آ غا ز نو ( پہلی قسط ) A Fresh Start (1st Eppisode) By Chelsea T. Hicks

 




 

 

آ غا ز نو ( پہلی قسط )
A  Fresh Start (1st Eppisode)

By

Chelsea T. Hicks

 

مترجم : غلام محی الد ین


مرکزی کردار:    فلورنس

فلورنس  کاپہلا خاوند :  فرینک

ویرا: فرینک اور فلورنس کی   بارہ سالہ  بیٹی

ڈیوڈ جان (ڈی جے ): فرینک اور فلورنس کاچھ سالہ بیٹا

جم :  فلورنس کادوسرا خاوند جس کی وہ پرائیویٹ سیکرٹری تھی۔

رائے :فلورنس کا پہلوٹی کابیٹا

جولی:             رائے کی بیوی

پچھلے پیروارجب فلورنس نے  اپنے باس جم سےشادی کی  تھی  چھٹی  کے بعدوہ اس کے دفترگئی اوربتایاکہ وہ گھر جارہی ہے اورچھ بجےتک ڈنر تیارہوجائے گا۔شادی پر جم نےاسے ہیرے کی انگوٹھی دی تھی جوبہت چمکدارتھی اور اس کے پچھلے حصے کے پیچ وخم میں جلوہ دکھارہی تھی۔

آج کی خریدوفروخت کی کیاپوزیشن ہے؟جم نے پوچھا۔

وہ مکمل کردی ہیں۔فلورنس نےکہا۔پھر اس نےاس کے ڈیسک سےچابیاں نکالیں اورمسکراتی ہوئی  باہر چلی گئی۔جم نے نئی شیورلیٹ پونٹیک خریدی تھی جسے وہ کسی اور کوچلانےنہیں دیتاتھالیکن وہ اسے اس کی اجازت کے بغیر لےآئی۔اس نے سوچاکہ یہ نئی کار جب اس کا بیٹا رائے اوراس کی بیوی    جولی دیکھیں گےتووہ اس پرشک کریں گے۔

فلورنس     کار  سبک رفتاری سے چلاتی اپنے گھرکی طرف روانہ ہوگئی۔اس کی  پہلوٹی کابیٹا  رائے اپنی بیوی کے ساتھ شام  اس سے ملنے  آرہاتھا۔فلورنس  کاماضی  خوشگوارنہیں تھالیکن جم سے شادی کے بعد وہ خوش تھی  ۔ اس کے جذبات اس نئی شادی میں ملے جلے تھے۔  وہ  اپنی بہوکوپہلی باردیکھنےوالی تھی۔وہ ان کے بارے سوچتے ہوئے گاڑی چلارہی تھی ۔وہ گھر پہنچ  کر اپنےچھ سالہ بیٹے ڈیوڈجان   (ڈی جے) کی خیرخبرلینا چاہتی  تھی کیونکہ آج اس کے سکول سے آنےکا پروگرم معمول سے ہٹ کرتھا۔عام طورپر وہ سکول کےبعد اپنی   بڑی بہن  ویراکے ساتھ سیدھاگھر آجاتا تھاتھا ۔اسے غیرمتوقع صورت حال سے بچانے اور اس کی حفاظت کے لئے اس کے نئے خاوند جم نے اس کے لئے  چنداصول وضع کئے تھے  ۔سکول سے آنے کے بعد اسےاڑوس پڑوس گھومنےپھرنےاور کھیلنےکی اجازت نہیں تھی کیونکہ ایک  تو وہ خودکو زخمی کرلیاکرتاتھااور دوسرا اپنے کپڑےگندےکرلیتاتھاجو روز دھونے پڑتے تھے۔ اس کی اضافی نگرانی کے لئے کاؤنٹی کلرک مسٹر چروکی  کو بھی مقرر کررکھاتھا کہ اس کاخیال رکھے۔

فلورنس اپنےدفترسےجب  گھرواپس آرہی تھی توجان سٹون ایوینیو کی  سرخ  بتی پر جب اس نے بریک لگائی تو اس کے سامنے  زیبراکراسنگ پر ایک نوبالغ لاپرواہی سے اپنےپاؤں پٹخ پٹخ کرلہک لہک کر  دنیاومافیہا سے بے نیاز  سڑک عبورکررہاتھا۔ اس  نے گیبرڈین کی پتلون اورپارٹی لباس پہناہواتھا۔اس کی چال ڈھال  اس کے اپنے پہلوٹی کےبیٹے رائے  سے ملتی تھی۔یاد آگئی۔جب ٹریفک لائٹ سبزہوئی توفلورنس          نے دیکھاکہ  وہ لڑکا اس وقت ایک گلی میں اسی  انداز سےاپنی دھن میں مست  جا رہاتھا۔دن بھر کی تھکن سے اس کے کندھوں کےدرمیانی حصے میں درد محسوس ہونےلگاتھا۔بچپن میں جب کبھی اسے اس جگہ دردہواکرتاتھاتو  وہ اسپرین  کھالیا کرتی تھی اور بعدمیں   مالش کروالیتی تھی۔  وہ پارک میں کسی مناسب جگہ گاڑی پارک کرناچاہ رہی تھی۔ پیڈل پراس کاپاؤں بے ترتیبی سے پڑا تو گاڑی ڈولی ۔اس نےاھرادھر،آگے پیچھے جائزہ لیا تو وہاں  کوئی نہ تھا۔اس نے مناسب جگہ پرگاڑی پارک کردی اوراپنا درد دور کرنے کے لئے تین اسپرین کی گولیاں کھالیں اورعازم سفر ہوگئی۔ پیڈل پرپاؤں رکھ کراس کی رفتارایسے بڑھائی  جیسا وہ اس وقت کیاکرتی تھی جب اس کی پہلی  شادی  بھی نہیں ہوئی تھی۔

