Wimbledon Winner Short Film " Windblown' by :Katie Vinclet


 عالمی ادب

ہوش اڑا دینے والا حادثہ

Windblown

کیٹی  ونسنٹ ( عالمی انعام یافتہ)

Katie Vincent

 

مترجم و تجزیہ :       غلام محی الدین

 

ایک لڑکے نے سلائس  پر ذائقے دار چٹنی لگائی  اور کہا 'چلو شروع ہو جاؤ۔' اس پر ایک لڑکے نے کہا ،'اعلیٰ!'۔۔۔۔، 'کیا اس کا ذائقہ اچھا ہے؟' ایک  لڑکی نے پو چھا۔۔۔۔'ہاں! لڑکے نے جواب دیا۔۔۔۔'اس نے ایک  ہی دفعہ آدھے سے زیادہ چٹنی لگا دی ہے۔ایک  خاتون نے کہا۔۔۔۔'ہاں ! ہاں!' لڑکی  نے تائیدکرتے ہوئے کہا۔ یکایک  ایسی  آوازیں  آتی ہیں  جیسے کوئی  کسی کو مار رہا ہو ۔ خاتون اور لڑکی  خوفزدہ ہو کر چیخیں مارتی ہیں  اور  یک دم خاموش ہو جاتی ہیں۔ قاری کے ذہن میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ  کیا ہوا ہے لیکن کوئی  اشارہ نہیں ملتا۔

  ایک گاڑی میں بیٹھی ہے  اس کانام ہ بیتھ   ریوز ہے ۔ ایک خاتون  ایڑی والاجوتا پہنے تیز تیز چلتی  اس کے پاس آکر بیٹھ جاتی ہے۔ یہ  'لاری ریوز 'ہے جو اس لڑکی کی والدہ ہے۔

'کیا تم   اب ٹھیک ہو بیتھ؟'

' نہیں !'اور   تم ؟'

'نہیں!' لاری  نے جواب دیا۔۔۔

،' ماں! میں چاہتی ہوں کہ کچھ عرصے کے لئے کالج جانا شروع کر دوں۔کیا میں ایسا کر لوں؟'

'کیا تم  یہ اس لئے چاہتی ہو کہ دوستیاں بحال کرو؟'لاری نے پوچھا۔

'نہیں۔۔۔  فی الحال میں یہ جگہ چھوڑ  کر چارلسٹن ساحل  پر   جا رہی ہوں۔ وہاں  کا ماحول پرسکون ہے۔'

اس دوران گرجاگھر کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔  لاری کار سے باہر آجاتی ہے اور بیتھ کار لے کر چل پڑتی ہے ۔وہ ساحل پر پہنچتی ہے  تو دیکھتی ہے کہ وہاں  کا موسم خراب ہے ۔ تیز ہوائیں چل رہی ہیں اور  بجلی کے  کھمبوں پر لٹکے بلب ہل  رہے ہیں۔وہ  ایک سنسان جگہ پر  پہنچتی ہے۔ اس  کے ہاتھ میں شاپنگ  کے بیگ پکڑے ہوئے  ہوتے ہیں جوتھوڑی سی آواز پیدا کررہے ہیں۔ اس مقام پر ایک چھوٹا سا کاٹیج   د ہے جو   اس کے شہر ویمبلڈن  سے سینکڑوں میل   دور سنسان  ساحل کے کنارے پر ہے ، اس کے سامنے  حد نگاہ تک پھیلا ہوا کھلا سمندر ہے۔وہ اپنے بیگ میز پر رکھ کر کھڑکی سے سمندر کا نظارہ کرنے لگتی ہے۔اسے  ٹی وی سے اناؤنسر کی  غیر واضح آوازیں سنائی دیتی ہے ۔وہ   بددلی سے بیٹھ جاتی ہے اور سکرین کی طرف  بے جان ہو کر دیکھنے لگتی ہے۔ محکمہ موسمیات  کی طرف سے اعلان ہوتا ہے  کہ نیو انگلینڈ کے مقام    چارلسٹن   میں آئندہ چند گھنٹوں میں  موسم مزید خراب ہونے والا ہے۔وہاں کے  رہائشیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ  طوفان آنے والا ہے ۔  سمندری   لہریں اونچی اور خطرناک حد تک سرخ ہوں گی۔۔۔بیتھ یہ سن کر   خوفزدہ ہو جاتی ہے لیکن وہیں رکی رہتی ہے ۔

