلے مٹنے لگے تھے۔ اب شوقین  دنیا بھر کی سیر کو جانے لگے تھے۔  مین لینڈ میں 

بیٹھ کر  تمام محکموں پر آسانی سے نظر رکھی جا رہی تھی۔جزیرہ           میکفی ڈرین سالہا سال سے ویران پڑا تھا۔ اب 

موسم بہار میں کوئی بھی ادھر کا رخ نہیں کرتا تھا۔ نئے نئے شکار گاہ دریافت کر لئے گئے تھے۔ شاذ و نادر یہ کوئی 

ادھر کا رخ کرتا اور اسی روز واپس چلا جاتا۔

ان کے جانے کے بعد وہ پورے جزیرے  گھومی۔ ایک ایک جگہ پہنچی۔ اسکا نام لیا، دہرایا  اور سوچا مستقبل میں 

جانے یہ مقام رہے گا بھی یا نہیں۔ اگر باقی رہےگا بھی تو ان کا نام تبدیل ہو چکا ہو گا۔ اس نے بڑے دکھ سے سوچا  

کہ ہماری نسل در نسل  نے اپنی زندگی اس جزیرے پر گزاری۔اب وہ مکمل طور پر بھلا دئیے جائیں گے۔ 

اس کا خزاں اور سرما  کے مو سم بے کیف  گزر گئے۔ دل اچاٹ ہو گیا۔ اس بار اس نے سپلائی نہ خریدی کیونکہ اب 

ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ  اس نے         اب         اس سہولت گاہ نے  بند ہو جانا تھا۔اسے افسوس ہونے لگا کہ اس            نے          

 بیکار اپنی تمام عمر اس جزیرے کو دے دی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں جائے۔کیا کرے  ۔         مستقبل                                      اس جیسا نہیں رہے گا،۔ سب کچھ تبدیل ہو جائے گا۔

اپریل میں برف پگھلنا شروع ہوئی ۔ مہینے کے آخری ایام تھے۔ وہ باورچی خانے میں کپڑے سے برتن خشک کر رہی تھی۔ اس کی  بصارت کمزور ہو گئی تھی۔ اس نے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی جو کسی شخص کے آنے کی علامت تھی۔ اس نے کھڑکی میں دیکھا تو دھندلی سی تصویر نظر آئی۔کوئی شخص اپنی کشتی کو گھاٹی میں پارک کر رہا تھا۔ اس نے رسی باندھنے کے لئے سر جھکایا تو اس کا ہیٹ گر گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے بال سرخ رنگ کے تھے۔

وہ ساحل کی طرف آنے لگا اس کا رخ ایگنس کے گھر کی طرف تھا۔ کتےاس کے پیچھے بغیر بھونکے آنے لگے۔جوں 

جوں وہ نزدیک آ رہا تھا  وہ اس کی آواز سن رہی تھی۔ وہ کتوں سے باتیں کر رہا تھا۔ اس کا لہجہ غیر مانوس تھا۔ وہ 

نوجوان تھا۔ اس کی آنکھیں نیلی تھیں۔ اس کے کانوں میں بالیاں تھیں۔ اسے  دیکھ کر وہ دروازے میں آ کر کھڑی 

ہو گئی ۔

ہیلو         !                       میرا خیال ہے کہ تم مجھے          پہنچان     نہیں پاؤ گی۔لڑکے نے یہ کہہ کر  اپنا ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھایا۔ ہو سکتا 

ہے کہ پہنچان بھی لو۔

اس عورت کے ساتھ زندگی نے بہت کچھ کر دیا تھا۔ اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کہے۔ وہ دروازے سے ہٹ گئی۔  وہ 

اندر آ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔

کیا تم سارا سال یہاں رہتی ہو۔ سردیوں میں بھی۔ اس نے پوچھا۔

ہاں۔ تقریباً ہمیشہ۔ اس نے کہا۔

کیا تم اس جزیرے میں ہی پیدا ہوئی تھی؟

ہاں۔ میرا خیال ہے۔

یہ تو قید خانہ ہے۔ قید تنہائی ہے۔ لڑکے نے کہا۔میرا اپنا خیال ہے کہ تنہائی ذہنی کیفیت ہے۔ کوئی جہاں بھی رہے 

خود کو تنہا سمجھ سکتا ہے۔

ایگنس نے  نوجوان کو   غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں نیلی تھیں اور سر کے بال سرخ تھے۔ ایسے  لگا جیسے وہ کوئی بھوت ہو۔