 ایک سفید الونے اس وقت ایک اونچے دیودارکے درخت  پرسےاڑان بھری اور ارد گرد سبزہ زارمیں نیچی  پروازکرنےلگا۔اس وقت لانوں کا چھڑکاؤکرنےوالے پائیپوں سے پانی کاچھڑکاؤ کیاجارہاتھا جن کی بدولت  چھوٹے چھوٹے قوس واقزح کےنظارے بکھر رہے تھے۔وہ  اپنے ایک منزلہ گھر جوچونے کےپتھروں سےبناہواتھا،پہنچی تووہاں  ڈیوڈکا سائیکل موجود نہیں تھا جواس وقت  وہاں ہونا چاہیئے تھا۔جس کامطلب یہ تھاکہ اس وقت تک   کوئی بھی  گھر داخل نہیں ہواتھایعنی اس کاچھ سالہ بیٹا ڈیوڈ جان گھر پرنہیں  پہنچا تھا۔سن گن لینے   وہ اپنی پڑوسن جس کے سرخ بال تھےاوروہ نرس تھی،سےجاکر پوچھنے کاسوچا ۔ پانچویں باردستک سے دروازہ کھلا تونرس نے سرنکال کر منفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد وہ پاس والی لائبریری میں  گئی تو ڈیوڈوہاں بھی نہیں تھا۔وہاں وہ  کتابیں واپس کرتااور نئی نکلواتاتھا۔اس کے بعد وہ پورےمحلے گھومی لیکن ہر ایک نے دروازے والے باہر دیکھنے والی درز سے منفی میں جواب دیا۔ اس بلاک میں بھانت بھانت  ممالک اور مخلوط نسلوں کے لوگ رہتے تھے۔وہ   ان سے اس طرح ہی نفرت کرتے تھے جیسے سفیدفام جن کارہن سہن اور تہذیب وتمدن ان سےیکسر  مختلف تھایا بھارتی جس طرح طلاق یافتہ عورتوں سے کرتے ہیں۔

فلورنس پھر اوساگا ایوینیو کی طرف گئی اور بلاک کےآخرتک ہردروازہ کھٹکھٹایالیکن کسی نے حوصلہ افزاجواب نہ دیا۔شائد اسے اس بات کی سزامل رہی تھی جواس نے گزستہ سال کی تھی۔اس نے مسز گروور کی جگہ مسز ہیڈن کوبےبی سٹررکھ لیاتھا جو اس سے زیادہ غیرذمہ دارثابت ہورہی تھی ۔تنگ آکراس نے پریشانی میں اپنےسابقہ خاوند فرینک جس سے ڈیوڈاور ویراتھیں ، کوفون لگایاتاکہ معلوم کرسکے کہ اسے کہیں وہ تونہیں لے گیاتھا۔ فون اس کی  نئی بیوی نےاٹھایااور بتایاکہ انہوں نے ڈیوڈ جان کوکئی ہفتوں سے نہیں دیکھاتھا۔فلورنس نے شکریہ کے ساتھ دلبرداشتہ ہوکرفون رکھ دیا۔پتہ نہیں اسے کس چیز کی سزامل رہی تھی ۔ اس نے سوچا۔شائد اس کی بے بی سٹر کابدلناہو۔کیونکہ کچھ عرصہ پہلے اس نے مسز گروورز کی جگہ مسز ہیڈن کو رکھ لیاتھاجو کام چور ثابت ہورہی تھی۔ویراکی جگہ اسے ڈی جے کولے جانا چاہیئے تھا۔ اس کھوج میں  اس کا رنگ زرد پڑگیا۔

بچپن ہی میں فلورنس کی والدہ اللد کوپیاری ہوگئی تھی اورباپ  اسے اکیلاچھوڑکر گھرسے غائب ہوگیاتھا۔اس لئے مجبوراًاسے اپنی خالہ کےپاس رہناپڑاجوروزانہ بلاوجہ اس کی مارپیٹ  کیاکرتی تھی ۔ ظلم برداشت کرنے کےعلاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔وہ گھر سے نہ بھاگی۔وہ اپنی بےعزتی کرواتے کرواتے بڑی ہوگئی۔

تیز ہوا اس کی جلدپرپڑی تواس نے اس کاچہرہ لال کردیا۔

جم کی  خواہش تھی کہ اسے بیٹا ہو۔شادی ابھی نئی نئی ہوئی تھی    اس لئے اس کا تقاضا اتناشدید نہیں ہواتھا۔وہ کسی وقت گھر پہنچنے والاتھا۔ فلورنس  ا نے اس کے لئے اور مہمانوں کےلئے کھانا بناناتھا۔فلورنس چھی طرح اس بات کومحسوس کرتی تھی۔جم کے ساتھ شادی میں وہ کافی عرصہ مذبذب رہی۔ اس کے ساتھ جب وہ تیسرے معاشقے کی ملاقات پرگئی توجم نے اسے کہاتھاکہ وہ اتنا زیادہ پیسہ  اکٹھاکرناچاہتاتھا کہ وہ اتنےحجم کا مقبرہ  بناسکے جیساکہ حضرت یسوع مسیح کاتھا۔جم نے یہ بھی کہاتھاکہ اس کی والدہ کی اس سے محبت  شدیدچاہت کی طرح تھی ۔ماں کی  محبت ایسے پانی کی طرح تھی جس پرکوئی بند نہیں باندھاجاسکتااور ہرجگہ پھیل جاتاہے ، بھاپ بن  کراوپرجمع ہوجاتااور برس کر سیلاب کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ماں کےساتھ اس شدید  جذبے سےوہ  خائف تھا۔اس شادی  سے پہلےوہ جم کےساتھ چھ بار مستی کرچکی تھی لیکن پھربھی وہ  اس کےساتھ مستقل رہنےکےلئےذہنی طورپر تیارنہ ہوئی تھی۔اسے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا تھا    کیونکہ اگروہ اسے مستردکردیتاتووہ اپنی  سیکرٹری کی نوکری سےمحروم ہوجاتی جواس کے لئےخوشگوارٹافی کی طرح تھی۔بہتر مستقبل  کےلئے ایسی باتیں سوچناپڑتی ہیں۔یہ بات جم نے اسےاس وقت کہی تھی جب اس نے اس سے شادی کی درخواست کی تھی۔