  رات ہو جاتی ہے، بجلی چلی جاتی ہے  ۔۔ بیتھ   سوچتی ہے ،' سر منڈاتے ہی اول پڑے' اور وہ  دل ہی دل میں  اول فول  بکنے لگتی ہے  اور جبر کرکے   اپنی خواب گاہ میں لیٹ جاتی ہے، غسل خانے کے ٹیپ سے پانی گر رہا ہوتا ہے، وہ بند کرتی ہے۔اتنے میں بجلی آجاتی ہے۔ساحل سنسان ہوتا ہے ، وہ سہمی ہوئی ادھر ادھر دیکھتی ہے۔خاموشی  دور کرنے کے لئے وہ  گانے لگا دیتی  ہے ۔موسیقی پر گانا  بج  رہا ہوتا  ہے ' تم  تو یہ بھی نہیں جانتے کہ تم نے کیا دیکھا'، 'تمہیں اس کی پرواہ بھی نہیں۔۔۔کہ کون ، یا کب ،یا کہاں ۔۔۔اگر تم محفوظ نہ کرسکے ۔۔۔تو پھر ، مجھے بچا لومیں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔۔آج رات ۔۔۔۔براہ کرم مجھے بچالو۔۔۔ مجھے بچالو۔

لڑکی محتاط انداز میں گھر کے کمروں کا جائزہ لیتی ہے  تو اسے  اس کا بھائی 'بیلی ' دکھائی دیتا ہے۔۔۔ اس کو قطعاً توقع نہیں تھی  کہ وہ وہاں ہوگا۔اسے دیکھ کر حیرانی سے بولتی ہے ۔۔۔'تم !'۔۔۔  'سر پرائز!' بیلی  ریوز  جواب دیتا ہے۔

'کیسا سرپرائز ؟۔۔۔ کیا، بل !' وہ حیرانی سے  اسے دیکھتی ہے۔

'حیرانگی چھوڑو بیتھ ۔۔۔تم مجھے دیکھ کر ڈر کیوں گئی۔تم ایسا رد عمل پیش کررہی ہو جیسے کہ میں کوئی بھوت ہوں۔'

'میں ، میں !' کہتی ہے لیکن اس سے آگے اس کی زبان گونگی ہو جاتی ہے ۔

بل سنجیدگی سے پوچھتا ہے ، 'بہن ! تم کیسی ہو؟'

بیتھ  بل کو دیکھ کر حواس باختہ ہو جاتی ہے اور  کہتی ہے 'یہ سب  کیسے ؟ کیسے؟'

' سرپرائز  ' بل  ریوز نے قہقہہ لگا تے ہوئے  کہا۔

'اوکے ، اوکے ! یہ حقیقت نہیں ہے، نہیں ! نہیں ! یہ بالکل سچ نہیں ہو سکتا   بیلی  !' بیتھ ریوز  نے سٹپٹاتے ہوئے  کہا ۔'

'کیوں ؟ بیلی بولا

ہمیں تمہاری حقیقت  مستند طریقے سے معلوم ہو گئی تھی کہ تم !  '           بیتھ نے کہا ۔

' میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں ۔ میری صحت کے بارے میں فکر مند ہونے کا شکریہ۔'بیلی  ریوز نے کہا۔

'کیا  یہ تم ہی ہو؟' بیتھ نے حیرانی سے کہا

'مجھے کسی سے کوئی شکائت نہیں'۔بیلی   ریوز نے کہا۔

'اوکے !  تم مذاق کررہے ہو؟ یہ میرے سونے کا وقت ہے۔ مجھے  سخت نیند آرہی ہے۔۔۔اٹھو !  اٹھ بیٹھو بل، مذاق کی کوئی حد ہوتی ہے! 'بیتھ نے پریشانی میں  کہا ۔

'گھبراؤ مت! سب ٹھیک ہے ۔میرے پاس آؤ۔''بل نے کہا۔۔۔بیتھ سراسیمگی کی حالت میں اس کے پاس چلی جاتی ہے۔۔۔بل  صوفے پر بیٹھا ہوتا ہے ۔اس کے پاس ایک بڑا سا خنجر پڑا ہوتا ہے۔ بیتھ اسے اٹھاتی ہے تو بل  اس کے ہاتھ  سے لے کر پاس پڑی میز پر رکھ دیتا ہے ۔

یہ دیکھ کر وہ وہ سوچتی ہے  کہ  اگر بل یہاں ہے تو کیسے ۔ وہ معاملے کو  کسی اور پہلو   سے دیکھنے لگتی ہے ،  کبھ دیر بعد وہ  کہتی ہے۔۔۔۔' میرا !۔۔۔میرا خیال !۔ ۔۔میراخیا ل ہے کہ  تم!'۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر وہ افسردہ  ہو کر خاموش ہو جاتی ہے ۔

بل  قہقہہ لگاتا ہے ور جھوم کر کر گانے لگتا ہے،'تمہیں یاد ہے  ، میں جو بھی گڑبڑ کرتا ہوں۔۔۔ان  تمام بندھنوں  میں  جکڑا ہوا ہوں ۔۔۔یاخدا ! وہ کتنے عمدہ ہیں ۔۔۔ کیا ایسا نہیں ؟۔۔۔پریشان نہ ہو اور سب بھول کر مست رہو، کیاایسا نہیں کروگی؟'

'میں تمہاری کمی بری طرح محسوس کرتی تھی '، بیتھ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔'بلی ایسا نہ کرو ، اے احمق شخص! ہمیں مت رلاؤ۔'یہ کہہ کر وہ اس کے گلے لگ جاتی ہے۔ پس منظر میں  گانا چل رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے کمرے میں سونے چلی جاتی ہے۔صبح  اٹھتی ہے  تو برتن دھوتی ہےاور اپنی کھڑکی سے سمندر کا نظارہ کرنے لگتی ہے ۔وہاں بل پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے ۔اسے دیکھ کر وہ بولتا ہے،'لو! وہ بھی آگئی'۔

'تم کہاں تھے ؟'

'ادھر ہی تھا اور میں تمہیں تمہاری میٹھی نیند سے جگانا نہیں چاہتا تھا۔'

'اوکے'۔۔۔ یہ سب کیا ہے، بول دو!'