کیا تم کسی اور جگہ رہنا پسند کرو گی؟

میں نہیں جانتی۔

جوان نے  اپنی بائیں بالی کو چھوا تاکہ دیکھے کہ وہ ابھی موجود تھی۔ وہ باورچی خانے کا جائزہ لینے لگا اور ایک ایک 

شئے کو غور سے دیکھنے لگا۔ خاتون کو محسوس ہوا کہ کمرے کی حالت پہلے جیسی نہیں تھی۔  وہ اس جوان کے بارے 

میں تذبذب کا شکار تھی۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کون  ہے اوراس کے پاس کیوں آیا ہے۔

کیا تم چائے پیو گے۔اس نے کچھ دیر خاموشی کے بعد پوچھا۔

نہیں۔     شکریہ۔             بعد میں کبھی۔ میں اس وقت جلدی میں ہوں۔ میں نے کشتی شام تک واپس کرنی ہے۔اچھا  تو میں اب چلتا ہوں۔ میں کچھ عرصہ بعد واپس آؤں گا ۔ اس وقت مجھے جانا ہو گا۔

ٹھہرو۔ وہ جلدی سے کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔   براہ کرم رک جاؤ کہتی کہتی رک گئی۔

میں                 خزاں     میں  واپس آؤں گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے اور کہیں اور رہیں 

گے۔

ہاں۔ اس کے ذہن  میں  کوئی خیال آیا         اور اس سے پوچھ ہی لیا کہ تم اتنا  عرصہ کہاں رہے؟

ٹورنٹو۔ لڑکے نے جواب دیا۔بیس سال پہلے میں وہیں پیدا ہوا۔ مجھے یہ بات مین لینڈ والوں نے بتائی کہ تم میری 

نانی ہو۔ میں تمہاری بیٹی کا بیٹا ہوں۔میں تمہارا نواسہ ہوں۔

اس نے لڑکے کی طرف دیکھا۔ وہ کتنا اپنے نانا سے مشابہہ تھا۔ وہ اس کے محبوب کی ہو بہو نقل تھی۔ وہ حیران  و 

پریشان تھی۔ اس کا  دل کیا  کہ وہ بھاگ کر اسے واپس بلائے اور دماغ  نے کہا کہ پتہ نہیں کہ وہ کوئی خوفناک  

حقیقت    آشکار نہ کر دے۔ آخر کار وہ کھڑکی کے پاس چلی گئی۔ وہ لڑکا اکیلے ہی آدھا رستہ طے کر چکا تھا۔ اسے یہ 

پتہ نہیں تھا کہ اس لڑکے کا اس کے پاس آنے کا کسی کو علم تھا یا نہیں۔ اب مین لینڈ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ سرخ 

بالوں والے کا  نواسہ ہے۔ یہ بات اس نے ابھی تک ان سے چھپائی ہوئی تھی۔  اس کا اندازہ تھا کہ اس کے رشتہ 

داروں نے اسے دیکھ لیا ہوگا اور اپنے قیافےلگا رہے ہوں گے۔

اکتوبر آ گیا۔ اس نے کھلے دل سے سپلائی خرچ کرنا شروع کر دی تھی کیونکہ اس نے  وہاں اب نہیں رہنا تھا۔ ایسا لگ 

رہا تھا کہ بارش اب چھوٹے چھوٹے اولوں میں تبدیل ہو رہی تھی اور یہ نتیجہ اس نے کھڑکی پر قطروں کی آواز سن 

کر لگایا۔  آواز  سن کر اسے نیند آ نے لگی۔ اچانک دروازہ زور سے کھلا تو بارش زور سے اندر آگئی اور سارا فرش  بھیگ                         گیا۔ اس نے اسے خشک نہ کیا کیونکہ اب وہ سمجھتی تھی کہ اس کی ضرورت نہ تھی۔ کتا اندر آیا اور اس کی گود میں سررکھ دیا۔ پہلے اس نے ایسا کبھی نہ کیا تھا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور لائٹ ہاؤس چلی گئی۔ وہ بارش میں بھیگ رہی تھی۔               اندھیرا پھیل رہا تھا۔اسے پرواہ نہ تھی۔ اس نے دور سے آتی ہوئی کشتی دیکھی جو گھاٹ کی طرف آ کر 