 نانی کہاکرتی تھی کہ فلورنس  کی زندگی کتھاؤں سے بھری پڑی تھی جوسچ بھی  تھی۔نانی  کاتجربہ اور علم  سب سےزیادہ تھا۔فلورنس نے شادی سے پہلے ہی امورخانہ داری میں ماہرہوگئی تھی کیونکہ اس کی خالہ اس سے سب کام کرواتی تھی۔  اس کے علاوہ محبت  کے معاملات  اوربچوں کی پرورش  کا تجربہ بھی اسے حاصل تھا۔فرینک سے  طلاق کے بعد وہ  اگلاقدم محتاط اندازمیں اٹھاناچاہتی تھی۔لیکن اپنے وجود کاخلاپرکرنےاورایک بیٹے کوجوگھرچھوڑکرلاپتہ ہوگیاتھاکی تلافی کے لئےپھر سے نئی زندگی شروع کرناچاہتی  تھی۔لیکن  اسے یہ خوف بھی تھاکہ کچھ عرصہ بعد ان میں  جھگڑے شروع نہ ہوجائیں  جس کاانجام  پہلی شادی   جیساالمناک نہ ہو۔

وہ زینےسےاترکرڈرائیووے آئی اور خود کو کارکی سیٹ پرڈالا۔پارکنگ   سیمنٹ کی تھی اور گول دائرے میں تھی۔کار وہاں سے نکالنے میں اس کاسرچکراجاتاتھا۔آسمان  پربادل منڈلانےلگےتھے،ٹھنڈی ہواچل رہی تھی  جس کامطلب تھاکہ دور کہیں بارش ہورہی تھی۔اس نے اپنے بٹن بند کرلئے۔  فلورنس اپنے حساب سے سگھڑ تھی لیکن نانی کے معیار  کے مطابق بچوں کی پرورش  ،محبت کرنے،گھرداری  اوربچوں کی تعلیم  وتربیت  اور اپنے بچوں  پراس کے معیارکےمطابق گہری نظررکھ پانے میں  ناکام ہوگئی تھی۔ اپنی خامیاں دورکرنے میں پہلےسےزیادہ محنت کرناپڑے گی فلورنس نے سوچا۔اسے ڈیوڈ کے لاپتہ ہونے کاشدیدرنج والم ہونے کےساتھ یہ بھی خطرہ تھاکہ اس سے اس کے سابقہ خاوند فرینک   سےسرپرستی کی  عدالتی جنگ شروع ہو سکتی تھی۔وہ اس پرہرجانے کادعویٰ کرسکتاتھا جس میں اسے بھاری جرمانے کےساتھ لاپرواہی برتنے پرقید بھی ہوسکتی تھی  اور بچوں کی سرپرستی سے بھی ہاتھ دھونے پڑ سکتے تھے۔

آسمان پربادل منڈلانےلگےتھے۔ٹھنڈی ہواچلنے لگی جس سے یہ اندازہ ہورہاتھاکہ دورکہیں بارش ہورہی تھی۔اسے ٹھنڈک محسوس ہوئی تواس نے اپنی قمیض کے بٹن بندکرلئے ۔وہ گھر پہنچ گئی ۔اس نے دیکھاکہ ڈرائیووے پر کسی شخص کی کار پارک تھی اور وہ کارمیں کسی شئے کوتلاش کررہاتھا۔وہ اس سے ڈیوڈ جان کےبارے میں پوچھناچاہ رہی تھی۔وہ  پریشانی میں چلتی کارچھوڑ کر اس شخص کےپاس جانے کے لئے اتری کہ گھر کی  فون کی گھنٹی بجی  اور باربار بجنے لگی ۔وہ بھاگ کر گھر گئی۔فون اٹھایاتووہ اس کےسابقہ خاوند 'فرینک '  کاتھا۔اس نے فلورنس سے چھوٹتے ہی  سوال کیا'ڈیوڈ کہاں ہےَ؟

وہاں لمحہ بھر خاموشی رہی  پھر فلورنس نے کہا  'کیاوہ تمہارے پاس ہے؟کیاتم نے اسے کہیں دیکھا؟

نہیں۔وہ کہاں ہے؟فرینک نے سوال کیا۔

میں نے ابھی پولیس کواس کی گم شدگی کی اطلاع نہیں دی۔فلورنس نے کہا

بدذات۔اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری تمہاری ہے ۔اسے فوراًڈھونڈ۔فرینک نے  سختی سےکہا ۔

تمہیں میرے ساتھ  کوڑاکرکٹ  اور ہتک آمیز رویہ نہیں اپناناچاہیئے۔فلورنس نے کہا۔

اگروہ رات بھر واپس نہ آیاتو۔۔۔؟فرینک نے کہا۔فلورنس اس پر خاموش رہی اور اس کی لعن طعن  جو وہ اس وقت کیا کرتاتھا  آئس کریم اور مرغ مسلم کی طرح جواس کی مرغوب خوراک تھی ،کی طرح قبول کرلیاکرتی تھی لیکن اب وہ اس کی بیوی نہیں تھی ۔فلورنس اسے باور کرانا چاہتی تھی کہ اب وہ جم کی بیوی تھی اور اس سے نپٹ لے گالیکن   فرینک نے فوراً فون پٹخ دیا۔فرینک کی خواہش تھی کہ  پہلالڑکاہولیکن  فرینک کی  پہلوٹھی اولاد ویراتھی جواب بارہ سال کی تھی اور دوسری اولاد چھ سالہ ڈیوڈ تھا۔