بل  جا کر ایک موٹر بوٹ میں بیٹھ جاتا ہے ۔۔۔'آؤ! کشتی میں آجاؤ'۔ بل   نے موٹر بوٹ میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

'اوکے ، اوکے ، لیکن ہم جا کہاں رہے ہیں؟'

'بس ،ِ ادھر                      ُ ادھر   مٹر گشتی  کرتے  ہیں۔'

' کیا تمہیں موٹر بوٹ چلانی آتی تو ہے ناں!

'یہی بات ثابت کرنے کا موقعہ ہے۔ٹھیک ہے ناں؟'بل نے قہقہہ لگا کر کہتا ہےا 'یہ پاگل پن ہے۔چپو پکڑو'۔

اوکے ، اوکے۔۔۔ہاں!' بیتھ نے کہا۔

جلد ی آؤ! وقت ضائع نہ کرو۔'

بیتھ کو مدھم آواز سنائی دیتی ہے اور غور کرتی ہے کہ یہ کس چیز کی آواز ہے لیکن بل اسے کہتا ہے' دیر نہ کرو ۔ جلدی آؤ!'اسے احساس ہوتا ہے کہ واقعی اسے غیر واضح آوازایں سنائی دے رہی ہیں ۔

'نہیں ! ذرا              رکو۔۔۔،دیکھوں کہ یہ کیسی آواز یں ہیں ؟'

' کہیں سے کوئی آواز نہیں آ رہی ۔۔۔اسے چھوڑو اور کشتی میں آجاؤ۔' بل  یہ بول کرغائب ہو جاتا ہے ۔وہ پریشان  ہو جاتی ہے کہ وہ کہاں            ُ                     اڑن       ُچھو ہو گیا/

اگلے روز  بیتھ کو پھر ایک  چیخ اسے سنائی دیتی ہے۔۔۔ وہ خوفزدہ ہو کرلکڑی کے ڈیک پر  بھاگتی ہے۔ اسے ایک سہمی ہوئی آواز یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہے ۔۔۔'یہاں آؤ!'، کچھ دیر بعد وہی آواز آتی ہے '، تم کیا کررہے ہو؟'بیتھ گھبرا جاتی ہے ۔ اتنے میں اسے اپنے  چولہے پر رکھی پیتلی کی سیٹی سنائی دیتی ہے۔وہ دوڑتی واپس آتی ہے تو اس کی والدہ وہاں موجود ہوتی ہے ،

'تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ تم یہاں کیوں آئی ہو ماں ؟'

' 'میں تمہارے لئے فکر مند ہوں بیتھ۔ تم گھر سے باہر اس وقت کیا کر رہی تھیں؟'ماں نے سوال کیا۔

'وہاں وہ!' ماں! میں نے اسے دیکھا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس مقام پر موجود ہے'، بیتھ نے کہا۔

اوکے ،اوکے۔ 'تم جانتی ہو؟ کہ ایسی باتیں نارمل ہوتی ہیں ۔۔۔ تمہیں پتہ ہے کہ میں  بھی پہلے پہل اسے دیکھا کرتی تھی،'

'نہیں ! یہ  بات مختلف ہے ۔'

'نہیں ، بیتھ نہیں ، یہ مختلف نہیں ہے۔' ماں نے کہا۔

' میں نے اس سے باتیں کی ہیں ۔' بیتھ نے کہا۔

' میری بات سنو۔تم اس وقت غم میں مبتلا ہو، ہم سب اس وقت اس کے غم میں مبتلا ہیں ، اور ہم  جو کرسکتے ہیں  ، وہ یہ ہے کہ  ایک وقت  تک ہی اسے یاد رکھیں اور  آہستہ  آہستہ   معمولات  پر آ  جائیں ۔ ۔۔ زندگی نارمل ہوتی چلی جائے گی۔تم ہمت کرو، یہ  صدمہ برداشت کرو ، معاملات سدھر جائیں گے، اور دنیا یہی چاہتی ہے۔'

'میرا بھی یہی خیال ہے۔'بیتھ نے کہا۔

 ' میر ا ماننا ہے کہ تمہیں  اس اجاڑ بیابان ساحل سے اب  گھر واپس چلے جانا چاہیئے۔'

'کیا؟۔۔۔ نہیں ، میں یہیں ہی رہوں گی۔'

'بیتھ! میں نے یہاں آکر دیکھا کہ تم  نے   خود کو    تقریباً                مار  لیا ہے۔۔۔ واپس گھر چلو۔'