رک گئی۔

وہ دونوں بھاگتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف بڑھے ۔ ایگنس                      نے  اسے گلے لگا لیا۔ اس کی گردن میں انگلیاں

 پھیرنے لگی۔

میں نے کہا تھا ناں کہ میں واپس آؤں گا۔

ہاں۔ تم نے کہا تھا۔ وہ بولی۔

اس نےاندھیرے میں  انگلیاں اس کے سر پر پھیریں۔ اس کی نیلی آنکھیں اسے واضح طور پر نظر آئیں۔ اس 

وقت اس نے بالیاں نہیں پہن رکھی تھیں۔

تم کتنے سال کے ہو؟

اکیس سال۔ میرا خیال ہے کہ  اپنی عمر پچھلی دفعہ تمہیں بتائی تھی۔  

اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور کشتی کی طرف مڑ گیا اور واپسی کا رخ کیا۔  آؤ۔ میرے ساتھ آؤ۔

اوہ ہاں۔ ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیئے۔

اس کشتی کو میں نے صبح کاذب سے پہلے واپس کرنا ہے۔

ہوا تیز ہو رہی تھی۔ سردی کی شدت بڑھ رہی تھی۔ اولے پڑنے لگے جو بعد میں برفباری میں تبدیل ہو گئے اور 

جگہ جو انہوں نے چھوڑی تھی وہ سخت برف بن چکی تھی۔  روشنی میں اس نے دیکھا کہ میکفرڈین  جزیرہ  کی تختی  

برف سے چھپ گئی تھی۔

اس وقت اس کے ذہن میں اپنے باپ کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ۔       '                       زندگی کے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔یہ اسی 

طرح چلتی رہتی ہے۔زندگی کے کسی موڑ  پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ تمہارے   ساتھ بھی 

ایسا ہو گا۔'

 

Altair MacLeod

1936-2014 

(Canada)

 

 حالات زندگی

 

الی ٹیئر         مہکلییوڈ   20  جولائی 1936 کو  نارتھ بیٹل فورڈ   سیسکیچوان              (کینیڈا)  میں پیدا ہوا۔ وہ الیگزنڈر مہکلییوڈ  اور 

کرسٹینا مہکلیییوڈ  کی اولاد تھا۔ اس کے والد کا فارم ہاؤس تھا۔ اس کی پرورش ایک ایسے خاندان میں ہوئی جس میں 

بہت زیادہ افراد رہتے تھے جو اپنی پہاڑی سکاٹش روایات کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔

ہائی سکول کے بعد اس نے ٹیچنگ سرٹیفکیٹ          نو وا سکو شیا             سےحاصل کیا اور       پورٹ ہڈ      آئی لینڈ   سکول          کیپ        برٹن 

میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اس نے 1960  میں سینٹ فرانسیس زیوییر یونیورسٹی   سے بی اے، بی ایڈ کیا۔ اس کے 

ایک سال بعد اس نے برنز ویک یونیورسٹی سے ایم اے  کیا۔ 1968 میں اس نے نوٹرے ڈیم یونیورسٹی سے پی ایچ 

ڈی کی۔وہ ونڈسر یونیورسٹی اونٹوریو میں انگریزی                  (  تخلیقی             ادب ) کا پروفیسر رہا۔وہ ساری عمر ٹیچنگ کے شعبہ سے 

منسلک رہا۔1971 میں اس نے انیتا میکلی لر  سے شادی کی جو اس کے علاقے برٹن کی رہائشی تھی۔وہ اپنے شہر 

برٹن سے بہت محبت کرتا تھا اور چھٹیاں ہمیشہ وہیں گزارا کرتا تھا۔

اسے شروع سے ہی افسانہ نگاری کا شوق تھا۔ اس نے شاعری بھی کی۔ لکھتا بہت اچھا تھا لیکن موڈ کے مطابق۔ اس 

لئے اس کی تصانیف سالہا سال کے وقفوں سے آتی تھیں۔ اس کی اہم تصانیف درج ہیں

 

No Great Mischief

Island and Collected Stories

To Everything There a Season :  A Cape Breton Christmas Story

As Birds Bring The Sun and Other Stories

The Lost Salt Gift of Blood

A Literary Complain

Son Of A  Highlander

Lives of Short Duration

Stories About Storytellers

اسے  ڈبلن لٹریری انعام سے نوازا گیا۔وہ 20               اپریل 2014 میں دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوا۔


Popular posts from this blog