فلورنس کووہ لباس یاد آگئے جواس نے ڈی جے  کے لئے بڑے پیار سےسیئے تھے۔عام طورپرڈیوڈکوسنبھالناویرا کی ذمہ داری تھی لیکن اس دن اس نے اپنی پیانوکی کلاس کےلئے جاناتھا۔اس کی وہ کلاس  اہم تھی اس لئے وہ اسےاس دن نہیں لاسکتی تھی۔اس کی جگہ بےبی سٹر جاسکتی تھی لیکن وہ نہ گئی۔اس لئے آج کاسانحہ پیش آیا۔اس نے اپنے ہاتھ کامکہ بنایااور زور سے ہوامیں لہراکرکہا ۔میں تمہیں  دیکھ لوں گی فرینک ۔میں نے جم سے شادی کرلی ہے۔اس کے ذہن میں اس کے پہلوٹی کے بیٹے رائے کاخیال آیا اوراسے یادآیاکہ اس کا پیدائشی سرٹیفکیٹ  اس نے آرکینساس سے بنوایاتھاجہاں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی ۔وہ یہ سوچ رہی تھی  کہ فرینک نے پوچھا۔

اسے تین سال پہلے کاواقعہ یادآیاجب اس نے فرینک  سےاپنی شادی شدہ زندگی کوخیرباد کہاتھا۔وہ  بدتمیزتھا۔اس سے بدسلوکی کیاکرتاتھا۔ڈیوڈ تین سال کااورویرا نوسال کی تھی ۔وہ اس کی ڈانٹ پی جاتی تھی۔وہ اپنی  بےعزتی  کھسیانی ہنسی کے ساتھ  کھانے کی میزپر نارمل اندازمیں لیتی رہتی ۔اس روز وہ کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔میز پر آئسکریم اور بھناہوامرغ تھا۔اس نےاپنی بھوک کے مطابق آئس کم اورمرغ کا ٹکڑا لیااور کھانے لگی توویرانے اپنے تین سالہ بھائی ڈیوڈسے کھاناجھپٹ لیا۔ سب اس کی اس حرکت پرحیران ہو کرمعاملے کی نوعیت سمجھنے لگے۔ویرا نے وجہ یہ بتائی کہ ڈیوڈ نے مرغ پر نمک زیادہ ہونے کی شکائت کی تھی اور اس پراس نے غصے میں آکرچھین لی تھی کیونکہ مصالحہ  ویرانے چھڑکاتھا۔اس پر فرینک نے فلورنس کوگالیاں دیناشروع کردیں کہ اس نے ان کی تربیت اچھی نہیں کی تھی۔فلورنس  اس بار  اپنی  بے عزتی  برداشت    نہ کرسکی۔اس نے بے اختیار اپنا لاکٹ جس میں فرینک کی تصویرجڑی تھی ،نفرت سے اتارا اور تالاب میں پھینک دیاجس پر فرینک مزید سیخ پاہوگیااور ان کی شادی ٹوٹ گئی ۔

 فرینک  کی نسل مخلوط تھی۔اس کاتین چوتھائی حصہ ولندیزی اور چوتھائی حصہ آئرش تھا۔اس کےچہرےپرجھریاں پڑناشروع ہوگئی تھیں۔آج ڈیوڈ کے معاملے میں  فرینک سے توتکار کے بعد اس نے پولیس کوفون کیا۔اس کے بعد اس  نے  اپنے سوتیلے بھائی 'مسٹر  بلی' کوفون کیاجس نے فون کی پہلی گھنٹی پرہی فون اٹھالیا۔ایسالگ رہاتھاکہ وہ اس کےفون کا ہی انتظار کرہاتھا۔فون اٹھاتے ہی وہ بولافلورنس میں' بلی 'ہوں۔اس کی آواز ایسے پھٹ کرآرہی تھی جیسے پریشر ککر سے بھاپ نکلتی ہے۔اس کے بعد اس نے سسکی لی۔فلورنس نے اسے ڈیوڈ جان کی گمشدگی کی اطلاع دی۔اس کے سابقہ خاوند فرینک کو اطلاع دی تواس نے  دھمکیاں دیں۔وہ اس وقت سخت مشکل میں تھی۔کوئی بھی اس واقعے کی سنگینی سمجھ نہیں سکتاتھا۔سونے پرسہاگہ یہ اسکا پہلوٹی کابیٹا مسٹر رائے اپنی نئی بیوی کےساتھ اس روز ڈنرپرآنے والےتھے۔وہ ان سب چیزوں کے لئے تیارنہیں تھی۔ صرف اس کا سوتیلا بھائی بلی ہی تھا جس سے وہ کھل کر ہر بات کرسکتی تھی۔ اس نے تفصیل بتادی ۔

اچھابتاؤ۔ڈی جے کتنی دیرسے غائب ہے۔بلی نے سوال کیا۔

 فرینک کے بارے میں بلی کی  یہ رائے تھی کہ وہ کینہ پرور تھا۔اس کےدائیں پاؤں پرچھائیاں تھیں۔اس کے گھنے بال  بازو ؤں سےاس کی ناک  اورپورے چہرےپرپھیلےہوئےتھے۔