'نہیں، میں نہیں جا رہی ،' بیتھ نے غصے سے کہا۔۔۔'میں حیران ہوں کہ تم یہاں کیوں آئی ہو ؟۔۔۔تم یہاں  کیا کرنے کیا آئی ہو لاری ریوز ؟ میں یہاں پر ٹھیک ہوں اور یہاں ہی رہوں گی ۔۔۔ تم ہی ہو جس نے یہاں سے جانا ہے۔جاؤ! ۔۔۔جاؤ!۔۔۔ جاؤ  لاری ! ' بیتھ نے ٖ چلا کر کہا۔

لاری ریوز  اس کی  بات سن کر پریشان ہو جاتی ہے اور کمرے سے جانے لگتی ہے۔ دروازے پر رک کر کہتی ہے،'میں تم سے پیار کرتی ہوں بیتھ۔'یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی جاتی ہے اور بیتھ افسردہ ہو کر بیٹھی رہتی ہے ، اس کے ذہن میں اپنے بھائی کا خیال آتا ہے  کہ کیا اب وہ  دوبارہ  تو نہیں آگیا ۔ وہ اپنے بھائی  کو آواز دیتی ہے۔'بیلی ! ۔۔۔بیلی !   بیلی!'وہ گھبرا کر گھر میں گھومنے لگتی ہے  اور بیلی، بیلی ،،بیلی ۔بیلی پکارتی ہے ۔ جب کوئی جواب نہیں ملتا تو وہ اپنے دونوں ہاتھ گالوں پر رکھ کر رونے لگتی ہے ، اور دکھ سے گہرے سانس لینے لگتی ہے۔ روہانسی ہو کر وہ کھڑکی سے سمندر کو دیکھتی ہے، لہریں شور  مچا          رہی ہوتی ہیں۔وہ دروازہ کھول کر ساحل پر آکر لمبے لمبے سانس لیتی ہےاور سمندر کی لہروں کا نظارہ کرنے

لگتی ہے کہ اسے  قہقہے سنائی دیتے ہیں۔وہ حیران ہو کر دیکھنے لگتی ہے کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں ۔اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا بھائی بل  اس کے پاس آکے کھڑا ہو گیا ہے اور قہقہے لگا رہا ہے۔

' تم  نے پالیا۔تمہیں اصلیت کا پتہ چل گیا!'

۔ میرا خیال ہے کہ میں نے کسی کو دیکھا ہے ۔'

'نہیں ! یہاں کوئی نہیں ہے۔'بل نے کہا۔' مجھے افسوس ہے کہ ماں  خود کو گھسیٹتے ہوئے یہاں تک آگئی اور مجھے یہاں سے جانا پڑا۔'

'ہاں ، وہ یہاں آئی تھی ۔'

' بیتھ ، سنجیدگی سے بات کرنا ہوگی۔۔۔کیا تم جو کر رہے ہو ، تمہیں  اس سے خوشی ملتی ہے؟' بل  نے اس سے سوال کیا جو نہ جانے کہاں سے کسی بھوت کی طرح  بیتھ کےسامنے آگیا تھا۔'جیسے کہ میں یہاں ہوں، کیا تمہیں میری  یہاں  پر موجودگی خو شی دیتی ہے۔' اس نے بات جاری رکھتےہوئے کہا۔

'ہاں ! ہاں !'  بیتھ  نے جواب دیا۔

'تب ! مجھے یہاں سے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔بلکہ  یوں کہو ،ہمیں یہاں سے کسی  اور جگہ جانے کی ضرورت نہیں۔' بل بولا

' تم کیا باتیں کررہے ہو؟'

' یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے ہو گا۔'بل نے کہا۔۔۔'تم اور میں یہیں رہیں گے، اس کے بارے میں  سوچو۔'

'یہ کیسے ہو سکتا ہے بیلی؟ ایسا کیسے چل سکتا ہے؟ میں نے سکول جانا ہے ، نوکری پر حاضر ہونا  ہے، تمہاری بات سن کر میں پاگل ہو رہی ہوں۔۔۔یہ آسان بات نہیں ہے۔'

'طرح طرح کے سوالات کرنا بند کرو۔ بیتھ۔۔۔ دیکھو! میں یہاں ہوں، تم دوسروں کی فکر کیوں کر رہی ہو؟۔۔۔میں کہہ جو رہاہوں کہ ہم یہاں اسی طرح رہتے رہیں گے۔۔۔میں تم سے  پوچھ رہا ہوں ، کہ کیا تم اس طرح میرے ساتھ رہ سکتی ہو؟'۔۔۔ بیتھ یہ سن کر غم  اورخوشی کا ملا جلا اظہار کرتی ہے۔

'تم میری بہن ہو، میری سب سے اچھی دوست ہو، تم نے ہر بار میری مدد کی جب بھی  ہر ایک نے  دھتکارا، تم بر وقت پہنچی جب کبھی تمہاری ضرورت پڑی ۔۔۔میں تم سے پیار کرتا ہوں بیتھ!۔۔۔' تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔'

۔۔۔' میں نہیں جانتی کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔تمہیں ایسا کہنے اور کرنے  کی کیا ضرورت ہے؟۔۔۔ تم  سب کچھ جانتے ہوئے بھی کیوں کہہ رہے ہو کہ   میں  ایسا کروں؟'

'یہاں ہی رک جاؤ!'

 بیتھ جذبات سے مغلوب ہو کراس کا ہاتھ تھا لیتی ہے۔۔۔ رات کا اندھیرا چھا رہاہے ۔ وہ بل سے اپنا ہاتھ چھڑا کر کہتی ہے ' مجھے جانا ہوگا ۔'

'رک جاؤ!' بل  کہتا ہے

۔' مجھے جانے دو۔'

' نہیں ! یہیں میرے پاس رکو!'

' نہیں !' بیتھ نے کہا۔۔۔۔'پلیز!'۔۔۔۔'نہیں ! مجھے جانے دو۔'

 ' بیتھ! تم میری بات  نہیں       مان رہی ۔'

' نہیں ! میں یہاں نہیں رک سکتی'۔۔۔اس پر بل اس کا بازو زور سے متشددانہ انداز میں  تھام لیتا ہےاور اسے جانے سے زبردستی منع کرتا ہے ۔۔۔اس پر بیتھ چلا کر ' مدد !، مدد !۔۔۔ مدد'! پکارتی ہے  اور رونے لگتی ہے۔ بل اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے تاکہ اس کی چیخیں روک سکے ۔

' تم یہاں سے نہیں جا سکتی۔' بیتھ بے بسی میں رونے لگتی ہے۔۔۔' بیتھ! تم ایسا کیوں کررہی ہو؟۔۔۔ مجھ سے جھگڑا مت کرو ، میں تم سے پیار کرتا ہوں۔۔۔ تم اور میں ۔۔۔، ہم دونوں  ہی !' ۔۔۔یہ کہہ کر وہ اس کے منہ سے ہاتھ ہٹا لیتا ہے۔۔۔تیز ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔

' نہیں بیلی ! تم مر چکے ہو! بیلی ریوز ! تم مر چکے ہو ۔ تمام رسمیں ادا کرکے ہم  نے   خود تمہیں  دفنایا ہے۔تم نے ہمارے سامنے  خنجر سے خود کشی کی تھی  1976 میں پیدا ہوئے اور 2018 میں  فوت ہوئے' ۔۔

'میں بیلی کا بھوت ہوں'  ۔۔۔ یہ سن کر بیتھ کا سر چکرا جاتا ہے۔۔۔ہواؤں میں تیزی آتی جارہی ہے ۔ سمندر کی لہریں ٹھاٹھیں مارنا شروع کر دیتی ہیں ۔پورا چاند  ہواؤں کے جھکڑ  اور سمندری طغیانی  ماحول مزید  خوفناک بنا دیتے ہیں۔۔۔ ہوائیں مزید سنسناہٹ پیدا کردیتی ہیں۔اسے لگتا ہے کہ وہ تاریک  سمندر کی ابلتی ہوئی  لہروں میں غرق ہو رہی ہے ۔  وہ   ساحل پر  بیہوش ہو  کر گر پڑتی ہے۔

صبح ہوتی ہے، طوفان تھم جاتا ہے۔ لہریں پر سکون ہو جاتی ہیں ۔ بحری بگلے راگ الاپنے لگتے ہیں۔ بیتھ  کی آنکھ کھلتی ہے تو خود کو ساحل کی ریت پر لیٹاہوا پاتی ہے ۔اسے بلی باتیں یاد آتی ہیں  ۔وہ پریشان ہو کر   ماحول کا جائزہ لیتی ہے، اپنی گاڑی میں بیٹھتی ہے ، اپنے حواس بحال کرتی ہے اور میوزک لگا دیتی ہے جس پر یہ گانا چل رہا ہوتا ہے ۔۔۔'اور تم بچائے جاسکتے ہو۔۔۔، تو۔۔۔، براہ کرم ،مجھے بچالو۔۔۔میں آج رات تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، براہ کرم مجھے بچالو۔۔۔۔میں آج پوری رات تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ، براہ کرم مجھے بچالو۔' وہ اس لے کے ساتھ گانے لگتی ہے۔۔۔اور وہ تمام جو تمہارے ارد گرد ہے۔۔۔وہ  اس بات کو محسوس کرلیتی ہے کہ اس کا  مرا ہوا بھائی اس کا دل بہلانے کے لئے اس کے پاس آتا رہے گا۔اتنے میں   اس کے  بھائی  کا بھوت  بھی  اس کے پاس  آکر بیٹھ جاتا ہے اور بھی سر سے سر ملا کر ساتھ دینے لگتا ہے ۔۔۔اور سب کچھ جو آس پاس ہے ۔۔۔ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔۔۔ بالکل پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔

 

تجزیہ

 