کئی گھنٹے ہوگئےہیں۔اس کےکندھےایک پھڑپھڑاتی آنکھ کی طرح پھڑپھڑائے۔

وہ جلد ہی واپس آجائےگا۔تم مجھ سے یہ تو پوچھ سکتی  ہوکہ میرے پاس اب کتنے مویشی  ہیں  اور وہ کیسے ہیں  لیکن ڈی جے کےبارے میں میں کیاکہہ سکتاہو ں؟ بہرحال۔۔۔پریشانی سے خود کودور رکھو۔بلی نےکہا۔میں بھی            ڈی جے  ( ڈیوڈ جان) کی عمرمیں گھر سے بھاگ گیاتھا۔فکرنہ کرو وہ خیرخیریت سے ہوگا۔اگروہ اگلےایک گھنٹےمیں واپس نہ آیا تومجھے دوبارہ فون کرنا۔

اوکے۔شکریہ بھائی۔میں تم سے محبت کرتی ہوں بلی۔

میں بھی میری بچی ۔بلی نےکہا۔

فلورنس نے فون رکھ دیااور  بیٹھک میں کلاک کی ٹک ٹک کی آوازاس میں وحشت پیداکررہی تھی۔اس پرانجانا خوف طاری ہوگیا۔اسے طرح طرح کے وسوسوں نے گھیر لیا۔ اگراسئ کوئی شدیدحادثہ پیش آ گیا ہو تواس کاسر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاہوگا۔شائد اس  کی  سائیکل کنکریٹ  والی بجری کی سڑک پرگری ہوگی۔اس نے جلدی میں راستہ لینے کےلئےکارکو دھوکہ دیاہوگا توبجلی کےکھمبےاورباڑسے ٹکڑاکرگر گیاہوگا۔اس کےبازوؤں، کندھوں ،گردن اور منہ پرشدید چوٹیں آئی  ہوں گی۔اسےایسے بھیانک  خیالات  آنےلگے۔

عام طورپررومانوی خیالات اسے  موسم خزاں میں،غمگین اوراداس  خیالات سردیوں میں،موسم بہار میں سب سے برے  خیالات آتے تھے  ماسوائے اس وقت  کے کہ جب وہ کسی سےمحبت میں گرفتار ہوئی ہوتی جبکہ گرمیوں میں اس کے  جذبات زوروں  پرہوتےتھے۔اس موسم میں  وہ ایک ہلکا سا کوٹ  پہنتی تھی  جوموسم کےمطابق ہوتاتھا۔اگراسے پریشان کیاجاتاتواس پرصدمے کی کیفیت طاری ہوجاتی تووہ اس کی کیفیت  ایسی  ہوجاتی  جیسے چوکھٹ  پر  مکڑے کےجال  ہو اور وہ ہوامیں معلق ہو کر ہل رہاہو۔۔فلورنس نے ٹکٹکی باندھ  کردیکھاتواسے ایسا لگاکہ وہ بذات خود ایک ریشم کی طرح   بن چکی تھی۔اس کاغم وقت گزرنے کےساتھ بڑھ رہاتھا۔لوگوں کے سامنے  خود کو مصنوعی  خوشیوں کی تہہ میں چھپایاہواتھا۔لیکن اندر سے وہ یہ  سمجھ رہی تھی کہ وہ ایک ایسی  اچھوت  بن گئی  ہے ۔اس کاوجود  تتلیوں کے پنکھوں کے نرم ،ملائم اور نازک پروں کی طرح ہلکا ہوگیاہے  اورچھتوں سے اس انداز میں گررہاہے جیسے کیڑے مکوڑے۔وہ اسے اپنے ساتھ لے کرجارہے تھےلیکن جب وہ عقل سے سوچتی تو اسے یقین تھاکہ اس کے یہ خیالات باطل تھےاور غیرحقیقی تھے ۔حقیقت جو بھی ہولیکن اس کے ذہن میں کبھی کبھی ایسے خیالات آتے رہتے تھے۔

اس وقت اچانک دروازے پردستک ہوئی جس پروہ اچھل پڑی۔اس نے اپناہاتھ اپنےدل پررکھ لیاجوبلیوں اچھل رہاتھا۔وہ بیرونی دروازے کی اور بھاگی اور دروازہ کھولا۔اس کاچھوٹاساننھا منھا پیارا گلابی بچہ ایک خاتون  پولیس افسر   نے پکڑا ہوا تھا۔وہ بچے  کی طرف  لپکی اور اس سے بغل گیرہوگئی۔اس کےمنہ سےایک آہ نکلی لیکن وہ اس وقت بھیگاہواتھا۔اس کے کپڑوں پرتارکول کی سیاہ رال کے دھبے پڑے تھے جوایسے لگ رہے تھے جیسے اس پر پھولدار نقوش چھاپ دئیے گئے ہوں۔اس کی قمیض اوپروالے حصے سے پھٹی ہوئی تھی ۔اب اسے اپناکردار اداکرناتھااور اسے سیناتھا۔لیکن اس کے لئے اس کےپاس وقت نہیں تھاکیونکہ رائے اور اس کی بیوی اب پہنچنے والے تھے۔

پولیس افسر مسز گرووز ہیڈن  نے اسے ایک رومال پیش کیا۔ اس کا نام مسز گرووز تھا۔ڈیوڈ نے اپنی ماں کاہاتھ تھام لیااور کہا کہ اس کانام مسز گرورز نہیں بلکہ مسز ہیڈن ہے۔

شکریہ مسز ہیڈن ۔اس نے اس سے رومال لے لیا۔افسرکےپاس ایک  کاپی تھی۔

مسز ہیڈن نے  کاپی میزپررکھ دی جس پر ایک ایسی تصویر  تھی جس میں ماں اپنے بچے کودودھ پلارہی تھی۔اس کی ایک چھاتی ڈھانپی ہوئی تھی۔فلورنس کی نظر اس تصویر میں دودھ پلاتی ماں کے لباس پر چلی گئی جس کی  چھاتی پر دودھ کے دھبے پڑے تھے ۔فلورنس نے وہ غور سے دیکھا تو افسرشرمندہ ہوگئی۔

تمہارابیٹا ہلکریسٹ میں پھررہاتھاجہاں سڑک نئی نئی بنی تھی اور تارکول کی رال اس کے لباس پرلگ گئی تھی۔اس کی سائیکل پوری طرح اس میں دھنس کر خراب ہوچکی تھی ۔ تمہاری بیٹی  ویرا کے بوائے فرینڈ نے اس کے پہیوں کو دوبارہ سے جوڑکر صحیح کردیاہے۔

ویراکابوائے فرینڈ ؟اس  کاکوئی بوائے فرینڈ نہیں  ہے۔۔۔کیا وہ  ہلکریسٹ کافی پینے گئی تھی؟

تمہاری بیٹی نے جیکٹ اور اس کے نیچے لیموں کےرنگ کی سویٹرپہنی ہوئی تھی ۔افسر نے کہا۔

فلورنس اسے کمرے میں لے جاتے ہوئے  مؤدبانہ لہجے میں بولی ۔بہت مہربانی افسر۔

گھر سے بھاگ جاناآج  کل عام ہے ۔ہم اسے سنجیدہ نہیں لیتے۔افسر نے کہا۔

فلورنس نے سر ہلاکرہاں کہا اوردروازہ بند کردیا۔

ڈی جے صدمے کی حالت میں تھا۔اس نے اپنے سرکواپنی ٹانگوں میں چھپالیا۔اس کا بائیں بازو اس کے دائیں ہاتھ کےسائے میں تھا۔پچھلی رات  فلورنس نے  جب اسے غسل دیاتھاتواس وقت   اس نے بہت زیادہ پانی کے چھینٹے اڑائے تھے تو اس نے اپنابازو پورا دھودیاتھا۔

اس نے ڈی جے کوپکڑا'تم چھوٹے جھوٹے بچے۔اس کامنہ کھل گیا۔تم جانتےہوجم   جھوٹے شخص کے بارے میں کیاکہتاہے؟ کہ  جھوٹاا شخص منہ سے ایسے سانس لیتاہے جس طرح تم اب لے رہے ہو۔یہ کہہ کراس نے نفرت کی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے  ڈی جے کامنہ بندکردیا اور کہا۔

بتاؤ۔میں تمہیں خود کھلاتی پلاتی  ہوں، کپڑے پہناتی ہوں۔چھوٹے موٹے تحفے  خرید کردیتی ہوں، اس بات کو یقینی بناتی ہوں کہ تمہاری اچھی طرح دیکھ بھال  کی جائے۔پھرتمہیں سکول بھیجتی ہوں۔نہلاتی ہوں۔۔ ۔ کیاتمہیں میرا ذراسا بھی خیال نہیں آتا جوتم ایسی بری حرکات کرتے ہو؟وہ منہ پھلاکراس سے شکائت کررہی تھی۔ غصےسے اس کےدل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی ۔ڈیوڈ کواس وقت اپنے حلئے کی پرواہ نہ تھی۔مٹی سے اٹی ہتھیلی کوجھاڑ رہا تھا اوراس کےہاتھ پر جونشانات پڑے تھے۔انہیں دیکھ رہاتھاجواس وقت مدھم پڑگئے تھے۔

میری طرف دیکھو۔فلورنس نےکہا۔

ڈی جے نےاپنی والدہ کی آنکھوں میں دیکھاجو اسےکھاجانےوالی نگاہوں سےدیکھ رہی تھیں۔اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔۔۔تمہیں میری عزت کرناہوگی۔کیاتمہیں علم ہے کہ اوساگا جاناکیسا رہےگاجہاں جانے کامطلب  یہ ہے کہ تم  سخت  ماحول میں ایک روبوٹ کی طرح احکامات کی پابندی کرو۔تمہیں میرےپیار،محنت اور قربانیوں  کوتسلیم کرناہوگا۔یہ اولین عمل ہےجوتمہیں لازماًکرناہوگا۔

ڈی جےنےاپنی نظریں اپنی والدہ سے ہٹالیں اورکہا۔تم جانتی ہوکہ پرنانی نے کہاتھاکہ کبھی ہارنہ ماننا اوربحری باشندے   کی طرح  کاملیت اختیار کرنا۔ڈی جے نے کہا۔

مجھے مت ٹوکو۔ تم  سزا کے مستحق ہو۔فلورنس یہ کہتے ہوئے کارنس کے پاس گئی جہاں شیشے کاایک فریم رکھاگیاتھا۔اس میں ایک تصویر جڑی تھی جہاں  ڈی جےایک ایساسوٹ زیب تن کئے  اپنے ناناکےساتھ بیٹھاتھاجواس نے فوٹوتکنیک کے آغاز کے دورمیں  کونسل میٹنگ میں پہناتھا وہ تصویر اس دورکی تھی جب کیمرہ نیانیاایجادہوا تھا ۔اس نےایسالباس پہناتھا جیساکہ کونسل کی میٹنگ میں پہناجاتاہے۔اوساگاکامطلب ہے کہ تمام کام صحیح انداز میں کئے جائیں،کمال اور درست طریقے سےکئےجائیں۔اس نےڈی جے کی فریم کی ہوئی تصویرکی طرف  اشارہ کرتے ہوئے زوردیتےہوئےکہاتا کہ اس کی اہمیت جتلائی جاسکے۔لیکن جوں ہی اس  کاہلکاسازورپڑاتووہ فریم گرکرقالین پرآ پڑا اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ اشیا  جنگلے پربیل چڑھانے  ، کاربن،موتی،دھاگہ اورتہہ در تہہ اشیاادیکھنے میں پائیدارلگتی ہیں لیکن  یہ کامل اورپائیدارنہیں ہوتیں۔ذراسی بداحتیاطی پر ٹوٹ جاتی ہیں۔تم نے بات نہ مانی ،بداحتیاطی کی   اور نقصان اٹھایا۔اس لئے اس گھر میں بھی لاپرواہی سے  اسی طرح تمہارے ساتھ اور تمہاری زندگی کےساتھ بھی ہوسکتاہے۔تمہیں  اس کی سزا ضرور ملنی چاہیئے۔تمہیں سبق سکھانا ہوگا۔تمہیں  سزا سے نصیحت حاصل کرہوجائے گی۔  دوبارہ گھرسےنہیں بھاگوگے، جب تک کہ تم زندہ ہو دوبارہ ایسانہیں کروگے۔اگر تم نے پھر ایساکیاتو پھر اس گھرواپس  نہیں آسکوگےجیسے تمہارا بھائی رائےچلاگیاتھا اور آج نہ جانے کیوں  واپس آرہاہے۔ایک مدت کے بعد وہ آج  اپنی بیوی کےساتھ آرہاہے۔وہ تمہارے بارے میں کیاسوچیں گے۔فلورنس نے یہ بات بڑی سختی سے کہی۔میری شرمندگی کاباعث نہ بنو۔اڑوس پڑوس میں میرا ٹھٹھہ نہ اڑواؤ۔اب سے نئی زندگی شروع کردو۔۔۔اب جاؤاپنے کمرے میں اوراپنی سزاکاانتظارکرو۔۔

ڈی جے نے ماں کی ہدائت پرعمل کیااور اپنے نمدار کندھوں اور  پھٹی ہوئی قمیض  جو کسی  غلیظ پلے کی طرح تھی کےساتھ اپنے کمرےمیں چلاگیا۔اس کے بعد فلورنس نے  اس گندگی کوجوڈی جے کے آنےسےپھیلاتھاکو جہاں تک ہوسکا،صاف کرنےلگی۔

ویرا اب  بڑی ہورہی تھی۔وہ ابھی تک لوٹی نہیں تھی۔وہ اپنی والدہ کی باتیں  بارباردہرانےلگی تھی۔اس میں   نوجوانی  کا عشق اورجنون  سوارہونےلگاتھا۔اس عمرمیں سکول سے بھاگنا،آوارہ گردی ، معاشقہ  وغیرہ کوجی چاہتاہے۔ فلورنس کا خیال تھاکہ ابھی اس پروہ دورابھی نہیں آیاتھالیکن پولیس افسر کچھ اور کہہ رہی تھی۔۔۔

اس نے ڈائینگ ٹیبل پر برتن سجائے اور اب ڈی جےکوسزا دینے کامرحلہ آگیاتھا تاکہ وہ مزید حکم عدولی سے باز رہے۔اس نے  اپنی چمڑے کی بیلٹ اپنی کمر سے اتاری اور اس  سے اسے پیٹنے لگی ۔وہ ہاتھ آگے کرکے وار بچاتا رہا۔اس بیلٹ پر نیلے،پیلے۔ہرے،پیلے ۔کالےاور سفید رنگ کے  نگ ایک خاص ترتیب سے بے حد خوبصورت انداز میں جڑے تھے۔اس کے واروں سے وہ نگ بیلٹ سے اکھڑ کر فرش ،رضائی اور دوسری جگہوں پر پھیل گئےلیکن فلورنس نے پرواہ نہ کی اور مار مار کر تھک گئی۔ اس کی تسلی نہ ہوئی کیونکہ اس مار کا حتمی نتیجہ وہ حاصل نہ کر سکی تھی جو یہ تھا کہ اگر مار کھانے والا بچہ رودے تو یہ سمجھاجاتاتھا کہ وہ اپنی غلطی پر نادم تھا ۔۔۔لیکن ڈی جے ابھی تک نہیں رویاتھا اور مار مار کر تھک گئی تھی اور ڈی جے اسے ہاتھوں پر روکتارہاتھا۔

فلورنس آگے بڑھی توفریم کاٹوٹاہو ا شیشہ   جوکرچی کرچی ہو گیا تھا ،کی ایک کرچی اس کے پاؤں  میں چبھ گئی او خون بہنےلگاجواس کے اور ڈی ج کے فوٹوپرلگ گیا۔شیشے کی نوک کی   چبھن سے درد کی ٹیس اٹھی۔وہ درد سےبےحال  ہو گئی۔ عین اس وقت ویراکمرےمیں داخل ہوگئی۔اس نے بغل  میں پیانوکی کتب دبائی ہوئی تھیں۔اس نے گلابی سویٹر پہناتھاجوسوتی کپڑےکی طرح ملائم تھااور اس کی پشت پر پردےکی طرح لٹکاہواتھا۔وہ دبلی پتلی تھی۔فلورنس نے   اپنے پیروں سے شیشوں کے ٹکڑےچنےجبکہ ویراخاموشی سے کھڑی دیکھتی رہی۔پاؤں کےبل بیٹھنے سے اس کی آنکھوں  پردباؤ بڑھاتو اس کی بصارت دھندلاگئی۔

اس نے ویراکوکہاکہ مرغی   پکائے۔وہ اسے کبھی کھانابنانےکانہیں کہتی تھی لیکن ویرانےایسےسرہلایاجیسےیہ اس کاروزکامعمول تھا۔اس نےکھانابنانےوالی کتاب اٹھائی اوراس پردی گئی ہدایات کے مطابق کھانابنانےلگی۔مرغی تلنے کےبعدآلواورلوبئیے کی  ڈش بنائی۔ویرا نے دیرسے بولناشروع کیاتھا۔وہ چارسال کی عمرمیں بولی تھی اور ڈرپوک تھی ۔ڈی جے اس کےبرعکس تھاجوایک سال میں ہی ٹوٹےپھوٹےالفاظ اداکرنےلگ گیاتھااور بےحد نڈراور آزاد منش تھالیکن لوگوں کااحترام نہیں کرتاتھا۔ اس نے بیلٹ اٹھائی اور ایک بارپھر ڈی جے کوماردی جس پروہ رونے لگاتواس نے ٹھنڈی سانس لی۔اگروہ پہلی پٹائی میں روکرافسوس کااظہار کرتاتووہ  پھر نہ مارتی۔اس کے نزدیک بچے کاپٹائی پرروناہی پچھتاوے کی علامت تھی۔

میں نے کھاناپکادیاہےجیساتم نے کہاتھا۔مرغی ہلکی  آنچ پرہے۔فلورنس  نے اس کےبالوں کاجوڑابنایا۔اس کےبعد اس نےکہاکیا میں اب فرانسیسی پڑھنے ایڈاکے گھرجاسکتی ہوں؟

ٹھیک ہے لیکن ڈنر تک واپس آجانا۔آج رائے اور اس کی دلہن پہلی بار ہمارے گھر آنے والے ہیں۔ا س نے دروازہ بندکیااور فلورنس بسترکےکنارے بیٹھ گئی اورڈی جے کوپیار سے گلے لگالیااوروہ بھی اس سے بغل گیرہوگیا۔اس کےپہلوٹی کےبیٹے رائے کی طرح نہیں جو ململ کی طرح جسم سے مضبوطی  سے لپٹ جایاکرتاتھا۔وہ  اس سے لاڈکرنے لگی ۔۔۔تمہارےبال کاٹنےوالےہوگئے ہیں ڈیوڈ۔میں چھٹی کےروزاسےکٹوادوں گی اوراسے ماؤں کی طرح جھولادینے لگی۔تم ایک پیارے ریڈانڈین لڑکوں کی طرح ہو۔تمہیں اس پرفخرکرناچاہیئے۔رائے اورتمہاری بھابھی جولی بھی جلدہی پہنچنے والے ہیں۔

رائے نے اپنی نئی  کیڈلک   میں آناتھا۔فلورنس کےپاؤں میں شیشہ چبھنےکی وجہ سے ابھی بھی دردتھالیکن اسے اپنالباس تبدیل کرناتھالیکن ڈیوڈ نےاسے سختی سے جکڑلیااور اپناسر جوپسینےسےشرابورتھا،کواس کے پیٹ پر رگڑنے  لگا۔

جاؤ۔اور ڈنرکےلئے اپناچہرہ  دھولو۔فلورنس نےاسے خود سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ڈیوڈ کےلباس پراب بھی تارکول لگی تھی۔

ماں۔ تم نے کہاہےکہ رائے آرہاہے۔کیاوہ ڈنرہمارے ساتھ کرے گاَ؟ڈیوڈنےپوچھا۔کیایہ صحیح ہے؟

ہاں۔یہ کہہ کراپنےکمرےمیں گئی اوردروازہ بندکردیا۔

فلورنس کادوسراخاوند جم گھرآگیااور دروازے پرپڑی دری پربیٹھ کراپنے جوتوں کےتسمےکھولنےلگا۔اس کی کار فلورنس لےآئی تھی۔۔۔ میری گاڑی کاانجن ابھی تک کیوں چل رہاہے؟دوسری بات یہ کہ  کس نے اجازت دی کہ تم میری گاڑی لے آؤ؟اس نے غصے میں کہا۔وہ اندر آیااور فلورنس کابازو زور سے پکڑااور زور سے جھٹکے دئیے۔

جلدی میں لے آئی۔فلورنس نے اپنی الماری سے سویٹر پہن کر بٹن لگاتے ہوئے کہا۔میں رائے اور جولی کے لئے کھانا پکارہی تھی۔میں بے حد پریشان ہوں۔میں ان کا پہلی اور آخری بار کھاناپکارہی ہوں۔وہ جم کابوسہ لینے لگی تو وہ پیچھے ہٹ گیا۔

لگتاہے کہ تم رورہی تھی؟جم نے پوچھا۔ میں رونہیں رہی تھی بلکہ بہت پریشان تھی فلورنس نے کہا۔

کیوں؟

ڈی جے کی گمشدگی اور رائے کے آنے پر اس کے متوقع سوالات سے!فلورنس نے جواب دیا۔

 اس وقت ڈی جے  دھم سے آٹپکا۔اس کی گالوں پراب بھی آنسو جمے ہوئے تھےلیکن اب اس نے اپنالباس تبدیل کرلیاتھا۔اس کے ہاتھ میں کودنے والی رسی تھی۔وہ چوکڑی مارکربیٹھ گیا اور جم کوکہاکہ کیاتم میری ڈرائنگ دیکھوگے؟

فلورنس کے نتھنوں میں دھوئیں کی بو محسوس ہوئی۔اس نے پوچھاکیاتمہیں بھی وہ آرہی ہے؟

یہ بوتوکافی دیر سے آرہی ہے۔ڈیوڈ نے کہا۔

وہ کچن کی طرف بھاگی ۔چولہاہلکی آنچ پرتھااورپرجو مرغی کی رانیں  تلنے کےلئے رکھی تھیں ،جل کرراکھ ہوگئی تھی۔

انہیں رائے اورجولی کی کیڈلک ڈرائیووے میں داخل ہوتی نظر آئی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Popular posts from this blog