انسان کی زندگی میں  تلخ ۔  ترش  اور شیریں  واقعات  پیش آتے رہتے ہیں ۔ شیریں واقعات میں تو سکون ، راحت اور خوشی محسوس کی جاتی ہے۔  ترش  واقعات میں وہ ان پہلوؤں کو کو جو اس کی صلاحیتوں  کو ماند کردیتے ہیں یا ناکامی دلاتے ہیں کو وہ  بھلانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اگر وہ یاد رہیں تو اس میں اضطراری کیفیات طاری ہو جاتی ہیں  ۔  لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو اس کے نزدیک بہت اہم ہوتے ہیں ،اگر وہ    حقیقت میں رونما ہو جائیں  تو وہ صدمہ یا صدمات اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ انہیں بھلایا نہیں جا سکتا جیسے والدین ، بہن بھائی ،قریبی  عزیز کی وفات، حادثہ ، بے وفائی ، علیحدگی ، طلاق،، موذی بیماری  جیسے کینسر، کو۔ ویڈ، ڈینگی ، فالج، سٹروک، سیلاب کی وجہ سے گھر اجڑ جانا، جنگ، یا دہشت گردی میں کسی  عضو  کا ضائع ہو جانا، یا ناقابل تلافی نقصان پہنچنا وغیرہ ۔ ایسی کسی بھی صورت میں فرد کی جو ذہنی کیفیت ہوتی ہے  جو انتہائی  رنج و الم والی ہوتی ہے۔ ایک شخص  جو جیتا جاگتا ، ہنستا کھیلتا باتیں کر رہاتھا ،  کا اچانک سانس بند ہوجانا ، ایسا صدمہ ہے جو ہر انسان پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔ اس ناگہانی آفت کو فوری طور پر قبول نہیں کر لیا جاتا ۔ اس واقعے کی حقیقت  فوراً ہی قبول نہیں کر لی جاتی  بلکہ نارم  ہونے کے  لئے اسے  پانچ مراحل طے کرنا پڑتے ہیں:

   انکار ( ڈینائل)، اس میں فرد  حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اس نے دیکھا ہے ، وہ سب جھوٹ ہے ۔ یہ واقعہ ہوا ہی نہیں ۔اس کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ اس کے سوچنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔ بھوک مٹ جاتی ہے۔ دنیا سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یہ مرحلہ حادثے کی شدت   اور قوت ارادی کی قوت  کے لحاظ سے کم یا زیادہ مدت تک رہتا ہے۔اس کے بعد جو مرحلہ آتا ہے ۔ وہ غصہ کا ہے۔

غصۃ ( اینگر)    صدمات کو برداشت کرنے کا فطری رد عمل ہے۔ جب حالات  قابو سے باہر ہوں ، کوئی حل موجود نہ ہو تو لامحالہ   وہ غصے کا اظہار کرتا ہے۔ وہ  مارپیٹ ، گالیاں ، تنقید،طنز، چڑچڑا پن ، معاشرتی منوال سے  انحراف ، خواہ مخواہ  بحث ، قنوطیت ،یا پھر وہ غصہ اپنی ذات کی طرف بھی منتقل ہو کر ہوائی قلعے تعمیر کرنا یا خود کشی کے خیالات  اس کے ذہن میں پیدا ہو جاتے ہیں جو لمبے عرصے تک اس کے ذہن میں پلتے رہتے ہیں ۔ اس منزل کے بعد اس صدمے کو برداشت کرنے کی تیسری منزل شروع ہو جاتی ہے جو سودے بازی ہے

سودے بازی  ( بار گین) کے مرحلے میں  فرد کا ذہن  صدمہ برداشت کرنے کے لئے ایسے اقدامات کرتا ہے جس میں وہ حالات سے مفاہمت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ حقیقت کو کسی حد تک تسلیم کرنے لگتا ہے۔ اسے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ جو واقعہ بیت گیا ،وہ واپس نہیں آنے والا۔ وہ خود کو تیار کر نے کی کوشش کرتا ہے کہ نئی صورت حال کے تحت ہی زندگی گزارنا پڑے گی۔وہ سوچتا ہے کہ   کھوئی ہوئی مشکلات کا سامنا کیسے کیا جائے۔ کیسی تدابیر اپنائی جائیں کہ اس  نقصان کی تلافی ہو سکے۔ اگر وہ شخص  خاندان کا  اکلوتا کفیل تھا تو اب گھر کیسے چلایا جائے وغیرہ ۔ اس میں  بے بسی   پیدا ہوتی ہے اور اسے دور کرنے کے طریقے سوچتا ہے ۔ چوتھا مرحلہ  افسردگی کا ہے

افسردگی ( ڈپریشن) میں فرد پر ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ اسے نفسیاتی زبان میں ' خاموش موت '( سائلنٹ کیلر) بھی کہا جاتا ہے۔اس میں احساس بیگانگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں فرد خود کشی کرنے کا سوچتا ہے۔بھوک مٹ جاتی ہے۔کسی سرگرمی میں حصہ لینے کا جی نہیں کرتا۔کم گو  اور تنہائی پسند ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد صدمہ برداشت کرنے کا آخری مرحلہ شروع ہوتا ہے جسے قبولیت کہتے ہیں ۔

قبولیت ( اکسیپ ٹینس)  کے مرحلے میں فرد اس صدمے کو نہ صرف قبول کر لیتا ہے بلکہ وہ   اپنے ماحول کے ساتھ مطابقت بھی پیدا کر لیتا ہے۔ موت ، علیحدگی ، طلاق  وغیرہ  کے حادثے کو تسلیم کرکے نئی زندگی گزارنے کے اقدامات کرتا ہے۔

عالمی انعام یافتہ ادیبہ    کیٹی ونسنٹ  کا افسانہ  '       ہوش اڑا دینے والا  حادثہ ( مائنڈ بلون )    ایک نفسیاتی  افسانہ ہے   جس میں   اس نے صد مے کی نفسیاتی  نوعیت  تجسس  پیدا کرکے بیان کی ہے۔ اس کہانی  میں  ایک نوجوان خاتون 'بیتھ ریوز '  جو اپنے اکلوتے بھائی   'بیلی   ریوز ' سے بہت محبت کرتی ہے ، خنجر سے خود کو مار دیتا ہے 'بیتھ '   اور اس کی والدہ 'لاری ریوز'  اس کی آخری رسومات کے بعد دفنادیتے ہیں۔ بیتھ نیو انگلینڈ  امریکہ کے شہر ومبلڈن کے پر رونق علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ اپنے بھائی کی موت کاصدمہ اس سے برداشت نہیں ہوتا ۔وہ اپنے دل کو سکون دینے کے لئے ایک  دور دراز سنسان  ساحل  چارلسٹن کی ایک کاٹیج  میں  چلی جاتی ہے۔حالات  اس کی توقع کے برعکس ہونا شروع ہوتے ہیں ۔ اپنے سکون  کی   تمام امیدیں جو اس نے اس جگہ کے قیام میں جوڑی ہوئی تھیں ،وہ بری طرح ناکام ہونے لگتی ہیں ۔ ۔ وہ سمجھتی ہے  کہ  وہاں دخل اندازی ہو رہی ہے۔ اسے کسی  شخص  کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ سمندر کہ لہریں  جو اس موسم میں  نارمل ہوتی ہیں  ، میں اتار چڑھاؤ  ہونے لگتا ہے، ہواؤں  کی شدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے وہ دیکھتی ہے کہ  وہاں وہ خنجر پڑا ہوتا ہے جس سے اس کے بھائی نے خود کشی کی تھی۔وہ  اس بات کی تفتیش کرتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ معاملہ اس کی سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہے: اسے  احساس ہوتا ہے کہ اس کا مرحوم بھائی پھر سے زندہ ہوکر واپس دنیا میں آگیا ہے۔  اس  سے بیتھ  کی حالت بگڑ جاتی ہے ۔ وہ ذہنی انحطاط کا شکار ہو جاتی ہے۔اس میں اندوہناک حادثے کے بعد تمام نفسیاتی علامات  پیدا ہو جاتی ہیں : واقعے سے انکار،غصہ ،مصالحت ، افسردگی، اور امکانی قبولیت  کے مراحل طے کرتی ہے۔وہ جس ماحول میں رہ رہی ہوتی ہے ، میں سمندری طغیانیوں ،اور ساحل  کے الگ تھلگ  مقام پر کاٹیج  ا س کے  ذہنی انتشار میں اضافہ کرتے ہیں۔اور بالآخر وہ اس کی بھوت کی ہستی تسلیم کر لیتی ہے

بیتھ   کی آرزو  ئیں اور ہیجانی انتشار ایک عدسہ ہے  جس کے ذریعے معائنہ کیا جا سکتا ہے کہ کہ کسی قیمتی شئے کا نقصان  حقیقت کو جھٹلا  دیتا ہے اور ماضی کو حال  میں لے آتا ہے ۔ حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے وہ پانچوں نفسیاتی مراحل ( ڈینائل ، اینگر، بارگیننگ، ڈپریشن  اور اکسیپٹنس)سے گزرتی ہے۔

اکلاپا،اور فطرت   بھی اس افسانے کے اہم موضوعات ہیں۔ساحل   کی آبادی سے دور کاٹیج ،جہاں  طغیانی  کی سرکش موجیں  بیتھ  میں ہیجانی ابتری پیدا کردیتی ہیں۔بے قرار سمندر  اس کی غیر متوازن جذبات  کی عکاسی پیش کرتا ہے۔ قدرتی  ناقابل تشریح حالات  تجسس  اور اس کے خوف و ہراس میں اضافہ کرتے ہیں۔

یہ افسانہ  نفسیاتی  ہیجان خیزی پیدا کرتا ہے  جس میں اس کے جسمانی افعال کی نسبت اس  کی ذہنی حالت  اور اضطراب   زیادہ پایا جاتا ہے۔اس  کہانی میں بیتھ  کے ذہن میں ایسے خطرات پیدا ہوتے ہیں جو بظاہر نامعلوم  اور مبہم ہیں۔۔۔۔ بیتھ   ان خارجی حالات سے فرار حاصل نہیں کرتی ، بلکہ وہ اپنے  حل نہ ہوسکنے والے رنج و الم  کی بدولت شخصیت ، شعور اور روح سے بیگانہ ہو جاتی ہے۔اس کے بھائی  کی موت  کے بعد اس  کا دوبارہ ظاہر ہونا اس کی حقیقت اور  وہم کے امتیاز کے ناقابل بناکر ابہام پیدا کردیتا ہے۔اور قاری   میں تجسس پیدا کرتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔اس کہانی میں بیتھ کا موڈ  ،   طغیانی، شور، سائے ، ہوا کی سرسراہٹ ،  اضطراری کیفیت ،  بعض  دفعہ  خاموشی اورتاریک رات کا  ڈراؤنا  ماحول سے وہ گزر رہی ہے  ، کہانی  کو سنسنی خیز بنادیتے ہیں جس سے اس کی ذہنی حالت  میں پیرانویدی  اختباط پیدا ہو جاتے ہیں۔اس میں کیٹی ونسنٹ   بڑھتے ہوئے لرزہ خیز  واقعات  کی نوعیت خارجی  تشدد سے  زیادہ تر جذباتی  اور  ہیجانی ہیجان پیدا کرتے ہیں  جو  قاری  کے تجسس میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ، اور  اس بات کو تقویت پہنچا تے ہیں کہ حقیقی دہشت باطنی ہے اور درحقیقت اسے کوئی خطرہ نہیں۔

اس افسانے  میں   بیتھ کے غم اور رنج  کی کیفیت کو    اس کے دل و دماغ پر پوری طرح چھایا ہوا دکھایا گیا ہے۔بیتھ کا اپنے بارونق علاقے سے ایک دور دراز  غیر آباد ساحل پر اس لئے  منتقل ہونا کہ اسے سکون حاصل ہوگا  ، کا خیال باطل  ثابت

 ہو تا ہے جو اس کو ذہنی تسکین کی بجائے ، مزید نفسیاتی اور  ذہنی انتشار  میں مبتلا کر دیتا ہے۔اس میں غیر حقیقی  دہشت  ایسے پیدا کرتا ہے جیسے کہ وہ حقیقی ہوں۔اس نے واقعات کو اس خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری کے ذہن میں بھی خوف پیدا ہو جاتا ہے۔اس   کے مسائل کو  خارجی  طور پر مسخ شدہ     پیش کیا گیا ہے جبکہ حقیقی خطرہ نہیں ہوتا بلکہ  ایسی کیفیت  باطنی ہی ہوتی ہے ۔

اس افسانے میں بتایا گیا ہے کہ ایسے   واقعات و حادثات جو کسی شخص کے لئے بہت اہم ہوں ،پیش آتے ہیں تو اس کے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں وقتی طور پر مفقود ہو جاتی ہیں۔وہ اس  حقیقت  کو تسلیم ہی نہیں کرتا،اور رفتہ رفتہ اسے قرار آنا شروع ہو جاتا ہے۔اس میں سبق دیا گیا ہے کہ کسی بھی ناگوار حادثے کے عواقب سے فرار حاصل نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اس کا حل  ڈٹ کر مقابلہ کرنے سے ہی ہے۔اس میں ماورائی اور مافوق الفطرت عوامل کو شامل نہیں کرنا چاہیئے۔اس نقصان کو قبول کر لینا چاہیئے۔ اس مسئلے کے آگے گھٹنے نہیں  ٹیک دیئے چاہئیں۔۔ محبت بعض اوقات  ذہنی   دباؤ پیدا کرسکتی ہےاور قبولیت سے وہ آلام کم یا ختم ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں بھی  خاندانی  مراسم گہرے ہیں۔ ایک دوسرے خونی رشتوں چاہت پائی جاتی ہے۔ والدین ، بہن بھائی، میاں بیوی ، دوستوں وغیرہ میں خلوص اور محبت پائی جاتی   ہیں۔ خوشیاں سانجھے کرتے ہیں اور دکھ بانٹتے ہیں ۔ہر شخص پر جب کوئی آفت آتی ہے تو اس کا ذہن بھی اسی طرح کا عمل کرتا ہے۔ اس میں بھی بیتھ کی طرح کی سوچ پیدا ہوتی ہےب۔اس کی نفسیاتی حالت بھی بیتھ جیسی ہی ہوجاتی ہے وہ   پہلے حقیقت سے انکار( ڈینائل)،  غصہ ( اینگر)،  سمجھوتہ ( بارگیننگ ) ، افسردگی ( ڈپریشن )  اور قبولیت ( اکسیپٹنس)  کے مراحل سے گزرتا ہے۔

 کیٹی  ونسنٹ قاری میں تجسس ، ہیجان انگیزی  اور صدمے کے مراحل  بڑے سلجھے ہوئے انداز میں بیان کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)

**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی